127 /1. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ وَأَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنهما عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا يُصِيْبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ، وَلَا وَصَبٍ، وَلَا هَمٍّ، وَلَا حَزَنٍ، وَلَا أَذًی، وَلَا غَمٍّ، حَتَّی الشَّوْکَةِ يُشَاکُهَا إِلَّا کَفَّرَ اللهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
1: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب المرضی، باب ما جاء فيکفارة المرض، 5 /2137، الرقم: 5318، ومسلم في الصحيح،کتاب البر والصلة والآداب، باب ثواب المومن فيما يصيبه من مرض أو حزن أو نحو ذلک، 4 /1992، الرقم: 2573، والترمذي في السنن،کتاب الجنائز، باب ما جاء في ثواب المريض، 3 /298، الرقم: 966، وابن حبان في الصحيح، 7 /166، الرقم: 2905، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /303، الرقم: 8014، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 /441، الرقم: 10806، وأبو يعلی في المسند، 2 /433، الرقم: 1237، وعبد بن حميد في المسند، 1 /298، الرقم: 961، والبيهقي في السنن الکبری، 3 /373، الرقم: 6329.
’’حضرت ابو سعید خدری اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو پہنچنے والی کوئی مشکل، تکلیف، غم، ملال، اذیت اور کوئی دُکھ ایسا نہیں، (کہ جس کا اسے بارگاہ الٰہی سے اجر نہ ملے) حتی کہ اگر اُس کے پیر میں کانٹا بھی چبھے تو اللہ تعالیٰ اُس کی وجہ سے اُس کے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
128 /2. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها زَوْجَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَتْ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَا مِنْ مُصِيْبَةٍ تُصِيْبُ الْمُسْلِمَ إِلَّا کَفَّرَ اللهُ بِهَا عَنْهُ حَتَّی الشَّوْکَةِ يُشَاکُهَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وفي رواية مسلم: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُشَاکُ شَوْکَةً فَمَا فَوْقَهَا إِلَّا کُتِبَتْ لَه بِهَا دَرَجَةٌ وَمُحِيَتْ عَنْه بِهَا خَطِيْئَةٌ.
2: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب المرضی، باب ما جاء في کفارة المرض، 5 /2137، الرقم: 5317، ومسلم في الصحيح،کتاب البر والصلة والآداب، باب ثواب المومن فيما يصيبه من مرض أو حزن أو نحو ذلک، 4 /1991، 1992، الرقم: 2572، والنسائي في السنن الکبری، 4 /352، 353، الرقم: 7485، 7488، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 /88، 173، الرقم: 24617، 25442، وابن حبان في الصحيح، 7 /167، 187، 188، الرقم: 2906، 2925، وعبد الرزاق في المصنف، 11 /197، الرقم: 20312، والطبراني في المعجم الأوسط، 2 /363، الرقم: 2240،، والطيالسي في المسند، 1 /197، الرقم: 1380، والديلمي في مسند الفردوس، 3 /249، الرقم: 4735.
’’اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کوئی مصیبت ایسی نہیں جو کسی مسلمان کو پہنچے مگر یہ کہ اُس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اُس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ یہاں تک کہ اُس کانٹے کے بدلہ میں بھی جو اُسے چبھے (اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف فرماتا ہے)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
امام مسلم کی روایت میں ہے: ’’مسلمان کو کانٹا چبھ جائے یا اُس سے بھی کم کوئی تکلیف پہنچے تو اِس کے بدلہ میں اُس کے نامہ اعمال میں ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے اور اُس کا ایک گناہ مٹا دیا جاتا ہے۔‘‘
129 /3. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ: دَخَلْتُ عَلٰی رَسُوْلِ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يُوْعَکُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّکَ لَتُوْعَکُ وَعْکًا شَدِيْدًا؟ قَالَ: أَجَلْ، إِنِّي أُوْعَکُ کَمَا يُوْعَکُ رَجُـلَانِ مِنْکُمْ، قُلْتُ: ذَالِکَ بِأَنَّ لَکَ أَجْرَيْنِ؟ قَالَ: أَجَلْ، ذَالِکَ کَذَالِکَ، مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيْبُهُ أَذًی، شَوْکَةٌ فَمَا فَوْقَهَا، إِلَّا کَفَّرَ اللهُ بِهَا سَيِّئَاتِه کَمَا تَحُطُّ الشَّجَرَةُ وَرَقَهَا.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
3: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب المرضی، باب أشد الناس بلاء الأنبياء ثم الأول فالأول، 5 /2139، الرقم: 5324، وأيضًا في باب وضع اليد علی المريض، 5 /2143، الرقم: 5336، وأيضًا في باب قول المريض: إني وجع أو وارأساه أو اشتد بي الوجع، 5 /2145، الرقم: 5343، ومسلم في الصحيح،کتاب البر والصلة والآداب، باب ثواب المومن فيما يصيبه من مرض أو حزن أو نحو ذلک، 4 /1991، الرقم: 2571، والدارمي في السنن، 2 /408، الرقم: 2771، والنسائي في السنن الکبری، 4 /352، الرقم: 7483، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /455، الرقم: 4346، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 /440، الرقم: 10800، وابن حبان في الصحيح، 7 /199، الرقم: 2937، وأبو يعلی في المسند، 9 /99، الرقم: 5164، والطيالسي في المسند،1 /49، الرقم: 370.
’’حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بخار تھا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ کو تو بہت شدیدبخار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، مجھے اِتنا بخار ہے جتنا تم میں سے دو آدمیوں کو ہوتا ہے۔ میں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ! کیا) اِسی وجہ سے آپ کے لیے دوگنا اجر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ہاں، میرا معاملہ ایسا ہی ہے لیکن کوئی مسلمان ایسا نہیں کہ اُسے کانٹا چبھنے کی تکلیف یا اُس سے زیادہ کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اُس کے بدلہ میں اُس کے گناہ جھاڑ دیتا ہے جیسے درخت اپنے خشک پتے جھاڑ دیتا ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
130 /4. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ خَمْسٌ: رَدُّ السَّـلَامِ وَعِيَادَةُ الْمَرِيْضِ، وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ، وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ، وَتَشْمِيْتُ الْعَاطِسِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
4: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجنائز، باب الأمر باتباع الجنائز، 1 /418، الرقم: 1183، ومسلم في الصحيح،کتاب السلام، باب من حق المسلم للمسلم ردّ السلام، 4 /1704، الرقم: 2162، وأبو داود في السنن،کتاب الأدب، باب في العطاس، 4 /307، الرقم: 5030، وابن ماجه في السنن،کتاب الجنائز، باب ما جاء في عيادة المريض، 1 /461، الرقم: 1435، والنسائي في السنن الکبری، 6 /64، الرقم: 10049، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /540، الرقم: 10979، وابن حبان في الصحيح، 1 /476، الرقم: 241، وأبو يعلی في المسند،10 /340، الرقم: 5934، والطيالسي في المسند،1 /303، الرقم: 2299، والحاکم في المستدرک،1 /550، الرقم: 1292.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حق ہیں: سلام کاجواب دینا، بیمار کی عیادت کرنا، اُس کے جنازہ کے ساتھ جانا، اُس کی دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
131 /5. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ إِذَا أَتَی مَرِيْضًا أَوْ أُتِيَ بِه، قَالَ: أَذْهِبِ الْبَاسَ، رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُکَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
5: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب المرضی، باب دعاء العائد للمريض، 5 /2147، الرقم:5351، ومسلم في الصحيح،کتاب السلام، باب استحباب رقية المريض، 4 /1722، الرقم: 2191، والترمذي عن علي رضی الله عنه في السنن،کتاب الدعوات، باب في دعاء المريض، 5 /561، الرقم: 3565، وابن ماجه في السنن،کتاب الطب، باب ما عوذ به النبي صلی الله عليه وآله وسلم وما عوذ به، 2 /1163، الرقم: 3520، والنسائي في السنن الکبری، 4 /358، الرقم: 7508، وأحمد بن حنبل في المسند، 6 /278، الرقم: 26412، وأبو يعلی في المسند، 8 /239، الرقم: 4811، وابن حبان في الصحيح، 7 /237، الرقم: 2971.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی مریض کے پاس تشریف لے جاتے یا کسی مریض کو آپ کی خدمت میں لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں دعا فرماتے: {أَذْهِبِ الْبَاسَ، رَبَّ النَّاسِ، اشْفِ وَأَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُکَ شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا} ’’اے لوگوں کے ربّ! تکلیف کو دور فرما دے اور شفاء عطا فرما، بے شک شفاء دینے والا تو ہے۔ شفاء نہیں مگر تیری شفاء، ایسی شفاء مرحمت فرما جو بیماری کا نشان تک نہ چھوڑے۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
132 /6. عَنِ السَّائِبِ ابْنِ يَزِيْدَ رضی الله عنه يَقُوْلُ: ذَهَبَتْ بِي خَالَتِي إِلَی النَّبِِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، إِنَّ ابْنَ أُخْتِي وَجِعٌ، فَمَسَحَ رَأْسِي وَدَعَا لِي بِالْبَرَکَةِ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، فَشَرِبْتُ مِنْ وَضُوْئِه، ثُمَّ قُمْتُ خَلْفَ ظَهْرِه، فَنَظَرْتُ إِلٰی خَاتَمِ النُّبُوَّةِ بَيْنَ کَتِفَيْهِ، مِثْلَ زِرِّ الْحَجَلَةِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
6: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الوضوء، باب استعمال فضل وضوء الناس، 1 /81، الرقم: 187، وأيضًا فيکتاب المناقب، باب کنية النبي صلی الله عليه وآله وسلم، 3 /1301، الرقم: 3347، وأيضًا في باب خَاتَم النبوة، 3 /1301، الرقم: 3348، وأيضًا فيکتاب المرضی، باب من ذهب بالصبي المريض ليدعی له، 5 /2146، الرقم: 5346، وأيضًا في کتاب الدعوات، باب الدعاء للصبيانِ بالبرکة ومسحِ رؤوسهم، 5 /2337، الرقم: 5991، ومسلم في الصحيح، کتاب الفضائل، باب إثبات خاتَم النبوة وصفته ومحله من جسده صلی الله عليه وآله وسلم، 4 /1823، الرقم: 2345، والنسائي في السنن الکبری، 4 /361، الرقم: 7518، والطبراني في المعجم الکبير، 7 /157، الرقم: 6682، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 4 /379، الرقم: 2420، 3430.
’’حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میری خالہ جان مجھے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں لے جا کر عرض گزار ہوئیں: یا رسول اللہ! میرا بھانجا بیمار ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میرے سر پر اپنا دستِ اقدس پھیرا اور میرے لئے برکت کی دعا فرمائی پھر وضو فرمایا تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وضو کا پانی پیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے کھڑا ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دونوں مبارک شانوں کے درمیان مہرِ نبوت کی زیارت کی جو کبوتر (یا اس کی مثل کسی پرندے) کے انڈے جیسی (سفید و روشن) تھی۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
133 /7. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ يُرِدِ اللهُ بِه خَيْرًا يُصِبْ مِنْهُ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَمَالِکٌ وَأَحْمَدُ.
7: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المرضی، باب ما جاء في کفارة المرض، 5 /2138، الرقم: 5321، ومالک في الموطأ، کتاب العين، باب ما جاء في أجر المريض، 2 /941، الرقم: 1684، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /237، الرقم: 7234، والنسائي في السنن الکبری، 4 /351، الرقم: 7478، وابن حبان في الصحيح، 7 /168، الرقم: 2907، والقضاعي في مسند الشهاب، 1 /224، الرقم: 344، والربيع في المسند / 255، الرقم: 651، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 /142، الرقم: 5162.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرمائے اُسے (بیماریوں) تکالیف (اور آزمائشوں) میں مبتلا کر دیتا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، نسائی، مالک اور احمد نے روایت کیا ہے۔
134 /8. عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم غَيْرَ مَرَّةٍ وَلَا مَرَّتَيْنِ يَقُوْلُ: إِذَا کَانَ الْعَبْدُ يَعْمَلُ عَمَلًا صَالِحًا فَشَغَلَه عَنْه مَرَضٌ أَوْ سَفَرٌ کُتِبَ لَه کَصَالِحِ مَا کَانَ يَعْمَلُ وَهُوَ صَحِيْحٌ مُقِيْمٌ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَاللَّفْظُ لَه وَأَحْمَدُ.
8: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجهاد، باب يکتب للمسافر ما کان يعمل في الإقامة، 3 /1092، الرقم: 2834، وأبو داود في السنن،کتاب الجنائز، باب إذا کان الرجل يعمل عملا صالحًا فشغله عنه مرض أو سفر، 3 /183، الرقم: 3091، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /410، 418، الرقم: 19694، 19768، والحاکم في المستدرک، 1 /491، الرقم: 1261، وعبد بن حميد في المسند، 1 /189، الرقم: 534، والطبراني في المعجم الأوسط، 1 /82، الرقم: 236، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 10 /24، والبيهقي في السنن الکبری، 3 /374، الرقم: 6339، وأيضًا في شعب الإيمان، 7 /182، الرقم: 9928.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعریرضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک یا دو بار نہیں کئی مرتبہ یہ فرماتے سنا: جب کوئی شخص مستقل نیک کام کرتا رہتا ہے لیکن کسی وقت وہ اُسے بیماری یا سفر کے باعث پوری طرح نہیں کر پاتا تو اُس کے لیے دریں حالات بھی اتنا ہی اجر لکھا جائے گا جتنا صحت و قیام کی حالت میں لکھا جاتا تھا۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، ابو داود نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اور احمد نے روایت کیا ہے۔
135 /9. عَنْ أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: أَطْعِمُوْا الْجَائِعَ، وَعُوْدُوْا الْمَرِيْضَ، وَفُکُّوْا الْعَانِيَ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
9: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب الأطعمة، باب قول اللہ تعالٰی: {کلوا من طيبات ما رزقناکم}، 5 /2055، الرقم: 5058، ويضًا في کتاب المرضی، باب وجوب عيادة المريض، 5 /2139، الرقم: 5325، وأبو داود في السنن،کتاب الجنائز، باب الدعاء للمريض بالشفاء عند العيادة، 3 /187، الرقم: 3105، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /394، الرقم: 19535، وعبد الرزاق في المصنف، 3 /593، الرقم: 6763، وابن حبان في الصحيح، 8 /116، الرقم: 3324، والبزار في المسند، 8 /35، الرقم: 3017، وأبو يعلی في المسند، 13 /309، 310، الرقم: 7325، والطبراني في المعجم الأوسط، 3 /93، الرقم: 2592، والطيالسي في المسند، 1 /66، الرقم: 489، وعبد بن حميد في المسند، 1 /195، الرقم: 554.
’’حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بھوکے کو کھانا کھلائو، بیمار کی عیادت کرو اور قیدی کو آزاد کراو۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔
136 /10. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: وَکَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا دَخَلَ عَلٰی مَرِيْضٍ يَعُوْدُه، قَالَ: لَا بَأْسَ طَهُوْرٌ إِنْ شَاءَ اللهُ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ.
10: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3 /1324، الرقم: 3420، وأيضًا فيکتاب المرضی، باب عيادة الأمراض، 5 /2141، الرقم: 5332، والنسائي في السنن الکبری، 4 /356، الرقم: 7499، والطبراني في المعجم الکبير، 11 /342، الرقم: 11951، والبيهقي في السنن الکبری، 3 /383، الرقم: 6388.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عادتِ مبارکہ تھی کہ جب بھی کسی مریض کی عیادت کرتے تو فرماتے: {لَا بَأْسَ طَهُوْرٌ إِنْ شَاءَ اللهُ} کوئی ڈر نہیں، ان شاء اللہ تعالیٰ یہ گناہوں کی معافی کا سبب ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری اور نسائی نے روایت کیا ہے۔
137 /11. عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضی الله عنه قَالَ: تَشَکَّيْتُ بِمَکَّةَ شَکْوَی شَدِيْدَةً، فَجَائَنِي النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَعُوْدُنِي، فَقُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللهِ، إِنِّي أَتْرُکُ مَالًا، وَإِنِّي لَمْ أَتْرُکْ إِلَّا ابْنَةً وَاحِدَةً، فَأُوْصِي بِثُلُثَي مَالِي وَأَتْرُکُ الثُّلُثَ؟ فَقَالَ: لَا، قُلْتُ: فَأُوْصِي بِالنِّصْفِ وَأَتْرُکُ النِّصْفَ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَأُوْصِي بِالثُّلُثِ وَأَتْرُکُ لَهَا الثُّلُثَيْنِ؟ قَالَ: الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ کَثِيْرٌ، ثُمَّ وَضَعَ يَدَه عَلٰی جَبْهَتِي ثُمَّ مَسَحَ يَدَه عَلٰی وَجْهِي وَبَطْنِي ثُمَّ قَالَ: اَللّٰهُمَّ اشْفِ سَعْدًا وَأَتْمِمْ لَه هِجْرَتَه فَمَا زِلْتُ أَجِدُ بَرْدَه عَلٰی کَبِدِي فِيْمَا يُخَالُ إِلَيَّ حَتَّی السَّاعَةِ. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
11: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب المرضی، باب وضع اليد علی المريض، 5 /2142، الرقم: 5335، وأيضًا في الأدب المفرد /176، الرقم: 499، والنسائي في السنن الکبری، 4 /67، الرقم: 6318، وأحمد بن حنبل في المسند،1 /171، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 3 /212، الرقم: 1013.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں مکہ مکرمہ کے اندر سخت بیمار پڑ گیا۔ تو حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میری مزاج پرسی کے لیے تشریف لائے۔ میں عرض گزار ہوا : یانبی اللہ! میں مال چھوڑ رہا ہوں اور پیچھے میری صرف ایک لڑکی ہے۔ کیا میں دو تہائی مال کی وصیت کر کے ایک تہائی اُس کے لئے چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، میں عرض گزار ہوا: (یا رسول اللہ!) نصف کی وصیت کر کے نصف چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) تہائی مال کی وصیت کر دوں اور دو تہائی اُس کے لئے چھوڑ دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایک تہائی کی (وصیت) کر دو لیکن ایک تہائی بھی زیادہ ہے۔ اِس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے میری پیشانی پر اپنا دستِ مبارک رکھا، پھر اپنا دستِ اقدس میرے چہرے اور پیٹ پر پھیرا، اُس کے بعد یوں دعا فرمائی: اے اللہ! سعد کو شفا عطا فرما اور اِس کی ہجرت کو پایہ تکمیل تک پہنچا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اُس وقت سے اب تک جب بھی مجھے یہ واقعہ یاد آتا ہے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دستِ شفقت کی ٹھنڈک مجھے اپنے جگر کے اندر محسوس ہوتی ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام بخاری، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
138 /12. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم دَخَلَ عَلٰی أُمِّ السَّائِبِ أَوْ أُمِّ الْمُسَيَبِ، فَقَالَ: مَا لَکِ يَا أُمَّ السَّائِبِ، أَوْ يَا أُمَّ الْمُسَيَبِ، تُزَفْزِفِيْنَ؟ قَالَتِ: الْحُمّٰی، لَا بَارَکَ اللهُ فِيْهَا، فَقَالَ: لَا تَسُبِّي الْحُمّٰی، فَإِنَّهَا تُذْهِبُ خَطَايَا بَنِي آدَمَ کَمَا يُذْهِبُ الْکِيْرُ خَبَثَ الْحَدِيْدِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ يَعْلٰی.
12: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب البر والصلة والآداب، باب ثواب المؤمن فيما يصيبه من مرض أو حزن أو نحو ذلک، 4 /1993، الرقم: 2575، وأبو يعلی في المسند، 4 /64، 125، الرقم: 2083، 2173، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 /159، الرقم: 9839، والمنذري في االترغيب والترهيب، 4 /152، الرقم: 5216.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضرت اُم سائب یا حضرت اُم المسیب کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے گئے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اے ام سائب یا فرمایا: ام المسیب تم کیوں کانپ رہی ہو؟ اُنہوں نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) مجھے بخار ہے، اللہ تعالیٰ اِس میں برکت نہ دے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بخار کو برا نہ کہو کیونکہ یہ بنی آدم کی خطائوں کو اِس طرح دور کرتا ہے جس طرح بھٹی لوہے کے زنگ کو دور کرتی ہے۔‘‘ اِس حدیث کو امام مسلم اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
139 /13. عَنْ ثَوْبَانَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا عَادَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ لَمْ يَزَلْ فِي خُرْفَةِ الْجَنَّةِ حَتّٰی يَرْجِعَ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: حَدِيْثُ ثَوْبَانَ حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
13: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل عيادة المريض، 4 /1989، الرقم: 2568، والترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في عيادة المريض، 3 /299، الرقم: 967، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 /283، الرقم: 22497، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 /443، الرقم: 10832، والطبراني في المعجم الکبير، 2 /101، الرقم: 1446، والقضاعي في مسند الشهاب، 1 /242، الرقم: 384، والبيهقي في السنن الکبری، 3 /380، الرقم: 6371، وأيضًا في شعب الإيمان، 6 /530، الرقم: 9169.
’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک ایک مسلمان جب اپنے کسی مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو وہاں سے لوٹنے تک برابر جنت کے باغ میں رہتا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: حدیثِ ثوبان رضی اللہ عنہ حسن صحیح ہے۔
140 /14. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ اللهَ يَقُوْلُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ: يَا ابْنَ آدَمَ، مَرِضْتُ فَلَمْ تَعُدْنِي. قَالَ: يَا رَبِّ، کَيْفَ أَعُوْدُکَ وَأَنْتَ رَبُّ الْعَالَمِيْنَ؟ قَالَ: أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ عَبْدِي فُـلَانًا مَرِضَ فَلَمْ تَعُدْهُ. أَمَا عَلِمْتَ أَنَّکَ لَوْ عُدْتَه لَوَجَدْتَنِي عِنْدَه؟…الحديث. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْأَدَبِ.
14: أخرجه مسلم في الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل عيادة المريض، 4 /1990، الرقم: 2569، والبخاري في الأدب المفرد /182، الرقم: 517، وابن حبان في الصحيح، 1 /503، الرقم: 269، 3 /224، الرقم: 944، والبيهقي في شعب الإيمان، 6 /534، الرقم: 9182، وابن راهويه في المسند، 1 /115، الرقم: 28، والديلمي في مسند الفردوس، 5 /235، الرقم: 8053، والمنذري في الترغيب والترهيب، 2 /37، الرقم: 1406.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے ابن آدم! میں بیمار ہوا اور تو نے میری عیادت نہ کی۔ بندہ عرض کرے گا: اے پروردگار! میں تیری بیمار پرسی کیسے کرتا جبکہ تو خود تمام جہانوں کا پالنے والا ہے؟ ارشاد ہوگا: کیا تجھے معلوم نہیں کہ میرا فلاں بندہ بیمار ہوا اور تو نے اُس کی عیادت نہیں کی۔ کیا تو نہیں جانتا کہ اگر تو اس کی عیادت کرتا تو مجھے اُس کے پاس موجود پاتا؟‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، ابن حبان اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔
141 /15. عَنْ عَلِيٍّ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَنْ أَتَی أَخَاهُ الْمُسْلِمَ عَائِدًا، مَشَی فِي خِرَافَةِ الْجَنَّةِ حَتّٰی يَجْلِسَ، فَإِذَا جَلَسَ غَمَرَتْهُ الرَّحْمَةُ، فَإِنْ کَانَ غُدْوَةً صَلّٰی عَلَيْهِ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ حَتّٰی يُمْسِيَ، وَإِنْ کَانَ مَسَاءً صَلّٰی عَلَيْهِ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَکٍ حَتّٰی يُصْبِحَ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَه. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ الشَّيْخَيْنِ.
15: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب الجنائز، باب ما جاء في عيادة المريض، 3 /300، الرقم: 969، وأبو داود في السنن،کتاب الجنائز، باب في فضل العيادة علی وضوء، 3 /185، الرقم: 3098، وابن ماجه في السنن،کتاب الجنائز، باب ما جاء في ثواب من عاد مريضًا، 1 /463، الرقم: 1442، والنسائي في السنن الکبری، 4 /354، الرقم: 7494، وأحمد بن حنبل في المسند،1 /81، 118، الرقم: 612، 955، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 /443، الرقم: 10835، والبزار في المسند، 3 /28، الرقم: 777، وابن حبان في الصحيح، 7 /224، الرقم: 2958، والحاکم في المستدرک، 1 /501، الرقم: 1293، والطبراني في المعجم الأوسط، 7 /266، الرقم: 7464، والبيهقي في السنن الکبری، 3 /380، الرقم: 6376، وأيضًا في شعب الإيمان، 6 /531، الرقم: 9173، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 2 /319، الرقم: 698.
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: جب کوئی شخص کسی کی عیادت کے لیے جاتا ہے تو (یہ ایسا مبارک اور مقبول عمل ہے جیسے) وہ جنت کے باغ میں چلتا ہے، جب وہ بیٹھتا ہے تو رحمت اُسے ڈھانپ لیتی ہے، اگر یہ صبح کا وقت ہو تو ستر ہزار فرشتے شام تک اُس کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں اور اگر شام کا وقت ہو تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اُس کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔‘‘
اِس حدیث کو امام ترمذی، ابو داود اور ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے جبکہ امام حاکم نے بھی فرمایا: یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔
142 /16. عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضي الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ عَادَ مَرِيْضًا لَمْ يَزَلْ يَخُوْضُ فِي الرَّحْمَةِ حَتّٰی يَرْجِعَ فَإِذَا جَلَسَ اغْتَمَسَ فِيْهَا.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَابْنُ حِبَّانَ وَالْبُخَارِيُّ فِي الأَدَبِ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: وَرِجَالُ أَحْمَدَ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
16: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 3 /304، الرقم: 14299، والبخاري في الأدب المفرد /184، الرقم: 522، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 /443، الرقم: 10834، وابن حبان في الصحيح، 7 /222، الرقم: 2956، والحاکم في المستدرک، 1 /501، الرقم: 1295، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 /166، الرقم: 5276، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 /182، الرقم: 711، وأيضًا في مجمع الزوائد، 2 /297.
’’حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تک کوئی شخص کسی مریض کی عیادت کرتا ہے تو وہ اُس وقت تک رحمت سے معمور رہتا ہے یہاں تک کہ وہ وہاں سے لوٹ آئے اور جب تک وہ اُس کے پاس بیٹھا رہتا ہے رحمت میں سرشار رہتا ہے۔‘‘
اِسے امام احمد، ابن ابی شیبہ، ابن حبان اور بخاری نے ’الادب المفرد‘ میں روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ جبکہ امام ہیثمی نے بھی فرمایا: امام احمد کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
143 /17. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها قَالَتْ:کَانَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا عَادَ مَرِيْضًا يَضَعُ يَدَه عَلَی الْمَکَانِ الَّذِي يَشْتَکِي الْمَرِيْضُ، (وفي رواية: مَسَحَ وَجْهَه وَصَدْرَه) ثُمَّ يَقُوْلُ: بِسْمِ اللهِ، لَا بَأْسَ، لَا بَأْسَ، أَذْهِبِ الْبَأْسَ، رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُکَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا…الحديث.
رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُوْ يَعْلٰی بِإِسْنَادِ حَسَنٍ وَاللَّفْظُ لَه وَالطَّيَالِسِيُّ.
17: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 6 /126، الرقم: 24990، وأبويعلی في المسند، 7 /436، الرقم: 4459، والطبراني في الدعاء /336، الرقم: 1102، والطيالسي في المسند،1 /200، الرقم: 1404، وابن السنّي في عمل اليوم والليلة / 503، الرقم: 551.
’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی بیمار کی عیادت فرماتے تو اپنا دستِ اقدس اس کی اس جگہ پر رکھتے جہاں بیمار کو شکایت ہوتی۔ (اور ایک روایت میں ہے کہ بیمار کے چہرے اور سینے پر ہاتھ پھیرتے) اور فرماتے: {بِسْمِ اللهِ، لَا بَأْسَ، لَا بَأْسَ، أَذْهِبِ الْبَأْسَ، رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي، لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُکَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا} ’’کوئی تنگی نہیں، کوئی تنگی نہیں، اے لوگوں کے پالنے والے، تکلیف کو دور فرما، اور شفاء عطا فرما تو ہی شفاء عطا فرمانے والا ہے، تیری شفاء کے علاوہ کوئی شفاء نہیں، ایسی شفاء عطا فرما جو بیماری کو سرے سے ختم کر دے۔‘‘
اِس حدیث کو امام احمد، ابو یعلی نے مذکورہ الفاظ میں اسنادِ حسن کے ساتھ اور طیالسی نے روایت کیا ہے۔
144 /18. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ غُـلَامٌ يَهُوْدِيٌّ يَخْدُمُ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَمَرِضَ، فَأَتَاهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم يَعُوْدُهُ، فَقَعَدَ عِنْدَ رَأْسِه، فَقَالَ لَه: أَسْلِمْ. فَنَظَرَ إِلٰی أَبِيْهِ وَهُوَ عِنْدَه، فَقَالَ لَه: أَطِعْ أَبَا الْقَاسِمِ صلی الله عليه وآله وسلم . فَأَسْلَمَ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم وَهُوَ يَقُوْلُ: اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِي أَنْقَذَه مِنَ النَّارِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ.
وفي رواية أبي داود: اَلْحَمْدُ ِﷲِ الَّذِي أَنْقَذَه بِي مِنَ النَّارِ.
18: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجنائز، باب إذا أسلم الصبي فمات هل يصلی عليه وهل يعرض علی الصبي الإسلام، 1 /455، الرقم: 1290، وأيضًا في الأدب المفرد /185، الرقم: 524، وأبوداود في السنن، کتاب الجنائز، باب في عيادة الذمي، 3 /185، الرقم: 3095، والنسائي في السنن الکبری، 5 /173، الرقم: 8588، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /227، 280، الرقم: 13399، 14009، وأبو يعلی في المسند، 6 /93، الرقم: 3350، والبيهقي في السنن الکبری، 3 /383، الرقم: 6389.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت کیا کرتا تھا وہ بیمار ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اور اس کے سر کے پاس بیٹھ کر اُس سے فرمایا: اسلام قبول کرلو۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو اُس کے پاس بیٹھا تھا تو اُس کے باپ نے کہا: ابو القاسم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت کرو۔ سو وہ مسلمان ہو گیا (اور پھر اس کی وفات ہوگئی)۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ فرماتے ہوئے باہر تشریف لائے: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے اسے جہنم سے بچا لیا۔‘‘
اِسے امام بخاری، ابو داود، نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے۔
امام ابو داود کی روایت کے الفاظ یوں ہیں: ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کا شکر ہے جس نے اِسے میرے توسّل سے جہنم سے بچا لیا۔‘‘
145 /19. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يُوْتَی بِالرَّجُلِ الْمُتَوَفّٰی عَلَيْهِ الدَّيْنُ، فَيَسْأَلُ: هَلْ تَرَکَ لِدَيْنِه فَضْلًا؟ فَإِنْ حُدِّثَ أَنَّه تَرَکَ لِدَيْنِه وَفَاءً صَلّٰی وَإِلَّا قَالَ لِلْمُسْلِمِيْنَ: صَلُّوْا عَلٰی صَاحِبِکُمْ، فَلَمَّا فَتَحَ اللهُ عَلَيْهِ الْفُتُوْحَ قَالَ: أَنَا أَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِيْنَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ فَمَنْ تُوُفِّيَ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ فَتَرَکَ دَيْنًا فَعَلَيَّ قَضَاؤُه وَمَنْ تَرَکَ مَالًا فَلِوَرَثَتِه. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
19: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الکفالة، باب الدَّين، 2 /805، الرقم: 2176، وأيضاً فيکتاب النفقات، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : من ترک کلا أو ضياعًا فإلي، 5 /2054، الرقم: 5056، ومسلم في الصحيح، کتاب الفرائض، باب من ترک مالا فلورثته، 3 /1237، الرقم: 1619، والترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في الصلاة علی المديون، 3 /382، الرقم: 2070، والنسائي في السنن،کتاب الجنائز، باب الصلاة علی من عليه دَين، 4 /66، الرقم: 1963، وابن ماجه في السنن،کتاب الأحکام، باب من ترک دينا أو ضياعًا فعلی اللہ وعلی رسوله صلی الله عليه وآله وسلم، 2 /807، الرقم: 2415، وابن حبان في الصحيح، 11 /192، الرقم: 4854، والبيهقي في السنن الکبری، 7 /44، الرقم: 13076.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں جب کوئی جنازہ لایا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دریافت فرماتے: کیا اِس نے قرض کی ادائیگی کے لیے کچھ چھوڑا ہے؟ اگر بتایا جاتا کہ اِس نے قرض کی ادائیگی کے لئے رقم چھوڑی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑھا دیتے ورنہ مسلمانوں سے فرماتے: اپنے بھائی پر نماز پڑھو۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے فتوحات کا دروازہ کھولا (اور اِس کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کثرت سے مال عطا فرما دیا) تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں مسلمانوں کی جانوں سے بھی زیادہ اُن کے قریب ہوں۔ سو جو مسلمانوں میں سے فوت ہو جائے اور قرض چھوڑے تو اُس کی ادائیگی مجھ پر ہے اور جو مال چھوڑے تو وہ اُس کے وارثوں کے لیے ہے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
146 /20. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم مَرَّ بِقَبْرٍ قَدْ دُفِنَ لَيْـلًا فَقَالَ: مَتٰی دُفِنَ هٰذَا؟ قَالُوْا: الْبَارِحَةَ، قَالَ: أَفَـلَا آذَنْتُمُوْنِي؟ قَالُوْا: دَفَنَّاهُ فِي ظُلْمَةِ اللَّيْلِ فَکَرِهْنَا أَنْ نُوْقِظَکَ، فَقَامَ فَصَفَفْنَا خَلْفَه، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: وَأَنَا فِيْهِمْ، فَصَلّٰی عَلَيْهِ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
20: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجنائز، باب صفوف الصبيان مع الرجال علی الجنائز، 1 /444، الرقم: 1258، ومسلم في الصحيح،کتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر، 2 /658، الرقم: 954، والترمذي في السنن،کتاب الجنائز، باب ما جاء في الصلاة علی القبر، 3 /355، الرقم: 1037، وابن ماجه في السنن،کتاب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء في الصلاة علی القبر، 1 /490، الرقم: 1530، والبيهقي في السنن الکبری، 4 /46، الرقم: 6800.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک قبر کے پاس سے گزرے جس میں میت کو اُسی رات دفن کیا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا: اسے کب دفن کیا گیا؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: (یا رسول اللہ!) گزشتہ رات۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے کیوں نہیں بتایا؟ صحابہ نے عرض کیا: ہم نے اِسے رات کے اندھیرے میں دفن کیا تھا اور ہم نے آپ کو جگانا مناسب نہیں جانا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اس کی قبر پر) قیام فرما ہوئے تو ہم نے پیچھے صفیں بنا لیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا: میں بھی اُن لوگوں میں شامل تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس پر نماز جنازہ پڑھی۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
147 /21. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه أَنَّ امْرَأَةً سَوْدَاءَ کَانَتْ تَقُمُّ الْمَسْجِدَ أَوْ شَابًّا فَفَقَدَهَا رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم، فَسَأَلَ عَنْهَا أَوْ عَنْهُ فَقَالُوْا: مَاتَ. قَالَ: أَفَـلَا کُنْتُمْ آذَنْتُمُوْنِي قَالَ: فَکَأَنَّهُمْ صَغَّرُوْا أَمْرَهَا أَوْ أَمْرَه فَقَالَ: دُلُّوْنِي عَلٰی قَبْرِه فَدَلُّوْهُ، فَصَلّٰی عَلَيْهَا ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هٰذِهِ الْقُبُوْرَ مَمْلُوْئَةٌ ظُلْمَةً عَلٰی أَهْلِهَا وَإِنَّ اللهَ ل يُنَوِّرُهَا لَهُمْ بِصَلَاتِي عَلَيْهِمْ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَاللَّفْظُ لِمُسْلِمٍ.
21: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الصلاة، باب کنس المسجد، 1 /175.176، الرقم: 446، 448، وأيضًا فيکتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر بعد ما يدفن، 1 /448، الرقم: 1272، ومسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر، 2 /659، الرقم: 956، وأبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر، 3 /211، الرقم: 3203، وابن ماجه في السنن،کتاب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء في الصلاة علی القبر، 1 /489، الرقم: 1527.1529، والنسائي في السنن الکبری، 1 /651، الرقم: 2149، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /388، الرقم: 9025، وأبو يعلی في المسند، 11 /314، الرقم: 6429، وابن حبان في الصحيح، 7 /355، الرقم: 3086، والبيهقي في السنن الکبری، 4 /46.47، الرقم: 6802.6806.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک حبشی عورت یا ایک نوجوان مسجد کی صفائی کیا کرتا تھا، پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے (عورت یا جوان کو کچھ عرصہ ) مفقود پایا، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عورت یا نوجوان کے بارے میں دریافت فرمایا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ فوت ہوگیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے (اس کے بارے میں) بتایا کیوں نہیں؟ راوی بیان کرتے ہیں گویا صحابہ کرام نے اس کی موت کو اتنی اہمیت نہ دی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مجھے اُس کی قبر دکھاؤ۔ صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اُس کا مقام تدفین بتایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (خود وہاں تشریف لے جا کر) اُس کی نماز جنازہ ادا کی اور فرمایا: یہ قبریں اپنے مکینوں کے لیے ظلمت اور تاریکی سے بھری ہوئی ہیں، اور بے شک اللہ تعالیٰ میری ان پر پڑھی گئی نماز جنازہ کی بدولت (ان کی تاریک قبور میں) روشنی فرما دے گا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے، مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔
148 /22. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ شَهِدَ الْجَنَازَةَ حَتّٰی يُصَلِّيَ فَلَه قِيْرَاطٌ وَمَنْ شَهِدَ حَتّٰی تُدْفَنَ کَانَ لَه قِيْرَاطَانِ، قِيْلَ: وَمَا الْقِيْرَاطَانِ؟ قَالَ: مِثْلُ الْجَبَلَيْنِ الْعَظِيْمَيْنِ.
مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
وفي رواية: قَالَ: أَصْغَرُهُمَا مِثْلُ أُحُدٍ.
22: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الجنائز، باب من انتظر حتی تدفن، 1 /445، الرقم: 1261، ومسلم في الصحيح، کتاب الجنائز، باب فضل الصلاة علی الجنازة واتباعها، 2 /652، 653، الرقم: 945، والترمذي في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في فضل الصلاة علی الجنازة، 3 /358، الرقم: 1040، وأبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب فضل الصلاة علی الجنائز وتشييعها، 3 /202، الرقم: 3168، والنسائي في السنن، کتاب الجنائز، باب ثواب من صلی علی جنازة، 4 /76، الرقم: 1995، وأيضًا في السنن الکبری، 1 /645، الرقم: 2122، وابن ماجه في السنن، کتاب ما جاء في الجنائز، باب ما جاء في ثواب من صلی علی جنازة ومن انتظر دفنها، 1 /491، الرقم: 1539، وعبد الرزاق في المصنف، 3 /449، الرقم: 6268، وأحمد بن حنبل في المسند، 2 /401، الرقم: 9197، وابن حبان في الصحيح، 7 /347، الرقم: 3078.
’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو کسی کے جنازے میں شامل ہوا تو اُس کے لیے ایک قیراط ثواب ہے اور جو دفن ہونے تک ساتھ شامل رہا اُس کے لیے دو قیراط(کے برابر ثواب ہے۔) عرض کیا گیا: دو قیراط کیا ہیں؟ فرمایا: دو عظیم پہاڑوں کی مثل (ثواب عطا ہوتا ہے)۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
ایک روایت میں ہے: ’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اُن میں (دو پہاڑوں میں) سے چھوٹا اُحد پہاڑ کے برابر ہے۔‘‘
149 /23. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم بِقَبْرَيْنِ فَقَالَ: إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ وَمَا يُعَذَّبَانِ فِي کَبِيْرٍ، أَمَّا أَحَدُهُمَا فَکَانَ لَا يَسْتَتِرُ مِنَ الْبَوْلِ، وَأَمَّا الْآخَرُ فَکَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيْمَةِ، ثُمَّ أَخَذَ جَرِيْدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا نِصْفَيْنِ، فَغَرَزَ فِي کُلِّ قَبْرٍ وَاحِدَةً قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، لِمَ فَعَلْتَ هٰذَا؟ قَالَ: لَعَلَّه يُخَفِّفُ عَنْهُمَا مَا لَمْ يَيْبَسَا. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
23: أخرجه البخاري في الصحيح،کتاب الوضوء، باب ما جاء في غسل البول، 1 /88، الرقم: 215، وأيضًا في کتاب الجنائز، باب الجريد علی القبر، 1 /458، الرقم: 1295، وأيضًا فيکتاب الأدب، باب الغيبة، 5 /2249، الرقم: 5705، وأيضًا في باب النميمة من الکبائر، 5 /2250، الرقم: 5708، ومسلم في الصحيح،کتاب الطهارة، باب الدليل علی نجاسة البول ووجوب الاستبراء منه، 1 /240، الرقم: 292، والترمذي في السنن،کتاب الطهارة، باب ما جاء في التشديد في البول، 1 /102، الرقم: 70، وقال: هذا حديث حسن صحيح، وأبو داود في السنن،کتاب الطهارة، باب الاستبراء من البول، 1 /6، الرقم: 20، والنسائي في السنن،کتاب الطهارة، باب التنزاه عن البول، 1 /28، الرقم: 31، وأيضًا في کتاب الجنائز، باب وضع الجريدة علی القبر، 4 /106، الرقم: 2068.2069، وأيضًا في السنن الکبری، 1 /69، الرقم: 27، وابن ماجه في السنن،کتاب الطهارة باب التشديد في البول، 1 /125، الرقم: 247، 349، والدارمي في السنن، 1 /205، الرقم: 739، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /225، الرقم: 1980، 5 /35، الرقم: 20389، وابن أبي شيبة في المصنف، 1 /115، الرقم: 1304، وأبو يعلی في المسند، 4 /43، الرقم: 2050، وابن خزيمة في الصحيح، 1 /32، الرقم 55، وعبد الرزاق في المصنف، 3 /588، الرقم: 6753.7654، وابن حبان في الصحيح 7 /398، الرقم: 3128.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (قبر کے اندر ان پر گزرنے والے حالات سے باخبر ہوکر) فرمایا : انہیں عذاب ہو رہا ہے اور وہ بھی کسی کبیرہ گناہ کے باعث نہیں بلکہ ان میں سے ایک تو پیشاب کے وقت پردہ نہیں کرتا تھا (یا اُن کے قطروں سے نہیں بچتا تھا) اور دوسرا چغلیاں بہت کھاتا تھا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک سبز ٹہنی لی اور اس کے دو حصے کر کے ہر قبر پر ایک ایک حصہ گاڑ دیا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب تک یہ ٹہنیاں خشک نہ ہوں گی ان کے عذاب میں تخفیف رہے گی۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
150 /24. عَنْ يَعْلَی بْنِ سِيَابَةَ رضی الله عنه قَالَ: کُنْتُ مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فِي مَسِيْرٍ لَه، فَأَرَادَ أَنْ يَقْضِيَ حَاجَةً، فَأَمَرَ وَدْيَتَيْنِ فَانْضَمَّتْ إِحْدَاهُمَا إِلَی الْأُخْرٰی، ثُمَّ أَمَرَهُمَا فَرَجَعَتَا إِلٰی مَنَابَتِهِمَا وَجَاءَ بَعِيْرٌ فَضَرَبَ بِجِرَانِه إِلَی الْأَرْضِ ثُمَّ جَرْجَرَ حَتَّی ابْتَلَّ مَا حَوْلَه فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : أَتَدْرُوْنَ مَا يَقُوْلُ الْبَعِيْرُ إِنَّه يَزْعُمُ أَنَّ صَاحِبَه يُرِيْدُ نَحْرَه فَبَعَثَ إِلَيْهِ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ: أَوَاهِبُه أَنْتَ لِي فَقَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، مَا لِي مَالٌ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ قَالَ: اسْتَوْصِ بِه مَعْرُوْفًا فَقَالَ: لَا جَرَمَ لَا أُکْرِمُ مَالًا لِي کَرَامَتُه يَا رَسُوْلَ اللهِ، وَأَتَی عَلٰی قَبْرٍ يُعَذَّبُ صَاحِبُه فَقَالَ: إِنَّه يُعَذَّبُ فِي غَيْرِ کَبِيْرٍ فَأَمَرَ بِجَرِيْدَةٍ فَوُضِعَتْ عَلٰی قَبْرِه فَقَالَ: عَسٰی أَنْ يُخَفَّفَ عَنْهُ مَا دَامَتْ رَطْبَةً.
رَوَاهُ أَحْمَدُ، وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: إِسْنَادُه حَسَنٌ وَرِجَالُه ثِقَاتٌ.
24: أخرجه أحمد بن حنبل في المسند، 4 /172، الرقم: 17595، والخطيب البغدادي في موضح أوهام الجمع والتفريق، 1 /272، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1 /205، 9 /6.
’’حضرت یعلی بن سیابہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک جگہ قضائے حاجت کا ارادہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے دو درختوں کو حکم دیا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ایک دوسرے سے مل گئے (حاجت کے بعد) پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں حکم دیا تو وہ اپنی اپنی جگہ پر واپس آ گئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں ایک اونٹ اپنی گردن کو زمین پر رگڑتا ہوا حاضر ہوا۔ وہ اتنا بلبلایا کہ اُس کے اردگرد کی جگہ گیلی ہو گئی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ اُونٹ کیا کہہ رہا ہے؟ اس کا خیال ہے کہ اس کا مالک اسے ذبح کرنا چاہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک آدمی اس کے مالک کو بلانے بھیجا (جب وہ آ گیا تو) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا: کیا یہ اونٹ مجھے ہبہ کرتے ہو؟ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے اس سے بڑھ کر اپنے مال میں سے کوئی چیز محبوب نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: میں تم سے اس کے معاملہ میں بھلائی کی توقع رکھتا ہوں۔ اس صحابی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے تمام مال سے بڑھ کر اس کا خیال رکھوں گا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ایک قبر سے ہوا جس کے اندر موجود میت کو عذاب دیا جا رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اسے گناہ کبیرہ کی وجہ سے عذاب نہیں دیا جا رہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک درخت کی ٹہنی طلب فرمائی اور اسے اس قبر پر رکھ دیا اور فرمایا: جب تک یہ ٹہنی خشک نہیں ہو جاتی اسے عذاب میں تخفیف دی جاتی رہے گی۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے۔ امام ہیثمی نے فرمایا: اِس کی اسناد حسن اور رجال ثقات ہیں۔
151 /25. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَقِّنُوْا مَوْتَاکُمْ لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللهُ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
25: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب الجنائز، باب تلقين الموتی لا إله إلا اللہ، 2 /631، الرقم: 916، والترمذي في السنن،کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين المريض عند الموت والدعاء له عنده، 3 /306، الرقم: 976، وأبو دواد في السنن،کتاب الجنائز، باب في التلقين، 3 /190، الرقم: 3117، والنسائي في السنن،کتاب الجنائز، باب تلقين الميت، 4 /5، الرقم: 1826، وأيضًا في السنن الکبری، 1 /601، الرقم: 1952، وابن ماجه في السنن، کتاب الجنائز، باب ما جاء في تلقين الميت لا إله إلا اللہ، 1 /464، 465، الرقم: 1444.1446، وأحمد بن حنبل في المسند، 3 /3، الرقم: 1006، والبزار في المسند، 6 /208، الرقم: 2248.
’’حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اپنے مرنے والوں کو (بوقتِ نزع) {لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللَّهُ} کی تلقین کیا کرو (یعنی اُن کے پاس کلمہ طیبہ کا ورد کیا کرو)۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، ترمذی، ابو داود اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
152 /26. وفي رواية ابن حبّان زاد: فَإِنَّه مَنْ کَانَ آخِرُ کَلِمَتِه لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ عِنْدَ الْمَوْتِ دَخَلَ الْجَنَّةَ يَوْمًا مِنَ الدَّهْرِ وَإِنْ أَصَابَه قَبْلَ ذَالِکَ مَا أَصَابَه. رَوَاهُ ابْنُ حِبَّانَ وَالطَّبَرَانِيُّ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
26: أخرجه ابن حبان في الصحيح،کتاب الجنائز وما يتعلق بها مقدمًا أو مؤخرًا، ذکر العلة التي من أجلها أمر بهذا الأمر، 7 /272، الرقم: 3004، والطبراني في المعجم الصغير، 1 /241، الرقم: 393، وأبو نعيم في حلية الأولياء، 10 /397، والهيثمي في موارد الظمآن، 1 /184، الرقم: 719، وأيضًا في مجمع الزوائد، 1 /17.
اور امام ابن حبان نے اِن الفاظ کا اضافہ بیان کیا ہے: ’’سو وہ شخص جس کا موت کے وقت آخری کلام ’’لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ ‘‘ ہو وہ ایک نہ ایک دن جنت میں ضرور داخل ہوگا اگرچہ اُس سے پہلے اُسے (عذاب و سزا میں سے اُس کے اعمال کا حصہ) پہنچے جو بھی پہنچے۔‘‘ اِسے امام ابن حبان، طبرانی اور ابو نعیم نے روایت کیا ہے۔
153 /27. عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کَانَ آخِرُ کَـلَامِه لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ دَخَلَ الْجَنَّةُ. رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ وَالْبَزَّارُ.
وفي رواية أحمد: وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةَ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِسْنَادِ، وَحَسَّنَهُ النَّوَوِيُّ.
27: أخرجه أبو داود في السنن، کتاب الجنائز، باب في التلقين، 3 /190، الرقم: 3116، وأحمد بن حنبل في المسند، 5 /247، الرقم: 22180، والبزار في المسند، 7 /77، الرقم: 2626، والحاکم في المستدرک، 1 /503، الرقم: 1299، والطبراني في المعجم الکبير، 20 /112، الرقم: 221، وابن منده في الإيمان، 1 /248، والبيهقي في شعب الإيمان، 1 /108، الرقم: 94، والنووي في شرحه علی صحيح مسلم، 6 /219.
’’حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: (وقتِ نزع) جس کا آخری کلام {لَا إِلٰهَ إِلاَّ اللهُ} ہوا وہ جنت میں داخل ہو گیا۔‘‘
امام احمد کی روایت میں ہے: ’’اُس کے لئے جنت واجب ہو گئی۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، احمد اور بزار نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اِس حدیث کی سند صحیح ہے۔ امام نووی بھی نے ابو داود کی سند کو حسن قرار دیا ہے۔
154 /28. عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّه مَاتَ ابْنٌ لَه بِقُدَيْدٍ أَوْ بِعُسْفَانَ، فَقَالَ: يَا کُرَيْبُ، انْظُرْ مَا اجْتَمَعَ لَه مِنَ النَّاسِ، قَالَ: فَخَرَجْتُ فَإِذَا نَاسٌ قَدِ اجْتَمَعُوْا لَه، فَأَخْبَرْتُه، فَقَالَ: تَقُوْلُ: هُمْ أَرْبَعُوْنَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: أَخْرِجُوْهُ فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ: مَا مِنْ رَجُلٍ مُسْلِمٍ يَمُوْتُ فَيَقُوْمُ عَلٰی جَنَازَتِه أَرْبَعُوْنَ رَجُـلًا لَا يُشْرِکُوْنَ بِاللهِ شَيْئًا إِلَّا شَفَّعَهُمُ اللهُ فِيْهِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُوْ دَاوُدَ وَأَحْمَدُ.
28: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب الجنائز، باب من صلی عليه أربعون شفعوا فيه، 2 /655، الرقم: 948، وأبو داود في السنن،کتاب الجنائز، باب فضل الصلاة علی الجنائز وتشييعها، 3 /203، الرقم: 3170، وأحمد بن حنبل في المسند، 1 /277، الرقم: 2509، وابن حبان في الصحيح، 7 /351، الرقم: 3082، والطبراني في المعجم الأوسط، 8 /369، 370، الرقم: 8898، والبيهقي في السنن الکبری، 3 /180، الرقم: 5411، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 /178، الرقم: 5324.
’’حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ اُن کے فرزند کا قدید یا عسفان میں انتقال ہو گیا، آپ رضی اللہ عنہ نے حضرت کریب سے کہا: دیکھو (جنازہ میں) کتنے لوگ ہیں؟ حضرت کریب بیان کرتے ہیں میں نکلا تو دیکھا (کافی) لوگ جمع تھے، میں نے آپ سے صورتحال عرض کی تو حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: کیا تمہارے اندازے میں وہ چالیس ہیں؟ حضرت کریب نے عرض کیا: ہاں! آپ نے فرمایا: جنازہ اُٹھاؤ۔ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو مسلمان شخص فوت ہو جائے اور اُس کے جنازہ میں چالیس ایسے لوگ ہوں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے شرک نہ کیا ہو تو اللہ تعالیٰ میت کے حق میں اُن کی شفاعت قبول فرما لیتا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، ابو داود اور احمد نے روایت کیا ہے۔
155 /29. عَنْ عَائِشَةَ رضي الله عنها عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ: مَا مِنْ مَيِّتٍ تُصَلِّي عَلَيْهِ أُمَّةٌ مِنَ الْمُسْلِمِيْنَ يَبْلُغُوْنَ مِائَةً کُلُّهُمْ يَشْفَعُوْنَ لَه إِلَّا شُفِّعُوْا فِيْهِ.
رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ، وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ صَحِيْحٌ.
29: أخرجه مسلم في الصحيح،کتاب الجنائز، باب من صلی عليه مائة شفعوا فيه، 2 /654، الرقم: 947، والترمذي في السنن،کتاب الجنائز، باب ما جاء في الصلاة علی الجنازة والشفاعة للميت، 3 /348، الرقم: 1029، والنسائي في السنن،کتاب الجنائز، باب فضل من صلی عليه مائة، 4 /75، 76، الرقم: 1991، 1992، وأيضًا في السنن الکبری، 1 /644، الرقم: 2118، وابن حبان في الصحيح، 7 /351، الرقم: 3081، وأبو يعلی في المسند، 7 /364، الرقم: 4398، والطبراني في المعجم الأوسط، 6 /145، الرقم: 6039، والبيهقي في السنن الکبری، 4 /30، الرقم: 6694، وأيضًا في شعب الإيمان، 7 /4، الرقم: 9248، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 /178، الرقم: 5323.
’’حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس میت پر سو مسلمانوں کا گروہ نماز پڑھے اور وہ سب اُس کی شفاعت کی دعا کریں تو اُن کی شفاعت (اُس میت کے حق میں) قبول کی جاتی ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام مسلم، ترمذی اور نسائی نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
156 /30. عَنْ أَنَسٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم دَخَلَ عَلٰی شَابٍّ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ، فَقَالَ: کَيْفَ تَجِدُکَ؟ قَالَ: وَاللهِ، يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَنِّي أَرْجُوْ اللهَ، وَإِنِّي أَخَافُ ذُنُوْبِي فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هٰذَا الْمَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاهُ اللهُ مَا يَرْجُوْ وَآمَنَه مِمَّا يَخَافُ.
رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَابْنُ مَاجَه. وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هٰذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.
30: أخرجه الترمذي في السنن،کتاب الجنائز، باب: (11)، 3 /311، الرقم: 983، وابن ماجه في السنن،کتاب الزهد، باب ذکر الموت والاستعداد له، 2 /1423، الرقم: 4261، والبيهقي في شعب الإيمان، 2 /4، الرقم: 1001، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 /135، الرقم: 5125.
’’حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک نوجوان کے پاس تشریف لے گئے، وہ قریب الموت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے دریافت فرمایا: تم خود کو کس حال (و کیفیت) میں پاتے ہو؟ اُس نے عرض کیا: اللہ کی قسم! یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ (کی رحمت) کی اُمید بھی ہے اور گناہوں کا خوف بھی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اس موقع پر جب مومن کے دل میں یہ دونوں باتیں جمع ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ اُس کی اُمید کے مطابق اُسے عطا فرماتا ہے اور جس کا اُسے ڈر ہوتا ہے اُس سے بے خوف کرتا ہے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی نے فرمایا: یہ حدیث حسن ہے۔
157 /31. عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم إِذَا فَرَغَ مِنْ دَفْنِ الْمَيِّتِ وَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوْا لِأَخِيْکُمْ وَاسْأَلُوْا لَه بِالتَّثْبِيْتِ فَإِنَّهُ الآنَ يُسْأَلُ.
رَوَاهُ أَبُوْ دَاوُدَ وَالْبَزَّارُ وَابْنُ السُّنِّيِّ. وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
31: أخرجه أبو داود في السنن،کتاب الجنائز، باب الاستغفار عند القبر للميت في وقت الإنصراف، 3 /215، الرقم: 3221، والبزار في المسند، 2 /91، الرقم: 445، والحاکم في المستدرک، 1 /526، الرقم: 1372، وابن السني في عمل اليوم والليلة / 537، الرقم: 585، والمقدسي في الأحاديث المختارة، 1 /522، الرقم: 378، وقال: إسناده حسن.
’’حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی میت کی تدفین سے فارغ ہو جاتے تو اُس کی قبر پر ٹھہرتے اور فرماتے: اپنے بھائی کے لئے مغفرت کی دعا کرو اور (اللہ تعالیٰ سے) اِس کے لیے ثابت قدمی کی التجا کرو، کیونکہ اب اس سے سوال کیے جائیں گے۔‘‘
اِس حدیث کو امام ابو داود، بزار اور ابن السنی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔
158 /32. عَنْ يَزِيْدَ بْنِ ثَابِتٍ رضی الله عنه، وَکَانَ أَکْبَرَ مِنْ زَيْدٍ، قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم فَلَمَّا وَرَدَ الْبَقِيْعَ فَإِذَا هُوَ بِقَبْرٍ جَدِيْدٍ، فَسَأَلَ عَنْهُ، قَالُوْا: فُـلَانَةُ، قَالَ: فَعَرَفَهَا، وَقَالَ: أَ لَا آذَنْتُمُوْنِي بِهَا، قَالُوْا: کُنْتَ قَائِـلًا صَائِمًا فَکَرِهْنَا أَنْ نُؤْذِيَکَ، قَالَ: فَـلَا تَفْعَلُوْا لَا أَعْرِفَنَّ مَا مَاتَ مِنْکُمْ مَيِّتٌ مَا کُنْتُ بَيْنَ أَظْهُرِکُمْ إِلَّا آذَنْتُمُوْنِي بِه، فَإِنَّ صَلَاتِي عَلَيْهِ لَه رَحْمَةٌ، ثُمَّ أَتَی الْقَبْرَ فَصَفَفْنَا خَلْفَه فَکَبَّرَ عَلَيْهِ أَرْبَعًا.
رَوَاهُ النَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَه وَاللَّفْظُ لَه وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
32: أخرجه النسائي في السنن،کتاب الجنائز، باب الصلاة علی القبر، 4 /84، الرقم: 2022، وابن ماجه في السنن،کتاب الجنائز، باب ما جاء في الصلاة علی القبر، 1 /489، الرقم: 1528، وأحمد بن حنبل في المسند، 4 /388، الرقم: 19470، وابن أبي شيبة في المصنف، 2 /475، الرقم: 11217، والطبراني في المعجم الکبير، 22 /240، الرقم: 628، وابن أبي عاصم في الآحاد والمثاني، 4 /27، الرقم: 1970، والبيهقي في السنن الکبری، 4 /48، الرقم: 6809.
’’حضرت یزید بن ثابت رضی اللہ عنہ، جو کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی ہیں، بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ باہر نکلے، جب ہم جنت البقیع پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک نئی قبر دیکھ کر لوگوں سے اُس کے بارے میں دریافت فرمایا۔ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ فلاں عورت کی قبر ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پہچان لیا اور فرمایا: تم نے مجھے اِس کی وفات کی اطلاع کیوں نہ دی؟ لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ روزے سے تھے اور دوپہر کے وقت آرام فرما رہے تھے لہٰذا ہم نے آپ کو تکلیف دینا مناسب نہیں سمجھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ایسا نہ کیا کرو۔ جب تک میں تم میں موجود ہوں مجھے ہر شخص کی وفات کی اطلاع ہونی چاہیے کیونکہ میری نماز اُن کے لیے رحمت کا باعث ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کی قبر پر تشریف لائے، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیچھے صفیں بنائیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چار تکبیریں ادا فرمائیں (یعنی اس کی نمازِ جنازہ ادا فرمائی)۔‘‘
اِس حدیث کو امام نسائی، ابن ماجہ نے مذکورہ الفاظ میں، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
159 /33. عَنْ أَبِي رَافِعٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ غَسَّلَ مَيِّتًا فَکَتَمَ عَلَيْهِ غُفِرَ لَه أَرْبَعِيْنَ مَرَّةً، وَمَنْ کَفَّنَ مَيِّتًا کَسَاهُ اللهُ مِنَ السُّنْدُسِ وَاسْتَبْرَقِ الْجَنَّةِ، وَمَنْ حَفَرَ لِمَيِّتٍ قَبْرًا فَأَجَنَّهُ فِيْهِ أُجْرِيَ لَه مِنَ الْأَجْرِ کَأَجْرِ مَسْکَنٍ أَسْکَنَه إِلٰی يَوْمِ الْقِيَامَةِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هٰذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ عَلٰی شَرْطِ مُسْلِمٍ. وَقَالَ الْهَيْثَمِيُّ: رِجَالُه رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
33: أخرجه الحاکم في المستدرک،کتاب الجنائز، 1 /505، 516، الرقم: 1307، 1340، والطبراني في المعجم الکبير، 1 /315، الرقم: 929، والبيهقي في شعب الإيمان، 7 /9، الرقم: 9265، والمنذري في الترغيب والترهيب، 4 /174، الرقم: 5305، والهيثمي في مجمع الزوائد، 3 /21.
’’حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے میت کو غسل دیا اور اُس کی پردہ پوشی کی اُس کی چالیس مرتبہ بخش کی جائے گی، اور جس نے میت کو کفن پہنایا اللہ تعالیٰ اُسے باریک دیباج اور بھاری اطلس کا (جنتی) لباس پہنائے گا اور جس نے میت کے لئے قبر کھودی اور میت کو اُس میں دفن کیا تو اُس کے لئے اُس (جنتی) گھر کا اجر جاری کر دیا جائے گا جس میں اللہ تعالیٰ اُسے روزِ قیامت ٹھہرائے گا۔‘‘
اِس حدیث کو امام حاکم، طبرانی اوربیہقی نے روایت کیا ہے۔ امام حاکم نے فرمایا: اِس حدیث کی سند امام مسلم کی شرائط پر صحیح ہے۔ امام ہیثمی نے بھی فرمایا: اِس حدیث کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved