59/ 1. عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: خَيْرُ يَوْمٍ طَلَعَتْ فِيْهِ الشَّمْسُ يَوْمُ الْجُمُعَةِ فِيْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِيْهِ أَهْبِطَ، وَفِيْهِ تِيْبَ عَلَيْهِ وَفِيْهِ قُبِضَ، وَفِيْهِ تَقُوْمُ السَّاعَةُ الحديث.
رَوَاهُ النِّسَائِيُّ وَالْحَاکِمُ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم 59: أَخرجه النسائي في السنن، کتاب: الجمعة، باب: ذکر الساعة التی يستجاب فيها الدعاء يوم الجمعة، 3/ 113. 114، الرقم: 1430، والحاکم في المستدرک، 2/ 593، الرقم: 3999، والطبري في تاريخ الأَمم والملوک، 1/ 75.
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بہترین دن جس میں سورج طلوع ہوا جمعہ کا دن ہے۔ اسی دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن آپ کو زمین پر اتارا گیا، اور اسی دن آپ کی توبہ قبول ہوئی، اور اسی دن آپ کی روح قبض کی گئی اور اسی دن قیامت ہو گی۔‘‘
اس حدیث کو امام نسائی اور حاکم نے روایت کیا ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح ہے۔
60/ 2. عَنْ أَبِي لُبَابَةَ بْنِ عَبْدِ الْمُنْذِرِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: إِنَّ يَوْمَ الْجُمُعَةِ سَيِّدُ الْأَيَامِ، وَأَعْظَمُهَا عِنْدَ اللهِ وَهُوَ أَعْظَمُ عِنْدَ اللهِ مِنْ يَومِ الْأَضْحَی، وَيَومِ الْفِطْرِ، فِيْهِ خَمْسُ خِلَالٍ: خَلَقَ اللهُ فِيْهِ آدَمَ إِلَی الْأَرْضِ، وَفِيْهِ تَوَفَّی اللهُ آدَمَ، وَفِيْهِ سَاعَةٌ لَا يَسْأَلُ اللهَ فِيْهَا الْعَبْدُ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ مَا لَمْ يَسْأَلْ حَرَامًا، وَفِيْهِ تَقُومُ السَّاعَةُ مَا مِنْ مَلَکٍ مُقَرَّبٍ وَلَا سَمَاءٍ وَلَا أَرْضٍ وَلَا رِيَاحٍ وَلَا جِبَالٍ وَلَا بَحْرٍ إِلَّا وَهُنَّ يُشْفِقْنَ مِنْ يَومِ الْجُمُعَةِ. رَوَاهُ ابْنُ مَاجَةَ وَالشَّافِعِيُّ وَأَحْمَدُ وَالْبُخَارِيُّ فِي الْکَبِيْرِ.
الحديث رقم 60: أَخرجه ابن ماجة في السنن، کتاب: إقامة الصلاة والسنة فيها، باب: في فضل الجمعة، 1/ 344، الرقم: 1084، والشافعي في المسند، 1/ 71، وأَحمد بن حنبل في المسند، 3/ 430، 5/ 284، الرقم: 22510، وابن أَبي شيبة في المصنف، 1/ 477، الرقم: 5516، والبزار عن سعد بن عبادة رضی الله عنه في المسند، 9/ 191، الرقم: 3738، وعبد بن حميد في المسند، 1/ 127، الرقم: 309، والطبراني في المعجم الکبير، 5/ 33، الرقم: 4511، 6/ 19، الرقم: 5376، والبخاري في التاريخ الکبير، 4/ 44، الرقم: 1911، وأَبو نعيم في حلية الأَولياء، 1/ 366، والبيهقي في شعب اليمان، 3/ 91، الرقم: 2973. 2974.
’’حضرت ابولبابہ بن عبد المنذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک جمعہ کا دن تمام دنوں کا سردار ہے اور باقی دنوں سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کے ہاں عظمت والا ہے اور اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی عظمت عیدالاضحی اور عیدالفطر سے بھی بڑھ کر ہے (کیونکہ) اس دن میں پانچ خصلتیں پائی جاتی ہیں: اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا اور اسی دن انہیں وفات دی اور اس دن میں ایک ساعت ایسی ہوتی ہے جس میں بندہ اللہ تعالیٰ سے جو بھی سوال کرے وہ اسے عطا فرماتا ہے جب تک کہ وہ کسی حرام چیز کا سوال نہیں کرتا، اور اسی دن قیامت بپا ہو گی۔ کوئی مقرب فرشتہ، آسمان، زمین، ہوا، پہاڑ اور سمندر ایسا نہیں جو جمعہ کے دن سے نہ ڈرتا ہو (کیونکہ اس دن قیامت بپا ہو گی)۔‘‘
اس حدیث کو امام ابن ماجہ، شافعی، احمد اور بخاری نے ’’التاریخ الکبیر‘‘ میں بیان کیا ہے۔
61/ 3. عَنْ أَبِي مُوْسَی رضی الله عنه رَفَعَهُ قَالَ: إِنَّ اللهَ لَمَّا أَخْرَجَ آدَمَ مِنَ الْجَنَّةِ زَوَّدَهُ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ وَعَلَّمَهُ صَنْعَةَ کُلِّ شَيئٍ فَثِمَارُکُمْ هَذِهِ مِنْ ثِمَارِ الْجَنَّةِ غَيْرَ أَنَّ هَذِهِ تَغَيَرُ وَتِلْکَ لَا تَغَيَرُ.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرِيُّ وَالْبَزَّارُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ کَمَا قَالَ الْهَيْثَمِيُّ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: صَحِيْحُ الْإِسْنَادِ.
الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 592، الرقم: 3996، والطبري في جامع البيان، 1/ 175، وفي تاريخ الأَمم والملوک، 1/ 82، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 197، وقال: رواه البزار والطبراني، ورجاله ثقات، وفي کشف الأَستار، الرقم: 2344.
’’حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے مرفوعا مروی ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو جنت سے نکالا تو انہیں جنت کے پھل عطا فرمائے اور ہر چیز کی کاریگری سکھائی (اور فرمایا:) تمہارے یہ (دنیاوی) پھل جنت کے پھلوں میں سے ہیں سوائے یہ کہ یہ (دنیاوی) پھل (ذائقہ میں) بدلتے رہتے ہیں لیکن جنت کے پھل (ذائقہ میں) تبدیل نہیں ہوتے۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم، طبری، بزار اور طبرانی نے روایت کیا ہے جیسا کہ امام ہیثمی نے فرمایا کہ اس حدیث کے رجال ثقہ ہیں اور امام حاکم نے فرمایا کہ یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔
62/ 4. عَنْ أَبِي أَمَامَةَ رضی الله عنه: أَنَّ رَجُـلًا قَالَ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، أَنَبِيُّ کَانَ آدَمُ؟ قَالَ: نَعَمْ مُعَلَّمٌ مُکَلَّمٌ قَالَ: کَمْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ نُوْحٍ؟ قَالَ: عَشْرُ قُرُوْنٍ. قَالَ: کَمْ بَيْنَ نُوْحٍ وَإِبْرَاهِيْمَ؟ قَالَ: عَشْرُ قُرُوْنٍ. قَالُوْا: يَا رَسُوْلَ اللهِ، کَمْ کَانَتِ الرُّسُلُ؟ قَالَ: ثَـلَاثُ مِائَةٍ وَخَمْسَ عَشْرَةَ جَمًّا غَفِيْرً.
رَوَاهُ الْحَاکِمُ وَالطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ رِجَالُ الصَّحِيْحِ.
وَقَالَ الْحَاکِمُ: هَذَا حَدِيْثٌ صَحِيْحٌ.
الحديث رقم: أَخرجه الحاکم في المستدرک، 2/ 288، الرقم: 3039، والطبراني في المعجم الأَوسط، 1/ 128، الرقم: 403، وفي المعجم الکبير، 8/ 118، الرقم: 7545، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 196، 8/ 210، وقال رواه الطبراني، ورجاله رجال الصحيح، غير أَحمد بن خليد الحلبي وهو ثقة.
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول الله، کیا حضرت آدمں نبی تھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں اور انہیں (اللہ تعالیٰ کی طرف سے) سکھایا گیا اور اللہ تعالیٰ نے ان سے کلام فرمایا۔ اس شخص نے عرض کیا: حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت نوح علیہ السلام کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: دس صدیاں۔ اس شخص نے عرض کیا: حضرت نوح علیہ السلام اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: دس صدیاں۔ صحا بہ کرام نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کل کتنے رسلِ عظام تھے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: تین سو پندرہ کا ایک جمِ غفیر تھا۔‘‘
اس حدیث کو امام حاکم اور طبرانی نے روایت کیا اور اس کے رجال صحیح حدیث کے روایوں میں سے ہیں، اور امام حاکم نے فرمایا: یہ حدیث صحیح ہے۔
63/ 5. عَنْ بُرَيْدَةَ رضی الله عنه يَرْفَعُهُ قَالَ: لَوْ کَانَ بُکَاءُ دَاوُدَ عليه السلام وَبُکَاءُ جَمِيْعِ أَهْلِ الْأَرْضِ جَمِيْعًا يُعْدَلُ بِبُکَاءِ آدَمَ عليه السلام مَا عَدَلَهُ.
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ وَأَبُوْ نُعَيْمٍ.
الحديث رقم: أَخرجه الطبراني في المعجم الأَوسط، 1/ 51، الرقم: 143، وأَبو نعيم في حلية الأَولياء، 7/ 257، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 198، وقال: رواه الطبراني ورجاله ثقات، والمناوي في فيض القدير، 5/ 308.
’’حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ مرفوعا روایت کرتے ہیں کہ اگر حضرت دائود علیہ السلام اور تمام اہلِ زمین کے رونے کا موازنہ حضرت آدم علیہ السلام کے رونے کے ساتھ کیا جائے تو ان سب کا رونا حضرت آدم علیہ السلام کے رونے کے برابر نہیں ہو سکتا۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور آپ کی سند کے رجال ثقہ ہیں اور اسے امام ابو نعیم نے بھی روایت کیا ہے۔
64/ 6. عَنْ أَبَيِّ بْنِ کَعْبٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: إِنَّ آدَمَ غَسَلَتْهُ الْمَـلَائِکَةُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَکَفَّنُوْهُ وَأَلْحَدُوْا لَهُ وَدَفَنُوْهُ، وَقَالُوْا: هَذِهِ سُنَّتُکُمْ يَا بَنِي آدَمَ فِي مَوْتَاکُمْ. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ بِإِسْنَادَيْنِ.
وفي روية عنه: قَالَ: لَمَّا تُوُفِّيَ آدَمُ غَسَلَتْهُ الْمَلَائِکَةُ بِالْمَاءِ وِتْرًا وَلَحَّدَتْ لَهُ، وَقَالَتْ: هَذِهِ سُنَّةُ آدَمَ وَوَلَدِهِ.
الحديث رقم: أَخرجه الطبراني في المعجم الأَوسط، 9/ 105، الرقم: 9259، والهيثمي في مجمع الزوائد، 8/ 199.
’’حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک حضرت آدم علیہ السلام کو فرشتوں نے پانی اور بیری کے پتوں کے ساتھ غسل دیا اور انہیں کفن پہنایا اور (قبر میں) ان کے لئے لحد تیار کی اور (پھر) انہیں دفن کر دیا اور فرشتوں نے یہ کہا: اے اولادِ آدم! یہ تمہارے مُردوں (کی تدفین میں) میں تمہاری سنت ہو گی۔‘‘
اس حدیث کو امام طبرانی نے دو سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے۔
اور ایک روایت میں آپ ہی سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جب حضرت آدم علیہ السلام وصال فرما گئے تو فرشتوں نے انہیں طاق بار غسل دیا اور ان کے لئے لحد تیار کی اور کہا کہ یہ حضرت آدم علیہ السلام اور ان کی اولاد کی سنت ہے۔‘‘
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved