1. قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَآ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآء تَکُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَاٰخِرِنَا وَاٰیَةً مِّنْکَ ج وَارْزُقْنَا وَاَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَo
(المائدة، 5: 114)
’’عیسٰی ابن مریم علیہا السلام نے عرض کیا: اے اللہ! اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے خوانِ (نعمت) نازل فرما دے کہ (اس کے اترنے کا دن) ہمارے لیے عید ہوجائے ہمار ے اگلوں کے لیے (بھی) اور ہمارے پچھلوں کے لیے (بھی) اور(وہ خوان) تیری طرف سے نشانی ہو اور ہمیں رزق عطا کر! اور تو سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔‘‘
2. کُلُوْا وَاشْرَبُوْا هَنِٓیْئًا م بِمَآ اَسْلَفْتُمْ فِی الْاَیَّامِ الْخَالِیَةِo
(الحاقة، 69: 24)
’’(اُن سے کہا جائے گا:) خوب لطف اندوزی کے ساتھ کھاؤ اور پیو اُن (اَعمال) کے بدلے جو تم گزشتہ (زندگی کے) اَیام میں آگے بھیج چکے تھے۔‘‘
1. عَنْ أَبِي هُرَیْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم : أُعْطِیَتْ أُمَّتِي خَمْسَ خِصَالٍ فِي رَمَضَانَ لَمْ تُعْطَهَا أُمَّةٌ قَبْلَهُمْ: خُلُوْفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْیَبُ عِنْدَ ﷲِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ وَتَسْتَغْفِرُ لَهُمْ الْمَلَائِکَةُ حَتَّی یُفْطِرُوْا وَیُزَیِّنُ ﷲُ عزوجل کُلَّ یَوْمٍ جَنَّتَهُ ثُمَّ یَقُوْلُ: یُوْشِکُ عِبَادِي الصَّالِحُوْنَ أَنْ یُلْقُوْا عَنْهُمْ الْمَؤنَةَ وَالْأَذَی وَیَصِیْرُوْا إِلَیْکِ وَیُصَفَّدُ فِیْهِ مَرَدَةُ الشَّیَاطِینِ فَـلَا یَخْلُصُوْا إِلَی مَا کَانُوْا یَخْلُصُوْنَ إِلَیْهِ فِي غَیْرِهِ وَیُغْفَرُ لَهُمْ فِي آخِرِ لَیْلَةٍ. قِیْلَ: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، أَهِيَ لَیْلَةُ الْقَدْرِ؟ قَالَ: لَا وَلَکِنَّ الْعَامِلَ إِنَّمَا یُوَفَّی أَجْرَهُ إِذَا قَضَی عَمَلَهُ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالْبَیْهَقِيُّ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 2/292، الرقم: 7904، والبیهقي في شعب الإیمان، 3/303، الرقم: 3603، وابن عبد البر في التمهید، 16/153، والهیثمي في مسند الحارث، 1/410، الرقم: 319، وفي مجمع الزوائد، 3/140، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/55، الرقم: 1476.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری اُمت کو رمضان المبارک میں پانچ ایسی خصوصیات عطا کی گئی ہیں جو اس سے قبل کسی امت کو عطا نہیں کی گئیں: پہلی یہ کہ روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ دوسری یہ کہ فرشتے ان کے لیے مغفرت طلب کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ افطار کر لیں۔تیسری یہ کہ اللہ تعالی ہر روز اپنی جنت کو مزین کرتا ہے، پھر فرماتا ہے عنقریب میرے صالحین بندے دنیا کی تھکاوٹ اور تکالیف سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں گے، چوتھا یہ کہ اس مہینے میں سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے، پانچواں یہ ہے کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے ان (روزہ داروں) کو بخش دیا جاتا ہے۔ ایک صحابی نے عرض کیا: کیا یہ(آخری رات) شبِ قدر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ بلکہ جب مزدور اپنے کام سے فارغ ہو جاتا ہے تو اسے مکمل مزدوری دی جاتی ہے؟‘‘ اِس حدیث کو امام احمد اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔
2. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ ﷲِ: أَنَّ رَسُوْلَ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم قَالَ: أُعْطِیَتْ أُمَّتِي فِي شَهْرِ رَمَضَانَ خَمْسًا لَمْ یُعْطَهُنَّ نَبِيٌّ قَبْلِي: أَمَّا وَاحِدَةٌ فَإِنَّهٗ إِذَا کَانَ أَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ نَظَرَ ﷲُ عزوجل إِلَیْهِمْ وَمَنْ نَظَرَ ﷲُ إِلَیْهِ لَمْ یُعَذِّبْهٗ أَبَدًا. وَأَمَّا الثَّانِیَةُ فَإِنَّ خُلُوْفَ أَفْوَاهِهِمْ حِیْنَ یُمْسُوْنَ أَطْیَبُ عِنْدَ ﷲِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ. وَأَمَّا الثَّالِثَةُ فَإِنَّ الْمَـلَائِکَةَ تَسْتَغْفِرُ لَهُمْ فِي کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ. وَأَمَّا الرَّابِعَةُ فَإِنَّ اللهَ عزوجل یَأْمُرُ جَنَّتَهٗ فَیَقُوْلُ لَهَا: اسْتَعِدِّيْ وَتَزَیَّنِيْ لِعِبَادِيْ أَوْشَکُوْا أَنْ یَسْتَرِیْحُوْا مِنْ تَعَبِ الدُّنْیَا إِلٰی دَارِي وَکَرَامَتِي. وَأَمَّا الْخَامِسَةُ فَإِنَّهٗ إِذَا کَانَ آخِرُ لَیْلَةٍ غُفِرَ لَهُمْ جَمِیْعًا. فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: أَهِيَ لَیْلَةُ الْقَدْرِ؟ فَقَالَ: لَا، أَلَمْ تَرَ إِلَی الْعُمَّالِ یَعْمَلُوْنَ فَإِذَا فَرَغُوْا مِنْ أَعْمَالِهِمْ وُفُّوْا أُجُوْرَهُمْ؟ رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ.
أخرجه البیھقي في شعب الإیمان، 3/303، الرقم: 3603، وفي فضائل الأوقات، 1/145، الرقم: 36، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/56، الرقم: 1477.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے۔ پہلا یہ ہے کہ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر التفات فرماتا ہے اور جس پر اس کی نظرِ رحمت پڑجائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔ دوسرا یہ ہے کہ شام کے وقت ان کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ تیسرا یہ ہے کہ فرشتے ہر دن اور ہر رات ان کے لیے بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ چوتھا یہ ہے کہ اللہ عزوجل اپنی جنت کو حکم دیتاہے کہ میرے بندوں کے لیے تیاری کرلے اور مزین ہو جا، تاکہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔ پانچواں یہ ہے کہ جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔ ایک صحابی نے عرض کیا: کیا یہ شبِ قدر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جب مزدور اپنے کام سے فارغ ہو جاتے ہیں تو انہیں پوری پوری مزدوری دی جاتی ہے؟‘‘ اِس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
3. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم : إِذَا کَانَ لَیْلَةُ الْقَدْرِ نَزَلَ جِبْرِیْلُ علیه السلام فِي کَبْکَبَةٍ مِنَ الْمَـلَائِکَةِ یُصَلُّوْنَ عَلَی کُلِّ عَبْدٍ قَائِمٍ أَوْ قَاعِدٍ یَذْکُرُ اللهَ عزوجل، فَإِذَاکَانَ یَوْمُ عِیْدِهِمْ یَعْنِي یَوْمَ فِطْرِهِمْ بَاهٰی بِهِمْ مَـلَائِکَتَهٗ فَقَالَ: یَا مَـلَائِکَتِيْ، مَا جَزَاء أَجِیْرٍ وَفّٰی عَمَلَهٗ، قَالُوْا: رَبَّنَا، جَزَائُهٗ أَنْ یُوَفّٰی أَجْرُهٗ. قَالَ: مَـلَائِکَتِيْ، عَبِیْدِيْ وَإِمَائِيْ قَضَوْا فَرِیْضَتِي عَلَیْهِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا یَعُجُّوْنَ إِلَيَّ بِالدُّعَائِ وَعِزَّتِي وَجَـلَالِي وَکَرَمِي وَعُلُوِّي وَارْتِفَاعِ مَکَانِي لَأُجِیْبَنَّهُمْ فَیَقُوْلُ: ارْجِعُوْا قَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ وَبَدَّلْتُ سَیِّاٰتِکُمْ حَسَنَاتٍ قَالَ: فَیَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَّهُمْ. رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ.
أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3/343، الرقم: 3717، وفي فضائل الأوقات، 1/318، الرقم: 155.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب شب قدر ہوتی ہے تو جبریل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت میں اترتے ہیں، اور ہر اس کھڑے بیٹھے بندے پر جو اللہ کا ذکر کرتا ہے، سلام بھیجتے ہیں۔ جب ان کی عید کا دن ہوتا ہے یعنی عید الفطر کا دن تو اللہ ان بندوں سے اپنے فرشتوں پر فخر کرتے ہوئے فرماتا ہے: اے میرے فرشتو! اُس مزدور کی اُجرت کیا ہونی چاہیے جو اپنا کام پورا کر دے؟ وہ عرض کرتے ہیں: الٰہی! اس کی اُجرت یہ ہے کہ اسے پورا پورا اجر دیا جائے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے فرشتو! میرے بندے اور بندیوں نے میرا وہ فریضہ پورا کر دیا جو ان پر تھا۔ پھر وہ دعا میں دست طلب دراز کرتے ہوئے نکل پڑے۔ (اللہ تعالیٰ نے فرمایا:) مجھے اپنی عزت، اپنے جلال، اپنے کرم، اپنی بلندی اور رفعتِ مکانی کی قسم: میں ان کی دعا ضرور قبول کروں گا۔ پھر ( اپنے بندوں سے) فرماتا ہے: لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہاری برائیوں کو نیکیوں میں بدل دیا۔ فرمایا: پھر یہ لوگ بخشے ہوئے لوٹتے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
4. عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رضی الله عنه أَنَّهٗ قَالَ: یَا رَسُوْلَ ﷲِ، أَخْبِرْنَا عَنْ لَیْلَةِ الْقَدْرِ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم : هِيَ فِي رَمَضَانَ الْتَمِسُوْهَا فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ، فَإِنَّهَا وِتْرٌ فِي إِحْدَی وَعِشْرِیْنَ أَوْ ثَــلَاثٍ وَّعِشْرِیْنَ أَوْ خَمْسٍ وَّعِشْرِیْنَ أَوْ سَبْعٍ وَّعِشْرِیْنَ أَوْ تِسْعٍ وَّعِشْرِیْنَ أَوْ فِي آخِرِ لَیْلَةٍ، فَمَنْ قَامَهَا إِیْمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ وَمَا تَأَخَّرَ.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 5/318، 321، 324، الرقم: 22765، 22793، 22815، والطبراني في المعجم الأوسط، 2/71، الرقم: 1284، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/65، الرقم: 1507، والهیثمي في مجمع الزوائد، 3/ 175-176.
’’حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمیں شبِ قدر کے بارے میں بتائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ (رات) ماهِ رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے۔ اس رات کو آخری عشرہ میں تلاش کرو۔ بے شک یہ رات طاق راتوں یعنی اکیسویں، تیئسویں، پچیسویں، ستائیسویں، انتیسویں میں سے کوئی ایک یا رمضان کی آخری رات ہوتی ہے۔ جو بندہ اس میں ایمان و ثواب کے ارادہ سے قیام کرے اس کے اگلے پچھلے (تمام) گناہ بخش دیئے جاتے ہیں۔‘‘
اِس حدیث کو امام احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
5. عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم : إِذَا کَانَ أَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ فُتِحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ فَـلَا یُغْلَقُ مِنْهَا بَابٌ حَتَّی یَکُوْنَ آخِرُ لَیْلَةٍ مِنْ رَمَضَانَ وَلَیْسَ مِنْ عَبْدٍ یُصَلِّي فِي لَیْلَةٍ مِنْهَا إِلَّا کَتَبَ ﷲُ لَهُ أَلْفَ وَخَمْسَمِائَةِ حَسَنَةٍ بِکُلِّ سَجْدَةٍ. رَوَاهُ الْبَیْهَقِيُّ.
أخرجه البیهقي في شعب الإیمان، 3/341، الرقم: 3635، والمنذري في الترغیب والترهیب، 2/57، الرقم: 1482.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا یہاں تک کہ رمضان کی آخری رات ہوتی ہے۔ اور کوئی شخص ایسا نہیں جو رمضان کی کسی رات میں نماز ادا کرتا ہے مگر اللہ تعالیٰ اس کے لیے اس کے ہر سجدے کے بدلے میں پندرہ سو نیکیاں لکھ دیتا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔
6. عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ ﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم : مَنْ أَحْیَا اللَّیَالِي الْخَمْسَ، وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ لَیْلَةَ التَّرْوِیَةِ، وَلَیْلَةَ عَرَفَةَ، وَلَیْلَةَ النَّحْرِ، وَلَیْلَةَ الْفِطْرِ، وَلَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ.
رَوَاهُ الْأَصْبَهَانِيُّ کَمَا قَالَ الْمُنْذِرِيُّ.
أخرجه المنذري في الترغیب و الترهیب، 2/ 98، رقم: 1656.
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے پانچ راتوں کو زندہ رکھا اس کے لئے جنت واجب ہوگئی وہ پانچ راتیں یہ ہیں: (1) آٹھویں ذی الحجہ کی شب، (2) نوویں ذی الحجہ کی شب، (3) عید الاضحی کی رات، (4) عید الفطر کی رات، (5) پندرہویں شعبان کی رات۔‘‘
بقول منذری اس کو امام اصبہانی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved