صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہ تھی، دیدارِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُنہیں دنیا و مافیہا کی ہر نعمت سے بڑھ کر عزیز تھا۔ وہ ہر وقت محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک دینے کے لئے ماہیء بے آب کی طرح تڑپتے رہتے تھے۔ اس حسنِ بے مثال کی جدائی کا تصور بھی ان کے لئے سوہانِ روح بن جاتا۔ وہ چاہے کتنے ہی مغموم و رنجیدہ ہوتے آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں آتے ہی ان کے دل و جاں کو راحت اور سکون کی دولت مل جاتی، پھر وہ عالمِ وارفتگی میں آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دائمی رفاقت کی آرزو اور تمنا کی فضائے دلکش میں گم ہو جاتے۔ انہیں یہ اندیشہ بے تاب رکھتا کہ کہیں اُن سے صحبتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گراں بہا نعمت چھن نہ جائے، اُن کے قلوبِ مضطر کو اس وقت قرار آیا جب اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال پر مر مٹنے والے عشاق کو اخروی زندگی میں ابدی رفاقتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مژدۂ جانفزا سنایا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہوا :
وَمَن يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُوْلَـئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ وَحَسُنَ أُولَـئِكَ رَفِيقًاO ذَلِكَ الْفَضْلُ مِنَ اللّهِ وَكَفَى بِاللّهِ عَلِيمًاO
(القرآن، النساء، 4 : 69، 70)
’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت)
اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیںo یہ فضلِ (خاص) اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ جاننے والا کافی ہےo‘‘
اِس مقام پر مفسرینِ کرام نے آیتِ مذکورہ کی شانِ نزول بیان کرتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے محبوبِ حجازی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت و وارفتگی کے احوال و واقعات کا تذکرہ بڑے پیارے اور دلآویز انداز سے کیا ہے۔ ذیل میں حوالے کے طور پر چند مثالیں بیان کی جاتی ہیں :
1۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے :
جاء رجل إلی النبی ﷺ فقال : يا رسول اﷲ! إنک لأحب إلي من نفسي، و إنک لأحب إلي من والدي، و إني لأکون في البيت، فاذکرک فما أصبر حتي آتی فانظر إليک، و إذا ذکرت موتی و موتک عرفت انک إذا دخلت الجنة رفعت مع النبيين، و أني إذا دخلت الجنة خشيت أن لا أراک، فلم يزد عليه النبي ﷺ شيئا حتي نزل جبريل بهذه الاية : (وَ مَنْ يطِعِ اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِينَ اَنْعَمَ اﷲُ عليهمْ... ).
1.سيوطي، الدر المنثور، 2 : 2182
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 3523
هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 47
طبراني، المعجم الاوسط، 1 : 5153
سيوطي، المعجم الصغير، 1 : 653
ابو نعيم، حلية الاولياء، 4 : 7240
ابو نعيم، حلية الاولياء، 8 : 125
’’ایک صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوئے کہ یارسول اﷲ! آپ مجھے میری جان اور میرے والدین سے بھی زیادہ محبوب ہیں۔ جب میں اپنے گھر میں ہوتا ہوں تو آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں اور اس وقت تک چین نہیں آتا جب تک حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کر لوں۔ لیکن جب مجھے اپنی موت اور آپ کے وصال مبارک کا خیال آتا ہے تو سوچتا ہوں کہ آپ تو جنت میں انبیاء کرام کے ساتھ بلند ترین مقام پر جلوہ افروز ہوں گے اور جب میں جنت میں داخل ہوں گا تو خدشہ ہے کہ کہیں آپ کی زیارت سے محروم نہ ہو جاؤں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی کے جواب میں سکوت فرمایا، اس اثناء میں حضرت جبرئیل علیہ السلام تشریف لائے اور یہ آیت نازل ہوئی : ’’اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘
2۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک اور روایت اسی موضوع پر اس طرح ہے :
ان رجلا أتی النبی ﷺ، فقال : يا رسول اﷲ! إنی أحبک حتی إنی أذکرک فلولا أنی أجئ فانظر إليک ظننت أن نفسی تخرج، و أذکر انی ان دخلت الجنة صرت دونک فی المنزلة، فيشق علی وأحب أن أکون معک فی الدرجة. فلم يرد عليه شيئا. فأنزل اﷲ (وَمَنْ يُّطِع اﷲَ وَ الرَّسُوْل) فدعاه رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم فتلاه عليه.
سيوطی، الدرالمنثور، 2 : 2182
طبرانی، المعجم الکبير، 12 : 86، رقم : 312559
هيثمی، مجمع الزوائد، 7 : 6، 47
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 523
’’ایک صحابی بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! میں آپ سے اس قدر محبت کرتا ہوں کہ (ہر وقت) آپ کو ہی یاد کرتا رہتا ہوں۔ پس جب تک میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کر لوں تو یوں محسوس کرتا ہوں کہ میری جان نکل جائے گی۔ اور جب میں یہ خیال کرتا ہوں کہ اگر میں جنت میں چلا گیا تو آپ سے نچلے درجے میں ہوں گا، یہ خیال میرے لئے انتہائی تکلیف دہ ہوتا ہے کیونکہ میں جنت میں آپ کی دائمی معیت چاہتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے کوئی جواب نہ دیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے آیت ۔ ۔ ۔ اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اِطاعت کرے ۔ ۔ ۔ نازل فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُسے بلا کر اس پر یہ آیت تلاوت فرمائی۔‘‘
3۔ حضرت شعبی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے :
إن رجلا مِن الأنصار أتی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، فقال : يا رسول اﷲ! واﷲ! لأنت أحب إلی من نفسی و ولدی و أهلی و مالی، و لو لا انی آتيک فأراک لظننت إنی سأموت. و بکی الأنصاری، فقال له النبی ﷺ : ما أبکاک؟ فقال : ذکرت إنک ستموت و نموت فترفع مع النبيين، و نحن إذا دخلنا الجنة کنا دونک فلم يخبره النبی ﷺ بشیء، فأنزل اﷲ علی رسوله : (وَ مَنْ يُّطِعِ اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰئِکَ مَعَ الَّذِيْنَ اَنْعَمَ اﷲُ عَلَيْهِمْ... عَلِيْماً) فقال : ابشر يا أبا فلان.
سيوطی، الدر المنثور، 2 : 2182
هناد، الزهد، 1 : 118، باب منازل الانبياء
سعيد بن منصور، السنن، 4 : 1307، رقم : 4661
بيهقی، شعب الايمان، 2 : 131، رقم : 1380
’’ایک انصاری صحابی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : یا رسول اﷲ! آپ مجھے اپنی جان، والدین، اہل و عیال اور مال سے زیادہ محبوب ہیں۔ اور جب تک میں آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر آپ کی زیارت نہ کر لوں تو محسوس کرتا ہوں کہ میں اپنی جاں سے گزر جاؤں گا، اور (یہ بیان کرتے ہوئے) وہ انصاری صحابی زار و قطار رو پڑے۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ نالۂ غم کس لئے؟ تو وہ عرض کرنے لگے : یا رسول اﷲ! جب میں خیال کرتا ہوں کہ آپ وصال فرمائیں گے اور ہم بھی مر جائیں گے تو آپ انبیاء کرام کے ساتھ بلند درجات پر فائز ہوں گے، اور جب ہم جنت میں جائیں گے تو آپ سے نچلے درجات میں ہوں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کوئی جواب نہ دیا، پس اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر (یہ آیت مبارکہ) نازل فرمائی : ’’ اور جو کوئی اللہ اور رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اِطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) اُن (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ‘‘ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (اس صحابی کو بلایا اور) فرمایا : اے فلاں! تجھے (میری ابدی رفاقت کی) خوش خبری مبارک ہو۔‘‘
4۔ اسی طرح کا ایک اور واقعہ ابن جریر نے حضرت سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
جاء رجل من الأنصار إلی النبی ﷺ، و هو محزون، فقال له النبی ﷺ : يا فلان! ما لی أراک محزونا؟ قال : يا نبی اﷲ! شیء فکرت فيه. فقال : ما هو؟ قال : نحن نغدو عليک و نروح ننظر فی وجهک و نجالسک، غداً ترفع مع النبيين فلا نصل إليک. فلم يرد النبی ﷺ شيئا، فأتاه جبرئيل بهذه الآية : وَ مَنْ يُّطِعِ اﷲَ وَ الرَّسُوْلَ إلی قوله رَفِيْقًا، قال : فبعث إليه النبی ﷺ فبشره.
سيوطی، الدر المنثور، 2 : 2182
قرطبی، الجامع الاحکام القرآن، 7 : 397
طبری، جامع البيان فی تفسير القرآن، 5 : 4163
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 523
’’ایک انصاری صحابی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں غمزدہ حالت میں حاضر ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس سے دریافت فرمایا : اے فلاں! تم اتنے غمگین کیوں ہو؟ اس نے عرض کیا : یا نبی اللہ! مجھے آپ سے متعلق اپنی ایک فکر کھائے جا رہی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ کیا ہے؟ اُس نے عرض کیا : ہم صبح و شام آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں، آپ کے دیدارِ سے اپنے قلب و روح کو تسکین پہنچاتے ہیں، آپ کی صحبت سے فیض یاب ہوتے ہیں۔ کل (آخرت میں) آپ انبیاء کرام کے ساتھ بلند مقام پر فائز ہوں گے جبکہ ہماری آپ تک رسائی نہیں ہو گی۔ اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابی کو کوئی جواب نہ دیا۔ جب جبرئیل علیہ السلام یہ آیتِ کریمہ لے کر حاضر ہوئے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس انصاری کو پیغام بھیجا اور اسے اس (دائمی رفاقت کی) بشارت دی۔‘‘
5۔ اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے بارگاہِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا :
قد علمنا أن النبی ﷺ له فضل علی مَن آمن به فی درجات الجنة ممن اتبعه و صدقه، فکيف لهم إذا اجتمعوا في الجنة أن يري بعضهم بعضا؟ فأنزل اﷲ في ذلک، فقال له النبي ﷺ : ان الاعلين ينحدرون إلي من هم أسفل منهم، فيجتمعون في رياضها فيذکرون ما أنعم اﷲ عليهم و يثنون عليه.
طبري، جامع البيان في تفسير القرآن، 5 : 2164
سيوطي، الدر المنثور، 2 : 3182
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 522
’’(یا رسول اللہ!) ہم جانتے ہیں کہ ہر نبی کو جنت کے درجات میں اپنے اس امتی پر فضیلت حاصل ہو گی جس نے ان کی اتباع اور تصدیق کی تو پھر جنت میں معیت و رفاقت کی کیا صورت ہو گی؟ اس پر اللہ تعالیٰ نے (مذکورہ) آیت مبارکہ نازل فرمائی۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس صحابی سے ارشاد فرمایا کہ اوپر کے درجے والے اپنے سے نیچے کے درجے والوں کے پاس آئیں گے، ان کے پاس بیٹھیں گے اور اپنے اوپر ہونے والی اللہ کی نعمتوں کا ذکر کریں گے اور اس کی حمد و ثنا بیان کریں گے۔‘‘
کتبِ احادیث و سیر میں اس قسم کے متعدد واقعات کا ذکر ہے جو انفرادی و اجتماعی طور پر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو پیش آئے۔ وہ اِس اَمر کی غمازی کرتے ہیں کہ اسیرانِ جمالِ مصطفی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے زندگی پاتے تھے اور انہیں محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک لمحہ کی جدائی بھی گوارا نہ تھی۔ وہ ایک دوسرے سے اقبال کی زبان میں یوں ہم نوا ہوتے تھے :
بیا اے ہمنشیں باھم بنالیم
من و تو کشتۂ شانِ جمالیم
(میرے ساتھی آ! مل کر روئیں، میں اور تُو ایک ہی شانِ حسن و جمال کے کشتہ ہیں۔)
ان مشتاقانِ دید کے دل میں ہر لمحہ یہ تمنا دھڑکتی رہتی تھی کہ ان کا محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کبھی بھی ان سے جدا نہ ہو اور وہ صبح و شام اس محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت سے اپنے قلوب و اذہان کو راحت و سکون بہم پہنچاتے رہیں۔ ایسا کیوں نہ ہوتا کہ ربِ کائنات نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سیرت و صورت میں ایسا یکتا و تنہا اور بے مثال بنایا تھا کہ کائناتِ رنگ و بو میں کوئی دوسرا اس کا ہم سر نہ تھا۔ حضرت پیر مہر علی شاہ رحمۃ اللہ علیہ نے یوں ہی نہیں کہہ دیا تھا :
کوئی مثل نئیں ڈھولن دی
چپ کر مہر علی ایتھے جا نئیں بولن دی
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اول تا آخر محبوبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے والہانہ محبت کرتے تھے اور اسی محبت کا کرشمہ تھا کہ نہ انہیں اپنی جان کی پروا تھی، نہ مال و اولاد کی۔ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عزیز جانتے تھے۔ انہوں نے جس والہانہ عشق و محبت کا مظاہرہ کیا انسانی تاریخ آج تک اس کی نظیر پیش کر سکی اور نہ قیامت تک اس بے مثال محبت کے مظاہر دیکھنے ممکن ہوں گے۔
ذیل میں اسی لازوال محبت کے چند مستند واقعات کا ذکر کیا جائے گا :
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے مرضِ وصال میں جب تین دن تک حجرۂ مبارک سے باہر تشریف نہ لائے تو وہ نگاہیں جو روزانہ دیدار مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شرفِ دلنوازسے مشرف ہوا کرتی تھیں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک جھلک دیکھنے کو ترس گئیں۔ جان نثاران مصطفیٰ سراپا انتظار تھے کہ کب ہمیں محبوب کا دیدار نصیب ہوتا ہے۔ بالآخر وہ مبارک و مسعود لمحہ ایک دن حالتِ نماز میں انہیں نصیب ہوگیا۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایامِ وصال میں جب نماز کی امامت کے فرائض سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے سپرد تھے، پیر کے روز تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی اقتدا میں حسب معمول باجماعت نماز ادا کر رہے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدرے افاقہ محسوس کیا۔ آگے روایت کے الفاظ ہیں :
فکشف النبی ﷺ ستر الحجرة، ينظرإلينا و هو قائمٌ، کأن وجهه ورقة مصحف، ثم تبسم.
بخاری، الصحيح، 1 : 240، کتاب الجماعة والامامة، رقم : 2648
مسلم، الصحيح، 1 : 315، کتاب الصلوة، رقم : 3419
ابن ماجه، السنن، 1 : 519، کتاب الجنائز، رقم : 41664
احمد بن حنبل، 3 : 5163
بيهقی، السنن الکبریٰ، 3 : 75، رقم : 64825
ابن حبان، الصحيح، 15 : 296، رقم : 76875
ابوعوانه، المسند، 1 : 446، رقم : 81650
نسائی، السنن الکبریٰ، 4 : 2261 رقم : 97107
عبدالرزاق، المصنف، 5 : 433، رقم
حميدی، المسند، 2 : 501، رقم : 111188
عبد بن حمید، المسند، 1 : 352، رقم : 121163
ابويعلی، المسند، 6 : 250، رقم : 3548
’’آپ نے اپنے حجرۂ مبارک کا پردہ اٹھا کر کھڑے کھڑے ہمیں دیکھنا شروع فرمایا۔ گویا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور قرآن کا ورق ہو، پھر مسکرائے۔‘‘
حضرت انس رضی اللہ عنہ اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النبی ﷺ، فنکص أبوبکر علی عقبيه ليصل الصف، وظن أن النبی ﷺ خارج إلی الصلوٰة.
بخاری، الصحيح، 1 : 240، کتاب الجماعة والامامة، رقم : 2468
بيهقی، السنن الکبریٰ، 3 : 75، رقم : 34825
عبدالرزاق، المصنف، 5 : 4433
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 5194
عبد بن حمید، المسند، 1 : 302، رقم : 1163
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار کی خوشی میں قریب تھا کہ ہم لوگ نماز چھوڑ بیٹھتے۔ پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنی ایڑیوں پر پیچھے پلٹے تاکہ صف میں شامل ہوجائیں اور انہوں نے یہ سمجھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کے لیے باہر تشریف لانے والے ہیں۔‘‘
ان پر کیف لمحات کی منظر کشی روایت میں یوں کی گئی ہے :
فلما وضح وجه النبی ﷺ ما نظرنا منظرا کان أعجب إلينا من وجه النبی ﷺ حين وضح لنا.
بخاری، الصحيح، 1 : 241، کتاب الجماعة والامامة، رقم : 2649
مسلم، الصحيح، 1 : 315، کتاب الصلاة، رقم : 3419
ابن خزيمه، الصحيح، 2 : 372، رقم : 41488
ابوعوانه، المسند، 1 : 446، رقم : 51652
بيهقی، سنن الکبریٰ، 3 : 74، رقم : 64824
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 7211
ابو يعلی، المسند، 7 : 25، رقم : 2439
’’جب (پردہ ہٹا اور) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا چہرۂ انور سامنے آیا تو یہ اتنا حسین اور دلکش منظر تھا کہ ہم نے پہلے کبھی ایسا منظر نہیں دیکھا تھا۔‘‘
مسلم شریف میں فھممنا ان نفتتن کی جگہ یہ الفاظ منقول ہیں :
فبهتنا و نحن فی الصلوة، من فرح بخروج النبی ﷺ.
مسلم، الصحيح، 1 : 315، کتاب الصلوة، رقم : 419
’’ہم دورانِ نماز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باہر تشریف لانے کی خوشی میں حیرت زدہ ہو گئے (یعنی نماز کی طرف توجہ نہ رہی)۔‘‘
علامہ اقبال نے حالتِ نماز میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عاشقِ زار حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے حوالے سے دیدارِ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منظر کی کیا خوبصورت لفظی تصویر کشی کی ہے :
ادائے دید سراپا نیاز تھی تیری
کسی کو دیکھتے رہنا نماز تھی تیری
کم و بیش یہی حالت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہر صحابی رضی اللہ عنہ کی تھی۔ شارحینِ حدیث نے فھممنا ان نفتتن من الفرح برؤیۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معنی اپنے اپنے ذوق کے مطابق کیا ہے۔
1۔ امام قسطلانی رحمۃ اﷲ علیہ لکھتے ہیں :
فهممنا أی قصدنا أن نفتتن بأن نخرج من الصلوة.
قسطلانی، ارشاد الساری، 2 : 44
’’پس قریب تھا یعنی ہم نے ارادہ کر لیا کہ (دیدار کی خاطر) نماز چھوڑ دیں۔‘‘
2۔ لامع الدراری میں ہے :
و کانوا مترصدين إلی حجرته، فلما أحسوا برفع الستر التفتوا إليه بوجوههم.
گنگوهي، لامع الدراری علی الجامع البخاری، 3 : 150
’’تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی توجہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرہ مبارک کی طرف مرکوز تھی، جب انہوں نے پردے کا سرکنا محسوس کیا تو تمام نے اپنے چہرے حجرۂ انور کی طرف کر لئے۔‘‘
3۔ مولانا وحید الزماں حیدر آبادی ترجمہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
فهممنا أن نفتتن من الفرح برؤية النبی ﷺ.
وحيد الزمان، ترجمة البخاری، 1 : 349
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دیدار سے ہم کو اتنی خوشی ہوئی کہ ہم خوشی کے مارے نماز توڑنے ہی کو تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پردہ نیچے ڈال دیا۔‘‘
امام ترمذی رحمۃ اﷲ علیہ کی روایت کے یہ الفاظ ہیں :
فکاد الناس ان يضطربوا فأشار الناس ان اثبتوا.
ترمذی، الشمائل المحمديه، 1 : 327، رقم : 386
’’قریب تھا کہ لوگوں میں اضطراب پیدا ہو جاتا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اشارہ فرمایا کہ اپنی اپنی جگہ کھڑے رہو۔‘‘
شیخ ابراہیم بیجوری رحمۃ اﷲ علیہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اضطراب کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
فقرب الناس أن يتحرکوا من کمال فرحهم لظنهم شفاءه صلی الله عليه وآله وسلم حتی أرادوا أن يقطعوا الصلوة لإعتقادهم خروجه صلی الله عليه وآله وسلم ليصلی بهم، و أرادوا أن يخلوا له الطريق إلی المحراب و هاج بعضهم فی بعض من شدة الفرح.
بيجوری، المواهب اللدنيه علی الشمائل المحمديه : 194
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شفایاب ہونے کی خوشی کے خیال سے متحرک ہونے کے قریب تھے حتیٰ کہ انہوں نے نماز توڑنے کا ارادہ کر لیا اور سمجھے کہ شاید ہمارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیں نماز پڑھانے کے لیے باہر تشریف لا رہے ہیں، لہٰذا انہوں نے محراب تک کا راستہ خالی کرنے کا ارادہ کیا جبکہ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنھم خوشی کی وجہ سے کودنے لگے۔
امام بخاری نے باب الالتفات فی الصلوۃ کے تحت اور دیگر محدثین کرام نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی یہ والہانہ کیفیت حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ان الفاظ میں بیان کی ہے :
و هَمَّ المسلمون أن يفتتنوا فی صلوٰتهم، فأشار إليهم : أتموا صلاتکم.
بخاری، الصحيح، 1 : 262، کتاب صفة الصلاة، رقم : 2721
ابن حبان، الصحيح، 14 : 587، رقم : 36620
ابن خزيمه، الصحيح، 3 : 75، رقم : 41650
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 5217
طبری، التاريخ، 2 : 231
’’مسلمانوں نے نماز ترک کرنے کا ارادہ کر لیا تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں نماز کو پورا کرنے کا حکم دیا۔‘‘
اربابِ تاریخ و سیر لکھتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے مصر میں قحط سالی کے دور میں حکومت کے جمع شدہ ذخیرے سے قحط زدہ عوام میں غلے کی تقسیم کا نظام قائم فرمایا۔ ابھی آئندہ فصل کے آنے میں تین ماہ باقی تھے کہ غلے کا سٹاک ختم ہو گیا۔ اس پر حضرت یوسف علیہ السلام کو یہ فکر لاحق ہو گئی کہ افلاس زدہ لوگوں کو غلے کی فراہمی کیسے ہو گی۔ وہ اس فکر میں غلطاں تھے کہ اللہ رب العزت نے حضرت یوسف علیہ السلام کو بذریعہ جبرئیل علیہ السلام یہ پیغام دیا کہ اپنے چہرے کو بے نقاب کر دیجئے، اس طرح بھوکے لوگوں کی بھوک کا مداوا ہو جائے گا۔ روایات میں ہے کہ جو بھوکا شخص حضرت یوسف علیہ السلام کا دیدار کر لیتا اس کی بھوک مٹ جاتی۔
شمائل الترمذی : 27، حاشيه : 3
قرآنِ حکیم نے زنانِ مصر کا ذکر کیا ہے کہ وہ کس طرح حسنِ یوسف علیہ السلام کی دید میں اتنا محو اور بے خود ہو گئیں کہ انہیں اپنے ہاتھوں کی انگلیاں کٹ جانے کا احساس بھی نہ رہا ۔
یہ تو حسنِ یوسفی کی بات ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تو تمام انبیاء علیہم السلام کی صفات و کمالات کے جامع ہیں۔ اس لئے حسن و جمال کی بے خود کر دینے والی کیفیت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس میں اس درجہ موجود تھی کہ اسے حیطۂ بیان میں نہیں لایا جاسکتا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت بھوکوں کی بھوک رفع کرنے کا ذریعہ بنتی تھی، چہرۂ اقدس کے دیدار کے بعد بھوک اور پیاس کا احساس کہاں رہتا؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایسے وقت کا شانۂ نبوت سے باہر تشریف لائے کہ :
لا يخرج فيها و لا يلقاه فيها أحد.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پہلے کبھی اس وقت باہر تشریف نہ لاتے تھے اور نہ ہی کوئی آپ سے ملاقات کرتا۔‘‘
پھر یوں ہوا کہ سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بھی بھوک سے مغلوب باہر تشریف لے آئے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے رفیقِ غار سے پوچھا :
ما جاء بک يا أبا بکر؟
اے ابوبکر! تم اس وقت کیسے آئے ہو؟
اس وفا شعار عجزو نیاز کے پیکر نے ازراہِ مروّت عرض کیا :
خرجت ألقی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم وأنظر فی وجهه و التسليم عليه.
’’یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف آپ کی ملاقات، چہرہ انور کی زیارت اور سلام عرض کرنے کی غرض سے حاضر ہوا ہوں۔‘‘
تھوڑی دیر بعد ہی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ بھی اسی راستے پر چلتے ہوئے اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوگئے۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا :
ما جاء بک يا عمر؟
’’اے عمر! تمہیں کون سی ضرورت اس وقت یہاں لائی؟‘‘
شمعِ رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پروانے نے عرض کی :
الجوع، یا رسول اﷲ!
’’یا رسول اللہ! بھوک کی وجہ سے حاضر ہوا ہوں۔‘‘
والی کون و مکان رحمتِ کل جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
و أنا قد وجدت بعض ذلک.
ترمذی، الجامع الصحيح، 4 : 583، ابواب الزهد،
رقم : 22369
ترمذی، الشمائل المحمديه، 1 : 312، رقم : 3373
حاکم، المستدرک، 4 : 145، 47178
طبری، الرياض النضره، 1 : 340
’’اور مجھے بھی کچھ ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے۔‘‘
تو ہادیء برحق نبی مکرم حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے دونوں جاں نثاروں کے ہمراہ اپنے ایک صحابی حضرت ابو الہیثم بن تیہان انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر تشریف لے گئے۔ ابو الہیثم رضی اللہ عنہ کا شمار متمول انصار میں ہوتا تھا۔ آپ کھجوروں کے ایک باغ کے مالک تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آمد کے وقت صاحبِ خانہ گھر پر موجود نہ تھے، اُن کی اہلیہ محترمہ نے بتایا کہ وہ ہمارے لئے میٹھا پانی لینے گئے ہوئے ہیں۔ اتنے میں ابوالہیثم رضی اللہ عنہ بھی آ گئے۔ جب دیکھا کہ آج سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے غریب خانے کو اعزاز بخشا ہے تو ان کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی، وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے دو صحابہ رضی اللہ عنھم کے ساتھ اپنے گھر میں دیکھ کر پھولے نہیں سما رہے تھے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اپنی خوشی کا اظہار کیسے کریں، کیسے بارگاہِ خداوندی میں سجدۂ شکر بجا لائیں؟ ایک عجیب سی کیف و سرور اور انبساط کی لہر نے اہلِ خانہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا اور گھر کے در و دیوار بھی خوشی سے جھوم اٹھے تھے۔ حضرت ابوالہیثم رضی اللہ عنہ پر جو کیفیت طاری ہوئی اس کے بارے میں حدیث کے الفاظ یہ ہیں :
يلتزم النبی صلی الله عليه وآله وسلم و يفديه بأبيه و أمه.
ترمذی، الجامع الصحيح، 4 : 583، ابواب الزهد، رقم : 22369
ترمذی، الشمائل المحمديه، 1 : 312، رقم : 3373
حاکم، المستدرک، 4 : 145، رقم : 47178
طبری، الرياض النضره، 1 : 340
’’(حضرت ابوالہیثم رضی اللہ عنہ آتے ہی) حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لپٹ گئے اور کہتے جاتے میرے ماں باپ آپ صلی اﷲ عليک وسلم پر قرباں ہوں۔‘‘
بعد ازاں حضرت ابو الہیشم رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ کے ان دو صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو اپنے باغ میں لے گئے، تازہ کھجوریں پیش کیں اور کھانا کھلایا۔
شمائلِ ترمذی کے حاشیہ پر مذکورہ حدیث کے حوالے سے یہ عبارت درج ہے :
لعل عمر رضی الله عنه جاء ليتسلي بالنظر في وجه رسول اﷲ ﷺ کما کان يصنع أهل مصر في زمن يوسف عليه السلام، و لعل هذا المعني کان مقصود أبي بکر رضی الله عنه و قد أدي بالطف وجه کأنه خرج رسول اﷲ ﷺ لما ظهر عليه بنور النبوة أن أبابکر طالب ملاقاته، و خرج أبوبکر لما ظهر عليه بنور الولاية أنه ﷺ خرج في هذا الوقت لانجاح مطلوبه.
شمائل الترمذي : 27، حاشيه : 3
’’حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس لئے تشریف لائے تھے کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے اپنی بھوک مٹانا چاہتے تھے، جس طرح مصر والے حضرت یوسف علیہ السلام کے حسن سے اپنی بھوک کو مٹا لیا کرتے تھے اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے عمل میں بھی یہی راز مضمر تھا۔ مگر رفیقِ سفر نے اپنا مدعا نہایت ہی لطیف انداز میں بیان کیا اور یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پُر نورِ نبوت کی وجہ سے آشکار ہو چکا تھا کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ طالبِ ملاقات ہیں اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پر نورِ ولایت کی وجہ سے واضح ہو چکا تھا کہ اس گھڑی آقائے مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیدار انہیں ضرور نصیب ہو گا۔‘‘
ایک صحابی کا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھنا
کائنات کا سارا حسن و جمال نبی آخر الزماں حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور میں سمٹ آیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کی زیارت سے مشرف ہونے والا ہر شخص جمالِ مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں اس طرح کھو جاتا کہ کسی کو آنکھ جھپکنے کا یارا بھی نہ ہوتا اور نگاہیں اٹھی کی اٹھی رہ جاتیں۔
اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنھا روایت کرتی ہیں :
کان رجل عند النبی ﷺ ينظر إليه لا يطرف.
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں ایک شخص آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (کے چہرۂ انور) کو (اِس طرح ٹکٹکی باندھ کر) دیکھتا رہتا کہ (وہ اپنی آنکھ تک نہ جھپکتا)۔‘‘
حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اس جاں نثار صحابی کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا :
ما بالک؟
’’اِس( طرح دیکھنے) کا سبب کیا ہے؟‘‘
اس عاشقِ رسول صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا :
بأبی و أمی! أتمتع من النظر إليک.
قاضی عياض، الشفاء، 2 : 2566
قسطلانی، المواهب اللدنيه، 2 : 94
’’میرے ماں باپ آپ پر قربان! آپ کے چہرۂ انور کی زیارت سے لطف اندوز ہو تا ہوں۔‘‘
اس روایت سے پتہ چلتا ہے کہ جاں نثاران مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر خودسپردگی کی ایک عجیب کیفیت طاری ہو جاتی اور وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حسن و جمال میں اس طرح کھو جاتے کہ دنیا کی ہر شے سے بھی بے نیاز ہو جاتے۔
مکہ معظمہ میں اسلام کا پہلا تعلیمی اور تبلیغی مرکز کوہِ صفا کے دامن میں واقع دارِارقم تھا، اسی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھیوں کو اسلام کی تعلیمات سے روشناس فرماتے۔ ابھی مسلمانوں کی تعداد 39 تک پہنچی تھی کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ کفار کے سامنے دعوتِ اسلام اعلانیہ پیش کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منع فرمانے کے باوجود انہوں نے اصرار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اجازت مرحمت فرما دی۔
و قام أبو بکر فی الناس خطيباً و رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم جالس، فکان أول خطيب دعا إلی اﷲ عزوجل وإلی رسوله صلی الله عليه وآله وسلم.
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 3 : 230
حلبی، السيرة الحلبيه، 1 : 3475
ديار بکری، تاريخ الخميس، 1 : 4294
طبری، الرياض النضره، 1 : 397
’’سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر خطبہ دینا شروع کیا جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی تشریف فرما تھے۔ پس آپ ہی وہ پہلے خطیب (داعی) تھے جنہوں نے (سب سے پہلے) اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف لوگوں کو بلایا۔‘‘
اسی بنا پر آپ کو اسلام کا ’’خطیب اوّل‘‘ کہا جاتا ہے۔ نتیجتاً کفار نے آپ رضی اللہ عنہ پر حملہ کر دیا اور آپ کو اس قدر زد و کوب کیا کہ آپ خون میں لت پت ہو گئے، انہوں نے اپنی طرف سے آپ کو جان سے مار دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی، جب انہوں نے محسوس کیا کہ شاید آپ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر چکی ہے تو اسی حالت میں چھوڑ کر چلے گئے۔ آپ کے خاندان کے لوگوں کو پتہ چلا تو وہ آپ کو اٹھا کر گھر لے گئے اور آپس میں مشورہ کے بعد فیصلہ کیا کہ ہم اس ظلم و تعدی کا ضرور بدلہ لیں گے لیکن ابھی آپ کے سانس اور جسم کا رشتہ برقرار تھا۔
آپ کے والدِ گرامی ابو قحافہ، والدہ اور آپ کا خاندان آپ کے ہوش میں آنے کے انتظار میں تھا، مگر جب ہوش آیا اور آنکھ کھولی تو آپ رضی اللہ عنہ کی زبانِ اقدس پر جاری ہونے والا پہلا جملہ یہ تھا :
ما فعل برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم؟
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟‘‘
تمام خاندان اس بات پر ناراض ہو کر چلا گیا کہ ہم تو اس کی فکر میں ہیں اور اسے کسی اور کی فکر لگی ہوئی ہے۔ آپ کی والدہ آپ کو کوئی شے کھانے یا پینے کے لئے اصرار سے کہتیں، لیکن اس عاشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہر مرتبہ یہی جواب ہوتا، کہ اس وقت تک کچھ کھاؤں گا نہ پیوں گا جب تک مجھے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خبر نہیں مل جاتی کہ وہ کس حال میں ہیں۔ لختِ جگر کی یہ حالتِ زار دیکھ کر آپ کی والدہ کہنے لگیں :
واﷲ! ما لی علم بصاحبک.
’’خدا کی قسم! مجھے آپ کے دوست کی خبر نہیں کہ وہ کیسے ہیں؟‘‘
آپ رضی اللہ عنہ نے والدہ سے کہا کہ حضرت اُمِ جمیل رضی اللہ عنہا بنت خطاب سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے پوچھ کر آؤ۔ آپ کی والدہ امِ جمیل رضی اللہ عنہا کے پاس گئیں اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کا ماجرا بیان کیا۔ چونکہ انہیں ابھی اپنا اسلام خفیہ رکھنے کا حکم تھا اس لئے انہوں نے کہا کہ میں ابوبکر رضی اللہ عنہ اور ان کے دوست محمد بن عبداللہ کو نہیں جانتی۔ ہاں اگر تو چاہتی ہے تو میں تیرے ساتھ تیرے بیٹے کے پاس چلتی ہوں۔ حضرت اُمِ جمیل رضی اللہ عنہا آپ کی والدہ کے ہمراہ جب سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس آئیں تو ان کی حالت دیکھ کر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکیں اور کہنے لگیں :
إنی لأرجو أن ينتقم اﷲ لک.
’’مجھے اُمید ہے کہ اللہ تعالیٰ ضرور اُن سے تمہارا بدلہ لے گا۔‘‘
آپ نے فرمایا! ان باتوں کو چھوڑو مجھے صرف یہ بتاؤ :
ما فعل برسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم؟
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کیا حال ہے؟‘‘
انہوں نے اشارہ کیا کہ آپ کی والدہ سن رہی ہیں۔ آپ نے فرمایا : فکر نہ کرو بلکہ بیان کرو۔ انہوں نے عرض کیا :
سالم صالح.
’’(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) محفوظ اور خیریت سے ہیں۔‘‘
پوچھا :
فأين هو؟
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (اس وقت) کہاں ہیں؟‘‘
انہوں نے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دارِ ارقم میں ہی تشریف فرما ہیں۔ آپ نے یہ سن کر فرمایا :
ان لا أذوق طعاما أو شرابا أو آتی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم.
ابن کثير، البدايه والنهايه، (السيرة)، 3 : 230
حلبی، السيرة الحلبيه، 1 : 3476
طبری، الرياض النضره، 1 : 4398
ديار بکری، تاريخ الخميس، 1 : 294
’’میں اس وقت تک کھاؤں گا نہ کچھ پیوں گا جب تک کہ میں اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ان آنکھوں سے بخیریت نہ دیکھ لوں۔‘‘
شمعِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس پروانے کو سہارا دے کر دارِ ارقم لایا گیا، جب حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس عاشقِ زار کو اپنی جانب آتے ہوئے دیکھا تو آگے بڑھ کر تھام لیا اور اپنے عاشقِ زار پر جھک کر اس کے بوسے لینا شروع کر دیئے۔ تمام مسلمان بھی آپ کی طرف لپکے۔ اپنے یارِ غمگسار کو زخمی حالت میں دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر عجیب رقت طاری ہو گئی۔
اُنہوں نے عرض کیا کہ میری والدہ حاضر خدمت ہیں، ان کے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں دولتِ ایمان سے نوازے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی اور وہ دولتِ ایمان سے شرف یاب ہوگئیں۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کس طرح چہرہ نبوت کے دیدارِ فرحت آثار سے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان کیا کرتے تھے اور ان کے نزدیک پسند و دلبستگی کا کیا معیار تھا، اس کا اندازہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے یارِ غار سے متعلق درج ذیل روایت سے بخوبی ہو جائے گا :
ایک مرتبہ حضور رسالتمآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے تمہاری دنیا میں تین چیزیں پسند ہیں : خوشبو، نیک خاتون اور نماز جو میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔
سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ نے سنتے ہی عرض کیا : یا رسول اللہ! مجھے بھی تین ہی چیزیں پسند ہیں :
النظر إلی وجه رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، و إنفاق مالی علی رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم، وأن يکون ابنتی تحت رسول اﷲ.
ابن حجر، منبهات : 21، 22
’’آپ صلی اﷲ عليک وسلم کے چہرۂ اقدس کو تکتے رہنا، اللہ کا عطا کردہ مال آپ صلی اﷲ عليک وسلم کے قدموں پر نچھاور کرنا اور میری بیٹی کا آپ صلی اﷲ عليک وسلم کے عقد میں آنا۔‘‘
جب انسان خلوصِ نیت سے اللہ تعالیٰ سے نیک خواہش کا اظہار کرتا ہے تو وہ ذات اپنی شانِ کریمانہ کے مطابق اُسے ضرور نوازتی ہے۔ اس اصول کے تحت سیدنا صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ کی تینوں خواہشیں اللہ تعالیٰ نے پوری فرما دیں۔
آپ کی صاحبزادی حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کو حضور رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے نکاح میں قبول فرما لیا۔ آپ کو سفر و حضر میں رفاقتِ مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نصیب رہی یہاں تک کہ غارِ ثور کی تنہائی میں آپ کے سوا کوئی اور زیارت سے مشرف ہونے والا نہ تھا، اور مزار میں بھی أوصلوا الحبيب إلی الحبيب کے ذریعے اپنی دائمی رفاقت عطا فرما دی۔ اسی طرح مالی قربانی اس طرح فراوانی کے ساتھ نصیب ہوئی کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ما نفعنی مال أحد قط ما نفعنی مال أبی بکر.
ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 609، ابواب المناقب، رقم : 23661
ابن ماجه، السنن، 1 : 36، مقدمه، باب فضائل الصحابه، رقم : 394
احمد بن حنبل، المسند، 2 : 4253
ابن حبان، الصحيح، 15 : 273، رقم : 56858
ابن ابی شيبه، المصنف، 6 : 348، رقم : 631927
طحاوی، شرح معانی الآثار، 4 : 7158
هيثمی، موارد الظمان، 1 : 532، رقم : 86621
قرطبی، تفسيرالجامع لاحکام القرآن، 3 : 9418
خطيب بغدادی، تاریخ بغداد، 10 : 363، رقم : 105525
طبری، الرياض النضره، 2 : 16، رقم : 11116412
احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 65، رقم : 1225
سيوطی، تاريخ الخلفاء : 30
’’مجھے جس قدر نفع ابوبکر رضی اللہ عنہ کے مال نے دیا ہے اتنا کسی اور کے مال نے نہیں دیا۔‘‘
دوسرے مقام پر مال کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحبت کا ذکر بھی فرمایا :
إن (مِن) أَمَّن الناس علیّ فی صحبته و ماله أبو بکر.
بخاری، الصحيح، 1 : 177، کتاب المساجد، رقم : 2454
ترمذی، الجامع الصحيح، 5 : 608، ابواب المناقب، رقم : 33660
نسائی، السنن الکبریٰ، 5 : 35، رقم : 48102
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 518
ابن حبان، الصحيح، 14 : 558، رقم : 66594
ابن ابی شيبه، المصنف، 6 : 348، رقم : 731926
نسائی، فضائل الصحابه، 1 : 3، رقم : 82
احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 61، رقم : 921
ابن سعد، الطبقات الکبریٰ، 2 : 10227
طبری، الرياض النضره، 2 : 12، رقم : 109405
’’لوگوں میں سے مجھے اپنی رفاقت دینے اور اپنا مال خرچ کرنے کے لحاظ سے مجھ پر سب سے زیادہ احسان کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں۔‘‘
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی والہانہ محبت کی کیفیت بیان کرتے ہوئے سیدہ عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ میرے والد گرامی سارا دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر رہتے، جب عشاء کی نماز سے فارغ ہو کر گھر آتے تو جدائی کے یہ چند لمحے کاٹنا بھی اُن کے لئے دشوار ہو جاتا۔ وہ ساری ساری رات ماہی بے آب کی طرح بیتاب رہتے، ہجر و فراق کی وجہ سے ان کے جگرِ سوختہ سے اس طرح آہ نکلتی جیسے کوئی چیز جل رہی ہو اور یہ کیفیت اس وقت تک رہتی جب تک وہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو دیکھ نہ لیتے۔
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے وصال کا سبب بھی ہجر و فراقِ رسول ہی بنا۔ آپ کا جسم حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال کے صدمے سے نہایت ہی لاغر ہو گیا تھا، حتی کہ اسی صدمے سے آپ رضی اللہ عنہ کا وصال ہو گیا۔
علامہ اقبال رحمۃ اﷲ علیہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبوبیت اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہجر کے سوز و گداز کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
قوتِ قلب و جگر گردد نبی
از خدا محبوب تر گردد نبی
ذرۂ عشقِ نبی اَز حق طلب
سوزِ صدیق و علی اَز حق طلب
(حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ گرامی دل و جگر کی تقویت کا باعث بنتی ہے اور شدت اختیار کرکے خدا سے بھی زیادہ محبوب بن جاتی ہے۔ تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق کا ذرہ حق تعالیٰ سے طلب کر اور وہ تڑپ مانگ جو حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ اور مولا علی شیرِ خدا رضی اللہ عنہ میں تھی۔)
حضرت زید بن اسلم رضی اللہ عنہ سے حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے بارے میں مروی ہے : ایک رات آپ عوام کی خدمت کے لیے رات کو نکلے تو آپ نے ایک گھر میں دیکھا کہ چراغ جل رہا ہے اور ایک بوڑھی خاتون اُون کاتتے ہوئے ہجر و فراق میں ڈوبے ہوئے یہ اشعار پڑھ رہی ہے :
علی محمد صلاة الأبرار
صلی عليه الطيبون الأخيار
قد کنتَ قواماً بکا بالأسحار
يا ليت شعری والمنايا أطوار
هل تجمعنی و حبيبی الدار
قاضی عياض، الشفاء، 2 : 2569
ابن مبارک، الزهد، 1 : 363
’’محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر اللہ کے تمام ماننے والوں کی طرف سے سلام ہو اور تمام متقین کی طرف سے بھی۔ آپ راتوں کو اللہ کی یاد میں کثیر قیام کرنے والے اور سحری کے وقت آنسو بہانے والے تھے۔ ہائے افسوس! اسبابِ موت متعدد ہیں، کاش مجھے یقین ہوجائے کہ روزِ قیامت مجھے آقاں کا قرب نصیب ہوسکے گا۔‘‘
یہ اشعار سن کر حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کو بے اختیار اپنے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یاد آ گئی اور وہ زار و قطار رو پڑے۔ اہل سیر آگے لکھتے ہیں :
طرق عليها الباب، فقالت : من هذا؟ فقال : عمر بن الخطاب، فقالت : ما لي ولعمر في هذه الساعة؟ فقال : افتحي، يرحمک اﷲ فلا بأس عليک، ففتحت له، فدخل عليها، وقال : ردي الکلمات التي قلتيها آنفا، فردتها، فقال : ادخليني معکما و قولي و عمر فاغفرله يا غفار.
خفاجي، نسيم الرياض، 3 : 355
’’انہوں نے دروازے پر دستک دی۔ خاتون نے پوچھا : کون؟ آپ نے کہا : عمر بن الخطاب۔ خاتون نے کہا : رات کے ان اوقات میں عمر کو یہاں کیا کام؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اللہ تجھ پر رحم فرمائے، تو دروازہ کھول تجھے کوئی پریشانی نہ ہوگی۔ اس نے دروازہ کھولا : آپ اندر داخل ہوگئے اور کہا کہ جو اشعار تو ابھی پڑھ رہی تھی انہیں دوبارہ پڑھ۔ اس نے جب دوبارہ اشعار پڑھے تو آپ کہنے لگے کہ اس مسعود و مبارک اجتماع میں مجھے بھی اپنے ساتھ شامل کرلے اور یہ کہہ کہ ہم دونوں کو آخرت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھ نصیب ہو اور اے معاف کرنے والے عمر کو معاف کر دے۔‘‘
بقول قاضی سلیمان منصور پوری رحمۃ اﷲ علیہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ اس کے بعد چند دن تک صاحبِ فراش رہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ کی عیادت کے لئے آتے رہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے نزدیک یہی ایمان تھا اور یہی دین کہ وہ کسی بھی شئے سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت کے بغیر اپنا تعلق قائم نہیں کرتے تھے۔ ایک مرتبہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ حج پر آئے، طواف کیا اور حجرِاسود کے سامنے آکر کھڑے ہوگئے۔ اس سے فرمانے لگے :
إنی أعلم أنک حجر لا تضر و لا تنفع، ولو لا أنی رأيت النبی ﷺ يقبلک ما قبلتک.
بخاری، الصحيح، 2 : 579، کتاب الحج، رقم : 21520
مسلم، الصحيح، 2 : 925، کتاب الحج، رقم : 31270
ابن ماجه، السنن، 2 : 981، کتاب المناسک، رقم : 43943
نسائی، السنن الکبریٰ، 2 : 400، رقم : 53918
احمد بن حنبل، المسند، 1 : 646
بيهقی، السنن الکبریٰ، 5 : 82، رقم : 79059
ابن ابی شيبه، المصنف، 3 : 342، رقم : 814753
عبدالرزاق، المصنف، 5 : 72، رقم : 99035
طبرانی، المعجم الاوسط، 3 : 243، رقم : 103042
بزار، المسند، 1 : 478، رقم : 11341
حميدی، المسند، 1 : 7، رقم : 129
طبرانی، مسند الشامیین، 2 : 395، رقم : 131567
ابويعلی، المسند، 1 : 169، رقم : 14189
بيهقی، شعب الايمان، 3 : 450، رقم : 154038
ابن عبد البر، التمهيد، 22 : 16256
قاضی عیاض، الشفاء، 2 : 17558
زرقانی، شرح علی الموطا، 2 : 408
’’میں جانتا ہوں بیشک تو ایک پتھر ہے جو نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان۔ اگر میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے کبھی بوسہ نہ دیتا۔‘‘
یہ کلمات ادا کرنے کے بعد آپ رضی اللہ عنہ نے حجرِ اسود کو بوسہ دیا۔
حاکم، المستدرک، 1 : 628، رقم : 1682
صدیقِ باوفا رضی اللہ عنہ کو سفرِ ہجرت میں رفاقتِ سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اعزاز حاصل ہوا، جبکہ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ مرادِ رسول ہونے کے شرفِ لازوال سے مشرف ہوئے۔ ان جلیل القدر صحابہ کو صحابہ رضی اللہ عنھم کی عظیم جماعت میں کئی دیگر حوالوں سے بھی خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
أن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم کان يخرج علي أصحابه من المهاجرين و الأنصار، و هم جلوس و فيهم أبوبکر و عمر، فلا يرفع إليه أحد منهم بصره إلا أبوبکر و عمر، فإنهما کانا ينظران إليه و ينظر إليهما و يتبسمان إليه و يتبسم إليهما.
ترمذي، الجامع الصحيح، 5 : 612، ابواب المناقب، رقم : 23668
احمد بن حنبل، المسند، 3 : 3150
طيالسي، المسند، 1 : 275، رقم : 42064
عبد بن حميد، المسند، 1 : 388، رقم : 51298
ابو يعلي، المسند، 1 : 116، رقم : 63378
احمد بن حنبل، فضائل الصحابه، 1 : 212، رقم : 7339
طبري، الرياض النضره، 1 : 338، رقم : 209
’’حضور علیہ الصلوۃ والسلام اپنے مہاجر اور انصار صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے جھرمٹ میں تشریف فرما ہوتے اور حضرت ابوبکر و عمر رضی اﷲ عنہما بھی ان میں ہوتے تو کوئی صحابی بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف نگاہ اٹھا کر نہ دیکھتا، البتہ ابوبکر صدیق اور فاروق اعظم رضی اللّٰہ عنھما حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ انور کو مسلسل دیکھتے رہتے اور سرکار ان کو دیکھتے، یہ دونوں حضرات رضی اﷲ عنھما رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر مسکراتے اور خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان دونوں کو دیکھ کر تبسم فرماتے۔‘‘
عشاقِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا جو منفرد اعزاز عطا ہوا اس کا مظاہرہ صلحِ حدیبیہ کے موقع پر دیکھنے میں آیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنا سفیر بنا کر مکہ معظمہ بھیجا کہ کفار و مشرکین سے مذاکرات کریں۔ کفار نے پابندی لگا دی تھی کہ اس سال حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو مکہ میں داخل نہیں ہونے دیں گے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سفیرِ رسول بن کر مذاکرات کے لئے حرمِ کعبہ پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ اس سال آپ لوگ حج نہیں کر سکتے، تاہم کفارِ مکہ نے بزعم خویش رواداری برتتے ہوئے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ چونکہ تم آگئے ہو، اس لئے حاضری کے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے اگر چاہو تو ہم تمہیں طواف کی اجازت دیتے ہیں لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے کفار کی اس پیشکش کو بڑی شان بے نیازی سے ٹھکرا دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بغیر طواف کرنا انہیں گوارا نہ ہوا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے بغیر لگی لپٹی رکھے کہا :
ما کنتُ لأطوف به حتی يطوف به رسول اﷲ ﷺ.
بيهقي، السنن الکبري، 9 : 2221
ابن هشام، السيرة النبويه، 4 : 3282
طبري، التاريخ، 2 : 4121
قاضي عياض، الشفاء، 2 : 5594
ابن کثير، البدايه والنهايه (السيرة)، 4 : 6167
حلبي، السيرة الحلبيه، 2 : 7701
ابن حبان، الثقات، 1 : 8299
طبري، تفسير، 26 : 986
ابن کثير، تفسير، 4 : 187
’’میں اس وقت تک طوافِ کعبہ نہیں کروں گا جب تک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طواف نہ کرلیں۔‘‘
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے اس عمل سے دشمنانِ اسلام کو جتلا دیا کہ ہم کعبہ کو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کہنے پر کعبہ مانتے ہیں اور اس کا طواف بھی اس لئے کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس کا طواف کرتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ نے کعبے سے اپنی جذباتی وابستگی اور عقیدت کو اہمیت نہ دی حالانکہ اس کے دیدار کے لئے وہ مدت سے ترس رہے تھے اور ہجرت کے چھ سات سال بعد انہیں یہ پہلا موقع مل رہا تھا۔ اگر وہ طواف کر بھی لیتے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اس سے منع نہیں کیا تھا لیکن ان کے نزدیک سب سے زیادہ اہمیت نسبتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تھی جس کے بغیر وہ کسی عمل کو کوئی وقعت دینے کے لئے تیار نہ تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ یہی نسبت ان کے ایمان کی بنیاد تھی۔
حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ عنہ کا آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تعلقِ عشقی خودسپردگی اور وارفتگی کی حد تک پہنچا ہوا تھا۔ کتبِ احادیث میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ آپ رضی اللہ عنہ ایک دفعہ مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر گوشت کا لقمہ تناول کرنے لگے۔ لوگوں نے پوچھا : حضرت! یہ دروازہ گزرگاہِ عام ہے، یہاں بیٹھ کر کھانا چہ معنی دارد؟ دیکھنے والے کیا سمجھیں گے۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جواب میں فرمانے لگے : مجھے اور تو کچھ خبر نہیں، بس اتنا پتہ ہے کہ ایک بار میرے آقا و مولا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہاں بیٹھ کر کھانا تناول فرمایا تھا، میں تو اس سنت پر عمل کر رہا ہوں اور اس وقت حضورِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہی ادا میرے پیشِ نظر ہے۔
ایک دفعہ وضو کے بعد بغیر کسی وجہ کے مسکرانے لگے۔ کسی نے پوچھا : آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں جبکہ کسی سے گفتگو اور مکالمہ بھی نہیں۔ فرمانے لگے : مجھے کسی سے کیا غرض! میں نے تو ایک بار حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اسی طرح وضو کرنے کے بعد مسکراتے دیکھا تھا، میں تو محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اسی ادا کو دہرا رہا ہوں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے :
مجھے کیا خبر تھی رکوع کی، مجھے ہوش کب تھا سجود کا
ترے نقشِ پاکی تلاش تھی کہ میں جھک رہا تھا نماز میں
اس تعلقِ عشقی کا اظہار تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی زندگیوں میں جھلکتا تھا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved