188 / 1. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه قَالَ: کَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم يَحْکِي نَبِيًّا مِنَ الأَنْبِيَاءِ، ضَرَبَه قَوْمُه فَأَدْمَوْهُ وَهُوَ يَمْسَحُ الدَّمَ عَنْ وَجْهِه وَيَقُوْلُ: اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأنبياء، باب حديث الغار، 3 / 1282، الرقم: 3290، وأيضًا فيکتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب إذا عرض الذمي وغيره بسبّ النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 6 / 2539، الرقم: 6530، ومسلم في الصحيح،کتاب الجهاد والسير، باب غزوة أحد، 3 / 1417، الرقم: 1792، وابن ماجه في السنن،کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء، 2 / 1335، الرقم: 4025، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 453، الرقم: 4331، وابن حبان في الصحيح، 14 / 537، الرقم: 6576، وأبو يعلی في المسند، 9 / 131، الرقم: 5205، والبزار في المسند، 5 / 106، 107، الرقم: 1686، وأبو عوانة في المسند، 4 / 329، الرقم: 6869.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ گویا میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس حال میں دیکھ رہا ہوں جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انبیائے کرام میں سے کسی نبی کا ذکر فرما رہے تھے جنہیں اُن کی قوم نے مار مار کر لہولہان کردیا تھا اور وہ اپنے پرنور چہرے سے خون صاف کرتے ہوئے فرماتے جاتے تھے: اے اللہ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ یہ لوگ مجھے نہیں پہچانتے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
189 / 2. عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ رضي الله عنه أَنَّه قَالَ لِعَمْرِو بْنِ سَعِيْدٍ، وَهُوَ يَبْعَثُ الْبُعُوْثَ إِلٰی مَکَّةَ: ائْذَنْ لِي أَيُّهَا الْأَمِيْرُ أُحَدِّثْکَ قَوْلًا قَامَ بِهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم الْغَدَ مِنْ يَوْمِ الْفَتْحِ سَمِعَتْهُ أُذُنَايَ وَوَعَاه قَلْبِي وَأَبْصَرَتْه عَيْنَايَ حِيْنَ تَکَلَّمَ بِه حَمِدَ اللهَ وَأَثْنٰی عَلَيْهِ ثُمَّ قَالَ: إِنَّ مَکَّةَ حَرَّمَهَا اللهُ، وَلَمْ يُحَرِّمْهَا النَّاسُ فَـلَا يَحِلُّ لِامْرِيئٍ يُؤْمِنُ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْأخِرِ أَنْ يَسْفِکَ بِهَا دَمًا وَلَا يَعْضِدَ بِهَا شَجَرَةً فَإِنْ أَحَدٌ تَرَخَّصَ لِقِتَالِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِيْهَا فَقُوْلُوْا: إِنَّ اللهَ قَدْ أَذِنَ لِرَسُوْلِه وَلَمْ يَأْذَنْ لَکُمْ وَإِنَّمَا أَذِنَ لِي فِيْهَا سَاعَةً مِنْ نَهَارٍ ثُمَّ عَادَتْ حُرْمَتُهَا الْيَوْمَ کَحُرْمَتِهَا بِالْأَمْسِ وَلْيُبَلِّغِ الشَّاهِدُ الْغَائِبَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب العلم، باب ليبلغ العلم الشاهد الغائب، 1 / 51، الرقم: 104، وأيضًا في کتاب الحج، باب لا يعضد شجر الحرم، 2 / 651، الرقم: 1735، ومسلم في الصحيح،کتاب الحج، باب تحريم مکة وصيدها وخلاها وشجرها، 2 / 987، الرقم: 1354، والترمذي في السنن،کتاب الحج، باب ما جاء في حرمة مکة، 3 / 173، الرقم: 809، والنسائي في السنن،کتاب مناسک الحج، باب تحريم القتال فيه، 5 / 205، الرقم: 2876، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 31، الرقم: 16420، والطبراني في المعجم الکبير، 22 / 185، الرقم: 484.
’’حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اُنہوں نے حضرت عمرو بن سعید سے کہا جبکہ وہ مکہ مکرمہ کی طرف فوجی دستے بھیج رہے تھے: اے امیر! مجھے اجازت دیجئے کہ آپ کے سامنے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ ارشاد بیان کروں جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح مکہ کے اگلے روز فرمایا تھا جسے میرے دونوں کانوں نے سنا، دل نے محفوظ رکھا اور میری دونوں آنکھوں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کلام فرما رہے تھے۔ اللہ تعالیٰ کی حمد وثنا بیان کرنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مکہ مکرمہ کو اللہ تعالیٰ نے حرم بنایا ہے لوگوں نے اُسے حرم نہیں بنایا۔ سو کسی شخص کے لیے حلال نہیں ہے جو اللہ تعالیٰ اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو کہ اس میں خون بہائے اور اس کا درخت کاٹے۔ اگر کوئی اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول کی اجازت کو دلیل بنائے تو اس سے کہو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اجازت دی تھی جب کہ تمہیں تو اجازت نہیں دی اور مجھے بھی دن کی ایک گھڑی کے لیے اجازت دی تھی۔ پھر آج اس کی حرمت اسی طرح لوٹ آئی جیسی کل تھی۔ جو یہاں موجود ہے اس کو چاہیے کہ جو یہاں موجود نہیں اس تک یہ حکم پہنچا دے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
190 / 3. عَنْ عُرْوَةَ بْنِ زُبَيْرٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ سَعْدُ بْنُ عَبَادَةَ لِأَبِي سُفْيَانَ: اَلْيَوْمُ يَوْمُ الْمَلْحَمَةِ الْيَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْکَعْبَةُ، وَأَخْبَرَ أَبُوْ سُفْيَانَ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَا قَالَ سَعْدٌ، فَقَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : کَذَبَ سَعْدٌ وَلٰـکِنْ هٰذَا يَوْمٌ يُعَظِّمُ اللهُ فِيْهِ الْکَعْبَةَ وَيَوْمٌ تُکْسَی فِيْهِ الْکَعْبَةُ…الحديث.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ.
وفي رواية للعسقلاني: اَلْيَوْمُ يَوْمُ الْمَرْحَمَةِ، الْيَوْمُ يُعِزُّ اللهُ قُرَيْشًا.
3: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب المغازي، باب أين رکز النبي صلی الله عليه وآله وسلم الراية يوم الفتح، 4 / 1559، الرقم: 4030، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 119، الرقم: 18058، والعسقلاني في فتح الباري، 8 / 9، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 23 / 454، وابن عبد البر في الاستيعاب، 2 / 597.
’’حضرت عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ (فتح مکہ کے احوال بیان کرتے ہوئے) فرماتے ہیں کہ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے کہا: آج کا دن قتل عام کا دن ہے۔ آج کعبہ کی حرمت بھی حلال ہوجائے گی۔ حضرت ابو سفیان رضی اللہ عنہ نے یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سعد نے غلط کہا ہے۔ آج تو اللہ تعالیٰ کعبہ کو عظمت عطا فرمائے گا۔ اور آج کعبہ کو غلاف پہنایا جائے گا۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری نے روایت کیا ہے۔
امام عسقلانی کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’آج کا دن رحمت کا دن ہے، اللہ تعالیٰ آج قریش کو عزت سے نوازے گا۔‘‘
191 / 4. عَنْ أَنَسٍ رضي الله عنه أَنَّ امْرَأَةً يَهُوْدِيَةً أَتَتْ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِشَاة مَسْمُوْمَة، فَأَکَلَ مِنْهَا، فَجِيئَ بِهَا إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَسَأَلَهَا عَنْ ذَالِکَ؟ فَقَالَتْ: أَرَدْتُ لِأَقْتُلَکَ، قَالَ: مَا کَانَ اللهُ لِيُسَلِّطَکِ عَلٰی ذَاکِ، قَالَ: أَوْ قَالَ: عَلَيَّ، قَالَ: قَالُوْا: أَ لَا نَقْتُلُهَا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَمَا زِلْتُ أَعْرِفُهَا فِي لَهَوَاتِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
4: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الهبة وفضلها والتحريض عليها، باب قبول الهدية من المشرکين، 2 / 923، الرقم: 2474، ومسلم في الصحيح،کتاب السلام، باب السم، 4 / 1721، الرقم: 2190، وأبو داود في السنن،کتاب الديات، باب فيمن سقی رجلا سمًا أو أطعمه فمات أيقاد منه، 4 / 173، الرقم: 4508، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 218، الرقم: 13309، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 / 43، الرقم: 2417، والبيهقي في السنن الکبری، 10 / 11، الرقم: 19500.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی عورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بکری کا زہر آلود گوشت لے کر آئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس گوشت میں سے تھوڑا سا کھایا (تو وہ گوشت بول بڑا کہ اس میں زہر ملایا گیا ہے)، پھر اُس عورت کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لایا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس عورت سے اِس گوشت کے متعلق پوچھا تو اُس نے کہا: میں نے (معاذ اللہ) آپ کو قتل کرنے کا ارادہ کیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ تجھے اِس پر قادرنہیں کرے گا۔ راوی بیان کرتے ہیں: یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھ پر قادر نہیں کرے گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) کیا ہم اِسے قتل نہ کر دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں (اور اس یہودی عورت کو معاف فرما دیا)۔ راوی کہتے ہیں کہ اُس زہر کا اثر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منہ میں ہمیشہ پایا گیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
192 / 5. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: غَزَوْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم غَزْوَةً قِبَلَ نَجْدٍ، فَأَدْرَکَنَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي وَادٍ کَثِيْرِ الْعِضَاهِ، فَنَزَلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم تَحْتَ شَجَرَة، فَعَلَّقَ سَيْفَه بِغُصْنٍ مِنْ أَغْصَانِهَا، قَالَ: وَتَفَرَّقَ النَّاسُ فِي الْوَادِي يَسْتَظِلُّوْنَ بِالشَّجَرِ، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ رَجُـلًا أَتَانِي وَأَنَا نَائِمٌ، فَأَخَذَ السَّيْفَ، فَاسْتَيْقَظْتُ، وَهُوَ قَائِمٌ عَلٰی رَأْسِي، فَلَمْ أَشْعُرْ، إِلَّا وَالسَّيْفُ صَلْتًا فِي يَدِه، فَقَالَ لِي: مَنْ يَمْنَعُکَ مِنِّي؟ قَالَ: قُلْتُ: اللهُ، ثُمَّ قَالَ فِي الثَّانِيَةِ: مَنْ يَمْنَعُکَ مِنِّي؟ قَالَ: قُلْتُ: اللهُ. قَالَ: فَشَامَ السَّيْفَ، فَهَا هُوَ ذَا جَالِسٌ، ثُمَّ لَمْ يَعْرِضْ لَه رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
5: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجهاد والسير، باب من علق سيفه بالشجر في السفر عند القائلة، 3 / 1065.1066، الرقم: 2753.2756، وأيضًا فيکتاب المغازي، باب غزوة ذات الرقاع، 4 / 515، الرقم: 3905، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب توکله علی اللہ تعالی وعصمة اللہ تعالی له من الناس، 4 / 1786، الرقم: 843، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 236،267، الرقم: 8772، 8852، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 311، الرقم: 14374، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 319، الرقم: 12613، والطبراني في مسند الشاميين، 3 / 66، الرقم: 1815.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نجد کی جانب سفرِ جہاد کیا (بیان کرتے ہیں کہ) پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں (اپنے ساتھ) ایک بڑی کانٹے دار درختوں والی وادی میں پایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک درخت کے نیچے جلوہ افروز ہوئے اور اپنی تلوار اُس درخت کی ایک ٹہنی کے ساتھ لٹکا دی۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ لوگ (آرام کی غرض سے) درختوں کے سائے میں ادھر اُدھر بکھر گئے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ (پھر جب ہم سب بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے تو) حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ جب میں سو رہا تھا تو میرے پاس ایک شخص آیا، اور اُس نے تلوار اُٹھا لی، جب میں بیدار ہوا تو (دیکھا کہ) وہ شخص میرے سر پر کھڑا تھا، میں نے دیکھا کہ سونتی ہوئی تلوار اس کے ہاتھ میں ہے۔ اُس نے مجھ سے پوچھا: (اے محمد!) اب آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے جواب دیا: اللہ، پھر اُس نے دوسری مرتبہ کہا: آپ کو مجھ سے کون بچائے گا؟ میں نے کہا: اللہ، فرمایا: پھر اُس نے(خوفزدہ ہو کر) تلوار گرا دی، سو وہ شخص یہ بیٹھا ہے پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے انتقام بھی نہیں لیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
193 / 6. عَنْ أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَکْرٍ رضي الله عنهما قَالَتْ: قَدِمَتْ عَلَيَّ أُمِّي وَهِيَ مُشْرِکَةٌ فِي عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَاسْتَفْتَيْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قُلْتُ: وَهِيَ رَاغِبَةٌ أَفَأَصِلُ أُمِّي؟ قَالَ: نَعَمْ، صِلِي أُمَّکِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
6: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الهبة وفضلها التحريض عليها، باب الهدية للمشرکين، 2 / 924، الرقم: 2477، وأيضًا في کتاب الجزية، باب إثم من عاهد ثم غدر، 3 / 1162، الرقم: 3012، ومسلم في الصحيح، کتاب الزکاة، باب فضل النفقة والصدقة علی الأقربين والزوج والأولاد والوالدين ولو کانوا مشرکين، 2 / 696، الرقم: 1003، وأبو داود في السنن، کتاب الزکاة، باب الصدقة علی أهل الذمة، 2 / 127، الرقم: 1668، وعبد الرزاق في المصنف، 6 / 38، الرقم: 9932، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 347، الرقم: 26985، والطبراني في المعجم الکبير، 24 / 78، الرقم: 203.
’’حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عہد مبارک میں میری والدہ میرے پاس آئیں جب کہ وہ مشرکہ تھیں۔ تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اِس بارے میں فتویٰ پوچھا اور عرض کیا: وہ اسلام کی طرف راغب ہیں تو کیا میں اپنی والدہ سے صلہ رحمی کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں اپنی والدہ سے صلہ رحمی کرو۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
194 / 7. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: رَأَی عُمَرُ حُلَّةً عَلٰی رَجُلٍ تُبَاعُ، فَقَالَ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : ابْتَعْ هٰذِهِ الْحُلَّةَ، تَلْبَسُهَا يَوْمَ الْجُمُعَةِ وَإِذَا جَائَکَ الْوَفْدُ، فَقَالَ: إِنَّمَا يَلْبَسُ هٰذَا مَنْ لَا خَـلَاقَ لَه فِي الْأخِرَةِ، فَأُتِيَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْهَا بِحُلَلٍ، فَأَرْسَلَ إِلٰی عُمَرَ مِنْهَا بِحُلَّة، فَقَالَ عُمَرُ: کَيْفَ أَلْبَسُهَا وَقَدْ قُلْتَ فِيْهَا مَا قُلْتَ؟ قَالَ: إِنِّي لَمْ أَکْسُکَهَا لِتَلْبَسَهَا، تَبِيْعُهَا أَوْ تَکْسُوْهَا، فَأَرْسَلَ بِهَا عُمَرُ إِلٰی أَخٍ لَه مِنْ أَهْلِ مَکَّةَ قَبْلَ أَنْ يُسْلِمَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
7: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الهبة وفضلها التحريض عليها، باب الهدية للمشرکين، 2 / 924، الرقم: 2476، وأيضًا في باب هدية ما يکره لبسها، 2 / 921، الرقم: 2470، وأيضًا فيکتاب الجعمة، باب يلبس أحسن ما يجد، 1 / 302، الرقم: 846، ومسلم في الصحيح، کتاب اللباس والزينة، باب تحريم استعمال إناء الذهب والفضة علی الرجال والنساء وخاتم الذهب والحرير علی الرجل وإباحته للنساء وإباحة العلم ونحوه للرجل ما لم يزد علی أربع أصابع، 3 / 1638، الرقم: 2068، وأبو داود في السنن،کتاب الصلاة، باب اللبس للجمعة، 1 / 282، الرقم: 1076، والنسائي في السنن، کتاب الجمعة، باب الهيئة للجمعة، 3 / 96، الرقم: 1382، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 523، الرقم: 1686، ومالک في الموطأ،کتاب اللباس، باب ما جاء في لبس الثياب، 2 / 917، الرقم: 1637، والشافعي في المسند / 62، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 103، الرقم: 5797، وابن حبان في الصحيح، 12 / 255، الرقم: 5439.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو ریشمی جبہ بیچتے ہوئے دیکھا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض گزار ہوئے: اِس جبے کو خرید لیجئے اور اِسے جمعہ کے روز اور جب (دور دراز علاقوں سے) وفود آئیں تو زیبِ تن فرمایا کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِسے وہ پہنتا ہے جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چند جبے لائے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن میں سے ایک جبہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے بھیج دیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے: میں اِسے کیسے پہنوں جبکہ اِن کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے یہ تمہارے پہننے کے لیے نہیں دیا بلکہ اسے فروخت کر دو یا کسی کو پہنا دو۔ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے وہ مکہ مکرمہ میں اپنے اُس بھائی کے لیے بھیج دیا جو ابھی مسلمان نہیں ہوا تھا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
195 / 8. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: وُجِدَتِ امْرَأَةٌ مَقْتُوْلَةً فِي بَعْضِ مَغَازِي رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَنَهٰی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
8: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجهاد والسير، باب قتل النساء في الحرب، 3 / 1098، الرقم: 2852، ومسلم في الصحيح،کتاب الجهاد والسير، باب تحريم قتل النساء والصبيان في الحرب، 3 / 1364، الرقم: 1744، والترمذي في السنن،کتاب السير، باب ما جاء في النهي عن قتل النساء والصبيان، 4 / 136، الرقم: 1569، وابن ماجه في السنن، کتاب الجهاد، باب الغارة والبيات وقتل النساء والصبيان، 2 / 947، الرقم: 2841، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 185، الرقم: 8618، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 22، الرقم: 4739، والدارمي في السنن، 2 / 293، الرقم: 2462، وابن حبان في الصحيح،1 / 344، الرقم: 135.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کسی غزوہ میں ایک عورت کو دیکھا جسے قتل کر دیا گیا تھا۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (سختی سے) عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے کی ممانعت فرما دی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
196 / 9. عَنِ ابْنِ کَعْبِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم حِيْنَ بَعَثَ إِلَی ابْنِ أَبِي حَقِيْقٍ نَهٰی حِيْنَئِذٍ عَنْ قَتْلِ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ.
رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالشَّافِعِيُّ وَالطَّحَاوِيُّ.
9: أخرجه عبد الرزاق في المصنف،کتاب الجهاد، باب البيات، 5 / 202، الرقم: 9385، والشافعي في المسند / 238، والطحاوي في شرح معاني الآثار، 3 / 221، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 77، الرقم: 17865.
’’حضرت ابن کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب ابن ابی حقیق (گستاخ یہودی سردار) کی طرف لشکر روانہ کیا تو لشکرِ اسلام کو عورتوں اور بچوں کو قتل کرنے سے منع فرمایا۔‘‘
اِس حدیث کو امام عبد الرزاق، شافعی اور طحاوی نے روایت کیا ہے۔
197 / 10. عَنْ عَطِيَةَ الْقُرَظِيِّ رضي الله عنه قَالَ: کُنْتُ فِيْمَنْ حَکَمَ فِيْهِمْ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ فَشَکُّوْا فِيَّ أَمِنَ الذُّرِّيَةِ أَنَا أَمْ مِنَ الْمُقَاتِلَةِ؟ فَنَظَرُوْا إِلٰی عَانَتِي فَلَمْ يَجِدُوْهَا نَبَتَتْ، فَأُلْقَيْتُ فِي الذُّرِّيَةَ وَلَمْ أُقْتَلْ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالطَّبَرَانِيُّ.
10: أخرجه ابن حبان في الصحيحِ،کتاب السير، باب الخروج وکيفية الجهاد، ذکر خبر الدال علی أن الصبيان إذا قاتلوا قوتلوا، 11 / 109، الرقم: 4788، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 179، الرقم: 18742، والطبراني في المعجم الکبير، 17 / 164، الرقم: 434، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 166، الرقم: 11098.
’’حضرت عطیہ قرظی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں شامل تھا جن کے بارے میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے (جنگ میں سزا نہ دینے کا) حکم لگایا تھا۔ تو اُنہوں نے میرے بارے شک کیا کہ آیا میں بچوں میں شامل ہوں یا لڑائی کرنے والوں میں۔ سو اُنہوں نے میری بغلیں دیکھیں اور دیکھا کہ وہاں بال نہیں اُگے تھے، تو مجھے بچوں میں شمار کیا گیا اور قتل نہ کیا گیا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابن حبان، عبد الرزاق اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
198 / 11. عَنِ الأَسْوَدِ بْنِ سَرِيْعٍ رضي الله عنه قَالَ: کُنَّا فِي غَزَاة فَأَصَبْنَا ظَفَرًا وَقَتَلْنَا مِنَ الْمُشْرِکِيْنَ حَتّٰی بَلَغَ بِهِمُ الْقَتْلُ إِلٰی أَنْ قَتَلُوْا الذُّرِّيَةَ فَبَلَغَ ذَالِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: مَا بَالُ أَقْوَامٍ بَلَغَ بِهِمُ الْقَتْلُ إِلٰی أَنْ قَتَلُوْا الذَّرِيَةَ أَ لَا لَا تَقْتُلُنَّ ذُرِّيَةً أَ لَا لَا تَقْتُلَنَّ ذُرِّيَةً قِيْلَ: لِمَ يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَلَيْسَ هُمْ أَوْلَادُ الْمُشْرِکِيْنَ؟ قَالَ: أَوَ لَيْسَ خِيَارُکُمْ أَوْلَادَ الْمُشْرِکِيْنَ.
وفي رواية زاد: فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّمَا هُمْ أَبْنَاءُ الْمُشْرِکِيْنَ، فَقَالَ: خِيَارُکُمْ أَبْنَاءُ الْمُشْرِکِيْنَ، أَ لَا، لَا تُقْتَلُ الذُّرِّيَةُ، کُلُّ نَسَمَة تُوْلَدُ عَلَی الْفِطْرَةِ، حَتّٰی يُعْرِبَ عَنْهَا لِسَانُهَا، فَأَبَوَاهَا يُهَوِّدَانِهَا وَيُنَصِّرَانِهَا.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رَوَاهُ أَحْمَدُ بِأَسَانِيْدَ وَبَعْضُ أَسَانِيْدِ أَحْمَدَ رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
11: أخرجه النسائي في السنن الکبری،کتاب السير، باب النهي عن قتل ذراري المشرکين، 5 / 184، الرقم: 8616، والدارمي في السنن، 2 / 294، الرقم: 2463، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 435، الرقم: 15626.15627، وأيضًا، 4 / 24، الرقم: 16342، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 484، الرقم: 33131، وابن حبان في الصحيح، 1 / 341، الرقم: 132، والحاکم في المستدرک، 2 / 133.134، الرقم: 2566.2567، والطبراني في المعجم الکبير، 1 / 284، الرقم: 829، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 2 / 375، الرقم: 1160، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 8 / 263، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 77، الرقم: 17868، والهيثمي في مجمع الزوائد، 5 / 316.
’’حضرت اسود بن سریع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں شریک تھے (ہم لڑتے رہے یہاں تک) کہ ہمیں غلبہ حاصل ہوگیا اور ہم نے مشرکوں کو (خوب) قتل کیا حتی کہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگوں نے (بعض) بچوں کو بھی قتل کر ڈالا۔ یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے جن کے قتل کی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انہوں نے بچوں تک کو قتل کر ڈالا۔ خبردار! بچوں کو ہرگز ہرگز قتل نہ کرو، خبردار! بچوں کو ہرگز ہرگز قتل نہ کرو، عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! کیوں؟ کیا وہ مشرکوں کے بچے نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں سے جو (آج) بہتر لوگ ہیں (کل) یہ بھی مشرکوں کے بچے نہیں تھے؟
ایک روایت میں یہ اضافہ فرمایا: ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ مشرکین کے بچے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے بہترین لوگ بھی تو مشرکین کے بچے ہیں (یعنی اُن کے والدین مشرک تھے)۔ خبردار! بچوں کو جنگ کے دوران قتل نہ کیا جائے ہر جان فطرت پر پیدا ہوتی ہے یہاں تک کہ اُس کی زبان اُس کی فطرت کا اظہار نہ کردے، پھر اُس کے والدین اُسے یہودی یا نصرانی بناتے ہیں۔‘‘
اِس حدیث کو امام نسائی، دارمی، احمد، ابن ابی شیبہ اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔جبکہ امام ہیثمی نے فرمایا: اِسے امام احمد نے متعدد اسانید کے ساتھ روایت کیا ہے اور ان کی بعض اسانید کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
199 / 12. عَنْ رَبَاحِ بْنِ رَبِيْعٍ رضي الله عنه قَالَ: کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي غَزْوَة، فَرَأَی النَّاسَ مُجْتَمِعِيْنَ عَلٰی شَيئٍ، فَبَعَثَ رَجُـلًا فَقَالَ: انْظُرْ عَـلَامَ اجْتَمَعَ هٰـوُلَاءِ؟ فَجَاءَ فَقَالَ: عَلَی امْرَأَة قَتِيْلٍ، فَقَالَ: مَا کَانَتْ هٰذِه لِتُقَاتِلَ، قَالَ: وَعَلَی الْمُقَدِّمَةِ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيْدِ، فَبَعَثَ رَجُـلًا فَقَالَ: قُلْ لِخَالِدٍ: لَا يَقْتُلَنَّ امْرَأَةً وَلَا عَسِيْفًا. وفي رواية: لَا تَقْتُلَنَّ ذُرِّيَةً وَلَا عَسِيْفًا. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
12: أخرجه أبو داود في السنن،کتاب الجهاد، باب في قتل النساء، 3 / 53، الرقم: 2669، وابن ماجه في السنن،کتاب الجهاد، باب الغارة والبيات وقتل النساء والصبيان، 2 / 948، الرقم: 2842، والنسائي في السنن الکبري، 5 / 186187، الرقم: 8625، 8627، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 488، الرقم: 16035، وابن حبان في الصحيح، 11 / 110، الرقم: 4789، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 482، الرقم: 33117، وأبو يعلی في المسند، 3 / 115116، الرقم: 1546، والحاکم في المستدرک، 2 / 133، الرقم: 2565، والطبراني في المعجم الکبير، 4 / 10، الرقم: 3489، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 82، الرقم: 17883.
’’حضرت رباح بن ربیع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک غزوہ میں ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا بہت سے لوگ کسی چیز کے پاس جمع ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو یہ دیکھنے کے لئے بھیجا کہ لوگ کس چیز کے پاس جمع ہوئے ہیں۔ اُس نے آکر بتایا: ایک مقتول عورت کے پاس۔ فرمایا: یہ تو جنگ نہیں کرتی تھی۔ حضرت رباح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اگلے دستے کے کمانڈر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ تھے لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی کو بھیجا اور فرمایا: خالد سے کہنا: (مشرکین کی) عورتوں اور خدمت کرنے والوں کو ہرگز ہرگز قتل نہ کرو۔‘‘ ایک روایت میں ہے: ’’بچوں اور خدمت گاروں کو ہرگز ہرگز قتل نہ کرو۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، ابن ماجہ، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
200 / 13. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: بَعَثَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم خَيْـلًا قِبَلَ نَجْدٍ، فَجَائَتْ بِرَجُلٍ مِنْ بَنِي حَنِيْفَةَ يُقَالُ لَه ثُمَامَةُ بْنُ أُثَالٍ، فَرَبَطُوْهُ بِسَارِيَة مِنْ سَوَارِي الْمَسْجِدِ، فَخَرَجَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: مَا عِنْدَکَ يَا ثُمَامَةُ؟ فَقَالَ: عِنْدِي خَيْرٌ يَا مُحَمَّدُ، إِنْ تَقْتُلْنِي تَقْتُلْ ذَا دَمٍ، وَإِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلٰی شَاکِرٍ، وَإِنْ کُنْتَ تُرِيْدُ الْمَالَ فَسَلْ مِنْهُ مَا شِئْتَ، فَتُرِکَ حَتّٰی کَانَ الْغَدُ ثُمَّ قَالَ لَه: مَا عِنْدَکَ يَا ثُمَامَةُ؟ قَالَ: مَا قُلْتُ لَکَ إِنْ تُنْعِمْ تُنْعِمْ عَلٰی شَاکِرٍ، فَتَرَکَه حَتّٰی کَانَ بَعْدَ الْغَدِ فَقَالَ: مَا عِنْدَکَ يَا ثُمَامَةُ؟ فَقَالَ: عِنْدِي مَا قُلْتُ لَکَ، فَقَالَ: أَطْلِقُوْا ثُمَامَةَ، فَانْطَلَقَ إِلٰی نَخْلٍ قَرِيْبٍ مِنَ الْمَسْجِدِ فَاغْتَسَلَ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَقَالَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ، يَا مُحَمَّدُ، وَاللهِ، مَا کَانَ عَلَی الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِکَ، فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُکَ أَحَبَّ الْوُجُوْهِ إِلَيَّ، وَاللهِ، مَا کَانَ مِنْ دِيْنٍ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ دِيْنِکَ، فَأَصْبَحَ دِيْنُکَ أَحَبَّ الدِّيْنِ إِلَيَّ، وَاللهِ، مَا کَانَ مِنْ بَلَدٍ أَبْغَضُ إِلَيَّ مِنْ بَلَدِکَ، فَأَصْبَحَ بَلَدُکَ أَحَبَّ الْبِلَادِ إِلَيَّ، وَإِنَّ خَيْلَکَ أَخَذَتْنِي وَأَنَا أُرِيْدُ الْعُمْرَةَ، فَمَاذَا تَرَی؟ فَبَشَّرَه رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَمَرَه أَنْ يَعْتَمِرَ، فَلَمَّا قَدِمَ مَکَّةَ قَالَ لَه قَائِلٌ: صَبَوْتَ؟ قَالَ: لَا، وَلٰـکِنْ أَسْلَمْتُ مَعَ مُحَمَّدٍ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، وَلَا، وَاللهِ، لَا يَأْتِيْکُمْ مِنَ الْيَمَامَةِ حَبَّةُ حِنْطَة حَتّٰی يَأْذَنَ فِيْهَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
13: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب المغازي، باب وفد بني حنيفة وحديث ثمامة بن أثال، 4 / 1589، الرقم: 4114، ومسلم في الصحيح، کتاب الجهاد والسير، باب ربط الأسير وحبسه وجواز المن عليه، 3 / 1386، الرقم: 1764، وأبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب في الأسير يوثق، 3 / 57، الرقم: 2679، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 246، الرقم: 7355، وابن حبان في الصحيح، 4 / 4243، الرقم: 1239، وأبو عوانة في المسند، 4 / 257، الرقم: 6696، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 319، الرقم: 12614.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نجد کی جانب کچھ سواروں کو روانہ فرمایا تو وہ بنی حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو گرفتار کرکے لے آئے اور اسے مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ دیا۔ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ثمامہ! تمہارا کیا ارادہ ہے؟ جواب دیا: اے محمد! میرا ارادہ نیک ہے، اگر آپ مجھے قتل کریں تو گویا ایک خونی آدمی کو قتل کیا اور اگر احسان فرمائیں تو شکر گزار (بندے) پر احسان ہوگا، اگر آپ مال چاہتے ہیں تو جتنا چاہیں مانگ سکتے ہیں۔ جب دوسرا روز ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا: اے ثمامہ! کیا ارادہ ہے؟ اُس نے جواب دیا: میں کہہ چکا کہ اگر احسان فرمائیں تو ایک شکر گزار پر احسان ہوگا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُسے دوبارہ چھوڑ کر چلے گئے اور اگلے روز پھر فرمایا: اے ثمامہ! کیا خیال ہے؟ کہنے لگا: میں تو عرض کر چکا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ثمامہ کو چھوڑ دو۔ وہ چلاگیا اور مسجد کے قریب ایک باغ میں جاکر غسل کیا پھر مسجد نبوی میں آ کر کہنے لگا۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کے سچے رسول ہیں، اے محمد! خدا کی قسم! مجھے روئے زمین پر آپ کے چہرے سے زیادہ کسی کا چہرہ ناپسند نہیں تھا، لیکن آج مجھے آپ کا چہرہ سب چہروں سے زیادہ محبوب ہو گیا ہے۔ خدا کی قسم! آپ کے دین سے زیادہ مجھے کوئی دین ناپسند نہ تھا لیکن آج مجھے آپ کا دین سب سے زیادہ پیارا ہو گیا ہے، خدا کی قسم! مجھے آپ کے شہر سے زیادہ ناپسند کوئی شہر نہ تھا لیکن آج آپ کا شہر مجھے سب شہروں سے زیادہ پیارا ہو گیا ہے۔ آپ کے سواروں نے مجھے گرفتار کر لیا حالانکہ میں عمرہ کے ارادے سے جا رہا تھا، اب اس بارے میں آپ کا حکم کیا ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے بشارت دی اور فرمایا کہ وہ عمرہ کرے۔ جب وہ مکہ مکرمہ میںپہنچا تو کسی نے اُس سے کہا: کیا تم بے دین ہوگئے ہو؟ جواب دیا: نہیں بلکہ میں تو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دست اقدس پر مسلمان ہوگیا ہوں۔ خدا کی قسم! اب تمہارے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت کے بغیر یمامہ سے گندم کا ایک دانہ بھی نہیں پہنچے گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
201 / 14. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: مَرَّ يَهُوْدِيٌّ بِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: اَلسَّامُ عَلَيْکَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَعَلَيْکَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَتَدْرُوْنَ مَا يَقُوْلُ؟ قَالَ: اَلسَّامُ عَلَيْکَ، قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَلَا نَقْتُلُه؟ قَالَ: لَا، إِذَا سَلَّمَ عَلَيْکُمْ أَهْلُ الْکِتَابِ فَقُوْلُوْا: وَعَلَيْکُمْ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
14: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب إذا عرض الذمي وغيره بسب النبي صلی الله عليه وآله وسلم ولم يصرح نحو قوله السام عليکم، 6 / 2538، الرقم: 6527، ومسلم في الصحيح، کتاب السلام، باب النهي عن ابتداء أهل الکتاب، بالسلام وکيف يرد، 4 / 1705، الرقم: 2163، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 218، الرقم: 13308، وأبو يعلی في المسند، 5 / 445، الرقم: 3153، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8 / 42، وابن حزم في المحلی، 11 / 415.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرا تو اُس نے کہا: اَلسَّامُ عَلَيْکَ ’’تجھ پر (معاذ اللہ) موت ہو۔‘‘ تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وَعَلَيْکَ ’’اور تم پر بھی۔‘‘ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کیا کہتا ہے؟ اُس نے کہا: تجھ پر موت ہو۔ لوگ عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! ہم اِسے قتل نہ کر دیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ جب اہل کتاب تمہیں سلام کیا کریں تو تم بھی اُنہیں وَعَلَيْکُمْ کہہ دیا کرو۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
202 / 15. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: اسْتَأْذَنَ رَهْطٌ مِنَ الْيَهُوْدِ عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالُوْا: اَلسَّامُ عَلَيْکَ، فَقُلْتُ: بَلْ عَلَيْکُمُ السَّامُ وَاللَّعْنَةُ، فَقَالَ: يَا عَائِشَةُ، إِنَّ اللهَ رَفِيْقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ کُلِّه، قُلْتُ: أَوَ لَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوْا؟ قَالَ: قُلْتُ: وَعَلَيْکُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
15: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب إذا عرض الذمي وغيره بسب النبي صلی الله عليه وآله وسلم ولم يصرح نحو قوله: السام عليکم، 6 / 2539، الرقم: 6528، ومسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل الرفق، 4 / 2003، الرقم: 2593، وأبو داود في السنن،کتاب الأدب، باب في الرفق، 4 / 254، الرقم: 4807، وابن ماجه في السنن،کتاب الأدب، باب الرفق، 2 / 1216، الرقم: 3688، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 112، الرقم: 902.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ کچھ یہودیوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اندر آنے کی اجازت طلب کی، پھر کہا: (السَّامُ عَلَيْکَ) ’’(معاذ اللہ) تجھے موت آئے۔‘‘ تو میں نے کہا: تمہارے اُوپر موت ہو اور لعنت ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ! بیشک اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور ہر ایک معاملہ میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ میں عرض گزار ہوئی: (یا رسول اللہ!) جو اُنہوں نے کہا وہ آپ نے نہیں سنا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں نے وَعَلَيْکُمْ کہہ دیا تھا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
203 / 16. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: مَرَّتْ بِنَا جِنَازَةٌ فَقَامَ لَهَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَقُمْنَا لَه، فَقُلْنَا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّهَا جِنَازَةُ يَهُوْدِيٍّ؟ قَالَ: إِذَا رَأَيْتُمُ الْجِنَازَةَ فَقُوْمُوْا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
16: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجنائز، باب من قام لجنازة يهودي، 1 / 441، الرقم: 1249، ومسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب القيام للجنازة، 2 / 660، الرقم: 960، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب القيام لجنازة أهل الشرک، 4 / 45، الرقم: 1922، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 626، الرقم: 2049، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 319، الرقم: 14467.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اس میت کے احترام میں) کھڑے ہو گئے اور آپ کے ساتھ ہم بھی کھڑے ہو گئے۔ پھر ہم عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! یہ تو (کسی) یہودی کا جنازہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تم جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
204 / 17. عَنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ بْنِ أَبِي لَيْلٰی قَالَ: کَانَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ وَقَيْسُ بْنُ سَعْدٍ قَاعِدَيْنِ بِالْقَادِسِيَةِ، فَمَرُّوْا عَلَيْهِمَا بِجِنَازَة، فَقَامَا، فَقِيْلَ لَهُمَا: إِنَّهَا مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ أَي مِنْ أَهْلِ الذِّمَّةِ، فَقَالَا: إِنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم مَرَّتْ بِه جِنَازَةٌ، فَقَامَ، فَقِيْلَ لَه: إِنَّهَا جِنَازَةُ يَهُوْدِيٍّ، فَقَالَ أَلَيْسَتْ نَفْسًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
17: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجنائز، باب من قام لجنازة يهودي، 1 / 441، الرقم: 1250، ومسلم في الصحيح،کتاب الجنائز، باب القيام للجنازة، 2 / 661، الرقم: 961، والنسائي في السنن،کتاب الجنائز، باب القيام لجنازة أهل الشرک، 4 / 45، الرقم: 1921، وأيضًا في السنن الکبری، 1 / 626، الرقم: 2048، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 6، الرقم: 23893، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 90، الرقم: 5606، وابن أبي شيبة في المصنف، 3 / 39، الرقم: 11918، وابن الجعد في المسند / 27، الرقم: 70، والبيهقي في السنن الکبری، 4 / 27، الرقم: 6672.
’’حضرت عبد الرحمن بن ابو لیلیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سہل بن حُنَیف اور حضرت قیس بن سعد رضی اللہ عنہما قادسیہ میں بیٹھے ہوئے تھے کہ اُن کے پاس سے ایک جنازہ گزرا۔ دونوں کھڑے ہو گئے۔ اُن سے کہا گیا کہ یہ تو یہاں کے کافر ذمی شخص کا جنازہ ہے۔ دونوں نے بیان فرمایا: (ایک مرتبہ) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے جنازہ گزرا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھڑے ہو گئے۔ عرض کیا گیا: یہ تو یہودی کا جنازہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا یہ (انسانی) جان نہیں ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
205 / 18. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قِيْلَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اُدْعُ عَلَی الْمُشْرِکِيْنَ، قَالَ: إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ لَعَّانًا، وَإِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.
وفي رواية: إِنَّمَا بُعِثْتُ رَحْمَةً وَلَمْ أُبْعَثْ عَذَابًا.
رَوَاهُ أَبُوْ نُعَيْمٍ وَالْبَيْهَقِيُّ وَابْنُ عَسَاکِرَ.
18: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب النهي عن لعن الدواب وغيرها، 4 / 2006، الرقم: 2599، والبخاري في الأدب المفرد / 119، الرقم: 321، وأبو يعلی في المسند، 11 / 35، الرقم: 6174، وأبو نعيم في دلائل النبوة، 1 / 40، الرقم: 2، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 144، الرقم: 1403، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 4 / 92، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 283، الرقم: 754، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3 / 202.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا: (یا رسول اللہ!) مشرکین کے خلاف بد دعا کیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا، مجھے تو صرف (سراپا) رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے سراپا رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے عذاب بنا کر نہیں۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو نعیم، بیہقی اور ابن عساکر نے روایت کیا ہے۔
206 / 19. عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ السَّاعِدِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللّٰهُمَّ، اغْفِرْ لِقَوْمِي فَإِنَّهُمْ لَا يَعْلَمُوْنَ.
رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهقِيُّ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
19: أخرجه ابن حبان في الصحيح،کتاب الرقائق، باب ذکر ما يجب علی المرء الدعاء علی أعدائه بما فيه ترک حظ نفسه، 3 / 254، الرقم: 973، وابن أبي عاصم في الأحاد والمثاني، 4 / 123، الرقم: 2096، والطبراني في المعجم الکبير، 6 / 120، الرقم: 5694، والديلمي في مسند الفردوس، 1 / 500، الرقم: 2042، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 / 164، الرقم: 1448، والهيثمي في مجمع الزوائد، 6 / 117.
’’حضرت سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے اللہ! میری قوم کو بخش دے کیونکہ یہ لوگ (مجھے) نہیں جانتے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابن حبان، ابن ابی عاصم، طبرانی اور بیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
207 / 20. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه أَنَّ ثَمَانِيْنَ رَجُـلًا مِنْ أَهْلِ مَکَّةَ هَبَطُوْا عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ جَبَلِ التَّنْعِيْمِ مُتَسَلِّحِيْنَ، يُرِيْدُوْنَ غِرَّةَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَأَصْحَابِه، فَأَخَذَهُمْ سِلْمًا، فَاسْتَحْيَاهُمْ، فَأَنْزَلَ اللهُ ل: {وَهُوَ الَّذِي کَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْکُمْ وَأَيْدِيَکُمْ عَنْهُمْ بِبَطْنِ مَکَّةَ مِنْ بَعْدِ أَنْ أَظْفَرَکُمْ عَلَيْهِمْ} [الفتح، 48:24].
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
20: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب الجهاد والسير، باب قول اللہ تعالی: {وَهُوَ الَّذِي کَفَّ أَيْدِيَهُمْ عَنْکُمْ}، 3 / 1442، الرقم: 1808، والترمذي في السنن،کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة الفتح، 5 / 386، الرقم: 3264، وأبو داود في السنن، کتاب الجهاد، باب في المن علی الأسير بغير فداء، 3 / 61، الرقم: 2688، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 202، 6 / 464، الرقم: 8667، 11510، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 124، 290، الرقم: 12276، 14122، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 405، الرقم: 36916، وأبو عوانة في المسند، 4 / 291، الرقم: 6782، 6783، وعبد بن حميد في المسند، 1 / 363، الرقم: 1208.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ (صلح حدیبیہ کے موقع پر) مکہ کے اسّی (80) آدمی جبل تنعیم سے مسلح ہو کر اُترے، وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام کو دھوکہ دے کر غفلت میں حملہ کرنا چاہتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں پکڑ کر قید کر لیا اور بعد میں اُنہیں زندہ چھوڑ دیا، تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: {اور وہی ہے جس نے سرحدِ مکّہ پر (حدیبیہ کے قریب) اُن (کافروں) کے ہاتھ تم سے اور تمہارے ہاتھ اُن سے روک دیے}۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، ابو داود، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
208 / 21. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم (في يوم فتح مکة): مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ أمِنٌ، وَمَنْ أَلْقَی السِّلَاحَ فَهُوَ أمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَه فَهُوَ أمِنٌ …الحديث. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالْبزَّارُ.
21: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب الجهاد والسير، باب فتح مکة، 3 / 1407، الرقم: 1780، وأبو داود في السنن،کتاب الخراج والإمارة والفيئ، باب ما جاء في خبر مکة، 3 / 162، الرقم: 3021، والبزار في المسند، 4 / 122، الرقم: 1292، والدار قطني في السنن، 3 / 60، الرقم: 233، وأبو عوانة في المسند، 4 / 290، الرقم: 6780، وابن راهويه في المسند، 1 / 300، الرقم: 278.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ فتح مکہ کے دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اُسے امان حاصل ہے، جو شخص ہتھیار پھینک دے اُسے امان حاصل ہے، جو شخص اپنے گھر کے دروازے بند کر لے اُسے امان حاصل ہے۔‘‘ اِس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور بزار نے روایت کیا ہے۔
209 / 22. عَنْ أَبِي يُوْسُفَ رحمه اللہ قَالَ: إِنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَفَا عَنْ مَکَّةَ وَأَهْلِهَا وَقَالَ: مَنْ أَغْلَقَ عَلَيْهِ بَابَه فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَهُوَ آمِنٌ وَمَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ وَنَهَی عَنِ الْقَتْلِ إِلَّا نَفَرًا قَدْ سَمَّاهُمْ إِلَّا أَنْ يُقَاتِلَ أَحَدًا فَيُقْتَلَ وَقَالَ لَهُمْ: حِيْنَ اجْتَمَعُوْا فِي الْمَسْجِدِ مَا تَرَوْنَ أَنِّي صَانِعٌ بِکُمْ قَالُوْا: خَيْرًا أَخٌ کَرِيْمٌ وَابْنُ أَخٍ کَرِيْمٍ، قَالَ: اذْهَبُوْا فَأَنْتُمْ الطُّلَقَاءُ. رَوَاهُ الشَّافِعِيُّ وَابْنُ حِبَّانَ وَالرَّبِيْعُ.
22: أخرجه الشافعي في الأم، 7 / 361، وابن حبان في الثقات، 2 / 56، والربيع في المسند / 170، الرقم: 419، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 118، الرقم: 18055.
’’حضرت ابو یوسف رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مکہ اور اہل مکہ سے درگزر فرمایا اور یہ ارشاد فرمایا: جس شخص نے اپنا دروازہ بند کر لیا تو وہ امن میں ہے، اور جو مسجد میں داخل ہو گیا وہ امن میں ہے، اور جو ابو سفیان کے گھر داخل ہو گیا وہ امن میں ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چند (گستاخ) افراد جن کے نام بیان کردیئے تھے کے علاوہ قتلِ عام سے منع فرمایا، اور یہ کہ اگر مشرکین میں سے کوئی شخص کسی مسلمان کے ساتھ جنگ کرے تو اسے قتل کر دیا جائے اور جب وہ لوگ مسجد میں جمع ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟ انہوں نے کہا: ہم آپ سے بھلائی کی امید رکھتے ہیں کیونکہ آپ ایک معزز بھائی اور معزز بھائی کے بیٹے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جاؤ تم سب آزاد ہو۔‘‘
اِس حدیث کو امام شافعی، ابن حبان اور ربیع نے روایت کیا ہے۔
210 / 23. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنه (يعني ابن مسعود) قَالَ: إِنَّمَا کَانَ هٰذَا لِأَنَّ قُرَيْشًا لَمَّا اسْتَعْصَوْا عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم دَعَا عَلَيْهِمْ بِسِنِيْنَ کَسِنِي يُوْسُفَ، فَأَصَابَهُمْ قَحْطٌ وَجَهْدٌ حَتّٰی أَکَلُوْا الْعِظَامَ، فَجَعَلَ الرَّجُلُ يَنْظُرُ إِلَی السَّمَاءِ فَيَرٰی مَا بَيْنَه وَبَيْنَهَا کَهَيْئَةِ الدُّخَانِ مِنَ الْجَهْدِ، فَأَنْزَلَ اللهُ تَعَالٰی: {فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِيْنٍ يَغْشَی النَّاسَ هٰذَا عَذَابٌ أَلِيْمٌ} [الدخان، 44: 10]، قَالَ: فَأُتِيَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقِيْلَ لَه: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اسْتَسْقِ اللهَ لِمُضَرَ فَإِنَّهَا قَدْ هَلَکَتْ، قَالَ لِمُضَرَ: إِنَّکَ لَجَرِيئٌ، فَاسْتَسْقٰی لَهُمْ فَسُقُوْا، فَنَزَلَتْ: {إِنَّکُمْ عَائِدُوْنَ} [الدخان، 44: 15] فَلَمَّا أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ عَادُوْا إِلٰی حَالِهِمْ حِيْنَ أَصَابَتْهُمُ الرَّفَاهِيَةُ، فَأَنْزَلَ اللهُ ل: {يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْکُبْرَی إِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ} [الدخان، 44: 16] قَالَ: يَعْنِي يَوْمَ بَدْرٍ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
23: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب تفسير القرآن، باب يغشی الناس هذا عذاب أليم، 4 / 1823، الرقم: 4544، ومسلم في الصحيح، کتاب صفة القيامة والجنة والنار، باب الدخان، 4 / 2156، الرقم: 2798، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 380، الرقم: 3613، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4 / 139.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اُنہوں نے فرمایا کہ جب قریش نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نافرمانی کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے لئے حضرت یوسف کے (زمانے جیسے قحط سالی کے) سات سالوں کی اُن کے خلاف دعا مانگی۔ پس اُن لوگوں کا قحط اور مصیبت سے ایسا سامنا ہوا کہ ہڈیاں تک کھاگئے پس ان میں سے جب کوئی آدمی آسمان کی جانب دیکھتا تو اسے بھوک کے باعث زمین و آسمان کے درمیان دھواں ہی دھواں نظر آتا تھا۔ سو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’سو آپ اُس دن کا انتظار کریں جب آسمان واضح دھواں ظاہر کر دے گا۔‘‘ راوی نے بیان کیا کہ پھر وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر کہنے لگے: یا رسول اللہ! آپ اللہ تعالیٰ سے قبیلہ مضر (قریش) کے لئے بارش کی دعا کر دیں کیونکہ وہ ہلاک ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قریش سے فرمایا: تم تو بڑے بہادر بنتے ہو (اب قدرت سے مقابلہ کرو) بہرحال آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بارش کی دعا کی تو ان پر بارش ہوئی۔ پھر یہ آیت نازل فرمائی گئی: ’’تم یقینا (وہی کفر) دہرانے لگو گے‘‘۔ چنانچہ جب ان پر خوش حالی کا دور آگیا تو خوش حالی آتے ہی اپنی اصلی حالت کی طرف لوٹ گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: ’’جس دن ہم بڑی سخت گرفت کریں گے تو (اس دن) ہم یقینا انتقام لے ہی لیں گے‘‘۔ راوی یہ بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد یومِ بدر ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
211 / 24. عَنْ مَسْرُوْقٍ قَالَ: أَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُوْدٍ رضي الله عنه فَقَالَ : إِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوْا عَنِ الإِْسْلَامِ، فَدَعَا عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتّٰی هَلَکُوْا فِيْهَا وَأَکَلُوْا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ، فَجَائَه أَبُوْ سُفْيَانَ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، جِئْتَ تَأْمُرُ بِصِلَةِ الرَّحِمِ وَإِنَّ قَوْمَکَ هَلَکُوْا فَادْعُ اللهَ، فَقَرَأَ: {فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍo} [الدخان، 44: 10] ثُمَّ عَادُوْا إِلٰی کُفْرِهِمْ، فَذَالِکَ قَوْلُه تَعَالٰی: {يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْکُبْرَی إِنَّا مُنْتَقِمُوْنَo} [الدخان، 44: 16] يَوْمَ بَدْرٍ.
212 / 25. وزاد البخاري في روايته: قَالَ أَبُوْ عَبْدِ اللهِ: وَزَادَ أَسْبَاطٌ عَنْ مَنْصُوْرٍ: فَدَعَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَسُقُوْا الْغَيْثَ فَأَطْبَقَتْ عَلَيْهِمْ سَبْعًا وَشَکَا النَّاسُ کَثْرَةَ الْمَطَرِ قَالَ: اَللّٰهُمَّ، حَوَالَيْنَا وَلَا عَلَيْنَا فَانْحَدَرَتِ السَّحَابَةُ عَنْ رَأْسِه فَسُقُوْا النَّاسُ حَوْلَهُمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
2425: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الاستسقاء، باب إذا استشفع المشرکون بالمسلمين عند القحط، 1 / 342، الرقم: 974، وأيضًا فيکتاب تفسير القرآن، باب وراودته التي هو في بيتها عن نفسه وغلقت الأبواب وقالت هيت لک، 4 / 1730، الرقم: 4416، وأيضًا في باب تفسير سورة آلم غلبت الروم، 4 / 1791، الرقم: 4496، ومسلم في الصحيح،کتاب صفة القيامة والجنة والنار، باب الدخان، 4 / 2155، الرقم: 2798، والترمذي في السنن،کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة الدخان، 5 / 297، الرقم: 3254، والنسائي في السنن الکبری، 6 / 456، الرقم: 11483، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 / 431، 441، الرقم: 4140، 4206، والحميدي في المسند، 1 / 63، الرقم: 116، وابن حبان في الصحيح، 11 / 80، الرقم:4764، وأبو يعلی في المسند، 9 / 78، الرقم: 5145، والطبراني في المعجم الکبير، 9 / 214، الرقم: 9046-9048، والبيهقي في السنن الکبری، 3 / 352، الرقم: 6221.
’’حضرت مسروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود کے پاس آیا اُنہوں نے کہا: (کفار) قریش نے اسلام لانے میں (حد درجہ) تاخیر کی تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے خلاف دعا فرمائی تو انہیں قحط سالی نے پکڑ لیا، یہاں تک کہ وہ مرنے لگے اور مردار اور ہڈیاں کھانے پر مجبور ہوگئے۔ پھر ابو سفیان آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا محمد! آپ صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں اور آپ کی قوم مررہی ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیتِ مبارکہ پڑھی ’’پس اس دن کا انتظار کیجیے جس دن آسمان سے ایک نظر آنے والا دھواں ظاہر ہوگا۔‘‘ پھر وہ اپنے کفر کی طرف لوٹ گئے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے اس ارشادِ مبارکہ: ’’(لیکن یاد رکھو کہ) جس دن ہم سخت (پکڑ) پکڑیں گے‘‘ سے مراد یوم بدر ہے۔‘‘
امام بخاری کی روایت میں اِن الفاظ کا اضافہ ہے: ’’حضرت ابو عبد اللہ نے کہا: اور اسباط نے منصور کے حوالے سے یہ اضافہ کیا ہے : پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی تو بارش ہوئی اور لگا تار سات دن تک بارش ہوتی رہی پھر لوگوں نے بارش کی کثرت کی شکایت کی توآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی: اے اللہ! (بارش) ہمارے گرد و پیش پر برسا، ہم پر نہ برسا۔ چنانچہ بادل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر مبارک سے ہٹ گئے اور اُن کے ارد گرد بارش جاری رہی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
213 / 26. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ: سُحِرَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وذکرت الحديث إلی أن قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَشَعَرْتِ أَنَّ اللهَ أَفْتَانِي فِيْمَا فِيْهِ شِفَائِي، أَتَانِي رَجُـلَانِ فَقَعَدَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأسِي وَالْأخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِـلْأخَرِ: مَا وَجَعُ الرَّجُلِ؟ قَالَ: مَطْبُوْبٌ، قَالَ: وَمَنْ طَبَّه؟ قَالَ: لَبِيْدُ بْنُ الْأَعْصَمِ، قَالَ: فِيْمَا ذَا؟ قَالَ: فِي مُشُطٍ وَمُشَاقَة، وَجُفِّ طَلْعَة ذَکَرٍ، قَالَ: فَأَيْنَ هُوَ؟ قَالَ: فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ، فَخَرَجَ إِلَيْهَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم ثُمَّ رَجَعَ فَقَالَ لِعَائِشَةَ حِيْنَ رَجَعَ: نَخْلُهَا کَأَنَّه رُئُوْسُ الشَّيَاطِيْنِ، فَقُلْتُ: اسْتَخْرَجْتَه؟ فَقَالَ: لَا، أَمَّا أَنَا فَقَدْ شَفَانِيَ اللهُ، وَخَشِيْتُ أَنْ يُثِيْرَ ذَالِکَ عَلَی النَّاسِ شَرًّا، ثُمَّ دُفِنَتِ الْبِئْرُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
26: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب بدء الخلق، باب صفة إبليس وجنوده، 3 / 1192، الرقم: 3095، وأيضًا فيکتاب الطب، باب السحر، 5 / 2174، الرقم: 5430، ومسلم في الصحيح،کتاب السلام، باب السحر، 4 / 17191720، الرقم: 2189، وابن ماجه في السنن،کتاب الطب، باب السحر، 2 / 1173، الرقم: 3545، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 380، الرقم: 7615، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 / 57، الرقم: 24345، والشافعي في المسند / 382، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 41، الرقم: 23519، وأبو يعلی في المسند، 8 / 290ـ 291، الرقم: 4882.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو کر دیا گیا۔ پھر اُنہوں نے حدیث بیان فرمائی یہاں تک کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (انہیں) فرمایا: کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے وہ بات بتا دی ہے جس میں میری شفا ہے؟ میرے پاس دو (فرشتے) آدمی (کی شکل میں) آئے ایک میرے سر کے پاس آ کھڑا ہوا اور دوسرا پاؤں کی طرف۔ اُن میں سے ایک نے دوسرے سے پوچھا: اِنہیں کیا تکلیف ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: اِن پر جادو کیا گیا ہے۔ پہلے نے دریافت کیا: جادو کس نے کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: لبید بن اعصم نے۔ پہلے نے پوچھا: کس طرح کیا ہے؟ دوسرے نے جواب دیا: کنگھی، روئی کے گالے اور نر کھجور کے اوپر والے چھلکے پر۔ پہلے نے سوال کیا: یہ چیزیں کہاں ہیں؟ دوسرے نے جواب دیا: زروان کے کنوئیں میں۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کنوئیں پر تشریف لے گئے اور واپس تشریف لے آئے۔ واپسی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ کو بتایا کہ وہاں کی کھجوریں ایسی ہیں جیسے شیاطین کے سر۔ حضرت عائشہ صدیقہ نے سوال کیا: (یارسول اللہ!) کیا آپ نے وہ چیزیں نکلوا لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں جہاں تک میرا تعلق ہے مجھے تو اللہ تعالیٰ نے شفا یاب کر دیا ہے۔ مجھے اندیشہ ہوا کہ اُنہیں نکلوانے سے لوگوں میں فساد برپا نہ ہو جائے (یعنی مسلمان کہیں لبید بن اعصم کو قتل نہ کر دیں) اِس لیے وہ کنواں ہی بند کر دیا گیا ہے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
214 / 27. عَنْ أَبِي مَحْذُوْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: خَرَجْتُ فِي نَفَرٍ فَکُنَّا بِبَعْضِ الطَّرِيْقِ فَأَذَّنَ مُؤَذِّنُ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِالصَّلَاةِ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَسَمِعْنَا صَوْتَ الْمُؤَذِّنِ وَنَحْنُ عَنْه مُتَنَکِّبُوْنَ، فَصَرَخْنَا نَحْکِيْهِ نَهْزَأُ بِه، فَسَمِعَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَرْسَلَ إِلَيْنَا قَوْمًا، فَأَقْعَدُوْنَا بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: أَيُّکُمْ الَّذِي سَمِعْتُ صَوْتَه قَدِ ارْتَفَعَ؟ فَأَشَارَ إِلَيَّ الْقَوْمُ کُلُّهُمْ وَصَدَقُوْا، فَأَرْسَلَ کُلَّهُمْ وَحَبَسَنِي، وَقَالَ لِي: قُمْ فَأَذِّنْ فَقُمْتُ وَلَا شَيئَ أَکْرَهُ إِلَيَّ مِنْ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَلَا مِمَّا يَأْمُرُنِي بِه، فَقُمْتُ بَيْنَ يَدَی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَلْقَی عَلَيَّ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم التَّأْذِيْنَ هُوَ بِنَفْسِه، فَقَالَ: قُلْ: اللهُ أَکْبَرُ اللهُ أَکْبَرُ، اللهُ أَکْبَرُ اللهُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ، ثُمَّ قَالَ لِي: ارْفَعْ مِنْ صَوْتِکَ: أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ، حَيَّ عَلَی الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَی الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَی الْفَـلَاحِ، حَيَّ عَلَی الْفَـلَاحِ، اللهُ أَکْبَرُ اللهُ أَکْبَرُ، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، ثُمَّ دَعَانِي حِيْنَ قَضَيْتُ التَّأْذِيْنَ فَأَعْطَانِي صُرَّةً فِيْهَا شَيئٌ مِنْ فِضَّة ثُمَّ وَضَعَ يَدَه عَلٰی نَاصِيَةِ أَبِي مَحْذُوْرَةَ ثُمَّ أَمَرَّهَا عَلٰی وَجْهِه ثُمَّ عَلٰی ثَدْيَيْهِ ثُمَّ عَلٰی کَبِدِه ثُمَّ بَلَغَتْ يَدُ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم سُرَّةَ أَبِي مَحْذُوْرَةَ، ثُمَّ قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : بَارَکَ اللهُ لَکَ وَبَارَکَ عَلَيْکَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَمَرْتَنِي بِالتَّأْذِيْنِ بِمَکَّةَ، قَالَ: نَعَمْ، قَدْ أَمَرْتُکَ فَذَهَبَ کُلُّ شَيئٍ کَانَ لِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ کَرَاهِيَة وَعَادَ ذَالِکَ کُلُّه مَحَبَّةً لِرَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَدِمْتُ عَلٰی عَتَّابِ بْنِ أَسِيْدٍ عَامِلِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَکَّةَ فَأَذَّنْتُ مَعَه بِالصَّلَاةِ عَنْ أَمْرِ رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم . رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَه وَأَحْمَدُ وَالشَّافِعِيُّ.
27: أخرجه النسائي في السنن،کتاب الأذان، باب کيف الأذان، 2 / 5، 6، الرقم: 632، وابن ماجه في السنن،کتاب الأذان والسنة فيها، باب الترجيع في الأذان، 1 / 234، الرقم: 708، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 409، الرقم: 15417، والشافعي في المسند / 31، والبيهقي في السنن الکبری، 1 / 393، الرقم: 1714، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 2 / 92، الرقم: 790، والدار قطني في السنن، 1 / 233، الرقم: 1.
’’حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک جماعت کے ساتھ راستے سے گزر رہا تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مؤذن نے اذان دی، ہم نے مؤذن کی اذان سنی تو اذان سے نفرت کی وجہ سے اذان کی نقلیں اُتارنا شروع کر دیں اور اُس کا مذاق اُڑانے لگے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہماری آوازوں کو سنا تو ہماری جانب کچھ لوگوں کو بھیجا جو ہمیں پکڑ کر لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس لے جا کر بٹھا دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سب سے اُونچی آواز کس کی تھی؟ لوگوں نے میری طرف اشارہ کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سب کو چھوڑ دیا اور مجھے پکڑ کر حکم دیا: اذان دو، میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے حکم سے سخت نفرت کرتا تھا۔ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے کھڑا ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود مجھے اذان بتانی شروع فرمائی، فرمایا: کہو: {اللهُ أَکْبَرُ اللهُ أَکْبَرُ، اللهُ أَکْبَرُ اللهُ أَکْبَرُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ} آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دوبارہ ان کلمات کو بلند آواز سے کہو: {أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ، أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ اللهِ، حَيَّ عَلَی الصَّلَاةِ، حَيَّ عَلَی الصَّلَاةِ} جب میں اذان پوری کر چکا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے بلایا اور ایک تھیلی دی جس میں کچھ چاندی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری پیشانی پر ہاتھ رکھ کر چہرے پر پھیرا، پھر اپنا ہاتھ میرے سینے پر پھیرا حتیٰ کہ ناف تک پھیرا، پھر فرمایا: اللہ برکت دے اور تجھ پر برکت نازل فرمائے (جس کی برکت سے میں اُسی وقت مسلمان ہو گیا)۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے مکہ میں مؤذن متعین فرما دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں میں تمہیں امیر بنائوں گا۔ اَس کے بعد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے میرے دل میں جو نفرت تھی وہ دور ہو گئی اور اُس کی جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت آ گئی۔ میں عتاب بن اسید کے پاس آیا جو مکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گورنر تھے تو میں نے اُن کے پاس حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے اذان دی۔‘‘
اِس حدیث کو امام نسائی اور ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور احمد و شافعی نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved