تاریخِ انسانیت کے تناظر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ اور آپ کی شخصیت کا مطالعہ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ نہ صرف امت مسلمہ بلکہ انسانیت کو در پیش ابدی تقاضوں کے پیش نظر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ ایک ناگزیر ضرورت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اللہ رب العزت نے زمین پر سیدنا آدم علیہ السلام کو اتارتے ہی انسانیت کے لیے ہدایت کا سلسلہ جاری فرما دیا تھا۔ یعنی کرہ ارض پر پہلا انسان ہی اپنے آنے والی نسل کے لئے زندگی گزارنے کے رہنما اصول بھی واضح کر رہا تھا۔ جوں جوں انسانی معاشرہ آگے بڑھتا گیا اللہ کی ہدایت کا سلسلہ بھی فروغ پذیر رہا اور نوع بہ نوع پیدا ہونے والے مسائل اور تقاضوں سے عہدہ برآ ہونے کیلئے اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا۔ تاآنکہ اللہ رب العزت کا قائم کردہ یہ سلسلہ وحی اور رشد و ہدایت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ پر آ کر درجہ کمال کو پہنچ گیا۔ بقول اقبال رحمۃ اللہ عليہ :
آتش او صد ابراہیم سوخت
تا چراغ یک محمد برفروخت
آپ کی شخصیت اور رسالت اس تناظر میں سلسلہ انبیاء عليہم السلام کے تکمیلی عنصر کی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود ارشاد فرمایا :
مثلی ومثل الأنبياء کمثل رجل بنی بنيانا فأحسنه وأجمله فجعل الناس يطيفون به يقولون ما رأينا بنيانا أحسن من هذا إلا هذه اللبنة فکن أنا تلک اللبنة.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الفضائل، باب ذکرکونه خاتم النبيين، 4 : 1790، رقم : 2286
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 256، رقم : 7479
‘‘میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس نے ایک مکان بنایا اور کیا ہی حسین و جمیل مکان بنایا لوگ اس مکان کے گرد گھوم کر کہنے لگے ہم نے اس مکان سے اچھا کوئی مکان نہیں دیکھا مگر اس میں ایک اینٹ نہیں ہے سو میں وہ اینٹ ہوں۔’’
منصبِ نبوت و رسالت کے علاوہ آپ کی ذات مبارکہ کو شخصی حوالے سے بھی دیکھا جائے تو اس حوالے سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت کا مطالعہ انسانیت کے لیے واضح رہنمائی کا سامان رکھتا ہے۔ وہ عظیم پیغام جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانیت کے لیے لے کر آئے اس کے ابلاغ کے جتنے بھی پہلو یا جہات ہو سکتی تھیں ان پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وحی کا ابلاغ فرمایا۔ تاہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابلاغ کی دو معروف اور ضروری جہات کا کماحقہ احاطہ فرمایا۔ ایک اللہ کے نظام ہدایت کا بطور ایک علمی، فکری اور دیرپا رہنے والی روایت کی صورت میں مستقل ابلاغ ہے۔ اللہ کے پیغام ہدایت کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک حرف آج ہمارے سامنے مکمل طور پر محفوظ ہے۔ یہ علمی روایت نہ صرف دستاویزی صورت میں محفوظ ہے بلکہ اسے صدیوں کی سینہ بہ سینہ چلنے والی شخصی اور ذاتی و روایاتی تسلسل کی تائید اور توثیق بھی میسر ہے۔ یہ ابلاغ اس وقت تک نامکمل رہتا اگر اس کا عملی نمونہ موجود نہ ہوتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کی طرف سے ملنے والے اس نظام ہدایت کا ابلاغ علمی وفکری سطح پر ایک ثقہ روایت کی شکل میں ہی نہیں کیا بلکہ اپنے عمل اور شخصیت و کردار سے بھی اس کو ایک کامل نمونہ کے طور پر بھی پیش فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے انسان سے لے کر آج تک شاید ہی کوئی ایسی شخصیت موجود ہو جس کی سیرت کے مطالعہ سے، نشست و برخاست اورخلوت و جلوت سے لے کر انفرادی قومی اور بین الاقوامی معاملات تک رہنمائی میسر آتی ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ اللہ رب العزت کے عطا کردہ پیغام کا عملی نمونہ اور انسانی زندگی کے اندازِ فکر سے لے کر عمل تک جملہ سوالات کا ایسا جامع اور شافی جواب ہے جس کی کوئی نظیر تاریخ انسان سے پیش نہیں کی جا سکتی۔ اس باب میں ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی شخصی اور رسالتی جہت کے حوالے سے کچھ پہلووں کا احاطہ کر رہے ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت کو آفاقی اور عالمگیر بنایا گیا جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل جماعت انبیاء میں سے کسی کی نبوت کا دائرہ اس قدر وسیع نہ تھا ہر پیغمبر کو کسی نہ کسی خاص علاقے، ملک، قوم، آبادی، شہر یا قریہ کی طرف مبعوث کیا جاتا اور وہی لوگ اس کے مخاطب ہوتے۔ مزید یہ کہ ان کی بعثت ایک خاص زمانے کے لئے ہوتی ان کے وصال کے بعد اگلی نسلوں کے لئے اور پیغمبران گرامی مبعوث کر دیئے جاتے۔ مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت مبارکہ زمان و مکان کی جملہ حدود سے آگے بڑھ گئی۔ نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت و رسالت خاص خطہ عرب کے لئے تھی اور نہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات ظاہری یا اس کے بعد ایک مخصوص زمانے تک کے لئے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت تمام عالم انسانیت کے لئے ہوئی جس میں شرق تا غرب جملہ اقوام عالم شامل ہیں۔ اسی طرح نبوت و رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا زمانہ بلا شرکت غیرے روز قیامت تک عملاً برقرار رہے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کی فرمانروائی روز محشر بھی جاری وساری ہوگی۔ مقام محمود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تخت ہوگا، شفاعت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نظام سلطنت ہوگا، لواء الحمد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا علم عظمت ہوگا، تمام کائنات انسانی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے در پر سائل اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تابع احسان ہوگی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام اقوام و امم کے محسن اور قائد و شفیع ہوں گے حتی کہ اختتام حشر پر جنت کا افتتاح بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کے دست مبارک سے کروایا جائے گا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل اولین و آخرین میں سے کسی کو جنت میں داخلے کی اجازت بھی نہ ہوگی۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شخصیت و سیرت کو ہر لحاظ سے جامع اور ہمہ گیر بنایا گیا ہے تاکہ انسانی زندگی کی انفرادی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک ہر گوشے اور ہر پہلو کے لئے مطلوبہ ہدایت اور نمونہ کامل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کی ذت گرامی سے میسر آ سکے۔ مزید برآں زندگی کے نجی و عائلی معاملات سے لے کر سیاسی و ریاستی معاملات تک کی رہنمائی کے لئے امت کو اپنا دامن طلب کسی اور کے سامنے نہ پھیلانا پڑے۔
دنیا میں جتنی شخصیات بھی تاریخ عالم کے نقشہ پر نمایاں طور پر ابھری ہیں وہ اپنی انفرادیت میں یک حیثیتی ہیں مثلاً سکندر اَعظم، نپولین اور ہٹلر وغیرہ بڑے نام وَر فاتح اور سپہ سالار تھے۔ گوتم بدھ اور مہاویر سوامی خصوصی عبادات و ریاضات اور مراقبات و مجاہدات میں نمایاں تھے اشوک ایک نامور حکمران تھا۔ کنفیوشس ایک بڑا سماجی مصلح تھا، افلاطون اور ارسطو بڑے فلسفی اور صاحبان حکمت تھے اور نیوٹن اور گلیلیو عظیم سائنس دان تھے۔ الغرض ان تمام تاریخی شخصیات کی زندگیاں کسی نہ کسی ایک شعبہ و میدان میں نمایاں ہوتی ہیں اور صرف اس شعبہ سے شغف رکھنے والوں کے لئے دلچسپی کا باعث ہوتی۔ ہیں لوگوں کو دیگر شعبہ ہائے زندگی میں ان سے کوئی خاص رہنمائی نہیں مل سکتی اور نہ ہی ان کے سوانح و حالات تمام جہات حیات میں سبق آموز ہوتے ہیں بلکہ ان کے کئی شعبہ جات زندگی رہنمائی حاصل کرنے والوں کے لئے بالکل خاموش اور خالی دکھائی دیتے ہیں۔ مگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مبارک ان سے یکسر مختلف نہایت جامع و مانع، ہمہ جہت اور ہمہ گیر حیثیت کی حامل دکھائی دیتی ہے وہ ہر شعبہ حیات میں فلک عظمت پر آفتاب کی طرح چمک رہی ہے اور ہر میدان سے شغف رکھنے والوں کے لئے برابر مینارہ نور ہے۔
ایک عام شہری ہو یا کسی خاندان کا سربراہ، کوئی شوہر یا کسی کا باپ، مذہبی روحانی رہنما ہو یا کوئی تاجر ہو یا رفاہی کارکن، سیاسی رہنما ہو یا ریاستی سربراہ، عالم و خطیب ہو یا مربی و مرشد، مقنن اور جج ہو یا سپاہی اور جرنیل، حکیم و فلسفی ہو یا کوئی مبلغ اخلاق، الغرض ہر ایک شخص اپنی زندگی کے مخصوص حالات و مقتضیات کے مطابق جس نوعیت کی بھی ہدایت اور نمونہ اطاعت کا طلبگار ہوتا ہے اسے اسی ایک ہی سیرت طیبہ سے نصیب ہوجاتا ہے۔ کسی کو بھی کہیں اور جانے کی حاجت نہیں ہوتی۔ یہاں تک کہ مرد و زن، بچے، بوڑھے اور جوان اپنے اپنے طرز عمل کو درست کرنے اور اپنے مسائل حیات کو حل کروانے کے لئے اسی دروازے پر آتے ہیں۔ ہر ضرورت مند کو اپنی تمام ضرورت کا سارا سامان اسی ایک ہی در سے میسر آتا ہے۔ باری تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات میں اس قدر جامعیت اور ہمہ گیریت پیدا فرما دی ہے جو اول کائنات سے آخر کائنات تک نہ کسی کو عطا کی گئی اور نہ میسر آ سکے گی۔ اسی ہمہ گیر اثر انگیزی کا ذکر کرتے ہوئے ایک مغربی مفکر یوں لکھتا ہے :
The essential significance of the appearance of Muhammad is the crystallization of a new experience of the divine, which welded all those who shared it into a new kind of community. The effect of this experience on contemporary relationships is evident and unmistakable in both languages and art.(1)
(1) Gustave Edmund Von Grunebaum, Classical Islam : A History, 600-1258.
’’محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے ظہور کی خصوصیت و اہمیت اس الوہی واردات کی تشکیل میں مضمر ہے جس سے اس عمل میں شریک ہونے والوں کی شیرازہ بندی ایک نئی قوم کی شکل میں ہوئی۔ اس تجربے کا اثر و نفوذ جو عصری روابط کی صورت میں ظاہر ہوا اس کی چھاپ زبانوں اور فنون لطیفہ پر نمایاں نظر آتی ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved