فنی اعتبار سے علم کا مادہ ’’ع ل م،، ہے جس کے معنی ’’جاننا،، کے ہیں گویا :
اَلْعِلْمُ اِدْرَاکُ الشَّيئِ بِحَقِيْقَتِه.
’’علم کسی شے کو اس کی حقیقت کے حوالے سے جان لینے کا نام ہے۔،،
یعنی علم ایک ایسا ذہنی قضیہ اور تصور ہے جو عالم خارج میں موجود کسی حقیقت کو جان لینے سے عبارت ہے۔ علم کا اطلاق ایسے قضیے پر ہوتا ہے جو محکوم اور محکوم بہ پر مشتمل ہو اور جس کے متوازی خارج میں ایسی ہی حقیقت موجود ہو جیسی قضیے میں بیان ہوئی ہو، لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہر قضیہ علم نہیں ہو سکتا، وہی قضیہ علم کہلائے گا جو کلی اور وجوبی ہو اور موجود خارج کے حوالے سے صحت کا مصداق ہو۔
مندرجہ بالا تعریف کے مطابق علم کے ارکان کی تعداد چار ہے۔
جو شخص علم کے بارے میں جاننا چاہتا ہے وہ ناظر کہلاتا ہے۔ یہ امتیاز اور درجہ اشرف المخلوقات یعنی حضرت انسان کو حاصل ہے۔ اسے معروف اصطلاح میں طالب علم بھی کہتے ہیں، یعنی کچھ جاننے کی جستجو میں رہنے والا طالب علم کہلاتا ہے۔ علم ایک بحر بیکراں ہے۔ کوئی شخص کلی علم حاصل کر لینے کا دعویٰ نہیں کر سکتا البتہ علم کا طالب جب کچھ نہ کچھ جان لے تو اسے عالم کہا جا سکتا ہے۔
منظور وہ شے ہے جسے جانا جا رہا ہو۔ اس سے مراد کوئی حقیقت (Reality) ہوسکتی ہے، خواہ یہ عقلی وجود رکھتی ہو یا حسی۔ یہ کائنات رنگ و بو اور اس کے مادی اور غیر مادی موجودات و حقائق منظور کا درجہ رکھتے ہیں۔
اس سے مراد یہ ہے کہ ناظر جو مشاہدہ (Observation) کر رہا ہے اس میں کسی چیز کو جاننے کی صلاحیت اور اور استعداد کس قدر موجود ہے۔ علم کا یہ تیسرا رکن ہے۔ اگر منظور (وہ حقیقت جس کے بارے میں جانا جا رہا ہو) حسی نوعیت کی ہو تو ناظر کو حواس خمسہ کی استعداد حاصل ہونی چاہئے تاکہ وہ حواس خمسہ سے اس چیز کو اپنے حیطہ ادراک میں لے سکے۔ اس کے برعکس اگر منظور (Object) عقلی نوعیت کا ہو تو ناظر میں استعداد عقلی کا ہونا ضروری ہے۔ اس استعداد کے بغیر عقلی نوعیت کے Object کا حیطہ ادراک میں آنا ممکن نہیں۔ اگر منظور Object ایسا ہو کہ اس کے لئے وجدان ضروری ہے تو ناظر کو بھی ایسی ہی وجدانی استعداد کا حامل ہونا چاہئے۔ ان صلاحیتوں سے بالاتر بھی ایک استعداد وحی کی ہے جو صرف اور صرف انبیاء کا خاصہ ہے۔ عام آدمی کا اس استعداد سے بہرہ ور ہونا ممکن ہی نہیں یہ صلاحیت کلی طور پر عطائی (God Gifted) ہے جو اللہ رب العزت کے انبیاء اور رسولوں سے مختص ہے۔
علم کے ارکان میں چوتھا اور آخری رکن منظوریت (Objectivity) ہے۔ اس سے مراد وہ اصلیت اور مقصدیت ہے جسے جاننے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس حقیقت کے لئے لازم ہے کہ وہ اس قابل ہو کہ ناظر کی کسی بھی مخصوص استعداد سے معلوم ہو سکے۔
علم کی تعریف اور اس کے ارکان کی تشریح و توضیح کے بعد اب ہم سورہ علق کی پہلی پانچ آیات کی تفہیم کی روشنی میں اسلام کے تصور علم کو واضح کرتے ہیں۔
17 رمضان المبارک کو غار حرا کی خلوتوں میں جب جبرئیل امین حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو وحی کے ذریعہ اللہ رب العزت اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان الفاظ میں ہمکلام ہوا :
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO خَلَقَ الْإِنسَانَ مِنْ عَلَقٍO اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُO الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِO عَلَّمَ الْإِنسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْO
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایاo اس نے انسان کو (رحمِ مادر میں) جونک کی طرح معلّق وجود سے پیدا کیاo پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہےo جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاo جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔ (یا:- جس نے (سب سے بلند رتبہ) انسان (محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو (بغیر ذریعہ قلم کے) وہ سارا علم عطا فرما دیا جو وہ پہلے نہ جانتے تھے)o
(العلق، 96 : 1 - 5)
یہ وہ پانچ آیات مقدسہ ہیں جن میں علم کا پیغام دے کر نازل کیا گیا۔ گویا انسان کچھ نہیں جانتا تھا اسے علم عطا کیا گیا، وہ جاننے لگا، اسے اندھیروں سے اجالوں کے دامن میں لایا گیا۔ اسے روشنی عطا کی گئی، علم و آگہی روشنی کے سفر کا نام ہے۔ مذکورہ بالا آیات کے ذریعہ رب کائنات نے حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے نسل آدم کو باقاعدہ ایک سلسلہ تعلیم سے منسلک کر دیا۔ ذہن انسانی میں شعور و آگہی کے ان گنت چراغ روشن کئے۔ گویا تاریخ اسلام میں سب سے پہلا سکول غار حرا کی خلوتوں میں قائم ہوا۔ اس سکول کے واحد طالب علم ہونے کا شرف سید الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نصیب ہوا اور استاد و مربی خود خالق کائنات ٹھہرے۔ مندرجہ بالا آیات مقدسہ کے مندرجات اور مشمولات کا جائزہ لیں اور ایک اجمالی سا خاکہ تیار کریں تو سائنسی اور اعتقادی اعتبار سے مندرجہ ذیل تین عنوانات مرتب ہوتے ہیں :
1۔ تصورِ تخلیق (Concept of Creation)
2۔ تخلیقِ انسانی (Human Creation)
3۔ عظمت ِربوبیت (The Grandeur of God)
مندرجہ بالا موضوعات چونکہ ہمارے زیر بحث نہیں ہیں، ہمارا چونکہ موضوع علم کے حوالے سے ہے لہذا ہم ان آیات مبارکہ میں اسلام کے تصور علم کے حوالے سے درج ذیل چھ موضوعات پر گفتگو کریں گے۔
موضوع کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ چھ عنوانات کے تحت لیا جائے گا۔
مندرجہ بالا عنوانات کا واضح تعین ان آیات مبارکہ میں کر دیا گیا ہے۔ ان کی تفصیلات ذیل میں درج کی جاتی ہیں :
(Concept and Objects of Knowledge)
سورہ مبارکہ کی پہلی آیت پر اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ وحی کا آغاز جس لفظ اور کلمہ سے ہو رہا ہے اس کا تعلق پڑھنے سے ہے۔ اس حرف آغاز کا مطلب یہ ہوا کہ خدائے ذوالجلال نے اپنی ہدایت کا آغاز ہی تحصیل علم کے حکم سے کیا ہے لہذا حصول علم ہی وہ پہلا قدم ہے جہاں سے مرتبہ نبوت کا آغاز ہوتا ہے۔ اسی طرح جب ہم پانچویں آیت کے آخری الفاظ پر غور کرتے ہیں تو مرتبہ نبوت کی انتہا بھی حصول علم پر ہی ہوتی نظر آتی ہے۔ گویاہم ایک اعتبار سے کہہ سکتے ہیں کہ نبوت کا آغاز بھی علم ہے اور منتہابھی علم ہی ہے اور باقی جو کچھ ہے وہ بھی علم ہی کے دامن میں ہے، لہذا اس سے علم اور پڑھنے لکھنے کی حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے، ہدایت آسمانی کے فروغ کے لئے حصول علم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور جہالت کے اندھیروں کے خلاف مسلسل جہاد کی ترغیب ملتی ہے۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ علم اور تعلیم محض خواندگی (Literacy) کا نام نہیں ہے، یعنی تھوڑا زیادہ پڑھ لکھ لینا یا مختلف پیشہ وارانہ پہلوؤں (Professional Aspects) پر تھوڑا زیادہ عبور حاصل کر لینا وغیرہ فی نفسہ مقصود بالذات نہیں ہے۔ یہ اتنا بڑا مقصد اور منصب ہے کہ علم کا ابرکرم پوری کائنات پر محیط ہے ہم کہہ سکتے ہیں اس کائنات پست و بالا میں دامن علم سے خارج کوئی شے نہیں۔ آسمانوں اور زمینوں کی ہر شے دائرہ علم میں ہے، لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ پہلی آیت مقدسہ میں تحصیل علم کے حوالے سے بیان کیا جا رہا ہے کہ :
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے۔
(العلق، 96 : 1)
ارشاد خداوندی ہے کہ میرے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے پڑھنے لکھنے کا آغاز رب کائنات کے بابرکت نام سے کیجئے۔ اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک وہی علم شرف قبولیت حاصل کرے گا جس کی تحصیل کا آغاز خدائے ذوالجلال کے بابرکت نام سے ہوا، یعنی ایسا علم جس کی بنیاد اللہ کے نام پر رکھی جائے اور جس میں اسلامی عقیدے اور نظریے کو مرکزی حیثیت (Central Status) حاصل ہو۔ یہاں اس امر کی وضاحت ضروری ہے کہ علم حاصل کرنے سے مراد دینی اور روحانی علوم کا حصول ہی نہیں بلکہ تمام سائنسی علوم بھی اس کے دائرہ کار میں آ جاتے ہیں۔ جدید ترین ٹیکنالوجی کا حصول بھی علم کے زمرے میں آتا ہے۔ تاریخ اسلام شاہد و عادل ہے کہ مسلمان سائنسدانوں نے سائنسی علوم کی بنیاد ڈال کر حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان پر پورا پورا عمل کیا کہ
أطْلِبُوا الْعِلْمَ وَلَوْ بِالصِّينِ فَاِنَّ طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيْضَةٌ عَلٰی کُلِّ مُسْلِمٍ.
علم حاصل کرو خواہ چین جانا پڑے۔ بے شک علم حاصل کرنا ہر مسلم پر فرض ہے۔
(جامع بيان العلم و فضله، 1 : 7)
اس کے ساتھ ساتھ قرآن حکیم میں جابجا تسخیر کائنات کی ترغیب دی جا رہی ہے۔ کائنات کا یہ سفر جدید علوم میں مہارت حاصل کئے بغیر ممکن نہیں۔ البتہ علوم جدیدہ کا حصول بھی اللہ کی رضا اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئے ہونا چاہئے اور اعتبار کی سند بھی اسی علم کو عطا ہو گی۔
جس علم کی تحصیل کا آغاز اللہ رب العزت کے پاک نام سے ہو گا اور اسلامی عقیدے و نظریے کو مرکزیت حاصل ہو گی اس علم کے ذریعے اللہ تعالی کی معرفت نصیب ہو گی۔ لہذا وہی علم صحیح معنوں میں علم کہلائے گا جو انسان کو اپنے مالک و خالق کے نزدیک کر دے، اللہ کی معرفت عطا کر دے، اس کی حقیقی بندگی اور اس تک رسائی عطا کر دے اور آخرکار اس کے حکم کی تعمیل میں اس کے حکم کے نفاذ تک لے آئے۔ اس کے برعکس ایسا علم جو بندے کو اپنے رب سے دور لے جاتا ہے وہ اللہ کے نزدیک علم نہیں۔ جدید ترین علوم اور جدید ترین سائنسی انکشافات اذہان کو علمی اور عملی دونوں حوالوں سے اپنے خالق حقیقی کے بہت قریب لے آتے ہیں۔ ایک سائنسدان جو کھلے دل و دماغ کا مالک ہو بنیادی طور پر توحید پرست ہوتا ہے۔ گو علم کی تعریف جاننا ہے لیکن وہی جاننا مرتبہ علم کو پہنچتا ہے جس کے حصول سے خدا شناسی کا گوہر میسر آئے اور جو قرب الٰہی کا باعث بنے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ جہالت کیا ہے؟ کیا کچھ نہ جاننے کا نام جہالت ہے؟ ہم نے دیکھا کہ وہی جاننا اسلام کی نظر میں علم ہے جو انسان کو اس کے رب کی معرفت کا پتہ دیتا ہے لہذا جو جاننا خدا سے دور کر دے اور جو علم خدا کے قرب، خدا سے آگاہی و شناسائی اور اس کی معرفت کا ذریعہ نہ بن سکے وہ علم نہیں حقیقت میں جہالت ہے۔ دنیوی اعتبار سے اگر کوئی شخص بے شمار ڈگریوں کا حامل ہو لیکن اس کا یہ علم اسے اللہ کی معرفت سے بیگانہ کر دے تو وہ شخص عالم ہو کر بھی جاہل ہی کہلائے گا اور اس کا وہ علم، علم نہیں بلکہ جہالت ہے۔ ابوجہل کو اس لئے ابوجہل نہیں کہتے کہ وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتا تھا بلکہ وہ اس وقت کے اعتبار سے پڑھا لکھا شخص کہلاتا تھا لیکن اسے ابوجہل اس لئے کہا جاتا ہے کہ اس کا جاننا معرفت الہی کا ذریعہ نہ بن سکا اس لئے کہ اسلام کے تصور علم میں حصول علم کا آغاز ہی اللہ کی معرفت سے ہوتا ہے۔
جب یہ بنیادی بات طے پاگئی کہ ہر وہ علم جس سے معرفت الہی میسر آئے، اور قرب الہی نصیب ہو صحیح معنوں میں وہی علم ہے تو اس اعتبار سے جب ہم علوم کی تقسیم کریں گے تو صرف علم القرآن، علم التفسیر، علم الحدیث، علم الفقہ، علم النحو، علم الصرف اورعلم التصوف وغیرہ ہی دینی علوم نہیں ٹھہریں گے بلکہ حیاتیات (Biology)، طبیعیات (Physics)، نفسیات (Psychology)، کیمیا (Chemistry)، سیاسیات (Politics)، عمرانیات (Sociolgy)، معاشیات (Economics)، تاریخ (History)، قانون (Law)، نیوکلئیرٹیکنالوجی (Nuclear Technology)، کمپیوٹر سائنسز (Computer Sciences)، انتظامیات (Management)، تجارت (Commerce) اور ابلاغیات (Mass Communication) کے علوم بھی دینی علوم کے زمرے میں شمار ہوں گے۔ شرط صرف یہ ہے کہ ان علوم کے حصول سے مقصود اللہ کی رضا ہو اور یہ علوم معرفت الہیہ اور قرب الہی کا وسیلہ بنیں، لہذا ہر وہ شخص جو اپنے حصول علم کا آغاز اللہ کے نام سے کرے اور اس کا مقصد علم کے ذریعہ اللہ کا قرب حاصل کرنا ہو تو وہ دنیا کے کسی بھی خطے، کسی بھی شعبے میں علم حاصل کر رہا ہو وہ دین الہی کا طالب علم ہی کہلائے گا کیونکہ ان تمام علوم کا ہر ہر گوشہ کسی نہ کسی اعتبار سے اپنے دامن میں خدا کی معرفت کی کوئی نہ کوئی صورت ضرور رکھتا ہے۔ حرف حق کی تلاش ہی کو خدا کی تلاش سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی انسان عقل سلیم کی جملہ توانائیوں کے ساتھ دنیا کے دیگر علوم کی تحصیل میں آگے بڑھتا چلا جائے تو اس کے ہر سفر علم کی انتہا خدا کی معرفت پر منتج ہوتی نظر آئے گی۔ وہ اپنے سفر علم میں جوں جوں ادراک و شعور کے مراحل طے کرتا چلا جائے گا توں توں اس پر خدا کی وحدانیت، اس کی ربوبیت، اس کی الوہیت اور اس کی عظمت کے ان گنت گوشے آشکار ہوتے چلے جائیں گے۔ لہذا ہرمعلم اورمتعلم، ہر استاد اور شاگرد، ہر مربی اور مربوب، جو شغل علم سے وابستہ ہوتا ہے اسے جان لینا چاہیے کہ وہ تعلیم و تربیت کے میدان میں صرف اس لئے قدم رکھ رہا ہے کہ اس کی یہ چند روزہ زندگی اپنے خالق حقیقی کی معرفت، اس کے قرب اور اس ذات تک رسائی کا ذریعہ ثابت ہو۔
علم ایک سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ علم روشنی کے مسلسل سفر کا نام ہے۔ اسے تفہیمات کے کسی محدود خانے میں مقید نہیں کیا جاسکتا۔ اگر ہم پہلی آیت کے لفظ ’’خلق،، کے معنی و مفہوم پر غور کریں تو یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ تحصیل علم کے لئے مخصوص علوم کا انتخاب نہیں کیا گیا بلکہ علم کا میدان کھلا رکھا گیا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے :
اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَO
(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیئے جس نے (ہرچیز کو) پیدا فرمایا۔
(العلق، 96 : 1)
آیت مذکورہ میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کس کو پیدا کیا۔ اگر بتا دیا جاتا کہ کس کو پیدا کیا تو مضمون علم کی حدود متعین ہوجاتیں۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوا کہ اللہ رب العزت نے علم کا میدان کھلا چھوڑ دیا ہے۔ آیہ کریمہ میں خلق کا لفظ مطلقاً آیا ہے اور تخلیق کو بیان کرنے کے حوالے سے یہ آیت خاموش ہے۔ مطلب یہ ہے کہ خدائے کائنات نے خلق اور تخلیق کا کوئی رخ متعین نہیں کیا، لہذا اس سے یہ مراد لی جائے گی کہ خالق کائنات نے سب کچھ پیدا کیا۔ لفظ اقراء سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے چونکہ پیدائش و خلق کا کوئی رخ یا کوئی سمت متعین نہیں کی گئی لہذا تحصیل علم کی بھی کوئی سمت مقرر نہیں۔ علم کا میدان کھلا چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس کائنات پست و بالا میں جو کچھ بھی ہے وہ اللہ رب العزت کا تخلیق کردہ ہے، اس لئے انسان کو اپنے علم کے ذریعہ یہ جان لینا چاہئے کہ یہ کائنات رنگ و بو اللہ کے وجود سے قائم ہے، وہی نظام ہستی چلا رہا ہے، وہی بادلوں کو بنجر زمینوں کی طرف اذن سفر دیتا ہے، وہی پتھر میں کیڑے کو رزق دیتا ہے، وہی ہر مشکل میں اپنے بندوں کی دستگیری کرتا ہے، وہ رب کائنات ہے، وہ وحدہ لا شریک ہے، اس کا علم کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے، وہ ہر علم کا سرچشمہ ہے اور اے انسان! تیرا علم پوری کائنات میں تجھے اللہ کی راہ دکھاتا ہے۔ الذی خلق کے معنی یہ ہیں کہ جب تیری نظر زمین کی وسعتوں کا احاطہ کرے تو تجھے خدائے ذوالجلال کی ان رحمتوں اور برکتوں کا اندازہ ہو جو اس کی تمام مخلوقات پر ہوتی ہیں۔ اس کے فضل و کرم کا مینہ ساری زمینوں کی پیاس بجھاتا ہے۔ تو جب آسمان کی بلندیوں کو دیکھے تو تجھے مالک ارض و سماوات کی عظمت و رفعت کی راہ دکھائی دے۔ فلک پوش پہاڑوں کو دیکھے تو خدائی عظمت و جبروت یاد آئے اور جب تو شاداب فصلوں، گرتے آبشاروں، بہتے دریاؤں اور لہلہاتے ہوئے کھیتوں کا نظارہ کرے تو تجھے قدرت خداوندی کے ساتھ ان شفقتوں اور محبتوں کی یاد بھی آئے جو وہ اپنے بندوں سے روا رکھتا ہے۔ غرض تیری نگاہ اس کی کسی تخلیق پر بھی پڑے تجھے وہ چیز کسی نہ کسی مظہر (Exhibitor) کا شاہکار دکھائی دے۔
اب تک ہم نے پہلی آیت مبارکہ کی روشنی میں اسلام کے تصور علم اور مقصد علم کے تحت جو گفتگو کی ہے اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جب تک مقصد علم کو نہیں سمجھا جاتا اس وقت تک کسی علم کے صحیح یا غلط ہونے کے بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں دیا جاسکتا اور نہ اس ضمن میں کوئی اندازہ لگایا جاسکتا ہے لہذا مقاصد علم ہی کسی علم کے دینی اور لا دینی ہونے کا تعین کرتے ہیں۔
یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئے کہ یہاں لفظ نصاب اپنے ان معروف معنوں میں استعمال نہیں ہور ہا جس کا مطلب سلیبس (Syllabuss) یا Courses of Reading وغیرہ ہوتا ہے بلکہ یہاں لفظ نصاب اپنے وسیع تر معنوں میں استعمال ہو رہا ہے۔
کائنات کی ہر شے کا تعلق تخلیق کی نسبت سے باری تعالیٰ کے ساتھ ہے اس لئے کہ وہ ہر شے کا خالق و مالک ہے لہذا ہمارے علم کا تعلق بھی ہر شے سے ہونا چاہئے۔ یہ زمین اور آسمان، یہ چاند اور سورج، یہ ستارے اور سیارے، یہ سمندروں کی وسعت، یہ دریاؤں کی روانی، موجوں کی طغیانی، آبشاروں کا ترنم، قُمریوں کا تکلم، کلیوں کا تبسم، شمس و قمر کا طلوع و غروب، یہ شجر و حجر کی شادابی، یہ برگ و ثمر کی رنگینی، الغرض پوری کائنات ہست و بود سب کچھ خلق ہے اور صرف رب کی ذات اس عظیم تخلیق کی خالق ہے۔ نہ کوئی اس کا شریک ہے اور نہ کوئی اس کا ساجھی، وہ یکتا و تنہا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ انسان کس چیز کا علم حاصل کرے کہ اسے معرفت الہی اور قرب الہی نصیب ہو؟
الذی خلق : کے اطلاق اور عمومیت میں نصاب علم کی وسعت کا ذکر ہے۔ واضح طور پر اشارہ کیا جارہا ہے کہ اپنے رب کے نام سے ہر اس شے کا علم حاصل کر جسے اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔
اللہ رب العزت نے جو کچھ تخلیق کیا ہے یا کائنات میں خالق و مالک کی ذات کے علاوہ جو کچھ ہے وہ ہمارے علم کے دائرہ نصاب میں آتا ہے۔ اگر انسان اس کرہ ارضی کے بارے میں علم حاصل کرتا ہے تو اسے ارضیات کا نام دیا جائے گا اور زمین کے اندر اور اس کی سطح پر رونما ہونے والے تمام تغیرات، تمام معدنیات اور ا سکے وسائل زیر بحث آئیں گے۔ اگر نفس انسانی کے اندرونی احوال و کیفیات، شعور و لا شعور کی مباحث اور Conscious Process کو چھوتا ہے تو یہ علم، علم نفسیات کہلائے گا۔ اگر مادہ اور اس کے مظاہر طبیعی (Physical Phenomena) میں حرکت وغیرہ کا علم حاصل کرتا ہے تو یہ طبیعیات کا علم ہوگا۔ اگر انسان کی حقیقت کے مبداء و منتہا کا عقل کی بنیاد پر تجزیہ کرتا ہے اور کائنات کی ماہیت اصلی اور انسان کے مقام و منصب کے اعتبار سے اس کے طرز عمل کا مطالعہ کرتا ہے تو اس علم کو فلسفہ کہیں گے۔ اگر کائنات میں موجود مختلف اشیا کی کیمیائی ترکیب کا جائزہ لیتا ہے تو یہ علم علم کیمیا (Chemistory) بن جائے گا۔ اگر ان کی زندگی کے حیاتیاتی پہلوؤں کا تجزیہ کرتاہے اور مظاہر حیاتیات (Biological Phenomena) کا مطالعہ کرتا ہے تو یہ علم بیالوجی کہلاتا ہے۔ اس طرح جدید و قدیم علوم کی ایک طویل فہرست ہے جو کائنات کے کسی نہ کسی پہلو کے بارے میں انسان کو غور و فکر کی دعوت دیتی ہے اور انکشافات کی نئی دنیا آباد کرتی ہے۔ مختصراً یوں کہا جاسکتا ہے کہ ہر وہ شے جو خدائے بزرگ و برتر کی تخلیق کی مظہر ہے وہ علم کے نصاب میں شامل ہے، یعنی خالق و مالک کی ہر تخلیق نصاب علم ہے۔
اب تک کی بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلام نے صرف قرآن مجید، تفسیر، احادیث، فقہ، تصوف وغیرہ تک ہی نصاب علم کو محدود نہیں کیا بلکہ اسلام سائنسی علوم اور اپنے عہد کی جدید ترین ٹیکنالوجی کو بھی شامل نصاب کرتا ہے۔ لفظ علق کا استعمال بھی سائنسی علوم کے نصاب میں شامل ہونے کی دلیل ہے۔ علق کا معنی جما ہوا خون بھی کیا جاتا ہے۔ یہ ایک حیاتیاتی اصول ہے جس کا عمل تخلیق کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ خلاصہ بحث یہ ہوا کہ اسلام کے تصور علم میں نصاب کی بھی کوئی حد نہیں ہے۔
قرآن مجید تمام علوم کا سرچشمہ ہے لیکن ایک بنیادی بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ قرآن اور دیگر کتب میں فرق ہے۔ دیگر علوم پر مشتمل تمام کتب میں اپنے موضوع کے اعتبار سے ہی بحث کی جاتی ہے اور ایک Discipline کی کتاب دوسرے Discipline کے متعلق خاموش دکھائی دیتی ہے لیکن قرآن مجید تمام علوم کا خزانہ اور سمندر ہے۔ دیگر تمام علوم کی حیثیت جزوی ہے جبکہ قرآن مجید کا علم غیر محدود اور کلی ہے، اور تمام علوم کے مصادر و ماخذ کی حیثیت کا حامل ہے۔
قرآن مجید کا علم تحریری صورت میں نظریاتی حیثیت کا حامل ہے۔ کسی بھی Theoryکو پرکھنے اور قابل عمل بنانے کے لیے اسے کسی تجربہ گاہ میں رکھا جاتا ہے۔ قرآنی علم کی تجربہ گاہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ قرآن مجید کی عملی صورت میں ہمارے سامنے آئی ہے۔ چونکہ قرآنی علوم لامحدود ہیں اس لئے سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی لا محدود ٹھہری کیونکہ کوئی بھی محدود چیز لا محدود کا احاطہ نہیں کرسکتی۔
سورہ علق کی تیسری آیت میں نتیجہ علم کے حوالے سے بیان کیا گیا ہے کہ جب انسان علم حاصل کرتا ہے تو پھر اس کی شخصیت اور اس کے افعال و اطوار پر اس کے اثرات بھی مرتب ہوتے ہیں۔ ان اثرات کو نتیجہ علم کا نام دیا جاتا ہے یا یہ کہ حصول علم کے بعد انسان پر اس کے کیا اثرات مرتب ہونے چاہئیں۔ ارشاد خداوندی ہے۔
إقْرَأْ وَ رَبُّکَ الْاَکْرَمُ O
پڑھئے اور آپ کا رب بڑا ہی بزرگ و برتر ہے۔
(العلق، 96 : 3)
ہر عظمت کی عظمت اور ہر بلندی کی بلندی ذات باری تعالیٰ پر ختم ہوجاتی ہے۔ نہ اس کی کوئی ابتدا ہے اور نہ کوئی انتہا، وہ ازل کا بھی مالک ہے اور ابد کا بھی، وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ وہ سب سے اعلیٰ اور برتر ہے۔ اس کا نور کائنات کے ذرے ذرے پر محیط ہے۔ تمام مخلوقات جاندار اور غیر جاندار سب اسی کے حکم کی پابند ہیں۔ آیات مقدسہ میں ناچیز انسان کو سب سے بڑی کائناتی سچائی سے آگاہ کیا جارہا ہے کہ بڑائی، بزرگی اور برتری صرف ذات خداوندی کا خاصہ ہے، انسان محض عاجز و کمتر ہے۔ علم بھی انسان کو عاجزی اور فروتنی کا سبق دیتا ہے، اسے اللہ کی بندگی کا سلیقہ سکھاتا ہے، اس کے جلال و جمال کے ادراک کا ہنر بخشتا ہے۔ جب انسان علم کے نور سے قلب و ذہن کو منور کرلے توقدرتی طور پر اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان کی گردن رب ذوالجلال کے سوا کسی اور کے سامنے نہیں جھکتی، خوف خدا کے سوا ہر خوف اس کے دل سے نکل جاتا ہے۔ اسے وقت کے یزیدوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انہیں للکارنے کا شعور عطا ہوتا ہے۔ وہ کسی فرعون کو خاطر میں لاتا ہے اور نہ حاجت روائی کے لئے کسی قارون کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے۔ وہ صرف اللہ اور اس کے رسول معظم کے در کا سائل بننے کا اعزاز حاصل کرتا ہے۔ خدا کی بڑائی اور عظمت کا اعتراف اور اپنے عجز اور کمزوری کا احساس اس کی شخصیت پر یہ نتیجہ ظاہر کرتا ہے کہ
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے
جہاں ہے تیرے لئے تو نہیں جہاں کے لئے
جب شاخوں کو اذن نمو ملتا ہے اور وہ ثمر بار ہوتی ہیں تو وہ بارگاہ خداوندی میں جھکتی ہیں۔ یہ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں سجدہ شکر ہوتا ہے لیکن اگر یہ شاخ جھکنے کی بجائے اکڑ جائے تو وہ ٹو ٹ جایا کرتی ہے، اس لئے کہ غرورو تکبر اللہ کے ہاں ناپسندیدہ افعال ہیں۔ اس طرح انسان بھی جب تحصیل علم کی راہ پر نکلتا ہے تو قدرت کے رازہائے سربستہ اس پر منکشف ہونے لگتے ہیں۔ وہ عجز و انکسار کا پیکر بن جاتا ہے اور کلماتِ تشکر و امتنان اس کے ہونٹوں پر حروف دعا بن جاتے ہیں۔ وہ رب ارض و سماوات کے جلال و جبروت کے پانیوں میں ڈوب جاتا ہے۔ وہ عملاً بھی اقرار کرتا ہے کہ وہ ذات اقدس عظیم و کریم ہے، ہر بڑھائی اسی کے لئے ہے، تمام حروف ثناء بھی اس کی چوکھٹ پر سرنگوں ہیں۔ لیکن اس احساس عجز و انکسار کے برعکس اگر علم کا نتیجہ انسان پر یہ مرتب ہو کہ اس کے اندر اپنی بڑائی کا احساس جاگ اٹھے، دنیاوی کامیابیوں اور کامرانیوں کو منجانب اللہ کی بجائے اپنی ذات سے منسوب کرنے لگے، ثمرات کو اپنی محنت اور جدوجہد کا نتیجہ سمجھنے لگے اور غرور و تکبر سے اس کی گردن اکڑ جائے تو وہ صحیح معنوں میں صاحب علم نہیں ہوگا بلکہ وہ تو جہالت کی انتہائی گہرائیوں کا رزق بن رہا ہوگا۔
مذکورہ بالا آیت مبارکہ پر غور کرنے سے یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت نے لفظ اقرا ء کو دہرایا ہے، اور اس لفظ کے ساتھ اپنی بڑائی کا تذکرہ کیا ہے لہذا خدا کی بڑائی کے اعتراف کا علم کے نتیجہ کے طور پر ظاہر ہونا لازمی ہے۔ اگر علم انسان کی شخصیت پر یہ اثرات مرتب نہ کرسکے کہ وہ (انسان) تو عجز، انکساراورتواضع کا پیکر ہے، وہ فروتر، ناتواں اور خاک کی مانند پست ہے اور ساری بڑائی، عظمت، برتری، بزرگی اور کبریائی کا سزوار صرف اور صرف خالق کائنات ہے تو پھر وہ علم، علم نہیں گمراہی اور جہالت کا پلندہ ہے۔
علم انسان کے اندر احساس بندگی کو اجاگر کرتا ہے، قلب و نظر کو عجز و انکسار کے پانیوں سے دھوتا ہے، انسان کے اندر سے احساس برتری اور غرور و تکبر کو چن چن کر نکال دیتا ہے۔ احساس برتری ایک ایسی نفسیاتی بیماری ہے جس کا علاج تقریباً ناممکن ہے۔ ذہنوں میں خدا بننے کا فتور اسی نفسیاتی بیماری کی کوکھ سے جنم لیتا ہے، فرعونیت اور نمرودیت کا ہر راستہ اسی احساس برتری کی وادی مکرو فریب سے گزرتا ہے۔ علم ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے اس بیماری پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس سے انسان کے اندر احساس برتری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ اعتدال اور توازن کا دامن اپنے ہاتھ سے نہیں چھوڑتا۔ اگر انسان علم حاصل کر کے یہ سمجھنا شروع کردے کہ میں نے سب کچھ جان لیا ہے، تحصیل علم کا عمل مکمل ہوگیا ہے اور میں ایک مکمل عالم بن گیا ہوں تو یہ اس کی بہت بڑی بھول ہے۔ وہ اس علم کی گرد کو بھی نہیں پہنچا بلکہ جہالت کے گرد سفر کر رہا ہے۔
ارباب علم و دانش کا قول ہے کہ ’’اس نادان سے بچو جو اپنے آپ کو دانا سمجھتا ہے۔،، تحصیل علم کا عمل کبھی مکمل نہیں ہوتا، انسان ساری عمر طالب علم ہی رہتا ہے، علم پر مکمل دسترس کا تصور بھی محال ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ علم میں اضافے کے ساتھ انسان کے دل میں بے خبری کا احساس بھی جاگز ین ہوجاتا ہے۔ علم کی دولت انسان کے پاس جتنی زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی اسے اپنی کم آگہی کا ادراک ہوتا چلا جاتا ہے کہ علم تو ایک وسیع سمندر ہے، میں نے تو ابھی اس سمندر سے ایک قطرہ بھی نہیں لیا۔ جب انسان کا علم اپنے نقطہ کمال کو پہنچتا ہے تو اس پر یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ اس کا دامن طلب تو ابھی خالی کا خالی ہی ہے سارا علم تو اللہ کے پاس ہے کہ وہی ہر علم کا سرچشمہ ہے۔
علم انسان کے اندر یہ شعور پیدا کرتا ہے کہ وہ کچھ نہیں جانتا۔ علم کے سمندر سے عجز وانکسار کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنھم نے علم کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا :
’’العجز عن درک الادراک ادراک،، یعنی یہ جان لینا کہ میں جاننے سے قاصر ہوں کا نام علم ہے۔ انسان تحصیل علم کے درجے میں جتنا بلند ہوتا ہے اس کی ذات پر اتنے ہی حقائق منکشف ہوتے ہیں۔ جوں جوں حقیقتیں بے نقاب ہوتی ہیں اور ان حقائق کی پہنائیاں اس پر آشکار ہوتی ہیں توں توں اس میں عجز و انکسار کی خوبیاں اجاگر ہوتی ہیں اور وہ خود کوذرئہ ناچیز تصور کرنے لگتا ہے۔ یہاں اس نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ عجز و انکساری کا یہ اظہار کسی بھی حوالے سے احساس کمتر ی (Inferiority Complex) کے زمرے میں شمار نہیں ہوسکتا، کیوں کہ یہ اظہار تو بہت کچھ پانے کے بعد ہوتا ہے، اور یہ اظہار رب العزت کے سامنے ہوتا ہے اس لئے کسی قسم کے احساس کمتری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ہماری کم ظرفی کا یہ عالم ہے کہ جو شخص چار کتابیں پڑھ لیتا ہے وہ خود کو مسند خدا پر بٹھا لیتا ہے۔ تکبر اور غرور کا پیکر بن جاتا ہے، رعونت اس کی آنکھوں سے شعلے برساتی ہے۔ وہ اس خود فریبی میں مبتلا ہوجاتا ہے کہ اس کرہ ارضی پر اس سے بڑا کوئی عالم نہیں۔ وہ سب سے بڑا مقرر بھی ہے اور سب سے بڑا محقق بھی، سب سے بڑا عالم بھی وہی ہے اور سب سے بڑا مفتی بھی، وہ سب سے بڑا دانشور بھی ہے اور سب سے بڑا مجتہد بھی وہی ہے۔ یہ ایک ایسا خوفناک کیڑا ہے جو ذہن انسانی میں فتور پیدا کرتا ہے اور جب ذہن میں داخل ہوتا ہے تو انسان کی تمام تخلیقی قوتیں سلب ہوکر رہ جاتی ہیں۔ وہ یہ بھول جاتا ہے کہ ’’فوق کل ذی علم علیم،، یعنی ہر علم والے کے اوپر ایک اور علم والا ہے۔
تکمیل علم کا انسانی دعویٰ بے معنی سی چیز ہے۔ علم تو ایک سمندر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں۔ علم اکتسابی (Earning Knowledge) بھی ہوتا ہے اورعطائی (God Gifted) بھی اللہ رب العزت اپنے برگزیدہ رسولوں اور نبیوں کو اپنی قدرت کاملہ سے علم کا نور عطا کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ختمی مرتبت محبوب رب دوجہاں ہیں، اللہ کے آخری رسول ہیں اور کائنات کا ذرہ ذرہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدمین مبارکہ کی خیرات ہے۔ رب کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کن کن علوم سے نوازا اور کتنا نوازا، یہ ہمارے حیطہء شعور سے باہر ہے۔
سب کچھ عطا کیا ہے خدا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کو
سب کچھ ریاض دامن خیر البشر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے
جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا گیا ہے کہ ہر علم والے کے اوپر ایک علم والا ہے۔ یہاں یہ بات ذہن نشین رہنی چاہئیے کہ تمام مراتب علم جہاں پہنچ کر ختم ہوجاتے ہیں وہاں سے مرتبہ علم نبوت کا آغاز ہوتا ہے۔ مرتبہ علم نبوت ساری کائنات کے مراتب علم سے ارفع ہوتا ہے۔ اس کے اوپر مرتبہ علم الوہیت ہے جس کا تصور بھی ذہن انسانی میں آنا محال ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیات مقدسہ کا مطالعہ ہمیں بتاتا ہیکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عظیم مرتبہ علم پر فائز تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت طیبہ سے بھی ہمیں عجز و انکساری ہی کا درس ملتا ہے۔ مخلوقات خدا میں سے کوئی بھی مخلوق حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بحر علم کے ایک قطرے کا بھی مقابلہ نہیں کرسکتی۔ ارشاد خداوندی ہے :
وَمَا اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًاO
اور تمہیں بہت ہی تھوڑا ساعلم دیا گیا ہے۔
(بنی اسرائبل، 17 : 85)
علم کی ساری وسعت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن پاک کا ایک حصہ ہے، علم پیدا ہی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مقدسہ سے ہوا۔ آپ نے فرمایا کہ
انا مدينة العلم و علی بابها.
میں شہر علم ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔
(مستدرک حاکم، 3 : 124)
ایک اور موقع پر فرمایا :
انا دارالحکمة و علی بابها.
میں حکمت کا گھر ہوں اور علی اس کا دروازہ ہیں۔
(جامع الترمذی، ابواب المناقب، 2 : 214)
چنانچہ کتاب بشرمیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی سرچشمہء علم و عرفاں ٹھہرے۔ منبر پر کھڑے ہوکر کائنات کی ابتدا سے لیکر قیامت تک کے حقائق و حالات بیان کرنا، ہر سائل کے سوال کا جواب دینا، صرف اور صرف تاجدار کائنات کے علم معتبر ہی کا خاصہ ہے۔ اُس عالم کائنات نے تو ہم غلاموں کی حوصلہ افزائی، ہمیں تواضع اور انکساری کا درس دینے اور نتیجہ علم سمجھانے کے لئے اپنے غلاموں، ادنی شاگردوں اور اپنی صحبت مقدسہ سے فیض یاب ہونے والوں سے فرمایا کہ اپنے دنیاوی امور میں تم مجھ سے بہتر جانتے ہو۔ قربان جائیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تواضع و انکساری پر کہ آپ کے دامن اطہر میں عجز و انکساری کے پھول کھلتے تھے۔ آپ کے ہر ہر عمل سے اظہار بندگی ہوتا تھا۔ ہر لفظ بارگاہ خداوندی میں تشکر و امتنان کا مظہر بن جاتا تھا تو پھر عام انسانوں بلکہ پوری کائنات کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے۔ آج کا انسان اپنے کس علم پر اتراتا ہے، کس علم کے غرور سے اس کی بھویں تن جاتی ہیں اور وہ اپنے محدود، بہت ہی محدود علم کے بل پوتے پر رعونت اور تکبر کا پیکر بن جاتا ہے۔ لہذا عجز و انکسار ی اور اپنے دامن کے خالی ہونے کا احساس نتیجہ علم کے طور پر انسان کی زندگی میں ظاہر ہونا چاہئے۔
جب بارگاہ خداوندی سے انسان کو علم عطا ہوتا ہے تو وہ احساس ممنونیت کے پانیوں میں ڈوب جاتا ہے۔ اس کی جبین اپنے مالک کے حضور جھک جاتی ہے اور وہ سجدہء شکر بجا لاکر اپنی بندگی کا اظہار کرتی ہے۔ اگر علم اور عبادت کے زعم میں وہ حکم عدولی پر اتر آئے اور اس کی گردن اکڑجائے تو وہ شیطان مردود بن جاتا ہے، اس لئے کہ جھکنا ہی بلندی کی پہچان ہے۔ جب انسان اپنے اللہ کے سامنے جھکتا ہے تو پھر اللہ رب العزت اسے عزت اور بلندی عطا فرماتے ہیں۔ مخلوق خدا اس کی طرف علم کی پیاس بجھانے کے لئے کشاں کشاں چلی آتی ہے۔ انسان اپنے آپ کو جھکاتا چلا جاتا ہے اور اپنے علم کی پیاس بڑھاتا چلا جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ اسے بلند کرتا چلا جاتا ہے۔
حکیم الامت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا تھا کہ :
مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار ہوتا ہے
خلاصہ بحث یہ ہوا کہ علم کا نتیجہ تواضع، انکساری، عجز اور اظہار لا علمی کی صورت میں بندے کی شخصیت پر مرتب ہوتا ہے۔ عجز و انکساری کے جذبات اور ممنونیت کا احساس تشکر کے آنسو بن کر اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑتے ہیں۔ علم اور تکبر کا باہمی کوئی تعلق (Relation) نہیں۔ جس دل میں تکبر آجائے وہاں علم کا بسیرا نہیں ہوتا۔ جہاں غرور اور نخوت کا ایک ذرہ بھی موجود ہو علم وہاں سے کوچ کر جاتا ہے۔ اس کے برعکس علم کو جہاں عاجزی اور انکساری نظر آتی ہے اسے وہاں رہنا عزیز ہوتا ہے۔ وہاں اسے راحت اور سکون ملتا ہے۔
ذریعہ علم اپنے عنوان کے لحاظ سے ایک وسیع تر بحث ہے اور اس کے ہر ہر پہلو پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ چونکہ سورہ علق کی روشنی میں اسلام کے تصور علم کا بیان ہورہا ہے اس لئے ہم اپنے موضوع کو سورہ علق کے مضامین تک ہی محدود رکھیں گے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِO
جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایا۔
(العلق، 96 : 4)
علم کی روشنی قلم کی نوک سے پھوٹتی ہے۔ حصول علم کی راہ میں قلم سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ یوں تو حصول علم کے بہت سے دیگر ذرائع بھی ہیں لیکن اللہ رب العزت نے یہاں ان ذرائع کو بیان نہیں کیا بلکہ اس ذریعہ کو بیان کیا ہے جس سے روشنی کے اس سفر کا آغاز ہوا یعنی قلم کا بیان کیا جو علم کے حصول کا موثر اور معتبر ذریعہ ہے۔ چنانچہ علم کے سارے ذرائع اور راستوں کا اشارہ قلم کی طرف بطور نمائندگی کیا گیا ہے۔ قلم کے بیان سے حصول علم کے دیگر ذرائع کی نفی نہیں کی گئی البتہ قلم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے کہ فروغ علم کی تحریک میں قلم کن کن حوالوں سے اپنی شاندار خدمات پیش کرتے ہوئے کون کون سے کارہائے نمایاں سر انجام دے سکتا ہے۔ یہاں اس نکتے کی وضاحت ضروری ہے کہ دوسرے تمام ذرائع سے جو علم حاصل ہوتا ہے اسے محفوظ کرنے اور آئندہ نسلوں تک منتقل کرنے کا بہترین ذریعہ بھی یہی قلم ہے لہذا دیگر ذرائع علم کا اجمالاً ذکر بھی فائدہ سے خالی نہ ہوگا۔ انسان کو علم بہم پہنچانے والے درج ذیل ذرائع ہیں :
قوت لامسہ، باصرہ، سامعہ، ذائقہ اور شامہ یعنی انسان چھونے، دیکھنے، سننے، چکھنے اور سونگھنے سے علم حاصل کرتا ہے۔ حصول علم کے ضمن میں ان ذرائع کی افادیت سے انکار ممکن نہیں۔ یہ وہ پانچ ذرائع علم ہیں جن کی بدولت انسان اپنے گرد و پیش سے ادراک کی سطح پر اپنا تعلق قائم کرتا ہے۔ یہ حواس مادی اور طبعی دنیا (Material and Physical World) میں حقیقتوں کا صرف ادراک (Perception) کرنے تک محدود ہیں۔ ان سے علم کا خام مواد (Raw Material) حاصل ہوتا ہے۔ جو چیز ان کے دائرہ کار سے باہر ہو اس کا ادراک تمام حواس مل کر بھی نہیں کرسکتے۔ علاوہ ازیں یہ حواس شعور، قوت تمیز اور قوت فیصلہ سے بھی محروم ہیں، اس لئے ان پر کلیتاً انحصار نہیں کیا جاسکتا۔
ظاہری حواس خمسہ کے ادراک کو اعتبار کی سند عقل عطا کرتی ہے۔ حواس خمسہ ظاہری سے حاصل ہونے والے خام مواد کو مرتب اور محفوظ شکل میں علم (Knowledge) کا درجہ عقل ہی دیتی ہے۔ عقل کے پانچ گوشے یا حصے ہوتے ہیں جنہیں حواس خمسہ باطنی کہتے ہیں اور وہ درج ذیل ہیں :
ان تمام حصوں میں باہمی نظم و ضبط اور افہام و تفہیم مثالی ہوتا ہے۔ گویا یہ عقل کی زنجیر کی پانچ مضبوط کڑیاں ہیں جو حواس خمسہ ظاہری سے حاصل ہونے والے ادراک کو مربوط شکل میں پیش کرتی ہیں، یعنی یہ حواس خمسہ باطنی ادراک (Perception) کو علم (Conception) کی صورت دیتے ہیں۔ ان حقائق کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ حواس خمسہ ظاہری عقل کے محتاج ہیں اور عقل بھی حواس خمسہ ظاہری کی محتاج ہے۔ گویا دونوں گاڑی کے دو پہیئے ہیں، دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر ایک پہیہ بھی متحرک نہ رہے تو علم و آگہی اور شعور کے سفر کا جاری رہنا ممکن نہ رہے۔
اس کائنات میں بہت ساری حقیقتیں اور علوم ایسے ہیں جو حواس خمسہ ظاہری اور عقل کے حیطہ ادراک میں کبھی نہیں آتے۔ اللہ رب العزت نے انسان کو ذریعہ علم کے طور پر ایک اور باطنی سرچشمہ بھی عطا کیا ہے جسے وجدان کہتے ہیں۔ وجدان حصول علم کا ایک ایسا باطنی ذریعہ ہے جس کے ذریعے انسان غیبی حقائق اور مستقبل میں ظہور پذیر ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کرتا ہے۔ چشم بصیرت اور چشم روحانیت دونوں مل کر وجدان کا دروازہ کھولتے ہیں۔ وجدان کا دائرہ بھی نفسی اور طبعی کائنات (Psychic and Physical World) تک ہے۔ وجدان کے بھی پانچ گوشے ہوتے ہیں جنہیں لطائف خمسہ کہتے ہیں، یعنی :
وجدان کے لئے تزکیہ نفس کی مختلف ریاضتوں اور مشقتوں کے ذریعہ نفسانی حجابات کو مرتفع کرنا پڑتا ہے گویا تزکیہ نفس وجدان کو مقامات بلند عطا کرتا ہے اور اس سے انسان کی دل کی آنکھ بینا ہوجاتی ہے، حقائق پر سے پردے اٹھنا شروع ہوجاتے ہیں اور وجدان کشف کی صورت میں ایک موثر ذریعہ علم کے طور پر منصہ شہود پر آجاتا ہے یہ کیفیت کسی مرد حق (کامل)کی صحبت سے ملتی ہے، لیکن انسانی وجدان کی پرواز بھی نفسی اور طبیعی کائنات تک ہی محدود ہے۔ یہاں پہنچ کر انسان کے تمام ذرائع علم ختم ہوجاتے ہیں۔
جہاں انسان کے تمام ذرائع علم کی حد ختم ہوتی ہے وہاں سے وحی الہی کی سرحد کا آغاز ہوتا ہے۔ حواس خمسہ ظاہری، عقل اور وجدان سے ماورا تمام حقائق کا علم صرف وحی الہی کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ یہ عطائے پروردگار ہے اور صرف اس کے نبیوں اور رسولوں کے لئے مخصوص ہے۔ عام آدمی اس ذریعہ علم تک رسائی کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ اس ذریعہ علم کا عَلَم انبیا کے سروں پر سایہ فگن ہوتا ہے۔ وحی الہی کا دروازہ نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بند ہوگیا اور قیامت تک یہ دروازہ کسی پر نہیں کھلے گا۔ اب ہمیشہ کے لئے اس ذریعہ سے علم و عرفان کا نور حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت اطہر ہی سے لیا جائے گا۔ چنانچہ ایسے تمام حقائق جو چشم عالم سے مخفی تھے، جن کی جستجو انسان ازل سے کرتا آیا ہے اور جس کی حتمی معرفت سے انسان کے حواس عقل اور وجدان سب قاصر ہیں، ان تمام حجابات کو اللہ تعالیٰ نے انوار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اٹھا دیا اور پیکر نبوت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وسیلہ جلیلہ سے قدرت نے قیامت تک کے لئے انسانوں کو وہ سرچشمہ علم عطا کردیا جس پر علم کی ہر انتہا کو ختم کردیا گیا، جسے شہر علم کہا گیا کہ علم کے سارے راستے اس شہر علم کی دہلیز پر آکر ختم ہوجاتے ہیں۔ علومِ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر انسانی علم کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کا تصور بھی محال ہے۔
سورہ علق کی روشنی میں اسلام کے تصور علم، مقصد علم، نصاب علم، ذریعہ علم اور نتیجہ علم پر اجمالاً بحث کے بعد اگر ذہن انسانی میں یہ سوال پیدا ہو کہ خدائے بزرگ و برتر نے انسان کو کیا کچھ سکھایا ہے اور اسے کن کن اشیا کا علم عطا کیا ہے؟ یا یہ کہ قرآن نے علم کی کوئی حد متعین کی ہے یا نہیں؟ تو سورہ علق کی پانچویں آیت میں ان سوالات کا مدلل جواب موجود ہے۔ فرمایا :
عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَالَمْ يَعْلَمْ O
جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔
(العلق، 96 : 5)
گویا قرآن نے انسان کے علم کی کوئی حدمقرر نہیں کی۔ اللہ رب العزت نے اپنے بندوں کو وہ تمام کچھ سکھا دیا جس کا اس سے قبل انہیں ادراک نہیں تھا۔ یعنی کائنات کی تمام اشیاء اور کائنات کی جن حقیقتوں کے بارے میں انسان کچھ نہیں جانتا تھا خدائے علیم و خبیر نے انسان کو ان اشیاء اور ان حقیقتوں سے آگاہ کیا۔ ذہن انسانی میں شعور و آگہی کے ان گنت چراغ روشن کئے تاکہ وہ خیر و شر میں تمیز کر سکے۔ اللہ رب العزت انسان کو ہر ہر پیشے کا علم عطا کرتا ہے۔ اس کے بے حد علم کی بارش تو ہر انسان کے لئے عام ہے لیکن ہر انسان اپنے اپنے ظرف اور اپنے اپنے سامان طلب کے مطابق بارگاہ خداوندی سے نوازا جاتا ہے۔ یہ توانسان کی اپنی ہمت اور کوشش ہے کہ وہ کہاں تک رحمت خداوندی سے اکتساب شعور کرتا ہے۔ علم کے سمندر سے کہاں تک اپنی پیاس بجھاتا ہے۔ اس نے تو میدان علم کی کوئی حد متعین نہیں فرمائی۔ علم کے سمندر کی وسعت کا اندازہ اس ارشاد خداوندی سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ فوق کل ذی علم علیم یعنی ہر علم والے کے اوپر ایک اور علم والا ہے۔ یہ کہہ کر بات ہی ختم کردی کہ انسان حصول علم کی شاہراہ پر جہاں تک جانا چاہے جاسکتا ہے۔ علم کے اس وسیع و عریض سمندر سے فیض یاب ہوسکتا ہے اس پر کوئی قدغن نہیں لگائی گئی۔ جس طرح اللہ کی اپنی ربوبیت و اُلوہیت میں اور رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی رسالت میں کوئی حد نہیں اسی طرح علم کی بھی کوئی حد نہیں۔ علم کی چادر کائنات کی ہر شے پر محیط ہے۔ انسان کو جہاں تک رسائی حاصل ہوتی ہے وہ حصول علم کی شاہراہ پر اتنا ہی آگے بڑھتا ہے اور جب اپنے ظرف کے حساب سے اپنے حاصل کردہ علم کی انتہا تک پہنچتا ہے تو وہ نقطہ اس کے لئے مقام حیرت بن جاتا ہے اور حیرت کا کمال خاموشی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :
اگر خموش رہوں میں تو تو ہی سب کچھ ہے
جو کچھ کہا تو ترا حسن ہو گیا محدود
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved