حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیتی اور رسالتی اہمیت کے باب میں ایک اہم پہلو آپ کا عطا کردہ دین اور شریعت کا معجزانہ پہلو ہے۔ پہلے تمام انبیاء کے ذریعے انسانیت کو جو نظام زندگی اور دین دیا گیا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیلی اور تحریف کی وجہ سے اسکی اصل شکل محو ہو گئی۔ اسلام کی اہمیت یہ ہے کہ صدیاں گزرنے کے باوجود اس کے بنیادی سر چشمے اپنی اصل صورت میں انسانیت کی رہنمائی کے لئے موجود ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جو معجزات عطا کیے گئے ان میں شریعت اور بنیادی سرچشمہ یعنی قرآن مجید صدیاں گزرنے کے باوجود حرف بہ حرف اسی حالت میں موجود ہے جس حالت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو عطا کیا تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ِگرامی ہے :
ما من الأنبياء من نبی إلا قد أعطی من الأيات ما مثله أمن عليه البشر و إنما کان الذی أوتيت وحيا أوحی اﷲ إلٰی فأرجو أن أکون أکثرهم تابعاً يوم القيامة.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الاعتصام، باب، قول النبی صلی الله عليه وآله وسلم : بعثت بجوامع الکلم، 6 : 2654، رقم : 6846
2. بخاری، الصحيح، کتاب فضائل القرآن، باب کيف نزل الوحی، 4 : 1905، رقم : 4696
3. مسلم، الصحيح، کتاب الايمان، باب وجوب الايمان، 1 : 124، رقم : 152
4. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 451، رقم : 9827
‘‘پیغمبروں میں سے ہر پیغمبر کو اللہ تعالیٰ نے اِس قدر معجزات عطا کئے جن کو دیکھ کر لوگ ایمان لائے، لیکن جو معجزہ مجھے دیا گیا ہے وہ وحی (یعنی قرآن) ہے جس کو باری تعالیٰ نے مجھ پر اُتارا۔ اس لئے میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن میرے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہوگی۔’’
اس حدیثِ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے سابقہ اَنبیاء اور رسولوں کو معجزات عطا فرمائے تاکہ لوگ ان معجزات کو دیکھ کر ان انبیاء کی حقانیت پر ایمان لا سکیں اور وہ اللہ رب العزت کے وجود کا اقرار کریں۔ لیکن یہ معجزات دائمی حیثیت کے حامل نہ تھے۔ قوانیں، ضابطہ ہائے حیات اور شریعتیں بھی ہمیشہ کے لیے نہ تھیں۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلسلہ نبوت و رسالت کا اختتام ہوگیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قرآن حکیم کی صورت میں ایک ایسا معجزہ عطا کیا گیا جس کی حیثیت دائمی ہے۔ نتیجتاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شریعت نے قیامت تک موجود اور انسانیت کے لیے راہنما رہنا ہے۔ اب چونکہ قیامت کا دن طلوع ہونے تک انسانیت نے راہنمائی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عطا کردہ سر چشمہ ہدایت سے لینی ہے لہذا قیامت کے دن تک لوگ اسی ہدایت کی طرف متوجہ اور راغب ہوں گے اور قیامت کے دن آپ کے لوگوں اور پیرو کاروں ہی کی کثرت ہو گی۔
اب ہم کلامِ مجید کے اعجاز پر مشتمل چند نکات پیش کرتے ہیں جس سے قرآن کی معجزانہ شان بطریق ِاحسن ظاہر ہوتی ہے :
اِعجازِ قرآن کے دلائل میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
قرآن نے جملہ انس و جاں کو مخاطب کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ساری مخلوقات اپنی اجتماعی کوششوں کے باوجود اس کا مثل لانے سے قاصر ہیں۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَى أَن يَأْتُواْ بِمِثْلِ هَـذَا الْقُرْآنِ لاَ يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا.
بنی اسرائيل، 17 : 88
‘‘فرما دیجئے! اگر تمام انسان اور جنات اس بات پر جمع ہو جائیں کہ وہ اس قرآن کے مثل(کوئی دوسرا کلام بنا) لائیں گے تو (بھی ) وہ اس کی مثل نہیں لا سکتے اگرچہ وہ ایک دوسرے کے مددگار بن جائیں۔’’
دوسرے مقام پر مخالفین کو چیلنج دیا گیا کہ پورے قرآن کا مثل تو درکنار قرآن کے بارے میں نبی اکرم ا پر افتراء پردازی کرنے والے اپنے قول کی تائید میں صرف دس سورتوں کی ہی مثل لے آئیں :
أَمْ يَقُولُونَ افْتَرَاهُ قُلْ فَأْتُواْ بِعَشْرِ سُوَرٍ مِّثْلِهِ مُفْتَرَيَاتٍ.
هود، 11 : 13
‘‘کیا کفار یہ کہتے ہیں کہ پیغمبر ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے اس (قرآن) کو خود گھڑ لیا ہے؟ فرما دیجئے : تم (بھی) اس جیسی گھڑی ہوئی دس سورتیں لے آؤ۔’’
لیکن اس پر بھی معترضین بے بس رہے تو باری تعالیٰ نے ایک اور چیلنج کیا :
وَإِنْ كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءَكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ.
البقره، 2 : 23
‘‘اور اگر تم اس (کلام) کے بارے میں شک میں مبتلاہو جو ہم نے اپنے (برگزیدہ) بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت ہی بنا لاؤ، اور(اس کام کے لئے بیشک) اللہ کے سوا اپنے سب حمائتیوں کو بلا لو اگر تم (اپنے شک اور انکار میں) سچے ہو۔’’
اس چیلنج کا کوئی جواب نہ دے سکا اور ابدالآباد تک منکرین حق کا ناکامی سے دوچار ہونا مقدر کر دیا گیا ہے، جس کی شہادت چودہ سو سال کی تاریخ دے رہی ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
فَإِن لَّمْ تَفْعَلُواْ وَلَن تَفْعَلُواْ فَاتَّقُواْ النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ أُعِدَّتْ لِلْكَافِرِينَ.
البقره، 2 : 24
‘‘پھر اگر تم نے ایسا نہ کیا اور تم ہرگز نہ کر سکو گے تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی (یعنی کافر) اور پتھر (یعنی اُن کے بت) ہیں، جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔’’
اس قرآنی دلیل کی صداقت اس سے بڑھ کر اور کیا ہو سکتی ہے کہ عالمِ یہودیت اور عالمِ عیسائیت اسلام کے خلاف کس حد تک برسر ِپیکار رہے ہیں۔ تاریخ کا ہر طالب ِعلم اس حقیقت سے بخوبی آشنا ہے اور آج بھی اسلامی تعلیمات کو مسخ کرنے اور اسلامیانِ عالم کو گمراہ کرنے کے لئے نہ صرف پرنٹ میڈیا بلکہ اِنٹرنیٹ تک پر کتنی کوششیں یہود و نصاریٰ کے ذریعے دنیا بھر میں ہو رہی ہیں، جو اہل ِبصیرت سے مخفی نہیں، لیکن ان بھر پور مخاصمانہ کاوشوں کے باوجود آج تک قرآن کی کسی ایک سورت یا آیت کی مِثل نہیں بنائی جا سکی اگر اس کے اِلہامی ہونے کا دعویٰ غلط ہوتا تو اس کے مماثل کئی نسخے معرضِ وجود میں آ چکے ہوتے۔ تاریخ شاہد ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد عالمِ عیسائیت میں انجیل کے 133 نسخے رواج پا چکے تھے جن میں سے بالآخر 129 کو رد کر کے بقیہ چار کو سند ِصحت عطا کر دی گئی۔
آج بھی انجیلِ یوحنا، انجیلِ مرقس، انجیلِ لوقا، انجیلِ متی کے نام سے چار مختلف نسخے موجود ہیں۔ ایک پانچواں نسخہ انجیلِ برنباس کا بھی ہے اور پوری دنیائے عیسائیت ان میں سے کسی ایک پر بھی متفق نہیں ہو سکی۔ اس کے برعکس اسلام کے خلاف اندورنی اور بیرونی سطح پر لاکھوں سازشیں ہوئیں لیکن قرآنِ مجید کا عدمِ مثلیت کا وصف اسی طرح برقرار رہا اور آج بھی تقریباً ایک ارب افراد پر مشتمل ملّت ِاسلامیہ صرف ایک ہی متن کو قرآن مانتی ہے اور اس امر میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا بلکہ صفحہ ہستی پر آج تک قرآن کا کوئی متبادل نسخہ پیش نہیں کیا جا سکا۔ بعض جھوٹے مُدعیانِ نبوت نے جزوی طور پر ایسی جسارت کرنا چاہی لیکن ہمیشہ خاسر و خائب ہوئے۔ اسی طرح اگر کسی اور نے بھی قرآن کی عظمت و اِعجاز کو نہ سمجھتے ہوئے ایسا اِقدام کیا تو وہ بھی ناکام و نامراد ہی رہا۔
ابنِ جوزی رحمۃ اللہ علیہ ‘‘الوفاء بأحوال المصطفٰی‘‘ میں امام ابنِ عقیل رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے ابو محمد نحوی رحمۃ اللہ علیہ سے روایت کرتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ اِعجاز ِقرآن پر گفتگو کر رہے تھے۔ وہاں فاضل شیخ بھی موجود تھا۔ اس نے کہا کہ قرآن میں ایسی کون سی ندرت و کمال ہے جس سے فضلاء و بلغاء عاجز آ جائیں۔ پھر وہ کاغذ قلم لے کر بالا خانے پر چڑھ گیا اور وعدہ کیا کہ تین دن کے بعد قرآنِ مجید کی مِثل کچھ لکھ کر لاؤں گا۔ جب تین دن گزر گئے اور نیچے نہ اترا تو ایک شخص بالا خانے پر چڑھا۔ اس نے اسے اس حال میں پایا کہ اس کا ہاتھ قلم پر سوکھ چکا تھا۔ ایسے واقعات فَإِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَلَنْ تَفْعَلُوْا (پس اگر تم ایسا نہ کر سکو اور تم ہر گز ایسا نہ کرسکو گے)(1) کی زندہ شہادت ہیں۔
(1) البقرة، 2 : 24
قرآن حکیم کا دوسرا اعجاز یہ ہے کہ باری تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا وعدہ بھی خود ہی فرمایا ہے :
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.
(1) الحجر، 15 : 9
‘‘بے شک یہ ذکرِ عظیم (قرآن) ہم نے ہی اتاراہے اور یقینا ہم ہی اس کی حفاظت کریں گے۔’’
چنانچہ وعدہ اِلٰہی کے مطابق قران آج تک ہر قسم کی کمی و بیشی اور حذف و اضافہ سے محفوظ رہا ہے، اس لئے یہ کامل بھی ہے اور تمام بھی۔ عہدِ رسالت میں قرآنی آیات متعدد اشیاء پر معرض تحریر میں لائی جاتی تھیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں بھی جب بہت کم لوگ لکھنے کے فن سے آشنا تھے پورا قرآن تحریری طور پر موجود و محفوظ تھا، اور اس پر مستزاد خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی قرآن کے حافظ تھے لیکن باقاعدہ طور پر عہدِ صدیقی میں "مصحف" کے نام سے ایک جامع نسخہ مرتب کیا گیا جسے طویل اور مختصر سورتوں کے اعتبار سے "سبع طوال"، "مئین"، "مثانی" اور "مفصل" میں تقسیم کر دیا گیا لیکن سورتوں اور آیات کی ترتیب بلا کم و کاست وہی رہی جو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذریعہ وحی مقرر فرما دی تھی۔
عہدِ عثمانی میں پھر تمام صحابہ و اہل بیت اور حفاظ کرام رضی اللہ عنہم کے مکمل اتفاق سے سرکاری طور پر ایک نسخہ تیار کیا گیا جو "مصحفِ عثمانی" کے نام سے معروف ہوا۔ قرآن کی جمع و تدوین کا یہ کام جو سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں پایہ تکمیل تک پہنچا، دراصل خود اللہ تعالیٰ کی نگرانی اور حفاظت میں ہوا کیونکہ ارشادِ ربانی ہے :
إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ.
القيامه، 75 : 17
‘‘بے شک اسے (آپ کے سینہ میں) جمع کرنا اور اسے (آپ کی زبان سے) پڑھانا ہمارا ذِمّہ ہے۔’’
اس پہلو کا جائزہ لینا بیعتِ رضوان کے حوالے سے نہایت ضروری ہے۔ سوال یہ ہے کہ باری تعالیٰ نے قرآن کی جمع و تدوین کا آخری کام متعدّد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور خلفاء کے باوجود حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہی سے کیوں لیا؟ اس کی وضاحت صلحِ حدیبیہ کے واقعہ سے ہوتی ہے جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چودہ سو صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہمراہ بمقام حدیبیہ پڑاؤ کیا اور سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اہل مکہ کی طرف سفیر بنا کر بھیجا۔ اس اثناء میں اطلاع ملی کہ کفار و مشرکین مسلمانوں پر حملہ آور ہونا چاہتے ہیں۔ اندریں صورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جہاد پر آمادگی کی بیعت لی، جسے "بیعتِ رِضوان" کہا جاتا ہے۔ اِس کا ذکر قرآن حکیم میں یوں آتا ہے :
إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهَ يَدُ اللَّهِ فَوْقَ أَيْدِيهِمْ.
الفتح، 48 : 10
‘‘(اے حبیب!) بیشک جو لوگ آپ سے بیعت کرتے ہیں وہ اﷲ ہی سے بیعت کرتے ہیں، ان کے ہاتھوں پر (آپ کے ہاتھ کی صورت میں) اﷲ کا ہاتھ ہے۔’’
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ اقدس کو اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ اور آپ اسے بیعت کو اپنی بیعت قرار دیا۔ جب تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی بیعت ہو چکی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن عثمان فی حاجة اﷲ تعالٰی وحاجة رسوله، فضرب بأحدی يديه علی الأخری، فکانت يد رسول اﷲا لعثمان خيرا من أيديهم لأنفسهم.
ترمذی، الجامع الصحيح، کتاب المناقب، باب فی مناقب عثمان بن عفان، 5 : 636، رقم : 3702
‘‘(اے اللہ!) عثمان تیرے اور تیرے رسول کے کام میں مصروف ہے پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر رکھا اور اپنے ہی ہاتھ کو عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ قرار دیتے ہوئے ان کی طرف سے بیعت لی۔ پس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ دیگر تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے لیے ان کے اپنے ہاتھوں سے بہتر تھا۔’’
یہ پہلو قابلِ غور ہے کہ ادھر حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ قرار دیا جبکہ دوسری طرف {يَدُ اﷲِ فَوْقَ اَيْدِيْهِمْ (گویا) اللہ کا ہاتھ ان کے ہاتھوں پر ہے} کے مطابق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا ہاتھ قرار دیا گویا بالواسطہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کو اللہ تعالیٰ نے اپنا دستِ قدرت قرار دیا، لہذا اس ہاتھ سے جمع و تدوینِ قرآن کے کام کا انجام پانا وعدہ الٰہی إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ‘‘ بے شک اِس (قرآن) کا جمع کرنا اور پڑھانا ہمارے ذمہ ہے‘‘} - کے مطابق خود اللہ تعالیٰ کے دستِ قدرت سے ہی انجام پانا ہے۔
باری تعالیٰ نے إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ‘‘ بیشک ہم نے اِس ذکر کو نازل فرمایا ہے اور ہم ہی اِس کی حفاظت فرمانے والے ہیں‘‘} کے اَلفاظ کی صورت میں وعدہء حفاظت قرآن کے سوا کسی اور الہامی کتاب یا صحیفے کے حق میں نہیں فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ بائبل کی جمع و تدوین کی پوری تاریخ رد و بدل، حذف واضافہ اور تحریف و ترمیم کی تاریخ ہے۔ دوسری صدی عیسوی سے لے کر سترھویں صدی عیسوی تک عہد نامہ جدید (New Testament) میں کئی حصوں کو پادریوں کے حسب ِمنشاء اور مختلف کونسلز (Councils) کے فیصلوں کے مطابق کبھی داخل کیا جاتا رہا اور کبھی نکالا جاتا رہا۔ برنباس اور کئی کتابیں جن کا مجموعہ 1672ء میں اپوسٹالک فادرز (Apostolic Fathers) کے نام سے شائع ہوا تھا، ایسی تھیں جنہیں عیسائیت کے اوائل دور میں نہایت مقبولیت حاصل رہی لیکن بعد میں انہیں بائبل میں سے محض اِس لئے خارج کر دیا گیا کہ ان کی تعلیمات سینٹ پال کی خود ساختہ عیسائیت کے باطل عقائد کے خلاف تھیں۔ اِسی طرح اپوکریفا (Apocrypha) اس عیسائی لٹریچر کا مجموعہ ہے جسے عیسائی پادریوں نے اپنے مذہبی مفادات کے خلاف تصور کرتے ہوئے چھپا دیا لیکن اِن کا وجود دنیا سے اب تک ختم نہیں ہو سکا۔
سب سے پہلی مکمل بائبل گوٹن برگ (Guten Burg) کے مطبع سے 1455ء میں ولگیٹ (Vulgate) کے نام سے چھپی جس کے خلاف 16 ویں صدی کے اوائل میں پروٹسٹینٹ اِصلاحی تحریک کے ساتھ اِعتراضات و تنقیدات کا دروازہ کھل گیا۔ الغرض 1546ء میں Trent of Council کے ذریعے اسے حتمی شکل دی گئی اور بالآخر رومن چرچ نے اسے بائیبل کے مستند نسخے کے طور پر اپنا لیا لیکن حیرت کی بات ہے کہ اس میں پھر ردّ و بدل کی ضرورت محسوس کی گئی اورPope Sixtus V نے ضروری ترمیمات و تصحیحات کے ذریعے یونیورسٹی آف پیرس کے متن کی صورت میں 1590ء میں شائع کیا۔
یہ مختصر تاریخی خاکہ تمثیلاً اس لئے پیش کیا گیا ہے کہ اس کے تناظر میں قرآن کی حفاظت اور کاملیت و تمامیت کا جائزہ لیا جا سکے کہ دوسری الہامی کتابوں کے اِرتقائی اَحوال کیا ہیں اور وہ کس طرح ہمیشہ ناقص و ناتمام رہی ہیں اور ان کے برعکس قرآن کا عالم کیا ہے کہ وہ ابتدائی دور سے لے کر آج تک اپنے متن اور عبارت کے لحاظ سے کامل و مکمل رہا ہے۔ اس میں آج تک کسی لفظ یا آیت کی کمی کی گئی اور نہ کسی شے کااضافہ۔ یہ جس حالت میں پیغمبرِ اِسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمت کو عطا کیا تھا آج تک اُسی حالت میں بغیر کسی تغیّر وتبدّل کے محفوظ ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے آخری نبی ہیں اور شریعت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک کے لئے ہے، اس لئے رسولِ آخر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر نازل ہونے والی کتاب کو بھی قیامت تک کے لئے محفوظ کر دیا گیا۔ اِعجاز ِقرآن کا تسلسل قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔ شریعت ِمحمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نفاذ کے بعد تمام سابقہ شریعتوں کو منسوخ کر دیا گیا تھا اس لئے انبیائے سابق پر نازل ہونے والے اِلہامی صحیفوں کی حفاظت کی ضرورت بھی نہ تھی۔
یہ اسی حفاظت الٰہیہ کا کرشمہ ہے کہ 400,1 سال گزر جانے کے باوجود آج تک قرآن میں ایک آیت، ایک لفظ یا ایک حرف کی حد تک بھی کمی بیشی نہیں ہو سکی۔ آج بھی بعض علاقوں میں ہزار بارہ سو سال پرانے کلامِ مجید کے نسخے موجود و محفوظ ہیں لیکن ان میں اور آج کے مطبوعہ نسخوں میں زیر زبر تک کا فرق نظر نہیں آتا۔
قرآن اپنی معجز بیانی پر ایک دلیل یہ بھی پیش کرتا ہے کہ وہ اختلاف و تناقض سے مبرا ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَلَوْ کَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اﷲِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اِخْتِلاَفاً کَثِيْراً.
النساء، 4 : 82
‘‘اور اگر یہ (قرآن) غیرِ خدا کی طرف سے آیا (ہوتا) تویہ لوگ اس میں بہت سا اختلاف پاتے۔’’
عام مصنفین کی تالیفات سے قطع نظر دیگر مذاہب کی الہامی کتابوں پر بھی نظر ڈالیں تو آپ کو لاتعداد تضادات ملیں گے جن میں تطبیق کرنا ممکن نہیں۔ مضامین کا اختلاف، ناموں اور نسبوں کا اختلاف، واقعات کا اختلاف، لشکر کی تعداد کا اختلاف، بیانات کا اختلاف، سنین و اوقات کا اختلاف، الغرض اجمال و تفصیل میں ہر جگہ مضحکہ خیز حد تک تضادات اور تناقضات ہیں جن کا جواب آج تک اس مذہب کے پیروکار نہیں دے سکے اور نہ ایسی کتابوں کو موضوع یا محرف ماننے کو ہی تیار ہیں۔ مذکورہ بالا حقیقت کا مشاہدہ بائیبل کے تنقیدی و تقابلی مطالعہ سے بآسانی ہو سکتا ہے۔ انسائیکلو پیڈیا امیریکانا (Encyclopaedia Americana) میں بائبل (Bible) کے مضمون کے تحت اس امر کا اعتراف کیا گیا ہے کہ اس کے مختلف نسخہ جات میں کم و بیش تیس 30 ہزار اغلاط موجود ہیں۔ اسی طرح Fred Glad Stonb Bratton نے History of Bible (مطبوعہ بوسٹن USA) کے صفحہ 5 پر اس حقیقت کو بصراحت تسلیم کر لیا ہے کہ بائبل کے اندر واقعاتی اغلاط، غیرسائنسی نظریات، خدا اور انسان کی نسبت ناپاک تصورات، تضادات وتناقضات، نامعقول بیانات، مبالغہ آمیزیاں اور ناپختہ خیالات کثرت کے ساتھ موجود ہیں لیکن اس کے برعکس قرآن اول سے آخر تک ہر قسم کے اختلاف اور تناقض سے پاک ہے بلکہ ہر آیت دوسری کی مؤید اور ہر مقام دوسرے کا مصدِّق ہے :
آفتابِ آمد دلیل آفتاب
گر دلیلے بایدت از وی رو متاب
قرآن حکیم میں ایک واقعہ بعض اوقات متعدد جگہ بیان ہوا ہے۔ ہر مقام پر اندازِ بیان اورسیاق و سباق مختلف ہونے کے باوجود اس کی واقعیت میں کوئی خفیف سا اختلاف اور تضاد نظر نہیں آتا۔ اس امر کی صحیح اہمیت کا اندازہ اس صورت حال کو سامنے رکھ کر ہو سکتا ہے کہ قرآن دیگر کتابوں کی طرح تصنیف نہیں ہوا بلکہ 23 سال کے عرصہ میں اس کا نزول کبھی دن کو، کبھی رات کو، کبھی سفر میں، کبھی حضر میں، کبھی گھر اور کبھی میدان جنگ میں ہوتا رہا اور ہمیشہ حسبِ ضرورت اس کی چند آیات جن کی تعداد بالعموم تین سے دس تک ہوتی تھی نازل ہوتیں۔ آپ ذرا غور فرمائیے کہ اس طرح آیات کا تدریجی نزول تقریباً 23 سال کے عرصہ کو محیط ہے۔ اس عرصہ میں متغیرحالات و قوع پذیر ہوتے رہے اور قرآن کبھی اس دوران ایک جلد کی صورت میں مرتب بھی نہ ہو سکا بلکہ لوگ اپنے طور پر کاغذوں، کپڑوں، پتھروں اور ہڈیوں کے ٹکڑوں پر لکھ کر محفوظ کرتے رہے۔ اس انداز سے اس کا نزول اور جمع و تدوین عمل میں آیا پھر بھی یہ ہر قسم کے اختلاف سے یکسر پاک رہا جو اس کے منزل من اللہ اور مبنی بر حق ہونے کی دلیل ہے!
عہدِ نزولِ قرآن تک عربوں میں قصائد، مکتوبات، خطابات اور محاورات کے صرف چار معروف اسالیب متداول تھے، وہ کسی اور اسلوبِ بیان سے واقف ہی نہ تھے۔ ان معینہ اور معلومہ اسالیب سے مختلف ایک نیا اسلوب بیان پیدا کر لینا قرآن حکیم ہی کا ایک اعجاز تھا۔
قرآن کی ندرت کا اسلوب اور منفرد انداز آج تک کسی اور ادب میں پیدا نہیں ہو سکا۔ عام کتابیں ابواب و فصول پر مشتمل ہوتی ہیں لیکن قرآن ایسی کسی تبویب و تفصیل سے پاک ہے اور نہ اس کے مختلف مضامین کو الگ الگ عنوانات کے تحت بیان کیا گیا ہے۔ قرآن کے اسلوبِ بیان اور نظمِ کلام میں ایک جُوئے آبِ رو کا سا تسلسل اور روانی ہے، کسی جگہ پر انقطاع نظر نہیں آتا۔ قرآن نے اپنی بعض سورتوں کو حمد و ثنا سے شروع کیا اور بیان کی وضاحت کی غرض سے، بعض کا اختتام جامع کلمات پر کیا اور بعض کا نصیحتوں پر، کبھی وعدہ اور کبھی تبشیر کا انداز اپنایا، کبھی تہدید کی، کبھی تاکید، کبھی مخلوق کا بیان کیا، کبھی خالق کا، کبھی کائنات کی نشانیاں بیان کیں، کبھی انبیاء اور اُممِ سابقہ کے قصص اور واقعات، کبھی حلت و حرمت کے احکام دئیے کبھی استثناء و رخصت کے، کبھی احقاقِ حق کیا کبھی ابطالِ باطل، کہیں مخاصمہ کا رنگ اپنایا کہیں موعظت کا، کہیں انبیاء و مرسلین کی تعلیمات و خدمات بیان کیں، کہیں ان کی عظمتوں اور رفعتوں کا ذکر کیا، کہیں خطاب ہے کہیں غیاب اور کہیں تکلم، اندازِ کلام بغیر تکلف کے بڑی بے ساختگی سے بدلتا رہتا ہے لیکن حلاوت اور دلکشی برقرار رہتی ہے اور آیات کا ربط کہیں متاثر نہیں ہوتا۔ قرآن کے اُسلوبِ بیان اور نظمِ کلام کے سلسلے میں مزید دو اُمور قابل توجہ ہیں :
قرآنی علوم اور معارف و مطالب عام طور پر پانچ انواع پر مشتمل ہیں :
علم الأحکام، علم المخاصمة، علم التذکير بآلاء اﷲ، علم التذکير بأيام اﷲ وعلم التذکير بالموت.
شاه ولی اﷲ محدث دهلوی، الفوز الکبير : 1
الف۔ قرآنی اسلوب میں انتشارِ مطالب کا معنی یہ ہے کہ قرآن اس امر کی رعایت نہیں کرتا کہ اس سورت میں صرف فلاں نوع کا علم ذکر کیا جائے گا اور دوسری سورت میں فلاں نوع کا بلکہ اس کی ایک ہی سورت میں متعدد انواع کے مطالب و معارف بیان کرتا چلا جاتا ہے۔ ایک علم کے ساتھ متصلاً دوسرا علم بیان کرنا کسی دوسری کتاب میں تو یقینا مذاقِ لطیف پر گراں گزرتا ہو گا لیکن قرآنی اعجاز کا یہ عالم ہے کہ بدلتے ہوئے مضامین و مطالب کے باوجود بیان اور تفہیم میں بے ساختہ روانی اور لطافت برقرار رہتی ہے۔ یہاں تک کہ کسی کو یہ محسوس بھی نہیں ہوتا کہ اب روئے سخن بدل گیا ہے۔ بات بغیر کسی تکلیف اور تکلف کے دل میں اترتی چلی جاتی ہے۔ جیسے سورۃ الکوثر پر نظر ڈالیے :
اِنَّا اَعْطَيْنٰکَ الْکَوْثَرَo فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْo اِنَّ شَانِئَکَ هُوَ الْاَبْتَرُ.
الکوثر، 108 : 1.3
‘‘بیشک ہم نے آپ کو (ہر خیر و فضیلت میں) بے انتہاء کثرت بخشی ہےo پس آپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھا کریں اور قربانی دیا کریں (یہ ہدیہ تشکر ہے)o بیشک آپ کا دشمن ہی بے نسل اور بے نام و نشان ہو گا۔’’
اس مختصر سی سورت کی تین آیتوں میں چار جملے ہیں۔ تینوں آیتوں میں احکام مختلف ہیں، لیکن ایک دوسرے سے معنوی اعتبار سے پیوست اور مربوط معلوم ہوتے ہیں۔ چاروں جملوں میں الگ الگ اور اپنی اپنی جگہ مستقل معانی و مطالب بیان کئے گئے ہیں۔ سب سے پہلے عطائے نعمت کا بیان ہے پھر حکمِ عبادت ہے، آخر میں مخالفوں کے لیے چیلنج ہے بلکہ پیشین گوئی بھی ہے گویا انتشارِ مطالب میں بھی معنوی اتحاد اور تسلسل کی کيفیت ابھرتی نظر آتی ہے۔
ب۔ تکرارِ مضامین میں حکمت و مصلحت یہ ہے کہ بعض اوقات صرف ایک حقیقت سے دوسرے کو آگاہ کرنا مقصود ہوتا ہے، اور بعض اوقات اسے سامع کے دل میں جاگزیں کرنا مطلوب ہوتا ہے : پہلے مقصد کے لیے تو صرف ایک مرتبہ کا بیان کافی رہتا ہے لیکن دوسرے مقصد کے لیے بات کو بار بار مختلف انداز سے بیان کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اس نوع کے مضامین کے لیے قرآن کے پیش نظر ایک خاص مقصدِ تخاطب ہوتا ہے چنانچہ ایک ہی مضمون بار بار بیان ہوا لیکن ہر دفعہ نئی حکمت و موعظت کے ساتھ اس کی کئی پرتیں کھلتی چلی گئیں؛ مثلاً سورۃ الشعراء میں اِنَّ فِيْ ذَالِکَ لَاٰيَةً وَمَا کَانَ اَکْثَرُهُمْ مُؤْمِنِيْنَo وَاِنَّ رَبَّکَ لَهُوَ الْعَزِيْزُ الرَّحِيْمُ آٹھ بار آیا ہے، سورۃ القمر میں وَلَقَدْ يَسَّرْنَا الْقُرْاٰنَ لِلْذِّکْرِ فَهَلْ مِنْ مُّدَّکِرٍ چار مرتبہ آیا ہے، سورۃ المرسلات میں وَيْلٌ يَوْمَئِذٍ لِّلْمُکَذِّبِيْنَo دس بار آیا ہے، سورۃ الرحمان میں فَبِأَيِّ آلَاءِ رَبِّكُمَا تُكَذِّبَانِo اکتیس مرتبہ آیا ہے لیکن ہر جگہ نہ صرف ایک نیا لطف اور منفرد کيفیت نصیب ہوتی ہے بلکہ اس تکرار سے دل و دماغ پر اکتاہٹ کی بجائے ہر بار نئے معانی و غوامض اور اسرار و رموز منکشف ہوتے ہیں۔
(1) الشعراء، 26 : 9، 68، 104، 122، 140، 159، 175، 191
(2) القمر، 54 : 17، 22، 32، 40
(3) المرسلات، 77 : 15، 19، 24، 28، 34، 37، 40، 45، 47، 49
(4) الرحمن، 55 : 13، 16، 18، 21، 23، 25، 28، 30، 32، 34، 36، 38، 40، 42، 45، 47، 49، 51، 53، 55، 57، 59، 61، 63، 65، 67، 69، 71، 73، 75، 77
قرآن کا اسلوب سادگی اور سلاست کے علاوہ فصاحت و بلاغت کے اس اعلیٰ مقام پر فائز ہے جس کا معارضہ آج تک بڑے بڑے فصحاء و بلغاء نہیں کر سکے۔ اس میں مقتضائے حال کی رعایت، استعارہ و کنایہ اور صنائع و بدائع کا استعمال ناقابل بیان حسن اور ادبی چاشنی پیدا کرنے کا موجب بنتا ہے۔
علامہ کرمانی اپنی کتاب ‘‘العجائب‘‘ میں لکھتے ہیں کہ معاندینِ اسلام نے عرب و عجم کے تمام کلام ڈھونڈ مارے مگر کوئی کلام بھی حسنِ نظم، جودتِ معانی، فصاحتِ الفاظ اور ایجاز میں اس کی مثل نہ ملا اور انہیں بالآخر اس امر پر متفق ہونا پڑا کہ انسانی طاقت قرآن کی آیت کی مثل لانے سے قاصر ہے۔
قرآن کی فصاحت وبلاغت کا یہ اعجاز ہے کہ دنیائے عرب کے ادبی شاہکار "سبع معلقات" - سات اساتذہ کے لا جواب قصائد و غزلات - جو خانہ کعبہ کے دروازے پر آویزاں تھے، نزولِ قرآن کے بعد اس لئے اتار لیے گئے کہ قرآنی فصاحت و بلاغت کا کوئی شے بھی معارضہ نہیں کر سکتی۔ فصاحت قرآنی کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
1. نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ.
البقره، 2 : 223
‘‘تمہاری عورتیں تمہاری کھیتیاں ہیں، پس تم اپنی کھیتیوں میں جیسے چاہو آؤ۔’’
2. هُنَّ لِبَاسٌ لَّكُمْ وَأَنتُمْ لِبَاسٌ لَّهُنَّ.
البقره، 2 : 187
‘‘وہ تمہاری پوشاک ہیں اور تم ان کی پوشاک ہو۔’’
3. أَوْ لاَمَسْتُمُ النِّسَاءَ.
النساء، 4 : 43
‘‘یا تم نے (اپنی) عورتوں سے مباشرت کی ہو۔’’
مذکورہ بالا آیات میں بیان کی بے ساختگی اور اظہار کی بے تکلفی بھی ہے اور کمال درجہ حیاء و شرافت کی آئینہ داری بھی۔ اشاروں کنایوں میں نہایت حسن و خوبی کے ساتھ ایسے مضامین اور احکام و مسائل بیان کر دئیے گئے ہیں کہ کوئی بڑے سے بڑا ادیب اشارت اور صراحت کے ایسے خوبصورت امتزاج سے بیان نہیں کر سکتا۔
1. مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ.
النور، 24 : 35
‘‘اس کے نور کی مثال (جو نور محمدی کی شکل میں دنیا میں روشن ہوا) اس طاق (نما سینہ اقدس) جیسی ہے جس میں چراغ (نبوت روشن) ہے۔’’
2. كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا.
الجمعه، 62 : 5
‘‘گدھے کی مِثل ہے جو پیٹھ پر بڑی بڑی کتابیں لادے ہوئے ہو۔’’
یہاں علم سے صحیح فائدہ نہ اٹھانے والوں کی کيفیت کس قدر خوبصورت انداز میں بیان کی گئی ہے۔
3. وَالَّيْلِ إِذَا عَسْعَسَo وَالصُّبْحِ اِذَا تَنَفَّسَo
التکوير، 81 : 17، 18
‘‘اور رات کی قسم جب اس کی تاریکی جانے لگےo اور صبح کی قسم جب اس کی روشنی آنے لگے۔’’
ان دو آیات میں رات کے دھیرے دھیرے رخصت ہونے اورصبح کے رفتہ رفتہ آنے کا ذکر جس دلکش جمالیاتی انداز میں کیا گیاہے وہ ادبی چاشنی میں اپنی مثال آپ ہے۔
اِسی طرح ایجاز کی مثال ملاحظہ ہو :
4. وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ.
البقره، 2 : 179
‘‘تمہارے لئے قصاص (یعنی خون کا بدلہ لینے) میں ہی زندگی (کی ضمانت) ہے۔’’
امام سیوطی نے ‘‘الاتقان" میں لکھا ہے کہ اس آیت میں 20 صنعتیں بیان ہوئی ہیں۔
قرآن حکیم کی ہر آیت اور اس کے مطلع ومقطع میں ایک خاص قسم کا صوتی حسن و جمال پایا جاتا ہے۔ یہ معنوی نغمگی اور باطنی موسیقیت شعری اوزان وقوافی سے مبرا ہونے کے باوجود جمالیاتی اہتزاز و بالیدگی کا احساس دلاتی ہے۔ قرآن کی سحر بیانی کافی حد تک اس حسن صوتی پر منحصر ہے۔ اس اعتبار سے قرآنی سورتیں تین (3) اَقسام پر منقسم ہیں : "طویل" مثلاً سورۃ النساء، "متوسط" مثلاً سورۃ الاعراف اور الانعام، اور "قصیر" مثلاً سورۃ الشعراء اور الدخان۔ صوتی ترنم کی یہ کيفیت ہر شخص کے لئے عجیب لطف و شگفتگی کا سامان پیدا کر دیتی ہے۔ اس کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں :
1. ن وَالْقَلَمِ وَمَا يَسْطُرُونَ.
القلم، 68 : 1
2. وَالْمُرْسَلَاتِ عُرْفاًo فَالْعَاصِفَاتِ عَصْفاًo وَّالنَّاشِرَاتِ نَشْراًo فَالْفَارِقَاتِ فَرْقاًo فَالْمُلْقِيَاتِ ذِکْراًo عُذْراً اَوْ نُذْرًاo
المرسلات، 77 : 1.6
3. فَاِذَا النُّجُوْمُ طُمِسَتْo وَإِذَا السَّمَاءُ فُرِجَتْo وَ اِذَا الْجِبَالُ نُسِفَتْo وَ اِذَا الرُّسُلُ اُقِّتَتْ o لِاَيِ يَوْمٍ اُجِّلَتْo
المرسلات، 77 : 8. 12
4. وُجُوْهٌ يَوْمَئِذٍ نَاعِمَةٌo لِّسَعْيِهَا رَاضِيَةٌo فِيْ جَنَّةٍ عَالِيَةٍo لَّا تَسْمَعُ فِيْهَا لَاغِيَةًo فِيْهَا عَيْنٌ جَارِيَةٌo
الغاشيه، 88 : 8.12
5. وَالشَّمْسِ وَضُحٰهَاo وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰهَاo وَالنَّهَارِ اِذَا جَلّٰهَاo وَالَّيْلِ اِذَا يَغْشٰهَاo وَالسَّمَاءِ وَمَا بَنَاهَاo وَالْاَرْضِ وَمَا طَحَاهَاo وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰهَاo فَاَلْهَمَهَا فُجُوْرَهَا وَتَقْوٰهَاo قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰهَاo وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰهَاo
الشمس، 91 : 1.10
6. اِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَهَاo وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَهَاo وَقَالَ الْاِنْسَانُ مَالَهَاo
الزلزال، 99 : 1. 3
7. فَاَثَرْنَ بِهِ نَقْعاًo فَوَسَطْنَ بِهِ جَمْعاًo
العاديات، 100 : 4، 5
مذکورہ بالا آیات میں سے ہر ایک کا اختتامی لفظ ایک خاص صوتی نغمگی پیدا کر رہا ہے۔ الفاظ کا چنائو اور وزن، ان کا آپس میں ربط، جوڑ اور ترکیب، پھر ان میں تلفظ کی سلاست اور بہاؤ ایک عجیب موسیقیت اور موزونیت کی فضا پیدا کرتا ہے۔ ان آیات کو بار بار پڑھیں، سادگی سے پڑھیں یا مترنم انداز میں زبان میں رکاوٹ پیدا نہیں ہوتی اور ہر لمحہ عجیب سی حلاوت کا یک گونہ احساس ہونے لگتا ہے۔ مستزاد یہ کہ اگر مذاقِ سلیم اور حسِ لطیف ہو تو ان آیات کے صوتی آہنگ سے ہی کسی حد تک معنی ومفہوم کی ترجمانی ہونے لگتی ہے مثلاً سورۃ الناس کو بار بار پڑھیں تو ہر آیت کا آخری حرف "س" نرمی پستی، سیٹی کی آواز کثرت استعمال کے باعث سرگوشی کی فضا پیدا کر دیتا ہے۔ یہی سرگوشی اور وسوسہ اندازی اس سورت کا بنیادی موضوع ہے۔
قرآن حکیم کے اعجازِ بیان کا ایک بہت بڑا ثبوت اس میں احوال غیبی کا بیان ہے۔ قرآن مجید نے اپنی اس حیثیت کو خود اپنے لفظوں میں اس طرح واضح کیا ہے :
ذٰلِکَ مِنْ اَنْبَـاءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهِ اِلَيْکَ.
آل عمران، 3 : 44
‘‘(اے محبوب!)یہ غیب کی خبریں ہیں جو ہم آپ کی طرف وحی فرماتے ہیں۔’’
ایک اور مقام پر اس کی تصریح کرتے ہوئے فرمایا :
تِلْکَ مِنْ اَنْبَـاءِ الْغَيْبِ نُوْحِيْهَا إِلَيْکَج مَا کُنْتَ تَعْلَمُهَا اَنْتَ وَلَا قَوْمُکَ مِنْ قَبْلِ هٰذَا.
هود، 11 : 49
‘‘یہ (بیان ان) غیب کی خبروں میں سے ہے جو ہم آپ کی طرف وحی کرتے ہیں۔ اس سے قبل نہ آپ انہیں جانتے تھے اور نہ آپ کی قوم۔’’
قرآنی اعجاز کا یہ پہلو خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معجزات سے نمایاں ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی علومِ غیب کے بیان میں بخل نہیں کرتے تھے۔ سائل جس قسم کا بھی سوال لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتا، تسلی بخش جواب پا کر جاتا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمہ جہت علم کے اس گوشے کا ذکر قرآن حکیم یوں کرتا ہے :
وَمَا هُوَ عَلَی الْغَيْبِ بِضَنِيْنٍo
(3) التکوير، 81 : 24
‘‘اور وہ (نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) غیب (کے بتانے) پر بالکل بخیل نہیں ہیں (مالکِ عرش نے ان کے لئے کوئی کمی نہیں چھوڑی)۔’’
قرآن حکیم میں احوالِ غیب کا بیان کئی اعتبارات سے آیا ہے لیکن یہاں وضاحت کے لئے صرف دو کا ذکر کیا جاتا ہے :
الف۔ اُممِ سابقہ کے احوال و واقعات
ب۔ مستقبل کی پیشین گوئیاں
قرآنِ حکیم نے اُممِ سابقہ اور گزشتہ انبیاء کے حوالے سے بہت سے واقعات وحالات بیان کئے ہیں جن میں سے کئی ایک کا ذکر پہلی کتابوں میں سرے سے موجود ہی نہ تھا اور بعض کا ذکر پہلی کتابوں میں ہے لیکن وہ اس قدر محرف ومتبدل صورت میں ہے کہ اس کی صحت کے بارے میں کسی کے پاس کوئی یقینی شہادت موجود نہیں۔ قرآن نے ان احوال وواقعات اور انبیاء کی تعلیمات وخدمات کو سند تصدیق عطا کر دی اس لئے اس کا لقب مُصَدِّقُ الَّذِيْ بَيْنَ يَدَيْهِ (اپنے سے پہلے کی تصدیق کرنے والا) قرار پایا۔
قرآن مجید نے کئی مقامات پر حضرت آدم و حوا علیھما السلام، نوح علیہ السلام، ابراہیم علیہ السلام، اسحاق علیہ السلام، اسماعیل علیہ السلام، یعقوب علیہ السلام، یوسف علیہ السلام، موسیٰ علیہ السلام، خضر علیہ السلام، سلیمان علیہ السلام، داؤود علیہ السلام، یونس علیہ السلام، ذوالکفل علیہ السلام، صالح علیہ السلام، شعیب علیہ السلام، زکریا علیہ السلام، یحییٰ علیہ السلام، عیسیٰ و مریم علیھما السلام اور اَصحابِ کہف وغیرہم کے حالات کا بیان ہے۔ یہ سب علوم غیبیہ ہیں۔
ان کے علاوہ قومِ ہود، قومِ عاد، قومِ ثمود، قومِ لوط اور دیگر اقوام و ملل کا ذکر تذکیر بایام اﷲ کے انداز میں کیا گیاہے۔ اسی طرح فرعون، نمرود، قارون اور ہامان وغیرہم کے احوال کا عبرت انگیز بیان ہے۔ ان کے علاوہ بھی قرآن حکیم میں اسی قبیل کے متعدد واقعات مذکور ہیں۔
اعجازِ قرآن کے داخلی دلائل میں سے یہ دلیل بھی بہت مؤثر اور فیصلہ کن ہے کہ قرآن نے بعض پیشین گوئیاں ایسے حالات میں کیں جن میں ظاہراً ان کے وقوع پذیر ہونے کا کوئی امکان دور دور تک نظر نہیں آ رہا تھا۔ مخالفینِ قرآن وہ پیشین گوئیاں سن کر حیران وششدر رہ گئے لیکن تاریخ شاہد ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ پیشین گوئیاں اپنے اپنے وقت پر حقائق و وقائع کے قالب میں ڈھلتی چلی گئیں۔ یہ سب کچھ اب تاریخ کا ناقابل تردید حصہ بن چکا ہے جو زبانِ حال سے قرآن کی صداقت وحقانیت کا اعلان کر رہا ہے۔ ذیل میں چند قرآنی پیشین گوئیاں بیان کی جاتی ہیں :
یہ پیشین گوئی سب سے نمایاں اور حیرت انگیز ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا ہے :
المo غُلِبَتِ الرُّوْمُo فِيْ اَدْنَی الْاَرْضِ وَهُمْ مِّنْم بَعْدِ غَلَبِهِمْ سَيَغْلِبُوْنَo فِيْ بِضْعِ سِنِيْنَ لِلّٰهِ الْاَمْرُ مِنْ قَبْلُ وَ مِنْم بَعْدُ.
الروم، 30 : 1.4
’الف لام میم (حقیقی معنی اﷲ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں)o اہلِ روم (فارس سے) مغلوب ہو گئےo نزدیک کے ملک میں، اور وہ اپنے مغلوب ہونے کے بعد عنقریب غالب ہو جائیں گےo چند ہی سال میں (یعنی دس سال سے کم عرصہ میں)، امر تو اﷲ ہی کا ہے پہلے (غلبہ فارس میں) بھی اور بعد (کے غلبہ روم میں) بھی۔’’
اس پیشین گوئی کے اعلان یعنی رومیوں کے آغاز شکست سے ٹھیک آٹھ برس بعد 622ء میں رومیوں کے تن مردہ میں پھر حیاتِ نو پیدا ہوگئی۔ وہ اسی کاہل وعشرت پرست کمانڈر ہرقل کے زیر قیادت منظم ہو کر ایرانیوں پر حملہ آور ہوئے۔ 623ء میں یعنی پیشین گوئی کے ٹھیک نویں برس رومی فتح و کامرانی سے ہمکنار ہوئے۔ بالآخر یہ فتح اس شان سے پایہ تکمیل کو پہنچی کہ انہوں نے مشرقی مقبوضات کا ایک ایک شہر واپس لے لیا اور ایرانیوں کو باسفورس اور نیل کے کناروں سے ہٹا کر پھر دجلہ وفرات کے ساحلوں تک دھکیل دیا۔ اس طرح قرآن کی پیشین گوئی کے حرف بہ حرف سچ ثابت ہونے پر بے شمار کافر مسلمان ہو گئے۔
6 ہجری میں جب مسلمان صلح حدیبیہ سے واپس لوٹے تو ان میں قدرے مایوسی پائی جاتی تھی۔ وہ اس صلح اور اس کی شرائط کو اپنے لئے شکست کا اعتراف سمجھ رہے تھے یہاں تک کہ بعض نے صاف لفظوں میں اس خیال کا اظہار بھی کر دیا تھا لیکن حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے اطمینانِ قلب کے لئے قرآن مجید کی اس پیشین گوئی کا اعلان فرمایا :
اِنَّا فَتَحْنَا لَکَ فَتْحاً مُّبِيْناًo
الفتح، 48 : 1
‘‘(اے حبیبِ مکرم!) بیشک ہم نے آپ کے لئے (اسلام کی) روشن فتح (اور غلبہ) کا فیصلہ فرما دیا (اس لئے کہ آپ کی عظیم جدّ و جہد کامیابی کے ساتھ مکمل ہو جائے)۔’’
اس آیت میں یہ اشارہ تھا کہ حدیبیہ کی صلح کو شکست نہ سمجھو بلکہ یہ درحقیقت پیش خیمہ ہے ایک عظیم الشان فتح کا، جو فتح مکہ کی صورت میں اہلِ ایمان کو حاصل ہونے والی ہے چنانچہ اسی سورت میں فرمایا گیا :
لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُؤُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ .
الفتح، 48 : 27
‘‘بیشک اﷲ نے اپنے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو حقیقت کے عین مطابق سچا خواب دکھایا تھا کہ تم لوگ، اگر اﷲ نے چاہا تو ضرور بالضرور مسجد حرام میں داخل ہو گے امن و امان کے ساتھ، (کچھ) اپنے سر منڈوائے ہوئے اور (کچھ) بال کتروائے ہوئے (اس حال میں کہ) تم خوفزدہ نہیں ہو گے۔’’
بالآخر اس پیشین گوئی کا ظہور فتحِ مکہ کی صورت میں 8ھ میں ہوا۔ اس طرح وہ جو صلحِ حدیبہ کی بظاہرمایوس کن شرائط سے دل گرفتہ تھے اُنہوں نے اس صلح نامے سے حاصل ہونے والی کامیابی کو بدل و جاں تسلیم کر لیا۔ کفارِ مکہ اس معاہدے سے روگرداں ہو گئے جس کا خمیازہ انہیں کئی صورتوں میں بھگتنا پڑا۔
غزوہ خیبر کی فتح کے بارے میں بھی سورہ الفتح میں پیشین گوئی کرتے ہوئے قرآن مجید میں اِرشاد فرمایا گیا :
سَيَقُوْلُ الْمُخَلَّفُوْنَ اِذَا انْطَلَقْتُمْ اِلٰی مَغَانِمَ لِتَاْخُذُوْهَا ذَرُوْنَا نَتَّبِعْکُمْ.
الفتح، 48 : 15
‘‘جب تم (خیبر کے) اموالِ غنیمت کو حاصل کرنے کی طرف چلو گے تو (سفرِ حدیبیہ میں) پیچھے رہ جانے والے لوگ کہیں گے ہمیں بھی اجازت دو کہ ہم تمہارے پیچھے ہو کر چلیں۔’’
یہاں جو لوگ حدیبیہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ نہیں آئے تھے ان کا ذکر کیا جا رہا ہے۔ صلحِ حدیبیہ سے واپس لوٹتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے از راہِ بشارت فتح خیبر کی پیشین گوئی بھی کر دی اور صراحت کے ساتھ مسلمانوں کو یہ بھی بتا دیا کہ غزوہ خیبر میں تمہارے ہاتھ بہت سا مال غنیمت بھی آئے گا لیکن ہم نے وہ مالِ غنیمت صرف ان مجاہدین کے لئے مخصوص کر دیا ہے جو حدیبیہ کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ہیں۔ اس وقت ساتھ نہ دینے والے اس مالِ غنیمت سے بھی محروم رہیں گے۔ چنانچہ اس پیشین گوئی کی صداقت بھی تاریخِ عالم کے صفحات پر جلی حروف میں رقم ہوئی، خیبر فتح بھی ہوا اور بے شمار مالِ غنیمت بھی مسلمانوں کے ہاتھ لگا۔
سب سے بڑھ کر حیرت انگیز وہ پیشین گوئی ہے جس میں مسلمانوں کو روئے زمین پر عظیم الشان تمکن واستخلاف اور اقتدار و استحکام کی خوشخبری سنائی گئی تھی، حالانکہ اس وقت روم وایران کی دو عظیم عالمی طاقتیں مشرق ومغرب پر اس طرح قابض ومتصرف تھیں، جس طرح بعد کی دُنیا میں امریکہ اور روس دو سپر طاقتوں کی شکل میں مسلّط تھے، جزیرہ نمائے عرب کے ان صحرا نشینوں کے بارے میں یہ تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا کہ اپنی بے سروسامانی کے عالم میں وہ بین الاقوامی سطح پر ایک عظیم اور مؤثر طاقت بن کر ابھرنے کا سوچ بھی سکتے تھے کیونکہ اس وقت یہ دونوں عالمی طاقتیں اس انقلابی قوم کو صفحہ ہستی سے نیست ونابود کرنے پر تلی ہوئی تھیں۔ اندریں حالات قرآن نے اس بشارت کا اعلان ان الفاظ میں کیا :
وَعَدَ اﷲُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ وَلَيُمَکـِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْم بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْناً.
النور، 24 : 55
‘‘اللہ نے ایسے لوگوں سے وعدہ فرمایا ہے (جس کا ایفا اور تعمیل اُمت پر لازم ہے) جو تم میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے وہ ضرور انہی کو زمین میں خلافت(یعنی امانتِ اقتدار کا حق) عطا فرمائے گا جیسا کہ ان لوگوں کو (حق) حکومت بخشا تھا جو ان سے پہلے تھے اور ان کے لئے ان کے دین (اسلام) کو جسے اس نے ان کے لئے پسند فرمایا ہے (غلبہ و اقتدارکے ذریعہ)مضبوط ومستحکم فرما دے گا اور وہ ضرور(اس تمکن کے باعث ) ان کے پچھلے خوف کو (جو ان کی سیاسی، معاشی اورسماجی کمزوری کی وجہ سے تھا) ان کے لئے امن وحفاظت کی حالت سے بدل دے گا۔’’
چشمِ فلک نے اس پیشین گوئی کا عملی ظہور بھی مستقبل قریب میں دیکھ لیا۔ عہدِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اسلامی فتوحات کے جس سلسلے کا آغاز ہوا تھا، وہ عہدِ خلافتِ راشدہ میں اس قدر وسعت پکڑ گیا کہ روم اور ایران سمیت قریباً 10 لاکھ مربع میل سے زائد رقبہ اسلامی سلطنت کے زیرِ نگین آ گیا۔ عہدِ فاروقی میں مسلمان اسلام کا آفاقی پیغام لے کر بلوچستان کی سرحدوں تک پہنچ چکے تھے، ابھی اسلام کی پہلی صدی ختم نہ ہوئی تھی کہ اسلامی سرحدیں سپین سے آگے فرانس تک پھیل چکی تھیں، مشرق میں سندھ اور ملتان تک، ماوراء النہر سے آگے چین، وسطی ایشیا، شمالی افریقہ تک اسلام کی روشنی پہنچ گئی اور دنیا کے کثیر ترین حصے پر پرچم اسلام لہرانے لگا۔ سطوت اسلام کا یہ پرشکوہ نظارہ قرآنی وعدے کے مطابق تقریباً چھ سو سال تک قائم ودائم رہا۔ زوالِ بغداد کے تھوڑے ہی عرصے کے بعد پھر ترکوں کی زیرِ قیادت ملت اسلامیہ کی سیاسی قوت مجتمع ہوئی اور بالآخر بین الاقوامی سطح پر غلبہ اسلام کا دور پھر چھ سو سال تک منصہ عالم پر شہود پذیر رہا۔
اس طرح کی پیشین گوئیاں جو قرآن نے بیان کیں وہ اپنے وقت پر عالمِ خارج میں واقعہ بن کر حقانیتِ قرآن کی حتمی دلیلیں بنیں، وہ تعداد میں اتنی ہیں کہ ان کا شمار آسانی سے نہیں کیا جا سکتا۔
قرآنی اعجاز کی دلیلِ ناطق اس کی ہدایت کا نتیجہ خیز ہونا ہے۔ قرآن مجید نے نہ صرف اپنی ہر دعوت کو حتمی، قطعی اور یقینی طور پر فیصلہ کن قرار دیا بلکہ معیارِ صداقت وحقانیت بھی نتیجہ خیزی ہی کو قرار دیا ہے۔ قرآن حکیم نے کامل یقین کے میسر آنے کی جس جس تدبیرکا ذکر کیا ہے وہ بہرصورت تجربی توثیق، مشاہدہِ حقیقت اور نتیجہ خیزی کے تصور پر مبنی ہے۔
قرآن میں نتیجہ خیزی کی ضمانت کا مفہوم یہی ہے کہ اس کے سلسلہ علم وہدایت کا ہر دعویٰ تجربی توثیق کی بنا پر معروضی نتائج پیدا کرنے کا ضامن ہے جو فی نفسہِ قرآن ہی کا اعجاز ہے۔ اس سلسلے میں چند ارشادات قرآنی ملاحظہ ہوں :
1۔ قرآنی ہدایت کے نزول کا مقصد یہ تھا کہ انسانیت کو دنیا وآخرت میں خوف وغم کی مہیب کيفیت سے نجات دلا دی جائے۔ چنانچہ قرآن نے اپنے اس دعویٰ کی نتیجہ خیزی کا بیان اس طرح کیا :
فَإِمَّا يَاْتِيَنَّکُمْ مِّنِّی هُدًی فَمَنْ تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَo
البقره، 2 : 38
‘‘پھر اگر تمہارے پاس میری طرف سے کوئی ہدایت پہنچے تو جو بھی میری ہدایت کی پیروی کرے گا نہ ان پر کوئی خوف (طاری) ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔’’
2۔ اسی طرح قرآن فَاِنَّ حِزْبَ اﷲِ هُمُ الْغَالِبُوْنَ ‘‘ بیشک اللہ کی جماعت (کے لوگ) ہی غالب ہونے والے ہیں}(1) کا اعلان کر کے اس دنیا میں باطل کے مقابلے میں غلبہ دین کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہ دعویٰ محض اس پر موقوف نہیں کہ مسلمان اس کی آرزو تو کر سکیں لیکن انہیں اس کی عملی اور واقعاتی نتیجہ خیزی کا مشاہدہ نہ ہو سکے چنانچہ اس امر کی ضمانت بھی ساتھ ہی مہیا کر دی گئی :
(1) المائدة، 5 : 56
وَلَا تَهِنُوْا وَلَا تَحْزَنُوْا وَ اَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَo
آل عمران، 3 : 139
‘‘اور تم ہمت نہ ہارو اور نہ غم کرو اور تم ہی غالب آؤ گے اگر تم (کامل) ایمان رکھتے ہو۔’’
3۔ ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا گیا :
فَلاَ تَهِنُوْا وَتَدْعُوْا اِلَی السَّلْمِ وَاَنْتُم الْاَعْلَوْنَ وَاﷲُ مَعَکُمْ وَلَنْ يَتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْ.
محمد، 47 : 35
‘‘(اے مومنو!) پس تم ہمت نہ ہارو اور ان (متحارب کافروں) سے صلح کی درخواست نہ کرو (کہیں تمہاری کمزوری ظاہر نہ ہو)، اور تم ہی غالب رہو گے، اور اﷲ تمہارے ساتھ ہے اور وہ تمہارے اعمال (کا ثواب) ہرگز کم نہ کرے گا۔’’
4۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے :
وَ مَنْ يَتَوَلَّ اﷲَ وَ رَسُوْلَهُ وَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اﷲِ هُمُ الْغٰلِبُوْنَ.
المائده، 5 : 56
‘‘اور جو شخص اﷲ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) اور ایمان والوں کو دوست بنائے گا تو(وہی اﷲ کی جماعت ہے اور) اللہ کی جماعت (کے لوگ) ہی غالب ہونے والے ہیں۔’’
5۔ اس امر کی مزید وضاحت درج ذیل آیت سے بھی ہوتی ہے :
وَلَقَدْ سَبَقَتْ کَلِمَتُنَا لِعِبَادِنَا الْمُرْسَلِيْنَo اِنَّهُمْ لَهُمُ الْمَنْصُوْرُوْنَo وَاِنَّ جُنْدَنَا لَهُمُ الْغٰلِبُوْنَo
الصٰفّٰت، 37 : 171.173
‘‘اور بے شک ہمارا فرمان ہمارے بھیجے ہوئے بندوں (یعنی رسولوں) کے حق میں پہلے صادر ہو چکا ہے۔ کہ بے شک وہی مدد یافتہ لوگ ہیںo اور بے شک ہمارا لشکر ہی غالب ہونے والا ہے۔’’
اس آیت سے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ خدا کا وعدہ محض خالی دعویٰ نہیں بلکہ فی الواقع اس کارگہِ حیات میں حق و باطل کے درمیان ہونے والی کشمکش میں اہلِ حق کو غالب اور فتح یاب کر دینے کا مژدہ جانفزا ہے اور یہی دعوی قرآن کی نتیجہ خیزی پر دلالت کرتا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمیّت ایک زندہ جاوید حقیقت ہے۔ نبی اُمی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب تبلیغِ دین کا علم بلند کیا اور مکہ کے کفار و مشرکین کو دامنِ اسلام سے وابستہ ہونے کی دعوت دی تو باطل کے ایوان لرز اُٹھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو امین اور صادق کہنے والے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جان کے دُشمن ہو گئے، سازشوں کے ایک لامتناہی سلسلے کا آغاز ہوا۔ وہ کون سا افتراء و بہتان تھا جو ان لوگوں نے پیغمبر اسلام کے خلاف نہیں باندھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (معاذ اﷲ) ساحر، کاہن مجنون اور جانے کیا کیا نہ کہا، ایذا رسانی میں بھی کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا لیکن سب کچھ کہنے اور کرنے کے باوجود پورے عالم کفر میں سے کسی کو یہ کہنے کی جرات نہ ہو سکی کہ آپ امی نہیں ہیں اور یہ قرآن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اپنا تحریر کردہ ہے، گویا آپ پر اتہامِ کذب کوئی نہیں لگا سکا۔ آج تک مخالفین اسلام میں سے کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلانِ نبوت سے قبل یا بعد کسی مکتب میں تعلیم حاصل کی اور کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کئے ہیں۔ کوئی یہ دعویٰ نہ کر سکا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی فاضل سے علوم و معارف، عربی ادب کی فصاحت و بلاغت، شعر و سخن کے اصول اور حکمت و دانائی کے خزانے حاصل کئے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے معاشرے میں اُمّی اور صادق و امین کی حیثیت سے معروف تھے۔ قرآن جیسے علم و معرفت سے معمور کلام کا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سے ادا ہونا ہی اس کی مُنَزَّل مِنَ اﷲِ ہونے کی واضح دلیل ہے۔ اسی لئے ارشاد ربانی ہے :
وَمَا كُنتَ تَتْلُواْ مِن قَبْلِهِ مِن كِتَابٍ وَلَا تَخُطُّهُ بِيَمِينِكَ إِذًا لَّارْتَابَ الْمُبْطِلُونَ
العنکبوت، 29 : 48
‘‘اور (اے حبیب!) اس سے پہلے آپ کوئی کتاب نہیں پڑھا کرتے تھے اور نہ ہی آپ اسے اپنے ہاتھ سے لکھتے تھے ورنہ اہلِ باطل اسی وقت ضرور شک میں پڑ جاتے۔’’
پھر اسی سورہ میں آگے چل کر فرمایا گیا ہے :
اَوَلَمْ يَکْفِهِمْ اِنَّا اَنْزَلْنَا عَلَيْکَ الْکِتَابَ يُتْلٰی عَلَيْهِمْ.
العنکبوت، 29 : 51
‘‘کیا ان کے لئے یہ (نشانی)کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر (وہ) کتاب نازل فرمائی ہے جو ان پر پڑھی جاتی ہے (یا ہمیشہ پڑھی جاتی رہے گی)۔’’
اس سے پتہ چلا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایسی کتاب کا نزول ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اسے تلاوت کرنا ہی اس وحی کی صداقت و حقانیت کی روشن دلیل بن گیا۔ یہ کیونکر ممکن ہے کہ کوئی شخص کسی مکتب و مدرسہ یا استاد سے پڑھے بغیر زمانہ گزشتہ و آئندہ کے احوال بیان کرے، عقائدِ صحیحہ کا مدلل اِحقاق اور عقائدِ باطلہ کا قوی اِبطال کرے، انفرادی، اجتماعی اور بین الاقوامی زندگی کے اصول و ضوابط بیان کرے، اعلیٰ اخلاق اور مذہبی تعلیمات کا پرچار کرے، طبیعی اور ما بعد الطبیعی حقائق کا تفصیلی ذکر کرے، سیاست و معاشرت، اقتصاد و معیشت اور تہذیب و ثقافت کے اصولوں کی تعلیم دے اور ان پر کامیابی سے عمل پیرا بھی ہو، صلح و جنگ اور قومی و بین الاقوامی امور سے متعلق قوانین بنائے، حکمت و دانائی، تدبر و بصیرت اور ضابطہ اِصلاحِ اَحوال پر مبنی اس اعلیٰ فلسفہ حیات کی بات کرے جو ابد الآباد تک قابلِ عمل اور انقلاب آفریں ہو، لیکن پھر بھی اس کا کلام حق تصور نہ کیا جائے، ایسی کوئی بات کہنا بڑی ناانصافی ہو گا۔ بلاشک و شبہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اُمّی ہونا قرآن کی حقانیت کی بہت بڑی دلیل ہے۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُمّی ہونے کے باوجود مَا کَانَ وَ مَا يَکُوْنُ کے جمیع علوم خود ربِ ذو الجلال سے حاصل کر لئے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ عَلَمَّکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُط وَکَانَ فَضْلُ اﷲِ عَلَيْکَ عَظِيْمًاo
النساء، 4 : 113
’’اور اس نے آپ کو وہ سب علم عطا فرمایا جو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved