12/1۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: أُقِیْمَتِ الصَّلَاۃُ، وَرَجُلٌ یُنَاجِي رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ، فَمَا زَالَ یُنَاجِیْہِ حَتّٰی نَامَ أَصْحَابُہٗ، ثُمَّ قَامَ فَصَلّٰی۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
1: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الإستئذان، باب طول النجوی، 5/2319، الرقم: 5934، ومسلم في الصحیح، کتاب الحیض، باب الدلیل علی أن نوم الجالس لا ینقض الوضوء ، 1/284، الرقم: 376، وأبو داود في السنن، کتاب الطھارۃ، باب الوضوء من النوم، 1/51، الرقم: 201، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/129، الرقم: 12336۔
''حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نماز (عشاء) کی اقامت کہی گئی اور ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرگوشی کر رہا تھا۔ وہ برابر سرگوشی کرتا رہا (اور اس قدر طویل بات کی) کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سے (کئی) سو گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی۔'' یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
13/2۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: إِنْ کَانَتِ الْأَمَۃُ مِنْ أَہْلِ الْمَدِیْنَۃِ لَتَأْخُذُ بِیَدِ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم فَمَا یَنْزِعُ یَدَہٗ مِنْ یَدِہَا حَتّٰی تَذْہَبَ بِہٖ حَیْثُ شَائَتْ مِنَ الْمَدِیْنَۃِ فِي حَاجَتِہَا۔ رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ وَابْنُ مَاجَہ وَاللَّفْظُ لَہٗ۔
2: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الأدب، باب الکبر، 5/2255، الرقم: 5724، وابن ماجہ في السنن، کتاب الزھد، باب البرائۃ من الکبر والتواضع، 2/1398، الرقم: 4177، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/98، الرقم: 11960، وأبو یعلی في المسند، 7/61، الرقم: 3982، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیائ، 7/202، والنووي في ریاض الصالحین/ 171، الرقم: 171۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا لوگوں کے ساتھ حسنِ معاشرت کا یہ عالم تھا) اگر عرب کی کوئی لونڈی (اپنی حاجت روائی کے لئے) راہ چلتے چلتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنا ہاتھ نہ چھڑاتے بلکہ وہ جہاں چاہتی اپنے کام کے سلسلے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو لے جاتی۔''
اِس حدیث کو امام بخاری اور ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔
14/3۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ غُـلَامٌ یَہُوْدِيٌّ یَخْدُمُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وآله وسلم فَمَرِضَ، فَأَتَاہُ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم یَعُوْدُہٗ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِہٖ، فَقَالَ لَہٗ: أَسْلِمْ۔ فَنَظَرَ إِلٰی أَبِیْہِ وَہُوَ عِنْدَہٗ، فَقَالَ لَہٗ: أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صلى الله عليه وآله وسلم ۔ فَأَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم وَہُوَ یَقُوْلُ: اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِي أَنْقَذَہٗ مِنَ النَّارِ۔
رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ۔
وفي روایۃ أبي داود: اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِي أَنْقَذَہٗ بِي مِنَ النَّارِ۔
3: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الجنائز، باب إذا أسلم الصبي فمات ہل یصلی علیہ وہل یعرض علی الصبي الإسلام، 1/455، الرقم: 1290، وأبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب في عیادۃ الذمي، 3/185، الرقم: 3095، والنسائي في السنن الکبری، 5/173، الرقم: 8588، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/227، 280، الرقم: 13399، 14009، وأبو یعلی في المسند، 6/93، الرقم: 3350، والبیہقي في السنن الکبری، 3/383، الرقم: 6389۔
''حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا وہ بیمار ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ کر اُس سے فرمایا: اسلام قبول کرلو۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اُس کے پاس بیٹھا تھا تو اس کے باپ نے کہا: ابو القاسم ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بات مان لو۔ پس اس نے اسلام قبول کر لیا۔ پھر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لائے: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے اسے جہنم سے بچا لیا۔''
اِسے امام بخاری، ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔
امام ابو داود کی روایت کے الفاظ یوں ہیں: ''اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے اِسے میری وجہ سے جہنم سے بچا لیا۔''
15/4۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم إِذَا صَلَّی الْغَدَاۃَ جَائَ خَدَمُ الْمَدِیْنَۃِ بِآنِیَتِہِمْ فِیْہَا الْمَائُ، فَمَا یُؤتَی بِإِنَائٍ إِلَّا غَمَسَ یَدَہٗ فِیْہَا، فَرُبَّمَا جَاؤُوْہُ فِي الْغَدَاۃِ الْبَارِدَۃِ فَیَغْمِسُ یَدَہٗ فِیْہَا۔
رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ۔
4: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب قرب النبي صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم من الناس وتبرکھم بہ، 4/1812، الرقم: 2324، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/137، الرقم: 12424، وعبد بن حمید في المسند، 1/380، الرقم: 1274، والبیھقي في شعب الإیمان، 2/154، الرقم: 1429۔
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو مدینہ منورہ کے خدام پانی سے بھرے ہوئے اپنے اپنے برتن لے کر آتے (تاکہ آقا علیہ السلام اس میں اپنا دستِ اقدس ڈال کر برکت عطا فرمائیں)، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر برتن میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے، بسا اوقات وہ نہایت سرد صبح پانی لے کر آتے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پھر بھی اپنا ہاتھ اُن میں ڈبو دیتے۔''
اِس حدیث کو امام مسلم اور احمد نے روایت کیا ہے۔
16/5۔ عَنْ أَنَسٍ ص، أَنَّ امْرَأَۃً کَانَ فِي عَقْلِہَا شَيئٌ، فَقَالَتْ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّ لِي إِلَیْکَ حَاجَۃً، فَقَالَ: یَا أُمَّ فُـلَانٍ، انْظُرِي أَيَّ السِّکَکِ شِئْتِ، حَتّٰی أَقْضِيَ لَکِ حَاجَتَکِ، فَخَـلَا مَعَہَا فِي بَعْضِ الطُّرُقِ حَتّٰی فَرَغَتْ مِنْ حَاجَتِہَا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ۔
5: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب قرب النبي صلى الله عليه وآله وسلم من الناس وتبرکھم بہ، 4/1812، الرقم: 2326، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في الجلوس في الطرقات، 4/257، الرقم: 4818، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/119، الرقم: 12218، وابن حبان في الصحیح، 10/386، الرقم: 4527، وأبویعلی في المسند، 6/188، الرقم: 3472۔
''حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک عورت کی عقل میں کچھ خرابی تھی، وہ کہنے لگی: یا رسول اللہ! مجھے آپ سے کچھ کام ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اُم فلاں! جس گلی میں چاہو انتظار کرو، میں تمہاری حاجت پوری کروں گا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے راستہ میں الگ ہو کر اُس سے بات کی اور اُس کی ضرورت پوری کی۔''
اِس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔
17/6۔ عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ خُلُقًا، فَأَرْسَلَنِي یَوْمًا لِحَاجَۃٍ، فَقُلْتُ: وَاﷲِ، لَا أَذْہَبُ، وَفِي نَفْسِي أَنْ أَذْہَبَ لِمَا أَمَرَنِي بِہٖ نَبِيُّ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ، فَخَرَجْتُ حَتّٰی أَمُرَّ عَلٰی صِبْیَانٍ وَہُمْ یَلْعَبُوْنَ فِي السُّوْقِ، فَإِذَا رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم قَدْ قَبَضَ بِقَفَايَ مِنْ وَرَائِي، قَالَ: فَنَظَرْتُ إِلَیْہِ وَہُوَ یَضْحَکُ فَقَالَ: یَا أُنَیْسُ، أَذَہَبْتَ حَیْثُ أَمَرْتُکَ؟ قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، أَنَا أَذْہَبُ یَا رَسُوْلَ اﷲِ، قَالَ أَنَسٌ: وَاﷲِ، لَقَدْ خَدَمْتُہٗ تِسْعَ سِنِیْنَ، مَا عَلِمْتُہٗ قَالَ لِشَيئٍ صَنَعْتُہٗ: لِمَ فَعَلْتَ کَذَا وَکَذَا؟ أَوْ لِشَيئٍ تَرَکْتُہٗ: ہَـلَّا فَعَلْتَ کَذَا وَکَذَا۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ۔
6: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الفضائل، باب کان رسول اﷲ صلى الله عليه وآله وسلم أحسن الناس خلقًا، 4/1805، الرقم: 2310، وأبو داود في السنن، کتاب الأدب، باب في الحلم وأخلاق النبي صلى الله عليه وآله وسلم ، 4/246، الرقم: 4773۔
''حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَخلاق سب سے اچھے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک دن مجھے کسی کام سے بھیجا، میں نے کہا: خدا کی قسم! میں نہیں جاؤں گا، حالانکہ میرے دل میں یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے جس کام کا حکم دیا ہے میں وہ کام کرنے ضرور جاؤں گا، میں چلا، حتیٰ کہ میں چند لڑکوں کے پاس سے گزرا جو بازار میں کھیل رہے تھے، پیچھے سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اچانک میری گدی سے پکڑا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اُنَیس! کیا تم وہاں گئے تھے جہاں میں نے کہا تھا، میں نے عرض کیا: جی ہاں، یا رسول اللہ! میں جا رہا ہوں، حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: خدا کی قسم! میں نو سال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہا، مجھے نہیں معلوم کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے کسی کام کے متعلق فرمایا ہو کہ تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟ یا کوئی کام میں نے نہ کیا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہو کہ تم نے اسے کیوں نہیں کیا۔'' اِسے امام مسلم اور ابو داود نے روایت کیا ہے۔
18/7۔ عَنْ أَبِي رِفَاعَۃَ رضي الله عنه قَالَ: انْتَہَیْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلى الله عليه وآله وسلم وَہُوَ یَخْطُبُ، قَالَ: فَقُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، رَجُلٌ غَرِیْبٌ، جَائَ یَسْأَلُ عَنْ دِیْنِہٖ، لَا یَدْرِي مَا دِیْنُہٗ، قَالَ: فَأَقْبَلَ عَلَيَّ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَتَرَکَ خُطْبَتَہٗ حَتَّی انْتَہَی إِلَيَّ، فَأُتِيَ بِکُرْسِيٍّ، حَسِبْتُ قَوَائِمَہٗ حَدِیْدًا، قَالَ: فَقَعَدَ عَلَیْہِ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَجَعَلَ یُعَلِّمُنِي مِمَّا عَلَّمَہُ اﷲُ ثُمَّ أَتَی خُطْبَتَہٗ فَأَتَمَّ آخِرَہَا۔
رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ۔
7: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب الجمعۃ، باب حدیث التعلیم في الخطبۃ، 2/597، الرقم: 876، والنسائي في السنن، کتاب الزینۃ، باب الجلوس علی الکرسي، 8/220، الرقم: 5377، وأیضًا في السنن الکبری، 5/510، الرقم: 9826، وأحمد بن حنبل في المسند، 5/80، الرقم: 20772، والبخاري في الأدب المفرد/ 399، الرقم: 1164، وابن خزیمۃ في الصحیح، 3/151، الرقم: 1800، والطبراني في المعجم الکبیر، 2/59، الرقم: 1284۔
''حضرت ابو رفاعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ ارشاد فرما رہے تھے، وہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ایک مسافر اپنے دین کے بارے میں سوال کرنے آیا ہے، اُسے نہیں معلوم کہ اُس کا دین کیا ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ چھوڑ کر میری طرف بڑھے اور میرے پاس پہنچ گئے، پھر ایک کرسی لائی گئی۔ میرا خیال ہے اُس کرسی کے پائے لوہے کے تھے، حضرت ابو رفاعہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس پر تشریف فرما ہوئے اور جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے دین کا علم دیا تھا اُس میں سے مجھے تعلیم دینے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا خطبہ پورا کیا۔''
اِس حدیث کو امام مسلم، نسائی، اَحمد اور بخاری نے الادب المفرد میں روایت کیا ہے۔
19/8۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم إِذَا اسْتَقْبَلَہُ الرَّجُلُ فَصَافَحَہٗ، لَا یَنْزِعُ یَدَہٗ مِنْ یَدِہٖ حَتّٰی یَکُوْنَ الرَّجُلُ یَنْزِعُ، وَلَا یَصْرِفُ وَجْہَہٗ عَنْ وَجْہِہٖ حَتّٰی یَکُوْنَ الرَّجُلُ ہُوَ الَّذِي یَصْرِفُہٗ، وَلَمْ یُرَ مُقَدِّمًا رُکْبَتَیْہِ بَیْنَ یَدَي جَلِیْسٍ لَہٗ۔ رَوَاہُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَہ۔
8: أخرجہ الترمذي في السنن، کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق والورع، باب: (45)، 4/654، الرقم: 2490، وابن ماجہ في السنن، کتاب الأدب ، باب إکرام الرجل جلیسہ، 2/1224، الرقم: 3716، وابن الجعد في المسند، 1/494، الرقم: 3443، والبیھقي في السنن الکبری، 10/192، الرقم: 20579، وأیضًا في شعب الإیمان، 6/273، الرقم: 8132، وابن سعد في الطبقات الکبری، 1/378۔
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب کوئی شخص حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس سے مصافحہ فرماتے اور جب تک وہ خود ہاتھ نہ چھوڑتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ چھوڑتے اور جب تک وہ اپنا چہرہ نہ پھیرتا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے اپنا چہرہ اَنور نہ پھیرتے۔ اور کبھی بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے سامنے بیٹھنے والے کی طرف پاؤںپھیلائے ہوئے نہیں دیکھا گیا۔'' اِسے امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
20/9۔ عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه قَالَ: کُنَّا یَوْمَ بَدْرٍ ثَـلَاثَۃً عَلٰی بَعِیْرٍ، کَانَ أَبُوْ لُبَابَۃَ وَعَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رضي اﷲ عنھما زَمِیْلَي رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ، قَالَ: وَکَانَتْ عُقْبَۃُ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ، قَالَ: فَقَالَا: نَحْنُ نَمْشِي عَنْکَ، فَقَالَ: مَا أَنْتُمَا بِأَقْوَی مِنِّي وَلَا أَنَا بِأَغْنٰی عَنِ الْأَجْرِ مِنْکُمَا۔
رَوَاہُ النَّسَائِيَُّ وَأَحْمَدُ۔
9: أخرجہ النسائي في السنن الکبری، 5/205، الرقم: 3901، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/411، الرقم : 3901، والطیالسي في المسند، 1/47، الرقم: 354، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیائ، 6/254255۔
''حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جنگِ بدر والے دن ہم تین لوگ ایک اونٹ پر تھے (اور باری باری سوار ہوتے تھے) حضرت ابو لبابہ اور حضرت علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنھما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھی تھے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چلنے کی باری آئی تو دونوں صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! آپ کی جگہ ہم چل لیتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہ تو تم دونوں مجھ سے زیادہ طاقتور ہو اور نہ ہی میں تم سے زیادہ اَجر سے بے نیاز ہوں۔''
اِس حدیث کو امام نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
21/10۔ عَنْ عُرْوَۃَ قَالَ: سَأَلَ رَجُلٌ عَائِشَۃَ رضي اﷲ عنھا: ہَلْ کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم یَعْمَلُ فِي بَیْتِہٖ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم یَخْصِفُ نَعْلَہٗ، وَیَخِیْطُ ثَوْبَہٗ، وَیَعْمَلُ فِي بَیْتِہٖ کَمَا یَعْمَلُ أَحَدُکُمْ فِي بَیْـتِہٖ۔ رَوَاہُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ۔
10: أخرجہ عبد الرزاق في المصنف ، 11/260، الرقم: 20492، وأحمد بن حنبل في المسند، 6/167، الرقم: 25380، وابن حبان في الصحیح ، 12/490، الرقم: 5676، 5677، وعبد بن حمید في المسند، 1/431، الرقم: 1482، والھیثمي في موارد الظمآن، 1/524، الرقم: 2133، وابن راشد الأزدي في الجامع، 11/260، الرقم: 20492، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 4/59۔
''حضرت عروہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے دریافت کیا کہ کیا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر میں کام کیا کرتے تھے؟ آپ نے فرمایا: ہاں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نعلین مبارک گانٹھ لیتے، اپنے کپڑے سی لیتے، اور اپنے گھر میں ایسے ہی کام کرتے جیسے تم میں سے کوئی شخص اپنے گھر میں کام کرتا ہے۔''
اِس حدیث کو امام عبد الرزاق، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
22/11۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ ص، قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم إِذَا فَقَدَ الرَّجُلَ مِنْ إِخْوَانِہٖ ثَـلَاثَۃَ أَیَّامٍ سَأَلَ عَنْہٗ، فَإِنْ کَانَ غَائِبًا دَعَا لَہٗ، وَإِنْ کَانَ شَاہِدًا زَارَہٗ، وَإِنْ کَانَ مَرِیْضًا عَادَہٗ…الحدیث۔ رَوَاہُ أَبُوْ یَعْلٰی۔
11: أخرجہ أبو یعلی في المسند، 6/150، الرقم: 3429۔
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب اپنے (دینی) بھائیوں میں سے کسی شخص کو تین دن سے زیادہ عرصہ نہ پاتے تو اس کے متعلق دریافت فرماتے، پس اگر وہ غائب ہوتا تو اس کے لئے دعا فرماتے، موجود ہوتا تو اس سے ملاقات فرماتے، اور اگر وہ بیمار ہوتا تو اس کی عیادت فرماتے۔''
اِسے امام ابویعلی نے روایت کیا ہے۔
23/12۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي اﷲ عنھما قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم یَجْلِسُ عَلَی الأَرْضِ، وَیَأْکُلُ عَلَی الأَرْضِ، وَیَعْقِلُ الشَّاۃَ، وَیُجِیْبُ دَعْوَۃَ الْمَمْلُوْکِ عَلٰی خُبْزِ الشَّعِیْرِ۔
رَوَاہُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَیْھَقِيُّ، وَقَالَ الْھَیْثَمِيُّ: إِسْنَادُہٗ حَسَنٌ۔
12: أخرجہ الطبراني في المعجم الکبیر، 12/67، الرقم: 12494، والبیھقي في شعب الإیمان، 6/290، الرقم: 8192، والہیثمي في مجمع الزوائد ، 9/20۔
''حضرت عبد اﷲ بن عباس رضي اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زمین پر بیٹھتے، زمین پر کھانا تناول فرماتے، بکری کو باندھ لیتے، اور جو کی روٹی پر غلاموں کی دعوت قبول فرماتے۔''
اس حدیث کو امام طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس حدیث کی اسناد حسن ہے۔
24/13۔ عَنْ أَبِي جُحَیْفَۃَ رضي الله عنه قَالَ: خَرَجَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم بِالْہَاجِرَۃِ إِلَی الْبَطْحَائِ، فَتَوَضَّأَ، ثُمَّ صَلَّی الظُّہْرَ رَکْعَتَیْنِ وَالْعَصْرَ رَکْعَتَیْنِ، وَبَیْنَ یَدَیْہِ عَنَزَۃٌ، قَالَ شُعْبَۃُ: وَزَادَ فِیْہِ عَوْنٌ، عَنْ أَبِیْہِ، أَبِي جُحَیْفَۃَ قَالَ: کَانَ یَمُرُّ مِنْ وَرَائِہَا الْمَرْأَۃُ وَقَامَ النَّاسُ، فَجَعَلُوْا یَأَْخُذُوْنَ یَدَیْہِ، فَیَمْسَحُوْنَ بِہَا وُجُوْہَہُمْ، قَالَ: فَأَخَذْتُ بِیَدِہٖ، فَوَضَعْتُہَا عَلٰی وَجْہِي، فَإِذَا ہِيَ أَبْرَدُ مِنَ الثَّلْجِ وَأَطْیَبُ رَائِحَۃً مِنَ الْمِسْکِ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
13: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب صفۃ النبي صلى الله عليه وآله وسلم ، 3/1304، الرقم: 3360، ومسلم في الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب سترۃ المصلي، 1/360، الرقم: 503، والدارمي في السنن، 1/366، الرقم: 1367، وأحمد بن حنبل في المسند، 4/309، الرقم: 18789، وابن خزیمۃ في الصحیح، 3/67، الرقم: 1638، والطبراني في المعجم الکبیر، 22/115، الرقم: 294۔
''حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک روز وادی بطحاء کی جانب تشریف لے گئے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا، پھر ظہر کی دو رکعتیں ادا کیں اور عصر کی بھی دو رکعتیں پڑھیں۔ (سترہ قائم کرنے کے لئے) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ایک نیزہ گاڑ دیا گیا تھا۔ حضرت عون نے اپنے والد سے اور انہوں نے حضرت جحیفہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت کیا کہ اس نیزے کے پیچھے سے عورتیں گزر گئیں اور مرد کھڑے رہے پھر صحابہ کرام ث اپنے ہاتھوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے مس کر کے اپنے چہروں پر ملنے لگے، میں نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ مبارک تھاما اور اپنے چہرے سے مس کیا تو دیکھا کہ وہ برف سے زیادہ ٹھنڈا اور اُس کی خوشبو کستوری کی خوشبو سے زیادہ عمدہ تھی۔'' یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
25/14۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضي اﷲ عنھما قَالَ: قَاتَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم مُحَارِبَ خَصَفَۃَ بِنَخْلٍ، فَرَأَوْا مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ غِرَّۃً، فَجَائَ رَجُلٌ مِنْہُمْ، یُقَالُ لَہٗ غَوْرَثُ بْنُ الْحَارِثِ، حَتّٰی قَامَ عَلٰی رَأْسِ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم بِالسَّیْفِ، فَقَالَ: مَنْ یَمْنَعُکَ مِنِّي؟ قَالَ: اﷲُ ل فَسَقَطَ السَّیْفُ مِنْ یَدِہٖ، فَأَخَذَہٗ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: مَنْ یَمْنَعُکَ مِنِّي؟ قَالَ: کُنْ کَخَیْرِ آخِذٍ، قَالَ: أَتَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اﷲُ، قَالَ: لَا، وَلٰـکِنِّي أُعَاہِدُکَ أَنْ لَا أُقَاتِلَکَ وَلَا أَکُوْنَ مَعَ قَوْمٍ یُقَاتِلُوْنَکَ، فَخَلّٰی سَبِیْلَہٗ، قَالَ: فَذَہَبَ إِلٰی أَصْحَابِہٖ قَالَ: قَدْ جِئْتُکُمْ مِنْ عِنْدِ خَیْرِ النَّاسِ…الحدیث۔
رَوَاہُ أَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ وَأَبُوْ یَعْلٰی۔ وَقَالَ الْحَاکِمُ: ھٰذَا حَدِیْثٌ صَحِیْحٌ۔
14: أخرجہ أحمد بن حنبل في المسند، 3/364، 390، الرقم: 14971، 15227، وابن حبان في الصحیح، 7/138، الرقم: 2883، وأبو یعلی في المسند، 3/313، الرقم: 1778، والحاکم في المستدرک، 3/31، الرقم: 4322، وسعید بن منصور في السنن، 2/238، الرقم: 2504، والنووي في ریاض الصالحین/36۔
''حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے محارب خصفہ قبیلہ کے ساتھ نخلستان میں جہاد کیا۔ پس اُنہوں نے مسلمانوں کی جانب سے غفلت محسوس کی، تو اُن میں سے ایک آدمی جسے غورث بن الحارث کہا جاتا ہے آیا اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ انور کے پاس تلوار لے کر کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا: اب آپ کو مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اﷲ تعالیٰ۔ (بس یہ سننا تھا کہ) تلوار اُس کے ہاتھ سے گر گئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ تلوار اُٹھا لی اور فرمایا: تمہیں مجھ سے کون بچا سکتا ہے؟ اُس نے عرض کیا: بہتر انداز میں مجھ سے بدلہ لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ گواہی دیتے ہو کہ اﷲ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں؟ اُس نے کہا: نہیں، مگر یہ وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ آپ کے ساتھ جنگ نہیں کروں گا اور نہ ہی آپ کے دشمنوں کا ساتھ دوں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کا راستہ چھوڑ دیا۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ وہ شخص اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہا کہ میں لوگوں میں سب سے بہترین شخص کے پاس سے ہو کر آیا ہوں۔''
اِس حدیث کو امام احمد، ابن حبان اور ابویعلی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔
26/15۔ عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ أَبُوْ طَلْحَۃَ لِأُمِّ سُلَیْمٍ: لَقَدْ سَمِعْتُ صَوْتَ رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ضَعِیْفًا، أَعْرِفُ فِیْہِ الْجُوْعَ، فَہَلْ عِنْدَکِ مِنْ شَيئٍ؟ قَالَتْ: نَعَمْ، فَأَخْرَجَتْ أَقْرَاصًا مِنْ شَعِیْرٍ، ثُمَّ أَخْرَجَتْ خِمَارًا لَہَا، فَلَفَّتِ الْخُبْزَ بِبَعْضِہٖ، ثُمَّ دَسَّتْہٗ تَحْتَ یَدِي وَلَاثَتْنِي بِبَعْضِہٖ، ثُمَّ أَرْسَلَتْنِي إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم قَالَ: فَذَہَبْتُ بِہٖ، فَوَجَدْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَہُ النَّاسُ، فَقُمْتُ عَلَیْہِمْ، فَقَالَ لِي رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم : آرْسَلَکَ أَبُوْ طَلْحَۃَ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: بِطَعَامٍ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم لِمَنْ مَعَہٗ: قُوْمُوْا، فَانْطَلَقَ وَانْطَلَقْتُ بَیْنَ أَیْدِیْہِمْ حَتّٰی جِئْتُ أَبَا طَلْحَۃَ فَأَخْبَرْتُہٗ، فَقَالَ أَبُوْ طَلْحَۃَ: یَا أُمَّ سُلَیْمٍ، قَدْ جَائَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم بِالنَّاسِ، وَلَیْسَ عِنْدَنَا مَا نُطْعِمُہُمْ۔ فَقَالَتْ: اَﷲُ وَرَسُوْلُہٗ أَعْلَمُ، فَانْطَلَقَ أَبُوْ طَلْحَۃَ حَتّٰی لَقِيَ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ، فَأَقْبَلَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَأَبُوْ طَلْحَۃَ مَعَہٗ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم : ہَلُمِّي یَا أُمَّ سُلَیْمٍ، مَا عِنْدَکِ، فَأَتَتْ بِذَالِکَ الْخُبْزِ، فَأَمَرَ بِہٖ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ، فَفُتَّ وَعَصَرَتْ أُمُّ سُلَیْمٍ عُکَّۃً فَأَدَمَتْہُ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم فِیْہِ مَا شَائَ اﷲُ أَنْ یَقُوْلَ، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَۃٍ، فَأَذِنَ لَہُمْ، فَأَکَلُوا حَتّٰی شَبِعُوْا ثُمَّ خَرَجُوْا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَۃٍ، فَأَذِنَ لَہُمْ، فَأَکَلُوْا حَتّٰی شَبِعُوْا ثُمَّ خَرَجُوْا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَۃٍ، فَأَذِنَ لَہُمْ، فَأَکَلُوْا حَتّٰی شَبِعُوْا ثُمَّ خَرَجُوْا، ثُمَّ قَالَ: ائْذَنْ لِعَشَرَۃٍ، فَأَکَلَ الْقَوْمُ کُلُّہُمْ وَشَبِعُوْا، وَالْقَوْمُ سَبْعُوْنَ أَوْ ثَمَانُوْنَ رَجُـلًا۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
15: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب علامات النبوۃ في الإسلام، 3/1311، الرقم: 3385، ومسلم في الصحیح ، کتاب الأشربۃ، باب جواز استتباعہ غیرہ إلی دار من یثق برضاہ بذلک وبتحققہ تحققا تاما واستحباب الاجتماع علی الطعام ، 3/1612، الرقم : 2040، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب منہ، 5/595، الرقم: 3630، ومالک في الموطأ، کتاب صفۃ النبي صلى الله عليه وآله وسلم ، باب جامع ما جاء في الطعام والشراب، 2/927، الرقم: 1657، والنسائي في السنن الکبری، 4/142، الرقم: 6617، وأحمد بن حنبل في المسند، 3/147 الرقم : 12513۔
''حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ حضرت ابو طلحہ نے حضرت اُمّ سلیم (والدہِ حضرت انس) سے فرمایا: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز سنی ہے جس میں مجھے کمزوری محسوس ہوتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کئی روز سے) فاقے سے ہیں۔ کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ اُنہوں نے اثبات میں جواب دیا اور جو کی کچھ روٹیاں نکال لائیں۔ پھر اپنا ایک دوپٹہ نکالا اور اس میں روٹیاں لپیٹ دیں پھر روٹیاں میرے (یعنی حضرت انس رضی اللہ عنہ کے) سپرد کر کے باقی دوپٹہ میرے گرد لپیٹدیا اور مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب روانہ کر دیا۔ میں روٹیاں لے کر گیا توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے اور شمع رسالت کے گرد چند پروانے بھی موجود تھے۔ میں خاموشی سے جا کر اُن کے پاس کھڑا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہیں ابو طلحہ نے بھیجا ہے؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں، فرمایا: کھانا دے کر؟ میں عرض گزار ہوا: جی ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: تم لوگ بھی اُٹھو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چل پڑے میں اُن سے آگے چلتا رہا اور جاکر حضرت ابو طلحہ کو بتا دیا۔
حضرت ابو طلحہ نے فرمایا: اے اُم سلیم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو لے کر ہمارے غریب خانے پر تشریف لا رہے ہیں اور ہمارے پاس اُنہیں کھلانے کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ اُم سلیم نے کہا: اللہ تعالیٰ اور اُس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔ پس حضرت ابو طلحہ فوراً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے استقبال کے لیے نکلے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملاقات کی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابو طلحہ کو ساتھ لیا اور صحابہ کرام ث کے ہمراہ اُن کے گھر تشریف لے آئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اُمّ سلیم! جو کچھ تمہارے پاس ہے لے آؤ۔ اُنہوں نے وہی روٹیاں حاضر خدمت کر دیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے ٹکڑے کرنے کا حکم فرمایا اور حضرت اُمّ سلیم نے سالن کی جگہ برتن سے گھی نکال لیا۔ پھر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو اﷲ تعالیٰ نے چاہا اُس پر پڑھا اور فرمایا: دس آدمیوں کو کھانے کے لیے بلا لو۔ پس اُن دس آدمیوں نے سیر ہو کر کھانا کھا لیا اور چلے گئے۔ پھر فرمایا: دس آدمی کھانے کے لیے اور بلا لو۔ چنانچہ وہ بھی آئے اور سیر ہو کر چلے گئے۔ پھر فرمایا: دس اور آدمیوں کو کھانے کے لیے بلا لو۔ پس اُنہیں بھی بلایا گیا تو اُنہوں نے بھی پیٹ بھر کر کھایا۔ پھر فرمایا: دس آدمیوں کو اور بلاؤ۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حتیٰ کہ تمام حضرات نے شکم سیر ہو کر کھانا کھا لیا۔ جملہ مہمان ستر یا اسی افراد تھے۔''
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
27/16۔ عَنْ أَبِي ہُرَیْرَۃَ أَوْ عَنْ أَبِي سَعِیْدٍ رضي اﷲ عنہما، شَکَّ الْأَعْمَشُ، قَالَ: لَمَّا کَانَ غَزْوَۃُ تَبُوْکَ أَصَابَ النَّاسَ مَجَاعَۃٌ، قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَوْ أَذِنْتَ لَنَا فَنَحَرْنَا نَوَاضِحَنَا فَأَکَلْنَا وَادَّہَنَّا، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم : افْعَلُوْا، قَالَ: فَجَائَ عُمَرُ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنْ فَعَلْتَ قَلَّ الظَّہْرُ، وَلٰـکِنِ ادْعُہُمْ بِفَضْلِ أَزْوَادِہِمْ۔ ثُمَّ ادْعُ اﷲَ لَہُمْ عَلَیْہَا بِالْبَرَکَۃِ، لَعَلَّ اﷲَ أَنْ یَجْعَلَ فِي ذَالِکَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم : نَعَمْ، قَالَ: فَدَعَا بِنِطَعٍ فَبَسَطَہٗ ثُمَّ دَعَا بِفَضْلِ أَزْوَادِہِمْ، قَالَ: فَجَعَلَ الرَّجُلُ یَجِيئُ بِکَفِّ ذُرَۃٍ، قَالَ: وَیَجِيئُ الْآخَرُ بِکَفِّ تَمْرٍ، قَالَ: وَیَجِيئُ الْآخَرُ بِکَسْرَۃٍ، حَتَّی اجْتَمَعَ عَلَی النِّطَعِ مِنْ ذَالِکَ شَيئٌ یَسِیْرٌ، قَالَ: فَدَعَا رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم عَلَیْہِ بِالْبَرَکَۃِ، ثُمَّ قَالَ: خُذُوْا فِي أَوْعِیَتِکُمْ، قَالَ: فَأَخَذُوْا فِي أَوْعِیَتِہِمْ حَتّٰی مَا تَرَکُوْا فِي الْعَسْکَرِ وِعَائً إِلَّا مَلَئُوْہُ، قَالَ: فَأَکَلُوْا حَتّٰی شَبِعُوْا، وَفَضِلَتْ فَضْلَۃٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم : أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اﷲُ وَأَنِّي رَسُوْلُ اﷲِ، لَا یَلْقَی اﷲَ بِہِمَا عَبْدٌ غَیْرَ شَاکٍّ فَیُحْجَبَ عَنِ الْجَنَّۃِ۔
مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ۔
16: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب الشرکۃ، باب الشرکۃ في الطعام والنھد والعروض، 2/879، الرقم: 2352، ومسلم في الصحیح ، کتاب الإیمان، باب الدلیل علی أن من مات علی التوحید دخل الجنۃ قطعًا، 1/56، الرقم : 27، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/421، الرقم: 9447، وابن حبان في الصحیح، 14/464، الرقم: 6530، وأبو یعلی في المسند، 2/411، الرقم، 1199، وابن مندہ في الإیمان، 1/177178، الرقم: 36، والنووي في ریاض الصالحین/ 125، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 49/52۔
''حضرت ابو ہریرہ یا حضرت ابو سعید خدری رضی اﷲ عنہما نے بیان فرمایا: غزوہ تبوک کے سفر میں لوگوں کو سخت بھوک لگی ہوئی تھی، صحابہ کرام ث نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ اجازت دیں تو ہم پانی لانے والے اُونٹوں کو ذبح کر کے کھا لیں اور چربی کا تیل بنا لیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت دے دی، اتنے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر آپ نے ایسا کیا تو مال بردار سواریاں کم ہو جائیں گی، البتہ آپ لوگوں کا بچا ہوا کھانا منگوا لیجئے اور اُس پر برکت کی دعا فرما دیجئے، اللہ تعالیٰ سے اُمید ہے کہ وہ برکت عطا فرمائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ٹھیک ہے اور ایک چمڑے کا دسترخوان بچھا دیا۔ پھر لوگوں کا بچا ہوا کھانا منگوایا کوئی شخص اپنی ہتھیلی میں جوار اور کوئی کھجوریں اور کوئی روٹی کے ٹکڑے لیے چلا آ رہا تھا، یہ سب چیزیں مل کر بھی بہت تھوڑی مقدار میں جمع ہوئیں، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس میں برکت کی دعا فرمائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سب اپنے اپنے برتنوں میں کھانا بھر لیں۔ چنانچہ تمام لوگوں نے اپنے اپنے برتن بھر لیے یہاں تک کہ لشکر کے تمام برتن بھر گئے اور سب نے مل کر کھانا کھایا اور سیر ہو گئے لیکن کھانا پھر بھی بچ گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک میں اللہ تعالیٰ کا (سچا) رسول ہوں اور جو شخص بھی اِس کلمہ پر یقین کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے جا ملے گا وہ شخص جنتی ہوگا۔'' یہ حدیث متفق علیہ ہے مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
28/17۔ عَنْ أَبِي ہُرَیْرَۃَ رضي الله عنه قَالَ: کُنْتُ أَدْعُوْ أُمِّي إِلَی الإِسـْلَامِ وَہِيَ مُشْرِکَۃٌ، فَدَعَوْتُہَا یَوْمًا، فَأَسْمَعَتْنِي فِي رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم مَا أَکْرَہُ، فَأَتَیْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم وَأَنَا أَبْکِي، قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي کُنْتُ أَدْعُوْ أُمِّي إِلَی الإِسْلَامِ فَتَأْبَی عَلَيَّ، فَدَعَوْتُہَا الْیَوْمَ، فَأَسْمَعَتْنِي فِیْکَ مَا أَکْرَہُ، فَادْعُ اﷲَ أَنْ یَہْدِيَ أُمَّ أَبِي ہُرَیْرَۃَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم : اَللّٰھُمَّ، اہْدِ أُمَّ أَبِي ہُرَیْرَۃَ، فَخَرَجْتُ مُسْتَبْشِرًا بِدَعْوَۃِ نَبِيِّ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم ، فَلَمَّا جِئْتُ فَصِرْتُ إِلَی الْبَابِ فَإِذَا ہُوَ مُجَافٌ، فَسَمِعَتْ أُمِّي خَشْفَ قَدَمَيَّ فَقَالَتْ: مَکَانَکَ، یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ، وَسَمِعْتُ خَضْخَضَۃَ الْمَائِ، قَالَ: فَاغْتَسَلَتْ وَلَبِسَتْ دِرْعَہَا، وَعَجِلَتْ عَنْ خِمَارِہَا، فَفَتَحَتِ الْبَابَ، ثُمَّ قَالَتْ: یَا أَبَا ہُرَیْرَۃَ، أَشْہَدُ أَنْ لَا إِلٰـہَ إِلَّا اﷲُ وَأَشْہَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم فَأَتَیْتُہٗ وَأَنَا أَبْکِي مِنَ الْفَرَحِ، قَالَ: قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَبْشِرْ قَدِ اسْتَجَابَ اﷲُ دَعْوَتَکَ، وَہَدَی أُمَّ أَبِي ہُرَیْرَۃَ، فَحَمِدَ اﷲَ وَأَثْنَی عَلَیْہِ وَقَالَ خَیْرًا، قَالَ: قُلْتُ : یَا رَسُوْلَ اﷲِ، ادْعُ اﷲَ أَنْ یُحَبِّبَنِي أَنَا وَأُمِّي إِلٰی عِبَادِہِ الْمُؤمِنِیْنَ وَیُحَبِّبَہُمْ إِلَیْنَا، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم : اَللّٰھُمَّ حَبِّبْ عُبَیْدَکَ ہٰذَا یَعْنِي أَبَا ہُرَیْرَۃَ وَأُمَّہٗ إِلٰی عِبَادِکَ الْمُؤمِنِیْنَ وَحَبِّبْ إِلَیْہِمُ الْمُؤمِنِیْنَ، فَمَا خُلِقَ مُؤمِنٌ یَسْمَعُ بِي وَلَا یَرَانِي إِلَّا أَحَبَّنِي۔ رَوَاہُ مُسْلِمٌ وَأَحْمَدُ وَابْنُ حِبَّانَ۔
17: أخرجہ مسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل أبي ہریرۃ الدوسيص، 4/1938، الرقم: 2491، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/319، الرقم: 8242، وابن حبان في الصحیح، 16/107، الرقم: 7154، والحاکم في المستدرک، 2/677، الرقم: 4240، وقال: ھذا حدیث صحیح الإسناد، والبغوي في شرح السنۃ، 13/306، الرقم: 3726، والخطیب التبریزي في مشکاۃ المصابیح، 3/297، الرقم: 5795، وابن سعد في الطبقات الکبری، 4/328، والأصبھاني في دلائل النبوۃ، 1/85، الرقم: 77، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 67/325۔
''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ مشرکہ تھیں، میں انہیں اسلام کی دعوت دیتا تھا، ایک دن میں نے انہیں دعوت دی تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلق ایسی بات کہی جو مجھے ناگوار گزری، میں روتا ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس گیا، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنی ماں کو اسلام کی دعوت دیتا تھا وہ انکار کرتی تھی، آج میں نے اسے دعوت دی تو اس نے آپ کے متعلق ایسا کلمہ کہا جو مجھے ناگوار گزرا، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت دے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت عطا فرما۔ (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعا لے کر خوشی سے گھر کی طرف روانہ ہوا، جب میں گھر کے دروازہ پر پہنچا تو دروازہ بند تھا، ماں نے میرے قدموں کی آہٹ سن لی، اس نے کہا اے ابوہریرہ! اپنی جگہ ٹھہرو، پھر میں نے پانی گرنے کی آواز سنی، میری ماں نے غسل کیا اور قمیص پہنی اور جلدی میں بغیر چادر کے باہر آئیں، پھر دروازہ کھولا اور کہا: اے ابوہریرہ! میں گواہی دیتی ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور گواہی دیتی ہوں کہ بے شک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کے بندے اور (سچے) رسول ہیں۔
میں خوشی سے روتا ہوا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو بشارت ہو، اللہ تعالیٰ نے آپ کی دعا قبول کرلی اور ابو ہریرہ کی ماں کو ہدایت مل گئی ہے، آپ نے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کی اور کلمہ خیر فرمایا، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ اللہ تعالیٰ میری اور میری ماں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں ڈال دے، اور ہمارے دلوں میں ان کی محبت ڈال دے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! اپنے اس بندے (ابو ہریرہ) اور اس کی ماں کی محبت اپنے مومن بندوں کے دلوں میں پیدا کر دے، اور مومنوں کی محبت ان کے دل میں ڈال دے، (حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ) پھر ایسا کوئی مسلمان پیدا نہیں ہوا جو میرا ذکر سن کر یا مجھے دیکھ کر مجھ سے محبت نہ کرے۔''
اِس حدیث کو امام مسلم، احمد اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔
29/18۔ عَنْ أَبِي ہُرَیْرَۃَ رضي الله عنه قَالَ: یَقُوْلُوْنَ: إِنَّ أَبَا ہُرَیْرَۃَ یُکْثِرُ الْحَدِیْثَ، وَاﷲُ الْمَوْعِدُ، وَیَقُوْلُوْنَ: مَا لِلْمُہَاجِرِیْنَ وَالْأَنْصَارِ لَا یُحَدِّثُوْنَ مِثْلَ أَحَادِیْثِہٖ؟ وَإِنَّ إِخْوَتِي مِنَ الْمُہَاجِرِیْنَ کَانَ یَشْغَلُہُمُ الصَّفْقُ بِالْأَسْوَاقِ، وَإِنَّ إِخْوَتِي مِنَ الْأَنْصَارِ کَانَ یَشْغَلُہُمْ عَمَلُ أَمْوَالِہِمْ، وَکُنْتُ امْرَأً مِسْکِیْنًا، أَلْزَمُ رَسُوْلَ اﷲِ صلى الله عليه وآله وسلم عَلٰی مِلْئِ بَطْنِي، فَأَحْضَرُ حِیْنَ یَغِیْبُوْنَ، وَأَعِي حِیْنَ یَنْسَوْنَ۔ وَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم یَوْمًا: لَنْ یَبْسُطَ أَحَدٌ مِنْکُمْ ثَوْبَہٗ حَتّٰی أَقْضِيَ مَقَالَتِي ہٰذِہٖ، ثُمَّ یَجْمَعَہٗ إِلٰی صَدْرِہٖ فَیَنْسٰی مِنْ مَقَالَتِي شَیْئًا أَبَدًا، فَبَسَطْتُ نَمِرَۃً لَیْسَ عَلَيَّ ثَوْبٌ غَیْرُہَا حَتّٰی قَضَی النَّبِيُّ صلى الله عليه وآله وسلم مَقَالَتَہٗ، ثُمَّ جَمَعْتُہَا إِلٰی صَدْرِي، فَوَالَّذِي بَعَثَہٗ بِالْحَقِّ، مَا نَسِیْتُ مِنْ مَقَالَتِہٖ تِلْکَ إِلٰی یَوْمِي ہٰذَا، وَاﷲِ، لَوْلَا آیَتَانِ فِي کِتَابِ اﷲِ مَا حَدَّثْتُکُمْ شَیْئًا أَبَدًا: {إِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَا أَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنَاتِ وَالْہُدَی إِلٰی قَوْلِہِ… الرَّحِیْمُo} ]البقرۃ، 2:159۔160[۔ مُتَّفَقٌ عَلَیْہِ۔
18: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المزارعۃ، باب ما جاء في الغرس، 2/827، الرقم: 2223، ومسلم في الصحیح، کتاب فضائل الصحابۃ، باب من فضائل أبي ہریرۃ الدوسيص، 4/1939، الرقم: 2492، وأحمد بن حنبل في المسند، 2/240، الرقم: 7273، وأبو نعیم في حلیۃ الأولیائ، 1/381، وابن عساکر في تاریخ مدینۃ دمشق، 67/333۔
''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: لوگ کہتے ہیں کہ ابو ہریرہ کثرت سے احادیث روایت کرتا ہے حالانکہ وہ بھی خدا کے حضور جائے گا اور وہ لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مہاجرین و انصار بھی اُس کے برابر روایت نہیں کرتے حالانکہ ہمارے مہاجر بھائی بازار میں تجارت میں مشغول رہتے اور میرے انصار بھائی اپنی زراعت میں مشغول رہتے جب کہ میں مسکین آدمی تھا اور پیٹ بھر جانے پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر رہتا۔ پس وہ غائب ہوتے تو میں حاضر رہتا اور وہ بھول جاتے تو میں یاد رکھتا۔ ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے جو آج اپنا کپڑا پھیلائے رکھے یہاں تک کہ میں اپنی بات پوری کروں پھر اسے اکٹھا کر کے اپنے سینے سے لگا لے تو کبھی میری کوئی بات نہیں بھولے گا۔ میں نے اپنی چادر پھیلا دی اور اس چادر کے سوا میرے اوپر کوئی اور کپڑا نہ تھا۔ یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا ارشاد گرامی مکمل فرما لیا۔ پھر میں نے اسے اکٹھا کر کے اپنے سینے سے لگا لیا۔ پس قسم ہے اس ذات کی جس نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا! میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات میں سے اُس روز سے آج تک کوئی بات نہیں بھولا۔ خدا کی قسم! اگر اللہ کی کتاب میں دو آیتیں نہ ہوتیں تو میں تمہیں کبھی کوئی حدیث بیان نہ کرتا یعنی: ''بے شک جو لوگ ہماری نازل کردہ کھلی نشانیوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں اﷲ تعالیٰ کے فرمان: الرحیم تک۔''
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
30/19۔ عَنْ أَبِي ہُرَیْرَۃَ رضي الله عنه قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي سَمِعْتُ مِنْکَ حَدِیْثًا کَثِیْرًا فَأَنْسَاہٗ، قَالَ: ابْسُطْ رِدَائَکَ، فَبَسَطْتُہٗ، فَغَرَفَ بِیَدِہٖ فِیْہِ ثُمَّ قَالَ: ضُمَّہٗ، فَضَمَمْتُہٗ، فَمَا نَسِیْتُ حَدِیْثًا بَعْدُ۔
رَوَاہُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ۔ وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: ہٰذَا حَدِیْثٌ حَسَنٌ صَحِیْحٌ۔
19: أخرجہ البخاري في الصحیح، کتاب المناقب، باب سؤال المشرکین أن یریھم النبي صلى الله عليه وآله وسلم آیۃ فأراھم انشقاق القمر، 3/1333، الرقم: 3448، والترمذي في السنن، کتاب المناقب، باب مناقب أبي ھریرۃ ص، 5/684، الرقم: 3835، وابن سعد في الطبقات الکبری، 2/362۔
''حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! میں نے آپ سے بہت سی احادیث سنی ہیں لیکن یاد کچھ بھی نہیں رہتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنی چادر پھیلاؤ۔ میں نے پھیلا دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ہاتھوں سے اُس میں (ہوا میں سے) لپ بھر بھر کر ڈالی اور فرمایا: اِسے اپنے جسم سے لگا لو۔ پس میں نے لگا لی تو اُس کے بعد میں کبھی کوئی حدیث نہیں بھولا۔''
اِسے امام بخاری اور ترمذی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved