قبل ازیں مسلم ریاست میں مسلمانوں کو ایذاء رسانی، غیر مسلم شہریوں کے قتل کی ممانعت اور حالت جنگ میں بھی دشمن قوم کے غیر محارب افراد حتيٰ کہ ان کی اَملاک اور زراعت کو نقصان پہنچانے سے گریز پر مبنی اسلامی تعلیمات اور احکامات کو بیان کیا گیا ہے۔ زیرِ نظر عنوان کے تحت اس بات کا جائزہ لیا جا رہا ہے کہ مسلمان ریاست میں دہشت گردی اور بغاوت کتنا بڑا اور سنگین جرم ہے۔ چونکہ یہ باب بغاوت سے متعلق ہے اس لیے مناسب ہے کہ سب سے پہلے ہم لفظ بغاوت اور دہشت گردی کا مفہوم اور باغیوں کی علامات کا ذکر کریں۔
بغاوت البغی سے مشتق ہے اور البغی لغوی طور پر کبھی طلب کے لئے آتا ہے اور کبھی تعدی (ظلم و زیادتی) کے لئے۔ اصطلاحِ فقہاء میں بغاوت سے مراد ایسی حکومت کے احکام کو نہ ماننا اور اس کے خلاف مسلح خروج کرنا ہے جس کا حق حکمرانی قانون کے مطابق قائم ہوا ہو۔
بَغْیٌ : اَلْبَاءُ وَالْغَيْنُ وَالْيَاءُ، أَصْلَانِ : أَحَدُهُمَا طَلَبُ الشَّيئِ، وَالثَّانِی : جِنْسٌ مِنَ الْفَسَادِ... وَالْأَصْلُ الثَّانِی : قَوْلُهُمْ بَغَی الْجَرْحُ، إِذَا تَرَامَی إِلَی فَسَادٍ... ثُمَّ يُشْتَقُّ مِنْ هَذَا مَا بَعْدَه، فَالْبَغْيُ الْفَاجِرَةُ... وَمِنْهُ أَنْ يَبْغِيَ الْإِنْسَانُ عَلَی الْآخَرِ ... وَإِذَا کَانَ ذَا بَغْیٍ فَلَا بُدَّ أَنْ يَقَعَ مِنْهُ فَسَادٌ... وَالْبَغْيُ : اَلظُّلْمُ.
1. ابن فارس، معجم مقاييس اللغة (مادة ’’بغی‘‘) : 144
2. ابن منظور، لسان العرب (مادة ’’بغی‘‘)، 14 : 75.
78
’’بغی کا مادہ ب، غ اور ي ہے اور اس کی اصل دو چیزیں ہیں۔ پہلا معنی کسی چیز کا طلب کرنا ہے جبکہ دوسرے معنی کے مطابق یہ فساد کی ایک قسم ہے۔۔۔۔ دوسرے معنی کی مثال دیتے ہوئے اہل زبان کا کہنا ہے : بغی الجرح، زخم فساد کی حد تک بڑھ گیا یعنی بہت زیادہ خراب ہو گیا۔۔۔۔ اسی سے اس نوعیت کے دیگر الفاظ مشتق ہوتے ہیں مثلا بَغيٌ بری عورت کو بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ شرم و حیا کی حدیں پھلانگ کر بدکاری کی مرتکب ہوتی ہے۔۔۔۔ اور اسی مادے سے بَغيٌ کا معنی ایک انسان کی طرف سے دوسرے پر ظلم و زیادتی ہے۔۔۔۔ جب بغاوت کسی شخص کی عادت بن جائے تو اس سے فساد خود بخود جنم لیتا ہے؛ اور (اسی لیے) بَغيٌ ظلم کے لیے بھی بولا جاتا ہے۔‘‘
2۔ علامہ ابن نجیم حنفی (م 970ھ) بغاوت کی تعریف میں لکھتے ہیں :
البغاة جمع باغ، من بغی علی الناس ظلم واعتدي، وبغی سعی بالفساد، ومنه الفرقة الباغية لأنها عدلت عن القصد.... وفئة باغية خارجةٌ عن طاعة الإمام العادل.
ابن نجيم، البحر الرائق، 5 : 150
’’البغاۃ باغی کی جمع ہے۔ بغی علی الناس کا معنی ہے : اس نے لوگوں پر ظلم اور زیادتی کی ہے۔ بغی کا معنی یہ بھی ہے کہ اس نے فساد پھیلانے کی کوشش کی ہے۔ اور اسی سے فرقہ باغیہ ہے اس لئے کہ وہ راہ راست سے ہٹ گیا ہے۔۔۔۔ اور فئۃ باغیۃ کا معنی مسلم ریاست(2) کی اتھارٹی تسلیم نہ کرنے والا گروہ ہے۔‘‘
(2) قدیم عربی و اسلامی ادب مثلاً حدیث، تفسیر، فقہ اور عقائد وغیرہ کی امہات الکتب میں مسلم ریاست و حکومت اور ہیئت اجتماعی کے لیے ’’جماعت‘‘ اور ’’امارت‘‘ کے الفاظ استعمال ہوتے تھے؛ جب کہ حکمران کے لیے ’’خلیفہ‘‘، ’’امیر‘‘ اور ’’امام‘‘ کے الفاظ مستعمل رہے ہیں۔ جیسا کہ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ہے :
فَالْزَمْ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِيْنَ وَإِمَامَهُمْ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الفتن، باب کيف الأمر إذا لم تکن جماعة،
6 : 2595، رقم : 6673
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب العزلة، 2 : 1317، رقم
:
3979
’’مسلمانوں کی جماعت یعنی ہیئت اجتماعی اور ان کے امام یعنی حکمران کے ساتھ وابستہ رہو۔‘‘
اسی طرح علامہ ابن خلدون امامت کی شرح میں لکھتے ہیں :
إِنَّهُ نِيَابَةٌ عَنْ صَاحِبِ الشَّرِيْعَةِ فِي حِفْظِ الدِّيْنِ وَسِيَاسَةِ الدُّنْيَا بِهِ تُسَمّٰی خِلَافَةً وَإِمَامَةً.
مقدمة ابن خلدون : 134
’’حفاظت دین اور امور سلطنت میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نیابت کو خلافت اور امامت کہا جاتا ہے۔‘‘
دور جدید میں تمام علوم و فنون کی نئی اصطلاحات وضع ہو چکی ہیں۔ اسی لیے عہد حاضر میں مستعمل جدید آئینی و قانونی اصطلاحات کی روشنی میں امام کا ترجمہ حکومت / مسلم حکومت / مسلم ریاست اور طاعت / اطاعت کا ترجمہ ریاست کا نظم اور اتھارٹی کیا گیا ہے۔
3۔ علامہ حصکفی (م 1088ھ) در المختار میں بغاوت کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
البغی لغة الطلب، ومنه : ﴿ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ﴾.(1) وعرفا : طلب ما لا يحل من جورٍ وظلمٍ.(2)
(1) الکهف، 18 : 64
(2) حصکفي، الدر المختار، 4 : 261
’’لغت کی رو سے بغی کا معنی ہے : ’’طلب کرنا‘‘ مثلاً ﴿ذٰلِکَ مَا کُنَّا نَبْغِ﴾ میں یہ لفظ اس معنی میں استعمال ہوا ہے اور عرف میں اس سے مراد ناجائز ظلم و ستم کرنا ہے۔‘‘
یہی معنوی تفصیلات تہذیب اللغۃ، الصحاح اور لسان العرب میں بھی مذکور ہیں۔
ان لغوی تعریفات سے یہ ثابت کرنا مقصود تھا کہ بغاوت کے لفظ میں ہی ظلم اور زیادتی کا معنی پایا جاتا ہے۔ مزید یہ کہ اِس میں شرعی قیود اور قانونی و آئینی حدود کو توڑ کر معاشرے میں بد امنی، زیادتی اور ظلم کا مرتکب ہوا جاتا ہے۔
اہل لغت نے بغاوت کی کئی تعریفات بیان کی ہیں اور وہ سب ایک ہی معنوی اَصل کی طرف لوٹتی ہیں۔ اِسی طرح مختلف فقہی مذاہب میں بھی بغاوت کی کئی تعریفات کی گئی ہیں۔ ان سب میں بھی معنوی اصل ایک ہی ہے، ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
1۔ فقہائے احناف میں سے ایک نمایاں نام علامہ ابن ہمام (م 861ھ) کا ہے۔ انہوں نے فتح القدیر میں بغاوت کی سب سے جامع تعریف کی ہے اور باغیوں کی مختلف اقسام بیان کی ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
والباغی فی عرف الفقهاء : الخارج عن طاعة إمام الحق. والخارجون عن طاعته أربعة أصناف :
أحدها : الخارجون بلا تأويل بمنعة وبلا منعة، يأخذون أموال الناس ويقتلونهم ويخيفون الطريق، وهم قطاع الطريق.
والثاني : قوم کذلک إلا أنهم لا منعة لهم لکن لهم تأويل. فحکمهم حکم قطّاع الطريق. إن قتلوا قتلوا وصلبوا. وإن أخذوا مال المسلمين قطعت أيديهم وأرجلهم علي ما عرف.
والثالث : قوم لهم منعة وحمية خرجوا عليه بتأويل يرون أنه علي باطل کفر أو معصية. يوجب قتاله بتأويلهم. وهؤلاء يسمون بالخوارج يستحلون دماء المسلمين وأموالهم ويسبون نساء هم ويکفرون أصحاب رسول اﷲ صلي الله عليه وآله وسلم . وحکمهم عند جمهور الفقهاء وجمهور أهل الحديث حکم البغاة....
والرابع : قوم مسلمون خرجوا علی إمام ولم يستبيحوا ما استباحه الخوارج، من دماء المسلمين وسبی ذراريهم وهم البغاة.
ابن همام، فتح القدير، 5 : 334
’’فقہاء کے ہاں عرف عام میں آئین و قانون کے مطابق قائم ہونے والی حکومت کے نظم اور اتھارٹی کے خلاف مسلح جدوجہد کرنے والے کو باغی (دہشت گرد) کہا جاتا ہے۔ حکومت وقت کے نظم کے خلاف بغاوت کرنے والوں کی چار قسمیں ہیں :
’’پہلی قسم ایسے لوگوں پر مشتمل ہے جو طاقت کے بل بوتے یا طاقت کے بغیر بلاتاویل حکومت کی اتھارٹی اور نظم سے خروج کرنے والے ہیں اور لوگوں کا مال لوٹتے ہیں، انہیں قتل کرتے ہیں اور مسافروں کو ڈراتے دھمکاتے ہیں، یہ لوگ راہزن ہیں۔
’’دوسری قسم ایسے لوگوں کی ہے جن کے پاس غلبہ پانے والی طاقت و قوت تو نہ ہو لیکن مسلح بغاوت کی غلط تاویل ہو، پس ان کا حکم بھی راہزنوں کی طرح ہے۔ اگر یہ قتل کریں تو بدلہ میں انہیں قتل کیا جائے اور پھانسی چڑھایا جائے اور اگر مسلمانوں کا مال لوٹیں تو ان پر شرعی حد جاری کی جائے۔
’’تیسری قسم کے باغی وہ لوگ ہیں جن کے پاس طاقت و قوت اور جمعیت بھی ہو اور وہ کسی من مانی تاویل کی بناء پر حکومت کی اتھارٹی اور نظم کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیں اور ان کا یہ خیال ہو کہ حکومت باطل ہے اور کفر و معصیت کی مرتکب ہو رہی ہے۔ ان کی اس تاویل کے باوجود حکومت کا ان کے ساتھ جنگ کرنا واجب ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں پر خوارج کا اطلاق ہوتا ہے جو مسلمانوں کے قتل کو جائز اور ان کے اموال کو حلال قرار دیتے تھے اور مسلمانوں کی عورتوں کو قیدی بناتے اور اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تکفیر کرتے تھے۔ جمہور فقہاء اور ائمہ حدیث کے ہاں ان کا حکم بھی خوارج اور باغیوں کی طرح ہی ہے۔۔۔۔
’’چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جنہوں نے حکومتِوقت کے خلاف مسلح بغاوت تو کی لیکن ان چیزوں کو مباح نہ جانا جنہیں خوارج نے مباح قرار دیا تھا جیسے مسلمان کو قتل کرنا اور ان کی اولادوں کو قیدی بنانا وغیرہ۔ یہی لوگ باغی ہیں۔‘‘
2۔ علامہ زین الدین بن نجیم حنفی (م 970ھ) باغی دہشت گردوں کی تعریف یوں کرتے ہیں :
وأما البغاة : فقوم مسلمون خرجوا علی الإمام العدل، ولم يستبيحوا ما استباحه الخوارج من دماء المسلمين وسبی ذراريهم.
ابن نجيم، البحر الرائق فی شرح الکنز الدقائق، 5 : 151
’’جہاں تک باغیوں کا تعلق ہے تو یہ مسلمانوں میں سے وہ لوگ ہیں جو قانونی طریقے سے قائم ہونے والی حکومت کے خلاف مسلح ہو کر مقابلے میں نکل آتے ہیں، بے شک جس چیز کو خوارج نے حلال قرار دیا ہے یہ اس کو حلال قرار نہ دیتے ہوں مثلاً مسلمان کا خون بہانا اور ان کی اولادوں کو قید کرنا۔ (سو یہی لوگ باغی کہلاتے ہیں۔)‘‘
3۔ علامہ ابن عابدین (م 1252ھ)نے رد المحتار میں بغاوت کی تعریف اس طرح کی ہے :
أهل البغي : کل فئة لهم منعة. يتغلبون ويجتمعون ويقاتلون أهل العدل بتأويل. يقولون : ’’الحق معنا‘‘ ويدعون الولاية.
1. ابن عابدين، رد المحتار، 4 : 262
2. دسوقي، الحاشية، 4 : 261
3. عينی، بناية شرح الهداية، 5 : 888
’’باغیوں سے مراد ہر وہ گروہ ہے جس کے پاس مضبوط ٹھکانے اور طاقت ہو اور وہ غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ لوگوں کو منظم کر کے مسلم ریاستوں کے خلاف (خود ساختہ) تاویل کی بناء پر جنگ کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم ہی حق پر ہیں اور وہ حکومت کا دعويٰ کرتے ہیں۔‘‘
علامہ حصکفی الدر المختار میں باغی دہشت گردوں کی اقسام بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
ثم الخارجون عن طاعة الإمام ثلاثة : قطاع طريق... وبغاة... وخوارج وهم قوم لهم منعة خرجوا عليه بتأويل يرون أنه علی باطل کفر أو معصية، توجب قتاله بتأويلهم. ويستحلون دماء نا وأموالنا، ويسبون نساء نا ويکفرون أصحاب نبينا صلی الله عليه وآله وسلم. وحکمهم حکم البغاة بإجماع الفقهاء کما حققه فی الفتح.
حصکفي، الدر المختار، 4 : 262، 263
’’نظمِ ریاست اور اس کی اتھارٹی کا انکار کرنے والے لوگ تین قسم کے ہیں :
(1) راہزن
(2) باغی
(3) خوارج
’’اور یہ خوارج ایسے لوگ ہیں جن کے پاس (فتنہ پھیلانے کی) طاقت ہے، جو حکومت کے خلاف مقابلے میں کسی تاویل کے بل بوتے پر نکل آئیں۔ ان کی رائے میں حکمران باطل پر ہیں، چاہے کفر یا گناہ کی حد تک ہوں۔ یہی معصیت ان کی تاویل کے مطابق حکومت سے ان کی جنگ کو واجب کردیتی ہے۔ پھر یہ لوگ ہم مسلمانوں کا خون اور مال حلال سمجھتے ہیں۔ ہماری عورتوں کو قیدی بناتے ہیں اور ہمارے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کافر قرار دیتے ہیں۔ ان کا حکم باغیوں جیسا ہے اور اس پر فقہاء کا اجماع ہے جیسا کہ اس کی تحقیق فتح القدیر میں ہے۔‘‘
مالکی فقہاء میں سے امام محمد بن احمد بن جزی الکلبی الغرناطی (م 741ھ) نے ’’القوانین الفقھیۃ‘‘ میں لکھا ہے :
البغاة : هم الذي يقاتلون علی التأويل، والذين يخرجون علی الإمام، أو يمتنعون من الدخول في طاعته، أو يمنعون حقاً وجب عليهم کالزکاة وشبهها.
ابن جزی الکلبی، القوانين الفقهية : 364
’’باغی وہ لوگ ہیں جو مسلم ریاست کے خلاف خود ساختہ تاویلات کی بناء پر مسلح بغاوت کرتے ہیں یا اس کی اتھارٹی کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں اور وہ حق ادا نہیں کرتے جس کی ادائیگی (بطور پُراَمن شہری) ان کے ذمہ لازم تھی جیسا کہ زکوٰۃ کی ادائیگی یا اس طرح کے دیگر واجبات۔‘‘
امام دسوقی المالکی نے ’’حاشیۃ علی الشرح الکبیر‘‘ کے باب ذکر فیہ البغی وما یتعلق بہ میں لکھا ہے :
وَهُوَ لُغَةً التَّعَدِّی وَبَغَی فُلَانٌ عَلَی فُلَانٍ : اسْتَطَالَ عَلَيْهِ. وَشَرْعًا قَالَ ابْنُ عَرَفَةَ : هُوَ الإِمْتِنَاعُ مِنْ طَاعَةِ مَنْ ثَبَتَتْ إمَامَتُهُ فِی غَيْرِ مَعْصِيَةٍ بِمُغَالَبَةٍ وَلَوْ تَأَوُّلًا.
’’لغت کی رو سے بغاوت کا معنی ’’سرکشی‘‘ ہے اور ’’بغی فلان علی فلان‘‘ کا مطلب ہے : فلاں نے فلاں پر سرکشی کی۔ اور ابن عرفہ نے فرمایا : شرعی طور پر کسی قانونی حکومت پر غلبہ حاصل کرنے کے لئے اس کی اتھارٹی سے ان کاموں میں انکار کرنا بغاوت کہلاتا ہے جو معصیت نہ ہوں، اگرچہ وہ بغاوت کسی تاویل کی بناء پر ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
1۔ فقہائے شافعیہ میں سے امام نووی (م 676ھ) نے اپنی کتاب ’’روضۃ الطالبین‘‘ میں ایک مستقل باب ’’قتال البغاۃ‘‘ کے عنوان سے قائم کیا ہے جس میں دیگر تفصیلات کا تذکرہ کرنے سے قبل باغی کی تعریف ان الفاظ میں کی گئی ہے :
الباغی فی إصطلاح العلماء هو المخالف لإمام العدل، الخارج عن طاعته بامتناعه من أداء واجب عليه أو غيره بشرط.
نووی، روضة الطالبين، 10 : 50
’’علماء کی اصطلاح میں باغی مسلم حکومت کے اس مخالف کو کہتے ہیں جو اس کی اتھارٹی تسلیم نہ کرے اس طرح کہ جو اس پر یا دوسروں پر واجب ہے وہ مشروط طور پر روک لے۔‘‘
2۔ علامہ زکریا انصاری الشافعی (م 926ھ) دہشت گرد باغیوں کی تعریف اس طرح کرتے ہیں :
البغاة : هم مخالفو إمام بتأويل باطل ظنا وشوکة لهم، ويجب قتالهم. وأما الخوارج : وهم قوم يکفرون مرتکب کبيرة ويترکون الجماعات. فلا يقاتلون ما لم يقاتلوا.
زکريا الأنصاري، منهج الطلاب، 1 : 123
’’باغی وہ لوگ ہیں جو تاویل باطل کا سہارا لیتے ہوئے اپنی قوت و طاقت کی بناء پر حکومت کی مخالفت کریں۔ (ان کی بغاوت کو ختم کرنے کے لئے) ان کے خلاف جنگ کرنا واجب ہے۔ خوارج تو ایسی قوم ہے جو گناہ کبیرہ کے مرتکب کو کافر کہتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ اکٹھا ہونے کو ترک کردیتے ہیں۔ مگر ان سے اس وقت تک جنگ نہیں کی جائے گی جب تک کہ وہ خود جنگ میں پہل نہ کریں۔‘‘
3۔ امام شربینی (م 977ھ) الاقناع میں لکھتے ہیں :
البغاة : جمع باغ. والبغی : الظلم ومجاوزة الحد. سموا بذلک لظلمهم وعدولهم عن الحق. والأصل فيه آية : ﴿وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِيْنَ اقْتَتَلُوْا﴾.(1) وليس فيها ذکر الخروج علی الإمام صريحاً لکنها تشمله بعمومها أو تقتضيه، لأنه إذا طلب القتال لبغی طائفة علی طائفة فللبغی علی الإمام أولی. وهم مسلمون مخالفو إمام ولو جائرا، بأن خرجوا عن طاعته بعدم انقيادهم له أو منع حق توجه عليهم کزکاة بالشروط الآتية. ويقاتل أهل البغی وجوبا کما استفيد من الآية المتقدمة.(2)
(1) الحجرات، 49 : 9
(2) شربينی، الإقناع، 2 : 547
’’البغاۃ : باغ کی جمع ہے۔ ’’البغیٌ‘‘ کا معنی ظلم ہے اور حد سے تجاوز کرنا بھی۔ باغیوں کو باغی اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ ظلم بھی کرتے ہیں اور حق سے بھی ہٹ جاتے ہیں۔ اس میں اَصل یہ آیہ کریمہ ہے : (اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں جنگ کریں)۔ اِس میں صراحتاً حکومت کے خلاف خروج کا ذکر تو نہیں لیکن یہ آیت مبارکہ اپنے عموم کی وجہ سے خروج کو شامل ہے یا اس خروج کا تقاضا کرتی ہے۔ اس لیے کہ جب ایک گروہ کا دوسرے کے خلاف بغاوت کے سبب جنگ کرنا واجب ہے تو حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والے گروہ کے خلاف جنگ تو بدرجہ اوليٰ واجب ہو گی اور وہ حکومت مخالف مسلمان ہیں اگرچہ وہ حکومت ظالم ہی کیوں نہ ہو۔ انہوںنے حکومت کی اتھارٹی کو تسلیم نہ کر کے اس کے نظم سے خروج کیا ہے یا ان حقوق کی ادائیگی سے انکار کر دیا جو ان پر لازم تھی جیسے زکوٰۃ۔ اہل بغاوت کے ساتھ وجوبی طور پر جنگ کی جائے گی جیسا کہ مذکورہ آیت مبارکہ سے پتہ چلتا ہے۔‘‘
اِمام شربینی نے یہی تفصیل ’’مغنی المحتاج (4 : 123)‘‘ میں بھی بیان کی ہے۔
1۔ فقہائے حنابلہ میں ابن ہبیرہ رحمۃ اللہ علیہ الحنبلی (م 587ھ) نے باغیوں کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے :
واتفقوا علی أنه إذا خرج علی إمام المسلمين طائفة ذات شوکة بتأويل مشتبه، فإنه يباح قتالهم حتی يفيؤا.
ابن هبيرة، الإفصاح : 402
’’تمام ائمہ کرام اس بات پر متفق ہیں کہ جب طاقت اور مضبوط ٹھکانوں والا کوئی گروہ کسی مشتبہ تاویل کی بناء پر مسلم حکومت کے نظم (writ) سے نکل جائے تو اس کے ساتھ جنگ کرنا مباح ہے یہاں تک کہ وہ واپس (حکومت کے نظم کی اطاعت) لوٹ آئے۔‘‘
2۔ امام ابن قدامہ رحمۃ اللہ علیہ (م 620ھ)نے بغاوت کی تعریف میں لکھا ہے :
قوم من أهل الحق خرجوا علی الإمام بتأويل سائغ، وراموا خلعه، ولهم منعة وشوکة.
1. إبن قدامة، الکافی، 4 : 147
2. شربينی، مغنی المحتاج، 4 : 123، 124
3. قرافی، الذخيرة، 5 : 512
’’مسلمانوں کا ایک گروہ جس نے حکومتِ وقت کے خلاف بہ ظاہر پرکشش تاویل کی بناء پر بغاوت کی اور حکومت کو ختم کرنے کا ارادہ کیا، اور ان کے پاس محفوظ ٹھکانے اور اسلحہ و طاقت تھی (اسے باغی کہا جاتا ہے)۔‘‘
3۔ محمد بن مفلح المقدسی الحنبلی (م 763ھ) ’’الفروع‘‘ میں لکھتے ہیں :
أهل البغی : وهم الخارجون علی الإمام بتأويل سائغ. ولهم شوکة لا جمع يسير خلافا لأبی بکر. وإن فات شرط فقطاع طريق. وفی الترغيب لا تتم الشوکة إلا وفيهم واحد مطاع. وأنه يعتبر کونهم فی طرف ولايته.
ابن مفلح، الفروع، 6 : 147
’’باغی وہ لوگ ہیں جو بہ ظاہر پرکشش تاویل کی بناء پر حکومتِ وقت کے خلاف خروج کریں اور ان کے پاس قوت و طاقت یعنی اسلحہ اور افرادی قوت خوب ہو اور ان کی جماعت چھوٹی نہ ہو۔ اس میں امام ابوبکر (المروزی) کا اختلاف ہے۔ اور اگر کوئی ایک شرط مفقود ہو تو ان کو راہزن کہیں گے اور الترغیب میں لکھا ہے کہ اس وقت تک طاقت و قوت کی شرط پوری نہیں ہوتی جب تک اس جماعت کے اندر ایک لیڈر نہ ہو۔ اور سلطنت کے کسی ایک کونے میں ان کی عمل داری اور قبضہ و تصرف کا بھی اعتبار کیا جائے گا۔‘‘
4۔ امام ابراہیم بن محمد بن عبد اللہ بن مفلح الحنبلی (م 884ھ) ’’المبدع‘‘ میں لکھتے ہیں :
البغی : مصدر بغی يبغی بغيا إذا اعتدی. والمراد هنا الظلمة الخارجون عن طاعة الإمام المعتدون عليه.
ابن مفلح، المبدع، 9 : 159، 160
’’البغی (بغاوت) بغی یبغی بغیاسے مصدر ہے، جب کوئی زیادتی کرے تو اسے باغی کہا جاتا ہے۔ اور یہاں اس سے مراد وہ ظالم لوگ ہیں جو حکومت وقت کے خلاف سرکشی کرتے ہوئے اس کی اطاعت سے نکل جاتے ہیں۔‘‘
5۔ علامہ مرعی بن یوسف الحنبلی (م 1033ھ) نیغایۃ المنتھی میں لکھا ہے :
هم الخارجون علی إمام ولو غير عدل، بتأويل سائغ ولهم شوکة، ولو لم يکن فيهم مطاع ويحرم الخروج علی الإمام ولو غير عدل.
مرعي بن يوسف، غاية المنتهي، 3 : 348
’’باغی وہ لوگ ہیں جو اپنی خودساختہ تاویل کی بنا پر حکومت کے خلاف مسلح بغاوت کرتے ہیں خواہ وہ حکومت غیر عادل ہی ہو۔ اور ان کے پاس طاقت، ہتھیار اور محفوظ ٹھکانے ہوں اگرچہ ان میں کوئی مُطاع (leader) نہ ہو۔ یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمان حکومت کے خلاف مسلح بغاوت حرام ہے اگرچہ وہ حکومت غیر عادل ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
6۔ علامہ بہوتی الحنبلی (م 1051ھ) نے ’’کشاف القناع عن متن الإقناع‘‘ کے باب قتال أھل البغی میں فرمایا ہے :
وَهُوَ مَصْدَرٌ بَغَی يَبْغِی إذَا اعْتَدَی، وَالْمُرَادُ هُنَا الظَّلَمَةُ الْخَارِجُونَ عَنْ طَاعَةِ الْإِمَامِ الْمُعْتَدُونَ عَلَيْهِ.
بهوتی، کشاف القناع عن متن الإقناع، 6 : 158
’’یہ بغی یبغی سے مصدر ہے کہ جب کوئی سرکشی کرے اور یہاں اس سے مراد وہ ظالم لوگ ہیں جو حکومت کے نظم سے سرکشی کے ساتھ خروج کر تے ہیں۔‘‘
1۔ فقہ جعفریہ کے فقیہ ابو جعفر محمد بن حسین طوسی (م 460ھ) نے اپنی تصنیف ’’الإقتصاد الهادی إلی طريق الرشاد‘‘ میں الگ فصل قائم کر کے باغیوں کے احکام بیان کیے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں :
الباغي : هو کل من خرج علی امام عادل وشق عصاه، فان علی الامام أن يقاتلهم. ويجب علی کل من يستنهضه الامام أن ينهض معه و يعاونه علی قتالهم، ولا يجوز لغير الامام قتالهم بغير اذنه. فاذا قوتلوا لا يرجع عنهم الا أن يفيؤا الی الحق أو يقتلوا، ولا يقبل منهم عوض ولا جزية.
والبغاة علی ضربين : أحدهما : من له رئيس يرجعون اليه. فهؤلاء يجوز أن يجتاز علی جراحاتهم ويتبع مدبرهم ويقتل أسيرهم. والآخر : لا يکون لهم فيه رئيس، فهولاء لا يجاز علی جريحهم ولا يقتل أسيرهم.
طوسی، الإقتصاد، فصل فی حکام البغی : 315
’’باغی سے مراد ہر وہ شخص ہے جو مسلم ریاست کے خلاف مسلح بغاوت کرے اور اسے غیر مستحکم کرنے کی کوشش کرے۔ پس حکومت وقت پر لازم ہے کہ ان کے خلاف جنگ کرے۔ اور ہر اس شخص پر لازم ہے جسے حکومت ان کے خلاف اٹھنے کا حکم دے کہ وہ حکومت کے ساتھ مل کر ان کا مقابلہ کرے۔ اور حکومت وقت کے علاوہ اس کی اِجازت کے بغیر کسی کے لئے ان دہشت گرد باغیوں کے ساتھ جنگ کرنا جائز نہیں۔ جب ان کے ساتھ جنگ شروع کردی جائے تو اُس وقت تک حکومت اس سے پیچھے نہ ہٹے جب تک وہ حق کی طرف لوٹ نہ آئیں یا قتل نہ کردیئے جائیں۔ اور ان سے کسی قسم کا معاوضہ اور ٹیکس بھی قبول نہ کیا جائے۔‘‘
’’باغیوں کی دو قسمیں ہیں : ایک قسم یہ ہے کہ ان کا کوئی سربراہ و سرغنہ ہو جس سے وہ ہدایات لیتے ہوں۔ ان سب کا حکم یہ ہے کہ ان کے زخمیوں کو ان کی حالت پر رہنے دیا جائے گا، ان کے بھاگنے والوں کا تعاقب کیا جائے گا اور ان کے قیدیوں کو قتل کیا جائے گا۔ دوسری قسم وہ ہے کہ جس میں ان کا کوئی سربراہ اور سرغنہ نہ ہو۔ پس اس صورت میں ان کے زخمیوں کی مرہم پٹی کی جائے گی اور ان کے قیدیوں کو قتل نہیں کیا جائے گا۔‘‘
2۔ فقہ جعفریہ کے ایک اور مفسر و فقیہ فضل بن حسن الطبرسی (م 548ھ) نے اپنی کتاب ’’المؤتلف من المختلف‘‘ میں باغی کی تعریف اس طرح کی ہے :
الباغي : هو الذي يخرج علی إمام عادل ويقاتله، ويمنع من تسليم الحق اليه.
طبرسی، المؤتلف من المختلف، کتاب قتال أهل البغی، 2 : 377
’’باغی سے مراد وہ شخص ہے جو مسلم ریاست کے خلاف مسلح خروج اور جنگ کرتا ہے اور اس کی اتھارٹی ماننے سے انکار کرتا ہے۔‘‘
درج بالا تحقیق سے یہ بات واضح ہوگئی کہ عالم اسلام کی ان نامور علمی شخصیات نے فقہی مسلک، علاقے اور زمانے کے اختلاف کے باوجود ’’بغاوت‘‘ کا اصطلاحی مفہوم الفاظ کے تھوڑے بہت تغیر کے ساتھ ایک ہی بیان کیا ہے۔ تعریفات کے ذیل میں ہر فقہی مکتب فکر کے ان نمائندہ علماء کی آراء اور نتائج فکر جاننے کی ضرورت اس لیے پڑی تاکہ نفسِ مسئلہ کو سمجھنے میں مدد مل سکے۔ سب حضرات نے باغیوں سے مراد ایسا دہشت گرد گروہ لیا ہے جس کے افعال انتہاء پسندی کا مظہر ہوتے ہیں، جو خود ساختہ تاویل کی بناء پر حکومت کی اتھارٹی کو نہیں مانتا اور اس کے خلاف مسلح جد و جہد کا مرتکب ہوتا ہے۔ آج بھی ہمیں جس دہشت گردی کا سامنا ہے اس کی نوعیت بھی یہی ہے اور ان کے ساتھ بھی وہی سلوک کیا جانا چاہیے جو اس سے پہلے کیا جاتا رہا۔ لہٰذا اس پر وہی شرعی احکامات نافذ ہوں گے جن کا ائمہ نے باغیوں پر اطلاق کیا ہے۔
رابطہ عالم اسلامی کا سولہواں سیشن مکہ مکرمہ میں خادم الحرمین الشریفین ملک فہد بن عبدالعزیز آلِ سعود کی نگرانی میں (21 تا 26 شوال 1422ھ بمطابق 5 تا 10 جنوری 2002ء) اسلامی فقہی اکیڈمی میں منعقد ہوا۔ اس سیشن کے بعد دہشت گردی کے حوالے سے بیان مکہ (Makka Decralation) کے نام سے جو اعلامیہ صادر ہوا اس میں دہشت گردی کی تعریف اس طرح کی گئی ہے :
الإرهاب : هو العدوان الذي يمارسه أفراد أو جماعات أو دول بغيًا علی الإنسان : دينه، ودمه، وعقله، ماله، وعرضه. ويشمل صنوف التخويف والأذي والتهديد والقتل بغير حق وما يتصل بصور الحرابة وإخافة السبيل وقطع الطريق، وکل فعل من أفعال العنف أو التهديد، يقع تنفيذًا لمشروع إجرامی فردی أو جماعی، ويهدف إلی إلقاء الرعب بين الناس، أو ترويعهم بإيذائهم، أو تعريض حياتهم أو حريتهم أو أمنهم أو أحوالهم للخطر، ومن صنوفه إلحاق الضرر بالبيئة أو بأحد المرافق والأملاک العامة أو الخاصة، أو تعريض أحد الموارد الوطنية، أو الطبيعية للخطر، فکل هذا من صور الفساد فی الأرض التی نهی اﷲ سبحانه وتعالی المسلمين عنها : ﴿وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِط اِنَّ اﷲَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَo﴾.
القصص، 28 : 77
وقد شرع اﷲ الجزاء الرادع للإرهاب والعدوان والفساد، وعده محاربة اﷲ ورسوله صلی الله عليه وآله وسلم : ﴿اِنَّمَا جَزٰؤُا الَّذِيْنَ يُحَارِبُوْنَ اﷲَ وَرَسُوْلَه وَيَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ يُّقَتَّلُوْا اَوْيُصَلَّبُوْا اَوْتُقَطَّعَ اَيْدِيْهِمْ وَاَرْجُلُهُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ يُنْفَوْامِنَ الاَرْضِط ذٰلِکَ لَهُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْيَا وَلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌo﴾.
المائدة، 5 : 33
ولا توجد فی أی قانون بشری عقوبة بهذه الشدة نظرًا لخطورة هذا الاعتداء، الذی يعد فی الشريعة الإسلامية حربًا ضد حدود اﷲ، وضد خلقه. ويؤکد المجمع أن من أنواع الإرهاب : إرهاب الدولة، ومن أوضح صوره وأشدها شناعة الإرهاب الذي يمارسه اليهود فی فلسطين، وما مارسه الصرب فی کل من البوسنة والهرسک وکوسوفا، ورأی المجمع أن هذا النوع من الإرهاب من أشد أنواعه خطرًا علی الأمن والسلام فی العالم، وعد مواجهته من قبيل الدفاع عن النفس، والجهاد فی سبيل اﷲ.
بيان مکة : 4 (2002ء)
’’دہشت گردی سے مراد وہ سرکشی ہے جس کا ارتکاب مخصوص افراد، جماعتیں یا ملک دوسرے انسانوں کے دین، خون، عقل، مال اور عزت کی پامالی کے ذریعے کرتے ہیں۔ اس ظلم اور حقوق کی پامالی میں ایذاء رسانی، خوف و ہراس پیدا کرنا اور ناحق قتل کرنا شامل ہے۔ اسی طرح گروہوں کی شکل میں لوٹ مار، خون خرابہ اور شاہراہوں پر قبضہ کر کے لوگوں کو ہراساں کرنا بھی اسی نوعیت کے جرائم ہیں۔ دشمنی یا زیادتی خواہ کسی فرد کی طرف سے ہو یا جماعت کی طرف سے اس کا مقصد لوگوں کے دلوں میں رعب ڈالنا ہو یا انہیں ایذاء رسانی کے ذریعے ڈرانا دھمکانا یا ان کی زندگی، آزادی، امن یا اَحوال کو خطرات میں جھونکنا ہو۔ دہشت گردی کی جملہ اقسام میں سے ایک یہ بھی ہے کہ معاشرہ یا فرد کو نقصان پہنچایا جائے، املاک اور ضرورت کی اشیاء تلف کی جائیں یا ملکی وسائل میں سے کسی چیز کو خطرات میں جھونکا جائے۔ یہ ساری فساد فی الارض کی صورتیں ہیں جس سے اﷲ تعاليٰ نے مسلمانوں کو اپنے اس ارشادِ گرامی (اور ملک میں فساد انگیزی (کی راہیں) تلاش نہ کرو، بے شک اﷲ فساد بپا کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا) کے ذریعے منع فرمایا ہے۔
’’اﷲ تعاليٰ نے دہشت گردی، عداوت اور فساد کے لئے سخت سزا مقرر فرمائی ہے اور اِسے اﷲ تعاليٰ اور اس کے رسول مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ دشمنی گردانا ہے۔ اِرشادِ باری تعاليٰ ہے : (بے شک جو لوگ اﷲ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خونریز راہزنی اور ڈاکہ زنی وغیرہ کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا پھانسی دیے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے۔)
’’اس سرکشی پر۔ جس کو بہت بڑا خطرہ ہونے کے پیشِ نظر شریعتِ اسلامیہ میں اﷲ تعاليٰ کی حدود اور اس کی مخلوق کے خلاف جنگ شمار کیا جاتا ہے۔ جو سخت سزا رکھی گئی ہے، اس طرح کی سخت سزا کسی انسانی قانون میں نہیں پائی جاتی۔ ہمارے ادارے نے اس بات پر بھی زور دیا کہ بلاشبہ دہشت گردی کی اقسام میں سے بڑی قسم ملکی دہشت گردی ہے لیکن سب سے واضح اور بد ترین دہشت گردی وہ ہے جو یہودی فلسطین میں مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ جو سرب باشندے بوسنیا اور کوسووا میں کر رہے ہیں۔ اس سربراہی کانفرنس کی رائے میں اس قسم کی دہشت گردی دنیا کے امن اور سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ ہے، اور اس کا سامنا کرنے کو ہمارے ادارے نے جان کے دفاع اور جہاد فی سبیل اﷲ کے قبیل سے شمار کیا ہے۔‘‘
بعض علماء نے باغی کو محارب کے معنی میں بھی لیا ہے اور بعض نے باغی اور محارب میں فرق کرتے ہوئے ان کے ساتھ برتاؤ کی صورتیں بھی مختلف لکھی ہیں۔ مثلا :
1۔ امام ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ (م 861ھ) فرماتے ہیں :
بأنهم : الخارجون بلا تأويل بمنعة وبلا منعة، يأخذون أموال النَّاس، ويقتلونهم ويخيفون الطريق.
1. إبن همام، فتح القدير، 6 : 99
2. ماوردي، الإقناع : 173
3. ابو القاسم عمر بن حسين، مختصر الخرقی : 126
’’محاربین سے مراد وہ لوگ ہیں جو کسی تاویل کے بغیر طاقت کی بنیاد پر یا اس کے بغیر بغاوت کرنے والے ہیں، جو لوگوں کے مال چھین لیتے ہیں، انہیں قتل کرتے ہیں اور راستوں میں خوف و ہراس پیدا کرتے ہیں۔‘‘
2۔ امام ابن عبدالبر رحمۃ اللہ علیہ (م 463ھ) نے ڈاکو، فسادی، خون خرابہ کرنے والے اور دوسروں کی عزت پر ہاتھ ڈالنے والوں کو بھی ’’محارب‘‘ ہی قرار دیا ہے۔ وہ فرماتے ہیں :
کل من قطع السبل وأخافها، وسعی فی الأرض فسادًا بأخذ المال، واستباحة الدماء ، وهتک ما حرم اﷲ هتکه من المحارم فهو محارب.
1. ابن عبد البر، الکافی في فقه أهل المدينة، 2 : 1087
2. دردير، الشرح الصغير، 4 : 492، 493
’’ہر وہ شخص جس نے رکاوٹیں ڈال کر راستوں کو کاٹ دیا اور ان میں خوف و ہراس پیدا کیا، مال لوٹنے اور خون کو مباح کرنے کے ذریعے زمین میں فساد پھیلایا، وہ محارب ہے۔‘‘
باغیوں اور دہشت گردوں کی مخصوص علامات کا تفصیلی ذکر تو خوارج کے ضمن میں آگے آئے گا۔ تاہم یہاں اختصار کے ساتھ کچھ ائمہ کرام کی عبارات موضوع زیر بحث کی وضاحت کے لیے پیش کی جا رہی ہیں۔
1۔ فقہائے احناف میں سے امام کاسانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
فالبغاة : هم الخوارج. وهم قوم من رأيهم أن کل ذنب کفر کبيرة کانت أو صغيرة. يخرجون علی إمام أهل العدل. ويستحلون القتال والدماء والأموال بهذا التأويل ولهم منعة وقوة.
کاسانی، بدائع الصنائع، 7 : 140
’’پس باغی دہشت گرد گروہ، خوارج ہی ہوتے ہیں (جن کی یہ تین علامتیں عام ہیں) :
1۔ ان کا نظریہ یہ ہے کہ ہر گناہ کفر ہے خواہ وہ گناہ کبیرہ ہو یا صغیرہ (اس لئے وہ فاسق حکمرانوں کو کافر سمجھتے ہیں)۔
2۔ یہ انتہاء پسند لوگ مسلمان حکومت کے خلاف بغاوت کرتے ہیں اور مسلمانوں کے ساتھ جنگ کرنے اور ان کو قتل کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ اور ان کے اموال کو اپنی خودساختہ تاویل کی وجہ سے حلال قرار دیتے ہیں جو انہوں نے (لوگوں کو مشتعل کرنے کے لیے) گھڑی ہوتی ہے۔
3۔ ان کے پاس طاقت اور قوت ہوتی ہے (جسے وہ اپنے مذموم مقاصد کے لئے کہیں سے بھی اور کسی سے بھی حاصل کرنے میں حرج نہیں سمجھتے)۔‘‘
2۔ فقہ شافعی کی معروف کتاب حاشیۃ البجیرمی میں علامہ سلیمان بن عمر بن محمد الشافعی (م 1221ھ)نے دہشت گرد خوارج کی تعریف میں لکھا ہے :
وأما الخوارج : وهم صنف من المبتدعة. قائلون : بأن من أتی کبيرة کفر وحبط عمله وخلد فی النار. وأن دار الإسلام بظهور الکبائر بها تصير دار کفر.
بجيرمی، حاشية، 4 : 201
’’دہشت گرد خوارج، بدعتیوں کی ایک قسم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب کافر ہے اور اس کے سارے اَعمال ضائع ہیں اور وہ ہمیشہ جہنم میں رہے گا۔ اور (اُن کا یہ بھی عقیدہ ہوتا ہے کہ) کبیرہ گناہ ظاہر ہونے کے بعد دار الاسلام دار الکفر میں بدل جاتا ہے (اِس لیے وہ مسلمانوں کا قتل عام جائز سمجھتے ہیں)۔‘‘
3۔ امام ابن قدامہ المقدسی نے ’’المغنی‘‘ میں ’’قتال اھل البغی‘‘ کے عنوان سے باب باندھا ہے جس میں باغیوں سے متعلق بنیادی ابحاث بیان کی ہیں۔ انہوں نے سب سے پہلے سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 9 اور 10 سے باغیوں کا حکم بیان کیا ہے۔ اس کے بعد اَحادیثِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے دہشت گردوں اور خوارج کی مذمت کرتے ہوئے خوارج کی اقسام کو یوں بیان کیا ہے :
والخارجون عن قبضة الإمام أصناف أربعة :
أحدها : قوم امتنعوا من طاعته وخرجوا عن قبضته بغير تأويل، فهؤلاء قطاع طريق ساعون فی الأرض بالفساد.
الثانی : قوم لهم تأويل إلا أنهم نفر يسير لا منعة لهم کالواحد والاثنين والعشرة ونحوهم. فهؤلاء قطاع طريق فی قول أکثر أصحابنا، وهو مذهب الشافعی لأن ابن ملجم لما جرح عليا رضی الله عنه قال للحسن : إن برئت رأيت رأيی، وإن مت فلا تمثلوا به.
الثالث : الخوارج الذين يکفرون بالذنب ويکفرون عثمان وعليا وطلحة والزبير وکثيرا من الصحابة ويستحلون دماء المسلمين وأموالهم إلا من خرج معهم.
الرابع : قوم من أهل الحق يخرجون عن قبضة الإمام ويرومون خلعه لتأويل سائغ، وفيهم منعة يحتاج فی کفهم إلی جمع الجيش. فهؤلاء البغاة الذين نذکر فی هذا الباب حکمهم وواجب علی الناس معونة إمامهم فی قتال البغاة... لأنهم لو ترکوا معونته لقهره أهل البغی وظهر الفساد فی الأرض.
ابن قدامة، المغنی، 9 : 3، 5
’’حکومت کے دائرہ اختیار اور اس کے نظم سے خروج کرنے والوں کی چار قسمیں ہیں :
1۔ وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو بغیر کسی تاویل کے حکومتِ وقت کی اطاعت سے روک لیا اور اس کے دائرہ اختیار اور اس کے نظم سے بغاوت و خروج کیا تو یہ راہزن ڈاکو ہیں جو زمین میں فساد برپا کرنے والے ہیں۔
2۔ وہ لوگ جن کے پاس تاویل تو ہے مگر وہ چند لوگ ہیں جن کے پاس کوئی محفوظ ٹھکانہ نہیں یعنی ایک، دو، دس یا قدرے زیادہ۔ ہمارے اکثر اصحاب (حنابلہ) کے نزدیک یہ ڈاکو ہیں اور یہی امام شافعی کا مذہب ہے کیونکہ ابن ملجم نے جب سیدنا علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے اپنے بیٹے حضرت حسن رضی اللہ عنہ سے فرمایا : اگر میں ٹھیک ہو گیا تو اس کے بارے میں خود فیصلہ کروں گا اور اگر شہید ہو گیا تو اس کا مثلہ نہ کرنا۔
3۔ وہ خوارج جو گناہ کے ارتکاب کی وجہ سے لوگوں کو کافر قرار دیتے ہیں اور حضرت عثمان، حضرت علی، حضرت طلحہ، زبیر اور دیگر بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کافر گردانتے ہیں۔ مسلمانوں کے خون اور مال کو حلال سمجھتے ہیں سوائے اُس شخص کے جو ان کے ساتھ مل کر خروج کرے۔
4۔ مسلمانوں میں سے کچھ لوگ جو حکومتِ وقت کے دائرہ اختیار اور اس کے نظم سے خروج کرتے ہیں اور اطاعت کا طوق بہ ظاہر پرکشش تاویل کی بناء پر اتار پھینکنے کا قصد کرتے ہیں شرط یہ ہے کہ ان میں اتنی قوت موجود ہو جس کا مقابلہ کرنے کے لئے حکومتِ وقت کو لشکر تیار کرنے کی ضرورت محسوس ہو تو یہ ہیں وہ باغی لوگ جن کا حکم ہم یہاں ذکر کر رہے ہیں۔ لوگوں پر واجب ہے کہ وہ ان دہشت گروں کے خلاف حکومتِ وقت کی مدد کریں۔۔۔ ۔ پس اگر وہ حکومت وقت کی مدد و اعانت کو ترک کر دیں گے تو باغی دہشت گرد اُن پر غالب آجائیں گے اور زمین میں فساد پھیل جائے گا۔‘‘
جس طرح باغی کی تعریف پر ائمہ و فقہاء کا اتفاق ہے اسی طرح ان کی علامات پر بھی اجماع ہے۔ سب سے پہلی علامت یہ ہے کہ وہ لوگ دوسرے مسلمانوں کو اسلام سے خارج سمجھیں گے، وہ اپنی انتہا پسندی کا جواز غلط تاویل کے ذریعے پیش کریں گے یعنی گنہگار مسلمانوں پر یا فاسق حکمرانوں پر کفر کا فتويٰ لگاتے ہوئے ان کے قتل کا جواز بنائیں گے۔ ان کی علامات اور اقدامات خوارج سے مشابہت رکھتے ہیں اس لئے ان کے بارے میں حکم بھی وہی ہے جو خوراج کے بارے میں خلیفہ چہارم سیدنا علی المرتضيٰ رضی اللہ عنہ نے جاری فرمایا تھا جس کی تفصیلات آئندہ صفحات میں آرہی ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved