وطنِ عزیز میں اس ظالمانہ، کرپٹ اور استحصالی نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے اور عظیم عوامی، سماجی اور عادلانہ نظام کے قیام پر مشتمل انقلاب کا سویرا طلوع کرنے کے لئے اس جلسہ میں آنے والے عظیم کارکنو! میرے بیٹو، بہنو، اور کاروانِ انقلاب کے عظیم سپاہیو! میں آپ سب کو 23 دسمبر سے اب تک کی جانے والی عدیم المثال جد و جہد میں جانی و مالی قربانیوں اور عظیم انقلابی اقدام پر خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ ہم ان شاء اللہ منزل پر پہنچے گے اور اللہ کے فضل سے ہماری منزل ہرگز ہرگز دور نہیں۔
علامہ محمد اقبال نے مسلمانانِ ہند کی قیادت کے لئے لندن میں موجود محمد علی جناح کا انتخاب کیا اور بذریعہ خط اُن سے برصغیر کے مسلمانوں کی راہنمائی کے لئے ہندوستان تشریف لانے کی درخواست کی۔ علامہ محمد اقبال کی درخواست پر محمد علی جناح ہندوستان تشریف لائے اور برصغیر کے مسلمانوں کی خاطر جد و جہد شروع کی، بالآخر قائداعظم کے لقب سے ملقب ہوئے اور ایک طویل جد و جہدکے ذریعے ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے پاکستان کے نام سے ایک علیحدہ مملکت کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ اس وقت بھی ہندوستان کے بڑے بڑے سیاست دان، طاقتور لوگ اور لیڈر قائدِ اعظم کے نظریے سے متفق نہ تھے۔ اور مسلمانوں کے لیے ایک الگ مملکت بنانے کے نظریہ کے خلاف تھے۔ انہوں نے پوری قوت کے ساتھ قائد اعظم اور تحریک پاکستان کے خلاف انتہائی منفی مہم چلائی۔ قائد اعظم کو انگریزوں کا ایسا ایجنٹ کہا گیا جو برطانوی سامراج کے اشاروں پر ہندوستان کو توڑنے کے لئے سرگرم عمل تھا۔ قائدِ اعظم کے نظریے اور پاکستان کے مخالف مذہبی لوگوں نے قائدِ اعظم کو ’کافر اعظم‘ کہا اور ان کی کردار کشی میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑی۔ مگر اللہ تعالی کی مدد و نصرت سے پاکستان بن کر رہا اور آج ہم اللہ رب العزت کی مدد سے قائدِاعظم کے بنائے ہوئے پاکستان میں موجود ہیں۔
قیام پاکستان کے پسِ منظر میں قائد اعظم کے پیش نظر کیا نظریہ تھا؟ اس کی وضاحت پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے حلف اٹھاتے ہوئے قائد اعظم نے خود فرما دی۔ تاریخ وہ لمحات کبھی فراموش نہیں کر سکتی جب لارڈ ماونٹ بیٹن نے قائدِ اعظم سے پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کا حلف لینے کے بعد ملک پاکستان کے انتظامات کو چلانے کی غرض سے نرمی، اعتدال اور رواداری کے قیام کے لئے مغل بادشاہ اکبر کی مثال دی کہ آپ کو بھی اپنے ملک میں مغل بادشاہ کا نمونہ زندگی قائم کرنا ہو گا۔ اس موقع پر قائدِ اعظم نے اپنی فکر، نظریہ اور تصور کی وضاحت کرتے ہوئے جواب دیا کہ تم مجھے مغلیہ سلطنت کے بادشاہ اکبر کی مثال دیتے ہو حالانکہ میرے پاس اس سے بہت زیادہ بلند اور عظیم الشان مثال اپنے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صورت میں موجود ہے۔
قائد اعظم نے سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا آئیڈیل قرار دے کر واضح کر دیا کہ ہم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریاستِ مدینہ کی طرز پر اپنی مملکت خداداد پاکستان کا انتظام و انصرام چلائیں گے۔ جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انصار اور مہاجرین کو بھائی بھائی بنا دیا تا کہ ہر شخص ضرورت زندگی کے اپنے وسائل کو تقسیم کر کے آپس میں مل جل کر کھائے اور مسلم سوسائٹی میں کوئی بھوکا، پیاسا، بے گھر، بے روز گار اور پریشان حال نہ رہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ طیبہ کی ریاست کی ابتداء اس تصور سے کی کہ اس دھرتی سے بھوک، فقر وافلاس کا خاتمہ کردیا جائے اور وسائل کی اس طرح باہمی تقسیم کی جائے کہ معاشرہ میں فلاح و بہبود کا ایک تصور قائم ہو۔ مغربی دنیا نے پندرہ سو سال بعد آج ویلفیئر اسٹیٹ کا تصور دیا جب کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پندرہ سو سال پہلے ہی انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ویلفیئر اسٹیٹ ’مدینہ‘ قائم کر کے دنیا کے لئے لازوال مثال قائم کر دی۔ قائدِاعظم نے اس موقع پر میثاقِ مدینہ کی مثال بھی دی جس میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کو اور یہودیوں کو ملا کر ایک ریاست اور ایک قوم کا باشندہ قرار دیا اور فرمایا :
إِنَّهم أُمَّةٌ وَاحِدَةٌ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ.
(اس مدینہ کے دستور پر دستخط کرنے والے مسلمان ہوں یا یہودی) آج میں (محمد مصطفی) ان سب کو ایک قوم declare کرتا ہوں۔
1. ابن هشام، السيرة النبوية، 3 : 32
2. ابن کثير، البداية والنهاية، 3 : 224
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کو حقوق دیئے، مذہبی آزادی دی اور جان، مال اور عزت کا تحفظ دیا۔ اس طرح انسانی تاریخ میںپہلی جمہوری ریاست مدینہ کا قیام عمل میں آیا۔
علامہ محمد اقبال اور قائد اعظم کے خوابوںکی تعبیر سیرتِ محمدی پر اُستوار ہوتی ہے۔ تعلیمِ محمدی پر عمل کرتے ہوئے قائداعظم نے فروری 1948ء میں ایک انٹرویو میں کہا کہ یہ ملک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ریاستِ مدینہ کی پیروی میں ایسا نظام لائے گا جہاں مسلمان، ہندو، مسیح، پارسی ہر کوئی اپنے مذہب میں آزاد ہو گا، ہر ایک کے عقیدے کو تحفظ دیاجائے گا، جہاں کے لوگ انتہا پسند نہیں بلکہ معتدل ہوں گے اور پوری دنیا کے لیے امن کا پیغام دینے والے ہوں گے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ جس ملک میں ہم رہ رہے ہیں کیا یہ قائداعظم کا ملک ہے؟ کیا اسے قائدِاعظم نے اسی مقصد کے لیے بنایا تھا؟ قائداعظم کے نظریہ ا ور سوچ کے مطابق تو ایسا پاکستان چاہیے تھا جہاں رواداری، برادشت، تحمل، اعتدال، ترقی، جمہوریت اور عدل و انصاف ہوتا۔ قائدِ اعظم اور ہمارے بزرگوں کی قربانیاںبھی اسی عظیم مقصد کے لئے تھیں۔
2004ء میں میرے اسمبلی سے مستعفی ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس نظام کو اندر سے دیکھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس پارلیمنٹ سے عوام کو کچھ نہیں ملا اور نہ کچھ ملے گا۔ اس پارلیمنٹ جیسے ادارے، ملک کا یہ سیاسی نظام اور نام نہاد جمہوریت (so-called democracy) یا آمریت، سب کچھ مخصوص طبقات اور اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ کے لیے ہے۔ اس پورے نظام اور عمل (process) میں سے پاکستان کے اٹھارہ کروڑ عوام کلیتاً خارج ہیں۔ 2004ء میں مستعفی ہونے کے بعد سے 2012ء تک آٹھ سال اس ملک کی سیاسی، انتخابی اور حکومتی استحصالی نظام کے خلاف میں نے تحریک منہاج القرآن، پاکستان عوامی تحریک اور خواتین، نوجوانوں و طلبہ کی مختلف تنظیمات کے فورمز سے ملک میں تبدیلی اور انقلاب کے لیے عوامی سطح پر بیداری شعور کی ایک مہم شروع کی جو آٹھ سال تک چلتی رہی۔
آٹھ سال کی بھرپور جدوجہد کے بعد 23 دسمبر کو مینار پاکستان پر اس Message کو عامۃ الناس تک عام کرنے کے لیے اور تبدیلی و انقلاب کا یہ شعور اور استحصالی نظام کے خلاف بغاوت کا یہ پیغام پاکستان کے کونے کونے تک پہنچانے کے لیے پاکستان کی تاریخ کا سب سے بڑا، عظیم الشان اور فقید المثال اجتماع ہوا۔
ہم نے 23 دسمبر کو مینار پاکستان سے اس استحصالی، ظالمانہ اور غریب دشمن نظام کے خلاف آئینی و جمہوری جدوجہد سے پر امن احتجاج کا آغاز کیا۔ انتخابی اصلاحات کا ایجنڈا رکھا اور اوّل تا آخر آئین کو اس کی حقیقی روح کے ساتھ نافذ کرنے اور اس کی پاسداری کی بات کی۔ اس تصور کو آگے بڑھانے اور حکومتی حلقوں اور پارلیمنٹ پر پریشر بڑھانے اور عوام کی آواز کو مزید طاقت ور بنانے کے لئے ملک بھر سے لانگ مارچ اور 17 جنوری تک ایک عظیم الشان تاریخی دھرنا ہوا جس کی مثال نہ صرف پاکستان کی تاریخ میں بلکہ اقوام عالم کی تاریخ میں بھی نہیں ملتی کہ جمہوریت، امن، تبدیلی، عوام کے حقوق اور آئین کی بالا دستی کے لیے اتنا طویل، پُرامن اور عظیم دھرنا نہ کبھی ہوا اور نہ ہو سکے گا۔ صبر و استقامت کی لازوال داستان، امن کی لازوال مثال، نظم و نسق اور جمہوری طرزِ عمل کی لازوال مثال اور آئینی و قانونی رویوں کی ایسی لازوال مثال قائم کی کہ اس دھرنے نے پوری دنیا کے سامنے پاکستانی قوم کا امیج اور وقار بلند کر دیا۔
جس قوم کو دہشت گرد قوم تصور کیا جاتا تھا، انتہاء پسند قوم تصور کیا جاتا تھا، جہاں بات بات پر لڑائی جھگڑا، فساد، گولی اور لاشیں گرتی تھیں اس نے اقوام عالم کو دکھایا کہ پاکستانی قوم کا صرف یہی ایک رخ نہیں بلکہ دوسرا رخ یہ بھی ہے کہ دنیا میں پاکستانی قوم سے بڑھ کر کوئی قوم پرامن اور منظم نہیں۔ قوم نے بتا دیا کہ یہ وہ قوم ہے کہ اگر اس کو قیادت ملے تو ساری قوم کا کردار پانچ دن کے اندر بدل سکتا ہے۔ توڑ پھوڑ کرنے والی قوم کو قیادت ملے تو نظم و نسق کی عدیم المثال پیکر بن سکتی ہے۔ قرونِ اولیٰ کے مسلمان حضرات و خواتین، صالحین اور صالحات کے کامل تتبع کی مثال قائم کر دی اور طاقت کے باوجود تصادم کا راستہ اختیار نہ کیا اور صبر و تحمل کا بھرپور مظاہرہ کر کے انسانی عظمت کی نئی بلندیوں کا شعور اجاگر کیا۔
ہم چاہتے تو تصادم ہو سکتا تھا۔ جو چاہتے سب کچھ ہو جاتا مگر امن برباد ہوتا، جمہوریت ڈی ریل ہوتی۔ لہٰذا ہم نے جذبات پر قابو پانے اور امن کو کامیاب کرنے کی تاریخ میں ایک مثال قائم کی اور تاجدارِ کائنات سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کے مطابق مذاکرات اور dialogue کا راستہ اختیار کیا۔
ہم نے آئین و قانون کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا، عوام کے حقوق کے لیے اس نام نہاد جمہوریت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا اور امن کے طریق سے نہ ہٹے۔ مذاکرات کا راستہ اختیار کیا تاکہ امن خراب نہ ہو۔ مگر اس ملک کے مزدوروں، غریب ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں، تاجروں، کسانوں، ہاریوں، پسماندہ لوگوں اور عوام کے حقوق کے لیے اٹھنے والی ہماری آواز کو طاقتوروں نے دبانے کی کوشش کی، قانونی طریقے سے ہمارامؤقف نہ سنا گیا۔ اس لئے کہ قانون اور آئین بھی طاقت وروں کے قبضے میں ہے، نام نہاد جمہوریت بھی طاقت ور اشرافیہ کے قبضے میں ہے، انہوں نے عوام کے حقوق کو جمہوریت کے ذریعے بھی عوام تک پہنچنے کی اجازت نہ دی۔ ہم نے معاہدے پر پُر امن مارچ کا اختتام کیا۔ ساری سیاسی قوتیں ایک طرف تھیں، اپوزیشن کی ساری جماعتیں ایک طرف لاہور میں جمع تھیں، گویا کل سیاسی اور مذہبی قیادتیں عوام کے حقوق کے خلاف جمع ہو گئیں۔
سیاست نہیں - ریاست بچاؤ۔ میں آج بھی اسی نعرے پر قائم ہوں۔ ہم سیاست کا مطلقاً رد نہیں کرتے؛ جو سیاست پاکستان میں رائج ہے یہ سیاست نہیں، خباثت ہے۔ یہ سیاست نہیں غلاظت ہے۔ اس کو رد کرتے ہیں۔ قائد اعظم کی سیاست کو سلام کرتے ہیں۔ خلافتِ راشدہ اسلامی سیاست ہے۔ مدینہ کی ریاست کا قیام بھی مصطفوی سیاست ہے۔ سیاست دین کا حصہ ہے مگر جس سیاست کے ذریعے ریاست پاکستان بنی اور بچے گی وہ یہ سیاست نہیں جو آپ دیکھتے ہیں، جس کا نقشہ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔ اس سیاست اور اس نام نہاد جمہوریت میں ستھرا پن اور پاکیزگی نہیں۔ یہ کرپٹ کلچر ہے۔
افسوس کہ آج اس گھر کی چار دیواری تو (مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں) موجود ہے مگر اندرونی ڈھانچہ تباہ کر دیا گیا ہے۔ وہ گھر جو برصغیر کے بسنے والے مسلمانوں کے لیے اور یہاں کے غیر مسلم باسیوں کے لیے بنایاگیا تھا، آج عوام کو اپنے اسی گھر سے بے دخل کر کے جاگیرداروں، سرمایہ داروں، کرپٹ لیڈروں، طاقتور لوگوں اور استحصالی گروہوں نے اس پر قبضہ کر رکھا ہے۔
یہ ہماری بدنصیبی ہے کہ 65 سال سے نافذ ظالمانہ اور استحصالی نظام نے پوری قوم کا حال اور مستقبل تباہ کر دیا ہے۔ غاصب، ظالم، مفاد پرست اور طاقت ور طبقات اور اشرافیہ نے ایک گٹھ جوڑ کے ذریعے اس قوم کا حال اور مستقبل چھین لیا ہے۔ قوم سے وہ پاکستان چھین لیا ہے جو 1947ء میں قائداعظم نے مسلمانانِ ہند کی قیادت کرتے ہوئے انہیں عطا کیا تھا۔ آج پارلیمنٹ اقتدار، حکومت، جمہوریت، انتخاب، دولت، طاقت، سیاست اور قانون و انصاف تمام شعبوں پر اشرافیہ کا قبضہ ہے اور عوام کے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ ان سب شعبوں پر ملک کے چند طاقت ور افراد اور دولت مند طبقات کا قبضہ ہے اور ہر ایک شعبہ زندگی پر جبر، استحصال اور غریب دشمنی نے اپنا تسلط قائم کر رکھا ہے۔
ان سارے حالات میں ضرورت ہے کہ پاکستان کو دوبارہ سے قائدِاعظم کے اصولوں پر تعمیر کیا جائے۔ پاکستان کا بطور ریاست کردار دوبارہ متعین کیا جائے اور ہر شہری کو پاکستان کے اندر ایسی پرسکون زندگی ملے کہ وہ محب الوطن شہری بن سکے۔ اس قومیت کا تصور دوبارہ اجاگر کرنا ہوگا اور نفرتوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اخوت و وحدت کے پیغام کو عام کرنا ہو گا۔ قتل و غارت گری اور دہشت گردی کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں سیاسی نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ الیکشن کے نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی نظام میں شفافیتِ رائے کی ضرورت ہے۔ معاشی ترقی کے لیے کرپشن کو ختم کر کے ذہین قیادت لانے کی ضرورت ہے۔ نظام تعلیم اور دینی مدارس کے نصابِ تعلیم کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ وزارتوں کو کم کر کے عیاشیاں ختم کرنی ہوں گی۔ سرکاری افسروں، وزیروں، وزیر اعلیٰ، وزیر اعظم اور صدر کی روزانہ کی عیاشیوں کو جڑ سے کاٹنا ہو گا۔ ججز اور سرکاری عہدے داروں کا احتساب کرنا ہو گا اور اس ملک میں غریبوں کی زندگی کو آسان بنانا ہو گا۔
اِن تمام خواہشات کی تکمیل کے لئے ایک بہت بڑی انقلابی تبدیلی پر مبنی نظام کی ضرورت ہے۔ ہمارے مسائل کا حل کبھی بھی موجودہ نظام میں نہیں ہے۔ جس نظام کی پیداوار سرمایہ دار، جاگیردار اور یہ سیاسی لیڈرز ہیں، اس نظام کی بساط الٹنا ہو گی۔ اس انتخابی نظام اور اس سیاسی نظام کو الٹنا ہو گا اور انقلاب کے ذریعے اپنے مسائل کو حل کرنا ہو گا۔ عوامی مشکلات کا حل اس نظام میں نہیں ہے۔ جب تک یہ نظام قائم ہے اس وقت تک نہ اس ملک میں جمہوریت آ سکتی ہے، نہ عدل قائم ہو سکتا ہے اور نہ قانون کی حکمرانی ہو سکتی ہے۔
اس ملک کے نام نہاد لیڈروں کے رویے غیر جمہوری ہیں۔ یہاں تو اسمبلیوں کے آخری دن بھی ممبران اسمبلی کرپشن کے بہتے ہوئے دریا میں نہاتے رہے۔ سندھ اسمبلی کے ہر رکن نے آخری دن یکم جولائی 2011ء سے یعنی پونے دو سال پیچھے کی تاریخ سے اپنی تنخواہیں ساٹھ فیصد بڑھا لیں۔ اب وہ کروڑوں روپے بقایا جات لے گا، یہ جمہوریت ہے! ایک اسمبلی کے وزیر اعلیٰ نے ستر فیصد تنخواہ اور الاؤنس بڑھا کر مرتے دم تک تاحیات منظور کروا لیا۔ اب اس اسمبلی کا ہر وزیر اعلیٰ مرتے دم تک، ریٹائر ہو کر بھی ستر فیصد وہ مراعات حاصل کرے گا جو وزیر اعلیٰ کے پاس ہوتی ہیں۔ سات بل منظور کیے۔ سات بلوں میں ایک بل بھی عوام کو بنیادی ضروریات کی فراہمی کے لیے منظور نہیں کیا۔ چاروں صوبائی اسمبلیوں اور وفاقی اسمبلی، اِن پانچوں کو توفیق نہیں ہوئی کہ عوام کے حق میں ایک بل منظور کرتے۔ یہ جمہوریت ہے!
بلوچستان کی صوبائی اسمبلی کے ہر ایک MPA کو اس پورے عرصے میں سو کروڑ روپے سے لے کر ڈیڑھ سو کروڑ روپے تک development fund کے نام پر رشوت دی گئی ہے۔ کیا یہ جمہوریت ہے؟ عوام کہاں گئے؟ میں پوچھتا ہوں : اس جمہوریت میں عوام کا حصہ کہاں ہے؟ وہ ڈیڑھ ڈیڑھ ارب روپیہ جو ایک ایک MPA کی نذر کیا جا رہا ہے اگر وہ عوام کے اندھیرے گھروں کو روشنی دینے پر خرچ ہوتا، بھوکوں کو لقمہ کھلانے پر خرچ ہوتا، پریشان حالوں کی بیٹیوں کی شادی پہ خرچ ہوتا، انہیں چھوٹے گھر بنا کر دینے پر خرچ ہوتا، ان کے روزگار پر خرچ ہوتا تو ہم کہتے کہ یہ نظامِ جمہوریت ہے۔ مگریہ تو جمہوریت نہیں آمریت ہے اور غریب عوام کے لیے مجبوریت ہے۔
پورے پانچ سالوں میں پنجاب کی اٹھارہ وزارتیں صرف وزیر اعلیٰ کے پاس رہیں۔ جس ملک میں ایک سپاہی اور پٹواری بھی محکمہ خود بھرتی نہ کر سکے اس ملک میں کیا قانون، کیا آئین، کیا جمہوریت، کیا انصاف ہو گا؟ کیا اس سے زیادہ بدترین آمریت تاریخ میں کبھی ہو سکتی ہے؟ جنگلا بس کے پراجیکٹ، لیپ ٹاپ پروجیکٹ، سولر پینل کے پروجیکٹ سے کیا غریبوں کو روٹی ملی؟ یہ ارب ہا روپے غریبوں کی روٹی پہ لگائے ہوتے، یہ اربوں روپے بچا کر غریبوں کے لیے ادائیگی کرکے energy crisis ختم کیا ہوتا۔ لوگوں کو بجلی، گیس دی ہوتی، جوانوں کو روزگار دیا ہوتا، مہنگائی کنڑول کی ہوتی تو ہم کہتے کہ یہ نظام جمہوری نظام ہے۔ یہاں کے حکمرانوں اور لیڈروں کو تو عوام کے حقوق کا کوئی concept ہی نہیں ہے۔
اسی طرح وفاقی حکومت نے بھی اپنی حکومت کے آخری دن ہفتے کی چھٹی ہونے کے باوجود ترقیاتی اور صوابدیدی فنڈز نکلوانے کے لئے تاریخ میں پہلی بار حکم دیا کہ بینک کھلے رہیں گے۔ افسوس آخری دن اسمبلیاں ختم ہونے سے بھی پہلے بینکوں پہ ڈاکہ زنی کو روکا نہیں گیا۔ الیکشن کمیشن نے اجازت دی۔ الیکشن کمیشن کا فرض تھا کہ بینک بند کر دیتے، بینکوں کو حکم دیتے کہ پیسہ جاری نہ کیا جائے۔ حکومتیں جا رہی ہیں، کابینہ جا رہی ہے، اسمبلیاں جا رہی ہیں، بجائے خزانہ بچانے کے انہیں اتھارٹی لیٹر دے دیا، جائز کر دیا۔ جو لوگ قوم کا خزانہ آخری ایک دن بھی بچا نہ سکے وہ ملک کے انتخاب کو لوٹ مار سے کیسے بچائیں گے۔ یہ اس میں شریک ہیں، یہ فریق ہیں۔
جس ملک میں وزیر اعظم 8 ماہ میں 37 ارب روپے صرف اپنے حلقے میں خرچ کرے، اقتدار کے آخری دنوں میں گریڈ 22 کے اسلام آباد کے 100 افسروں کو ایک ایک کنال کے پلاٹ دیئے جائیں تو کیا اس نظام کو آـپ جمہوریت کا نام دیتے ہیں؟ یہ رویے غیر جمہوری ہیں، رویوں میں کرپشن ہے، رویوں میں بددیانتی ہے، رویوں میں شفافیت نہیں ہے، عوام کے حقوق غصب کرنے کی سفاکانہ کارروائی ہے، اداروں میں دھاندلی ہے۔ تمام سیاسی پارٹیز اپنے سیاسی مفادات کو دیکھتی ہیں۔
حکومت کے ساتھ لانگ مارچ کے اختتام پر کئے گئے معاہدے کے نفاذ، انتخابی اصلاحات کے نفاذ، انتخابات کو ہر قسم کی دھاندلی سے پاک کرنے کے عمل کے نفاذ، لٹیروں اور کرپٹ لوگوں کو انتخابی عمل سے نکالنے کے عمل کے آغاز، ستھرے نمائندے پارلیمنٹ تک پہنچانے کے عمل کے لیے، الغرض ان تمام امور کا انحصار اس بات پر تھا کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان خود آئینی اور قانونی ہو، شفاف طریقے سے بنا ہو، وہ سیاسی جماعتوں کے مفادات کا محافظ نہ ہو۔ ایماندار ہو، غیر جانبدار ہو، منصفانہ الیکشن کروائے اور سیاسی مک مکا کے تحت الیکشن میں دھاندلی کے راستے نہ کھولے۔ لہٰذا ضروری تھا کہ اس الیکشن کمیشن کا خاتمہ ہو اور نیا الیکشن کمیشن آئین پاکستان کے آرٹیکل 213 کے مطابق بنایا جائے کیونکہ موجودہ الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 213 کے مطابق نہیں بنا تھا۔ اس کے لئے ہم نے اس امید پر قانون کا دروازہ کھٹکھٹایا کہ وہاں سے عوام کو عدل و انصاف ملے گا مگر بدقسمتی کہ جس جگہ پر آئین کو شنوائی ملنا تھی وہاں بھی آئین کو نہ سنا گیا۔ جس جگہ قانون کی سماعت ہونا تھی وہاں قانون کی آواز کو سننا بھی گوارا نہ کیا گیا۔ جس جگہ عدل و انصاف کی بات ہونی تھی وہاں عدل و انصاف کی طرف جانا بھی گوارا نہ کیا گیا اور اصل موضوع پر آئے بغیر ایک غیر متعلقہ ایشو پر تین دن برباد کر کے غیر آئینی طریقے سے بنائے گئے الیکشن کمیشن کو تحفظ دیا اور اس تحفظ کے نتیجے میں انتخابات کو غیر شفاف، جانبدار اور کرپٹ بنانے کے تمام راستے ہموار کردیئے۔
الیکشن کمیشن آئین کے آرٹیکل 213 کی شرائط کے مطابق نہیں بنا۔ حکومتی نمائندے، آئینی و قانونی ماہرین سب اس بات کو تسلیم کرتے ہیں اور اقرار کرتے ہیں۔ حتیٰ کہ الیکشن کمیشن کے پانچوں ممبر بھی اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ ان کا تقرر غیر آئینی طریقے سے ہوا ہے اس لئے انہوں نے بھی کبھی میری بات کو نہیں جھٹلایا۔ مزید یہ کہ میری پٹیشن کو خارج کرنے والے سپریم کورٹ کے تینوں جج صاحبان بھی جانتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کے اراکین کی تقرری خلافِ آئین ہوئی ہے اسی لئے انہوںنے میری اصل پٹیشن پر توجہ دینے کی بجائے دہری شہریت کے معاملات کو بے جا موضوع بحث بنا دیا۔ الیکشن کمیشن کی تشکیل پر کہا گیا کہ پہلے آپ کہاں تھے؟ میں پوچھتا ہوں کہ ہر مسئلہ پر سو موٹو ایکشن (Suo moto action) لیا جاتا ہے، کوئی خبر اخبار میں چھپ جائے یا ٹی وی پر آ جائے تب بھی طلب کر لیا جاتا ہے۔ اس پر Suo moto action لے کر اپنے ضمیر کی آواز سے فیصلہ کیوں نہیں کیا کہ الیکشن کمیشن کے یہ نمائندے آئین کے آرٹیکل 213 کے مطابق مقرر ہوئے یا خلاف ورزی میں مقرر ہوئے۔
پارلیمنٹ آئین (Constitution) کا ایک ادارہ ہے، اس کا بھی احترام ہے، مگر اس کے ممبران کا رویہ غلط ہو گا تو ممبران پر تنقید قوم کا حق ہے۔ فوج بھی ادارہ ہے، بطور ادارہ اس کا احترام ہوگا، مگر کسی فوجی افسر کا ذاتی رویہ غلط ہو گا تو قوم کو تنقید کا حق ہے۔ عدلیہ بھی ایک آئینی ادارہ ہے، اس کا احترام ہے، مگر اس میں بیٹھنے والوں کا ذاتی رویہ غلط، آئین اور انصاف کے خلاف ہوگا، تو قوم کو ان کا محاسبہ کرنے کا بھی حق ہے۔
الیکشن کمیشن غیر آئینی تھا، غیر آئینی ہے، قانونی طور پر ناجائز تھا ناجائز ہے۔ اب ایسے الیکشن کمیشن سے جائز انتخابات کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟ جس ادارے کی اپنی تشکیل، اپنا وجود شفاف طریقے سے نہیں بنا وہ پاکستانی قوم کو شفاف الیکشن کیسے دے سکتا ہے؟
میں ایمانداری سے کہتا ہوں اور پوری قوم سن لے کہ ایسے الیکشن کمیشن اور ایسے نظام کے تحت ہونے والے الیکشن میں دھاندلی اور کرپشن ہو گی۔ انہی لوگوں کو پلٹا کر پھر حکومت میں لایا جائے گا۔ پھر انہی لٹیروں کا بازار لگے گا۔ میرے لفظوں کو یاد رکھنا، انہی چوروں لٹیروں کا بازار لگے گا۔ یہی کرپشن ہوگی، جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہوگا۔ یہ الیکشن اس قوم کے لیے بہت بڑا جرم ہوگا۔ ظلم ہونے جا رہا ہے، پاکستان عوامی تحریک اس جر م میں حصہ دار بننے کے لیے تیار نہیں ہے، ہم اسے مسترد کرتے ہیں۔
ہم نے عوام کے حقوق کے لیے ہر دروازہ کھٹکھٹایا۔ پھر ہمارے میڈیا ٹرائل بھی ہوئے، عدالتی ٹرائل بھی ہوئے، تہمتوں کے بازار بھی گرم ہوئے، الزامات کی بوچھاڑ بھی ہوئی، کردار کشی کی انتہاء کی گئی، میں ان تمام لوگوں کو معاف کرتا ہوں۔ میں نے اس سے پہلے آج کے دن تک نہ کسی کو گالی دی، نہ آج دوں گا، نہ آئندہ کبھی دوں گا۔ میں گالی کا کلچر ختم کروانے کے لیے جدوجہد کر رہا ہوں، کردار کشی کا سیاسی کلچر ختم کرنے کے لیے جدوجہد کر رہا ہوں۔ میں نے سیاست میں شرافت اور تہذیب لانے کے لیے جدوجہد شروع کی ہے۔ سیاست میں انسانی آداب و احترام اور حقوق پیدا کرنے کے لیے جدوجہد کی ہے۔ کسی نے اگر سو گالیاں دیں، جھوٹی تہمتیں لگائیں، تو ہم کسی کا جواب نہیں دیں گے۔ ہم چاہتے ہیں کہ خدارا! اس قوم کو تہذیب و ثقافت اور ادب و احترام کا اچھا کلچر سکھایا جائے۔
کبھی کہا گیا کہ ان کے پیچھے امریکہ ہے، کبھی کہا گیا فوج پشت پناہی کر رہی ہے۔ میں نے پہلے دن کہا تھا کہ ہمارے پیچھے سوائے اللہ کی ذات کے اور کوئی نہیں ہے، کل بھی اللہ تھا، آج بھی اللہ ہے اور آئندہ بھی اللہ ہو گا۔
یہ الزام بھی لگا کہ لانگ مارچ کے لئے فنڈ کہاں سے آئے؟ اللہ کی عزت کی قسم! اگر اس ملک کا نظام بدل جائے، ملک کی قیادت دیانتدار اور ایماندار لوگوں کے ہاتھ آجائے، دوہری شہریتوں والے پاکستانیوں کا اعتماد قائم ہو جائے کہ پاکستان بھیجا جانے والا پیسہ کرپشن کی نذر نہیں ہو گا بلکہ جس مقصد کے لیے جائے گا وہیں خرچ ہوگا۔ اگر ایماندار اور انقلابی قیادت کے ذریعے یہ اعتماد بحال ہو جائے تو تم چار جلسوں کے فنڈ پوچھتے ہو میں جواب میں کہتا ہوں کہ میں تمہیں ایک سال میں پاکستان کے بیرونی قرضے اتار کے دے سکتا ہوں۔ کیا World Bank! کیا IMF! کیا پیرس کلب! پاکستانی قوم بڑی غیرت مند قوم ہے، وہ خون کا قطرہ قطرہ پاکستان کے لیے بہا دیتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ ان کے اعتماد کو بحال کیا جائے۔
قرضے اتارنے کی یہ بات میں سوچ سمجھ کر کر رہا ہوں۔ میں نے 32 سال پاکستانی قوم کی بے لوث خدمت کی ہے۔ ہمارے کردار میں اور باقی بہت سے اوروں کے کردار میں فرق ہے۔ وہ لوگ جب بیرون ملک جاتے ہیں تو ان کے دن رات کے خرچے اور رات اور دن کے دھندے، ان کے کارکن اور پاکستانی قوم اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں۔ ایسے لیڈروں کے نام پر قوم پیسے کیوں لٹائے گی؟ جبکہ میں نے 32 سال میں اپنے کارکنان اور تنظیمات سے ایک پیسہ تحفے اور نذرانے کے نام پر نہیں بٹورا۔ میں نے 32 سالہ جدوجہد میں اپنی سینکڑوں کتب اور ہزاروں خطابات کی ایک روپے کی بھی رائلٹی اپنے اوپر حرام کر رکھی ہے، وہ بھی میری تحریک کے لئے ہمیشہ کے لیے وقف ہے۔
جب یہ کردار آپ اپنے کارکنوں کو، پاکستانی قوم کو دکھائیں گے تو خدا کی قسم! وہ اپنے منہ سے نوالہ بھی نکال کر پاکستان کا قرضہ اتارنے کے لیے قربان کر دیں گے۔ قیادت چاہئے، امانت چاہئے، دیانت چاہئے، کرپشن ختم ہو جائے اور لٹیرے لیڈروں کا راج ختم ہو جائے تو پاکستان آج بھی ملائشیا اور سنگاپور بن سکتا ہے۔
ہمیشہ حکومت، دولت، طاقت، سیاست ایک طرف ہوتی ہے اور غریب کے حقوق کی بات کرنے والا معاشرے میں تنہا ایک طرف ہوتا ہے مگر رب اس کو تنہا نہیں رہنے دیتا۔ لاکھوں کروڑوں عوام، مزدور، جوان اس کی طاقت بن جاتے ہیں۔ یہی جوان اور غریب ایک انقلاب لاتے ہیں جس کی طاقت سے حکومت، دولت اور سیاست سب بہہ جاتے ہیں۔ آج بھی تاریخ کا یہی سبق ملکِ پاکستان میں دہرایا جا رہا ہے۔ ملک کی سب سیاسی جماعتیں، سیاست، حکومت و اقتدار، دولت سب ایک طرف ہیں اور دوسری طرف غریب عوام ایک طرف۔ محروم، پسے ہوئے محنت کش نوجوان، بیٹے، بیٹیاں جنہیں مستقبل نظر نہیں آ رہا، جن کو مایوسیوں کے اندھیروں میں دھکیل دیا گیا ہے وہ میرے ساتھ ہیں۔ میں سیاست، حکومت، طاقت اور دولت کے بل بوتے پر سازشیں کرنے والوں، پروپیگنڈا کرنے والوں اور انقلابیت کا حوصلہ پست کرنے والے سازشیوں کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ میں اکیلا نہیں ہوں بلکہ پاکستان کے کروڑوں غریب مظلوم میرے دست و بازو ہیں، پاکستان کے محروم لوگ میرے ساتھ ہیں، ہم سب مل کر پاکستان کے حقوق کے لیے انشاء اللہ جنگ لڑیں گے۔ قائداعظم نے یہ ملک اشرافیہ کے لیے نہیں بنایا تھا۔ یہ ملک اللہ کی رحمت اور آقا e کے تصدق سے اٹھارہ کروڑ عوام کے لیے بنا تھا۔ ہم اس ملک کو اشرافیہ سے چھین کے دم لیں گے اور لٹا ہوا ملک غریبوں کو لوٹا کر دم لیں گے۔ ہم غریبوں کے روزگار، بیٹیوں کی عزت، مزدوروں کی خوشحالی اور عوام کے جملہ حقوق کی جنگ لڑیں گے۔
یاد رکھ لیں! دولت کا مزاج ہے کہ دولت کبھی عوام کو اٹھنے نہیں دیتی۔ اگر دولت کے سامنے غریب سر اٹھائے گا تو دولت اس کے سر کو کچل دے گی۔ اگر طاقت کے سامنے کمزور سر اٹھائے گا تو طاقت کمزور کے سر کو کچل دے گی۔ اگر سیاست کے سامنے کوئی محروم اور مظلوم سر اٹھائے گا تو سیاست اس محروم کا سر کچل دے گی۔ یہاں سب کچھ طاقتور کے قبضے میں ہے۔ سیاست بھی طاقتور کے پاس، جمہوریت بھی طاقتور کے پاس، قانون بھی طاقتور کے پاس اور عدالت بھی طاقتور کے پاس، عزت بھی طاقتور کے پاس، خوشحالی بھی طاقتور کے پاس، راحت و آرام اور چین اور سکون بھی طاقتور کے پاس، حفاظت بھی طاقتور کے پاس، الیکشن بھی طاقتور کے پاس، ایوان بھی طاقتور کے پاس، حکومت بھی طاقتور کے پاس اور اقتدار بھی طاقتور کے پاس ہے۔ یہ ایک ہی نظام کے مختلف چہرے ہیں۔ میری جدوجہد نے ایک ایک چہرے کا نقاب اتار دیا اور چھپے ہوئے سارے چہرے بے نقاب کر دیئے ہیں۔ وہ چہرے جنہوں نے شرافت کے پردے ڈال رکھے تھے، جنہوں نے عزت کے پردے ڈال رکھے تھے، ان سب کے مکروہ کردار، ان کے مکروہ شب و روز، ان کے مکروہ ارادے جو پردوں میں چھپے ہوئے تھے اور کسی کو جرات نہ تھی کہ ان طبقات کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرتا، میں نے ان تمام کرداروں پر پڑے پردے اٹھا دیئے ہیں اور سب چھپے ہوئے چہرے بے نقاب کر دیئے ہیں۔ عوام کو بتایا ہے کہ یہ سب تمہارے دشمن ہیں۔ اس نظام نے سارا کچھ اٹھا کر طاقتوروں اور اشرافیہ کو دے دیا۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو دے دیا۔ لٹیروں، ڈاکوؤں اور چوروں کو دے دیا۔
دوسری طرف اسی نظام نے غریبوں، مقہوروں اور اس ملک کے 18 کروڑ عوام کو فقر و فاقہ، غربت و مہنگائی، خود سوزی، خودکشی، عزت فروشی، مایوسی، محرومی، بے مددگاری، بے روزگاری اور اندھیرے دیئے ہیں۔ پورے ملک سے بجلی اور گیس جیسی ضرورت کی اشیاء بھی چھین لی ہیں۔ گھریلو زندگیاں اور صنعتیں تباہ کر دی ہیں۔ لاکھوں مزدور اور محنت کش بے روزگار ہو گئے ہیں۔ بے روزگاری کی وجہ سے پورے ملک میں ڈکیتیاں بڑھ گئی ہیں، بے روزگاری کی وجہ سے جرائم بڑھ گئے ہیں۔ گیس اور بجلی نہ ہونے کی وجہ سے لاکھوں گھروں کا چولہا بند ہو گیا۔ مہنگائی نے جینا دوبھر کردیا۔
ان حالات میں میرا مقصد عوام کو شعور دینا ہے کہ اِن کے حقوق پر کون نقب لگائے ہوئے ہے۔ کون اِن کے حقوق کو پامال کر رہا ہے۔ سُن لو! اس نظام نے سوسائٹی تقسیم کر دی۔ ظالم ایک طرف، مظلوم ایک طرف۔ طاقتور ایک طرف، کمزور ایک طرف۔ لٹیرا ایک طرف اور غریب محروم ایک طرف۔ اس تقسیم نے ہمیشہ غریب عوام کے ساتھ ظلم کیا۔ موجودہ نظام کے تحت تبدیلی ناممکن ہے۔ انقلاب کے لئے اور اس نظام کی بوسیدہ دیواروں کو گرانے کے لیے میرے ساتھ مل کر قوم کوعَلَمِ بغاوت بلند کرنا ہوگا۔ اس ظلم کے نظام کی دیواروں کو گرانے کا عزم کرنا ہوگا۔ جبر و بربریت کی دیواروں کو گرانا ہوگا، استحصال کی دیواروں کو گرانا ہوگا اور ہم انشاء اللہ ظلم، جبر، استحصال، ناانصافی اور مکر و فریب کے خاتمے تک جنگ لڑیں گے۔
ایک اہم بات سے پوری قوم کو آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔ نگران گورنمنٹ کا ڈھونگ اور ڈرامہ صرف پاکستان میں ہے۔ دنیا کی کسی جمہوریت میں نگران سیٹ اپ نہیں ہوتے، وہاں نظام ہوتے ہیں، شفافیت ہوتی ہے، ادارے ہوتے ہیں، عدل و انصاف ہوتا ہے، قانون کا راج ہوتا ہے۔ مدت ختم ہونے پر وہ صدر یا وزیراعظم خود الیکشن کرواتا ہے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، ملائشیا، ترکی، جرمنی، انڈیا، ایران کسی بھی جگہ نگران حکومت قائم نہیں ہوتی۔ انہوں نے نظام کے اندر اتنی مضبوطی، استحکام، شفافیت اور آئینیت پیدا کر لی ہے کہ چاہے کوئی بھی جماعت پاور میں ہو وہ الیکشن میں دھاندلی نہیں کرواتی، ان کا اعتماد ہوتا ہے۔
امریکہ سے جا کر اقتدار کی بھیک مانگنے والو! ان کے طور طریقے بھی سیکھو۔ ہر فیصلے کے لیے لندن جانے والو! ان کے شفاف نظام کے طور طریقے بھی سیکھو۔ یہ حکومتیں خود الیکشن کراتی ہیں مگر الیکشن کمیشن اتنا مضبوط، خودمختار اور طاقت ور ہے کہ حکومت کی مجال نہیں ہوتی کہ مداخلت کر سکے۔ جمہوریت اس نظام کا نام ہے۔ ایسا نظام پاکستان میں لاؤ جس سے دھاندلی کا خاتمہ ہو جائے، شفافیت آجائے، امانت و دیانت آجائے، اداروں پر اعتماد ہو اور سیاسی لیڈر دھاندلی کا نہ سوچیں، پھر ہم کہیں گے کہ اس ملک میں جمہوریت ہے اور یہ صحیح سیاست ہے۔ دنیا میں نگران حکومتوں کے قیام کے حوالے سے چار ملکوں کا نام آتا ہے۔ ان ممالک کے نام سن کر آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ ان کرپٹ، نااہل اور نالائق سیاسی لیڈروں نے پاکستان کو کہاں لا کھڑا کیا ہے۔ ان ممالک میں کوسووا، پولینڈ، روانڈا اور نیپال شامل ہیں۔ ہم نے نگران حکومت کا فارمولا مک مکا کے لئے وضع کر رکھا ہے۔ ہم نے اپنے اداروں کو مضبوط نہیں کیا، عدل و انصاف کو طاقتور نہیں بنایا، transparency and accountability نہیں لائے۔ قانون کو مضبوط نہیں کیا۔ ہر طرف بدنیتی ہے، کرپشن ہے، دھاندلی ہے۔ ہر جماعت by hook or crook الیکشن جیتنا چاہتی ہے۔ افسوس اس پر ادارے خاموش ہیں اور اس کو سیاسی عمل کا نام دیا جا رہا ہے۔ جو اس کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے کہا جاتا ہے کہ خاص ایجنڈے کے ساتھ آیا ہے۔ جو ظلم اور اندھیر نگری کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے کہا جاتا ہے کہ جمہوریت کوپٹڑی سے اتارنے آیا ہے۔ ظالمو! مجھے دکھاؤ تو سہی کہ جمہوریت ہے کہاں، کون سی جمہوریت تم نے بنا رکھی ہے جو آئین پر عمل درآمد سے پٹڑی سے اتر جائے گی؟ دنیا تمہارا مذاق اڑا رہی ہے!
2008ء سے 2013تک ان جمہوری حکومتوں نے پانچ سال میں کیا دیا؟ 2008ء میں پٹرول 56 روپے تھا آج 106 روپے فی لیٹر ہے، ڈیزل 39 روپے لیٹر تھا آج 110 ہے، سی این جی 30 روپے تھی آج 75 روپے ہے، امریکی ڈالر پاکستانی روپے کی قدر میں 68 روپے کا تھا آج 100 روپے کا ہے، آٹا 12 روپے کا تھا آج 38 سے 42 روپے کا ہے، چینی 27 روپے کی تھی آج 55 روپے ہے، دودھ 23 روپے کا تھا آج 70 روپے ہے، کوکنگ آئل 70 روپے کا تھا آج 190 روپے فی کلو ہے، یوریا کھاد 700 روپے تھی آج 1810 ہے، چائے 65 روپے تھی آج 145 روپے ہے، مرغی 71 روپے تھی کلو آج 145 روپے ہے، بڑا گوشت 120 روپے تھا آج 400 ہے، چھوٹا گوشت 330 تھا آج 650ہے، دالیں 70 روپے کی تھیں آج 110 ہیں، کچھ دالیں 50 روپے کی تھیں آج 105 ہیں، بجلی کا یونٹ 3.13 روپے تھا آج 9.38 روپے ہے۔
جمہوریت نے اس قوم کو سب سے بڑا تحفہ یہ دیا کہ گزشتہ 5 سالوں میں اوسطاً روزانہ 12 ہلاکتیں ہوئیں۔ دہشت گردی کے نتیجے میں پانچ سالوں میں چالیس ہزار شہید ہوگئے۔ کراچی میں ہر روز درجنوں لوگ ٹارگٹ کلنگ سے شہید ہوتے رہے ہیں، بلوچستان بدامنی اور بغاوت کا شکار ہے، وہاں ایک مکتبہ فکر سو سو لاشیں لے کر چار دن بیٹھتا ہے، کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ خیبر پختونخواہ میں خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے، ہر شخص خوفزدہ ہے۔ مسیحی برادری کے 200 کے قریب گھر نذر آتش کر دئیے گئے، کوئی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ ظالمو! قائد اعظم نے پاکستان ان مقاصد کے لیے بنایا تھا؟ ان کی روح تڑپتی ہو گی۔
تقدیر نے کیا اس لئے چنوائے تھے تنکے
بن جائے نشیمن تو کوئی آگ لگا دے
قائداعظم نے جو نشیمن بنا کے دیا تھا ہم اس نشیمن کو آگ لگا رہے ہیں اور سب ادارے تماشا دیکھ رہے ہیں اور جو کچھ ہو گا ہم سب اس ظلم اور جرم کے ذمہ دار ہوں گے۔ یہ تو آج کا نقشہ تھا، مگر عزیزو، ماؤں، بہنو، بیٹیو، بزرگو، بھائیو، بیٹو مایوس نہیں ہونا، مایوس نہیں جانا، میں تمہیں امید کا چراغ تھما کر گھر بھیجنا چاہتا ہوں۔ تمہارے دلوں میں یقین کا چراغ جلا کر بھیجنا چاہتا ہوں، مایوس نہیں ہونا، پاکستان میں بڑا potential ہے، پاکستان بنا تھا اللہ کی مدد سے اور انشاء اللہ قائم رہے گا، لٹیروں کا خاتمہ ہوگا، ایک دن آئے گا آپ جیتیں گے۔
موجودہ مسائل کے حل کا چوتھا اصول مالدار لوگوں پر ٹیکس کا نفاذ ہے۔ امیروں سے لینے اور غریبوں کو دینے کا نظام نافذ کرنا ہو گا۔ اس اصول کا تعلق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس فرمان سے ہے کہ آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهمْ فَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِهِمْ.
ان کے امیروں سے لیا جائے اور ان کے غریبوں کو لوٹایا جائے۔
(1) بخاری، الصحيح، کتاب الزکوٰة، باب أخذ الصدقة من الأغنياء وترد فی الفقراء، 2 : 544، رقم : 1425
پوری مغربی دنیا میں اُصول ہے کہ آمدنی بڑھنے پر بیس فیصد تک ٹیکس گورنمنٹ لیتی ہے اور اس ٹیکس کو غریبوں کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔ یہاں تو سارا نظام ہی آدم خوری اور چوری کا ہے۔ روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، روزگار ہر شہری کا حق ہے۔ جو سوسائٹی غریبوں کو یہ حق نہیں دیتی وہ سوسائٹی اور وہ نظام ظالم ہے۔
میں سر زمین پاکستان میں ایسا انقلاب چاہتا ہوں جو پرامن، آئینی، جمہوری، قانونی، اخلاقی، فکری اور ذہنی انقلاب ہے؛ جس سے پوری قوم کے حالات بدلیں۔ اِن جملہ امراض اور مسائل و مشکلات کے حل کے لئے موجودہ نظام کو بدلنے کی غرض سے درج ذیل چار اصولوں کو اپنانا ہو گا۔ یہ چار اصول دراصل چار ستون ہوں گے جو معاشرے میں تبدیلی کا پیش خیمہ بنیں گے :
اس انقلاب اور تبدیلی کا پہلا ستون استحصالی جاگیرداریت کا کلیتاً خاتمہ ہے کہ سینکڑوں، ہزاروں ایکڑوں کے مالک جاگیر دار جو لاکھوں انسانوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں ان سے جاگیریں چھیننی ہوں گی اور چھوٹے چھوٹے یونٹ بنا کر غریب کسانوں اور مزارعوں میں تقسیم کرنا ہوں گے۔ اگر اس نظام کو سنوارنے کا موقع اللہ نے دیا تو جاگیرداریت کے بت توڑ کر پاش پاش کردیں گے۔
دوسرا ستون استحصالی سرمایہ داریت کا خاتمہ ہے۔ اس کے لئے تمام ملوں اور کارخانوں کے منافع کے پچاس فیصد کے مالک اور حق دار مزدور ہوں گے۔ زراعت کا یہ اُصول حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عدل وانصاف اور مساوات اس طرح قائم کی کہ اپنی سوسائٹی میں سب کو یکساں عدل وانصاف کے ساتھ یکساں خوشحال ہونے کا موقع دیا۔ جب تک مزدور، محنت کش اور غریب کو منافع کا آدھا مالک نہیں بنایا جاتا، غریب کا مقدر اس ملک میں کبھی نہیں سنور سکتا۔
مسائل کے حل کے لئے جس تیسری سمت توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ سرکا ری یا نجی ملازمت والے لوگوں کی تنخواہوں میں مہنگائی کی شرح کے مطابق اضافہ ہونا چاہیے۔ جتنی مہنگائی بڑھے اتنی تنخواہ خود بخود بڑھ جائے۔ پاکستان کے قیام کے بعد جب اسٹیٹ بینک آف پاکستان بنایا گیا تو دس سال تک امریکی ڈالر کی قیمت ساڑھے تین روپے پر فکس کر دی گئی اور دس سال تک ایک پیسہ بھی ڈالر کی قیمت کا بڑھنے نہیں دیا۔ اگر وہ حکمران یہ کر سکتے تھے تو بعد کے حکمران کنڑول کیوں نہیں کر سکتے۔ وجہ یہ ہے کہ اُن حکمرانوں میںدرد تھا، وہ پاکستان بنانے والے تھے اور جو بعد میںآئے وہ پاکستان کو لوٹنے والے اور بگاڑنے والے ہیں۔ یاد رکھ لیں کہ امریکہ اور عالمی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر و قیمت نہیں بڑھی، سالہا سال سے اس کی وہی قدر و قیمت ہے جبکہ ہمارے ہاں ڈالر کی قیمت بڑھ کر سو روپے چلی گئی کیونکہ پاکستان کے روپیہ کی قدر کم ہو گئی ہے۔ غلط معاشی پالیسی، کرپشن، بے پناہ قرضے اور قرضوں کی ادائیگی کے لیے بھی قرضے اور نوٹوں کا چھاپنا وہ اسباب ہیں جو روپے کی قدر کے کم ہونے کا باعث بنے۔ جب ملک کی معیشت برباد ہوتی ہے تو اس کی کرنسی نیچے گرنے لگ جاتی ہے۔ افسوس ہم اپنی معیشت کو سنبھال نہیں سکے۔
مجمو عی طور پر ملک کی معاشی پالیساں اور سیاسی پالیساں اتنی برباد ہوئی ہیں کہ بطور ریاست پاکستان کی صلاحیت گر گئی ہے اور مجموعی صلا حیت کے اعتبار سے ہم دنیا میں 130ویں نمبر پر ہیں یعنی 129 ممالک ہم سے بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔ ریاست کے برقرار رہنے، معیشت چلانے، نظام چلانے کی طاقت، صلاحیت، قابلیت، استعداد کہ یہ ریاست کامیاب ریاست کے طور پر برقرار رہ سکتی ہے یا نہیں، اس حوالے سے 129ممالک ہم سے بہتر ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے حکمران ناکام رہے۔ اس ملک کو چلانے، ایک اچھا نظام دینے، معیشت کو سنبھالنے، اس ملک کو اچھا مستحکم سیاسی نظام دینے، اچھا عدل و انصاف دینے اور اس ملک کی صلاحیت کو برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔ بین الاقوامی سروے میں ایک جیسے ممالک کا باہمی موازنہ کرایا جاتا ہے کہ کون ـصلاحیت کے اعتبار سے کہاں ہے۔ آئیے گزشتہ تین سالوں 2008ء سے 2011ء تک انڈیا، بنگلہ دیش، سری لنکا، برازیل، انڈونیشیا اور پاکستان کا صلاحیت کے اعتبار سے باہمی موازنہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں :
ملک | ریاستی صلاحیت میں اضافہ یا کمی |
انڈونیشیا | 10+ |
سری لنکا | 17+ |
انڈیا | 2- |
برازیل | 2- |
بنگلہ دیش | 1- |
پاکستان | 22- |
افسوس ہم ہر شعبہ میں زوال کا شکار ہو گئے۔ ہم نے بطورِ قوم و ریاست صرف دو چیزوں میں ترقی کی :
1۔ دہشت گردی
2۔ کرپشن
دہشت گردی میں پاکستان پوری دنیا میں افغانستان کے بعد دوسرے نمبر پر خطرناک ملک ہے۔ کرپشن میں 139 درجے نیچے چلا گیا ہے۔ ہمارا حال تو یہ ہے کہ نیب کے چیئرمین کے مطابق اس ملک میں ہر روز دس سے بارہ ارب روپے یومیہ کرپشن ہو رہی ہے۔ یہ کرپشن براہِ راست رشوت اور خیانت کی صورت میں بھی ہے اور ٹیکس چوری کی صورت میں بھی ہے۔ اگر صرف اس کرپشن کو روک دیا جائے تو غریبوں کی حالت سنور سکتی ہے۔ مگر یہ نہیں ہوگا۔ لوگ جب تک اپنا حق لینے کے لیے خود نہیں اٹھیں گے۔ کوئی آپ کو آپ کا حق جھولی میں نہیں دے جائے گا۔ اپنے حق کی جنگ آپ کو خود لڑنا ہوگی۔ اپنے حق کیلئے لڑنا سیکھیں۔ پس ملازم پیشہ لوگوں کی تنخواہوں کو کئی گنا کرپشن اور عیاشی کے اخراجات روک کر بڑھایا جائے۔ ہمارے ساتھ موجود ہمسایہ ملک بھارت اور بنگلہ دیش میں تنخواہوں کا تناسب ہمارے ہاں سے کہیں بہتر ہے۔ کیا وجہ ہے ان سب کی حالت ہم سب سے بہتر ہو رہی ہے اور ہم ذلیل و رسوا ہوتے پھر تے ہیں۔ ان حالات کے ذمہ دار ہمارے لیڈر ہیں۔
تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اسلام، قرآن و سنت، آئینِ پاکستان، حقیقی جمہوریت اور قائداعظم کی تعلیم نے غریب عوام کو تمام حقوق دیئے مگر حکمرانوں کی نااہلی کی بناء پر عوام کو یہ حقوق نہیں مل رہے۔ یہ حقوق ریاست نے دینے تھے اور ریاست تین شعبوں کا نام ہے :
مقننہ (پارلیمنٹ) کا کام ان قوانین پر عمل درآمد کو یقینی بنانا تھا مگر MNAs اور MPAs نے 65 سال میں یہ حق ادا نہیں کیا۔
دوسرا ستون انتظامیہ/حکومت ہے۔ گورنمنٹ فیل ہو چکی ہے اور اپنی عیاشیوں میں مصروف ہے۔ گورنمنٹ کی ترجیحات میں عوام کہیں نہیں۔
تیسرا ستون عدلیہ کاہے۔ یہاں بھی تیس تیس سال گزر جاتے ہیں مگر کسی کو اس کا حق نہیں ملتا۔ آدمی مر جاتا ہے اور کیس اولاد اور آگے ان کی اولاد بھگتتی رہتی ہے۔ سرکاری اور مصدقہ اطلاع کے مطابق پاکستان کی عدالتوں میں سولہ لاکھ سے زائد مقدمات ملتوی پڑے ہیں۔ عوام کے مسائل حل کرنے اور انہیں سہولتیں فراہم کرنے کے لیے حکمرانوں کے پاس پیسہ نہیں مگر عیاشیوں کے لیے ان کے پاس تمام ذرائع و وسائل موجود ہیں۔
ان تینوں شعبہ جات کی ناکامی کی وجہ یہ ہے کہ ایک ہی طرح کے لوگ، امیداوار، جماعتیں، طبقے 65 سال سے ہم پر مسلط ہیں، ان کے 18 کروڑ عوم پر مسلط ہونے کی وجہ موجودہ کرپٹ و فرسودہ نظام ہے جو لٹیروں نے کمال عیاری کے ساتھ جمہوریت کے نام پر غریب عوام پر مسلط کیا ہوا ہے۔ لہٰذا اس نظام کے خلاف بغاوت کرنا ہو گی۔ اس نظام کے تحت الیکشن سے کوئی تبدیلی نہیں آ سکتی۔ اگر نظام نہ بدلا، الیکشن کا طریقہ بھی یہی رہا، دھن، دھونس اور دھاندلی بھی یہی رہی اور یہی عیاری مکاری رہی، تو سن لو کہ خاکم بدہن پاکستان اگلے پانچ سالوں میں ٹوٹ جائے گا۔ اس ملک کو سنوارنے کا موقع نہیں رہے گا۔ لہٰذا اس نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کرنا ہو گا۔ ہمت و جرات سے قدم آگے بڑھانا ہوں گے، اللہ رب العزت کامیابی سے ہمکنار کرے گا۔ دنیا کی کوئی طاقت انقلاب کا راستہ نہیں روک سکتی۔ ہم ظلم نہیں ہونے دیں گے، ملک کو ٹکڑے نہیں ہونے دیں گے بلکہ ہر صورت پاکستان کی ریاست کو بچائیںگے۔
پاکستان نفرتوں کی وجہ سے لخت لخت ہو چکا ہے۔ اس زمین پر بہت خون بہہ چکا ہے۔ فرقہ واریت، لسانیت اور صوبائی عصبیت کی وجہ سے لوگوں کے درمیان محبت، اخوت اور وحدت کا رشتہ کٹ گیا ہے۔ موجودہ سیاسی قیادت تمام اکائیوں کو جوڑ کر رکھنے میں ناکام ہو گئی۔ ملک اندھیروں میں ڈوب گیا، نوجوان نسل مایوس ہو گئی، لوگ روزگا ر سے محروم ہو گئے، عدل وانصاف کا خاتمہ ہوگیا، تعلیم کا فروغ نہ رہا، عوام صحت اور علاج کی سہولتوں سے محروم ہو گئے، بجلی اور گیس ناپید ہے اور بنیادی ضروریاتِ زندگی کا حصول تک مشکل ہو گیا ہے، پٹرول، ڈیزل، گیس کے ریٹ کہاں سے کہاں لے گئے ہو؟ تم نے تو زندگی کو بوجھ بنا کے رکھ دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ پاکستان کے اندر وسائل، قدرتی ذخائر اور ذرائع نہ تھے، نہیں، ایسا نہیں ہے۔ پاکستان کے پاس ذرائع، وسائل، قدرتی ذخائر اور اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی ہر نعمت موجود ہے۔ قوم کے پاس اللہ رب العزت کی عطا کردہ صلاحیتں ہیں۔ اس قوم کے افراد دماغ، صلاحیت اور استعداد کے اعتبار سے امریکہ یورپ سمیت دنیا کی کسی بھی ترقی یافتہ قوم سے پیچھے نہیں۔ یہ ایک باصلاحیت قوم ہے۔
اس قوم کے عزم، ارادے اور پیکر امن و استقامت کا ایک منظر تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام 13 تا 17 جنوری 2013ء کے لانگ مارچ کے دوران پوری دنیا نے دیکھا۔ جب لاہور تا اسلام آباد 38 گھنٹوں پر محیط سفر کسی بھی قسم کے جلائو گھیرائو، توڑ پھوڑ کے بغیر کیا گیا۔ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے اس قوم کے لاکھوں عظیم فرزند ملک و قوم کی تعمیر کے عظیم مقصد کے لئے 4 دن تک پرامن احتجاج کرتے رہے۔ یہ اس غیور اور پرامن قوم کا حقیقی چہرہ تھا کہ درخت کا ایک پتہ، کوئی گملا یا شیشہ تک نہ ٹوٹا۔ شرکاء لانگ مارچ کی اس دوران ایثار و قربانی کی عظیم مثالیں سامنے آئیں؛ کھانا، پانی اور دودھ خود پینے کے بجائے دوسروں کے بچوں میں تقسیم کرتے رہے۔ اس قوم نے اُن پانچ دنوں میں صحابہ کرام کی سیرت اور اہلِ بیت اطہار کی پیروی کی یاد تازہ کر دی۔ پاکستانی قوم دہشت گرد قوم نہیں ہے۔ یہ پرامن، رواداری اور اعتدال والی قوم ہے۔ اس قوم کو اگر قیادت و رہبری مل جائے تو یہ اقوامِ عالم کی سب سے عظیم قوم بننے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستانی قوم ایک باصلاحیت قوم ہے، سرزمین پاکستان قدرتی خزانوں اور صلاحیتوں سے مالامال ہے تو ہم سے غلطی کہاں ہوئی کہ ہم سب کچھ کھو بیٹھے؟
اس سوال کا افسوسناک جواب یہ ہے کہ سب سے پہلی غلطی یہ ہوئی کہ ہم نے عوام کو حکمرانی دینے کے بجائے اشرافیہ اور طاقتور طبقات کو حکمران بنا دیا۔ یاد رکھ لیں جب جاگیر دار، سرمایہ دار، صنعت کار، بڑا تاجر اور مالدار طاقتور طبقے سیاسی لیڈر بن کر حکمران بن جائیں تو کسی اور کے لیے کچھ نہیں بچے گا۔ پہلے زمانے میں فلاسفر کہا کرتے تھے کہ یا حکومت کرو یا تجارت کرو۔ جب صنعت کار، تاجر، جاگیر دار حکمران بھی بن جاتاہے تو وہ اپنے مفاد کے لیے جو کچھ جس وقت چاہے بنا دے اور جو چاہے بدل دے۔ وہ حکومت و اقتدار اور اختیار کے بل بوتے پر دولت کو بڑھاتا چلا جاتا ہے اور دولت سمٹ کر چند ہاتھوں میںجمع ہو تی چلی جاتی ہے۔ نتیجتاً کروڑوں محروم لوگ غربت کی زندگی میں جل جل کر مر جاتے ہیں۔ قائد اعظم کا وعدہ تھا کہ ایسی ریاست بنائیں گے جس میں عوام کی حکومت ہو گی عوام طاقتور ہوں گے۔ افسوس ہم نے طاقتور اور اشرافیہ کی اسٹیٹ بنا دی اور خود غلام بن کے رہ گئے۔
دوسری غلطی یہ ہوئی کہ اس ملک میں جاگیردارانہ نظام کو فروغ دیا۔ اب مزارع، کسان، ہاری اور دیہاتوںمیں رہنے والے غریب لوگ جاگیر داروںکے سامنے سر نہیں اٹھا سکتے، آزادانہ ووٹ نہیں دے سکتے۔
تیسری غلطی یہ ہوئی کہ سچی جمہوریت لانے کے بجائے ہم نے آمریت کو فروغ دیا۔ ہمارے ملک میں دو طرح کی آمریت رہی ہیں :
یاد رکھ لیں، آمریت صرف فوجی نہیں ہوتی بلکہ سیاسی بھی ہوتی ہے اور انتخابی بھی ہوتی ہے۔ اگر فوجی آمر آئے، مارشل لا لگائے تو اس کو ملٹری ڈکٹیٹر شپ کہتے ہیں۔ اگر سیاسی لوگ انتخابات کے ذریعے پارلیمنٹ میںآجائیں اور پھر عوام کے حقوق پامال کریں، اپنے اقتدار کو مضبوط کر لیں تو اس کو سیاسی اور انتخابی آمریت کہتے ہیں۔ 65 سال سے پاکستان میں جمہوریت آئی ہی نہیں، فوجی آمریت آئی ہے یا سیاسی آمریت آئی ہے۔ سیاسی لوگوں نے ایک بولی بنا رکھی ہے کہ ہم آمریت کے خلاف جنگ لڑتے رہے مگر وہ اس حقیقت کو نظر انداز کر جاتے ہیں کہ فوجی آمریت کے خلاف لڑتے رہے مگر سیاسی آمریت قائم کرتے رہے۔ یہ امر ذہن نشین رہے کہ ہر وہ نظام آمریت ہے جو عوام کو حقوق سے محروم کردے۔ اگر وہ ایک خاندان کی وارثت ہو تو اسے بادشاہت کا نام دیتے ہیں، اگر وہ فوجی آمریت ہو تو اسے ملٹری ڈکٹیٹر شپ کہتے ہیں۔ اگر منتخب ہو کر آنے والے سیاسی لیڈر کی آمریت ہو تو اسے سیاسی اور انتخابی آمریت کہتے ہیں۔ یہ سب آمریت کی شکلیں ہیں۔ پاکستان کی عوام نے ابھی تک جمہوریت کاچہرہ دیکھا ہی نہیں ہے۔ جمہوریت وہ ہے جو پاکستان کے آئین میں درج ہے، جمہوریت وہ تھی جس کا وعدہ قائداعظم نے کیا تھا جسے آج تک لیڈروںنے ایفاء نہیں ہونے دیا۔
چوتھی غلطی ہم سے یہ ہوئی کہ ہمارے ہاں سارے اختیارات مرکز میں رہے اور صوبوں کو محرومی کا احساس دیا، نتیجتاً صوبوں کے درمیان باہمی یگانگت نہ رہی اور قومی وحدت پر ضرب کاری لگی۔
الغرض ہمارے ہاں اغلاط کا ایک سلسلہ ہے، کس شعبہ و ادارے کے ساتھ ہم نے گھناؤنا اور مکروہ کھیل نہیں کھیلا۔ ہم نے تعلیم کو نظر انداز کر دیا اگر تعلیم شروع سے ہماری ترجیحات میں ہوتی تو آج شرح خواندگی نوّے فیصد سے زیادہ ہوتی۔ دنیا کے کئی ملکوں میں تعلیم اور صحت کی سہولتیں ہم سے کہیں بہتر ہیں۔ افریقہ کے کئی ممالک، حتیٰ کہ سری لنکا اور بھوٹان بھی ہم سے بہتر ہیں اور کئی گنا زیادہ تعلیم و صحت پر خرچ کرتے ہیں۔ ہم نے آج تک اپنے بجٹ میں تعلیم و صحت کا حصہ نہیںبڑھایا۔ ڈاکٹرز آئے دن ہڑتال پر ہیں، ہسپتالوں کی حالت قابل ذکر نہیں، ادویات موجود نہیں، اس لئے کہ صحت و تعلیم کا بجٹ حکمرانوں نے اپنی عیاشیوں پر لگا دیا۔ معاشرے کو اعتدال اور برداشت کی تعلیم نہیں دی۔ تنگ نظری، انتہا پسندی اور دہشت گردی کا معاشرہ بنا دیا۔ بات بات پر لوگ آپس میں جھگڑتے، قتل و غارت گری کرتے اور گولی چلاتے نظر آتے ہیں۔ انتہا پسند و دہشت گرد حکمرانوں نے اپنے مفادات کے لئے خود پالے اور اپنی دھرتی پر خود خون خرابہ کرایا اور اس سے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرتے رہے۔ حکمران ہی ان کو تحفظ دیتے ہیں، انتخابات کے دوران ان کے ساتھ سمجھوتے کر کر ان کو استعمال کیا جاتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ اِس تباہی کے ذمہ دار کا سراغ لگایا جائے جس نے ہمیں اس حال تک پہنچا دیا ہے کہ ہمارے تمام وسائل اور خزانوں کو کرپشن لوٹ گئی۔ قوم کی زندگیوں کو ناانصافی ویران کر گئی۔ قتل وغارت گردی اور دہشت گردی نے ان کی زندگیوں میں خوف ڈال دیا۔ قوم اپنے مستقبل اور نسلوں کی زندگیوں سے مایوس ہو گئی، آج ہر آنکھ ویران نظر آتی ہے۔ پڑھا لکھا طبقہ ڈاکٹر، انجینئر، سائنٹسٹ، ٹیکنالوجسٹ ملک چھوڑ کر جارہے ہیں اور پلٹ کر واپس آنے کا نام نہیں لیتے۔ لوگ اپنے ہی ملک میں سرمایہ کاری کرنے کو تیار نہیں۔ پاکستان دہشت گردی کے اعتبار سے انٹرنیشنل انڈیکس میں دوسرے بڑے خطرناک ملک کے طور پر شامل ہو چکا ہے۔
18کروڑ بے بس و لاچار پاکستانیو! اس کے ذمہ دار آپ اور ہم سب ہیں۔ یہ بدبختی باہر سے مسلط نہیںہوئی بلکہ ہمارے غلط فیصلوںنے ہمارے مقدر کو ویران کر دیا ہے۔ ہم ہی ووٹ دے کر غلط لوگوں کو چنتے رہے ہیں اور ساری زندگی کبھی پیسے لے کر ووٹ دیتے رہے ہیں، کبھی برادری کے نام پر ووٹ دیتے رہے ہیں، کبھی تھانے کے ڈر سے ووٹ دیتے رہے ہیں، کبھی اپنے مفادات کے لئیووٹ دیتے رہے، کبھی بجلی کے کھمبے لگوانے اور پکی نالیوں کے نام پر ووٹ دیتے رہے اور کبھی دھڑے بندیوں پر ووٹ دیتے رہے۔ افسوس! قوم نے یہ کبھی نہ سوچا کہ یہ ووٹ ایک پرچی کا نام نہیںبلکہ پورے ملک کے مستقبل کی تقدیر کا نام ہے جس سے قوم کی تقدیر سنور بھی سکتی ہے اور بگڑ بھی سکتی ہے۔ قوم جعلی ڈگری کے حامل کرپشن کرنے والوں، ظلم و جبر کرنے والوںکو اپنے نمائندے کے طور پر اسمبلی میں بھیجنے کے لئے منتخب کرتی رہی۔ غریب اور کمزور طبقات طاقتور و امیر کو اسمبلیوں تک پہنچاتے رہے۔
اے اہلِ پاکستان یاد رکھو! طاقتور طبقات کبھی کمزور کے حق کی حفاظت نہیں کریںگے۔ جاگیردار، سرمایہ دار کبھی محنت کش، غریب مزدور اور ریڑھی لگانے والے کے حق کی بات نہیں کریں گے۔ یہ ایک مخصوص طبقہ ہے جو اسمبلی میںجا کر ہمیشہ اپنے مفاد کے لیے قانون سازی کرے گا۔ اس کی قانون سازی کسی غریب کی ماں کے آنسو پونچھنے، بے گھر غریب کو گھر دینے، قوم کے بچوں کو تعلیم دینے، عام نوجوانوں کو روزگار دینے کے لیے نہیںہو گی۔ اب فیصلہ عوام کو کرنا ہے کہ اسے کیسا مستقبل چاہیے؟ وہ اپنا مقدر کیسا چاہتے ہیں؟ ملک پاکستان کیسا چاہتے ہیں؟ کیا پھر کرپٹ لوگوں کے ہاتھوں میں پوری قوم کی تقدیر کو یرغمال بنانا چاہتے ہیں یا عزت کی زندگی بسرکرنا چاہتے ہیں۔
اگر ہم عزت کی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں، اقوامِ عالم کی صف میں پاکستان کو باعزت و باوقار مقام دلانا چاہتے ہیں اور ریاست سے اپنے حقوق حاصل کرنے کے خواہاں ہیں تو ہمیں آئینِ پاکستان کی پاسداری اور اس پر عملدر آمد کو یقینی بنانا ہو گا، اس لئے کہ قائدِ ا عظم نے جن اصولوں اور بنیادوں پر پاکستان کی بنیاد رکھی، وہی اُصول پاکستان کے آئین میں بھی درج ہیں اور یہی آئینی نکات ہمارے حقوق کے محافظ بھی ہیں۔ میں اس قوم کو آئین پاکستان کی بھی تعلیم دینا چاہتا ہوں۔ میری آرزو ہے کہ اس ملک کا ہر فرد اپنے ملک کے آئین، اور اس آئین میں درج بنیادی اور جمہوری اصولوں سے واقف ہو۔ ’سیاست نہیں ریاست بچائو‘ کے عظیم مقصد کے تحت میری جد و جہد اور کاوشوں کی بدولت قوم کا ہر فرد اپنے حقوق سے متعلقہ تقریباً ہر شق سے واقف ہو چکا ہے۔
٭ آج ہر شخص آئین کی شق 62، 63 کو جان چکا ہے کہ چور، لٹیرے، ٹیکس چوری کرنے والے، قرضے معاف کرانے والے، ملک کا خزانہ لوٹنے والے اور غریبوں پر جبر کرنے والے اس دھرتی کے باسیوں کے ووٹ کے حق دار نہیں ہو سکتے۔ پاکستانی قوم کا ہر فرد ووٹ دینے سے قبل امیدوار پر ان شقوں کا اطلاق کرے کہ وہ صادق اور امین ہے یا نہیں؟ بد معاش ہے یا شریف ؟ قاتل ہے یاکمزور؟ شرافت کا پیکر ہے یا غنڈہ گردی کا پیکر؟ غریبوں کو کچلتا، گندی زبان استعمال کرتا، گالی دیتا ہے یا اس قوم کے غریبوں کے لیے دعا گو رہتا ہے۔ الغرض اس کے مجموعی کردار کو دیکھ کر اُسے اپنے نمائندہ کے طور پر منتخب کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کریں۔
٭ قراردادِ مقاصد کے نام سے آئین پاکستان کا دیباچہ اقتدار اور حکومت کا مالک ایم این اے، ایم پی اے، وزراء اور لیڈر کو نہیں کہتا بلکہ اس کے مطابق اقتدار کا اصل مالک اللہ ہے۔ اللہ نے امت کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حاکمِ کائنات بنایا ہے اوراختیار و اقتدار امانت کے طور پر عوام کو دیا ہے۔ اس اختیار پر حدود و شرائط مقرر ہیں جن کو ملحوظ خاطر رکھ کر ہی حکمران حکومت کر سکتے ہیں۔
٭ پاکستان کے آئین میں درج ہے کہ پاکستان کی عوام کی خواہش کے مطابق ملک کے لیے آئین، حکومت، پارلیمنٹ اور ایک نظام وضع کریں۔
گویا نظام بنانا اٹھارہ کروڑ عوام کا حق ہے، طاقتور طبقات کا حق نہیں ہے۔ موجودہ نظام کی دیواریں ظلم، جبر، استحصا ل، مکر و فریب، جھوٹ، بددیانتی اور کرپشن پر قائم ہیں۔ لہٰذا ان کرپشن پر مبنی دیواروں کو گرانے کے لئے عوام کو اٹھنا ہو گا۔ اس کی جگہ ایسے نظام کو قائم کرنا ہو گا جس کی بنیاد قرآن، سنت، عدل، جمہوریت، انصاف، امانت اور دیانت پرہو۔
٭ آئین کہتا ہے کہ اس ملک میں ایسا نظام دیا جائے گا جو قرآن و سنت کے مطابق ہو۔
کیا آج ہمارا معاشرہ قرآن و سنت کے مطابق ہے؟ کیا آئین کا اطلاق نہ کر کے ہمارے حکمران آئین سے غداری کے مرتکب نہیں ہوئے؟
٭ آئین نے کہا کہ یہاں لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق کی مکمل ضمانت ملے، ہر چھوٹے و بڑے، کمزور و طاقتور اور غریب اور امیر کی حیثیت معاشرے میں برابر ہو۔ دیہی آبادیوں اور پسماندہ لوگوں تمام کو ترقی کا برابر موقع حاصل ہو۔
٭ آئین کہتاہے کہ حکومت کا فرض ہے کہ ایسے انتظامات کرے اور ایسے مضبوط قوانین نافذ کرے کہ غیر مسلم اقلیتوں کی جان، مال، عزت و آبرو، عبادت خانے، اور ان کے ہر شے کی حفاظت ہو۔
٭ ہمارا آئین کہتا ہے کہ پاکستان کو اسی طرح تعمیر کیا جائے کہ یہ خود بھی پر امن معاشرہ بنے اور دنیا کو بھی امن مہیا کرے۔ بین الاقوامی سطح پر امن، ترقی، خوشی اور انسانیت کے فروغ کا باعث بنے۔
کیا پاکستان کے اندر امن ہے؟ کیا یہاں روزانہ لاشیں نہیں گرتیں؟ قتل و غارت، اغوائ، دہشت گردی اور بھتہ خوری کا رواج عام نہیں ہے؟ کیا جان ومال عزت و آبرو محفوظ ہے؟ یہ ملک دہشت گردوں کی درآمد و برآمد کا گڑھ بن چکا ہے۔ اِن مسائل کو پیدا کرنے اور حل نہ کرنے پر ہمارے حکمران آئین سے غداری کے مرتکب ہوئے ہیں۔
٭ اس آئین کے آرٹیکل 3 میں ایک وعدہ کیا گیا تھا کہ لوگوں سے ہر قسم کا استحصال اور نا انصافی اس ملک میں سے ختم کر دی جائے گی اور جس میں جتنی صلاحیت ہے اس کو اتنا ملے گا۔
کیا انجینئر کو صلاحیت کے مطابق روزگار ملتا ہے؟ کیا ڈاکٹر کو اس کا روزگار ملتا ہے؟ کیا پی ایچ ڈی کو روزگار ملتا ہے؟ پی ایچ ڈی دھکے کھاتے ہیں اور جعلی ڈگریاں رکھنے والے ملک کے وزیر بنتے ہیں۔
٭ ہمارے بزرگوں نے اس آئین کے آرٹیکل 9 کے ذریعے وعدہ کیا تھا کہ اس ملک کے ہر شخص کی جان و مال کی حفاظت کی جائے گی۔ کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟
٭ اس آئین کے آرٹیکل 25 کے ذریعے وعدہ کیا تھا کہ تمام امیر اور غریب چھوٹے بڑے شہریوں کو برابری دی جائے گی اور قانون کا تحفظ ہر ایک کے لیے یکساں ہو گا، غریب اور امیر، طاقتور اور کمزور کا فرق اس ملک میں نہیں ہو گا۔ کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟
٭ آرٹیکل 25 کی کلاز A میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ اس دھرتی پر پیدا ہونے والے ہر بچے کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا جائے گا، کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟
٭ اس آئین کے آرٹیکل 38 میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ پاکستان کی سرزمین پر بسنے والے ہر ایک شخص اور ہر ایک کنبے کی معاشی اور سماجی زندگی کو بہترین کیا جائے گا اور پیسے کی تقسیم منصفانہ ہو گی تاکہ امیر امیر تر نہ بنے، غریب غریب تر نہ بنے۔ مزدور اور مالک میں بھی فرق مٹایا جائے گا اور زمیندار اور کسان کا فرق بھی مٹایا جائے گا۔ کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟
٭ اسی آرٹیکل 38 کی کلاز d میں یہ وعدہ کیا گیا تھا کہ ہر شخص کو عزت کے ساتھ کھانا ملے گا، لباس ملے گا، گھر ملے گا، کپڑا، مکان ملے گا، تعلیم ملے گی، علاج ملے گا، انصاف ملے گا، روزگار ملے گا۔ بلا تمیز ہر شخص کو یہ حقوق ملیں گے، کیا یہ وعدہ پورا ہوا؟
آئین پاکستان میں کُل 280 آرٹیکلز ہیں ان میں سے پہلے 40 آرٹیکلز وہ ہیں جو عوام کے ساتھ کئے گئے وعدوں پر مشتمل ہیں۔ پہلے 40 آرٹیکلز میں پاکستانی عوام کے حقوق اور وعدے ہیں، اس کے بعد 240 آرٹیکل پھر حکومت سے متعلق ہیں۔ 65 سال گزرے، اس ملک کی پانچوں اسمبلیوں نے آج کے دن تک ان 40 کے 40 آرٹیکلز میںموجود وعدوں میں سے ایک وعدہ پورا نہیں کیا اور ایک وعدے کو بھی پورا کرنے کے لیے آئین کا کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ کیا ان حکومتوں کو اور اس سیاسی عمل کو اور اس نام نہاد جھوٹی جمہوریت کو آئینی جمہوریت کہا جائے؟ کیا یہ حکومتیں آئینی حکومتیں ہیں؟ اگر ان کے خلاف آپ علم بغاوت بلند کرتے ہیں تو یہ آپ کے خلاف کیوں نہیں اٹھیں گے ؟
قائد اعظم کا فرمان ہے کہ یہ ملک ایک ایسا جمہوری ملک ہوگا جس میں جمہوریت کی بنیاد اسلام کے عدل وانصاف کے اصولوں پر ہو گی۔ کیا اس ملک میں صحیح جمہوریت ہے؟ کیا اس ملک میں اسلام کی تعلیمات اور قدریں موجود ہیں؟ نظام، اقتدار، حکومت میں صحیح عدل وانصاف میسر ہے؟
نہیں، بلکہ یہاں تو حکمران طبقہ مسلسل آئین سے غداری کا مرتکب ہو رہا ہے۔ آئین نے تو عوام کو اُن کے جملہ حقوق ادا کر دیئے اور اپنے صفحات میں ہر ایک کے حق کو محفوظ کر دیا۔ مگر افسوس! ریاست میں اِس آئین کو نافذ کرنے والوں نے عوام کو اِن حقوق سے محروم کر دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آئین کی پاسداری کا حق ادا کیا جائے اور وہ اسی صورت ممکن ہے کہ آئین میں موجود اپنے حقوق کی حفاظت کی آواز بلند کریں اور اُن طاقتوں کو نشانِ عبرت بنا دیں جو ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈالتی ہیں۔
افسوس! ہمارا معاشرہ نہ جمہوری ہے اور نہ ہی اسلامی۔ اسلامی معاشرے میں مسلم و غیر مسلم دونوں کو ریاست حقوق فراہم کرتی ہے۔ افرادِ معاشرہ بھی معاشی و معاشرتی ناہمواری کے خاتمہ میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے متعدد احادیث مبارکہ میں مسلمان معاشرے کے خدوخال کو واضح فرمایا۔ کھانا، بنیادی ضرورت میں شامل ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشرے کے ہر فرد کی اس بنیادی ضرورت کی فراہمی کا نسخہ تجویز کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
طَعَامُ الْوَاحِدِ يکْفِي الْإِثْنَيْنِ، وَطَعَامُ الْإِثْنَيْنِ يَکْفِي الْأَرْبَعَةَ، وَطَعَامُ الْأَرْبَعَةِ يَکْفِي الثَّمَانِيَةَ.
ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کافی ہوتا ہے اور دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہوتا ہے اور چار کا کھانا آٹھ کے لیے کافی ہوتا ہے۔
مسلم، الصحيح، کتاب الأشربه، باب فضيلة المواساة فی الطعام القلیل وأن طعام الإثنين يکفی الثلاثة ، 3 : 1630، رقم : 2059
اس ملک کے لاکھو ں کسان اور مزارع بنجر اور مردہ زمینوں کو آبا د کرتے کرتے مر گئے مگر ان کی نسلوں کو زمین کی ملکیت نہ ملی۔ حالانکہ فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق بنجر زمین کو آباد کرنے والا کسان ہی اس زمین کا مالک ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَهِیَ لَهُ.
جو (مزارع اورکسان) مردہ بنجر زمین کو آباد کرے وہی اس کا مالک ہوتا ہے۔
1. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 338، رقم : 14677
2. أبو داود، السنن، کتاب الخراج والإمارة والفيئ، باب فی إحياء الأموات، 3 : 178، رقم : 3073
ہمارا معاشرہ ان مناظر سے بھرا پڑا ہے کہ ایک طرف لوگ بنیادی ضروریاتِ زندگی سے محروم ہیں جبکہ دوسری طرف لوگوں کے پاس ضرورت سے زائد اشیاء موجود ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معاشی ناہمواری کے خاتمہ کے لئے اس کا حل عطا فرمایا۔ حضرت ابو سعید خدری g سے روایت ہے کہ :
بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فِي سَفَرٍ إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَی نَاقَةٍ لَهُ، فَجَعَلَ يصَرِّفُهَا يَمِيْنًا وَشِمَالًا فَقَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ کَانَ عِنْدَهُ فَضْلُ ظَهْرٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلٰی مَنْ لَا ظَهْرَ لَهُ، وَمَنْ کَانَ عِنْدَهُ فَضْلُ زَادٍ فَلْيَعُدْ بِهِ عَلٰی مَنْ لَا زَادَ لَهُ حَتّٰی ظَنَنَّا أنَّهُ لَا حَقَّ لِأحَدٍ مِنَّا فِي الْفَضْلِ.
ہم ایک سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ تھے تو ایک آدمی اونٹ پر سوار ہوکر آیا اور اسے دائیں بائیں پھرانے لگا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کے پاس کوئی زائد سواری ہے تو وہ اسے لوٹا دے جس کے پاس سواری نہیں ہے اور جس کے پاس زائد زادِ راہ ہے وہ اسے لوٹا دے جس کے پاس زادِ راہ نہیں ہے۔ یہاں تک کہ ہم گمان کرنے لگے کہ ہم میں سے کسی کو زائد چیز رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
أبوداود، السنن، کتاب الزکاة، باب فی حقوق المال، 2 : 125، رقم : 1663
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس حدیث مبارکہ میں ضرورت مند کو ’چیز دینے‘ کا نہیں بلکہ’ لوٹانے ‘کا حکم دیاہے۔ لوٹائی وہ شے جاتی ہے جو پہلے ہی اس کی ہو۔ کسی اور کی چیز ہو تو اس کو لوٹانا نہیں بلکہ دینا کہا جاتا ہے۔
اسلام میں موجود اور آئینِ پاکستان میں درج حقوق، اس ظالم نظام نے ہم سے حکمرانوں کے ذریعے چھین لئے ہیں اور طاقتوروں کو دے دیئے ہیں۔ جس سوسائٹی میں ایسی تقسیم ہوجائے کہ ایک طرف لوگ کھربوں کے مالک ہوجائیں، ان کی دولت کا کوئی شمار نہ رہے اور ان کے کتے، گھوڑے، خچر، اونٹ بھی لاکھوں انسانوں کے اخراجات پر پل رہے ہوں جبکہ دوسری طرف غریب کے بچے کو روزگار نہ ملے، علاج کی سہولت نہ ملے، بیٹی بوڑھی ہو جائے مگر اس کے ہاتھ پیلے نہ ہو سکیں، نوجوان خودکشی کرلے مگر روزگار نہ ملے، رہنے کے لئے مکان نہ ملے تو اس سوسائٹی میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم کے مطابق اب دینے کا قانون نہیں ہوگا بلکہ لوٹانے کا قانون ہو گا۔ تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق ان حکمرانوں کو غریبوں کا حق لوٹانا ہو گا۔ اگر یہ استحصالی نظام اور اس کے محافظ غریبوں کو ان کے حقوق نہیں لوٹائیں گے تو جان لو غریب بیدار ہو رہے ہیں، وہ آگے بڑھ کر ان سے اپنے حقوق چھین لیں گے۔
اسلامی معاشرہ تو وہ ہے جس میں مسلمان تو مسلمان، غیر مسلم کی عبادت گاہ کو بھی نہیں گرایا جا سکتا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر مذہب اور ان کے مذہبی رہنماؤں کو آزادی دی حتیٰ کہ صدقہ فطرمیں بھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں غریب مسیحی اور یہودی راہبوں کو پیسے دیئے جاتے تھے۔ سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ ایک غریب نابینا یہودی مدینہ کی گلیوں میں بھیک مانگ رہا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے پوچھا : کیوں بھیک مانگ رہے ہو؟ اس نے کہا ٹیکس ادا کرنے کا وقت آ گیا ہے اور سرکاری ٹیکس ادا کرنے کے لئے میرے پاس پیسے نہیں، اس لیے بھیک مانگ رہا ہوں کہ ٹیکس ادا کر سکوں۔ سیدنا فاروقِ اعظم نے اس یہودی کو بیت المال سے پیسے ادا کیے اور اس دن آرڈنینس جاری کر دیا کہ اسلامی ریاست میں موجود جو غیر مسلم بوڑھے ہو جائیں، بیمار ہو جائیں، غریب ہو جائیں تو اسلامی ریاست ان سے ٹیکس نہیں لے گی اور بیت المال سے ان کی مدد کی جائے گی تاکہ عزت کے ساتھ اپنی ضروریات زندگی حاصل کر سکیں۔ (1) اسلام تو غیر مسلم کو مالی کفالت دیتا ہے، ان کے جان ومال کی حفاظت کی ضمانت دیتا ہے۔ جبکہ ہمارے معاشرے میں ان تعلیمات کا کوئی عکس کہیں دکھائی نہیں دیتا۔
(1) أبو يوسف، کتاب الخراج : 136
فتاویٰ شامی میں امام ابن عابدین نے اسلام کی رواداری کا عالم اس طرح ذکر کیا ہے کہ اگر کسی عیسائی، ہندو یا غیر مسلم کی شراب کی بوتل کوئی مسلمان توڑ دے یا اس کے خنزیر کو قتل کر دے تو مسلمان پر واجب ہے کہ اس شراب اور خنزیر کی قیمت بطور جرمانہ اس غیر مسلم کو ادا کرے۔ (1)
(1) 1. حصکفی، الدر المختار، 2 : 223
2. شامی، رد المحتار، 3 : 273
دنیا کا کوئی مذہب ایسی مثال نہیں دے سکتا جو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رواداری کے حوالے سے عطا فرمائی۔ شراب، خنزیر مسلمانوں کے نزدیک حرام ہیں مگر چونکہ غیر مسلم اِن کو جائز سمجھتے ہیں اور ان کے مذہب میں حرام نہیں لہٰذا اِن کی ملکیت میں موجود اِن چیزوں کو نقصان پہنچانے کی صورت میں بطور جرمانہ ان کی قیمت ادا کرنا ہو گی۔ ایسی رواداری کا دین حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امت کو عطا کیا اور ہم غیر مسلم تو درکنار آپس میں مسلمان مختلف مکاتبِ فکر، مسالک اور فرقوں کو برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اِن تمام معاشرتی و اخلاقی اقدار کے اس سوسائٹی سے رخصت ہو جانے کی وجہ یہ ہے کہ قوم کو قیادت نہیں ملی۔ قیادت ہی قوم کو کردار دیتی ہے۔ قیادت سے قوم کو فکر ملتا ہے۔ قیادت سے قوم کو شعور ملتا ہے۔ قیادت کے ذریعے قوم کو طرزِ عمل ملتا ہے۔ عوام کو اپنے ملک کی قیادت کو بدلنا ہو گا اور ظالم، جاہل، کرپٹ اور خائن قیادتوں کے بتوں کو توڑ کر پاش پاش کرنا ہوگا تا کہ پاکستان سنور سکے۔
آج ہمارا معاشرہ دو حصوں میں منقسم ہے :
معاشرے میں موجود اس تقسیم کے حالات میں انقلابی جدوجہد کی حکمت اور فلسفے کو قرآن مجید کی تعلیمات اور پیغمبرانہ تاریخ کے تناظر میں جاننا ضروری ہے۔ یاد رکھیے جب سے کرہ ارض پر انسان آباد ہوا ہے تب سے یہی دو طبقات رہے ہیں :
1۔ طاقتور، جابر استحصالی طبقات؛ یہ کسی دور میں جاگیردار کہلائے، کسی دور میں سرمایہ دار کہلائے، کسی دور میں وڈیرے کہلائے، کسی دور میں سردار کہلائے مگر طبقہ ایک ہی رہا جو تمام وسائل پر قابض رہا۔ بت اور بت خانے بھی انہی کے پاس ہوتے۔ لہٰذا بتوں اور بت خانوں کو بھی اپنی سرداری، وڈیرہ شاہی اور استحصالی نظام برقرار رکھنے کے لیے بطور ذریعہ استعمال کرتے۔
2۔ کمزور، مظلوم اور محروم طبقات؛ یہ طبقہ انسانی تاریخ کے ہر دور میں محروم، مظلوم، غلاموں، خادموں، پست ہمت، وسائل سے محروم لوگوں پر مشتمل رہا۔ انہیں کوڑے مارے جاتے، ان کو انسان تک نہ سمجھا جاتا۔ ان کی عزتیں خریدی اور بیچی جاتیں۔ انہی کو مال وراثت سمجھا جاتا اور انہی کے حقوق پامال کیے جاتے۔
معاشرے میں رائج اِس تقسیم کے دوران کسی بھی زمانے میں حق کے لیے، غریبوں کے لیے، مظلوموں کے لیے جب بھی کوئی آواز بلند ہوئی ہے تو ہمیشہ سرمایہ اور طاقت اس انقلابی آواز کے خلاف اکٹھے ہو گئے۔ سرمایے اور طاقت نے غریبوں کے حق میں اٹھنے والی انقلابی آواز کو تاریخ انسانیت کے کسی دور میں گوارہ نہیں کیا۔ انقلاب دشمن، غریب دشمن، عوام دشمن اور سٹیٹس کو (status quo) کو برقرار رکھنے والی طاقتیں کبھی سوسائٹی میں تبدیلی و انقلاب نہیں چاہتیں۔
یہ بات ذہن نشین کر لیں کہ حضرت نوح e سے لے کر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء و رسل نے اپنے اپنے زمانے میں توحید، رسالت اور آخرت کی تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ہمیشہ اس دور کے ظالمانہ نظام کو چیلنج کیا۔ اس دور میں رائج ظلم، جبر اور استحصال کو چیلنج کیا۔ ہر پیغمبر کی دعوت، انقلاب کی دعوت تھی، انہوں نے اس دور کی وڈیرہ شاہی کو للکارا اور ہر پیغمبر نے اس دور کے سرمایہ داروں اور سرداروں کے ظلم و جبر کو للکارا، اس دور کے غریب عوام کو حقوق دلانے کی آواز بلند کی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہر دور کے طاقتور طبقات اس پیغمبر کے خلاف یکجا ہوگئے۔ کسی دور میں طاقتور طبقہ نہیں چاہتا کہ کمزور سر اٹھائے۔ کسی دور میں ظالم نہیں چاہتا کہ مظلوم کی داد رسی ہو۔ کسی دور میں وڈیرہ و سردار نہیں چاہتا کہ پسے ہوئے لوگوں کو ان کے حقوق ملیں۔ یہ انسانی نفسیات ہر دور میں یکساں رہی ہے۔ یہ ظالم و طاقتور طبقہ انبیاء کے بھی خلاف متحد ہوا، ان پر تہمتیں لگائیں اور ان کی کردار کشی کی۔ تاکہ عوام کے ذہن پراگندہ ہوں۔
آئیے! اِس پیغمبرانہ جدوجہد پر ایک نظر ڈالتے ہیں :
حضرت نوح علیہ السلام نے اپنی سوسائٹی کے طاقتور طبقات کے ظلم و جبر کے نظام کو للکارا تو سارے جابر وڈیرے ان کے خلاف اکٹھے ہوگئے۔ قرآن مجید میں ہے :
قَالَ الْمَـلَاُ مِنْ قَوْمِهِ اِنَّا لَـنَـرٰکَ فِيْ ضَلٰـلٍ مُّبِينٍo
ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے کہا : (اے نوح!) بے شک ہم تمہیں کھلی گمراہی میں (مبتلا) دیکھتے ہیںo
الأعراف، 7 : 60
ان سرداروں نے اﷲ تعالیٰ کے پیغمبر حضرت نوح علیہ السلام کو (معاذ اﷲ) گمراہ کہا، کیونکہ اللہ کے پیغمبر نے ان کے نظامِ جبر اور نظامِ ظلم کو للکارا، جو جبر انہوں نے نافذ کر رکھا تھا اس کے خلاف آواز بلند کی اور غریبوں کو ان کے حقوق دینے کی بات کی۔ نتیجتاً حضرت نوح علیہ السلام کو ان وڈیروں، سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور طاقتوروں نے گمراہ کہا۔ نیز ان کی بات نہ ماننے کی وجہ اُن وڈیروں نے یوں بیان کی :
فَقَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهِ مَا نَرٰکَ اِلَّا بَشَرًا مِّثْلَنَا وَمَا نَرٰکَ اتَّبَعَکَ اِلَّا الَّذِيْنَ هُمْ اَرَاذِلُنَا بَادِیَ الرَّاْيِ ج وَمَا نَرٰی لَـکُمْ عَلَينَا مِنْ فَضْل ٍم بَلْ نَظُنُّکُمْ کٰذِبِيْنَo
سو ان کی قوم کے کفر کرنے والے سرداروں اور وڈیروں نے کہا : ہمیں تو تم ہمارے اپنے ہی جیسا ایک بشر دکھائی دیتے ہو اور ہم نے کسی (معزز شخص) کو تمہاری پیروی کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے ہمارے (معاشرے کے) سطحی رائے رکھنے والے پست و حقیر لوگوں کے (جو بے سوچے سمجھے تمہارے پیچھے لگ گئے ہیں)، اور ہم تمہارے اندر اپنے اوپر کوئی فضیلت و برتری (یعنی طاقت و اقتدار، مال و دولت یا تمہاری جماعت میں بڑے لوگوں کی شمولیت الغرض ایسا کوئی نمایاں پہلو) بھی نہیں دیکھتے بلکہ ہم تو تمہیں جھوٹا سمجھتے ہیںo
هود، 11 : 27
حضرت نوح علیہ السلام کے ساتھ کمزور، محنت کش، مزدور، غلام اور محروم لوگ تھے۔ سرداروں نے کسی بڑے سردار یا طاقتور لوگوں کی مخالفت کو یہ سمجھا کہ یہ درست راہ پر نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہم تمہاری بات کس طرح مان لیں، تم خود بھی وڈیرے نہیں ہو، تمہارے محلات نہیں ہیں، تمہارے پاس وسائل نہیں ہیں اور بڑے بڑے سردار تمہارے ساتھ نہیں ہیں، تمہیں کوئی فضیلت اور فوقیت نہیں۔ تمہاری بات کیسے مانیں۔ وڈیروں نے اتراتے ہوئے کہا کہ تم اور تمہارا ساتھ دینے والے انقلابی لوگ سب کے سب غریب اور کمزور ہیں۔ یوں جاگیردار، سرمایہ دار اور وڈیرے ایک طرف ہو گئے اور دوسری طرف غریب، کمزور اور پسماندہ لوگ حضرت صالح علیہ السلام کے ساتھ کھڑے ہو گئے۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے بھی نظامِ جبر کے خلاف آواز بلند کی تو اس سوسائٹی کے غریب، مقہور اور بے بس لوگ آپ علیہ السلام کے ساتھ جمع ہو گئے، جبکہ سردار آپ علیہ السلام کی مخالفت میں جمع ہوگئے اور آپ کو نعوذ باﷲ جادو زدہ قرار دیا۔ قرآن مجید اس بات کو یوں واضح کرتا ہے :
قَالُوْا اِنَّمَآ اَنْتَ مِنَ الْمُسَحَّرِيْنَo وَمَآ اَنْتَ اِلَّا بَشَرٌ مِّثْلُنَا وَاِنْ نَّظُنُّکَ لَمِنَ الْکٰـذِبِيْنَo
وہ کہنے لگے : (اے شعیب!) تم تو محض جادو زدہ لوگوں میں سے ہوo اور تم فقط ہمارے جیسے بشر ہی تو ہو اور ہم تمہیں یقینا جھوٹے لوگوں میں سے خیال کرتے ہیںo
الشعراء، 26 : 185-186
وڈیروں کے ظلم کے خلاف آواز بلند کرنے اور غرباء کے حقوق کا نعرہ بلند کرنے پر وڈیرے پیغمبر خدا کو بھی کہتے کہ معاذ اللہ تمہارا دماغی توازن ٹھیک نہیں، حتیٰ کہ پیغمبر کو جھوٹا کہتے اور اس کی صداقت و امانت پر طعنہ زنی کرتے اور اس کے کردار پر تہمتیں لگاتے۔ حضرت ھود علیہ السلام کے ساتھ بھی وڈیروں نے یہی سلوک کیا۔ قرآن مجید میں ہے :
قَالَ الْمَلَاُ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ قَوْمِهِ اِنَّـا لَنَرٰکَ فِيْ سَفَاهَةٍ وَّاِنَّـا لَـنَـظُـنُّـکَ مِنَ الْکٰـذِبِيْنَo
ان کی قوم کے سرداروں اور رئیسوں نے جو کفر (یعنی دعوتِ حق کی مخالفت و مزاحمت) کر رہے تھے کہا : (اے ہود!) بے شک ہم تمہیں حماقت (میں مبتلا) دیکھتے ہیں اور بے شک ہم تمہیں جھوٹے لوگوں میں گمان کرتے ہیںo
الأعراف، 7 : 66
وہ انقلاب جو سیدنا یوسف علیہ السلام مصر کی سر زمین پر لائے اس کا مطالعہ بھی انہی استحصالی قوتوں کے مکر و فریب کو آشکارا کرتا ہے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے خلاف عوام دشمن جابر استعماری طاقتوں نے ہر سازش و پروپیگنڈا کیا، الزام لگائے حتیٰ کہ انہیں جیل بھجوا دیا۔ مگر حضرت یوسف علیہ السلام کے حوصلے پست نہ ہوئے۔ حضرت یوسف علیہ السلام کا ساتھ مصر کی سر زمین پر کسی طاقت ور، کسی سامراج کے ایجنٹ، کسی دولت مند نے نہیں دیا بلکہ غریب لوگ اور نوجوان پسے ہوئے طبقے حضرت یوسف علیہ السلام کے انقلاب کا ساتھ دیتے رہے۔ بالآخر مصر کی سرزمین میں انقلاب آکر رہا۔
انقلاب< موسوی پر نگاہ ڈالیے۔ سیدنا موسی علیہ السلام جب انقلاب کا اُلوہی پیغام اور دعوت لے کر مصر میں وارد ہوئے تو فرعون جو حکومت و ریاست کا علمبردار تھا آپ کا دشمن ہوگیا۔ طاقت کا علمبردار ہامان آپ کا دشمن ہو گیا۔ دولت کا علمبردار قارون آپ کا دشمن ہو گیا۔ حکومت، سیاست، طاقت، دولت سارے ستون حضرت موسیٰ علیہ السلام کے انقلاب کے مخالف ہو گئے۔ حتیٰ کہ اس وقت منتر پڑھنے والے جادوگر بھی فرعون کے ساتھ تھے۔ الغرض فرعون، قارون، ہامان، حکومت، سیاست، دولت سب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے دشمن تھے اور موسی علیہ السلام کے انقلاب کا ساتھ دینے والے صرف بنی اسرائیل کے مظلوم لوگ اور پسے ہوئے وہ لوگ تھے جن کی بیٹیوں کو زندہ رکھا جاتا تھا اور بیٹوں کو پیدا ہوتے ہی قتل کر دیا جاتا تھا۔ یہ بنی اسرائیل کے پسے ہوئے مجبور، مقہور اور محروم لوگ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ڈر ڈر کے ساتھ دیتے تھے لیکن جد و جہد جاری رہی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام ان غریبوں، مجبوروں، مقہوروں اور بنی اسرائیل کے پسے ہوئے عوام کو ساتھ لے کر بالآخر دریائے نیل عبور کر گئے اور فرعون غرق ہوگیا۔
وہ وقت دور نہیں جب ملک پاکستان کا فرعونی نظام، فرعونی سیاست، قارونی دولت اور ہامانی طاقت بھی انشاء اللہ غرق ہو گی۔ مزدورو، محرومو اور ملوں کی بھٹیوں میں اپنا خون پسینا جلانے والو! تم مایوس نہ ہونا، روشن مستقبل کا سویرا ان شاء اللہ آپ کی زندگیوں میں طلوع ہوگا۔
مکہ و مدینہ کی سرزمین میں آقا علیہ السلام نے انقلاب کے لئے حق کی آواز بلند کی۔ اگر بات صرف توحید و رسالت کی ہوتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے خلاف اتنا منظم پروپیگنڈہ اور دشمنی نہ ہوتی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آواز بلند کرنے سے اس وقت کے سرداروں، جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور طاقتور طبقات کو اپنی سرداریاں چھن جانے کا خطرہ لاحق ہوا، نتیجتاً وہ سارے یکجا ہوگئے۔ اس وقت کے تمام سردار، طاقتور لوگ، قبائل کے سربراہ قبائل کی شکل میں موجود سیاسی جماعتیں تمام ایک طرف ہو گئے اور کہنے لگے : محمد ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) ایک عام قریشی گھرانے سے اٹھنے والا کون ہوتا ہے جو ہماری سرداریوں کو چیلنج کرے۔ یہ کون ہوتاہے جو ہماری وڈیرہ شاہی کو چیلنج کرے۔ یہ کون ہوتا ہے جو ہماری جاگیرداریت اور سرمایہ داریت کو چیلنج کرے۔ اس وقت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انقلاب کا ساتھ دینے والے دو طبقے تھے :
غریبوں میں بلال حبشی اور سلیمان فارسی رضی اللہ عنہم جیسے تھے۔ وہ لوگ جن کے جسم پر پورا کپڑا نہ ہوتا، جن کو زمین پر لٹا کر بھاری پتھر جسموں پر رکھے جاتے، درختوں سے باندھ کر جسموں پر کوڑوں مارے جاتے، خون بہایا جاتا، نہ ان کے پاس روٹی تھی، نہ کپڑا تھا، نہ مکان تھا، نہ روز گار تھا، نہ انصاف تھا، نہ حفاظت تھی، نہ دولت تھی، نہ طاقت تھی۔ الغرض ان غریب مظلوموں کے پاس کچھ نہ تھا۔ ان کی کل متاع ذاتِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عشق کی صورت میں تھی۔ ایسے حالات میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انقلاب کی جد و جہد کی۔ جب کمزور مسلمانوں پر حالات بہت سخت ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا تاکہ ان کی زندگیاں سلامت رہیں۔ اگر طاقتور طبقے آقا علیہ السلام کے ساتھ ہوتے تو تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے غریب اور کمزور مسلمانوں کو نجاشی کی سرزمین حبشہ ہجرت کرنے کا حکم نہ دیتے۔ بالآخر انہی حالات کی وجہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ ہجرت فرمائی۔ اگر مکہ کی ریاست اور معاشرے کے طاقتور لوگ تاجدار کائنات محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوتے تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ و کعبۃ اللہ چھوڑ کر مدینہ ہجرت کیوں کرتے۔ اگر دولت مند لوگ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ہوتے تو مسلمانوں کو یہیں حفاظت مل جاتی۔ طاقت، دولت، سیاست و قیادت سب باطل کی طرف ہو گئے اور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ صرف غلام، غریب اور جوان تھے۔
آقا علیہ السلام کے غریب امتیو! تمہیں مبارک ہو! آج وہی فیض تحریک منہاج القرآن کو ملا ہے؛ جب آقا علیہ السلام کی پیروی میںاپنے حق کے لیے آواز بلند کی تو ساری جماعتوں کے سربراہ اور وڈیرے ایک طرف ہوگئے اور ملک کے سارے غریب ایک طرف ہوگئے۔ صبر و استقامت، کامل بھروسہ اور یقین کے ساتھ بڑھتے چلیں۔ وہ وقت دور نہیں جب اللہ کی مدد و نصرت سے ان وڈیروں کے نظام کی جڑیں کٹ جائیں گی اور غریبوں کو ان کے حقوق مل کے رہیں گے۔ انقلاب کی جنگ کو جاری رکھنا ہے، رکاوٹیں آئیں گی، سرمایہ سب کچھ خرید لیتا ہے، سرمایہ سیاست، قانون، پارلیمنٹ اور ادارے بھی خرید لیتا ہے، مگر غریب کا ضمیر نہیں خرید سکے گا۔
یہ تاریخ ہے کہ جو کمزور کی بات کرتا ہے، وہ بد نیت تصور کیا جاتا ہے۔ جو غریبوں کے حقوق کی بات کرتا ہے وہ غیر ملکی ہوجاتا ہے۔ افسوس یہاں ملکی وہ ہیں جو یہاں سے دولت لوٹ کر سوئٹزرلینڈ کے بینک بھر دیں، جو ملیں اور فیکٹریاں باہر لگائیں، جو پورا ملک لوٹ کے لے جائیں اور جو باہر سے کما کر پاکستان میں دولت لے آئیں افسوس! وہ غیر ملکی کہلائے ہیں۔
اگر یہی لوگ پھر پلٹ کر آ گئے تو نہ غریب بچے گا اور نہ غربت بچے گی۔ نہ ملک بچے گا نہ سلطنت بچے گی۔ اس لیے آپ کو اس مکر و فریب کے خلاف اٹھنا ہو گا۔ تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک نے ہی آئین کا بھولا بسرا سبق آئینی و قانونی اداروں، میڈیا اور عوام کو یاد دلایا اور پھر آئین و قانون کے نام نہاد محافظ ادارے، ملک و قوم کی تقدیر کے نام نہاد مالک ہماری آئینی و قانونی جد و جہد ہی کی وجہ سے بے نقاب ہو گئے۔ یاد رکھیں کہ جد و جہد کبھی ضائع نہیں جاتی۔
٭ حقیقی اسلامی فلاحی مملکت کے قیام، آئینِ پاکستان کی پاسداری اور عوام الناس کو اُن کے جملہ حقوق کی فراہمی میری جدوجہد کا مقصد ہے۔ میں پاکستان کے نام پر بنائے گے اس عظیم گھر کو اللہ رب العزت کی مدد سے قبضہ مافیا سے آزاد کروانا چاہتا ہوں۔ حضرت قائد اعظم کی خواہش کے مطابق اس ملک کے غریب عوام کو ان کے اپنے گھر میں بسانا میرا مقصد ہے۔ میں تمام تر عزت، شان و شوکت، وقار اور حقوق کے ساتھ اس گھر سے بے دخل کئے گئے غریبوں کو دوبارہ یہیں آباد کرانے کی جدوجہد کر رہا ہوں۔ میرے اس عظیم مقصد کے حصول میں اپنے مفادات پر پڑنے والی کاری ضرب کے خوف کی وجہ سے تمام طاقتور طبقات متحد ہو کر ہمارے خلاف صف آراء ہو گئے۔
تاریخ کا مطالعہ اس حقیقت کو آشکار کرتا ہے کہ جس دور میں بھی جس کسی نے حق کی آواز بلند کی، طاقتور استحصالی طبقات اس حق کی آواز کے خلاف یکجا ہو گئے۔ آج بھی اسی طرح مفاد پرست طبقات ہماری مخالفت میں اکٹھے ہیں۔ ان کی تمام تر تدبیریں ناکام ہوں گی اور اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے ان شاء اللہ تعالیٰعلامہ اقبا ل اور قائد اعظم کا حقیقی اسلامی مملکت کا خواب شرمندہ تعبیر ہو گا۔ وہ دن قریب ہے جب اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت اور تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نعلین پاک کے تصدق سے غریب عوام کا سر عزت سے بلند ہو گا۔ انہیں روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، روزگار اور امن و امان جیسے بنیادی حقوق حاصل ہوں گے اور معاشرے کے مفلوک الحال طبقات کے چہروں پر خوشی آئے گی۔
٭ ہماری منزل، ہمارا مقصد اور ہمارا کردار اس باصلاحیت قوم کے افراد کو تعلیم، تربیت، معاش، معاشرت، سیاست، ثقافت، جمہوریت الغرض ہر جہت سے نکھارنا ہے۔ میری جدوجہد اس ملک کی سیاست، کلچر اور ثقافت سے بد تہذیبی کو ختم کرنے کے لیے ہے۔ میں چاہتا ہوں ہر شخص اختلافِ رائے کے باوجود تہذیب کی زبان استعمال کرے۔ الزام و تہمت نہ لگائے، ہر شخص قرآن و سنت، دلیل، منشور، آئین پاکستان اور جمہوریت کے اصولوں کی روشنی میں بات کرے۔ کوئی بھی شخص اپنی زبان کی تلوار کے ذریعے دوسروں کے گلے نہ کاٹے اور نفرتوں کے بیج نہ بوئے بلکہ اپنے عمل و کردار سے محبتوں کو فروغ دے۔
٭ میری جدوجہد اللہ رب العزت کی مدد اور تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت کے ساتھ قوم کی مایوسیوں کو ختم کرنے، گھروں کے اندھیرے ختم کرنے اور امید و یقین کا نور دینے کے لیے ہے۔ دشمن عیار و مکار ہے۔ اس کا پروپیگنڈا بڑا مضبوط ہے۔ طاقت، سیاست اور دولت کے ذرائع کو بروئے کار لا کر وہ قوم کے حوصلوں کو پست کرنے کی کوششیں کر رہا ہے۔ مگر سرزمین پاکستان کے انقلابی ساتھیو! تمہارے حوصلے کبھی پست نہیں ہوں گے۔ دشمن کی سازشیں کبھی بھی آپ کا راستہ نہیں روک سکیں گی۔ انقلاب کا یہ قافلہ، غریبوں، مزدوروں، محنت کشوں، جوانوں، مسلمانوں، غیر مسلموں اور محروموں کی آواز بلند کرتے ہوئے انقلاب کا جھنڈا اٹھا کر ان شاء اللہ آگے بڑھتا رہے گا اور منزل کو پا کر دم لے گا۔ دشمنوں کی سازشوں کے سارے جال ان شاء اللہ بکھر جائیں گے۔ اللہ کی مدد سے آخری فتح عوام کی ہو گی۔ دنیا کی کوئی طاقت ہمیں ہماری منزل کے حصول سے نہیں روک سکے گی۔
٭ میری جدوجہد کا مقصد اس ملک کی سیاست اور جمہوری عمل میں قائداعظم کی سنجیدگی، وقار، اخلاق اور سچائی لانا ہے۔ میں سیاست کو تہذیب اور اخلاق دینا چاہتا ہوں تاکہ نوجوان اور اگلی نسلیں مہذب اور با اخلاق بن سکیں۔ قومیں اپنے لیڈرز کے کردار کو آئیڈیل بناتی ہیں۔ مگر افسوس کہ ہمارے نام نہاد لیڈرز کا کردار دنگا فساد، گالی گلوچ، کرپشن اور لوٹ مار ہے۔ اس کردار سے یہ لیڈر قوم کی نسلوں کی کیا تربیت کریں گے؟ میں اس ملک کی سیاست میں سنجیدگی چاہتا ہوں کہ سیاسی لوگ ایشوز کی بات کریں، منشور کی بات کریں، آئین کی بات کریں، پالیسی کی بات کریں، دہشت گردی کے خاتمے کی بات کریں، غربت کے خاتمے کی بات کریں، مزدوروں اور محنت کشوں کے حقوق کی بات کریں، غیر مسلموں کے حقوق کی بات کریں، جوانوں کے روزگار کی بات کریں اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنا اور کردار کشی کے رواج اور عادت کو ترک کر دیں۔
٭ میری جدوجہد کا مقصد اس قوم کو پر امن قوم بنانا ہے۔ دہشت گردی کا خوف اس قوم سے ختم ہو جائے، میں اقوام عالم کو بتانا چاہتا ہوں کہ پاکستانی قوم انتہا پسند اور دہشت گرد نہیں ہے۔ یہ پر امن قوم ہے اور اس کا کردار اور تصویر پر امن لانگ مارچ کے دوران دنیا دیکھ چکی ہے۔
٭ میری جدوجہد اس ملک سے ایسے نظام کے خاتمے کے لئے ہے جس میں دولت چند ہاتھوں میں سمٹ جائے اور عوام کی اکثریت سرمایہ اور دولت سے محروم ہوجائے۔ ہمارے ہاں قائم تقسیم منصفانہ تقسیم نہیں ہے۔ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
کَيْ لَا يکُوْنَ دُوْلَهًم بَيْنَ الْاَغْنِيَآءِ مِنْکُمْ.
(یہ نظامِ تقسیم اس لیے ہے) تاکہ (سارا مال صرف) تمہارے مالداروں کے درمیان ہی نہ گردش کرتا رہے (بلکہ معاشرے کے تمام طبقات میں گردش کرے)۔
الحشر، 59 : 7.
اسلام کی تعلیمات یہ ہیں کہ ایسا نظام نہ لاؤ جس سے سرمایہ اور دولت چند ہاتھوں میں سمٹ کر رہ جائے اور معاشرے کی اکثریت اس سرمائے سے محروم رہ جائے۔ موجودہ نظام قرآن و حدیث اور آئین پاکستان کی صریحاً خلاف ورزی پر مبنی ہے جس میں غریب عوام کو اُن کے حقوق سے محروم کر دیا گیا ہے۔ یہاں امیر، امیرتر اور غریب، غریب تر ہو رہا ہے۔
مِلیں اِسی لیے ریشم کے ڈھیر بُنتی ہیں
کہ دخترانِ وطن تار تار کو ترسیں
چمن کو اس لیے مالی نے خوں سے سینچا تھا
کہ اُس کی اپنی نگاہیں بہار کو ترسیں
٭ میری جدوجہد کا مقصد غریب عوام کو ان کے حقوق کا شعور دلانا ہے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ محنت کرنے والے کمائی کریں اور سرمایہ دار، غنڈہ گردی، بدمعاش، غریبوں کا خون پسینہ چوسنے والے اور اقتدار کے مزے لوٹنے والے مزدور کی اس کمائی سے فائدہ اٹھائیں۔ ہمیں یہ نظام قبول نہیں ہے۔ یہ نظام اسلام کو قبول نہیں۔ یہ نظام آئین پاکستان کو قبول نہیں۔ یہ نظام جمہوریت کو قبول نہیں۔ اب جمہوریت وہ آئے گی جس میں جمہور کا اقتدار ہوگا۔ جس میں عوام کا اقتدار ہو گا۔ لیکن مایوس نہیں ہونا، انقلاب دو چار افراد کی محنت سے نہیں آتے۔ انقلاب کے لیے وقت بھی لگتا ہے اور زمانہ بھی لگتا ہے۔ اسی لئے ہم میں سے ہر ایک کو استقامت اور عزم مصمم کے ساتھ اپنی جدوجہد کو انقلاب تک جاری رکھنا ہو گا۔
٭ میرا خواب قائداعظم، علامہ اقبال اور ان لاکھوں، کروڑوں مسلمانوں کے خواب سے مختلف نہیں ہے جنہوں نے جان و مال اور عزت و آبرو کی قربانی دے کر اس ملک کو بنایا تھا۔ اس ملک اور اس دھرتی پر بسنے والے ہر دردمند شہری کا خواب بھی یہی ہے۔ ہر غریب، مظلوم، محروم کا خواب بھی یہی ہے۔ یہ ملک قائداعظم نے صرف طاقتور طبقات کے لیے نہیں بنایا تھا بلکہ کروڑوں غریب عوام کے لیے بنایا تھا۔ آج اس ملک کے ذرائع، وسائل، دولت، راحت، سکون، عیش، آرام اور سارے فائدے طاقتور طبقات کے لیے ہیں۔ مگر اٹھارہ کروڑ غریب عوام، محنت کش، مزدور، کسان، مزارع، مالی، عورتیں، مرد، جوان، چھوٹے تاجر، عام شہری اور معصوم بچے جو اسی ملک کے رہنے والے ہیں انہیں اس ملک کے فوائد، راحتوں اور نعمتوں میں سے کچھ بھی دستیاب نہیں۔ ان کے مقدر میں صرف محرومی اور رونا لکھا ہے، مستقبل کو تاریکی میں دیکھتے رہنا اور ترستے رہنا لکھا ہے۔ ہم انشاء اﷲ اِن محرومیوں اور مایوسیوں کے اندھیروں کو دور کریں گے اور مصطفوی انقلاب کی روشنی سے اِس سر زمین پر اسلام، عوام اور جمہوریت کا بول بالا کریں گے۔
پاکستان کو اقوامِ عالم میں ممتاز مقام دلانے کے لئے موجودہ کرپٹ و فرسودہ سیاسی و انتخابی نظام کو خیرباد کہنا ہو گا۔ اس امر کے لئے میرے نزدیک چند بنیادی تبدیلیاں نا گزیر ہیں۔ ان تبدیلیوں کے بغیر پاکستان کے مظلوم عوام کی تقدیر کبھی نہیں بدلے گی۔
عزیزانِ وطن! میں ایسا پاکستان چاہتا ہوں جو علامہ اِقبال رحمۃ اللہ علیہ کے خوابوں کے تعبیر اور قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے تصوّرات کی تکمیل ہو اور جو حقیقی معنوں میں اِسلامی و فلاحی جمہوری ریاست ہو۔
میں ایسا پاکستان چاہتا ہوں جس میں نوجوان نسل اپنے مستقبل کو روشن دیکھے، وہ پاکستان جہاں علم، عمل، کردار، اخلاق، ہنر اور انصاف کی قدر ہو۔ جہاں نیکی کا راج ہو، جہاں انسانیت کا بول بالا ہو اور ظلم کا صفایا ہو۔
میں ایسا پاکستان چاہتا ہوں جس میں :
1۔ ایک خاندان کے لیے زرعی اَراضی کی زیادہ سے زیادہ حد 50 ایکڑ مقرر ہو تاکہ جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہو۔
2۔ بے زمین کسان کو مفت زمین ملے تاکہ دھرتی کا سینہ چیر کر ساری عمر قوم کو اناج فراہم کرنے والا غریب کسان صرف مزارع ہی نہ رہے بلکہ زمین کا مالک بھی بنے۔
3۔ ہر نوجوان کو روزگار میسر ہو یا (روزگار میسر آنے تک) دس ہزار روپے ماہانہ بے روزگار الائونس ملتا ہو تاکہ نوجوانوں کو ملکی ترقی کے دھارے میں شامل کرکے کارآمد اور مؤثر فرد بنایا جاسکے۔
4۔ ہر بے گھر خاندان کو مفت پانچ مرلہ پلاٹ اور گھروں کی تعمیر کے لیے آسان شرائط پر قرضے میسر ہوں۔
5۔ اِستحصالی سرمایہ داریت کا نام و نشان تک نہ ہو اور تمام ملوں اور فیکٹریوں کے منافع میں مزدور پچاس فیصد تک حصہ دار ہوں تاکہ ملک و قوم کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کردینے والے غریب محنت کَش بھی ترقی کے حقیقی ثمرات سے مستفید ہوں۔
6۔ دہشت گردی کے خاتمے کی قومی پالیسی بنا کر دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ پاکستان اَمن کا گہوارہ ہو اور اَقوامِ عالم کی صف میں نمایاں مقام پر کھڑا ہوسکے۔
7۔ ہر شہری کو اس کی تحصیلی و ضلعی عدالتوں میں ہی سستا اور فوری انصاف فراہم ہو، جج غیر سیاسی ہوں اور ججوں کی تعداد میں مناسب اِضافہ ہوگا۔
8۔ SHO کا تعلق متعلقہ علاقے سے ہو اور اس کی منظوری یونین کونسل دے۔
9۔ یکساں نصاب کے تحت میٹرک تک لازمی اور معیاری تعلیم مفت ہو اور اَعلیٰ تعلیم کے لیے ہر خواہش مند طالب علم کو مناسب مواقع ملیں۔
10۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کی جاری کردہ ڈگریاں کینیڈا، امریکہ اور انگلینڈ کی یونی ورسٹیوں کی ڈگریوں کے برابر ہوں۔
11۔ تمام شہریوں کو یکساں اور مفت علاج کی سہولتیں میسر ہوں۔
12۔ شاہانہ صدارتی محل، وزیر اعظم ہاؤس، گورنز ہاؤسز اور وزراء اعلیٰ ہاؤسز کی جگہ یونی ورسٹیاں، لائبریریاں اور ہسپتال قائم ہوں۔
13۔ خواتین کو مساوی مواقع اور مکمل سماجی و معاشی تحفظ فراہم ہو اور ان کے خلاف تمام امتیازی قوانین ختم ہوں۔
14۔ امیروں پر ٹیکس کی شرح زیادہ اور متوسط طبقہ پر کم ہو؛ جب کہ غریبوں پر بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی طرح کا بھی ٹیکس نہ ہو۔
15۔ غریب و متوسط گھرانوں کے لیے بجلی، پانی، گیس اور فون کے بلوں میں ٹیکسز نہ ہوں۔
16۔ سرکاری و غیر سرکاری اور بڑے چھوٹے ملازمین کی تنخواہوں میں پایا جانے والا غیر عادلانہ فرق کم سے کم ہو۔
17۔ صدر، وزیرِ اَعظم، گورنر اور وُزراء اَعلیٰ کے پاس بے تحاشا صوابدیدی اِختیارات اور خصوصی مراعات بالکل نہ ہوں۔
18۔ MNAs اور MPAs کو صوابدیدی اور ترقیاتی فنڈز دینے کا مکروہ سلسلہ بند ہو۔
19۔ ہر جگہ ایک دوسرے سے اخوت، یگانگت اور محبت ہو، جو ایک دوسرے کے دکھ درد بانٹیں۔ جہاں مسجدیں، امام بارگاہیں اور دیگر مذاہب کی عبادت گاہیں امن و سکون کا مرکز بنیں۔ جہاں محبت و رواداری کا درس ملے۔ جہاں تقویٰ و پرہیز گاری کے چشمے پھوٹیں۔ جہاں خدا کی توحید کے نغمے بلند ہوں۔ جہاں تاجدارِ کائنا ت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عشق و محبت اور ادب کے ترانے گونجیں۔ جہاں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا درس ہو۔ جہاں سے مسلمانوں کو سچی مسلمانی کا کردار نصیب ہوسکے۔
20۔ کسی کا خون بہے نہ کسی کی عزت لٹے۔ جہاں لوگ دہشت گردی اور خوف سے محفوظ زندگی پائیں۔ جہاں گھر سے باہر پڑھنے یا روزگار کے لئے جانے والوں کی واپسی کے لئے گھر والے پریشان نہ ہوں، جہاں لوگ رات کے اندھیرے میں بھی بلا خوف و خطر آ جا سکیں۔ جہاں لوگ بھتہ دے کر نہ جئیں۔ جہاں ہر کمزور کو تحفظ اور ہر غریب کو حق و انصاف ملے۔ جہاں مایوسی دکھائی نہ دے بلکہ جس چہرے کو دیکھیں اس پر خوشی، اطمینان اور مسرت نظر آئے۔
موجودہ نظام میں رہتے ہوئے کبھی بھی پاکستان کو ایک حقیقی جمہوری و فلاحی ریاست نہیں بنایا جاسکتا۔ اِس مقصد کے لیے پاکستان کے نظام میں اِنقلابی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ ان اِنقلابی تبدیلیوں کا خاکہ یہ ہے :
1۔ پاکستان کا موجودہ نظام حکومت 1850ء میں انگریز کا قائم کردہ نظام ہے جس میں اِختیارات صرف چند اَفراد کے ہاتھوں میں محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ہم ایسا نظامِ حکومت چاہتے ہیں جس کا ماڈل حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دیا تھا۔ پاکستان کے لیے ہمارا role model مدینہ ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہجرت فرمائی اور مدینہ کو ریاست بنایا تو participatory democracy (شراکتی جمہوریت) دی اور devolution of power کے ذریعے اِختیارات کو نچلے درجے تک منتقل کیا۔ دس دس آدمیوں کے یونٹس پر اُن کا سربراہ نقیب بنایا، دس دس نقیبوں کے اوپر پھر اُن کا سربراہ عریف بنایا اور پھر سو سو عرفاء پر مشتمل پارلیمنٹ بنائی اور تمام اِختیارات آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نیچے منتقل کر دیے۔ عام آدمی کی براہِ راست حکمرانوں تک رسائی تھی اور حکمرانوں کا براہِ راست عوام سے رابطہ تھا اور لوگوں کے مسائل فوری حل ہونا شروع ہوگئے تھے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پاکستان کو اُس مدینہ ماڈل کے مطابق بنایا جائے۔
2۔ وزیرِ اَعظم کا اِنتخاب اَراکینِ اَسمبلی نہ کریں بلکہ جنرل الیکشنز میں براہِ راست عوام کے ووٹ سے ہو تاکہ وزیرِ اَعظم قائدِ اِیوان نہ ہو بلکہ قائدِ عوام ہو۔
3۔ وُزراء کا اِنتخاب میرٹ پر ہو، ذاتی پسند و ناپسند اور اِتحادی پارٹیوں میں وزارتوں کی بندر بانٹ کی بجائے وُزراء کا تقرر پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے میرٹ پر کیا جائے۔ وہ کمیٹی تمام اُمیدواروں کا انٹرویو کرے اور اَہل، قابل اور باصلاحیت فرد ہی وزیر بنے۔ جو ممبر جس محکمہ کا وزیر بنے اُس کے بارے میں مکمل علم رکھتا ہو تاکہ اَفسر شاہی اور بیورو کریسی کو من مانی کرنے کا موقع نہ ملے۔
4۔ اِنتخابات متناسب نمائندگی کے نظام پر party-list system کے مطابق ہوں تاکہ عوام برادری اور علاقائی مسائل کی بنیار پر winning horses کو ووٹ نہ دیں بلکہ سیاسی جماعتوں کو ان کی قیادت، منشور اور قومی پالیسیوں کے مطابق ووٹ دیں۔
5۔ لسانی اور نسلی بنیادوں پر نئے صوبے بنانے کی بجائے اِنتظامی بنیادوں پر ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دے کر تمام صوبائی اَخراجات ختم کیے جائیں تاکہ عوام کا سرمایہ عوامی و فلاحی منصوبوںپر خرچ ہو۔
6۔ ہر صوبے کا گورنر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو۔ صوبائی سطح پر کوئی وزراء نہ ہوں۔ موجودہ شعبہ جاتی سربراہان گورنر کے ماتحت ہوں جو اُس کے اَحکامات کے مطابق کام کریں۔
7۔ اِختیارات نچلی سطح پر منتقل ہوں۔ مرکز کے پاس کرنسی، دفاع، خارجہ پالیسی، ہائر ایجوکیشن، inland security & counter terrorism جیسے بنیادی محکمے ہوں۔ باقی محکمے صوبوں اور ضلعی حکومتوں کو منتقل کردیے جائیں۔
8۔ مقامی حکومتوں کے اِنتخابات کرائے جائیں اور اُنہیں مالی و اِنتظامی اور سیاسی اِختیارات منتقل کیے جائیں۔
9۔ ہر ضلع کا سربراہ میئر ہو جو براہِ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو۔ ضلع پولیس، ایڈمنسٹریشن اور جملہ ضلعی محکمہ جات میئر کے تابع ہوں۔
10۔ ہر تحصیل کا سربراہ ڈپٹی مئیر ہو۔ وہ بھی عوام کے ووٹوں سے براہِ راست منتخب ہو اور تحصیل کے تمام محکمہ جات اُس کے تابع ہوں۔
11۔ گورنر، میئر اور ڈپٹی میئر کم از کم 51 فیصد اکثریت سے منتخب ہوں۔
12۔ تحصیل کے بعد یونین کونسل سطح پر مقامی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں ناظم، نائب ناظم اور کونسلرز عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوں اور ہر طبقے کا نمائندہ اُسی یونین کونسل میں موجود ہو۔ علاقے کے تمام ترقیاتی کام اُن کے ذریعے ہوں تاکہ ہر یونین کونسل کے فنڈز اُن کے ذریعے عوام تک پہنچیں اور عوام کے مسائل اُن کے گھر کی دہلیز پر حل ہونا شروع ہوں۔
13۔ اَفواجِ پاکستان کا ملک کی داخلی سیاست میں کوئی کردار نہ ہو۔ اُن کا کام صرف ملک کی دفاعی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ہے۔ حالتِ اَمن میں اَفواجِ پاکستان اَمنِ عامہ کی بحالی، ترقیاتی کاموں میں معاونت، سول ڈیفنس اور ایمرجنسی ریلیف جیسے کاموں میں مقامی حکومتوں کی معاوِن ہو۔
14۔ کرپٹ لوگوں کا سخت اِحتساب ہو اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا مستقل اور شفاف نظام ہو۔
15۔ یونین کونسل کی سطح پر سول سوسائٹی کے نمائندگان پر مشتمل civil vigilance squad قائم کیا جائے جو مقامی حکومت کی کارکردگی اور اِختیارات کے اِستعمال پر نظر رکھے اور ناجائز اِستعمال اور کرپشن کی شکایت کی صورت میں اس کی شکایت بالائی سطح پر قائم اِحتساب کے ادارے کو کرے۔
16۔ اِحتساب بیورو مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ادارہ ہو جسے آئینی تحفظ حاصل ہو۔ اِحتساب بیورو غیر جانب دار، دیانت دار اور فرض شناس لوگوں پر مشتمل ہو اور قومی، صوبائی اور تحصیلی سطح پر اس کے دفاتر ہوں۔ یونین کونسل کا اِحتساب تحصیلی اِحتساب بیورو کرے جب کہ ضلعی و تحصیلی حکومتوں کا اِحتساب صوبائی احتساب بیورو اور صوبائی و وفاقی حکومتوں کا اِحتساب قومی اِحتساب بیورو کرے۔
17۔ ہر سطح پر اِحتساب بیورو کے فیصلے کے خلاف صرف بالائی سطح پر اپیل دائر کی جاسکے۔ اِس طرح ہر سطح پر اِحتساب کا عمل جاری رہے گا اور کرپشن کرنے والے نمائندوں اور حکمرانوں کے خلاف فوری کارروائی بھی عمل میں آئے گی۔
ہمیں پاکستان کو ایسا گھر بنانے کے لئے اتفاق و اتحاد سے ظلم اور دھاندلی کے خلاف ایک آئینی و قانونی جنگ لڑنا ہو گی۔ انشاء اﷲ ہم اس جنگ میں سرخرو ہوں گے اور پاکستان اقوام عالم میں ایک باعزت و باوقار مقام حاصل کر سکے گا۔
یہ سوچ اس وقت تک پیدا نہیں ہو سکتی جب تک یہ نظام نہیں بدلے گا۔ غریب کو عدل و انصاف نہیں ملے گا۔ یاد رکھیں! انتخاب کے ذریعے اس ملک کے عوام کو حق نہیں ملے گا۔ یہی لٹیرے پلٹ کر اقتدار میں آ جائیں گے۔
اس نظام کے خلاف بغاوت کے لیے اٹھنا ہے۔ اٹھو اور ظلم کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کر دو۔ اٹھو! پوری قوم کو کھڑا کرو اس وقت تک جب تک عدل و انصاف کا سورج طلوع نہ ہو جائے۔ کرپشن، ظلم اور دھاندلی کے گلاس سے گدلا اور گندا پانی پی کر اپنی پیاس کبھی نہ بجھانا۔ میری نصیحت یاد رکھ لو! انتہاء پسندی اور دہشت گردی کے دسترخوان سے حرام کھا کر اپنی بھوک کبھی نہ مٹانا، بھوکے مر جانا مگر دہشت گردی کے دسترخوان سے حرام نہ کھانا۔ اندھیری وادیوں سے اٹھو! ظلم اور ناانصافی کی وادیوں سے اٹھو! برابری، عدل و انصاف اور حقوق کی پہاڑیوں کی چٹانوں تک پہنچو۔ اللہ تمہیں سربلند کر دے گا۔ نفرتوں اور انتہا پسندی کے ریگزاروں سے نکلو اور محبت، رواداری، برداشت اور اعتدال کی عظمتوں تک پہنچو۔ جو سسٹم خدا نے دیا ہے اس کی بنیاد محبت ہے، اس کی بنیاد امید ہے، اس کی بنیاد برابری ہے، اس کی بنیاد عدل و انصاف ہے، اس کی بنیاد اعتدال ہے، اس کی بنیاد نفرت نہیں، لوٹ گھسوٹ نہیں، کرپشن نہیں، انتہاء پسندی نہیں، دہشت گردی نہیں۔ یہ دو الگ کلچر ہیں : ایک کلچر خدا نے دیا ہے اور ایک کلچر شیطان نے دیا ہے۔ خدا والے بنو اور شیطان والوں سے جنگ کا آغاز کر دو۔
مکار سیاسی لیڈروں کے غلط وعدوں اور دھوکوں کی چمک خرید کر اور جھوٹے وعدوں کی چمک لے کر اندھیروں میں نہ بھٹکنا۔ ریاست دشمن سیاست اور غریب دشمن نظام انتخاب کا حصہ بن کر جرم و گناہ کو مزید طاقتور نہ بنانا۔ اس غریب دشمن نظام کا حصہ بن کر اس جرم، دھاندلی، کرپشن کے نظام کو طاقتور نہ بنانا۔ یاد رکھ لیں اگر مقصد فوری طور پر نہ ملے تو کوئی حرج نہیں مگر گدھوں کی طرح حرام پر نہ جھپٹنا۔ علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا :
اے طائر لاہوتی، اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
گدھ نہ بننا اور گدھوں کی طرح نیچے اتر کر مردار کھا کر اپنے پیٹ نہ بھرنا بلکہ شہباز بنے رہنا اور شہبازوں کی طرح اپنی پرواز بلند رکھنا۔ منزل ایک دن تمہارے قدم چومے گی۔
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں
کرگس کا جہاں اور ہے، شاہیں کا جہاں اور
لوگو ! جو لوگ اس فرسودہ نظام کا حصہ بنیں گے وہ مایوسی کی وجہ سے بنیں گے کہ شاید اور کوئی راستہ نہیں۔ نہیں، ایک راہ بند سو راہ کھل جائیں گے۔ یاد رکھ لیں جس نظام سیاست نے اور جس نظام انتخاب نے آپ کو 65 سال سے محروم رکھا ہے، آپ کے ملک کو کمزور اور تباہ حال کر دیا ہے اور کرپشن کا راج کر دیا ہے اگر اسی نظام کو اور انہی لٹیروں کو آپ دوبارہ ووٹ دے کر پھر طاقت دیں گے اور پھر حکومت میں لائیں گے تو آپ مجرم ہوں گے۔ جو لوگ کرپٹ اور ظالم نظام میں ووٹ دیں گے وہ دراصل اس نظام کو قوت دیں گے، اس نظام کو سہارا دیں گے۔ ملک میں حقیقی تبدیلی کے لیے اس دھن، دھونس، دھاندلی اور کرپشن کے نظام کو جرات کر کے ٹھکرانا ہوگا، اس کا حصہ نہیں بننا بلکہ اس کو ٹھکرانا ہوگا۔ ٹھکراؤ گے تو ان شاء اللہ رب العزت کی مدد ملے گی۔
میں دنوں، مہینوں، ہفتوں اور سالوں کی بات نہیں کر سکتا۔ ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہماری جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک غریبوں کے گھروں کو اجالا نہیں مل جاتا، جب تک بھوکوں کو باعزت طریقے سے نوالہ نہیں مل جاتا، جب تک کسان اپنی اگائی ہوئی زمین کا خود مالک نہیں بن جاتا، جب تک مزدور اپنی تخلیق کا پھل خود نہیں کھاتا اور مل کے منافع کے پچاس فیصد کا حصہ دار خود نہیں بن جاتا، جب تک عدل و انصاف پانی کی طرح ہماری سوسائٹی کو سیراب نہ کر دے، جب تک محبت اس ملک سے نفرت کا خاتمہ نہ کر دے، جب تک moderation اور اعتدال پسندی سے انتہا پسندی کا خاتمہ نہ ہوجائے، جب تک امن اور آشتی ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ نہ کر دے، جب تک علم و شعور ملک سے جہالت اور ناخواندگی کا خاتمہ نہ کردے، جب تک معاشی خوشحالی غریبوں کے چہروں پر خوشیاں واپس نہ لے آئے۔ ہمیں اپنی جدوجہد جاری رکھنی ہے۔
مزدورو، محنت کشو، کسانو، چھوٹے تاجرو، ماؤں، بہنو، بیٹیو اور عظیم فرزندو! آج اس جلسے کے بعد مایوسی ختم کرکے اس یقین کے ساتھ گھر واپس لوٹو کہ نظام بالآخر ضرور بدلے گا۔ انقلابی تبدیلی بالآخر ضرور آئے گی، عوام خوشحال ہوں گے، ملک کا مستقبل روشن ہو گا مگر اس کرپٹ انتخابی نظام کے ذریعے نہیں، اس کرپٹ سیاسی کلچر کے ذریعے نہیں بلکہ اس کرپٹ انتخابی نظام اور سیاسی کلچر کی دیواروں کو گرانا ہے اور مسلسل جدوجہد کے ذریعے اس نظام کے خلاف بغاوت کرنی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ پنجاب، سندھ، خیبر پختونخواہ، بلوچستان اور کشمیر و گلگت میں عدل وانصاف اور خوشحالی و ترقی کا سورج طلوع ہو گا مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ ڈٹے رہو، تمہارے قدم نہ لڑکھڑائیں۔ آنے والے وقتوں میں بدی کے ساتھ سمجھوتا نہیں کرنا اور اس نظام کے خلاف بغاوت پر استقامت کے ساتھ ڈٹے رہنا ہے۔
ﷲ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved