72/ 1. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: خَطَبَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فَقَالَ: يَأَيُهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ مَحْشُوْرُوْنَ إِلَی اللهِ حُفَاةً عُرَاةً غُرْلًا ثُمَّ قَالَ: {کَمَا بَدَأَنَا أَوَّلَ خَلْقٍ نُعِيْدُهُ وَعْدًا عَلَيْنَا إِنَّا کُنَّا فَاعِلَيْنَ} [الأَنبياء، 21:104]، ثُمَّ قَالَ: أَلاَ وَإِنَّ أَوَّلَ الْخَلَائِقِ يُکْسَی يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِبْرَاهِيْمُ الحديث. مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ وَهَذَا لَفْظُ الْبُخَارِيِّ.
الحديث رقم: أَخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: تفسير القرآن، باب: وکنت عليهم شهيدا مادمت فيهم، 4/ 1691، الرقم: 4349، ومسلم في الصحيح، کتاب: الجنة وصفة نعيمها وأَهلها، 4/ 2194، الرقم: 2860، والترمذي في السنن، کتاب: صفة القيامة والرقائق والورع عن رسول الله ﷺ، باب: ماجاء في شأَن الحشر، 4/ 615، الرقم: 2423، وقال: هذا حديث حسن صحيح، والنسائي في السنن، کتاب: الجنائز، باب: البعث، 4/ 114، الرقم: 2081. 2083، وأَحمد بن حنبل في المسند، 1/ 223، الرقم: 1950، وابن حبان في الصحيح، 16/ 323، الرقم: 7328، والدارمي في السنن، 2/ 419، الرقم: 2800.
’’حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم ﷺ نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا: اے لوگو! تم روزِ حشر الله تعالیٰ کی بارگاہ میں یوں حاضر کیے جاؤ گے کہ برہنہ پا، ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے ہو گے۔ پھر آپ ﷺ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ’’جس طرح ہم نے (کائنات کو) پہلی بار پیدا کیا تھا، ہم (اس کے ختم ہو جانے کے بعد) اسی عملِ تخلیق کو دہرائیں گے۔‘‘ پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ساری مخلوق میں سب سے پہلے جنہیں لباس پہنایا جائے گا وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہوں گے۔‘‘
یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ امام بخاری کے ہیں۔
73/ 2. عَنْ أَمِّ شَرِيْکٍ رضي الله عنها: أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ أَمَرَ بِقَتْلِ الْوَزَغِ وَقَالَ: وَکَانَ يَنْفُخُ عَلَی إِبْرَاهِيْمَ عليه السلام .
رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ وَأَحْمَدُ.
الحديث رقم: أَخرجه البخاري في الصحيح، کتاب: الأَنبياء، باب: قول الله تعالی: واتخذ الله إبراهيم خليلا، 3/ 1226، الرقم: 3180، وأَحمد بن حنبل في المسند، 6/ 200، الرقم: 25684، وابن راهويه في المسند، 2/ 530، الرقم: 1113، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 450، الرقم: 1559، والبيهقي في السنن الکبری، 8/ 316، والمنذري في الترغيب والترهيب، 3/ 380، الرقم: 4516.
’’حضرت اُمِ شریک رضی الله عنہا بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے چھپکلی کو مارنے کا حکم دیا ہے اور آپ ﷺ نے فرمایا: یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے (نمرود کی) جلائی گئی آگ میں (اسے بھڑکانے کے لئے) پھونکیں مارتی تھی۔‘‘
اس حدیث کو امام بخاری اور احمد نے روایت کیا ہے۔
74/ 3. عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَی رَسُوْلِ اللهِ ﷺ فَقَالَ: يَا خَيْرَ الْبَرِيَةِ فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: ذَاکَ إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام . رَوَاهُ مُسْلِمٌ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنِّسَائِيُّ وَأَحْمَدُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ.
وفي روية لإبن وعساکر: أَنَّ رَجُلًا قَالَ لِلنَّبِيِّ ﷺ: يَا خَيْرَ النَّاسِ قَالَ: ذَاکَ إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام قَالَ: يَا أَعْبَدَ النَّاسِ، قَالَ: ذَاکَ دَاوُدُ عليه السلام .
الحديث رقم: أَخرجه مسلم في الصحيح، کتاب: الفضائل، باب: من فضائل إبراهيم الخليل عليه السلام، 4/ 1839، الرقم: 2369، وأَبو داود في السنن، کتاب: السنة، باب: في التخيير بين الأَنبياء عليهم السلام، 4/ 218، الرقم: 4672، والنسائي في السنن الکبری، 6/ 520، الرقم: 11692، وأَحمد بن حنبل في المسند، 3/ 178، 184، الرقم: 12849، 12930. 12931، وابن أَبي شيبة في المصنف، 6/ 329، الرقم: 31816، وأَبو يعلی في شعب اليمان، 2/ 183، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 6/ 220، 7/ 86.
’’حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا خیر البریۃ! (اے مخلوق میں سب سے زیادہ بہتر) آپ ﷺ نے فرمایا: وہ ابراہیم علیہ السلام ہیں (یعنی یہ ان کا لقب ہے)۔‘‘
اس حدیث کو امام مسلم، ابو داود، نسائی، احمد اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے۔
اور ابن عساکر کی روایت میں ہے: ’’ایک آدمی نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا خیر الناس! (اے لوگوں میں سب سے زیادہ بہتر)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں (یعنی یہ ان کا لقب ہے)۔ پھر اس آدمی نے عرض کیا: یا اَعبد الناس! (یعنی اے سب لوگوں سے بڑھ کر عبادت گزار)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ حضرت داود علیہ السلام ہیں (یعنی یہ ان کا لقب ہے)۔‘‘
75/ 4. عَنْ عَبْدِ اللهِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: إِنَّ لِکُلِّ نَبِيٍّ وُلَاةً مِنَ النَّبِيِّيْنَ وَإِنَّ وَلِيِّي أَبِي وَخَلِيْلُ رَبِّي (وفي رواية للحاکم: وَأَنَّ وَلِيِّي، وَخَلِيْلِي، أَبِي إِبْرَاهِيْمُ) ثُمَّ قَرَأَ: {إِنَّ أَوْلَی النَّاسِ بِإِبْرَاهِيْمَ لَلَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ وَهَذَا النَّبِيُّ وَالَّذِيْنَ آمَنُوْا وَاللهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِيْنَ}، [آل عمران، 3: 68]. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْحَاکِمُ وَالْبَزَّارُ.
وَقَالَ التِّرْمِذِيُّ: هَذَا أَصَحُّ، وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم: أَخرجه الترمذي في السنن، کتاب: تفسير القرآن عن رسول الله ﷺ، باب: ومن سورة آل عمران، 5/ 223، الرقم: 2995، وأَحمد بن حنبل في المسند، 1/ 400، 429، الرقم: 3800، 4088، والحاکم في المستدرک، 2/ 320، 603، الرقم: 3151، 4030. 4031، والبزار في المسند، 5/ 345، 351، الرقم: 1973، 1981، وابن منصور في السنن، 3/ 1047، الرقم: 501، سنده صحيح.
’’حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک ہر نبی کے انبیاء کرام میں سے دوست ہوتے ہیں اور بے شک میرے دوست، میرے والد اور میرے رب کے دوست ہیں (اور حاکم کی روایت میں ہے: اور بے شک میرے دوست اور میرے خلیل میرے والد حضرت ابراہیم علیہ السلام ہیں) پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی: (بیشک سب لوگوں سے بڑھ کر ابراہیم ( علیہ السلام ) کے قریب (اور حقدار) تو وہی لوگ ہیں جنہوں نے ان (کے دین) کی پیروی کی ہے اور (وہ) یہی نبی ( ﷺ ) اور (ان پر) ایمان لانے والے ہیں، اور اللہ ایمان والوں کا مددگار ہے)۔‘‘
اس حدیث کو امام ترمذی، حاکم اور بزار نے روایت کیا ہے نیز امام ترمذی نے فرمایا کہ اس حدیث کی سند صحیح ترین ہے اور امام حاکم نے بھی فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
76/ 5. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: لَمَّا بَنَی إِبْرَاهِيْمُ الْبَيْتَ أَوْصَی اللهُ إِلَيْهِ أَنْ أَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ قَالَ: فَقَالَ إِبْرَاهِيْمُ: أَلاَ إِنَّ رَبَّکُمْ قَدِ اتَّخَذَ بَيْتًا وَأَمَرَکُمْ أَنْ تَحُجُّوْهُ فَاسْتَجَابَ لَهُ مَا سَمِعَهُ مِنْ حَجَرٍ، أَوْ شَجَرٍ، أَوْ أَکَمَةٍ، أَوْ تُرَابٍ لَبَّيْکَ اللَّهُمَّ لَبَّيْکَ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالْبَيْهَقِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.
الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 601، الرقم: 4026، والبيهقي في السنن الکبری، 5/ 176، الرقم: 9613، وفي شعب اليمان، 3/ 439، الرقم: 3998، والطبري في جامع البيان، 17/ 144، وفي تاريخ الأَمم والملوک، 1/ 156، والزيلعي في نصب الرأَية، 3/ 22.
’’حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیت اللہ کی تعمیر مکمل کر لی تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ لوگوں میں حج کی ندا دیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے پکارا: جان لو! بے شک تمہارے رب نے ایک گھر بنایا ہے اور تمہیں یہ حکم دیا ہے کہ تم اس کی زیارت (حج) کرو۔ پس ان کی ندا پر پتھروں، درختوں، ٹیلوں اور مٹی میں سے جس جس نے اس ندا کو سنا {لَّبيْک اللّٰهمَّ لبَّيْک} ’’اے اللہ ہم حاضر ہیں ہم حاضر ہیں‘‘ کہا۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور بیہقی نے روایت کیا ہے نیز امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
77/ 6. عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنهما قَالَ: الإِْسْلَامُ ثَـلَاثُوْنَ سَهْمًا وَمَا ابْتُلِيَ بِهَذَا الدِّيْنِ أَحَدٌ فَأَقَامَهُ إِلَّا إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام قَالَ اللهُ تَعَالَی: {وَإِبْرَاهِيْمُ الَّذِي وَفّٰی} [النجم، 53:37] فَکَتَبَ اللهُ لَهُ بَرَائَةً مِنَ النَّارِ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَابْنُ أَبِي شَيْبَةَ مُخْتَصَرً.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.
الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 602، الرقم: 4027، وابن أَبي شيبة في المصنف، 6/ 331، الرقم: 31829، والطبري في جامع البيان، 1/ 524، وفي تاريخ الأَمم والملوک، ا/ 168، وابن عساکر في تاريخ دمشق الکبير، 6/ 194.
’’حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما بیان کرتے ہیں کہ اسلام کے تیس حصے ہیں اور کوئی شخص ایسا نہیں جسے اس دین کے ذریعے آزمایا گیا اور وہ اس آزمائش پر پورا اترا ہو سوائے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور حضرت ابراہیم علیہ السلام جنہوں نے (اللہ کے ہر امر کو) بتمام و کمال پورا کیا۔‘‘ پس (اسی وجہ سے) اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے آگ سے براء ت مقدر کر دی۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور ابن ابی شیبہ نے مختصرا روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
78/ 7. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: فَيَقُولُوْنَ: يَا إِبْرَاهِيْمُ، أَنْتَ خَلِيْلُ الرَّحْمٰنِ، قَدَ سَمِعَ بِخُلَّتِکَ أَهْلُ السَّمَاوَاتِ وَأَهْلُ الْأَرْضِ. رَوَاهُ الْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 599، الرقم: 4017، والعسقلاني في فتح الباري، 6/ 395، الرقم: 3181.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: (روزِ حشر) لوگ کہیں گے: اے ابراہیم! آپ اللہ تعالیٰ کے دوست ہیں اور آپ کی دوستی کا آسمان والوں اور زمین والوں نے بھی خوب سن رکھا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم نے روایت کیا ہے۔ اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
79/ 8. عَنْ سَمُرَةَ رضی الله عنه قَالَ: کَانَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ يَقُوْلُ: إِنَّ الْأَنْبِيَاءَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ کُلُّ اثْنَيْنِ مِنْهُمْ خَلِيْلَانِ دُوْنَ سَائِرِهِمْ قَالَ: فَخَلِيْلِي مِنْهُمْ يَومَئِذٍ خَلِيْلُ اللهِ إِبْرَاهِيْمُ عليه السلام . رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ.
الحديث رقم: أَخرجه الطبراني في المعجم الکبير، 7/ 258، الرقم: 7052، والذهبي في ميزان الاعتدال، 6/ 397، والعسقلاني في لسان الميزان، 6/ 15، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 201.
’’حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک انبیاء کرام علیھم السلام میں سے ہر دو نبی دوسرے تمام لوگوں کے علاوہ روزِ قیامت آپس میں دوست ہوں گے، آپ ﷺ نے فرمایا: پس اس دن ان میں سے میرا دوست وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کا بھی دوست ہے یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے۔
80/ 9. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: إِنَّ فِي الْجَنَّةِ قَصْرًا مِنْ دُرٍّ لَا صَدْعَ فِيْهِ وَلَا وَهْنٌ أَعَدَّهُ اللهُ لِخَلِيْلِهِ إِبْرَاهِيْمَ عليه السلام .
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَزَّارُ بِنَحْوِهِ وَرِجَالُهُمَا رِجَالُ الصَّحِيْحِ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ.
الحديث رقم: أَخرجه الطبراني في المعجم الأَوسط، 6/ 329، الرقم: 6543، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 201، وقال: ورواه البزار بنحوه، وابن کثير في قصص الأَنبياء، 1/ 179.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک جنت میں موتیوں سے بنا ہوا ایک محل ہے جس میں نہ تو کوئی شگاف ہے اور نہ ہی کسی قسم کی کوئی کمزوری، اس گھر کو الله تعالیٰ نے اپنے دوست حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے تیار کیا ہے۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور امام بزار نے بھی اسی طرح کی حدیث روایت کی ہے اور ان دونوں کے رجال رجالِ صحیح ہیں جیسا کہ امام ہیثمی نے بیان کیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved