انتہاء پسندی اور دہشت گردی کی وجہ سے جہاں اسلامی تعلیمات کے بارے میں طرح طرح کے سوالات اور شکوک و شبہات پیدا ہوتے ہیں وہیں بے شمار قیمتی جانیں تلف، اَملاک تباہ اور کاروبار برباد ہو جاتے ہیں۔ امن و سلامتی کا ماحول خوش حالی، تعمیر و ترقی اور سکون و راحت کا ضامن ہوتا ہے جب کہ فتنہ انگیزی ہمہ جہتی تباہی لاتی ہے۔ اِسی لئے رحمتِ دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہر اُس راستے کو مسدود اور ہر اُس دروازے کو بند کردیا جس سے امن و سلامتی کا ماحول غارت ہونے کا امکان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ترحم و ملاطفت اور باہمی لطف و کرم کی ترغیب دیتے ہوئے اِرشاد فرمایا :
إِنَّ اﷲَ رَفِيْقٌ وَيُحِبُّ الرِّفْقَ وَيُعْطِي عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَی الْعُنْفِ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل الرفق، 4
: 2003، رقم : 2593
2. أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب فی الرفق، 4 : 254،
رقم : 4807
3. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 112، رقم : 902
’’اللہ تعاليٰ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر اتنا عطا فرماتا ہے کہ اتنا سختی پر عطا نہیں کرتا۔‘‘
رفق (نرمی) میں تعمیری پہلو ہے اور عُنف (شدت) میں تخریبی۔ رفق محبت و خیر خواہی کی علامت ہے جبکہ عنف شدت پسندی اور نفرت کی دلیل۔ شدت کے ذریعے نہ دنیا سنورتی ہے نہ آخرت، اور دین میںشدت دنیاوی امور میں شدت سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیوں کہ تشدد اور جارحیت پسندی، انتہاء پسندی سے جنم لیتی ہے۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إِيَّاکُمْ وَالْغُلُوَّ فِي الدِّينِ، فَإِنَّهُ أَهْلَکَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ الْغُلُوُّ فِي الدِّينِ.
1. ابن ماجه، السنن، کتاب المناسک، باب قدر حصی الرمی، 2 :
1008، رقم : 3029
2. شيبانی، السنة : 46، رقم : 98
3. ابن أبی شيبة، المصنف، 3 : 248، رقم : 13909
’’دین میں انتہا پسندی سے بچو کہ پہلی قومیں اسی انتہا پسندی کی بنا پر تباہ و برباد ہوگئیں۔‘‘
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جس طرح اپنی چشمِ نبوت سے قیامت تک کے اَحوال کا مشاہدہ فرما رہے تھے اُسی طرح آنے والے وقتوں میں دین کے نام پر بپا ہونے والی دہشت گردی کو بھی ملاحظہ فرما رہے تھے۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہ صرف جہاد اور قتال کا فرق واضح فرما دیا بلکہ دین کے نام پر غلو کرنے اور تشدد و غارت گری کا بازار گرم کرنے والوں سے بھی اُمتِ مسلمہ کو خبردار کر دیا۔ ان نام نہاد مجاہدین کے رویوں اور نشانیوں کو بھی واضح طور پر بیان فرما دیا تاکہ کسی قسم کا اشتباہ نہ رہے اور امت ان کی ظاہری مومنانہ وضع قطع اور کثرتِ عبادت و تلاوت سے دھوکا نہ کھا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جہاں اپنی امت کو اس فتنے سے الگ رہنے کی تلقین فرمائی وہاں اس ناقابل علاج کینسر زدہ حصے کو جسد ملت سے کاٹ دینے کا حکم بھی دیا۔
آئندہ صفحات میں اِسی حوالے سے تفصیلات پیش کی جائیں گی۔
فرامین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق دہشت گرد خارجی بظاہر بڑے پختہ دین دار نظر آئیں گے اور وہ دوسرے لوگوں سے زیادہ نماز روزے کے پابند ہوں گے۔ دوسروں کی نسبت شرعی احکامات پر بظاہر زیادہ عمل کرنے والے ہوں گے۔
1۔ امام بخاری اور امام مسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ذوالخویصرہ تمیمی والی روایت بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِيئِ هَذَا قَوْمٌ يَتْلُوْنَ کِتَابَ اﷲِ رَطْبًا لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَما يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب المغازي، باب بعث علی بن أبي طالب وخالد بن الوليد إلی
اليمن قبل حجة الوداع، 4 : 1581، رقم : 4094
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2
: 742، رقم : 1064
3. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 4، رقم : 11021
’’اس کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو کتابِ اِلٰہی کی تلاوت سے زبانیں تر رکھیں گے، لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔‘‘
2۔ امام بخاری اور مسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ لَهُ أَصْحَابًا يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الأدب، باب ماجاء في قول الرجل ويلک، 5
: 2281، رقم : 5811
2. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب من ترک قتال
الخوارج للتألف وأن لا ينفر الناس عنه، 6 : 2540، رقم : 6534
3. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2
: 744، رقم : 1064
’’اس کے (ایسے) ساتھی بھی ہیں کہ تم ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانو گے۔‘‘
3۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی متفق علیہ روایت ہے کہ حضرت ابو سلمہ اور حضرت عطاء بن یسار رضی اﷲ عنہما دونوں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا : کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ (خوارج) کے بارے میں کچھ سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا : مجھے یہ تو معلوم نہیں کہ حروریہ کیا ہے، البتہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ :
يَخْرُجُ فِي هٰذِهِ الْأُمَّةِ . وَلَمْ يَقُلْ مِنْهَا. قَوْمٌ تَحْقِرُوْنَ صَلَاتَکُمْ مَعَ صَلَاتِهِمْ يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ أَوْ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ مُرُوْقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج
والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2540، رقم : 6532
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2
: 743، رقم : 1064
’’اس امت میں کچھ ایسے لوگ نکلیں گے۔ (جب کہ یہ نہیں فرمایا کہ اِس امت سے ایسے لوگ نکلیں گے)۔ جن کی نمازوں کے مقابلے میں تم اپنی نمازوں کو حقیر جانو گے، وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے لیکن یہ (قرآن) ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا یا یہ فرمایا کہ ان کے نرخرے سے نیچے نہیں اترے گا اور وہ دین سے یوں خارج ہو جائیں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں حافظ ابنِ حجر عسقلانی لکھتے ہیں :
قوله : ’’يخرج في هذه الأمة وَلَمْ يَقُلْ مِنْهَا قوم‘‘ لم تختلف الطرق الصحيحة علی أبي سعيد في ذلک،. . . وأما ما أخرجه الطبري من وجه آخر عن أبي سعيد بلفظ : ’’من أمتي‘‘ فسنده ضعيف، لکن وقع عند مسلم من حديث أبي ذرّ بلفظ : ’’سيکون بعدي من أُمتي قوم‘‘ وله من طريق زيد بن وهب عن عليّ : ’’يخرج قوم من أمتي‘‘ ويجمع بينه وبين حديث أبي سعيد بأن المراد بالأمة في حديث أبي سعيد : أمة الإجابة، وفي رواية غيره : أمة الدعوة. قال النووي رحمه اﷲ : ’’وفيه دلالة علی فقه الصحابة وتحريرهم الألفاظ، وفيه إشارة من أبي سعيد إلی تکفير الخوارج، وأنهم من غير هذه الأمة.‘‘
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12 : 289
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ ہیں : یخرج في ہذہ الامۃ قوم (اس امت میں ایک قوم نکلے گی)، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منہا (یعنی اس امت سے) نہیں فرمایا۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث کے جملہ صحیح طرق میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ اور رہی وہ حدیث جس کو امام طبری نے حضرت ابو سعید سے ایک اور طریق سے مِنْ أُمَّتِی کے الفاظ کے ساتھ روایت کیا ہے، تو اس کی سند ضعیف ہے، لیکن امام مسلم کے ہاں حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث کے الفاظ یہ ہیں : سيکون بعدی من أمتی قوم. اور اسی حدیث کا ایک طریق زید بن وہب عن علی ہے، اس کے الفاظ ہیں : يخرج قوم من أمتی. اس میں اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت کردہ حدیث میں تطبیق یوں ہوگی کہ حضرت ابوسعید کی روایت کردہ حدیث میں ’’امت‘‘ سے مراد امتِ اجابت یعنی امتِ مسلمہ ہے۔ اور آپ کے علاوہ دوسری روایت کردہ حدیث میں امت سے مراد امتِ دعوت ہے (جو تمام بنی نوع انسان کو شامل ہے)۔ اور امام نووی نے (شرح صحیح مسلم میں) فرمایا : یہ حدیث صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تفقہ اور ان کے عمدہ اسلوبِ بیان پر دلالت کرتی ہے اور اس میں حضرت ابوسعید کی طرف سے خوارج کی تکفیر کا اشارہ بھی ملتا ہے اور یہ کہ وہ (خوارج) اس امت میں سے نہیں ہیں۔‘‘
اس نکتہ کی تصریح قاضی عیاض نے بھی اکمال المعلم شرح صحیح مسلم میں کی ہے۔
حافظ ابنِ حجر عسقلانی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ’’صَلَاتُکُمْ مَعَ صَلَاتِهِمْ‘‘ کی شرح میں مزید لکھتے ہیں :
وصف عاصم أصحاب نجدة الحروري : بأنهم يصومون النهار، ويقومون الليل، ويأخذون الصدقات علی السنة. أخرجه الطبري. وعنده من طريق سليمان التيمي عن أنس ذکر عن رسول اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم قال : ’’إن فيکم قوماً يدأبون ويعملون حتی يعجبوا الناس وتعجبهم أنفسهم‘‘، ومن طريق حفص بن أخي أنس عن عمه بلفظ : ’’يتعمقون في الدين‘‘، وفي حديث ابن عباس عند الطبراني في قصّة مناظرته للخوارج قال : فأتيتهم فدخلت علی قوم لم أرَ أشدّ اجتهاداً منهم، أيديهم کأنها ثفن الإبل، ووجوههم معلمة من آثار السجود‘‘، وأخرج ابن أبي شيبة، عن ابن عباس أنه ذکر عنده الخوارج واجتهادهم في العبادة، فقال : ليسُوا أشدّ اجتهاداً من الرهبان.‘‘
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12 : 289
’’عاصم نے نجدہ حروری کے اصحاب کا وصف یوں بیان کیا ہے : وہ دن کو روزہ رکھتے، رات کو قیام کرتے اور سنت کے طریقے پر صدقات حاصل کرتے ہیں۔ اس کو امام طبری نے روایت کیا۔ اور ان کی سند میں سلیمان تمیمی، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے اور وہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : بے شک تم میں کچھ لوگ ایسے ہیں جو اپنے اعمال اور دین سے ظاہری تمسّک کے باعث لوگوں کو ورطۂ حیرت میں مبتلا کر دیں گے اور وہ خود بھی خود پسندی میں مبتلا ہوں گے۔ اور حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بھتیجے حضرت حفص اپنے چچا سے یہ الفاظ روایت کرتے ہیں : ’’يَتَعمَّقُونَ فِي الدين‘‘ کہ وہ دین میں بڑی پختگی اور شدت پسندی ظاہر کریں گے۔ اور امام طبرانی کے نزدیک حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ عنہما کی روایت کردہ حدیث ۔ جس میں خوارج کے ساتھ ان کے مناظرے کا قصہ ہے، اس میں آپ نے فرمایا : ’’میں ان کے پاس آیا اور ان لوگوں کے پاس پہنچا جن سے بڑھ کر اعمال میں ریاضت کرنے والے لوگ میں نے نہیں دیکھے تھے، ان کے ہاتھ ایسے تھے گویا اونٹ کے پاؤں (جو موٹے اور کھردرے ہوتے ہیں) اور ان کے چہروں پر سجدوں کے نشانات نمایاں تھے۔‘‘ ابنِ ابی شیبہ نے حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت کیا کہ آپ کے سامنے خوارج اور عبادت میں ان کی جانفشانی کا ذکر کیا گیا تو آپ نے فرمایا : وہ راہبوں سے بڑھ کر عبادت و ریاضت کرنے والے نہیں تھے۔‘‘
مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں علامہ شبیر احمد عثمانی نے بھی یہی تحقیق ’’فتح الملہم (5 : 159)‘‘ میں درج کی ہے۔
4۔ بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سب سے پہلی گستاخی کا ارتکاب کرنے والے خارجی اور انتہا پسندوں کے سردار ذو الخویصرہ تمیمی کے بارے میں احادیث میں بیان ہوا ہے کہ کثرت ریاضت و عبادت کے آثار اُس کے چہرے سے نمایاں تھے اور اس کی بہت گھنی ڈاڑھی تھی۔
1. بخاری، الصحيح، کتاب المغازي، باب بعث علی بن أبي طالب وخالد بن الوليد إلی
اليمن قبل حجة الوداع، 4 : 1581، رقم : 4094
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2
: 742، رقم : 1064
5۔ امام مسلم زید بن وہب جہنی سے روایت کرتے ہیں :
أَنَّهُ کَانَ فِي الْجَيْشِ الَّذِيْنَ کَانُوْا مَعَ عَلِيٍّ رضی الله عنه الَّذِيْنَ سَارُوْا إِلَی الْخَوَارِجِ، فَقَالَ عَلِيٌّ رضی الله عنه : أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُوْلُ : يَخْرُجُ قَوْمٌ مِنْ أُمَّتِي يَقْرَئُ وْنَ الْقُرْآنَ لَيْسَ قِرائَ تُکُمْ إِلَی قِرَائَ تِهِمْ بِشَيءٍ وَلاَ صَلَاتُکُمْ إِلَی صَلَاتِهِمْ بِشَيءٍ وَلَا صِيَامُکُمْ إِلَی صِيَامِهِمْ بِشَيئٍ يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ يَحْسَبُوْنَ أَنَّهُ لَهُمْ، وَهُوَ عَلَيْهِمْ لاَ تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلاَمِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّة.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066
2. أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب في قتال الخوارج، 4
: 244، رقم : 4768
3. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 91، رقم : 706
4. نسائي، السنن الکبری، 5 : 163، رقم : 8571
5. عبد الرزاق، المصنف، 10 : 147
’’وہ اس لشکر میں تھے جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج سے جنگ کے لئے گیا تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اے لوگو! میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری امت میں سے ایک قوم ظاہر ہوگی، وہ قرآن اس قدر پڑھیں گے کہ ان کے پڑھنے کے سامنے تمہارے قرآن پڑھنے کی کوئی حیثیت نہ ہو گی، نہ ان کی نمازوں کے سامنے تمہاری نمازوں کی کچھ حیثیت ہوگی اور نہ ہی ان کے روزوں کے سامنے تمہارے روزوں کی کوئی حیثیت ہوگی۔ وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ وہ ان کے حق میں ہے لیکن درحقیقت وہ ان کے خلاف ہوگا، نماز ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گی اور وہ اسلام سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔‘‘
علامہ شبیر احمد عثمانی مذکورہ بالا حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
قوله صلی الله عليه وآله وسلم : ’’يَحْسَبُوْنَ أَنَّهُ لَهُمْ‘‘ إلخ : أي : هم يحسبون أن القرآن حجة لهم في إثبات دعاويهم الباطلة، وليس کذلک، بل هو حجة عليهم عند اﷲ تعالی. وفيه إشارة إلی أن من المسلمين من يخرج من الدين من غير أن يقصد الخروج منه، ومن غير أن يختار ديناً علی دين الإسلام.
شبير احمد عثمانی، فتح الملهم، 5 : 167
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’وہ یہ گمان کریں گے کہ یہ قرآن ان کے حق میں دلیل ہے۔‘‘ یعنی وہ یہ گمان کریں گے کہ قرآن ان کے باطل دعووں کے اثبات میں ان کے حق میں حجت ہے حالانکہ اس طرح نہیں ہے، بلکہ قرآن اﷲ تعاليٰ کے ہاں اُن کے خلاف دلیل اور حجت ہو گا۔ اس میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ مسلمانوں میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جو دین سے خارج ہو جائیں گے اگرچہ ان کا دین سے خروج کا کوئی ارادہ نہ ہوگا۔‘‘
خوارج عامۃ الناس کو گمراہ کرنے اور ورغلانے کے لئے بظاہر اسلام کا نعرہ بلند کریں گے لیکن ان کی نیت بری ہوگی۔ احادیث مبارکہ کی روشنی میں ان کی بظاہر اسلام پر مبنی باتوں اور ظاہری وضع قطع اور دین داری کو دیکھ کر دھوکا نہ کھایا جائے کیونکہ ان کا یہ مذہبی نعرہ اور عبادت گذاری در حقیقت امت مسلمہ میں مغالطہ، اِبہام اور افتراق و انتشار پیدا کرنے کے لئے ہوگا۔
1۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
يَقُوْلُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج
والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539، رقم : 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2
: 746، رقم : 1066
’’وہ لوگوں کے سامنے (دھوکہ دہی کے لئے) ’’اسلامی منشور‘‘ پیش کریں گے۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ’’یقولون من قول خیر البریۃ‘‘ کی شرح میں لکھتے ہیں :
أی : من القرآن، وکان أوّل کلمة خرجوا بها قولهم : لا حکم إلا ﷲ، وانتزعوها من القرآن، وحملوها علی غير محملها.
عسقلانی، فتح الباری، 6 : 619
’’(اِن کلمات کا مطلب ہے کہ) خوارج اپنے موقف کی تائید میں قرآن پیش کریں گے۔ اِسی لیے سب سے پہلا نعرہ جو اُن کی زبانوں سے بلند ہوا اس کے الفاظ یہ تھے : اﷲ کے علاوہ کسی کا حکم (قبول) نہیں (یعنی انہوں نے اپنا منشور اسلامی لبادے میں پیش کیا تھا)۔ انہوں نے یہ جملہ قرآن حکیم سے اخذ کیا لیکن اس کا اطلاق اس سے ہٹ کر کیا۔‘‘
علامہ عبد الرحمن مبارک پوری نے جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی میں بھی یہی معنی بیان کیا ہے۔
مبارک پوری، تحفة الأحوذی، 6 : 354
2۔ امام مسلم حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آزاد کردہ غلام حضرت عبید اللہ بن ابی رافع رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
أَنَّ الْحَرُورِيَّةَ لَمَّا خَرَجَتْ وَهُوَ مَعَ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اﷲُ عَنْهُ، قَالُوا : لَا حُکْمَ إِلَّاِﷲِ. قَالَ عَلِيٌّ : کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ، إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم وَصَفَ نَاسًا إِنِّي لَأَعْرِفُ صِفَتَهُمْ فِي هَؤُلَاءِ يَقُوْلُوْنَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يَجُوْزُ هَذَا مِنْهُمْ وَأَشَارَ إِلَی حَلْقِهِ، مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اﷲِ إِلَيْهِ مِنْهُمْ أَسْوَدُ إِحْدَی يَدَيْهِ طُبْيُ شَاةٍ أَوْ حَلَمَةُ ثَدْیٍ، فَلَمَّا قَتَلَهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اﷲُ عَنْهُ قَالَ : انْظُرُوا، فَنَظَرُوا فَلَمْ يَجِدُوْا شَيْئًا. فَقَالَ : ارْجِعُوا فَوَاﷲِ، مَا کَذَبْتُ وَلَا کُذِبْتُ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا ثُمَّ وَجَدُوْهُ فِي خَرِبَةٍ فَأَتَوْا بِهِ حَتَّی وَضَعُوْهُ بَيْنَ يَدَيْهِ. قَالَ عُبَيْدُ اﷲِ : وَأَنَا حَاضِرُ ذَلِکَ مِنْ أَمْرِهِمْ وَقَوْلِ عَلِيٍّ فِيهِمْ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2
: 749، رقم : 1066
2. نسائي، السنن الکبری، 5 : 160، رقم : 8562
3. ابن حبان، الصحيح، 15 : 387، رقم : 6939
’’جس وقت حروریہ نے مسلح جد و جہد کا آغاز کیا اُس سے قبل وہ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے، انہوں نے کہا : اللہ کے سوا کوئی حُکم نہیں کر سکتا، حضرت علی رضی اللہ عنہ : نے فرمایا : بات تو حق ہے مگر اس سے مقصود باطل ہے۔ بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کچھ لوگوں کے متعلق فرمایا تھا جن کی نشانیاں میں اِن لوگوں میں بخوبی دیکھ رہا ہوں، وہ اپنی زبانوں سے دین حق کی بات کہتے ہیں اور حق اس سے (یعنی ان کے حلق سے) متجاوز نہیں ہوتا۔ آپ نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا اور کہا : یہ لوگ اللہ کی مخلوق میں مبغوض ترین ہیں۔ ان میں سے ایک شخص سیاہ رنگ کا ہے جس کا ہاتھ بکری کے تھن یا عورت کے پستان کے سر کی طرح ہے۔ جب حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ انہیں قتل کر چکے تو فرمایا : اس آدمی کی تلاش کرو، انہوں نے اسے ڈھونڈا مگر وہ نہ ملا، فرمایا : اس کو پھر جا کر تلاش کرو، بخدا نہ میں نے جھوٹ بولا ہے نہ مجھے (حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے) جھوٹ بتایا گیا ہے، یہ بات انہوں نے دو یا تین بار کہی، حتيٰ کہ لوگوں نے اسے بالآخر ایک کھنڈر میں ڈھونڈ لیا اور اس کی لاش لا کر حضرت علی کے سامنے رکھ دی۔ عبید اللہ کہتے ہیں : میں اس سارے معاملہ کا عینی گواہ ہوں اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول ان خوارج کے بارے میں ہی تھا۔‘‘
امام یحیيٰ بن شرف نووی شرح صحیح مسلم میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے قول ’’کَلِمَةُ حَقٍّ أُرِيْدَ بِهَا بَاطِلٌ‘‘ کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
معناه أن الکلمة أصلها صدق، قال اﷲ تعالی : ﴿اِنِ الْحُکْمُ اِلَّاِﷲِ﴾(1) لکنهم أرادوا بها الإنکار علی علي رضی الله عنه في تحکيمه.(2)
(1) الأنعام، 6 : 57
(2) نووی، شرح صحيح مسلم، 7 : 173، 174
’’اس کا معنی یہ ہے کہ اصلاً یہ کلمہ سچا ہے، اﷲ تعاليٰ کا فرمان ہے : (حکم صرف اللہ ہی کا ہے)۔ لیکن انہوں نے اس نعرہ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے حکم کو رد کرنے کے لئے استعمال کیا (یہ باطل ہے)۔‘‘
علامہ شبیر احمد عثمانی نے بھی ’’فتح الملھم (5 : 169)‘‘ میں مذکورہ کلمات کی یہی شرح بیان کی ہے۔
ایک دوسری روایت میں طارق بن زیاد بیان کرتے ہیں :
خَرَجْنَا مَعَ عَلِيٍّ رضی الله عنه إِلَی الْخَوَارِجِ فَقَتَلَهُمْ، ثُمَّ قَالَ : انْظُرُوْا فَإِنَّ نَبِيَّ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّهُ سَيَخْرُجُ قَومٌ يَتَکَلَّمُونَ بِالْحَقِّ لاَ يُجَاوِزُ حَلْقَهُمْ.
1. نسائي، السنن الکبری، 5 : 161، رقم : 8566
2. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 107، رقم : 848
’’ہم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خوارج کی طرف (ان سے جنگ کے لیے) نکلے، حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان کا خاتمہ کیا پھر فرمایا : دیکھو بے شک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : عنقریب ایسے لوگ نکلیں گے کہ حق کی بات کریں گے لیکن وہ کلمۂِ حق ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔‘‘
ان احادیثِ مبارکہ سے پتہ چلا کہ خوارج اپنے انتہا پسندانہ منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے نعرہء حق لگاتے ہیں لیکن در حقیقت اس کے پیچھے ان کے مذموم مقاصد ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے انہیں بے نقاب کرنا نہایت ضروری ہے تاکہ لوگ ان کے اچھے نعروں کی وجہ سے گمراہ نہ ہوں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان دہشت گرد خوارج کے ایک گروہ کی علامت یہ بھی بیان فرمائی ہے کہ یہ لوگ کم عمر ہوںگے اور دہشت گردی کے لیے ان دماغی طور پر ناپختہ (brain washed) کم عمر لڑکوں کو استعمال کیا جائے گا۔
1۔ صحیح بخاری، صحیح مسلم اور مسند احمد بن حنبل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
سَيَخْرُجُ قَومٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ يَقُوْلُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ، لاَ يُجَاوِزُ إِيْمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَأَيْنَمَا لَقِيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج
والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539، رقم : 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2
: 746، رقم : 1066
3. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 81، 113، 131، رقم : 616، 912، 1086
4. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7
: 119، رقم : 4102
5. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب في ذکر الخوارج، 1 :
59، رقم : 168
’’عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے یا نکلیں گے جو کم سِن لڑکے ہوں گے اور وہ عقل سے کورے (brain washed) ہوں گے۔ وہ ظاہراً (دھوکہ دہی کے لیے) اسلامی منشور پیش کریں گے، ایمان ان کے اپنے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔ پس تم انہیں جہاں کہیں پاؤ تو قتل کر دینا کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن ثواب ملے گا۔‘‘
2۔ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ (279ھ) ’’السنن (کتاب الفتن، باب ماجاء صفۃ المارقۃ، 4 : 181، رقم : 2188)‘‘ میں حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
يَخْرُجُ فِيْ اٰخرِالزَّمَانِ قَوْمٌ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ، سُفَهَاءُ الْأَحْلاَمِ، يَقرَءُوْنَ القُرْاٰنَ، لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيهُمْ، يَقُوْلُوْنَ مِنْ قَوْلِ خَيْرِ الْبَرِيَّةِ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ.
1. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 36، 44
2. حاکم، المستدرک، 2 : 159، رقم : 2645
3. ابن أبی عاصم، السنة، 2 : 456، رقم : 937
4. بيهقی، السنن الکبری، 8 : 187
5. ديلمي، الفردوس بمأثور الخطاب، 2 : 322، رقم : 3460
’’آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے جو کم سِن ہوں گے، وہ بے عقل ہوں گے (یعنی ان کی brain washing نہایت آسان ہوگی)۔ وہ قرآن مجید پڑھیں گے لیکن یہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، دین اسلام کی باتیں کریں گے، مگر یہ لوگ دین سے ایسے نکلے ہوئے ہوں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔‘‘
درج بالا اَحادیث میں اَحْدَاثُ الْاَسْنَانِ اور سُفَهَاءُ الْاَحَلاَمِ سے مراد کم عمر، دماغی طور پر ناپختہ (brain washed) لڑکے ہیں، جنہیں خوارج اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے دہشت گردانہ کارروائیوں میں استعمال کرتے ہیں۔ اس معنی کی صراحت قرآن حکیم میں بھی ملتی ہے۔ قرآن حکیم میں بھی کم عقلوں اور بے سمجھوں کو سُفَهَاء کہا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَآءَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِيْ جَعَلَ اﷲُ لَکُمْ قِيٰمًا.
النساء، 4 : 5
’’اور تم بے سمجھوں کو اپنے (یا ان کے) مال سپرد نہ کرو جنہیں اللہ نے تمہاری معیشت کی استواری کا سبب بنایا ہے۔‘‘
اس معنی کی تائید درج ذیل اقوال ائمہ سے بھی ہوتی ہے :
1۔ حافظ ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں :
قوله صلی الله عليه وآله وسلم : ’’أَحْدَاث‘‘، والحدث هو الصغير السِّن، هکذا في أکثر الروايات، ووقع هنا للمستملی والسرخسي ’’حُدَّاث.‘‘ قال في المطالع : معناه شباب.
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12 : 287
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ میں اَحْدَاث حدث سے ہے جس کا معنی ہے : چھوٹی عمر کا لڑکا۔ اسی طرح اکثر روایات میں آیا ہے، یہاں مستملی اور سرخسی کی روایات میں حُدّاث کا لفظ بھی آیا ہے۔ مطالع میں کہا گیا ہے کہ اس کا معنی کم سن نوجوان ہے۔‘‘
حافظ ابنِ حجر عسقلانی مزید فرماتے ہیں :
قوله صلی الله عليه وآله وسلم : ’’سُفَهَاءُ الْأَحْلَام‘‘ والمعنی أن عقولهم رديئة.
ابن حجر عسقلانی، فتح الباری، 12 : 287
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان سُفَهَاءُ الْأَحْلَام سے مراد یہ ہے کہ وہ (دہشت گردی کی سفّاکانہ کارروائیاں کرنے والے) عقل و سمجھ میں ناپختہ ہوں گے۔‘‘
2۔ علامہ بدر الدین العینی لکھتے ہیں :
قوله صلی الله عليه وآله وسلم : ’’حُدّاث الأسنان‘‘ هکذا في رواية المستملي والسرخسي. وفي أکثر الروايات : أحداث الأسنان، وهو صغير السِّن. وقال ابن الأثير : حداثة السن کناية عن الشباب، وأوّل العمر. والمراد بالأسنان العمر يعنی أنهم شباب.
قوله صلی الله عليه وآله وسلم : ’’سُفَهَائُ الْأَحْلَام‘‘ يعني عقولهم رديئة.
بدر الدين عينی، عمدة القاری، 16 : 208، 209
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : حُدَّاثُ الأسْنان. مستملی اور سرخسی کی روایات میں اسی طرح ہے جبکہ اکثر روایات میں أحداث الأسنان کے الفاظ آئے ہیں۔ اِس سے مراد کم عمر لڑکے ہیں۔ امام ابن الاثیر نے کہا ہے : حداثۃ السن سے کنایتاً نوجوانی اور عمر کا اوّل حصہ مراد لیا جاتا ہے اور اسنان سے بھی عمر مراد ہے، یعنی وہ نوجوان ہیں۔
’’اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان سُفَهَاءُ الْأَحْلَام سے مراد یہ ہے کہ خوارج ناپختہ عقل والے (یعنی brain washed) ہوں گے۔‘‘
3۔ علامہ مبارک پوری نے بھی جامع الترمذی کی شرح تحفۃ الاحوذی میں اَحداث الاسنان سے کم عمر نوجوان مراد لئے ہیں۔
مبارک پوری، تحفة الأحوذی، 6 : 353
4۔ علامہ شبیر احمد عثمانی فتح الملہم میں لکھتے ہیں :
قوله : ’’أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ‘‘ إلخ : والحدث هو : الصغير السِّن، هکذا في أکثر الروايات، ووقع في بعضها ’’حُدَّاث. قال في المطالع : معناه شباب. . . . والأسنان جمع سن، والمراد به العمر، والمراد : أنهم شباب.
شبير احمد عثمانی، فتح الملهم، 5 : 166
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ إلخ. حدث سے مراد ہے : کم سن لڑکے۔ یہی اکثر روایات میں بیان کیا گیا ہے۔ جب کہ بعض روایات میں حُدّاث کا لفظ بھی وارد ہوا ہے۔ مطالع میں کہا گیا ہے کہ اس کا معنی نوجوان ہے۔ ۔ ۔ ۔ أسْنان، سِن کی جمع ہے جس سے مراد ’’عمر‘‘ ہے۔ اس کا معنی یہ ہے کہ دہشت گردی کرنے والے نوجوان ہوں گے۔‘‘
مندرجہ بالا تصریحاتِ محدثین سے واضح ہوا کہ اَحْدَاثُ الْاَسْنَانِ اور سُفَهَاءُ الْأَحْلاَمِ سے مراد پاگل نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد وہ brain washed نوجوان ہیں جو کم سن ہیں اور ابھی ان میں شعور کی پختگی نہیں آئی۔ ایسے کم عمر ناپختہ ذہنوں کی برین واشنگ کرکے شاطر دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں۔ اگر موجودہ دہشت گردانہ کارروائیوں کا جائزہ لیا جائے تو صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ پیشین گوئی حرف بہ حرف سچی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ دہشت گرد اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے پندرہ تا اٹھارہ سال کے نوجوانوں کو جذباتی نعروں کے ذریعے کبھی دین دشمن سے لڑنے کا نام دے کر، کبھی خود کشی کو شہادت کا نام دے کر اور کبھی اسلام کے نام پر جنت کا لالچ دے کر بہکاتے ہیں۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوارج کے بارے میں یہ پیشین گوئی بھی فرما دی تھی کہ ان کا ظہور مشرق کی طرف سے ہوگا۔
1۔ امام بخاری حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ وَيَقْرَءُ وْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، ثُمَّ لَا يَعُوْدُوْنَ فِيْهِ حَتَّی يَعُوْدَ السَّهْمُ إِلَی فُوْقِهِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، باب قراء ة الفاجر والمنافق وأصواتهم وتلاوتهم
لا تجاوز حناجرهم، 6 : 2748، رقم : 7123
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 64، رقم : 11632
3. ابن أبی شيبة، المصنف، 7 : 563، رقم : 37397
4. أبويعلی، المسند، 2 : 408، رقم : 1193
5. طبراني، المعجم الکبير، 6 : 91، رقم : 5609
’’مشرق کی جانب سے کچھ لوگ نکلیں گے، وہ قرآن مجید پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے اور پھر وہ دین میں واپس نہیں آئیں گے جب تک تیر اپنی جگہ پر واپس نہ لوٹ آئے۔‘‘
2۔ امام مسلم کی بیان کردہ روایت میں يُسیر بن عمرو کہتے ہیں کہ انہوں نے حضرت سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ سے پوچھا : کیا آپ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خوارج کا ذکر سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا :
سَمِعْتُهُ وَأَشَارَ بِيَدِهِ نَحْوَ الْمَشْرِقِ قَوْمٌ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يَعْدُوْا تَرَاقِيَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ.
مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب الخوارج شر الخلق والخليفة، 2 : 750، رقم : 1068
’’ہاں! میں نے سنا ہے اور اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ کرکے کہا : وہ (وہاں سے نکلیں گے اور) اپنی زبانوں سے قرآن مجید پڑھیں گے مگر وہ ان کے حلق سے نہیں اترے گا اور وہ دین سے ایسے نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار ہو جاتا ہے۔‘‘
3۔ امام بخاری و مسلم حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر پر یہ فرماتے ہوئے سنا :
أَلاَ إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا. يُشِيْرُ إِلَی الْمَشْرِقِ . مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب المناقب، باب نسبة اليمن إلی إسماعيل، 3
: 1293، رقم : 3320
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب الفتنة من المشرق من حيث
يطلع
قرنا الشيطان، 4 : 2229، رقم : 2905
3. مالک، الموطأ، کتاب الاستئذان، باب ما جاء في المشرق، 2
: 975، رقم : 1757
4. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 73، رقم : 5428
’’خبر دار ہو جاؤ! فتنہ اُدھر ہے۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا : یہیں سے شیطان کا سینگ (یعنی شیطان کا گروہ) ظاہر ہوگا۔‘‘
4۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشرق کی جانب چہرہ مبارک کرکے یہ فرماتے ہوئے سنا :
أَ لَا إِنَّ الْفِتْنَةَ هَاهُنَا مِنْ حَيْثُ يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الفتن، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم
: الفتنة من قبل المشرق،
6 : 2598، رقم : 6680
2. مسلم، الصحيح، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب الفتنة من المشرق من حيث
يطلع
قرنا الشيطان، 4 : 2228، رقم : 2905
3. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 91، رقم : 5659
’’خبردار ہو جاؤ کہ فتنہ اُدھر (یعنی مشرق کی طرف) ہے جہاں سے شیطان کا سینگ نکلے گا۔‘‘
درج بالا فرامین نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خوارج کے ظہور کی پیشین گوئی کے ساتھ ساتھ ان کے ظہور کی سمت اور علاقہ بھی بتلادیا گیا تھا۔ ان فرامین کے مطابق خوارج کا ظہور حرمین شریفین کی مشرقی سمت سے ہوگا۔ جب کہ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی درج ذیل حدیث مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُس مشرقی علاقے کا نام بھی بتا دیا :
5. ذَکَرَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي يَمَنِنَا قَالُوْا : يَارَسُوْلَ اﷲِ، وَفِي نَجْدِنَا؟ قَالَ : اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي شَامِنَا اَللَّهُمَّ بَارِکْ لَنَا فِي يَمَنِنَا، قَالُوْا : يَارَسُوْلَ اﷲِ، وَفِي نَجْدِنَا؟ فَأَظُنُّهُ قَالَ فِي الثَّالِثَةِ : هُنَاکَ الزَّلَازِلُ وَالْفِتَنُ، وَبِهَا يَطْلُعُ قَرْنُ الشَّيْطَانِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الفتن، باب قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم
: الفتنة من قبل المشرق،
6 : 2598، رقم : 6681
2. ترمذی، السنن، کتاب المناقب، باب في فضل الشام واليمن، 5
: 733، رقم : 3953
3. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 118، رقم : 5987
4. ابن حبان، الصحيح، 16 : 290، رقم : 7301
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی : اے اﷲ! ہمارے لیے ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اﷲ! ہمارے لئے ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، (بعض) لوگوں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! ہمارے نجد کے لئے بھی دعا فرمائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (پھر) دعا فرمائی : اے اﷲ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اﷲ! ہمارے لئے ہمارے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر) عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہمارے نجد کے لئے بھی۔ میرا خیال ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تیسری مرتبہ ارشاد فرمایا : وہاں زلزلے اور فتنے ہوں گے اور شیطان کا سینگ (یعنی گروہ) وہیں سے نکلے گا۔‘‘
یہ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سوفیصد درست ثابت ہوا جب سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں حرمین شریفین سے مشرق میں عراق کے بارڈر پر واقع علاقے نجد اور حروراء سے خوارج کا پہلا گروہ ظاہر ہوا تھا۔ اور وہیں سے ان کی مسلح دہشت گردی کی ابتداء ہوئی۔ انہی ارشادات میں آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واضح طور پریہ بھی فرما دیا تھا کہ خوارج ہر دور میں نکلتے رہیں گے۔
اگر تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ وطنِ عزیز پاکستان بھی حرمین شریفین سے مشرقی جانب واقع ہے۔ اس لئے اہل پاکستان کے لئے نماز میں قبلہ کی سمت بھی مغرب ہی ہے۔ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں سمتِ مشرق کے واضح بیان میں لفظ کے عموم کے تحت اس توسیعی اطلاق کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہاں بھی خوارج کی صفات و علامات کے حاملین نے دہشت گردی اور تباہی و بربادی پھیلا کر قیامتِ صغريٰ بپا کر رکھی ہے۔ آئے روز درجنوں لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور سیکڑوں زخمی ہو جاتے ہیں۔ مسجدوں اور مزارات کو مسمار کر دیا جاتا ہے۔ عام شہریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ بازاروں، مارکیٹوں اور زیادہ بھیڑ والی جگہوں کو بطور خاص نشانہ بنایا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ دہشت پھیلائی جا سکے۔
اس اطلاق کی تائید آگے بیان ہونے والی خوارج کی علامت سے بخوبی ہو جاتی ہے۔
احادیث مبارکہ میں یہ تصریح بھی فرما دی گئی ہے کہ خوارج قیامت تک ہر دور میں نکلتے رہیں گے حتی کہ ان کا آخری گروہ دجال کے زمانے میں ظاہر ہو گا جو اس کے ساتھ مل کر مسلمانوں کو قتل کرے گا۔
1۔ امام احمد اور امام نسائی حضرت شریک بن شہاب رضی اللہ عنہ سے صحیح حدیثِ مبارکہ میں روایت کرتے ہیں :
کُنْتُ أَتَمَنَّی أَنْ أَلْقَی رَجُلًا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم أَسْأَلُهُ عَنِ الْخَوَارِجِ، فَلَقِيْتُ أَبَا بَرْزَةَ فِي يَومِ عِيْدٍ فِي نَفَرٍ مِنْ أَصْحَابِهِ فَقُلْتُ لَهُ : هَلْ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَذْکُرُ الْخَوَارِجَ؟ فَقَالَ : نَعَمْ، سَمِعْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِأُذُنِي وَرَأَيْتُهُ بِعَيْنِي أُتِيَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم بِمَالٍ فَقَسَمَهُ، فَأَعْطَی مَنْ عَنْ يَمِيْنِهِ وَمَنْ عَنْ شِمَالِهِ، وَلَمْ يُعْطِ مَنْ وَرَاءَ هُ شَيْئًا، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ وَرَائِهِ. فَقَالَ : يَا مُحَمَّدُ، مَا عَدَلْتَ فِي الْقِسْمَةِ، رَجُلٌ أَسْوَدُ مَطْمُوْمُ الشَّعْرِ، عَلَيْهِ ثَوْبَانِ أَبْيَضَانِ فَغَضِبَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم غَضَبًا شَدِيْدًا، وَقَالَ : وَاﷲِ، لَا تَجِدُوْنَ بَعْدِي رَجُلًا هُوَ أَعْدَلُ مِنِّي، ثُمَّ قَالَ : يَخْرُجُ فِي آخِرِ الزَّمَانِ قَوْمٌ کَأَنَّ هَذَا مِنْهُمْ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلَامِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، سِيْمَاهُمُ التَّحْلِيْقُ، لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ، فَإِذَا لَقِيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ.
1. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 421
2. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7
: 119، رقم : 4103
3. نسائي، السنن الکبری، 2 : 312، رقم : 3566
4. بزار، المسند، 9 : 294، رقم : 3846
5. طيالسي، المسند، 1 : 124، رقم : 923
’’مجھے اس بات کی شدید خواہش تھی کہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کسی صحابی سے ملوں اور ان سے خوارج کے متعلق دریافت کروں۔ اتفاقاً میں نے عید کے روز حضرت ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کو ان کے کئی دوستوں کے ساتھ دیکھا تو میں نے ان سے دریافت کیا : کیا آپ نے خارجیوں کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کچھ سنا ہے؟ آپ نے فرمایا : ہاں، میں نے اپنے کانوں سے سنا اور آنکھوں سے دیکھا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں کچھ مال پیش کیا گیا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مال کو ان لوگوں میں تقسیم فرما دیا جو دائیں اور بائیں طرف بیٹھے ہوئے تھے، اور جو لوگ پیچھے بیٹھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں کچھ عنایت نہ فرمایا۔ چنانچہ ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا، اے محمد! آپ نے تقسیم میں عدل نہیں کیا۔ وہ شخص سیاہ رنگ، سر منڈا اور سفید کپڑے پہنے ہوئے تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شدید ناراض ہوئے اور فرمایا : خدا کی قسم! تم میرے بعد مجھ سے بڑھ کر کسی شخص کو انصاف کرنے والا نہ پاؤگے، پھر فرمایا : آخری زمانے میں کچھ لوگ پیدا ہوں گے یہ شخص بھی انہیں لوگوں میں سے ہے۔ وہ قرآن مجید کی تلاوت کریں گے مگر قرآن ان کے حلق سے نیچے نہ اترے گا وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے۔ ان کی نشانی یہ ہے کہ وہ سرمنڈے ہوں گے، یہ ہمیشہ نکلتے ہی رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا۔ جب تمہارا (میدان جنگ میں) ان سے سامنا ہو تو انہیں قتل کردو۔ وہ تمام مخلوق سے بدترین ہیں۔‘‘
2۔ امام احمد بن حنبل اور امام حاکم حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
سَيَخْرُجُ أُنَاسٌ مِنْ أُمَّتِي مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّی عَدَّهَا زِيَادَةً عَلَی عَشْرَةِ مَرَّاتٍ، کُلَّمَا خَرَجَ مِنْهُمْ قَرْنٌ قُطِعَ حَتَّی يَخْرُجَ الدَّجَّالُ فِي بَقِيَّتِهِمْ.
1. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 198، رقم : 6871
2. حاکم، المستدرک، 4 : 533، رقم : 8497
3. ابن حماد، الفتن، 2 : 532
4. ابن راشد، الجامع، 11 : 377
5. آجري، الشريعة : 113، رقم : 260
’’میری امت میں مشرق کی جانب سے کچھ ایسے لوگ نکلیں گے جو قرآن پڑھتے ہوں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا اور ان میں سے جو بھی شیطانی گروہ جوں ہی نکلے گا وہ (فوجی آپریشن کی صورت میں) ختم کر دیا جائے گا۔ ان میں سے جو بھی شیطانی گروہ جوں ہی نکلے گا (ریاستی ادارے) ان کا خاتمہ کر دیں گے۔ (یہ قُطِعَ کا معنی مرادی ہے۔ قطع کر دیے جانے کی معنوی مناسبت فوجی آپریشن کے ساتھ زیادہ بنتی ہے۔) یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یوں ہی دس دفعہ سے بھی زیادہ بار دہرایا اور فرمایا : ان میں سے جو بھی شیطانی گروہ جب بھی نکلے گا اسے کاٹ دیا جائے گا یہاں تک کہ ان ہی کی باقی ماندہ نسل میں دجال نکلے گا۔‘‘
لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ کے ذریعے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِس وہم کا ازالہ بھی فرما دیا کہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ خوارج صرف ایک ہی بار ظاہر ہوئے تھے جن کا خاتمہ سیدنا علی المرتضی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں کیا۔ بلکہ یہ خوارج کا پہلا گروہ تھا جس سے اس تحریک کا آغاز ہوا، حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مطابق یہ خوارج ہر دور میں وقتاً فوقتاً نکلتے رہیں گے حتيٰ کہ اس کا آخری گروہ ظہورِ دجال کے وقت مسلح ہو کر نکلے گا۔ اور تاریخ کے ہر دور میں یہ خوارج جب بھی نکلیں گے مسلم ریاستوں کے خلاف جنگ کرتے رہیں گے، بندوق اور ہتھیار اٹھا کر مسلمانوں کا قتل عام کرتے رہیں گے۔ یہی دہشت گردی ان کی پہچان ہوگی۔ مزید یہ کہ احادیث میں ’’قرن‘‘ کا لفظ آیا ہے، جس کا معنی ہے : القرن : القوم المُقْتِرُوْن فِی زَمَنٍ وَاحِدٍ (ایک دور میں لوگوں کا ایک گروہ جو باہم مربوط و منظم ہو)۔
مگر لغوی لحاظ سے اس کا دوسرا معنی بھی ہے اور وہ یہ کہ قَرْنٌ سینگ کو بھی کہتے ہیں، جسے جانور اپنے دشمن کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ قرن کا استعارہ استعمال کرکے گویا یہ بھی بتا دیا گیا ہے کہ وہ لوگ ہتھیار اٹھا کر بغاوت کریں گے۔ قَرْنُ الشَّيْطَان کا مطلب ہے کہ وہ ہتھیار شیطانی مقاصد پورے کرنے کے لیے استعمال ہوں گے۔ لوگوں کا قتلِ عام اور انسانیت کی بربادی شیطان کا اوّلین مقصد ہے۔
3۔ اسی مضمون کو امام ابن ماجہ نے بھی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کُلَّمَا خَرَجَ قَرْنٌ قُطِعَ، أَکْثَرَ مِنْ عِشْرِينَ مَرَّةً، حَتَّی يَخْرُجَ فِي عِرَاضِهِم الدَّجَّالُ.
ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب فی ذکر الخوارج، 1 : 61، رقم : 174
’’گروہ خوارج جب بھی ظاہر ہوگا اسے ختم کر دیا جائے گا۔ ایسا بیس سے زائد بار ہوگا، حتيٰ کہ (سب سے) آخری (گروہ) میں دجال ظاہر ہوگا۔‘‘
1۔ امام بخاری سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج
والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539، رقم : 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2
: 746، رقم : 1066
3. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7
: 119، رقم : 4102
4. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب في ذکر الخوارج، 1 :
59، رقم : 168
5. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 81، 113، 131، رقم : 616، 912،
1086
’’خوارج دین سے یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘
2۔ سنن ترمذی میں حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يَمْرُقُوْنَ مِنَ الِإسْلَامِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ.
ترمذی، السنن، کتاب الفتن، باب في صفة المارقة، 4 : 481، رقم : 2188
امام ترمذی نے السنن میں اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرمایا : یہ روایت حضرت علی، حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
’’خوارج دین سے یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘
علامہ بدر الدین العینی مذکورہ بالا احادیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
قوله صلی الله عليه وآله وسلم : ’’يمرقون من الدين‘‘ من المروق وهو الخروج. يقال : مرق من الدين مروقاً خرج منه ببدعته وضلالته. وفي رواية سويد بن غفلة عند النسائي والطبري : يمرقون من الإسلام، وفي رواية للنسائي : يمرقون من الحق.
بدر الدين عينی، عمدة القاری، 16 : 209
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’وہ دین سے خارج ہو جائیں گے۔‘‘ یمرقون کا لفظ مروق سے نکلا ہے جس کا مطلب ہے : باغی ہونا؛ خارج ہوجانا۔ جس طرح کہا جاتا ہے : وہ اپنی بدعت و ضلالت کے سبب دین سے خارج ہو گیا۔ حضرت سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں امام نسائی اور امام طبری سے یہ الفاظ مروی ہیں : وہ اسلام سے خارج ہو جائیں گے۔ امام نسائی کی ایک روایت کے الفاظ ہیں : وہ حق سے خارج ہو جائیں گے۔‘‘
علامہ انور شاہ کشمیری مروق کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
المروق هو الخروج من حيث لا يدري.
شبير احمد عثمانی، فتح الملهم، 5 : 168
’’مروق سے مراد ایسا خروج ہے جس میں کوئی پختہ سوچ سمجھ شامل نہ ہو (یعنی جدھر منہ اٹھایا چل پڑے)۔‘‘
اِس مضمون پر مشتمل درجنوں احادیث صحاحِ ستہ میں وارد ہوئی ہیں، جن کا ہم پہلے ہی ذکر کر چکے ہیں۔
انسانوں کے قتل عام اور سفاکانہ دہشت گردی کی پاداش میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوارج کو جہنم کے کتے قرار دیا ہے۔
1۔ سنن ترمذی میں امام ابو غالب نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے :
فَقَالَ أَبُوْ أُمَامَةَ رضی الله عنه : کِلَابُ النَّارِ شَرُّ قَتْلَی تَحْتَ أَدِيْمِ السَّمَائِ خَيْرُ قَتْلَی مَنْ قَتَلُوْهُ ثُمَّ قًرَأَ : ﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوْهٌ وَّتَسْوَدُّ وُجُوْهٌ﴾ إِلَی آخِرِ الآيَةِ قُلْتُ لِأَبِي أُمَامَةَ : أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ : لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ إِلَّا مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا أَوْ أَرْبَعًا حَتَّی عَدَّ سَبْعًا مَا حَدَّثْتُکُمُوْهُ.
1. ترمذی، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة آل عمران، 5
: 226، رقم : 3000
2. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 256، رقم : 22262
3. حاکم، المستدرک، 2 : 163، رقم : 2655
4. بيهقي، السنن الکبری، 8 : 188
5. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 248، رقم : 1279
’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : (یہ خوارج) جہنم کے کتے ہیں، آسمان کے نیچے بدترین مقتول ہیں اور وہ شخص بہترین مقتول ہے جسے انہوں نے قتل کیا۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : (جس دن کئی چہرے سفید ہوں گے اور کئی چہرے سیاہ ہوں گے۔) حضرت ابو غالب کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا : کیا آپ نے یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا : اگر میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے (یہ فرمان) ایک، دو، تین، چار یہاں تک کہ سات بار بھی سنا ہوتا تو تم سے بیان نہ کرتا (یعنی میں نے یہ بات خود حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے متعدد بار سنی ہے)۔‘‘
2۔ امام ابن ابی شیبہ، بیہقی اور طبرانی نے حضرت ابو غالب سے روایت کیا کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے خوارج اور حروریہ کے متعلق بیان فرمایا :
کِلَابُ جَهَنَّمَ، شَرُّ قَتْلَی قُتِلُوْا تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ، وَ مَنْ قَتَلُوْا خَيْرُ قَتْلَی تَحْتَ السَّمَاءِ . . . إلی الآخر.
1. ابن أبي شيبة، المصنف، 7 : 554، رقم : 37892
2. طبراني، المعجم الکبير، 8 : 267، 268، رقم : 8034، 8035
3. بيهقي، السنن الکبری، 8 : 188
’’یہ جہنم کے کتے ہیں اور زیرِ آسمان تمام مقتولوں سے بدترین مقتول ہیں اور ان کے ہاتھوں شہید ہونے والے زیر آسمان تمام شہیدوں سے بہترین شہید ہیں۔‘‘
3۔ سعید بن جہمان بیان کرتے ہیں :
کَانَتِ الْخَوَارِجُ قَدْ تَدْعُوْنِي حَتَّی کِدْتُ أَنْ أَدْخُلَ فِيْهِمْ، فَرَأَتْ أُخْتُ أَبِي بِلاَلٍ فِي النَّوْمِ أَنَّ أَبَا بِلاَلٍ کَلْبٌ أَهْلَبُ أَسْوَدُ عَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ. فَقَالَتْ : بِأَبِي أَنْتَ يَا أَبَا بِلَالٍ مَا شَأْنُکَ أَرَاکَ هَکَذَا؟ فَقَالَ : جُعِلْنَا بَعْدَکُمْ کِلَابَ أَهْلِ النَّارِ، وَکَانَ أَبُوْ بِلاَلٍ مِنْ رُؤُوْسِ الْخَوَارِجِ.
1. ابن أبي شيبة، المصنف، 7 : 555، رقم : 37895
2. عبد اﷲ بن أحمد، السنة، 2 : 634، رقم : 1509
’’خوارج مجھے (اپنی طرف) دعوت دیا کرتے تھے (سو اس دعوت سے متاثر ہو کر) قریب تھا کہ میں ان کے ساتھ شامل ہو جاتا کہ ابو بلال (خارجی) کی بہن نے خواب دیکھا کہ ابو بلال کالے لمبے بالوں والے کتے کی شکل میں ہے، اس کی آنکھیں بہہ رہی تھیں۔ بیان کیا کہ اس نے کہا : اے ابو بلال! میرا باپ تجھ پر قربان! کیا وجہ ہے کہ میں تمہیں اس حال میں دیکھ رہی ہوں؟ اس نے کہا : ہم لوگ تمہارے بعد دوزخ کے کتے بنا دیے گئے ہیں۔ ابو بلال خارجیوں کے سرداروں میں سے تھا۔‘‘
خوارج تلاوت قرآن اور نماز روزہ کے سخت پابند تھے، ان کی گفتگو میں دنیا کی بے ثباتی، زہد و تقويٰ کی ترغیب و تحریص، امر بالمعروف ونہی عن المنکر کا بہت زیادہ اہتمام اور امارت اور عہدہ قبول کرنے سے ہر ایک کا عذر و گریز ایسے اُمور ہیں کہ ان امور کا پایا جانا کسی بھی شخص کو ظاہراً دین دار بلکہ متقی اور مجاہد سمجھنے کے لئے کافی ہوتا ہے۔ جیسا کہ امام ابن ماجہ اور احمد بن حنبل حضرت ابو سلمہ سے روایت کرتے ہیں۔ حضرت ابو سلمہ نے بیان کیا ہے :
1. قُلْتُ لِأَبِي سَعِيْدٍ الْخُدْرِيِّ رضی الله عنه : هَلْ سَمِعْتَ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَذْکُرُ فِي الْحَرُورِيَّةِ شَيْئًا؟ فَقَالَ : سَمِعْتُهُ يَذْکُرُ قَوْمًا يَتَعَبَّدُونَ (وفي رواية أحمد : يَتَعَمَّقُوْنَ فِي الدِّيْنِ) يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ وَصَومَهُ مَعَ صَومِهِمْ.
1. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب في ذکر الخوارج، 1 : 60،
رقم : 169
2. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 33، رقم : 11309
3. ابن أبي شيبة، المصنف، 7 : 557، رقم : 37909
’’میں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا : کیا آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے حروریہ (یعنی خوارج) کے متعلق کوئی حدیث سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا : (ہاں) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک گروہ کا ذکر فرمایا جو خوب عبادت کرے گا، (امام احمد کی ایک روایت میں ہے کہ وہ دین میں انتہائی پختہ نظر آئیں گے) (یہاں تک کہ) تم اپنی نمازوں اور روزوں کو ان کی نمازوں اور روزوں کے مقابلہ میں کمتر سمجھوگے۔‘‘
یہی سبب ہے کہ خود کئی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان کے معاملے میں شبہ وارد ہوتا تھا۔ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ جیسے شخص کہتے ہیں کہ ایسے زاہد و عابد لوگ میں نے کبھی نہیں دیکھے۔ جیسا کہ امام حاکم اور نسائی کی بیان کردہ درج ذیل روایت میں بیان ہوا ہے :
2. قال عبد اﷲ بن عباس : فأتيتهم وهم مجتمعون فی دارهم قائلون، فسلمت عليهم. فقالوا : مرحبا بک يا ابن عباس. قال ابن عباس : وأتيت قومًا لم أر قومًا قط أشد اجتهادًا منهم مسهمة وجوهم من السهر کأن أيديهم ورکبهم تثنی عليهم.
1. حاکم، المستدرک، 2 : 164، رقم : 2656
2. نسائی، السنن الکبريٰ، 5 : 165، رقم : 8575
3. عبد الرزاق، المصنف، 10 : 158
4. طبرانی، المعجم الکبير، 10 : 257، رقم : 10598
5. بيهقی، السنن الکبری، 8 : 179
’’حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں (حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے) ان کے پاس ایک گھر میں گیا جہاں وہ سب جمع تھے۔ میں نے ان پر سلام کیا۔ انہوں نے اس کے جواب میں کہا : مرحبا! اے ابن عباس (یعنی صحابی رسول کو جواباً وعلیکم السلام بھی نہ کہا)۔ حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں : میں نے ان لوگوں سے زیادہ عبادت میں مجاہدہ کرنے والا کسی کو نہیں دیکھا تھا۔ ان کے چہرے زیادہ جاگنے کی وجہ سے سوکھ گئے تھے اور ہاتھ پاؤں ٹیڑھے معلوم ہوتے تھے۔‘‘
3۔ خوارج کی کثرت عبادت و ریاضت کا حال حضرت جندب رضی اللہ عنہ اس طرح بیان فرماتے ہیں :
لما فارقت الخوارج عليًّا خرج فی طلبهم وخرجنا معه، فانتهينا إلی عسکر القوم فإذا لهم دوي کدوي النحل من قراء ة القرآن، وفيهم أصحاب الثفنات وأصحاب البرانس، فلما رأيتهم دخلني من ذلک شدة فتنحيت فرکزت رمحي ونزلت عن فرسي ووضعت برنسي، فنشرت عليه درعي، وأخذت بمقود فرسي فقمت أصلي إلی رمحي وأنا أقول فی صلاتي : اللهم إن کان قتال هؤلاء القوم، لک طاعة فإذن لي فيه، وإن کان معصية فأرني براء تک.
1. طبرانی، المعجم الأوسط، 4 : 227، رقم : 4051
2. هيثمی، مجمع الزوائد، 4 : 227
3. عسقلانی، فتح الباری، 12 : 296
4. شوکانی، نيل الأوطار، 7 : 349
’’جب خوارج علیحدہ ہو گئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے تعاقب میں نکلے تو ہم بھی ساتھ تھے۔ جب ہم خوارج کے لشکر کے قریب پہنچے تو قرآن مجید پڑھنے کا ایک شور سنائی دیا۔ ان خوارج کی یہ حالت تھی کہ تہبند بندھے ہوئے، ٹوپیاں اوڑھے ہوئے کمال درجہ کے زاہد و عابد نظر آتے تھے۔ ان کا یہ حال دیکھ کر ان سے قتال مجھ پر نہایت شاق ہوا۔ میں نے ایک طرف نیزہ گاڑ کر ٹوپی اور زرہ اس پر لگا دی اور گھوڑے سے اتر کر نیزہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنا شروع کی اور اس میں یہ دعا کی : ’’الٰہی! اگر اس گروہ کا قتل کرنا تیری طاعت ہے تو مجھے اجازت مل جائے اور اگر معصیت ہے تو مجھے اس رائے پر آگاہی نصیب ہوجائے۔‘‘
حضرت جندب رضی اللہ عنہ پر خوارج کے ظاہری زہد و عبادت اور تدین کا اتنا اثر تھا کہ ان کے ساتھ جنگ کرنے میں بھی متردد تھے۔ انہوں نے بالآخر اسی لمحہ سیدنا علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ اور پیشین گوئیاں سنیں جو درست ثابت ہوئیں۔ اس سے ان کو شرح صدر نصیب ہوگیا کہ یہ ہلاک کیے جانے کے ہی مستحق ہیں۔
دور حاضر کے خوارج ظاہری لحاظ سے بڑے متقی و پرہیزگار نظر آتے ہیں، مگر اپنی باطنی کیفیت، دین دشمن کارروائیوں اور ناحق قتل و غارت گری و دہشت گردی کے پیش نظر احادیث میں انہیں سب سے بڑا فتنہ اور بدترین مخلوق قرار دیا گیا ہے۔ وہ بے شک قرآن مجید کی آیات پڑھتے ہیں مگر کافروں کے بارے میں وارد ہونے والی آیات کا اطلاق مسلمانوں پر کرتے ہیں۔ اپنی نام نہاد فکر کی بناء پر مسلمانوں کو کافر بنا کر ان کے قتل کا جواز بناتے ہیں۔
خوارج کو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اتباع میں صحابہ و تابعین نے تمام مخلوق میں بدترین طبقہ قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں بعض روایات درج ذیل ہیں :
أخرج البخاري في صحيحه في ترجمة الباب : قَوْلُ اﷲِ تَعَالَی : ﴿وَمَا کَانَ اﷲُ لِيُضِلَّ قَوْمًا بَعْدَ إِذْ هَدَاهُمْ حَتَّی يُبَيِّنَ لَهُمْ مَا يَتَّقُوْنَ﴾(1) وَکَانَ ابْنُ عُمَرَ رضي اﷲ عنهما يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اﷲِ، وَقَالَ : إِنَّهُمُ انْطَلَقُوْا إِلَی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ.
التوبة، 9 : 115
وقال العسقلاني في الفتح : وصله الطبري في مسند علي من تهذيب الآثار من طريق بکير بن عبد اﷲ بن الأشج : أَنَّهُ سَأَلَ نَافِعًا کَيْفَ کَانَ رَأَی ابْنُ عُمَرَ فِي الْحَرُوْرِيَّةِ؟ قَالَ : کَانَ يَرَاهُمْ شِرَارَ خَلْقِ اﷲِ، انْطَلَقُوْا إِلَی آيَاتِ الْکُفَّارِ فَجَعَلُوْهَا فِي الْمُؤْمِنِيْنَ.
قلت : وسنده صحيح، وقد ثبت في الحديث الصحيح المرفوع عند مسلم من حديث أبي ذرص في وصف الخوارج : هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. وعند أحمد بسند جيد عن أنس مرفوعًا مثله.
وعند البزار من طريق الشعبي عَنْ عَائِشَةَ رضي اﷲ عنها قَالَتْ : ذَکَرَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم الْخَوَارِجَ فَقَالَ : هُمْ شِرَارُ أُمَّتِي يَقْتُلُهُمْ خِيَارُ أُمَّتِي. وسنده حسن.
وعند الطبراني من هذا الوجه مرفوعا : هُمْ شِرَارُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ يَقْتُلُهُمْ خَيْرُ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ. وفي حديث أبي سعيد رضی الله عنه عند أحمد : هُمْ شَرُّ الْبَرِيَّةِ.
وفي رواية عبيد اﷲ بن أبي رافع عن علي رضی الله عنه عند مسلم : مِنْ أَبْغَضِ خَلْقِ اﷲِ إِلَيْهِ.
وفي حديث عبد اﷲ بن خباب رضی الله عنه يعني عن أبيه عند الطبراني : شَرُّ قَتْلَی أَظَلَّتْهُمُ السَّمَاءُ وَأَقَلَّتْهُمُ الْأَرْضُ. وفي حديث أبي أمامة رضی الله عنه نحوه.
وعند أحمد وابن أبي شيبة من حديث أبي برزة مرفوعًا في ذکر الخوارج : شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ يَقُولُهَا ثَلَاثًا.
وعند ابن أبي شيبة من طريق عمير بن إسحاق عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رضی الله عنه : هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ. وهذا مما يؤيد قول من قال بکفرهم.
1. بخاری، الصحيح، کتاب، استتابة
المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6
: 2539
2.مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب الخوارج شر الخلق والخليقة، 2
: 750، الرقم : 1067
3. أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب في قتال الخوارج، 4
: 243، رقم : 4765
4. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7
: 119، 120، رقم : 4103
5. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 15، 224، رقم : 11133
6. ابن أبي شيبة، المصنف، 7 : 557، 559، رقم : 37905
7. بزار، المسند، 9 : 294، 305، رقم : 3846
8. طبراني، المعجم الأوسط، 6 : 186، رقم : 6142
9. طبراني، المعجم الأوسط، 7 : 335، الرقم : 7660
10. طبرانی، المعجم الصغير، 1 : 42، رقم : 33
11. عسقلاني، فتح الباری، 12 : 286، رقم : 6532
’’امام بخاری نے اپنی صحیح میں باب کے عنوان کے طور پر یہ حدیث روایت کی ہے : اﷲ تعاليٰ کا فرمان ہے : (اور اﷲ کی شان نہیں کہ وہ کسی قوم کو گمراہ کر دے۔ اس کے بعد کہ اس نے انہیں ہدایت سے نواز دیا ہو، یہاں تک کہ وہ ان کے لئے وہ چیزیں واضح فرمادے جن سے انہیں پرہیز کرنا چاہئے۔) حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما ان (خوارج) کو اﷲ تعاليٰ کی بد ترین مخلوق سمجھتے تھے (کیونکہ) انہوں نے اﷲ تعاليٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کرنا شروع کر دیا تاکہ اہلِ ایمان کو کافر و مشرک قرار دے سکیں۔
’’امام عسقلانی فتح الباری میں بیان کرتے ہیں کہ امام طبری نے اس حدیث کو تہذیب الآثار میں بکیر بن عبد اﷲ بن اَشج کے طریق سے مسند علی رضی اللہ عنہ میں شامل کیا ہے کہ ’’انہوں نے نافع سے پوچھا کہ عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کی حروریہ (خوارج) کے بارے میں کیا رائے تھی؟ انہوں نے فرمایا : وہ انہیں اﷲ تعاليٰ کی بدترین مخلوق خیال کیا کرتے تھے جنہوں نے اﷲ تعاليٰ کی ان آیات کو لیا جو کفار کے حق میں نازل ہوئی تھیں اور ان کا اطلاق مومنین پر کیا۔
’’مزید برآں امام عسقلانی فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں : اس حدیث کی سند صحیح ہے اور یہ سند حدیث صحیح مرفوع میں امام مسلم کے ہاں ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کی خوارج کے وصف والی حدیث سے بھی ثابت ہے اور وہ حدیث یہ ہے کہ ’’وہ تمام مخلوق میں سے بدترین لوگ ہیں۔‘‘ اور امام احمد بن حنبل کے ہاں بھی اسی کی مثل حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث ثابت ہے۔
’’امام بزار، شعبی سے اور وہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوارج کا ذکر کیا اور فرمایا : ’’وہ میری امت کے بد ترین لوگ ہیں اور انہیں میری امت کے بہترین لوگ قتل کریں گے۔‘‘ اور اس حدیث کی سند حسن ہے۔
’’امام طبرانی کے ہاں اسی طریق سے مرفوع حدیث میں مروی ہے کہ ’’خوارج تمام مخلوق میں سے بد ترین ہیں اور ان کو (اُس دور کے) بہترین لوگ قتل کریں گے۔‘‘
’’امام احمد بن حنبل کے ہاں حضرت ابو سعید والی حدیث میں ہے کہ خوارج مخلوق میں سب سے بدترین لوگ ہیں۔
’’امام مسلم نے عبیداﷲ بن ابی رافع کی روایت میں بیان کیا ہے جو انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ یہ (خوارج) اﷲ تعاليٰ کی مخلوق میں سے اس کے نزدیک سب سے بدترین لوگ ہیں۔
’’امام طبرانی کے ہاں عبد اﷲ بن خباب والی حدیث میں ہے جو کہ وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ ’’یہ (خوارج) بدترین مقتول ہیں جن پر آسمان نے سایہ کیا اور زمین نے ان کو اٹھایا۔‘‘ اور ابو امامہ والی حدیث میں بھی یہی الفاظ ہیں۔
’’امام احمد بن حنبل اور ابن ابی شیبہ ابوبرزہ رضی اللہ عنہ کی حدیث کو مرفوعاً خوارج کے ذکر میں بیان کرتے ہیں کہ ’’خوارج، مخلوق میں سے بدترین لوگ ہیں۔‘‘ ایسا تین بار فرمایا۔
’’اور ابن ابی شیبہ، عمر بن اسحاق کے طریق سے اور وہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ’’خوارج بد ترین مخلوق ہیں۔‘‘ اور یہ وہ چیز ہے جو اس شخص کے قول کی تائید کرتی ہے جو ان کو کافر قرار دیتا ہے۔‘‘
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ مَا أَتَخَوَّفُ عَلَيْکُمْ رَجُلٌ قَرَأَ الْقُرْآنَ حَتَّی إِذَا رُئِيَتْ بَهْجَتُهُ عَلَيْهِ وَکَانَ رِدْئًا لِلْإِسْلَامِ غَيْرَهُ إِلَی مَا شَاءَ اﷲُ فَانْسَلَخَ مِنْهُ وَنَبَذَهُ وَرَائَ ظَهْرِهِ وَسَعٰی عَلَی جَارِهِ بِالسَّيْفِ وَرَمَاهُ بِالشِّرْکِ قَالَ : قُلْتُ : يَا نَبِيَّ اﷲِ، أَيُّهُمَا أَوْلَی بِالشِّرْکِ الْمَرْمِيُّ أَمِ الرَّامِي قَالَ : بَلِ الرَّامِي.
1. ابن حبان، الصحيح، 1 : 282، رقم : 81
2. بزار، المسند، 7 : 220، رقم : 2793
3. بخاری، التاريخ الکبير، 4 : 301، رقم : 2907
4. طبراني، المعجم الکبير، 20 : 88، رقم : 169 (عن معاذ بن جبل ص)
’’بے شک مجھے جس چیز کا تم پر خدشہ ہے وہ یہ کہ ایک ایسا آدمی ہوگا (یعنی کچھ لوگ ایسے ہوں گے) جس نے قرآن پڑھا یہاں تک کہ اس پر قرآن کا جمال آگیا۔ سو جب تک اﷲ نے چاہا وہ اسلام کی خاطر دوسروں کی پشت پناہی بھی کرتا رہا۔ بالآخر وہ قرآن سے دور ہوگیا اور اس کو اپنی پشت پیچھے پھینک دیا، اپنے پڑوسی پر تلوار لے کر چڑھ دوڑا، اس پر شرک کا الزام لگایا (اور اس بنا پر اس کے قتل کے درپے ہوگیا)۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا : اے اﷲ کے نبی! ان دونوں میں سے کون زیادہ شرک کے قریب ہوگا، شرک کا الزام لگانے والا یا جس پر شرک کا الزام لگایا گیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : شرک کا الزام لگانے والا (خود شرک کے قریب ہوگا)۔‘‘
1۔ صفوان بن محرز نے حضرت جندب بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت بیان کی ہے کہ آپ ایک گروہ کے پاس سے گزرے جو (بڑی خوش الحانی سے) قرآن حکیم پڑھ رہا تھا، حضرت جندب رضی اللہ عنہ نے ان کے بارے میں فرمایا :
لاَ يَغُرَنَّکَ هٰؤُلَاءِ إِنَّهُمْ يَقْرَأُوْنَ الْقُرْآنَ الْيَوْمَ وَيَتَجَالَدُوْنَ بِالسُّيُوْفِ غَدًا.
1. طبراني، المعجم الکبير، 2 : 167، رقم : 1685
2. منذری، الترغيب والترهيب، 3 : 166، رقم : 3513
3. ديلمي، مسند الفردوس، 4 : 134، رقم : 6419
4. هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 231
’’تمہیں ان کا (اتنے خوب صورت انداز میں) قرآن پڑھنا دھوکے میں نہ ڈالے۔ یہ لوگ آج قرآن پڑھ رہے ہیں اور کل یہی لوگ اسلحہ لے کر (مسلمانوں کے خلاف) بر سرِ پیکار ہوں گے۔‘‘
2۔ حضرت حرب بن اسماعیل الکرمانی سے مروی ہے کہ امام احمد بن حنبل نے فرمایا :
اَلْخَوَارِجُ قَوْمُ سُوءٍ، لاَ أَعْلَمُ فِی الأَرْضِ قَوْمًا شَرًّا مِنْهُمْ، وَقَالَ : صَحَّ الْحَدِيثُ فِيهِمْ عَنِ النَّبِيِّ صلی الله عليه وآله وسلم ، وَمِنْ عَشَرَةِ وُجُوهٍ.
ابو بکر الخلال نے اسے ’’السنۃ (باب الانکار علی من خرج علی السلطان، رضی اللہ عنہ : 145، رقم : 110)‘‘ میں اسناد صحیح کے ساتھ روایت کیا ہے۔
’’خوارج بہت ہی برا گروہ ہے، روئے زمین پر اس سے بری قوم میرے علم میں نہیں۔ اور یہ بھی فرمایا کہ ان کے بارے میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث صحیح ہے اور دس طرق سے اس کی سند صحیح طور پر ثابت ہے۔‘‘
3۔ حضرت یوسف بن موسيٰ سے مروی ہے کہ امام احمد بن حنبل سے عرض کیا گیا کہ کیا خوارج کافر ہیں؟ انہوں نے جواب دیا : یہ دین سے خارج ہو جانے والے لوگ ہیں۔ آپ سے پھر عرض کیا گیا کہ کیا یہ کافر ہیں؟ تو انہوں نے پھر وہی جواب دیا کہ وہ دین سے نکل جانے والے لوگ ہیں۔‘‘
ابو بکر الخلال نے اسے ’’السنۃ (باب الانکار علی من خرج علی السلطان، رضی اللہ عنہ : 145، رقم : 111)‘‘ میں اسناد حسن کے ساتھ روایت کیا ہے۔
گزشتہ صفحات میں جس طرح ہم نے قرآنی آیات اور احادیث نبوی سے ماخوذ خوارج کے عقائد و نظریات، علامات اور بدعات کا تذکرہ کیا ہے، اسی طرح ذیل میں ان احادیث نبوی کا تذکرہ کیا جارہا ہے جن میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس فتنے کی سرکوبی کا واضح حکم فرمایا ہے۔
احادیثِ مبارکہ میں وارد الفاظ ۔ فَإِذَا لَقِيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ اور فَإِذَا رَأَيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ. کے حکم کے تحت اُن کا خاتمہ واجب ہے۔ علاوہ ازیں دیگر بے شمار احادیث ایسی بھی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اگر میں انہیں پا لوں تو انہیں ضرور قتل کر دوں گا۔ اس باب میں چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں :
1۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
سَيَخْرُجُ قَومٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ يَقُوْلُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ، لاَ يُجَاوِزُ إِيْمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ، فَأَيْنَمَا لَقِيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لِمَنْ قَتَلَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج
والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539، رقم : 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2
: 746، رقم : 1066
3. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7
: 119، رقم : 4102
4. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب في ذکر الخوارج، 1 :
59، رقم : 168
5. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 81، 113، 131، رقم : 616، 912،
1086
’’عنقریب آخری زمانے میں ایسے لوگ ظاہر ہوں گے، وہ نوعمر اور ناپختہ سمجھ لڑکے ہوں گے، وہ اسلامی تعلیمات پیش کریں گے لیکن ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ دین سے یوں خارج ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔ پس تم (دوران جنگ) جہاں بھی انہیں پاؤ قتل کر دو کیونکہ ان کو قتل کرنے والوں کو قیامت کے دن بڑا اجر ملے گا۔‘‘
امام ترمذی ’’السنن (کتاب الفتن، باب فی صفۃ المارقۃ، 4 : 481، رقم : 2188)‘‘ میں اس حدیث کو حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرنے کے بعد فرماتے ہیں : یہ روایت حضرت علی، حضرت ابو سعید اور حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے اور یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
امام ترمذی کے قائم کردہ ترجمۃ الباب سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ خوارج جیسے عقائد و نظریات رکھنے والے لوگوں اور گروہوں کا شمار بھی خوارج میں ہوگا اور ان پر بھی خوارج کا ہی حکم صادر ہوگا۔
2۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
إِنَّهُ يَخْرُجُ مِنْ ضِئْضِيئِ هَذَا قَوْمٌ . . . قَالَ : لَئِنْ أَدْرَکْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ ثَمُوْدَ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب المغازي، باب بعث علی بن أبي طالب وخالد بن الوليد إلی
اليمن قبل حجة الوداع، 4 : 1581، رقم : 4094
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2
: 742، 743، رقم : 1064
3. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 4، رقم : 11021
4. ابن خزيمة، الصحيح، 4 : 71، رقم : 2373
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 205، رقم : 25
6. أبويعلی، المسند، 2 : 390، رقم : 1163
’’اس کی نسل سے ایسے لوگ یعنی خوارج پیدا ہوں گے۔ ۔ ۔ ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا کہ اگر میں ان لوگوں کو پاؤں تو ضرور بالضرور انہیں قوم ثمود کی طرح قتل کر دوں گا۔‘‘
3۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ مِنْ ضِئْضِئِ هَذَا قَوْمًا يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُوْنَ مِنَ الإِسْلاَمِ مُرُوْقَ السَّهْمِ مِنَ الرَّمِيَّةِ، يَقْتُلُوْنَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ وَيَدَعُونَ أَهْلَ الأَوْثَانِ، لَئِنْ أَدْرَکْتُهُمْ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول اﷲ تعالی : تعرج
الملائکة والروح إليه،
6 : 2702، رقم : 6995
2. بخاری، الصحيح، کتاب الأنبياء، باب قول اﷲ : وأما عاد فأهلکوا بريح صرصر
شديدة عاتية، 3 : 1219، رقم : 3166
3. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2
: 741، رقم : 1064
4. أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب في قتال الخوارج، 4
: 243، رقم : 4764
5. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7
: 118، رقم : 4101
6. نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب المؤلفة قلوبهم، 5 :
87، رقم : 2578
’’اس شخص کی نسل سے ایسے لوگ پیدا ہوں گے کہ وہ قرآن پڑھیں گے لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، وہ بت پرستوں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو قتل کریں گے۔ اگر میں انہیں پاؤں تو قوم عاد کی طرح ضرور بالضرور قتل کر دوں گا۔‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی اِس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
قوله صلی الله عليه وآله وسلم : ’’يَقْتُلُوْنَ أَهْلَ الْإِسْلَامِ‘‘ إلخ. وهو مما أخبر به صلی الله عليه وآله وسلم من المغيبات، فوقع کما قال.
عسقلانی، فتح الباری، 8 : 69
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’وہ اہلِ اسلام کو قتل کریں گے۔‘‘ (خوارج کے متعلق) یہ پیشین گوئی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اخبار غیب میں سے ہے، پس اسی طرح ہوا جس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تھا۔‘‘
علامہ شبیر احمد عثمانی نے فتح الملہم میں یہی شرح لکھنے کے بعد یہ جملے بھی درج کیے ہیں :
وقال الأبيّ : ومن عجيب أمرهم ما يأتي أنهم حين خرجوا من الکوفة منابذين لعلي رضی الله عنه : لقوا في طريقهم مسلماً وکافراً، فقتلوا المسلم.
شبير احمد عثمانی، فتح الملهم، 5 : 151
’’اُبَی (بن کعب) نے کہا ہے : خوارج کا عجیب معاملہ سامنے آتا ہے جس وقت وہ کوفہ سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی مخالفت میں نکلے تو راستے میں ان کی ملاقات ایک مسلمان اور ایک کافر سے ہوئی۔ انہوں نے کافر کو چھوڑ دیا مگر مسلمان کو مار ڈالا۔‘‘
4۔ امام احمد بن حنبل، ابوداود اور ابن ماجہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
سَيَکُوْنُ فِي أُمَّتِي اخْتِلَافٌ وَفُرْقَةٌ قَوْمٌ يُحْسِنُوْنَ الْقِيْلَ وَيُسِيْئُوْنَ الْفِعْلَ . . . هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ، طُوْبَی لِمَنْ قَتَلَهُمْ وَقَتَلُوْهُ، يَدْعُوْنَ إِلَی کِتَابِ اﷲِ وَلَيْسُوْا مِنْهُ فِي شَيئٍ، مَنْ قَاتَلَهُمْ کَانَ أَوْلَی بِاﷲِ مِنْهُمْ، قَالُوْا : يَا رَسُوْلَ اﷲِ مَا سِيْمَاهُمْ؟ قَالَ : التَّحْلِيْقُ.
1. أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب في قتال الخوارج، 4 :
243، رقم : 4765
2. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب في ذکر الخوارج، 1 :
60، رقم : 169
3. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 224، رقم : 13362
4. حاکم، المستدرک، 2 : 161، رقم : 2649
5. بيهقي، السنن الکبری، 8 : 171
6۔ مقدسي نے ’’الاحادیث المختارۃ (7 : 15، رقم : 2391، 2392)‘‘ میں اس کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے۔
7. أبويعلی، المسند، 5 : 426، رقم : 3117
’’عنقریب میری امت میں اختلاف اور تفرقہ رونما ہوگا عین اس وقت ایسے لوگ ظاہر ہوں گے جو اپنے قول اور نعرے میں اچھے ہوں گے مگر اپنے طرزعمل اور روش میں نہایت برے ہوں گے۔ ۔ ۔ ۔ وہ ساری مخلوق میں بدترین لوگ ہوں گے، خوش خبری ہو اُسے جو انہیں قتل کرے گا اور اُسے بھی جسے وہ خوارج شہید کریں گے۔ وہ اﷲ عزوجل کی کتاب کی طرف بلائیں گے لیکن اس کے ساتھ ان کا کوئی تعلق نہیں ہوگا؛ ان کا قاتل ان کی نسبت اﷲ تعاليٰ کے زیادہ قریب ہوگا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ان کی نشانی کیا ہے؟ فرمایا : سر منڈانا۔‘‘
5۔ امام احمد بن حنبل نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ایک اور حدیث بیان کی ہے جس کے رجال بھی ثقہ ہیں۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں :
أَنَّ أَبَا بَکْرٍ رضی الله عنه جَاءَ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي مَرَرْتُ بِوَادٍ کَذَا وَکَذَا فَإِذَا رَجُلٌ مُتَخَشِّعٌ، حَسَنُ الْهَيْئَةِ، يُصَلِّي فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : اِذْهَبْ إِلَيْهِ، فَاقْتُلْهُ، قَالَ : فَذَهَبَ إِلَيْهِ أَبُوْبَکْرٍ، فَلَمَّا رَآهُ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ کَرِهَ أَنْ يَقْتُلَهُ، فَرَجَعَ إِلَی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ، قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم لِعُمَرَ : اِذْهَبْ فَاقْتُلْهُ فَذَهَبَ عُمَرُ فَرَآهُ عَلَی تِلْکَ الْحَالِ الَّتِي رَآهُ أَبُوْبَکْرٍ قَالَ : فَکَرِهَ أَنْ يَقْتُلَهُ، قَالَ : فَرَجَعَ فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ، إِنِّي رَأَيْتُهُ يُصَلِّي مُتَخَشِّعًا فَکَرِهْتُ أَنْ أَقْتُلَهُ، قَالَ : يَا عَلِيُّ! اِذْهَبْ فَاقْتُلْهُ، قَالَ : فَذَهَبَ عَلِيٌّ، فَلَمْ يَرَهُ فَرَجَعَ عَلِيٌّ، فَقَالَ : يَارَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّهُ لَمْ يَرَهْ، قَالَ : فَقَالَ النَّبِيُّ صلی الله عليه وآله وسلم : إِنَّ هَذَا وَأَصْحَابَهُ يَقْرَءُوْنَ الْقُرْآنَ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ ثُمَّ لاَ يَعُوْدُوْنَ فِيْهِ حَتَّی يَعُوْدَ السَّّهْمُ فِي فُوْقِهِ فَاقْتُلُوْهُمْ هُمْ شَرُّالْبَرِيَّةِ.
1. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 15، رقم : 11133
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 225
3. عسقلاني، فتح الباري، 12 : 229
’’حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر عرض کیا : یارسول اﷲ! میں فلاں فلاں وادی سے گزرا تو میں نے ایک نہایت متواضع ظاہراً خوبصورت دکھائی دینے والے شخص کو نماز پڑھتے دیکھا۔ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے فرمایا : اس کے پاس جاکر اسے قتل کردو۔ راوی نے کہا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اس کی طرف گئے تو انہوں نے جب اسے نہایت خشوع سے نماز پڑھتے دیکھا تو اسے قتل کرنا مناسب نہ سمجھا اور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں (اسے بغیر قتل کئے) واپس لوٹ آئے۔ راوی نے کہا : پھر حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا : جاؤ اسے قتل کر دو، حضرت عمر رضی اللہ عنہ گئے اور انہوں نے بھی اسے اسی حالت میں دیکھا جیسے کہ حضرت ابوبکر نے دیکھا تھا۔ انہوں نے بھی اس کے قتل کو ناپسند کیا۔ راوی نے بیان کیا کہ وہ بھی لوٹ آئے۔ اور عرض کیا : یارسول اﷲ! میں نے اسے نہایت خشوع و خضوع سے نماز پڑھتے دیکھا تو (اس حالت میں) اسے قتل کرنا پسند نہ کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے علی! جاؤ اسے قتل کر دو۔ راوی نے بیان کیا کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ تشریف لے گئے، تو انہیں وہ نظر نہ آیا۔ (اتنے میں وہ شخص فارغ ہو کر جا چکا تھا) تو حضرت علی رضی اللہ عنہ واپس لوٹ آئے، عرض کیا : یا رسول اﷲ! وہ کہیں دکھائی نہیں دیا۔ بیان کیا کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقینا یہ اور اس کے ساتھی قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے پھر وہ اس میں پلٹ کر نہیں آئیں گے یہاں تک کہ تیر پلٹ کر کمان میں نہ آجائے (یعنی ان کا پلٹ کر دین کی طرف لوٹنا ناممکن ہے) سو تم انہیں (جب بھی پاؤ تو ریاستی سطح پر ان کے خلاف کارروائی کرکے انہیں) قتل کر دو۔ وہ بدترین مخلوق ہیں۔‘‘
6۔ امام ابن عبد البر روایت کرتے ہیں کہ عدی نے حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ کی طرف خط لکھا کہ خوارج ہمارے سامنے آپ کو گالیاں دیتے ہیں۔ حضرت عمر نے انہیں جواب دیا :
إن سبوني فسبوهم أو اعفوا عنهم، وإن شهروا السلاح فأشهروا عليهم، وإن ضربوا فاضربوا.
ابن عبد البر، التمهيد، 23 : 338، 339
’’اگر وہ مجھے گالیاں دیں تو تم بھی انہیں اسی طرح جواب دو یا ان سے درگزر کرو، اگر وہ مسلح جد و جہد کریں تو تم بھی ان کے خلاف مسلح جد و جہد کرو اور اگر وہ قتل و غارت گری کریں تو تم بھی (ان کے خلاف قانونی کارروائی کرکے) انہیں قتل کر دو۔‘‘
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ سے بالکل صراحت کے ساتھ یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ خوارج سے جہاں بھی مقابلہ ہو انہیں کلیتاً قتل کر دیا جائے۔ اس کی وضاحت ائمہ و محدثین کے اقوال سے بھی ہوتی ہے جس میں انہوں نے یہی اصول و ضوابط تصریحاً بیان کئے ہیں۔
1۔ قاضی عیاض صحیح مسلم کی شرح ’’اکمال المعلم بفوائد مسلم (3 : 613، 614)‘‘ میں لکھتے ہیں :
أجمع العلماء علی أن الخوارج وأشباههم من أهل البدع والبغي متی خرجوا وخالفوا رأي الجماعة، وشقوا عصا المسلمين، ونصبوا راية الخلاف، أن قتالهم واجب بعد إنذارهم والإعذار إليهم، قال اﷲ تعالی : ﴿فَقَاتِلُوا الَّتِی تَبْغِيْ حَتّٰی تَفِيْءَ اِلٰی اَمْرِ اﷲِ﴾.(1)
(1) الحجرات، 49 : 9
وهذا إذا کان بغيهم لأجل بدعة يکفرون بها، وإن کان بغيهم لغير ذلک لعصبية، أو طلب رئاسة دون بدعة، فلا يحکم في هؤلاء حکم الکفار بوجه، وحکمهم أهل البغي مجردًا علی القول المتقدم.
’’علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جب خوارج اور دیگر بدعتی و باغی گروہ (حکومتِ وقت کے خلاف) خروج کریں، جماعت کی مخالفت کریں، مسلمانوں کی جمعیت کو پارہ پارہ کریں اور اختلاف کا علم بلند کریں تو انہیں ڈرانے اور نصیحت کے طریقے استعمال کرنے کے بعد (مسلمانوں پر) ان کے ساتھ جنگ واجب ہو جاتی ہے۔ ارشادِ باری تعاليٰ ہے : (اس (گروہ) سے لڑو جو بغاوت کا مرتکب ہو رہا ہے یہاں تک کہ وہ اﷲ کے حکم کی طرف لوٹ آئے)۔
’’اگر ان کی یہ دہشت گردی بدعت یعنی انتہاء پسندانہ خودساختہ عقائد و نظریات کے سبب ہوئی تو اس کے سبب انہیں کافر قرار دیا جائے گا اور اگر ان کی بغاوت بدعت کے علاوہ محض عصبیت یا طلبِ حکومت کی وجہ سے ہوئی تو پھر ان پر حکم کفار صادر نہیں ہوگا۔ صرف پہلی صورت میں ان پر باغی اور دہشت گرد ہونے کا حکم لگایا جائے گا۔‘‘
صاف ظاہر ہے کہ دور حاضر کے دہشت گردوں کے انتہاء پسندانہ نظریات اور اپنے سوا سب کو کافر و ملحد اور واجب القتل سمجھنے اور ان کی جانیں تلف کرنے کی روش صریحاً بدعت مکفّرہ ہے اس لئے ان کا حکم باغیوں کا ہے۔
2۔ امام نووی ’’شرح صحیح مسلم (7 : 170)‘‘ میں لکھتے ہیں :
قوله صلی الله عليه وآله وسلم : ’’فَإِذَا لَقِيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا.‘‘ هذا تصريح بوجوب قتال الخوارج والبغاة وهو إجماع العلماء، قال القاضي : أجمع العلماء علی أن الخوارج وأشباههم من أهل البدع والبغي متی خرجوا علی الإمام، وخالفوا رأي الجماعة وشقوا العصا، وجب قتالهم بعد إنذارهم والاعتذار إليهم.
وهذا کله ما لم يکفروا ببدعتهم، فإن کانت بدعة مما يکفرون به جرت عليهم أحکام المرتدين، وأما البغاة الذين لا يکفرون فيرثون ويورثون ودمهم فی حال القتال هدر، وکذا أموالهم التي تتلف فی القتال، والأصحّ أنهم لا يضمنون أيضا ما أتلفوه علی أهل العدل فی حال القتال من نفس ومال.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’پس جب تم انہیں پاؤ تو (ریاستی سطح پر ان کے خلاف کارروائی کرکے انہیں) قتل کر دو کیونکہ انہیں قتل کرنے پر اجر ہے۔‘‘ خوارج اور باغیوں کے قتال کے وجوب میں یہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تصریح ہے، اسی پر علماء کا اجماع ہے۔ قاضی عیاض نے کہا ہے : علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جب خوارج اور دیگر بدعتی و باغی گروہ حکومتِ وقت کے خلاف خروج کریں، جماعتِ مسلمین کی مخالفت کریں اور جمعیت مسلمہ کو پارہ پارہ کریں تو انہیں ڈرانے اور نصیحت کے طریقے استعمال کرنے کے بعد (مسلم حکومت پر) ان کے ساتھ جنگ واجب ہو جاتی ہے۔
’’یہ سب کچھ اس وقت تک ہوگا جب تک کہ وہ اپنی بدعت کی بناء پر کفر کا ارتکاب نہیں کریں گے، پس اگر ان کی بدعت کفر میں بدل گئی تو اُن پر مرتدین کے احکام لاگو ہوں گے۔ البتہ وہ دہشت گرد جو کافر نہیں ہوتے ان کی وراثت تقسیم ہو گی اور وہ بھی مالِ وراثت پائیں گے اور حالتِ جنگ میں ان کے جان و مال کو کوئی تحفظ حاصل نہیں ہوگا اور مسلم حکومت کے ہاتھوں جو اُن کے مال و جان کا نقصان ہوگا وہ اس کا تاوان بھی طلب نہیں کر سکتے۔‘‘
3۔ علامہ شبیر احمد عثمانی صحیح مسلم کی شرح ’’فتح الملھم (5 : 166، 167)‘‘ میں رقم طراز ہیں :
قوله صلی الله عليه وآله وسلم : ’’فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا‘‘ إلخ : أي أجراً عظيماً. قال النووي : هذا تصريح بوجوب قتال الخوارج والبغاة، وهو إجماع العلماء. قال القاضي : أجمع العلماء علی أن الخوارج وأشباههم من أهل البدع والبغي متی خرجوا علی الإمام، وخالفوا رأي الجماعة، وشقوا العصا : وجب قتالهم بعد إنذارهم والاعتذار إليهم.
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’یقینا (ان کے ساتھ جنگ کر کے) انہیں قتل کرنے میں اجر ہے‘‘ یعنی بڑا اجر ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے : ’’خوارج اور باغیوں کے قتال کے وجوب میں یہ فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تصریح ہے اور اسی پر علماء کا اجماع ہے۔‘‘ قاضی عیاض رحمۃ اللہ علیہ نے کہا ہے : علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جب خوارج اور دیگر بدعتی و باغی گروہ حکومتِ وقت کے خلاف خروج کریں، جماعتِ مسلمین کی مخالفت کریں اور جمعیت کو پارہ پارہ کریں تو انہیں ڈرانے اور نصیحت کے طریقے استعمال کرنے کے بعد (مسلمانوں پر) ان کے ساتھ جنگ کرنا واجب ہے۔‘‘
مذکورہ بالا احادیث و شروحات کی روشنی میں ثابت ہوجاتا ہے کہ خوارج کے خلاف ریاستی سطح پر کارروائی کرکے ان کا کُلی خاتمہ واجب ہے۔ جب بھی ان کا کوئی گروہ ظہور پذیر ہو اُسے مکمل طور پر نابود کرنا اور اُس کی جڑیں کاٹ دینا اَمن و سلامتی کا ضامن ہے۔ امت مسلمہ کی پوری تاریخ میں اہلِ حق کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ جب بھی اس گروہ نے سر اٹھایا اسے terminate کر دیا گیا۔
آپ نے دیکھ لیا کہ احادیثِ مبارکہ میں جابجا خوارج کا قلع قمع کرنے کے لیے قومِ عاد اور قومِ ثمود کی مثال دی گئی ہے۔ اور حکم دیا گیا ہے کہ ان کا ایسے خاتمہ کیا جائے جس طرح قومِ عاد اور قومِ ثمود کا خاتمہ کیا گیا تھا یعنی ان کا وجود تک مٹا دیا جائے اور ان کی جڑیں بھی ختم کر دی جائیں۔ اس طرح کہ ان کے دوبارہ ابھرنے اور منظم ہونے کے امکانات ممکنہ حد تک معدوم ہو جائیں لیکن اس کے لیے پہلے ان تک حق بات پہنچا کر اتمام حجت ضروری ہے تاکہ وہ بغیر قتال کے ہی تائب ہوکر راہ راست پر آجائیں۔
اب قرآن حکیم میں دیکھتے ہیں کہ اِن گمراہ قوموں کو کس طرح صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا تھا۔ ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
وَاَمَّا عَادٌ فَاُهْلِکُوْا بِرِيْحٍ صَرْصَرٍ عَاتِيَةٍo سَخَّرَهَا عَلَيْهِمْ سَبْعَ لَيَالٍ وَّثَمٰنِيَةَ اَيَّامٍلا حُسُوْمًا فَتَرَی الْقَوْمَ فِيْهَا صَرْعٰی کَاَنَّهُمْ اَعْجَازُ نَخْلٍ خَاوِيَةٍo فَهَلْ تَرٰی لَهُمْ مِّنْم بَاقِيَةٍo
الحاقة، 69 : 6.8
’’اور رہے قوم عاد کے لوگ! تو وہ (بھی) ایسی تیز آندھی سے ہلاک کر دیے گئے جو انتہائی سرد نہایت گرج دار تھیo اللہ نے اس(آندھی) کو ان پر مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن مسلط رکھا، سو تُو ان لوگوں کو اس (عرصہ) میں (اس طرح) مرے پڑے دیکھتا (تو یوں لگتا) گویا وہ کھجور کے گرے ہوئے درختوں کی کھوکھلی جڑیں ہیںo سو تُو کیا ان میں سے کسی کو باقی دیکھتا ہےo‘‘
ایک دوسرے مقام پر قومِ عاد کی کُلّی ہلاکت کے بارے میں فرمایا ہے :
فَلَمَّا رَاَوْهُ عَارِضًا مُّسْتَقْبِلَ اَوْدِيَتِهِمْ قَالُوْا هذَا عَارِضٌ مُّمْطِرُنَاط بَلْ هُوَ مَا اسْتَعْجَلْتُمْ بِه ط رِيْحٌ فِيْهَا عَذَابٌ اَلِيْمٌo تُدَمِّرُ کُلَّ شَيْئٍم بِاَمْرِ رَبِّهَا فَاَصْبَحُوْا لَا يُرٰی اِلَّا مَسٰکِنُهُمْ ط کَذٰلِکَ نَجْزِی الْقَوْمَ الْمُجْرِمِيْنَo
الأحقاف، 46 : 24، 25
’’پھر جب انہوں نے اس (عذاب) کو بادل کی طرح اپنی وادیوں کے سامنے آتا ہوا دیکھا تو کہنے لگے : یہ (تو) بادل ہے جو ہم پر برسنے والا ہے (ایسا نہیں) وہ (بادل) تو وہ (عذاب) ہے جس کی تم نے جلدی مچا رکھی تھی۔ (یہ) آندھی ہے جس میں دردناک عذاب (آ رہا) ہےo (جو) اپنے پروردگار کے حکم سے ہر شے کو تباہ و برباد کر دے گی پس وہ ایسے (تباہ) ہو گئے کہ ان کے (مِسمار) گھروں کے سوا کچھ نظر ہی نہیں آتا تھا۔ ہم مجرم لوگوں کو اِس طرح سزا دیا کرتے ہیںo‘‘
حافظ ابن حجر عسقلانی، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متفق علیہ فرمان ۔ لَأَقْتُلَنَّهُمْ قَتْلَ عَادٍ. کی شرح میں خوارج کی ہلاکت کو قومِ عاد کی ہلاکت و بربادی کے ساتھ ملاتے ہوئے یوں رقم طراز ہیں :
أي قتلاً لا يبقی منهم أحدا، إشارةً إلی قوله تعالی : ﴿فَهَلْ تَرٰی لَهُمْ مِّنم بَاقِيَةٍ﴾.
عسقلانی، فتح الباری، 6 : 377
’’یعنی ان (خوارج کے خلاف ریاستی سطح پر کارروائی کرکے ان) کا ایسا قتلِ عام کیا جائے کہ ان میں سے کوئی باقی نہ بچے۔ اس میں اﷲ تعاليٰ کے فرمان کی طرف اشارہ ہے : (سو تُو کیا ان میں سے کسی کو باقی دیکھتا ہے)۔‘‘
یہی شرح حدیث حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ سے بہت پہلے امام ابو العباس القرطبی رحمۃ اللہ علیہ ’’المفہم شرح صحیح مسلم‘‘ میں بیان کر چکے ہیں، آپ فرماتے ہیں :
وقوله صلی الله عليه وآله وسلم : ’’لئن أدرکتهم لأقتلنهم قتل عاد‘‘، وفی الأخری : ’’قتل ثمود‘‘، ومعنی هذا : لئن أدرکهم ليقتلنهم قتلاً عامًا؛ بحيث لا يبقی منهم أحدًا فی وقت واحد، لا يؤخر قتل بعضهم عن بعض، ولا يقيل أحدًا منهم، کما فعل اﷲ بعاد؛ حيث أهلکهم بالريح العقيم، وبثمود حيث أهلکهم بالصيحة.
قرطبی، المفهم، 3 : 110
’’اور حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے : ’’اگر میں انہیں پالوں تو ضرور بالضرور قومِ عاد کی طرح قتل کر کے کُلیتًا ختم کر دوں‘‘ اور دوسری روایت میں ’’قومِ ثمود کی طرح قتل‘‘ کرنے کے الفاظ ہیں۔ اس کا معنی یہ ہے کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انہیں پالیتے تو (اُن کے خلاف کارروائی کرکے) ہر صورت ان کا قتلِ عام فرماتے کہ ایک وقت میں ان میں سے کسی کو زندہ نہ چھوڑتے۔ ان میں سے کسی کے قتل کو مؤخر فرماتے نہ ان میں سے کسی کو مہلت دیتے جیسا کہ اﷲ رب العزت نے قوم عاد کے ساتھ کیا کہ انہیں شدید ہوا کے ذریعے ہلاک کردیا اور قوم ثمود کے ساتھ یہ کیا کہ انہیں سخت آواز کے ذریعے تباہ و برباد کر دیا۔‘‘
امام ابو العباس القرطبی سے پہلے یہی معنی اور حکمت امام نووی رحمۃ اللہ علیہ المنہاج (شرح صحیح مسلم) میں بیان فرما چکے ہیں۔ آپ نے لکھا ہے :
قوله صلی الله عليه وآله وسلم : ’’لئن أدرکتهم لأقتلنهم قتل عاد.‘‘ أی قتلاً عاماً مستأصلاً کما قال تعالی : ﴿فَهَلْ تَرٰی لَهُمْ مِّنْم بَاقِيَةٍo﴾.
نووی، شرح صحيح مسلم، 7 : 162
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادِ گرامی ’’اگر میں انہیں پا لوں تو قومِ عاد کی طرح ضرور بالضرور اُنہیں قتل کر کے کلیتاً ختم کر دوں گا‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ان کا قتلِ عام کرکے جڑ سے اکھاڑ دیا جائے گا، جیسا کہ اﷲ تعاليٰ نے فرمایا ہے : (سو تو کیا ان میں سے کسی کو باقی دیکھتا ہےo)۔‘‘
اسی حکمت کو امام قسطلانی ارشاد الساری میں ان الفاظ سے بیان کرتے ہیں :
’’لئن أدرکتهم لأقتلنهم قتل عاد‘‘ لأستأصلنهم بحيث لا أبقي منهم أحداً کإستئصال عادٍ، والمراد لازمه وهو الهلاک.
’’(آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان اقدس) ’’اگر میں انہیں پالوں تو قوم عاد کی طرح ضرور بالضرور اُنہیں قتل کرکے کلیتاً ختم کر دوں گا‘‘ (کا مطلب ہے : ) میں ضرور بالضرور اُنہیں اِس طرح جڑ سے اکھاڑ پھینکوں گا کہ ان میں سے ایک بھی باقی نہیں رہنے دوں گا جس طرح کہ قوم عاد کا جڑ سے خاتمہ کیا گیا تھا۔ اور اِس سے مراد اِس فعل کا لازم ہے اور وہ قتل ہے۔‘‘
علامہ شبیر احمد عثمانی نے بھی یہی معنی و حکمت بیان کی ہے :
أي : قتلاً عاماً مستأصلاً، بحيث لا يبقی منهم أحد، کما قال تعالی : ﴿فَهَلْ تَرٰی لَهُمْ مِّنم بَاقِيَةٍo﴾.
شبير أحمد عثماني، فتح الملهم، 5 : 151
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کا مطلب یہ ہے : یعنی ان کا قتلِ عام کیا جائے گا کہ جڑ سے اکھاڑ پھینک دیا جائے گا تاکہ ان میں سے کوئی باقی نہ رہے، جس طرح کہ اﷲ تعاليٰ نے فرمایا ہے : (سو تُو کیا ان میں سے کسی کو باقی دیکھتا ہےo)۔‘‘
یہی معنی و حکمت امام بدر الدین عینی عمدۃ القاری میں بیان فرماتے ہیں :
قوله صلی الله عليه وآله وسلم : قتل عاد، وقوله صلی الله عليه وآله وسلم : قتل ثمود. ولا تعارض لأن الغرض منه الإستئصال بالکليّة، وعاد وثمود سواء فيه.
بدر الدين العينی، عمدة القاری، 25 : 122
’’آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان ’’قتل عاد‘‘ اور ’’قتل ثمود‘‘ آپس میں ایک دوسرے سے معارض نہیں ہیں، کیوں کہ اس قتل سے مقصود ان کا کلی خاتمہ ہے، اور قومِ عاد اور قومِ ثمود اس خاتمہ میں برابر ہیں۔‘‘
قرآن مجید میں آیا ہے کہ قومِ عاد کی طرح قومِ ثمود پر بھی عذابِ اِلٰہی نازل کیا گیا جس کا ذکر ہمیں یوں ملتا ہے :
وَاَخَذَ الَّذِيْنَ ظَلَمُوا الصَّيْحَةُ فَاَصْبَحُوْا فِيْ دِيَارِهِمْ جٰثِمِيْنَo کَاَنْ لَّمْ يَغْنَوْا فِيْهَاط اَ لَآ اِنَّ ثَمُوْدَا کَفَرُوْا رَبَّهُمْ ط اَ لَا بُعْدًا لِّثَمُوْدَo
هود، 11 : 67، 68
’’اور ظالم لوگوں کو ہولناک آواز نے آپکڑا سو انہوں نے صبح اس طرح کی کہ اپنے گھروں میں (مردہ حالت میں) اوندھے پڑے رہ گئےo گویا وہ کبھی ان میں بسے ہی نہ تھے، یاد رکھو! (قوم) ثمود نے اپنے رب سے کفر کیا تھا۔ خبر دار! (قومِ) ثمود کے لیے (رحمت سے) دوری ہےo‘‘
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلم ریاست کے لئے خوارج کو قومِ عاد و ثمود کی طرح قتل کرنے کا تاکیدی حکم فرمایا ہے کیوں کہ یہ بھی اپنی سرکشی و بغاوت میں اُنہی قوموں کی طرح حد سے گزرے ہوئے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ اس لیے فرمایا کہ اگر کچھ دہشت گردوں کو مار دیا جائے اور کچھ کو چھوڑ دیا جائے یا ان سے مذاکرات کرلیے جائیں تو یوں ان کے بچے ہوئے سرغنوں کو مہلت مل جائے گی اور وہ کچھ عرصہ بعد فتنہ پروری کے لیے دوبارہ منظم ہو جائیں گے۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمانِ اقدس ہے جسے امام احمد بن حنبل، امام نسائی، امام حاکم اور دیگر اجل ائمہ نے بیان کیا ہے :
لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتَّی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ.
1. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 421، رقم : 19798
2. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7
:
119، رقم : 4103
3. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2 : 160، رقم : 2647
’’خوارج کے یہ گروہ بغیر انقطاع کے ہمیشہ پیدا ہوتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا۔‘‘
اِس حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خوارج کی نفسیات اور حکمت عملی کے پیش نظر یہ حکم صادر فرمایا ہے کہ شروع میں اتمام حجت ہو جانے کے بعد جب اُن کے خاتمہ کے لیے بہ ذریعہ آپریشن ریاستی اقدامات کئے جائیں تو ممکن ہے کہ وہ اپنی شکست اور کلی خاتمہ کا خدشہ محسوس کرتے ہوئے مذاکرات پر آمادہ ہوں۔ یہ ان کی چال اور مکر و فریب ہوگا، اپنی بچی کھچی طاقت محفوظ کرنے کا طریقہ ہوگا۔ مہلت چاہنے کے لیے ایک دھوکہ ہوگا۔ اگر انہیں کلیتاً ختم کر کے دم نہ لیا گیا اور خاتمہ کا اقدام ادھورا چھوڑ دیا گیا تو پھر وہ زیرزمین چلے جائیں گے۔ مہلت اور دیے گئے وقت کو تنظیم نو اور نئے منصوبہ کے لئے استعمال کریں گے۔ اس طرح ایک عرصہ خاموشی سے گزارنے کے بعد دوبارہ دہشت گردی کی کارروائیاں تازہ دم ہو کر شروع کر دیں گے۔ بنابریں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنت الٰہیہ کے پیش نظر قوم عاد اور قومِ ثمود کی طرح ان کے مکمل خاتمے کا حکم دیا ہے تاکہ وہ دوبارہ منظم (reorganize) ہوکر اور اپنی طاقت سمیٹ کر پھر فتنہ و فساد شروع نہ کر سکیں۔ اس کی نشان دہی فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کر دی ہے جو کبھی غلط نہیں ہو سکتا۔
حضرت نوح علیہ السلام نے بھی اپنی قوم کی تباہی کے خلاف دعا کی تو اُس کا سبب بھی یہ تھا کہ آئندہ کے لیے شر و فساد کا کلیتاً خاتمہ ہوجائے۔ قرآن حکیم میں اس کا ذکر یوں آیا ہے :
اِنَّکَ اِنْ تَذَرْهُمْ يُضِلُّوْا عِبَادَکَ وَلَا يَلِدُوْا اِلَّا فَاجِرًا کَفَّارًاo
نوح، 71 : 27
’’بے شک اگر تو اُنہیں (زندہ) چھوڑے گا تو وہ تیرے بندوں کو گمراہ کرتے رہیں گے، اور وہ بدکار (اور) سخت کافر اولاد کے سوا کسی کو جنم نہیں دیں گےo‘‘
لہٰذا ضروری ہے کہ اِن خوارج کو نیست و نابود کر دیا جائے تاکہ مزید شرانگیزی نہ کر سکیں۔ قرآن حکیم کے مطابق جب سرکش و باغی قوموں کو اتمام حجت کے بعد اچانک عذاب دیا گیا تو یک بارگی ان کی ساری کی ساری قوت تباہ کر دی گئی۔ ان میں سے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ قوم ثمود کے متعلق مزید اِرشادِ باری تعاليٰ ہے :
اِنَّآ اَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ صَيْحَةً وَّاحِدَةً فَکَانُوْا کَهَشِيْمِ الْمُحْتَظِرِo
القمر، 54 : 31
’’بے شک ہم نے اُن پر ایک نہایت خوفناک آواز بھیجی سو وہ باڑ لگانے والے کے بچے ہوئے اور روندے گئے بھوسے کی طرح ہو گئےo‘‘
مذکورہ بالا ارشادات قرآنی اور احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہوگیا کہ مسلح خارجی گروہوں کے ساتھ مذاکرات کرکے انہیں مہلت دینا انہیں دوبارہ منظم ہونے کا موقع فراہم کرنا ہے جو کہ سراسر حکم الٰہی اور حکم رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خلاف ورزی ہے۔
اِس اجر عظیم کا ذکر پہلے بیان کی گئی احادیث صحیحہ میں کثرت سے آچکا ہے اور بخاری و مسلم کی روایات بھی اس پر شاہد عادل ہیں۔ اب ہم یہاں پر مزید چند احادیث مبارکہ کا بیان کریں گے۔
1۔ امام احمد بن حنبل حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
سَيَخْرُجُ قَوْمٌ أَحْدَاثٌ أَحِدَّاءُ أَشِدَّاءُ، ذَلِقَةٌ أَلْسِنَتُهُمْ بِالْقُرْآنِ، يَقْرَءُ وْنَهُ لاَ يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ. فَإِذَا لَقِيْتُمُوْهُمْ فَأَنِيْمُوْهُمْ، ثُمَّ إِذَا لَقِيْتُمُوْهُمْ فَاقْتُلُوْهُمْ، فَإِنَّهُ يُؤْجَرُ قَاتِلُهُمْ.
1. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 36، 44
2. حاکم، المستدرک، 2 : 159، رقم : 2645
3. ابن أبي عاصم، السنة، 2 : 456، رقم : 937
4. عبد اﷲ بن أحمد، السنة، 2 : 637، رقم : 1519
5. بيهقي، السنن الکبری، 8 : 187
امام احمد کی بیان کردہ روایت کے رجال صحیح حدیث کے رجال ہیں، امام ابن ابی عاصم نے اس کی اسناد کو صحیح قرار دیا ہے اور امام حاکم نے اسے صحیح حدیث کہا ہے۔
’’عنقریب ایسے کم سن لوگ نکلیں گے جو نہایت تیز طرار اور شدت پسند ہوں گے اور قرآن کو بڑی روانی سے پڑھنے والے ہوں گے وہ قرآن پڑھیں گے لیکن وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔ سو جب تم ان سے ملو تو انہیں قتل کر دو، پھر جب (ان کا کوئی دوسرا گروہ نکلے اور) تم (میدان جنگ میں) انہیں ملو تو انہیں بھی قتل کر دو۔ یقیناً ان کے قاتل کو اَجر (عظیم) عطا کیا جائے گا۔‘‘
2۔ حضرت عبد اﷲ بن رباح انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت کعب رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا :
لِلشَّهِيْدِ نُوْرٌ وَلِمَنْ قَاتَلَ الْحَرُوْرِيَّةَ عَشْرَةُ أَنْوَارٍ (وفي رواية لابن أبي شيبة : فَضْلُ ثَمَانِيَةِ أَنْوَارٍ عَلَی نُوْرِ الشُّهَدَاءِ) وَکَانَ يَقُوْلُ لِجَهَنَّمَ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ ثَلَاثَةٌ مِنْهَا لِلْحَرُوْرِيَّةِ.
1. عبد الرزاق، المصنف، 10 : 155
2. ابن أبي شيبة، المصنف، 7 : 557، رقم : 37911
’’شہید کے لئے ایک نور ہو گا اور اس شخص کے لئے دس نور ہوں گے جو حروریہ (خوارج) کے ساتھ جنگ کرے گا یعنی خوارج کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے شہید ہوگا (اور ابن ابی شیبہ کی روایت میں ہے : (دیگر) شہداء کے نور کے مقابلہ میں اس کا نور آٹھ گنا زیادہ ہو گا)۔ اور آپ یہ بھی فرمایا کرتے تھے کہ جہنم کے کل سات دروازے ہیں جن میں سے تین صرف حروریہ (یعنی خوارج) کے لئے مختص ہیں۔‘‘
روایات میں ان فتنہ پرور خارجیوں کی متعدد معروف علامات اور واضح نشانیاں بیان فرمائی گئی ہیں جن کا تذکرہ ذیل میں کیا جاتا ہے :
1. أَحْدَاثُ الْأَسْنَانِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج
والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539، رقم : 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2
: 746، رقم : 1066
’’وہ کم سن لڑکے ہوں گے۔‘‘
2. سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج
والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539، رقم : 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2
: 746، رقم : 1066
’’دماغی طور پر ناپختہ (brain washed) ہوں گے۔‘‘
3. کَثُّ اللِّحْيَةِ.
1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب بعث علی بن أبي طالب وخالد بن الوليد إلی
اليمن قبل حجة الوداع، 4 : 1581، رقم : 4094
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2
: 742، رقم : 1064
’’(دین کے ظاہر پر عمل میں غلو سے کام لیں گے اور) گھنی ڈاڑھی رکھیں گے۔‘‘
4. مُشَمَّرُ الْإِزَارِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب المغازی، باب بعث علی ابن أبی طالب و خالد بن الوليد،
إلی اليمن قبل حجة الوداع، 4 : 1581، رقم : 4094
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2
: 742، رقم : 1064
’’بہت اونچا تہ بند باندھنے والے ہوں گے۔‘‘
5. يَخْرُجُ نَاسٌ مِنْ قِبَلِ الْمَشْرِقِ.
بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، باب قراء ة الفاجر والمنافق وأصواتهم وتلاوتهم لا تجاوز حناجرهم، 6 : 2748، رقم : 7123
’’یہ خارجی لوگ (حرمین شریفین سے) مشرق کی جانب سے نکلیں گے۔‘‘
6. لَا يَزَالُوْنَ يَخْرُجُوْنَ حَتّٰی يَخْرُجَ آخِرُهُمْ مَعَ الْمَسِيْحِ الدَّجَّالِ.
نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب من شهر سيفه ثم وضعه في الناس، 7 : 119، رقم : 4103
’’یہ ہمیشہ نکلتے رہیں گے یہاں تک کہ ان کا آخری گروہ دجال کے ساتھ نکلے گا۔‘‘
یعنی یہ خوارج دجّال کی آمد تک تاریخ کے ہر دور میں وقتاً فوقتاً ظہور پذیر ہوتے رہیں گے۔
7. لَا يُجَاوِزُ إِيْمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج
والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539، رقم : 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2
: 746، رقم : 1066
’’ایمان ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گا۔‘‘
یعنی ان کا ایمان دکھلاوا اور نعرہ ہوگا، مگر اس کے اوصاف ان کے فکر و نظریہ اور کردار میں دکھائی نہیں دیں گے۔
8. يَتَعَمَّقُوْنَ وَيَتَشَدَّدُوْنَ فِی الْعِبَادَةِ.
1. أبويعلی، المسند، 1 : 90، رقم : 90
2. عبد الرزاق، المصنف، 10 : 155، رقم : 18673
’’وہ عبادت اور دین میں بہت متشدد اور انتہاء پسند ہوں گے۔‘‘
9. يَحْقِرُ أَحَدُکُمْ صَلَاتَهُ مَعَ صَلَاتِهِمْ، وَصِيَامَهُ مَعَ صِيَامِهِمْ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب من ترک قتال
الخوارج للتألف وأن لا ينفر الناس عنه، 6 : 2540، رقم : 6534
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2
: 744، رقم : 1064
’’تم میں سے ہر ایک ان کی نمازوں کے مقابلے میں اپنی نمازوں کو حقیر جانے گا اور ان کے روزوں کے مقابلہ میں اپنے روزوں کو حقیر جانے گا۔‘‘
10. لَا تُجَاوِزُ صَلَاتُهُمْ تَرَاقِيَهُمْ.
مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066
’’نماز ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی۔‘‘
یعنی نماز کا کوئی اثر ان کے اخلاق و کردار پر نہیں ہوگا۔
11. يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَيْسَ قِرائَتُکُمْ إِلَی قِرَاءَ تِهِمْ بِشَيءٍ.
مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066
’’وہ قرآن مجید کی ایسے تلاوت کریں گے کہ ان کی تلاوتِ قرآن کے سامنے تمہیں اپنی تلاوت کی کوئی حیثیت دکھائی نہ دے گی۔‘‘
12. يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ.
1. بخاری الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج
والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2540، رقم : 6532
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وقتالهم، 2
: 743، رقم : 1064
’’ان کی تلاوت ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی۔‘‘
یعنی اس کا کوئی اثر ان کے دل پر نہیں ہوگا۔
13. يَقْرَئُوْنَ الْقُرْآنَ يَحْسِبُوْنَ أَنَّهُ لَهُمْ، وَهُوَ عَلَيْهِمْ.
مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066
’’وہ یہ سمجھ کر قرآن پڑھیں گے کہ اس کے احکام ان کے حق میں ہیں لیکن درحقیقت وہ قرآن ان کے خلاف حجت ہوگا۔‘‘
14. يَدْعُونَ إِلَی کِتَابِ اﷲِ وَلَيْسُوا مِنْهُ فِي شَيْئٍ.
أبو داود، السن، کتاب السنة، باب في قتل الخوارج، 4 : 243، رقم : 4765
’’وہ (بذریعہ طاقت) لوگوں کو کتاب اﷲ کی طرف بلائیں گے لیکن قرآن کے ساتھ ان کا تعلق کوئی نہیں ہوگا۔‘‘
15. يَقُوْلُوْنَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج
والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539، رقم : 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2
: 746، رقم : 1066
’’وہ (بظاہر) بڑی اچھی باتیں کریں گے۔‘‘
یعنی دینی نعرے (slogans) بلند کریں گے اور اسلامی مطالبے کریں گے۔
(1) جیسے خلیفہ راشد حضرت علی رضی اللہ عنہ کے دور میں خوارج نے لاَ حُکْمَ إِلاَّ لِلّٰهِ کا پُر کشش نعرہ لگایا تھا۔
16. يَقُوْلُوْنَ مِنْ أَحْسَنِ النَّاسِ قَوْلًا.
طبراني، المعجم الأوسط، 6 : 186، الرقم : 6142
’’ان کے نعرے (slogans) اور ظاہری باتیں دوسرے لوگوں سے اچھی ہوں گی اور متاثر کرنے والی ہوں گی۔‘‘
17. يُسِيْئُوْنَ الْفِعْلَ.
أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب في قتال الخوارج، 4 : 243، رقم : 4765
’’مگر وہ کردار کے لحاظ سے بڑے ظالم، خونخوار اور گھناؤنے لوگ ہوں گے۔‘‘
18. هُمْ شَرُّ الْخَلْقِ وَالْخَلِيْقَةِ.
مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب الخوارج شر الخلق والخليقة، 2 : 750، الرقم : 1067
’’وہ تمام مخلوق سے بدترین لوگ ہوں گے۔‘‘
19. يَطْعَنُوْنَ عَلٰی أُمَرَائِهِمْ وَيَشْهَدُوْنَ عَلَيْهِمْ بِالضَّلَالَةِ.
1. ابن أبي عاصم، السنة، 2 : 455، رقم : 934
2. هيثمي، مجمع الزوائد، 6 : 228، وقال : رجاله رجال
الصحيح.
’’وہ حکومت وقت یا حکمرانوں کے خلاف خوب طعنہ زنی کریں گے اور ان پر گمراہی و ضلالت کا فتويٰ لگائیں گے۔‘‘
20. يَخْرُجُوْنَ عَلٰی حِيْنِ فُرْقَةٍ مِنَ النَّاسِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب المناقب، باب علامات النبوة في الإسلام، 3
: 1321، رقم : 3414
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2
: 744، رقم : 1064
’’وہ اس وقت منظرِ عام پر آئیں گے جب لوگوں میں تفرقہ اور اختلاف پیدا ہو جائے گا۔‘‘
21. يَقْتُلُوْنَ أَهْلَ الإِسْلَامِ وَيَدْعُوْنَ أَهْلَ الْأَوْثَانِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب التوحيد، باب قول اﷲ تعالی : تعرج
الملائکة والروح إليه،
6 : 2702، رقم : 6995
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب ذکر الخوارج وصفاتهم، 2
: 741، رقم : 1064
’’وہ مسلمانوں کو قتل کریں گے اور بت پرستوں کو چھوڑ دیں گے۔‘‘
22. يَسْفِکُوْنَ الدَّمَ الْحَرَامَ.
مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066
’’وہ ناحق خون بہائیں گے۔‘‘
یعنی مسلم اور غیر مسلم افراد کا قتل جائز سمجھیں گے۔
23. يَقْطَعُوْنَ السَّبِيْلَ وَيَسْفِکُوْنَ الدِّمَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ مِنَ اﷲِ وَيَسْتَحِلُّوْنَ أَهْلَ الذِّمَّةِ. (من کلام عائشة رضي اﷲ عنها)
حاکم، المستدرک، 2 : 166، رقم : 2657
’’وہ راہزن ہوں گے، ناحق خون بہائیں گے جس کا اﷲ تعاليٰ نے حکم نہیں دیا اور غیر مسلم اقلیتوں کے قتل کو حلال سمجھیں گے۔‘‘ (یہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے۔)
24. يُؤْمِنُونَ بِمُحْکَمِهِ وَيَهْلِکُونَ عِنْد مُتَشَابِهه. (قول ابن عباس رضی الله عنه).
1. طبری، جامع البيان فی تفسير القرآن، 3 : 181
2. عسقلاني، فتح الباری، 12 : 300
’’وہ قرآن کی محکم آیات پر ایمان لائیں گے جبکہ اس کی متشابہات کے سبب سے ہلاک ہوں گے۔‘‘ (قولِ ابنِ عباس رضی اللہ عنہ)
25. يَقُوْلُوْنَ الْحَقَّ بِأَلْسِنَتِهِمْ لَا يُجَاوِزُ حُلُوْقَهُمْ. (قول علي رضی الله عنه)
مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 749، الرقم : 1066
’’وہ زبانی کلامی حق بات کہیں گے، مگر وہ ان کے حلق سے نیچے نہیں اترے گی۔‘‘ (قولِ علی رضی اللہ عنہ)
26. ينْطَلِقُوْنَ إِلَی آيَاتٍ نَزَلَتْ فِي الْکُفَّارِ فَيَجْعَلُوْهَا عَلَی الْمُؤْمِنِيْنَ. (من قول ابن عمر رضی الله عنه)
بخاری، الصحيح، کتاب، استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539
’’وہ کفار کے حق میں نازل ہونے والی آیات کا اطلاق مسلمانوں پر کریں گے۔ اس طرح وہ دوسرے مسلمانوں کو گمراہ، کافر اور مشرک قرار دیں گے تاکہ ان کا ناجائز قتل کر سکیں۔‘‘ (قولِ ابنِ عمر رضی اللہ عنہ سے مستفاد)
27. يَمْرُقُوْنَ مِنَ الدِّيْنِ کَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم، باب قتل الخوارج
والملحدين بعد إقامة الحجة عليهم، 6 : 2539، رقم : 6531
2. مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2
: 746، رقم : 1066
’’وہ دین سے یوں خارج ہو چکے ہوں گے جیسے تیر شکار سے خارج ہو جاتا ہے۔‘‘
28. اَلْأَجْرُ الْعَظِيْمُ لِمَنْ قَتَلَهُمْ.
مسلم، الصحيح، کتاب الزکاة، باب التحريض علی قتل الخوارج، 2 : 748، رقم : 1066
’’ان کے قتل کرنے والے کو اجرِ عظیم ملے گا۔‘‘
29. خَيْرُ قَتْلَی مَنْ قَتَلُوْهُ.
ترمذی، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة آل عمران، 5 : 226، رقم : 3000
’’وہ شخص بہترین مقتول (شہید) ہوگا جسے وہ قتل کر دیں گے۔‘‘
30. شَرُّ قَتْلَی تَحْتَ أَدِيْمِ السَّمَاءِ.
ترمذی، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة آل عمران، 5 : 226، رقم : 3000
’’وہ آسمان کے نیچے بدترین مقتول ہوں گے۔‘‘
یعنی جو دہشت گرد خوارج فوجی سپاہیوں کے ہاتھوں مارے جائیں گے تو وہ بدترین مقتول ہوں گے اور انہیں مارنے والے جوان بہترین غازی ہوں گے۔
31. إِنَّهُمْ کِلَابُ النَّارِ.
ترمذی، السنن، کتاب تفسير القرآن، باب ومن سورة آل عمران، 5 : 226، رقم : 3000
’’یہ (دہشت گرد خوارج) جہنم کے کتے ہوں گے۔‘‘
32۔ گناہ کبیرہ کے مرتکب کو دائمی جہنمی اور اس کا خون اور مال حلال قرار دیں گے۔
33۔ ظالم اور فاسق حکومت کے خلاف مسلح بغاوت اور خروج کو فرض قرار دیں گے۔
1. عبد القاهر بغدادی، الفرق بين الفرق : 73
2. ابن تيميه، مجموع فتاوی، 13 : 31
34۔ خوارج کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ کسی مخصوص علاقے کو گھیر کر اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے مرکز بنا لیں گے، جیسے کہ انہوں نے خلافت علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہ میں حروراء کو اپنا مرکز بنا لیا تھا یعنی وہ اپنے لئے محفوظ پناہ گاہیں بنائیں گے۔
35۔ خوارج کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ اہلِ حق کے ساتھ مذاکرات کو ناپسند کریں گے، جس طرح انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی تحکیم کو مسترد کر دیا تھا۔
احادیث و آثار سے ماخوذ اِن علامات سے ثابت ہوتا ہے کہ جو مسلح گروہ یا فرقہ جمہور امت مسلمہ کو گمراہ، بدعتی اور کافر و مشرک کہے، عامۃ الناس ۔ مسلم ہوں یا غیر مسلم ۔ کے خون و مال کو حلال سمجھے، حق بات کا انکار کرے، مصالحانہ اور پر امن ماحول کو تباہ و برباد کرے، وہ خارجی ہے۔ خواہ اس کا ظہور کسی بھی زمانے اور کسی بھی ملک میں ہو۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved