81/ 1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: کَانَ النَّبِيُّ ﷺ يُعَوِّذُ الْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ وَيَقُولُ: إِنَّ أَبَاکُمَا يُعَوِّذُ بِهَا إِسْمَاعِيْلَ وَإِسْحَاقَ: {أَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ کُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ کُلِّ عَيْنٍ وَلَامَّةٍ}. رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُوْدَاوُدَ وَالنِّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَةَ.
الحديث رقم: أخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأنبياء، باب: قول الله تعالی: واتخذ الله إبراهيم خليلا، 3/ 1233، الرقم: 3191، والترمذي في السنن، کتاب: الطب عن رسول الله ﷺ، باب: ماجاء في الرقية من العين، 4/ 396، الرقم: 2060، وقال: هذا حديث حسن، وأبوداود في السنن، کتاب: السنة، باب: في القرآن، 4/ 235، الرقم: 4737، وابن ماجة في السنن، کتاب: الطب، باب: ماعوّذ به النبيّ ﷺ وما عُوّذ به، 2/ 1164، الرقم: 3525، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 250، الرقم: 10844، وأحمد بن حنبل في المسند، 1/ 270، الرقم: 2434، وابن أبي شيبة في المصنف، 5/ 47، الرقم: 23577.
’’حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ امام حسن اور حسین علیھما السلام کے لئے (خصوصی طور پر) کلمات تعوّذ کے ساتھ دم کرتے اور فرماتے: تمہارے جد امجد (حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی) اپنے دونوں صاحبزادوں حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق علیھما السلام کو ان ہی کلماتِ تعوذ کے ساتھ دم کیا کرتے تھے: {أَعُوذُ بِکَلِمَاتِ اللهِ التَّامَّةِ مِنْ کُلِّ شَيْطَانٍ وَهَامَّةٍ وَمِنْ کُلِّ عَيْنٍ وَلَامَّةٍ} ’’میں اللہ تعالیٰ کے کامل کلمات کے ذریعے ہر (وسوسہ اندازی کرنے والے) شیطان اور بلا سے اور ہر نظر بد سے پناہ مانگتا ہوں۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری، ترمذی، ابوداود، نسائی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے۔
82/ 2. عَنْ کَعْبٍ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ إِسْمَاعِيْلُ بْنُ إِبْرَاهِيْمَ نَبِيُّ اللهِ الَّذِي سَمَّاهُ اللهُ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَجُلًا فِيْهِ حِدَّةٌ. يُجَاهِدُ أَعْدَاءَ اللهِ وَيُعْطِيْهِ اللهُ النَّصْرَ عَلَيْهِمْ وَالظَّفَرَ، وَکَانَ شَدِيْدَ الْحَرْبِ عَلَی الْکُفَّارِ لَا يَخَافُ فِي اللهِ لَومَةَ لَائِمٍ صَغِيْرَ الرَّأَسِ، غَلِيْظَ الْعُنُقِ، طَوِيْلَ الْيَدَيْنِ وَالرِّجْلَيْنِ. يَضْرِبُ بِيَدَيْهِ رُکْبَتَيْهِ وَهُوَ قَائِمٌ، صَغِيْرَ الْعَيْنَيْنِ، طَوِيْلَ الْأَنْفِ، عَرِيْضَ الْکَتْفِ، طَوِيْلَ الْأَصَابِعِ، بَارِزَ الْخَلْقِ. قَوِيٌّ شَدِيْدٌ، عَنِيْفٌ عَلَی الْکُفَّارِ وَکَانَ يَأَمُرُ أَهْلَهُ بِالصَّـلَاةِ وَالزَّکَاةِ وَکَانَ عِنْدَ رَبِّهِ مَرْضِیًّ. قَالَ: وَکَانَتْ زَکَاتُهُ الْقُرْبَانَ إِلَی اللهِ مِنْ أَمْوَالِهِمْ وَکَانَ لَا يَعِدُ أَحَدًا شَيْئًا إِلَّا أَنْجَزَهُ فَسَمَّاهُ اللهُ صَادِقَ الْوَعْدِ وَکَانَ رَسُوْلًا نَبِیًّ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 603، الرقم: 4033.
’’حضرت کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت اسماعیل بن ابراہیم علیہما السلام اللہ تعالیٰ کے وہ نبی تھے جنہیں اللہ تعالیٰ نے صادق الوعد (یعنی وعدے کے سچے) کا نام دیا اور آپ علیہ السلام ایسے شخص تھے جن میں (حق کے معاملہ میں) سختی پائی جاتی تھی۔ آپ علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے دشمنوں کے خلاف جہاد کرتے اور اللہ تعالیٰ آپ علیہ السلام کو ان پر فتح و نصرت عطا فرماتا اور آپ علیہ السلام کفار کے خلاف بہت زیادہ لڑائی کرنے والے تھے اور اللہ تعالیٰ کے معاملہ میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے تھے۔ آپ متناسب سر، بھاری گردن، لمبے ہاتھوں اور لمبی ٹانگوں والے تھے۔ آپ علیہ السلام اپنے ہاتھ حالتِ قیام میں اپنے گھٹنوں پر مار سکتے تھے۔ چھوٹی آنکھوں، لمبی ناک، چوڑے شانوں، لمبی انگلیوں والے اور لوگوں میں سب سے نمایاں دکھائی دیتے تھے۔ آپ علیہ السلام بہت زیادہ طاقتور اور کفار پر بہت زیادہ سخت تھے، آپ علیہ السلام اپنے گھر والوں کو نماز اور زکوٰہ کا حکم دیتے تھے اور اپنے رب کے ہاں محبوب تھے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کی زکوٰۃ اپنے اہل کے اموال میں سے اللہ کا قرب حاصل کرنا تھا اور آپ علیہ السلام کسی شخص سے کسی چیز کا وعدہ نہیں فرماتے تھے مگر یہ کہ آپ اس وعدہ کو ضرور پورا کرتے۔ پس اللہ تعالیٰ نے آپ علیہ السلام کا نام صادق الوعد رکھا اور آپ علیہ السلام اللہ کے سچے رسول اور نبی تھے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا۔
83/ 3. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: اَلذَّبِيْحُ إِسْمَاعِيْلُ.
وفي رواية: عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضي الله عنهما: {وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ} [الصافات، 37: 107]، قَالَ: إِسْمَاعِيْلُ ثُمَّ ذَبَحَ إِبْرَاهِيْمُ الْکَبْشَ.
وفي رواية: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما أَنَّهُ قَالَ: الْمَفْدِيُّ إِسْمَاعِيْلُ وَزَعَمَتِ الْيَهُوْدُ أَنَّهُ إِسْحَاقُ وَکَذَبَتِ الْيَهُوْدُ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 604. 605، الرقم: 4034. 4035، 4037. 4038، والطبري في جامع البيان، 23/ 83. 85، والقرطبي في الجامع لأَحکام القرآن، 15/ 101، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 4/ 19، والعسقلاني في فتح الباري، 12/ 378. 379، والطبري في تاريخ الأَمم والملوک، 1/ 160.
’’حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ ذبیح حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں۔
اور ایک روایت میں حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما آیہ مبارکہ: {وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ} کی وضاحت میں فرماتے ہیں کہ ذبح عظیم سے مراد حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں، پھر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے (ان کی جگہ جنتی) مینڈھے کو ذبح کیا۔
اور ایک روایت میں حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ جس کا فدیہ دیا گیا وہ حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں اوریہود کا یہ گمان ہے کہ وہ حضرت اسحاق علیہ السلام ہیں اور یہود جھوٹے ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور طبری نے روایت کیا ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
84/ 4. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما في قوله ل: {وَإِنَّ مِنْ شِيْعَتِهِ لإَِبْرَاهِيْمَ} [الصافات، 37:83]، قَالَ: مِنْ شِيْعَةِ نُوْحٍ إِبْرَاهِيْمُ عَلَی مِنْهَاجِهِ وَسُنَّتِهِ بَلَغَ مَعَهُ السَّعْيَ شَبَّ حَتَّی بَلَغَ سَعْيُهُ سَعْيَ إِبْرَاهِيْمَ فِي الْعَمَلِ: {فَلَمَّا أَسْلَمَا} مَا أَمِرَ بِهِ {وَتَلَّهُ لِلْجَبِيْنِ} [الصافات، 37:103]، وَضَعَ وَجْهَهُ إِلَی الْأَرْضِ فَقَالَ: لَا تَذْبَحُنِي، وَأَنْتَ تَنْظُرُ عَسَی أَنْ تَرْحَمَنِي، فَـلَا تُجَهِزُ عَلَيَّ. ارْبُطْ يَدَيَّ إِلَی رَقْبَتِي، ثُمَّ ضَعْ وَجْهِي عَلَی الْأَرْضِ، فَلَمَّا أَدْخَلَ يَدَهُ لِيَذْبَحَهُ فَلَمْ يَحُکَّ الْمُدْيَةُ حَتَّی نُوْدِيَ: {اَنَّ يَا اِبْرَاهِيْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا}، [الصافات، 37: 104. 105]، فَأَمْسَکَ يَدَهَ وَرَفَعَ، قَوْلُهُ: {وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ}، [الصافات، 37:107]، بِکَبْشٍ عَظِيْمٍ مُتَقَبَّلٍ، وَزَعَمَ ابْنُ عَبَّاسٍ أَنَّ الذَّبِيْحَ إِسْمَاعِيْلُ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 468، الرقم: 3612، والطبري في جامع البيان، 23/ 80، وفي تاريخ الأَمم والملوک، 1/ 166، والعسقلاني في تغليق التعليق، 5/ 267، الرقم: 103.
’’حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما اللہ تعالیٰ کے اس قول: ’’بے شک ان کے گروہ میں سے ابراہیم ( علیہ السلام ) (بھی) تھے۔‘‘ کے بارے میں بیان کرتے ہیں کہ اس سے مراد ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے گروہ میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام تھے جو ان کے راستے اور سنت پر تھے۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام جب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ دوڑ کر چل سکنے (کی عمر) کو پہنچ گئے اور جوان ہو گئے یہاں تک کہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عمل میں سعی و کوشش حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سعی و کوشش تک پہنچ گئی۔ پس جب دونوں نے حکم الٰہی کو تسلیم کر لیا جس کا انہیں حکم دیا گیا تھا اور حضرت ابراہیم ( علیہ السلام ) نے انہیں پیشانی کے بل لٹا دیا تو حضرت اسماعیل علیہ السلام نے کہا: آپ مجھے ذبح نہیں کر رہے اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ شاید آپ مجھ پر رحم کریں اور نہ ہی مجھے ذبح کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ پس آپ میرے ہاتھ میری گردن کے ساتھ باندھ دیں پھر مجھے پیشانی کے بل لٹا دیں۔ پس جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنا ہاتھ چھری نکالنے کے لئے ڈالا تاکہ انہیں ذبح کر سکیں لیکن چھری نہ چلی یہاں تک کہ انہیں ندا دی گئی: ’’اے ابراہیم! واقعی تم نے اپنا خواب (کیا خوب) سچا کر دکھایا۔‘‘ تو انہوں نے اپنا ہاتھ روک لیا (ان کی گردن سے) اٹھا لیا۔
الله تعالیٰ کے قول {وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍ} سے مراد ہے بارگاہِ الٰہی میں مقبول مینڈھے (کی قربانی کے بدلے) اور حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما کے خیال کے مطابق ذبیح سے مراد حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں۔‘‘
اسے امام حاکم اور طبری نے روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
85/ 5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: أَوَّلُ مَنْ نَطَقَ بِالْعَرَبِيَةِ وَوَضَعَ الْکِتَابَ عَلَی لَفْظِهِ وَمَنْطَقِهِ ثُمَّ جَعَلَ کِتَاباً وَاحِدًا مِثْلُ بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ الْمَوْصُوْلِ حَتَّی فَرَّقَ بَيْنَهُ وَلَدُهُ إِسْمَاعِيْلُ بْنُ إِبْرَاهِيْمَ صلوات الله عليهم. رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.
الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 602، الرقم: 4029، والبيهقي في شعب الإيمان، 2/ 233، الرقم: 1617، والعسقلاني في فتح الباري، 6/ 403.
’’حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ سب سے پہلے جس شخص نے عربی زبان بولی اور اپنے الفاظ اور منطق (بول چال) پر کتاب کو وضع کی پھر کتاب کو اس طرح ایک کیا کہ وہ آپس میں ملی ہوئی ہو جیسا بسم الله الرحمن الرحیم کی کتابت، یہاں تک کہ اس کتابت کو جدا جدا کیا، (ان تمام امور کو سر انجام دینے والے) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لختِ جگر حضرت اسماعیل علیہ السلام ہیں۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved