اسلام خود بھی امن و سلامتی کا دین ہے اور دوسروں کو بھی امن و عافیت کے ساتھ رہنے کی تلقین کرتا ہے۔ اسلام کے دینِ امن و سلامتی ہونے کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنے بھیجے ہوئے دین کے لئے نام ہی ’’اسلام‘‘ پسند کیا ہے۔ (1) لفظ اسلام سَلَمَ یا سَلِمَ سے ماخوذ ہے، جس کے معنی امن و سلامتی اور خیر و عافیت کے ہیں۔ اسلام اپنے لغوی معنی کے اعتبار سے سراسر امن (peace) ہے۔ گویا امن و سلامتی کا معنی لفظ اسلام کے اندر ہی موجود ہے۔ لہٰذا اپنے معنی کے اعتبار سے ہی اسلام ایک ایسا دین ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی امن و سلامتی، محبت و رواداری، اعتدال و توازن اور صبر و تحمل کی تعلیم دیتا ہے۔
قرآن و حدیث میں اگر مسلم اور مومن کی تعریف تلاش کی جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نزدیک مسلمان صرف وہ شخص ہے جو تمام انسانیت کے لئے پیکر امن و سلامتی ہو اور مومن بھی وہی شخص ہے جو امن و آشتی، تحمل و برداشت، بقاء باہمی اور احترام آدمیت جیسے اوصاف سے متصف ہو۔ یعنی اجتماعی سطح سے لے کر انفرادی سطح تک ہر کوئی اس سے محفوظ و مامون ہو۔
1. اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللهِ الْاِسْلَامُ.
’’بے شک دین اللہ کے نزدیک اسلام ہی ہے۔‘‘
آل عمران، 3 : 19
2. وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا.
’’اور تمہارے لیے اسلام کو (بطورِ) دین (یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے) پسند کرلیا۔‘‘
المائدة، 5 : 3
3. هُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِيْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ هٰذَا.
’’اس (اﷲ) نے تمہارا نام مسلمان رکھا ہے، اس سے پہلے (کی کتابوں میں) بھی اور اس (قرآن) میں بھی۔‘‘
الحج، 22 : 78
پیغمبر اسلام حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین اسلام کے درج ذیل تین درجات بیان فرمائے ہیں :
اَعمال، عقائد اور احوال کے باب میں دین اسلام کے یہ تین مراتب ہیں۔ دین اسلام کی تمام تعلیمات انہی کے گرد گھومتی نظر آتی ہیں۔ جیسا کہ امام بخاری اور امام مسلم کی روایت کردہ حدیث صحیح میں ہے کہ ایک مرتبہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر تھے کہ حضرت جبریل علیہ السلام ایک سائل کی صورت میں حاضر مجلس ہوئے اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے درج ذیل تین سوال عرض کیے :
مَا الْإِسْلَامُ؟
’’اسلام کیا ہے؟‘‘
اِس پہلے سوال کے جواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین کے اساسی اعمال بیان فرمائے۔
حضرت جبریل علیہ السلام نے دوسرا سوال یہ کیا :
مَا الْإِيمَانُ؟
’’ایمان کیا ہے؟‘‘
اِس کے جواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین کے اساسی عقائد بیان فرمائے۔
حضرت جبریل علیہ السلام نے تیسرا سوال یہ کیا :
مَا الْإِحْسَانُ؟
’’احسان کیا ہے؟‘‘
اِس سوال کے جواب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دین کی اعلیٰ قلبی کیفیات اور روحانی احوال بیان فرمائے جن سے بندۂ مومن کی باطنی تطہیر اور روحانی ارتقاء و استحکام کے بعد اس کی شخصیت کی تکمیل ہوتی ہے۔
سوالات کے جواب حاصل کرنے کے بعد جب جبریل علیہ السلام واپس چلے گئے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا :
إِنَّه جِبْرِيْلُ أَتَاکُمْ يُعَلِّمُکُمْ دِيْنَکُمْ.
’’یہ جبریل علیہ السلام تھے جو تمہیں (ان سوالات کے ذریعے) دین کی تعلیم دینے آئے تھے۔‘‘
1. بخاری، الصحيح، کتاب الإيمان، باب سؤالِ جبرِيل النبِي صلی
الله عليه وآله وسلم عن الإِيمان و الإِسلامِ والإِحسانِ وعلمِ الساعة، 1 : 27، رقم
: 50
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان الإيمان والإسلام والإحسان، 1 : 36، رقم :
8، 9
3. ترمذی، السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء فی وصف جبريل للنبي صلی الله عليه وآله
وسلم الإيمان والإسلام، 5 : 6، رقم : 2601
4. أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب فی القدر، 4 : 222، رقم : 4695
5. نسائی، السنن، کتاب الإيمان وشرائعه، باب نعت الإسلام، 8 : 97، رقم : 4990
6. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب في الإيمان، 1 : 24، رقم : 63
اِس مضمون پر مشتمل متعدد احادیث میں دین اسلام کے ان تین مراتب کی تفصیلات واضح کی گئی ہیں۔ اسی طرح قرآن حکیم میں بھی باری تعالیٰ نے مختلف مقامات پر دین اسلام کے یہ تین درجات بیان فرمائے ہیں۔
دین اسلام کے پہلے درجے ’’اسلام‘‘ کے بارے میں قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے :
اَلْيَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِيْنَکُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْکُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا.
المائدة، 5 : 3
’’آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کر لیا۔‘‘
دین اسلام کے دوسرے درجے ’’ایمان‘‘ کے بارے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْاِيْمَانُ فِيْ قُلُوْبِکُمْ.
الحجرات، 49 : 14
’’دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے ہیں، آپ فرما دیجیے : تم ایمان نہیں لائے، ہاں یہ کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ابھی ایمان تمہارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا۔‘‘
دین اسلام کے تیسرے درجے ’’احسان‘‘ کے بارے میں اِرشادِ باری تعالیٰ ہے :
وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَه ِﷲِ وَهُوَ مُحْسِنٌ.
النساء، 4 : 125
’’اور دین اِختیار کرنے کے اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا رُوئے نیاز اللہ کے لیے جھکا دیا اور وہ صاحب احسان بھی ہوا۔‘‘
ایک مقام پر اﷲ تبارک و تعالیٰ نے دین اسلام کے تینوں درجات بالترتیب اکٹھے بیان فرمائے ہیں۔ ارشاد ہوتا ہے :
لَيْسَ عَلَی الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِيْمَا طَعِمُوْا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّاَحْسَنُوْاط وَاﷲُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَo
المائدة، 5 : 93
’’ان لوگوں پر جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اس (حرام) میں کوئی گناہ نہیں جو وہ (حکمِ حرمت اترنے سے پہلے) کھا پی چکے ہیں جب کہ وہ (بقیہ معاملات میں) بچتے رہے اور (دیگر احکام الٰہی پر) ایمان لائے اور اعمال صالحہ پر عمل پیرا رہے، پھر (احکام حرمت کے آجانے کے بعد بھی ان سب حرام اشیاء سے) پرہیز کرتے رہے اور (اُن کی حرمت پر صدقِ دل سے) ایمان لائے، پھر صاحبان تقویٰ ہوئے اور (بالآخر) صاحبان احسان (یعنی اﷲ کے خاص محبوب و مقرب و نیکوکار بندے) بن گئے، اور اﷲ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہےo‘‘
سطور بالا میں کی گئی اِس بنیادی بحث سے واضح ہوتا ہے، اور ائمہ دین کا بھی اِسی اَمر پر اِجماع ہے، کہ دین اسلام کاملاً تین درجوں پر مشتمل ہے اور اس کی کل تعلیمات اِنہی تین درجوں میں تقسیم ہیں۔ اگر اِسلام کے عام معنی مراد لیے جائیں تو اس سے مراد مکمل دین ہے اور اگر اس کے خاص معنی مراد لیے جائیں تو اس سے مراد دین کے اساسی اعمال ہوں گے جنہیں اَرکانِ اِسلام سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے۔ یہی ارکان اسلام ہیں جن سے مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی زندگی عملی سانچے میں ڈھلتی ہے۔ اِسی طرح دین اسلام کی وہ تعلیمات جن کا تعلق اعمال اور احکام کے ساتھ ہے، ’’اسلام‘‘ کے ذیل میں آتی ہیں۔ ان سے مسلمانوں کی عملی و اخلاقی زندگی وجود میں آتی ہے۔ دینِ اِسلام کی وہ تعلیمات جن کا تعلق عقائد و نظریات کے ساتھ ہے، وہ ’’ایمان‘‘ کے ذیل میں آتی ہیں اور ان سے انسانی زندگی کا فکری و نظریاتی پہلو تشکیل پاتا ہے جب کہ دینِ اِسلام کی وہ تعلیمات جن سے اَعلیٰ قلبی کیفیات اور روحانی اَحوال نصیب ہوتے ہیں، وہ ’’احسان‘‘ کے ذیل میں آتی ہیں۔ اِن تعلیمات سے بندۂ مؤمن کی اَخلاقی و روحانی تطہیر ہوتی ہے اور اُس کے قلب و باطن کا روحانی ارتقاء ہوتا ہے جو فی الحقیقت اسلام اور ایمان کا مقصد و مدعا ہوتا ہے۔
اب ہم بالترتیب دین اسلام کے تینوں مراتب کا ذکر لغوی اور اِصطلاحی حوالے سے کرتے ہیں تاکہ یہ خوش گوار حقیقت واضح ہوسکے کہ ان تین مراتب کا امن، امان اور سلامتی کے ساتھ کیا تعلق ہے۔
لفظِ ’اسلام‘ مصدر ہے اور یہ سَلِمَ يَسْلَمُ سَلَامًا وسَلَامَة سے ماخوذ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
اُدْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّةً.
البقرة، 2 : 208
’’اسلام (سلامتی) میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔‘‘
یہاں السِّلْم کا معنی ابو عمرو نے اسلام کیا ہے۔ اور حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان اقدس ہے :
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِسَانِه وَيَدِه.
1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب من سلم المسلمون من لسانه
ويد، 1 : 13، رقم : 10
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان تفاضل الإسلام وأيّ اًُموره أفضل،1 : 65،
رقم : 41
3. ترمذی، السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء في أن المسلم من سلم المسلمون من لسانه
ويده، 5 : 17، رقم : 2627
4. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 440، رقم : 15673
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 406، رقم : 180
’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان سلامت رہیں۔‘‘
لہٰذا کسی فرد کے اسلام لانے اور مسلمان ہو جانے کا مطلب سلامتی کے دروازے میں داخل ہو جانا ہے یہاں تک کہ لوگ اس کے شر سے محفوظ ہو جائیں۔
امامِ لغت ابو منصور محمد الازہری (282 ۔ 370ھ) تہذیب اللغۃ میں بیان کرتے ہیں کہ ابو اسحاق الزجاج نے اللہ تعالیٰ کے اس قول۔ ﴿فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَيْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ﴾ (1) (تو آپ (ان سے شفقتاً) فرمائیں کہ تم پر سلام ہو تمہارے رب نے اپنی ذات (کے ذِمّہ کرم) پر رحمت لازم کرلی ہے)۔ کی تفسیر میں فرمایا کہ انہوں نے محمد بن یزید کو بیان کرتے ہوئے سنا کہ لغتِ عرب میں سَلام کے چار معانی ہیں : ان میں سے ایک یہ کہ سَلام، سَلمت سے مصدر ہے؛ دوسرا یہ کہ سَلامَۃ کی جمع ہے؛ تیسرا یہ کہ اللہ تعالیٰ کے اَسماے حسنیٰ میں سے ایک اسم مبارک ہے اور چوتھا یہ کہ یہ ایک ایسے درخت کا نام ہے جو سدا بہار شجرِ سایہ دار ہے۔ زجاج نے کہا : وہ سَلام جو سَلَّمْتُ کا مصدر ہے، اس کا معنی انسان کے لئے دعا ہے کہ وہ اپنے دین اور اپنی جان میں آفات سے سلامت رہے اور اس کی تاویل تمام آفات و بَلِیّات سے نجات اور چھٹکارا پانا ہے۔(2)
(1) الانعام، 6 : 54
(2) أزهری، تهذيب اللغة، 4 : 292
جنت کو بھی دَارُ السَّلاَم اسی لئے کہا گیا ہے کہ اس میں کوئی فنا اور موت نہ ہو گی۔ نہ کسی کی زندگی کو خطرہ ہوگا نہ کسی کی صحت کو، نہ کسی کی عزت کو پریشانی لاحق ہوگی نہ کسی کی حرمت کو۔ یہ خالصتاً امن و سکون، راحت و عافیت اور مسرت و سلامتی کا گھر ہوگا جس میں کوئی خوف و حزن اور رنج و ملال بھی نہ ہوگا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿لَهُمْ دَارُ السَّلٰمِ عِنْدَ رَبِّهِمْ﴾ (1) (انہی کے لیے ان کے رب کے حضور سلامتی کا گھر ہے)۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿وَاﷲُ يَدْعُوْا اِلٰی دَارِ السَّلٰمِ﴾ (2) (اور اللہ سلامتی کے گھر (جنت) کی طرف بلاتا ہے)۔ اور دَارُ السَّلاَم سے مراد دَارُ السَّلاَمَۃ ہے یعنی سلامتی والا گھر، کیونکہ حقیقی سلامتی صرف اور صرف جنت میں ہے اور اس میں ایسی بقا ہے جس کے ساتھ فنا نہیں، ایسی غنا ہے جس کے ساتھ فقر نہیں، ایسی عزت ہے جس کے ساتھ ذلت نہیں اور ایسی صحت ہے جس کے ساتھ بیماری نہیں۔
(1) الانعام، 6 : 127
(2) يونس، 10 : 25
امام راغب اصفہانی بیان کرتے ہیں : اَلسِّلْم اور اَلسَّلَامَة کا معنی ظاہری اور باطنی آفات سے پاک ہونا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
اِلَّا مَنْ اَتَی اﷲَ بِقَلْبٍ سَلِيْمٍo
الشعراء، 26 : 89
’’مگر وہی شخص (نفع مند ہوگا) جو اللہ کی بارگاہ میں سلامتی والے بے عیب دل کے ساتھ حاضر ہواo‘‘
یعنی ایسا دل جو ظلم و فساد سے خالی ہو۔ پس یہ سلامتی باطن سے متعلق ہے اور اللہ تعالیٰ کے اِرشادِ گرامی ﴿مُسَلَّمَة لاَّ شِيَةَ فِيْهَا﴾ (1) میں سلامتی کا تعلق ظاہر سے ہے۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ کے فرامین مقدسہ ﴿وَلٰکِنَّ اﷲَ سَلَّمَ﴾،(2) ﴿اُدْخُلُوْهَا بِسَلٰمٍ اٰمِنِيْنَ﴾،(3) ﴿اهْبِطْ بِسَلٰمٍ مِّنَّا﴾،(4) ﴿يَهْدِيْ بِهِ اﷲُ مَنِ اتَّبَعَ رِضْوَانَه سُبُلَ السَّلٰمِ﴾،(5) ﴿وَاِذَا خَاطَبَهُمُ الْجٰهِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا﴾،(6) سب میں سلامتی اور امن و عافیت کا ہی معنی ہے۔ اور اﷲ تعالی کے فرامین مبارکہ ﴿سَلٰمٌ قف قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِيْم﴾ (7) اور ﴿سَلٰمٌ عَلَيْکُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ﴾ (8) میں بھی سلامتی اور عافیت ہی مذکور ہے۔ لہٰذا یہ وہ پہلا معنی ہے جو اسلام کے لفظ میں لغتاً اور دلالتاً پایا جاتا ہے۔ اس سے یہ چیز اَظہر من الشمس ہوگئی کہ ہر اسم یا فعل جو لفظِ اسلام کی اصل اور مادّہ سے مشتق ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے اندر امن، امان، سلامتی اور عافیت کا معنی رکھتا ہو۔
(1) البقرة، 2 : 71
(2) الانفال، 8 : 43
(3) الحجر، 15 : 46
(4) هود، 11 : 48
(5) المائدة، 5 : 16
(6) الفرقان، 25 : 63
(7) يسين، 36 : 58
(8) الرعد،13 : 24
باری تعالیٰ نے بھی اپنا ایک نام السّلام بیان فرمایا ہے، جس کا سبب بھی اَلسَّلَامَةُ مِنَ الْعَيْبِ وَالنَّقْصِ وَالْفَنَا یعنی اﷲ تعالی کا ہر عیب، نقص اور فنا سے پاک ہونا ہے۔ اِس سے لفظ ’’اسلام‘‘ کے مذکورہ بالا معنی پر دلالت واقع ہوتی ہے کیونکہ اسم الٰہی ہونے کے باعث یہ لفظ اور اس کا مدلول اپنے اندر سلامتی، حسن، بھلائی اور خیر کے تمام معانی جمع کیے ہوئے ہے اور جملہ عوارض فساد کی مکمل نفی لیے ہوئے ہے۔ اس وجہ سے ہر مسلمان کا شعار ملاقات اور اس کی علامت اسلام ہی تسلیم کو بنا دیا گیا ہے کہ جب بھی دو مسلمان باہم ملیں تو ایک دوسرے کو السلام علیکم کہہ کر امن و سلامتی کی دعا اور پیغام دیں اور ایک دوسرے کے لئے ہر قسم کے شر و فساد اور عدوان و طغیان سے محفوظ رہنے کی نیک خواہش کا اظہار کریں۔ یہی حکم مسلمانوں کو خروج عن الصلٰوۃ پر دیا گیا ہے کہ نماز کا اختتام بھی دائیں بائیں ہر ایک کے لیے سلامتی، امن و امان اور حفاظت و عافیت کے پیغام پر کریں۔
اسی طرح السلام کا ایک اور معنی ’’سرسبز درخت‘‘ ہے۔ لسان العرب اور تہذیب اللغۃ میں امامِ لغت ابو حنیفہ کا قول مروی ہے : اَلسَّلَامُ شَجَرٌ عَظِيْمٌ وَهَوَ أَبَدًا أَخْضَرُ (1) (سلام ایسا شجر عظیم ہے جو ہمیشہ سرسبز و شاداب رہتا ہے)۔ اس کی وجہ بھی ائمہ لغت نے یہی لکھی ہے۔ یہ درخت آفات سے یعنی سوکھنے، جلنے اور جھڑنے سے محفوظ ہوتا ہے اس لئے اسے السلام کہتے ہیں۔ ابن بری نے کہا ہے کہ شجر سایہ دار کو اَلسَّلْمُ کہتے ہیں اور اس کی جمع سلام ہے۔ سو اس کی وجہ تسمیہ بھی ہمیشہ سایہ دار اور سدا بہار رہنا ہے۔ گویا جو شے بھی سایہ دار ہو، نفع بخش ہو اور امن و سلامتی کی آئینہ دار ہو اس میں سِلْم، سَلْم اور سلام کا معنی تصور کیا جائے گا۔
(1) ابن منظور، لسان العرب، 12 : 297
مزید برآں عربی لغت میں سیڑھی کو السُّلَّمُ کہتے ہیں۔ الزجاج نے بیان کیا ہے : السُّلَّمُ سُمِّيَ سُلَّمًا لانّه يُسَلِّمُکَ إِلٰی حَيْثُ تُرِيْدُ (1) (سیڑھی کو بھی سُلَّم اس لئے کہتے ہیں کہ یہ انسان کو جہاں وہ چاہتا ہے سلامتی اور خیریت سے چڑھا دیتی ہے)۔ ورنہ بغیر سیڑھی کے چھت یا بلندی پر چڑھنے کے لیے چھلانگ سمیت جو طریقہ بھی استعمال کیا جائے گا، اس میں گرنے اور زخمی ہو جانے یا ہلاک ہو جانے کا خطرہ برقرار رہے گا۔ جب آپ سیڑھی کا ذریعہ اپنا لیتے ہیں تو خطرات سے محفوظ و مامون ہو جاتے ہیں۔ اس کے اسی سلامتی کے کردار کی وجہ سے لغت عرب میں اسے السُّلَّمُ کا نام دیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں بھی مذکور ہے :
اَوْ سُلَّمًا فِی السَّمَآءِ. (2)
’’یا آسمان میں (چڑھنے والی) کوئی سیڑھی تلاش کرلیں۔‘‘
(1) ابن منظور، لسان العرب، 12 : 299
(2) الانعام، 6 : 35
اب لفظ السَّلْمُ کے ایک اور معنی پر غور کیجئے اور وہ ہے ڈول۔ صاحبِ لسان العرب ابن منظور لکھتے ہیں : السَّلْمُ هو الدلو العظيمة (1) (بڑے ڈول کو سَلم کہتے ہیں)۔ آپ خوب جانتے ہیں کہ ڈول وہ برتن ہے جس کے ذریعے کنویں سے پانی نکالتے ہیں۔ مشینی دور سے قبل ڈول کے ذریعے ہی پانی نکالا جاتا تھا۔ سوال یہ ہے کہ ڈول کو سَلْمٌ کا نام کیوں دیا گیا۔ اس سے پانی نکال کر پیاسے اپنی پیاس بجھاتے ہیں۔ ضرورت مند پانی گھروں کو لے جاتے ہیں۔ حتیٰ کہ پہلے زمانہ میں غسل اور وضو بھی اسی طرح کیا جاتا تھا۔ سو ڈول کی اس حیات بخشی اور نفع رسانی کے باعث اسے سَلْمٌ کا نام دیا گیا کہ اسی کے ذریعے لوگوں کی کنووں کے پانی تک رسائی ہوتی ہے اور پانی سے زندگی، سیرابی، ٹھنڈک، سکون، راحت جان اور سبزی و ہریالی سب کچھ وابستہ ہے۔ اس لیے اس کے حصول کے ذریعے کو سلامتی (سَلْم) کا لقب مل گیا۔
(1) ابن منظور، لسان العرب، 12 : 201
لفظِ اسلام پر لغوی بحث ہم نے بطور نمونہ کی ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ اسلام اپنے لفظ، معنی اور عنوان کے لحاظ سے کلیتاً امن و سلامتی، خیر و عافیت اور حفظ و امان کا نام ہے۔ دوسرے لفظوں میں اسلام فساد و ہلاکت سے نہ صرف محفوظ و مامون ہونے بلکہ ہر ایک کو محفوظ و مامون رکھنے کا نام ہے۔ اس میں اصلاً کسی فساد انگیزی، تباہی و بربادی اور تفرقہ و انتشار کی گنجائش ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی تعلیم کا ہر پہلو انتہا پسندی اور دہشت گردی کی نفی کرتا ہے اور اس کی جگہ بھلائی، آبادی، شادابی، سلامتی، ترقی، عافیت اور نفع بخشی کی ترغیب اور ضمانت دیتا ہے۔ سو جس شخص کا طرز عمل اسلام کے اساسی معنی اور اس کے فکری و عملی اطلاق سے متصادم ہو گا اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔
اب مذکورہ بالا معانی کی تائید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات ملاحظہ فرمائیں :
1۔ حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
اَلْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِه وَيَدِه.
1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب من سلم المسلمون من لسانه
ويد، 1 : 13، رقم : 10
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان تفاضل الإسلام وأيّ اًُموره أفضل،1 : 65،
رقم : 41
3. ترمذی، السنن، کتاب الإيمان، باب ما جاء في أن المسلم من سلم المسلمون من لسانه
ويده، 5 : 17، رقم : 2627
4. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 440، رقم : 15673
5. ابن حبان، الصحيح، 1 : 406، رقم : 180
’’مسلمان وہ ہے جس نے اپنی زبان اور اپنے ہاتھ سے دوسرے مسلمانوں کو محفوظ رکھا۔‘‘
2۔ حضرت ابو موسی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں :
قُلْتُ : يَا رَسُولَ اﷲِ، أَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ؟ قَالَ : مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ.
1. بخاري، الصحيح، کتاب الإيمان، باب من سلم المسلمون من لسانه
ويد، 1 : 13، رقم : 11
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان تفاضل الإسلام وأي أموره أفضل، 1 : 66، رقم
: 42
3. أحمد بن حنبل، المسند، 3 : 372، رقم : 15037
4. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 114، رقم : 17068
5. ابن حبان، الصحيح، 11 : 579، رقم : 5176
6. ابن أبی شيبة، المصنف، 5 : 320، رقم : 26497
7. حاکم، المستدرک، 1 : 55، رقم : 26
8. عبد الرزاق، المصنف، 11 : 127، رقم : 20107
’’میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (بہترین اسلام اس شخص کا ہے) جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
مذکورہ حدیثِ مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے أَيُّ الْإِسْلَامِ أَفْضَلُ کا جواب مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ دے کر لوگوں کے اس اعتراض کو رفع فرما دیا ہے کہ ’’ہم کس کا اسلام مانیں اور کس کا نہ مانیں۔‘‘ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسلام کا واضح تصور (crystal clear vision) دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ بہترین اسلام ان لوگوں کا ہے جن کے ہاتھ اور زبان سے تمام طبقاتِ انسانی محفوظ رہیں،جو بقاے باہمی، محبت و رواداری، تحمل و برداشت اور بین المذاہب رواداری کے علم بردار ہوں۔ اس کے برعکس اگر کوئی تبلیغ و تنفیذ دین کے لئے انتہا پسندی، نفرت و تعصب، افتراق و انتشار اور جبر و تشدد کا راستہ اختیار کرے اور پرامن شہریوں کا خون بہائے تو ایسے لوگ، چاہے ظاہری طور پر اعمال شرعی کے پابند ہی کیوں نہ ہوں، ان کا دعویٰ اسلام ہرگز پسندیدہ اور مقبول نہیں ہوسکتا کیونکہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حقیقی اسلام کو پرکھنے کا معیار (criterion) بنیادی طور پر امن و سلامتی کو قرار دیا ہے۔
3۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عرض کیا :
أَيُّ الإِسْلامِ خَيْر؟
’’کون سا اسلام بہتر ہے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
تُطْعِمُ الطَّعَامَ، وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الإيمان، باب إطعام الطعام مِنَ الإسلام،
1 : 13، رقم : 12
2. بخاری، الصحيح، کتاب الإيمان، باب إفشاء السلام مِن الإسلام، 1 : 19، رقم : 28
3. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان تفاضل الإسلام ونصف أموره أفضل، 1 : 65، رقم
: 39
’’(بہترین اسلام یہ ہے کہ) تم (دوسروں کو) کھانا کھلاؤ اور (ہر ایک کو) سلام کرو، خواہ تم اسے جانتے ہو یا نہیں جانتے۔‘‘
4۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمان کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ النَّاسُ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ.
1. نسائي، السنن، کتاب الإيمان وشرائعه، باب صفة المؤمن، 8
: 104، رقم : 4995
2. نسائی، السنن الکبری، 6 : 530، رقم : 11726
3. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله، 2 : 1298، رقم : 3934
4. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 379، رقم : 8918
’’(بہترین) مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے تمام لوگ محفوظ رہیں۔‘‘
5۔ امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
أنّ رجلاً قال : يا رسول اﷲ، أیُّ الإسْلام أفضلُ؟ قَالَ صلی الله عليه وآله وسلم : مَنْ سَلِمَ النَّاس مِنْ لِّسَانِه وَيَدِه.
أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 187، رقم : 6753
’’ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا : یا رسول اﷲ! کون سا اسلام افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (اُس شخص کا اسلام سب سے بہتر ہے) جس کی زبان اور ہاتھ سے تمام لوگ محفوظ رہیں۔‘‘
6۔ امام طبرانی حضرت عبد اﷲ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے ہی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا :
أیُّ الْمُسْلِمِيْنَ خَيْرٌ، يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟
’’یا رسول اﷲ! مسلمانوں میں سے کون بہترین ہے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مَنْ سَلِمَ النَّاسَ مِنْ لِسَانِهِ وَيَدِهِ.
طبرانی، المعجم الأوسط، 3 : 287، رقم : 3170
’’(وہ مسلمان بہترین ہے) جس کی زبان اور ہاتھ سے تمام لوگ محفوظ رہیں۔‘‘
7۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِهِ وَيَدِهِ.
1. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1 : 54، رقم : 23
2. ابن حبان، الصحيح، 1 : 426، رقم : 197
’’سب سے زیادہ کامل ایمان والا وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
8۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مری ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَلْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ، لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يُسْلِمُهُ، مَنْ کَانَ فِي حَاجَةِ أَخِيْهِ کَانَ اﷲُ فِي حَاجَتِهِ، وَمَنْ فَرَّجَ عَنْ مُسْلِمٍ کُرْبَةً فَرَّجَ اﷲُ عَنْهُ کُرْبَةً مِنْ کُرُبَاتِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا سَتَرَهُ اﷲُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب المظالم، باب لا يظلم المسلم المسلم
ولا سلمه، 2 : 862، رقم : 2310
2. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم، 4 : 1996، رقم : 2580
3. ترمذی، السنن، کتاب الحدود، باب ما جاء فی الستر علی المسلم، 4 : 34، رقم : 1426
4. أبوداود، السنن، کتاب الادب، باب المؤاخاة، 4 : 273، رقم : 4893
’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس پر ظلم کرتا ہے اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑتا ہے۔ جو شخص اپنے کسی (مسلمان) بھائی کی حاجت روائی کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی حاجت روائی فرماتا ہے۔ اور جو شخص کسی مسلمان کی (دنیوی) مشکل حل کرتا ہے اﷲ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں سے کوئی مشکل حل فرمائے گا اور جو شخص کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرتا ہے اﷲ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی پردہ پوشی کرے گا۔‘‘
9۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الْمُسْلِمُ أَخُو الْمُسْلِمِ لَا يَظْلِمُهُ وَلَا يَخْذُلُهُ وَلَا يَحْقِرُهُ، اَلتَّقْوَی هَاهُنَا (وَ يُشِيْرُ إِلَی صَدْرِهِ ثَلاَثَ مَرَّاتٍ) بِحَسْبِ امْرِيءٍ مِنَ الشَّرِّ أَنْ يَحْقِرَ أَخَاهُ الْمُسْلِمَ، کُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُهُ وَمَالُهُ وَعِرْضُهُ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم ظلم
المسلم وخذله واحتقاره ودمه وعرضه وماله، 4 : 1986، رقم : 2564
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 277، رقم : 7713
3. عبد بن حميد، المسند، 1 : 420، رقم : 1442
4. بيهقی، السنن الکبری، 6 : 92، رقم : 11276
5. بيهقی، شعب الإيمان، 5 : 280، رقم : 6660
’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر نہ تو ظلم کرتا ہے اور نہ اسے ذلیل کرتا ہے اور نہ ہی اسے حقیر سمجھتا ہے۔ تقویٰ اور پرہیزگاری یہاں ہے (اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ اپنے سینۂ اقدس کی طرف اشارہ کیا)۔ کسی مسلمان کے لئے اتنی برائی کافی ہے کہ وہ اپنے کسی مسلمان بھائی کو حقیر سمجھے۔ ایک مسلمان پر دوسرے کا خون، اس کا مال اور اس کی عزت (و آبرو پامال کرنا) حرام ہے۔‘‘
10۔ ایک دوسری متقق علیہ حدیث میں یہی مضمون یوں بیان کیا گیا ہے :
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ مَسْعُودٍ رضی الله عنه أَنَّ النَّبِيَّ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوْقٌ، وَقِتَالُهُ کُفْرٌ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الإيمان، باب خوف المؤمن من أن يحبط
عمله وهو لا يشعر، 1 : 27، رقم : 48
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان قول النبي صلی الله عليه وآله وسلم : سباب
المسلم فسوق وقتاله کفر، 1 : 81، رقم : 64
3. ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، 4 : 353، رقم : 1983
4. نسائي، السنن، کتاب تحريم الدم، باب قتال المسلم، 7 : 121، رقم : 4105
5. ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب في الإيمان، 1 : 27، رقم : 69
’’حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کسی مسلمان کو گالی دینا فسق اور اس سے قتال کرنا کفر ہے۔‘‘
مذکورہ حدیث کی رُو سے جب کسی مسلمان کو محض برا بھلا کہنے اور ان سے فساد و قتال کرنے کو فسق و کفر کہا گیا ہے تو ان کے خلاف ہتھیار اٹھانا اور ان کے جان و مال کو تلف کرنا کتنا بڑا جرم ہوگا!
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مذکورہ بالا احادیث مبارکہ میں بعض مقامات پر مطلقاً لفظِ ’’النَّاس‘‘ استعمال کر کے اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ فرما دیا ہے کہ مسلمان اور مومن صرف وہی شخص ہو گا جس سے بلا تفریق دین و مذہب ہر شخص کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ ہو۔ لہٰذا جو شخص آدمیت و انسانیت کا احترام ملحوظ نہ رکھے اور قتل و غارت گری، فساد انگیزی اور جبر و تشدد کا راستہ اختیار کرے، وہ کتنی ہی عبادت و ریاضت کرتا پھرے، ہرگز مومن نہیں ہو سکتا۔ اگر کسی شخص نے ڈاڑھی رکھی ہو، تسبیح و تہلیل بھی کرتا ہو، نماز پنجگانہ ادا کرتا ہو، روزوں کا اہتمام کرتا ہو، تہجد گذار اور قائم اللیل ہو اور دعوت و تبلیغ کے علاوہ ہر سال حج و عمرہ بھی کرتا ہو، الغرض تمام عبادات کے باوجود اس سے لوگوں کی جان و مال محفوظ نہ ہوں تو یہ تمام عبادات اسے اﷲ کے عذاب سے نہیں بچا سکتیں، کیونکہ حقیقی فلاح کا انحصار محض ظاہری عبادات پر نہیں بلکہ قلبِ سلیم پر ہے۔(1) حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اِنَّ اﷲ عزوجل لَا يَنْظُرُ إلَی صُوَرِکُمْ وَاَمْوَالِکُمْ، وَلٰکِنْ يَنْظُرُ إلَی قُلُوْبِکم وَاَعْمَالِکُمْ.
(1) الشعراء، 26 : 89
(2) 1. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم ظلم المسلم، 4 : 1987، رقم
: 2564
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 258
’’اﷲ تعالی تمہاری صورتوں اور اموال کو نہیں بلکہ تمہارے دلوں اور اعمال کو دیکھتا ہے۔‘‘
یعنی اگر اندر کا انسان نہیں بدلا، وہ وحشی اور درندہ ہے تو باہر کے انسان کو جتنے بھی پارسائی کے لبادے اوڑھا لیں، اس سے اﷲ کو ہرگز دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔
لفظِ ایمان بقول لِحیانی أمِنَ يَأْمَنُ أمْناً وأَمَنًا وأمَانةً وأَمَنَةً سے مصدر ہے۔ اس کے معنی میں بھی اسلام کی طرح ’امن و امان‘ کی ہی کامل دلالت ہے۔ امام لغت ابو منصور محمد الازہری (282۔370ھ) نے تھذیب اللغۃ میں ابو زیاد کا قول نقل کیا ہے : آمَنَ فلانٌ العدوَّ إيمانًا، فأَمِنَ والعدوُّ مُؤْمَنٌ(1) (فلاں شخص نے دشمن کو امان فراہم کی۔ یہ ’ایمان‘ ہے یعنی امان دینا ہے۔ پس وہ امن پاگیا)۔ سو دشمن کو مُؤْمَنْ کہیں گے کیونکہ وہ مامون ہو گیا اور امان دینے والا مُؤْمِنْ کہلائے گا۔ اسی طرح قرآن مجید نے مکہ معظمہ کو شہرِ امن ہونے کی بنا پر ﴿وَهٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِيْنِ﴾(2) (اور اس اَمن والے شہر (مکہ) کی قَسم) کہہ کر قسم سے یاد فرمایا ہے۔ یہاں امین، مامون کے معنی میں آیا ہے۔ ابو نصر الجوہری نے بھی اخفش سے یہی سبب روایت کیا ہے۔
(1) ابن منظور، لسان العرب، 13 : 21
(2) التين، 95 : 3
امن، خوف کی ضد ہے اور حضرت مجاہد سمیت کئی طرق سے اﷲ تعالیٰ کا ایک نام بھی الامین مروی ہے۔ اسی طرح المؤمن کا اسم الٰہی ہونا تو خود قرآن مجید میں آیا ہے۔ دونوں کا معنی ایک ہے، یعنی ’’اپنے اولیاء کو خوف سے امان دینے والا۔‘‘ سورہ قریش میں بھی یہی مذکور ہے :
فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِo الَّذِيْ اَطْعَمَهُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَهُمْ مِّنْ خَوْفٍo
قريش، 106 : 3، 4
’’پس انہیں چاہیے کہ اس گھر (خانہ کعبہ) کے رب کی عبادت کریں (تاکہ اس کی شکر گزاری ہو)o جس نے انہیں بھوک (یعنی فقر و فاقہ کے حالات) میں کھانا دیا (یعنی رزق فراہم کیا) اور (دشمنوں کے) خوف سے امن بخشا (یعنی محفوظ و مامون زندگی سے نوازا)o‘‘
اِيْمَان اور آمَنَ لغتِ عرب میں دو طرح آتے ہیں : متعدی اور غیر متعدی۔ اس طرح لفظِ مومن کے دو معنی ہوئے : خود امن پانے والا اور دوسروں کو امن فراہم کرنے والا۔ قرآن حکیم میں ’حرمِ مکّہ‘ کا ذکر یوں آیا ہے :
اَوَلَمْ يرَوْا اَنَّا جَعَلْنَا حَرَمًا اٰمِنًا.
العنکبوت، 29 : 67
’’اور کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرمِ (کعبہ) کو جائے امان بنا دیا ہے۔‘‘
پھر ’کعبۃ اﷲ‘ کی نسبت ارشاد فرمایا گیا ہے :
وَاِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَاَمْنًا.
البقرة، 2 : 125
’’اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا۔‘‘
مزید برآں ابو اسحاق الزجّاج نے ’’صاحبِ اَمن‘‘ کے لیے آمِنٌ، أَمِنٌ اور أمينٌ سب الفاظ ایک ہی معنی میں بیان کئے ہیں۔ حدیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں ستاروں کو أَمَنَةٌ کہا گیا ہے : النجوم أَمَنَةُ السّماء، فإذا ذهبت النجوم أتی السماء ما توعد. اس کا مطلب یہ ہے کہ ستارے آسمانی کائنات کی امان ہیں۔ جب وہ باہم ٹکرا کر گر جائیں گے تو قیامت آجائے گی یعنی کائنات کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خود کو اپنے صحابہ کے لئے أَمَنَةٌ فرمایا : أنا أَمَنَةٌ لأصحابی، فإذا ذهبت أتی أصحابی ما يوعدون (میں اپنے اصحاب کے لئے امان ہوں، جب میں دنیا سے ظاہراً رخصت ہو جاؤں گا تو ان پر مخالفتوں، بغاوتوں اور عداوتوں کے فتنے ٹوٹ پڑیں گے جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے)۔ سو ایسے ہی ہوا جن کے نتیجے میں کئی خلفاء راشدین اور ہزاروں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : أصحابی أمنة لأمتي، فإذا ذهبت أصحابی، أتی أمتی ما يوعد (میرے صحابہ، میری امت کے لئے امان ہیں، جب ان کا زمانہ گزر جائے گا تو امت میں وہ فتنے سر اٹھائیں گے جن کا ذکر کر دیا گیا ہے)۔ (1)
(1) أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 398، رقم : 19584
الغرض ہر جگہ أمَنَة، اَمن و امان کے معنی میں بیان ہوا ہے اور یہی لغت میں لفظِ ایمان کی اصل ہے۔ سو معلوم ہوا کہ لفظ ایمان کے مادہ میں اور اس کے تمام مشتقات (derivatives) میں امن و امان ہی کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جس شخص کا عمل یا اقدام امن و امان کے خلاف ہے بلکہ اس کی تباہی اور خاتمہ کا باعث ہے، اور وہ اپنی کارروائیوں سے خوف پھیلاتا ہے اور دہشت گردی، قتل و غارت گری اور تباہ کاری کا مرتکب ہوتا ہے، اس کا کوئی تعلق ایمان سے نہیں ہوسکتا۔
لفظِ اِسلام اور اِیمان کی لغوی تحقیق سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ دین کے دونوں درجے، اسلام اور ایمان ہر عمل میں کلیتاً امن و امان اور عافیت و سلامتی کا تقاضا کرتے ہیں۔ امن و امان کو تباہ کرنے کا کوئی بھی عمل ہو، خواہ اسے کوئی بھی نعرہ دیا جائے، اس کے لیے کسی بھی سبب کا سہارا لیا جائے اور اسے کوئی بھی لباس اوڑھایا جائے، وہ نہ اسلام کے دائرے میں ہوگا نہ ایمان کے دائرے میں۔ بلکہ صراحتاً ایمان کے بھی خلاف ہو گا اور اسلام سے بھی متصادم ہوگا۔ اس لئے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایمان کو امن، امان اور امانت داری کے ساتھ مشروط فرمایا ہے۔
لفظِ ایمان کی اسی لغوی اور معنوی اِفادیت کے پیش نظر پیغمبرِ رحمت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افرادِ ملت کو متعدد ہدایات اِرشاد فرمائی ہیں تاکہ تمام مسلمان محبت و الفت، تحمل و برداشت، احترام آدمیت اور رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ (1) (آپس میں بہت نرم دل اور شفیق ہیں) کی چلتی پھرتی تصویریں بن جائیں اور نتیجتاً پورے کا پورا معاشرہ امن و آشتی اور خیر و عافیت کا گہوارہ بن جائے۔ ذیل میں ایمان کے مذکورہ بالا معانی کی تائید میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات ملاحظہ فرمائیں :
(1) الفتح، 48 : 29
1۔ امام نسائی اور احمد بن حنبل حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مومن کی تعریف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :
الْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَی دِمَائِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ.
1. نسائي، السنن، کتاب الإيمان وشرائعه، باب صفة المؤمن، 8
: 104، رقم : 4995
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 379، رقم : 8918
’’مومن وہ ہے کہ جس کے پاس لوگ اپنے خون (یعنی جان) اور مال محفوظ سمجھیں۔‘‘
2۔ حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا :
الْمُؤْمِنُ مَنْ أَمِنَهُ النَّاسُ عَلَی أَنْفُسِهِمْ وَأَمْوَالِهِمْ.
1. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله،
2 : 1298، رقم : 3934
2. أحمد بن حنبل في المسند، 6 : 21، رقم : 24004
3. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1 : 54، رقم : 24
4. طبرانی، المعجم الأوسط، 1 : 81، رقم : 232
’’مومن وہ ہے جس کے پاس لوگ اپنے جان و مال کو مامون سمجھیں (اور اسے ان پر امین بنائیں)۔‘‘
3. عَنْ جَابِرٍ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم : أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُوْنَ مِنْ لِّسَانِهِ وَيَدِهِ.
1. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1 : 54، رقم : 23
2. ابن حبان، الصحيح، 1 : 426، رقم : 197
’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : سب سے کامل ایمان والا وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں۔‘‘
4۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلَا يُؤْذِ جَارَهُ، وَمَنْ کَانْ يُؤْمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُکْرِمْ ضَيْفَهُ، وَمَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيَقُلْ خَيْرًا أَوْ لِيَصْمُتْ.
1. بخاری، الصحيح، کِتاب الأَدَب، باب مَن کَانَ يُؤْمِنَ بِاﷲ
وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلاَ يُؤْذِ جَارَهُ، 5 : 2240، رقم : 5672
2. بخاری، الصحيح، کِتاب الأَدَب، باب إکْرَامِ الضَّيْفِ وَ خِدْمَتِهِ إِيَّاهُ بِنَفْسِهِ،
5 : 2273، رقم : 5785
3. بخاری، الصحيح، کتاب الرِّقَاقِ، باب حِفْظِ اللِّسَانِ، 5 : 2376، رقم : 6110
4. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب الحث علی إکرام الجار والضيف ولزوم الصمت إلا عن
الخير، 1 : 6968، رقم : 47، 48
5. ترمذی، السنن، کتاب الصفة والرقائق والورع، باب : (50)، 4 : 659، رقم : 2500
6. أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب فی حق الجوار، 4 : 339، رقم : 5154
7. ابن ماجه، السنن، کتاب الأدب، باب حق الجوار، 2 : 1211، رقم : 3672
’’جو اللہ عزوجل پر اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے اپنے ہمسائے کو نہ ستائے، اور جو اللہ عزوجل اور روز قیامت پر ایمان رکھتا ہے اپنے مہمان کی عزت کرے، اور جو اللہ عزوجل اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتا ہے اچھی بات کرے یا خاموش رہے۔‘‘
5۔ حضرت ابو شریح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا :
وَاﷲِ لَا يؤْمِنُ، وَاﷲِ لَا يُؤْمِنُ، وَاﷲِ لَا يُؤْمِنُ. قِيْلَ : مَنْ يَا رَسُوْلَ اﷲِ؟ قَالَ : الَّذِی لَا يَأْمَنُ جَارُهُ بَوَائِقَهُ.
1. بخاری، الصحيح، کتابُ الأدَب، باب إِثْمِ مَن لَا يَأمَنُ
جَارُهُ بَوَائِقَهُ، 5 : 2240، رقم : 5670
2. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب بيان تحريم ايذاء الجار، 1 : 68، رقم : 46
3. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 1 : 53، رقم : 7299
4. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 187، رقم : 487
’’خدا کی قسم! وہ ایمان والا نہیں، خدا کی قسم! وہ ایمان والا نہیں، خدا کی قسم! وہ ایمان والا نہیں۔ عرض کیا گیا : یا رسول اللہ! کون (مومن نہیں)؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس کا پڑوسی اس کی ایذا رسانی سے محفوظ نہیں۔‘‘
مزید یہ ارشاد گرامی بھی اسی تصور کی تائید کرتا ہے :
لَا إِيْمَانَ لِمَنْ لَا أَمَانَة لَه.
1. ابن حبان، الصحيح، 1 : 422، لرقم : 194
2. ابن خزيمة، الصحيح، 4 : 51
3. بيهقی، السنن الکبری، 4 : 97
4. ابن أبی شيبة، المصنف، 6 : 159
5. طبراني، المعجم الکبير، 8 : 195
’’جس شخص کی زندگی میں امانت نہیں ہے (یعنی وہ لوگوں کی جان و مال اور دیگر حقوق و فرائض پر امین نہیں ہے) وہ قطعاً صاحب ایمان نہیں ہے۔‘‘
اسی لئے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جب مومن کی تعریف پوچھی گئی کہ مومن کون ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنِ ائْتَمَنَهُ النَّاسُ عَلٰی أَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِم.
1. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وماله،
2 : 1298، رقم : 3934
2. ابن منظور، لسان العرب، 13 : 24
’’مومن وہ ہے جس کو لوگ اپنے اَموال اور جانوں کا محافظ سمجھیں۔‘‘
یعنی اس کے ہاتھ سے نہ کسی کے مال کو نقصان پہنچے نہ کسی کی جان کو گزند۔
یہ تو لفظِ ایمان کے استعمال کا کم سے کمتر درجہ تھا۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو ایمان کا اطلاق اس کردار سے مشروط فرما دیا ہے :
مَا آمَنَ بِی مَنْ بَاتَ شَبْعَاناً وَجَارَه جَائِعٌ.
1. طبرانی، المعجم الکبير، 1 : 259، رقم : 751
2. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2 : 15
’’جس شخص کا پڑوسی بھوکا ہو اور وہ خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور سو جائے، تو وہ شخص مجھ پر ایمان ہی نہیں لایا۔‘‘
6۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اَلْمُؤْمِنُ لِلْمُؤْمِنِ کَالْبُنْيَانِ يَشُدُّ بَعضُهُ بَعْضًا (وَشَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ).
1. بخاری، الصحيح، کتاب المَظَالِمِ، باب نَصرِ الْمَظْلُوْمِ،
2 : 863، رقم : 2314
2. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآدب، باب تراحم المؤمنين وتعاطفهم وتعاضدهم،
4 : 1999، رقم : 2585
3. ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء فی شفقة المسلم علی المسلم، 4 : 325،
رقم : 1928
4. نسائی، السنن، کتاب الزکاة، باب أجر الخازن إذا تصدق بإذن مولاه، 5 : 79، رقم :
2560
’’ایک مومن دوسرے مومن کے لئے ایک (مضبوط) دیوار کی طرح ہے جس کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے، اور (اس بات کی وضاحت کے طور پر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دونوں ہاتھوں کی انگلیاں ایک دوسرے میں ڈالیں۔‘‘
7۔ حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَثَلُ الْمُؤْمِنِيْنَ فِي تَوَادِّهِمْ وَتَرَاحُمِهِمْ وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ، إِذَا اشْتَکَی مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَی لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّی.
1. بخاری، الصحيح، کتاب الأدب، باب رَحْمَةِ النَّاسِ وَ البَهَائِمِ،
5 : 2238، رقم : 5665
2. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب تراحم المؤمنين وتعاطفهم وتعاضدهم،
4 : 1999، رقم : 2586
3. أحمد بن حنبل، المسند، 4 : 270
4. بزار، المسند، 8 : 238، رقم : 3299
5. بيهقی، السنن الکبری، 3 : 353، رقم : 6223
6. بيهقی، شعب الإيمان، 6 : 481، رقم : 8985
’’مومنین کی مثال ایک دوسرے پر رحم کرنے، دوستی رکھنے اور شفقت کا مظاہرہ کرنے میں ایک جسم کی طرح ہے۔ چنانچہ جب جسم کے کسی بھی حصہ کو تکلیف پہنچتی ہے تو سارا جسم بے خوابی اور بخار میں اس کا شریک ہوتا ہے۔‘‘(1)
8۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
أَکْمَلُ الْمُؤْمِنِيْنَ إِيْمَانًا أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا، وَخِيَارُکُمْ خِيَارُکُمْ لِنِسَائِهِمْ.
1. ترمذی، السنن، کتاب الرضاع، باب ما جاء فی حق المرأة علی
زوجها، 3 : 466، رقم : 1162
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 472، رقم : 10110
3. ابن حبان، الصحيح، 2 : 227، رقم : 479
4. حاکم، المستدرک، 1 : 43، رقم : 2
5. دارمی، السنن، 2 : 415، رقم : 2792
6. أبو يعلی، المسند، 7 : 237، رقم : 4240
’’مومنوں میں سے کامل ترین ایمان اس شخص کا ہے جو ان میں سے بہترین اخلاق کا مالک ہے۔ اور تم میں سے بہترین اشخاص وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے والے ہیں۔‘‘
9۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
لَيْسَ المُؤْمِنُ بِالطَّعَّانِ وَلَا اللَّعَّانِ وَلَا الْفَاحِشِ وَلَا الْبَذِيءِ.
1. ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء فی اللعنة،
4 : 350، رقم : 1977
2. بخاری، الأدب المفرد : 116، رقم : 312، 332
3. ابن حبان، الصحيح، 1 : 421، رقم : 192
4. حاکم، المستدرک، 1 : 57، رقم : 29
’’کوئی بھی مومن بہت زیادہ طعنہ زنی کرنے والا، بہت زیادہ لعنت کرنے والا، بہت زیادہ بداخلاق اور فحش گوئی کرنے والا نہیں ہوتا۔‘‘
10۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مومن کی حرمت کو کعبے کی حرمت سے زیادہ محترم قرار دیا ہے۔ امام ابن ماجہ اور طبرانی سے مروی حدیث مبارکہ ملاحظہ کریں :
عَنْ عَبْدِ اﷲِ بْنِ عُمَرَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَطُوفُ بِالْکَعْبَةِ، وَيَقُولُ : مَا أَطْيَبَکِ وَأَطْيَبَ رِيحَکِ، مَا أَعْظَمَکِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَکِ، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اﷲِ حُرْمَةً مِنْکِ مَالِهِ وَدَمِهِ، وَأَنْ نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا.
1. ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب حرمة دم المؤمن وما له،
2 : 1297، رقم : 3932
2. طبراني، مسند الشاميين، 2 : 396، رقم : 1568
3. منذري، الترغيب والترهيب، 3 : 201، رقم : 3679
’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ عنھما سے مروی ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا اور یہ فرماتے سنا : (اے کعبہ!) تو کتنا عمدہ ہے اور تیری خوشبو کتنی پیاری ہے، تو کتنا عظیم المرتبت ہے اور تیری حرمت کتنی زیادہ ہے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! مومن کے جان و مال کی حرمت اﷲ کے نزدیک تیری حرمت سے زیادہ ہے اور ہمیں مومن کے بارے میں نیک گمان ہی رکھنا چاہئے۔‘‘
11۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
ثَلَاثٌ مِنْ أَخْلَاقِ الإِيْمَانِ : مَنْ إِذَا غَضِبَ لَمْ يُدْخِلْهُ غَضَبُهُ فِي بَاطِلٍ، وَمَنْ إِذَا رَضِيَ لَمْ يُخْرِجْهُ رِضَاهُ مِنْ حَقٍّ، وَمَنْ إِذَا قَدَرَ لَمْ يَتَعَاطَ مَا لَيْسَ لَهُ.
1. طبرانی، المعجم الصغير، 1 : 114، رقم : 164
2. ديلمی، مسند الفردوس، 2 : 87، رقم : 2466
3. ابن رجب، جامع العلوم والحکم، 1 : 148
4. هيثمی، مجمع الزوائد، 1 : 59
’’تین چیزیں اخلاق ایمان میں سے ہیں : جب کسی کو غصہ آئے تو وہ غصہ اسے (عمل) باطل میں نہ ڈال دے، اور جب کوئی خوش ہو تو وہ خوشی اسے حق سے نکال نہ دے، اور جب کوئی شخص قدرت رکھنے کے باوجود وہ چیز نہیں لیتا جو اس کی نہیں ہے۔‘‘
لفظِ احسان، حَسَنَ/حَسُنَ يَحْسُنُ حُسْناً سے ثلاثی مزید فیہ کا مصدر ہے۔ اِس کا معنی حسن و خوبصورتی، خیر و خوبی، نیکی، اچھائی اور بھلائی ہے۔ حُسْن کی ضد ’’القُبْحُ وَالسُّوْئ‘‘ یعنی قباحت، شر، گناہ، بدصورتی، بدی اور برائی ہے۔ جبکہ احسان کی ضد ’’إسَائَة‘‘ ہے۔ اِس کے معنی بھی قباحت اور برائی کے ہیں۔ امام ابو منصور محمد الازہری (282۔370ھ) نے تھذیب اللغۃ میں حَسَنَ اور إحسَان کے بنیادی معنی کے لئے اللیث کا یہ قول روایت کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے :
وَقُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا.
البقرة،2 : 83
’’اور عام لوگوں سے (بھی نرمی اور خوش خُلقی کے ساتھ) نیکی کی بات کہنا۔‘‘
وہ کہتے ہیں کہ اس کا معنی ہے : قَوْلاً حَسَناً یعنی لوگوں کے ساتھ اچھی، خوبصورت اور بھلائی کی بات کیا کرو۔ الزجاج نے اس کے معنی میں یہی کہا ہے کہ لوگوں کے ساتھ ایسے انداز سے بات کیا کرو جس میں حسن، اچھائی، خیر، خوبصورتی اور بھلائی ہو۔ اس لئے کہ حَسُنَ سے ہی حَسِيْن کا لفظ نکلا ہے جیسے عَظُمَ سے عَظِيْم اور کَرُمَ سے کَرِيْم کے لفظ نکلے ہیں۔
المنذری نے ابو الھیثم سے روایت کیا ہے : حُسْنًا اور حَسَنًا سے مراد شَيئٌ حَسِيْنٌ ہے یعنی اس میں ہر کام کی خوبصورتی کی طرف اشارہ ہے خواہ وہ خوبصورتی قول میں ہو یا فعل میں، اخلاق میں ہو یا برتاؤ میں۔ گویا حکم یہ ہے کہ لوگوں کے ساتھ صرف قول ہی خوبصورت اور بھلائی کے انداز میں نہ ہو بلکہ ان کے ساتھ برتاؤ میں بھی بھلائی، نیکی، خیر خواہی، اچھائی اور خوبصورتی کا حقیقی مظاہرہ ہونا چاہیے۔ یہی ’’احسان‘‘ ہے۔
اِسی طرح والدین کے ساتھ احسان کے طرزِ عمل کا حکم بھی اسی لفظ کے ساتھ دیا گیا ہے۔ ارشادِ باری تعالی ہے :
وَوَصَّيْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ حُسْنًا.
العنکبوت، 29 : 8
’’اور ہم نے انسان کو اس کے والدین سے نیک سلوک کا حکم فرمایا۔‘‘
گویا والدین کے ساتھ کلام میں، عمل میں، برتاؤ میں الغرض ہر معاملے میں حسن، خوبصورتی، شفقت، بھلائی اور رحمت ملحوظِ خاطر رہنی چاہیے۔ اس پورے طرزِ عمل کو حُسْناً سے تعبیر کیا گیا ہے۔ قرآن مجید نے اِس حکم کی مزید تصریح یوں فرمائی ہے :
وَيَدْرَئُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّيِّئَةَ.
الرعد، 13 : 22
’’اور وہ نیکی کے ذریعہ برائی کو دور کرتے رہتے ہیں۔‘‘
یعنی مومن اور محسن لوگ سَیِّئَۃ یعنی برائی کا رد حَسَنَۃ یعنی اچھائی سے کرتے ہیں اور بری بات کا جواب اچھی بات سے دیتے ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید نے ایک اور اُلوہی قاعدہ یوں بیان کیا ہے :
اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ.
هود، 11 : 114
’’بے شک نیکیاں گناہوں اور برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔‘‘
گویا روحانی اعتبار سے نیکی، عملِ خیر اور بھلائی کی تاثیر اس قدر قوی ہے کہ یہ گناہ اور برائی کو بھی مٹا دیتی ہے۔ اِس کا دوسرا معنی یہ بھی ہے کہ بھلائی اور احسان کا عمل اتنا مؤثر اور طاقت ور ہے کہ برائی اور زیادتی کو بھی شکست دے دیتا ہے اور اس کے برے اثرات کو کالعدم کر دیتا ہے۔ اِس قاعدے کو قرآن مجید نے یوں بھی واضح فرمایا ہے :
وَلَا تَسْتَوِی الْحَسَنَةُ وَلَا السَّيِّئَةُ.
حم السجدة، 41 : 34
’’اور وہ نیکی اور بدی برابر نہیں ہو سکتی۔‘‘
معلوم ہوا ہے کہ حَسَنَۃ اور سَیِّئَۃ یعنی اچھائی اور برائی کبھی برابر نہیں ہو سکتیں، اور دوسری بنیادی تعلیم یہ دی گئی ہے کہ : مسلمانو! برائی کا جواب برائی سے نہ دو، بلکہ برائی کا جواب بھی اچھائی سے دو، بری بات کے مقابلے میں بھی اچھی اور خوبصورت بات کہو۔ اس لئے کہ احسن قول اور احسن عمل، دونوں برائی کو رد کرکے اُلفت اور تعاون کا ماحول پیدا کرتے ہیں، برائی اِفتراق کی طرف لے جاتی ہے جبکہ اچھائی اتفاق کی طرف، برائی اور زیادتی نفرت پیدا کرتی ہے جب کہ اچھائی اور بھلائی، محبت و یگانگت۔ یہی حقیقتِ احسان ہے۔ اِسی لئے باری تعالیٰ نے مسلمانوں کو دُنیا اور آخرت کے لئے ’’حسنۃ‘‘ طلب کرنے کا حکم فرمایا ہے :
رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْيَا حَسَنَةً وَّفِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِo
البقرة، 2 : 201
’’اے ہمارے پروردگار! ہمیں دنیا میں (بھی) بھلائی عطا فرما اور آخرت میں (بھی) بھلائی سے نواز اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھo‘‘
یہ امر واضح رہے کہ اس آیت میں ’’حسنۃ‘‘ سے مراد محض اَعمالِ صالحہ اور عبادات نہیں ہیں، کیونکہ آخرت میں تو فقط جزا ہوگی، اعمال نہیں ہوں گے۔ سو آخرت میں کون سے اعمالِ صالحہ اور عبادات کی دعا کی جا رہی ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ دونوں جگہ پر ’’حسنۃ‘‘ سے مراد ’’احسان‘‘ ہے۔ یعنی دُنیا میں ہر اچھائی، بھلائی اور احسان کے طرزِ عمل کی توفیق مانگی جا رہی ہے اور ایسی زندگی طلب کی جا رہی ہے جس میں سراسر خیر ہو اور وہ ہر فتنہ و شر اور ظلم و عدوان سے محفوظ و مامون ہو؛ اور آخرت میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے احسان کی خیرات مانگی جا رہی ہے جو عدل سے بھی بلند تر درجہ ہے۔ الغرض دنیا کی ’’حسنۃ‘‘ سے مراد ہر خیر اور بھلائی کا میسر آنا اور ہر شر اور تکلیف سے امن و حفاظت ہے۔ اسی طرح آخرت کی ’’حسنۃ‘‘ سے مراد بھی عذاب آخرت سے امن و حفاظت، روزِ محشر کی مشکلات میں آسانی، حساب و کتاب میں سہولت اور جہنم سے نجات ہے۔ اس معنی کی تصریح امام ابن ابی حاتم رازی سے مروی حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے قول سے بھی ہوتی ہے جسے حافظ ابنِ کثیر سمیت دیگر ائمہ تفسیر نے بیان کیا ہے۔ اِسی طرح امام حسن بصری، ابو وائل، السدی، ابن زید، قتادہ، مقاتل، سفیان ثوری اور ابن قتیبہ نے بھی کہا ہے کہ ’’حسنۃ الدنیا‘‘ سے مراد ’’علم، نعمت، عبادت، رزق کی وسعت اور ہر فتنہ و شر سے امن و عافیت‘‘ ہے جبکہ ’’حسنۃ الآخرۃ‘‘ سے بھی مراد ’’جنت، عفو و معافات اور عذاب و مشکلات سے امن و عافیت‘‘ ہے۔ گویا دونوں جگہ ’’حسنۃ‘‘ میں خیر، بھلائی، وسعت و سہولت اور امن و عافیت کا مفہوم پایا جاتا ہے اور دونوں ہی جگہ اس لفظ کے ذریعے تکلیف، اذیت، مصیبت اور عذاب سے نجات طلب کی جا رہی ہے۔ سو یہاں بھی اچھائی، بھلائی، امن اور خیر و عافیت ہی کا تصور نمایاں ہے۔
قرآن مجید میں طرزِ عمل کے دو درجات بیان کئے گئے ہیں : عدل اور احسان۔ ارشادِ ربانی ہے :
اِنَّ اﷲَ يَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ.
النحل، 16 : 90
’’بے شک اللہ (ہر ایک کے ساتھ) عدل اور احسان کا حکم فرماتا ہےo‘‘
امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ عدل یہ ہے کہ انسان پر جس قدر دینا واجب ہو اس قدر دے، اور جس قدر لینا اس کا حق ہو اس قدر لے۔ مگر احسان یہ ہے کہ جس قدر دینا واجب ہو اس سے زیادہ دے، اور جس قدر لینے کا حق ہو اس سے کم لے۔ گویا دینے میں بھی دوسروں پر بھلائی اور سخاوت سے کام لے اور دوسروں سے لینے میں بھی بھلائی اور سخاوت کا مظاہرہ کرے۔ اس لئے احسان کا درجہ عدل سے بلند رکھا گیا ہے۔ سو عدل کی جزا عدل ہے جبکہ احسان کی جزا احسان ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :
هَلْ جَزَآءُ الْاِحْسَانِ اِلَّا الْاِحْسَانُo
الرحمان، 55 : 60
’’نیکی کا بدلہ نیکی کے سوا کچھ نہیں ہےo‘‘
اِس لئے حکم فرمایا گیا ہے کہ جس طرح انسان دُنیا میں ’’احسان‘‘ کی صورت میں دوسروں کو ان کے حق سے زیادہ دیتا ہے، اسی طرح باری تعالیٰ بھی آخرت میں احسان شعار لوگوں کو ان کے حق سے زیادہ عطا فرمائے گا۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
لِلَّذِيْنَ اَحْسَنُوا الْحُسْنٰی وَزِيَادَةٌ.
يونس، 10 : 26
’’ایسے لوگوں کے لیے جو اِحسان شعار ہیں نیک جزا ہے بلکہ (اس پر) اضافہ بھی ہے۔‘‘
جو لوگ محسنین یعنی احسان شعار ہوں گے ان کے لئے جنت کی جزا ہوگی اور پھر ان کے اس حق سے انہیں بہت ’’زیادہ‘‘ عطا کیا جائے گا۔ مفسرین نے تصریحاً بیان کیا ہے کہ ’’زیادۃ‘‘ سے مراد ’’النظر إلی اﷲ عزوجل‘‘ یعنی دیدارِ الٰہی ہے۔ کیا عجب بات ہے کہ جس طرح اسلام کے ذریعے ’’سلامتی‘‘ کے معنی کو بلند رتبہ عطا فرمانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے خود اپنا ایک نام ’’السّلام‘‘ بیان فرمایا ہے اور ایمان کے ذریعے ’’امن و امان‘‘ کے معنی کو بلند رتبہ دینے کے لئے باری تعالیٰ نے خود اپنا ایک نام ’’المؤمن‘‘ بیان فرمایا ہے۔ اسی طرح احسان کے ذریعے حسن، خوبصورتی، خیر اور بھلائی کے معنی کو بلند رتبہ دینے کے لئے باری تعالیٰ نے اپنے تمام ناموں کو ہی حسن کی طرف منسوب کر دیا ہے۔ ارشاد فرمایا :
وَِﷲِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی.
الأعراف، 7 : 180
’’اور اللہ ہی کے لیے اچھے اچھے نام ہیں۔‘‘
یعنی اللہ تعالیٰ کے سارے نام ہی نہایت حسن والے ہیں۔(1)
(1) یاد رہے کہ ’’اَلْحُسْنٰی‘‘ أَحْسَن کی تانیث ہے اور یہ اسماء کے جمع ہونے کی وجہ سے آئی ہے۔ اگر یہ ایک اسم ہوتا تو اسے ’’أَحْسَن‘‘ فرمایا جاتا، جس طرح باری تعالیٰ نے سورۃ طٰہٰ کی آیت نمبر 23 میں اپنی ’’آیات‘‘ کے لئے الکبریٰ فرمایا ہے :
لِنُرِيَکَ مِنْ اٰيٰتِنَا الْکُبْرٰیo
طٰه، 20 : 23
’’یہ اس لیے (کر رہے ہیں) کہ ہم تمہیں اپنی (قدرت کی) بڑی بڑی نشانیاں دکھائیںo‘‘
یہاں پر الکبریٰ، اکبر کی تانیث ہے۔
قرآن مجید نے دوسروں کے ہر حق کی ادائیگی میں بھی حکمِ احسان دیا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے :
اَدَآءٌ اِلَيْهِ بِاِحْسَانٍ.
البقرة، 2 : 178
’’اور اسے احسان کے طریق پر ادا کریں۔‘‘
اس لئے باری تعالیٰ نے کبھی اِنَّ اﷲَ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ(1) (بے شک اﷲ صاحبانِ احسان کو اپنی معیّت سے نوازتا ہے) فرما کر احسان شعار لوگوں کو اپنی خصوصی سنگت و معیت کا مژدۂ جانفزا سنایا ہے، کبھی اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْن(2) (بے شک اﷲ اِحسان والوں سے محبت فرماتا ہے) فرما کر احسان شعاروں کو اپنی محبت کے انعامِ لازوال کی خوش خبری سنائی ہے اور کبھی مَا عَلَی الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ(3) (صاحبان احسان پر الزام کی کوئی راہ نہیں) فرما کر احسان شعاروں کو خصوصی حفاظت اور الوہی امان کی ضمانت سے نوازا ہے۔ اور یہ بھی ارشاد فرمایا ہے :
(1) العنکبوت، 29 : 69
(2) البقرة، 2 : 195
(3) التوبة، 9 : 91
وَمَنْ اَحْسَنُ دِيْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْهَهِ ﷲِ وَهُوَ مُحْسِنٌ.
النساء، 4 : 125
’’اور دین اِختیار کرنے کے اعتبار سے اُس شخص سے بہتر کون ہو سکتا ہے جس نے اپنا رُوئے نیاز اللہ کے لیے جھکا دیا اور وہ صاحبِ احسان بھی ہوا۔‘‘
یعنی اُس شخص سے بہتر دین کس کا ہو سکتا ہے جس کا اسلام یعنی طاعت و انقیاد خالصتاً اللہ کے لئے ہے اور وہ درجۂ احسان پر فائز ہو گیا ہے۔ قرآن مجید میں جب پیغمبر علیہ السلام کو کہا جاتا ہے : اِنَّا نَرٰکَ مِنَ الْمُحْسِنِيْنَ. (1) (بے شک ہم آپ کو احسان شعار لوگوں میں سے پاتے ہیں)؛ تو یہاں احسان کا معنی بھی یہی بیان کیا گیا ہے کہ ’’إنَّه کَانَ يَنْصُرُ الضَّعِيْفَ، يُعِيْنُ الْمَظْلُوْمَ وَيَعُوْدُ الْمَرِيْضَ‘‘ (وہ کمزوروں کی مدد کیا کرتے تھے، مظلوموں کی داد رسی کرتے تھے اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتے تھے)۔ مزید برآں ابومنصور محمد الازہری نے علی بن حمزہ سے روایت کیا ہے اور ابن منظور نے بھی ’’لسان العرب‘‘ میں بیان کیا ہے کہ نہایت سرسبز و شاداب اور خوبصورت درخت کو بھی عربی میں ’’اَلْحَسَن‘‘ کہتے ہیں۔ کیونکہ اُس سے لوگوں کو سایہ اور ٹھنڈک نصیب ہوتی ہے اور اس کی خوبصورتی دیکھنے والوں کو سکون اور راحت دیتی ہے۔ سو اس احسان نما صفت کی وجہ سے وہ بھی حسن کہلاتا ہے۔ اسی طرح ابو نصر الفارابی ’’الصحاح‘‘ میں لکھتے ہیں : چاند کو الحاسن کہتے ہیں، کیونکہ اس کی روشنی رات کے مسافروں کو راستہ دکھاتی ہے اور چاندنی راتیں ہر شخص کو سکون اور راحت بخشتی ہیں۔ مزید یہ کہ چاند، روشنی سے استعارہ ہے اور روشنی، اندھیرے کی نقیض ہے۔ اس لئے احسان نور ہے، ہدایت ہے، لوگوں کے لئے نفع بخشی اور فیض رسانی ہے، رحمت اور راحت و سکون ہے، حسن اور خوبصورتی ہے اور سراسر خیر اور بھلائی ہے۔ اِسی لئے دین اسلام کا تیسرا اور بلند ترین مرتبہ ’’احسان‘‘ ہی کو قرار دیا گیا ہے حتیٰ کہ درجۂ اسلام کا حسن اور کمال ایمان میں رکھا گیا ہے۔ جب کہ درجۂ ایمان کا حسن اور کمال احسان میں رکھا گیا ہے۔ حدیث جبریل ں، جس کا ذکر شروع میں آچکا ہے، کے مطابق اسلام میں قولی و جسمانی طاعت اور فرمانبرداری ہے، ایمان میں اس کی قلبی تصدیق اور تمکّن ہے جبکہ احسان میں دونوں کے روحانی ثمرات اور باطنی احوال کا میسر آجانا ہے۔ احسان، انسان کو اعلیٰ درجے کا اخلاص دے کر اسے اس قدر ظاہری و باطنی سلامتی عطا کر دیتا ہے کہ وہ ہلاکت اور تباہی سے بچ جاتا ہے۔ اسی لئے قرآن مجید نے ہلاکت و تباہی سے بچنے کا طریق بھی ’’احسان‘‘ تجویز فرمایا ہے۔ ارشاد ربانی ہے :
(1) يوسف، 12 : 36
وَاَنْفِقُوْا فِيْ سَبِيْلِ اﷲِ وَلَا تُلْقُوْا بِاَيْدِيْکُمْ اِلَی التَّهْلُکَةِ ج وَاَحْسِنُوْاج اِنَّ اﷲَ يُحِبُّ الْمُحْسِنِيْنَo
البقرة، 2 : 195
’’اور اﷲ کی راہ میں خرچ کرو اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو، اور احسان شعار بنو، بے شک اﷲ صاحبان احسان سے محبت فرماتا ہےo‘‘
یہی وجہ ہے کہ ہر شخص پر ہر عمل میں احسان کو واجب قرار دیا گیا ہے، حتی کہ کسی انسان کو قتل کرنے اور جانور کو اذیت دے کر ذبح کرنے سے بھی منع کر دیا گیا۔
ذیل میں ہم نفس مضمون کے حوالے سے چند احادیث ذکر کرتے ہیں۔
1۔ صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں حضرت شداد بن اَوس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِنَّ اﷲَ کَتَبَ الإِحْسَانَ عَلَی کُلِّ شَيئٍ، فَإِذَا قَتَلْتُمْ فَأَحْسِنُوا الْقِتْلَةَ، وَإِذَا ذَبَحْتُمْ فَأَحْسِنُوا الذَّبْحَ، وَلْيُحِدَّ أَحَدُکُمْ شَفْرَتَهُ، فَلْيُرِحْ ذَبِيْحَتَهُ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الصيد والذبائح وما يؤکل من الحيوان،
باب الأمر بإحسان الذبح والقتل وتحديد الشفرة، 3 : 1548، رقم : 1955
2. ترمذی، السنن، کتاب الديات، باب ماجاء فی النهي عن المثلة، 4 : 23، رقم : 1409
3. أبو داود، السنن، کتاب الضحايا، باب في النهي أن تصبر البهائم والرفق بالذبيحة،
3 : 100، رقم : 2815
4. نسائی، السنن، کتاب الضحايا، باب الأمر بإحداد الشفرة، 7 : 227، رقم : 4405
5. ابن ماجه، السنن، کتاب الذبائح، باب إذا ذبحتم فأحسنوا الذبح، 2 : 1058، رقم : 3170
’’اللہ تعالیٰ نے ہر کام میں اِحسان فرض کیا ہے۔ جب تم قتل کرو تو احسن طریقے سے قتل کرو اور جب تم ذبح کرو تو اچھی طرح سے ذبح کرو اور ذبح کرنے والے کو چاہیے کہ چھری کو اچھی طرح تیز کرے اور اپنے ذبح ہونے والے جانور کو آرام دے۔‘‘
2۔ حضرت ابو شریح خزاعی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ کَانَ يُؤْمِنُ بِاﷲِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَلْيُحْسِنْ إِلَی جَارِهِ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، باب الحث إلی إکرام الجار،
1 : 69، رقم : 48
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الأدب، باب حق الجار، 2 : 1211، رقم : 3672
3. دارمي، السنن، 2 : 134
4. طبراني، المعجم الکبير، 22 : 192
’’جو شخص اللہ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کے ساتھ اِحسان سے پیش آئے۔‘‘
3۔ اسی طرح حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اتَّقِ اﷲَ حَيْثُمَا کُنْتَ، وَأَتْبَعِ السَّيِّئَةَ الْحَسَنَةَ تَمْحُهَا، وَخَالِقِ النَّاسَ بخُلُقٍ حَسَنٍ.
1. ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ما جاء في معاشرة الناس،
4 : 355، رقم : 1987
2. دارمي، السنن، 2 : 415، رقم : 2791
3. أحمد بن حنبل، المسند، 5 : 153، رقم : 21392
4. ابن أبی شيبة، المصنف، 5 : 211، رقم : 25324
5. بزار، المسند، 9 : 416، رقم : 4022
6. طبرانی، المعجم الکبير، 20 : 144، رقم : 296 (عن معاذ بن جبل رضی الله عنه)
امام ترمذی نے اسے حسن صحیح قرار دیا ہے۔
’’تم جہاں بھی ہو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو، گناہ کے بعد نیکی کیا کرو، وہ اسے مٹا دے گی اور لوگوں سے اَخلاقِ حسنہ کے ساتھ پیش آیا کرو۔‘‘
4۔ امام ابن ماجہ اور ابن حبان حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں :
قَالَ رَجُلٌ : يَا رَسُوْلَ اﷲِ، مَتَی أَکُوْنُ مُحْسِنًا؟ قَالَ : إِذَا قَالَ جِيْرَانُکَ : أَنْتَ مُحْسِنٌ، فَأَنْتَ مُحْسِنٌ، وَإِذَا قَالُوْا : إِنَّک مُسِيئٌ فَأَنْتَ مُسِيئٌ.
1. ابن ماجه، السنن، کتاب الزهد، باب الثناء الحسن، 2 : 1411،
رقم : 4222، 4223
2. ابن حبان، الصحيح، 2 : 284، رقم : 525
3. حاکم، المستدرک، 1 : 534، رقم : 1399
4. بيهقی، شعب الإيمان، 7 : 85، رقم : 1399
امام حاکم نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔
’’ایک شخص نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا : یا رسول اللہ! میں محسن کب بنوں گا؟ فرمایا : جب تیرا پڑوسی تجھے کہے کہ تو محسن ہے، تو تو محسن ہے، اور جب وہ تجھے کہیں کہ تو برا ہے، تو تو برا ہے۔‘‘
5۔ امام ابو نعیم حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا جَمَعَ اﷲُ الْأَوَّلِيْنَ وَالْآخِرِيْنَ يُنَادِي مُنَادٍ فِي صَعِيْدٍ وَاحِدٍ مِنْ بُطْنَانِ الْعَرْشِ.... أَيْنَ الْمُحْسِنُوْنَ؟... قَالُوْا : نَحْنُ الْمُحْسِنُوْنَ. قَالَ : صَدَقْتُمْ، قُلْتُ لِنَبِيِّ : ﴿مَا عَلَی الْمُحْسِنِيْنَ مِنْ سَبِيْلٍ﴾(1) مَا عَلَيْکُم مِنْ سَبِيْلٍ، ادْخُلُوا الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِي. ثُمَّ تَبَسَّمَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم فَقَالَ : لَقَدْ نَجَّاهُمُ اﷲُ مِنْ أَهْوَالِ بِوَائِقِ الْقِيَامَةِ.(2)
(1) التوبة، 9 : 91
(2) 1. أبونعيم، کتاب الأربعين : 100، رقم : 51
2. مناوي، فيض القدير، 1 : 420، رقم : 4
’’اللہ تعالیٰ جب اولین و آخرین کے لوگوں کو جمع فرمائے گا تو ایک پکارنے والا عرش کے پایوں تلے ایک میدان سے صدا دے گا : ۔۔۔ کہاں ہیں صاحبان احسان؟۔۔۔ وہ عرض کریں گے : ہم صاحبان احسان ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تم نے سچ کہا، میں نے اپنے نبی سے فرمایا تھا : ’’صاحبان احسان پر الزام کی کوئی راہ نہیں۔‘‘ لہٰذا تم پر بھی (طعنہ زنی کی) کوئی راہ نہیں۔ میری رحمت کے ساتھ سیدھے جنت میں داخل ہو جاؤ۔ پھر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تبسم فرمایا اور ارشاد فرمایا : یقینا اللہ تعالیٰ انہیں قیامت کے احوال اور سختیوں سے نجات دے دے گا۔‘‘
6۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :
إِنَّ مِنْ أَحَبِّکُمْ إِلَيَّ وَأَقْرَبِکُمْ مِنِّي مَجْلِسًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَحَاسِنَکُمْ أَخْلَاقًا.
1. ترمذی، السنن، کتاب البر والصلة، باب ماجاء فی معالی الأخلاق،
4 : 370، رقم : 2018
2. أحمد بن حنبل، المسند، 2 : 185، 217، رقم : 6735، 7035 (عن عبد اﷲ بن عمرو رضی اﷲ
عنهما)
3. ابن حبان، الصحيح، 2 : 235، رقم : 485
4. بيهقی، شعب الإيمان، 6 : 234، رقم : 799
امام ترمذی نے اس حدیث کو حسن قرار دیا ہے۔
’’تم میں سب سے زیادہ محبوب اور قیامت کے دن میرے نزدیک ترین بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں سے اخلاق میں اچھے ہیں۔‘‘
7۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتی ہیں :
إِنَّ الْمُؤْمِنَ لَيُدْرِکُ بِحُسْنِ خُلُقِهِ دَرَجَةَ الصَّائِمِ الْقَائِمِ.
1. أبو داود، السنن، کتاب الأدب، باب فی حسن الخلق، 4 : 252،
رقم : 4798
2. أحمد بن حنبل، المسند، 6 : 90، رقم : 24639
3. ابن حبان، الصحيح، 2 : 228، رقم : 480
4. حاکم، المستدرک، 1 : 128، رقم : 199
5. بيهقی، شعب الإيمان، 6 : 236، رقم : 7997
’’یقینا مومن حسن اخلاق کے ذریعے دن کو روزہ رکھنے والے اور راتوں کو قیام کرنے والے کا درجہ حاصل کر لیتا ہے۔‘‘
8۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں :
حُرِّمَ عَلَی النَّارِ کُلُّ هَيِّنٍ سَهْلٍ قَرِيْبٍ مِنَ النَّاسِ.
1. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 415، رقم : 3938
2. ابن حبان، الصحيح، 2 : 215، رقم : 469
3. طبرانی، المعجم الکبير، 10 : 231، رقم : 10562
4. أبو يعلی، المسند، 8 : 467، رقم : 5053
5. بيهقی، شعب الإيمان، 7 : 353، رقم : 2697
’’بے شک وہ شخص آگ پر حرام کر دیا گیا ہے جو نرم خو، خوش اخلاق اور (نیک مجالس میں) لوگوں کے قریب ہے۔‘‘
9۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اُنہیں فرمایا :
يَا عَائِشَةُ! إِنَّ اﷲَ رَفِيْقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ فِي الْأَمْرِ کُلِّهِ.
1. بخاری، الصحيح، کتاب استتابة المرتدين والمعاندين وقتالهم،
باب إِذَا عرَّضَ الذِّمِّيُ وَ غَيْرُهُ، 6 : 2539، رقم : 6528
2. ابن ماجه، السنن، کتاب الأدب، باب الرفق، 2 : 1216، رقم : 3688
’’اے عائشہ! بے شک اللہ تعالیٰ نرمی سے سلوک کرنے والا ہے اور ہر ایک معاملہ میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔‘‘
ایک روایت کے مطابق حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
يَا عَائِشَةُ! إِنَّ اﷲَ رَفِيْقٌ وَيُحِبُّ الرِّفْقَ وَيُعْطِي عَلَی الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَی الْعُنْفِ.
1. مسلم، الصحيح، کتاب البر والصلة والآداب، باب فضل الرفق،
4 : 2003، رقم : 2593
2. أبوداود، السنن، کتاب الأدب، باب فی الرفق، 4 : 254، رقم : 4807
3. أحمد بن حنبل، المسند، 1 : 112، رقم : 902
’’اے عائشہ! اللہ تعالیٰ نرمی کرنے والا ہے اور نرمی کو پسند کرتا ہے اور نرمی پر اتنا عطا فرماتا ہے کہ اتنا سختی پر عطا نہیں کرتا۔‘‘
10۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
کَانَ تَاجِرٌ يُدَايِنُ النَّاسَ، فَإِذَا رَأَی مُعْسِرًا، قَالَ لِفِتْيَانِهِ : تَجَاوَزُوا عَنْهُ لَعَلَّ اﷲَ أَنْ يَتَجَاوَزَ عَنَّا فَتَجَاوَزَ اﷲُ عَنْهُ.
1. بخاري، الصحيح،کتاب البيوع، باب من أنظر معسراً، 2 : 731،
رقم : 1972
2. مسلم، الصحيح، کتاب المساقاة، باب فضل إنظار المعسر، 3 : 1196، رقم : 1562
’’ایک تاجر لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ جب کسی کو تنگ دست دیکھتا تو اپنے خادموں سے کہتا : اس سے درگزر کرو، شاید اللہ تعالیٰ ہم سے درگزر فرمائے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اُسے معاف کر دیا۔‘‘
11۔ سنن نسائی میں یہی حدیث کچھ تفصیل کے ساتھ یوں بیان ہوئی ہے :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم قَالَ : إِنَّ رَجُلًا لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ وَکَانَ يُدَاينُ النَّاسَ. فَيَقُولُ لِرَسُولِهِ : خُذْ مَا تَيَسَّرَ وَاتْرُکْ مَا عَسُرَ، وَتَجَاوَزْ لَعَلَّ اﷲَ تَعَالَی أَنْ يَتَجَاوَزَ عَنَّا. فَلَمَّا هَلَکَ، قَالَ اﷲُ عزوجل لَهُ : هَلْ عَمِلْتَ خَيْرًا قَطُّ؟ قَالَ : لَا، إِلَّا أَنَّهُ کَانَ لِي غُلَامٌ، وَکُنْتُ أدَايِنُ النَّاسَ، فَإِذَا بَعَثْتُهُ لِيَتَقَاضَی، قُلْتُ لَهُ : خُذْ مَا تَيَسَّرَ وَاتْرُکْ مَا عَسُرَ، وَتَجَاوَزْ لَعَلَّ اﷲَ يَتَجَاوَزُ عَنَّا. قَالَ اﷲُ تَعَالَی : قَدْ تَجَاوَزْتُ عَنْکَ.
1. نسائی، السنن، کتاب البيوع، باب حسن المعاملة والرفق في
المطالبة، 7 : 381 ، رقم : 4694
2. احمد بن حنبل، المسند، 2 : 361، رقم : 8715
3.ابن حبان، الصحيح، 11 : 422، رقم : 5403
4. حاکم، المستدرک علی الصحيحين، 2 : 33، رقم : 2223
’’حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ایک شخص نے اس کے سوا بھلائی کا کوئی کام نہیں کیا تھا مگر یہ کہ وہ لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ (جب قرض واپس لینا مقصود ہوتا تو) وہ اپنے ایلچی سے کہتا : جہاں سے آسانی سے موصول ہو وہاں سے وصول کرو لیکن جہاں مقروض مفلس اور تنگ دست ہو تو چھوڑدو اور اُس سے درگزر کرو، شاید اللہ تعالیٰ ہماری خطاؤں اور لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ جب وہ فوت ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے دریافت فرمایا : کیا تو نے کوئی نیکی کی تھی؟ اس شخص نے عرض کیا : نہیں، مگر میرا ایک خادم تھا اور میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا۔ جب میں اس خادم کو قرض کی وصولی کے لیے بھیجتا تو اُسے ہدایت کرتا کہ آسانی سے ملے تو لے لینا اور جہاں دشواری ہو چھوڑ دینا اور معاف کرنا، شاید اللہ تعالیٰ بھی ہمیں معاف فرما دے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں نے تجھے معاف کر دیا۔‘‘
لفظ اسلام، ایمان اور احسان پر تفصیلی بیان کے بعد یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ یہ تینوں الفاظ اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے سراسر امن و سلامتی، خیر و عافیت، تحمل و برداشت، محبت و الفت، احسان شعاری اور احترام آدمیت کی تعلیم دیتے ہیں۔ دین اسلام ایک ایسا ضابطہ حیات ہے جو خود بھی سراپا سلامتی ہے اور دوسروں کو بھی امن و سلامتی، رافت و رحمت، اعتدال و توازن اور صبر و تحمل کی تعلیم دیتا ہے۔ گویا مسلمان صرف وہ شخص ہے جو تمام انسانیت کے لئے پیکرِ امن و سلامتی ہو اور مومن بھی وہی شخص ہے جو امن و آشتی، تحمل و برداشت، بقائے باہمی اور احترام آدمیت جیسے اوصاف سے متصف ہو اور محسن وہ ہے جس میں نہ صرف اسلام اور ایمان دونوں کے روحانی ثمرات اور باطنی احوال جمع ہو جائیں بلکہ وہ نفع بخشی اور فیض رسانی کا باعث ہو۔ مختصر یہ کہ اسلام اپنے وسیع معنی میں ایک ایسا دین ہے جس میں اجتماعی سطح سے لے کر انفرادی سطح تک ہر کوئی محفوظ و مامون ہو جاتا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved