Sira al-Rasul (PBUH) ki Tahzibi wa Saqafati Ahamiyyat

حصہ چہارم :اسلامی تہذیب کے نمایاں اوصاف

8۔ اِسلامی تہذیب کے نمایاں اَوصاف

اسلام کے ظہور کے وقت عالمی منظر نامے کو گھٹا ٹوپ اندھیروں نے اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔ تہذیبی اور ثقافتی انحطاط ابنِ آدم کا مقدر بن چکا تھا۔ مجلسی زندگی شائستگی اور سنجیدگی کے اوصاف حمیدہ سے یکسر محروم ہو چکی تھی۔ زوال آمادہ تہذیبیں قصر مذلت کی اتھاہ گہرائیوں میں دفن ہو رہی تھیں، مصطفوی انقلاب کا سورج طلوع ہوا تو تہذیبی، ثقافتی اور مجلسی سطح پر بھی انقلاب آفریں تہذیب کا آغاز ہوا کیونکہ صدیوں کی انسانی تہذیبی آرزو اب تعبیر آشنا ہو رہی تھی:

In the creative soul of Muhammad the radiation of Judaism and Christianity was transmuted into a spiritual force which discharged itself in the new 'higher religion' of Islam.(2)

(2) Arnold J. Toynbee, A Study of History, Abridgement of Volumes I-VI By D. C. Somervell, Oxford University Press, 1947, p. 411.

‘‘یہودیت اور عیسائیت کی روشنی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلاق روح میں یوں جمع ہوگئی کہ یہ ایک روحانی قوت میں بدل گئی۔ جو ایک بلند تر مذہب یعنی اسلام کی صورت میں ظاہر ہوئی۔’’

آنے والے زمانے میں مسلمانوں نے بھی دعوت کے کام کو آگے بڑھایا اور دنیا کے دور دراز گوشوں میں ہدایت آسمانی کے نور کو پھیلایا اور پوری دنیا میں دعوت کا یہ کام انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر مطلوبہ نتائج حاصل کرنے لگا۔ دنیا کے کچلے ہوئے انسانوں کے لئے اسلامی تعلیمات میں بڑی کشش تھی، وہ جوق در جوق دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے، مسلمان جہاں گئے اپنی توانا ثقافتی روایات اپنے ساتھ لے کر گئے۔ جہاں بھی تہذیبوں کا آمنا سامنا ہوا، اسلامی تہذیب اپنی تخلیقی توانائیوں کی بدولت قدیم تہذیبوں پر نہ صرف غالب رہی بلکہ واحد عالمی تہذیب کے طور پر سامنے آئی:

The next living society that we have to examine is Islam; and when we scan the background of the Islamic Society we discern there a universal state, a universal church and a Völkerwanderung.(1)

(1) Arnold J. Toynbee, A Study of History, Abridgement of Volumes I-VI By D. C. Somervell, Oxford University Press, 1947, p. 15.

‘‘دوسرا زندہ معاشرہ جس کا ہم نے مطالعہ کرنا ہے وہ اسلام ہے اور جب ہم اسلامی معاشرے کے پس منظر کا جائزہ لیتے ہیں تو ہم بڑے واضح طور پر ایک بین الاقوامی اور آفاقی ریاست اور ایک بین الاقوامی اور آفاقی مذہبی ادارے اور ہمہ گیر نظریہ حیات کو موجود پاتے ہیں۔’’

اب یہاں اسلامی تہذیب کے ان خصائص کو بیان کیا جاتا ہے جو سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں مرتب ہوئے اور آئندہ ایک نئی اور بے مثل تہذیب کی بنیاد بنے۔

(1) عقیدہ توحید

اسلامی تہذیب و ثقافت کا اولین عنصر ترکیبی توحید ہے۔ توحید ہی وہ بنیادی تعلیم ہے جس کا ابلاغ اسلام کا اولین مقصد تھا۔ اگر اسلامی ثقافت کی ہمہ جہت نشو و نما اور عالم گیر ارتقاء کا جائزہ لیا جائے تو باوجود علاقائی، جغرافیائی، نسلی اور لسانیاتی تنوع کے جو عنصر ایک قدر مشترک کے طور پر موجود ہے وہ عقیدہ توحید ہے۔ توحید ہی اسلامی تہذیب و ثقافت کی وہ قوت ہے جس کا مقابلہ کوئی بھی عقیدہ، آئیڈیالوجی یا نظام زندگی نہیں کر سکا۔

اسلام میں توحید مجرد عقیدہ یا ایک تصور نہیں بلکہ یہ ایک زندہ اور حرکی تصور حیات ہے۔ یہ اسلامی تہذیب کے شجر طیبہ کی اصل ہے۔ یہ فرد اور ملت کی پیکر حیات کی روح ہے۔ جس طرح روح کے بغیر کوئی جسم زندگی کا حامل قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی طرح توحید کے بغیر اسلامی معاشرے میں فرد و ملت بے جان ہو جاتے ہیں۔ توحید غیر اﷲ کی نفی اور اﷲ تعاليٰ کی الوہیت کی وحدانیت کے اقرار سے عبارت ہے۔ یہی ‘‘ لَا" اور ‘‘اِلاَّ" اسلامی معاشرے کے افراد کے قلوب و اذہان سے ہر غیر اﷲ کا نقش مٹاتے ہوئے اطاعت اِلٰہی کا داعیہ پیدا کرتے ہیں۔ اس سے انہیں وہ ایمانی قوت نصیب ہوتی ہے جس سے دل میں زندگی اور زندگی میں معنویت، وسعت اور آفاقیت جگہ پاتی ہے۔ اسلام سے قبل عقیدہ توحید شرک کی گونا گوں صورتوں کی وجہ سے بگاڑ کا شکار ہو گیا۔ اسلام نے عقیدہ توحید کی ان تمام خرابیوں کا خاتمہ کیا جو اسلام سے پہلے کے مذاہب اور ملل کے مابین پیدا ہو چکی تھیں۔ قرآنِ حکیم نے عقیدہ توحید کی مختلف جہات کو پوری شرح و بسط سے بیان کر دیا ہے۔ تاہم سورہ اخلاص عقیدہ توحید کا ایسا جامع بیان ہے کہ اس میں عقیدہ توحید کی تفصیلات کے ساتھ ساتھ ان مغالطوں کا ازالہ بھی کر دیا گیا ہے جن کا شکار انسانی شعور آغازِ اسلام کے وقت تھا۔

قُلْ هُوَ اﷲُ اَحَدٌo اﷲُ الصَّمَدُo لَمْ يَلِدْ وَلَم يُوْلَدْo وَلَم يَکُنْ لَّهُ کُفُواً اَحَدٌo

الاخلاص: 112

‘‘(اے نبی مکرّم!) آپ فرما دیجئے: وہ اﷲ ہے جو یکتا ہےo اﷲ سب سے بے نیاز، سب کی پناہ اور سب پر فائق ہےo نہ اس سے کوئی پیدا ہوا ہے اور نہ ہی وہ پیدا کیا گیا ہےo اور نہ ہی اس کا کوئی ہم سر ہے۔’’

توحید کے اسلامی معاشرے پر اثرات اتنے عالمگیر اور گہرے ہیں کہ اغیار بھی اس کا اعتراف کئے بغیر نہیں رہ سکے:

There were two features in the social life of the Roman Empire in Muhammad's day that would make a particularly deep impression on the mind of an Arabian observer because, in Arabia, they were both conspicuous by their absence. The first of these features was monotheism in religion. The second was law and order in government. Muhammad's life-work consisted in translating each of these elements in the social fabric of 'R?m' into an Arabian vernacular version and incorporating both his Arabianized monotheism and his Arabianized imperium into a single master? institution-the all-embracing institution of Islam-to which he succeeded in imparting such titanic driving-force that the new dispensation, which had been designed by its author to meet the needs of the barbarians of Arabia, burst the bounds of the peninsula and captivated the entire Syriac World from the shores of the Atlantic to the coasts of the Eurasian Steppe.(1)

(1) Arnold J. Toynbee, A Study of History, Abridgement of Volumes I-VI By D. C. Somervell, Oxford University Press, 1947, pp. 227-8.

‘‘محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں رومی سلطنت کی زندگی کی دو خصوصیات بہت ہی اہم ہیں جن سے ایک عام عربی ذہن بہت گہرا اثر لے سکتا تھا۔ کیونکہ عرب میں یہ دو خصوصیات موجود نہ ہونے کی وجہ سے بہت ہی زیادہ قابلِ توجہ تھیں ان خصوصیات میں سے پہلی توحید پر مبنی مذہب تھا اور دوسری قانون اور حکومت کا نظم و نسق تھا۔ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی بھر کی جدوجہد ان عناصر کو جو روم کی سماجی زندگی کے بنیادی عناصر تھے انہیں عرب کے مقامی حالات میں ڈھالنے اور انہیں عرب کے توحید پر مبنی مذہب اور ایک ہی آقا کے ماتحت عرب کی سلطنت کی تشکیل میں استعمال کرنے پر مبنی ہے۔ یعنی ایسا ادارہ جو ہمہ گیر ادارے اسلام پر مبنی تھا جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے کہ انہوں ایک نئی عظیم الشان قوت محرکہ فراہم کر دی جسے ان وحشی اور بدوی مزاج رکھنے والے عرب کی ضروریات کے لئے تشکیل دیا گیا تھا اور پھر یہ نظام اس جزیرہ نما کی سرحدوں سے باہر نکل گیا اور اس نے پوری عرب دنیا اور شامی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا جو اوقیانوس کے ساحلوں سے لے کر یوریشیا کی سرحدوں تک پھیلا ہوا تھا۔’’

(2) عقیدہ رِسالت

اسلامی معاشرے اور تہذیب کی تشکیل میں رسالت کو مرکزی اور محوری حیثیت حاصل ہے۔ دین کی پوری عمارت کی بنیاد ایمان، اسلام اور احسان پر استوار ہے۔ اگر دین کے ان عناصر ترکیبی کے اجتماعی اور سماجی سطح پر اثرات کو دیکھیں تو ایمان دین کے مذہبی پہلو کا احاطہ کرتا ہے جو عقائد پر مشتمل ہے جبکہ اسلام ان عقائد کی روشنی میں عملی زندگی بسر کرنے کا نام ہے یعنی زندگی کا وہ ضابطہ عمل اور نظام قانون جو دین کے بنیادی عقائد کے خلاف نہ ہو بلکہ انہی عقائد کی تائید و توثیق کرے اسلام ہے۔ اسی طرح احسان معاشرے کی اخلاقی او روحانی بالیدگی کا ایسا منھج ہے جس سے معاشرے کا جسد روحانی زندہ اور بحال رہتا ہے۔ دین کے یہ تینوں شعبے اس وقت ہی موثر اور معاشرے کے لیے نتیجہ خیز ہو سکتے ہیں جب ان کا کامل اور قابل تقلید نمونہ موجود ہو۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات مبارکہ ہی وہ کامل نمونہ ہے جوایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے ان تینوں جہات کا کامل و اَکمل نمونہ ہیں۔

تاریخ میں اُلوہی ضابطہ یہی رہا ہے کہ جب بھی کوئی معاشرہ انحطاط کا شکار ہوا تو اس کے زوال اور انحطاط کا ازالہ وحی سے کیا گیا۔ یعنی اس زوال زدہ معاشرے میں انبیاے کرام علیھم السلام مبعوث ہوئے جنہوں نے اللہ کی تائید اور اپنے یقین و عمل کی قوت سے معاشرے کے تن مردہ میں پھر سے روح پھونک دی۔

اﷲ تعاليٰ نے دنیا کے ہر خطے اور نسل انسانی کے ہر طبقے کی طرف اپنے رسول اور پیغمبر بھیجے ہیں جیسا کہ ارشادِ باری تعاليٰ ہے:

وَاِنْ مِّنْ أُمَّةٍ اِلَّا خَلَا فِيْهَا نَذِيْرٌo

فاطر، 35: 24

‘‘اور کوئی اُمت (ایسی) نہیں مگر اُس میں کوئی (نہ کوئی) ڈر سنانے والا (ضرور) گزرا ہے۔’’

قرآن کریم کی یہ آیت عمومیت رسالت پر دلالت کرتی ہے، جس کا مفہوم یہ ہے کہ کرہ ارض کا ہر وہ خطہ جہاں چند انسانوں نے مل کر معاشرہ (society) تشکیل دیا ہے، اﷲ کی طرف سے آنے والے انبیاء کے فیضان سے خالی نہیں رہا۔ اِنذار و تبشیر اور دعوت و تبلیغ کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ انسان انبیاء کی تعلیمات کے اثر سے تہذیب و تمدن کے اوصاف سے متصف ہوتا گیا تو آہستہ آہستہ نبوت و رسالت کے اس نظام میں وسعت و آفاقیت پیدا ہوتی چلی گئی اور ایسے انبیاء جن کا دائرہ تبلیغ صرف کرہ ارضی کو محیط تھا' تشریف لا چکے تو کائنات ارضی و سماوی اور قیامت تک کے تمام ادوار کے لیے خاتم الانبیاء سرور کون ومکان ‘ فخرموجودات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبعوث کر دیا گیا۔ اور وہ دنیا کے سب سے عظیم انقلاب اور سب سے بڑے دین کے داعی اور مبلغ اعظم قرار پائے۔ قرآن مجید نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس شان کو یوں بیان فرمایا ہے۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا.

السبا، 34: 28

‘‘اور (اے حبیبِ مکرّم!) ہم نے آپ کو نہیں بھیجا مگر اس طرح کہ (آپ) پوری انسانیت کے لئے خوشخبری سنانے والے اور ڈر سنانے والے ہیں۔’’

یعنی اب قیامت تک امت مسلمہ کی معاشرتی، سماجی، تہذیبی اور ثقافتی شناخت کا واحد معتبر حوالہ حضور ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رسالت ہی ہو گی:

بمصطفی برساں خویش را کہ دین ہمہ اوست
گر بہ او نرسیدی تمام بو لہبی است

(3) عقیدہ آخرت

کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک صحت مند روایات کا امین نہیں بن سکتا جب تک اس میں جواب دہی کا تصور موجود نہ ہو۔ اسلام کی تہذیب اس حوالے سے امتیاز کی حامل ہے کہ دنیاوی زندگی کے بعد آخرت میں دنیاوی زندگی میں انجام دیے جانے والے اعمال کے احتساب اور جواب دہی کا تصور اسلام کے بنیادی عقائد میں شامل ہے، جس کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہو سکتا۔ قادر مطلق اور خالق کائنات کے سامنے جواب دہی کا یہ تصور جب سماجی اور عملی رویے میں ڈھلتا ہی تو ایسا تمدن وجود میں آتا ہے جس میں خیر کے فروغ کے امکانات برائی کے فروغ کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں۔ یہ وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں ایمان پر استحکام اور کفر کے انکار کی بنیاد اسی تصور کو قرار دیا گیا ہے۔ قرآن حکیم ایمان بالآخرت کی حقیقت بیان کرتے ہوئے واضح کرتا ہے:

کَيْفَ تَکْفُرُوْنَ بِاﷲِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاکُمَ ثُمَّ يُمِيْتُکُمْ ثُمَّ يُحِيِيْکُمْ ثُمَّ اِلَيْهِ تُرْجَعُوْنَo

البقره، 2: 28

‘‘تم کس طرح اللہ کا انکار کرتے ہو حالانکہ تم بے جان تھے اس نے تمہیں زندگی بخشی، پھر تمہیں موت سے ہمکنار کرے گا اور پھر تمہیں زندہ کرے گا، پھر تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤ گے۔’’

جواب دہی اور جرم و سزا کا یہ تصور قرآن مجید میں اِس طرح مذکور ہے:

وَاِنَّمَا تُوَفُّوْنَ اُجُوْرَکُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.

آل عمران، 3: 185

‘‘اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دیے جائیں گے۔’’

مزید اِرشاد فرمایاگیا:

ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَo

آل عمران، 3: 161

‘‘پھر ہر شخص کو اُس کے عمل کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور اُن پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔’’

اِس اَمر کی مزید وضاحت یوںکی گئی ہے:

وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَى بِنَا حَاسِبِينَ.

الأنبياء، 21: 47

‘‘اور ہم قیامت کے دن عدل و انصاف کے ترازو رکھ دیں گے، سو کسی جان پر کوئی ظلم نہ کیا جائے گا اور اگر (کسی کا عمل) رائی کے دانہ کے برابر بھی ہوگا (تو) ہم اُسے (بھی) حاضر کر دیں گے اور ہم حساب کرنے کو کافی ہیں۔’’

بالآخر جزا و سزا کی آخری صورت یوں دکھائی جائے گی کہ:

وَاُزْلِفَتِ الْجَنَّةُ لِلْمُتَّقِيْنَo وَبُرِّزَتِ الْجَحِيْمُ لِلْغٰوِيْنَo

الشعراء، 26: 90، 91

‘‘اور (اُس دن) جنت پرہیزگاروں کے قریب کر دی جائے گیo اور دوزخ گمراہوں کے سامنے ظاہر کر دی جائے گی۔’’

عقیدہ آخرت کے سلسلے میں اِن بنیادی اَجزاء پر کامل یقین رکھنا ایمان کی بنیادی شرط ہے۔ جس سے انسان کی سماجی اور معاشرتی زندگی براہ راست متاثر ہوتی ہے۔ اگر افراد معاشرہ اس عقیدہ کو ایک زندہ حقیقت کے طور پر مستحضر رکھیں۔

(4) اِحترامِ رِسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

اسلامی معاشرے کا نمایاں ترین وصف یہ ہے کہ اس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مرکز و محور کی حیثیت حاصل ہے۔ اُمتِ مسلمہ کی شناخت نسبتِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہی وابستہ ہے۔ قرآن حکیم میں اس پہلو پر کئی مقامات پر زور دیا گیا ہے:

 يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَرْفَعُوا أَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِيِّ وَلَا تَجْهَرُوا لَهُ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ أَن تَحْبَطَ أَعْمَالُكُمْ وَأَنتُمْ لَا تَشْعُرُونَ.

الحجرات، 49: 2

‘‘اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبيِ مکرّم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو اور اُن کے ساتھ اِس طرح بلند آواز سے بات (بھی) نہ کیا کرو جیسے تم ایک دوسرے سے بلند آواز کے ساتھ کرتے ہو (ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو۔’’

2. اِنَّ الَّذِيْنَ يَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اﷲِ اُولٰئِکَ الَّذِيْنَ امْتَحَنَ اﷲُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰی لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّاَجْرٌ عَظِيْمٌo

الحجرات، 49: 3

‘‘بیشک جو لوگ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اﷲ نے تقويٰ کے لئے چُن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لئے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہے۔’’

3. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتًا غَيْرَ بُيُوتِكُمْ حَتَّى تَسْتَأْنِسُوا وَتُسَلِّمُوا عَلَى أَهْلِهَا ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ.

النور، 24: 27

‘‘اے ایمان والو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو، یہاں تک کہ تم ان سے اجازت لے لو اور ان کے رہنے والوں کو (داخل ہوتے ہی) سلام کہا کرو یہ تمہارے لئے بہتر (نصیحت) ہے تاکہ تم (اس کی حکمتوں میں) غور و فکر کرو۔’’

4. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَدْخُلُوا بُيُوتَ النَّبِيِّ إِلَّا أَن يُؤْذَنَ لَكُمْ إِلَى طَعَامٍ غَيْرَ نَاظِرِينَ إِنَاهُ وَلَكِنْ إِذَا دُعِيتُمْ فَادْخُلُوا فَإِذَا طَعِمْتُمْ فَانتَشِرُوا وَلَا مُسْتَأْنِسِينَ لِحَدِيثٍ إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ يُؤْذِي النَّبِيَّ فَيَسْتَحْيِي مِنكُمْ وَاللَّهُ لَا يَسْتَحْيِي مِنَ الْحَقِّ وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَاءِ حِجَابٍ ذَلِكُمْ أَطْهَرُ لِقُلُوبِكُمْ وَقُلُوبِهِنَّ وَمَا كَانَ لَكُمْ أَن تُؤْذُوا رَسُولَ اللَّهِ وَلَا أَن تَنكِحُوا أَزْوَاجَهُ مِن بَعْدِهِ أَبَدًا إِنَّ ذَلِكُمْ كَانَ عِندَ اللَّهِ عَظِيمًا.

الاحزاب، 33: 53

‘‘اے ایمان والو! نبيِ (مکر ّمصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے گھروں میں داخل نہ ہوا کرو سوائے اس کے کہ تمہیں کھانے کے لئے اجازت دی جائے (پھر وقت سے پہلے پہنچ کر) کھانا پکنے کا انتظار کرنے والے نہ بنا کرو، ہاں جب تم بلائے جاؤ تو (اس وقت) اندر آیا کرو پھر جب کھانا کھاچکو تو (وہاں سے اُٹھ کر) فوراً منتشر ہو جایا کرو اور وہاں باتوں میں دل لگا کر بیٹھے رہنے والے نہ بنو۔ یقینا تمہارا ایسے (دیر تک بیٹھے) رہنا نبيِ (اکرم) کو تکلیف دیتا ہے اور وہ تم سے (اُٹھ جانے کا کہتے ہوئے) شرماتے ہیں اور اللہ حق (بات کہنے) سے نہیں شرماتا، اور جب تم اُن (ازواجِ مطّہرات) سے کوئی سامان مانگو تو اُن سے پسِ پردہ پوچھا کرو، یہ (ادب) تمہارے دلوں کے لئے اور ان کے دلوں کے لئے بڑی طہارت کا سبب ہے، اور تمہارے لِئے (ہرگز جائز) نہیں کہ تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کو تکلیف پہنچاؤ اور نہ یہ (جائز) ہے کہ تم اُن کے بعد ابَد تک اُن کی ازواجِ (مطّہرات) سے نکاح کرو، بیشک یہ اللہ کے نزدیک بہت بڑا (گناہ) ہے۔’’

(5) اِنسانی مساوات

مساوات اسلامی معاشرے کی ایک لازمی قدر ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دور مبارک تاریخ انسانی کے روشن دنوں کا امین ہے۔ زمین پر عدل کی حکمرانی قائم ہوئی۔ ارشاد ہوا: اگر محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرے گی تو اس کے ہاتھ بھی کاٹ دیے جائیں گے۔

  1. بخاری، الصحيح، کتاب المغازی، باب وقال الليث حدثنی، 4: 1566، رقم: 4053

  2. مسلم، الصحيح، کتاب الحدود، باب قطع السارق، 3: 1311، رقم: 1688

  3. أبو داود، السنن، کتاب الحدود، باب فی الحد، 2: 537، رقم: 4373

عدل و انصاف اور مساوات کا یہ حال تھا کہ حکمرانِ وقت امیر المؤمنین سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ جیسے شریف و نجیب اور قریشی النسل ایک غلام کے بیٹے اُسامہ کے گھوڑے کی رکاب تھامے ساتھ ساتھ پیدل چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ (1) عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے نڈر و بے باک خلیفہ بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو سیدنا کہہ کر پکارتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ (2)

(1) ابن کثير، البداية والنهاية، 6: 305

(2) 1. بخاری، الصحيح، کتاب المناقب، باب مناقب بلال بن رباح، 3: 1371، رقم: 3544

2. حاکم، المستدرک، 3: 320، رقم: 5239

3. طبرانی، المعجم الکبير، 1: 338، رقم: 1015

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کردہ تعلیمات کا ذکر تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت، اخلاق حسنہ، نشست و برخاست، بود و باش اور شب و روز نے ایک ایسا انقلاب بپا کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہم نشینی کا اعزاز حاصل کرنے والا شخصشرف انسانیت کا مظہر تھا۔

(6) اَمن و سلامتی

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پیغمبر امن بن کر دنیا میں مبعوث ہوئے۔ عہد رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کسی بھی حوالے سے جائزہ لیا جائے۔ ہم اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی انقلابی جدوجہد کے بعد جزیرہ نمائے عرب میں ہی امن قائم نہیں ہوا بلکہ پوری نسل انسانی کو سکون اور اطمینان کی چادر عطا ہوئی۔

یہ ایک ایسا انقلاب تھا جس میں نسلی عصبیت کا پیکر انسان دوسروں کی جان و مال کا محافظ بن گیا۔ ظلم و استبداد سے اقوام کے گلے میں غلامی کا طوق ڈالنے والا دوسروں کی آزادی کا علمبردار بن گیا۔ دوسروں کی عزت و آبرو سے کھیلنے والا انہیں کی عفت و عصمت کا رکھوالا بن گیا۔ الغرض قرآن اور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کے نور سے سارے کا سارا معاشرہ امن کا گہوارہ بن گیا اور دیگر اقوام امن کی خیرات لینے کے لئے اسلام کی طرف رجوع کرنے لگیں۔ آخر کار اسلامی تہذیب و تمدن اور نظام حیات کی برکات سے اندھیرے چھٹنے لگے۔

اسلام نے اقلیتوں کو بھی سلامتی عطاکی او ر اپنے دور عروج میں باوجود ایک غالب تہذیب ہونے کے ان پر کسی بھی نوعیت کے جبر کی اجازت نہ دی:

Contrary to widespread Christian notions, Islam normally did not force conversion.(1)

(1) Philip J. Adler, Randall L. Pouwels, World Civilizations, p. 194.

‘‘عیسائیت میں پھیلے ہوئی خیالات کے بالکل برعکس اسلام مذہب کی تبدیلی کے لئے جبر نہیں کرتا۔’’

مزید برآں اسلام نے انسانی وقار پر کسی دوسری وابستگی کی برتری کی نفی کی:

Society in the Muslim world formed a definite social pyramid. During the Umayyad period, descendents of the old Bedouin clans were on top, followed by mawali converts from other religions. Once the Abbasides took power, this distinction ceased to exist.(2)

(2) Philip J. Adler, Randall L. Pouwels, World Civilizations, p. 195.

‘‘مسلم دنیا میں معاشرہ ایک متعین سماجی ڈھانچے کی تشکیل کا نام ہے۔ بنو امیہ کے زمانے میں قدیم بدوی قبائل کے جانشین سر فہرست تھے جن کی جگہ دوسرے مذاہب کے اسلام قبول کرنے والے موالی نے لی۔ جب عباسیوں نے اقتدار سنبھالا تو یہ امتیاز بھی ختم ہوگیا۔’’

اسلام کی اسی عالی ظرفی اور انسانیت نوازی نے اسے تمام طبقات کے لئے قابلِ قبول بنا دیا:

These non-Arab converts to Islam made it into a highly cosmopolitan, multiethnic religion and civilization.(3)

(3) Philip J. Adler, Randall L. Pouwels, World Civilizations, p. 194.

‘‘ان غیر عرب لوگوں کے اسلام قبول کرنے نے اسلام کو ایک بلند تر آفاقی اور کثیر النسلی مذہب اور تہذیب میں بدل دیا۔’’

امن و سلامتی کے سلسلے میں کہ مسلمانوں کا نصب العین فقط یہ نہیں تھا کہ وہ طاقت ور قوم اور سب سے مضبوط گروہ ہوں۔ کیونکہ یہ بات انسان کے ذہن میں گھمنڈ اور نخوت و تکبر پیدا کرتی ہے اور انسانیت کی امن و سلامتی اور مساوات و اخوت کے منافی ہے۔ بلکہ مسلمانوں کا مقصد اخلاقی اور معنوی محاسن کا حصول ہے۔ جس جماعت کا نصب العین یہ ہو گا وہ سب سے اچھی اور نیک جماعت ہو گی اور وہ طاقت کے غرور اور قومی تفاخر کے مفاسد سے آلودہ نہیں ہو سکتی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ امر مسلمانوں کے کردار کے لازمی جزو کے طور پر بیان فرمایا کہ وہ سراپا امن و سلامتی ہوتا ہے :

1. المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده.

  1. بخاری، الصحيح، کتاب الإيمان، باب المسلم من سلم المسلمون من لسانه ويده، 1 : 13، رقم : 10

  2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان تفاضل الإسلام، 1 : 65، رقم : 41

  3. أبو داود، السنن، کتاب الجهاد، باب الهجرة هل انقطعت، 3 : 4، رقم : 2481

‘‘مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔’’

2. عَنِ مَرْوَانَ بْنِ الْحَکَمِ، أَنَّهُمْ اصْطَلَحُوا عَلَی وَضْعِ الْحَرْبِ، عَشْرَ سِنِينَ، يَأْمَنُ فِيهِنَّ النَّاسُ، وَعَلَی أَنَّ بَيْنَنَا عَيْبَةً مَکْفُوفَةً وَأَنَّهُ لَا إِسْلَالَ، وَلَا إِغْلَالَ.

أبو داود، السنن، کتاب الجهاد، باب فی صلح العدو، 3 : 86، رقم : 2766

‘‘حضرت مروان بن الحکم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں (قریش) نے دس سال تک لڑائی بند رکھنے پر صلح کی، لوگ اس مدت میں امن سے رہیں گے اور فریقین کے دل صاف رہیں گے نہ چھپ کر بد خواہی کی جائی گی اور نہ ہی علی الاعلان کی جائے گی۔’’

(7) اِصلاحِ معاشرہ

تیرہ سالہ مکی زندگی اور پھر دس سالہ مدنی زندگی میں عزم و عمل کے جو چراغ روشن ہوئے ان کی روشنی نے زندگی کے ہر گوشے کو بقعہ نور بنا دیا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں جو مثالی معاشرہ قائم ہوا اس کی نظیر تاریخ انسانی میں نہیں ملتی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل کوئی خرابی ایسی نہ تھی جو دنیا میں پائی نہ جاتی ہو۔ سارا معاشرہ کلی بگاڑ کا شکار تھا ہر طرف فتنہ و فساد اور افراتفری تھی۔ چین اور سکون لٹ چکا تھا۔ آخر کار اﷲ رب العزت کی رحمت جوش میں آئی اور اس نے معاشرے کی صلاح و تطہیر کے لئے اپنا آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا میں بھیجا۔ جس نے بہت قلیل عرصے میں اس بگڑے ہوئے معاشرے کی اصلاح احسن طریقے سے فرمائی۔ زندگی کے ہر شعبے کی خرابیوں کو درست کیا اور معاشرے کا کوئی پہلو ایسا نہ رہا جس تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ نہ پہنچی ہو۔ نتیجۃً آپ کی جہد مسلسل اور سعی پیہم کی وجہ سے تئیس سال کے مختصر عرصے میں وہ مثالی معاشرہ وجود میں آ گیاجو آج تک اپنی مثال آپ ہے۔

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلامی معاشرے کی بنیاد خوفِ خدا پر رکھی، کیوں کہ جس معاشرے کی بنیاد خوفِ خدا پر نہ ہو اس کی اصلاح قطعی ناممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے خوف خدا کو اپنے معاشرے کی اصلاح کے لئے بنیادی ستون قرار دیا ہے۔ آج معاشرے میں جتنی بھی خرابیاں اور کمزوریاں پیدا ہو چکی ہیں وہ اسلامی تہذیب و ثقافت سے دوری کی وجہ سے ہیں۔ اگر ہم نے اسلامی نظام حیات سے انحراف کو اپنا وطیرہ بنائے رکھا تو معاشرتی بگاڑ روز بروز بڑھتا ہی چلا جائے گا اور آخر وہ دِن بھی آ جائے گا جب اس کی اصلاح ناممکن ہو جائے گی۔ لہٰذا اس دن کے آنے سے پہلے پہلے ہمیں اس کی اصلاح کی طرف سنجیدگی سے توجہ کرنی چاہیے۔

اسلام سوسائٹی کی تقسیم، نسلی امتیاز یا مال و دولت کے اصول پر نہیں کرتا۔ وہ صرف دانائی اور نادانی ہی کی اساس پر معاشرہ کی طبقہ بندی کرتا ہے۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے :

قُلْ هَلْ يَسْتَوِی الَّذِيْنَ يَعْلَمُوْنَ وَالَّذِيْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ.

الزمر، 39 : 9

‘‘فرما دیجئے : کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہو سکتے ہیں؟’’

اسلامی سوسائٹی میں بلند ترین مقام اشراف یا امراء کو حاصل نہیں ہے، بلکہ صرف ‘‘خدا سے ڈرنے والوں کو’’ حاصل ہے :

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اﷲِ اَتْقٰـکُم.

الحجرات، 49 : 13

‘‘بے شک اﷲ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو۔’’

اور تقويٰ اور خوف و خشیتِ الٰہی اہلِ علم ہی کا حصہ ہے :

إِنَّمَا يَخْشَى اللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ.

فاطر، 35 : 28

‘‘بس اﷲ کے بندوں میں سے اس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں۔’’

قرآنِ حکیم خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تعارف ‘‘معلمِ کتاب و حکمت’’ کی حیثیت سے کراتا ہے اور اس ‘‘معلمِ کتاب و سنت’’ کی بعثت کو مومنوں پر اللہ تعاليٰ کی سب سے بڑی نعمت بتاتا ہے :

لَقَدْ مَنَّ اﷲُ عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ اِذْ بَعَثَ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰـتِهِ وَيُزَکِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَاِنْ کَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِيْ ضَلٰـلٍ مُّبِيْنٍo

آل عمران، 3 : 164

‘‘بے شک اللہ تعاليٰ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ ان میں انہی میں سے (عظمت والا) رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ وہ لوگ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔’’

لہٰذا اسلام نے اَقدارِ حیات کا جو نقشہ پیش کیا ہے اس میں علم و حکمت ہی کو زندگی کی قدرِ اَعليٰ (خیرِ کثیر) قرار دیا ہے :

1. وَمَنْ يُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا کَثِيْرً.

البقرة، 2 : 269

‘‘اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہوگئی۔’’

2. يٰـبَنِيْ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّکُلُوْا وَاشْرَبُوْا وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَo

الأعراف، 7 : 31

‘‘اے اولادِ آدم! تم ہر نماز کے وقت اپنا لباسِ زینت (پہن) لیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور حد سے زیادہ خرچ نہ کرو کہ بیشک وہ بے جا خرچ کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔’’

3. وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اﷲِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَّيَتَّخِذَهَا هُزُوًا اُولٰئِکَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِيْنٌo

لقمان، 31 : 6

‘‘اور لوگوں میں سے کچھ ایسے بھی ہیں جو بیہودہ کلام خریدتے ہیں تاکہ بغیر سوجھ بوجھ کے لوگوں کو اﷲ کی راہ سے بھٹکا دیں اور اس (راہ) کا مذاق اڑائیں، ان ہی لوگوں کے لئے رسوا کن عذاب ہے۔’’

4. وَذَرِ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا دِيْنَهُمْ لَعِبًا وَّلَهْوًا وَّغَرَّتْهُمُ الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا وَذَکِّرْ بِهِ اَنْ تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا کَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِنْ دُوْنِ اﷲِ وَلِیٌّ وَّلَا شَفِيْعٌج وَاِنْ تَعْدِلْ کُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا اُولٰئِکَ الَّذِيْنَ اُبْسِلُوْا بِمَا کَسَبُوْا لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيْمٍ وَّعَذَابٌ اَلِيْمٌم بِمَا کَانُوْا يَکْفُرُوْنَo

الأنعام، 6 : 70

‘‘اور آپ ان لوگوں کو چھوڑے رکھیے جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا لیا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی نے فریب دے رکھا ہے اور اس (قرآن) کے ذریعے (ان کی آگاہی کی خاطر) نصیحت فرماتے رہئے تاکہ کوئی جان اپنے کئے کے بدلے سپردِ ہلاکت نہ کر دی جائے (پھر) اس کے لئے اﷲ کے سوانہ کوئی مدد گار ہو گا اور نہ کوئی سفارشی اور اگر وہ (جان اپنے گناہوں کا) پورا پورا بدلہ (یعنی معاوضہ) بھی دے تو (بھی) اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہی وہ لوگ ہیں جو اپنے کئے کے بدلے ہلاکت میں ڈال دیئے گئے ان کے لئے کھولتے ہوئے پانی کا پینا ہے اور دردناک عذاب ہے اس وجہ سے کہ وہ کفر کیا کرتے تھے۔’’

5. اِعْلَمُوْا اَنَّمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَّلَهْوٌ وَّزِيْنَةٌ وَّتَفَاخُرٌ بَيْنَکُمْ وَتَکَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ کَمَثَلِ غَيْثٍ اَعْجَبَ الْکُفَّارَ نَبَاتُهُ ثُمَّ يَهِيْجُ فَتَرٰهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَکُوْنُ حُطَامًا وَفِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ شَدِيْدٌ وَّمَغْفِرَةٌ مِنَ اﷲِ وَرِضْوَانٌ وَمَا الْحَيٰوةُ الدُّنْيَآ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِo

الحديد، 57 : 20

‘‘جان لو کہ دنیا کی زندگی محض کھیل اور تماشا ہے اور ظاہری آرائش ہے اور آپس میں فخر اور خود ستائی ہے اور ایک دوسرے پر مال و اولاد میں زیادتی کی طلب ہے، اس کی مثال بارش کی سی ہے کہ جس کی پیداوار کسانوں کو بھلی لگتی ہے پھر وہ خشک ہو جاتی ہے پھر تم اسے پک کر زرد ہوتا دیکھتے ہو پھر وہ ریزہ ریزہ ہو جاتی ہے، اور آخرت میں (نافرمانوں کے لئے) سخت عذاب ہے اور (فرمانبرداروں کے لئے) اللہ کی جانب سے مغفرت اور عظیم خوشنودی ہے، اور دنیا کی زندگی دھوکے کی پونجی کے سوا کچھ نہیں ہے۔’’

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کارہائے منصب کو بیان کرتے ہوئے جب فرمایا کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشرے کی عملی اصلاح کی اہمیت اجاگر فرما دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف اﷲ کی عطا کردہ رہنمائی سے معاشرے کو ذہنی، فکری اور علمی روشنی عطا فرمائی بلکہ عملاً افراد معاشرہ کے احوال کو بھی سدھارا۔ اگر اس تناظر میں تعلیمات نبوی کا جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انفرادی رویوں، عادات و اطوار سے لے کر اجتماعی طرز عمل تک ہر پہلو کی اصلاح فرمائی۔ اس کا اندازہ آپ کے درج ذیل فرامین مبارکہ سے ہوتا ہے :

1. قال : الطهارة أربع : قصّ الشارب، وحلق العانة، وتقليم الأظفار، والسواک.

هيثمی، مجمع الزوائد، 5 : 168

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پاگیزگی چار چیزوں میں ہے : مونچھیں کٹوانا، موئے عانہ صاف کرنا، ناخن تراشنا اور مسواک کرنا۔’’

2۔ ایک اور مقام پر فرمایا :

قال صلی الله عليه وآله وسلم : خمس من سنن المرسلین : الحياء، والحلم، والحجامة، والتعطر، والنکاح.

  1. ترمذی، السنن، کتاب النکاح، باب ماجاء في فضل التزويج والحث عليه، 3 : 391، رقم : 1080

  2. بيهقی، شعب الإيمان، 6 : 137

  3. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 421، رقم : 23628

’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : پانچ چیزیں سنتِ انبیاء علیھم السلام ہیں : حیاء، حلم، حجامت، خوشبو اور نکاح۔’’

3. قال صلی الله عليه وآله وسلم : خير طيب الرجال ما ظهر ريحه وخفي لونه، وخير طيب النساء ما ظهر لونه وخفي ريحه.

  1. عبد الرزاق، المصنف، 4 : 321، رقم : 7938

  2. نسائی، السنن الکبری، 5 : 428، رقم : 9408

  3. طبرانی، المعجم الأوسط، 1 : 215، رقم : 698

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مردوں کی بہترین خوشبو وہ ہے جس کی خوشبو ہو مگر رنگ نہ ہواور عورتوں کی بہترین خوشبو وہ ہے جس کا رنگ ہو مگر خوشبو نہ ہو۔’’

4. قال صلی الله عليه وآله وسلم : اقبلوا الکرامة، وأفضل الکرامة الطيب، أخفه محملًا وأطيبه رائحة.

طبرانی، المعجم الأوسط، 6 : 239، رقم : 6289

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عزت (تحفہ) قبول کرو اور سب سے افضل عزت (تحفہ) خوشبو ہے۔ جو اٹھانے میں ہلکی اور اس کی خوشبو میں پاکیزہ ہے۔’’

5. قال صلی الله عليه وآله وسلم : من کان يؤمن باﷲ واليوم الآخر فلا يلبس حريرًا ولا ذهبً.

  1. طبرانی، المعجم الأوسط، 3 : 286، رقم : 180

  2. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 261، رقم : 22302

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو اللہ پر اور آخرت پر ایمان رکھتا ہے پس وہ ریشم اور سونا نہ پہنے۔’’

6. قال صلی الله عليه وآله وسلم : من لبس ثوب حرير ألبسه اﷲ ثوباً من النار يوم القيامة.

أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 324، رقم : 26800

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص ریشم کا لباس پہنے گا اللہ تعالی قیامت کے دن اسے آگ کا لباس پہنائے گا۔

7. قال صلی الله عليه وآله وسلم : من أسبل إزاره في صلاته خيلاء فليس من اﷲ في حل ولا حرام.

  1. أبو داود، السنن، کتاب الصلاة، باب الإسبال فی الصلاة، 1 : 172، رقم : 637

  2. منذری، الترغيب والترهيب، 3 : 67، رقم : 3104

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص نماز میں تکبر کی خاطر اپنی ازار کو لٹکائے گا تو اللہ تعاليٰ کو اس کے حلال و حرام کی کوئی پرواہ نہیں۔’’

8. عن معاوية بن حيدة قلت : يا رسول اﷲ! عوراتنا ما نأتي وما نذر؟ قال : احفظ عورتک إلا من زوجتک أو ما ملکت يمينک.

  1. ترمذی، السنن، کتاب الادب عن رسول اﷲ، 5 : 2894، رقم2794

  2. أبو داود، السنن، کتاب الحمام، باب ما جاء فی التعري، 4 : 40، رقم : 4017

  3. بيهقی، السنن الکبری، 1 : 199، رقم : 910

  4. طبرانی، المعجم الکبير، 19 : 412، رقم : 989

‘‘حضرت معاویہ بن حیدہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہم اپنے ستر کو کس سے چھپائیں اور کس سے نہ چھپائیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنی بیوی اور اپنی لونڈی کے سوا سب سے چھپاؤ۔’’

9. قال صلی الله عليه وآله وسلم : من لبس ثوبًا جديدًا فقال : الحمد ﷲ الذي کساني ما أواري به عورتی وأتجمل به في حياتي، ثم عمد إلی الثوب الّذي أخلق فتصدق به، کان في کتف اﷲ، وفي حفظ اﷲ، وفي ستر اﷲ حيًّا وميتً.

  1. ترمذی، السنن، کتاب الدعوات عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب فی دعا النبی صلی الله عليه وآله وسلم ، 5 : 558، رقم : 3560

  2. ابن ماجه، السنن، کتاب اللباس، باب ما يقول الرجل إذا لبس ثوبا جديدا، 2 : 1178، رقم : 3557

  3. ابن أبی شيبة، المصنف، 5 : 189، رقم : 2589

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص نیا لباس پہن کر یہ دعا پڑھے ‘‘تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جس نے مجھے لباس پہنایا کہ میں اس سے اپنا ستر ڈھانپتا ہوں اور زندگی میں اس سے زینت حاصل کرتا ہوں اور پرانے کپڑے صدقہ کر دے وہ زندگی بھر اورمرنے کے بعد بھی اللہ تعالی کی حمایت حفاظت اور پردے میں رہے گا۔’’

10. قال صلی الله عليه وآله وسلم : البسوا من ثيابکم البياض، فإنها من خير ثيابکم، وکفنوا فيها موتاکم، وإن من خير أکحالکم الإثمد، إنّه يجلو البصر وينبت الشعر.

  1. أبوداود، السنن، کتاب الطب، باب فی الأمر، 4 : 8، رقم : 3878

  2. حاکم، المستدرک، 6 : 205، رقم : 7378

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سفید کپڑے پہنا کرو کیونکہ وہ تمہارے تمام کپڑوں میں سب سے بہتر ہے اور اسی کا اپنے مردے کو کفن دیا کرو اور تمہارے سرموں میں سب سے بہتر اثمد ہے جو بینائی کو چمکاتا اور پلکوں کو اگاتا ہے۔’’

11. نهی النبي صلی الله عليه وآله وسلم عن لبستين : المشهورة في حسنها، والمشهورة في قبحه.

هيثمي، مجمع الزوائد، 5 : 135

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو لباسوں سے منع فرمایا : جو خوبصورتی میں مشہور ہوں اور جو بد صورتی میں مشہور ہوں۔’’

12. قال صلی الله عليه وآله وسلم : لعن اﷲ الرجل يلبس لبسة المرأة، والمرأة تلبس لبسة الرجل.

  1. أبو داود، السنن، کتاب اللباس، باب فی لباس النساء، 6 : 60، رقم : 4098

  2. ابن حبان، الصحيح، 13 : 62، رقم : 5751

  3. حاکم، المستدرک، 4 : 215، رقم : 7415

  4. هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 351، رقم : 1455

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عورتوں کا لباس پہنے والے مرد اور مردوں کا لباس پہننے والی عورت پر اللہ تعاليٰ لعنت فرمائے۔’’

13. قال صلی الله عليه وآله وسلم : ليس مِنَّا من تشبّه بالرّجال من النساء ولا من تشبّه بالنّساء من الرّجال.

هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 103

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ عورتیں ہم میں سے نہیں جو مردوں کی شکل اختیار کرتی ہیں اور نہ وہ مرد ہم میں سے ہیں جو عورتوں کے مشابہت اختیار کرتے ہیں۔’’

14. قال صلی الله عليه وآله وسلم : من أوی إلی فراشه طاهرًا يذکر اﷲ تعالی حتّی يدرکه النعاس، لم يتقلب ساعة من الليل يسأل اﷲ شيئًا من خير الدنيا والآخرة إلّا أعطاه اﷲ إياه.

  1. ترمذي، السنن، کتاب الدعوات، باب منه، 5 : 540، رقم : 3526

  2. طبراني، المعجم الکبير، 8 : 125، رقم : 7568

  3. منذري، الترغيب والترهيب، 1 : 231، رقم : 880

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص باوضو ہو کر سونے کے لئے اپنے بستر پر جاتا ہے اﷲ کا ذکر کرتا رہتا ہے حتيٰ کہ اسے نیند آجاتی ہے پھر رات کی کسی گھڑی میں جب وہ کروٹ بدلتا ہے اور اﷲ تعاليٰ سے دنیا و آخرت کی کوئی بھلائی یا بہتری مانگتا ہے تو اﷲ تعاليٰ اسے ضرور عطا فرما دیتا ہے۔’’

15. قال صلی الله عليه وآله وسلم : خمروا الآنية، وأوکوا الأسقية، وأجيفوا الأبواب، واکفتوا صبيانکم عند العشاء، فإن للجن انتشارًا وخطفة، وأطفئوا المصابيح عند الرقاد.

  1. بخاري، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب خمس من دواب، 3 : 1205، رقم : 3138

  2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 388، رقم : 15206

  3. أبو يعلی، المسند، 4 : 98، رقم : 2130

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : رات کے وقت برتنوں کو ڈھانپ دو، پانی کے برتنوں کے منہ بند کر دو، دروازوں کو بند کر دو اور اپنے بچوں کو عشاء کے وقت باہر جانے سے روکو۔ کیونکہ وہ جنات کے پھیل جانے اور دست درازی کرنے کا وقت ہے اور سوتے وقت چراغ بجھا دیا کرو۔’’

16. قال صلی الله عليه وآله وسلم : غطّوا الإناء، وأوکوا السقاء، فإنّ في السنة ليلة ينزل فيها وباء، لا يمر بإناء ليس عليه عظاء أو سقاء.

  1. مسلم، الصحيح، کتاب الأشربة، باب الأمر، 3 : 1596، رقم : 2014

  2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 355، رقم : 14871

  3. ابن عبد البر، التمهيد، 12 : 180

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : برتنوں کو ڈھانپ کر رکھو اور مشکوں کا منہ بند رکھو کیونکہ سال میں ایک رات ایسی آتی ہے جس میں وبا نازل ہوتی ہے اور وہ اس برتن اور مشک میں سرایت کر جاتی ہے جو ڈھکا ہوا نہ ہو۔’’

17. قال صلی الله عليه وآله وسلم : إنّ اﷲ تعالی طيب يحب الطيب، نظيف يحب النظافة، کريم يحب الکرم، جواد يحب الجود، فنظفوا أفنيتکم، ولا تشبهوا باليهود.

  1. ترمذي، السنن، کتاب الأدب عن رسول اﷲ، باب ما جاء 5 : 111، رقم : 2799

  2. أبو يعلی، المسند، 2 : 121، رقم : 790

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعاليٰ پاک ہے اور پاکیزہ چیزوں کو پسند فرماتا ہے، وہ صاف ہے اور صفائی کو پسند فرماتا ہے، کرم والا ہے اور اسے کرم محبوب ہے، سخی ہے اور سخاوت سے محبت فرماتا ہے پس اپنے گھر کے صحن صاف رکھا کرو اور یہودیوں کی مشابہت اختیار نہ کرو۔’’

18. قال صلی الله عليه وآله وسلم : إذا خرجتم من بيوتکم بالليل فأغلقوا أبوابه.

هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 112

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جب تم رات کو اپنے گھروں سے نکلو تو دروازے بند کر دیا کرو۔’’

19. عن رجل من أصحاب النّبي صلی الله عليه وآله وسلم أنّ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم قال : ليت شعري کيف أمتّي بعدي حين تتبختر رجالهم وتمرح نساؤهم وليت شعري حين تصيرون صنفين صنفًا ناصبي نحورهم في سبيل اﷲ وصنفًا عمالًا لغير اﷲ.

  1. ابن عساکر، تاريخ دمشق الکبير، 20 : 401

  2. مناوي، فيض القدير، 5 : 350

  3. هندي، کنز العمال، 7 : 175

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ایک صحابی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ہائے افسوس! میرے بعد میری امت کا کیا حال ہوگا (اور ان کو کیا کچھ دیکھنا پڑے گا) جب ان کے مرد اکڑ کر چلا کریں گے اور ان کی عورتیں (سر بازار) اتراتی پھریں گی اور جب میری امت کی دو قسمیں ہو جائیں گی ایک قسم تو وہ ہوگی جو اﷲ تعاليٰ کے راستہ میں سینہ سپر ہونگے اور ایک قسم وہ ہو گی جو غیر اﷲ ہی کے لئے سب کچھ کریں گے۔’’

20. عن أبي هريرة رضی الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : صنفان من أهل النّارِ لم أرهما : قوم معهم سياط کأذناب البقر يضربون بها النّاس ونساء کاسيات عاريات مميلات مائلات رؤسهن کأسنمة البخت المائلة لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها وإنّ ريحها ليوجد من مسيرة کذا وکذ.

  1. مسلم، الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب النساء الکاسيات العاريات المائلات المميلات، 3 : 1680، رقم : 2128

  2. ابن حبان، الصحيح، 16 : 500، 501، رقم : 7461

  3. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 355، رقم : 8650

  4. أبو يعلی، المسند، 12 : 46، رقم : 6690

  5. طبراني، المعجم الأوسط، 6 : 80، رقم : 5854

  6. بيهقي، السنن الکبريٰ، 2 : 234، رقم : 3077

  7. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 2 : 401، رقم : 3783

‘‘حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : دو جہنمی گروہ ایسے ہیں جن کو میں نے نہیں دیکھا (بعد میں پیدا ہوں گے) ایک وہ گروہ جن کے ہاتھوں میں بیل کی دم کی مانند کوڑے ہوں گے وہ ان کو لوگوں کے منہ پر (نا حق) ماریں گے۔ دوم وہ عورتیں جو (کہنے کو تو) لباس پہنے ہوئے ہوں گی لیکن درحقیقت برہنہ ہوں گی۔ (لوگوں کو اپنے جسم کی نمائش اور لباس کی زیبائش سے اپنی طرف) مائل کریں گی۔ (اور خود بھی مردوں سے اختلاط کی طرف) مائل ہوں گی، ان کے سر (فیشن کی وجہ سے) بختی اونٹ کی کوہان جیسے ہوں گے، یہ عورتیں نہ تو جنت میں داخل ہوں گی نہ جنت کی خوشبو ہی ان کو نصیب ہو گی۔ حالانکہ جنت کی خوشبو دور دور سے آ رہی ہوگی۔’’

21. عن أبي هريرة قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم يمسخ قوم من أمتي في آخر الزمان قردة وخنازير قيل : يا رسول اﷲ، ويشهدون أن لا إله إلّا اﷲ وأنّک رسول اﷲ ويصومون؟ قال : نعم، قيل : فما بالهم يا رسول اﷲ؟ قال : يتخذون المعازف والقينات والدفوف ويشربون الأشربة فباتوا علی شربهم ولهوهم فأصبحوا قد مسخوا قردة وخنازير.

أبو نعيم، حلية الأولياء وطبقات الأصفياء، 3 : 119، 120

‘‘حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آخری زمانہ میں میری اُمت کے کچھ لوگ بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ ہو جائیں گے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! کیا وہ توحید و رسالت کا اقرار کرتے ہوں گے اور روزے بھی رکھتے ہوں گے؟ فرمایا : ہاں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! پھر ان کا یہ حال کیوں ہوگا؟ فرمایا : وہ آلاتِ موسیقی، رقاصہ عورتوں اور طبلہ اور سارنگی وغیرہ کے رسیا ہوں گے اور شرابیں پیا کریں گے۔ بالآخر وہ ایک رات مصروفِ لہو و لعب رہیں گے اور جب صبح ہوگی تو بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ ہو چکے ہوں گے۔’’

22. عن ابن عمر رضی الله عنه أنّ النبي صلی الله عليه وآله وسلم قال : إنّ اﷲ ل إذا أراد أن يهلک عبداً نزع منه الحياء فإذا نزع منه الحياء لم تلقه إلّا مقيتاً ممقتاً، فإذا لم تلقه إلّا مقيتاً ممقتاً نزعت منه الأمانة فإذا نزعت منه الأمانة لم تلقه إلّا خائناً مخوناً فإذا لم تلقه إلّا خائناً مخوناً نزعت منه الرّحمة فإذا نزعت منه الرحمة لم تلقه إلّا رجيماً ملعناً فإذا لم تلقه إلّا رجيماً ملعناً نزعت منه ربقة الإسلام.

  1. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب ذهاب الأمانة، 2 : 1347، رقم : 4054

  2. منذري، الترغيب والترهيب، 3 : 270، رقم : 4000

‘‘حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اﷲ تعاليٰ جب کسی بندے کی ہلاکت کا فیصلہ فرماتا ہے تو (سب سے پہلے) اس سے شرم و حیا چھین لیتا ہے اور جب اس سے حیاء جاتی رہی تو تم (اس کی بے حیائیوں کی وجہ سے) اسے شدید مبغوض اور قابل نفرت پاؤ گے اور جب اس کی یہ حالت ہو جائے تو اس سے امانت (بھی) چھین لی جاتی ہے اور جب اس سے امانت چھن جائے تو تم (اس کی بد دیانتی کی وجہ سے) اسے نرا خائن اور دھوکے باز پاؤ گے اور جب اس کی حالت یہاں تک پہنچ جائے تو اس سے رحمت بھی چھین لی جاتی ہے اور جب رحمت چھن جائے تو تم اسے (بے رحمی کی وجہ سے) مردود و ملعون پاؤ گے اور جب وہ اس مقام پر پہنچ جائے تو اس کی گردن سے اسلام کا پٹہ نکال لیا جاتا ہے (اور اسے اسلام سے عار آنے لگتی ہے)۔’’

(8) نظامِ حکمرانی کی اِصلاح

ریاست مدینہ ایک نظریاتی مملکت تھی اور اس مملکت کی بنیاد ہجرت مدینہ کے فوراً بعد رکھ دی گئی تھی۔ یہ گویا مصطفوی انقلاب کی تکمیل کی طرف سفر رحمت کا آغاز تھا۔ تحریک اسلامی مرحلہ انقلاب میں داخل ہو رہی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ کی مختصر ریاست میں اسلامی حکومت کی بنیاد قائم کی اور نبوی حکمت سے اسلامی نظام حکومت کا اعليٰ نمونہ پیش کیا۔ مدینہ منورہ کے یہودیوں سے بین الاقوامی اصولوں کے مطابق باہمی زندگی گزارنے کا معاہدہ کیا۔ صلح و جنگ کے اعليٰ اصول قائم کیے اور ان کے مطابق عمل کیا۔ یہ اُصول اور تعلیمات ایسی ہیں کہ آج بھی دنیا کی مشکلات کا مداوا کر سکتی ہیں۔ جو سیاست اور حکمت عملی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنائی تھی اس کے بنیادی اُصول آج بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جس طرح وہ دورِ نبوی اور مسلمانوں کے اِبتدائی دور میں عملی طور پر کامیاب ثابت ہوئے تھے۔

شروع شروع میں جب اِسلامی حکومت مدینہ منورہ اور اس کے گرد و نواح تک محدود تھی تمام انتظامی اور سیاسی معاملات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود طے کرتے تھے۔ فتح مکہ کے بعد جب تمام اہل عرب مسلمان ہو گئے اور اسلامی ریاست کی حدود پھیل گئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر علاقے کے الگ الگ حاکم مقرر کئے؛ جیسا کہ مکہ معظمہ، عمان، بحرین، تیماء اور یمن کے مختلف حصوں کے لئے حکام مقرر کئے گئے۔ جزیرہ نمائے عرب چوں کہ سب سے زیادہ آباد اور وسیع علاقہ تھا اور اس کا قدیم تہذیب و تمدن بھی مشہور تھا۔ اس کے علاوہ تجارتی شاہراہ پر واقع ہونے کی وجہ سے اس کا تجارتی کاروبار بھی ترقی پذیر تھا، زراعت اور صنعت و حرفت کے لحاظ سے بھی اس کی اہمیت تھی اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کے نظم و نسق، نظام سلطنت اور حکام کے تقرر پر خاص توجہ فرمائی۔

مدینہ منورہ کے نظام تہذیب و ثقافت کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشرے کے منتشر اجزا کو مرتب اور مربوط کیا اوراسے سماجی اور معاشرتی ہم آہنگی سے آشنا کیا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوانوں سے کہا کہ بوڑھوں کا احترام کریں، بوڑھوں سے کہا کہ بچوں پر شفقت کریں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

ليس منّا من لم يرحم صغيرنا ويؤقّر کبيرن.

ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء فی رحمة الصبيان، 4 : 321، رقم : 1919

‘‘(وہ شخص) ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر شفقت نہیں کرتا اور ہمارے بڑوں کی عزت نہیں کرتا۔’’

امیروں سے کہا کہ غریبوں کا خیال رکھیں، غریبوں کو کہا کہ اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا سیکھیں۔ الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام طبقات کو معاشرے کی فلاح و بہبود پر لگا دیا۔ نتیجتاً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حکمتِ عملی اور نظم و ضبط کی وجہ سے بغیر کسی جبر و تشدد کے متمول لوگ معاشرے کی فلاح و بہبود پر بے دریغ خرچ کرنے لگے اور یوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشرے کے مختلف طبقات کو باہم متحد اور منظم کر دیا اور حق کی حمایت میں باطل کے خلاف سب کو صف آراء کر دیا۔ آپ نے ان تمام عوامل سے احتراز کی تعلیم دی جو معاشرے یا مملکت کو عدم استحکام، اختلال اور جور و تظلم کا شکار کر سکتے ہیں۔

1. عن أبي هريرة قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : سيأتی علی الناس سنوات خدّاعات يصدق فيها الکاذب ويکذب فيها الصادق ويؤتمن فيها الخائن ويخون فيها الأمين وينطق فيها الروی بضة قيل وما الرويبضة؟ قال الرجل التّافه يتکلم في أمر العامة.

  1. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب شدة الزمان، 2 : 1339، رقم : 4036

  2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 291، رقم : 7899

  3. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 4 : 512، رقم : 8439

  4. أبو يعلی، المسند، 6 : 378، رقم : 3715

‘‘حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں پر بہت سے سال ایسے آئیں گے جن میں دھوکہ ہی دھوکہ ہو گا۔ اس وقت جھوٹے کو سچا سمجھا جائے گا اور سچے کو جھوٹا۔ بد دیانت کو امانت دار تصور کیا جائے گا اور امانت دار کو بد دیانت اور ‘‘رویبضہ’’ یعنی گرے پڑے، نااہل لوگ قوم کی طرف سے نمائندگی کریں گے۔ عرض کیا گیا : ‘‘رویبضہ’’ سے کیا مراد ہے؟ فرمایا : وہ نااہل اور بے قیمت آدمی جو قوم کے اہم معاملات میں رائے زنی کرے۔’’

2. عن أم سلمة أنّها سمعت النبي صلی الله عليه وآله وسلم يقول : ليأتين علی الناس زمان يکذب فيه الصادق ويصدق فيه الکاذب ويخون فيه الأمين ويؤتمن فيه الخؤون ويشهد فيه المرء ولم يستشهد ويحلف وأن لم يستحلف ويکون أسعد الناس في الدنيا لکع بن لکع لا يؤمن باﷲ ورسوله.

  1. بخاري، التاريخ الکبير، 8 : 278، رقم : 2993

  2. طحاوي، شرح معاني الأثار، 4 : 151

  3. طبراني، المعجم الکبير، 23 : 314، رقم : 711

  4. طبراني، المعجم الأوسط، 8 : 282، رقم : 8643

  5. هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 283

  6. مناوي، فيض القدير شرح جامع الصغير، 5 : 345

‘‘حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا : لوگوں پر ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ سچوں کو جھوٹا اور جھوٹوں کو سچا کہا جائے گا اور خیانت پیشہ لوگوں کو امانت دار اور امانت دار لوگوں کو خیانت پیشہ بتلایا جائے گا۔ بغیر طلب کیے لوگ گواہیاں دیں گے اور بغیر حلف اٹھوائے حلف اٹھائیں گے۔ اور کمینہ ابن کمینہ دنیاوی اعتبار سے سب سے زیادہ خوش نصیب ہو گا۔ جس کا نہ اﷲ پر ایمان ہو گا نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر۔’’

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی تعلیمات اور عملی اقدامات کے ذریعے اسلامی تہذیب کو فروغ پذیری کا منہج اور سمت عطا کی جس پر چل کر آنے والے زمانے میں وہ تہذیب وجود میں آئی جو دوسری تہذیبوں میں ہر لحاظ سے شوکت و تمکنت کی حامل تھی۔ اس اَمر کا اعتراف ایک مغربی مفکر یوں کرتا ہے :

Aside from their military merits, their strength included extraordinary artistic sensitivity in literature, architecture and symbolic imagery : a commitment to justice for all, no matter how weak, a tolerance for non-believers that was unusual for its time …. In economic and administrative affairs, the Ottomans had a far more efficient tax system and better control of their provincial authorities than any European government of the fourteenth through sixteenth centuries.(1)

(1) Philip J. Adler, Randall L. Pouwels, World Civilizations, p. 495.

‘‘عسکری خوبیوں کے علاوہ ان کی طاقت ادب میں غیر معمولی فنی احساسات، فن تعمیر و علامتی تصویر کشی، سب کے لئے انصاف کے قیام چاہے کوئی کتنا ہی کمزور کیوں نہ ہو، غیر مسلموں کے لئے رواداری اور برداشت جو کہ اس زمانے میں نہ ہونے کے برابر تھیں، پر مشتمل تھی۔ معاشی اور انتظامی معاملات میں عثمانیوں کا ٹیکسوں کا نظام بہت زیادہ کامیاب تھا اور انہیں چودہویں سے سولہویں صدی تک کی یورپی حکومتوں کی نسبت اپنے صوبوں پر بہتر کنٹرول حاصل تھا۔’’

(9) حسنِ اَخلاق اور عدمِ تشدد

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کو خوش اخلاقی اور نرمی کی تعلیم دی اور انہیں تشدد اور ظلم سے منع فرمایا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب بھی کسی کو حاکم بنا کر بھیجتے تو انہیں نصیحت فرماتے :

يسرا ولا تعسرا وبشرا ولا تنفرا وتطاوعا ولا تختلفا.

  1. بخاری، الصحيح، کتاب الجهاد، باب ما يکره، 3 : 1104، رقم : 2873

  2. مسلم، الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب فی الأمر، 3 : 1358، رقم : 1732

‘‘لوگوں کے لئے سہولت فراہم کرو اور مشکلات پیدا نہ کرو۔ لوگوں کو بشارت دو انہیں وحشت زدہ نہ کرو۔ اتفاق باہمی سے رہو اختلافات پیدا نہ کرو۔’’

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حکام اور دیگر مسلمانوں کو یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ اپنے ماتحت ملازموں اور عام لوگوں پر سختی نہ کریں حتی کہ حکومت ٹیکس اور واجبات بھی تشدد کے ذریعے وصول نہ کرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہر حالت میں نرمی، خوش اخلاقی اور سہولت کا رویہ اختیار کرنے کا حکم فرماتے۔ علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمام عمال کو یہ قطعی حکم دے رکھا تھا کہ غیر مسلم رعایا سے بھی جزیہ کی وصولی کے وقت ہرگز تشدد نہ کیا جائے بلکہ انہیں جزیہ اور دیگر واجبات کی ادائیگی میں ہر ممکن سہولت بہم پہنچائی جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

1. إنّ اﷲ يعذّب الذين يعذّبون النّاس في الدّنی.

  1. مسلم، الصحيح، کتاب البر، باب الوعيد الشديد، 4 : 2017، رقم : 2613

  2. أبو داود، السنن، کتاب الخراج، باب فی التشديد، 2 : 185، رقم : 3045

‘‘اﷲ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو دنیا میں (لوگوں کو) عذاب دیتے ہیں۔’’

2. عن أبي هريرة رضی الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : يأتی علی النّاس زمان يخير الرّجل فيه بين العجز والفجور فمن أدرک ذالک الزمان فليختر العجز علی الفجور.

  1. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 4 : 484، رقم : 8352

  2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 447، رقم : 9766

  3. أبو يعلی، المسند، 11 : 287، رقم : 6403

  4. بيهقي، شعب الإيمان، 6 : 320، رقم : 8332

‘‘حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جس میں آدمی کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ یا تو احمق کہلانے کو اختیار کرے یا بدکاری کو اختیار کرے۔ پس جو شخص یہ زمانہ پائے اسے چاہئے بدکاری اختیار کرنے کی بجائے احمق کہلانے کو اختیار کرے۔’’

آپ نے اَخلاقِ حسنہ کے انفرادی اور معاشرتی پہلوئوں کو کئی مواقع پر بیان فرمایا اور ان پر عمل کی تلقین فرمائی :

3. عن عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنهما عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم قال : إنّ اﷲ لا يحبّ الفاحش ولا التفحش والّذي نفس محمد بيده لا تقوم السّاعة حتّی يظهر الفحش والتفحش وقطيعة الرحم وسوء المجاورة ويخون الأمين ويؤتمن الخائن.

  1. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1 : 147، رقم : 253

  2. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 4 : 558، رقم : 8566

  3. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 199، رقم : 6872

  4. بزار، المسند، 6 : 410

  5. معمر بن راشد، الجامع، 11 : 405

  6. ابن مبارک، الزهد، 1 : 561، رقم : 1610

  7. هندي، کنز العمال، 7 : 176

‘‘حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اﷲ عنہما حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اﷲ تعاليٰ بدکاری اور بدکلامی کو ناپسند فرماتا ہے۔ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک کہ بدکاری، بد زبانی، قطع رحمی اور برے ہمسائے عام نہ ہو جائیں۔ امانت دار کو خیانت کار اور خائن کو امانت دار نہ قرار دیا جانے لگے گا۔’’

4. عن أنس بن مالک رضی الله عنه قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : يأتي علی الناس زمان الصابر فيهم علی دينه کالقابض علی الجمر.

ترمذی، السنن، کتاب الفتن عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب ما جاء في النهي عن سب الرياح، 4 : 526، رقم : 2260

‘‘حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : لوگوں پر ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جس میں اپنے دین پر ثابت قدم رہنے والے کی مثال ایسے ہو گی جیسے کوئی شخص آگ کے انگاروں سے مٹھی بھرے۔’’

(10) سادگی

اسلام نے اپنے پیروکاروں کو سادہ زندگی گزارنے کی تلقین کی ہے اس سے معاشرے میں طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ مادہ پرستی اور نفسانفسی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سادہ زندگی ہمارے سامنے نمونہ عمل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہت سادہ لباس زیب تن فرماتے حتی کہ اس وقت جب یمن سے لے کر شام تک اسلام کی سیادت کا پرچم لہرا رہا تھا پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر میں صرف ایک معمولی سا پلنگ اور چمڑے کی ایک چھاگل تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے وقت آپ کے گھر میں تھوڑے سے جو کے علاوہ کھانے پینے کی کوئی چیز نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم گھر کا زیادہ تر کام خود اپنے ہاتھ سے کر لیا کرتے تھے، کپڑے خود دھو لیتے اپنے جوتے اپنے ہاتھ سے خود سی لیتے تھے، اونٹ خود باندھتے اور اپنے ہاتھ سے اس کے آگے چارہ ڈالتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہل ایمان کو زندگی میں سادگی کو شعار بنانے کی تلقین فرمائی :

1. قال صلی الله عليه وآله وسلم : من کرامة المؤمن علی اﷲ نقاء ثوبه ورضاء باليسير.

  1. طبرانی، المعجم الکبير، 12 : 395، رقم : 13458

  2. هيثمی، مجمع الزوائد، 5 : 132

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : مومن کے اللہ تعاليٰ کے ہاں معزز ہونے والی چیزوں میں سے ایک اس کے کپڑوں کا صاف ستھرا ہونا اور قناعت پر راضی رہنا ہے۔’’

2. قال صلی الله عليه وآله وسلم : کلوا واشربوا وتصدقوا والبسوا من غير مخيلة ولا تسرفوا فإن اﷲ يحب أن يری أثر نعمته علی عبده.

ديلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 3 : 241

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کھاؤ پیو اور صدقہ کرو اورلباس پہنو جس میں تکبر نہ ہو اور فضول خرچی نہ کرو۔ بے شک اللہ تعاليٰ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے بندے پر نعمت کا اثر نظر آئے۔’’

3. قال صلی الله عليه وآله وسلم : لا ألبس القميص المکفّف بالحرير.

  1. أبو داود، النسن، کتاب الحمام، باب من کرهه، 4 : 48، رقم، 4048

  2. حاکم، المستدرک، 4 : 211، رقم : 7400

  3. بيهقي، السنن الکبريٰ، 3 : 246، رقم : 5768

  4. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 442

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں وہ قمیص نہیں پہنتا جس میں ریشمی کف لگے ہوئے ہوں۔’’

4. قال صلی الله عليه وآله وسلم : من لبس ثوب شهرة في الدنيا؛ ألبسه اﷲ تعالی ثوب مذلة يوم القيامة.

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 92، رقم : 5664

  2. نسائي، السنن الکبری، 5 : 460، رقم : 9560

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص دنیا میں شہرت اور نام وری کے لئے کپڑے پہنے گا اللہ تعاليٰ قیامت کے دن اسے ذلت کا لباس پہنائے گا۔’’

5. قال صلی الله عليه وآله وسلم : إن کنتم تحبون حلية الجنة وحريرها فلا تلبسوها في الدنيا.

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 145

  2. منذري، الترغيب والترهيب، 1 : 314؛ رقم : 1157

  3. ابن حبان، الصحيح، 12 : 297، رقم : 5486

  4. نسائي، السنن الکبری، 5 : 434، رقم : 9436

‘‘حضور نبی اکر م صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر تم جنت کی زینت اور ریشم پسند کرتے ہو تو دنیا میں اسے نہ پہنو۔’’

6. قال صلی الله عليه وآله وسلم : من کان يؤمن باﷲ واليوم الآخر فلا يلبس حريرًا ولا ذهبًا.

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 261، رقم : 22302

  2. طبراني، المعجم الأوسط، 3 : 286، رقم : 3168

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہے وہ سونا اور ریشم نہ پہنے۔’’

7. عن عقبة بن عامر قال : أهدي لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فروج حرير فلبسه ثم نزعه قال : لا ينبغي هذا للمتّقين.

  1. بخاري، الصحيح، کتاب الصلاة، باب من صلی فی فروج، 1 : 147، رقم : 368

  2. مسلم، الصحيح، کتاب اللباس، باب تحريم استعمال، 3 : 1046، رقم : 2074

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ریشم کی قبا ہدیہ میں دی گئی آپ نے اسے پہن کر نماز پڑھی پھر کراہت کے ساتھ اسے زور سے کھینچ کر اُتارا پھر فرمایا : متقیوں کے لئے یہ لباس مناسب نہیں۔’’

8. قال صلی الله عليه وآله وسلم : لا يستمتع بالحرير من يرجو أيام اﷲ.

  1. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 267، رقم : 22356

  2. طبراني، المعجم الکبير، 8 : 106، رقم : 7510

  3. منذري، الترغيب والترهيب، 3 : 71، رقم : 1321

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص ریشمی لباس سے تمتع کرتا ہے وہ اللہ تعاليٰ کے (اُخروی) انعامات کی اُمید نہ رکھے۔’’

9. أنّ علياً کان يلبس القميص ثم يمد الکم حتّی إذا بلغ الأصابع قطع ما فضل ويقول : لا فضل للکمين علی اليد.

بيهقی، شعب الإيمان، 5 : 138، رقم : 6183

‘‘حضرت علی رضی اللہ عنہ قمیض پہنا کرتے تھے اور آستین کو کھینچتے یہاں تک کہ جب وہ انگلیوں تک پہنچ جاتی تو اس سے فالتو کو کاٹ دیتے اور فرماتے : آستین کو ہاتھ سے بڑھا ہوا نہیں ہونا چاہیے۔’’

10. قال صلی الله عليه وآله وسلم : إنّه ليس لنبي أن يدخل بيتًا مزوقًا.

  1. أبو داود، السنن، کتاب الأطعمة، باب إجابة الدعوة، 3 : 344، رقم : 3755

  2. ابن ماجه، السنن، کتاب الأطعمة، باب إذا رأی، 2 : 1115، رقم : 3360

  3. بيهقي، السنن الکبری، 7 : 267، رقم : 14337

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی نبی کے لیے اچھا نہیں کہ وہ نقش و نگار والے گھر میں داخل ہو۔’’

(11) تواضع اور رواداری

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غرباء و مساکین اور فقراء کے ساتھ حسن سلوک اور مساویانہ طرز عمل کی تعلیم دی۔ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پوری حیات طیبہ میں ہمیں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے آپ کو دوسروں سے برتر رکھنے کی کوشش کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے :

أللّهم! أحيينی مسکينأ وأمتنی مسکينأ واحشرنی في زمرة المساکين.

  1. ترمذی، السنن، کتاب الزهد، باب ما جاء أن الفقراء، 4 : 577، رقم : 2352

  2. ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب مجالسة الفقرائ، 2 : 1381، رقم : 4126

  3. حاکم، المستدرک، 4 : 358، رقم : 7911

‘‘اے اﷲ مجھے مسکین زندہ رکھ، حالت مسکینی میں ہی موت دے اور قیامت کے دن مساکین کی ہی جماعت سے اٹھانا۔’’

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مجلس میں اکثر نادار، مساکین، فقرا اور معمولی حیثیت کے لوگوں کا ہجوم رہتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح صاحب ثروت لوگوں کے ساتھ پیش آتے تھے اس سے بھی زیادہ شفقت سے ان لوگوں سے سلوک فرماتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رواداری اور حسن سلوک کا اندازہ اس سے لگا لیں کہ فتح کے روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے خون کے پیاسوں کو لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْکُمُ الْيَوْم کا مژدہ جاں فزا سنا کر معاف فرما دیا۔

  1. قرطبی، الجامع لأحکام القرآن، 7 : 351

  2. ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 2 : 490

  3. بيهقی، السنن الکبری، 9 : 118

الغرض اسلام انسانیت کو پیار، محبت، الفت، حسن سلوک اور ایک دوسرے سے تعاون کی تعلیم دیتا ہے۔ تواضع اور رواداری کی تلقین ہمیں سیرۃُ الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر ہر نقش سے نمایاں نظر آتی ہے :

عن أنس بن مالک قال : قال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : لا تقوم السّاعة حتّی يتباهی النّاس في المساجد.

  1. نسائي، السنن، کتاب المساجد، باب المباهاة في المساجد، 2 : 32، رقم : 689

  2. أبوداود، السنن، کتاب الصلاة، باب في بناء المساجد، 1 : 123، رقم : 449

  3. ابن ماجه، السنن، کتاب المساجد والجماعات، باب تشييد المساجد، 1 : 244، رقم : 739

  4. دارمي، السنن، کتاب الصلاة، باب في تزويق المساجد، 1 : 383، رقم : 1408

  5. ابن حبان، الصحيح، 4 : 493، رقم : 1614

  6. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 134، رقم : 12402

‘‘حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : قیامت قائم نہ ہوگی یہاں تک کہ لوگ مسجدوں میں (بیٹھ کر یا مساجد کے بارے میں) فخر کرنے لگیں گے۔’’

اسلام کے اس اعليٰ وصف کا اعتراف کرتے ہوئے ایک مغربی مفکر لکھتا ہے :

Muhammad prescribed the religious toleration of Jews and Christians who had made political submission to the secular arm of Islam, and he gave this ruling expressly on the ground that these two non-Muslim religious communities, like the Muslims themselves, were 'People of the Book'. It is significant of the tolerant spirit which animated Primitive Islam that, without express sanction from the Prophet himself, a similar toleration was afterwards extended in practice to the Zoroastrians who came under Muslim rule.(1)

(1) Arnold J. Toynbee, A Study of History, Abridgement of Volumes I-VI By D. C. Somervell, Oxford University Press, 1947, p. 300.

‘‘محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مذہبی رواداری کا درس دیا یہودیوں اور عیسائیوں کے لئے جنہوں نے بھی ان کے سامنے سیاسی طور پر اتحاد کو قبول کیا۔ انہوں نے یہ حکم واضح طور پر اس بنیاد پر جاری کیا کہ یہ دونوں غیر مسلم طبقات مسلمانوں ہی کی طرح اہل کتاب ہیں۔ یہ رواداری والی روح کی ہی اہمیت تھی جس نے ابتدائی اسلام کو بہت زندگی عطا کی۔ گو کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طرف سے خود بہت واضح طور پر اس کے لئے ہدایات موجود نہ تھیں، بعد میں اس طرح کی رواداری کا طرزِ عمل مسلم حکمرانوں کے ماتحت زرتشتیوں کے لئے بھی روا رکھا گیا۔’’

(12) اِنسانی اُخوت

اسلام نے اپنی آمد کے بعد انسانیت کی منتشر صفوں میں اتحاد و الفت اور اخوت کی روح پیدا کریں۔ ایک دوسرے کے جانی دشمنوں کو بھائی بھائی بنا دیا۔ عداوت، حسد، کینہ اور بغض کا خاتمہ کر دیا۔ قرآن تو ساری دنیا کے اہلِ کتاب کو دعوت اتحاد دیتے ہوئے کہتا ہے :

قُلْ يٰـاَهْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَةٍ سَوَآئٍم بَيْنَنَا وَبَيْنَکُمْ.

آل عمران، 3 : 64

‘‘آپ فرما دیں : اے اہلِ کتاب! تم اس بات کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان یکساں ہے۔’’

دوسری طرف اُخوتِ اسلامی کی بنیاد اﷲتعالی کے اس حکم پر ہے :

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَةٌ فَاَصْلِحُوْا بَيْنَ اَخَوَيْکُمْ وَاتَّقُوا اﷲَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنo

الحجرات، 49 : 10

‘‘بات یہی ہے کہ (سب) اہلِ ایمان (آپس میں) بھائی ہیں۔ سو تم اپنے دو بھائیوں کے درمیان صلح کرایا کرو، اور اﷲ سے ڈرتے رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔’’

ان آیاتِ مقدسہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام دنیا میں امن و آتشی کا دین ہے جو چہار دانگ عالم میں اتحاد و اتفاق کے پرچم بلند کر کے پوری دنیائے انسانیت کو وحدت کی لڑی میں پرونا چاہتا ہے۔

وَلَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًاج اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَلَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًاo

بنی اسرائيل، 17 : 37

‘‘اور زمین میں اکڑ کر مت چل، بیشک تو زمین کو (اپنی رعونت کے زور سے) ہرگز چیر نہیں سکتا اور نہ ہی ہرگز تو بلندی میں پہاڑوں کو پہنچ سکتا ہے (تو جو کچھ ہے وہی رہے گا)۔’’

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے فرامینِ مبارکہ کے ساتھ بھی اس امر کی تلقین فرمائی :

1. عَنْ إِبْرَاهِيْمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ قَالَ : لَمَّا قَدِمُوا الْمَدِيْنَةَ آخَی رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بَيْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ وَسَعْدِ بْنِ الرَّبِيْعِ. قَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ : إِنِّي أَکْثَرُ الأَنْصَارِ مَالًا، فَأَقْسِمُ مَالِي نِصْفَيْنِ، وَلِي امْرَأَتَانِ، فَانْظُرْ أَعْجَبَهُمَا إِلَيْکَ فَسَمِّهَا لِي أطَلِّقْهَا، فَإِذَا انْقَضَتْ عِدَّتُهَا فَتَزَوَّجْهَا. قَالَ : بَارَکَ اﷲُ لَکَ فِي أَهْلِکَ وَمَالِکَ، أَيْنَ سُوْقُکُمْ؟ فَدَلُّوْهُ عَلَی سُوْقِ بَنِي قَيْنُقَاعَ، فَمَا انْقَلَبَ إِلَّا وَمَعَهُ فَضْلٌ مِنْ أَقِطٍ وَسَمْنٍ…

  1. بخاري، الصحيح، کتاب : المناقب، باب : إخاء النبي صلی الله عليه وآله وسلم بين المهاجرين والأنصار، 3 : 1378، رقم : 3569

  2. ترمذي السنن، کتاب : البر والصلة عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب : ما جاء في مواساة الأخ، 4 : 328، رقم : 1933

  3. شافعي، المسند، 1 : 246

  4. بيهقي، السنن الکبری، 7 : 236، رقم : 14140

‘‘ابراہیم بن عبد الرحمن بن عوف کہتے ہیں : جب صحابہ کرام مدینہ تشریف لائے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبد الرحمن بن عوف اور سعد بن الربیع کے درمیان اخوت قائم کر دی۔ سعد بن الربیع نے عبد الرحمن بن عوف سے کہا : میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار ہوں سو میں اپنا مال نصف نصف (اپنے اور تمہارے درمیان) تقسیم کرتا ہوں، اور میری دو بیویاں ہیں۔ تمہیں ان میں سے جو زیادہ پسند ہو مجھے اس کا نام بتا دینا تو میں اسے طلاق دے دوں گا، پھر جب اس کی عدت پوری ہو جائے تو تم اس سے شادی کر لینا۔ حضرت عبد الرحمن بن عوف نے کہا : اللہ تعاليٰ آپ کے اہلِ خانہ اور مال میں آپ کے لئے برکت فرمائے، (آپ مجھے یہ بتا دیں کہ) آپ کا بازار کہاں ہے؟ چنانچہ انہوں نے عبد الرحمن کو بنو قینقاع کے بازار کا راستہ سمجھا دیا، پھر جب وہ (بازار سے) واپس لوٹے تو ان کے پاس کچھ گھی اور پنیر تھا۔۔۔’’

2. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اﷲ عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : لَا تُمَارِ أَخَاکَ وَلَا تُمَازِحْهُ وَلَا تَعِدْهُ مَوْعِدَةً فَتُخْلِفَهُ.

  1. ترمذي، السنن، کتاب البر و الصلة عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب ما جاء في المراء، 4 : 359، رقم : 1995

  2. بيهقي، شعب الإيمان، 6 : 340، رقم : 8431

  3. بخاري، الأدب المفرد، 1 : 142، رقم : 394

  4. أصبهاني، حلية الأولياء، 3 : 344

‘‘حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تُو اپنے بھائی سے جھگڑا نہ کرنا اور (عزتِ نفس کو مجروح کرنے والا) اس کے ساتھ مزاح نہ کرنا اور اس کے ساتھ کوئی ایسا وعدہ نہ کرنا جس کو تو نبھا نہ سکے۔’’

3. عَنْ أَبِي مُوْسَی رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعْضُهُ بَعْضًا، وَشَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ.

  1. بخاري، الصحيح، کتاب المظالم، باب نصر المظلوم، 2 : 863، رقم : 2314

  2. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآدب، باب تراحم المؤمنين وتعاطفهم وتعاضدهم، 4 : 1999، رقم : 2585

  3. ترمذي، السنن، کتاب البر والصلة عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ، باب ما جاء في شفقة المسلم علی المسلم، 4 : 325، رقم : 1928

  4. نسائي، السنن، کتاب الزکاة، باب أجر الخازن إذا تصدق بإذن مولاه، 5 : 79، رقم : 2560

  5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 467، رقم : 231

‘‘حضرت ابو موسيٰ (اَشعری) رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ایک مومن دوسرے مومن کے لئے ایک (مضبوط) دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے، اور (اس بات کی وضاحت کے طور پر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈالیں۔’’

(13) خواتین کا احترام

قبل از اسلام عورت کو مال و جائیداد میں حصہ دار نہیں بنایا جاتا تھا۔ اسلام نے تاریخ انسانی میں پہلی مرتبہ عورت کو وراثت میں شامل کیا۔ قرآن میں ارشاد ہے :

وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِی عَلَيْهِنَّ بِالْمَعرُوفِ.

البقرة، 2 : 228

‘‘اور دستور کے مطابق عورتوں کے بھی مردوں پر اسی طرح حقوق ہیں جیسے مردوں کے عورتوں پر۔’’

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

استوصوا بالنّساء خيراً.

1. بخاری، الصحيح، کتاب أحاديث الأنبياء، باب خلق آدم، 3 : 1212، رقم : 3153

2. مسلم، الصحيح، کتاب الرضاع، باب الوصية بالنساء، 2 : 1090، رقم : 1468

‘‘حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔’’

موجودہ دنیا اس بات پر نازاں ہے کہ اس نے عورت کو مساوی حقوق دلوائے حالانکہ اگر حقائق کو مسخ نہ کیا جائے اور حقیقت پسندانہ انداز میں تاریخ کا مطالعہ کیاجائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آ جاتی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات اور سیرت مبارکہ نے سب سے پہلے عورت کو مظلومیت کی زنجیروں سے آزاد کرایا اور معاشرے میں باوقار زندگی گزارنے کا حق دیا۔

(14) معاشی مساوات

اگر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کردہ تعلیمات اور اسلام کے معاشی نظام کو دیکھا جائے تویہ امر واضح ہوتا ہے کہ اسلام معاشی مساوات کا سب سے بڑا علم بردار ہے۔ یہ طبقاتی تقسیم کا سخت مخالف اور دولت کو چند ہاتھوں میں جمع کرنے کی نفی کرتا ہے۔ ارشادِ باری تعاليٰ ہے :

مَآ اَفَآءَ اﷲُ عَلٰی رَسُوْلِهِ مِنْ اَهْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰهِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْيَتٰمٰی وَالْمَسٰکِيْنِ وَابْنِ السَّبِيْلِ کَيْ لَا يَکُوْنَ دُوْلَةًم بَيْنَ الْاَغْنِيَآءِ مِنْکُمْ وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهکُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا وَاتَّقُوْاﷲَ اِنَّ اﷲَ شَدِيْدُ الْعِقَابِo

الحشر، 59 : 7

‘‘جو (اموال فَے) اللہ نے (قُرَیظہ، نَضِیر، فِدَک، خَیبر، عُرَینہ سمیت دیگر بغیر جنگ کے مفتوحہ) بستیوں والوں سے (نکال کر) اپنے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر لوٹائے ہیں وہ اللہ اور اس کے رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے لئے ہیں اور (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) قرابت داروں (یعنی بنو ہاشم اور بنو المطّلب) کے لئے اور (معاشرے کے عام) یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں کے لئے ہیں (یہ نظامِ تقسیم اس لئے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مال داروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے) اور جو کچھ رسول( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔’’

دوسرے مقام پر قرآن میں اِرتکازِ دولت کی مذمت یوں بیان کی گئی ہے :

وَالَّذِيْنَ يَکْنِزُوْنَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنْفِقُوْنَهَا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَابٍ اَلِيْمo

التوبة، 9 : 34

‘‘اور جو لوگ سونا اور چاندی کا ذخیرہ کرتے ہیں اور اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے تو انہیں درد ناک عذاب کی خبر سنا دیں۔’’

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ضرورت سے زائد مال کو ضرورت مندوں تک پہنچانے کا حکم فرمایا ہے۔ حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :

إنّ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم نظر إلی رجل يصرف راحلته في نواحی القوم فقال النبيّ صلی الله عليه وآله وسلم : من کان عنده فضل ظهر فليعد به علی من لا ظهر له ومن کان له فضل زاد فليعد به علی من لا زاد له حتّی رأينا أن لا حق لأحد منّا في فضل.

أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 34، رقم : 11311

‘‘حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص کو دیکھا جو اپنی سواری کوایک آبادی کی طرف موڑ رہا تھا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کے پاس زائد سواری ہو وہ اس زائد سواری کو اس شخص کو دے دے جس کے پاس سواری نہ ہو اور جس کے پاس خوراک کا ذخیرہ ہے وہ ایسے شخص کو دے دے جس کے پاس کھانے کو نہیں حتيٰ کہ ہم یہ خیال کرنے لگے کہ ہم میں سے کسی کو زائد مال پر کوئی اختیار نہیں۔’’

(15) علم و حکمت کا فروغ

اسلامی تہذیب کے بنیادی عناصر تشکیلی کی رو سے خلاق کائنات نے انسان کو نعمت وجود (تخلیق) سے نوازنے کے بعد سب سے پہلے ‘‘علم الاسماء‘‘ کی دولت سے مالا مال کیا اور یہ وہ دولت تھی جس سے ملائکہ بھی تہی دامن تھے۔ قرآن کہتا ہے :

وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلاَئِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَـؤُلَاءِ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَo

قَالُواْ سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ.

البقرة، 2 : 31، 32

‘‘اور اللہ نے آدم (علیہ السلام) کو تمام (اشیاء کے) نام سکھا دیے پھر انہیں فرشتوں کے سامنے پیش کیا، اور فرمایا : مجھے ان اشیاء کے نام بتا دو اگر تم (اپنے خیال میں) سچے ہوo فرشتوں نے عرض کیا : تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے، بیشک تو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے۔’’

اسی تعلیم کا نتیجہ تھا کہ اسلام نے پہلے ہی دن سے ‘‘عقلیت‘‘ کی اہمیت پر زور دیا۔ قرآن اپنے مخاطبین سے عقل و خرد اور فہم و تدبر کے استعمال کا بار بار مطالبہ کرتا ہے۔ اَفَلا تَعْقِلُوْنَ، (1) اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ، (2) اور اَفَلا يَتَفَکَّرُوْنَ(3) اس کی دعوت کا عام جز ہے۔ اسی معقولیت پسند تعلیم کا نتیجہ ہے کہ وہ کورانہ تقلید کو جو اُمم ماضیہ میں عام تھی، شرک سے تعبیر کرتا ہے۔ چنانچہ قرآن پچھلی اُمتوں کے بارے میں کہتا ہے :

(1) البقرة، 2 : 44

(2) النساء، 4 : 82

(3) آل عمران، 3 : 191

اِتَّخَذُوْا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اﷲِ.

التوبة، 9 : 31

‘‘انہوں نے اللہ کے سوا اپنے عالموں اور زاہدوں کو رب بنا لیا تھا۔’’

ان مدعیان علم و حکمت نے خدا کے بندوں کو اوہام باطل کا شکار بنا رکھا تھا جن کے بارِ گراں سے ان کی مضطرب انسانیت کچلی جا رہی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انسانیت پر بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے اس کو اپنے ہی نبی کی ذہنی غلامی سے آزاد کیا۔ قرآن کہتا ہے :

وَيَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِيْ کَانَتْ عَلَيْهِمْ.

الاعراف، 7 : 157

‘‘اور ان سے ان کے بارِگراں اور طوقِ (قیود) جو ان پر (نافرمانیوں کے باعث مسلّط) تھے، ساقط فرماتے (اور انہیں نعمتِ آزادی سے بہرہ یاب کرتے) ہیں۔’’

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عطا کردہ تہذیب کی اساس ہی یہ تھی کہ وحی اِلٰہی کا آغاز ہی اِقْرَاْ کے ایجابی اَمر سے ہوا :

اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِيْ خَلَقَo

العلق، 96 : 1

‘‘(اے حبیب!) اپنے رب کے نام سے (آغاز کرتے ہوئے) پڑھیے جس نے (ہر چیز کو) پیدا فرمایا۔’’

اور انسان پر معبود برحق کی سب سے بڑی نعمت یہ بتائی گئی کہ اس نے اس نادان کو دانائی سکھائی :

اِقْرَاْ وَرَبُّکَ الْاَکْرَمُo الَّذِيْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِo عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْo

العلق، 96 : 3، 4، 5

‘‘پڑھیئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہےo جس نے قلم کے ذریعے (لکھنے پڑھنے کا) علم سکھایاo جس نے انسان کو (اس کے علاوہ بھی) وہ (کچھ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا۔’’

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس روایت علم وحکمت کی بنیادیں رکھیں اس نے پوری انسانیت کو متاثر کیا :

The Arabic culture is of a singular interest to the student of human traditions in general, to those whose greatest task it seems to them is the rebuilding of human integrity in the face of national and international disasters, because it was, and to some extent still is, a bridge, the main bridge between East and West. It is through that bridge that the Hindu numerals, sines and chess, and the Chinese silk, paper, and porcelain reached Europe. Latin culture was Western, Chinese culture was Eastern, but Arabic culture was both, for it extended all the way from the Maghrib al-aqsa' to the Mashriq al-aqsa. Latin culture was Mediterranean and Atlantic, Hindu culture was bathed in the Indian Ocean, Far Eastern culture in the Pacific; the Arabic sailors, however, were as ubiquitous in all the oceans of the Middle Ages as the English are in those of to-day. The Latin and Greek cultures were Christian, Hebrew culture was Jewish, Eastern Asia was Buddhist; the Arabic culture was primarily but not exclusively Islamic; it was stretched out between the Christianism of the West and the Buddhism of the East and touched both.(1)

(1) George Sarton, A Guide to the History of Science : A First Guide for the Study of the History of Science, with Introductory Essays on Science and Tradition, Chronica Botanica, 1952, p. 29.

‘‘عربی کلچر کا مطالعہ انسانی روایات کے طالب علم کے لیے بالعموم اور ان کے لیے بالخصوص اہمیت کا حامل ہے جن کا سب سے بڑا کام قومی اور بین الاقوامی انتشار کے ماحول میں انسانی وحدت کی تشکیل کرنا ہے، کیونکہ عربی کلچر ماضی میں اور آج بھی مشرق اور مغرب میں رابطے کا بہت بڑا پل ہے۔ یہ وہ ہی پل تھا جس سے ہندو اعداد، جیبی تفاعل اور شطرنج اور چائنہ کا ریشم، کاغذ اور چینی مٹی یورپ پہنچے۔ لاطینی کلچر مغربی تھا، چینی کلچر مشرقی تھا لیکن عربی کلچر میں دونوں جمع تھے کیونکہ یہ مغرب الاقصيٰ سے مشرق الاقصيٰ دونوں تک پھیلا ہوا تھا۔ لاطینی کلچر بحیرہ روم اور بحر اوقیانوس، ہندو کلچر، بحر ہند، مشرق بعید کا کلچر، بحر الکاہل تک محدود تھا۔ مگر عرب ملاحوں نے قرونِ وسطيٰ کے تمام سمندروں میں اپنے ڈیرے ڈالے جیسا کہ انگریز آج کے دور میں کر رہے ہیں۔ لاطینی اور یونانی کلچر عیسائی، عبرانی، کلچر یہودی، مشرقی ایشیا، بدھ مت تھا، جبکہ عربی کلچر بنیادی طور پر نہ کہ کلی طور پر اسلامی تھا۔ یہ مغرب کی عیسائیت سے لے کر مشرق کے بدھ مت تک پھیلا ہوا تھا اور دونوں کی قربت میں تھا۔’’

(16) تجرباتی سائنس کا آغاز

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کے وقت عیسائیت، رہبانیت کی اور افلاطونیت عیش و عشرت کی تعلیم دے رہی تھی۔ اگر یہ دونوں رجحان اسی طرح پنپتے رہتے تو سائنس اور علم کا خاتمہ ہو جاتا۔ لیکن اسلام نے ان رجحانات کی سمت تبدیل کر دی اور حصولِ علم اور انسانی قوتِ مشاہدہ کو بروئے کار لانے پر زور دیتے ہوئے موجودہ تجرباتی سائنس کی بنیاد رکھی۔ مناظرِ فطرت کا مطالعہ کرنے کی دعوت دی اور اولادِ آدم کو بیرونی دنیا میں اﷲتعاليٰ کی نشانیاں تلاش کرنے کی طرف راغب کیا۔ ارشاد باری تعاليٰ ہے :

اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِيْ تَجْرِيْ فِی الْبَحْرِ بِمَا يَنْفَعُ النَّاسَ وَمَا اَنْزَلَ اﷲُ مِنَ السَّمَآءِ مِنْ مَّاءٍ فَاَحْيَا بِهِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيْهَا مِنْ کُلِّ دَآبَّةٍ وَّتَصْرِيْفِ الرِّيٰحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَيْنَ السَّمَآءِ وَالْاَرضِ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُوْنَo

البقرة، 2 : 164

‘‘بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات دن کی گردش میں اور ان جہازوں (اور کشتیوں) میں جو سمندر میں لوگوں کو نفع پہنچانے والی چیزیں اٹھا کر چلتی ہیں اور اس (بارش) کے پانی میں جسے اﷲ آسمان کی طرف سے اتارتا ہے پھر اس کے ذریعے زمین کو مُردہ ہو جانے کے بعد زندہ کرتا ہے (وہ زمین) جس میں اس نے ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے ہیں اور ہواؤں کے رُخ بدلنے میں اور اس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان (حکمِ الٰہی کا) پابند (ہو کر چلتا) ہے (ان میں) عقلمندوں کے لئے (قدرتِ الٰہی کی بہت سی) نشانیاں ہیں۔’’

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سائنس سمیت ہر قسم کے علوم و فنون کے حصول پر زور دیتے ہوئے فرمایا :

الحکمة ضالة المؤمن فحيث وجدها فهو أحق بها.

  1. ترمذی، السنن، کتاب العلم، باب ما جاء في فضل الفقه علی العبادة، 5 : 51، رقم : 2687

  2. ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب الحکمة، 2 : 1395، رقم : 4169

‘‘حکمت (یعنی علم) مومن کی گم شدہ میراث ہے جہاں اسے پائے وہ اس کا دوسروں کی نسبت زیادہ حق دار ہے۔’’

طلب العلم فريضة علی کل مسلم.

ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم، 1 : 81، رقم : 2024

‘‘علم حاصل کرنا ہر مسلمان (مرد و عورت) پر فرض ہے۔’’

ان حقائق سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات نے جدید سائنس اور انقلابات پر کس طرح گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔

جن فضلاے روزگار نے اسلامی ثقافت کے فروغ میں حصہ لیا، ان کی تعداد حد و حساب سے باہر ہے لیکن ان میں سے جن اہلِ کمال نے فکر انسانی کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت حاصل کر لی ہے ان میں سے بعض مشاہیر کا گوشوارہ ذیل میں دیا جاتا ہے :

منطق و فلسفہ

ابو یوسف یعقوب ابن اسحاق الکندی، ابو العباس احمد بن الطبیب السرخسی، ابو زید احمد بن سہل البلخی، ابو نصر الفارابی، ابو الحسن العامری، شیخ بو علی سینا، ابو العباس اللوکری، عمر الخیام، ابو البرکات بغدادی، ابن ماجہ، ابن طفیل، ابن رشد، شہاب الدین سہروردی مقتول، امام فخر الدین رازی، محقق نصیر الدین طوسی، علامہ قطب الدین شیرازی، سراج الدین ارموی، افضل الدین خونجی، اثیر الدین امبری، نجم الدین کاتبی، محقق دوانی، مرزا جان شیرازی، میر باقر داماد، ملا صدر الدین شیرازی، ملا محمود جونپوری، میر زاہد ہروی، ملا محب اللہ بہاری۔

طب

علی بن ابن الطبری، ابو بکر محمد بن زکریا الرازی، علی بن العباس المجوسی، ابو منصور قمری، شیخ بو علی سینا، ابن رضوان مصری، ابو القاسم زہراوی، ابن زہر، علی بن عیسيٰ الکحال، ابن النفیس۔

ریاضی و ہندسہ

محمد بن موسی الخوارزمی، عباس بن سعید الجوہری، سند بن علی، بنو موسيٰ، علی بن عیسيٰ الماہانی، ابو العباس فضل بن حاتم التبریزی، ابراہیم بن سنان، ابو کامل شجاع بن اسلم، ابو جعفر الخازن، ابو الوفاء البوزجانی، ابوسہل ویجن بن رستم الکوہی، ابو نصر بن عراق، ابن الہیثم، ابو الجود، ابو بکر الکرخی، استاذ المختص ابوالحسن علی بن احمد انسوی، عمر خیام، ابو الفتح محمود اصفہانی، محقق نصیر الدین طوسی، شمس الدین سمرقندی۔

ہیئت

محمد بن ابراہیم الفزاری، یعقوب بن طارق، محمد بن موسيٰ الخوارزمی، یحیيٰ بن ابی منصور، خالد بن عبدالملک المروزی، عباس بن سعید الجوہری، سند بن علی، الکندی، حبش الحاسب، ابومعشر البلخی، ابوحنیفہ الدینوری، جابر بن سنان البتانی، ابوالعباس فضل بن حاتم النیریزی، سلیمان بن عصمہ، عبد العزیز الہاشمی، ابوجعفر الخازن، ابن الاعلم، کوشیار بن لبان، احمد بن عبدالجلیل السجزی، عبدالرحمن الصوفی، ابوسہل ویجن بن رستم الکوہی، ابو الوفاء البوزجانی، ابو حامد الصنعانی، ابو محمود الخجندی، ابو الحسن علی بن احمد انسوی، ابو نصر بن عراق، ابو ریحان البیرونی، محمد بن احمد المعموری، عمر الخیام، ابو الفتح عبد الرحمن الخازن، ابن یونس (صاب الزیج الحاکمی)، ابن الصفار، ابن السمح، الزرقیال، بہاء الدین ابو محمد الخرقی، محقق طوسی، قطب الدین شیرازی، محی الدین مغربی، محمود بن عمر الجغمینی، الغ بیگ، غیاث الدین کاشی، قاضی زادہ رومی، مولانا علاء الدین قوشجی، میرم چلپی، ملا فرید منجم، امام الدین ریاضی، مرزا خیر اﷲ مہندس۔

جغرافیہ

ابن خردازبہ، ابن واضح الیعقوبی، ابوالحسن المسعودی، ابن رستہ، الجیہانی، ابن الفقیہ، ابن حوقل، المقدسی ابن حائک الہمدانی، الادریسی، ابو الفداء، البکری، یاقوت حمد اﷲ مستوفی۔

تاریخ

ابن اسحاق، ابن ہشام، الواقدی، ابن سعد، المدائنی، الکلبی، البلاذری، ابو الحسن المسعودی، ابن قیتبہ، ابن جریر الطبری، ابو ریحان البیرونی، ابن مسکویہ، ابن الاثیر، ابن کثیر، ابو الفداء، ابن خلدون، عطا ملک جوینی، حمد اﷲ مستوفی، رشید الدین فضل اﷲ، ابن الندیم، قاضی صاعد اندلسی، شہرستانی، ابن الففطی، ابن ابی اُصیبعہ، ابو الحسن البيھقی، منھاج سراج جوزجانی، ضیاء الدین برقی، ابو الفضل، عبدالقادر بدایونی، فرشتہ وغیرہم۔

الغرض یہ مسلمان سائنس دانوں کا اجمالی تذکرہ ہے جنہوں نے مختلف میدانوں میں علم و حکمت کے نئے آفاق متعارف کروائے :

Some of the giants of mediaeval times belonged to the Arabic culture, mathematicians and astronomers like AL-KHWARIZMI, ALFARGHANI, AL-BATTANI, ABU-L-WAFA, UMAR KHAYYAM, AL-BERUNI; philosophers like AL-FARABI, AL-GHAZZALI, IBN RUSHD, IBN KHALDUN, physicians like AL-RAZI, ISHAQ AL-ISRAILI,' ALI IBN 'ABBAS, ABU-AL-QASIM, IBN SINA, MAIMONIDES. This enumeration could be greatly extended. Few of these men were Arabs and not all of them were Muslims, but they all belonged essentially to the same cultural group, and their language was Arabic. This illustrates the absurdity of trying to appraise mediaeval thought on the basis of Latin writings alone. For centuries the Latin scientific books hardly counted; they were out-of-date and outlandish. Arabic was the international language of science to a degree which had never been equalled by another language before (except Greek) and has never been repeated since. It was the language not of one people, one nation, one faith, but of many peoples, many nations, many faiths.(1)

(1) George Sarton, A Guide to the History of Science : A First Guide for the Study of the History of Science, with Introductory Essays on Science and Tradition, Chronica Botanica, 1952, p. 28.

‘‘قرون وسطيٰ کے کچھ بڑے علمی نام عالم عرب سے تعلق رکھتے ہیں۔ ریاضی دان اور ماہرین فلکیات مثلاً الخوارزمی، الفرغانی، البتانی، ابو الوفا، عمر خیام، البیرونی، فلاسفر مثلاً الفارابی، الغزالی، ابن الرشد، ابن خلدون، طبیب مثلاً الرازی، الاسرائیلی، علی ابن عباس، ابو القاسم، ابن سینا، مامون۔ اس تعداد میں غیر معمولی اضافہ کیا جا سکتا ہے۔ ان میں سے اکثر لوگ عرب تھے لیکن سارے لوگ مسلمان نہیں تھے، لیکن ان سب کا تعلق ایک ہی ثقافتی گروہ سے تھا اور ان کی زبان عربی تھی۔ اس سے قرونِ وسطيٰ کی فکر کی صرف لاطینی تحریروں کی بنیاد پر وضاحت کرنے کی سطحیت اور مضحکہ خیزی واضح ہو جاتی ہے۔ صدیوں تک تو لاطینی سائنسی کتب بمشکل ہی کسی شمار میں تھیں وہ فرسودہ اور نامانوس تھیں۔ عربی سائنس کی بین الاقوامی زبان تھی، اس سے پہلے سوائے یونانی کے کوئی زبان اتنا مقام حاصل نہ کر سکی تھی اور نہ ہی اس کے بعد۔ یہ صرف کچھ لوگوں، ایک قوم، یا ایک عقیدے کی زبان نہ تھی بلکہ کئی لوگوں، کئی قوموں اور کئی عقیدوں کی زبان تھی۔’’

لیکن یہ حضرات محض عالم ہی نہیں تھے بلکہ جید مفکر بھی تھے، جن کی دقت نظر اور جدت فکر نے علم و حکمت کے ذخیرے میں بیش بہا اضافے کیے :

The best Arabic scientists were not satisfied with the Greek and Hindu science which they inherited. They admired and respected the treasures which had fallen into their hands, but they were just as "modern" and greedy as we are, and wanted more. They criticized EUCLID, APOLLONIOS and ARCHIMEDES, discussed PTOLEMY, tried to improve the astronomical tables and to get rid of the causes of error lurking in the accepted theories. They facilitated the evolution of algebra and trigonometry and prepared the way for the European algebraists of the sixteenth century. Occasionally they were able to define new concepts, to state new problems, to tie new knots in the network of earlier traditions.(1)

(1) George Sarton, A Guide to the History of Science : A First Guide for the Study of the History of Science, with Introductory Essays on Science and Tradition, Chronica Botanica, 1952, p. 28.

‘‘بہترین عرب سائنس دان اس یونانی اور ہندو سائنس سے مطمئن نہ تھے جو انہیں ورثے میں ملی تھی۔ انہوں نے ملنے والے اس علمی خزانے کی تعریف اور احترام کیا لیکن وہ اتنے ہی جدید اور علم کے لیے حریص تھے جتنے کہ آج ہم ہیں اور وہ مزید (علم) بھی چاہتے تھے انہوں نے اکلیدس، اپولونیس اور ارشمیدس پر تنقید کی، بطلیموس کو زیر بحث لائے، فلکیاتی جدولوں کو بہتر کرنے کی کوشش کی اور مقبول اور مروج نظریات میں جا بجا موجود غلطیوں کے اسباب کو دور کیا۔ انہوں نے الجبراء اور تکونیات کے ارتقاء کو ممکن بنایا اور سولہویں صدی کے یورپین ماہرین الجبراء کے لیے راستہ ہموار کیا۔ اکثر و بیشتر وہ اس قابل تھے کہ انہوں نے نئے تصورات پیش کیے، نئے مسائل سامنے لائے اور پہلے سے موجود روایات کی تسلسل میں نئی گرہیں لگائیں۔’’

ایک مغربی مصنف لکھتا ہے :

‘‘عربوں (مسلمانوں) نے سائنس میں واقعی بڑے کمالات حاصل کیے۔ انہوں نے صفر کا استعمال (یا ترقیم اعداد کا طریقہ) سکھایا، اگرچہ انہوں نے اسے ایجاد نہیں کیا تھا اور اس طرح وہ روزانہ زندگی کے علم الحساب کے بانی بن گئے۔ انہوں نے علم الجبر والمقابلہ کو ایک تحقیقی علم بنا دیا اور اسے بہت زیادہ ترقی دی۔ انہوں نے تحلیلی ہندسہ کی بنیاد ڈالی۔ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ وہ علم المثلثات المستویہ اور علم المثلثات الکرویہ کے بانی تھے جو صحیح بات تو یہ ہے کہ ان کے زمانے سے پہلے وجود ہی میں نہیں آئے تھے۔ علم الہئیت میں انہوں نے قیمتی مشاہدات کیے۔’’

Arnold, Legacy of Islam, p. 375.

طب کے اندر چھ صدیوں تک شیخ بو علی سینا کی ‘‘کتاب القانون’’ یورپی یونیورسٹیوں میں داخل نصاب رہی۔ اس سے پہلے علی بن العباس المجوسی کی ‘‘کامل الصناعہ’’ کا رواج تھا۔ ان کے علاوہ ابو بکر بن زکریا الرازی کی بہت سی طبی تصانیف وہاں مروج تھیں۔

(17) مبنی بر حقائق فکری روایت کا آغاز

علمی دنیا میں مسلمانوں نے حقائق کی تلاش اور دریافت پر علمی روایت کی بنیاد رکھی۔ یونانی منطق میں صرف قیاس (Syllogism) کو اہمیت دی جاتی تھی۔ استقراء (Induction) اور تمثیل (Analogy) کو درخور اعتناء نہیں سمجھا جاتا تھا۔ مگر منطق کے مسلمان نقادوں نے ‘‘استقراء’’ کی اہمیت پر بھی زور دیا اور فقہائے کرام نے ‘‘تمثیل’’ کے مباحث کا بڑی دقت نظر سے مطالعہ کیا۔ طب میں ‘‘دوران خون’’ کے نظریہ کا انکشاف ولیم ہاروے کا کارنامہ بتایا جاتا ہے مگر اس کا شرف ابن النفیس کو پہنچتا ہے۔ ہیئت میں گردش ارضی کے نظریے کا انتساب کوپر نیکس کی جانب کیا جاتا ہے مگر آج سے ایک ہزار سال پہلے اس نظریہ کا سرگرم علمبردار احمد بن عبد الجلیل السجزی تھا جس نے اپنا اصطرلاب ہی اس اصول پر بنایا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے۔ قمر کے اختلاف ثالث کی دریافت کا شرف ٹیکوبر ہے کو دیا جاتا ہے مگر اس کا مستحق ابو الوفاء البوزجانی ہے۔

اقلیدس کے خطوط متوازی کے مصادرہ (Parallel Postulate) کا وہ بدل جو پلے فیر کے علوم متعارفہ (Playfair's Axiom) کے نام سے موسوم ہے ایک انگریز ہندسہ دان پلے فیر کی دریافت بتایا جاتا ہے، جسے اس نے اپنے ‘‘اصولِ اقلیدس‘‘ کے ایڈیشن مرتّبہ 1795ء میں لکھا تھا۔ مگر سب سے پہلے ابن الہیثم نے اسے دریافت کیا تھا۔ اس نے پلے فیر سے آٹھ سو سال قبل اس حقیقت کو پا لیا تھا اور پلے فیر سے کوئی ساڑھے پانچ سو سال قبل محقق طوسی نے اپنے ‘‘الرسالۃ الشافیۃ‘‘ میں اس کو بالتصریح ابن الہیثم کی طرف منسوب کیا تھا۔ پلے فیرکا علوم متعارفہ حسبِ ذیل ہے:

Two intersecting straight lines cannot be parallel to one and the same.

اور بعینہ یہی الفاظ ابن الہیثم کے ہیں:

الخطان المستقيمان المتقاطعان لا يوازيان خطاً واحداً مستقيما.

‘‘ایک دوسرے کو کاٹنے والے دو خط مستقیم ایک ہی خط مستقیم کے متوازی نہیں ہو سکتے۔’’

مثلث کے رقبہ کا ضابطہ جو تمام ارضی مساحت (Geodetic Survey) کی بنیاد ہے یعنی:

Area of ABC=S(S-a)(S-b)(S-c)

Where S= a+b+c/2

اس ضابطہ کے دریافت کنندہ کا نام معلوم نہیں لیکن مغرب کے تفوق کے نتیجے میں اسے ایرن اسکندرانی کی دریافت بتا دیا جاتا ہے۔ حالاں کہ یہ عہدِ اسلام کے مسلمان مہندسوں کے ایک مشہور خاندان کی دریافت ہے جو تاریخ میں بنو موسيٰ کے نام سے مشہور ہے۔ بنو موسيٰ نے ہندسی مسائل پر ایک رسالہ بعنوان ‘‘رسالہ فی ساحۃ الکرہ‘‘ لکھا تھا۔ اس کے اندر جن مسائل کے باب میں انہوں نے متقدمین میں سے کسی کی خوشہ چینی کی تھی۔ بڑی فراخ دلی کے ساتھ اس کی صراحت کر دی ہے اور جن کے باب میں وہ کسی کے رہین منت نہیں ہیں۔ ان کی بھی تصریح کر دی ہے۔ مثلث کے رقبہ کا ضابطہ بھی ان کی تصریح کے مطابق انہیں کی دریافت ہے۔

علم المثلثات الکرویہ کا مشہور ضابطہ

Sine A/a=Sine B/b= Sine C/c

اس نے بطلیموس کی ‘‘شکل القطاع‘‘ کے پیچیدہ اعمال سے مہندسین کو بے نیاز کر دیا تھا۔ نیپیر کی جانب منسوب کر کے Napier's Analogy کے نام سے موسوم کر دیا جاتا ہے۔ مگر یہ مسلمان مہندس ابوالوفاء البوزجانی یا ابونصر بن عراق (استاد ابو ریحان البیرونی) کی دریافت ہے۔

(18) تصورِ کائنات کی اصلاح

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے قبل انسانیت کا تصورِ کائنات توہمات اور مغالطوں پر مشتمل تھا۔ فطرت و مظہر انسان کا معبود تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس تصور کو کلیتاً بدل دیا اور اہل ایمان کو کائنات کی پرستش کرنے کی بجائے اس کی تسخیر کرنے کی تعلیم دی۔

آپ سے قبل مشرک اقوام کا یہ حال تھا کہ وہ مظاہر کائنات کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے جاتے تھے اور جو کچھ اتفاق سے مل جاتا تھا اسے مزعومہ دیوتاؤں کی دین سمجھتے تھے اور جو کچھ نہ ملتا تھا اسے ان کے قہر و غضب کا نتیجہ گردانتے تھے۔ چنانچہ جب سکندر بحری سفر پر روانہ ہوا تو سمندر کے دیوتاؤں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے ایک سانڈ کی قربانی دی۔ لیکن اس کے برعکس اسلام اپنے پیروؤں کی بار بار ہمت افزائی کرتا ہے کہ وہ عالم طبیعی کو مسخر کر کے اس پر حکمرانی کریں۔ چنانچہ ارشاد ربانی ہے:

اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اﷲَ سَخَّرَ لَـکُمْ مَّا فِی السَّمٰـوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ وَاَسْبَغَ عَلَيْکُمْ نِعَمَهُ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً.

لقمان، 31: 20

‘‘(لوگو!) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اﷲ نے تمہارے لئے ان تمام چیزوں کو مسخّر فرما دیا ہے جو آسمانوں میں ہیں اور جو زمین میں ہیں، اور اس نے اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر پوری کر دی ہیں۔’’

دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے:

اَﷲُ الَّذِيْ سَخَّرَلَکُمُ الْبَحْرَ لِتَجْرِيَ الْفُلْکُ فِيْهِ بِاَمْرِهِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِهِ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo

الجاثية، 45: 12

‘‘اللہ ہی ہے جِس نے سمندر کو تمہارے قابو میں کر دیا تاکہ اس کے حکم سے اُس میں جہاز اور کشتیاں چلیں اور تاکہ تم (بحری راستوں سے بھی) اُس کا فضل (یعنی رزق) تلاش کر سکو، اور اس لئے کہ تم شکر گزار ہو جاؤo’’

پھر فرمایا:

وَسَخَّرَلَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ جَمِيْعًا مِّنْهُ اِنَّ فِيْ ذٰلِکَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّتَفَکَّرُوْنَo

الجاثية، 45: 13

‘‘اور اُس نے تمہارے لئے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے، سب کو اپنی طرف سے (نظام کے تحت) مسخر کر دیا ہے، بیشک اس میں اُن لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو غور و فکر کرتے ہیںo’’

(19) سائنسی علوم کا فروغ

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے اﷲ تعالی نے انسانیت کو وہ ضابطہ حیات عطا فرمایا جو بنی نوع انسان کو فلاح دارین کا راستہ عطا کرتا ہے۔ لہٰذا جہاں وہ اُخروی زندگی میں فلاح و نجاح کی تدبیریں سکھاتا ہے وہیں انہیں اپنی دنیوی زندگی کو بنانے، سنوارنے کی بھی تعلیم دیتا ہے کیونکہ اسلامی تصور زندگی میں ان دونوں زندگیوں میں کوئی منافاۃ یا تضاد نہیں بلکہ ‘‘دنیا آخرت کی کھیتی ہے‘‘(1) اور دنیوی زندگی کی اصلاح و ترقی ‘‘تمتع بالکائنات‘‘ کا دوسرا نام ہے جس کی قرآن بار بار ہدایت کرتا ہے۔ ارشادِ خداوندی ہے:

(1) عسقلانی، فتح الباری، 11: 230

هُوَ الَّذِيْ خَلَقَ لَکُمْ مَّا فِی الْاَرْضِ جَمِيْعً.

البقرة، 2: 29

‘‘وہی ہے جس نے سب کچھ جو زمین میں ہے تمہارے لئے پیدا کیا۔’’

اسی تسخیر کائنات کے حکم خداوندی کی بجاآوری کا جذبہ اسلامی فکر میں مختلف علوم و فنون کے پیدا ہونے کا سب سے قوی عامل ہے۔ یہی نہیں بلکہ قرآن تفصیل کے ساتھ فطرت کے مختلف مظاہر کے مطالعہ کی تاکید کرتا ہے۔ تمام علوم طبیعی کا سنگ بنیاد مطالعہ فطرت ہے اور قرآن حکیم بار بار اس پر زور دیتا ہے۔ وہ ایجابی طور پر اپنے متبعین کو مامور کرتا ہے کہ وہ مظاہر کائنات کا مشاہدہ کریں، کیوں کہ ان میں سوچنے اور سمجھنے والوں کی رہنمائی کے لیے نشانیاں ظاہر و باہر ہیں۔

قُلِ انْظُرُوْا مَاذَا فِی السَّٰمٰوَاتِ وَالْاَرْضِ وَمَا تُغْنِی الْاٰيٰتُ وَالنُّذُرُ عَنْ قَوْمٍ لَّا يُؤْمِنُوْنَo

يونس، 10: 101

‘‘فرما دیجئے: تم لوگ دیکھو تو (سہی) آسمانوں اور زمین (کی اس وسیع کائنات) میں قدرتِ الٰہیہ کی کیا کیا نشانیاں ہیں، اور (یہ) نشانیاں اور (عذابِ الٰہی سے) ڈرانے والے (پیغمبر) ایسے لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچا سکتے جو ایمان لانا ہی نہیں چاہتےo’’

یہی نہیں بلکہ وہ اس فریضے سے پہلو تہی کرنے والوں کو زجر و توبیخ کرتا ہے:

 أَوَلَمْ يَنظُرُواْ فِي مَلَكُوتِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا خَلَقَ اللّهُ مِن شَيْءٍ وَأَنْ عَسَى أَن يَكُونَ قَدِ اقْتَرَبَ أَجَلُهُمْ فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ.

الأعراف، 7: 185

‘‘کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی بادشاہت میں اور (علاوہ ان کے) جو کوئی چیز بھی اللہ نے پیدا فرمائی ہے (اس میں) نگاہ نہیں ڈالی (اور غور نہیں کیا) اور اس میں کہ کیا عجب ہے ان کی مدت (موت ) قریب آچکی ہو، پھر اس کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گےo’’

اسلام کے نظریہ حیات میں تکمیل ایمان ‘‘ایمان بالآخرۃ’’ پر موقوف ہے اور اس کے حاصل کرنے کے لیے تخلیقِ کائنات کا مطالعہ اور اس مطالعے کے لیے سیر و سیاحت ضروری ہے۔ قرآن کہتا ہے:

 قُلْ سِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَانظُرُوا كَيْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّهُ يُنشِئُ النَّشْأَةَ الْآخِرَةَ إِنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.

العنکبوت، 29: 20

‘‘فرما دیجئے: تم زمین میں (کائناتی زندگی کے مطالعہ کے لئے) چلو پھرو، پھر دیکھو (یعنی غور و تحقیق کرو) کہ اس نے مخلوق کی (زندگی کی) ابتداء کیسے فرمائی پھر وہ دوسری زندگی کو کس طرح اٹھا کر (ارتقاء کے مراحل سے گزارتا ہوا) نشوونما دیتا ہے۔ بیشک اللہ ہر شے پر بڑی قدرت رکھنے والا ہے۔’’

اور اس فریضے کی بجاآوری میں کوتاہی کرنے والوں سے وہ باز پرس کرتا ہے:

اَوَ لَمْ يَرَوْا کَيْفَ يُبْدِئُ اﷲُ الْخَلْقَ ثُمَّ يُعِيْدُهُ ِانَّ ذٰلِکَ عَلَی اﷲِ يَسِيْرٌo

العنکبوت، 29: 19

‘‘کیا انہوں نے نہیں دیکھا (یعنی غور نہیں کیا) کہ اللہ کس طرح تخلیق کی ابتداء فرماتا ہے پھر (اسی طرح) اس کا اعادہ فرماتا ہے۔ بیشک یہ (کام) اللہ پر آسان ہےo’’

قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ فلکیات کا مطالعہ ملت اسلامیہ کا مقدس ترین ورثہ ہے، اسی نے ‘‘سب سے پہلے مسلمان یعنی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی چشم جہاں بیں کو نور توحید سے روشن کیا، بقول اقبال رحمۃ اللہ علیہ:

وہ سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب
جس سے روشن تر ہوئی چشم جہان بین خلیل

ارشادِ ربانی ہے:

 فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَى كَوْكَبًا قَالَ هَـذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لاَ أُحِبُّ الْآفِلِينَo فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَـذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَo فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـذَا رَبِّي هَـذَآ أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَo اِنِّيْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَا اَنَا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَo

الأنعام، 6: 76.79

‘‘پھر جب ان پر رات نے اندھیرا کر دیا تو انہوں نے (ایک) ستارہ دیکھا (تو) کہا (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھر جب وہ ڈوب گیا تو(اپنی قوم کو سنا کر) کہنے لگے: میں ڈوب جانے والوں کو پسند نہیں کرتاo پھر جب چاند کو چمکتے دیکھا (تو) کہا: (کیا تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے؟ پھرجب وہ (بھی) غائب ہوگیا تو (اپنی قوم کو سنا کر ) کہنے لگے: اگر میرا رب مجھے ہدایت نہ فرماتا تو میں بھی ضرور (تمہاری طرح) گمراہوں کی قوم میں سے ہو جاتاo پھر جب سورج کو چمکتے دیکھا (تو) کہا: (کیا اب تمہارے خیال میں) یہ میرا رب ہے (کیونکہ) یہ سب سے بڑا ہے؟ پھر جب وہ (بھی) چھپ گیا تو بول اٹھے اے لوگو! میں ان (سب چیزوں) سے بیزار ہوں جنہیں تم (اﷲ کا) شریک گردانتے ہوo بیشک میں نے اپنا رُخ (ہر سمت سے ہٹا کر) یکسوئی سے اس (ذات) کی طرف پھیر لیا ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو بے مثال پیدا فرمایا ہے اور (جان لو کہ) میں مشرکوں میں سے نہیں ہوںo’’

اس لیے قرآن خصوصیت سے اجرام فلکی کے مشاہدے کی ترغیب دیتا ہے کیونکہ یہ مطالعہ انسان ہی کے فائدے کے لیے ہے:

 هُوَ الَّذِي جَعَلَ الشَّمْسَ ضِيَاءً وَالْقَمَرَ نُورًا وَقَدَّرَهُ مَنَازِلَ لِتَعْلَمُواْ عَدَدَ السِّنِينَ وَالْحِسَابَ مَا خَلَقَ اللّهُ ذَلِكَ إِلاَّ بِالْحَقِّ يُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ.

يونس، 10: 5

‘‘وہی ہے جس نے سورج کو روشنی (کا منبع) بنایا اور چاند کو (اس سے) روشن (کیا) اور اس کے لئے (کم و بیش دکھائی دینے کی) منزلیں مقرر کیں تاکہ تم برسوں کا شمار اور (اوقات کا) حساب معلوم کر سکو، اور اللہ نے یہ (سب کچھ) نہیں پیدا فرمایا مگر درست تدبیر کے ساتھ، وہ (ان کائناتی حقیقتوں کے ذریعے اپنی خالقیت، وحدانیت اور قدرت کی) نشانیاں ان لوگوں کے لئے تفصیل سے واضح فرماتا ہے جو علم رکھتے ہیںo’’

چنانچہ جب آیہ کریمہ اِنَّ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلَافِ الَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَاٰيٰتٍ لِّاُولِی الْاَلْبَابِo’’ بیشک آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور شب و روز کی گردش میں عقلِ سلیم والوں کے لئے (اللہ کی قدرت کی) نشانیاں ہیںo’’- کا نزول ہوا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:

ويل لمن لاکها بين لحيتيه ولم يتفکر فيه.

آل عمران، 3: 190

ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1: 441

‘‘تباہی ہے اس کے لیے جو اس آیت کریمہ کی منہ سے تلاوت کرتا ہے مگر اس کے معانی و مفہوم پر غور نہیں کرتا۔’’

اور یہ رجحان علمائے دین میں آخر تک قائم رہا، چنانچہ امام غزالی کا ارشاد ہے:

من لم يعرف الهيئة والتشريح فهو عنين فی معرفة اﷲ تعالٰی.

امام الدين الرياضی، التصريح فی شرح التشريح: 20

‘‘جو شخص علم الہیئت اور علم التشریح نہیں جانتا وہ معرفتِ باری تعاليٰ میں ناقص ہے۔’’

امام غزالی کے معاصر مقدم حکیم ابوالحسن الزبیری تھے جو مشہور فلسفی عمر خیام کے استاد تھے۔ ایک دن وہ عمر خیام کو ہیئت کی مشہور کتاب ‘‘المجسطی’’ پڑھا رہے تھے۔ ایک فقیہ وہاں سے گزرے اور استاد سے پوچھا: کیا پڑھا رہے ہو؟ حکیم ابوالحسن نے جواب دیا: آیہ کریمہ اَفَلَمْ يَنْظُرُوا الَی السَّمَاء فَوْقَهُم کَيْفَ بَنَينَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ کی تفسیر بیان کر رہا ہوں۔

ق، 50: 6

اسی طرح قرآن دیگر طبیعاتی علوم کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔ وہ کہتا ہے:

 إِنَّ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّلْمُؤْمِنِينَo وَفِي خَلْقِكُمْ وَمَا يَبُثُّ مِن دَابَّةٍ آيَاتٌ لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَo وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَمَا أَنزَلَ اللَّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن رِّزْقٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ آيَاتٌ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ.

الجاثية، 45: 3.5

‘‘بیشک آسمانوں اور زمین میں یقینا مومنوں کے لئے نشانیاں ہیںo اور تمہاری (اپنی) پیدائش میں اور اُن جانوروں میں جنہیں وہ پھیلاتا ہے، یقین رکھنے والے لوگوں کے لئے نشانیاں ہیںo اور رات دن کے آگے پیچھے آنے جانے میں اور (بصورتِ بارش) اُس رِزق میں جسے اللہ آسمان سے اتارتا ہے، پھر اس سے زمین کو اُس کی مُردنی کے بعد زندہ کر دیتا ہے اور (اسی طرح) ہواؤں کے رُخ پھیرنے میں، اُن لوگوں کے لئے نشانیاں ہیں جو عقل و شعور رکھتے ہیںo’’

قرآن کہتا ہے کہ مظاہر کائنات میں معرفت باری تعاليٰ کی نشانیوں کے علاوہ غور و فکر کرنے والوں کے لیے اور بھی کچھ ہے کیونکہ کائنات و مافیہا ان کی میراث ہے، اس لیے انہیں اس کی تسخیر کا طریقہ جاننا چاہیے:

وَالْاَرْضَ بَعْدَ ذٰلِکَ دَحٰهَاo اَخْرَجَ مِنْهَا مَآئَهَا وَمَرْعٰهَاo وَالْجِبَالَ اَرْسٰهَاo مَتَاعًا لَّکُمْ وَلِاَنْعَامِکُمْo

النازعات، 79: 30.33

‘‘اور اُسی نے زمین کو اِس (ستارے۔ سورج کے وجود میں آ جانے) کے بعد (اِس سے) الگ کر کے زور سے پھینک دیا (اور اِسے قابلِ رہائش بنانے کے لئے بچھا دیا)o اسی نے زمین میں سے اس کا پانی (الگ) نکال لیا اور (بقیہ خشک قطعات میں) اس کی نباتات نکالیںo اور اسی نے (بعض مادوں کو باہم ملا کر) زمین سے محکم پہاڑوں کو ابھار دیاo (یہ سب کچھ) تمہارے اور تمہارے چوپایوں کے فائدہ کے لئے (کیا)o’’

لہٰذا انسان کو ‘‘تمتع بالکائنات‘‘ کے ساتھ اس عملِ الٰہی پر بھی نظر رکھنی چاہیے جو کائنات میں جاری و ساری ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:

فَلْيَنْظُرِ الإِنْسَانُ اِلٰی طَعَامِهِo

عبس، 80: 24

‘‘پس انسان کو چاہیے کہ اپنی غذا کی طرف دیکھے (اور غور کرے)o’’

وہ مظاہر کائنات کے ساتھ حیاتِ حیوانی کے مطالعے پر بھی زور دیتا ہے، کیونکہ یہی اسلام کے مقصد بعثت کی تکمیل کا صحیح راستہ ہے اور اسی کی مدد سے ایمان تک رسائی ہوتی ہے۔

اَفَـلَا يَنْظُرُوْنَ اِلَی الْاِبِلِ کَيْفَ خُلِقَتْo

الغاشيه، 88: 17

‘‘(منکرین تعجب کرتے ہیں کہ جنت میں یہ سب کچھ کیسے بن جائے گا تو) کیا یہ لوگ اونٹ کی طرف نہیں دیکھتے کہ وہ کس طرح (عجیب ساخت پر) بنایا گیا ہے؟’’

اسی طرح وہ تاریخ طبیعی (Natural History) اور حیوانیات (Zoology) کے مطالعے پر آمادہ کرتا ہے:

وَاﷲُ خَلَقَ کُلَّ دَآبَّةٍ مِّنْ مَّآئٍج فَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰی بَطْنِهِج وَمِنْهُمْ مَّنْ يَّمْشِيْ عَلٰی رِجْلَيْنِج وَمِنْهُمْ مَّن يَّمْشِيْ عَلٰی اَرْبَعٍ يَخْلُقُ اﷲُ مَا يَشَآءُ اِنَّ اﷲَ عَلٰی کُلِّ شَيْئٍ قَدِيْرٌo

النور، 24: 45

‘‘اور اللہ نے ہر چلنے پھرنے والے (جاندار) کی پیدائش (کی کیمیائی ابتداء) پانی سے فرمائی، پھر ان میں سے بعض وہ ہوئے جو اپنے پیٹ کے بل چلتے ہیں اور ان میں سے بعض وہ ہوئے جو دو پاؤں پر چلتے ہیں، اور ان میں سے بعض وہ ہوئے جو چار (پیروں) پر چلتے ہیں، اللہ جو چاہتا ہے پیدا فرماتا رہتا ہے، بیشک اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہےo’’

ایک اور مقام پر وہ حیوانات کے عضویاتی (Physiological) مطالعے کی ہمت افزائی کرتا ہے:

وَاِنَّ لَکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَةً نُسْقِيْکُمْ مِمَّا فِی بُطُوْنِهِ مِنْم بَيْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّـبَـنًا خَالِصًا سَآئِـغًا لِّلشَّارِبِيْنَo

النحل، 16: 66

‘‘اور بیشک تمہارے لئے مویشیوں میں (بھی) مقامِ غور ہے، ہم ان کے جسموں کے اندر کی اس چیز سے جو آنتوں کے (بعض) مشمولات اور خون کے اختلاط سے (وجود میں آتی ہے) خالص دودھ نکال کر تمہیں پلاتے ہیں (جو) پینے والوں کے لئے فرحت بخش ہوتا ہےo’’

دوسری جگہ وہ اڑنے والی مخلوق کے تحقیقی مطالعہ کی ترغیب دیتا ہے:

اَوَلَم يَرَوا اِلَی الطَّيْرِ فَوْقَهُمْ صَافَّاتٍ وَيَقْبِضْنَ مَا يُمْسِکُهُنَّ اِلَّا الرَّحمٰنُ اِنَّهُ بِکُلِّ شَيْئٍ بَصِيْرٌo

الملک، 67: 19

‘‘کیا اُنہوں نے پرندوں کو اپنے اُوپر پر پھیلائے ہوئے اور (کبھی) پر سمیٹے ہوئے نہیں دیکھا؟ اُنہیں (فضا میں گرنے سے) کوئی نہیں روک سکتا سوائے رحمان کے (بنائے ہوئے قانون کے)، بے شک وہ ہر چیز کو خوب دیکھنے والا ہےo’’

طبیعی علوم کے ساتھ قرآن عقلی علوم کی تحصیل کا بھی حکم دیتا ہے اور علم کلام اور مناظرہ و مباحثہ کی رغبت دلاتا ہے:

وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ.

النحل، 16: 125

‘‘اور اُن سے بحث (بھی) ایسے انداز سے کیجئے جو نہایت حسین ہو۔’’

فلسفے کے لیے وہ ‘‘حکمت’’ کو زندگی کی قدر اعليٰ (خیر کثیر) کا مصداق بتاتا ہے:

وَمَنْ يُؤْتَ الْحِکْمَةَ فَقَدْ اُوْتِيَ خَيْرًا کَثِيْرًا وَمَا يَذَّکَّرُ اِلَّا اُولُوا الْاَلْبَابِo

البقره، 2: 269

‘‘اور جسے (حکمت و) دانائی عطا کی گئی اسے بہت بڑی بھلائی نصیب ہو گئی، اور صرف وہی لوگ نصیحت حاصل کرتے ہیں جو صاحبِ عقل و دانش ہیںo’’

جہاں تک منطق کا تعلق ہے، خود قرآن کریم کا پیرایہ بیان اذعانی کے بجائے برہانی ہے اور علم البرہان کے ان قواعد و قوانین کی مراعاۃ پر مشتمل ہے جو فطرت انسانی کے مطالعے سے آج تک دریافت ہوئے ہیں یا آئندہ دریافت ہوں گے جیسا کہ وہ خود کہتا ہے:

لَقَدْ اَرسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَهُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِيْزَانَ لِيَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِج وَاَنْزَلْنَا الْحَدِيْدَ فِيْهِ بَاْسٌ شَدِيْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِيَعْلَمَ اﷲُ مَنْ يَّنْصُرُهُ وَرُسُلَهُ بِالْغَيْبِ اِنَّ اﷲَ قَوِیٌّ عَزِيْزٌo

الحديد، 57: 25

‘‘بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح نشانیوں کے ساتھ بھیجا اور ہم نے اُن کے ساتھ کتاب اور میزانِ عدل نازل فرمائی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہو سکیں، اور ہم نے (معدنیات میں سے) لوہا مہیّا کیا اس میں (آلاتِ حرب و دفاع کے لئے) سخت قوّت اور لوگوں کے لئے (صنعت سازی کے کئی دیگر) فوائد ہیں اور (یہ اس لئے کیا) تاکہ اللہ ظاہر کر دے کہ کون اُس کی اور اُس کے رسولوں کی (یعنی دینِ اسلام کی) بِن دیکھے مدد کرتا ہے، بیشک اللہ (خود ہی) بڑی قوت والا بڑے غلبہ والا ہےo’’

علمائے ربانی نے اس ‘‘میزانِ قرآنی’’ سے استنباط کر کے علم و معرفت کی میزانیں مقرر کی ہیں۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ آیہ کریمہ وزنوا بالقسطاس المستقيم جس میں قسطاس مستقیم کا ذکر کیا گیا ہے، کی تشریح میں لکھتے ہیں:

بنی اسرائيلء 17: 35

‘‘وہ موازین پنج گانہ ہیں جنہیں اللہ تعاليٰ نے اپنی کتاب میں نازل فرمایا ہے اور اپنے رسولوں کو ان سے ‘‘وزن کرنا’’ سکھایا۔ پس جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سیکھا اور اللہ تعاليٰ کی میزان سے وزن کیا تو اس نے ہدایت پائی اور جو اس سے گمراہ ہو کر رائے اور قیاس میں بھٹک گیا، وہ گمراہ ہو گیا۔’’

غزالی، قسطاس المستقيم مشموله الجواهر الغوالی من رسائل امام الغزالی: 157

قرآن اپنے متبعین سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اپنے اعمال و افکار میں ان قرآنی میزانوں سے کام لیں۔ اس راست اندیشی اور ‘‘استقامت فی الفکر’’ سے بھٹکنے کو وہ ممنوع قرار دیتا ہے::

اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِيْزَانِo

الرحمٰن، 55: 7

‘‘اور اسی نے آسمان کو بلند کر رکھا ہے اور (اسی نے عدل کے لئے) ترازو قائم کر رکھی ہےo’’

اس تعلیم کا نتیجہ تھا کہ بحث و نظر اور افہام و تفہیم کو اسلامی معاشرے میں شروع ہی سے مقبولیت حاصل رہی ہے۔ اس کا فطری نتیجہ تھا کہ اکابر علمائے اسلام شروع سے منطق سے واقفیت پر زور دیتے رہے۔ چنانچہ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ‘‘مقاصد الفلاسفۃ’’ میں فرماتے ہیں:

وأما المنطقيات فأکثرها علی نهج الصواب والخطاء نادر فيه.

غزالی، مقاصد الفلاسفة: 3

‘‘رہے منطقی مباحث تو ان میں سے اکثر صحیح و صائبہ ہوتے ہیں اور ان میں غلطی شاذ و نادر ہی ہوتی ہے۔’’

یہی نہیں بلکہ حصول سعادت اور تزکیہ روح کے لیے بھی وہ منطق کو ایجابی طور پر ضروری سمجھتے ہیں:

‘‘پس منطق کا فائدہ حصول علم ہے اور علم کا فائدہ ابدی سعادت کا حصول ہے پس جبکہ یہ بات صحیح ہے کہ سعادت کمال نفس طرف تزکیہ و تحلیہ ذات ہی کے ساتھ رجوع ہوتی ہے تو لا محالہ ماننا پڑے گا کہ منطق بڑے فائدے کی چیز ہے۔’’

غزالی، مقاصد الفلاسفة: 3

امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ سے پہلے ابن حزم اندلسی نے ارسطا طالیسی منطق کے متعلق لکھا تھا:

‘‘اور وہ کتابیں جنہیں ارسطو نے حود کلام میں جمع کیا ہے، وہ سب کی سب مکمل کتابیں ہیں جو اللہ عزوجل کی توحید اور قدرت پر دلالت کرتی ہیں اور تمام علموں کی جانچ پڑتال میں بہت زیادہ مفید ہیں۔’’

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عطا کردہ تعلیمات اور قرآن حکیم کا اثر تھا کہ اسکے زیر اثر اسلامی تہذیب علم و حکمت افزاء تہذیب کے طور پر نمو پذیر ہوئی۔ جس نے علم و حکمت اور سائنس و ٹکنالوجی کے ہر میدان میں نئے آفاق متعارف کروائے۔

(20) دین و دنیا کا حسین امتزاج

دورِ نبوی میں مدینہ میں پروان چڑھنے والی تہذیب کا یہ خاصہ ہے کہ وہ افراط و تفریط کا شکار نہیں ہوتی۔ دین اور دنیا کے معاملات کو کچھ اس طریقے سے سلجھایا گیا کہ نہ تو دینی مصروفیات دنیاوی ضروریات میں حائل ہوں اور نہ دنیاوی تقاضے ہی دین پر غالب آئیں بلکہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے رہیں کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے روحانی انہماک اور شب و روز کی عبادت گزاری کے ساتھ ساتھ دنیاوی مہمات کو بھی جاری رکھے ہوئے تھے۔ الغرض آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نشست و برخاست، اخلاق و کردار اور شب و روز دنیا کے سامنے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک بے مثل ہستی اور صاحبِ اُسوہ حسنہ بنا دیا جس پر چل کر انسان اپنی منزل مقصود کو بہت آسانی سے پا سکتا ہے۔

اسلام صرف ایک مذہب نہیں، ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو شاندار تہذیب اور ثقافتی اقدار کا حامل ہے۔ قرآن حکیم اور سیرت مبارکہ میں اس پہلو کو پوری جامعیت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے:

1. وَابْتَغِ فِيْمَآ اٰتٰکَ اﷲُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَکَ مِنَ الدُّنْيَا وَاَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اﷲُ اِلَيْکَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ اِنَّ اﷲَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَo

القصص، 28: 77

‘‘اور تو اس (دولت) میں سے جو اللہ نے تجھے دے رکھی ہے آخرت کا گھر طلب کر، اور دنیا سے (بھی) اپنا حصہ نہ بھول اور تو (لوگوں سے ویسا ہی) احسان کر جیسا احسان اللہ نے تجھ سے فرمایا ہے اور ملک میں (ظلم، ارتکاز اور استحصال کی صورت میں) فساد انگیزی (کی راہیں) تلاش نہ کر، بیشک اللہ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتاo’’

2. وَمَا الْحَيٰوة الدُّنْيَآ اِلاَّ لَعِبٌ وَّلَهْوٌ وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِيْنَ يَتَّقُوْنَ اَفَـلَا تَعْقِلُوْنَo

الأنعام، 6: 32

‘‘اور دنیوی زندگی (کی عیش و عشرت) کھیل اور تماشے کے سوا کچھ نہیں اور یقینا آخرت کا گھر ہی ان لوگوں کے لئے بہتر ہے جو تقويٰ اختیار کرتے ہیں، کیا تم (یہ حقیقت) نہیں سمجھتےo’’

3. يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نُودِيَ لِلصَّلَاةِ مِن يَوْمِ الْجُمُعَةِ فَاسْعَوْا إِلَى ذِكْرِ اللَّهِ وَذَرُوا الْبَيْعَ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَo فَإِذَا قُضِيَتِ الصَّلَاةُ فَانتَشِرُوا فِي الْأَرْضِ وَابْتَغُوا مِن فَضْلِ اللَّهِ وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَo وَإِذَا رَأَوْا تِجَارَةً أَوْ لَهْوًا انفَضُّوا إِلَيْهَا وَتَرَكُوكَ قَائِمًا قُلْ مَا عِندَ اللَّهِ خَيْرٌ مِّنَ اللَّهْوِ وَمِنَ التِّجَارَةِ وَاللَّهُ خَيْرُ الرَّازِقِينَo

الجمعة، 62: 9.11

‘‘اے ایمان والو! جب جمعہ کے دن (جمعہ کی) نماز کے لئے اذان دی جائے تو فوراً اللہ کے ذکر (یعنی خطبہ و نماز) کی طرف تیزی سے چل پڑو اور خرید و فروخت (یعنی کاروبار) چھوڑ دو۔ یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم علم رکھتے ہوo پھر جب نماز ادا ہو چکے تو زمین میں منتشر ہو جاؤ اور (پھر) اللہ کا فضل (یعنی رزق) تلاش کرنے لگو اور اللہ کو کثرت سے یاد کیا کرو تاکہ تم فلاح پاؤo اور جب انہوں نے کوئی تجارت یا کھیل تماشا دیکھا تو (اپنی حاجت مندی اور معاشی تنگی کے باعث) اس کی طرف بھاگ کھڑے ہوئے اور آپ کو (خطبہ میں) کھڑے چھوڑ گئے، فرما دیجئے: جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہ کھیل سے اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہےo’’

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

1. أکثر الصلاة في بيتک يکثر خير بيتک، وسلّم علی من لقيت من أمّتي تکثر حسناتک.

بيهقي، شعب الإيمان، 6: 427، رقم: 8760

‘‘اپنے گھر میں بھی نماز پڑھ اس سے تیرے گھر کی برکت میں اضافہ ہو گا اور میری امت میں سے جسے تو ملے اسے سلام کر اس سے تیری نیکیوں میں اضافہ ہو گا۔’’

2. أکرموا بيوتکم ببعض صلاتکم ولا تتخذوها قبورً.

عبد الرزاق، المصنف، 1: 393، رقم: 1534

‘‘اپنے گھروں کو نمازوں سے سجاؤ اور ان کو قبرستان نہ بناؤ۔’’

3. لا تجعلوا بيوتکم مقابر، إنّ الشّيطان ينفر من البيت الّذي تقرأ فيه سورة البقرة.

  1. مسلم، الصحيح، کتاب صلاة المسافرين، باب استحباب، 1: 539، رقم: 780

  2. ترمذي، السنن، کتاب فضائل القرآن، باب ما جاء فی فضل سورة البقرة وآية الکرسي، 5: 157، رقم: 2877

  3. نسائي، السنن الکبری، 5: 13، رقم: 8915

  4. بيهقي، شعب الإيمان، 2: 454، رقم: 2381

‘‘اپنے گھروں کو قبر ستان نہ بناؤ اور شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جائے۔’’

4. إذا قضی أحدکم الصلاة في مسجده فليجعل لبيته نصيبًا من صلاته، فإنّ اﷲ تعالی جاعل في بيته من صلاته خيرً.

  1. مسلم، الصحيح، کتاب صلاة المسافرين، باب استحباب صلاة النافلة، 1: 539، رقم: 778

  2. ابن حبان، الصحيح، 6: 237، رقم: 2490

  3. ابن خزيمه، الصحيح، 6: 237، رقم: 1206

  4. أحمد بن حنبل، المسند، 3: 59، رقم: 11584

‘‘جب تم میں سے کوئی شخص اپنی مسجد میں نماز پڑھ لے تو اپنی نمازوں کا کچھ حصہ اپنے گھر پڑھنے کے لیے بھی رکھ لے کیونکہ اللہ تعالی اس کی نمازوں کی وجہ سے اس کے گھر میں برکت فر ما دیتا ہے۔’’

5. أما صلاة الرجل في بيته فنور، فنّوروا بيوتکم.

  1. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة، باب ما جاء في التطوع في البيت، 1: 437، رقم: 1375

  2. منذری، الترغيب والترهيب، 1: 171، رقم: 637

  3. حسيني، البيان والتعريف، 1: 161، رقم: 428

‘‘گھر کی نماز ایک نور ہے تم گھروں کو روشن کیا کرو۔’’

6. ما من خارج يخرج إلّا بابه رأيتان: رأية بيد ملک، ورأية بيد شيطان، فإن خرج فيما يحب اﷲ تعالی تبعه الملک برأيته، فلم يزل تحت رأية الملک حتّی يرجع إلی بيته، وإن خرج فيما يسخط اﷲ تبعه الشيطان برأيته، فلم يزل تحت رأية الشيطان حتی يرجع إلی بيته.

طبراني، المعجم الأوسط، 5: 99، رقم: 4786

‘‘کوئی گھر سے باہر نکلنے والا ایسا نہیں ہے کہ جب وہ گھر سے باہر نکلتا ہے تو اس کے ساتھ دو جھنڈے ہوتے ہیں: ایک جھنڈا فرشتے کے ہاتھ میں اور دوسرا جھنڈا شیطان کے ہاتھ میں ۔ پس اگر وہ اﷲ تعاليٰ کی رضا کی خاطر گھر سے باہر نکلا تو فرشتے کے جھنڈے تلے رہے گا جب تک وہ گھر میں واپس نہیں لوٹ آتا اور اگر وہ ایسے کام کے لیے نکلا جس میں اﷲ تعاليٰ کی ناراضگی ہے تو شیطان جھنڈا لے کر اس کے پیچھے پیچھے چلے گا اور وہ اس وقت تک شیطان کے جھنڈے تلے رہے گا جب تک کہ وہ گھر واپس نہیں لوٹ آتا۔’’

7. لعن اﷲ من بدا بعد هجرة، ولعن اﷲ من بدا بعد هجرة إلّا في الفتنة، فإن البدو في الفتنة خير من المقام فيه.

  1. هيثمي، مجمع الزوائد، 5: 254

  2. طبراني، المعجم الکبير، 2: 256، رقم: 2074

‘‘اﷲ تعالی لعنت بھیجے اس شخص پر جو ہجرت کے بعد جنگل میں مقیم ہوا اوراﷲ تعالی لعنت بھیجے اس شخص پر جو ہجرت کے بعد جنگل میں مقیم ہوا سوائے فتنہ کے دنوں میں پس فتنہ کے دنوں میں بداوت کی زندگی فتنہ میں قائم رہنے سے بہتر ہے۔’’

8. العلماء أمناء الرسل علی عباد اﷲ ل ما لم يخالطوا السلطان ويداخلوا الدنيا فإذا خالطوا السلطان وداخلوا الدنيا فقد خانوا الرسل فاحذروهم واخشوهم.

  1. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 3: 75، رقم: 4210

  2. هندي، کنز العمال، 5: 216

‘‘علماء کرام اﷲ کے بندوں پر رسولوں کے امین (اور حفاظت دین کے ذمہ دار) ہیں۔ بشرطیکہ وہ اقتدار سے گھل مل نہ جائیں اور (دینی تقاضوں کو پس انداز کرتے ہوئے) دنیا میں نہ گھس پڑیں لیکن جب وہ حکمرانوں سے شیر و شکر ہو گئے اور دنیا میں گھس گئے تو انہوں نے رسولوں سے خیانت کی۔ پھر ان سے بچو اور ان سے ڈرو۔’’

اسلام میں دین و دنیا کی وحدت زندگی کا وہ تصور ہے جس کی اہمیت سے آج تک مغربی ذہن کماحقہ آشنا نہیں ہوا۔ دین کو دنیا کی کامیابی کے لئے رکاوٹ تصور کرنے والی مغربی فکر اس امر کو تسلیم کرنے میں آج بھی مشکل کا شکار ہے کہ دین کے ساتھ اسلام نے دنیا کی کامیابی کس طرح حاصل کی:

For Islam did succeed in becoming the universal church of a dissolving Syriac Society in spite of having been politically compromised at an earlier stage and in an apparently more decisive way than any of the religions that we have passed in review up to this point. Indeed, Islam was politically compromised within the lifetime of its founder by the action of no less a person than the founder himself. The public career of the Prophet Muhammed falls into two sharply distinct and seemingly contradictory chapters. In the first he is occupied in preaching a religious revelation by methods of pacific evangelization; in the second chapter he is occupied in building up a political and military power and in using this power in the very way which, in other cases, has turned out disastrous for a religion that takes to it. In this Medinese chapter Muhammed used his new-found material power for the purpose of enforcing conformity with at any rate the outward observances of the religion which he had founded in the previous chapter of his career, before his momentous withdrawal from Mecca to Medina. On this showing, the Hijrah ought to mark the date of the ruin of Islam and not the date since consecrated as that of its foundation. How are we to explain the hard fact that a religion which was launched on the world as the militant faith of a barbarian war-band should have succeeded in becoming a universal church, in spite of having started under a spiritual handicap that might have been expected, on all analogies, to prove prohibitive?(1)

(1) Arnold J. Toynbee, A Study of History, Abridgement of Volumes I-VI By D. C. Somervell, Oxford University Press, 1947, p. 488.

‘‘اسلام تباہ ہوتے ہوئے شامی معاشرے کا آفاقی مذہبی ادارہ بننے میں کامیاب ہو گیا۔ باوجود اس کے کہ اس نے اپنے ابتدائی مرحلے پر پہلے ذکر کردہ تمام مذاہب کی نسبت واضح طور پر سیاسی ساز باز کر لی تھی۔بلاشبہ اسلام نے اپنے بانی ہی کی زندگی میں سیاسی سازگاری کو اختیار کر لیا تھا۔پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عوامی زندگی واضح طور پر دو مختلف اور ظاہراً متضاد حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے میں وہ پرسکون طریقے سے مذہبی تعلیمات کی تبلیغ کر رہے تھے اور دوسرے حصے میں سیاسی اور عسکری طاقت کی تعمیر کر رہے تھے اور اس طاقت کو مؤثر طریقے سے استعمال کر رہے تھے جو عام طور پر، دوسری صورتوں میں مذہب کے لئے تباہ کن ثابت ہوئی تھی۔ مدنی زندگی کے دوران محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی نئی تشکیل کردہ مادی طاقت کو اپنی مذہبی تعلیمات سے عملی نفاذ کے لئے جن کا وہ پہلے مکہ سے مدینہ ہجرت کرنے سے قبل ابلاغ کر چکے تھے، استعمال کیا۔ اس منظرنامے کے مطابق تو ہجرت کو اسلام کے زوال کا نشان ہونا چاہیے تھا نہ کہ اس کے مقدس آغاز کا نشان۔ ہم اس مشکل ترین حقیقت کی کس طرح وضاحت کریں کہ ایک ایسا مذہب جو دنیا میں قبائلی جنگی گروہ کے ایک جنگجو عقیدے کے طور پر شروع ہوا کس طرح سے آفاقی مذہبی ادارہ بننے میں کامیاب ہوا باوجود یکہ یہ مذہب ایک ایسی روحانی دشواری اور رکاوٹ کے تحت شروع ہوا جس کے تحت اپنی تمام تر سابقہ مثالوں کے مطابق اس کی پیش رفت غیر متوقع تھی۔’’

(21) تہذیبی شناخت کا تحفظ

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف ایک تہذیب کی بنیاد ہی نہ رکھی جس کو اسکے بقاء دوام اور تسلسل کے لئے آپ نے تہذیبی شناخت کے تحفظ پر زور دیا ہے اور دنیا کی مختلف تہذیبوں کے مقابل اسلام کی الگ شناخت کو قائم رکھنے اور اس کی حفاظت کرنے کا حکم دیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

1. يا معشر الأنصار حمروا وصفروا وخالفوا أهل الکتاب، قال: فقلنا: يا رسول اﷲ، إنّ أهل الکتاب يتسرولون ولا يأتزرون، فقال رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم : تسرولوا واتزروا وخالفوا أهل الکتاب.

أحمد بن حنبل، المسند، 5: 264، رقم: 22337

‘‘اے گروہ انصار! سرخ اور زرد رنگ میں رنگے جاؤ مگر اہلِ کتاب کی مخالفت کرو۔ راوی بیان کرتے ہیں پس ہم نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! بے شک اہلِ کتاب شلوار پہنتے ہیں اور تہ بند نہیں باندھتے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: شلوار بھی پہنو اور تہہ بند بھی باندھو اور اہلِ کتاب کی مخالفت کرو۔’’

2. غيروا الشيب ولا تشبهوا باليهود والنصاری.

  1. ترمذی، السنن، کتاب اللباس، باب ما جاء فی الخضاب، 4: 232، رقم: 1752

  2. نسائی، السنن، کتاب الزينة، باب الإذن بالخضاب، 8: 137، رقم: 5073

  3. أحمد بن حنبل، المسند، 1: 165، رقم: 1415

  4. أبو يعلی، المسند، 10: 46، رقم: 5678

‘‘بڑھاپے کو بدلو اور یہودیوں کی مشابہت نہ رکھو۔’’

3. إذا کان لأحدکم ثوبان فليصل فيهما، فإن لم يکن إلّا ثوب، فليتزر به، ولا يشتمل اشتمال اليهود.

  1. أبو داود، السنن، کتاب الصلاة، باب إذا کان الثوب، 1: 172، رقم: 635

  2. ابن خريمة، الصحيح، 1: 376، رقم: 766

  3. ابن عبد البر، التمهيد، 6: 371

‘‘جب تمہارے پاس دو کپڑے ہوں تو ان کے ساتھ نماز پڑھا کرو اور جب ایک ہی ہو تو اسے تہبند کی طرح باندھ لو اور اسے یہودیوں کی طرح نہ لٹکاؤ۔’’

4. خالفوا اليهود، فإنّهم لا يصلون في نعالهم ولا خفافهم.

  1. أبو داود، السنن، کتاب الصلاة، باب الصلاة في النعل، 1: 176، رقم: 652

  2. حاکم، المستد رک، 1: 391، رقم: 956

  3. بيهقی، السنن الکبری، 2: 432، رقم: 4056

‘‘یہود کی مخالفت کرو کیونکہ وہ جوتوں اور موزوں کے ساتھ نماز نہیں پڑھتے۔’’

5. من فطرة الإسلام الغسل يوم الجمعة والاستنان والاستنشاق وأخذ الشارب، وإعفاء اللحی، فإن المجوس تعفي شواربها وتحفي لحاها فخالفوهم، خذوا شواربکم وأعفوا لحاکم.

  1. ابن حبان، الصحيح، 4: 23، رقم: 1221

  2. بخاری، التاريخ الکبير، 1: 139، رقم: 419

‘‘فطرت اسلام میں ہے جمعہ کا غسل، دانت صاف کرنا، ناک صاف کرنا، مونچھیں چھوٹی رکھنا اور داڑھی رکھنا، مجوسی مونچھیں رکھتے ہیں اور داڑھی کٹواتے ہیں پس تم ان کی مخالفت کرو مونچھیں کٹواؤ اور داڑھی رکھو۔’’

6. من جامع المشرک وسکن معه فإنّه مثله.

  1. أبو داود، السنن، باب فی الإقامة بأرض الشرک، 3: 93، رقم: 2787

  2. طبراني، المعجم الکبير، 7: 251، رقم: 7023

  3. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 3: 559، رقم: 5756

‘‘جو شخص مشرک سے صحبت رکھے اور اس کے ساتھ سکونت پذیر رہے تو وہ بھی اسی جیسا ہے۔’’

7. أنا بريء من کل مسلم مقيم بين أظهر المشرکين، قالوا: يا رسول اﷲ، ولِمَ؟ قال: لا ترايا ناراهم.

بيهقي، السنن الکبری، 9: 142

‘‘میں ہر مسلمان سے بری الذمہ ہوں جو مشرکین کے درمیان مقیم ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کیوں یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیونکہ مسلمان کافر کی آگ کو نہیں دیکھ سکتا (مراد ہجرت پر اُبھارنا تھا)۔’’

8. طهروا أفنيتکم، فإنّ اليهود لا تطهر أفنيته.

  1. هيثمي، مجمع الزوائد، 1: 286

  2. مناوی، فيض القدير، 4: 271

‘‘اپنے صحنوں کو صاف رکھا کرو، بے شک یہودی اپنے صحنوں کو صاف نہیں رکھتے۔’’

Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved