اسلام غیر مسلموں کو مکمل مذہبی آزادی دیتا ہے اور اسلامی مملکت ان کے عقائد و عبادات سے تعرض نہیں کرتی۔ اسلام غیر مسلم شہریوں کے جان و مال کی طرح ان کی عبادت گاہوں اور مقدس مقامات کو بھی مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔ الغرض اسلام تحمل و برداشت اور رواداری کا وہ نمونہ فراہم کرتا ہے جو دنیا کا کوئی معاشرہ فراہم نہیں کر سکتا۔ قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے اہل ایمان کو یہاں تک حکم دیا ہے کہ غیر مسلموں کے جھوٹے معبودوں (بتوں) کو بھی گالیاں نہ دو۔ ارشاد ہوتا ہے :
وَلاَ تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اﷲِ فَيَسُبُّوا اﷲً عَدْوًام بِغَيْرِ عِلْمٍ.
الأنعام، 6 : 108
’’اور (اے مسلمانو!) تم ان (جھوٹے معبودوں) کو گالی مت دو جنہیں یہ (مشرک لوگ) اللہ کے سوا پوجتے ہیں پھر وہ لوگ (بھی جواباً) جہالت کے باعث ظلم کرتے ہوئے اللہ کی شان میں دشنام طرازی کرنے لگیں گے۔‘‘
بین المذاہب رواداری کا اس سے بہتر نمونہ پیش نہیں کیا جا سکتا۔
دین اسلام میں کسی کو مسلمان کرنے کے لیے جبر کی اجازت نہیں ہے۔ اسلامی ریاست میں کسی بھی شہری کو جبراً مذہب بدلنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔
1۔ اﷲ تعاليٰ کا فرمان ہے :
لَآ اِکْرَاهَ فِی الدِّيْنِ قف قَدْ تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّ.
البقرة، 2 : 256
’’دین میں کوئی زبردستی نہیں، بے شک ہدایت گمراہی سے واضح طور پر ممتاز ہو چکی ہے۔‘‘
حافظ ابن کثیر اس آیت کی تفسیر یوں بیان کرتے ہیں :
لا تکرهوا أحدا علی الدخول فی دين الإسلام، فإنه بيّن واضح جلیّ دلائله وبراهينه، لا يحتاج إلی أن يکره أحد علی الدخول فيه.
ابن کثير، تفسير القرآن العظيم، 1 : 310
’’تم کسی کو دین اسلام میں داخل ہونے پر مجبور نہ کرو کیونکہ یہ دین واضح اور نمایاں دلائل اور براہین والا ہے اور یہ اس چیز کا محتاج نہیں کہ کسی کو مجبوراً اس میں داخل کیا جائے۔‘‘
2۔ ارشادِ باری تعاليٰ ہے :
اَفَاَنْتَ تُکْرِهُ النَّاسَ حَتّٰی يَکُوْنُوْا مُؤْمِنِيْنَo
يونس، 10 : 99
’’تو کیا آپ لوگوں پر جبر کریں گے یہاں تک کہ وہ مومن ہو جائیںo‘‘
اﷲ تعاليٰ نے لوگوں کو زبردستی دائرہ اسلام میں داخل کرنے سے منع کر دیا ہے۔ اس لئے غیر مسلم شہریوں کو اسلام میں داخل ہونے پر محبور نہیں کیا جائے گا کیونکہ مسلمانوں کے ہاں ایمان محض ایک کلمہ نہیں جو زبان سے ادا کیا جاتا ہے یا محض ایسے افعال کا نام نہیں جو بدن سے ادا ہوتے ہیں بلکہ اس کی بنیاد دل کی تصدیق پر ہے، اس لیے اس باب میں جبر و اکراہ کی اجازت نہیں دی گئی۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اہل قدس کو جو امان دی تھی اس کے الفاظ اسلامی ریاست میں غیر مسلم شہریوں کو میسر مذہبی آزادی کا دستور ہیں :
هذا ما أعطی عبد اﷲ عمر أمير المؤمنين أهل إيلياء من الأمان، أعطاهم أمانا لأنفسهم وأموالهم ولکنائسهم وصلبانهم، وسقيمها وبريئها وسائر ملتها، أنه لا تسکن کنائسهم ولا تهدم ولا ينتقص منها ولا من حيزها، ولا من صليبهم، ولا من شیء من أموالهم، ولا يکرهون علی دينهم، ولا يضار أحد منهم، ولا يسکن بإيلياء معهم أحد من اليهود.
طبری، تاريخ الأمم والملوک، 2 : 449
’’یہ وہ امان ہے جو اﷲ کے بندے عمر بن الخطاب امیر المومنین نے ایلیا کو دی۔ ان کی جانوں، ان کے اموال، ان کے کلیساؤں، ان کی صلیبوں اور ان کی ساری ملت کو امان دی گئی ہے۔ ان کے گرجوں کو بند کیا جائے نہ گرایا جائے، نہ ہی ان میں کمی کی جائے اور نہ ان کے احاطوں کو سکیڑا جائے، اور نہ ان کی صلیبوں میں کمی کی جائے اور نہ ہی ان کے اموال میں کمی کی جائے اور کسی کو اپنا دین چھوڑنے پر مجبور نہ کیا جائے، اور نہ کسی کو تکلیف پہنچائی جائے اور نہ ان کے ساتھ (جبراً) یہودیوں میں سے کسی کو ٹھہرایا جائے (کیونکہ اس زمانہ میں مسیحی لوگوں اور یہود میں بڑی عداوت تھی)۔‘‘
پروفیسر فلپ کے۔ ہٹی (Philip K. Hitti) لکھتے ہیں :
They (non-Muslims) were allowed the jurisdiction of their own canon laws as administered by the respective heads of their religious communities. This state of partial autonomy, recognized later by the Sultans of Turkey, has been retained by the Arab successor states.()
Hitti, History of the Arabs, p. 170.
’’غیر مسلموں کو اجازت تھی کہ وہ اپنی کمیونٹی کے سربراہوں کے نظام کے تحت اپنے مذہبی قوانین کے مطابق اپنے معاملات چلائیں۔ یہ جزوی خود مختاری۔ جسے عرب جانشین ریاستوں نے برقرار رکھا تھا۔ بعد ازاں ترک سلاطین نے بھی تسلیم کی تھی۔‘‘
پروفیسر Hitti مزید chapter xx میں لکھتے ہیں :
All non-Moslems being allowed autonomy under thier own religious heads.()
Hitti, History of the Arabs, p. 225.
’’تمام غیر مسلموں کو اُن کے اپنے اپنے مذہبی رہنماؤں کی سربراہی میں خود مختار حیثیت دی گئی تھی۔‘‘
وہ اسی باب میں صفحہ 231 پر لکھتے ہیں :
Syria as a whole remained largely Christian until the third Moslem century.... In fact the Lebanon remained Christian in faith and Syriac in speech for centuries after the conquest.
’’تیرھویں صدی ہجری تک شام کا بڑا حصہ زیادہ تر عیسائی رہا۔۔۔۔ درحقیقت لبنان بھی فتح ہونے کے صدیوں بعد تک عقیدے کے لحاظ سے عیسائی رہا جبکہ وہاں زبان شامی (یعنی عربی) بولی جاتی تھی۔‘‘
غیر مسلم مستشرقین کے مذکورہ بالا حوالہ جات سے اس امر کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ اسلامی حکومتیں تعلیماتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور احکامِ اسلامی کے تحت مفتوحہ ممالک اور شہروں میں اپنی حکومتوں کے قیام کے باوجود غیر مسلم شہریوں کے مذہب اور عقیدے کو تبدیل کرنے کے لیے دباؤ یا جبر جائز نہیں سمجھتی تھیں، اور انہیں مکمل مذہبی آزادی اور تحفظ فراہم کرتی تھیں۔ اِسی وجہ سے وہ فتوحات کے بعد بھی صدیوں تک اپنے مسیحی مذہب پر برقرار رہے اور اسلامی حکومتوں کو اس پر کوئی اختلاف و انکار نہ ہوتا تھا۔ اسلام کی یہی عظمت ہے جس کا اعتراف آج بھی غیر مسلم مؤرّخین اور محققین کھلے الفاظ میں کرتے ہیں۔
دین و مذہب کا اختلاف قطعی طور پر کسی کو قتل کرنے اور مال لوٹنے کا سبب نہیں بن سکتا۔ کسی انسان پر ظلم وزیادتی کرنا خواہ اس کا تعلق کسی مذہب سے ہو اور وہ ظلم و زیادتی خواہ قتل کی شکل میں ہو، ایذا رسانی یا اس کے اوپرجھوٹے الزام اور تہمت کی شکل میں، سب حرام ہے۔ ایسی ہر قسم کی زیادتی کا قصاص یعنی بدلہ واجب ہوگا۔ ارشاد باری تعاليٰ ہے :
يٰاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی.
البقرة، 2 : 178
’’اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کیے جائیں۔‘‘
یہاں قَتْلٰی کا لفظ عام ہے جو مسلمان اور غیر مسلم دونوں کو شامل ہے اور قصاص میں بھی یہی حکم ہے جیسے جان کا بدلہ جان؛ یہ مسلم اور غیر مسلم ہر کسی کی جان ہو سکتی ہے۔ ایک اور مقام پر ارشاد باری تعاليٰ ہے :
وَکَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيْهَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِلا وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَالْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّلا وَالْجُرُوْحَ قِصَاصٌ.
المائدة، 5 : 45
’’اور ہم نے اس (تورات) میں ان پر فرض کردیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے عوض آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے عوض کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں (بھی) بدلہ ہے۔‘‘
اسی طرح اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم شہری کا مال چرائے تو اس پر حد جاری کی جائے گی۔ علامہ ابن رشد کہتے ہیں کہ اس معاملے میں مسلمانوں کا اجماع ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی غیر مسلم شہری کا مال چرائے تو اس پر حد جاری کی جائے گی.
ابن رشد، بداية المجتهد، 2 : 299
لہٰذا یہ امر متحقق ہو جاتا ہے کہ مذاہب کا اختلاف جان و مال کو دوسروں کے لیے حلال نہیں کرتا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کو برقرار رکھا۔ علامہ ابن قیم ’’احکام اہل الذمۃ‘‘ میں فتح خیبر کے موقع پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معمول مبارک نقل کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتح خیبر کے بعد وہاں کے غیر مسلموں کو ان کی عبادت گاہوں پر برقرار رکھا اور ان کی عبادت گاہوں کو مسمار نہیں فرمایا۔ بعد ازاں جب دیگر علاقے سلطنت اسلامی میں شامل ہوئے تو خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی اِتباعِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کرتے ہوئے ان ملکوں میں موجود غیر مسلموں کی کسی عبادت گاہ کو مسمار نہیں کیا۔
ابن قيم، أحکام أهل الذمة، 3 : 1199
قرآن و حدیث کی رُو سے اسلامی ریاست پر لازم ہے کہ وہ تمام مذاہب کے مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کی حرمت کا خیال رکھے اور انہیں تحفظ فراہم کرے۔ قرآن مجید میں سورۃ الحج میں ارشاد گرامی ہے :
وَلَوْ لَا دَفْعُ اﷲِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَّصَلَوٰتٌ وَّمَسٰجِدُ يُذْکَرُ فِيْهَا اسْمُ اﷲِ کَثِيْرًا.
الحج، 22 : 40
’’اور اگر اﷲ انسانی طبقات میں سے بعض کو بعض کے ذریعے ہٹاتا نہ رہتا تو خانقاہیں اور گرجے اور کلیسے اور مسجدیں (یعنی تمام ادیان کے مذہبی مراکز اور عبادت گاہیں) مسمار اور ویران کر دی جاتیں جن میں کثرت سے اﷲ کے نام کا ذکر کیا جاتا ہے۔‘‘
امام ابو بکر الجصاص ’’احکام القرآن‘‘ میں درج بالا آیت کی تفسیر میں امام حسن بصری کا قول نقل کرتے ہیں :
يَدْفَعُ عَنْ هَدْمِ مُصَلَّيَاتِ أَهْلِ الذِّمَّةِ بِالْمُؤْمِنِيْنَ.
1. جصاص، أحکام القرآن، 5 : 83
2. ابن قيم، أحکام أهل الذمة، 3 : 1169
’’اللہ تعاليٰ مومنین کے ذریعے غیر مسلم شہریوں کے کلیساؤں کا انہدام روکتا ہے (یعنی مسلمانوں کے ذریعے ان کی حفاظت فرماتا ہے)۔‘‘
اسی آیت کی تشریح میں امام ابو بکر الجصاص مزید فرماتے ہیں :
فِی الْآيَةِ دَلِيْلٌ عَلَی أَنَّ هَذِهِ الْمَوَاضِعَ الْمَذْکُوْرَةَ لَا يَجُوْزُ أَنْ تُهْدَمَ عَلَی مَنْ کَانَ لَهُ ذِمَّةٌ أَوْ عَهْدٌ مِنَ الْکُفَّارِ.
جصاص، أحکام القرآن، 5 : 83
’’اور آیت میں اس بات پر دلیل ہے کہ مذکورہ جگہوں (یعنی عبادت گاہوں) کا گرانا جائز نہیں اگرچہ وہ غیر مسلم شہریوں کی ہی ہوں۔‘‘
اسی آیت کریمہ کی تشریح میں اخفش بیان کرتے ہیں کہ غیر مسلم شہریوں کی عبادت گاہیں ہرگز گرائی نہیں جائیں گی یعنی اسلامی ریاست کا فریضہ ہے کہ انہیں کامل تحفظ فراہم کرے۔ ہر قوم اپنی اقدار کا تحفظ کرتی ہے، اپنی روایات اور ثقافت کو فروغ دینا اس کا جمہوری حق ہے۔ چنانچہ مذہبی اختلافات کے باوجود مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ غیر مسلموں کی عبادت گاہوں کا تحفظ کریں۔
علامہ ابن قیم ’’احکام اہل الذمۃ‘‘ میں لکھتے ہیں :
يَدْفَعُ عَنْ مَوَاضِعِ مُتَعَبَّدَاتِهِمْ بِالْمُسْلِمِيْنَ.... کَمَا يُحِبُّ الدَّفْعَ عَنْ أَرْبَابِهَا وَإِنْ کَانَ يُبْغِضُهُمْ، وَهَذَا الْقَوْلُ هُوَ الرَّاجِحُ، وَهُوَ مَذْهَبُ ابْنَ عَبَّاسٍ.
ابن قيم، أحکام أهل الذمة، 3 : 1169
’’اللہ تعاليٰ مسلمانوں کے ذریعے ان کی عبادت گاہوں کا دفاع فرماتا ہے۔۔۔ ۔ جیسا کہ وہ ان کے معبودوں کا دفاع کرتا ہے مخالف اور ناپسندیدہ عقیدہ ہونے کے باوجود۔ یہی قول راجح ہے اور یہی حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما کا موقف بھی ہے۔‘‘
مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی واقع غیر مسلم شہریوں کی عبادت گاہوں کو مسمار کرنے کی سختی سے ممانعت ہے بلکہ ان کا تحفظ اسلامی ریاست کا آئینی فرض ہے۔ امام جصاص نے ’’احکام القرآن‘‘ میں محمد بن الحسن کا یہ قول نقل کیا ہے :
فِيْ أَرْضِ الصُّلْحِ إِذَا صَارَتْ مِصْرًا لِلْمُسْلِمِيْنَ، لَمْ يُهْدَمْ مَا کَانَ فِيْهَا مِنْ بِيْعَةٍ أَوْ کَنِيْسَةٍ أَوْ بَيْتِ نَارٍ.
جصاص، أحکام القرآن، 5 : 83
’’صلح کی سرزمین پر جب مسلمانوں کا کوئی شہر بن جائے تو اس میں بھی پائے جانے والے گرجے، کلیسے یا آتش کدے ہرگز گرائے نہیں جائیں گے۔‘‘
اِس حصہ بحث سے ثابت ہو گیا کہ جب اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم اپنے وطن میں موجود غیر مسلموں کی عبادت گاہوں تک کا ہر لحاظ سے تحفظ کریں اور انہیں ان کی عبادت گاہوں میں آزادانہ عبادت کا موقع فراہم کریں، تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص مساجد میں اﷲ تعاليٰ کی عبادت و بندگی میں مصروف لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دے، مساجد کو بموں کے ذریعے مسمار کر دے اور خود کو مسلمان بھی کہلائے!
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved