صبغت اللہ قادری
یہ 24 رمضان المبارک 1395ھ جمعتہ الوداع کا روز تھا۔ حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کچہری روڈ جھنگ کی ایک مسجد ڈاکٹر کفیل میں تہجد کے موضوع پر جمعہ کا خطاب فرمارہے تھے۔’’آخر شب اُٹھنے سے کیا حاصل ہوتا ہے۔‘‘ تقریر نہایت ہی پرتاثیر اور درد و سوز میں ڈوبی ہوئی تھی۔ ہر شخص کی آنکھ اشکبار تھی۔ گورنمنٹ غزالی کالج کے پرنسپل محترم گوہر صدیقی اور وائس پرنسپل محترم الطاف حسین حاضرین میں موجود تھے۔ ان کی روایت کے مطابق یہ ایک منفرد تقریر تھی۔ تقریر کا ایک ایک لفظ رُوح کے تاروں کو چھیڑتا محسوس ہو رہا تھا۔ تقریر کے بعد ہر خاص و عام سے ملاقات کرنے کے بعد گھر تشریف لائے۔ شام کو افطاری کے بعد پہلی مرتبہ خفیف سا درد دِل محسوس ہوا اور کچھ وقت کے لئے نڈھال ہوئے لیکن سنبھل گئے۔ دوسرا دورہ اتوار کو ساڑھے گیارہ بجے دوپہر ہوا۔ یہ دورہ پہلے دورہ سے زیادہ شدید تھا۔ اس میں بھی سنبھل گئے۔
27ویں رمضان المبارک (13 اکتوبر 1974ء) کی رات تھی۔ قریب ہی مسجد پرانی عید گاہ میں ختم قرآن تھا۔ نماز تراویح کی 17 ویں رکعت تھی، اطلاع ملی کہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کو دل کا دورہ ہوا ہے۔ یہ دورہ انتہائی درجہ سخت تھا۔ اسی وقت جھنگ کے ایم ایس ڈاکٹر محمد احسن صاحب کو بلایا گیا اور باقاعدہ علاج شروع ہوا۔ جمعتہ المبارک کو عید الفطر ہوئی۔ طبیعت دن بدن کمزور ہوتی گئی۔ 20، اکتوبر کو آپ کو سول ہسپتال جھنگ داخل کر دیا گیا۔ آپ کی عیادت کے لئے ہسپتال میں لوگوں کا تناتا بندھا رہتا تھا۔ ایک روز ڈاکٹر صاحب کے فرزند ارجمند شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری چارپائی پر بیٹھے ان کا دایا بازو ہاتھ میں لئے کلمہ شہادت کا ورد کر رہے تھے۔ کیونکہ اس سے ایک روز قبل قبلہ ڈاکٹر صاحب نے اس مرض کو ’’مرض الموت‘‘ سے تعبیر کر دیا تھا۔ اس دوران اپنے عظیم فرزند سے بارہا خلوت میں فرمایا: بیٹا خوش قسمت ہو کہ تمہیں آخری بار اپنے والد کی خدمت کا موقع نصیب ہوگیا ہے۔ اس موقع کو غنیمت جانو پھر تمام عمر یہ وقت نہیں ملے گا۔ بیٹا جو لمحات اب میرے پاس گزار رہے ہو یہ غنیمت ہیں۔ ایسے مواقع خوش نصیبوں ہی کو حاصل ہوا کرتے ہیں۔ آپ نے اپنے بیٹے کو چند وصیتیں بھی کیں جو درج ذیل ہیں:
اس کے علاوہ فرمایا کہ یہ بیماری عام نہیں کہ علاج سے شفایابی ہو سکے۔ میری اَجل آچکی ہے۔ اب علاج کارگر ثابت نہیں ہو سکتا۔ بیٹا میں اَجل سے گریزاں نہیں ہوں، صرف تمہارے مستقبل کی فکر لاحق ہے۔اس دوران طبیعت میں نشیب و فراز آتے رہے۔ محبوب بیٹے سے راز و نیاز چلتے رہے۔ اور 2 نومبر 1974ء بمطابق 16 شوال 1395 ھ بروز ہفتہ صبح پونے آٹھ بجے چراغ زندگی ٹمٹمایا اور جان جانِ آفرین کے سپرد کر دی۔ اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّا اِلَیْهِ رَاجِعُونَ.
آپ بدلے تو بدل گئی دنیا
اب تو اپنا بھی اعتبار نہیں
کیسے بھولے گا تیرا وقت سفر
تا اَبد مجھ کو اب قرار نہیں
وقت آخر زباں پر اِنَّ اللّٰہ مَعَ الصّٰبِرْین کا ورد تھا۔ اس سے قبل تمام رات پُرسکون گزری تھی۔ صبح صرف 10 منٹ کے لئے طبیعت میں اضطراب پیدا ہوا تھا۔
انتقال کے بعد ایمبولینس کے ذریعے ہسپتال سے گھر لائے گئے۔ اور شام ساڑھے چار بجے نماز عصر کے بعد جھنگ صدر کی قدیمی جنازہ گاہ میں نماز جنازہ ادا کی گئی۔ جو وصیت کے مطابق حضرت شیخ الاسلام نے پڑھائی۔ نماز جنازہ کے بعد جونہی کپڑا چہرے سے ہٹایا اللہ اکبر، عجب ایمان افروز منظر تھا۔ چہرے پر بے پایاں خوشی اور مسرت کے آثار نمایاں تھے۔ لبوں پر مسکراہٹ مچل رہی تھی۔ چہرے پر بے اندازہ رونق اور تبسم دیکھ کر حضرت شیخ الاسلام کے ایک دوست محترم شیخ ظفر صاحب بے ساختہ مبارک دینے لگے۔
نشانِ مرد مومن با تو گویم
چو مرگ آید تبسم برلب اوست
(میں تجھے مرد مومن کی علامت بتاتا ہوں۔ جب وہ وفات پاتے ہیں تو ان کے ہونٹوں پر تبسم کھیلتاہے۔)
اس موقع پر زیارت کے بعد ہر شخص سبحان اللہ سبحان اللہ کہہ رہا تھا۔ ہر زائر مسرور تھا اور کسی جانب سے یہ آواز بھی آئی:
یٰٓـاَیَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةo ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةًo فَادْخُلِیْ فِیْ عِبٰـدِیْo وَادْخُلِیْ جَنَّتِیo
(الفجر، 89: 27-30)
’’اے اطمینان پا جانے والے نفس۔ تو اپنے رب کی طرف اس حال میں لوٹ آکہ تو اس کی رضا کا طالب بھی ہو اور اس کی رضا کا مطلوب بھی (گویا اس کی رضا تیری مطلوب ہو اور تیری رضا اس کی مطلوب)۔ پس تو میرے (کامل) بندوں میں شامل ہو جاoاور میری جنتِ (قربت و دیدار) میں داخل ہو جا۔‘‘
ہر شخص کہہ رہا تھا کہ تمام عمر ایسا منظر نہیں دیکھا۔ سکون و اطمینان کا یہ نظارہ اپنی مثال آپ تھا۔ آخر جسم اقدس اشکبار آنکھوں اور دھڑکتے دل کے ساتھ سپردِ خدا کر دیا۔
مرگِ مومن چیست؟ ہجرت سوئے دوست
ترکِ عالم اختیارِ کوئے دوست
انتقال کے دسویں روز 11 نومبر کو قبلہ حضرت شیخ الاسلام نے اپنے والد محترم کی طرف سے روزہ رکھا۔ حضرت شیخ الاسلام فرماتے ہیں:کیونکہ والد صاحب قبلہ کے آخری 5 روزے بوجہ علالت رہ گئے تھے۔خواب میں قبلہ والد صاحب کی زیارت ہوئی۔ دیکھتے ہیں کہ ایک کھلا میدان ہے یہاں کئی لوگ آرہے ہیں اور کئی جا رہے ہیں۔ ہر شخص کے پاس اپنی ایک ایک چادر ہے۔ والد صاحب قبلہ ایک چار پائی پر آرام فرما ہیں۔ خوبصورت رنگین بستر بچھا ہوا ہے میں پہلی نظر پڑتے ہی سوال کرتا ہوں۔
1۔ ابا جان نکیرین جب سوال کے لئے آئے تو کیا ہوا؟آپ رحمہ اللّٰہ مسکرا کر فرماتے ہیں بیٹا جب نکیرین سوال و جواب کے لئے قبر میں آئے تو نماز ادا کر رہا تھا۔ کونسی نماز؟ (میں نے پوچھا) فرمایا عصر کی نماز پڑھ رہا تھا تو نکیرین مجھے حالت نماز میں دیکھ کر واپس چلے گئے اور لوٹ کر اب تک واپس نہیں آئے۔
2۔ میں نے دوسرا سوال کیا، ابا جان نمازِ جنازہ ادا ہو جانے کے بعد آپ کیوں مسکرا رہے تھے؟ فرمانے لگے: میری روح لوٹ آئی تھی اور میں اس وقت زندہ تھا۔
3۔ ابا جان آپ اتنے دن ہم سے کیوں نہیں ملے؟ فرمانے لگے: مجھے مختلف مناظر اور مقامات دکھائے جا رہے تھے میں انہیں دیکھنے میں مصروف تھا اور جب جنازہ کے بعد تم لوگوں نے مجھے مسکراتے دیکھا اس وقت بھی دراصل میں ایک نظارہ دیکھ رہا تھا اسی وجہ سے میرے چہرے پر خوشی اور مسکراہٹ تھی۔ بس اسی قدر گفتگو ہوئی تھی کہ آنکھ کھل گئی۔
4۔ محمد اقبال منہاس جو بہت عرصہ ریلوے میںمجسٹریٹ رہے۔ اب ریٹائر ہو چکے ہیں ان کے حضرت فرید ملت کے ساتھ دوستانہ مراسم تھے، کشف قبور کے عامل ہیں۔ آپ رحمہ اللّٰہ کے وصال پر تعزیت کے لئے آئے اور وہاں پر موجود ہزاروں افراد کی موجودگی میں جن برزخی حالات کا وہ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی قبر مبارک پر مشاہدہ کر چکے تھے۔ وہ مشاہدات انہوں نے رو رو کر بیان کرتے ہوئے کہا ’’میں نے ایک بہت ہی وسیع و عریض اور عالیشان میدان دیکھا ہے جس میں حد نگاہ تک درخت ہی درخت ہیں۔ اور ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللّٰہ کو اللہ تعالیٰ نے بڑے اعلیٰ مدارج اور بلند مقامات عطا کر رکھے ہیں جو جلیل القدر اولیاء اللہ عظیم المرتبت فقراء اور بڑے بڑے عشاق کو نصیب ہوتے ہیں۔‘‘
حضرت شیخ الاسلام کی اہلیہ محترمہ اختناق الرحم کی مرض میں مبتلا ہوگئیں۔ گھر کا سارا سکون برباد ہوگیا۔ چھ سات ماہ تک مسلسل ہر قسم کا ایلوپیتھک، ہومیو پیتھک اور حکیموں کا بہترین سے بہترین علاج کروانے کے باوجود صحت یاب نہ ہوئیں۔ بڑی پریشانی لاحق ہوگئی۔ فکر و اندوہ کے اسی عالم میں ایک شب خواب میں حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے اپنے زاہدشیخ الاسلام کو شرف زیارت بخشا اور خواب ہی میں انہیں اپنے قلمی مخطوطہ موسوم بہ ’’تفرید الفرید‘‘ جو گھر میں موجود تھا، لانے کے لئے کہا۔ اور اس کے خاص صفحات پر تحریر شدہ نسخہ استعمال کرانے کی ہدایت فرمائی اور باقی تما م ادویات ترک کر دینے کا حکم دیا۔ اس نسخہ کے استعمال سے دو تین ماہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے محترمہ مکمل طور پر صحت یاب ہوگئیں۔ آج طویل عرصہ بیت جانے کے باوجود دوبارہ تکلیف نہیں ہوئی۔ وہ نسخہ جب حکیم مہر محمد شفیق افضل جو کہ جھنگ کے معروف اور کامیاب معالج تھے کو دکھایا گیا تو یہ واقعہ سن کر اور نسخہ دیکھ کر ورطہ حیرت میں پڑ گئے۔ اور کہا کہ اس مرض میں یہ نسخہ اپنی تخلیق کا شاہکار ہے انہوں نے آئندہ اس مرض کے تمام مریضوں کو یہی نسخہ استعمال کرانا شروع کر دیا۔
اسی طرح حضرت شیخ الاسلام کی ہمشیرہ محترمہ مسرت جبیں کا دماغی توازن مختل ہوگیا۔ گھر میں ڈاکٹر محمد احسن ایم ایس جھنگ کے زیر علاج رہیں۔ دیگر ڈاکٹروں اور معالجین سے بھرپور علاج کروایا، تمام ڈاکٹروں نے مرض کو لاعلاج قرار دیا۔ لاہور کے دماغی امراض کے ہسپتال سے بھی علاج کروایا، مگر کوئی افاقہ نہ ہوا، ساری رات اسے پکڑ کر گذارتے، وہ چیختیں اور اُٹھ ااُٹھ کر بھاگتیں، موصوفہ مسلسل ایک سال ناقابل بیان کرب و اذیت میں مبتلا رہیں۔ ان کی اس مرض نے گھر کا سکون برباد کر دیا۔ جب پریشانی انتہاء کو پہنچ گئی تو حضرت شیخ الاسلام کو خواب میں والد گرامی حضرت فرید الدین رحمہ اللّٰہ تشریف لائے اور انہیں ہومیو پیتھک میڈیسن کالی فاس، ایکس 6 جو کسی جرمنی فرم کی تیارشدہ تھی استعمال کرانے کے لئے کہا۔ صبح اُٹھ کر حضرت شیخ الاسلام نے وہ نام نوٹ کر لیا اور جھنگ کے ایک معالج ڈاکٹر خالد اکبر حیات صاحب (جو کہ رانا جاوید مجید القادری کے ہم زلف ہیں) سے اس نسخہ کے بارے میں پوچھا انہوں نے فیصل آباد کی ایک فارمیسی کا پتہ بتایا۔ جہاں سے وہ دوائی مل گئی۔ اور بفضلہ تعالیٰ دو تین کورس سے انہیں مکمل صحت یابی ہوگئی اور پھر دوبارہ کبھی تکلیف نہیں ہوئی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved