162 / 1۔ عَنْ عَبَّادِ بْنِ تَمِیْمٍ عَنْ عَمِّہٖ رضي الله عنه أَنَّہٗ رَأَی رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم مُسْتَلْقِیًا فِي الْمَسْجِدِ وَاضِعًا إِحْدَی رِجْلَیْہِ عَلَی الْأُخْرَی۔ وَعَنِ ابْنِ شِہَابٍ عَنْ سَعِیدِ بْنِ الْمُسَیَّبِ قَالَ : کَانَ عُمَرُ وَعُثْمَانُ یَفْعَــلَانِ ذَالِکَ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
1 : أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب الاستلقاء في المسجد ومد الرجل، 1 / 180، الرقم : 463، ومسلم في الصحیح، کتاب اللباس والزینۃ، باب في إباحۃ الاستلقاء ووضع إحدی الرجلین علی الأخری، 3 / 1662، الرقم : 2100، والترمذي في السنن، کتاب الأدب، باب ما جاء في وضع إحدی الرجلین علی الأخری مستلقیا، 5 / ۹5، الرقم : 2765، والنسائي في السنن، کتاب المساجد، باب الاستلقاء في المسجد، 2 / 50، الرقم : 721، ومالک في الموطأ، کتاب قصر الصلاۃ في السفر، باب جامع الصلاۃ، 1 / 172، الرقم : 416۔
''حضرت عباد بن تمیم نے اپنے چچا جان سے روایت کی ہے کہ اُنہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ مسجد میں چت لیٹے ہوئے ہیں اور اپنا ایک پیر دوسرے پیر پر رکھا ہوا ہے۔ امام ابن شہاب نے حضرت سعید بن مسیب سے روایت کی ہے کہ حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہما بھی ایسے ہی کیا کرتے تھے۔'' یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
163 / 2۔ عَنْ حَفْصَۃَ رضي اﷲ عنہا زَوْجِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ یَرْقُدَ وَضَعَ یَدَہُ الْیُمْنٰی تَحْتَ خَدِّہٖ ثُمَّ یَقُوْلُ : اَللّٰھُمَّ قِنِي عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ ثَـلَاثَ مِرَارٍ۔
رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ۔
2 : أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب الدعوات، باب منہ، 5 / 471، الرقم : 33۹۹، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب ما یقال عند النوم، 4 / 310، الرقم : 5045، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 188، الرقم : 10588، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 288، الرقم : 26508، وابن حبان في الصحیح، 12 / 331، الرقم : 5522، وابن أبي شیبۃ في المصنف، 5 / 324، الرقم : 26537۔
''اُمّ المؤمنین حضرت حفصہ رضي اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب آرام فرمانے کا ارادہ فرماتے تو دایاں ہاتھ رُخسار مبارک کے نیچے رکھتے اور تین مرتبہ یہ دعا پڑھتے : {اَللّٰھُمَّ قِنِي عَذَابَکَ یَوْمَ تَبْعَثُ عِبَادَکَ} اے اللہ! جس دن تو اپنے بندوں کو اُٹھائے گا اُس دن مجھے اپنے عذاب سے بچا۔''
اِس حدیث کو امام ترمذی اور ابو داود نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور نسائی و احمد نے روایت کیا ہے۔
164 / 3۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضي اﷲ عنہا قَالَتْ : کَانَ فِرَاشُ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم مِنْ أَدَمٍ وَحَشْوُہُ مِنْ لِیْفٍ۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
3 : أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الرقاق، باب کیف کان عیش النبي صلى الله عليه وآله وسلم وأصحابہ وتخلیھم من الدنیا، 5 / 2371، الرقم : 60۹1، ومسلم في الصحیح، کتاب اللباس والزینۃ، باب التواضع في اللباس والاقتصار علی الغلیظ منہ والیسیر في اللباس والفراش وغیرہما وجواز لبس الثوب الشعر وما فیہ أعلام، 3 / 1650، الرقم : 2082، والترمذي في السنن، کتاب اللباس، باب ما جاء في فراش النبي صلى الله عليه وآله وسلم ، 4 / 237، الرقم : 1761، والبیہقي في السنن الکبری، 7 / 47، الرقم : 130۹5۔
''حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بستر مبارک چمڑے کا بنا ہوا تھا، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔''
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
165 / 4۔ عَنْ أَبِي قِـلَابَۃَ عَنْ بَعْضِ آلِ أُمِّ سَلَمَۃَ رضي اﷲ عنہا کَانَ فِرَاشُ النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم نَحْوًا مِمَّا یُوْضَعُ الْإِنْسَانُ فِي قَبْرِہٖ وَکَانَ الْمَسْجِدُ عِنْدَ رَأْسِہٖ۔ رَوَاہُ أَبُوْ دَاوُدَ۔
4 : أخرجہ أبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب کیف یتوجہ، 4 / 310، الرقم : 5044، وابن حیان في أخلاق النبي صلى الله عليه وآله وسلم ، 2 / 502، والسیوطي في الجامع الصغیر، 1 / 221، الرقم : 371، والصالحي في سبل الہدی والرشاد، 7 / 356۔
''حضرت ابو قلابہ نے آلِ اُم سلمہ رضی اﷲ عنہا کے بعض افراد سے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بستر مبارک تقریبًا اُسی طرح کا ہوتا جیسے آدمی کو اُس کی قبر میں رکھا جاتا ہے اور نماز پڑھنے کی جگہ اور مسجد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک کے نزدیک ہوتی تھی۔''
اِس حدیث کو امام ابو داود نے روایت کیا ہے۔
166 / 5۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ : کُنَّا عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَعِنْدَہٗ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ وَرَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم عَلٰی سَرِیْرٍ شَرِیْطٍ، لَیْسَ بَیْنَ جَنْبِ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَبَیْنَ الشَّرِیْطِ شَيئٌ، قَالَ : وَکَانَ أَرَقَّ النَّاسِ بِشْرَۃً، فَانْحَرَفَ انْحِرَافَۃً وَقَدْ أَثَّرَ الشَّرِیْطُ بِبَطْنِ جِلْدِہِ أَوْ بِجَنْبِہِ، فَبَکَی عُمَرُ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم : مَا یُبْکِیْکَ؟ قَالَ : أَمَا، وَاﷲِ، مَا أَبْکِي، یَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَنْ لَا أَکُوْنَ أَعْلَمُ أَنَّکَ أَکْرَمُ عَلَی اﷲِ مِنْ قَیْصَرَ وَکِسْرٰی، إِنَّھُمَا یَعِیْشَانِ فِیْمَا یَعِیْشَانِ فِیْہِ مِنَ الدُّنْیَا وَأَنْتَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم بِالْمَکَانِ الَّذِي أَرَی، فَقَالَ : یَا عُمَرُ، أَمَا تَرْضٰی أَنْ تَکُوْنَ لَنَا الْآخِرَۃُ وَلَھُمُ الدُّنْیَا، قَالَ : بَلٰی، قَالَ : فَإِنَّہٗ کَذَالِکَ۔ رَوَاہُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ یَعْلٰی وَاللَّفْظُ لَہٗ۔
5 : أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 13۹140، الرقم : 12440، وأبو یعلی في المسند، 5 / 167، الرقم : 2782۔
''حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں موجود تھے اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی بارگاہِ اقدس میں حاضر تھے جبکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مضبوط بٹی ہوئی پٹّی کی چارپائی پر تشریف فرما تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک پہلوؤں اور (چارپائی کی سخت کھردری) پٹّی کے درمیان کوئی چیز (بچھی ہوئی) نہ تھی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے زیادہ نرم و نازک جلد والے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلو بدلا تو (نظر آیا کہ اس سخت) پٹّی کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نرم و نازک جلد اور پہلوؤں میں دھنسنے کے نشانات تھے۔ پس (یہ دیکھ کر) حضرت عمر رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! تمہیں کس چیز نے رلا دیا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! بخدا میں نہ روتا اگر میں یہ نہ جانتا ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اﷲ تعالیٰ کے ہاں قیصر و کسریٰ سے زیادہ مقام و مرتبہ ہے۔ بے شک وہ دنیا میں عیش و عشرت سے زندگی گزار رہے ہیں اور آپ اِس حالت میں ہیں جسے میں دیکھ رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عمر! کیا تو اِس بات پر راضی نہیں کہ ہمارے لیے آخرت اور اُن کے لئے دنیا ہو۔ اُنہوں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) کیوں نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سو (اصل حقیقت) یہی ہے۔'' اِس حدیث کو امام احمد اور ابو یعلی نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
167 / 6۔ عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ : دَخَلْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَہُوَ فِي غُرْفَۃٍ کَأَنَّہَا بَیْتُ حَمَامٍ وَہُوَ نَائِمٌ عَلٰی حَصِیْرٍ قَدْ أَثَّرَ بِجَنْبِہِ فَبَکَیْتُ، فَقَالَ : مَا یُبْکِیْکَ یَا عَبْدَ اﷲِ؟ قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اﷲِ، کِسْرٰی وَقَیْصَرُ یَطَؤُوْنَ عَلَی الْخِزِّ وَالْحَرِیْرِ وَالدِّیْبَاجِ، وَأَنْتَ نَائِمٌ عَلٰی ہٰذَا الْحَصِیْرِ قَدْ أَثَّرَ بِجَنْبِکَ، قَالَ : فَـلَا تَبْکِ یَا عَبْدَ اﷲِ، فَإِنَّ لَہُمُ الدُّنْیَا وَلَنَا الآخِرَۃُ وَمَا أَنَا وَالدُّنْیَا وَمَا مِثْلِي وَمِثْلُ الدُّنْیَا إِلاَّ کَمِثْلِ رَاکِبٍ نَزَلَ تَحْتَ شَجَرَۃٍ ثُمَّ سَارَ وَتَرَکَہَا۔ رَوَاہُ الطَّبَرَانِيُّ۔
6 : أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 10 / 162، الرقم : 10327، والمنذري في الترغیب والترھیب، 4 / ۹8، الرقم : 4۹72، والھیثمي في مجمع الزوائد، 10 / 326۔
''حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کاشانہ اقدس میں داخل ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کمرہ مبارک حمام کی طرح (گرم) تھا جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چٹائی پر آرام فرما تھے، جس کے نشانات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو مبارک پر تھے پس میں (یہ منظر دیکھ کر) رو پڑا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عبد اﷲ! تجھے کس چیز نے رلا دیا؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! قیصر و کسریٰ ریشم و دیباج (کے نرم و ملائم بستروں) پر آرام کریں اور آپ اس (کھردری) چٹائی پر جس کے نشانات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پہلو پر نمایاں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عبد اﷲ! مت رو، بے شک ان کے لئے دنیا ہے اور ہمارے لئے آخرت ہے، اور میری اور دنیا کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی سوار جو (کچھ دیر کے لئے کسی سایہ دار) درخت کے نیچے رکا اور پھر اس درخت کو چھوڑ کر (اپنی منزل کی جانب) چل دیا۔'' اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
168 / 7۔ عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِیْہِ قَالَ : سُئِلَتْ عَائِشَۃُ رضي اﷲ عنہا مَا کَانَ فِرَاشُ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم فِي بَیْتِکَ؟ قَالَتْ : مِنْ أَدَمٍ حَشْوُہُ مِنْ لِیْفٍ، وَسُئِلَتْ حَفْصَۃُ رضي اﷲ عنہا مَا کَانَ فِرَاشُ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم فِي بَیْتِکَ؟ قَالَتْ : مَسْحًا، نَثْنِیْہِ ثَنْیَتَیْنِ، فَیَنَامُ عَلَیْہِ، فَلَمَّا کَانَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ قُلْتُ : لَوْ ثَنَیْتُہُ أَرْبَعَ ثَنَیَاتٍ لَکَانَ أَوْطَأَ لَہٗ، فَثَنَیْنَاہٗ لَہٗ بِأَرْبَعٍ ثَنَیَاتٍ، فَلَمَّا أَصْبَحَ قَالَ : مَا فَرَشْتُمُوْا لِيَ الَّلیْلَۃَ؟ قَالَتْ : قُلْنَا : ہُوَ فِرَاشُکَ إِلَّا أَنَّا ثَنَیْنَاہٗ بِأَرْبَعِ ثَنَیَاتٍ، قُلْنَا : ہُوَ أَوْطَأُ لَکَ، قَالَ : رُدُّوْہٗ لِحَالَتِہِ الأُوْلٰی فَإِنَّہٗ مَنَعَتْنِي وَطْأَتُہٗ صَلَاتِي اللَّیْلَۃَ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ فِي الشَّمَائِلِ۔
7 : أخرجہ الترمذي في الشمائل المحمدیۃ / 270، الرقم : 330، وابن کثیر في البدایۃ والنہایۃ، 6 / 53، والسیوطي في الجامع الصغیر، 1 / 222، الرقم : 372۔
''حضرت جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے پوچھا گیا کہ آپ کے گھر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بستر مبارک (کیا) تھا؟ اُنہوں نے فرمایا : آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بستر مبارک چمڑے کا بنا ہوا تھا، جس میں کھجور کی چھال بھری ہوئی تھی۔ حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا سے پوچھا گیا کہ آپ کے گھر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بستر مبارک کیا (کس چیز کا بنا ہوا) تھا؟ تو اُنہوں نے فرمایا : ایک ٹاٹ تھا، جسے ہم دوہرا کر کے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نیچے بچھا دیا کرتے تھے، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم استراحت فرماتے۔ ایک رات میں نے سوچا کہ میں اگر اِس کی چار تہیں بنا دوں تو یہ زیادہ آرام دہ ہو جائے گا، پس میں نے اُس کی چار تہیں بنا دیں۔ جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے میرے لئے کس طرح کا بستر بچھا دیا تھا۔ آپ بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : (یا رسول اﷲ!) وہ آپ کا وہی پرانا بستر ہی ہے لیکن میں نے صرف اُس کی چار تہیں لگا دی تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بستر کو پہلی حالت پر ہی رہنے دو کیوں کہ اِس کی نرمی میری رات کی نماز میں رکاوٹ کا باعث بنی ہے۔''
اِس حدیث کو امام ترمذی نے الشمائل المحمدیہ میں روایت کیا ہے۔
16۹ / 8۔ عَنْ عَائِشَۃَ رضي اﷲ عنہا قَالَتْ : دَخَلَتْ عَلَيَّ امْرَأَۃٌ مِنَ الأَنْصَارِ فَرَأَتْ فِرَاشَ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم قَطِیْفَۃً مَثْنِیَۃً فَبَعَثَتْ إِلَيَّ بِفَرَاشٍ، حَشْوُہُ الصُّوْفُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ، فَقَالَ : مَا ھٰذَا یَا عَائِشَۃُ؟ قَالَتْ : قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اﷲِ، فَـلَانَۃٌ الْأَنْصَارِیَّۃُ دَخَلَتْ فَرَأَتْ فِرَاشَکَ فَذَھَبَتْ، فَبَعَثَتْ إِلَيَّ بِھٰذَا، فَقَالَ : رُدِّیْہِ یَا عَائِشَۃُ، فَوَاﷲِ، لَوْ شِئْتُ لَأَجْرَی اﷲُ تَعَالٰی مَعِيَ جِبَالَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّۃِ۔ رَوَاہُ الْبَیْہَقِيُّ وَابْنُ سَعْدٍ۔
8 : أخرجہ البیہقي في شعب الایمان، 2 / 173، الرقم : 1468، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1 / 465، وابن کثیر في البدایۃ والنہایۃ، 6 / 53، والصالحي في سبل الہدی والرشاد، 7 / 356۔
''اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ میرے پاس ایک انصاری عورت آئی تو اُس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بستر دیکھا جو کہ دوہری کی ہوئی چادر پر مشتمل تھا۔ (وہ انصاری عورت چلی گئی اور) اُس نے میرے پاس بستر بھیجا، جس میں اُون بھرا ہوا تھا، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! یہ کیا ہے؟ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں : میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! فلاں انصاری عورت میرے پاس آئی تھی، اُس نے آپ کا بستر مبارک دیکھا تو واپس جانے کے بعد میرے پاس یہ (بستر) بھیج دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے عائشہ! یہ (بستر) واپس کر دو، اللہ کی قسم! اگر میں چاہتا تو اللہ تعالیٰ سونے و چاندی کے پہاڑ میرے ساتھ چلاتا (یعنی جہاں میں جاتا وہیں وہ جاتے)۔''
اِس حدیث کو امام بیہقی اور ابن سعد نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved