یہ بات دلائل سے ثابت ہو چکی ہے کہ کسی مسلم ریاست میں قائم حکومت کے خلاف مسلح بغاوت جائز نہیں، خواہ ارباب اختیار و اقتدار فاسق و فاجر اور معصیت کیش ہی کیوں نہ ہوں۔ یہاں بعض ذہنوں میں اس سوال کا پیدا ہونا فطری امر ہے کہ مسلمان رعایا اگر مسلمان حکمرانوں کے ظلم و ستم کے خلاف مسلح جد و جہد نہیں کر سکتی تو پھر اسے کیا کرنا چاہیے؟ کیا حکمرانوں کو کھلی چھوٹ دے دی جائے کہ وہ جو چاہیں کرتے پھریں اور اہل حق خاموش تماشائی بن کر بیٹھے رہیں؟ ان حالات میں مسلمان شہریوں پر کوئی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے یا نہیں؟ کیونکہ اگر ایک طرف اسلام مسلم ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کی حمایت نہیں کرتا تو دوسری طرف اس کے ظلم و جبر اور غیر عادلانہ و غیر صالحانہ رویوں پر خاموش رہنے کی بھی اجازت نہیں دیتا۔ اس حوالے سے اسلامی ریاست کے شہریوںکے لئے برائی کو روکنے، ظلم کو مٹانے اور احوال کو سدھارنے کی جد و جہد میں کون سے راستے کھلے ہیں؟ آئندہ سطور میں اسی پہلو کا جائزہ لیا جائے گا۔
کسی بھی سوسائٹی میں برائی کو روکنے اور اچھائی کو فروغ دینے کا عمل اسلامی اصطلاح میں ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کہلاتا ہے۔ خواہ برائی، حکومتی مظالم کی صورت میں ہو یا کرپشن کی صورت میں، غیر آئینی و غیر قانونی اقدامات کی شکل میں ہو یا آمرانہ و جابر انہ طرز عمل کی شکل میں، غیر منصفانہ اور غیر صالحانہ قوانین کی صورت میں ہو یا ملک و قوم کے مفاد کے خلاف پالیسیوں کی صورت میں، اس برائی کو روکنے اور اسے اچھائی سے بدلنے کی ہر پرامن کوشش ’’امر بالمعروف و نہی عن المنکر‘‘ کے ذیل میں آتی ہے۔ اس لئے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کو اس اہم فریضہ کی ادائیگی کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سورۃ آل عمران میں اللہ تعالیٰ نے اُمت مسلمہ کو بہترین امت قرار دیتے ہوئے اس کی پہلی علامت ہی امر بالمعروف و نہی عن المنکر بیان کی ہے :
کُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ.
آل عمران، 3 : 110
’’تم بہترین اُمت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔‘‘
دوسرے مقام پر اہل ایمان کی علامات میں سے ایک نہایت اہم علامت امر بالمعروف و نہی عن المنکرقرار دی گئی ہے؛ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ :
وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُهُمْ اَوْلِيَآءُ بَعْضٍم يَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ.
التوبة، 9 : 71
’’اور اہل ایمان مرد اور اہل ایمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق و مددگار ہیں۔ وہ اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔‘‘
یہ فرض جہاں اسلامی معاشرے کے ہر فرد پر عائد کیا گیا ہے وہاں یہ بات بھی واضح ہے کہ اجتماعی اور حکومتی سطح پر فروغ پانے والی برائیوں اور خرابیوں کا ازالہ محض انفرادی کوششوں سے ممکن نہیں ہوتا۔ اس کے لئے مؤاخذہ و اصلاح کی کوششیں بھی اجتماعی ہونی چاہئیں۔ یہاں سے جماعت سازی اور تنظیم سازی کا عمل، شرعی جواز پاتا ہے۔
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر صرف انفرادی سطح پر سر انجام دیا جانے والا فریضہ نہیں بلکہ اس کو جماعتی و تنظیمی سطح پر منظم کرنا بھی منشاء قرآن ہے :
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّةٌ يَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَيْرِ وَيَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِط وَاُولٰئِکَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَo
آل عمران، 3 : 104
’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیںo‘‘
اس آیت کریمہ میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ باقاعدہ تنظیم اور جماعت کی صورت میں ادا کرنے سے دعوت زیادہ مؤثر، وسیع اور نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ اسی طرح نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون اور بدی کے کاموں میں عدم تعاون کا حکم بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر ہی کی اجتماعی شکل ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :
وَتَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَلاَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ.
المائدة، 5 : 2
’’اور نیکی اور پرہیزگاری ( کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم (کے کاموں) پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘
احادیث مبارکہ میں بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت و ضرورت اور اس سے پہلو تہی پر عذاب و عقاب بیان کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے چند اہم احادیث درج ذیل ہیں :
1۔ امام بخاری اور امام مسلم حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
فِتْنَةُ الرَّجُلِ فِي أَهْلِهِ وَمَالِهِ وَجَارِهِ تُکَفِّرُهَا الصَّلَاةُ وَالصَّدَقَةُ والْأَمْرُ بَالْمَعْرُوْفِ وَالنَّهْيُ عَنِ الْمُنْکَرِ.
1. بخاري، الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام،
3 : 1314، رقم : 3393
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب في الفتنة التي تموج کموج
البحر، 4 : 2218، رقم : 144
’’آدمی کا فتنہ (یعنی اس کی آزمائش) اس کے اہل و عیال، اس کے مال اور اس کے پڑوس میں ہے جس کا کفّارہ نماز، خیرات اور اچھائی کی طرف بلانا اور برائی سے روکنا ہے۔‘‘
2۔ امام ترمذی، ابن ماجہ اور احمد بن حنبل حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَتَأْمُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ أَوْ لَيُوْشِکَنَّ اﷲُ أَنْ يَبْعَثَ عَلَيْکُمْ عِقَابًا مِنْهُ. ثُمَّ تَدْعُوْنَهُ فَلاَ يُسْتَجَابُ لَکُمْ.
1. ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر،
4 : 468، رقم : 2169
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر،
2 : 1327، رقم : 4004
3. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 391، رقم : 23375
’’اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! تم ضرور بالضرور نیکی کاحکم دو گے اور برائی سے منع کرو گے ورنہ اﷲ تعالیٰ تم پر اپنا عذاب بھیجے گا۔ پھر تم اسے (مدد کے لیے) پکارو گے تو تمہاری پکار کو ردّ کر دیا جائے گا۔‘‘
3۔ برائی کو روکنے کی فضیلت ایک اور حدیث مبارکہ میں ان الفاظ میں آئی ہے۔ امام احمد بن حنبل حضرت عبدا لرحمن بن الحضرمی سے روایت کرتے ہیں :
أَخْبَرَنِي مَنْ سَمِعَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : إِنَّ مِنْ أُمَّتِي قَوْمًا يُعْطَوْنَ مِثْلَ أُجُوْرِ أَوَّلِهِمْ، فَيُنْکِرُوْنَ الْمُنْکَرَ.
1. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 62، رقم : 16643
2. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 375، رقم : 23229
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 261، 271
’’مجھے اس نے خبر دی جس نے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : بے شک میری اُمت میں ایک قوم ایسی ہوگی جس کو اُمت کے دور اول کے لوگوں کی طرح اجر دیا جائے گا۔ وہ برائی سے منع کرنے والے ہوں گے۔‘‘
4۔ امام طبرانی اور ابن ابی شیبہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَتَأْمُرُْنَّ بِالْمَعْرُوْفَ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ، أَوْ لَيُسَلِّطَنَّ اﷲُ عَلَيْکُمْ شِرَارَکُمَ. ثُمَّ يَدْعُوْ خِيَارُکُمْ فَلاَ يُسْتَجَابُ لَکُمْ.
1. طبراني، المعجم الأوسط، 2 : 99، رقم : 1379
2. ابن أبي شيبة، المصنف، 7 : 460، رقم : 37221
3. بزار، المسند، 1 : 292، 293، رقم : 188
4. أبو يعلی، المسند، 8 : 313، رقم : 6916
’’تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرتے رہو گے ورنہ اﷲ تعالیٰ تم میں سے برے لوگوں کو تم پر مسلط کردے گا۔ پھر تمہارے اچھے لوگ اﷲ تعالیٰ سے (مدد کی) دعا کریں گے لیکن ان کی دعا تمہارے حق میں قبول نہیں ہوگی۔‘‘
5۔ امام طبرانی اور بیہقی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
قُلْنَا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، لَا نَأْمُرُ بِالْمَعْرُوْفِ حَتَّی نَعْمَلَ بِهِ وَلاَ نَنْهَی عَنِ الْمُنْکَرِ حَتَّی نَجْتَنِبَهُ کُلَّهُ. فَقَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : بَلْ مُرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَإِنْ لَمْ تَعْمَلُوْا بِهِ کُلَّهِ، وَانْهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَإِنْ لَم تَجْتَنِبُوْهُ کُلَّهُ.
1. طبراني، المعجم الأوسط، 6 : 365، رقم : 6628
2. بيهقي، شعب الإيمان، 6 : 89، رقم : 7570
3. هيثمي، مجمع الزوائد، 7 : 277
’’ہم نے عرض کیا : یارسول اﷲ! ہم اس وقت تک نیکی کا حکم نہیں دیں گے جب تک ہم مکمل طور پر خود اس پر عمل نہیں کر لیتے اور نہ اس وقت تک برائی سے منع کریں گے جب تک ہم مکمل طور پر خود اس سے اجتناب نہیں کر لیتے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (نہیں) بلکہ نیکی کا حکم دو اگرچہ تم مکمل طور پر اس پر عمل نہ بھی کرسکو اور برائی سے منع کرو اگرچہ مکمل طور پر اس سے اجتناب نہ بھی کر سکو (یعنی اگر ممکنہ حد تک عمل کرتے ہو تب بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرو)۔‘‘
درج بالا احادیث سے امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔ یہ وہ فریضہ ہے جو انفرادی زندگی کی آزمائشوں کا کفارہ بھی ہے اور دنیا میں عذاب الٰہی کے راستے میں ڈھال بھی۔ اس کو ترک کرنے سے قوم دنیوی عذاب کا شکار ہو جاتی ہے، دعاؤں کی قبولیت رک جاتی ہے اور ظالم و جابر، فاسق و فاجر، بدکردار اور خائن حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں۔
اگر ہم آج اپنے حالات کا جائزہ لیں تو یہ علامات ہمیں واضح طور پر نظر آرہی ہیں۔ ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہیں، زمینی اور آسمانی آفات و بلیات کی کثرت ہے، بداَمنی، قتل و غارت گری، کرپشن، بد دیانتی، چوری، مہنگائی، بے روزگاری اور پریشاں حالی، الغرض کون کون سے عذاب ہیں جنہوں نے ہمیں نہیں گھیر رکھا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برائی کو روکنے کے تین درجے بیان فرمائے ہیں جن کا ذکر درج ذیل حدیث میں ہوا ہے :
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ رَأَی مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَالِکَ أَضْعَفُ الإِيْمَانِ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان کون النهي عن المنکر من الإيمان،
1 : 69، رقم : 49
2. ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في تفسير المنکر باليد أو باللسان أو
بالقلب، 4 : 469، رقم : 2172
3. أبو داود، السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4
: 123، رقم : 4340
4. نسائي، السنن، کتاب الإيمان وشرائعه، باب تفاضل أهل الإيمان،
8 : 111، رقم : 5008
5. ابن ماجه، السنن، کتاب إقامة الصلاة والسنة فيها، باب ما جاء في صلاة العيدين،
1 : 406، رقم : 1275
’’تم میں سے جو کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ (یعنی عملی جد و جہد) سے روکنے کی کوشش کرے اور اگر ایسا نہ کرسکے تو اپنی زبان سے (تنقید و مذمت کے ذریعے) روکے اور اگر اپنی زبان سے بھی روکنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو(کم از کم اس برائی کو) اپنے دل سے برا جانے؛ اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘
حدیث مبارکہ میں برائی کی مذمت اور روک تھام کے تین ذرائع بیان کئے گئے ہیں : ہاتھ، زبان اور دل؛ جس کا مطلب یہ ہے کہ ہم برائی کو دل سے برا سمجھیں، زبان سے اس کی مذمت کریں اور عملی جد و جہد کے ذریعے اسے روکنے کی کوشش کریں۔ یہ تینوں طریقے برائی کے خلاف پرامن جد و جہد سے عبارت ہیں۔ برائی کو ہاتھ سے روکنے سے مراد ہے کہ برائی کے خاتمہ کے لئے عملی جد و جہد کی جائے جس کا ہر لحاظ سے تشدد سے پاک ہونا ضروری ہے کیونکہ نیکی کو ظلم اور بربریت کے طریق سے کسی پر مسلط نہیں کیا جاسکتا جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے لَا اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِ(1) (دین میں کوئی زبردستی نہیں) فرما کر بتا دیاہے۔ البتہ برائی کے خلاف عملی جد و جہد کرنا ہر اس شخص پر لازم ہے جو اس کی استطاعت رکھے ورنہ برائی کی اپنی زبان سے مذمت کرنا ہر مومن کا فریضہ ہے اور کم از کم دل سے برا جاننا تو ہر کمزور و ناتواں کے لئے ضروری بھی ہے۔
البقرة، 2 : 256
برائی سے کیا مراد ہے؟ ہمارے ہاں اس کا مفہوم بڑا محدود ہو گیا ہے حالانکہ ہر ظلم برائی ہے۔ خواتین پر گھریلو تشدد، برائی ہے۔ بچیوں کو سکول نہ بھجوانا، برائی ہے۔ عورتوں کو علم اور حقوق سے محروم رکھنا، برائی ہے۔ تعلیمی اداروں کی تباہی و بربادی، برائی ہے۔ اپنا مخصوص تصور دین کسی پر زبردستی مسلط کرنا، برائی ہے۔ بدعنوانی، برائی ہے۔ اقربا پروری، برائی ہے۔ میرٹ کی پامالی، برائی ہے۔ فحاشی و عریانی کی ترویج، برائی ہے اور تذلیل انسانیت تو ان سب سے بڑی برائی ہے۔
اب تصور کریں کہ جہاں برائی کی اتنی کثیر شکلیں ہوں اور ہر شکل کسی نہ کسی صورت میں معاشرہ میں موجود ہو اور وہاں برائی کو ہاتھ سے روکنے کا معنی بزور بازو یا بزور بندوق لے لیا جائے تو ہر کوئی اپنا تصور خیر لے کر دوسرے پر اپنی مرضی مسلط کرنا شروع کر دے گا۔ اس سے جبر و تشدد اور بد امنی کی کیفیت پیدا ہو جائے گی اور جہاں برائی کو ہاتھ سے روکنے کی تشریح ہاتھ سے بڑھ کر بندوق اور بندوق سے بڑھ کر بمباری سے کی جانے لگے تو پھر خانہ جنگی اور دہشت گردی نہیں ہو گی تو اور کیا ہوگا؟ وہ اسلام جس نے ظالم اور فاسق و فاجر حکمران کے خلاف بھی بغاوت کو صرف اس لئے جائز قرار نہیں دیا کہ اس سے معاشرے کی اجتماعیت اور امن و سکون تباہ و برباد ہونے کا امکان ہوتا ہے تو وہ بزورِ بندوق دیگر برائیوں کو روکنے کی اجازت کیسے دے سکتا ہے؟ لہٰذا برائی کو ہاتھ سے روکنے کا معنی عام فرد کے لئے عملی جد و جہد ہی لی جاسکتی ہے؛ اور وہ بھی اس کی استطاعت کے مطابق۔
ہاتھ سے روکنے سے مراد اگر بزورِطاقت روکنا ہی لیا جائے تو اس سے مراد قوت نافذہ یعنی حکومت اور حکومتی ادارے ہوں گے کیونکہ معاشرے سے برائی، ظلم اور ناانصافی کو ختم کرنا اور اچھائی اور عدل و انصاف کو رائج کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، اور یہی اس کے قیام کا جواز بھی ہے۔ جیسا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کی یہ علامت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
اَلَّذِيْنَ اِنْ مَّکَّنّٰهُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوةَ وَاَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِط وَِﷲِ عَاقِبَةُ الْاُمُوْرِo
الحج، 22 : 41
’’(یہ اہلِ حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور زکوٰۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھلائی کا حکم کریں اور (لوگوں کو) برائی سے روک دیں، اور سب کاموں کا انجام اﷲ ہی کے اختیار میں ہےo‘‘
اسلام ایسے معاشرے کی تشکیل چاہتا ہے جو عدل و انصاف پر مبنی ہو، جس میں کوئی شخص قوت و طاقت، مال و دولت یا عہدہ و منصب کے بل بوتے پر دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ نہ ڈالے اور نہ ہی انہیں کسی حوالے سے اپنے ظلم و جبر کا نشانہ بنائے۔ اگر بعض افراد یا حکومت اس ظالمانہ کردار کی حامل ہو تو ان کے خلاف اپنی بساط کے مطابق آواز اٹھانا اور ان کے ظالمانہ و جابرانہ رویوں کو مہذب طریقے سے بے نقاب کرنا مسلمان کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ظالم کے ظلم کو اعلانیہ بے نقاب کرنے کا حکم دیا ہے، ارشاد ربانی ہے :
لَا يُحِبُّ اﷲُ الْجَهْرَ بِالسُّوْءِ مِنَ الْقَوْلِ اِلاَّ مَنْ ظُلِمَ ط وَکَانَ اﷲُ سَمِيْعًا عَلِيْمًاo
النساء، 4 : 148
’’اﷲ کسی (کی) بری بات کا بآوازِ بلند (ظاہراً و علانیتاً) کہنا پسند نہیں فرماتا سوائے اس کے جس پر ظلم ہوا ہو (اسے ظالم کا ظلم آشکار کرنے کی اجازت ہے)، اور اﷲ خوب سننے والا جاننے والا ہےo‘‘
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں متعدد مقامات پر ظلم وجبر اور ناانصافی کے خلاف صداے احتجاج بلند کرنے اور اسے ہر ممکن جائز طریقے سے روکنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس حوالے سے چند احادیث ملاحظہ ہوں :
1۔ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کا اعلانیہ اظہار کرنا، جہاد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ امام ترمذی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ مِنْ أَعْظَمِ الْجِهَادِ کَلِمَةَ عَدْلٍ عِنْدَ سُلْطَانٍ جَائِر.
ترمذی، السنن، أبواب الفتن، باب ما جاء أفضل الجهاد کلمة عدل عند سلطان جائر، 4 : 471، رقم : 2174
’’سب سے بڑا جہاد، ظالم بادشاہ کے سامنے کلمہ حق بلند کرنا ہے۔‘‘
امام ابو داؤد کی بیان کردہ روایت میں سُلْطَانٍ جَائِر (ظالم بادشاہ) کے بعد أَمِيْرٍ جَائِرٍ (ظالم حکمران) کے الفاظ بھی ہیں۔(2)
(2) أبو داود، السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهی، 4 : 124، رقم : 4344
2۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوف کے باعث حق بات کو چھپانے سے بھی منع فرمایا ہے۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ ایک طویل روایت میں بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَا يَمْنَعَنَّ رَجُلًا هَيْبَةُ النَّاسِ أَنْ يَقُوْلَ بِحَقٍّ إِذَا عَلِمَهُ.
1. ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء ما أخبر النبي أصحابه بما
هو کائن إلی
يوم القيامة، 4 : 483، رقم : 2191
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 :
1328، رقم : 4007
3. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 5، رقم : 11030
’’کسی شخص کو لوگوں کا ڈر حق بات کہنے سے نہ روکے جبکہ اسے اس بات کا حق ہونا معلوم ہو۔‘‘
3۔ حضرت ھُشَیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدرت رکھنے کے باوجود بر ے کاموں سے منع نہ کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِي، ثُمَّ يَقْدِرُوْنَ عَلَی أَنْ يّغَيِّرُوْا، ثُمَّ لاَ يُغَيِّرُوا إِلاَّ يُوْشِکُ أَنْ يَعُمَّهُمُ اﷲُ مِنْهُ بِعِقَابٍ.
1. أبو داود، السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 :
122، رقم : 4338
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 : 1329،
رقم : 4009
3. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 364، رقم : 19250
’’جس قوم میں بھی برے کاموں کا اِرتکاب کیا جائے، پھر لوگ اِن برے کاموں کو روکنے پر قدرت رکھنے کے باوجود بھی نہ روکیں تو قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان سب کو اپنے عذاب میں مبتلا کر دے۔‘‘
4۔ حضرت عدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عوام و خواص کے عذاب میں مبتلا ہونے کا سبب بیان کرتے ہوئے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ اﷲَ عزوجل لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ حَتَّی يَرَوا الْمُنْکَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، وَهُمْ قَادِرُوْنَ عَلَی أَنْ يّنْکِرُوْهُ فَلَا يُنْکِرُوْهُ. فَإِذَا فَعَلُوْا ذَالِکَ عَذَّبَ اﷲُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ.
1. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 192
2. مالک، الموطأ، کتاب الکلام، باب ما جاء في عذاب العامة بعمل الخاصة، 2 :
991، رقم : 1799
3. طبراني، المعجم الکبير، 17 : 139
’’بے شک اﷲ تعالیٰ عوام کو خاص لوگوں کے برے اعمال کے سبب سے عذاب نہیں دیتا یہاں تک کہ وہ (عوام) اپنے درمیان برائی کو کھلے عام پائیں اور وہ اس کو روکنے پر قادر ہونے کے باوجود نہ روکیں۔ پس جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اﷲ تعالیٰ ہر خاص و عام کو (بلا امتیاز) عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔‘‘
5۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر کو نظر انداز کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
يَا أَيّهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ تَقْرَء ُوْنَ هَذِهِ الْآيَةَ : ﴿ياَيّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج لَا يَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ﴾(1) وَإِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَأَوْا الْمُنْکَرَ فَلَمْ يُنْکِرُوهُ أَوْشَکَ أَنْ يَعُمَّهُمْ اﷲُ بِعِقَابِهِ.(2)
(1) المائدة، 5 : 105
(2) احمد بن حنبل، المسند،1 : 2، رقم : 1
’’اے لوگو! تم یہ آیت مبارکہ تو پڑھتے ہی ہو : (اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو، تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت یافتہ ہو چکے ہو)۔ اور بے شک ہم نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ لوگ جب برائی کو پنپتے ہوئے دیکھیں اور اس کو نہ روکیں تو قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ انہیں اپنے عذاب میں مبتلا کردے۔‘‘
6۔ حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برائی کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکنے والوں کو اﷲ تعالیٰ کے عذاب سے ڈراتے ہوئے ارشاد فرمایا :
مَا مِنْ رَجُلٍ يَکُوْنُ فِي قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِي يَقْدِرُوْنَ عَلَی أَنْ يّغَيِّرُوْا عَلَيْهِ فَلاَ يَغَيِّرُوْا إِلاَّ أَصَابَهُمُ اﷲُ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِ أَنْ يَّمُوْتُوا.
1. أبو داود، السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 :
122، رقم : 4339
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 : 1329،
رقم : 4009
3. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 364
4. ابن حبان، الصحيح، 1 : 536، رقم : 300
5. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 332، رقم : 2382
’’جو شخص بھی ایسی قوم میں رہتا ہو جس میں برے کام کئے جاتے ہوں اور لوگ ان کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکتے ہوں تو اﷲ تعالیٰ انہیں ان کی موت سے قبل عذاب میں مبتلا کر دے گا۔‘‘
7۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں خرابی اس لیے پختہ ہو گئی تھی کہ انہوں نے احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ ترک کر دیا تھا۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ کریں :
إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيْلَ لَمَّا وَقَعَ فِيْهِمُ النَّقْصُ کَانَ الرَّجُلُ يَرَی أَخَاهُ عَلَی الذَّنْبِ فَيَنْهَاهُ عَنْهُ. فَإِذَا کَانَ الْغَدُ لَمْ يَمْنَعْهُ مَا رَأَی مِنْهُ أَنْ يَکُوْنَ أَکِيْلَهُ وَشَرِيْبَهُ وَخَلِيْطَهُ. فَضَرَبَ اﷲُ قُلُوْبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ وَنَزَلَ فِيْهِمُ الْقُرْآنُ. فَقَالَ : ﴿لُعِنَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيْلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيْسَی ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکاَنُوْا يَعْتَدُوْنَ﴾.(1) فَقَرَأَ حَتَّی بَلَغَ : ﴿وَلَوْ کَانُوْا يُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالنَّبِيِّ وَمَآ أُنْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ أَوْلِيَاء وَلٰکِنَّ کَثِيْرًا مِنْهُمْ فَاسِقُوْنَ﴾.(2) قَالَ : وَکَانَ نَبِيُّ اﷲِ مُتَّکِئًا فَجَلَسَ، فَقَالَ : لَا، حَتَّی تَأْخُذُوْا عَلَی يَدِ الظَّالِمِ فَتَأْطَُرُوْهُ عَلَی الْحَقِّ أَطْرًا.(3)
(1) المائدة، 5 : 78
(2) المائدة، 5 : 81
(3) ترمذي، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة المائدة، 5 : 252، رقم : 3048
2. أبو داود، السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 : 121، رقم : 4336
3. ابن ماجه، السن، کتاب الفتن، باب الأمر بالمعروف والنهي عن المنکر، 2 : 1327،
رقم : 4006
4. طبراني، المعجم الکبير، 10 : 146، رقم : 10268
5. طبرانی، المعجم الأوسط، 1 : 166، رقم : 519
’’جب بنی اسرائیل میں خرابی واقع ہوتی تو اس وقت ان میں سے بعض لوگ اپنے دوسرے بھائی کو گناہ کرتے دیکھ کر منع کرتے۔ لیکن جب دوسرا دن ہوتا تو اس خیال سے نہ روکتے کہ اس کے ساتھ کھانا پینا اور ہم مجلس ہونا ہے۔ اس پر اﷲ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو باہم مخلوط کردیا۔ ان کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ہے : (بنی اسرائیل میں سے جو کافر ہوئے ان پر داؤد (ں) اور عیسی بن مریم (علیہما السلام) کی زبان سے لعنت کی گئی۔ یہ اس لئے کہ وہ نافرمان تھے اور حد سے گزر گئے تھے)۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت یہاں تک پڑھی : (اور اگر وہ اللہ تعالیٰ اور نبی پر اور اس چیز پر جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے ایمان لاتے تو کافروں کو دوست نہ بناتے۔ لیکن ان میں سے اکثر نافرمان ہیں)۔ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھ بیٹھے اور فرمایا : تم بھی عذابِ الٰہی سے اس وقت تک نجات نہیں پا سکتے جب تک کہ تم ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اُسے راہ راست پر نہ لے آؤ۔‘‘
8۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر کے اَہم فریضے کو نظر انداز کرنے اور ایک مثال کے ذریعے اس مداہنت و چشم پوشی کے تباہ کن نتائج سے خبردار کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
مَثَلُ الْمُدْهِنِ فِي حُدُوْدِ اﷲِ وَالْوَاقِعِ فِيْهَا مَثَلُ قَوْمٍ اسْتَهَمُوْا سَفِيْنَةً فَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَسْفَلِهَا وَصَارَ بَعْضُهُمْ فِي أَعْلَاهَا. فَکَانَ الَّذِي فِي أَسْفَلِهَا يَمُرُّوْنَ بِالْمَائِ عَلَی الَّذِيْنَ فِي أَعْلَاهَا فَتَأَذَّوْا بِهِ. فَأَخَذَ فَأْسًا فَجَعَلَ يَنْقُرُ أَسْفَلَ السَّفِيْنَةِ. فَأَتَوْهُ فَقَالُوْا : مَا لَکَ؟ قَالَ : تَأَذَّيْتُمْ بِي وَلاَ بُدَّ لِي مِنَ الْمَاءِ. فَإِنْ أَخَذُوْا عَلَی يَدَيْهِ أَنْجَوْهُ وَنَجَّوْا أَنْفُسَهُمْ، وَإِنْ تَرَکُوْهُ أَهْلَکُوْهُ وَأَهْلَکُوْا أَنْفُسَهُمْ.
1. بخاري، الصحيح، کتاب الشهادات، باب القرعة في المشکلات،
2 : 954، رقم : 2540
2. ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في تغيير المنکر باليد أو باللسان
أو بالقلب، 4 : 470، رقم : 2173
3. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 270
4. بزار، المسند، 8 : 238، رقم : 3298
’’اﷲ تعالیٰ کی حدود کے بارے میں نرمی برتنے والے اور ان میں مبتلا ہونے والے کی مثال ان لوگوں جیسی ہے جنہوں نے کشتی میں (سفر کرنے کے سلسلے میں) قرعہ اندازی کی تو بعض کے حصے میں نیچے والا حصہ آیا اور بعض کے حصے میں اوپر والا۔ پس نیچے والوں کو پانی کے لیے اوپر والوں کے پاس سے گزرنا ہوتا تھا تو اس سے اوپر والوں کو تکلیف ہوتی تھی۔ چنانچہ (اس خیال سے کہ اوپر کے لوگوں کو ان کے آنے جانے سے تکلیف ہوتی ہے) نیچے والوں میں سے ایک شخص نے کلہاڑا لیا اورکشتی کے نچلے حصے میں سوراخ کرنے لگا۔ تو وہ اس کے پاس آئے اور کہا : تجھے کیا ہوگیا ہے؟ اس نے کہا : تمہیں میری وجہ سے تکلیف ہوتی تھی اور پانی کے بغیر میرا گزارہ نہیں۔ پس اگر انہوں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور اسے بچا لیا تو خود بھی بچ گئے، اور اگر انہوں نے اسے چھوڑ دیا تو اسے بھی ہلاک کر دیا اور اپنے آپ کو بھی ہلاکت میں ڈال لیا۔‘‘
سو معلوم ہوا کہ حکمرانوں کے ظلم و نا انصافی اور فسق و فجور کو بے نقاب کرنا اور اس کے خلاف آواز بلند کرنا مسلمان کی اہم ذمہ داری ہے مگر اس کا طریقہ پرامن ہونا چاہیے، جو تشدد اور دہشت گردی کی جملہ شکلوں سے پاک ہو۔ موجودہ دور میں اس کی کئی صورتیں ممکن ہیں، مثلاً :
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved