سیاسی، فکری یا اعتقادی اختلافات کی بنا پر مسلمانوں کی اکثریت (large majority) کو کافر، مشرک اور بدعتی قرار دیتے ہوئے انہیں بے دریغ قتل کرنے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ اﷲ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مومن کے جسم و جان اور عزت و آبرو کی کیا اہمیت ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔ امام ابن ماجہ سے مروی حدیثِ مبارکہ ملاحظہ ہو :
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ، وَيَقُولُ : مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا.
1. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله،
2 : 1297، رقم : 3932
2. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 396، رقم : 1568
3. منذري، الترغيب والترهيب، 3 : 201، رقم : 3679
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔‘‘
فولادی اور آتشیں اسلحہ سے لوگوں کو قتل کرنا تو بہت بڑا اقدام ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اہلِ اِسلام کو اپنے مسلمان بھائی کی طرف اسلحہ سے محض اشارہ کرنے والے کو بھی ملعون و مردود قرار دیا ہے۔
1۔ حضرت ابو ہریرہ سے مرو ی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لَا يُشِيرُ أَحَدُکُمْ إِلَی أَخِيهِ بِالسِّلَاحِ، فَإِنَّهُ لَا يَدْرِي أَحَدُکُمْ لَعَلَّ الشَّيْطَانَ يَنْزِعُ فِي يَدِهِ، فَيَقَعُ فِي حُفْرَةٍ مِنَ النَّارِ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب النهي عن إشارة
بالسلاح، 4 : 2020، رقم : 2617
2. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 3 : 587، رقم : 6176
3. بيهقی، السنن الکبری، 8 : 23، الرقم : 2617
’’تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ نہ کرے، تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ شاید شیطان اس کے ہاتھ کو ڈگمگا دے اور وہ (قتلِ ناحق کے نتیجے میں) جہنم کے گڑھے میں جا گرے۔‘‘
یہاں اِستعارے کی زبان میں بات کی گئی ہے یعنی ممکن ہے کہ ہتھیار کا اشارہ کرتے ہی وہ شخص طیش میں آجائے اور غصہ میں بے قابو ہو کر اسے چلا دے۔ اس عمل کی مذمت اور قباحت بیان کرنے کے لئے اسے شیطان کی طرف منسوب کیا گیا ہے تاکہ لوگ اِسے شیطانی فعل سمجھیں اور اس سے باز رہیں۔
2۔ یہی مضمون ایک اور حدیث میں اِس طرح بیان ہوا ہے :
مَنْ أَشَارَ إِلَی أَخِيهِ بِحَدِيدَةٍ، فَإِنَّ الْمَلَائِکَةَ تَلْعَنُهُ حَتَّی يَدَعَهُ، وَإِنْ کَانَ أَخَاهُ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب النهي عن إشارة
بالسلاح، 4 : 2020، رقم : 2616
2. ترمذی، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في إشارة المسلم إلی أخيه بالسلاح، 4 : 463،
رقم : 2162
3. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2 : 171، رقم : 2669
4. ابن حبان، الصحيح، 13 : 272، رقم : 5944
5. بيهقی، السنن الکبری، 8 : 23، رقم : 15649
’’جو شخص اپنے بھائی کی طرف ہتھیار سے اشارہ کرتا ہے فرشتے اس پر اس وقت تک لعنت کرتے ہیں جب تک وہ اس اشارہ کو ترک نہیں کرتا خواہ وہ اس کا حقیقی بھائی(ہی کیوں نہ) ہو۔‘‘
3۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے کسی دوسرے پر اسلحہ تاننے سے ہی نہیں بلکہ عمومی حالات میں اسلحہ کی نمائش کو بھی ممنوع قرار دیا۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
نَهَی رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم أَنْ يُتَعَاطَی السَّيْفُ مَسْلُولًا.
1. ترمذي، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء في النهيعن تعاطي
السيف مسلولا، 4 : 464، رقم : 2163
2. أبو داود، السنن، کتاب الجهاد، باب ما جاء في النهي أن يتعاطي السيف مسلولا، 3 :
31، رقم : 2588
3. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 4 : 322، رقم : 7785
4. ابن حبان، الصحيح، 13 : 275، رقم : 5946
’’رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ننگی تلوار لینے دینے سے منع فرمایا۔‘‘
ننگی تلوار کے لینے دینے میں جہاں زخمی ہونے کا احتمال ہوتا ہے وہاں اسلحہ کی نمائش سے اشتعال انگیزی کا بھی خدشہ رہتا ہے۔ اسلام کے دین خیر و عافیت اور مذہب امن و سلامتی ہونے کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھلے بندوں اسلحہ کی نمائش پر پابندی لگا دی، تاکہ نہ تو اسلحہ کی دوڑ شروع ہو اور نہ ہی اس سے کسی کو threat کیا جا سکے۔ مذکورہ حدیث میں لفظِ مَسْلُول اِس اَمر کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ ریاست کے جن اداروں کے لیے اسلحہ ناگزیر ہو وہ بھی اس کو غلط استعمال سے بچانے کے لیے foolproof security کے انتظامات کریں۔
درج بالا بحث سے ثابت ہوتا ہے کہ جب اسلحہ کی نمائش، دکھاوا اور دوسروں کی طرف اس سے اشارہ کرنا سخت منع ہے تو اس کے بل بوتے پر ایک مسلم ریاست کے نظم اور اتھارٹی کو چیلنج کرتے ہوئے آتشیں گولہ و بارود سے مخلوق خدا کے جان و مال کو تلف کرنا کتنا بڑا گناہ اور ظلم ہوگا!
اسلام نہ صرف مسلمانوں بلکہ بلا تفریقِ رنگ و نسل تمام انسانوں کے قتل کی سختی سے ممانعت کرتا ہے۔ اسلام میں کسی انسانی جان کی قدر و قیمت اور حرمت کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس نے بغیر کسی وجہ کے ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے مترادف قرار دیاہے۔ اﷲ عزوجل نے تکریم انسانیت کے حوالے سے قرآن حکیم میں ارشاد فرمایا :
مَنْ قَتَلَ نَفْسًام بِغَيْرِ نَفْسٍ اَوْ فَسَادٍ فِی الْاَرْضِ فَکَاَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيْعًا.
المائدة، 5 : 32
’’جس نے کسی شخص کو بغیر قصاص کے یا زمین میں فساد (پھیلانے کی سزا) کے (بغیر، ناحق) قتل کر دیا تو گویا اس نے (معاشرے کے) تمام لوگوں کو قتل کر ڈالا۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں انسانی جان کی حرمت کا مطلقاً ذکر کیا گیا ہے جس میں عورت یا مرد، چھوٹے بڑے، امیر و غریب حتی کہ مسلم اور غیر مسلم کسی کی تخصیص نہیں کی گئی۔ مدعا یہ ہے کہ قرآن نے کسی بھی انسان کو بلاوجہ قتل کرنے کی نہ صرف سخت ممانعت فرمائی ہے بلکہ اسے پوری انسانیت کا قتل ٹھہرایا ہے۔ جہاں تک قانون قصاص وغیرہ میں قتل کی سزا، سزائے موت (capital punishment) ہے، تو وہ انسانی خون ہی کی حرمت و حفاظت کے لئے مقرر کی گئی ہے۔
ہم آئندہ صفحات میں تفصیل سے اس بات کا جائزہ لیں گے کہ اسلام دورانِ جنگ اسلامی لشکر کو کس قدر احتیاط کی تعلیم دیتا ہے حالانکہ دنیا کی تمام اقوام کے ہاں یہ قول مشہور ہے کہ جنگ اور محبت میں ہرچیز جائز ہوتی ہے۔ مگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت و سنت سے ہمیں جنگ کے اضطرابی اور حساس لمحات میں بھی احتیاط اور عدل سے کام لینے کا سبق ملتا ہے۔ درج ذیل حدیث مبارکہ میں ہمیں یہ تعلیم ملتی ہے کہ قتل کے خوف سے ہی سہی، جب ایک شخص نے کلمہ پڑھ کر اظہار اسلام کر دیا تو اس کے قتل پر بھی حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سخت اظہار ناراضگی فرمایا، چہ جائے کہ کلمہ گو مسلمان اور اہل علم حضرات صرف اس لیے قتل کر دیے جائیں کہ وہ باغی گروہ کے انتہاء پسندانہ نظریات سے اختلاف رکھتے ہیں۔ حدیث ملاحظہ کریں :
1۔ حضرت اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اﷲ عنھما بیان کرتے ہیں :
بَعَثَنَا رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِلَی الْحُرَقَةِ مِنْ جُهَيْنَةَ، فَصَبَّحْنَا الْقَوْمَ، فَهَزَمْنَاهُمْ، وَلَحِقْتُ أَنَا وَرَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ رَجُلًا مِنْهُمْ، فَلَمَّا غَشِيْنَا قَالَ : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. فَکَفَّ عَنْهُ الأَنْصَارِيُّ، وَطَعَنْتُهُ بِرُمْحِي حَتَّی قَتَلْتُهُ. قَالَ : فَلَمَّا قَدِمْنَا، بَلَغَ ذَالِکَ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ لِي : يَا أُسَامَةُ، أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ؟ قَالَ : قُلْتُ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، إِنَّمَا کَانَ مُتَعَوِّذًا. قَالَ : فَقَالَ : أَقَتَلْتَهُ بَعْدَ مَا قَالَ لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ؟ قَالَ : فَمَا زَالَ يُکَرِّرُهَا عَلَيَّ حَتَّی تَمَنَّيْتُ أَنِّي لَمْ أَکُنْ أَسْلَمْتُ قَبْلَ ذَالِکَ الْيَوْمِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب المغازي، باب بعث النّبيِّ صلی الله
عليه وآله وسلم أسامة بن زيد إلی الحرقات من جهينة، 4 : 1555، رقم : 4021
2. بخاری، کتاب الديات، باب قول اﷲ تعالی : ومن أحياها، 6 : 2519، رقم : 6478
3. ابن حبان، الصحيح، 11 : 56، رقم : 4751
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں جہاد کے لیے مقام حرقہ کی طرف روانہ کیا جو قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ ہے۔ ہم صبح وہاں پہنچ گئے اور (شدید لڑائی کے بعد) انہیں شکست دے دی۔ میں نے اور ایک انصاری صحابی نے مل کر اس قبیلہ کے ایک شخص کو گھیر لیا، جب ہم اس پر غالب آگئے تو اس نے کہا : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. انصاری تو (اس کی زبان سے) کلمہ سن کر الگ ہو گیا لیکن میں نے نیزہ مار کر اسے ہلاک کر ڈالا۔ جب ہم واپس آئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی اس واقعہ کی خبر ہو چکی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے فرمایا : اے اسامہ! تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کیا؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اس نے جان بچانے کے لئے کلمہ پڑھا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا : تم نے اسے کلمہ پڑھنے کے باوجود قتل کیا؟ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار یہ کلمات دہرا رہے تھے اور میں افسوس کر رہا تھا کہ کاش آج سے پہلے میں اِسلام نہ لایا ہوتا۔‘‘
امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے یہ حدیث ان الفاظ سے روایت کی ہے :
فَدَعَاهُ فَسَأَلَهُ، فَقَالَ : لِمَ قَتَلْتَهُ؟ قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، أَوْجَعَ فِي الْمُسْلِمِيْنَ، وَقَتَلَ فُلَانًا وَفُلَانًا، وَسَمَّی لَهُ نَفَرًا. وَإِنِّي حَمَلْتُ عَلَيْهِ، فَلَمَّا رَأَی السَّيْفَ، قَالَ : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَقَتَلْتَهُ؟ قَالَ : نَعَمْ : قَالَ : فَکَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلَهَ إِلَّا اﷲُ إِذَا جَاءَ تْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، اسْتَغْفِرْ لِي. قَالَ : وَکَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ إِذَا جَاءَ تْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ؟ قَالَ : فَجَعَلَ لَا يَزِيْدُهُ عَلَی أَنْ يَقُوْلَ : کَيْفَ تَصْنَعُ بِلَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ إِذَا جَاءَتْ يَوْمَ الْقيَامَةِ؟
مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب تحريم قتل الکافر بعد أن قال : لَا إِله إلا اﷲ، 1 : 97، رقم : 94 - 97
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کو بلا کر دریافت فرمایا : تم نے اسے کیوں قتل کیا؟ انہوں نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! اس نے مسلمانوں کو تکلیف دی۔ چند صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا نام لے کر بتایا کہ اس نے فلاں فلاں کو شہید کیا تھا۔ میں نے اس پر حملہ کیا جب اس نے تلوار دیکھی تو فورًا کہا : لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ. رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم نے اسے قتل کر دیا؟ عرض کیا : جی حضور! فرمایا : جب روزِ قیامت لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کا کلمہ آئے گا تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟ عرض کیا : یا رسول اﷲ! میرے لئے استغفار کیجیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پھر فرمایا : جب روزِ قیامت لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کا کلمہ آئے گا تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بار بار یہی کلمات دہراتے رہے کہ جب قیامت کے دن لَا إِلٰهَ إِلَّا اﷲُ کا کلمہ آئے گا تو تم اس کا کیا جواب دو گے؟‘‘
2۔ حضرت مقداد بن اسود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
قُلْتُ : يَا رَسُولَ اﷲِ، أَرَأَيْتَ إِنْ لَقِيتُ رَجُلًا مِنْ الْکُفَّارِ فَقَاتَلَنِي فَضَرَبَ إِحْدَی يَدَيَّ بِالسَّيْفِ، فَقَطَعَهَا، ثُمَّ لَاذَ مِنِّي بِشَجَرَةٍ، فَقَالَ : أَسْلَمْتُ لِلّٰهِ، أَفَأَقْتُلُهُ يَا رَسُولَ اﷲِ بَعْدَ أَنْ قَالَهَا؟ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَقْتُلْهُ، قَالَ : فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اﷲِ، إِنَّهُ قَدْ قَطَعَ يَدِي، ثُمَّ قَالَ ذَلِکَ بَعْدَ أَنْ قَطَعَهَا أَفَأَقْتُلُهُ؟ قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : لَا تَقْتُلْهُ فَإِنْ قَتَلْتَهُ فَإِنَّهُ بِمَنْزِلَتِکَ قَبْلَ أَنْ تَقْتُلَهُ، وَإِنَّکَ بِمَنْزِلَتِهِ قَبْلَ أَنْ يَقُولَ کَلِمَتَهُ الَّتِي قَالَ.
1. بخاري، الصحيح، کتاب المغازي، باب شهود الملائکة بدراً،
4 : 1474، الرقم : 3794
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب تحريم قتل الکافر بعد أن قال لا إله إلا اﷲ، 1
: 95، الرقم : 95
’’یا رسول اللہ! یہ فرمائیے کہ اگر (میدان جنگ میں) کسی کافر سے میرا مقابلہ ہو اور وہ میرا ہاتھ کاٹ ڈالے اور پھر جب وہ میرے حملہ کی زد میں آئے تو ایک درخت کی پناہ میں آکر کہہ دے : أَسْلَمْتُ لِلّٰهِ (میں اللہ کے لیے مسلمان ہو گیا)، تو کیا میں اس شخص کو اس کے کلمہ پڑھنے کے بعد قتل کر سکتا ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اس کو قتل نہیں کر سکتے۔ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! اس نے میرا ہاتھ کاٹنے کے بعد کلمہ پڑھا ہے تو کیا میں اس کو قتل نہیں کر سکتا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم اس کو قتل نہیں کر سکتے، اگر تم نے اس کو قتل کر دیا تو وہ اس درجہ پر ہوگا جس پر تم اس کو قتل کرنے سے پہلے تھے (یعنی حق پر) اور تم اس درجہ پر ہوگے جس درجہ پر وہ کلمہ پڑھنے سے پہلے تھا (یعنی کفر پر)۔‘‘
پرامن شہریوں اور مسلمانوں کا قتل عام کرنے والے ظالم اور سفاک دہشت گردوں کو اپنے جارحانہ رویوں اور ظالمانہ نظریات پر ان فرامین رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں ضرور غور کرنا چاہیے کہ جب حالت جنگ میں موت کے ڈر سے کلمہ پڑھنے والے دشمن کو بھی امان حاصل ہے اور اس کا قتل بھی سخت منع ہے تو کلمہ گو مسلمانوں کو مسجدوں، دفتروں، تعلیمی اداروں اور بازاروں میں قتل کرنا کتنا بڑا جرم ہو گا؟
دہشت گردوں اور قاتلوں کو معاشرے میں سے افرادی، مالی اور اخلاقی قوت کے حصول سے محروم کرنے اور انہیں isolate کرنے کے لیے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی ہر قسم کی مدد و اعانت سے کلیتاً منع فرمایا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کسی مومن کے قتل میں معاونت کرے گا وہ رحمت الہی سے محروم ہو جائے گا۔ فرمان رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے :
مَنْ أَعَانَ عَلَی قَتْلِ مُؤْمِنٍ بِشَطْرِ کَلِمَةٍ، لَقِيَ اﷲَ عزوجل مَکْتُوْبٌ بَيْنَ عَيْنَيْهِ : آيِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اﷲِ.
1. ابن ماجه، السنن، کتاب الديات، باب التغليظ في قتل مسلم
ظلمًا، 2 : 874، رقم : 2620
2. ربيع، المسند، 1 : 368، رقم : 960
3. بيهقي، السنن الکبری، 8 : 22، رقم : 15646
’’جس شخص نے چند کلمات کے ذریعہ بھی کسی مومن کے قتل میں کسی کی مدد کی تو وہ اللہ عزوجل سے اس حال میں ملے گا کہ اس کی آنکھوں کے درمیان پیشانی پر لکھا ہوگا : آيِسٌ مِنْ رَحْمَةِ اﷲِ (اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس شخص)۔‘‘
اس حدیث کے مضمون میں یہ صراحت موجود ہے کہ نہ صرف ایسے ظالموں کی ہر طرح کی مالی و جانی معاونت منع ہے بلکہ بِشَطْرِ کَلِمَةٍ (چند کلمات) کے الفاظ یہ بھی واضح کر رہے ہیں کہ تقریر یا تحریر کے ذریعے ایسے امن دشمن عناصر کی مدد یا حوصلہ افزائی کرنا بھی سخت مذموم ہے اور اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش سے محرومی کا سبب ہے۔ اس میں دہشت گردوں کے ماسٹر مائنڈ طبقات کے لئے سخت تنبیہ ہے جو کم فہم لوگوں کو آیات و احادیث کی غلط تاویلیں کرکے انہیں ’’جنت کی بشارت‘‘ دے کر سول آبادیوں کے قتل پر آمادہ کرتے ہیں۔
اسلام اپنے ماننے والوں کو نہ صرف اَمن و آشتی، تحمل و برداشت اور بقاء باہمی کی تعلیم دیتا ہے بلکہ ایک دوسرے کے عقائد و نظریات اور مکتب و مشرب کا احترام بھی سکھاتا ہے۔(1) اعتقادی، فکری یا سیاسی اختلافات کی بنیاد پر مخالفین کی جان و مال یا مقدس مقامات پر حملے کرنا نہ صرف غیر اسلامی بلکہ غیر انسانی فعل بھی ہے۔ خود کش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے اﷲ کے گھروں کا تقدس پامال کرنے والے اور وہاں لوگوں کی قیمتی جانیں تلف کرنے والے ہرگز نہ تو مومن ہو سکتے ہیں اور نہ ہی ہدایت یافتہ۔ مسجدوں میں خوف و ہراس کے ذریعے اﷲ کے ذکر سے روکنے اور انہیں اپنی دہشت گردانہ کارروائیوں کے ذریعے ویران کرنے والوں کو قرآن نے نہ صرف سب سے بڑا ظالم قرار دیا ہے، بلکہ انہیں دنیا و آخرت میں ذلت آمیز عذاب کی وعید بھی سنائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
(1) بین المذاہب رواداری (intrefaith tolerance) اور دوسرے مذاہب کے احترام کے بارے میں اسلامی تعلیمات کا ذکر آئندہ ابواب میں کیا جائے گا۔
وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اﷲِ اَنْ يُذْکَرَ فِيْهَا اسْمُه وَسَعٰی فِيْ خَرَابِهَاط اُولٰئِکَ مَا کَانَ لَهُمْ اَنْ يَدْخُلُوْهَآ اِلَّا خَآئِفِيْنَط لَهُمْ فِی الدُّنْيَا خِزْیٌ وَّلَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌo
البقرة، 2 : 114
’’اور اس شخص سے بڑھ کر کون ظالم ہو گا جو اللہ کی مسجدوں میں اس کے نام کا ذکر کیے جانے سے روک دے اور انہیں ویران کرنے کی کوشش کرے، انہیں ایسا کرنا مناسب نہ تھا کہ مسجدوں میں داخل ہوتے مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں (بھی) ذلّت ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہےo‘‘
ایک اور مقام پر اﷲ تعالی نے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ اللہ کی مسجدیں صرف وہی آباد کر تے ہیں جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور وہی ہدایت یافتہ ہے۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ مساجد اور عبادت گاہوں کو آباد کرنے کی بجائے اُن پر حملہ کرنے والے نہ تو یوم حساب پر ایمان رکھتے ہیں اور نہ ہی وہ مومن ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے :
اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اﷲِ مَنْ اٰمَنَ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَی الزَّکٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اﷲَقف فَعَسٰی اُولٰئِکَ اَنْ يَکُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَo
التوبة، 9 : 18
’’اللہ کی مسجدیں صرف وہی آباد کر سکتا ہے جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور زکوٰۃ ادا کی اور اللہ کے سوا (کسی سے) نہ ڈرا۔ سو امید ہے کہ یہی لوگ ہدایت پانے والوں میں ہو جائیں گےo‘‘
مساجد و مزارات اور دیگر مقدس مقامات کی بے حرمتی کرنے والے دہشت گردوں کے احوال و ظروف اور مجالست و مصاحبت کا تنقیدی جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ان کا ذہنی و فکری ارتقاء نہایت ہی تنگ نظری کے ماحول میں ہوتا ہے۔ اس تنگ نظری سے انتہا پسندی (extremism) جنم لیتی ہے، انتہا پسندی انسان کو جارحیت (aggression) پر اکساتی ہے اور پھر جارحیت کا منطقی نتیجہ دہشت گردی (terrorism) کی بھیانک صورت میں رونما ہوتا ہے۔ نفرت و تعصب اور جبر و تشدد کے اس مقام پر انسان کے اندر سے اعتدال و توازن (moderation) اور تحمل و برداشت (tolerance) کی صلاحیتیں سلب ہو جاتی ہیں۔ جب انسان ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْم بَعْدِ ذٰلِکَ فَهِيَ کَالْحِجَارَةِ(1) کا مصداق بن کر سنگ دلی اور شقاوت و بدبختی کی انتہا کو پہنچتا ہے تو پھر اس سے بازاروں، مارکیٹوں، عوامی مقامات اور درس گاہوں میں موجود لوگوں کو قتل کرنے سے لے کر مساجد میں مشغول عبادت لوگوں کی جانیں لینے اور مساجد کو تاخت و تاراج کرنے تک کچھ بھی بعید نہیں ہوتا۔ ایسے اقدامات کرنے والوں کا اسلام سے کیا تعلق و واسطہ ہے! اگر ان میں خوف خدا اور فکر آخرت کا ایک ذرہ بھی ہوتا تو کم اَز کم ان کی وحشت و بربریت سے مساجد اور نمازی تو محفوظ رہتے۔ لہٰذا ان کا مساجد تک کو نشانہ بنانے کا اقدام اِس امر کا بیّن ثبوت ہے کہ ان کا اسلام جیسے پرامن اور سلامتی و عافیت والے دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
’’پھر اس کے بعد (بھی) تمہارے دل سخت ہوگئے چنانچہ وہ (سختی میں) پتھروں جیسے (ہو گئے)o‘‘
البقرة، 2 : 74
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved