اس کے بعد ربط و نسبتِ رسالت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ آپ نے رِسالت اور مرکز رِسالت کے ساتھ محبت، ادب اور تعظیم و تکریم، اطاعت و اتباع اور پھر دین کی خدمت و نصرت کی شکل میں ہر لحاظ سے آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ اپنی محبت، نسبت اور ربط کو مضبوط سے مضبوط تر رکھنا ہے۔ جب ہم ربط و نسبت رسالت کی بات کرتے ہیں تو وہ یہ ہے کہ ہماری پوری زندگی کسی کی غلامی میں رہے اور یہ کہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے جو فرمایا ہم اس پر عمل کریں گے، جو راہ انہوں نے دکھائی اسی پر چلیں گے اور جس سے انہوں نے روکا اس سے رکیں گے۔ گویا کامل وفاداری و محبت اور اطاعت و تابع داری حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی ذات سے ہو۔ یہ تحریک منہاج القرآن کا نمایاں وصف ہے۔
قبل ازیں جو میں نے جامعیت اور اعتدال کی بات کی ہے تو وہ یہ کہ بعض لوگ ایسے ہیں جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ اپنے تعلق کو یا ان کی عظمت اور عقیدت کو اس طرح اجاگر کرتے ہیں کہ اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی نفی کردیتے ہیں۔ دوسری طرف ایسا طبقہ بھی اُمت میں ہے جو اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کے ساتھ محبت اور عقیدت میں ایسا غلو کرتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تنقیصِ شان اور بے ادبی و گستاخی کرکے ان سے cut off ہوجاتا ہے۔
آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے عملی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی شکل میں امت کے سامنے جو نمونے پیش کیے تھے، اِن لوگوں نے اُن نمونوں کو کاٹ دیا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم دونوں سے تمسک اور جڑے رہنے اور دونوں کی اتباع کی شکل میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت نصیب ہوتی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ اہل بیت اِطہار رضی اللہ عنہم کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرنا چاہیے کیوں کہ یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت کی آئینہ دار ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے عقیدت و تعظیم کا رابطہ پختہ کرنا چاہیے کہ یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی اتباع کی آئینہ دار ہے۔ بالفاظ دیگر محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جھلک اہل بیت سے محبت اور تعلق سے نمایاں ہوتی ہے اور اتباع رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عکاسی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اِتباع اور تعظیم و تکریم سے ہوتی ہے۔ ان دونوں کو یک جا کریں تو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ محبت اور اتباع کا تعلق نصیب ہوتا ہے۔ لیکن لوگوں نے ایک کی اہمیت کو مانا اور دوسرے کی نفی کردی ہے، جب کہ تحریک منہاج القرآن جس عقیدہ کی تعبیر کرتی ہے اس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کی یک جائی ہے، جدائی نہیں۔ پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم کا جب دور گزر گیا تو اس کے بعد چودہ سو سالہ تاریخ میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے امت کو رُشد و ہدایت کے وہ نمونے دیے جن کے بارے میں قرآن حکیم گویا ہوتا ہے :
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيْمَo صِرَاطَ الَّذِيْنَ اَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ.
الفاتحه، 1 : 5، 6
ہمیں سیدھا راستہ دکھاo ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام فرمایا۔
انہی اِنعام یافتہ بندوں کے بارے میں ایک دوسرے مقام پر فرمایا :
وَمَنْ يُّطِعِ اﷲَ وَالرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَيْهِمْ مِّنَ النَّبِيّنَ وَالصِّدِّيْقِيْنَ وَالشُّهَدَآءِ وَالصّٰلِحِيْنَ ج وَحَسُنَ اُولٰئِکَ رَفِيْقًاo
النساء، 4 : 69
اور جو کوئی اللہ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں، اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیںo
اِس آیت مبارکہ میں صرف وہ شہداء مراد نہیں ہیں جو جان دے کر شہید ہوگئے۔ ایک شہادت جان دے کر ملتی ہے اور ایک شہادت اس سے بھی مقدم ہے کہ عمر بھر ایک ایک لمحہ اللہ کی شہادت اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی میں گزرتا ہے۔ گویا شہادت حیات بھی ہے اور شہادت موت بھی ہے۔ شہادت حیات والے طبقے میں اولیاء و صالحین، ائمہ مجتہدین اور ائمہ سلف صالحین شامل ہیں۔ قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ بیان کیا ہے :
اَلَآ اِنَّ اَوْلِيَآءَ اﷲِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُوْنَo
يونس، 10 : 62
خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گےo
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم تو اولیاء اللہ تھے ہی مگر ان کے علاوہ بھی اولیاء اللہ کا ایک طبقہ ہے جسے قیامت تک چلنا ہے۔ یہ بات نہایت اہم ہے کہ آقا علیہ الصلوۃ و السلام کا دور اور آپ کے معاً بعد جو دور تھا اسے اعلیٰ نمونوں سے خالی نہیں چھوڑا گیا اور ان ادوار کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور آل بیت اطہار رضی اللہ عنہم اور تابعین و تبع تابعین کے کامل نمونوں سے پُر کیا گیا۔ لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم دوبارہ پیدا نہیں ہوں گے جب کہ اللہ تعالیٰ نے اس ساری امت کو کامل نمونوں سے خالی بھی نہیں چھوڑنا تھا۔ اس لیے جب ضرورت کم تھی تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے کامل نمونوں سے ہزاروں افراد کے ساتھ وہ زمانے پر کر دیے اورجب ضرورت زیادہ ہوگئی تو اب یہ کیسے ممکن ہے کہ زیادہ ضرورت کے ادوار کو اللہ تعالیٰ کامل نمونوں سے خالی کردے، عقل اور انصاف اس کا تقاضا نہیں کرتا۔ اگر بعد کے زمانے ان اعلیٰ نمونوں سے خالی ہوتے تو قرآن مجید کی ابتدائی آیت میں صاف کہ دیا جاتا کہ انعام یافتہ بندے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام ہیں، لہٰذا ان کی سیدھی راہ دکھا۔ مگر یہ نہیں فرمایا گیا بلکہ اسے عموم پر رکھا اور فرمایا : صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ (ان لوگوں کا راستہ جن پر تونے انعام فرمایا)۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد اب کسی کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ جہالت ہے اور قرآن مجید کو نہ سمجھنا ہے۔ قاعدہ یہ ہے کہ کوئی زمانہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کے اُن کامل نمونوں سے خالی نہیں ہے جو لوگوں کو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف بلائیں گے اور اپنی زندگی کے ذریعے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا رنگ دکھائیں گے اور اپنے آئینہ سیرت کے ذریعے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اُسوۂ سیرت دکھائیں گے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved