177 / 1. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ رضي الله عنه قَالَ: بَيْنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقْسِمُ، جَاءَ عَبْدُ اللهِ بْنُ ذِي الْخُوَيْصِرَةِ التَّمِيْمِيُّ فَقَالَ: اعْدِلْ يَا رَسُوْلَ اللهِ، قَالَ: وَيْحَکَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ. قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: ائْذَنْ لِي فَأَضْرِبَ عُنُقَه، قَالَ: دَعْه، فَإِنَّ لَه أَصْحَابًا، يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَه مَعَ صَلَاتِه وَصِيَامَه مَعَ صِيَامِه، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنَ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ، يُنْظَرُ فِي قُذَذِه فَـلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَصْلِه فَـلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمٌ يُنْظَرُ فِي رِصَافِه فَـلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، ثُمَّ يُنْظَرُ فِي نَضِيِّه فَـلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ …الحديث.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب استابة المرتدين والمعاندين، باب مَن ترک قتال الخوارجِ للتألف، ولئلا ينفر الناس عنه، 6 / 2540، الرقم: 6534،6532، وأيضًا فيکتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 / 1321، الرقم: 3414، وأيضًا فيکتاب فضائل القرآن، باب البکاء عند قرائة القرآن، 4 / 1928، الرقم: 4771، وأيضًا فيکتاب الأدب، باب ما جاء في قول الرجل ويلک، 5 / 2281، الرقم: 5811، وأيضًا عن جابر رضي الله عنه في الأدب المفرد / 270، الرقم: 774، ومسلم في الصحيح،کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 744، الرقم: 1064، ونحوه النسائي عن أبي برزة رضي الله عنه في السنن،کتاب تحريم الدم، باب من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم: 4103، وأيضًا في السنن الکبری، 6 / 355، الرقم: 11220، وابن ماجه في السنن، المقدمة، باب في ذکر الخوارج، 1 / 61، الرقم: 172، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 56، الرقم: 11554، 14861، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 562، الرقم: 37932، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 146، ونحوه البزار عن أبي برزة رضي الله عنه في المسند، 9 / 305، الرقم: 3846، وابن الجارود في المنتقی، 1 / 272، الرقم: 1083، وابن حبان في الصحيح، 15 / 140، الرقم: 6741، والحاکم عن أبي برزة رضي الله عنه في المستدرک، 2 / 160، الرقم: 2647، وقال: هَذَا حَدِيثٌ صَحِيْحٌ، وأبو يعلی في المسند، 2 / 298، الرقم: 1022، والطبراني في المعجم الأوسط، 9 / 35، الرقم: 9060، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 171.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ عبد اللہ بن ذی الخویصرہ تمیمی آیا اور کہنے لگا: یارسول اللہ! انصاف سے تقسیم کیجئے (اس کے اس طعن پر) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تیرا ناس ہو اگر میں انصاف نہیں کرتا تو اور کون کرتا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اجازت عطا فرمائیں کہ میں اس (خبیث منافق) کی گردن اُڑا دوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: رہنے دو اس کے کچھ ساتھی ایسے ہیں(یا ہوں گے) کہ ان کی نمازوں اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں تم اپنی نمازوں اور روزوں کو حقیر جانو گے لیکن وہ لوگ دین سے اس طرح خارج ہوں گے جس طرح تیر نشانہ سے پار نکل جاتا ہے۔ (تیر پھینکنے کے بعد) تیر کے پر کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی اثر نہ ہوگا۔ تیر کی باڑ کو دیکھا جائے گا تو اس میں بھی خون کا کوئی نشان نہ ہوگا اور تیر (جانور کے ) گو بر اور خون سے پار نکل چکا ہوگا۔ (ایسے ہی ان خبیثوں کی مثال ہے کہ دین کے ساتھ ان کا سرے سے کوئی تعلق ہی نہ ہو گا)۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
178 / 2. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: بَيْنَا النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقْسِمُ ذَاتَ يَوْمٍ قِسْمًا، فَقَالَ ذُوْ الْخُوَيْصَرَةِ، رَجُلٌ مِنْ بَنِي تَمِيْمٍ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اعْدِلْ، قَالَ: وَيْلَکَ مَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَعْدِلْ؟ فَقَالَ عُمَرُ: اِئْذَنْ لِي فَـلْأَضْرِبْ عُنُقَه، قَالَ: لَا، إِنَّ لَه أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَه مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَصِيَامَه مَعَ صِيَامِهِمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمُرُوْقِ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَةِ يَنْظُرُ إِلٰی نَصْلِه فَـلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلٰی رِصَافِه فَـلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلٰی نَضِيِّه فَـلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ ثُمَّ يَنْظُرُ إِلٰی قُذَذِه فَـلَا يُوْجَدُ فِيْهِ شَيئٌ، قَدْ سَبَقَ الْفَرْثَ وَالدَّمَ يَخْرُجُوْنَ عَلٰی حِيْنِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ، أيَتُهُمْ: رَجُلٌ إِحْدَی يَدَيْهِ مِثْلُ ثَدْيِ الْمَرْأَةِ أَوْ مِثْلُ الْبَضْعَةِ تَدَرْدَرُ. قَالَ أَبُوْ سَعِيْدٍ: أَشْهَدُ لَسَمِعْتُه مِنَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم، وَأَشْهَدُ أَنِّي کُنْتُ مَعَ عَلِيٍّ رضي الله عنه حِيْنَ قَاتَلَهُمْ، فَالْتُمِسَ فِي الْقَتْلٰی، فَأُتِيَ بِه عَلَی النَّعْتِ الَّذِي نَعْتَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم . مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الأدب، باب ما جاء في قول الرجل ويلک، 5 / 2281، الرقم: 5811، ومسلم في الصحيح،کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 744، الرقم: 1064، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 159، الرقم: 8560.8561، 6 / 355، الرقم: 11220، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 65، الرقم: 11639، وابن حبان في الصحيح، 15 / 140، الرقم: 6741، وعبد الرزاق في المصنف، 10 / 146، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 171.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے اُنہوں نے فرمایا: ایک روز حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالِ (غنیمت) تقسیم فرما رہے تھے تو ذو الخویصرہ نامی شخص نے جو کہ بنی تمیم سے تھا کہا: یا رسول اللہ! انصاف کیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو ہلاک ہو، اگر میں انصاف نہ کروں تو اور کون انصاف کرے گا؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) مجھے اجازت دیں کہ میں اس (گستاخ منافق) کی گردن اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بے شک اس کے (ایسے) ساتھی بھی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانو گے۔ (لیکن) وہ دین سے اس طرح نکلے ہوئے ہوں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، پھر اس کے پیکان پر کچھ نظر نہیں آتا، اس کے پٹھے پر بھی کچھ نظر نہیں آتا، اس کی لکڑی پر بھی کچھ نظر نہیں آتا اور نہ اس کے پروں پر کچھ نظر آتا ہے، وہ گوبر اور خون کو بھی چھوڑ کر نکل جاتا ہے۔ وہ لوگوں میں فرقہ بندی کے وقت (اسے ہوا دینے کے لئے) نکلیں گے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ ان میں ایک آدمی کا ہاتھ عورت کے پستان یا گوشت کے لوتھڑے کی طرح ہلتا ہو گا۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے یہ حدیث حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی ہے اور میں (یہ بھی) گواہی دیتا ہوں کہ میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا جب ان (خارجی) لوگوں سے جنگ کی گئی، اس شخص کو مقتولین میں تلاش کیا گیا تو اس وصف کا ایک آدمی مل گیا جو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا تھا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
179 / 3. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه يَقُوْلُ: بَعَثَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ إِلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مِنَ الْيَمَنِ بِذُهَيْبَةٍ فِي أَدِيْمٍ مَقْرُوْظٍ لَمْ تُحَصَّلْ مِنْ تُرَابِهَا. قَالَ: فَقَسَمَهَا بَيْنَ أَرْبَعَةِ نَفَرٍ بَيْنَ عُيَيْنَةَ ابْنِ بَدْرٍ وَأَقْرَعَ بْنِ حَابِسٍ وَزَيْدٍ الْخَيْلِ وَالرَّابِعُ إِمَّا عَلْقَمَةُ وَإِمَّا عَامِرُ بْنُ الطُّفَيْلِ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِه: کُنَّا نَحْنُ أَحَقَّ بِهٰذَا مِنْ هٰؤُلَاءِ قَالَ: فَبَلَغَ ذَالِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَقَالَ: أَلاَ تَأْمَنُوْنِي، وَأَنَا أَمِيْنُ مَنْ فِي السَّمَاءِ، يَأْتِيْنِي خَبَرُ السَّمَاءِ صَبَاحًا وَمَسَاءً، قَالَ: فَقَامَ رَجُلٌ غَائِرُ الْعَيْنَيْنِ، مُشْرِفُ الْوَجْنَتَيْنِ، نَاشِزُ الْجَبْهَةِ، کَثُّ اللِّحْيَةِ، مَحْلُوْقُ الرَّأْسِ، مُشَمَّرُ الإِزَارِ. فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اتَّقِ اللهَ، قَالَ: وَيْلَکَ، أَوَ لَسْتُ أَحَقَّ أَهْلِ الْأَرْضِ أَنْ يَتَّقِيَ اللهَ ؟ قَالَ: ثُمَّ وَلَّی الرَّجُلُ، قَالَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيْدِ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَلاَ أَضْرِبُ عُنُقَه؟ قَالَ: لَا، لَعَلَّه أَنْ يَکُوْنَ يُصَلِّي. فَقَالَ خَالِدٌ: وَکَمْ مِنْ مُصَلٍّ يَقُوْلُ بِلِسَانِه مَا لَيْسَ فِي قَلْبِه، قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنِّي لَمْ أُوْمَرْ أَنْ أَنْقُبَ عَنْ قُلُوْبِ النَّاسِ، وَلَا أَشُقَّ بُطُوْنَهُمْ، قَالَ: ثُمَّ نَظَرَ إِلَيْهِ وَهُوَ مُقَفٍّ، فَقَالَ: إِنَّه يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِيئِ هٰذَا قَوْمٌ يَتْلُوْنَ کِتَابَ اللهِ رَطْبًا لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَما يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ. وَأَظُنُّه قَالَ: لَئِنْ أَدْرَکْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
3.4: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب المغازي، باب بعث علي بن أبي طالب وخالد بن الوليد رضي الله عنهما إلي اليمن قبل حجة الوداع، 4 / 1581، الرقم: 4094، ومسلم في الصحيح،کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2 / 742، الرقم: 1064، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 4، الرقم: 11021، وابن خزيمة في الصحيح، 4 / 71، الرقم: 2373، وابن حبان في الصحيح، 1 / 205، الرقم: 25، وأبويعلی في المسند، 2 / 390، الرقم: 1163، وأبو نعيم في المسند المستخرج، 3 / 128، الرقم: 2375، وأيضًا في حلية الأولياء، 5 / 71، والعسقلاني في فتح الباري، 8 / 68، الرقم: 4094، وابن القيم في الحاشية، 13 / 16، والسيوطي في الديباج، 3 / 160، الرقم: 1064، وابن تيمية في الصارم المسلول / 188، 192.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے یمن سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں چمڑے کے ایک تھیلے میں کچھ سونا بھر کر بھیجا، جس سے ابھی تک مٹی بھی صاف نہیں کی گئی تھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ سونا چار آدمیوں عیینہ بن بدر، اقرع بن حابس، زید بن خیل اور چوتھے علقمہ یا عامر بن طفیل کے درمیان تقسیم فرما دیا۔ اس پر لوگوں میں سے بعض نے کہا: ان لوگوں سے تو ہم زیادہ حقدار تھے۔ جب یہ بات حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم مجھے امانت دار نہیں سمجھتے؟ حالانکہ آسمان والوں کے نزدیک تو میں امین ہوں۔ اُس کی خبریں تو میرے پاس صبح و شام آتی رہتی ہیں۔ راوی کا بیان ہے کہ پھر ایک آدمی کھڑا ہوا جس کی آنکھیں اندر کو دھنسی ہوئیں، رخساروں کی ہڈیاں اُبھری ہوئیں، اُونچی پیشانی، گھنی داڑھی، سر منڈا ہوا تھا اور وہ اونچا تہبند باندھے ہوئے تھا، وہ کہنے لگا: یا رسول اللہ! اللہ سے ڈریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو ہلاک ہو، کیا میں تمام اہلِ زمین سے زیادہ اللہ سے ڈرنے کا مستحق نہیں ہوں؟ سو جب وہ آدمی جانے کے لئے مڑا تو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو، شاید یہ نمازی ہو، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: بہت سے ایسے نمازی بھی تو ہیں کہ جو کچھ ان کی زبان پر ہے وہ دل میں نہیں ہوتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہ حکم نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں میں نقب لگاؤں اور ان کے پیٹ چاک کروں۔ راوی کا بیان ہے کہ وہ پلٹا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اس کی جانب دیکھا تو فرمایا: اس کی پشت سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو کتاب اللہ کی تلاوت سے زبان تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو قوم ثمود کی طرح انہیں قتل کر دوں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
180 / 4. وزاد مسلم: فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضي الله عنه، فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَ لَا أَضْرِبُ عُنُقَه؟ قَالَ: لَا، قَالَ: ثُمَّ أَدْبَرَ فَقَامَ إِلَيْهِ خَالِدٌ سَيْفُ اللهِ. فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَ لَا أَضْرِبُ عُنُقَه؟ قَالَ: لَا، فَقَالَ: إِنَّه سَيَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِيئِ هٰذَا قَوْمٌ، يَتْلُوْنَ کِتَابَ اللهِ لَيِّنًا رَطْبًا.
اور مسلم کی ایک روایت میں اضافہ ہے: ’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، پھر وہ شخص چلا گیا، پھر حضرت خالد سیف اللہ رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس (منافق) کی گردن نہ اڑا دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ اِس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو قرآن بہت ہی خوب صورت پڑھیں گے (مگر وہ اُن کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا)۔‘‘
181 / 5. عَنْ شَرِيْکِ بْنِ شِهَابٍ قَالَ: کُنْتُ أَتَمَنَّی أَنْ أَلْقَی رَجُـلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَسْأَلُه عَنِ الْخَوَارِجِ، فَلَقِيْتُ أَبَا بَرْزَةَ رضي الله عنه فِي يَوْمِ عِيْدٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِه، فَقُلْتُ لَه: هَلْ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَذْکُرُ الْخَوَارِجَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِأُذُنِي، وَرَأَيْتُه بِعَيْنِي، أُتِيَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَالٍ، فَقَسَمَه، فَأَعْطَی مَنْ عَنْ يَمِيْنِه وَمَنْ عَنْ شِمَالِه، وَلَمْ يُعْطِ مَنْ وَرَائَه شَيْئًا، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ وَرَائِه. فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، مَا عَدَلْتَ فِي الْقِسْمَةِ، رَجُلٌ أَسْوَدُ مَطْمُوْمُ الشَّعْرِ، عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَبْيَضَانِ (وزاد أحمد: بَيْنَ عَيْنَيْهِ أَثَرُ السُّجُوْدِ)، فَغَضِبَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم غَضَبًا شَدِيْدًا، وَقَالَ: وَاللهِ، لَا تَجِدُوْنَ بَعْدِي رَجُـلًا هُوَ أَعْدَلُ مِنِّي، ثُمَّ قَالَ: يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ کَأَنَّ هٰذَا مِنْهُمْ (وفي رواية: قَالَ: يَخْرُجُ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ رِجَالٌ کَانَ هٰذَا مِنْهُمْ هَدْيُهُمْ هٰکَذَا) يَقْرَءُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلَامِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ، سِيْمَاهُمُ التَّحْلِيْقُ، لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ، حَتّٰی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْبَزَّارُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
5: أخرجه النسائي في السنن،کتاب تحريم الدم، باب من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 / 119، الرقم: 4103، وأيضًا في السنن الکبری، 2 / 312، الرقم: 3566، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 / 421، وابن أبي شيبة في المصنف، 7 / 559، الرقم: 37917، والبزار في المسند، 9 / 294، 305، الرقم: 3846، والحاکم في المستدرک، 2 / 160، الرقم: 2647، وابن أبي عاصم في السنة، 2 / 452، الرقم 927، والطيالسي في المسند، 1 / 124، الرقم: 923، والعسقلاني في فتح الباري، 12 / 292، والقيسراني في تذکرة الحفاظ، 3 / 1101، وابن تيمية في الصارم المسلول / 188.
’’حضرت شریک بن شہاب نے بیان کیا کہ مجھے اس بات کی شدید خواہش تھی کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی صحابی سے ملوں اور ان سے خوارج کے متعلق دریافت کروں۔ اتفاقاً میں نے عید کے روز حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کو ان کے کئی دوستوں کے ساتھ دیکھا میں نے ان سے دریافت کیا: کیا آپ نے خارجیوں کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟انہوں نے فرمایا: ہاں، میں نے اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں کچھ مال پیش کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مال کو ان لوگوں میں تقسیم فرما دیا جو دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے اور جو لوگ پیچھے بیٹھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کچھ عنایت نہ فرمایا چنانچہ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا: اے محمد! آپ نے انصاف سے تقسیم نہیں کی۔ وہ شخص سیاہ رنگ، سر منڈا اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا (اور امام احمد بن حنبل کی روایت میں ہے کہ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان (ماتھے پر) سجدوں کا نشان تھا)۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی اس گستاخی پر شدید ناراض ہوئے اور فرمایا: خدا کی قسم! تم میرے بعد مجھ سے بڑھ کر کسی شخص کو انصاف کرنے والا نہ پاؤگے، پھر فرمایا: آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے یہ شخص بھی انہیں لوگوں میں سے ہے (اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مشرق کی طرف سے ایک قوم نکلے گی یہ آدمی بھی ان لوگوں میں سے ہے اور ان کا طور طریقہ بھی یہی ہوگا) وہ قرآن مجید کی(نہایت شیریں انداز میں) تلاوت کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ سرمنڈے ہوں گے ہمیشہ نکلتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا۔‘‘
اِس حدیث کو امام نسائی، احمد، ابن ابی شیبہ اور بزارنے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
182 / 6. عَنْ جَابِرٍ رضي الله عنه يَقُوْلُ: بَصَرَ عَيْنِي وَسَمِعَ أُذُنِي رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم بِالْجِعْرَانَةِ وَفِي ثَوْبِ بِـلَالٍ فِضَّةٌ وَرَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقْبِضُهَا لِلنَّاسِ يُعْطِيْهِمْ، فَقَالَ رَجُلٌ: اعْدِلْ، قَالَ: وَيْلَکَ، وَمَنْ يَعْدِلُ إِذَا لَمْ أَکُنْ أَعْدِلُ، قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، دَعْنِي أَقْتُلْ هٰذَا الْمُنَافِقَ الْخَبِيْثَ؟ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَعَاذَ اللهِ أَنْ يَتَحَدَّثَ النَّاسُ أَنِّي أَقْتُلُ أَصْحَابِي، إِنَّ هٰذَا وَأَصْحَابَه يَقْرَؤنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَةِ. رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
6: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 / 354، الرقم: 1461، وأبو نعيم في المسند المستخرج، 3 / 127، الرقم: 2372.
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میری آنکھوں نے دیکھا اور کانوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا: (جب) جعرانہ کے مقام پر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے کپڑوں (گود) میں چاندی تھی اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس میں سے مٹھیاں بھر بھر کے لوگوں کو عطا فرما رہے تھے تو ایک شخص نے کہا: عدل کریں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تو ہلاک ہو۔ اگر میں عدل نہیں کروں گا تو کون عدل کرے گا؟ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت عطا فرمائیں، میں اِس خبیث منافق کو قتل کر دوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (نہیں، ایسا مت کرو) میں لوگوں کی ان باتوںسے کہ میں اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کرنے لگ گیا ہوں اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتا ہوں۔ بے شک یہ اور اس کے (دوسرے منافق) ساتھی (نہایت شیریں انداز میں) قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نہیں اُترے گا، وہ دین کے دائرے سے یوں خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘ اِس حدیث کو امام احمد اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
183 / 7. عَنْ عَمْرِو بْنِ دِيْنَارٍ رضي الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما يَقُوْلُ: کُنَّا فِي غَزَاةٍ فَکَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ رَجُـلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: يَا لَـلْأَنْصَارِ، وَقَالَ الْمُهَاجِرِيُّ: يَا لَلْمُهَاجِرِينَ، فَسَمَّعَهَا اللهُ رَسُوْلَه صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا هٰذَا؟ فَقَالُوْا: کَسَعَ رَجُلٌ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ رَجُـلًا مِنَ الْأَنْصَارِ، فَقَالَ الْأَنْصَارِيُّ: يَا لَلأَنْصَارِ، وَقَالَ الْمُهَاجِرِيُّ: يَا لَلْمُهَاجِرِيْنَ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : دَعُوْهَا فَإِنَّهَا مُنْتِنَةٌ، قَالَ جَابِرٌ: وَکَانَتِ الْأَنْصَارُ حِيْنَ قَدِمَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم أَکْثَرَ ثُمَّ کَثُرَ الْمُهَاجِرُوْنَ بَعْدُ، فَقَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ أُبَيٍّ: أَوَ قَدْ فَعَلُوْا، وَاللهِ، لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِيْنَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: دَعْنِي، يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَضْرِبْ عُنُقَ هٰذَا الْمُنَافِقِ، قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : دَعْه، لَا يَتَحَدَّثُ النَّاسُ أَنَّ مُحَمَّدًا يَقْتُلُ أَصْحَابَه. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
7: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب تفسير القرآن، باب قوله: {سَوَاءٌ عَلَيْهِمْ أَسْتَغْفَرْتَ لَهُمْ أَمْ لَمْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ لَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ إِنَّ اللهَ لَا يَهْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ}، 4 / 1861، الرقم: 4622، وأيضًا في باب قوله: {يَقُولُونَ لَئِنْ رَجَعْنَا إِلَی الْمَدِينَةِ لَيُخْرِجَنَّ الْأَعَزُّ مِنْهَا الْأَذَلَّ وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُوْمِنِينَ وَلَکِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَا يَعْلَمُونَ}، 4 / 1863، الرقم: 4624، ومسلم في الصحيح،کتاب البر والصلة والآداب، باب نصر الأخ ظالما أو مظلوما، 4 / 1998، الرقم: 2584، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة المنافقين، 5 / 417، الرقم: 3315، والنسائي في السنن الکبری، 5 / 271، الرقم: 8863، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 392، الرقم: 15260، وابن حبان في الصحيح، 14 / 544، الرقم: 6582، وعبد الرزاق في المصنف، 9 / 468469، الرقم: 18041، وأبو يعلی في المسند، 3 / 458، الرقم: 1957، والبيهقي في السنن الکبری، 9 / 32، الرقم: 17644.
’’حضرت عمرو بن دینار کا بیان ہے کہ میں نے حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما کو فرماتے ہوئے سنا: مہاجرین میں سے ایک آدمی نے انصار کے ایک آدمی کو ٹھوکر مار دی تو انصاری نے آواز دی: انصار کی مدد کرو۔ مہاجر نے بھی آواز دی: مہاجرین کی مدد کرو، جب اللہ تعالیٰ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بات سنائی(یعنی وحی سے واقعہ پر مطلع فرمایا) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا ماجرا ہے؟ لوگوں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) ایک مہاجر نے ایک انصاری کو ٹھوکر مار دی ہے۔ انصاری نے انصار کو مدد کے لئے پکارا ہے اور مہاجر نے مہاجرین کو پکارا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِس طرح (قبیلوں اور برادریوں کو) پکارنا چھوڑ دو، یہ تو بری بات ہے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ کی جانب ہجرت فرمائی تو انصار تعداد میں زیادہ تھے لیکن بعد میں مہاجرین کی تعداد زیادہ ہو گئی۔ اِس پر عبد اللہ بن ابی (منافق) نے کہا: کیا اِن مہاجرین نے ایسا کیا؟ بخدا! اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو جو سب سے زیادہ عزت والا ہے وہ اس سے ضرور اسے نکال دے گا جو سب سے زیادہ ذلت والا ہے۔ اِس پر حضرت عمررضی اللہ عنہ عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! مجھے اجازت مرحمت فرمائیے کہ میں اِس منافق کی گردن اُڑا دوں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کرو کیونکہ لوگ باتیں بنائیں گے کہ محمد تو اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتے ہیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
184 / 8. عَنْ عِکْرِمَةَ مَوْلَی ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما يَقُوْلُ: قَالَ عَبْدُ اللهِ بْنُ عَبْدِ اللهِ ابْنِ أُبَيٍّ لِلنَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم : دَعْنِي أَقْتُلْ أَبِي، فَإِنَّه يُؤْذِي اللهَ وَرَسُوْلَه. قَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَقْتُلْ أَبَاکَ ثُمَّ ذَهَبَ ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْهِ فَقَالَ: دَعْنِي أَقْتُلْهُ فَقَالَ: لَا تَقْتُلْ أَبَاکَ، ثُمَّ جَاءَ الثَّالِثَةَ فَقَالَ لَه: مِثْلَ ذَالِکَ، قَالَ: فَتَوَضَّأْ يَا رَسُوْلَ اللهِ، لَعَلِّي أَسْقِيْهِ، لَعَلَّه أَنْ يَلِيْنَ قَلْبُه. قَالَ: فَتَوَضَّأَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم، فَسَقَاهُ إِيَاه.
رَوَاهُ عَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي عَاصِمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
8: أخرجه عبد الرزاق في المصنف، 3 / 538، الرقم: 6627، والحاکم في المستدرک، 3 / 679، الرقم: 6490.6491، وابن أبي عاصم في الاحاد والمثاني، 4 / 23، الرقم: 1967، وابن قانع في معجم الصحابة، 1 / 203، والقاضي عياض في الشفا، 1 / 503، الرقم: 1241، والهيثمي في مجمع الزوائد، 9 / 318، والعسقلاني في فتح الباري، 8 / 650، وأيضًا في الإصابة، 4 / 155، وابن جرير الطبری في جامع البيان، 28 / 113، وابن الجوزي في صفوة الصفوة، 1 / 608.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے آزاد کردہ غلام حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن ابی(منافق) کے بیٹے (جو کہ صحابی تھے) حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اجازت دیں کہ میں اپنے والد (منافقین کے سردار عبد اللہ بن ابی) کو قتل کر دوں کیونکہ وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذیت پہنچاتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (اے عبد اللہ!) اپنے والد کو مت قتل کرو وہ چلے گئے (کچھ دیر بعد) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ!) مجھے اجازت عطا کریں میں اسے (یعنی اپنے والد کو) قتل کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے والد کو مت قتل کرو۔ پھر وہ تیسری مرتبہ آئے اور پھر یہی عرض کیا: اور اسی طرح کا جواب ملا۔ تو وہ عرض کرنے لگے: یا رسول اللہ! آپ وضو فرمائیں اور (مجھے اپنے وضو کا پانی عطا کر دیں) شائد اس (بابرکت پانی) سے اس(منافق) کے دل میں نرمی و رقت پیدا ہو جائے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وضو فرمایا اور (وضو کا پانی) انہیں عطا کیا تو انہوں نے اپنے والد کو وہ پانی پلایا۔‘‘
اِس حدیث کو امام عبد الرزاق، حاکم اور ابن ابی عاصم نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
185 / 9. عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما أَنَّ عَبْدَ اللهِ بْنَ أُبَيٍّ لَمَّا تُوُفِّيَ جَاءَ ابْنُه إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَعْطِنِي قَمِيْصَکَ أُکَفِّنْه فِيْهِ وَصَلِّ عَلَيْهِ وَاسْتَغْفِرْ لَه فَأَعْطَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم قَمِيْصَه فَقَالَ: أذِنِّي أُصَلِّي عَلَيْهِ فَأذَنَه فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَيْهِ جَذَبَه عُمَرُ رضي الله عنه فَقَالَ: أَلَيْسَ اللهُ نَهَاکَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَی الْمُنَافِقِيْنَ فَقَالَ: أَنَا بَيْنَ خِيَرَتَيْنِ قَالَ: {اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَغْفِرَ اللهُ لَهُمْ} [التوبة، 9:80] فَصَلّٰی عَلَيْهِ فَنَزَلَتْ: {وَلَا تُصَلِّ عَلٰی أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا}. [التوبة، 9:84]. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
9: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجنائز، باب الکفن في القميص الذي يکف أو لا يکف ومن کفن بغير قميص، 1 / 427، الرقم: 1210، وأيضًا فيکتاب تفسير القرآن، باب قوله: استغفر لهم أو لا تستغفر لهم إن تستغفر لهم سبعين مرة، 4 / 1715، الرقم: 4393، ومسلم في الصحيح، کتاب صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2141، الرقم: 2774، وأيضًا في کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل عمر، 4 / 1865، الرقم: 2400، والترمذي في السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة التوبة، 5 / 279، الرقم: 3098، وقال: هذا حديث حسن صحيح، وأبو داود نحوه في السنن،کتاب الجنائز، باب في العبادة، 3 / 184، الرقم: 3094، والنسائي في السنن،کتاب الجنائز، باب القميص في الکفن، 4 / 36، الرقم: 1900، وابن ماجه في السنن، کتاب ما جاء في الجنائز، باب في الصلاة علی أهل القبلة، 1 / 487، الرقم: 1523، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 18، الرقم: 4680، وابن حبان في الصحيح، 7 / 447، الرقم: 3175.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ جب (رئیس المنافقین) عبد اللہ بن اُبی فوت ہو گیا تو اس کے بیٹے (حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ جو کہ صحابی تھے) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! مجھے اپنی قمیص مبارک عطا فرمائیے کہ اس سے میں اپنے والد کو کفن دوں اور آپ اُس کی نماز جنازہ پڑھیں اور اُس کے لئے دعائے مغفرت بھی فرمائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی قمیض عطا فرما دی اور فرمایا: (جنازہ کے وقت) مجھے اطلاع کر دینا تاکہ اس پر نماز پڑھوں۔ سو جب اطلاع دی گئی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر نماز پڑھنے کا ارادہ (کرتے ہوئے قیام) فرمایاتو حضرت عمر نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو روکا اور عرض گزار ہوئے: (یا رسول اللہ! کیا) اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین پر نماز پڑھنے سے منع نہیں فرمایا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے دونوں باتوں کا اختیار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اگر آپ (اپنی طبعی شفقت اور عفو و درگزر کی عادتِ کریمانہ کے پیشِ نظر) ان کے لیے سترّ مرتبہ بھی بخشش طلب کریں تو بھی اللہ تعالیٰ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا۔‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پر نماز پڑھی تو وحی نازل ہوئی: ’’اور آپ کبھی بھی ان (منافقوں) میں سے جو کوئی مر جائے اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھیں۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
186 / 10. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ أَتَی رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم عَبْدَ اللهِ بْنَ أُبَيٍّ بَعْدَ مَا أُدْخِلَ حُفْرَتَه، فَأَمَرَ بِه، فَأُخْرِجَ، فَوَضَعَه عَلٰی رُکْبَتَيْه، وَنَفَثَ عَلَيْهِ مِنْ رِيْقِه وَأَلْبَسَه قَمِيْصَه، فَاللهُ أَعْلَمُ، وَکَانَ کَسَا عَبَّاسًا رضي الله عنه قَمِيْصًا قَالَ سُفْيَانُ: وَقَالَ أَبُوْ هَارُوْنَ: وَکَانَ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَمِيْصَانِ فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبْدِ اللهِ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَلْبِسْ أَبِي قَمِيْصَکَ الَّذِي يَلِي جِلْدَکَ قَالَ سُفْيَانُ: فَيُرَوْنَ أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم أَلْبَسَ عَبْدَ اللهِ قَمِيْصَه مُکَافَأَةً لِمَا صَنَعَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
10: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجنائز، باب هل يخرج الميت من القبر واللحد لعلة، 1 / 453، الرقم: 1285، وأيضًا فيکتاب اللباس، باب لبس القميص، 5 / 2184، الرقم: 5459، ومسلم في الصحيح،کتاب صفات المنافقين وأحکامهم، 4 / 2140، الرقم: 2773، والنسائي في السنن،کتاب الجنائز، باب أخراج الميت من اللحد بعد أن يوضع فيه، 4 / 84، الرقم: 2019، وأبو يعلی في المسند، 3 / 458، الرقم: 1958، وابن کثير في تفيسر القرآن العظيم، 2 / 380، والعيني في عمدة القاري، 8 / 164، وأيضًا، 21 / 310.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عبد اللہ بن اُبی کی قبر پر تشریف لے گئے جبکہ اسے گڑھے میں داخل کر دیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر اسے باہر نکالا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے گھٹنوں پر رکھا۔ اس پر اپنا لعاب دہن ڈالا اور اپنی قمیص اسے پہنائی۔ کیونکہ اُس(عبد اللہ بن ابی) نے (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا) حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو قمیص پہنائی تھی۔ حضرت سفیان اور حضرت امام ابو ہارون یحیی نے فرمایا: اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اطہر پر دو قمیصیں تھیں۔ عبد اللہ بن ابی کے بیٹے (حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ جو کہ صحابی تھے) نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرے باپ کو وہ قمیص پہنائیے جو جسم اطہر سے لگی ہوئی ہے۔ حضرت سفیان نے بیان کیا کہ لوگوں کا خیال ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس لیے عبد اللہ بن اُبی کو اپنی قمیص پہنائی کہ اس کے احسان کا بدلہ ہو جائے۔ (جو کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اپنی قمیص بطور کفن پہنا کر کیا تھا)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
187 / 11. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: قَدِمَ طُفَيْلُ بْنُ عَمْرٍو الدَّوْسِيُّ وَأَصْحَابُه عَلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ دَوْسًا عَصَتْ (وفي رواية مسلم: قَدْ کَفَرَتْ) وَأَبَتْ، فَادْعُ اللهَ عَلَيْهَا، فَقِيْلَ: هَلَکَتْ دَوْسٌ، قَالَ: اَللّٰهُمَّ، اهْدِ دَوْسًا وَأْتِ بِهِمْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
11: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجهاد والسير، باب الدعاء للمشرکين بالهدی ليتألفهم، 3 / 1073، الرقم: 2779، ومسلم في الصحيح،کتاب فضائل الصحابة، باب من فضائل غفار وأسلم وجهينة وأشجع ومزينة وتميم ودوس وطيی، 4 / 1957، الرقم: 2524، والطبراني في المعجم الکبير، 8 / 326، الرقم: 8219، وأيضًا في مسند الشاميين، 4 / 296، الرقم: 3352.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضرت طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بارگاِ نبوت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! قبیلہ دوس والوں نے نافرمانی کی (امام مسلم کی روایت میں ہے: اُنہوں نے کفر کیا) اور حق سے منکر ہوئے، اُن کی بربادی کے لیے بد دعا کیجئے۔ کہا گیا: دوس ہلاک ہوئے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ان کے لئے) دعا فرمائی: اے اللہ! قبیلہ دوس کو ہدایت عطا فرما اور اُنہیں دین میں واپس لے آ۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved