حضرت علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کی تربیت براہِ راست آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمائی تھی۔ بچوں میں سب سے پہلے دامنِ اسلام سے وابستہ ہونا سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کے مقدر میں لکھا گیا تھا۔ اس مقام پر سیدنا علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ کے اس قول کا ذکر ضروری ہے جس میں آپ نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی لذت آفرین کیفیت کو بیان کر کے ثابت کر دیا کہ عظمتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پرچم سر بلند کرنا اور اطاعتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قندیل دل میں روشن رکھنا ہی ایمان کی اساس ہے۔
قاضی عیاض رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں کہ سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا گیا :
کيف کان حبکم لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم؟
قاضی عياض، الشفا، 2 : 568
آپ (صحابہ کرام) کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کس قدر محبت تھی؟
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا :
کان و اﷲ! أحب إلينا من أموالنا وأولادنا و آباء نا و أمهاتنا و من الماء البارد علي الظمأ.
قاضي عياض، الشفاء، 2 : 568
’’اللہ کی قسم! حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں اپنے اموال، اولاد، آباء و اجداد اور امہات سے بھی زیادہ محبوب تھے اور کسی پیاسے کو ٹھنڈے پانی سے جو محبت ہوتی ہے ہمیں اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس سے بھی بڑھ کر محبوب تھے۔‘‘
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا معمول تھا کہ وہ زیارتِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مواقع تلاش کیا کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اقدس کی خوشبو انہیں بتا دیتی کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس طرف گئے ہیں۔ وہ آسانی سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سراغ لگا لیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی تابانیوں میں اپنی روح و جان کے ساتھ بھیگ جاتے۔ جناب حیدر کرار رضی اللہ عنہ کی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستگی اور تقرب کا حال جاننے کے لئے یہ روایت ملاحظہ فرمائیے :
حدیثِ پاک میں آتا ہے کہ غزوہء خیبر کے دوران قلعہ صہباء کے مقام پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں سرِ انور رکھ کر اِستراحت فرما رہے تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ابھی نمازِ عصر ادا نہیں کی تھی۔ اس وقت چاہتے تو عرض کر دیتے کہ حضور صلی اﷲ علیک وسلم! تھوڑی دیر توقف فرمائیے کہ میں عصر کی نماز پڑھ لوں، پھر حاضرِ خدمت ہوجاتا ہوں۔ عقل کا تقاضا بھی یہی تھا لیکن عقل کا کام تو بقولِ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ بہانے تلاش کرنا اور تنقید کرنا ہے۔ فرماتے ہیں :
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اَعمال کی بنیاد رکھ
عقل کا تو شیوہ ہی تنقید ہے، جبکہ عشق آنکھیں بند کر کے سرِ تسلیم خم کر دیتا ہے :
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
عقل سود و زیاں کے چکر میں اُلجھی رہتی ہے جب کہ عشق بے خطر آگ میں کود کر اُسے گل و گلزار میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عشق منزل کو پالیتا ہے اور عقل گردِ سفر میں گم ہو کر رہ جاتی ہے۔
بو علی اندر غبارِ ناقہ گم
دستِ رومی پردۂ محمل گرفت
(بو علی (جو کہ عقل کی علامت ہے محبوب کی) اونٹنی کے غبار میں گم ہو گیا (جبکہ عشق کے نمائندے) رومی نے ہاتھ آگے بڑھا کر (محبوب کے) کجاوے کو تھام لیا۔)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے ’’عقل قرباں کن بہ پیشِ مصطفیٰ‘‘ کا مظہر بنتے ہوئے اپنی نماز محبوب کے آرام پر قربان کر دی، جس کے نتیجے میں اس کشتۂ آتشِ عشق اور پیکرِ وفا کو وہ نماز نصیب ہوئی جو کائناتِ انسانیت میں کسی دوسرے کا مقدر نہ بن سکی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ تو کب سے موقع کے متلاشی تھے کہ انہیں آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت اور قرب نصیب ہو۔ وہ ایسا نادر موقع کیونکر ہاتھوں سے جانے دیتے، وہ تو زبان حال سے کہہ رہے ہوں گے :
نمازیں گر قضا ہوں پھر ادا ہوں
نگاہوں کی قضائیں کب ادا ہوں
چنانچہ انہوں نے موقع غنیمت جانا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سرِانور کے لئے اپنی گود بچھا دی، جس پر آپ انے اپنا مبارک سر رکھا اور اِستراحت فرمانے لگے۔ اب نہ جیسا کہ ہم ابھی بتا چکے ہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اور نہ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے پوچھا کہ نماز عصر ادا ہوئی کہ نہیں؟
اِدھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اپنی خوش بختی کے کیف میں آفتابِ نبوت کو تکے جا رہے تھے اور ادھرآفتابِ جہاں تاب اپنی منزلیں طے کرتا ہوا غروب ہوتا جا رہا تھا۔ جب ان کی نظر ڈوبتے سورج پر پڑی تو چہرۂ اقدس کا رنگ متغیر ہونے لگا۔ اور آپ رضی اللہ عنہ پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوگئی۔ کبھی نگاہ سورج پر ڈالتے اور کبھی محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخِ زیبا پر۔ کبھی مائل بہ غروب سورج کو تکتے تو کبھی آفتابِ رسالت کے طلوع کا منظر دیکھتے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ سورج ڈوب چلا ہے تو آپ رضی اللہ عنہ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو بہہ نکلے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیدا ر ہوئے تو دیکھا کہ علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ پریشانی کے عالم میں محوِ گریہ ہیں۔ پوچھا : کیا بات ہوئی؟ عرض کیا : آقا! میری نمازِ عصر رہ گئی ہے۔ فرمایا : قضا پڑھ لو۔ انہوں نے حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا، جو زبانِ حال سے یہ کہہ رہی تھیں کہ آپ رضی اللہ عنہ لی اﷲ علیک وسلم کی غلامی میں نماز جائے اور قضا پڑھوں؟ اگر اس طرح نماز قضا پڑھوں تو پھر ادا کب پڑھوں گا؟
جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ علی رضی اللہ عنہ قضا نہیں بلکہ نماز ادا ہی کرنا چاہتا ہے تو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ کھڑے ہوئے، اللہ جل مجدہ کی بارگاہ میں دستِ اقدس دعا کے لئے بلند کر دیئے اور عرض کیا :
اللّٰهم! إنّ عليا فی طاعتک و طاعة رسولک، فاردد عليه الشمس.
طبراني، المعجم الکبير، 24 : 151، رقم : 2390
هيثمي، مجمع الزوائد، 8 : 3297
قاضي عياض، الشفا، 1 : 4400
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 6 : 583
سيوطي، الخصائص الکبري، 2 : 6137
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 103
’’اے اللہ ! علی تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا (کہ اس کی نماز قضا ہو گئی)، پس اس پر سورج کو پلٹا دے (تاکہ اس کی نماز ادا ہو)۔‘‘
نماز وقت پر ادا کرنا اللہ کی اطاعت ہے لیکن یہاں تو نماز قضا ہو گئی تھی اس کے باوجود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس قضا کو اﷲ کی اطاعت قرار دے رہے تھے۔ کیا معاذ اللہ آرام اللہ پاک فرما رہا تھا؟ نہیں، وہ تو آرام سے پاک ہے۔ کیا نیند اللہ کی تھی؟ نہیں، وہ تو نیند سے بھی پاک ہے۔ آرام حضور علیہ السلام کا تھا، نیند حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی، علی رضی اللہ عنہ کی نماز حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیند پر قربان ہو گئی۔ اب چاہئے تو یہ تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے کہ ’’اے اللہ! علی تیرے رسول کی اطاعت میں مصروف تھا‘‘، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے اطاعت کا مفہوم بھی واضح ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت گری جیسی بھی ہو رب کی اطاعت ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ چونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں مصروف تھے اس لئے ان کی قضا بھی اطاعتِ الٰہی قرار پائی۔ فاضل بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے کیا خوب فرمایا ہے :
ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں
اصل الاصول بندگی اُس تاجور کی ہے
حدیثِ مبارک میں مذکور ہے کہ جب آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دستِ اقدس دعا کے لئے بلند فرمائے تو ڈوبا ہوا سورج اس طرح واپس پلٹ آیا جیسے ڈوبا ہی نہ ہو۔ یہ تو ایسے تھا جیسے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھوں میں ڈوریاں ہوں جنہیں کھینچنے سے سورج آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب کھنچا آرہا ہو۔ یہاں تک کہ سورج عصر کے وقت پر آگیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز عصر ادا کی۔
ردِ شمس کے معجزۂ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تفصیلی مطالعہ کیلئے راقم کی کتاب سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (جلد نہم، معجزات) ملاحظہ فرمائیں۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد سیدنا بلال رضی اللہ عنہ مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے کہ لوگو تم نے کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھا دو، پھر کہنے لگے کہ اب مدینے میں میرا رہنا دشوار ہے، اور شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔ تقریباً چھ ماہ بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواب میں زیارت نصیب ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تھے :
ما هذه الجفوة، يا بلال! ما آن لک أن تزورنا؟
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 308
’’اے بلال! یہ کیا بے وفائی ہے؟ (تو نے ہمیں ملنا چھوڑ دیا)، کیا ہماری ملاقات کا وقت نہیں آیا؟‘‘
خواب سے بیدار ہوتے ہی اونٹنی پر سوار ہو کر لبیک! یا سیدی یا رسول اﷲ! کہتے ہوئے مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ جب مدینہ منورہ میں داخل ہوئے تو سب سے پہلے مسجدِ نبوی پہنچ کر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی نگاہوں نے عالمِ وارفتگی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کبھی مسجد میں تلاش کرتے اور کبھی حجروں میں، جب کہیں نہ پایا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر انور پر سر رکھ کر رونا شروع کر دیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ نے فرمایا تھا کہ آکر مل جاؤ، غلام حلب سے بہرِ ملاقات حاضر ہوا ہے۔ یہ کہا اور بے ہوش ہو کر مزارِ پُر انوار کے پاس گر پڑے، کافی دیر بعد ہوش آیا۔ اتنے میں سارے مدینے میں یہ خبر پھیل گئی کہ مؤذنِ رسول حضرت بلال رضی اللہ عنہ آگئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے بوڑھے، جوان، مرد، عورتیں اور بچے اکٹھے ہو کر عرض کرنے لگے کہ بلال! ایک دفعہ وہ اذان سنا دو جو محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں سناتے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں معذرت خواہ ہوں کیونکہ میں جب اذان پڑھتا تھا تو اشہد ان محمداً رسول اﷲ کہتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے مشرف ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتا تھا۔ اب یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے کسے دیکھوں گا؟
بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے مشورہ دیا کہ حسنین کریمین رضی اﷲ عنہما سے سفارش کروائی جائے، جب وہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اذان کے لیے کہیں گے تو وہ انکار نہ کرسکیں گے۔ چنانچہ امام حسین رضی اللہ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :
يا بلال! نشتهی نسمع أذانک الذی کنت تؤذن لرسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فی المسجد.
سبکی، شفاء السقام : 239
هيتمی، الجوهر المنظم : 27
’’اے بلال! ہم آج آپ سے وہی اذان سننا چاہتے ہیں جو آپ (ہمارے ناناجان) اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مسجد میں سناتے تھے۔‘‘
اب حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو انکار کا یارا نہ تھا، لہٰذا اسی مقام پر کھڑے ہوکر اذان دی جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ظاہری حیات میں دیا کرتے تھے۔ بعد کی کیفیات کا حال کتبِ سیر میں یوں بیان ہوا ہے :
فلما قال : اﷲ أکبر، اﷲ أکبر، ارتجَّت المدينة، فلما أن قال : أشهد أن لا إلٰه إلا اﷲ، ازداد رجّتها، فلما قال : أشهد أنّ محمداً رسول اﷲ، خرجت العواتق من خدورهن، و قالوا : بعث رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، فما رُئي يوم أکثر باکيا ولا باکية بالمدينة بعد رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، من ذالک اليوم.
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 1 : 2358
سبکي، شفاء السقام : 340
حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 308
’’جب آپ رضی اللہ عنہ نے (بآوازِ بلند) اﷲ اکبر اﷲ اکبر کہا، مدینہ منورہ گونج اٹھا (آپ جیسے جیسے آگے بڑھتے گئے جذبات میں اضافہ ہوتا چلا گیا)، جب أشهد أن لا إلٰه إلا اﷲ کے کلمات ادا کئے گونج میں مزید اضافہ ہو گیا، جب أشهد أنّ محمداً رسول اﷲ کے کلمات پر پہنچے تو تمام لوگ حتی کہ پردہ نشین خواتین بھی گھروں سے باہر نکل آئیں (رقت و گریہ زاری کا عجیب منظر تھا) لوگوں نے کہا رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد مدینہ منورہ میں اس دن سے زیادہ رونے والے مرد و زن نہیں دیکھے گئے۔
علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ اذانِ بلال رضی اللہ عنہ کو ترانۂ عشق قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
اذاں ازل سے ترے عشق کا ترانہ بنی
نماز اُس کے نظارے کا اک بہانہ بنی
سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا تھے، ابو عمارہ ان کی کنیت تھی اور وہ عمر میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دو چار سال بڑے تھے۔ ابو لہب کی لونڈی ثویبہ نے انہیں بھی دودھ پلایا تھا، اس حوالے سے یہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے رضاعی بھائی بھی تھے۔ اسلام کے دامنِ رحمت سے وابستہ ہوئے تو تحریکِ اسلامی کے اراکین کو ایک ولولۂ تازۂ عطا ہوا۔ آپ کے مشرف بہ اسلام ہونے کا واقعہ بڑا ہی ایمان افروز ہے جس سے سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کی حق گوئی، جرات اور بے باکی کا پتہ چلتا ہے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو داعئ اعظم کی حیثیت سے فریضۂ تبلیغ سرانجام دیتے ہوئے چھ سال ہو گئے تھے لیکن کفار و مشرکینِ مکہ کی اکثریت نہ صرف یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوتِ حق پر کان نہیں دھرتی تھی بلکہ انہوں نے شہر مکہ کو قریۂ جبر بنا رکھا تھا اور مسلمانوں پر جو اقلیت میں تھے عرصۂ حیات تنگ کیا جا رہا تھا اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نہ صرف دشنام طرازیوں اور طعن و تشنیع کا ہدف بنایا جاتا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قتل کے منصوبے تک بنائے جا رہے تھے۔ پورے مکہ کی فضا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خون کی پیاسی تھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ابھی شرفِ اسلام سے محروم تھے۔ وہ شمشیر زنی، تیراندازی اور شکار و تفریح کے مشاغل میں اس قدر مشغول تھے کہ دعوتِ اسلام پر غور کرنے کی فرصت ہی نہ مل سکی تھی۔
ایک دن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کوہِ صفا (یا ایک روایت کے مطابق حجون) کے مقام سے گزر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم لوگوں کو دینِ حق کی طرف بلا رہے تھے کہ ابوجہل بھی ادھر آنکلا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا تو آپے سے باہر ہوگیا۔ وہ بدبخت اسلام اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں ہذیان بکنے لگا، لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جبینِ اقدس پر ایک بھی شکن نمودار نہ ہوئی۔ ابوجہل گالیاں بکتا رہا، حروفِ ناروا اُس کی گندی زبان سے کانٹوں کی طرح گرتے رہے۔ اس بدبخت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جسمانی اذیت کا نشانہ بھی بنایا لیکن تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لبِ اقدس پر حرفِ شکوہ تک نہ آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش رہے اور اس کی ہرزہ سرائی و اذیت رسانی پر کمال صبر و تحمل سے کام لیا۔ ایک عورت اپنے گھر میں بیٹھی یہ سب کچھ دیکھ رہی تھی۔ سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ شکار سے لوٹے تو اس خاتون سے نہ رہا گیا اور سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کو مخاطب کر کے کہنے لگی : کاش آپ تھوڑی دیر پہلے یہاں ہوتے اور اپنی آنکھوں سے دیکھتے کہ ابوجہل نے آپ کے بھتیجے سے کتنا برا سلوک کیا ہے، انہیں گالیاں دی ہیں اور اُن پر ہاتھ بھی اٹھایا ہے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ یہ سن کر طیش میں آ گئے، چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا اور کہنے لگے : ابوجہل کی یہ جرات کہ اُس نے میرے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ہاتھ اٹھایا ہے، تیز تیز قدم اٹھاتے ہوئے خانہ کعبہ میں پہنچے، ابوجہل کو دیکھا کہ کفار و مشرکین کی ایک مجلس میں بیٹھا لاف زنی کر رہا ہے۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دشمن ابوجہل کو دیکھ کر آگ بگولہ ہو گئے اور اس کی دریدہ دہنی اور شرارت کی سزا دینے کے لئے اپنی کمان اس کے سر پر دے ماری، جس سے اُس بدبخت شاتمِ رسول کا سر پھٹ گیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اسے آڑے ہاتھوں لیا اور کہا : ابوجہل! تیری یہ ہمت کہ میرے بھتیجے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دے اور ان سے بدسلوکی کرے۔ اس کے بعد حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کا باطن نورِ ایمان سے روشن ہو گیا اور ان کے مقدر کا ستارا اوجِ ثریا پر چمکنے لگا، اور محبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آنکھوں میں غیرتِ ایمانی کا چراغ بن کر جل اٹھی۔ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ ابوجہل سے کہنے لگے :
أتشتمه وأنا علی دينه أقول ما يقول؟ فرد ذلک علي إن استطعت.
ابن هشام، السيرة النبويه، 2 : 2129
طبري، التاريخ، 1 : 3549
حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 4477
طبري، ذخائر العقبي، 1 : 173
’’کیا تو (میرے بھتیجے) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالیاں دیتا ہے؟ میں (بھی اُن کے دین پر ہوں اور) وہی کہتا ہوں جو وہ فرماتے ہیں، میرا راستہ روک سکتے ہو تو روک کر دیکھو۔‘‘
اور پھر چشمِ فلک نے وہ منظر بھی دیکھا کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بارگاہِ نبوی میں حاضر ہونے کے لئے آ رہے تھے تو اصحابِ رسول کو تردد ہوا لیکن جان نثارِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ پورے اعتماد سے گویا ہوئے کوئی بات نہیں، عمر آتا ہے تو اُسے آنے دو، اگر نیک ارادے سے آیا ہے تو ٹھیک اور اگر برے ارادے سے آیا ہے تو اس کی تلوار ہی سے اس کا سر قلم کر دوں گا۔
یوں تو دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آرزو اور تمنا ہر صحابی رسول کے دل میں اس طرح بسی ہوئی تھی کہ اُن کی زندگی کا کوئی لمحہ اس سے خالی نہیں تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو سکون کی دولت نصیب ہوتی اور معرفتِ الٰہی کے دریچے ان پر روشن ہو جاتے۔ اُن کے دل کی دھڑکن میں زیارتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خواہش اس درجہ سما گئی تھی کہ اگر کچھ عرصہ کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار میسر نہ آتا تو وہ بے قرار ہو جاتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ پر جو کیفیت گزرتی تھی اس کے بارے میں وہ خود روایت کرتے ہیں کہ میں نے بارگاہِ نبوی میں عرض گزاری :
إنی إذا رأيتک طابت نفسي و قرت عيني، فأنبئني عن کل شيء، قال صلي الله عليه وآله وسلم : کل خلق اﷲ من الماء.
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 2323
حاکم، المستدرک، 4 : 176، رقم : 37278
ابن حبان، الصحيح، 6 : 699، رقم : 42559
هيثمي، موارد الظمآن، 1 : 168، رقم : 5641
هيثمي، مجمع الزوائد، 5 : 616
ابن راهويه، المسند، 1 : 84، رقم : 7133
طبراني، المعجم الکبير، 3 : 63، رقم : 82676
بيهقي، شعب الايمان، 6 : 252، رقم : 8051
’’جب میں آپ کی زیارت سے مشرف ہوتا ہوں (تو تمام غم بھول جاتا ہوں اور) دل خوشی سے جھوم اٹھتا ہے اور آنکھیں ٹھنڈی ہو جاتی ہیں، پس مجھے تمام اشیاء (کائنات کی تخلیق) کے بارے میں آگاہ فرمائیے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے ہر شے کی تخلیق پانی سے کی ہے۔‘‘
جیسا کہ ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ صحابہ رضی اللہ عنھم میں سے کسی کو بھی آقا و مولا کی ایک لمحہ کی جدائی گوارا نہ تھی، اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھوڑی دیر کے لئے نظروں سے اوجھل ہوتے تو بے چین ہو جاتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے۔
ایک دن حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے جاں نثار صحابہ رضی اللہ عنھم کی محفل میں تشریف فرما تھے کہ اچانک ان کے درمیان سے اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے، واپسی میں ذرا تاخیر ہوگئی تو غلامانِ مصطفیٰ کے چہرے مرجھا گئے، وہ پریشان ہوئے کہ کسی نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو نقصان نہ پہنچا دیا ہو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ دوسروں کی نسبت زیادہ مضطرب تھے۔ جب انتظار کی گھڑیاں طویل ہوگئیں تو وہ سب تلاشِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں نکل پڑے۔ چلتے چلتے ایک باغ تک جا پہنچے، کوشش کے باوجود باغ کا دروازہ کہیں نظر نہ آیا، ایک چھوٹی سی نالی باغ میں داخل ہو رہی تھی۔ باقی تو باہر ٹھہر گئے لیکن حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سمٹتے سمٹاتے اندر داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے، وہاں حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر جان میں جان آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اچانک اپنے درمیان پا کر پوچھا : ’’ابوہریرہ! تم ۔ ۔ ۔ یہاں؟‘‘ جی آقا! غلام حاضر ہے۔ ’’کیا بات ہے؟‘‘ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حیران ہو کر پوچھا۔ وہ عرض کرنے لگے : یا رسول اللہ صلی اﷲ علیک وسلم! میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ ہمارے درمیان سے اٹھ آئے تھے، واپسی میں دیر ہوگئی تو ہمیں اضطراب نے آگھیرا، چنانچہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں نکل پڑے اور چونکہ باغ میں داخل ہونے کا کوئی دروازہ نہ تھا اس لئے میں ایک نالی کے ذریعہ سمٹ سمٹا کر باغ کے اندر آیا ہوں۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اور دوسرے جاں نثار بھی میرے پیچھے تھے اور وہ باہر کھڑے ہیں۔
مسلم، الصحيح، 1 : 60، کتاب الايمان، رقم : 231
ابن حبان، الصحيح، 10 : 409، رقم : 34543
ابو عوانه، المسند، 1 : 21، رقم : 417
ابن منده، الايمان، 1 : 226، رقم : 588
ابو نعيم، المسند المخرج علي صحيح الامام مسلم، 1 : 125، رقم : 11141
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھیوں کا ایک ایمان افروز واقعہ
غزوہء تبوک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کا آخری معرکہ تھا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بنفسِ نفیس شرکت فرمائی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بعض جنگی حکمتِ عملیوں اور مصلحتوں کے پیش نظر کسی غزوۂ پر روانہ ہونے سے پہلے اپنے عزائم عام لوگوں سے خفیہ رکھا کرتے تھے لیکن غزوہ تبوک ایسا پہلا موقع تھا جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعلانیہ طور پر مسلمانوں کو بھرپور جنگی تیاریوں کا حکم دیا حتی کہ نو مسلموں کے لئے بھی اس مہم میں حصہ لینا لازمی قرار دے دیا۔
جب جہاد کے لئے لشکرِ اسلام کی تیاری کا اعلانِ عام ہوا۔ اُن دنوں جزیرہ نمائے عرب شدید گرمی کی لپیٹ میں آیا ہوا تھا۔ فصلِ خرما پک چکی تھی، تمازتِ آفتاب کا وہ عالم تھا کہ ہر ذی روح کو سائے کی تلاش تھی۔ اس سے قبل کافی عرصے سے قحط سالی کے باعث مسلمان انتہائی عسرت کی زندگی بسر کر رہے تھے۔ باربرداری اور سواری کے جانوروں کی شدید قلت تھی، سفر طویل تھا اور وسائل کا فقدان ایک پریشان کن مسئلہ تھا۔ اس پر مستزاد اسلام دشمن منافقین نے اس نازک صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لئے لشکرِ اسلام میں وسوسے اور پھوٹ ڈالنے کی کوششیں تیز کر دی تھیں۔ کبھی وہ مسلمانوں کو موسم کی شدت سے ڈراتے، کبھی بے آب و گیاہ صحرائی سفر کی صعوبتوں کا ذکر کر کے ان کے پائے استقلال کو ڈگمگانے کی سعی کرتے اور کبھی رومیوں کی فوجی قوت کو بڑھا چڑھا کر اُن کے حربی اسلحہ اور ساز و سامان سے مسلمانوں کے حوصلے (morale) پست کرنے کا جتن کرتے، الغرض مختلف نفسیاتی حربے بروئے کار لائے جا رہے تھے۔ اس عالم میں جہاد کا اعلان مسلمانوں کے لئے ایک بہت بڑا امتحان اور چیلنج تھا مگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم جو اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اطاعت و اتباع میں اپنا سب کچھ قربان کرنے کے جذبے سے سرشار تھے وہ کب ان سازشیوں کو خاطر میں لاتے۔ انہوں نے کسی مصلحت اور اندیشۂ دور و دراز کو اپنے پاؤں کی زنجیر نہیں بننے دیا اور بغیر کسی تاخیر کے اپنے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قیادت میں ہر پیر و جوان سر پر کفن باندھ کر تبوک کے طویل سفر پر روانہ ہو گیا۔ لیکن تین مخلص صحابہ کرام رضی اللہ عنھم محض سستی اور غفلت کی وجہ سے پیچھے رہ گئے، اس واقعہ کی تفصیلات اہلِ سیر اور ائمہ تفسیر نے خود حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی زبانی بیان کی ہیں۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے دوسرے دو ساتھی جو غزوہء تبوک میں اسلامی لشکر کے ساتھ نہ جا سکے حضرت مرارۃ بن الربیع اور حضرت ہلال بن امیہ رضی اﷲ عنہما تھے۔
حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ کا شمار صاحبِ ثروت لوگوں میں ہوتا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ سواری کے لئے ایک اونٹ خریدوں گا اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ لشکر میں شامل ہو جاؤں گا۔ مرارہ بن الربیع رضی اللہ عنہ کا بھی یہی ارادہ تھا۔ وہ بھی اونٹ خرید کر لشکرِ اسلام میں شامل ہونا چاہتے تھے۔ دونوں حضرات اسی شش و پنج میں تھے کہ آج چلتے ہیں کل چلتے ہیں، جب زیادہ دن گزر گئے تو یہ سوچ غالب آگئی کہ اب تو روانگی میں غیر معمولی تاخیر ہو چکی ہے، ممکن ہے وہ اسلامی لشکر میں شامل ہی نہ ہوسکیں، اسی ادھیڑ بن میں سفرِ جہاد پر روانہ نہ ہوسکے۔ جب مدینہ میں گھر سے باہر نکلتے تو سوائے ضعیفوں اور منافقین کے انہیں کوئی نظر نہ آتا۔
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا اور وہ لشکرِ اسلام میں شمولیت کی سعادت سے محروم رہ گئے۔ وہ فرماتے ہیں کہ جب تبوک سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی واپسی کی خبر ملی تو ندامت و شرمندگی کے مارے ہم میں سے ہر ایک کو یہی خیال ہر وقت دامن گیر رہنے لگا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیا منہ دکھائیں گے۔ وہ کبھی اپنے اہلِ خانہ سے مشورہ طلب کر تے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائیں تو مجھے کیا کرنا چاہئے، کبھی ذہن میں یہ خیال ابھرتا کہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنالوں گا۔ پھر ہم میں سے ہر ایک نے یہ فیصلہ کرلیا کہ نتائج خواہ کچھ بھی ہوں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں سچ کے سوا کچھ نہیں کہیں گے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دلوں کے پوشیدہ اَحوال نورِ نبوت سے جان لیتے ہیں، ان سے کوئی چیز مخفی نہیں رہ سکتی۔
تبوک سے واپسی پر جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد میں ٹھہرے تو وہاں پیچھے رہ جانے والے لوگ بھی اکٹھے ہوگئے، جن کی تعداد راویانِ حدیث نے اسّی پچاسی کے لگ بھگ بیان کی ہے۔ ان میں ہر کوئی قسمیں کھا کھا کر کوئی نہ کوئی عذر پیش کر رہا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی ظاہری قسموں پر اعتبار کر کے درگزر سے کام لیا۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب میری باری آئی تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معنی خیز تبسم فرمایا، جس سے ناگواری اور ناراضگی جھلک رہی تھی۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا : تمہیں کس بات نے پیچھے رکھا، کیا تم نے سواری نہیں خریدی تھی؟ عرض کیا : یا رسول اللہ! اگر میرا معاملہ کسی دنیا دار سے ہوتا تو میں بھی کوئی بہانہ بنا کر چھوٹ جاتا لیکن میرا معاملہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہے لہٰذا سچ سچ بیان کروں گا۔ آقا! سچی بات یہ ہے کہ میں آسودہ حال تھا کوئی عذر اور بہانہ نہیں بس غفلت کا شکار ہوگیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تو نے سچ کہا، اس لئے اب انتظار کر یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ تیرے بارے میں کوئی فیصلہ کر دے۔ فرماتے ہیں : میں محفل سے اٹھا تو بنی مسلمہ کے چند آدمی اٹھ کر میرے ساتھ باہر آئے اور مجھے ملامت کرنے لگے، حتیٰ کہ میں نے سوچا کہ واپس جا کر اپنا بیان بدل دوں کہ مجھے حضرت معاذ بن سہیل رضی اللہ عنہ اور حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نظر آئے۔ انہوں نے میری ہمت بندھائی کہ سچ پر قائم رہو، اللہ تمہارے لئے کشادگی کی کوئی نہ کوئی راہ پیدا کر دے گا۔ اِسی طرح حضرت ہلال بن اُمیہ رضی اللہ عنہ اور مرارہ بن الربیع رضی اللہ عنہ کا یہی معاملہ رہا۔
یہ تینوں مخلصین کڑی آزمائش میں ڈالے گئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُن کے سماجی مقاطعہ (social boycott) کا حکم صادر فرمایا تو نوبت یہاں تک آ پہنچی کہ لوگوں نے ان سے بات چیت تک کرنا چھوڑ دی۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
’’سماجی مقاطعہ کے نتیجہ میں لوگ ہم سے اجتناب کرنے لگے۔ دوسرے دو ساتھی تو شرم کے مارے گھروں سے باہر نہ نکلے۔ میں ہمت کر کے بازار میں جاتا، مسجد میں نماز پڑھتا، لوگوں کو سلام کہتا لیکن کوئی جواب نہ دیتا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کرتا تو وہ منہ پھیر لیتے۔ جب میں نماز میں متوجہ ہو جاتا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مجھے دیکھتے لیکن جب میں دیکھتا تو اعراض فرماتے۔ ایک دن میں اپنے چچازاد اور بچپن کے دوست ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کی دیوار پر چڑھ کر بڑے رنج اور کرب سے کہنے لگا کہ تم میرے سلام کا جواب کیوں نہیں دیتے، تم تو مجھے بچپن سے جانتے ہو، میں منافق نہیں، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت کرتا ہوں۔ میں نے یہ جملہ تین بار دہرایا تو اُس نے صرف اتنا کہا کہ اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔ یہ جواب سن کر میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور بوجھل دل کے ساتھ واپس لوٹ آیا۔
یہ تینوں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم توفیقِ ایزدی سے اس کڑی آزمائش اور امتحان کے کڑے مرحلے سے گزرے لیکن زبان سے اُف تک نہ کی۔ جب اس سوشل بائیکاٹ کے پہاڑ جیسے چالیس دن گزر گئے تو بارگاہِ نبوی سے حکم صادر ہوا کہ اپنی بیویوں سے بھی علیٰحدہ ہوجاؤ۔ یہ بڑا نازک مرحلہ تھا۔ جذباتی سطح پر ایک طوفان کھڑا ہوسکتا تھا لیکن ایک لمحہ کا توقف کئے بغیر حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے سرِ تسلیم خم کر دیا۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے پوچھا : کیا طلاق دے دوں؟ بتایا گیا کہ نہیں صرف وقتی طور پر علیحدگی اختیار کر لو۔ یہ حکم ملتے ہی میں نے اپنی بیوی کو اس کے میکے بھیج دیا۔ ادھر حضرت ہلال بن امیہ رضی اللہ عنہ نے رو روکر اپنا برا حال کر رکھا تھا۔ ان کی زوجہ محترمہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ بیکس پناہ میں حاضر ہوئیں، عرض کیا : یا رسول اللہ! ہلال رضی اللہ عنہ بڑی عمر کے ہیں، رو رو کر ہلکان ہوئے جا رہے ہیں، جب سے سماجی مقاطعہ ہوا ہے فرطِ غم سے کھانا پینا بھی چھوڑ دیا ہے، کسی وقت چند لقمے لے لیتے ہیں، دن کو روزہ رکھتے ہیں، ساری ساری رات نوافل ادا کرتے اور توبہ و استغفار کرتے گزارتے ہیں، ڈر ہے کہیں وہ ہلاک نہ ہو جائیں۔ یا رسول اللہ صلی اللّٰہ علیک وسلم! کوئی خادم بھی نہیں کہ ان کی دیکھ بھال کر سکے، اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں حسبِ سابق ان کی خدمت بجا لاتی رہوں؟ کتبِ سیر و احادیث میں ہے کہ حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو بھی کسی نے مشورہ دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی بیوی کو اپنے پاس ٹھہرنے کی اجازت لے لیں۔ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں یہ عرض کرتے ہوئے مجھے شرم آتی ہے۔ نجانے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا جواب ارشاد فرمائیں، میں یہ سوال کرنے کی جرات نہیں رکھتا۔ اسی کشمکش میں پچاس دن گزر گئے۔
ان صبر آزما لمحات میں حضرت کعب بن مالک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک ایسی مصیبت اور آزمائش کا مرحلہ آیا جس نے ان کے دن کے سکون اور رات کے آرام کو غارت کر دیا۔ وہ فرماتے ہیں : ’’میں ایک روز مدینہ کے بازار میں گھوم رہا تھا کہ ایک شامی کسان جو مدینہ میں غلہ فروخت کرنے آیا کرتا تھا، وہ میرے بارے میں لوگوں سے پوچھتا پھر رہا تھا کسی نے اشارے سے میرا پتہ بتا دیا تو وہ میرے پاس آگیا۔ اس نے مجھے شاہِ غسان کا ریشمی غلاف میں ملفوف ایک خط دیا۔ اس میں جو کچھ لکھا تھا وہ اس طرح تھا :
أما بعد! فإنه قد بلغنی أن صاحبک قد جفاک ولم يجعلک اﷲ بدار هوان ولا مضيعة، فالحق بنا نواسک.
بخاری، الصحيح، 4 : 1606، کتاب المغازي، رقم : 24156
مسلم، الصحيح، 4 : 2125، کتاب التوبة، رقم : 32769
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 4458
ابن حبان، الصحيح، 8 : 160، رقم : 53370
بيهقي، السنن الکبري، 9 : 635
ابن ابي شيبه، المصنف، 7 : 424، رقم : 737007
عبد الرزاق، المصنف، 5 : 403، رقم : 89744
طبراني، المعجم الکبير، 19 : 45، رقم : 990
طبري، تفسير، 11 : 1060
ابن هشام، السيرة النبويه، 5 : 11218
ابن کثير، السيرة النبويه، 3 : 1245
ابن قيم، زاد المعاد، 3 : 13554
حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 14125
ابن عبد البر، الدرر، 1 : 15245
ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 25
’’اما بعد! مجھے اطلاع پہنچي ہے کہ تیرا صاحب (مراد حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تجھ سے ناراض ہے۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں ذلت و رسوائی اور ضائع ہونے کے لئے پیدا نہیں کیا۔ ہمارے پاس چلے آؤ ہم تم سے بہتر سلوک کریں گے۔‘‘
حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ شاہی مکتوب پڑھنے کے بعد میں نے اپنے آپ سے کہا : یہ پہلے سے بھی زیادہ کڑی آزمائش ہے، (افسوس کہ) میرے ایمان پر حملہ کرنے کے لئے ایک مشرک بادشاہ بھی مجھ پر ڈورے ڈالنے لگا ہے۔ میں نے اس کا خط پھاڑ کر تنور میں پھینک دیا (اور اس کی مذموم پیشکش کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا)۔
ان مخلص صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے آزمائش کا مرحلہ پچاس دنوں کے بعد مکمل ہوا، اللہ رب العزت نے ان کی توبہ قبول فرمائی اور اس کا اعلان بذریعہ وحی فرمایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بشارت دی اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم انہیں مبارک باد دینے کے لیے ان کے گرد جمع ہوگئے کہ وہ ہر کڑے امتحان میں سرخرو نکلے تھے۔ اللہ رب العزت نے قرآن میں اِرشاد فرمایا :
لَقَد تَّابَ الله عَلَى النَّبِيِّ وَالْمُهَاجِرِينَ وَالأَنصَارِ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُ فِي سَاعَةِ الْعُسْرَةِ مِن بَعْدِ مَا كَادَ يَزِيغُ قُلُوبُ فَرِيقٍ مِّنْهُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ إِنَّهُ بِهِمْ رَؤُوفٌ رَّحِيمٌO وَعَلَى الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُواْ حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنفُسُهُمْ وَظَنُّواْ أَن لاَّ مَلْجَأَ مِنَ اللّهِ إِلاَّ إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُواْ إِنَّ اللّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُO
القرآن، التوبه، 9 : 117، 118
’’یقینا اللہ نے نبی (معظم) پر رحمت سے توجہ فرمائی اور ان مہاجرین اور انصار پر (بھی) جنہوں نے (غزوہ تبوک کی) مشکل گھڑی میں (بھی) آپ کی پیروی کی اس (صورت حال) کے بعد کہ قریب تھا کہ ان میں سے ایک گروہ کے دل پھر جاتے، پھر وہ ان پر لطف و رحمت سے متوجہ ہوا، بیشک وہ ان پر نہایت شفیق، نہایت مہربان ہےo اور ان تین شخصوں پر (بھی نظر رحمت فرما دی) جن (کے فیصلہ) کو مؤخر کیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین باوجود کشادگی کے ان پر تنگ ہوگئی اور (خود) ان کی جانیں (بھی) ان پر دوبھر ہوگئیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ (کے عذاب)سے پناہ کا کوئی ٹھکانہ نہیں بجز اس کی طرف (رجوع کے) تب اللہ ان پر لطف و کرم سے مائل ہوا تاکہ وہ (بھی) توبہ و رجوع پر قائم رہیں، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول فرمانے والا، نہایت مہربان ہےo‘‘
ایمان کی پختگی اور استقامت کا یہ واقعہ دراصل ان عاشقانِ زار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کا تھا جو حقیقتاً حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسیر تھے، وہ تو اپنے آقا و مولا کو چھوڑ کر کسی اور کے در کی دریوزہ گری کا تصور بھی نہ کرسکتے تھے۔ انہوں نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اللہ کے پیارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے دی گئی ہر کڑی سے کڑی آزمائش کو نہ صرف خندہ پیشانی سے قبول کیا بلکہ امتحان کی بھٹی سے کندن بن کر نکلے۔ اسلام دشمن صاحبانِ اقتدار و اختیار نے تو ایسے موقعوں پر بھی اُن کے قصرِ ایمان میں نقب لگانے کی اپنی سی کوشش کی مگر وہ کسی لالچ اور دُنیوی مفاد کو خاطر میں نہ لائے، اس لئے کہ وہ تو حسنِ مصطفیٰ کے اسیر تھے اور دنیا کی کوئی طاقت کسی قیمت پر ان کی وفاداری کا سودا نہیں کرسکتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی سے بڑی پیشکش کو بھی انہوں نے پائے اِستحقار سے ٹھکرا دیا اور اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ناراضی پر کسی پرکشش مادی منفعت کو بھی ترجیح نہ دی اور ہر نئی بلا اور مصیبت کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔
غزوۂ تبوک کے موقع پر مسلمان اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلانِ جہاد کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر اطاعت و اتباع اور ایثار و بے نفسی کا مظاہرہ کر رہے تھے۔ وہ اپنی جان کی پروا کر رہے تھے اور نہ انہیں مال و دولت اور اہل و عیال کی محبت مرغوب تھی۔ ایسے میں بعض مخلص اور سچے اہلِ ایمان بھی بوجوہ پیچھے رہ گئے لیکن جب انہیں محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یاد آئے اور ان کی چشمِ تصور میں اللہ کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حسنِ بے مثال منور و تاباں ہوا تو وہ دنیا کی تمام آسائشوں اور مرغوبات کو ٹھکراتے ہوئے سیدھے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں میں آ گرے۔ ایسے عشاقانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سے ایک جاں نثار صحابی حضرت ابو خیثمہ مالک بن قیس رضی اللہ عنہ کا نام بھی آتا ہے۔ وہ بھی بوجوہ بروقت لشکرِ اسلام کے ساتھ روانہ نہ ہوسکے تھے لیکن احساسِ ندامت نے انہیں جلدی رختِ سفر باندھنے پر مجبور کر دیا اور وہ سیدھے جا کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں قدم بوسی کے لئے حاضر ہوگئے۔ ان کی روانگی کا واقعہ بڑا ہی ایمان افروز اور حبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا آئینہ دار ہے۔ اہلِ سیر لکھتے ہیں کہ ان کی دو بیویاں تھیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے بڑے حسن و جمال سے نوازا تھا۔ جیسا کہ بیان کیا جا چکا ہے غزوۂ تبوک کے موقع پر خطۂ عرب شدید قحط کی زد میں تھا اور اوپر سے سورج بھی آگ برسا رہا تھا۔ انہی ایام میں جب مجاہدینِ اسلام تبوک کی طرف روانہ ہونے کو تھے حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ اپنے کھجوروں کے باغ میں آئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی دونوں بیویوں نے باغ کے اندر اپنے سائبانوں کو خوب اچھی طرح آراستہ پیراستہ کر کے اور پانی کے چھڑکاؤ سے خوب ٹھنڈا کر رکھا تھا۔ شدید گرمی کے اس موسم میں جب ہر ذی روح العطش العطش پکار رہا تھا ٹھنڈے پانی کا بھی وافر بندوبست تھا۔
علاوہ ازیں دونوں بیگمات خوب بن سنور کر ان کے لئے سراپا انتظار تھیں۔ انہوں نے اپنے شوہر نامدار کے لئے کھانا بھی تیار کر رکھا تھا اور دونوں کی یہی خواہش تھی کہ وہ پہلے اس کے خیمے میں آئیں۔ جب حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ باغ کے اندر آئے تو دروازے پرکھڑے ہوکر دونوں بیویوں کے بناؤ سنگھار کو دیکھا، ان کے خیموں کا خوب جائزہ لیا جنہیں انہوں نے بلا کی گرمی میں بے حد آرام دہ اور ٹھنڈا بنا رکھا تھا۔ اس موقع پر حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ کے عشق کا امتحان ہوا، لیکن انہوں نے اس ظاہری اور عارضی آرام اور عیش و عشرت پر اس دائمی و ابدی آرام کو ترجیح دی جو بارگاہِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ان کا منتظر تھا۔ اہلِ سیر لکھتے ہیں کہ اس موقع پر انہوں نے فرمایا :
رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فی الضح والرّيح والحر، وأبو حيثمة في ظل بارد و طعام مهيا، و امرأة حسناء في ماله مقيم، ما هذا بالنصف! ثم قال : واﷲ! لا أدخل عريس واحدة منکما حتي الحق برسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم فهيأ لي زاداً، ففعلتا.
ابن هشام، السيرة النبويه، 5 : 2200
ابن کثير، البدايه والنهايه، 5 : 37
ابن کثير، السيرةالنبويه، 3 : 413
ابن قيم، زاد المعاد، 3 : 5530
ابن عبد البر، الاستيعاب، 4 : 61642
ابو عبدالله الدورقي، مسند سعد بن ابي وقاص، 1 : 140، رقم : 80
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو دھوپ، آندھی اور گرمی میں سفر پر ہوں اور ابو خیثمہ یہاں ٹھنڈے سائے، تیار کھانے اور خوبرو حسین و جمیل بیویوں کے ہمراہ اپنے مال و متاع میں محوِ استراحت ہو، یہ قرینِ انصاف نہیں۔ پھر (اپنی بیویوں کو مخاطب کر کے) فرمایا : خدا کی قسم! میں تم دونوں میں سے کسی ایک کے بھی سائبان میں داخل نہیں ہوں گا یہاں تک کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جاملوں، لہٰذا تم دونوں فوراً میرے لئے زادِراہ کا انتظام کرو، چنانچہ دونوں بیویوں نے ان کے لئے زادِ راہ تیار کیا۔‘‘
لشکرِ اسلام سوئے تبوک روانہ ہوچکا تھا۔ چنانچہ بلاتاخیر حضرت ابو خیثمہ رضی اللہ عنہ بلاتاخیر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش و جستجو میں روانہ ہوگئے، یہاں تک کہ تبوک پہنچ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا سارا ماجرا کہہ سنایا، جسے سن کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبسم فرمایا اور ان کے لئے خیر و برکت کی دعا فرمائی۔ یوں یہ عاشقِ صادق اور اسیرِ حسن مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جلووں سے فیض یاب ہوا۔
حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کا شمار سابقین اولین میں ہوتا ہے۔ آپ مشرک اور اسلام دشمن عورت اُم انمار بنت سباع الخزعیہ کے غلام تھے۔ جب اسے پتہ چلا کہ شمعِ ایمان آپ کے سینے میں روشن ہوچکی ہے اور وہ چوری چھپے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ملتے رہتے ہیں تو اس نے اس نور کو بجھانے کے لئے ظلم وبریریت کی حد کر دی۔ وہ آپ کے سر کو لوہا تپا کر داغتی لیکن اسے کیا خبر تھی کہ جو ایک دفعہ محبوب کی زلفوں کا اسیر ہو جائے وہ ایسی سزاؤں کو خاطر میں نہیں لاتا۔ کسی نے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی حالتِ زار کی خبر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کر دی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں ان کے حق میں دعا کرتے ہوئے فرمایا :
اللھم! انصرخباباً۔
حلبی، السيرة الحلبيه، 1 : 482
’’اے اللہ! خباب کی مدد فرما!‘‘
ہمہ وقت مستجاب الدعوات نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس دعا کا فوری اثر یہ ہوا کہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی مالکہ اُم انمار کو سر میں شدید درد کے دورے پڑنے شروع ہوگئے اور اس کی یہ حالت ہوگئی کہ وہ شدت درد سے کتے کی طرح بھونکتی تھی۔ کسی نے اسے مشورہ دیا کہ اس میں کمی کے لیے سر کو داغنا کارگر ہو گا۔ اس مشورہ پر عمل کرنے کے لئے حضرت خباب رضی اللہ عنہ کو اس کام پر مامور کیا گیا اور وہ اس کو لوہے کی گرم سلاخ سے داغتے رہے۔
اس کشتۂ وفا کو دامنِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہونے سے روکنے کے لئے طرح طرح کے حربے آزمائے جاتے رہے لیکن ان کے پائے استقلال میں ذرا بھی لغزش نہ آئی۔ انہیں شدت کی گرمی میں لوہے کی ذرہ پہنا کر دھوپ میں پھینک دیا جاتا اورکبھی برہنہ بدن جھلستی ہوئی ریت پر چت لٹا دیا جاتا، جس سے ان کی کمر کا گوشت تمازتِ آفتاب سے جھلس کررہ جاتا مگر ایمان کی قندیل جو حضرت خباب رضی اللہ عنہ کے دل میں فروزاں تھی اس کی لَو ذرا مدھم نہ ہوئی۔
حضرت خباب رضی اللہ عنہ پیشہ کے اعتبار سے لوہار تھے۔ ایک دفعہ عاص بن وائل نامی مشرک نے ان سے لوہے کا کام عاریتاً کرایا لیکن جب انہوں نے طے شدہ رقم ادا کرنے کا مطالبہ کیا تو عاص بن وائل نے نہایت ڈھٹائی سے یہ کہہ کر کچھ رقم کرنے سے انکار کر دیا کہ میں اس وقت تک واجب الادا رقم نہیں دوں گا جب تک تم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لانے سے انکار نہیں کر دیتے۔ اگر تم منحرف ہوگئے تو تمہیں تمہارا واجب الادا قرض لوٹا دوں گا ورنہ نہیں۔ اس پر اس پیکرِ وفا نے یہ کہہ کر اس کافر کا منہ بند کر دیا :
إنی لن أکفر بمحمدٍ صلی الله عليه وآله وسلم حتی تموت ثم تبعث.
بخاری، الصحيح، 4 : 1761، کتاب التفسير، رقم : 24455
مسلم، الصحيح، 4 : 2153، کتاب صفات المنافقين و احکامهم، رقم : 32795
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 318، ابواب التفسير، رقم : 43162
احمد بن حنبل، المسند، 5 : 5110
ابن حبان، الصحيح، 11 : 243، رقم : 64885
نسائي، السنن الکبري، 3 : 364، رقم : 711322
شاشي، المسند، 2 : 409، رقم : 81006
طبراني، المعجم الکبير، 4 : 69، رقم : 93665
بيهقي، شعب الايمان، 2 : 238، رقم : 101625
قرطبي، الجامع لاحکام القرآن، 11 : 11145
طبري، جامع البيان، 16 : 12120
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 3 : 13136
بغوي، معالم التنزيل، 3 : 14208
آلوسي، روح المعاني، 16 : 15129
ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 16164
ابن کثير، البدايه والنهايه، 3 : 59
’’میں ہرگز ہرگز حبیبِ خدا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انکار نہیں کروں گا حتی کہ تو مر کر دوبارہ زندہ کیا جائے ۔‘‘
اس پر وہ لعین بولا کہ جب میں دوبارہ اپنے مال و اولاد کے ساتھ زندہ ہو کر آؤں گا تو تجھے تیرا ادھار ادا کردوں گا۔ اس کی کفر آمیز گفتگو کی مذمت میں قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات نازل ہوئیں :
أَفَرَأَيْتَ الَّذِي كَفَرَ بِآيَاتِنَا وَقَالَ لَأُوتَيَنَّ مَالاً وَوَلَدًاO أَطَّلَعَ الْغَيْبَ أَمِ اتَّخَذَ عِندَ الرَّحْمَنِ عَهْدًاO كَلاَّ سَنَكْتُبُ مَا يَقُولُ وَنَمُدُّ لَهُ مِنَ الْعَذَابِ مَدًّاO وَنَرِثُهُ مَا يَقُولُ وَيَأْتِينَا فَرْدًاO
القرآن، مريم، 19 : 77 - 80
’’کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے ہماری آیتوں سے کفر کیا اور کہنے لگا کہ مجھے (قیامت کے روز بھی اسی طرح) مال و اولاد ضرور دیئے جائیں گےo وہ غیب پر مطلع ہے یا اُس نے (خدائے) رحمٰن سے (کوئی) عہد لے رکھا ہےo ہرگز ہرگز نہیں! اب ہم وہ سب کچھ لکھتے رہیں گے جو وہ کہتا ہے اور اس کے لئے عذاب (پر عذاب) خوب بڑھاتے چلے جائیں گےo اور (مرنے کے بعد) جو یہ کہہ رہا ہے اس کے ہم ہی وارث ہوں گے اور وہ ہمارے پاس تنہا آئے گا (اس کے مال و اولاد ساتھ نہ ہوں گے)o‘‘
ائمہ حدیث اور مفسرین نے ان آیات قرآنیہ کے شان نزول میں محولہ بالا واقعہ درج کیا ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ حضرت خباب رضی اللہ عنہ کی اس وفاداری بشرطِ اُستواری کے باعث ان سے بہ دل و جاں محبت کرتے تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے آپ کو اپنی مسند پر بٹھانے کا اعزاز بخشا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے کفار کے ہاتھوں پہنچنے والی اذیت کی تفصیل دریافت کی تو انہوں نے اپنی کمر سے قمیض ہٹا کر امیرالمؤمنین کو وہ داغ اور نشانات دکھائے جو اس ظلم و تشدد کا نتیجہ تھے۔ خلیفۃ المسلمین نے ان کی کمر دیکھ کر فرمایا :
مارأيت کاليوم ظهر رجل.
’’میں نے تو آج تک کسی کی ایسی کمر نہیں دیکھی۔‘‘
اس کے جواب میں حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے یہ تفصیل آپ رضی اللہ عنہ کے گوش گذار کی :
لقد أوقدت ناراً و سحبت عليها، فما أطفأها إلا ودک ظهري.
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 3 : 164، 2165
ابو نعيم، حلية الاولياء، 1 : 3144
حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 4483
ابن عبدالبر، الاستيعاب، 2 : 439، رقم : 5428
ابن اثير، اسدالغابه، 2 : 147 - 149
’’مجھے آگ کے انگاروں پر ڈال کر گھسیٹا جاتا تھا حتی کہ میری کمر کی چربی (اور خون) سے وہ آگ بجھتی تھی۔‘‘
یہ حسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کشش اور دلآویزی تھی کہ جو ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زلفِ گرہ گیر کا اسیر ہو جاتا پھر خواہ اس کا جسم پرزے پرزے کیوں نہ کر دیا جاتا تو اسے کوئی پروا نہ ہوتی، عشق کا نشہ ایسا نہیں تھا کہ جسے کوئی ترشی اتار سکتی۔
حضرت خباب رضی اللہ عنہ نے 37ھ میں وفات پائی اور کوفہ میں دفن ہوئے۔ ایک دفعہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ان کی قبر سے گزر ہوا تو انہوں نے اس عاشقِ زار کی شان میں ارشاد فرمایا :
رحم اﷲ خباباً، أسلم راغباً، و هاجر طائعاً، و عاش مجاهداً، و ابتلی فی جسمه.
هيثمي، مجمع الزوائد، 9 : 299
ابن حجر عسقلاني، الاصابه، 2 : 258، رقم : 32212
طبري، تاريخ لامم والملوک، 3 : 4108
ابن اثير، اسد الغابه، 2 : 5149
عبد الرحمن مبارکپوري، تحفة الأحوذي، 4 : 39
’’اللہ تعالیٰ حضرت خباب پر رحم فرمائے، اپنی خوشی سے اسلام لائے اور خوشی سے ہجرت کی اور جہاد میں زندگی گزار دی اور (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لانے پر کفار و مشرکین کی طرف سے) جسمانی اذیتیں برداشت کیں۔‘‘
اسیرانِ حُسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں خادمِ رسالت مآب حضرت انس رضی اللہ عنہ بھی صفِ اوّل میں کھڑے نظر آتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے آنکھ کھولی تو گھر کی فضا کو اللہ اور اُس کے محبوب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تذکارِ جمیل سے معمور پایا، گھر کا ہر فرد جاں نثارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھا۔ حبِّ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُنہیں وراثت میں ملی تھی، دس سال تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت پر بھی مامور رہے، پیغمبرِانسانیت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و کردار سے اتنے متاثر ہوئے کہ ہر وقت عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضائے کیف و سرور میں گم رہتے۔ جب تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وصال ہوا تو حضرت انس رضی اللہ عنہ پر بھی قیامت ٹوٹ پڑی۔ جس شفیق ہستی کا ایک لمحہ کے لئے بھی آنکھوں سے اوجھل ہونا دل پر شاق گزرتا تھا، اس عظیم ہستی کی یاد میں آنکھیں اشکبار رہتیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے تبرکات کی زیارت کرتے تو دل کو اطمینان ہوتا۔ ذکرِ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محفل سجاتے، خود بھی تڑپتے اور دوسروں کو بھی تڑپاتے۔
ایک مرتبہ حضرت انس رضی اللہ عنہ تاجدارِ کائنات حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان فرما رہے تھے، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمانے لگے :
ولا مَسِستُ خزّة ولا حريرَة الين من کف رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، و لا شَمِمْتُ مسکة و لا عبيرة أطيب رائحة من رائحة رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم.
بخاري، الصحيح، 2 : 696، کتاب الصوم، رقم : 21872
مسلم، الصحيح، 4 : 1814، کتاب الفضائل، رقم : 32330
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 4107
ابن حبان، الصحيح، 14 : 211، رقم : 56303
دارمي، السنن، 1 : 45، رقم : 61
’’اور میں نے آج تک کسی دیبا اور ریشم کو مَس نہیں کیا جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتھیلی سے زیادہ نرم ہو اور نہ کہیں ایسی خوشبو سونگھی جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسمِ اَطہر کی خوشبو سے بڑھ کر ہو۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ کو اکثر خواب میں حضور علیہ السلام کی زیارت نصیب ہوتی۔ مثنی بن سعید روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کویہ کہتے سنا :
ما من ليلة إلاّ وأنا أري فيها حبيبي، ثم يبکي.
ابن سعد، الطبقات الکبري، 7 : 220
ذهبي، سير أعلام النبلاء، 3 : 403
’’(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے بعد) کوئی ایک رات بھی ایسی نہیں گذری جس میں میں اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت نہ کرتا ہوں۔ یہ کہہ کر آپ رضی اللہ عنہ زار و قطار رونے لگے۔‘‘
امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے فرزندِ ارجمند سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا اسمِ گرامی اسیرانِ حُسنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں بڑے ادب سے لیا جاتا ہے، آپ بھی اپنے عظیم باپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے محبتِ رسول کا پیکرِ اتم بن گئے تھے :
وکان ابن عمر يتحفظ ما سمع من رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم و يسأل من حضر إذا غاب عن قوله وفعله وکان يتبع آثاره في کل مسجد صلي فيه وکان يعترض براحلته في طريق رأي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عرض ناقته وکان لا يترک الحج وکان إذا وقف بعرفة يقف في الموقف الذي وقف فيه رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم.
عسقلاني، الاصابه، 4 : 186
’’حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جو کچھ سنتے اُسے یاد کر لیا کرتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غیرموجودگی میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں پوچھتے رہتے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال و افعال کا پورا ریکارڈ رکھتے۔ اتباعِ سنت میں جس جس جگہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نمازیں پڑھی ہوتیں وہیں پہ سجدہ ریز ہوتے۔ سفر کیلئے وہ راستے اختیار کرتے جن پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سفر کیا ہوتا اور ہر سال حج ادا کرتے اور وقوفِ عرفہ کے وقت اس جگہ ٹھہرتے جس جگہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قیام فرمایا ہوتا۔‘‘
کتب احادیث و سیر میں ان کے حوالے سے ایک روایت ہے :
ما ذکر ابن عمر رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم إلا بکی، و لا مرّ علی ربعهم إلا غمض عينيه.
بيهقي، المدخل الي السنن الکبري، 1 : 148، رقم : 2113
عسقلاني، الاصابه، 4 : 3187
ابن قيسراني، تذکرة الحفاظ، 1 : 38
’’عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما جب بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ذکر کرتے رو پڑتے، اور جب بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ٹھکانوں پر گذرتے آنکھیں بند کر لیتے۔‘‘
حضرت سیدنا عبدالرحمٰن بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما کی مجلس میں بیٹھا تھا کہ ان کاپاؤں سُن ہو گیا، میں نے تجویز پیش کی :
أذکر أحب الناس إليک، فقال : يا محمداه، فانتشرتْ.
قاضي عياض، الشفاء، 2 : 218
بخاري، الأدب المفرد، 1 : 335، رقم حديث : 3964
ابن جعد، المسند، 1 : 369، رقم : 42539
ابن سعد، الطبقات الکبري، 4 : 5154
مناوي، فيض القدير، 1 : 6399
مزي، تهذيب الکمال، 17 : 142
’’جو ہستی آپ کو سب سے زیادہ محبوب ہے اُس کا نام لیجئے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما نے (آقا علیہ السلام کو پکارتے ہوئے) کہا : اے محمد، صلی اﷲ علیک وسلم! مدد فرمائیے۔ دوسرے ہی لمحے ان کا پاؤں ٹھیک ہو چکا تھا۔‘‘
حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خادم تھے۔ وہ ایک قافلے کے ساتھ اپنے ننھیال جا رہے تھے کہ ایک ناگہانی مصیبت کا شکار ہو گئے۔ بنو قیس نے اُن کے قافلے کو لوٹ لیا۔ حکیم بن حزام نے کمسن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو بنو قیس سے اپنی پھوپھی حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اﷲ عنہا کی خدمت کے لئے خرید لیا۔ جب انہیں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکاح کا اعزاز حاصل ہوا تو انہوں نے زید کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں پیش کر دیا، یوں زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو غلامی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزاز حاصل ہوا۔
قافلے کے لوٹے جانے کی خبر سے قیامت ٹوٹ پڑی اور زید کے والدین کو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ زید زندہ بھی ہے یا نہیں۔ وہ بیٹے کی جدائی سے بہت پریشان تھے اُنہوں نے اس کی تلاش جاری رکھی۔ حج پر آئے ہوئے لوگوں نے زید کو پہچان لیا اور انہیں ان کے والد کی حالتِ زار سے آگاہ گیا۔ زید کے والد کو جب بیٹے کا سراغ ملا تو وہ مکہ پہنچے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض پیرا ہوئے کہ زید کو فدیہ لے کر آزاد کر دیں، ہم زندگی بھر آپ کے ممنونِ احسان رہیں گے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر زید تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے تو میں کسی قسم کا فدیہ لئے بغیر ہی اسے تمہارے ساتھ بھیجنے کے لئے تیار ہوں۔ حضرت زید رضی اللہ عنہ کو بلا کر پوچھا گیا : کیا تم انہیں پہچانتے ہو؟ وہ بولے : کیوں نہیں! یہ میرے والدِ گرامی ہیں اور یہ میرے چچا ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اگر اپنے والد کے ساتھ جانا چاہو تو بخوشی جا سکتے ہو اور اگر میرے پاس رہنا چاہو تو بھی رہ سکتے ہو۔ یہ حضرت زید رضی اللہ عنہ کا امتحان تھا، ایک طرف وہ باپ تھا جو مدت سے اس کی تلاش میں تھا، اور زید کے دل میں بھی باپ کی محبت کا سمندر موجزن تھا لیکن اسے دوسری طرف نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا شرفِ عظیم بھی حاصل تھا۔ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ صفیصلہ کرتے ہوئے ایک لمحہ کے لئے بھی کسی تذبذب کا شکار نہیں ہوئے، اور کہا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے قدموں سے جدا نہیں ہوں گا۔ فرمایا :
ما أنا بالذی أختار عليک أحداً! أنت مني بمکان الأب والأم فقالا : ويحک يا زيد! أتختار العبودية علي الحرية، و علي أبيک و عمک و أهل بيتک؟ قال : نعم، إني قد رأيت من هذا الرجل شيئاً ما أنا بالذي أختار عليه أحداً أبداً. فلما رأي رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم ذالک، أخرجه إلي الحجر، فقال : يا من حَضَرَ اشهدوا أن زيداً ابني أرثه و يرثني، فلما رأي ذالک أبوه و عمه طابت أنفسها و انصرفا.
ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 242
قرطبي، تفسير، 14 : 3118
ابن اثير، اسد الغابه، 2 : 6351
حلبي، السيرة الحلبيه، 1 : 5439
عسقلاني، الاصابه، 2 : 4599
ابن الجوزي، صفوة الصفوه، 1 : 381
’’(یارسول اللہ!) میں آپ کے مقابلے میں بھلا کسی اور کو ترجیح دے سکتا ہوں! آپ میرے لئے ماں باپ کے مقام پر ہیں۔ اس بات پر ان دونوں (آپ کے والد اور چچا) نے کہا ارے زید! تو ہلاک ہو، غلامی کو آزادی پر ترجیح دیتے ہو؟ اور اپنے والد، چچا اور سب گھر والوں کو چھوڑ رہے ہو؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : ہاں بے شک میں نے اس شخص (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں ایسی بات دیکھی ہے جس کے مقابلے میں کسی اور چیز کو پسند نہیں کر سکتا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات سنی تو خوش ہو کر اُنہیں اپنی آغوش میں لیا اور حاضرین کو گواہ بنا کر کہا کہ یہ میرا بیٹا ہے، ہم ایک دوسرے کے وارث ہیں۔ جب ان کے باپ اور چچا نے یہ منظر دیکھا تو نہایت خوش ہوئے اور انہیں (حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس) چھوڑ کر رخصت ہو گئے۔‘‘
امام قرطبی لکھتے ہیں کہ اُنہوں نے قسم کھا کر کہا :
واﷲ! العبودية عند محمد صلي الله عليه وآله وسلم أحب الي من أن اکون عندکم.
(2) قرطبي، تفسير، 14 : 193
’’خدا کی قسم : محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی مجھے تمہارے پاس رہنے سے زیادہ مرغوب ہے۔‘‘
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے قبولِ اسلام کا واقعہ کتبِ تاریخ و سیر میں تفصیل سے درج ہے۔ آتش پرستی سے توبہ کر کے عیسائیت کے دامن سے وابستہ ہوئے۔ پادریوں اور راہبوں سے حصولِعلم کا سلسلہ بھی جاری رہا، لیکن کہیں بھی دل کو اطمینان حاصل نہ ہوا۔ اسی سلسلے میں اُنہوں نے کچھ عرصہ غموریا کے پادری کے ہاں بھی اس کی خدمت میں گزارا۔ غموریا کا پادری الہامی کتب کا ایک جید عالم تھا۔ اس کا آخری وقت آیا تو حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اب میں کس کے پاس جاؤں؟ اُس عالم نے بتایا کہ نبی آخر الزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا زمانہ قریب ہے۔ یہ نبی دینِ ابراہیمی کے داعی ہوں گے۔ اور پھر غموریا کے اُس پادری نے مدینہ منورہ کی تمام نشانیاں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بتا دیں کہ نبی آخرالزماں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مکہ سے ہجرت کر کے کھجوروں کے جھنڈ والے اس شہرِ دلنواز میں سکونت پذیر ہوں گے۔ عیسائی پادری نے اللہ کے اس نبی کے بارے میں بتایا کہ وہ صدقہ نہیں کھائیں گے البتہ ہدیہ قبول کر لیں گے اور یہ کہ ان کے دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت ہو گی۔ پادری اس جہانِ فانی سے کوچ کر گیا، تلاشِ حق کے مسافر نے غموریا کو خدا حافظ کہا اور سلمان فارسی شہرِ نبی کی تلاش میں نکل پڑے۔ سفر کے دوران حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ چند تاجروں کے ہتھے چڑھ گئے لیکن تلاشِ حق کے مسافر کے دل میں نبی آخر الزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی تڑپ ذرا بھی کم نہ ہوئی بلکہ آتشِ شوق اور بھی تیز ہو گئی۔ یہ تاجر اُنہیں مکہ لے آئے، جس کی سرزمین نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کامولد پاک ہونے کا اِعزاز حاصل کر چکی تھی۔ تاجروں نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو اپنا غلام ظاہر کیا اور اُنہیں مدینہ (جو اُس وقت یثرب تھا) کے بنی قریظہ کے ایک یہودی کے ہاتھ فروخت کر دیا۔ اُنہوں نے یہودی کی غلامی قبول کر لی ۔ ۔ ۔ یہودی آقا کے ساتھ جب وہ یثرب (مدینہ منورہ) پہنچ گئے توگویا اپنی منزل کو پا لیا۔
غموریا کے پادری نے یثرب کے بارے میں انہیں جو نشانیاں بتائی تھیں وہ تمام نشانیاں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے دیکھ لیں، وہ ہر ایک سے نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور کے بارے میں پوچھتے رہتے لیکن ابھی تک قسمت کا ستارا اَوجِ ثریا پر نہ چمک پایا تھا اور وہ بے خبر تھے کہ نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے ہجرت کر کے اس شہرِ خنک میں تشریف لا نے والے ہیں۔ بعض روایات میں مذکور ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک دن اپنے یہودی مالک کے کھجوروں کے باغ میں کھجور کے ایک درخت پر چڑھے ہوئے تھے کہ اُنہوں نے اپنے یہودی مالک کو کسی سے باتیں کرتے ہوئے سنا کہ مکہ سے ہجرت کر کے قبا میں آنے والی ہستی نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہونے کی داعی ہے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا دل مچل اٹھا، اور تلاشِحق کے مسافرکی صعوبتیں لمحۂ مسرت میں تبدیل ہو رہی تھیں۔ وہ ایک طشتری میں تازہ کھجوریں سجا کر والیء کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور کہا کہ یہ صدقے کی کھجوریں ہیں۔ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وہ کھجوریں یہ فرما کر واپس کر دیں کہ ہم صدقہ نہیں کھایا کرتے۔ غموریا کے پادری کی بتائی ہوئی ایک نشانی سچ ثابت ہو چکی تھی۔ دوسرے دن پھر ایک خوان میں تازہ کھجوریں سجائیں اور کھجوروں کا خوان لے کر رسولِ ذی حشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوئے۔ عرض کی یہ ہدیہ ہے، قبول فرما لیجئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تحفہ قبول فرما لیا اور کھجوریں اپنے صحابہ میں تقسیم فرما دیں۔
دو نشانیوں کی تصدیق ہو چکی تھی۔ اب مُہرِ نبوت کی زیارت باقی رہ گئی تھی ۔ تاجدارِکائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں ایک جنازے میں شرکت کے لئے تشریف لائے اور ایک جگہ جلوہ افروز ہوئے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پشت کی طرف بے تابانہ نگاہیں لگائے بیٹھے تھے۔ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نورِ نبوت سے دیکھ لیا کہ سلمان کیوں بے قراری کا مظاہرہ کر رہا ہے، مخبرِ صادق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ازرہِ محبت اپنی پشت انور سے پردہ ہٹا لیا تاکہ مہرِ نبوت کے دیدار کا طالب اپنے من کی مراد پا لے۔ پھر کیا تھا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی کیفیت ہی بدل گئی، تصویر حیرت بن کے آگے بڑھے، فرطِ محبت سے مہرِ نبوت کو چوم لیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پرایمان لاکر ہمیشہ کیلئے دامنِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے وابستہ ہو گئے۔
حاکم، المستدرک، 3 : 698، رقم : 26544
بزار، المسند، 6 : 463 - 465، رقم : 32500
طبرانی، معجم الکبير، 6 : 222 - 224، رقم : 46065
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 4 : 75 - 580
ابونعيم، دلائل النبوه، 1 : 40
رئیسِ قریش سفیان بن خالد نے ایک سازش کے تحت چند آدمی مدینہ منورہ بھیجے کہ اپنے مسلمان ہونے کا ڈھونگ رچائیں اور محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے درخواست کرکے چند مبلغین اپنے ہمراہ لائیں تاکہ اُنہیں مقتولینِ اُحد کا انتقام لینے کے لئے قتل کر دیا جائے ۔ اس کام کے لئے انہیں سو اونٹوں کا لالچ دیا گیا۔ یہ سازشی عناصر مدینہ منورہ سے جن مسلمانوں کو اپنے ساتھ لائے ان میں حضرت زید بن دثنہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ حضرت خبیب رضی اللہ عنہ، حضرت عبداللہ بن طارق رضی اللہ عنہ اور حضرت عاصم رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ راستے میں اُنہوں نے اپنے مزید آدمیوں کو بلا کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا گھیرا تنگ کر دیا، لیکن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ہمت نہ ہاری اور جرات و بہادری سے مردانہ وار مقابلہ کیا۔ یہ مٹھی بھر مجاہد آخر دم تک لڑتے رہے اور سوائے دو افراد کے سب کے سب شہید ہو گئے، ان دو کو مکہ لے جا کر فروخت کر دیا گیا۔ ان میں ایک حضرت زید رضی اللہ عنہ تھے، جنہیں صفوان بن اُمیہ نے پچاس اونٹوں کے عوض خریدا تاکہ باپ کے بدلے میں انہیں قتل کر کے اپنی آتشِ انتقام کو ٹھنڈا کر سکے۔
کفار و مشرکین کے سازشی گروہ میں ایک عورت سُلافہ بنت سعد بھی شامل تھی جس کے دو بیٹے غزوۂ اُحد میں واصلِ جہنم ہوئے تھے۔ اس نے نذر مانی تھی کہ اگر حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کا سر اُسے مل جائے تو وہ اُس کی کھوپڑی میں شراب پئے گی۔ حضرت عاصم رضی اللہ عنہ خلعتِ شہادت سے سرفراز ہوئے، تو اس سے قبل اُنہوں نے بارگاہِ خُداوندی میں دعا کی : یا اللہ! میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو میری شہادت سے آگاہ فرما دے۔ اے پروردگارِ عالم! میرا سر تیری راہ میں کاٹا جارہا ہے تو اس کی حفاظت فرما۔
جب کفار حضرت عاصم رضی اللہ عنہ کا سر کاٹنے لگے تو کہیں سے شہد کی مکھیوں کا ایک غول نمودار ہوا، جس نے شہید کے بدن کو اپنے حصار میں لے لیا۔ کفار نے سرکاٹنے کا کام یہ سوچ کر رات پر ملتوی کر دیا کہ رات کو تو شہد کی مکھیاں غائب ہو جائیں گی، لیکن رات شدید بارش ہوئی اور شہید کی لاش کو طوفانی موج بہالے گئی۔ دوسری طرف حضرت زید رضی اللہ عنہ کو شہید کیا جانے لگا تو کفارو مشرکینِ مکہ کا ایک ہجوم جمع ہو گیا، جس میں ابوسفیان بھی شامل تھے۔ ابوسفیان نے حضرت زید رضی اللہ عنہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا :
أنشدک اﷲ يا زيد! أتحب أن محمداً الآن عندنا مکانک يضرب عنقه وانک في أهلک؟
’’اے زید! تجھے اﷲ رب العزت کی قسم، (سچ سچ بتا) کیا تو پسند کرتا ہے کہ اس وقت تمہارے بجائے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس ہوتے کہ ہم (نعوذ باﷲ) اُنہیں قتل کرتے اور تم اپنے اہل و عیال کے پاس ہوتے؟‘‘
اسیرِ حُسنِ مصطفیٰ حضرت زید رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں اپنے محبوب آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرہ گھوم گیا، فرمایا :
واﷲ! ما أحبّ أنّ محمداً الآن فی مکانه الذی هو فيه تصيبه شوکة تؤذيه وأنی جالسٌ فی أهلی.
’’خدا کی قسم! میں تو یہ بھی نہیں گوارا کرتا، کہ میرے آقا و مولا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس وقت جہاں بھی رونق افروز ہوں، کانٹا بھی چبھے، کہ جس سے اُنہیں تکلیف پہنچے اورمیں آرام سے اپنے اہل و عیال کے ساتھ بیٹھا رہوں۔‘‘
ابوسفیان نے غلامِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جاں نثاری کا اعتراف کرتے ہوئے کہا :
ما رأيتُ من الناس أحدا يحب أحداً کحبِ أصحاب محمد محمداً.
’’میں نے کسی ایسے شخص کو نہیں دیکھا کہ دوسروں سے ایسی محبت کرتا ہو جیسی محبت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کرتے ہیں۔‘‘
ابن هشام، السيرة النبويه، 4 : 2126
ابن سعد، الطبقات الکبري، 2 : 55، 356
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 4 : 465
طبري، تاريخ الامم و الملوک، 2 : 579
ابن اثير، اسد الغابه، 2 : 108، 155، 6358
قاضي عياض، الشفاء، 2 : 719
ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 649
حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو بھی قیدی بنا لیا گیا تھا اور کچھ عرصے بعد اُنہیں بھی تختہ دار پر لٹکا دیا گیا لیکن شہادت سے قبل آپ نے مہلت مانگی کہ میں دو رکعت نماز پڑھ لوں، اجازت ملنے پر وہ اطمینان سے بارگاہِ خُداوندی میں سجدہ ریز ہو گئے۔ تختہ دار پر اپنے پروردگار کی بارگاہ میں التجاء کی کہ مولا! میرا سلام میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک پہنچا دے۔ حضرت اُسامہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس وقت میں مدینہ منورہ میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وحی نازل ہوئی، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وعلیکم السلام۔ اس کے ساتھ ہی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔ قریشِ مکہ نے آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے کے لئے ایسے چالیس افراد بلائے جن کے آباء و اجداد جنگِ بدر میں واصلِ جہنم ہوئے تھے۔ اُنہوں نے آپ رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، آپ رضی اللہ عنہ کی میت تختہ دار پر لٹکی رہی، جس کی نگرانی کے لئے کفار نے چالیس افراد کا ایک ٹولہ مقرر کیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ وحی اُس کی اطلاع ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أيّکم ينزل خبيبًا عن ختبته وله الجنة.
حلبي، السيرة الحلبيه، 3 : 160 - 161
’’تم میں سے جو شخص بھی حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو تختہ دار سے اُتارے گا اُس کے لئے جنت ہے۔‘‘
چنانچہ حضرت زبیر بن العوام رضی اللہ عنہ نے حضرت مقداد رضی اللہ عنہ کے ساتھ مل کر اس حکم کو قبول کیا اور اُنہیں تختہ دار سے اُتار کر لائے۔
غزوۂ اُحد میں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم زخمی ہو گئے، خود (لوہے کی ٹوپی جو دورانِ جنگ پہنی جاتی تھی) کی کڑیوں نے رخسار مبارک زخمی کر دیئے۔ یہ دیکھ کر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ بن الجراح دوڑتے ہوئے خدمتِ اقدس میں پہنچے، حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ بن الجراح نے آگے بڑھ کر رخسارِ اقدس سے خود کی کڑیوں کو نکالا۔ پہلی کڑی نکالنے لگے تو زور سے پیچھے گر پڑے اور ان کا ایک دانت ٹوٹ گیا۔ لیکن شمع رسالت کے پروانے نے اپنے زخمی ہونے کی پروا نہ کی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رخسارِ اقدس سے خود کی دوسری کڑی کو بھی نکال لیا لیکن ایسا کرتے ہوئے ایک بار پھر گر گئے اور دوسرا دانت بھی ٹوٹ گیا۔
ابن هشام، السيرة النبويه، 4 : 29
وہ زبانِ حال سے گویا ہوئے : یا رسول اللہ! یہ تو محض دو دانت ہیں آپ کے قدموں پر گر کر جان بھی چلی جائے تو میرے لئے اس سے بڑا اعزاز اور کیا ہوگا۔
جاں نثارانِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جذبۂ عشق کو ایک تحریک بنا دیا تھا۔ جنگ بدر کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب صفیں درست فرما رہے تھے تو سواد بن عزیہ کے پیٹ میں جو صف سے ذرا آگے بڑھے ہوئے تھے، تیر چبھو کر فرمایا :
استو يا سواد.
’’سواد! برابر ہو جا۔‘‘
اس پر انہوں نے عرض کیا :
يا رسول اﷲ! أوجعتني، و قد بعثک اﷲ بالحق، فأقدني، فکشف رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم عن بطنه وقال : إستقِد. فاعتنقه، وقبل بطنه. و قال : ما حملک علي هٰذا يا سواد؟ فقال : يا رسول اﷲ! حضر ما تري و لم آمن القتل، فإني أحب أن أکون آخر العهد بک أن يمسّ جلدي جلدک، فدعا له رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم بخير.
ابن کثير، البدايه والنهايه، 3 : 2271
ابن هشام، السيرة النبويه، 3 : 3174
طبري، تاريخ الامم و الملوک، 2 : 432
ابن اثير، اسد الغابه، 2 : 590 رقم : 52333
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 402
’’یا رسول اللہ! آپ نے مجھے تکلیف پہنچائی جبکہ آپ کو اللہ تعالیٰ نے حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے، سو مجھے بدلہ دیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بطن مبارک سے کپڑا ہٹا لیا اور فرمایا : بدلہ لے لو۔ وہ (تو بہانہ ڈھونڈ رہے تھے) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لپٹ گئے اور بطنِ اقدس کو بوسہ دینے لگے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے سواد! تجھے کس چیز نے اس عمل کی ترغیب دی؟ اُنہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ! جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں ممکن ہے میں جنگ میں زندہ نہ بچ سکوں اس پر میں نے چاہا کہ میرا آخری عمل آپ کے ساتھ یہ ہو کہ میرا جسم آپ کے جسمِ اطہر سے مس ہو جائے، پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے لئے دُعائے خیر فرمائی۔
حضرت سیدنا سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ غزوۂ اُحد میں شدید زخمی ہوگئے۔ بارہ نیزے ان کے جسم کے آر پار ہوئے، تلوار اور تیر کے زخم جو اس کے علاوہ تھے سَتّر (70) کے لگ بھگ تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جاں نثاروں سے فرمایا کہ سعد بن ربیع کی خبر کون لائے گا تو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ حضرت سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ کی تلاش میں نکلے اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے انہیں شہیدوں کے درمیان شدید زخمی حالت میں پایا۔ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے اُنہیں بتایا کہ مجھے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہارا حال دریافت کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ اس پر اُنہوں نے اپنا حال بیان کرتے ہوئے فرمایا :
فاذهب إليه فأقرئه منّي السلام، وأخبره أني قد طعنت اثنتي عشرة طعنة، وأني قد أنفذت مَقاتلي، و أخبر قومک أنّه لا عذر لهم عند اﷲ، إنْ قتل رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم، و واحد منهم حیّ.
مالک بن انس، موطا، 2 : 465 - 2466
ابن عبد البر، الاستيعاب، 2 : 3590
ابن عبد البر، التمهيد، 24 : 494
ابن سعد، الطبقات الکبري، 3 : 5524
ابن جوزي، صفوة الصفوه، 1 : 6481
عسقلاني، الاصابه، 3 : 759
زرقاني، شرح علي موطا، 3 : 59
’’میرے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حضور میرا سلام پیش کرنا اور کہنا کہ مجھے نیزے کے بارہ زخم لگے ہیں اور میں نے اپنے مقابل کے جسم سے نیزہ آر پار کر دیا ہے۔ اپنے لوگوں سے کہنا کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کچھ ہوا اور تم میں سے ایک فرد بھی زندہ بچا تو قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں ان کا کوئی بھی عذر قابلِ قبول نہ ہو گا۔‘‘
یہ ان کا جذبۂ جاں نثاری تھا کہ بدن زخموں سے چور ہے اور زندہ بچ جانے کی کوئی اُمید نہیں مگر پھر بھی تصورِمحبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی میں کھوئے ہوئے ہیں اور اُن کے بارے میں نہ صرف فکر مند ہیں بلکہ اپنی قوم کو یہ پیغام بھی دے رہے ہیں کہ خبردار! اسی محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دامن سے وابستہ رہنا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved