166 / 1. عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رضي الله عنه أَنَّ رَجُـلًا عَلٰی عَهْدِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ اسْمُه عَبْدَ اللهِ، وَکَانَ يُلَقَّبُ حِمَارًا، وَکَانَ يُضْحِکُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَکَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم قَدْ جَلَدَه فِي الشَّرَابِ، فَأُتِيَ بِه يَوْمًا، فَأَمَرَ بِه، فَجُلِدَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: اَللّٰهُمَّ، الْعَنْهُ مَا أَکْثَرَ مَا يُؤْتَی بِه؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَلْعَنُوْهُ، فَوَاللهِ، مَا عَلِمْتُ إِنَّه يُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَه.
وفي رواية: لَا تَلْعَنْهُ فَإِنَّه يُحِبُّ اللهَ وَرَسُوْلَه.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَعَبْدُ الرَّزَّاقِ وَالْبَزَّارُ وَأَبُوْ يَعْلٰی.
1: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الحدود، باب ما يکره من لعن شارب الخمر وأنه ليس بخارج من الملة، 6 / 2489، الرقم: 6398، وأبو يعلی في المسند،1 / 161، الرقم: 176، وعبد الرزاق في المصنف، 7 / 381، الرقم: 13552، والبزار في المسند، 1 / 393، الرقم: 269، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 3 / 228، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 312، الرقم: 17273، والقاضي عياض في مشارق الأنوار، 1 / 371، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 / 184، الرقم: 92.93.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عہد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک شخص تھا جس کا نام عبد اللہ اور لقب حمار تھا، اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہنسایا کرتا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس پر شراب نوشی کی حد جاری فرمائی۔ ایک روز پھر اسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حالتِ نشہ میں لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے اُسے کوڑے مارے گئے۔ لوگوں میں سے کسی نے کہا: اے اللہ! اِس پر لعنت فرما یہ کتنی دفعہ (اِس جرم میں) لایا گیا ہے۔ اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِس پر لعنت نہ بھیجو، میں جانتا ہوں کہ یہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اِس پر لعنت نہ بھیجو کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، عبد الرزاق، بزار اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
167 / 2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ جُلُوْسٌ عِنْدَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذْ جَائَه رَجُلٌ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، هَلَکْتُ، قَالَ: مَا لَکَ؟ قَالَ: وَقَعْتُ عَلَی امْرَأَتِي وَأَنَا صَائِمٌ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : هَلْ تَجِدُ رَقَبَةً تُعْتِقُهَا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَهَلْ تَسْتَطِيْعُ أَنْ تَصُوْمَ شَهْرَيْنِ مُتَتَابِعَيْنِ؟ قَالَ: لَا، فَقَالَ: فَهَلْ تَجِدُ إِطْعَامَ سِتِّيْنَ مِسْکِيْنًا؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَمَکَثَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَبَيْنَا نَحْنُ عَلٰی ذَالِکَ أُتِيَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِعَرَقٍ فِيْهَا تَمْرٌ وَالْعَرَقُ الْمِکْتَلُ، قَالَ: أَيْنَ السَّائِلُ؟ فَقَالَ: أَنَا، قَالَ: خُذْ هٰذَا فَتَصَدَّقْ بِه، فَقَالَ الرَّجُلُ: أَعَلٰی أَفْقَرَ مِنِّي يَا رَسُوْلَ اللهِ؟ فَوَاللهِ، مَا بَيْنَ لَابَتَيْهَا، يُرِيْدُ الْحَرَّتَيْنِ، أَهْلُ بَيْتٍ أَفْقَرُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي، فَضَحِکَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم حَتّٰی بَدَتْ أَنْيَابُه ثُمَّ قَالَ: أَطْعِمْهُ أَهْلَکَ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وَقَالَ أَبُوْ دَاوُدَ: زَادَ الزُّهْرِيُّ: وَإِنَّمَا کَانَ هٰذَا رُخْصَةً لَه خَاصَّةً فَلَوْ أَنَّ رَجُـلًا فَعَلَ ذَالِکَ الْيَوْمَ لَمْ يَکُنْ لَه بُدٌّ مِنَ التَّکْفِيْرِ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الصوم، باب إذا جامع في رمضان ولم يکن له شيء فتصدق عليه فليکفر، 2 / 684، الرقم: 1834، وأيضًا فيکتاب کفارات الأيمان، باب متی تجب الکفارة علی الغني والفقير، 6 / 2467، الرقم: 6331، وأيضًا في باب يعطي في الکفارة عشرة مساکين قريبا کان أو بعيدا، 6 / 2468، الرقم: 6333، ومسلم في الصحيح، کتاب الصيام، باب تغليظ تحريم الجماع في نهار رمضان علی الصائم ووجوب الکفارة الکبری فيه، 2 / 817، الرقم: 111، والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في کفارة الفطر في رمضان، 3 / 102، الرقم: 724، وقال: حديث أبي هريرة حديث حسن صحيح، وأبو داود في السنن، کتاب الصوم، باب کفارة من أتي أهله في رمضان، 2 / 313، الرقم: 2390، وابن ماجه في السنن، کتاب الصيام، باب ما جاء في کفارة من أفطر يوما من رمضان،1 / 534، الرقم: 1671، والنسائي في السنن الکبری، 2 / 212، الرقم: 3117، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 241، الرقم: 7288، وأيضًا، 6 / 276، الرقم: 26402.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی حاضر ہوا اور اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں ہلاک ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تمہیں کیا ہوا؟ اُس نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے صحبت کر بیٹھا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس آزاد کرنے کے لیے غلام ہے؟ اُس نے عرض کیا: نہیں۔ فرمایا: کیا تم دو مہینوں کے متواتر روزے رکھ سکتے ہو؟وہ عرض گزار ہوا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیا تم ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا سکتے ہو؟اس نے عرض کیا: نہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ دیر خاموش رہے اور ہم وہیں تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک عرق پیش کیا گیا جس میں کھجوریں تھیں، اور عرق ایک پیمانہ ہے۔ فرمایا: سائل کہاں ہے؟ وہ عرض گزار ہوا: میں حاضر ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اِنہیں لے جا کر خیرات کر دو (یہ تمہارا کفارہ ہے)۔ وہ آدمی عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ! کیا اپنے سے (بھی) زیادہ غریب پر؟ خدا کی قسم! اِن دونوں سنگلاخ میدانوں کے درمیان (یعنی مدینہ منورہ کی وادی میں) کوئی گھر ایسا نہیں جو میرے گھر سے زیادہ غریب ہو۔ اِس پرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسکرا دیئے یہاں تک کہ پچھلے دانت مبارک نظر آنے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے فرمایا: جاؤ اپنے گھر والوں کو ہی کھلا دو (تمہارا کفارہ ادا ہو جائے گا)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
اور امام ابو داود نے فرمایا: امام زہری نے اس میں یہ اضافہ کیا ہے: ’’یہ رخصت (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے) اُس آدمی کے لئے خاص تھی، سو آج اگر کوئی آدمی اس طرح روزہ توڑ لے تو اُس کے لئے (شرعی) کفارہ ادا کرنا واجب ہے۔‘‘
168 / 3. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ فَبَالَ فِي طَائِفَةِ الْمَسْجِدِ فَزَجَرَهُ النَّاسُ، فَنَهَاهُمُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَلَمَّا قَضٰی بَوْلَه أَمَرَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِذَنُوْبٍ مِنْ مَاءٍ فَأُهْرِيْقَ عَلَيْهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
3: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الوضوء، باب صب الماء علی البول في المسجد، 1 / 89، الرقم: 219، ومسلم في الصحيح،کتاب الطهارة، باب وجوب غسل البول، 1 / 236، الرقم: 284.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دیہاتی آیا اور مسجد کے ایک گوشے میں پیشاب کرنے لگا۔ لوگوں نے اُسے ڈانٹا تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں منع کیا۔ جب وہ پیشاب سے فارغ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک ڈول پانی لانے کا حکم فرمایا جو اُس (پیشاب) پر بہا دیا گیا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
169 / 4. عَنْ بُرَيْدَةَ رضي الله عنه قَالَ جَاءَ مَاعِزُ بْنُ مَالِکٍ رضي الله عنه إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، طَهِرْنِي، فَقَالَ: وَيْحَکَ، ارْجِعْ، فَاسْتَغْفِرِ اللهَ، وَتُبْ إِلَيْهِ، قَالَ: فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيْدٍ، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، طَهِرْنِي، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : وَيْحَکَ، ارْجِعْ، فَاسْتَغْفِرِ اللهَ، وَتُبْ إِلَيْهِ، قَالَ: فَرَجَعَ غَيْرَ بَعِيْدٍ، ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، طَهِرْنِي، فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : مِثْلَ ذَالِکَ، حَتّٰی إِذَا کَانَتِ الرَّابِعَةُ قَالَ لَه رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : فِيْمَ أُطَهِرُکَ؟ فَقَالَ: مِنَ الزِّنٰی، فَسَأَلَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَبِه جُنُوْنٌ؟ فَأُخْبِرَ أَنَّه لَيْسَ بِمَجْنُوْنٍ، فَقَالَ: أَشَرِبَ خَمْرًا؟ فَقَامَ رَجُلٌ: فَاسْتَنْکَهَه، فَلَمْ يَجِدْ مِنْهُ رِيْحَ خَمْرٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَزَنَيْتَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَ بِه، فَرُجِمَ، فَکَانَ النَّاسُ فِيْهِ فِرْقَتَيْنِ، قَائِلٌ يَقُوْلُ: لَقَدْ هَلَکَ لَقَدْ أَحَاطَتْ بِه خَطِيْئَتُه، وَقَائِلٌ يَقُوْلُ: مَا تَوْبَةٌ أَفْضَلَ مِنْ تَوْبَةِ مَاعِزٍ، أَنَّه جَاءَ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَوَضَعَ يَدَه فِي يَدِه ثُمَّ قَالَ: اقْتُلْنِي بِالْحِجَارَةِ، قَالَ: فَلَبِثُوْا بِذَالِکَ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَـلَاثَةً، ثُمَّ جَاءَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَهُمْ جُلُوْسٌ، فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوْا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: فَقَالُوْا: غَفَرَ اللهُ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتْهُمْ…الحديث.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالنَّسَائِيُّ وَالدَّارَ قُطْنِي وَأَبُوْ عَوَانَةَ وَالطَّبَرَانِيُّ.
4: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب الحدود، باب من اعترف علی نفسه بالزنی، 3 / 1321-1322، الرقم: (1)1695، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 276، الرقم: 7163، والدار قطني في السنن، 3 / 91، الرقم: 39، وأبو عوانة في المسند، 4 / 134135، الرقم: 6292، والطبراني في المعجم الأوسط، 5 / 118، الرقم: 4843، والبيهقي في السنن الکبری، 6 / 83، الرقم: 11231.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تیرا ناس ہو، جاؤ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو، اور توبہ کرو۔ اُنہوں نے پھر تھوڑی دیر بعد آکر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اُسی طرح فرمایا، اُنہوں نے پھر تھوڑی دیر بعد آ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر اُسی طرح فرمایا، حتی کہ چوتھی بار اُن سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: میں تمہیں کس چیز سے پاک کروں؟ اُنہوں نے عرض کیا: زنا سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے(لوگوں سے) اُن کے متعلق پوچھا: اِس کا ذہنی توازن تو خراب نہیں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: نہیں، وہ کوئی پاگل نہیں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: کیا اِس نے شراب پی ہے؟ ایک شخص نے کھڑے ہو کر اُن کا منہ سونگھا تو شراب کی بدبو محسوس نہیں کی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے زنا کیا ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا: ہاں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں رجم کرنے کا حکم دیا، اِس کے بعد حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کے متعلق لوگوں کے دو گروہ بن گئے، بعض کہتے: ماعز ہلاک ہو گئے اور اِس گناہ نے اُنہیں گھیر لیا اور بعض لوگ کہتے: ماعز کی توبہ سے کسی کی توبہ افضل نہیں ہے کہ وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر عرض کیا: مجھے پتھروں سے مار ڈالیے، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دو، تین دن صحابہ کرام میں یہی اختلاف رہا، پھر ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے درآں حالیکہ صحابہ کرام بیٹھے ہوئے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سلام کرنے کے بعد تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: ماعز بن مالک کے لیے استغفار کرو، صحابہ کرام نے کہا: اللہ تعالیٰ ماعز بن مالک کی مغفرت فرمائے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ماعز نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے تمام اُمت پر تقسیم کر دیا جائے تو (بخشش کے لیے) سب کو کافی ہو گی۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، نسائی، دار قطنی، ابو عوانہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
170 / 5. عَنْ بُرَيْدَةَ رضي الله عنه قَالَ: فَجَائَتِ الْغَامِدِيَةُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي قَدْ زَنَيْتُ فَطَهِرْنِي، وَإِنَّه رَدَّهَا، فَلَمَّا کَانَ الْغَدُ قَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، لِمَ تَرُدُّنِي؟ لَعَلَّکَ أَنْ تَرُدَّنِي کَمَا رَدَدْتَ مَاعِزًا، فَوَاللهِ، إِنِّي لَحُبْلٰی، قَالَ: إِمَّا لَا، فَاذْهَبِي حَتّٰی تَلِدِي، فَلَمَّا وَلَدَتْ أَتَتْهُ بِالصَّبِيِّ فِي خِرْقَةٍ قَالَتْ: هٰذَا قَدْ وَلَدْتُه، قَالَ: اذْهَبِي، فَأَرْضِعِيْهِ حَتّٰی تَفْطِمِيْهِ، فَلَمَّا فَطَمَتْهُ أَتَتْهُ بِالصَّبِيِّ فِي يَدِه کِسْرَةُ خُبْزٍ فَقَالَتْ: هٰذَا يَا نَبِيَّ اللهِ، قَدْ فَطَمْتُه وَقَدْ أَکَلَ الطَّعَامَ، فَدَفَعَ الصَّبِيَّ إِلٰی رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَحُفِرَ لَهَا إِلٰی صَدْرِهَا وَأَمَرَ النَّاسَ فَرَجَمُوْهَا، فَيُقْبِلُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيْدِ بِحَجَرٍ فَرَمٰی رَأْسَهَا فَتَنَضَّحَ الدَّمُ عَلٰی وَجْهِ خَالِدٍ فَسَبَّهَا، فَسَمِعَ نَبِيُّ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم سَبَّه إِيَاهَا فَقَالَ: مَهْـلًا يَا خَالِدُ، فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِه، لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ تَابَهَا صَاحِبُ مَکْسٍ لَغُفِرَ لَه، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا فَصَلّٰی عَلَيْهَا وَدُفِنَتْ…الحديث. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَالدَّارِمِيُّ وَأَحْمَدُ.
5: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب الحدود، باب من اعترف علی نفسه بالزنی، 3 / 1323، الرقم: (2) 1695، وأبو داود في السنن،کتاب الحدود، باب المرأة التي أمر النبي صلی الله عليه وآله وسلم برجمها من جهينة، 4 / 152، الرقم: 4440، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 304، الرقم: 7271، والدارمي في السنن، 2 / 234، الرقم: 2324، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 348، الرقم: 22999، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 543، الرقم: 28809، وأبو عوانة في المسند، 4 / 136137، الرقم: 6295، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 221، الرقم: 16743.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ (ماعز بن مالک کے قصہ توبہ کے بعد) بیان کرتے ہیں: اِس کے بعد ایک غامدیہ عورت آئی اور عرض کرنے لگی: یا رسول اللہ! میں نے زنا کیا ہے، مجھے پاک کر دیجئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے واپس بھیج دیا، دوسرے دن آ کر اُس نے پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے مجھے کیوں واپس کر دیا؟ شاید آپ مجھے ماعز کی طرح واپس کرنا چاہتے ہیں لیکن خدا کی قسم! میں زنا سے حاملہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اچھا، اگر ایسا ہے تو پھر ابھی نہیں، واپس جاؤ اور بچہ پیدا ہونے کے بعد آنا، بچہ پیدا ہونے کے بعد وہ عورت اُس بچے کو ایک کپڑے میں لپیٹ کر لائی اورعرض کیا: لیجئے، یہ میرا بچہ پیدا ہوگیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جاؤ جا کر اِسے دودھ پلاؤ، حتی کہ اِس کی مدتِ رضاعت ختم ہو جائے، جب بچے کی مدتِ رضاعت ختم ہو گئی تو وہ اُسے اِس حال میں لے کر آئی کہ اُس کے ہاتھ میں روٹی کا ایک ٹکڑا تھا۔ اُس نے عرض کیا: لیجئے! یا نبی اللہ! اِس کا دودھ چھوٹ گیا ہے اور اب یہ کھانا کھانے لگا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ بچہ ایک مسلمان شخص کے حوالے کیا، اور حکم دیا کہ اُس عورت کے لئے سینہ تک ایک گڑھا کھود اجائے، اور لوگوں کو اُسے رجم کرنے کا حکم دیا۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک پتھر لے کر آگے بڑھے اور اُس کے سر پر پتھر مارا، جس سے خون حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے منہ پر گرا، حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے اُس عورت کو برا بھلا کہا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں برا بھلا کہتے ہوئے سن لیا، اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے خالد، ایسا نہ کہو، اِس عورت نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر (ظلماً) خراج لینے والا بھی ایسی توبہ کرتا تو اُسے بخش دیا جاتا، پھر آپ نے اُس صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں حکم دیا اور اُس کی نمازِ جنازہ پڑھی اور پھر اُسے دفن کر دیا گیا۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، ابو داود، نسائی، دارمی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
171 / 6. عَنِ اللَّجْلَاجِ أَنَّه کَانَ قَاعِدًا يَعْتَمِلُ فِي السُّوْقِ فَمَرَّتِ امْرَأَةٌ تَحْمِلُ صَبِيًّا، فَثَارَ النَّاسُ مَعَهَا وَثِرْتُ فِيْمَنْ ثَارَ، فَانْتَهَيْتُ إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يَقُوْلُ: مَنْ أَبُوْ هٰذَا مَعَکِ؟ فَسَکَتَتْ، فَقَالَ شَابٌّ: حَذْوَهَا أَنَا أَبُوْهُ، يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَأَقْبَلَ عَلَيْهَا، فَقَالَ: مَنْ أَبُوْ هٰذَا مَعَکِ؟ قَالَ الْفَتَی: أَنَا أَبُوْهُ، يَا رَسُوْلَ اللهِ، فَنَظَرَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلٰی بَعْضِ مَنْ حَوْلَه، يَسْأَلُهُمْ عَنْه، فَقَالُوْا: مَا عَلِمْنَا إِلَّا خَيْرًا، فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَحْصَنْتَ؟ قَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَ بِه، فَرُجِمَ، قَالَ: فَخَرَجْنَا بِهِ فَحَفَرْنَا لَه حَتّٰی أَمْکَنَّا، ثُمَّ رَمَيْنَاهُ بِالْحِجَارَةِ حَتّٰی هَدَأَ، فَجَاءَ رَجُلٌ يَسْأَلُ عَنِ الْمَرْجُوْمِ، فَانْطَلَقْنَا بِه إِلَی النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقُلْنَا: هٰذَا جَاءَ يَسْأَلُ عَنِ الْخَبِيْثِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَهُوَ أَطْيَبُ عِنْدَ اللهِ مِنْ رِيْحِ الْمِسْکِ، فَإِذَا هُوَ أَبُوْهُ، فَأَعَنَّاه عَلٰی غُسْلِه وَتَکْفِيْنِه وَدَفْنِه.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَالطَّبَرَانِيُّ.
6: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الحدود، باب رجم ماعز بن مالک، 4 / 150، الرقم: 4435، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 282، الرقم: 7184، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 / 479، الرقم: 15976، والطبراني في المعجم الکبير، 19 / 219، الرقم: 488، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 218، الرقم: 16731، وابن عساکر في تاريخ مدينة دمشق، 50 / 293.
’’حضرت لجلاج رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ بازار میں بیٹھے کام کر رہے تھے کہ ایک عورت گزری جس نے (ناجائز)بچہ اُٹھایا ہوا تھا، لوگ اُس کے ساتھ چل دیئے اور میں بھی ساتھ چلنے والوں میں ہو گیا، یہاں تک کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں جا پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس عورت سے فرما رہے تھے: تمہارے ساتھ اِس کا باپ کون ہے؟ وہ خاموش رہی، اُس کے برابر کھڑے ایک نوجوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اِس کا باپ میں ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عورت کی جانب متوجہ ہو کر دوبارہ فرمایا۔ تمہارے ساتھ اِس کا باپ کون ہے؟ نوجوان نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اِس کا باپ میں ہوں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کے بارے میں جاننے کے لئے اُس کے ارد گرد کھڑے لوگوں کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ وہ عرض گزار ہوئے: اِس کے بارے میں بھلائی کے سوا ہمیں اور کچھ معلوم نہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے پوچھا: کیا تم شادی شدہ ہو؟ اُس نے عرض کیا: جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے سنگسار کرنے کا حکم فرمایا، ہم اُسے باہر لے گئے، اُس کے لئے گڑھا کھودا، پھر اُسے پتھر مارے یہاں تک کہ وہ جاں بحق ہو گیا۔ اِس کے بعد ایک آدمی آ کر اُس کے متعلق پوچھنے لگا تو ہم اُسے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں لے گئے اور ہم نے عرض کیا: یہ اُس خبیث کے متعلق پوچھ رہے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں (خبیث نہیں) بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک مشک سے بھی زیادہ خوشبو دار ہے۔ پھر جب ہمیں معلوم ہوا کہ یہ اُس کا والد ہے تو ہم نے غسل اور کفن دفن میں اُس کی مدد کی۔‘‘ اِس حدیث کو امام ابو داود، نسائی، احمد اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
172 / 7. عَنْ نُعَيْمِ بْنِ هَزَّالٍ رضي الله عنه قَالَ: کَانَ مَاعِزُ بْنُ مَالِکٍ رضي الله عنه يَتِيْمًا فِي حِجْرِ أَبِي، فَأَصَابَ جَارِيَةً مِنَ الْحَيِّ، فَقَالَ لَه أَبِي: ائْتِ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَخْبِرْهُ بِمَا صَنَعْتَ لَعَلَّه يَسْتَغْفِرُ لَکَ، وَإِنَّمَا يُرِيْدُ بِذَالِکَ رَجَاءَ أَنْ يَکُوْنَ لَه مَخْرَجًا، فَأَتَاه، فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي زَنَيْتُ فَأَقِمْ عَلَيَّ کِتَابَ اللهِ، فَأَعْرَضَ عَنْه، فَعَادَ، فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنِّي زَنَيْتُ فَأَقِمْ عَلَيَّ کِتَابَ اللهِ، فَأَعْرَضَ عَنْه، فَعَادَ، فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اﷲ،ِ إِنِّي زَنَيْتُ فَأَقِمْ عَلَيَّ کِتَابَ اللهِ، حَتّٰی قَالَهَا أَرْبَعَ مِرَارٍ، قَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّکَ قَدْ قُلْتَهَا أَرْبَعَ مَرَّاتٍ فَبِمَنْ؟ قَالَ: بِفُـلَانَةٍ، فَقَالَ: هَلْ ضَاجَعْتَهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: هَلْ بَاشَرْتَهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: هَلْ جَامَعْتَهَا؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَأَمَرَ بِه أَنْ يُرْجَمَ، فَأُخْرِجَ بِه إِلَی الْحَرَّةِ، فَلَمَّا رُجِمَ فَوَجَدَ مَسَّ الْحِجَارَةِ جَزِعَ، فَخَرَجَ يَشْتَدُّ، فَلَقِيَه عَبْدُ اللهِ بْنُ أُنَيْسٍ، وَقَدْ عَجَزَ أَصْحَابُه، فَنَزَعَ لَه بِوَظِيْفِ بَعِيْرٍ، فَرَمَاه بِه فَقَتَلَه، ثُمَّ أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَذَکَرَ ذَالِکَ لَه، فَقَالَ: هَلَّا تَرَکْتُمُوْهُ، لَعَلَّه أَنْ يَتُوْبَ، فَيَتُوْبَ اللهُ عَلَيْهِ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
7: أخرجه أبو داود في السنن،کتاب الحدود، باب رجم ماعز بن مالک ص، 4 / 145، الرقم: 4419، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 290، الرقم: 7205، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 216، الرقم: 21940، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 538، الرقم: 28767، والحاکم في المستدرک، 4 / 404، الرقم: 8082، والطبراني في المعجم الکبير، 22 / 201، الرقم: 530، والبيهقي في السنن الکبری، 8 / 219، الرقم: 16735
’’حضرت نعیم بن ہزال رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک یتیم ہونے کے باعث میرے والد ماجد کے زیر تربیت تھے۔ وہ اپنے قبیلے کی ایک لڑکی سے بدکاری کر بیٹھے۔ میرے والد ماجد نے اُن سے کہا: تم نے جو کچھ کیا ہے وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کر دو، شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے لیے مغفرت کی دعا کریں، اُنہوں نے یہ ارادہ اس اُمید پر کیا تھا کہ شاید اُن کے لیے کوئی راستہ نکل آئے۔ سو وہ حاضرِ بارگاہ ہوکر عرض گزار ہوئے: یا رسول اللہ! میں بدکاری کر بیٹھا ہوں، سو کتاب اللہ کا حکم مجھ پر نافذ فرمائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن سے منہ پھیر لیا۔ اُنہوں نے دوبارہ عرض کیا: یا رسول اللہ! میں بدکاری کر بیٹھا ہوں، مجھ پر اللہ تعالیٰ کی کتاب کا حکم قائم فرمائیے۔ یہاں تک کہ اُنہوں نے چار دفعہ ایسا کہہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے یہ بات چار دفعہ کہی ہے۔ یہ کام کس سے کیا ہے؟ عرض کیا: فلاں عورت سے۔ فرمایا: کیا تم اُس کے ساتھ لیٹے تھے؟ عرض کیا: ہاں۔ فرمایا: مباشرت کی تھی؟ عرض گزار ہوئے: ہاں۔ فرمایا: کیا اُس سے جماع کیا تھا؟ عرض کیا: ہاں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں سنگسار کرنے کا حکم فرمایا۔ پس اُنہیں حرہ کی جانب لے گئے جب پتھر مارے گئے تو پتھر لگنے کی وجہ سے وہ گھبرا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔ حضرت عبد اللہ بن انیس رضی اللہ عنہ نے اُنہیں پکڑ لیا جبکہ اُن کے دیگر ساتھی عاجز ہوگئے تھے۔ پس اُنہوں نے اُونٹ کی ایک ہڈی ماری جس سے وہ جاں بحق ہو گئے۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر تمام واقعہ کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے اُسے چھوڑ کیوں نہ دیا، شاید وہ توبہ کر لیتا اور اللہ تعالیٰ اُس کی توبہ قبول فرما لیتا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، نسائی، احمد اور حاکم نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
173 / 8. عَنْ نُعَيْمِ بْنِ هَزَّالٍ رضي الله عنه قَالَ: أَنَّ مَاعِزًا رضي الله عنه أَتَی النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَأَقَرَّ عِنْدَه أَرْبَعَ مَرَّاتٍ، فَأَمَرَ بِرَجْمِه، وَقَالَ لِهَزَّالٍ: لَوْ سَتَرْتَه بِثَوْبِکَ کَانَ خَيْرًا لَکَ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ.
8: أخرجه أبو داود في السنن،کتاب الحدود، باب الستر علی أهل الحدود، 4 / 134، الرقم: 4377، والنسائي في السنن الکبری، 4 / 305، الرقم: 7274، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 / 216، الرقم: 21940، وعبد الرزاق في المصنف، 7 / 323، الرقم: 13342، وابن أبي شيبة في المصنف، 5 / 540، الرقم: 28784، والحاکم في المستدرک، 4 / 403، الرقم: 8080.
’’حضرت نعیم بن ہزال رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت ماعز رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر چار مرتبہ (بدکاری کا) اقرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں سنگسار کرنے کا حکم دیا اور حضرت ہزال رضی اللہ عنہ سے (جو کہ حضرت ماعز کے سرپرست تھے) فرمایا: اگر تم اُسے اپنے کپڑے میں چھپا لیتے (یعنی اس کی پردہ پوشی کرتے) تو تمہارے لیے بہتر تھا۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اس حدیث کی سند صحیح ہے۔
174 / 9. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما قَالَ: کُنَّا فِي غَزْوَةٍ، فَحَاصَ النَّاسُ حَيْصَةً، قُلْنَا: کَيْفَ نَلْقِي النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم وَقَدْ فَرَرْنَا؟ فَنَزَلَتْ: {إِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ} [الانفال، 8: 16] فَقُلْنَا: لَا نَقْدِمُ الْمَدِيْنَةَ فَـلَا يَرَانَا أَحَدٌ. فَقُلْنَا: لَوْ قَدِمْنَا. فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم مِنْ صَلَاةِ الْفَجْرِ، قُلْنَا: نَحْنُ الْفَرَّارُوْنَ، قَالَ: أَنْتُمُ الْعَکَّارُوْنَ، قَالَ: فَدَنَوْنَا فَقَبَّلْنَا يَدَه، فَقَالَ: أَنَا فِئَةُ الْمُسْلِمِيْنِ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ وَاللَّفْظُ لَه.
9: أخرجه أبو داود في السنن،کتاب الجهاد، باب في التولی يوم الزحف، 3 / 46، الرقم: 2647، والبخاري في الأدب المفرد / 338، الرقم: 972، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 / 70، الرقم: 5384، وابن أبي شيبة في المصنف، 6 / 541، الرقم: 33686، والحسيني في البيان والتعريف، 1 / 295، الرقم: 786.
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک غزوہ میں تھے کہ لوگ بری طرح بکھر کر محاذ سے پیچھے ہٹ گئے تو ہم نے کہا کہ اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے۔ ہم لوگ (جنگ سے) بھاگ گئے۔ اس پر آیت نازل ہوئی: ’’بجز ان کے جو جنگی چال کے طور پر رُخ بدل دیں۔‘‘ ہم نے کہا: اب مدینہ منورہ نہیں جائیں گے تاکہ ہمیں کوئی نہ دیکھے۔ پھر سوچا کہ مدینہ میں چلے جائیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صبح کی نماز کے لیے باہر تشریف لائے۔ ہم نے عرض کیا: ہم بھگوڑے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ تم پلٹ کر حملہ کرنے والے ہو۔ پس ہم قریب ہوئے اور ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دستِ اقدس چوم لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں مسلمانوں کی پناہ گاہ ہوں۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، احمد اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔
175 / 10. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : شَفَاعَتِي لِأَهْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ أُمَّتِي. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
10: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب صفة القيامة والرقائق والورع، باب ما جاء في الشفاعة، 4 / 625، الرقم: 2435، وأبو داود في السنن،کتاب السنة، باب في الشفاعة، 4 / 236، الرقم: 4739، وابن ماجه عن جابر رضي الله عنه في السنن، کتاب الزهد، باب ذکر الشفاعة، 2 / 1441، الرقم: 4310، وأبو يعلی في المسند، 6 / 40، الرقم: 3284، والحاکم في المستدرک،1 / 139، الرقم: 228، والطبراني في المعجم الصغير، 1 / 272، الرقم: 448، والطيالسي في المسند، 1 / 233، الرقم: 1669.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میری شفاعت میری اُمت کے اُن افراد کے لئے ہے جو کبائر کے مرتکب ہوئے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ امام حاکم نے بھی فرمایا: یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
176 / 11. عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضي الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : خُيِّرْتُ بَيْنَ الشَّفَاعَةِ وَبَيْنَ أَنْ يُدْخَلَ نِصْفُ أُمَّتِي الْجَنَّةَ. فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ لِأَنَّهَا أَعَمُّ وَأَکْفَی أَتَرَوْنَهَا لِلْمُتَّقِيْنَ؟ لَا. وَلٰـکِنَّهَا لِلْمُذْنِبِيْنَ، الْخَطَّائِيْنَ الْمُتَلَوِّثِيْنَ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَه وَأَحْمَدُ.
11: أخرجه ابن ماجه في السنن،کتاب الزهد، باب ذکر الشفاعة، 2 / 1441، الرقم:4311، وأحمد بن حنبل عن ابن عمر رضي الله عنهما في المسند، 2 / 75، الرقم: 5452، والبيهقي في الاعتقاد، 1 / 202، والهيثمي في مجمع الزوائد، 10 / 378.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے یہ اختیار دیا گیا کہ خواہ میں قیامت کے روز شفاعت کو چن لوں یا میری آدھی اُمت کو (بلاحساب و کتاب) جنت میں داخل کر دیا جائے تو میں نے اس میں سے شفاعت کو اختیار کیا ہے کیونکہ وہ زیادہ عام اور (پوری اُمت کے لئے) زیادہ کفایت کرنے والی ہوگی اور تم شائد یہ خیال کرو کہ وہ پرہیزگاروں کے لئے ہو گی؟ نہیں بلکہ وہ (میری شفاعت) بہت زیادہ گناہگاروں ، خطاکاروں اور برائیوں میں مبتلا ہونے والوں کے لئے ہو گی۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved