90/ 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قِيْلَ: يَا رَسُولَ اللهِ، مَنْ أَکْرَمُ النَّاسِ؟ قَالَ: أَتْقَاهُمْ. فَقَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُکَ. قَالَ: فَيُوسُفُ نَبِيُّ اللهِ بْنُ نَبِيِّ اللهِ ابْنِ نَبِيِّ اللهِ ابْنِ خَلِيْلِ اللهِ. قَالُوا: لَيْسَ عَنْ هَذَا نَسْأَلُکَ قَالَ: فَعَنْ مَعَادِنِ الْعَرَبِ تَسْأَلُونَ خِيَارُهُمْ فِي الْجَاهِلِيَةِ خِيَارُهُمْ فِي الإِسْلَامِ إِذَا فَقُهُوْ. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ.
الحديث رقم: أَخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأَنبياء، باب: قول الله تعالی: واتخذ الله إبراهيم خليلا، 3/ 1224، الرقم: 3175، ومسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: من فضائل يوسف عليه السلام، 4/ 1846، الرقم: 2378، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 367، الرقم: 11249، وأَحمد بن حنبل في المسند، 2/ 431، الرقم: 9564، والدارمي في السنن، 1/ 84، الرقم: 223، وأَبو يعلی في المسند، 11/ 438، الرقم: 6562، والحاکم في المستدرک، 2/ 623، الرقم: 4083، وقال: هذا حديث صحيح، والبخاري في الأَدب المفرد، 1/ 58، الرقم: 129.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ سے پوچھا گیا: یا رسول الله! لوگوں میں سب سے زیادہ کریم کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو ان میں سب سے زیادہ متقی ہے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: ہم اس کے متعلق آپ سے نہیں پوچھ رہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر سب سے کریم الله تعالیٰ کے نبی حضرت یوسف علیہ السلام ہیں جو الله تعالیٰ کے نبی کے بیٹے اور الله تعالیٰ کے خلیل کے پوتے ہیں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا: ہم اس کے بارے میں بھی آپ سے نہیں پوچھ رہے، آپ ﷺ نے فرمایا: پھر تم قبائل عرب کے متعلق مجھ سے پوچھ رہے ہو؟ جو لوگ زمانہ جاہلیت میں افضل تھے وہ لوگ اسلام میں بھی افضل ہیں جبکہ وہ دین میں سمجھ بوجھ حاصل کر لیں۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے۔
91/ 2. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: إِنَّ الْکَرِيْمَ بْنَ الْکَرِيْمِ ابْنِ الْکَرِيْمِ ابْنِ الْکَرِيْمِ يُوْسُفُ بْنُ يَعْقُوْبَ بْنِ إِسْحَاقَ بْنِ إِبْرَاهِيْمَ خَلِيْلِ اللهِ. وَقَالَ الْبَرَاءُ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ: أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ.
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَحَسَّنَهُ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم: أَخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: المناقب، باب: من انتسب إلی آبائه في الإسلام والجاهلية، 3/ 1298، وعن عبد الله بن عمر رضي الله عنهما، في کتاب: تفسير القرآن، باب: قوله: ويتم نعمته عليک وعلی آل يعقوب، 4/ 1728، الرقم: 4411، والترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ، باب: ومن سورة يوسف، 5/ 293، الرقم: 3116، وأَحمد بن حنبل في المسند، 2/ 96، الرقم: 5712، 8373، 9369، وابن حبان في الصحيح، 13/ 92، الرقم: 5776، والطبراني في المعجم الأَوسط، 3/ 116، الرقم: 2657، وأَبو يعلی في المسند، 10/ 338، الرقم: 5932، والبخاري في الأَدب المفرد، 1/ 308، الرقم: 896.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: معزز ابن معزز ابن معزز ابن معزز تو صرف یوسف بن یعقوب بن اسحاق بن حضرت ابراہیم (علی نبینا و علیہم الصلوات والتسلیمات) ہیں اور حضرت براء رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: میں حضرت عبدالمطلب کا بیٹا ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ترمذی اور احمد نے روایت کیا اور امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
92/ 3. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَعْطِيَ يُوْسُفُ عليه السلام شَطْرَ الْحُسْنِ. وفي رواية: أَعْطِيَ يُوْسُفُ وَأَمُّهُ شَطْرَ الْحُسْنِ. رَوَاهَ أَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَالْحَاکِمُ وَأَبُويَعْلَی.
وفي رواية: عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ: أَعْطِيَ يُوْسُفُ عليه السلام وَأَمُّهُ ثُلُثَ حُسْنِ الْخَلْقِ. وفي رواية: ثُلُثَ الْحُسْنِ. رَوَاهُ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
الحديث رقم: أَخرجه أَحمد بن حنبل في المسند، 3/ 286، الرقم: 14082، والحاکم في المستدرک، 2/ 622، الرقم: 4082، وابن أَبي شيبة في المصنف، 4/ 42، 6/ 347، الرقم: 31920. 31921، وأَبو يعلی في المسند، 6/ 107، الرقم: 3373، والطبري في جامع البيان، 12/ 207، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2/ 477. 478، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 203، وقال: ورجاله رجال الصحيح، والعجلوني في کشف الخفاء، 1/ 161، الرقم: 416، وسنده صحيح. .
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: حضرت یوسف علیہ السلام کو کل حسن کا آدھا حصہ عطا ہوا۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ انہیں اور ان کی والدہ محترمہ کو کل حسن کا آدھا حصہ عطا ہوا۔‘‘
اس حدیث کو امام احمد، ابن ابی شیبہ، حاکم اور ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔
اور ایک روایت میں حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’حضرت یوسف علیہ السلام اور آپ کی والدہ ماجدہ کو کل مخلوق کا ایک تہائی حسن نصیب ہوا، اور ایک روایت میں ہے کہ کل حسن کا ایک تہائی حصہ نصیب ہوا۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
93/ 4. عَنْ مُحَمَّدٍ بْنِ جَعْفَرٍ بْنِ مُحَمَّدٍ عَنْ أَبِيْهِ قَالَ: کَانَ عِلْمُ اللهِ وَحِکْمَتُهُ فِي وَرَثَةِ إِبْرَاهِيْمَ فَعِنْدَ ذَلِکَ آتَی اللهُ يُوْسُفَ بْنَ يَعْقُوْبَ مُلْکَ الْأَرْضِ الْمُُقَدَّسَةِ فَمَلَکَ اثْنَيْنِ وَسَبْعِيْنَ سَنَةً وَذَلِکَ قَوْلُهُ فَلَمَّا أَنْزَلَ مِنْ کِتَابِهِ: {رَبِّ قَدْ آتَيْتَنِي مِنَ الْمُلْکِ وَعَلَّمْتَنِي مِنْ تَأَوِيْلِ الْأَحَادِيْثِ} [يوسف، 12: 101]. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 624، 631، الرقم: 4089، 4106.
’’حضرت محمد بن جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: الله تعالیٰ کا علم اور اس کی حکمت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ورثاء کو نصیب ہوتی رہی۔ پس اس وقت الله تعالیٰ نے حضرت یوسف بن یعقوب علیہما السلام کو ارضِ مقدسہ کی حکومت عطا فرمائی پس آپ نے 72 سال حکومت کی اور (قرآن پاک میں) حضرت یوسف علیہ السلام کا یہ فرمان ہے: ’’اے میرے رب! تو نے مجھے بادشاہت عطا فرمائی اور مجھے باتوں کی تاویل سکھائی۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا۔
94/ 5. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ: إِنَّمَا اشْتُرِيَ يُوسُفُ بِعِشْرِيْنَ دِرْهَمًا وَکَانَ أَهْلُهُ حِيْنَ أَرْسِلَ إِلَيْهِمْ وَهُمْ بِمِصْرَ ثَـلَاثُمِائَةٍ وَتِسْعِيْنَ إِنْسَانًا رِجَالُهُمْ أَنْبِيَاءُ وَنِسَاؤُهُمْ صِدِّيْقَاتٌ وَاللهِ، مَا خَرَجُوْا مَعَ مُوْسَی حَتَّی بَلَغُوْا سِتَّمِائَةِ أَلْفٍِ وَسَبْعِيْنَ أَلْفً.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
وَقََالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الإِْسْنَادِ.
الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 625، الرقم: 4091، والطبراني في المعجم الکبير، 9/ 220، الرقم: 9068، والهيثمي في مجمع الزوائد، 7/ 39، وقال: رواه الطبراني ورجاله رجال الصحيح.
’’حضرت عبدالله رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک حضرت یوسف علیہ السلام کو بیس درہم میں خریدا گیا اور آپ علیہ السلام کے اہل کی تعداد جب آپ کو مصر میں ان کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا تین سو نوے انسان تھی۔ ان کے مرد انبیاء اور ان کی عورتیں صدیقات تھیں اور الله کی قسم! وہ سارے موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ نہ نکلے یہاں تک کہ ان کی تعداد چھ لاکھ ستر ہزار نہ ہو گئی۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
95/ 6. عَنْ أَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ وَهُوَ يَصِفَ يُوْسُفَ عليه السلام حِيْنَ رَآهُ فِي السَّمَاءِ الثَّالِثَةِ قَالَ: رَأَيْتُ رَجُـلًا صُوْرَتُهُ کَصُوْرَةِ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ فَقُلْتُ: يَا جِبْرِيْلُ، مَنْ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا أَخُوْکَ يُوْسُفُ. قَالَ ابْنُ إِسْحَاقَ: وَکَانَ اللهُ قَدْ أَعْطَی يُوْسُفَ مِنَ الْحُسْنِ وَالْهَيْبَةِ مَا لَمْ يُعْطِ أَحْدًا مِنَ الْعَالَمِيْنَ قَبْلَهُ وَلَا بَعْدَهُ حَتَّی کَانَ يُقَالُ وَاللهِ، أَعْلَمُ أَنَّهُ أُعْطِيَ نِصْفُ الْحُسْنِ وَقُسِّمَ النِّصْفُ الآخَرُ بَيْنَ النَّاسِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 623، الرقم: 4087، وابن قتيبة فی تأويل مختلف الحديث، 1/ 321.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، اس وقت آپ حضرت یوسف علیہ السلام کا وصف بیان کر رہے تھے جب آپ ﷺ نے انہیں (معراج کی رات) تیسرے آسمان پر دیکھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے ایسا شخص دیکھا جس کی صورت چودھویں رات کے چاند کی طرح تھی۔ پس میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون ہے؟ انہوں نے عرض کیا: یہ آپ کے بھائی حضرت یوسف علیہ السلام ہیں۔ ابن اسحاق کہتے ہیں: الله تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو وہ حسن و ہیبت عطا کر رکھی تھی جو عالمین میں سے آپ سے پہلے نہ آپ کے بعد کسی کو عطا کی۔ یہاں تک کہ کہا جاتا تھا کہ الله کی قسم! میں یہ جانتا ہوں کہ حضرت یوسف علیہ السلام کو پورے حسن کا آدھا حصہ اور دوسرا حصہ (تمام) لوگوں کو عطا ہوا۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا۔
96/ 7. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ: أَعْطِيَ يُوْسُفُ وَأَمُّهُ ثُلُثَيِ الْحُسْنِ مِنْ حُسْنِ النَّاسِ فِي الْوَجْهِ وَالْبَيَاضِ وَغَيْرِ ذَلِکَ وَکَانَتِ الْمَرْأَةُ إِذَا أَتَتْهُ غَطَّی وَجْهَهُ مَخَافَةَ أَنْ تَفْتَتِنَ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
الحديث رقم: أَخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 9/ 106، الرقم: 8557، والحکيم الترمذي في نوادر الأَصول، 1/ 297، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 2/ 478، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 203، وقال: رواه الطبراني موقوفا، ورجاله رجال الصحيح.
’’حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت یوسف علیہ السلام اور آپ کی والدہ محترمہ کو لوگوں کے حسن میں سے دو تہائی حسن چہرہ اور سفیدی اور اس کے علاوہ دوسری چیزوں میں عطا ہوا اور جب کوئی عورت آپ کے پاس آتی تو آپ علیہ السلام اپنے چہرے کو ڈھانپ لیتے مبادا وہ عورت کسی فتنہ میں مبتلا نہ ہوجائے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال، صحیح حدیث کے رجال ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved