سفرِ ہجرت کے آخری مرحلے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قبا میں قیام پذیر تھے۔ مسجد قبا کی تعمیر کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یثرب ۔ ۔ ۔ جسے بعد میں مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بننے کا اعزاز حاصل ہونا تھا ۔ ۔ ۔ کی طرف روانہ ہوئے۔ بعض روایات کے مطابق یہ 12 ربیع الاول کا دن تھا، یثرب کے شہری جوق در جوق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناقہ کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے۔ بنو نجار کی خوش بخت بچیاں دف کے ساتھ استقبالیہ اشعار پڑھ رہی تھیں۔ عورتیں، مرد، بچے تمام مہمانِ مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے دیدہ و دل فرشِ راہ کئے ہوئے تھے۔ ہر قبیلے کے سردار کی خواہش تھی کہ اُسے والیء کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میزبانی کا شرف حاصل ہو لیکن یہ شرفِ عظیم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مقدر میں لکھا جاچکا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر نچلی منزل میں قیام پذیر ہوئے جبکہ وہ میاں بیوی بالا خانے پر رہنے لگے تاکہ اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم کو بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہونے میں آسانی رہے۔ ایک دن بالائی منزل میں پانی کا گھڑا ٹوٹ گیا۔ میاں بیوی کو خدشہ ہوا کہ کہیں چھت نہ ٹپکنے لگے۔ چنانچہ انہوں نے پانی جذب کرنے کے لئے اس پر لحاف ڈال دیا اور خود ساری رات دونوں میاں بیوی سردی سے ٹھٹھرتے رہے۔ وہ فرماتے ہیں :
فلقد انکسر حب لنا فيه ماء، فقمت أنا و أم أيوب بقطيفة لنا ما لنا لحاف غيرها ننشف بها الماء تخوفاً أن يقطر علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم منه شئ فيؤذيه.
طبراني، المعجم الکبير، 4 : 119، رقم : 23855
حاکم، المستدرک، 3 : 521، رقم : 35939
ابن کثير، البدايه والنهايه، 3 : 4201
سمهودي، وفاء الوفاء، 1 : 5264
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 276
’’ہمارا پانی کا گھڑا ٹوٹ گیا اور پانی بہہ گیا، پس میں اور (میری اہلیہ) اُم ایوب اپنے واحد لحاف سے پانی صاف کرتے رہے اس خوف سے کہ کہیں پانی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اوپر ٹپک جائے اور انہیں تکلیف پہنچے۔‘‘
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکاتِ مقدسہ محفوظ تھے۔ جب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا آخری وقت قریب آیا تو انہوں نے وصیت کی :
ان يکفن في قميص کان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم قد کساه إياه. و أن يجعل مما يلي جسده. وکان عنده قلامة أظفار رسول اﷲ، فأوصي أن تُسحق و تجعل في عينيه و فمه، وقال : افعلوا ذالک، و خلّوا بيني و بين أرحم الراحمين.
ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 5 : 2203
نووي، تهذيب الاسماء، 2 : 3103
حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 44
’’مجھے اس قمیض میں کفنایا جائے جسے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں پہنایا تھا اور اسے ان کے جسم پر (اس طرح) ڈال دیا جائے (کہ درمیان میں کوئی اور کپڑا حائل نہ ہو)۔‘‘
علاوہ ازیں ان کے پاس حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تراشے ہوئے مبارک ناخن تھے۔ انہوں نے وصیت کی کہ ان مبارک ناخنوں کو باریک پیس کر ان کی آنکھوں اور منہ میں ڈال دیا جائے پھر فرمایا میں جیسا کہتا ہوں ایسا ہی کرنا اور باقی معاملہ میرے اور ارحم الرحمین کے درمیان چھوڑ دینا۔
غزوۂ بدر کے موقع پر ایک کم سن نوجوان مجاہدینِ اسلام کی صفوں میں چھپتا پھر رہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صف بندی کے دوران اس نوجوان کو دیکھ کر فرمایا : بیٹا! ابھی تمہاری عمر لڑنے کی نہیں ہے، اس لئے تم واپس چلے جاؤ۔ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ حکم سن کر وہ نوجوان جو کم عمری کے باوجود دل میں شہادت کی شدید آرزو رکھتا تھا آبدیدہ ہوگیا، اور عرض پرداز ہوا : یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، میں جنگ میں شریک ہونے کی اجازت کا طلب گار ہوں، شاید میرا لہو اللہ کی راہ میں کام آجائے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس نوجوان کا جذبۂ ایمان دیکھ کر اُسے اجازت مرحمت فرما دی اور اسے تلوار بھی عطا کی۔ تاریخ اس نوجوان کو حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے نام سے یاد کرتی ہے۔ وہ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی تھے۔ جنگ کا آغاز ہوا تو حضرت عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ دشمن پر ٹوٹ پڑے، آخر دادِ شجاعت دیتے ہوئے فقط سولہ سال کی عمر میں شہادت کے رتبے پر فائز ہوئے اور اپنا نام اسیرانِ مصطفیٰ کی فہرست میں لکھوانے کی سعادت حاصل کی۔
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 3 : 2149
حاکم، المستدرک، 3 : 208، رقم : 34864
سهيلي، الروض الانف، 3 : 4164
ابن اثير، اسد الغابه في معرفة الصحابه، 4 : 5287
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 697
ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 7394
هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 869
ابن حجر عسقلاني، الاصابه، 4 : 9725
مروزي، السنة، 1 : 1047
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 380
حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ عشقِ رسول کی چلتی پھرتی تصویر تھے۔ اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہوئے اور اپنا سب کچھ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں پر نثار کر دینے کا عہد کر لیا۔ اس کی پاداش میں ان پر مصائب کے پہاڑ ٹوٹ پڑے، کفار و مشرکین مکہ نے اس جاں نثارِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زنجیروں میں جکڑ دیا لیکن ان کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔ صلح حدیبیہ کی دستاویز حیطۂ تحریر میں لائی جا چکی تھی کہ حضرت ابو جندل رضی اللہ عنہ کفار و مشرکین کی قید سے بھاگ کر پناہ کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو گئے۔ ابو جندل رضی اللہ عنہ سے تمام تر ہمدردی کے باوجود آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معاہدے کی خلاف ورزی ہرگز گوارا نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے دل پر پتھر رکھ کر ابوجندل رضی اللہ عنہ کی واپسی کی تجویز سے اتفاق کیا۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ابوجندل رضی اللہ عنہ کو مخاطب کیا :
يا أبا جندل! قد تم الصلح بيننا و بين القوم، فاصبر حتي يجعل اﷲ لک فرجا و مخرجاً.
ابن سعد، الطبقات الکبري، 2 : 297
بخاري، الصحيح، 2 : 967، کتاب الشروط، رقم : 32564
بيهقي، السنن الکبري، 9 : 4227
طبراني، المعجم الکبير، 20 : 16، رقم : 515
طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 6123
ابن هشام، السيرة النبويه، 4 : 287
’’اے ابو جندل! ہمارے اور اس قوم کے درمیان صلح مکمل ہو گئی ہے، اس لئے تم صبر کرو، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تمہارے لئے کشائش اور نکلنے کی راہ پیدا کر دے۔‘‘
ابوجندل رضی اللہ عنہ نے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی تعمیل کر کے اطاعت و اتباع کی ایک نئی داستان قلمبند کی اور اپنے عمل سے ایفائے عہد کے چراغ کو بجھنے نہ دیا۔
عبداللہ بن اُبی رئیس المنافقین تھا، مدینہ منورہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے قبل اسے یثرب کا بادشاہ بنانے کی تیاریاں کی جا رہی تھیں، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تشریف آوری سے یہ منصوبہ دھرے کا دھرا رہ گیا اور ریاستِ مدینہ کا قیام عمل میں آیا۔ عبداللہ بن ابی اور دیگر منافقینِ مدینہ اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا راستہ روکنے کے لئے در پردہ سازشوں کا جال بننے لگے اور مہاجرینِ مکہ کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کر دیئے۔ اسی طرح منافقینِ مدینہ طبقاتی کشمکش کو ہوا دے کر ریاستِ مدینہ کے امن کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔
1۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ اسی عبداللہ بن اُبی کے بیٹے تھے لیکن منافق باپ کے سازشی ذہن سے انہیں دُور کا بھی واسطہ نہ تھا۔ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جاں نثار صحابی تھے اور اپنے باپ کی حرکتوں پر اندر ہی اندر کھولتے رہتے تھے۔ وہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور اپنے باپ کی جملہ منفی سرگرمیوں کے پس منظر میں عرض پرداز ہوئے۔ یا رسول اﷲ! مجھے حکم دیجئے کہ میں اپنے باپ کا کانٹا راستے سے ہٹا دوں تاکہ دینِ مبین کی پیش رفت میں کوئی رکاوٹ باقی نہ رہے۔
روایت کے الفاظ اس طرح ہیں :
أنه استأذن النبی صلی الله عليه وآله وسلم أن يقتل أباه، قال : لا تقتل أباک.
حاکم، المستدرک، 3 : 679، رقم : 26490
عبد الرزاق، المصنف، 3 : 538، رقم : 36627
شيباني، الاحادو المثاني، 4 : 23، رقم : 41967
هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 5318
عسقلاني، الاصابه، 4 : 155
’’(حضرت عبد اﷲ رضی اللہ عنہ بن عبداللہ بن ابی) نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اپنے باپ (عبداللہ بن ابی) کو قتل کرنے کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنے باپ کو قتل نہ کر۔‘‘
2۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
مرّ رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم بعبد اﷲ بن أبی و هو فی ظل أطم، فقال : عبر علينا ابن أبي کبشة، فقال ابنه عبداﷲ بن عبداﷲ : يا رسول اﷲ! والذي أکرمک لئن شئت لاتيتک برأسه، فقال : لا، ولکن بر أباک و أحسن صحبته.
ھيثمي نے ’مجمع الزوائد (9 : 318)‘ میں کہا ہے کہ اُسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال ثقہ ہیں۔
ابن حبان، الصحيح، 2 : 170، 171، رقم : 3428
هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 498، رقم : 42029
طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 80، رقم : 5229
عسقلانی، الاصابه، 4 : 155
’’عبداللہ بن ابی ایک بلند ٹیلہ کے سایہ میں بیٹھا تھا کہ اتنے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اس کے پاس سے گزر ہوا تو عبداللہ بن ابی کہنے لگا : ابن ابی کبشہ کا یہاں سے گذر ہوا۔ اس پر اس کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بن عبد اﷲ نے عرض کی : یا رسول اللہ ! اس ذات کی قسم جس نے آپ کو مکرم و محترم بنایا ہے، اگر آپ چاہیں تو میں (اپنے) اس (بدبخت باپ) کا سر (قلم کرکے) آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر کر دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا نہیں اپنے والد کے ساتھ حسنِ سلوک اور حسنِ محبت سے پیش آؤ۔‘‘
یہ بات حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ ایسا مخلص شخص ہی کہنے کی جرات کر سکتا ہے جس نے محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اپنی ذات کو گم کر دیا تھا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو جب اپنا حقیقی باپ ابن ابی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے راستے کی دیوار بنتا نظر آیا تو اُنہوں نے اس دیوار کو ہی گرانے کا فیصلہ کر لیا۔
3۔ غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر ایک مقام پر ابن ابی نے حضور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں بعض گستاخانہ الفاظ کہے۔ اس پراس کا حقیقی بیٹا حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ تلوار سونت کر اپنے باپ کے سر پر کھڑے ہو گئے اوراسے خوب ذلیل کیا۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں :
لما رجع رسول اﷲ من بنی المصطلق، قام ابن عبداﷲ بن أبی : فسَلّ علی أبيه السيف، و قال : ﷲ علي ألا أغمده حتي تقول محمد الاعز وأنا الأذل، قال : ويلک! محمد الأعز و أنا الأذل، فبلغت رسول اﷲ فأعجبه و شکرها له.
هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 317، 2318
حميدي، المسند، 2 : 520، رقم : 31240
قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 18 : 4129
آلوسي، روح المعاني، 28 : 116
’’جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غزوہ بنی المصطلق سے واپس لوٹے تو ابن عبداللہ بن ابی اٹھ کھڑے ہوئے اور انہوں نے اپنے باپ پر تلوار سونتی اور فرمایا : بخدا! میں اس وقت تک اپنی تلوار میان میں نہیں رکھوں گا جب تک تو زبان سے یہ نہیں کہہ دیتا کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معزز ہیں اور میں ذلیل ہوں۔ اس نے کہا : تو ہلاک ہو، محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معزز ہیں اور میں ذلیل ہوں۔ جب یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی جرات کو پسند فرمایا اور سراہا۔
جس طرح سب سے پہلے اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہونے کا اعزاز ایک معزز خاتون حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کو حاصل ہوا اُسی طرح سب سے پہلے حق کی راہ میں جان کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت بھی ایک خاتون کو حاصل ہوئی۔ یہ خاتون حضرت سمیہ رضی اﷲ عنہا تھیں۔ آپ حضرت عمار رضی اللہ عنہ کی والدہ ماجدہ تھیں، جنہوں نے ناموسِ رسالت کے تحفظ کے لئے اپنی جان کی قربانی پیش کی۔ اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی ان کے جذبۂ ایمانی کو طرح طرح سے آزمایا گیا لیکن جان کا خوف بھی ان کے جذبۂ ایمان کو شکست نہ دے سکا۔ روایات میں مذکور ہے کہ انہیں گرم کنکریوں پر لٹایا جاتا، لوہے کی زرہ پہنا کر دھوپ میں کھڑا کر دیا جاتا، لیکن تشنہ لبوں پر محبتِ رسول کے پھول کھلتے رہے اور پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔ عورت تو نازک آبگینوں کا نام ہے جو ذرا سی ٹھیس سے ٹوٹ جاتے ہیں لیکن حضرت سمیہ رضی اﷲ عنہا ایمان کا حصارِ آہنی بن گئیں۔
وروی أن ابا جهل طعنها فی قبلها بحربة فی يده، فقتلها، فهي أول شهيد في الإسلام، وکان قتلها قبل الهجرة، وکانت ممن أظهر الإسلام بمکة في أول الإسلام.
ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 13، رقم : 233869
عسقلاني، فتح الباري، 7 : 24، رقم : 53460
مزي، تهذيب الکمال، 21 : 216، رقم : 34174
خطيب بغدادي، تاريخ بغداد، 1 : 4150
ابن اثير، اسد الغابه، 7 : 153
’’روایت ہے کہ ابوجھل نے ان کے جسم کے نازک حصے پر برچھی کا وار کیا جس سے وہ شھید ہو گئیں، یہ اسلام کی پہلی شہید خاتون ہیں، جن کو ہجرت سے پہلے شھید کر دیا گیا اور یہ وہ خاتون ہیں جنہوں نے مکہ مکرمہ میں اسلام کے ابتدائی دور میں اپنے اسلام کا اعلانیہ اظہار کیا تھا۔‘‘
ابن اسحاق نے آل عمار بن یاسر کے کسی شخص سے روایت نقل کی ہے کہ :
أن سمية أم عمار عذبها هذا الحي من بني المغيرة علي الاسلام، و هي تأبي حتي قتلوها، وکان رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم يمر بعمار و أبيه و أمه و هم يعذبون بالأبطح في رمضاء مکة، فيقول : صبرًا، يا آل ياسر فإن موعدکم الجنة.
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 239، رقم : 21631
حاکم، المستدرک، 3 : 432، رقم : 35646
طبراني، المعجم الکبير، 24 : 303، رقم : 4769
ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 549
ابن هشام، السيرة النبويه، 2 : 6162
ابن اثير، اسد الغابه، 7 : 152
’’اُمِ عمار حضرت سمیہ رضی اﷲ عنہا کو بنی مغیرہ نے اسلام لانے کی پاداش میں تکلیفیں پہنچائیں مگر اس نے (اقرار اسلام کے سوا) ہر چیز کا انکار کیا حتی کہ اُنہوں نے اسے شھید کر دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جب حضرت عمار اور ان کے والد اور والدہ کے پاس سے گزر ہوتا جن کو کفار کی طرف سے مکہ کی شدید گرمی میں وادی ابطح میں عذاب دیا جا رہا ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے اے آلِ یاسر! صبر کرو، جنت تمہارا انتظار کر رہی ہے۔‘‘
طائف کے بازاروں میں اوباش لڑکوں نے شقاوتِ قلبی کی انتہا کر دی تھی، جسمِ اطہر پر اتنے پتھر برسائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ٹخنوں سے خون بہنے لگا۔ مضروبِ طائف حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کچھ دیر کے لئے ایک باغ میں رکے، یہ باغ ربیعہ نامی شخص کا تھا جو اسلام اور پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا بدترین دُشمن تھا۔ اس کے دونوں بیٹے عتبہ اور شیبہ اس وقت باغ میں موجود تھے۔ اُنہوں نے ایک طشتری میں انگور کا ایک خوشہ دے کر اپنے غلام عداس کے ذریعے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کیا۔ آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بسم اللہ پڑھ کر انگورکے دانے توڑے تو عداس کی نظریں چہرۂ اقدس پر جم کر رہ گئیں۔ وہ جانتا تھا کہ یہاں کے لوگ بسم اللہ پڑھ کر کھانا نہیں کھاتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غلام سے پوچھا : تم کس ملک کے رہنے والے ہو۔ اور تمہارا تعلق کس دین سے ہے؟ اُس نے بتایا کہ میں ایک عیسائی ہوں اور نینویٰ کا رہنے والا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ نینویٰ جو یونس بن متی کا شہر ہے؟ عداس تصویرِ حیرت بن گیا اور بولا : آپ یونس بن متی کو جانتے ہیں؟ ارشادِ گرامی ہوا کہ یونس بن متی میرے بھائی ہیں، وہ بھی ربِ ذوالجلال کے نبی تھے اور میں بھی نبی ہوں۔ عداس فرطِ عقیدت سے اُٹھ کھڑا ہوا، پہلے رحمۃ للعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِ انور کو چوما اور پھر آقائے مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پائے اقدس کے بوسے لینے لگا۔ واپس اپنے مالکان کی خدمت میں پہنچا تو اُنہوں نے اسے ڈانٹا لیکن غلامِ بے نوا کے لبوں پر یہ الفاظ مچل اُٹھے :
ما فی الأرض خير من هذا.
ابن هشام، السيرة النبويه، 2 : 268، 2269
ابن حبان، الثقات، 1 : 378
ابن عبد البر، الدرر، 1 : 463
قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 16 : 4211
ابن کثير، البدايه والنهايه، 3 : 5136
طبري، تاريخ الامم والملوک، 1 : 554، 6555
ابن اثير، الکامل في التاريخ، 2 : 792
عسقلاني، الاصابه، 4 : 8467
سيوطي، الخصائص الکبري، 1 : 9300
حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 355، 356
’’روئے زمین پرآج ان سے بہتر کوئی نہیں۔‘‘
کسی خاتون نے بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک چادر پیش کی۔ آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے زیبِ تن فرمایا اور اپنے صحابہ رضی اللہ عنھم کی محفل میں تشریف لائے۔ ایک صحابی عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ! یہ چادر مجھے عنایت فرما دیجئے۔ حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ چادر اسے عطا فرما دی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو اس شخص کا یہ عمل پسند نہ آیا اور اسے کہا کہ جب تمہارے علم میں تھا کہ حضور کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تو تم نے یہ چادر کیوں مانگ لی؟ وہ شخص جو ایک عاشقِ رسول تھا، جواب میں گویا ہوا۔
رجوتُ برکتها حين لبسها النبي صلي الله عليه وآله وسلم، لعلي أکفن فيها.
بخاري، الصحيح، 5 : 2245، کتاب الأدب، رقم : 25689
بخاري، الصحيح، 1 : 429، کتاب الجنائز، رقم : 31218
نسائي، السنن الکبري، 5 : 480، رقم : 49659
ابن ماجه، السنن، 2 : 1177، کتاب اللباس، رقم : 53555
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 6333
عبد بن حميد، المسند، 1 : 170، رقم : 7462
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 404، رقم : 86489
بيهقي، شعب الايمان، 5 : 170، رقم : 96634
طبراني، المعجم الکبير، 6 : 143، رقم : 105785
ابن سعد، الطبقات الکبري، 1 : 454
’’جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو پہن لیا تو میں نے اس کی برکت کی آرزو کی کہ میں اس میں کفنایا جاؤں۔‘‘
سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اسے اسی چادر میں دفنایا گیا۔
مؤرخین بیان کرتے ہیں کہ غزوۂ احد میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معاذ اللہ شہید کر دیئے گئے۔ اس خبر کا سننا تھا کہ مدینے میں ہر طرف کہرام مچ گیا۔ اہلِ مدینہ شہر سے باہر نکل آئے۔ ان میں قبیلہ انصار کی ایک خاتون حضرت ہند بنت حزام رضی اﷲ عنہا بھی تھی جس کا باپ، بھائی اور خاوند حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ غزوۂ احد میں شریک ہوئے تھے، اور تمام کے تمام اس غزوہ میں شہید ہوگئے تھے۔
جب اس خاتون سے کوئی صحابی ملتا تو وہ اطلاع دیتا کہ تیرا باپ وہاں شہید ہوگیا اور کوئی اس کے خاوند کی شہادت کا تذکرہ کرتا تو کوئی بھائی کی شہادت کی خبر دیتا۔ وہ عظیم خاتون سن کر کہتی کہ یہ بات نہ کرو بلکہ یہ بتلاؤ :
ما فعل برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم ؟
قسطلانی، المواهب اللدنيه، 2 : 93
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کيسے ہيں؟‘‘
صحابہ رضی اللہ عنھم نے جواب ديا :
خير هو بحمد ﷲ کما تحبّين.
’’الحمد ﷲ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح خیریت سے ہیں جس طرح تو پسند کرتی ہے‘‘۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خیریت کی خبر سن کر وہ کہنے لگی :
أرونيه حتی أنظر إليه.
’’مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کراؤ، حتی کہ میں خود اُنہیں دیکھ لوں۔‘‘
جب اس خاتون نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک نظر دیکھا تو پکار اٹھی :
يا رسول اﷲ! کل مصيبة بعدک جلل.
ابن هشام، السيرة النبويه، 4 : 250
طبري، تاريخ الامم و الملوک، 2 : 374
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 528، 3542
ابن کثير، البدايه والنهايه، 4 : 547
قسطلاني، المواهب اللدنيه، 2 : 93
’’یا رسول اللہ! آپ کے ہوتے ہوئے ہر غم و پریشانی ہیچ ہے۔‘‘
ایک نوجوان صحابی حضرت حنظلہ بن ابو عامر رضی اللہ عنہ شادی کی پہلی رات اپنی بیوی کے ساتھ حجلۂ عروسی میں تھے کہ کسی پکارنے والے نے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم پر جہاد کے لئے پکارا۔ وہ صحابی اپنے بستر سے اُٹھے۔ دلہن نے کہا کہ آج رات ٹھہرجاؤ، صبح جہاد پر روانہ ہو جانا۔ مگر وہ صحابی جو صہبائے عشق سے مخمور تھے، کہنے لگے : اے میری رفیقۂ حیات! مجھے جانے سے کیوں روک رہی ہو؟ اگر جہاد سے صحیح سلامت واپس لوٹ آیا تو زندگی کے دن اکٹھے گزار لیں گے ورنہ کل قیامت کے دن ملاقات ہوگی۔‘‘
اس صحابی رضی اللہ عنہ کے اندر عقل و عشق کے مابین مکالمہ ہوا ہوگا۔ عقل کہتی ہوگی : ابھی اتنی جلدی کیا ہے؟ جنگ تو کل ہوگی، ابھی تو محض اعلان ہی ہوا ہے۔ شبِ عروسی میں اپنی دلہن کو مایوس کر کے مت جا۔ مگر عشق کہتا ہوگا : دیکھ! محبوب کی طرف سے پیغام آیا ہے، جس میں ایک لمحہ کی تاخیر بھی روا نہیں۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ اسی جذبۂ حب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جہاد میں شریک ہوئے اور مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے۔ اللہ رب العزت کے فرشتوں نے انہیں غسل دیا اور وہ ’غسیل الملائکہ‘ کے لقب سے ملقب ہوئے۔ حضرت قتادہ سے روایت ہے کہ جب جنگ کے بعد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ملائکہ کو انہیں غسل دیتے ہوئے ملاحظہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے مخاطب ہوئے :
إنّ صاحبکم لتُغَسّله الملائکة يعني حنظلة، فسألوا أهله : ماشأنه؟ فسئلت صاحبته فقالت : خرج و هو جنب حين سمع الهائعة، فقال رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم : لذالک غسلته الملائکة، وکفي بهذا شرفاً و منزلة عنداﷲ تعالٰي.
ابن اثير، اسد الغابة، 2 : 286
حاکم، المستدرک، 3 : 225، رقم : 34917
ابن حبان، الصحيح، 15 : 495، رقم : 47025
بيهقي، السنن الکبري، 4 : 15، رقم : 56605
ابن اسحاق، سيرة، 3 : 6312
ابن هشام، السيرة النبويه، 4 : 723
ابن کثير، البدايه والنهايه(السيرة)، 4 : 821
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 9525
طبري، تاريخ الامم والملوک، 2 : 1069
ابو نعيم، دلائل النبوة، 1 : 11110
ابو نعيم، حلية الاولياء، 1 : 357
’’تمہارے ساتھی حنظلہ کو فرشتوں نے غسل دیا ان کے اہلِ خانہ سے پوچھو کہ ایسی کیا بات ہے جس کی وجہ سے فرشتے اسے غسل دے رہے ہیں۔ ان کی اہلیہ محترمہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ جنگ کی پکار پر حالتِ جنابت میں گھر سے روانہ ہوئے تھے۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہی وجہ ہے کہ فرشتوں نے اسے غسل دیا اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کے مقام و مرتبے کے لئے یہی کافی ہے۔‘‘
اسی جذبے کے احیاء کی آج پھر ضرورت ہے۔ اگر ہم جوان نسل میں کردار کی پاکیزگی، تقدس اور ایمان کی حلاوت نئے سرے سے پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان میں اس تعلقِ عشقی کو کوٹ کوٹ کر بھرنا ہوگا۔
حضرت عبداللہ بن زید رضی اللہ عنہ کے بارے میں منقول ہے کہ جب انہیں ان کے بیٹے نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کی خبر دی وہ اس وقت اپنے کھیتوں میں کام کر رہے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کی خبر سن کر غمزدہ ہوگئے اور بارگاہِ الٰہی میں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی :
اللّٰهم! اذهب بصری حتی لا أری بعد حبيبي محمداً صلي الله عليه وآله وسلم أحدا.
قسطلاني، المواهب اللدنيه، 2 : 94
’’اے میرے اللہ! میری آنکھوں کی بینائی اب ختم کر دے تاکہ میں اپنے محبوب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد کسی دوسرے کو دیکھ ہی نہ سکوں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے اُسی وقت اُن کی دعا قبول فرما لی۔
حضرت قاسم بن محمد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
إن رجلا من أصحاب محمد ذهب بصره فعادوه.
’’حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں سے ایک صحابی کی بینائی (فراقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں) جاتی رہی تو لوگ ان کی عیادت کے لئے گئے۔‘‘
جب ان کی بینائی ختم ہونے پر افسوس کا اظہار کیا گیا تو وہ کہنے لگے :
کنتُ أريدهما لأنظر إلي النبي صلي الله عليه وآله وسلم، فأما إذا قُبض النبي، فواﷲ ما يسّرني أن بهما بظبي من ظباء تبالة.
بخاري، الادب المفرد، 1 : 188، رقم : 533
’’میں ان آنکھوں کو فقط اس لئے پسند کرتا تھا کہ ان کے ذریعے مجھے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار نصیب ہوتا تھا۔ اب چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوگیا ہے اس لئے اگر مجھے چشمِ غزال (ہرن کی آنکھیں) بھی مل جائیں تو کوئی خوشی نہ ہو گی۔‘‘
کتبِ حدیث و سیر میں درج ہے کہ قبل از اسلام کفار و مشرکین نے حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کو اپنا سفیر بنا کر بارگاہِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھیجا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور پر نگاہ پڑتے ہی ایمان کی روشنی دل میں اترگئی اور وہ عرض گزار ہوئے : آقا! اب واپس جانے کو جی نہیں چاہتا، مجھے اپنے قدموں میں ہی رہنے دیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : نہیں، آدابِ سفارت کا تقاضا ہے کہ تم واپس جاؤ۔ تم ایک سفیر کی حیثیت سے میرے پاس آئے تھے اور سفیر کو روکنا مجھے گوارا نہیں، اس لئے واپس لوٹ جاؤ۔ چنانچہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کی تعمیل میں حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ واپس لوٹ گئے، لیکن زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ واپس آ کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامنِ عاطفت میں پناہ لے لی۔
وہ فرماتے ہیں :
بعثتنی قريش إلي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فلمّا رأيتُ رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ألقي في قلبي الإسلام، فقلت : يا رسولَ اﷲ! إني، و اﷲ! لا أرجع إليهم أبداً، فقال رسول اﷲ : إني لا أخيس بالعهد، و لا أحبس البرد، و لکن ارجع، فإن کان في نفسک الذي في نفسک الآن، فارجع.
ابوداؤد، السنن، 3 : 82، کتاب الجهاد، رقم : 22758
نسائي، السنن الکبري، 5 : 205، رقم : 37486
احمد بن حنبل، المسند، 6 : 48
ابن حبان، الصحيح، 11 : 233، رقم : 54877
حاکم، المستدرک، 3 : 691، رقم : 66538
طحاوي، شرح معاني الآثار، 3 : 7318
طبراني، المعجم الکبير، 1 : 323، رقم : 8963
بيهقي، السنن الکبري، 9 : 145، رقم الباب : 9124
هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 393، رقم : 1630
’’مجھے قریش نے بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بھیجا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوا تو اِسلام نے میرے دل میں گھر کرلیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض گزاری : یارسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! اب لوٹ کر کفار کی طرف نہیں جاؤں گا (بلکہ ساری زِندگی آپ کے قرب میں گزار دُوں گا۔) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں عہد کی خلاف ورزی نہیں کرسکتا اور نہ سفیر کو اپنے پاس روکے رکھنا میرے طریق میں سے ہے۔ اِس وقت لوٹ جاؤ، اگر محبت کا یہی عالم برقرار رہا تو پھر واپس چلے آنا۔‘‘
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ اپنی داستانِ وفا بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حکمِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق اُس وقت میں واپس لوٹ آیا لیکن کفار و مشرکین میں میرا جی نہ لگتا تھا، پھر میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اِسلام لے آیا۔
حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا واقعہ کی مثل ایک اور روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب لشکرِ یمامہ کے سپہ سالار ثمامہ بن اُثال کو گرفتار کر کے تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اَقدس میں پیش کیا گیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ثمامہ کو مسجدِ نبوی کے ستون سے باندھنے کا حکم دیا۔ تین دِن تک ثمامہ مسجدِ نبوی کے ستون سے بندھے رہے۔ تیسرے دن اُنہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گفتگو کا اِعزاز حاصل ہوا، جس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا کہ ثمامہ کو رہا کر دیا جائے۔ جب ثمامہ کو رہا کردیا گیا تو وہ مسجدِ نبوی کے قریب کھجوروں کے ایک باغ میں چلے گئے۔ وہاں جا کر اُنہوں نے غسل کیا اور دوبارہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضرِ خدمت ہوئے، سرِ تسلیم خم کیا اور اِیمان کی دولت سے بہرہ ور ہونے کے لئے یہ تاریخی کلمات عرض کئے :
يَا محمد! و اﷲِ ما کان علی الأرضِ وجهٌ أبغض إلیّ مِن وَجْهِکَ، فقد أصبح وَجْهُکَ أحبّ الوُجوهِ کلّها إلیّ، واﷲِ! ما کان مِن دينٍ أبغض إلیّ مِن دِيْنِکَ، فأصبح دِيْنُکَ أحبّ الدينِ کلّه إلیّ، و اﷲِ! ما کان مِن بلدٍ أبغض إلیّ مِن بَلَدِکَ، فأصبح بَلَدُکَ أحبّ البلادِ کلّها إلیّ.
مسلم، الصحيح، 3 : 1386، کتاب الجهاد والسير، رقم : 21764
بخاري، الصحيح، 4 : 1589، کتاب المغازي، رقم : 34114
نسائي، السنن، 1 : 109، کتاب الطهارت، رقم : 4189
نسائي، السنن الکبري، 1 : 107، رقم : 5194
ابن حبان، الصحيح، 4 : 43، رقم : 61239
بيهقي، السنن الکبري، 6 : 319، رقم : 712614
ابو عوانه، المسند، 4 : 258، رقم : 96697
ابن قيم، زاد المعاد، 3 : 10277
حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 8172
ابن عبد البر، الاستيعاب، 1 : 215
’’یا محمد صلی اﷲ علیک وسلم! قسم ہے ربِ کائنات کی! رُوئے زمین پر مجھے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے چہرے سے بڑھ کر کوئی چیز ناپسندیدہ نہ تھی، مگر (اَب رُوئے اَنور کی زیارت کے بعد) آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے چہرۂ اَنور سے بڑھ کر مجھے کوئی چیز محبوب نہیں۔ قسم ہے ربِ ذُوالجلال کی! آپ صلی اﷲ علیک وسلم کا دِین میرے ہاں سب سے زیادہ ناپسندیدہ تھا، لیکن اَب یہ دین تمام اَدیان سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ قسم ہے خدائے رحیم و کریم کی! مجھے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے شہر سے زیادہ کوئی شہر ناپسندیدہ نہ تھا، لیکن اَب آپ صلی اﷲ علیک وسلم کا شہرِ دِلنواز مجھے تمام شہروں سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال مبارک ہوا تو سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے ہجر و فراق کے ان لمحات میں یہ کلمات عرض کئے :
السلام عليک يا رسول اﷲ! بأبي أنت و أمي! لقد کنت تخطبنا علي جذع نخلة، فلما کثر الناس اتخذت منبراً لتسمعهم، فحنّ الجذع لفراقک، حتي جعلت يدک عليه فسکن، فأمتک أولیٰ بالحنين إليک لما فارقتها، بأبي أنت و أمي، يا رسول اﷲ! لقد بلغ مِن فضيلتک عنده أن جعل طاعتک طاعته، فقال عزوجل : مَنْ يُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اﷲَ.
عبدالحليم محمود، الرسول : 22، 23
’’یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ پر سلام ہو، آپ پر میرے ماں باپ قربان۔ آپ ہمیں کھجور کے تنے کے ساتھ کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، کثرتِ صحابہ کے پیش نظر منبر بنوایا گیا۔ جب آپ صلی اﷲ علیک وسلم اُس تنے کو چھوڑ کر منبر پر جلوہ افروز ہوئے تو اس نے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کی جدائی میں سسکیاں لے کر رونا شروع کر دیا۔ آپ صلی اﷲ علیک وسلم نے اس پر دستِ شفقت رکھا تو وہ خاموش ہو گیا۔ جب اس بے جان کھجور کے تنے کا یہ حال ہے تو اِس اُمت کو آپ صلی اﷲ علیک وسلم کے فراق پر نالۂ شوق کا زیادہ حق ہے۔ یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں، اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اﷲ علیک وسلم کو کتنی فضیلت عطا فرمائی ہے کہ آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دے دیا۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے : جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ (ہی) کا حکم مانا۔‘‘
دوسری روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے :
بأبی أنت و أمی، يا رسول اﷲ! لقد بلغ من تواضعک أنک جالستنا، و تزوجتَ منّا، و أکلتَ معنا، ولبستَ الصوف، و رکبتَ الدواب، واردفت خلفه، و وضعت طعامک علی الأرض تواضعا منک.
عبدالحليم محمود، الرسول : 22، 23
’’یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ صلی اﷲ علیک وسلم پر قربان ہوں، آپ کا یہ عالم ہے کہ (عرش کے مہمان ہوکر ) ہم خاک نشینوں کے ساتھ رہے، ہم لوگوں کے ساتھ نکاح کیا اور ہمارے ساتھ کھایا، صوف کا لباس پہنا، عام جانور پر سواری فرمائی بلکہ ہم جیسوں کو اپنے پیچھے بٹھایا اور اپنی تواضع کے پیش نظر زمیں پر دسترخواں بچھایا۔‘‘
سورۃ الضحیٰ کا شانِ نزول بیان کرتے ہوئے مفسرین نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ بعض اہم حکمتوں کی بناء پر کچھ عرصہ کیلئے سلسلۂ وحی منقطع ہوگیا تو مخالفین نے یہ طعنہ دینا شروع کر دیا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے رب نے (معاذ اﷲ) اسے چھوڑ دیا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے سورہ الضحیٰ نازل فرمائی۔ جب جبرئیل امین علیہ السلام اس سورۂ مبارکہ کی صورت میں ربِ کریم کا پیار بھرا پیغام لے کر آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ماجئت حتی أشتقت إليک.
’’(اے جبرئیل!) تم نے آنے میں اتنی دیر کر دی کہ مجھے تمہاری ملاقات کا اشتیاق ہونے لگا۔‘‘
اس پر جبریل امین علیہ السلام نے عرض کیا :
و أنا کنتُ أشد إليک شوقاً، و لکنی عبد مأمور و ما نتنزل إلا بأمر ربک.
خازن، تفسير، 4 : 2485
قرطبی، الجامع لاحکام القرآن، 20 : 394
بغوی، معالم التنزيل، 4 : 98
’’یا رسول اللہ! مجھے آپ کی زیارت و ملاقات کا شوق آپ سے بڑھ کر تھا مگر میں حکم کا غلام ہوں اور آپ کے رب کے حکم کے بغیر ہم نازل نہیں ہوسکتے۔‘‘
میانِ عاشق و معشوق رمزیست
کراماً کاتبین را ہم خبر نیست
(اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں راز و نیاز کا وہ معاملہ ہوتا ہے جس کی خبر کراماً کاتبین کو بھی نہیں ہوتی۔)
امام آلوسی رحمۃ اﷲ علیہ نقل کرتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو جب محبوب کی یاد ستاتی تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدارِ فرحت آثار کے لئے نکل کھڑے ہوتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مبارک حجروں میں تلاش کرتے۔ اُمہاتُ المومنین رضی اﷲ عنھن سے عرض کرتے کہ ہمیں اپ دیدارِ محبوب کے بغیر چین نہیں آرہا۔ چنانچہ بعض اوقات حضرت میمونہ رضی اﷲ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زیرِ استعمال رہنے والا آئینہ لاتیں۔ جب صحابہ رضی اللہ عنھم اس آئینے کو دیکھتے تو بجائے اپنے آپ کو دیکھنے کے محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جلوہ افروز پاتے۔ روایت کے الفاظ ملاحظہ ہوں :
روی أن بعض الصحابة أحب أن يری رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، فجاء إلیٰ ميمونة، فأخرجت له مرآته، فنظر فيها مرأی صورة رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، ولم ير صورة نفسه.
آلوسی، روح المعانی، 22 : 39
’’روایت ہے کہ (جب محبوبِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد) بعض صحابہ رضی اللہ عنھم (کو تڑپاتی اور وہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت چاہتے تو حضرت میمونہ رضی اﷲ عنہا کے ہاں آجاتے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذاتی آئینہ اس صحابی کو دے دیتیں۔ جب وہ صحابی اس آئینہ مبارک کو دیکھتا تو بجائے اپنی صورت کے اُسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت مبارک نظر آتی۔‘‘
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک خاتون آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے روضۂ اقدس کی زیارت کے لئے آئی اور مجھ سے کہنے لگی :
إکشفی لی قبر رسول اﷲ، فکشفته لها، فبکت حتی ماتت.
قاضی عياض، الشفاء، 3 : 2570
ابن جوزی، صفوة الصفوه، 2 : 204، رقم : 203
’’مجھے حجرۂ انور کھول دیں (میں سرور دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزارِ اقدس کی زیارت کرنا چاہتی ہوں۔) میں نے اسے کھول دیا۔ وہ عورت (ہجر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صدمے سے) بہت روئی حتی کہ واصل بحق ہوگئی۔‘‘
حضرت اویس قرنی رضی اللہ عنہ کا نام ہونٹوں پر آتا ہے تو دیدۂ و دل میں خوشبو کے چراغ جھلملانے لگتے ہیں اور پلکیں اس عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احترام میں جھک جاتی ہیں۔ جنگِ اُحد میں جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دندانِ مبارک شہید ہوئے اور اس سچے عاشقِ رسول تک یہ خبر پہنچی توانہوں نے ایک ایک کرکے اپنے سارے دانت شہید کر ڈالے کہ معلوم نہیں میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کون سا دانت شہید ہوا ہو گا۔ حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ کو بظاہر نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی سعادت نصیب نہیں ہوئی، لیکن چشمِ تصور ہر لمحہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہء انور کے طواف میں مصروف رہتی۔
حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ قرن کے رہنے والے تھے۔ وہ اپنی ضعیف والدہ کو تنہا چھوڑ کر طویل سفر اختیار نہیں کر سکتے تھے اور پھر یہ خیال بھی دامنگیر تھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پہنچ کر نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلووں کی تاب بھی لاسکوں گا کہ نہیں۔ آقائے محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اویس قرنی رضی اللہ عنہ سے بے حد محبت تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان تھا کہ قرن میں اویس نام کا ایک شخص ہے، جو روزِ محشر بنو ربیعہ اور بنو مضر کی بھیڑوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری اُمت کے لوگوں کی شفاعت کرے گا۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اس غلام سے کتنی محبت فرماتے ہوں گے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إن خير التابعين رجلٌ يقال له أويس، وله والدة، وکان به بياض. فمروه فليستغفرلکم.
مسلم، الصحيح، 4 : 1968، کتاب فضائل الصحابه، رقم : 22542
حاکم، المستدرک، 3 : 456، رقم : 35720
احمد بن حنبل، المسند، 1 : 438
ابن سعد، الطبقات الکبري، 6 : 5163
ابن حجر عسقلاني، الاصابه، 1 : 220
’’تابعین میں سب سے افضل شخص ایک آدمی ہے، جس کا نام اویس ہو گا، اور اُس کی والدہ (حیات) ہے، اُس کو برص کی بیماری ہے، پس اُس سے کہو کہ وہ تمہارے لئے مغفرت کی دُعا کرے۔‘‘
تاجدارِ انبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اس عاشقِ رسول کے پاس پہنچ گئے، اس وقت حضرت اویسِ قرنی رضی اللہ عنہ بارگاہِ خُداوندی میں سجدہ ریز تھے۔ اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سلام پہنچایا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اُمت کی خاطر دعا کے لئے عرض کیا۔
ابن ابی شيبه، المصنف، 6 : 397،
رقم : 232344
ابو يعلي، المسند، 1 : 187، 188، رقم : 3212
بيهقي، شعب الايمان، 5 : 321، رقم : 46798
ابونعيم، حلية الاولياء، 2 : 80 - 582
ابنِ عساکر، تاريخ، 6 : 145 - 166
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد کسی ایک جمعرات کی صبح کو ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ اونٹ پر سوار ایک سفید ریش بوڑھا آیا۔ اس نے اپنی سواری کو مسجد کے دروازے پر باندھا اور یہ کہتے ہوئے اندر داخل ہوا :
السلام عليکم و رحمة اﷲ! هل فيکم محمد رسول اﷲ؟
ابن عساکر، تاريخ، 1 : 342
’’تم پر سلامتی اور اللہ کی رحمت نازل ہو، کیا تم میں اللہ کے رسول محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
أيها السائل عن محمد (صلی الله عليه وآله وسلم)! ماذا تريد منه؟
’’اے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے پوچھنے والے! تجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا کام ہے؟‘‘
اس نے کہا کہ میں یہودی علماء میں سے ہوں اور اَسی (80) سال سے تورات کا مطالعہ کر رہا ہوں۔ اس میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر بڑی تفصیل سے کیا ہے اور میں اس ذکر سے متاثر ہو کر آیا ہوں۔ اس نے سلسلۂ کلام جاری رکھتے ہوئے کہا۔
و قد جئتُ أطلب الإسلام علی يده.
’’اور میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہاتھ پر بیعتِ اسلام کیلئے حاضر ہوا ہوں۔‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اسے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا تو وصال ہو چکا ہے۔ اس پر اس عالم نے افسوس کا اظہار شروع کر دیا اور کہا :
هل فيکم قرابة محمد؟
’’کیا تم میں ان کی اولاد ہے؟‘‘
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے کہا کہ اسے سیدہ فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے پاس لے جاؤ۔ وہاں جا کر اس نے اپنا تعارف کروایا اور اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کپڑوں میں سے کسی کپڑے کی زیارت کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت سیدۂ عالم رضی اﷲٰ عنہا نے اپنے شہزادے امام حسین علیہ السلام سے فرمایا :
هاتِ الثوب الذی توفی فيه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فجآء، فأخذه الحبر و ألقاه علي وجهه وجعل يستنشق ريحه، و يقول : بأبي و أمي من جسد نشف فيه هذا الثوب.
’’وہ کپڑا لاؤ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بوقتِ وصال پہنا ہوا تھا۔ جب وہ کپڑا لایا گیا تو اس عالم نے اسے اپنے چہرے پر ڈال لیا۔ وہ اس کی خوشبو کو سونگھتا اور خوشبو سونگھتے ہوئے بار بار کہتا کہ اس صاحبِ ثوب پر میرے ماں باپ قربان ہوں۔‘‘
اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا :
صف لی صفة رسول اﷲ حتی کأنی أنظر إليه.
’’حضور کے اوصافِ جمیلہ کا تذکرہ اس طرح کرو کہ گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں۔‘‘
یہ بات سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔
فبکی علیّ بکاء شديداً و قال : واﷲ! لإن کنتَ مشتاقاً إلی محمد صلی الله عليه وآله وسلم فأنا أشوق إلی حبيبی منک.
ابن عساکر، تهذيب تاريخ دمشق الکبير، 1 : 342، 343
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ شدت کے ساتھ رو پڑے اور کہنے لگے : اے سائل خدا کی قسم! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کا جس قدر تجھے اشتیاق ہے مجھے اس سے کہیں بڑھ کر اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ملاقات کا شوق ہے۔‘‘
بعد ازاں سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حلیہ اور سراپا مبارک کا ذکر بڑی تفصیل سے فرمایا، جس کی من و عن تصدیق اس یہودی عالم نے سابقہ کتب سماوی کی روشنی میں کی اور مسلمان ہو گیا۔
شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصالِ مبارک کے بعد ہجرو فراق کی کیفیت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
وناقۂ آنحضرت علف نمیخورد وآب نمی نوشید تاآنکہ مُرد۔ از جملہ آیاتی کہ ظاہر شد بعد از موتِ آنحضرت آں حماری کہ آنحضرت گاہی براں سوار میشد چنداں حزن کرد کہ خود را درچاہی انداخت۔
عبدالحق محدث دهلوی، مدارج النبوه،
2 : 2444
حلبی، السيرة الحلبيه، 3 : 433
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اونٹنی نے مرتے دم تک کچھ کھایا اور نہ پیا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد جو عجیب کیفیات رونما ہوئیں ان میں سے ایک یہ بھی تھی کہ جس دراز گوش پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سواری فرماتے تھے وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فراق میں اتنا مغموم ہوا کہ اس نے ایک کنویں میں چھلانگ لگادی اور اپنی جاں جاں آفریں کے حوالے کر دی۔‘‘
اسلام کے ابتدائی دور میں آقا دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجدِ نبوی میں کھجور کے ایک خشک تنے کے ساتھ ٹیک لگا کر وعظ فرمایا کرتے تھے اور اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کافی دیر کھڑے رہنا پڑتا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ مشقت شاق گزری۔ ایک صحابی جس کا بیٹا بڑھئی تھا، نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے منبر بنانے کی درخواست کی تاکہ اُس پر بیٹھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ دیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس درخواست کو پذیرائی بخشی، چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھجور کے تنے کو چھوڑ کر اس منبر پر خطبہ دینا شروع کیا۔ ابھی تھوڑی دیر ہی گذری تھی کہ اس تنے سے گریہ و زاری کی آوازیں آنے لگیں۔ اُس مجلسِ وعظ میں موجود تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اُس کے رونے کی آواز سنی۔ آقا ئے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب یہ کیفیت دیکھی تو منبر سے اُتر کر اس ستون کے پاس تشریف لے گئے اور اُسے اپنے دستِ شفقت سے تھپکی دی تو وہ بچوں کی طرح سسکیاں بھرتا ہوا چپ ہو گیا۔
ابن ماجہ، 1 : 2455
دارمی، السنن، 1 : 29، رقم : 332
طبرانی، المعجم الاوسط، 2 : 367، رقم : 2250
اُس ستون کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کی روایت اس طرح ہے :
کان النبی صلی الله عليه وآله وسلم يخطب إلی جذع، فلما اتخذ المنبر تحوّل إليه فحن الجذع، فأتاه فمسح يده عليه.
بخاری، الصحيح، 3 : 1314، کتاب المناقب، رقم : 23390
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 594، ابواب المناقب، رقم : 33627
ابن حبان، الصحيح، 14 : 435، رقم : 46506
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 195، رقم : 5489
’’رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک کھجور کے تنے کے ساتھ خطبہ ارشاد فرماتے تھے۔ جب منبر تیار ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُسے چھوڑ کر منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ اُس تنے نے رونا شروع کر دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اور اُس پر دستِ شفقت رکھا۔‘‘
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اﷲ عنہما تنے کی کیفیت بیان کرتے ہیں :
فصاحت النخله صياح الصبي، ثم نزل النبي صلي الله عليه وآله وسلم فضمها إليه، تئن أنين الصبي الذي يسکن.
بخاري، الصحيح، 3 : 1314، رقم : 23391
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 195، رقم : 5489
’’کھجور کے تنے نے بچوں کی طرح گریہ و زاری شروع کر دی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبرسے اُتر کر اُس کے قریب کھڑے ہو گئے اور اُسے اپنی آغوش میں لے لیا، اس پر وہ تنا بچوں کی طرح سسکیاں لیتا خاموش ہو گیا۔‘‘
حضرت انس بن مالک اور حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنھم اُس تنے کی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فسمعنا لذالک الجذع صوتا کصوتِ العشار، حتی جاء النبی صلی الله عليه وآله وسلم فوضع يده عليها فسکنت.
بخاري، الصحيح، 3 : 1314، کتاب المناقب، رقم : 23392
دارمي، السنن، 1 : 30، رقم : 334
بيهقي، السنن الکبري، 3 : 195، رقم : 45487
ابن سعد، طبقات الکبري، 1 : 5253
ابن جوزي، صفوۃ الصفوه، 1 : 98
’’ہم نے اُس تنے کے رونے کی آواز سنی، وہ اُس طرح رویا جس طرح کوئی اُونٹنی اپنے بچے کے فراق میں روتی ہے حتٰی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تشریف لا کر اُس پر اپنا دستِ شفقت رکھا اور وہ خاموش ہو گیا۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم فرماتے ہیں :
لولم أحتضنه لحن إلی يوم القيامة.
ابن ماجه، السنن، 1 : 454، کتاب اقامة الصلوٰة والسنة فيها،
رقم : 21415
احمد بن حنبل، المسند، 1 : 3363
ابن ابي شيبه، المصنف، 6 : 319، رقم : 431746
ابويعلي، المسند، 6 : 114، رقم : 53384
عبد بن حميد، المسند، 1 : 396، رقم : 1336
’’اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ستون کو بانہوں میں لے کر چپ نہ کراتے تو قیامت تک روتا رہتا۔‘‘
یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشتِ اقدس کے لمس کا اثر تھا کہ ایک بے جان اور بے زبان لکڑی میں آثارِ حیات نمودار ہوئے جس کا حاضرینِ مجلس نے اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے مروی حدیثِ مبارکہ میں اس طرح ہیں :
کان جذع نخلة فی المسجد يسند رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ظهره إليه إذا کان يوم الجمعة أوحدث أمر يريد أن يکلم الناس، فقالوا : ألانجعل لک يارسول اﷲ شيئاً کقدر قيامک، قال : لا، عليکم أن تفعلوا. فصنعوا له منبراً ثلاث مراق. قال : فجلس عليه، قال : فخار الجذع کما تخور البقرة جزعا علي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فالتزمه و مسحه حتي سکن.
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 109
’’مسجد نبوی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطبہ پڑھنے کے لئے جمعہ کے دن یا کسی ایسے وقت میں جب لوگوں کو کوئی حکمِ الٰہی پہنچانا ہوتا، کھجور کے ایک ستون سے پشت مبارک لگا کر کھڑے ہوا کرتے تھے۔ صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم نے عرض کیا کہ اگر آپ حکم فرمائیں تو آپ کے لئے کوئی ایسی شے تیار کی جائے جس پر آپ کھڑے ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر ایسا کر سکتے ہو تو اجازت ہے۔ چنانچہ تین درجوں والا ایک منبر تیار کرایا گیا۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کہتے ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس پر کھڑے ہو کر خطبہ پڑھنے لگے تو ستون سے رونے کی آواز سنی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فوراً منبر سے اُترے، اُسے سینہ سے لگایا اور (جیسا کہ بچوں کے چپ کرانے کے لئے کیا جاتا ہے) اُس پر محبت اور شفقت سے ہاتھ پھیرتے رہے، یہاں تک کہ وہ پرسکون ہو گیا۔‘‘
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے اِسی واقعہ کو اپنے پیار بھرے اشعار میں بیان کیا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کے لیے مع ترجمہ حاضر ہیں :
استنِ حنانہ در ہجرِ رسول
نالہ میزد ہمچو اربابِ عقول
(رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فراق میں کھجور کا ستون انسانوں کی طرح رو دیا۔)
درمیانِ مجلسِ وعظ آنچناں
کزوے آگاہ گشت ہم پیر و جواں
(وہ اس مجلسِ وعظ میں اس طرح رویا کہ تمام اہلِ مجلس اس پر مطلع ہوگئے۔)
در تحیر ماند اصحابِ رسول
کز چہ مے نالد ستوں با عرض و طول
(تمام صحابہ حیران ہوئے کہ یہ ستون کس سبب سے سرتاپا محوِ گریہ ہے۔)
گفت پیغمبر چہ خواہی اے ستوں
گفت جانم از فراقت گشت خوں
(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ستون تو کیا چاہتا ہے؟ اس نے عرض کیا : میری جان آپ کے فراق میں خون ہوگئی ہے۔)
مسندت من بودم از من تاختی
بر سرِ منبر تو مسند ساختی
(پہلے تو میں آپ کی مسند تھا، آپ نے مجھ سے کنارہ کش ہوکر منبر کو مسند بنالیا۔)
پس رسولش گفت کای نیکو درخت
اے شدہ باسر تو ہمراز بخت
گرہمے خواہی ترا نخلے کنند
شرقی و غربی ز تو میوہ چنند
(آپ نے فرمایا : اے وہ درخت جس کے باطن میں خوش بختی ہے، اگر تو چاہے تو تجھ کو پھر ہری بھری کھجور بنا دیں حتی کہ مشرق و مغرب کے لوگ تیرا پھل کھائیں۔)
یا دراں عالم حقت سروے کند
تا ترو تازہ بمانی تا ابد
(یا اللہ تعالیٰ تجھے اگلے جہاں بہشت کا سرو بنا دے تاکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تروتازہ رہے۔)
گفت آن خواہم کہ دائم شد بقاش
بشنو اے غافل کم از چوبے مباش
(اس نے عرض کیا : میں وہ بننا چاہتا ہوں جو ہمیشہ رہے۔ اے غافل! تو بھی بیدار ہو اور ایک خشک لکڑی سے پیچھے نہ رہ جا (یعنی جب ایک لکڑی دار البقاء کی طلب گار ہے تو انسان کو تو بطریقِ اولیٰ اس کی خواہش اور آرزو کرنی چاہئیے۔)
آں ستون را دفن کرد اندر زمین
تاچو مردم حشر گردد یومِ دیں
(اس ستون کو زمین میں دفن کردیا گیا، تاکہ قیامت کے دن اسے انسانوں کی طرح اٹھایا جائے۔)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved