84 / 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَتَی وَجَبَتْ لَکَ النُّبُوَّةُ قَالَ : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ : رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ
وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
84.90 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 585، الرقم : 3609، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 66، 5 / 59، 379، الرقم : 23620، والحاکم في المستدرک، 2 / 665.666، الرقم : 4209.4210، وابن أبی شيبة فی المصنف، 7 / 369، الرقم : 36553، وأبو سعد النيشابوري في شرف المصطفی صلی الله عليه وآله وسلم، 1 / 286، الرقم : 75، والطبراني في المعجم الأوسط، 4 / 272، الرقم : 4175، وفی المعجم الکبير، 12 / 92، 119، الرقم : 12571، 12646، 20 / 353، الرقم : 833، وأبو نعيم فی حلية الأولياء، 7 / 122، 9 / 53، وفي دلائل النبوة، 1 / 17، والبخاري في التاريخ الکبير، 7 / 374، الرقم : 1606، والخلال في السنة، 1 / 188، الرقم : 200، إسناده صحيح، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 179، الرقم : 411، إسناده صحيح، والشيباني في الآحاد والمثاني، 5 / 347، الرقم : 2918، وعبد اﷲ بن أحمد في السنة، 2 / 398، الرقم : 864، إسناده صحيح، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 148، 7 / 60، وابن حبان في الثقات، 1 / 47، وابن قانع في معجم الصحابة، 2 / 127، الرقم : 591، 3 / 129، 1103، وابن خياط في الطبقات، 1 / 59، 125، واللالکائي في اعتقاد أهل السنة، 4 / 753، الرقم : 1403، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 9 / 142.143، الرقم : 123.124، وأبو المحاسن في معتصر المختصر، 1 / 10، وفي الإکمال، 1 / 428، الرقم : 898، والديلمي في مسند الفردوس، 3 / 284، الرقم : 4845، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 26 / 382، 45 / 488.489، والخطيب البغدادی في تاريخ بغداد، 3 / 70، الرقم : 1032، 5 / 82، الرقم : 2472، 10 / 146، الرقم : 5292، والقزويني في التدوين في أخبار قزوين، 2 / 244، والعسقلانی في تهذيب التهذيب، 5 / 147، الرقم : 290، وفي الإصابة، 6 / 239، وفي تعجيل المنفعة، 1 / 542، الرقم : 1518، وابن عبد البر في الاستيعاب، 4 / 1488، الرقم : 2582، والذهبي في سير أعلام النبلاء، 7 / 384، 11 / 110، وقال : هذا حديث صالح السند، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 307، 320.321، والجرجانی في تاريخ جرجان، 1 / 392، الرقم : 653، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 7.8، 18، وفي الحاوي للفتاوی، 2 / 100، والقسطلاني في المواهب اللدنية، 1 / 60، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 223، وقال : رواه الطبراني والبزار، وذکره الألباني في سلسلة الأحاديث الصحيحة، 4 / 471، الرقم : 1856.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کے لئے نبوت کب واجب ہوئی؟ حضورنبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جبکہ حضرت آدم عليہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی (یعنی روح اور جسم کا باہمی تعلق بھی ابھی قائم نہ ہوا تھا)۔‘‘
اسے امام ترمذی اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے اور امام ہیثمی نے فرمایا کہ اسے امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحيح حديث کے رجال ہیں۔
85 / 2. وفي رواية : عَنْ مَيْسَرَةَ الْفَجْرِص قَالَ : قُلْتُ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَتَی کُنْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ سَعْدٍ وَالْبُخَارِيُّ
فِي الْکَبِيْرِ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
’’حضرت میسرہ فجر رضي اﷲ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے پوچھا : (یا رسول اللہ!) آپ کب نبوت سے سرفراز کیے گئے؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب حضرت آدم عليہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور مٹی کے مرحلہ میں تھی۔‘‘
اسے امام حاکم، طبرانی، ابوسعد اور بخاری نے ’’التاريخ الکبير’’ میں روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حديث صحيح الاسناد ہے۔
86 / 3. وفي رواية : عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : قِيْلَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَتَی کُتِبْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ وَابْنُ
أَبِي عَاصِمٍ.
إِسْنَادُهُ صَحِيْحٌ وَرِجَالُهُ کُلُّهُمْ ثِقَاتٌ رِجَالُ
الصَّحِيْحِ.
وَقَالَ الذَّهَبِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ صَالِحُ السَّنَدِ.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : (یا رسول اللہ!) آپ کے لئے کب نبوت فرض کی گئی؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا جبکہ) حضرت آدم عليہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور مٹی کے مرحلہ میں تھی۔‘‘
اسے امام احمد، طبرانی اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے الفاظ طبرانی کے ہیں نیز اس حديث کی سند صحيح اور تمام کے تمام رجال ثقات اور صحيح حديث کے رجال ہیں۔ امام ذہبی نے بھی فرمایا کہ یہ حديث صالح السند ہے۔
87 / 4. وفي رواية عنه : قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَتَی أُخِذَ مِيْثَاقُکَ؟ قَالَ : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
’’اور ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ سے میثاق (یعنی وعدہ نبوت) کب لیا گیا؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جبکہ حضرت آدم عليہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔‘‘ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
88 / 5. وفي رواية : عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ شَقِيْقٍ عَنْ رَجُلٍ، قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَتَی جُعِلْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ : وَآدَمَ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
’’اور ایک روایت میں حضرت عبد اللہ بن شقیق رضي اﷲ عنہ نے ایک صحابی سے روایت کی کہ انہوں نے بیان کیا کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کب نبی بنائے گئے؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جبکہ حضرت آدم عليہ السلام کی تخلیق ابھی روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھی۔‘‘
اسے امام احمد نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحيح حديث کے رجال ہیں۔
89 / 6. وفي رواية : عَنْ عُمَرَ رضي اﷲ عنه قاَلَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَتَی جُعِلْتَ نَبِيًّا؟ قَالَ : وَآدَمُ مُنْجَدِلٌ فِي الطِّيْنِ. رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ کَمَا ذَکَرَ السَّيُوْطِيُّ وَابْنُ کَثِيْرٍ.
’’ایک اور روایت میں حضرت عمر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ کو کب نبی بنایا گیا؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (میں اس وقت بھی نبی تھا) جب حضرت آدم عليہ السلام (کا جسم ابھی) مٹی میں گندھا ہوا تھا۔‘‘
امام سیوطی اور ابن کثير نے فرمایا کہ اسے امام ابونعيم نے روایت کیا ہے۔
90 / 7. وفي رواية : عَنْ عَامِرٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَجُلٌ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : مَتَی اسْتُنْبِئْتَ؟ فَقَالَ : وَآدَمُ بَيْنَ الرُّوْحِ وَالْجَسَدِ حِيْنَ أُخِذَ مِنِّيَ الْمِيْثَاقُ.
رَوَاهُ ابْنُ سَعْدٍ.
’’اور ایک روایت میں حضرت عامر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا : (یا رسول اللہ!) آپ کب شرفِ نبوت سے سرفراز کیے گئے؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب مجھ سے میثاقِ نبوت لیا گیا تھا اس وقت حضرت آدم عليہ السلام روح اور جسم کے درمیانی مرحلہ میں تھے۔‘‘
اسے امام ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
91 / 8. عَنْ أَبِي مَرْيَمَ (سَنَانَ)، قَالَ : أَقْبَلَ أَعْرَابِيٌّ حَتَّی أَتَی رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ قَاعِدٌ وَعِنْدَهُ خَلْقٌ مِنَ النَّاسِ، فَقَالَ : أَلاَ تُعْطِيْنِي شَيْئًا أَتَعَلَّمُهُ وَأَحْمِلُهُ وَيَنْفَعُنِي وَلَا يَضُرُّکَ؟ فَقَالَ النَّاسُ : مَهْ، اِجْلِسْ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : دَعَوْهُ، فَإِنَّمَا يَسْأَلُ الرَّجُلُ لِيَعْلَمَ، قَالَ : فَأَفْرَجُوْا لَهُ، حَتَّی جَلَسَ، قَالَ : أَيُّ شَيئٍ کَانَ أَوَّلَ أَمْرِ نُبُوَّتِکَ؟ قَالَ : أَخَذَ اﷲُ مِنِّي الْمِيْثَاقَ، کَمَا أَخَذَ مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ. ثُمَّ تَلاَ : {وَاِذْ اَخَذْنَا مِنَ النَّبِيِّيْنَ مِيْثَاقَهُمْ وَمِنْکَ وَمِنْ نُوْحٍ وَإِبْرَاهِيْمَ وَمُوْسَی وَعِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ وَاَخَذْنَا مِنْهُمْ مِيْثَاقًا غَلِيْظًا} الأحزاب، 33 : 7 وَبَشَّرَ بِيَ الْمَسِيْحُ بْنُ مَرْيَمَ، وَرَأَتْ أُمُّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي مَنَامِهَا أَنَّهُ خَرَجَ مِنْ بَيْنَ رِجْلَيْهَا سِرَاجٌ أَضَاءَ تْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالشَّيْبَانِيُّ.
91 : أخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 22 / 333، الرقم : 835، وفي مسند الشاميين، 2 / 98، الرقم : 984، والشيباني في الأحاد والمثاني، 4 / 397، الرقم : 2446، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 8، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 224، وابن کثير في البداية والنهاية، 2 / 323.
’’حضرت ابو مریم (سنان) رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور آپ کے پاس بہت سے لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ تو اس نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) کیا آپ مجھے کوئی ایسی شے نہیں دیں گے کہ میں جس سے سیکھوں اور اسے سنبھالے رکھوں اور جو مجھے فائدہ پہنچائے اور آپ کو کوئی نقصان نہ دے؟ تو لوگوں نے کہا : رک جاؤ، بیٹھ جاؤ، تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اسے چھوڑ دو، بے شک جب کوئی شخص کسی شے کے بارے میں سوال کرتا ہے تو اس لئے کرتا ہے کہ اسے اس شے کا علم ہو جائے، فرمایا : اس کے لئے (بیٹھنے کی) جگہ بناؤ، یہاں تک کہ وہ بیٹھ گیا۔ اس نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ کی علاماتِ نبوت میں سے پہلی چیز کیا تھی؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھ سے میثاق (عہد) لیا جیسا کہ دیگر انبیاء کرام عليہم السلام سے ان کا میثاق لیا۔ پھر آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے یہ آیت مبارکہ پڑھی : ’’ اور (اے حبیب! یاد کیجئے) جب ہم نے انبیاء سے اُن (کی تبلیغِ رسالت) کا عہد لیا اور (خصوصاً) آپ سے اور نوح سے اور ابراہیم سے اور عیسی بن مریم (عليہ السلام ) سے اور ہم نے اُن سے نہایت پختہ عہد لیا۔‘‘ اور عیسیٰ بن مریم عليہ السلام نے میری بشارت دی اور رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی والدہ محترمہ نے اپنے خواب میں دیکھا (کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی ولادتِ مبارکہ کے وقت) اُن کے بدن اطہر سے ایک ایسا چراغ روشن ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔‘‘
اسے امام طبرانی اور شیبانی نے روایت کیا ہے۔
92 / 9. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ السُّلَمِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنِّي عَبْدُ اﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ وَسَأُنَبِّئُکُمْ بِتَأْوِيْلِ ذَلِکَ، دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، وَبِشَارَةُ عِيْسَی قَوْمَهُ، وَرُؤْيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ أَنَّهُ خَرَجَ مِنْهَا نُوْرٌ أَضَاءَ تْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ، وَکَذَلِکَ تَرَی أُمَّهَاتُ النَّبِيِّيْنَ صلوات اﷲ عليهم أجمعين.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
92 : أخرجه أحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 127.128، الرقم : 17190، 17203، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4175، وأبونعيم في حلية الأولياء، 6 / 90، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 1 / 168، والطبری في جامع البيان، 28 / 87، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، 4 / 361، والسيوطي في الخصائص الکبری، 1 / 7، وفي الدر المنثور، 1 / 334.
’’حضرت عرباض بن ساریہ سلمی رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں، لوحِ محفوظ میں ہی خاتم الانبیاء ہوں، درآں حالیکہ حضرت آدم عليہ السلام اس وقت مٹی میں گندھے ہوئے تھے اور میں عنقریب تمھیں اس کی تاویل بتاؤں گا، میں اپنے والد حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا، حضرت عیسیٰ عليہ السلام کی اپنی قوم کو دی گئی بشارت اور اپنی والدہ ماجدہ کا وہ خواب ہوں جس میں انہوں نے دیکھا کہ ان کے بدن سے ایک ایسا نور نکلا ہے جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے اور اسی طرح انبیائے کرام کی مائیں (مبارک خواب) دیکھا کرتی ہیں۔‘‘
اس حديث کو امام احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حديث صحيح الاسناد ہے۔
93 / 10. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي عِنْدَ اﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ تَأْوِيْلَ ذَلِکَ : دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، دَعَا : {وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ} ]البقرة، 2 : 129[، وَبِشَارَةُ عِيْسَی بْنِ مَرْيَمَ قَوْلُهُ : {وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْم بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ}، الصف، 61 : 6. وَرُؤْيَا أُمِّي رَأَتْ فِي مَنَامِهَا أَنَّهَا وَضَعَتْ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيَُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ.
93 : أخرجه ابن حبان فی الصحيح، 14 / 312، الرقم : 6404، والطبرانی في المعجم الکبير، 18 / 253، الرقم : 631، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 40، وفي دلائل النبوة، 1 / 17، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 149، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 583، والطبري في جامع البيان، 6 / 583، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، وفي البداية والنهاية، 2 / 321، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 512، الرقم : 2093، وفي مجمع الزوائد، 8 / 223، وقال : واحد أسانيد أحمد رجاله رجال الصحيح غير سعيد بن سويد وقد وثّقه ابن حبان.
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جبکہ حضرت آدم عليہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ جب میرے جدِ امجد حضرت ابراہیم عليہ السلام نے دعا کی : ’’اے ہمارے رب! ان میں، انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) مبعوث فرما۔‘‘ اور حضرت عیسی بن مریم عليہ السلام کی بشارت کے بارے میں بھی جبکہ انہوں نے کہا : ’’اور اُس رسولِ (معظم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کی (آمد آمد کی) بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘ اور میری والدہ محترمہ کے خواب کے بارے میں جبکہ انھوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا کہ انہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔‘‘
اس حديث کو امام ابن حبان، طبرانی، ابونعيم، حاکم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
اس حديث کو امام ابو نعيم، ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
94 / 11. عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، أَنَّهُمْ قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَخْبِرْنَا عَنْ نَفْسِکَ؟ قَالَ : نَعَمْ، أَنَا، دَعْوَةُ إِبْرَاهِيْمَ، وَبَشَّرَ بِي عِيْسَی بْنُ مَرْيَمَ، وَرَأَتْ أُمِّي حِيْنَ وَضَعَتْنِي خَرَجَ مِنْهَا نُوْرٌ أَضَاءَتْ لَهُ قُصُوْرُ الشَّامِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ
عَسَاکِرَ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ،
وَأَقَرَّهُ الذَّهَبِيُّ.
94 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات، 1 / 150، والبيهقي في دلائل النبوة، 1 / 83، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 1 / 170، 3 / 393، والقرطبي في الجامع لأحکام القرآن، 2 / 131، والطبري في جامع البيان، 1 / 556، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 361، والسمرقندي في تفسيره، 3 / 421، والطبري في تاريخ الأمم والملوک، 1 / 458، وابن إسحاق في السيرة النبوية، 1 / 28، وابن هشام في السيرة النبوية، 1 / 302، والحلبي في السيرة الحلبية، 1 / 77.
’’حضرت خالد بن معدان حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے روایت کرتے ہیں کہ صحابہ کرام نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہمیں اپنی ذات کی (حقیقت ) کے بارے میں بتائیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہاں، میں حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا ہوں اور حضرت عیسیٰ بن مریم عليہ السلام نے میری ہی بشارت دی تھی اور میری ولادت کے وقت میری والدہ محترمہ نے اپنے بدن سے ایسا نور نکلتے ہوئے دیکھا جس سے ان پر شام کے محلات تک روشن ہو گئے تھے۔‘‘
اس حديث کو امام حاکم، ابن سعد، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ اس حديث کی سند صحيح ہے اور امام ذہبی نے ان کی تائید کی ہے۔
95 / 12. عَنْ أَبِي مُوْسَی الأَشْعَرِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : خَرَجَ أَبُوْ طَالِبٍ إِلَی الشَّامِ، وَخَرَجَ مَعَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي أَشْيَاخٍ مِنْ قُرَيْشٍ، فَلَمَّا أَشْرَفُوْا عَلَی الرَّاهِبِ هَبَطُوْا، فَحَلُّوْا رِحَالَهُمْ، فَخَرَجَ إِلَيْهِمُ الرَّاهِبُ، وَکَانُوْا قَبْلَ ذَلِکَ يَمُرُّوْنَ بِهِ فَـلَا يَخْرُجُ إِلَيْهِمْ وَلَا يَلْتَفِتُ، قَالَ : فَهُمْ يَحُلُّوْنَ رِحَالَهُمْ، فَجَعَلَ يَتَخَلَّلُهُمُ الرَّاهِبُ، حَتَّی جَاءَ فَأَخَذَ بِيَدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ : هَذَا سَيِّدُ الْعَالَمِيْنَ، هَذَا رَسُوْلُ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ، يَبْعَثُهُ اﷲُ رَحْمَةً لِّلْعَالَمِيْنَ، فَقَالَ لَهُ أَشْيَاخٌ مِنْ قُرَيْشٍ : مَا عِلْمُکَ؟ فَقَالَ : إِنَّکُمْ حِيْنَ أَشْرَفْتُمْ مِنَ الْعَقَبَةِ لَمْ يَبْقَ شَجَرٌ وَلَا حَجَرٌ إِلَّا خَرَّ سَاجِدًا، وَلَا يَسْجُدَانِ إِلَّا لِنَبِيٍّ، وَإِنِّي أَعْرِفُهُ بِخَاتَمِ النُّبُوَّةِ أَسْفَلَ مِنْ غُضْرُوْفِ کَتِفِهِ مِثْلَ التُّفَاحَةِ، ثُمَّ رَجَعَ فَصَنَعَ لَهُمْ طَعَامًا، فَلَمَّا أَتَاهُمْ بِهِ، وَکَانَ هُوَ فِي رِعْيَةِ الإِْبِلِ، قَالَ : أَرْسِلُوْا إِلَيْهِ، فَأَقْبَلَ وَعَلَيْهِ غَمَامَةٌ تُظِلُّهُ. فَلَمَّا دَنَا مِنَ الْقَوْمِ وَجَدَهُمْ قَدْ سَبَقُوْهُ إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ، فَلَمَّا جَلَسَ مَالَ فَيئُ الشَّجَرَةِ عَلَيْهِ، فَقَالَ : انْظُرُوْا إِلَی فَيئِ الشَّجَرَةِ مَالَ عَلَيْهِ. … قَالَ : أَنْشُدُکُمْ بِاﷲِ أَيُّکُمْ وَلِيُّهُ؟ قَالُوْا : أَبُوْطَالِبٍ. فَلَمْ يَزَلْ يُنَاشِدُهُ حَتَّی رَدَّهُ أَبُوْطَالِبٍ، وَبَعَثَ مَعَهُ أَبُوْبَکْرٍ بِلَالًا، وَزَوَّدَهُ الرَّاهِبُ مِنَ الْکَعْکِ وَالزَّيْتِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
95 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء فی نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 590، الرقم : 3620، وابن أبی شيبة فی المصنف، 6 / 317، الرقم : 31733، 36541، وابن حبان فی الثقات، 1 / 42، والأصبهانی فی دلائل النبوة، 1 / 45، الرقم : 19، والطبری فی تاريخ الأمم والملوک، 1 / 519.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو طالب روسائے قریش کے ہمراہ شام کے سفر پر روانہ ہوئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ جب راہب کے پاس پہنچے وہ سواریوں سے اترے اور انہوں نے اپنے کجاوے کھول دیئے۔ راہب ان کی طرف آنکلا حالانکہ (روسائے قریش) اس سے قبل بھی اس کے پاس سے گزرا کرتے تھے لیکن وہ ان کے پاس نہیں آتا تھا اور نہ ہی ان کی طرف کوئی توجہ کرتا تھا۔ حضرت ابو موسیٰ رضي اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ ابھی کجاوے کھول ہی رہے تھے کہ وہ راہب ان کے درمیان چلنے لگا یہاں تک کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے قریب پہنچا اور آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس پکڑ کر کہا : یہ تمام جہانوں کے سردار اور رب العالمین کے رسول ہیں۔ اﷲ تعالیٰ انہیں تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر مبعوث فرمائے گا۔ روسائے قریش نے اس سے پوچھا آپ کیسے جانتے ہیں؟ اس نے کہا : جب تم لوگ گھاٹی سے نمودار ہوئے تو کوئی پتھر اور درخت ایسا نہیں تھا جو سجدہ میں نہ گر پڑا ہو۔ اور وہ صرف نبی ہی کو سجدہ کرتے ہیں نیز میں انہیں مہرِ نبوت سے بھی پہچانتا ہوں جو ان کے کاندھے کی ہڈی کے نیچے سیب کی مثل ہے۔ پھر وہ واپس چلا گیا اور اس نے ان لوگوں کے لئے کھانا تیار کیا۔ جب وہ کھانا لے آیا تو آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم اونٹوں کی چراگاہ میں تھے۔ راہب نے کہا انہیں بلا لو۔ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم تشریف لائے تو آپ کے سرِ انور پر بادل سایہ فگن تھا اور جب آپ لوگوں کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ تمام لوگ (پہلے سے ہی) درخت کے سایہ میں پہنچ چکے ہیں لیکن جیسے ہی آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم تشریف فرما ہوئے تو سایہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی طرف جھک گیا۔ راہب نے کہا : درخت کے سائے کو دیکھو وہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم پر جھک گیا ہے۔ پھر راہب نے کہا : میں تمھیں خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ ان کا سر پرست کون ہے؟ انہوں نے کہا ابو طالب! چنانچہ وہ حضرت ابو طالب کو مسلسل واسطہ دیتا رہا یہاں تک کہ حضرت ابو طالب نے آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو واپس (مکہ مکرمہ) بھجوا دیا۔ حضرت ابو بکر رضي اﷲ عنہ نے آپ کے ہمراہ حضرت بلال رضي اﷲ عنہ کو بھیجا اور راہب نے آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ساتھ زادِ راہ کے طور پر کیک اور زیتون پیش کیا۔‘‘
اسے امام ترمذی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
96 / 13. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنهما قَالَ : أَوْحَی اﷲُ إِلَی عِيْسَی عليهم السلام يَا عِيْسَی، آمِنْ بِمُحَمَّدٍ وَأْمُرْ مَنْ أَدْرَکَهُ مِنْ أُمَّتِکَ أَنْ يُؤْمِنُوْا بِهِ فَلَوْلَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ آدَمَ وَلَولَا مُحَمَّدٌ مَا خَلَقْتُ الْجَنَّةَ وَلَا النَّارَ. وَلَقَدْ خَلَقْتُ الْعَرْشَ عَلَی الْمَاءِ فَاضْطَرَبَ فَکَتَبْتُ عَلَيْهِ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ فَسَکَنَ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ وَوَافَقَهُ الذَّهَبِيُّ.
96 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 671، الرقم : 4227، والخلال في السنة، 1 / 261، الرقم : 316، والذهبي في ميزان الاعتدال، 5 / 299، الرقم : 6336، والعسقلاني في لسان الميزان، 4 / 354، الرقم : 1040، وابن حيان في طبقات المحدثين بأصبهان، 3 / 287.
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ عليہ السلام پر وحی نازل فرمائی : اے عیسیٰ! حضرت محمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لے آؤ اور اپنی امت کو بھی حکم دو کہ جو بھی ان کا زمانہ پائے تو (ضرور) ان پر ایمان لائے (جان لو!) اگر محمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں حضرت آدم عليہ السلام کو بھی پیدا نہ کرتا۔ اور اگر محمد مصطفی ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) نہ ہوتے تو میں نہ جنت پیدا کرتا اور نہ دوزخ، جب میں نے پانی پر عرش بنایا تو اس میں لرزش پیدا ہو گئی، لہذا میں نے اس پر ’’لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مُحَمَّدٌ رَسُوْلُ اﷲِ‘‘ لکھ دیا تو وہ ٹھہر گیا۔‘‘
اس حديث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا : یہ حديث صحيح الاسناد ہے اور امام ذہبی نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔
97 / 14. عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ بِمَکَّةَ حَجَرًا کَانَ يُسَلِّمُ عَلَيَّ لَيَالِيَ بُعِثْتُ إِنِّي لَأَعْرِفُهُ الْآنَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
97 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في آيات إثبات نبوة النبي صلی الله عليه وآله وسلم وما قد خصه اﷲ ل، 5 / 592، الرقم : 3624، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 105، الرقم : 21043، وأبو يعلی في المسند، 13 / 459، الرقم : 7469، والطيالسي في المسند، 1 / 106، الرقم : 781، والطبراني في المعجم الکبير، 2 / 245، الرقم : 2028، والبيهقي في دلائل النبوة، 2 / 153، وابن حيان فی العظمة، 5 / 1710.
’’حضرت جابر بن سمرہ رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مکّہ مکرمہ میں ایک پتھر ہے جو مجھے بعثت کی راتوں میں سلام کیا کرتا تھا۔ میں اسے اب بھی پہچانتا ہوں۔‘‘
اس حديث کو امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے۔
98 / 15. عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَکَّةَ، فَخَرَجْنَا فِي بَعْضِ نَوَاحِيْهَا، فَمَا اسْتَقْبَلَهُ جَبَلٌ وَلَا شَجَرٌ إِلَّا وَهُوَ يَقُوْلُ : اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
98 : أخرجه الترمذي فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : (6)، 5 / 593، الرقم : 3626، والدارمی فی السنن، (4) باب : ما أکرم اﷲ به نبيه من إيمان الشجر به والبهائم والجن، 1 / 31، الرقم : 21، والحاکم فی المستدرک، 2 / 677، الرقم : 4238، والمقدسی فی الأحاديث المختارة، 2 / 134، الرقم : 502، والمنذری فی الترغيب والترهيب، 2 / 150، الرقم : 1880، والمزي فی تهذيب الکمال، 14 / 175، الرقم : 3103، والجرجانی فی تاريخ جرجان، 1 / 329، الرقم : 600.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں مکہ مکرمہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ ہم مکہ مکرمہ کی ایک طرف چلے تو جو پہاڑ اور درخت بھی آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے سامنے آتا (وہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے) عرض کرتا : {اَلسَّلَامُ عَلَيْکَ يَا رَسُوْلَ اﷲِ}.‘‘
اسے امام ترمذی، دارمی اور حاکم نے روایت کیا ہے، نیز امام ترمذی اور حاکم نے فرمایا کہ یہ حديث حسن اور صحيح الاسناد ہے۔
99 / 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ مَثَلِي وَمَثَلَ الْأَنْبِيَاءِ مِنْ قَبْلِي، کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بَيْتًا فَأَحْسَنَهُ وَأَجْمَلَهُ إِلَّا مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِيَةٍ فَجَعَلَ النَّاسُ يَطُوْفُوْنَ بِهِ وَيَعْجَبُوْنَ لَهُ وَيَقُوْلُوْنَ : هَلَّا وُضِعَتْ هَذِهِ اللَّبِنَةُ قَالَ : فَأَنَا اللَّبِنَةُ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وفي رواية : عَنْ جَابِرٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : فَأَنَا مَوْضِعُ الَّلبِنَةِ جِئْتُ فَخَتَمْتُ الْأَنْبِيَاءَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ.
وفي رواية : عَنْ أَبُيِّ ابْنِ کَعْبٍ رضي اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : وَأَنَا فِي النَّبِيِّيْنَ بِمَوْضِعِ تِلْکَ اللَّبِنَةِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
99 : أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : خَاتَم النَّبِيِّين صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1300، الرقم : 3341.3342، ومسلم فی الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : ذکر کونه صلی الله عليه وآله وسلم خاتم النَّبِيِّين، 4 / 1791، الرقم : 2286. 2287، والترمذي في السنن، کتاب المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في فضل النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 586، الرقم : 3613، والنسائی فی السنن الکبری، 6 / 436، الرقم : 11422، وأحمد بن حنبل فی المسند، 2 / 398، الرقم : 9156، 3 / 361، 5 / 136، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 324، الرقم : 31770، وابن حبان فی الصحيح، 14 / 315، الرقم : 6405، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 5، وفي شعب الإيمان، 2 / 178، الرقم : 1484.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری مثال اور گزشتہ انبیائے کرام کی مثال ایسی ہے، جیسے کسی نے ایک بہت خوبصورت مکان بنایا اور اسے خوب آراستہ کیا، لیکن ایک گوشہ میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی۔ لوگ آ کر اس مکان کو دیکھنے لگے اور اس پر تعجب کا اظہار کرتے ہوئے بولے : یہاں اینٹ کیوں نہیں رکھی گئی؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سو میں وہی اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں (یعنی میرے بعد بابِ نبوت بند ہو گیا ہے)۔‘‘ یہ حديث متفق علیہ ہے۔
’’حضرت جابر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اس اینٹ کی جگہ ہوں، میری آمد سے انبیاء کرام کی آمد کا سلسلہ ختم ہو گیا۔‘‘
اسے امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
’’اور حضرت ابی بن کعب رضي اﷲ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اور میں نبیوں میں اس اینٹ کی جگہ ہوں۔‘‘ اسے امام ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
100 / 2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِيَاءِ بِسِتٍّ : أُعْطِيْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَهُوْرًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً، وَخُتِمَ بِيَ النَّبِيُّوْنَ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ.
وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَي : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
100 : أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب : المساجد ومواضع الصلاة، 1 / 371، الرقم : 523، والترمذي في السنن، کتاب : السير عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء فی الغنيمة، 4 / 123، الرقم : 1553، وابن حبان في الصحيح، 6 / 87، الرقم : 2313، 14 / 311، الرقم : 6401، 6403، وأبو يعلی في المسند، 11 / 377، الرقم : 6491، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 / 12، الرقم : 506، وأبوعوانة في المسند، 1 / 330، الرقم : 1169، والبيهقي في السنن الکبری، 2 / 433، الرقم : 4063.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مجھے دیگر انبیاء پر چھ چیزوں کے باعث فضیلت دی گئی ہے۔ میں جوامع الکلم سے نوازا گیا ہوں اور رعب کے ساتھ میری مدد کی گئی ہے اور میرے لئے اموالِ غنیمت حلال کئے گئے ہیں اور میرے لئے (ساری) زمین پاک کر دی گئی ہے اور سجدہ گاہ بنا دی گئی ہے اور میں تمام مخلوق کی طرف بھیجا گیا ہوں اور میری آمد سے انبیاء کا سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔‘‘
اسے امام مسلم، ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن صحيح ہے۔
101 / 3. عَنْ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيْهِ رضي اﷲ عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي يُمْحَی بِيَ الْکُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي يُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی عَقِبِي، وَأَنَا الْعَاقِبُ، وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
101 : أخرجه البخاري فی الصحيح، کتاب : المناقب، باب : ما جاء فی أسماء رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، 3 / 1299، الرقم : 3339، وفی کتاب : التفسير، باب : تفسير سورة الصف، 4 / 1858، الرقم : 4614، ومسلم فی الصحيح، کتاب : الفضائل، باب : في أسمائه صلی الله عليه وآله وسلم، 4 / 828، الرقم : 2354، والترمذي في السنن، کتاب : الأدب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء في أسماء النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 5 / 135، الرقم : 2840، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ. والنسائی فی السنن الکبری، 6 / 489، الرقم : 11590، ومالک في الموطأ، کتاب : أسماء النبی صلی الله عليه وآله وسلم، باب : أسماء النبی صلی الله عليه وآله وسلم، 2 / 1004، وأحمد بن حنبل فی المسند، 4 / 80، 84، والدارمی فی السنن، 2 / 409، الرقم : 2775، وابن حبان فی الصحيح، 14 / 219، الرقم : 6313، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 4 / 44، الرقم : 3570، وفی المعجم الکبير، 2 / 120، الرقم : 1520.1529، وأبويعلی فی المسند، 13 / 388، الرقم : 7395، والبيهقی فی شعب الإيمان، 2 / 140، الرقم : 1397، وابن سعد فی الطبقات الکبری، 1 / 105، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 284.
’’حضرت جبیر بن معطم رضي اﷲ عنہ اپنے والد سے روایت فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں اور میں ماحی ہوں یعنی میرے ذریعہ کفر کو مٹا دیا جائے گا او رمیں حاشر ہوں، یعنی میرے بعد قیامت آ جائے گی اور حشر برپا ہو گا (اور کوئی نبی میرے اور قیامت کے درمیان نہ آئے گا) اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ شخص ہے جس کے بعد اور کوئی نبی نہ ہو۔‘‘
یہ حديث متفق علیہ ہے مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
102 / 4. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : کَانَتْ بَنُوْ إِسْرَائِيْلَ تَسُوْسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ، کُلَّمَا هَلَکَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي… الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
102 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : أحاديث الأنبياء، باب : ما ذکر عن بني إسرائيل، 3 / 1273، الرقم : 3268، ومسلم في الصحيح، کتاب : الإمارة، باب : وجوب الوفاء ببيعة الخلفاء الأول فالأول، 3 / 1471، الرقم : 1842، وابن ماجه في السنن، کتاب : الجهاد، باب : الوفاء بالبيعة، 2 / 958، الرقم : 2871، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 297، الرقم : 7947، وابن حبان في الصحيح، 10 / 418، الرقم : 4555، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 464، الرقم : 37260، وأبو يعلی في المسند، 11 / 75، الرقم : 6211، وأبو عوانة في المسند، 4 / 409، الرقم : 7126، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 144، الرقم : 16325.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : انبیاء کرام بنو اسرائیل پرحکمران ہوا کرتے تھے۔ ایک نبی کا وصال ہوتا تو دوسرا نبی اس کا خلیفہ ہوتا لیکن (یاد رکھو) میرے بعد ہرگز کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘ یہ حديث متفق علیہ ہے۔
103 / 5. عَنْ ثَوْبَانَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّهُ سَيَکُوْنُ فِي أُمَّتِي ثَـلَاثُوْنَ کَذَّابُوْنَ، کُلُّهُمْ يَزْعَمُ أَنهُ نَبِيٌّ، وَأَنـَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ نَحْوَهُ وَابْنُ مَاجَه.
وَقَالَ أَبُوْ عِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
103 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الفتن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ما جاء لا تقوم الساعة حتی يخرج کذّابون، 4 / 499، الرقم : 2219، وأبو داود في السنن، کتاب : الفتن والملاحم، باب : ذکر الفتن ودلائلها، 4 / 97، الرقم : 4252، وابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب : ما يکون من الفتن، 2 / 130، الرقم : 3952، وابن أبی شيبة في المصنف، 7 / 503، الرقم : 3565، والحاکم في المستدرک، 4 / 496، الرقم : 8390، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 200، الرقم : 397، والشيباني في الآحاد والمثانی، 1 / 332، الرقم : 456، 3 / 24، الرقم : 1309، والدانی في السنن الواردة فی الفتن، 4 / 861، الرقم : 442، 4 / 863، الرقم : 444.
’’حضرت ثوبان رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے، ہر ایک کا دعوی ہو گا کہ وہ نبی ہے۔ سن لو! میں آخری نبی ہوں۔ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘
اسے امام ترمذی، ابو داود اور اسی طرح امام ابن ماجہ نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن صحيح ہے۔
104 / 6. عَنْ إِسْمَاعِيْلَ قَالَ : قُلْتُ لِابْنِ أَبِي أَوْفَی : رَأَيْتَ إِبْرَاهِيْمَ ابْنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : مَاتَ صَغِيْرًا، وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَکُوْنَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صلی الله عليه وآله وسلم نَبِيٌّ عَاشَ ابْنُهُ، وَلَکِنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَه.
104 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : الأدب، باب : من سمی بأسماء الأنبياء، 5 / 2289، الرقم : 5841، وابن ماجه في السنن، کتاب : ما جاء فی الجنائز، باب : ما جاء فی الصلاة علی ابن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وذکر وفاته، 1 / 484، الرقم : 1510، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 / 368، الرقم : 6638، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 3 / 135، والزيلعي في تخریج الأحاديث والآثار، 3 / 115.
’’حضرت اسماعیل کا بیان ہے کہ میں نے حضرت ابن ابی اوفی رضي اﷲ عنہ سے عرض کیا کہ کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم کو دیکھا؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ چھوٹی عمر میں ہی وفات پا گئے تھے اگر اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہوتا کہ حضرت محمد صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی ہو سکتا ہے تو آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے صاحبزادے زندہ رہتے۔ لیکن آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ اسے امام بخاری اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
105 / 7. عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْ کَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَکَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِِيُّ وَ أَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ : هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
وفي رواية : عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ
رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَوْ کَانَ اﷲُ بَاعِثًا رَسُوْلًا بَعْدِي لَبَعَثَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ.
105 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : في مناقب عمر بن الخطاب ص، 5 / 619، الرقم : 3686، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 154، والحاکم في المستدرک، 3 / 92، الرقم : 4495، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 180، 298، الرقم : 475، 822، والروياني في المسند، 1 / 174، الرقم : 223، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 68.
’’حضرت عقبہ بن عامر رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن الخطاب ہوتا (لیکن جان لو میں آخری نبی ہوں۔‘‘
اس حديث کو امام ترمذی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔
اور امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن ہے اور امام حاکم نے بھی فرمایا کہ یہ حديث صحيح الاسناد ہے۔ ۔
اور ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’اگر اللہ تعالیٰ میرے بعد کسی کو نبی بنا کر بھیجنے والا ہوتا تو یقینا عمر بن الخطاب کو نبی بنا کر بھیجتا۔‘‘ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اسے امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
106 / 8. عَنْ سَعْدٍ رضي اﷲ عنه أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم خَرَجَ إِلَی تَبُوْکَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا رضي اﷲ عنه فَقَالَ : أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ قَالَ : أَلاَ تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی إِلاَّ أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ بَعْدِي.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
106 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : المغازی، باب : غزوة تبوک وهي غزوة العسرة، 4 / 1602، الرقم : 4154، 3 / 1359، الرقم : 3503، ومسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 4 / 1870، 171 الرقم : 2404، والترمذي في السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 5 / 640، 641، الرقم : 3730، 3731، وابن ماجه فی السنن، المقدمة، باب : فضل علي بن أبي طالب رضي اﷲ عنه، 1 / 42، 45، الرقم : 115، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 170، 173، 175، 177، 179، 182، 184، 185، 330، والطبراني في المعجم الکبير، 1 / 146، 148، الرقم : 328، 333.
’’حضرت سعد (بن ابی وقاص) رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم غزوہ تبوک کے لئے نکلے تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پیچھے (مدینہ منورہ میں) اپنا نائب مقرر فرما دیا۔ وہ عرض گزار ہوئے : (یا رسول اﷲ!) کیا آپ مجھے عورتوں اور بچوں کے پاس چھوڑ رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تمہاری مجھ سے وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون عليہ السلام کو حضرت موسیٰ عليہ السلام سے تھی، ماسوائے اس کے کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔‘‘ یہ حديث متفق علیہ ہے۔
107 / 9. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ قَالَ : خَلَّفَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ رضي اﷲ عنه فِي غَزْوَةِ تَبُوْکَ. فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ، أَ تُخَلِّفُنِي فِي النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی عليهما السلام؟ إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ مُسْلِمٍ.
107 : أخرجه البخاری فی الصحيح، کتاب : المغازی، باب : غزوة تبوک وهي غزوة العسرة، 4 / 1602، الرقم : 4154، ومسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل عثمان بن عفان ص، 4 / 1871، 1870، الرقم : 2404، والترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب علی بن أبی طالب ص، 5 / 638، الرقم : 3724، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 185، الرقم : 1608، وابن حبان في الصحيح، 15 / 370، الرقم : 6927، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 40.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت علی رضي اﷲ عنہ کو مدینہ منورہ میں اپنا قائم مقام بنایا حضرت علی رضي اﷲ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! کیاآپ مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ کر جا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ میرے ساتھ تمہاری وہی نسبت ہو جو حضرت ہارون عليہ السلام کی حضرت موسیٰ عليہ السلام سے تھی البتہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہو گا۔‘‘
یہ حديث متفق علیہ ہے اور مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
108 / 10. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ لَهُ وَقَدْ خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيْهِ. فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَائِ وَالصِّبْيَانِ؟ فَقَالَ لَهُ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَمَا تَرْضَی أَنْ تَکُوْنَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي… الحديث.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ.
108 : أخرجه مسلم فی الصحيح، کتاب : فضائل الصحابة، باب : من فضائل علی بن أبی طالب رضي اﷲ عنه، 4 / 1871، الرقم : 2404، والترمذی فی السنن، کتاب : المناقب عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : مناقب علی بن أبی طالب رضي اﷲ عنه، 5 / 638، الرقم : 3724.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا جب آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے بعض مغازی میں حضرت علی رضي اﷲ عنہ کو (اپنا قائم مقام بنا کر) پیچھے چھوڑ دیا، حضرت علی رضي اﷲ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے مجھے عورتوں اور بچوں میں پیچھے چھوڑ دیا ہے؟ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے حضرت علی رضي اﷲ عنہ سے فرمایا : کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لیے ایسے ہو جیسے موسیٰ عليہ السلام کیلئے ہارون علیہ السلام تھے، البتہ میرے بعد نبوت نہیں ہوگی۔‘‘
اس حديث کو امام مسلم اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔
109 / 11. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَدِمَ مُعَاوِيَةُ فِي بَعْضِ حَجَّاتِهِ فَدَخَلَ عَلَيْهِ سَعْدٌ فَذَکَرُوْا عَلِيًّا فَنَالَ مِنْهُ فَغَضِبَ سَعْدٌ وَقَالَ : تَقُوْلُ هَذَا لِرَجُلٍ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : مَنْ کُنْتُ مَوْلَاهُ فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ وَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُوْنَ مِنْ مُوْسَی إِلاَّ أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَسَمِعْتُهُ يَقُوْلُ : لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ الْيَوْمَ رَجُـلًا يُحِبُّ اﷲَ وَرَسُوْلَهُ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ.
109 : أخرجه ابن ماجه في السنن، المقدمة، باب : فضل علي بن أبي طالب، 1 / 45، الرقم : 121، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 108، الرقم : 8399، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 366، الرقم : 32078.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضي اﷲ عنہ حج کے لیے تشریف لائے حضرت سعد رضي اﷲ عنہ ان کے پاس گئے وہاں حضرت علی رضي اﷲ عنہ کا کچھ بے ادبی کے ساتھ ذکر ہوا جسے سن کر حضرت سعد رضي اﷲ عنہ غضب ناک ہو گئے اور فرمایا : تم اس شخص کے بارے میں گفتگو کرتے ہو جس کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا : میں جس کا ولی ہوں علی بھی اس کے ولی ہیں اور فرمایاتھا : تم میری جگہ پر اس طرح ہو جیسے ہارون عليہ السلام، موسیٰ عليہ السلام کی جگہ پر تھے مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں اور فرمایا : آج اس شخص کو عَلَم (جھنڈا) عطا کروں گا جو اﷲ اور اس کے رسول کو محبوب رکھتا ہے۔‘‘
اسے امام ابن ماجہ اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
110 / 12. عَنْ جَابِرٍ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَمُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ.
رَوَاهُ الدَّارِمِيُّ وَالطَّبَرَانِيُّ.
110 : أخرجه الدارمي فی السنن، باب : (8) ما أعطي النبي صلی الله عليه وآله وسلم من الفضل، 1 / 40، الرقم : 49، والطبرانی فی المعجم الأوسط، 1 / 61، الرقم : 170، والبيهقی فی کتاب الاعتقاد، 1 / 192، والهيثمی فی مجمع الزوائد، 8 / 254، والذهبی فی سير أعلام النبلاء، 10 / 223، والمناوی فی فيض القدير، 3 / 43.
’’حضرت جابر رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں رسولوں کا قائد ہوں اور (مجھے اس پر) فخر نہیں اور میں خاتم النبیین ہوں اور (مجھے اس پر بھی) کوئی فخر نہیں ہے۔ میں پہلا شفاعت کرنے والا ہوں اور میں ہی وہ پہلا (شخص) ہوں جس کی شفاعت قبول ہو گی ہے اور (مجھے اس پر بھی) کوئی فخر نہیں ہے۔‘‘
اسے امام دارمی اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
111 / 13. عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَنَا آخِرُ الْأَنْبِيَاءِ وَأَنْتُمْ آخِرُ الْأُمَمِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَالْحَاکِمُ وَابْنُ حِبَّانَ.
111 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : الفتن، باب فتنة الدجال وخروج عيسی بن مريم، 2 / 1359، الرقم : 4077، والحاکم في المستدرک، 4 / 580، الرقم : 8620، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 146، الرقم : 7644، والرويانی في المسند، 2 / 295، الرقم : 1239، والطبراني في مسند الشاميين، 2 / 28، الرقم : 861، وابن أبی عاصم في السنة، 1 / 171، الرقم : 391.
’’حضرت ابو امامہ باہلی رضي اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں تمام انبیاء کرام میں سے آخر میں ہوں اور تم بھی آخری امت ہو۔‘‘
اسے امام ابن ماجہ، حاکم اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
112 / 14. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ الرِّسَالَةَ وَالنُّبُوَّةَ قَدِ انْقَطَعَتْ فَـلَا رَسُوْلَ بَعْدِي وَلَا نَبِيَّ قَالَ : فَشَقَّ ذَلِکَ عَلَی النَّاسِ فَقَالَ : لَکِنِ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوْا : يَا رَسُوْل اﷲِ، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ : رُؤْيَا الْمُسْلِمِ وَهِيَ جُزْئٌ مِنْ أَجْزَاءِ النُّبُوَّةِ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ أَبُوْعِيْسَی : هَذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
112 : أخرجه الترمذي في السنن، کتاب : الرؤيا عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، باب : ذهبت النبوة و بقيت المبشرات، 4 / 533، الرقم : 2272، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 267، الرقم : 13851، والحاکم في المستدرک، 4 / 433، الرقم : 8178، و المقدسي في الأحاديث المختارة، 7 / 206، الرقم : 2645.
’’حضرت انس بن مالک رضي اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نبوت و رسالت ختم ہو گئی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے اور نہ ہی کوئی نبی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ یہ لوگوں پر گراں گزرا (کہ اب سلسلہ نبوت ختم ہو گیا ہے) تو حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لیکن مبشرات (باقی ہیں) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) مبشرات سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مسلمان کے (نیک) خواب، اور یہ نبوت کے اجزاء کا ایک جزو ہے۔‘‘
اسے امام ترمذی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ یہ حديث حسن صحيح ہے۔
113 / 15. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : لَمْ يَبْقَ مِنَ النُّبُوَّةِ إِلَّا الْمُبَشِّرَاتُ. قَالُوْا : وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ؟ قَالَ : اَلرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
113 : أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب : التعبير، باب : المبشرات، 6 / 2564، الرقم : 6589.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نبوت کا کوئی جزو سوائے مبشرات کے باقی نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نیک خواب۔‘‘
اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
114 / 16. عَنْ أُمِّ کُرْزٍ الْکَعْبِيَةِ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : ذَهَبَتِ النُّبُوَّةُ وَبَقِيَتِ الْمُبَشِّرَاتُ.
رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ.
114 : أخرجه ابن ماجه في السنن، کتاب : تعبير الرّؤيا، باب : رؤية النبي صلی الله عليه وآله وسلم فی المنام، 2 / 1283، الرقم : 3896، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 381، الرقم : 27185، وابن حبان في الصحيح، 13 / 411، الرقم : 6024.
’’حضرت ام کرز کعبیہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے : نبوت ختم ہو گئی صرف مبشرات (نیک خواب) باقی رہ گئے۔‘‘ اسے امام ابن ماجہ، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
115 / 17. عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي إِلَّا الْمُبَشِّرَاتِ قَالَ : قِيْلَ : وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : الرُّؤْيَا الْحَسَنَةُ أَوْ قَالَ : الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ نَحْوَهُ.
115 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 454، الرقم : 23846 (23283)، والطبراني في المعجم الکبير، 3 / 179، الرقم : 3051، وابن منصور في السنن، 5 / 321، الرقم : 1068، والديلمي في مسند الفردوس، 2 / 247، الرقم : 3162، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 8 / 223، الرقم : 264، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 173، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 494.
’’حضرت ابو الطفیل رضي اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میرے بعد نبوت باقی نہیں رہے گی سوائے مبشرات کے، آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے پوچھا گیا : یا رسول اﷲ! مبشرات کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اچھے یا نیک خواب۔‘‘
اسے امام احمد اور اسی طرح طبرانی نے روایت کیا ہے۔
116 / 18. عَنْ عِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي عَبْدُ اﷲِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَإِنَّ آدَمَ عليهم السلام لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ وَسَأُنَبِّئُکُمْ بِأَوَّلِ ذَلِکَ دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ وَبِشَارَةُ عِيْسَی بِي وَرُؤيَا أُمِّي الَّتِي رَأَتْ وَکَذَلِکَ أُمَّهَاتُ النَّبِيِّيْنَ تَرَيْنَ. رَوَاهُ أَحْمَدُ.
وفي رواية عنه : قَالَ : إِنِّي عَبْدُ اﷲِ وَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ فَذَکَرَ مِثْلَهُ وَزَادَ فِيْهِ : إِنَّ أُمَّ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم رَأَتْ حِيْنَ وَضَعَتْهُ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْحَاکِمُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
116 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 / 127، 128، الرقم : (16700)، (16712)، وابن حبان في الصحيح، 14 / 313، الرقم : 6404، والحاکم في ’المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4175، والطبراني في المعجم الکبير، 18 / 252، 253، الرقم : 629، 630، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 134، الرقم : 1385، وابن أبي عاصم في السنة، 1 / 179، الرقم : 409، والبخاري في التاريخ الکبير، 6 / 68، الرقم : 1736.
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں اﷲ تعالیٰ کے ہاں اس وقت سے آخری نبی لکھا جا چکا تھا جبکہ حضرت آدم عليہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے اور میں تمہیں اس کی تاویل بتاتا ہوں : میں حضرت ابراہیم عليہ السلام کی دعا (کا نتیجہ) ہوں اور حضرت عیسیٰ عليہ السلام کی بشارت ہوں اور اس کے علاوہ اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری ولادت سے پہلے دیکھا تھا اور انبیاء کرام کی مائیں اسی طرح کے خواب دیکھتی ہیں۔‘‘ اس حديث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’میں اﷲ تعالیٰ کا بندہ اور آخری نبی ہوں۔‘‘ پھر راوی نے مذکورہ باب حديث کی مثل حديث بیان فرمائی اور اس میں یہ اضافہ کیا : ’’بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کی والدہ ماجدہ نے آپ کو حالتِ نور میں جنا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔‘‘
اس حديث کو امام احمد، ابن حبان، حاکم اور بخاری نے ’’التاريخ الکبير‘‘ میں روایت کیا ہے۔
117 / 19. عَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي عِنْدَ اﷲِ فِي أُمِّ الْکِتَابِ لَخَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ، وَإِنَّ آدَمَ لَمُنْجَدِلٌ فِي طِيْنَتِهِ، وَسَأُحَدِّثُکُمْ تَأْوِيْلَ ذَلِکَ : دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيْمَ، دَعَا : {وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِنْهُمْ} البقرة، 2 : 129، وَبِشَارَةُ عِيْسَی بْنَ مَرْيَمَ قَوْلُهُ : {وَمُبَشِّرًام بِرَسُوْلٍ يَأْتِي مِنْم بَعْدِي اسْمُهُ أَحْمَدُ}، الصف، 61 : 6. وَرُؤْيَا أُمِّي رَأَتْ فِي مَنَامِهَا أَنَّهَا وَضَعَتْ نُوْرًا أَضَاءَ تْ مِنْهُ قُصُوْرُ الشَّامِ. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيَُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ سَعْدٍ.
117 : أخرجه ابن حبان فی الصحيح، 14 / 312، الرقم : 6404، والطبرانی في المعجم الکبير، 18 / 253، الرقم : 631، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 6 / 40، وفي دلائل النبوة، 1 / 17، والحاکم في المستدرک، 2 / 656، الرقم : 4174، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 149، والعسقلاني في فتح الباري، 6 / 583، والطبري في جامع البيان، 6 / 583، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 1 / 185، وفي البداية والنهاية، 2 / 321، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 / 512، الرقم : 2093، وفي مجمع الزوائد، 8 / 223، وقال : واحد أسانيد أحمد رجاله رجال الصحيح غير سعيد بن سويد وقد وثّقه ابن حبان.
’’حضرت عرباض بن ساریہ رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک میں اللہ تعالیٰ کے ہاں لوحِ محفوظ میں اس وقت بھی خاتم الانبیاء تھا جبکہ حضرت آدم عليہ السلام ابھی اپنی مٹی میں گندھے ہوئے تھے۔ میں تمہیں ان کی تاویل بتاتا ہوں کہ جب میرے جدِ امجد حضرت ابراہیم عليہ السلام نے دعا کی : ’’اے ہمارے رب! ان میں، انہی میں سے (وہ آخری اور برگزیدہ) رسول ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) مبعوث فرما۔‘‘ اور حضرت عیسیٰ بن مریم عليہ السلام کی بشارت کے بارے میں بھی جبکہ انہوں نے کہا : ’’اور اُس رسولِ (معظم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کی (آمد آمد کی) بشارت سنانے والا ہوں جو میرے بعد تشریف لا رہے ہیں جن کا نام (آسمانوں میں اس وقت) احمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) ہے۔‘‘ اور میری والدہ محترمہ کے خواب کے بارے میں جبکہ انہوں نے میری ولادت کے وقت دیکھا کہ انہوں نے ایک ایسے نور کو جنم دیا جس سے شام کے محلات بھی روشن ہو گئے۔‘‘
اس حديث کو امام ابن حبان، طبرانی، ابونعيم، حاکم اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
118 / 20. عَنْ حُذَيْفَةَ رضي اﷲ عنه أَنَّ نَبِيَّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : فِي أُمَّتِي کَذَّابُوْنَ وَدَجَّالُوْنَ سَبْعَةٌ وَعِشْرُوْنَ مِنْهُمْ أَرْبَعُ نِسْوَةٍ وَإِنِّي خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
118 : أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5 / 396، الرقم : 23406، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 327، الرقم : 5450، وفي المعجم الکبير، 3 / 169، الرقم : 3026، والديلمي في مسند الفردوس، 5 / 454، الرقم : 8724، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7 / 332، وقال : رواة أحمد والطبراني والبزار، ورجال البزار رجال الصحيح.
’’حضرت حذیفہ رضي اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں جھوٹی نبوت کے دعویدار اور دجال ستائیس ہیں ان میں سے چار عورتیں ہیں اور بے شک میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔‘‘
اس حديث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
119 / 21. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي اﷲ عنه قَالَ : قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : نَزَلَ آدَمُ بِالْهِنْدِ وَاسْتَوْحَشَ فَنَزَلَ جِبْرِيْلُ فَنَادَی بِالْأَذَانِ : اَﷲُ أَکْبَرُ، اَﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ مَرَّتَيْنِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اﷲِ مَرَّتَيْنِ، قَالَ آدَمُ : مَنْ مُحَمَّدٌ؟ قَالَ : آخِرُ وَلَدِکَ مِنَ الْأَنْبِيَاءِ.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَابْنُ عَسَاکِرَ وَالدَّيْلَمِيُّ.
119 : أخرجه أبو نعيم في حلية الأولياء، 5 / 107، والديلمي في مسند الفردوس، 4 / 271، الرقم : 6798، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 7 / 437.
’’حضرت ابو ہریرہ رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : حضرت آدم عليہ السلام ہند میں نازل ہوئے اور (نازل ہونے کے بعد) انہوں نے وحشت (و تنہائی) محسوس کی تو (ان کی وحشت دور کرنے کے لئے) جبرائیل عليہ السلام نازل ہوئے اور اذان دی : اَﷲُ أَکْبَرُ، اَﷲُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ دو مرتبہ کہا، أَشْهَدُ أَنَّ مُحْمَدًا رَسُوْلُ اﷲِ دو مرتبہ پڑھا تو حضرت آدم عليہ السلام نے دریافت کیا : (اے جبریل!) محمد ( صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ) کون ہیں؟ حضرت جبرائیل عليہ السلام نے کہا : یہ آپ کی اولاد میں سے آخری نبی صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم ہیں۔‘‘
اس حديث کو امام ابونعيم، ابن عساکر اور دیلمی نے روایت کیا ہے۔
120 / 22. عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ رضي اﷲ عنه قَالَ : کَانَ هَارُوْنُ بْنُ عِمْرَانَ فَصِيْحَ اللِّسَانِ بَيِّنَ الْمَنْطِقِ يَتَکَلَّمُ فِي تُؤَدَةٍ وَيَقُوْلُ بِعِلْمٍ وَحِلْمٍ، وَکَانَ أَطْوَلَ مِنْ مُوْسَی طُوْلًا وَأَکْبَرَهُمَا فِي السِّنِّ وَکَانَ أَکْثَرَهُمَا لَحْمًا وَأَبْيَضَهُمَا جِسْمًا وَأَعْظَمَهُمَا أَلْوَاحًا، وَکَانَ مُوْسَی رَجُلًا جَعْدًا آدَمَ طِوَالًا کَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوْئَةَ وَلَمْ يَبْعَثِ اﷲُ نَبِيًّا إِلَّا وَقَدْ کَانَتْ عَلَيْهِ شَامَةُ النُّبُوَّةِ فِي يَدِهِ الْيُمْنَی إِلَّا أَنْ يَکُوْنَ نَبِيُّنَا مُحَمَّدٌ صلی الله عليه وآله وسلم فَإِنَّ شَامَةَ النُّبُوَّةِ کَانَتْ بَيْنَ کَتِفَيْهِ، وَقَدْ سُئِلَ نَبِيُّنَا صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ ذَلِکَ فَقَالَ : هَذِهِ الشَّامَةُ الَّتِي بَيْنَ کَتِفَيَّ شَامَةُ الْأَنْبِيَائِ قَبْلِي لِأَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا رَسُوْلٌ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
120 : أخرجه الحاکم في المستدرک، 2 / 631، الرقم : 4105.
’’حضرت وہب بن منبہ رضي اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ہارون بن عمران عليہ السلام فصیح اللسان اور واضح کلام فرمانے والے تھے۔ آپ پر سکون لہجہ میں بات کرتے تھے اور علم و حلم سے بات کرتے تھے اور قد میں آپ حضرت موسیٰ عليہ السلام سے لمبے تھے اور عمر میں بھی ان سے بڑے تھے اور ان سے زیادہ پرگوشت اور سفید جسم والے تھے اور آپ کے جسم کی ہڈیاں بھی ان کے جسم کی ہڈیوں سے بڑی تھیں اور حضرت موسیٰ عليہ السلام گھنگریالے بالوں والے، گندم گوں اور لمبے قد کے مالک تھے گویا کہ آپ قبیلہ شنئوہ کے کوئی شخص ہوں۔ اﷲ تعالیٰ نے کسی نبی کو بھی نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کے دائیں ہاتھ میں مہرِ نبوت ہوتی تھی سوائے ہمارے نبی مکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم کے۔ پس آپ کی مہرِ نبوت آپ کے مبارک شانوں کے درمیان تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم سے اس بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ جو مہر میرے شانوں کے درمیان ہے یہ (میری اور) مجھ سے پہلے مبعوث ہونے والے انبیاء کرام عليہ السلام کی مہر ہے کیونکہ اب میرے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ہے (اس لئے میرے بعد کسی کے لئے بھی ایسی مہر نہیں ہو گی)۔‘‘
اس حديث کو امام حاکم نے روایت کیا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved