محمد عمر حیات الحسینیؔ
حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کے سوانح حیات، سیرت و کردار، اطوارو عادات اور فضائل و کمالات کے بارے میں آپ کے ہم عصر اکابرین وعمائدین اور برگزیدہ شخصیات کی واضح شہادتیں زیر مطالعہ کتاب کے صفحات پر محفوظ ہیں۔ بندہ ناچیز کو حضرتِ والا رحمہ اللّٰہ سے ملاقات وزیارت کاشرف تو حاصل نہیں لیکن آپ کے تربیت یافتہ جگر گوشہ حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کے آئینے میں ان کی فکر و شخصیت کے خدوخال ضرور دیکھے ہیں۔ ’’شاگرد اور بیٹے ‘‘میں باپ کاعلم ہی نہیںسیرت و کردار بھی جھلکتی ہے۔ پھر حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کے زیر مطالعہ رہنے والی سینکڑوں کتابوں کو دیکھنے کی سعادت بھی میسر آئی ہے۔ مکتبہ فرید یہ قادریہ کی کتب پر حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے اہم نوٹس و حواشی کا بہ دقت نظر مطالعہ کیاہے۔ فکرو تحقیق مجرددماغ سوزی نہیں، بلکہ صاحب علم و تحقیق کے شخصی کردار اورسماجی رویوں کا مظہر بھی ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے کتابوں پرنوٹس کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کا نظریہ علم وتدریس اورطرزِ عمل کیا تھا۔ فرزندارجمند حضرت شیخ الاسلام کے الفاظ و معانی خود حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کی شخصی عظمت، علمی رفعت اورشخصیت وکردار کی غمازی کرتے ہیں۔ حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کے جگر گوشہ کے فکر و شخصیت کی روشنی میں آپ کی شخصیت کا پورا پیکر اجالنے کا موضوع بہت دلچسپ اور نہایت نکتہ آفرین ہے۔
حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنے والد گرامی قدس سرہ العزیز کے بارے میں فرمایا کرتے ہیں کہ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ میرے صرف باپ ہی نہیں بلکہ میرے نکتہ رس مربی، میرے عظیم استاد، میرے باریک بین شیخ اور میری زندگی کے ہر پہلو میں ہادی و رہنما تھے۔ ان کی ذات گرامی میرے لئے سب کچھ تھی۔ ان کا محققانہ، اور معتدل مسلک و مزاج میرا آئیڈیل ہے۔ بغدادی قاعدہ سے لے کردورئہ حدیث تک تمام علمی و دینی کاموں میں ان سے تلمذورہنمائی کا شرف حاصل رہا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کی زندگی کا کوئی ورق ایسا نہیں ہے کہ جس پر حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی چھاپ موجود نہ ہو۔ کوئی دلچسپی ایسی نہیںہے جو حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے ذوق اور مزاج میں ڈھلی ہوئی نہ ہو، کوئی پسند ایسی نہیں ہے جو والد گرامی رحمہ اللّٰہ کے ذوق کے ہم آہنگ نہ ہو، تصنیف و تالیف کے سلسلہ میں عملی تحقیقات میں یا فقہ و فتو ی کی گتھیاں، باطن کی ریاضتیں یا ظاہر کی عبادتیں، آخرشب کی خلوتیں یا تقریر و درس کی جلوتیں، خانگی الجھنیں یا ملکی و سیاسی پیچیدگیاں، معاشی حالات ہوں یا اولاد اور ان کی شادی بیاہ کے معاملات، عزیزوں دوستوں کی مہربانیاں ہوں یا حاسدوں کی ریشہ دوانیاں، غم کاموقع ہو یا خوشی کا، الغرض ہر حال میں اپنے عظیم والد حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے مزاج و احوال کے کامل آئینہ دار دکھائی دیتے ہیں۔
حضرتِ فرید ملت قدس سرہٗ العزیز کی عظمت کے اعتراف کے لئے اتنا کافی ہے کہ جن کے فیضانِ علم و تربیت نے عالمِ اسلام کو شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرا لقادری مدظلہ العالی کی صورت میں ایک گوہر نایاب دیا ہے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی کاماحصل ایک ایسی شخصیت میں دیا ہے کہ جن پر تجدید کاسہرا سج رہاہے۔ حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے اپنے جگر گوشہ کی تربیت کچھ اس انداز میں فرمائی کہ وہ’’ الولد سرٌ لابیہ‘‘کا مصداق ہیں۔
حضرتِ فرید ملت کے علوم و معارف کے ادراک وفہم کے لئے ضروری ہے کہ تربیت یافتہ صاحبزادے اور شاگرد کی گہرائی و گیرائی کامطالعہ کیا جائے۔ کیوں کہ بیٹا اور شاگرد اپنے باپ اوراستاد کامنہ بولتا ثبوت ہوتا ہے۔ جب ہم حضرتِ فرید ملت کے فیضانِ تربیت کے اس شاہکار کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ان میں امام ابو حنیفہؒ کی فقاہت، ابن تیمیہ، ابن حجر، عینی، ابن ہمام، ابن عربی جیسی نکتہ رسی، دقیقہ سنجی اور ژرف نگاہی دکھائی دیتی ہے۔ حضرت سیدنا غوث اعظمؒ کی تعلیمات تصوف و طریقت کے مجدد نظر آتے ہیں۔ بلا شبہ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی طلاقت سے معمولی بات کو رازی کا فلسفہ، غزالی کا نکتہ، ابن حجر کا دقیقہ اور ابن ہمام کا شگوفہ بنانے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں کہ میرے غور وفکر کی بنیادی نہج میرے عظیم والد کے فیضانِ تربیت کا نتیجہ ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ علت و معلول، سبب و مسبّب کی اس طویل کائنات میں خود مسبّب الاسباب نے ہر چیزکووابستہ اسباب کر دیاہے۔ مقبولیت و مردودیت بلاشبہ خدائے قادرو قدیر کی جانب سے ہے مگر رد وقبول کے ظاہری اسباب بھی بہرحال ہوتے ہیں۔ ہرصاحب علم و فن کے ایک عروج و کمال کا دورہوتاہے اور پھر دیکھتے دیکھتے اس کے ساتھ اس کا علم وفن بھی زمین دوز ہوجاتاہے۔ دیکھنے والوں نے بارہا دیکھا کہ بڑے بڑے لوگوں کی مسندیں اُلٹ گئیں اور ان کے حلقوں کی ایک ایک کڑی بکھر گئی، مگر جسے علم و فن کہئیے یا جامعیت و عبقریت نام رکھیئے سالوں کے الٹ پھیر کے باوجود وہ کہنگی سے آشنا نہیں۔ آئے دن دیکھنے والی آنکھ دیکھ رہی ہے کہ حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کا تربیت یافتہ ملت اسلامیہ کے لئے ایک گھنا سایہ دار درخت کی شکل اختیار کرتاجا رہا ہے۔ ان کی تصانیف، مآثر علمیہ اور جیتے جاگتے تلامذہ کا طویل سلسلہ حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی یاداور ان کے ذکروفکر سے ماحول کو لبریز کر رہاہے۔ شیخ الاسلام علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنے والد گرامی حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے علم و فن کو پائندگی دے رہے ہیں۔ اور آپ کو دیکھ کر آج کاعلمی طبقہ حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی علمی غزارت کوتسلیم کررہاہے۔ عرب و عجم کے مشاہیر جودوسروںکے کمالات کو ماننے کے لئے جلدتیار نہیں ہوتے وہ آج ان کے پروردہ نگاہ کی پوری کشادہ دلی سے انفرادیت کا اعتراف کر رہے ہیں۔
حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے قرآن و حدیث اور اسلامی علوم خود پوری بالغ نظری سے پڑھے اور پھر رسوخ کے ساتھ اپنے جگر گوشہ کو پڑھائے۔ قرآنی معارف سور ج کی طرح روشن و منور تھے۔ اور قرآنی مفاہیم کی گرہ کشائی کا درس اس اندازمیں دیا کہ ترجمہ عرفان القرآن کے لفظ و معنیٰ کے ربط میں حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی روح جھومتی دکھائی دیتی ہے۔ احادیث کا مآخذ قرآن حکیم کی آیات سے جیسے واضح کیا جا رہاہے اور مختلف الاحادیث میں تطبیق اور عقائد اہلسنت کی حقانیت کی دل آویز شرح المنہاج السوي من الحدیث النبوي ﷺ کے نام سے جو سامنے آرہی ہے اس سے اقوال متعارض نہیں بلکہ ایک دوسرے سے مطابقت لئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کی روح اپنے فیض تربیت کے اس انداز درسِ حدیث سے سرشار ہو رہی ہوگی اور عالم برزخ میں کیف و لذت پارہی ہوگی۔ قرآن و حدیث کے تمام بیانات کو سامنے رکھ کر مسئلہ کی ایسی تنقیح کہ جس سے چاروں فقہاء اپنے افکارو نظریات کے اعتبار سے ایک دوسرے سے قریب نظر آتے ہیں، یہ اندازِ فقہ و اصول فقہ اور افتاء کا ایسا منہج ہے جو حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہنے اپنے پروردہ نگاہ کو اس طرح پڑھایا کہ آج جب یہ برت رہے ہیں اور اُلجھی گتھیاں سلجھا رہے ہیں تو عالم برزخ میں حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی روح خوش ہو کر مزید لافانی برکات کے لئے دعائیں مانگتی ہوگی۔ حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ بیدار مغز دانش ور تھے اور وہ تمام ممتاز اہل علم کی خصوصیات سے کماحقہ آگاہ تھے۔ ہر اہل علم کے علمی تفوق کوبصدق دل تسلیم کرتے تھے۔ ساتھ ہی ان کے بعض علمی تفردات کی بھی نشاندہی کرتے۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللّٰہ کی ذکاوت و ذہانت کو تسلیم کرتے ہوئے عربیت میں ان کی منطق و معقول میں عدم حذاقت اور مزاج کی بے اعتدالی کی نشان دہی بھی پوری جرأت کے ساتھ کرتے۔ حضرت ابن العربی رحمہ اللّٰہ کے غوامض و اسرار کے جہاں اسیر تھے، وہاں برملا فرمایا کرتے کہ ان کو سمجھنے کے لئے محض متون صرف و نحو کے حافظ، فلسفہ ومنطق کے حاذق ہی نہیں بلکہ قلب و باطن کی پاکیزگی بھی ضروری ہے، تب جا کر دل و دماغ کے علمی اشکالات جومسلسل چبھن کاباعث بنتے ہیں ان کاسدباب ہوتا ہے اور فیضیابی کا سلسلہ شروع ہوتاہے۔
حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ حنفیت میں استحکام کے باوجود دوسرے ائمہ رجال علم کے کمالات کوتسلیم کرنے میں فراخ حوصلہ تھے۔ انہوں نے اپنے پروردہ نگاہ کو ایک ایک میدان اور کام میں طاق کیا۔ امام شافعی رحمہ اللّٰہ کے رئیس الاذکیاء ہونے کے علمی ثبوت فراہم کئے اور ان کے ذوق علمی سے فیضیاب کیا۔ امام دائود ظاہری کے ذکی ہونے پر دلائل دئیے، امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللّٰہکے جبل العلم کا ثبوت بخاری کے درس میں فتح الباری کے مطالعہ سے دیا۔ امام ابن عبد البرالمالکی رحمہ اللّٰہ کے اعتدال کی نشان دہی کی۔ امام ابن حزم رحمہ اللّٰہ اندلسی کی حدت مزاجی و تیزی قلم کاراز بتایا۔ امام رازی رحمہ اللّٰہ کے لطائف ودقائق سے آگاہ کیا۔ امام ابن نجیم رحمہ اللّٰہ کے فقیہ النفس ہونے کے ملکہ راسخہ پر توجہ مرکوز کرائی۔ امام بدرالدین عینی رحمہ اللّٰہاورابن ہمام رحمہ اللّٰہ وغیر ہم جیسے نابغہ روزگار محققین کے ذوق و مزاج سے آشناکیا۔ اور سلف صالحین کی روحانیت اور ان کی علمی ذوق چشیدگی کو برت کو ایسا گھول کر پلایا کہ اب پروردہ نگاہ فرید ایک ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ روحِ فرید رحمہ اللّٰہ یہ سب کچھ دیکھ کر وجد وکیف میں جھوم رہی ہوگی۔ غرض شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی نشست و برخاست، رفتار و گفتار، مجلس عام و خاص، درس وتقریر ہرایک ادائے دل نواز میں حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کو دیکھا جاسکتاہے۔ تحریک منہاج القرآن کے اندرون و بیرون ممالک تابناک علمی و فکری نیٹ ورک کو دیکھ کر خود چشم فلک بھی مبتلائے حیرت ہے۔ پروردہ نگاہ فرید رحمہ اللّٰہ بیک وقت جلائے باطن کا سبق دے رہی ہے۔ فکر کو مستقیم، عقائد میں واضحیت، اعمال میں تطہیر اورفکر و عقیدہ میں دانش و بنیش کی تقسیم کررہے ہیں، فلسفہ و منطق کی گتھیاں سلجھا رہے ہیں۔ فقہ و ادب میں انفرادیت کا منہاج متعین کرتے جا رہے ہیں۔ اسرار قرآنی اوررموز ربانی کی ایسی نقاب کشائی کر رہے ہیں جس سے وجدان جھوم جھوم جائے۔ یہ سب کچھ حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کا فیضانِ علم تموج پذیر ہے۔ کسب و اکتساب اوراخذو قبول کاسارا منہاج انہی کے ذوقِ تربیت کامر ہونِ منت ہے۔
ایک تحقیق ہے کہ علم سمع بصر وغیرہ وہ ملکات ہیں جو اللہ تعالیٰ نے ہرانسان کوایک خاص انداز سے مرحمت فرمائے ہیں۔ اور ان علمی کاوشوں سے ان میں کوئی اضافہ نہیں ہوتابلکہ ان سے جو کچھ اضافہ ہوتاہے وہ اس کی معلومات، مسموعات اور مبصرات میں ہوتاہے، اس زاویہ نظر سے ہمارے خیال میں آتا ہے کہ علوم و فنون کے سمندروں کی گہرائیوں میں اترکر گراں قدرعلمی جواہرات و موتیوں کو نکالنا ہرعالم کی دسترس سے باہرہے۔ اور اس قسم کاعلم جو اخص الخواص موہبت باری سے حضرات انبیائے کرام کے بعد ائمہ اہل بیت اور صحابہ ص کو اور پھر خال خال اکابر امت کو عطا ہواہے۔ میرا اپناتا ثر حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ اور آپ کے پروردہ تربیت کے بارے میں بھی یہی ہے کہ وہ اسی خاص قسم کے علم سے نوازے گئے ہیں۔
حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی بیان فرماتے ہیں۔ ’’کہ اباجی قبلہ کو مطالعہ کا ذوق عشق کی حد تک تھا۔ کھانے اور آرام کے وقفے کے دوران بھی مطالعہ جاری رہتا تھا۔ ‘‘مکتبہ فرید یہ قادریہ کی سینکڑوں کتب میں کوئی کتاب ایسی نہیں جو ان کے نظر سے نہ گزری ہو۔ ورق گردانی ان کا وظیفہ حیات تھا۔ وہ فرمایا کرتے تھے ’’کہ فارغ التحصیل ہونے یا حصول سند کو کبھی منتہائے مقصود نہیںسمجھنا چاہیے۔ ‘‘فراغت کا حاصل صرف اتنا ہے کہ اس کے بعد طالب علم میں قوت مطالعہ پیدا ہوجاتی ہے اورعلم کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ اب یہ فارغ ہونے والے طالب علم کا کام ہے کہ وہ علم کی چند کلیوں پر قناعت کرنے کے بجائے اس دروازے میں داخل ہو اور اس قوت مطالعہ کو کام میں لاکر علم میں وسعت و گہرائی و گیرائی پیدا کرے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی ہمہ وقت مطالعاتی انہماک و استغراق میں ڈوبے رہتے ہیں۔
حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے اپنے ذاتی کتب خانہ میں تمام علم وفن پر بنیادی کتابیں موجود تھیں۔ حضرت کی ذاتی لائبریری صرف اپنی ہی نہیں بلکہ دوسرے اہل علم کی بھی علمی پیاس بجھاتی تھی۔ یہاں تک کہ بڑے بڑے نامی گرامی علمائے کرام کو جب کسی مسئلے کی تحقیق کرنی ہوتی تو وہ آپ کے ہاں تشریف لاتے۔ اورہفتوں کتابوں کی ورق گردانی کا سلسلہ رہتا تھا۔ جب کبھی حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کسی جگہ تشریف لے جاتے اورو ہاں کچھ کتابیں نظر پڑ جاتیں تو یہ ممکن ہی نہ تھا کہ آپ ان پر ایک نظر ڈالے بغیر گزر جائیں۔ اور کوئی کتاب پہلے ہی سے دیکھی ہوئی ہوتی توخیر ورنہ کتنی ہی جلدی کا وقت ہوتااسے الٹ پلٹ کر دیکھنا لازمی تھا۔ پروردہ نگاہ فرید بیان فرماتے ہیں’’ کہ جب میں کوئی نئی کتاب لے کرآتا تواباجی قبلہ اسے چند روز اپنے قریب رکھتے اورخواہ کتنی مصروفیات میں الجھے ہوئے ہوتے اس کے مطالعے کے لئے وقت نکال لیتے تھے۔ ‘‘ مختلف علوم سے آپ رحمہ اللّٰہ کی دلچسپی کے مختلف ادوار گزرے ہیں۔ آغاز میں ادب، معقولات یعنی منطق، فلسفہ، کلام اور ہئیت میں دلچسپی تھی۔ اس فن کے اونچے درجے کی کتب پڑھائیں اوروہ آپ رحمہ اللّٰہ کاخصوصی موضوع بن گیا۔
آخر ی عمر میں آپ کوسب سے زیادہ ذوق اور سب سے زیادہ شغف علم تصوف کے ساتھ ہو گیا تھا۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ فرمایا کرتے تھے، کہ دل یوں چاہتا ہے کہ اسی ذوق میں عمر تمام ہوجائے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ آرزو پوری فرمائی اور سلوک و تصوف ہی آپ رحمہ اللّٰہ کا آخری محور فکر ثابت ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی تربیت نے آپ میں علم کی اتنی پیاس پیدا کر دی ہے کہ آپ کو اپنی کتابوں کے علاوہ کسی چیز کاہوش نہیں ہوتا۔ نہ اپنی صحت کی خبر، نہ جان کی، ایک علم کی لگن ہوتی ہے۔
حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کی علمی شخصیت اور حیثیت ایک گنج مخفی ہے۔ تاہم ان کے فرزند ارجمند اور جگر گوشہ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ان سے متعلق کتنے گراں قدر بیش بے بہا موتی چھپائے ہوئے ہیں، ان تک ہر نظر کی رسائی نا ممکن ہے۔ اس لیے ’’الولد سرلابیہ‘‘ کا مصداق بن کر وہ اپنے نامور والد گرامی کے ان گوہر ہائے مخفی تک رسائی کیلئے راستہ دکھا رہے ہیں۔ اور ان کے زیر مطالعہ رہنے والی امہات الکتب جن پر انہوں نے اپنے قلمی جواہر ریزوں، دقائق لطیفہ اور نکات عجیبہ کو دوران مطالعہ نشان زد کیا، ان کتب کو فرید ملت ریسرچ انسٹی ٹیوٹ مرکز منہاج القرآن لاہور کیلئے وقف کر دیا ہے۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ مطلوبہ عنوان کی تیاری کیلئے پہلے بڑی محنت و جاں فشانی اور حاضر دماغی سے کتب کا مطالعہ کیا کرتے تھے۔ پھر اس میں سے مناسب مضامین اخذ کرتے، پھر انہیں یک گونہ مگر واضح و سلیس انداز میں کتب کے شروع میں نوٹس و حواشی اور انڈکس کے طور پر قلم بند فرمایا کرتے تھے۔ یہ کام کتنا کٹھن ہے اسے وہی لوگ جان سکتے ہیں جنہوں نے کبھی اس ہفت خواں کی سیر کی ہو۔
کجاد انند حال ما سبک ساران ساحلہا
قدرت نے انہیں ذہانت و فطانت اور قوت حافظہ کے ساتھ مطالعہ کا حد درجہ ذوق و شوق عطا فرمایاتھا۔ جملہ علوم و فنون پر مہارت تامہ رکھتے تھے۔
حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ نے اپنے زیر مطالعہ کتب پر حسب ضرورت بڑی دقیقہ سنجی کے ساتھ نکات لکھے ہیں۔ ان کو پڑھنا اور سمجھنا خود ایک مہارت کا کام ہے۔ علم سفینہ اپنی جگہ مسلم مگر علم سینہ کی بات ہی کچھ نرالی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اخلاص عمل کے وسیلہ جلیلہ سے سینہ اسرار و معارف کا گنجینہ بن جاتا ہے۔ عبادات نافلہ کے ذریعہ تقرب الی اللہ نصیب ہو جائے تو باری تعالیٰ خود کان بن جاتا ہے، وہ آنکھ بن جاتا ہے، وہ ہاتھ بن جاتا ہے، جس کا وہ کان بن جائے اس کی سماعت کی سرعت کی کیفیت کا اندازہ لگانا مشکل ہے، جس کی وہ آنکھ بن جائے، اس کی بصارت و بصیرت کا جہان ہی اور ہوتا ہے۔ جس کا وہ ہاتھ بن جائے اس کے اقتدار و اختیار کا حال جاننا ہمارے جیسے کوتاہ دست اور کم مایہ کا مشکل ہے۔ دانش نورانی جب اپنا جلوہ دکھاتی ہے تو دانش برہانی حیران رہ جاتی ہے۔
اک دانش نورانی اک دانش برہانی
ہے دانش برہانی حیرت کی فراوانی
حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ قدرت کے ان مقرب بندوں میں تھے جن کو فہم و بصیرت کے سہارے تو بہت کچھ ملا ہی تھا مگر فیض ربانی سے ’’بیٹے‘‘ کی صورت میں وہ کچھ ملا جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وہ بصیرت ہے جس کی جھلک ان کے جگر گوشہ میں نظر آتی ہے۔ یہی وہ فکر رسا ہے جس کو دیکھ کر اہل علم حیران ہو جاتے ہیں۔ حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ ایک ایسا بحر بے کراں تھا جہاں سے بے شمار نہریں پھوٹتی دکھائی دیتی ہیں۔
علامہ فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کے مطالعہ و تحقیق کا معیار اور ذوق بہت بلند تھا۔ کبھی سنی سنائی پر تکیہ نہ فرماتے بلکہ اصل متون کا خود مطالعہ فرماتے۔ اور جب تک خود مطمئن نہ ہو جاتے حوالہ نہ دیتے۔ ان کے پایۂ تحقیق کا اندازہ ان کے زیر مطالعہ رہنے والی کتب سے ہوتا ہے۔ وہ نکات اخذ کیے ہیں جوشایدکسی اورکے وہم و گمان میں بھی نہ ہوں۔ اتنی باریک بینی سے مطالعہ اور علم میں انہماک و استغراق موجودہ دور میں عنقا ہے۔ کتاب کو پڑھنے اور کھنگالنے کا حق ادا کیا ہے۔ کتابوں پر نشان زدہ عبارات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ ایک محتاط محقق اور بلند پایہ دانشور تھے۔ جو فاضل محقق بھی مکتبہ قادریہ کی کتابوں کا مطالعہ کرے گا وہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہکے تبحر علمی اور اخذ و استنباط مسائل میں کمال مہارت کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکے گا۔
کتب احادیث، کتب شروحات حدیث، کتب اصول حدیث، کتب عقائد، کتب فقہ، کتب سیرت، کتب تصوف اور کتب تاریخ۔
1۔ مذکورہ بالا کتب کی نشان زدہ عبارات کو مقالہ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
2۔ مذکورہ بالا کتب کی نشان زدہ عبارات کی روشنی میں مندرجہ ذیل محاسن و محامد کھل کر سامنے آ جاتے ہیں:
حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہکے متنوع اور عمیق مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس انداز سے تحقیق فرماتے کہ بات کی تہہ تک پہنچ جاتے تھے، تاریک گوشوں کو منور کر دیتے تھے، کبھی ایک اصل کے تحت جزئیات جمع کر دیتے ہیں، کبھی اصول کی روشنی میں نئے جزئیات کا استخراج کرتے نظر آتے ہیں، جس سے ان کی وسعت فکر و نظر اور قوت استنباط کا پتہ چلتا ہے۔
حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے آغازمیں ہی اپنے پروردہ نگاہ میں اتنی قابلیت اور تربیت پیدا کر دی تھی کہ بسا اوقات بعض پیچیدہ فقہی تحقیقات اور مسائل میں اختلاف بھی ہو جاتا۔ اپنے اپنے دلائل اور اشکالات پیش کئے جاتے۔ کبھی بیٹا اور شاگرد اپنے باپ اور استاد کی تحقیق کے سامنے سر تسلیم خم کردیتا، کبھی باپ اور استاد اپنے بیٹے اور شاگرد کی تحقیق کو ترجیح دے کر اپنی رائے سے رجوع کرلیتا۔ اور اگر کبھی ایک دوسرے کے دلائل میں پورے غور وفکر اور باہمی مشوروں کے باوجود اختلاف رائے باقی رہتا تو پھربھی اپنے پروردہ نگاہ کی رائے کو مقدم گردانتے۔
پروردہ نگاہ کو کوئی اشکال ہوتا تو اسے طالب علمانہ اسلوب میں نہایت ادب و احترام کے ساتھ مگر خوب مدلل انداز میں پیش کرتے، اشکالات پیش کرنے کا انداز ایسا متواضعانہ اور مدلل ہوتا کہ جواب میں باپ اور استاد کے منہ سے بے ساختہ دعائیں نکلتیں، حسن نظر کی بھی داد ملتی، حسن بیان اور حسن ادب کی بھی، حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے اپنے پروردہ نگاہ کی تحقیق وتنقید بے نفسی اور حق پرستی میں ایسی تربیت کی کہ آج کی دنیا میں اس کی مثالیں نایاب ہیں۔
آج کل تو استاد اور شاگر د کے اختلاف کو تنقیص و تذلیل کا نام دے دیا گیا ہے۔ کسی سے عقیدت ہوتو ’’اینک ماہ پروین‘‘کی صدائیں بلند ہونے لگتی ہیں، عقیدت نہ ہو تو اس کی ہر دلیل صدا بصحرا ثابت ہوتی ہے۔ جوبات ایک مرتبہ زبان یا قلم سے نکل گئی، پتھر کی لکیر بن کر وقار کا مسئلہ بن جاتی ہے، لیکن یہ تمام باتیں نفسانیت کی پیداوار ہیں۔ اور جہاں مقصود ہی حق کی تلاش ہو وہاں یہ سوال نہیں پیدا ہوتا کہ کہنے والا میری رائے کے موافق کہہ رہاہے یامخالف، وہاں نظر اس پررہتی ہے کہ کیاکہہ رہاہے، کس دلیل سے کہہ رہاہے، چنانچہ حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے اپنے پروردہ نگاہ کوآغاز سے ہی اس انداز سے پروان چڑھایا۔ یہی وجہ ہے کہ اساتذہ اور بزرگوں کی عظمت وعقیدت ان کے رگ و ریشے میں سمائی ہوئی ہے، لیکن یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ آپ کبھی اس عقید ت کو مسائل کی تحقیق و تنقید میں حائل نہیں ہونے دیتے۔ اور نہ کبھی اپنی تنقید سے کسی کی عظمت وعقیدت پر حرف آنے دیتے ہیں۔
آج کسی سے عقیدت اور اسی پر علمی تنقید کو اگرچہ باہم متعارض سمجھا جاتا ہے۔ لیکن پروردہ نگاہ فرید رحمہ اللّٰہ ان دونوں متعارض باتوں کوہمیشہ ساتھ لے کر چلنے کے عادی ہیں۔ ایسا کرنا مشکل ضرور ہے۔ لیکن اس مشکل کو آپ جس خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں وہ اہل علم کے لئے قابل تقلید نمونہ ہے۔
صرف و نحو، ادب، فقہ اورمعقولات یعنی منطق، فلسفہ، کلام، ہیئت اورریاضی کے علوم میں بھی حضرت علامہ ڈاکٹرفرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کامیاب مدرس تھے۔ چونکہ انہوں نے یہ علوم ایسے اساتذہ سے پڑھے تھے جو اپنے وقت میں معقولات کے امام سمجھے جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ان علوم میں بھی راسخ استعداد عطا فرمائی تھی، چنانچہ ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ جب آپ رحمہ اللّٰہ معقولات کے ماہر کی حیثیت سے معروف ہوئے لیکن ساتھ ہی اہل اللہ کی اور مرشد کی تعلیم و تربیت اور ان کی صحبت کے اثر سے یہ حقیقت ان کے ذہن وقلب میں پیوست ہوگئی کہ یہ علوم ایک طرف تو مقصود بالذات نہیں، بلکہ محض آلے اوروسیلے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اوردوسری طرف ان علوم میں اجتہاد کاباب بھی بہت وسیع ہے۔ اور ان میں فلاسفہ کے فتوئوں کی تقلید ضروری نہیں۔ حضرت فرید ملت اپنے فرزند کو ان علوم کی تدریس کے دوران صرف کتاب کو سمجھانے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ زیربحث مسائل میں اپنی تحقیق سے بھی روشناس فرماتے تھے۔ ان کے نزدیک معقولات کی تدریس میں جب انہماک زیادہ ہو جائے تو بعض اوقات یہ حقیقت نظروں سے اوجھل ہو جاتی ہے کہ ان کوپڑھنا پڑھانا بذاتِ خود مقصود نہیں۔ بلکہ منطق تومحض آلہ ہے اورفلسفہ اس لئے پڑھایا جاتا ہے کہ ایک عالم دین کو ان نظریات کا صحیح علم ہو جو دین کے خلاف استعمال کئے جاتے ہیں۔ اور پھر وہ ان کی مدلل و مؤثر تردید کرسکے۔ حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ نے منطق و فلسفہ کا درس دیتے ہوئے یہ حقیقت طلبہ کے ذہن نشین کرا دی کہ ان عقلیات میں بذاتِ خود کچھ نہیں رکھا۔ اور اگر انسان کو وحی ربانی کا نورِ ہدایت حاصل ہوتو وہ ان عقلی گھوڑوں سے کبھی مرعوب نہیں ہوسکتا۔ حضرت علامہ ڈاکٹرفریدالدین قادری رحمہ اللّٰہ کو اس بات کابھی احساس تھاکہ جس طرح ہمارے قدیم متکلمین نے یونانی فلسفے میںمہارت حاصل کرکے اس کی تردید فلسفیانہ زبان ہی میں کی تھی، اسی طرح موجودہ دور کے علماء کوجدید فلسفہ میں مہارت حاصل کر کے وہی کام از سر نو انجام دینا چاہیے، اس غرض کے لئے انہوں نے اپنے فرزند کو جدید فلسفہ کے لئے درس بھی دیاتھا۔ حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کی یہ خواہش ضرور تھی کہ ایسے دانش ور پیدا ہوں جو جدید فلسفہ پر مکمل دسترس حاصل کر کے عہد جدید کا ’’نیا تہافۃ الفلاسفہ‘‘ تصنیف کر سکیں اور اسی مقصد کے لئے انہوں نے اپنے پروردہ نگاہ کوجدید تعلیم دلوائی۔
حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرا لقادری نے ابتداء ہی سے معقولی و منطقی و فلسفی ذہن پایا ہے۔ بجا ہے کہ زیادہ تر توجہ تفسیر، حدیث، فقہ اور تصوف جیسے ٹھیٹھ دینی علوم کی طرف رکھی ہے۔ کیوں کہ یہی علوم مقصود بالذات ہیں اور انہی سے دنیا و آخرت سے متعلق حقیقی عملی رہنمائی حاصل ہوتی ہے، معقولات کاچوں کہ یہ مقام نہیں ہے اس لئے اس کوخصوصی توجہ کامرکز نہیں بنایا، لیکن معقولیت و منطقیت ایسی صاف ستھری اور اجلی تربیت میں پائی ہے کہ ہر بات کومعقول اور متوازن انداز سے اپنانے کے خوگر ہو گئے ہیں، اعتقادیات میں واضحیت کا ایک سبب معقولی انداز تدریس و تعلیم وتربیت بھی ہے۔ حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’ایسا غوجی‘‘، کی شرح قلم بند کی تھی، جو بعد میں گم ہوگئی۔
فلسفہ اورعقلیات کی حقیقت اور اس کے ’’پائے چوبیں‘‘ کی ناپائیداری حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ پرروزِ روشن کی طرح عیاں تھی، لیکن جب کبھی آپ کے سامنے مختلف اہل علم کی طرف سے یہ تجویز پیش ہوتی کہ معقولات کو درس نظامی سے نکال دیا جائے توحضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ اس کی سخت مخالفت فرماتے تھے۔ اوراس کی وجہ یہ ہے کہ تفسیر، حدیث، فقہ، اصولِ فقہ اور عقائد پر متقدمین کی کتب معقولات کی اصطلاحات سے بھرئی ہوئی ہیں۔ اور اگر قدیم منطق و فلسفہ کوبالکل دیس نکالا دے دیا جائے تو سلف صالحین کی کتب سے خاطر خواہ استفادہ کی راہ مسدود ہو جاتی ہے، اس کے علاوہ منطق و فلسفہ کی تعلیم سے ذہن و فکر کو جلاملتی ہے۔ اور ذہن مسائل کو مرتب طریقے سے سو چنے کاعادی بن جاتا ہے۔ اور اس طرح یہ علوم، تفسیر، حدیث، فقہ اور اصول فقہ کے مسائل کو سمجھنے میں معاون ہوتے ہیں۔ اس اندازو اسلوبِ تدریس کا شاہکار پروردۂ نگاہ کی ذات والا صفات ہے۔
علوم متداولہ میں فقہ اور اصولِ فقہ کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کو ان سے بڑی مناسبت عطا فرمائی تھی۔ اسی مناسبت طبعی کانتیجہ ہے کہ اپنے پروردہ نگاہ کی ان دونوں علوم میں ایسی مناسبت پیدا کی کہ اکابر اہل علم نے بجا طور پر حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ’’فقیہ النفس‘‘کا لقب دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ خاص عطا ہے اورظا ہری اسباب میں اس طرز عمل کانتیجہ ہے جو حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے اختیار فرمایا تھا۔ اوروہ فطری طور پر جگر گوشہ میں بھی منتقل ہوا ہے۔ وہ چار چیزیں حسبِ ذیل ہیں:
ان چاروں باتوں کے مکمل اہتمام کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے دونوں استاد اورشاگرد باپ اور بیٹے کو فقہ و اصولِ فقہ میں وہ مقام بخشا ہے کہ جس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی۔
’’فقیہ النفس‘‘ فقہاء کی ایک اصطلاح ہے اور اس سے مراد وہ آدمی ہوتاہے، جسے اللہ ربُّ العزت نے فقہ و اصولِ فقہ میں کثرت ممارست و مہارت کے بعد ایک ایسا ذوق سلیم عطا فرمادیا ہو کہ جس کی روشنی میں وہ کتب فقہ کی مراجعت کے بغیر بھی صحیح نتیجے تک پہنچ سکتا ہو۔ ہمارے جیسے کمترین بے علم و عمل طالب علم کا یہ منصب نہیں ہے کہ وہ کسی کے بارے میں فقیہ النفس ہونے کا فیصلہ کر ے۔ کیونکہ فقیہ النفس کی پہچان بھی انہی لوگوں کا حصہ ہے جنہیں اللہ ربُّ العزت نے تبحر علمی سے نوازا ہو۔ الشیخ اسعد محمد سعید الصاغر جی مدظلہ العالی، شیخ محمد ابو الخیرالشکری اورالشیخ شہاب الدین احمدالفرفور جیسے شام کے اربابِ علم و عرفان نے شیخ الاسلام کو فقیہ النفس کاخطاب دیا ہے۔
یہ لقب وہ ہے جو اہل علم نے علامہ ابن عابدین شامی رحمہ اللّٰہجیسے وسیع العلم کو بھی نہیں دیا، بجا طور پر یہ لقب علامہ ابن نجیم رحمہ اللّٰہجیسے محققین پرر است آتا ہے۔ حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے تبحر علمی اوروسعت معلومات کی بناء پراگر فقیہ الشام الشیخ اسعد محمد سعید الصاغرجی جو ’’الفقہ الحنفي وأدلّتہ‘‘ اور’’شعب الایمان‘‘ جیسی عظیم کتب کے مصنف اور مؤلف نے کہہ دیا ہے تویہ بے جا نہیں ہے۔ شیخ نے آپ کے علم و فضل کی محض رسمی تعریف نہیں کی، بلکہ باقاعدہ آپ کوصحیح معنیٰ میں فقیہ النفس کا خطاب دیاہے۔ اورجولوگ شیخ کی تصانیف اور ان کے تبحر علمی سے واقف ہیں انہیں اندازہ ہوگا کہ ان کے الفاظ کو کسی تصنع یا مبالغہ پر محمول نہیں کیا جاسکتا۔
پروردہ نگاہ فرید کوا صطلاحاً فقیہ النفس کہنا توشیخ الصاغرجی مدظلہ العالی یا انہی کے پائے کے کسی عالم کامقام ہے، تاہم اتنی بات ضرورہے کہ ان کے یہ محامد استاد کی علمی لیاقت پر دال ضرور ہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فقاہت اورافتاء کی باریک بینی کے پس منظر میں حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی فقاہت کے بارے میں کچھ عرض کرتا ہوں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ محض فقہاء کی کتب کی جزئیات یادکرلینے سے کوئی عالم یامفتی نہیں بنتا۔ ایسے بہت سے حضرات موجود ہیںکہ جنہیں فقہی جزئیات ہی نہیںان کی عبارات بھی ازبرہیں، لیکن ان میں فتوی کی مناسبت نظر نہیں آتی۔ وجہ یہ ہے کہ درحقیقت ’’فقہ ‘‘ کے معنیٰ سمجھ کے ہیں۔ اور فقیہ وہ شخص ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دین کی سمجھ عطا فرما دی ہواور یہ سمجھ محض وسعت مطالعہ یا فقہی جزئیات یاد کرنے سے پیدا نہیں ہوتی، بلکہ اس کے لئے کسی ماہر فقیہ کی صحبت اور اس سے تربیت لینے کی ضرورت ہے۔ پروردہ نگاہِ فرید کے فقہی اور افتائی ذوق اورممارست کے محاسن پر بہ دقت نظرغور کیا جائے تو حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے تفقہ کے نقوش نکھر کر سامنے آ جاتے ہیں۔ وہ کیا باتیں ہیں جو محض مطالعہ یا فقہی جزئیات یاد کر نے سے حاصل نہیں ہوتیں۔ اس سوال کا جواب یہی ہے کہ اگریہ باتیں بیان میں آسکتیں تو پھر انہیں سیکھنے کے لئے کسی سے تربیت لینے کی ضرورت نہ ہوتی۔ اب ان کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے کہ انہیں منضبط شکل میں مدون نہیں کیا جاسکتا۔ اور نہ متعین الفاظ میں ان کی تعبیر و تشریح ممکن ہے گویا ’’بسیار شیوہ ہااست بتاں راکہ نام نیست ‘‘ان باتوں کے حصول کاطریقہ ہی یہی ہے کہ کسی ماہر فقیہ کے ساتھ رہ کر اس کے اندازِ فکر و نظر کامشاہدہ کیا جائے۔ اس طرح مدت کے تجربے اور مشاہدہ سے وہ اندازِ فکر و نظر خود بہ خود زیرتربیت شخص کی طرف منتقل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ پروردہ نگاہ فرید میں وہ اندازِ فکر ودیعت ہواہے۔
دیکھئے تقلید شخصی کوئی شرعی حکم نہیں ہے، بلکہ ایک انتظامی فتویٰ ہے۔ جس کا خلاصہ یہ ہے کہ چاروں ائمہ مجتہدین برحق ہیں۔ اورہر ایک کے پاس اپنے مؤقف کے لئے وزنی دلائل موجود ہیں۔ لیکن بہ یک وقت چاروں کی تقلید کی کھلی چھٹی دے دینا گویا اتباعِ ہوائے نفس کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے۔ اس لئے ہواوہوس کوروکنے کے لئے اور سلامتی کا راستہ یہی ہے کہ تقلید شخصی کولازمی تصور کیا جائے۔ تاہم اگر مسلمانوں کی کوئی شدید اجتماعی ضرورت داعی ہوتو اس موقع پر کسی دوسرے مجتہد کے مسلک پر فتویٰ دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ خاص طور سے بیع و شراء وغیرہ کے معاملات میں جہاں عموم بلوی عام ہو۔ وہاں ائمہ اربعہ میں سے جس امام کے مذہب میں عام لوگوں کے لئے گنجائش کا پہلو ہو اس کو فتویٰ کے لئے اختیار کرلیا جائے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللّٰہ نے ’’اسباب اختلاف الفقہاء ‘‘اور ’’عقد الجید‘‘ میں تقلید و اجتہاد کا جو مؤقف بیان کیا ہے یہی ذوق حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ نے اپنے زیر تربیت جگر گوشہ میں بیدار کیاہے۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ فقہائے امت نے فقہ کے جو متون مرتب کئے ہیں ان کی عبارات انتہائی جامع و مانع ہیں۔ اور حشوو زوائد سے پاک ہیں۔ چنانچہ ان متون میں کسی مسئلہ کو بیان کرنے کے لئے اتنے ہی الفاظ استعمال کئے ہیں جتنے ناگزیر ہوں، ان کا کوئی لفظ زائد نہیں ہوتا، بلکہ اس سے مسئلے کی کسی نہ کسی شرط کی طرف اشارہ ہوتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ فقہائے احناف قرآنِ و سنت کی نصوص میں تو مفہوم مخالف کو حجت نہیں مانتے، کیوں کہ قرآن وسنت کا اسلوب احکام کے بیان کے ساتھ ساتھ وعظ و تذکیر کے پہلو کو بھی ساتھ لئے ہوئے ہے اور اس میں بعض الفاظ اسی نقطہ نظر سے بڑھائے جاتے ہیں، لیکن فقہائے امت کی عبارات صرف قانونی انداز کی ہوتی ہیں۔ اس لئے ان عبارات میں مفہوم مخالف کا معتبرہونا فقہائے احناف نے تسلیم کیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ فقہائے امت کے کلام کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کے ایک ایک لفظ کے قانونی تقاضوں پرغورو فکر کر کے کوئی نتیجہ نکالا جائے، ان میں سے کسی ایک احتمال کواختیار کرنے میں ایک فقیہ اور مفتی کواپنی بصیرت سے کام لینا پڑتا ہے، بعض اہل علم کسی لفظ کے قانونی تقاضوں کو متعین کرنے میں اس کے لغوی مفہوم اور ٹھیٹھ منطقی نتائج کو اتنی اہمیت دیتے ہیںکہ اس سے مسئلہ کی علت اور اس کا صحیح سیاق و سباق پس پشت چلا جاتا ہے۔ اوربعض دیگر ارباب علم اس لفظ کے ٹھیٹھ منطقی نتائج پرزور دینے کے بجائے اس سیاق وسباق کو مدنظر رکھتے ہیں جن میں وہ بولا گیا ہے، خواہ اس سے لفظ کے منطقی نتائج پورے نہ ہوئے ہوں۔ پروردہ ٔ نگاہ فرید رحمہ اللّٰہ کا مزاج و مذاق ان دونوں کے درمیان ہے۔ کیوںکہ حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ پیشہ کے اعتبار سے حکم و طبیب تھے اور انہوں نے فقہ و فتاو ی کے میدان میں بھی ایک ماہر حکیم و دانا کے طور پر بیمار لوگوں کا معالجہ جسمانی وروحانی کا کام کیا۔ بعض اوقات زمانوں کے اختلاف سے حکم بدل جاتا ہے۔ اوریہ قانون تلفیق بعض طبائع قبول نہیں کرتیں اوروہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ علماء اپنی مرضی سے احکام شریعت میں احکام کی تبدیلی کرتے رہتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیں بلکہ حالات کے لحاظ سے نسخے اور تدبیر کی تبدیلی ہوتی ہے جیسے کسی علاقے پر کسی وبا کے مسلط ہونے کااندیشہ ہوتا ہے تواطباء ایسی تدبیر بتاتے ہیں جن سے اس دبائو کوروکا جاسکے، لیکن جب وباء آجاتی ہے تو پھرمعالجین کی تدبیریں بدل جاتی ہیں اور اس وقت ایسے نسخے بتائے جاتے ہیں جن کے ذریعے وہ بیماری آنے کے بعد شفاحاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے اپنے جگر گوشہ کوابتدائی تعلیم انگلش میڈیم سکول میں دلوائی۔ کیوں کہ جدید علوم و فنون یا کسی زبان کی تحصیل کوبذاتِ خود کبھی کسی نے حرام نہیں کہا۔ لیکن اس وقت چونکہ حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ اپنی خداداد بصیرت سے دیکھ رہے تھے کہ میرے لخت جگر نے جس دور میں تحریک اٹھانی ہے اس کے تقاضے کیا ہوںگے؟
ادب وہ پہلا موضوع تھا جس سے حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کو خصوصی دلچسپی پیدا ہوئی۔ اس کی بڑی وجہ غالباً یہ تھی کہ آپ نے عرب و عجم کے ان مشاہیر سے اکتساب فیض کیا جو حسنِ تعلیم و تربیت کے ساتھ عربی ادب کے بلند پایہ ادیب تھے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی تدریس کی ابتداء بھی صرف و نحو اور ادب سے ہوئی۔ آپ رحمہ اللّٰہ نے اپنے لخت جگر کو بھی پوری لیاقت کے ساتھ ان علوم میں طاق کیا۔ آپ رحمہ اللّٰہ نے نفحۃ الیمن، برقات الادب، حصہ اول و دوم، مقامات حریری، دیوان متنبی، دیوان حسان، دیوان حماسہ، سبعہ معلقہ اور قصیدہ بردہ کا درس دیا۔ ان کتب کو پڑھانے کا معمول یہ تھا کہ مطالعے کے دوران صرف اسی کے حواشی و شروح پر اکتفا نہیں کرتے تھے، بلکہ اس علم و فن کی غیر درسی کتابوں کا مطالعہ کر کے اس علم کے مزاج کو پہچاننے کی کوشش کرتے۔ چنانچہ مذکورہ کتب کی تدریس کے دوران آپ نے مختلف شعراء کے دوادین، ادب عربی کی تاریخ اور ادب کی بنیادی کتابوں کو مطالعے میں رکھا۔ اور اپنے فرزند کو ان سے خوب فیض یاب کیا، جس کی وجہ سے شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری میں عربی ادب کا بڑا ستھرا ذوق پیدا ہوا۔ ترجمہ عرفان القرآن کو ادبی پیرائے اور قواعد عربی کی رُو سے مطالعہ کیا جائے تو پروردہ نگاہِ فرید کے ادبی محاسن نکھر کر سامنے آجاتے ہیں۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کو مختلف شعرائے عرب کے اتنے اشعار یاد تھے کہ انہیں سن کر علامہ عبدالرشید رضوی جیسے ماہر مدرس حیرت زدہ رہ جاتے تھے۔ شعراء جاہلیت میں خاص طور پر امر القیس، زہیر، اعشی اور شعرائے اسلامیین میں حضرت حسان ص، حضرت کعب ص بن زہیر، ذوالرمیۃ، فرزدق، حمایین اور شعرائے مولدین میں متنبی ابو تمام اور ابو العتاہیہ کے اشعار انہیں بکثرت نوکِ زبان رہتے تھے اور ان شعراء سے آپ کو خصوصی مناسبت تھی۔
پروردہ نگاہ فرید رحمہ اللّٰہ کے بقول آپ کو تین قسم کے اشعار خاص طور پر زیادہ پسند آتے تھے۔ سب سے زیادہ وہ اشعار جن میں ہجر و فراق اور درد و سوز کا بیان ہوتا، دوسرے وہ اشعار جن میں کوئی حکمت کی بات خوبصورتی سے کہی گئی ہو۔ تیسرے وہ اشعار جن میں تشبیہات و استعارات کا اچھوتا پن ہوتا۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کو متنبی کی مبالغہ آرائی اور اس کا انداز تشبیب و مدح سرائی پسند نہ تھا لیکن چونکہ اس کے یہاں حکمت بھی بہت زیادہ ملتی ہے اس لئے اس کے بہت سے اشعار ازبر تھے۔ جن اشعار میں سوز و گداز پایا جاتا وہ تنہائی و خلوت میں پرسوز و ترنم سے پڑھتے تھے۔ تنہائی میں ان اشعار کو پڑھنے کا انداز یہ بتاتا تھا کہ یہ شعر محض برائے شاعری نہیں بلکہ ان کے پس منظر میں یادوں کا ایک جہاں پوشیدہ ہوتا۔ حرمین شریفین، بغداد اور شام الغرض مقدس مقامات کے مناظر کی نہ جانے کتنی دلگداز یادیں تھیں جو حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے لبوں پر یہ اشعار لے آیا کرتی تھیں۔ پرسوز اشعار کا تاثر بھی آپ رحمہ اللّٰہ کے دل پر بہت ہوتا تھا۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے مذاق شعری میں سادگی، بے تکلفی، برجستگی اور شعر کا سہل ممتنع ہونا بھی بڑا پسندیدہ پہلو تھا۔ شیخ القرآن علامہ عبدالغفور ہزاروی رحمہ اللّٰہ، غزالی زماں علامہ احمد سعید کاظمی رحمہ اللّٰہ، علامہ محمد عمر اچھروی رحمہ اللّٰہ، صاحبزادہ سید فیض الحسن رحمہ اللّٰہ شاہ آلومہاروی، خطیب شہیر علامہ سید افتخار الحسن شاہ زیدی رحمہ اللّٰہ، علامہ عنایت اللہ سانگلہ ہل جیسے صاحبان علم سے جب کبھی شاعری میں حسن ادا کی بات چلتی تو عام طور پر انہیں لطف لے کر سنایا کرتے تھے۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کو فارسی ادب میں سعدی رحمہ اللّٰہ، حافظ شیرازی رحمہ اللّٰہ، مولانا رومی رحمہ اللّٰہ اور عرفی و نظیری کے اشعار بھی کافی یاد تھے۔ خاص طور پر مولانا جامی رحمہ اللّٰہ اور مولانا رومی رحمہ اللّٰہ سے بڑی مناسبت تھی۔ مثنوی تو آپ رحمہ اللّٰہ کو اتنی زیادہ یاد تھی کہ عام طور سے تقریروں میں بھی اور گفتگو میں بھی مناسبت سے اس کے کئی کئی اشعار سناتے چلے جاتے تھے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے اپنے پروردہ نگاہ کو مثنوی پورے درد و سوز کے ساتھ پڑھائی اور تصوف کے اسرار و رموز اور دقیق پیچیدہ مسائل وحدت الوجود کو پورے شعور کے ساتھ سمجھایا۔
حضرت شیخ الاسلام نے اپنے والد گرامی کے منہج تعلیم و تدریس کے بارے میں وقتاً فوقتاً جو حقائق بیان فرمائے ہیں اُن کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
(1) حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے درس کی ایک نمایاں خصوصیت یہ تھی کہ سبق کے دوران طالب علم کے ذہن کو کبھی بوجھل نہ ہونے دیتے تھے۔ مشکل سے مشکل بحث ایسی سادگی اور سہولت سے مختصر وقت میں ذہن نشین کرا دیتے کہ طلبہ کو اس کے مشکل ہونے کا احساس ہی نہ ہوتا تھا۔ پورا درس دوران سبق ہی خوب یاد ہو جاتا تھا۔
(2) غیر ضروری اور غیر متعلق مباحث اور اُمور کے بیان سے اجتناب فرماتے، حل کتاب پر پوری توجہ دیتے اور اصل توجہ مضامین مقصودہ کی طرف رہتی، طلبہ کو بھی اسی طرف متوجہ رکھتے۔
(3) کوئی ضروری بحث یا مسئلہ مناسب تفصیل کے ساتھ ذہن نشین کرائے بغیر آگے نہ بڑھتے تھے۔
(4) حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے درس سے طلبہ کو صرف کتاب یا حواشی سے نہیں بلکہ فن سے مناسبت پیدا ہو جاتی تھی۔
(5) آپ رحمہ اللّٰہ کا درس رسمی مباحث کا پابند نہ تھا بلکہ جس زمانے میں جن مباحث کی زیادہ ضرورت محسوس فرماتے، ان پر زیادہ توجہ مرکوز فرماتے تھے۔
(6) جن مسائل کا تعلق زندگی کے جیتے جاگتے مسائل سے ہوتا یا جن سے عصر حاضر کی مشکلات کے حل میں مدد ملنے کی اُمید ہوتی، ان کو آپ رحمہ اللّٰہ خصوصیت سے زیر بحث لاتے تھے۔
(7) طلبہ کو درس کے مباحث اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں متحرک، زندہ ا ور رَچے بسے نظر آتے، وہ زندگی سے اپنی درسیات کا ربط و تعلق نمایاں طور پر محسوس کرتے۔ اور درس کی گہرائی و گیرائی اور وسعت کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے جو ان پر مطالعہ کے ذوق و شوق اور محنت و کامیابی کے در وا کر دیتا تھا۔
(8) آپ رحمہ اللّٰہ کے درس کا خاص اثر یہ تھا کہ عقیدہ کی واضحیت نکھر کر سامنے آجاتی تھی۔ متنازع عقائد پر سب سے پہلے اپنے عقائدِ صحیحہ کی اصلیت و حقیقت کو ذہن نشین کرواتے تھے۔
(9) حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے درس کا خاص اثر یہ تھا کہ طلبہ کے دلوں میں عشق رسول ﷺ کا جذبہ فروزاں ہو جاتا تھا انبیاء کرامؑ، صحابہؓ و اہل بیتؓ، ائمہ مجتہدین اور بزرگانِ سلف کی عقیدت و محبت جاگزیں ہو جاتی تھی۔
(10) دورانِ درس جن کتابوں کے حوالے آتے بسا اوقات ان کا اور اُن کے مصنّفین و مؤلفین کا مختصر تعارف بھی کرا دیتے تاکہ طلبہ میں ان کے مطالعہ کی بھی رغبت پیدا ہو۔
(11) کوئی طالب علم سوال کرتا تو اس کا سوال پوری توجہ سے سنتے۔ اور اس کی ہمت افزائی فرماتے، کوئی معقول اعتراض کرتا تو اپنی بات کی پچ کبھی نہ بھرتے، اعتراض کو قبول فرما لیتے، کسی سوال کا جواب فوراً مستحضر نہ ہوتا تو فرماتے کہ تحقیق کر کے اس کا جواب دوں گا، پھر ایسا جواب دیا کرتے کہ تشکیک کے کانٹے جڑ سے اُکھاڑ پھینک دیتے تھے۔
(12) علمی ذوق آپ رحمہ اللّٰہ کی زندگی کے ہر شعبہ پر غالب رہا، اپنے پروردہ نگاہ کو جس انہماک اور جانفشانی سے پڑھایا اس کی مثالیں دورِ حاضر میں نایاب ہیں، اسباق سے فارغ ہو کر وقفہ کے وقت یا رات کو اسباق کا ایسا تکرار کراتے کہ دیگر اساتذہ کے اسباق ازبر ہو جایا کرتے تھے۔ اپنے پروردہ نگاہ کو زمانہ طالب علمی ہی میں تکرار میں اتنا طاق کر دیا تھا کہ آپ کے تکرار میں طلباء اور ہم درس اتنی اہمیت سے شریک ہوتے کہ مستقل ایک درس کی سی صورت بن جاتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنے اساتذہ کے درس کو اتنا حفظ کر لیا کرتے تھے کہ جس طرح اُستاد نے پڑھا دیا من و عن اسی ترتیب سے اس کا آپ اعادہ کیا کرتے تھے۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے درسِ حدیث کی عجب شان تھی۔ جس کا اب عملی نمونہ حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دروس حدیث کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ اور نظری طور پر پروردہ نگاہ فرید رحمہ اللّٰہ نے اپنے عظیم القدر والد اور اُستاد کے درس حدیث کی بعض خصوصیات بیان فرمائی ہیں۔ جن کا خلاصہ حسب ذیل ہے:
(1) درسِ حدیث میں سب سے پہلے حدیث نبوی ﷺ کی مراد باعتبار قواعد عربیت اور بلاغت واضح فرمایا کرتے تھے۔ حدیث کی مراد کو علمی اور فنی اصطلاحات کے تابع نہ رکھتے۔ کیونکہ اصطلاحات بعد میں وضع ہوئیں اورحدیث نبوی زمانہ کے لحاظ سے پہلے تھیں۔ چنانچہ حدیث نبوی ﷺ کو اصطلاح کے تابع کر کے سمجھنے کی کوشش کرنا قرینہ ادب نہیں ہے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ مفسرین کی طرح اسرارِ بلاغت کو پہلے بیان فرمایا کرتے تھے۔ پروردئہ نگاہِ فرید رحمہ اللّٰہ بھی اسی منہج و اسلوب فہم حدیث پر گامزن ہیں ’’المنہاج السوی‘‘کی شرح میں بلاغی نکات کا خاص اہتمام حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے اندازِ تدریس کا عکاس ہے۔ استقامت کے موضوع پر حضرت شیخ الاسلام مدظلہ العالی کے دروسِ حدیث اِس کا بین ثبوت ہیں۔ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری شرح حدیث میں اکابر محدثین کے لطائف اور نکات کو پورے جذب اور کامل انہماک کے ساتھ بیان فرماتے جا رہے ہیں۔
(2) حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ خاص مقامات پرحدیث نبوی ﷺ کا مآخذو منبع قرآنِ حکیم سے بھی بیان فرمایا کرتے۔
(3) حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ بقدر ضرورت اسماء الرجال پر بھی کلام فرمایا کرتے خصوصاً جن رواۃ سے متعلق ائمہ محدثین کا اختلاف ہوتا اس پر جرح و تعدیل کے اختلاف کو بیان فرما کر اپنا مؤقف بھی بیان فرما دیتے تھے۔ کہ یہ راوی کس درجہ میں قابل قبول ہے۔ اس کی روایت حسن کے درجہ میں رہے گی یا صحیح کے درجہ میں یاقابل رد ہوگی یا قابل اغماض۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ اغماض اور مسامحت میں فرق کوواضح کیا کرتے تھے۔ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بھی اپنے والد گرامی کے تتبع میں فیصلہ کا طریقہ یہ رکھتے ہیں کہ جب کسی راوی کے جرح و تعدیل میں اختلاف ہوتا ہے تو یہ بتلادیتے ہیں کہ یہ راوی ترمذی کی فلاں سند میں واقع ہے اور امام ترمذی نے اس روایت کی تحسین یا تصحیح کی ہے۔ دفاع مقام حضرت سیدنا علی المرتضیٰ ص کے لیکچر میں آپ کا محدثانہ فہم حدیث نکھر کر سامنے آجاتا ہے۔ اور اِسی طرح حدیث ضعیف پر آپ کا محدثانہ اور متکلمانہ مؤقف بھی اپنی مثال آپ کا حامل ہے۔
(4) حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ فقہ الحدیث پر جب کلام کرتے تو پہلے ائمہ اربعہ کے مذاہب بیان فرمایا کرتے۔ اور پھر ان کے وہ دلائل بیان کرتے جو اس مذہب کے فقہاء کے نزدیک سب سے زیادہ قوی ہوتے۔ اورپھر ان کا شافی جواب دیتے۔ اور پھر امام ابو حنیفہ رحمہ اللّٰہ کے مذہب کی ترجیح بیان کرتے تھے۔
حنفیت کے لئے استدلال اور ترجیح میں قرآن و سنت کے تبادر اور سیاق و سباق کو پورا ملحوظ رکھتے۔ اور اس بات کاخاص لحاظ رکھتے کہ منشاء شریعت اور مقصد اس بارے میں کیا ہے۔ اور یہ حکم خاص اسلامی شریعت کے احکام کلیہ کے تو خلاف نہیں۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ شریعت کے مقاصد کلیہ کو مقدم رکھتے۔ احکامِ جزئیہ میں اگر بے تکلف تاویل اور توجیہ ممکن ہوتی تو اس کی توجیہ کرتے اگر تکلف معلوم ہوتا تو قواعد کلیہ کو ترجیح دیتے اور یہی طریقہ فقہائے امت کا رہا ہے۔
حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے درسِ حدیث میں رنگ حدیث غالب ہوتا۔ فقہ حنفی کی تائید و ترجیح تو ثابت فرمایا کرتے تھے لیکن اندازمحدثانہ ہوتا۔ فقہی مسائل میں کافی سیر حاصل بحث فرماتے۔ لیکن اسلوبِ بیان سے یہ کبھی مفہوم اخذ نہیں ہوتا تھا کہ آپ حدیث کوفقہی مسائل کے تابع کر رہے ہیں۔ اورکھینچ تان کرحدیث کو فقہ حنفی کی تائید میں لانا چاہتے ہیں۔ حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے درسِ حدیث سے یہ امر واضح ہوتا کہ آپ فقہ کو بحکم حدیث قبول کر رہے ہیں۔ حدیث فقہ کی طرف نہیں بلکہ فقہ کو حدیث کی طرف لایا جا رہا ہے۔ وہ آ رہا ہے اور کلیتاً حدیث کے موافق پڑتا جا رہا ہے۔ گویا حدیث کا سارا ذخیرہ فقہ حنفی کو اپنے اندر سے نکال نکال کر پیش کر رہا ہے۔ اور اسے پیدا کرنے کے لئے نمودار ہوا ہے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ اس سوال کہ کیا سارا ذخیرہ روایات حدیث صرف فقہ حنفی ہی کی حمایت کے لئے ہے؟ کا جواب نہایت محققانہ انداز میں دیا کرتے تھے۔ فرمایا کرتے تھے کہ ہر حدیث میں وہی کچھ ہے جو امام ابو حنیفہ رحمہ اللّٰہ نے سمجھا اور کہا ہے۔ اور اس پر بطور دلیل حنیفہ رحمہ اللّٰہشافعیہ رحمہ اللّٰہکے مشہور مختلف فیہ مسائل کی مثالیں دے کر تطبیق روایات اور ترجیح راجح کے اصول بیان کیا کرتے تھے۔ اور اس طرح واضح ہو جاتا تھا کہ ذخیرہ حدیث سے ہی فقہ حنفی سیراب ہوئی ہے۔
حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بیان فرماتے ہیں کہ حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ فقہ حنفی کی عظمت شان کو نمایا ں کرکے دکھلاتے کہ ہم محض قیاسی طور پر نہیں بلکہ نصوصِ حدیث کے سارے ہی ذخیرہ میں عیاناً وہ بنیادیں اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں جن پر فقہ حنفی کی تعمیر کھڑی ہوئی ہے۔ بہر حال درسِ حدیث میں حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے یہاں محدثانہ رنگ غالب تھا اورحدیث کو فقہ حنفی کے مؤید کی حیثیت سے نہیں بلکہ اس کے منشاء کی حیثیت سے پیش کیا جاتا تھا۔ اور دست بدست اس کے دلائل و شواہد سے اس دعویٰ کو مضبوط بنایا جاتا تھا۔ اور یہی شان پروردہ نگاہِ فرید کے فہم حدیث میں دکھائی دیتی ہے۔ دورۂ صحیح بخاری اور دورۂ صحیح مسلم (برمنگھم) کے دوران یہ محدثانہ شان پورے جوبن پر نظر آتی ہے۔
صحیح بخاری کا درس دیتے ہوئے اس کی متعدد شروح سامنے رکھتے تھے۔ مثلاً فتح الباری، عمدۃ القادری اور فیض الباری وغیرہم شروحات کو مد نظر رکھ کر اپنے پروردئہ نگاہ کو حدیث کا درس دیا کرتے تھے۔ ویسے بھی متونِ حدیث کی معتمد کتب کا ڈھیر آپ رحمہ اللّٰہ کے سامنے ہوتا تھا۔ اور تفسیر الحدیث بالحدیث کے اصول پر کسی حدیث کے بارے میں جو دعویٰ کرتے اسے دوسری احادیث سے مؤید ومؤثق کرنے کے لئے دورانِ درس کتب پر کتب کھول کھول کر دکھاتے جاتے تھے۔ اور اس طرح اپنی رہنمائی میں مطالعہ کتب کرواتے تھے۔ جب ایک حدیث کا دوسری احادیث کی واضح شرح و تفسیر سے مفہوم و مطلب متعین ہو جاتاتھا تو نتیجۃً وہی فقہ حنفی کا مسئلہ نکلتا تھا۔ یہ بات ذہن نشین کراتے تھے کہ حدیث فقۂ حنفی کو مستنیر و مستفیض کر رہی ہے۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ اس مؤقف کے سخت مخالف تھے کہ فقہ حنفی کی تائید میں خواہ مخواہ توڑ مروڑ کر احادیث کو پیش کیا جائے۔ کیونکہ اس طرح اصل مذہب حنفی قرار پاتا ہے۔ اورروایات حدیث کو محض مؤیدات کے طور پر اسے مضبوط بنانے کے لئے یہ ساری سعی کی جاتی ہے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے نزدیک اصل حدیث ہے لیکن جب بھی اس کے مفہوم کو سیاق و سباق اور دوسری احادیث باب کی تائید وتوثیق سے اسے متعین و مشخص کر دیا جائے تو اس میں سے فقہ حنفی کا پھول شگفتہ نکلتا ہوا محسوس ہونے لگتا ہے۔ اس لئے شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنے والد گرامی رحمہ اللّٰہ کے درس سے یہ ذوق لے کر پروان چڑھے کہ فقہ حنفی پر عمل کرتے ہوئے حقیقتاً ہم حدیث پرعمل کر رہے ہیں۔ اورحدیث کا جو مفہوم حضرت امام اعظم رحمہ اللّٰہ نے سمجھا ہے وہی دراصل صاحب قرآن ﷺ کامنشاء ہے جس کو روایت حدیث ادا کر رہی ہے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے یہ بخوبی باور کرایا کہ روایت حدیث سے امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللّٰہ اپنا کوئی مفہوم پیش نہیں کرتے بلکہ صرف شارع ں کا مفہوم پیش کر رہے ہیں۔ اور خود امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللّٰہ اس حدیث میں محض ایک ناقل کی حیثیت رکھتے ہیں۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے درس حدیث کی یہ ایک ایسی خصوصیت ہے کہ فقہ حنفی حدیث سے مستنیر دکھائی دے اور یہ امر متحقق ہو کہ حدیث مؤید فقہ نہیں بلکہ منشاء فقہ ثابت ہو یہ انداز موجودہ دور میں ناپید ہو چکا ہے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے اپنے پروردئہ نگاہ کی مجتہد فی التقلید یا محقق فی التقلید کے منہج پر تربیت کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مقلد ضرورہیں مگر ایسے محقق فی التقلید ہیں کہ تمام اجتہادی مسائل میں جہاں تقلید کرتے ہیں وہاں مسائل کی تمام حدیثی اور قرآنی بنیادوں کی تحقیق بھی ذہن میں رکھتے ہیں۔ بہر حال یہ عنوان آپ کے درس میں اس لئے نکھراہوا نظر آتا ہے کہ آپ کا غالب رنگ محدثانہ ہے اور ہر ہر مسئلہ کی تائید حدیث ہی سے کرتے ہیں۔
حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے درس کی خصوصیت یہ بھی تھی کہ آپ کے علمی تبحر اورعلم کے بحر ذخار ہونے کی وجہ سے درسِ حدیث صرف علوم حدیث ہی تک محدود نہ رہتا تھا بلکہ اس میں استطراداً ہوتا تھا کہ گویا علم و معانی کا یہ مسئلہ اسی حدیث کے لئے واضع نے وضع کیا تھا۔ معقولات کی مباحث آ جاتیں اور معقولین کے کسی مسئلہ کا رد فرماتے تو اندازہ ہوتا کہ یہ حدیث گویا معقولات کے مسئلہ ہی کی تردید کے لئے قلب نبوی ﷺ پر وارد ہوئی تھی۔ الغرض نقلی اور روائتی فن حدیث میں نقل وعقل دونوں کی مباحث آتیں اور ہر فن کے متعلقہ مقصد پر ایسی سیر حاصل اور محققانہ بحث ہوتی کہ علاوہ بحث حدیث کے وہ فنی مسئلہ ہی فی نفسہٖ اپنی پوری تحقیق کے ساتھ منقح ہو کر سامنے آجاتاتھا۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کا درس حدیث محض حدیث تک محدود نہ تھا بلکہ فقہ، تصوف، تاریخ، ادب، کلام، عقائد، فلسفہ، ہیئت، ریاضی اورسائنس وغیرہم تمام علومِ جدیدہ و قدیمہ پرمشتمل ہوتا تھا۔ اس لئے اس جامع درس کا فیض یافتہ اور پروردئہ طالب علم اس درس سے ہر علم و فن کا مذاق لے کر پروان چڑھتا۔ اور آغاز ہی میں پروردئہ نگاہِ فرید میں یہ استعداد پیدا ہوگئی تھی کہ وہ بضمنِ کلام الٰہی اور کلام رسول ہر فن میں محققانہ انداز میں کلام کرتے۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ درسِ بخاری میں تراجم کے حل کی طرف خاص توجہ فرماتے تھے۔ پہلے امام بخاری کی غرض اور مراد واضح فرمایاکرتے۔ بسا اوقات حلِ ترجمہ میں شارحین کے خلاف مراد بھی منقح فرمائی۔ اور اس کے دلائل و شواہد بھی بیان فرمایا کرتے جو پروردئہ نگاہ فرید نے اپنے دورۂ صحیح بخاری اور دورۂ صحیح مسلم (برمنگھم) میں کھل کر اظہار فرمایا ہے۔ اب صحاحِ ستہ کے درس کے لئے شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پور مستعد ہو چکے ہیں۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ یہ کھل کر بیان فر ماتے تھے کہ ترجمۃ الباب میں امام بخاری نے ائمہ اربعہ میں سے کس امام کا مذہب اختیار کیا ہے۔ درس بخاری کے دورن یہ بات واضح کی کہ سوائے مسائل مشہورہ کے اکثر جگہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللّٰہ اور امام مالک رحمہ اللّٰہ کی موافقت کی۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ شروحاتِ بخاری کا پورے درک کے ساتھ درس دیا کرتے تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللّٰہ شافعی المسلک ہیں۔ اس لئے امام شافعی رحمہ اللّٰہ کی تائید کے لئے فتح الباری میں جا بجا امام طحاوی رحمہ اللّٰہ کے اقوال اور استدلال نقل کر کے اس کی پوری سعی کرتے ہیں کہ امام طحاوی کا جواب ضروری ہو جائے۔ بغیر امام طحاوی کے جواب دئیے گذرنے کو علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللّٰہ یہ سمجھتے ہیں کہ میں نے حق شافعیت ادا نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے اپنے پروردئہ نگاہ کو مسائل فقہیہ میں طاق کرنے کے لئے امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللّٰہ کی فتح الباری کا بھرپور ناقدانہ مطالعہ کرایا۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ اسرارِ شریعت کے بیان میں شیخ ابن عربی رحمہ اللّٰہ اور شیخ شعرانی رحمہ اللّٰہ کا تتبع کرتے تھے۔ خلاصہ یہ کہ حضرتِ والا کا درسِ حدیث قرونِ اولی کے ائمہ محدثین کی یاد تازہ کرتا تھا۔ جب متونِ حدیث پر کلام کرتے تو یہ معلوم ہوتا کہ بخاری و مسلم بول رہے ہیں۔ اور جب فقہ الحدیث پر کلام فرماتے تو امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللّٰہ معلوم ہوتے اورجب حدیث نبوی ﷺ کی بلاغت پر کلام کرتے تو تفتازانی رحمہ اللّٰہ اور جرجانی دکھائی دیتے۔ اور جب شریعت کے اسرار بیان کرتے تو محی الدین ابن عربی رحمہ اللّٰہ اور امام عبد الوہاب شعرانی رحمہ اللّٰہاور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی نظر آتے۔ یہ اُسلوبِ فہم حدیث حضرت شیخ الاسلام کے اندر پورے کمال پر دکھائی دیتا ہے۔ یہ سب حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے منہج تدریس کا فیض ہے۔
اب تک جوباتیں بیان ہوئی ہیں وہ حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے علمی ذوق اور مزاج سے متعلق تھیں۔ اب ان کی عملی زندگی سے متعلق کچھ باتیں عرض کی جاتی ہیں۔ یہ حصہ اورزیادہ لطیف اورنازک ہے اور اس کو الفاظ میں منتقل کرنا پہلے سے کہیں زیادہ مشکل ہے، تاہم جو باتیں حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی کی زبانی سنی ہیں اور ناچیز کے فہم و ادراک میں آسکیں انہیں اپنی بساط کی حد تک بیان کی جاتی ہیںحضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کی عملی زندگی کو(1) عبادات (2)دعوت و تبلیغ(3)معاشرت و معاملات کے مختلف شعبوں میں تقسیم کیا جاسکتاہے، اسی ترتیب سے چند باتیں پیش خدمت ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کو عبادات کا خاص ذوق عطا فرمایا تھا۔ اورعبادت کے ہرشعبے میں قابل صدر شک نقوش چھوڑنے کے باوجود انہیں اس بات پرحسرت ہی کا اظہار کرتے پائے گئے کہ مجھ سے عبادت نہیں بن پڑتی۔ اگرچہ ان کی ساری زندگی ایسی ہنگامی اور تلاطم خیز تھی کہ صبح سے شام تک کے تمام اوقات مختلف شعبوں میں بٹے ہوئے تھے۔ معالجہ جسمانی کے لئے مطب کی مصروفیت، وعظ وتقریر، تدریس، خدمت خلق غرض دینی خدمات کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس میں حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کا مؤثر حصہ نہ ہو۔ اوران میں سے ہر شعبہ شب وروز کے تمام اوقات اسی پر وقف کر دینے کا متقاضی تھا، فجر کے بعد سے جو کام میں لگتے تو رات کے بارہ بارہ بلکہ ایک ایک بجے تک انتھک مصروف رہتے تھے۔ عصر کے بعدجب دوسرے لوگ ذہنی سکون کی خاطر کسی تفریح میں لگتے یا گھر ہی میں فراغت کے ساتھ بیٹھتے توآپ اپنے جگر پارہ کو مختلف موضوعات پر سیراب کرتے رہتے۔ غرض جب سونے کے لئے لیٹتے تو جسم تھکن سے چورہو تا تھا۔ اس کے باوجود تہجد، اشراق، چاشت، صلاۃ الاوابین، تلاوت قرآن، درودشریف، مناجات مقبول اور کم از کم دو گھنٹے کے اور ادو وظائف کا معمول التزاماً فرمایا کرتے تھے۔ آخر شب میں تہجد کے بعد دیر تک ذکر، زندگی بھرمعمول رہا۔ اس کے علاوہ جب کبھی اشغال نسبتاً کم ہوتے تو ان معمولات میں اضافہ ہو جاتاتھا اور چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے ذکر اور درود شریف پڑھتے رہتے تھے، یہاں ایک بنیادی غلط فہمی کاا زالہ ضروری ہے۔ ہمارے بعض اہل علم نے عملی طور پر دین کی تعبیر کو الٹ دیاہے اور جو چیز مقصود تھی اسے ذریعہ اورجو ذریعہ تھا اسے مقصود اصلی قرار دے دیاہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ دین کااصل مقصد جہاد و دعوت کے ذریعے اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔ اور نماز روزے سمیت تمام عبادات اسی مقصد کی ٹریننگ دینے کے لئے وضع کی گئی ہیں۔ حالانکہ اصل حقیقت یہ ہے کہ دین کااصل مقصد بندوں کا تعلق اپنے معبود حقیقی سے جوڑ کر ان میں عجزو نیاز، انابت وخشیت اورعبدیت وفنائیت کی صفات پیدا کرنا ہے۔ اور جہاد اورتعلیم و تبلیغ وغیرہ اس مقصد کے حصول کے ذرائع ووسائل ہیں۔ ان دینی خدمات میں مشغولیت اگرچہ بڑی فضیلت کی بات ہے، یہ خدمات فرض کفایہ ہیں۔ اوربعض مواقع پر فرض عین بھی ہوجاتی ہیں۔ لیکن یہ فراموش نہیں کرنا چا ہیے کہ وہ نفلی عبادات جن میں براہ راست بندہ اپنے مولا سے تعلق قائم کر کے اس کے سامنے اپنی بندگی اورعجز و نیاز کی پونجی پیش کرتا ہے۔ ان کی اہمیت اور مقصودیت میں فرق نہ واقع ہونے پائے۔ اور جب کبھی انسان کو مہلت ملے وہ ان عبادات کے ذریعے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں حاضری کو غنیمت کبریٰ اور اپنا منتہائے مقصود قرار دے۔
حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ اسی ذوق بندگی کے عالم ربانی تھے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اس اہم اور بنیادی نکتے کو فراموش کر کے معارف دینی کے حقیقی فوائد و ثمرات سے فیضیاب نہیں ہوا جاسکتا۔ عبادت کی اصل روح تعلق مع اللہ اور انابت الی اللہ ہے۔ اہل اللہ کے یہاں جتنے مجاہدات، ریاضتیں اور اذکار واشغال کا معمول ہے ان سب کاحاصل یہ ہے کہ مولا کی یاد دل میں بس جائے۔ اور دل کسی وقت اس کے دھیان سے خالی نہ رہے’’دست بکار و دل بیار‘‘ کی اس کیفیت کا میرے جیسے ناقص کے لئے تو ادراک بھی مشکل ہے، لیکن اس کیفیت کاعملی پیکر پروردہ نگاہ فرید کی صورت میں دیکھا جاسکتاہے۔ سینکڑوں طرح کی ہمہ وقتی مصروفیت کے با وجود ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے قلب کا رابطہ مسلسل اپنے مولاسے قائم ہے۔ یہ کیفیت اصل میں تو نہاں خانہ قلب کی وہ خفیہ کیفیت ہے جسے عام حالات میں محسوس نہیں کیا جاسکتا، لیکن گاہے بگاہے اس کا اظہار بھی ہو جاتاہے۔ حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ خود بھی کشتہ عشق تھے اور انہوں نے اپنے پروردہ نگاہ کو بھی خالص پارس اورکشتہ عشق بنا دیا۔ تعلق مع اللہ کے لئے جو منہاج تربیت دیا ہے۔ وہ بہت اکسیر ہے۔ ماضی پر استغفار، حال پر صبر، شکر اور مستقبل پر استعاذہ کی عادت ڈالنے سے انسان کا ہر لمحہ عبادت بن سکتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ان چیزوں کی عادت ڈال لینے کے بعد ان اعمال صالحہ میں کوئی وقت صرف نہیں ہوتا بلکہ دوسرے کاموں میں مشغول رہتے ہوئے بھی کوئی اضافی محنت یا وقت خرچ کئے بغیر انسان مسلسل ان عبادات میں مصروف رہ سکتا ہے۔
حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی عملی زندگی نے ان چاروں عبادات کااحاطہ کیا ہواتھا۔ ذرا ذرا سی باتوں پر استغفار، شکر اور استعاذ ے کے کلمات ان کے ورد زبان رہتے تھے، خاص طور پر جب ادائے شکر کی نوبت آتی توایسا معلوم ہوتا جیسے اللہ رب العزت کے انعامات کے تصور سے آپ پر بے خودی سی طاری ہو گئی ہو۔ اورآپ کا پوراوجود عجزو نیاز کے ساتھ ادائے شکر میں مصروف ہو۔ آپ رحمہ اللّٰہ ناگوار واقعات میں بھی قابل شکر پہلوئوں کو یاد رکھتے بلکہ ان کے کثرت سے ذکر کے عادی تھے۔ تکلیف دہ واقعات کی شکایت وشکوہ کرنا تو دستور ہی نہ تھا۔ جب کبھی انہیں کسی معاملے میں تردد ہوتا اور یہ فیصلہ کرنے کامرحلہ آتا کہ دو راستوں میں سے کون سا راستہ اختیار کیا جائے تو استخارہ کرتے اور چند لمحوں کے لئے آنکھیں بندکر کے گردوپیش سے بے خبر ہوجاتے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کر کے ہدایت طلب کرتے، اس کے بعد کوئی فیصلہ کرتے تھے۔ اپنے پروردہ نگاہ سے مشورہ کرنا بھی حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کا معمول تھا۔ عبادات میں انہیں اس بات کاخاص اہتمام تھا کہ اپنی کسی عبادت کی وجہ سے دوسروں کو کوئی ادنیٰ تکلیف نہ پہنچے خاص طور پر نفلی عبادات میں اس بات کاپورا لحاظ رکھتے تھے۔ چنانچہ تہجد کے لئے بیدارہوتے تو اس بات کا اہتمام فرماتے کہ گھر میں کسی دوسرے کی نیند خراب نہ ہو۔ اپنے لخت جگر کو تہجد کا عادی بنانے کے لئے حکیمانہ طریقہ اختیار فرمایا۔ موسم کے مطابق گرم یا ٹھنڈا دودھ مصلیٰ کے پاس رکھ دیتے۔
اللہ تعالیٰ نے علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کو اپنی نعمتِ خاص سے نوازا تھا۔ اور ان کو دعا و مناجات کی وہ دولت اور نعمت عطا فرمائی جو ان کی قبولیت و ترقی کا اصل زینہ اور ہزاروں سعادتوں و نعمتوں کا ذریعہ اور سرچشمہ بنا۔ اور جس کی مثال صرف خاصانِ خدا ہی میں دیکھی جاتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جب اللہ تعالیٰ کا کسی پر فضل خاص ہونے والا ہوتا ہے اور اللہ رب العزت کسی کو اپنی طرف کھینچنا چاہتا ہے تو کسی نہ کسی سبب اور ذریعہ سے اس کے اندر بے کلی اور بے چینی و اضطراب پیدا کر دیتا ہے۔ ہزاروں سکون قربان اس بے چینی و اضطراب پر جو سب سے ہٹا کر مولا کے آستانے پر کھڑا کر دے۔ اور سب سے توڑ کر اللہ تعالیٰ سے جوڑ دے۔ بزرگانِ سلف کے حالات میں آتا ہے کہ جس پر اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہوتی ہے اس کی زندگی میں بے چینی و اضطراب کا کوئی سبب و ذریعہ پیدا کر کے اس کو سب کے بیچ میں سے اٹھا کر اپنا بنا لیا۔ بہت سے بزرگوں کے حالات کی تبدیلی اور جذب و کشش کا ذریعہ ہی اضطراب بنا جس کو اکثر اربابِ روحانیت ’’اختلاج‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔
اولادِ نرینہ کا خلا عجیب انداز میں محسوس ہوتا تھا۔ مقام ملتزم پر ایسے انداز میں دعا مانگی کہ کھوئی ہوئی مراد ’’طاہر‘‘ کی صورت میں عطا ہو گئی۔ بس کیا تھا جیسے کوئی خزانہ مل گیا ہو۔ اور ساری کائنات کی راحتیں سمٹ کر آ گئیں۔ اسی جگرپارہ کو لائق و فائق اور خادم دین بنانے کے لئے اپنی تمام تر توجہ مبذول کر دی۔ طاہر کی صورت میں دعا کا ایسا ذوق پیدا ہوا کہ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کا سارا وجود اس سے سرشار ہو گیا۔ ادھر اختلاج شروع ہوا، ایک بے کلی اور بے چینی سی پیدا ہوئی، اپنی زندگی کا انجام، آئندہ کی فکر، خوش نصیبی اور اپنے پروردہ نگاہ کا ذوق و شوق دیکھ کر مست و بے خود ہو کر سربسجود ہو جاتے تھے۔ ہر وقت کی بے چینی اور اضطراب یہی تھا کہ فرزند دلبند کو ایک چمکتا دمکتا ماہتاب بنا دوں، پھر جب اس کی خداداد فطری صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ اِن کا جذبہ و لگن اور مولا سے لو لگانے کا انداز ملاحظہ فرماتے تو بچھے بچھے جاتے۔ دعا اور مناجات سے اس فرزند اسلام کو یوں نوازتے کہ انگ انگ روشن ہو جاتا۔
نالہ و بکا اور فریاد و دعا ہی دردوں کی دوا، روح کی غذا اور زخموں کا مرہم تھا۔ ایک اندرونی طاقت تھی جو ان کو ہر وقت دعا اور مناجات میں مشغول رکھتی، خود ہی بے خبر رکھتی، پھر خود ہی سکون عطا کرتی، خود ہی دل کو زخمی کرتی پھر اس پر مرہم رکھتی، خود ہی رلاتی، خود ہی آنسو پونچھتی، دعا کئے ہوئے، روتے ہوئے ذرا دیر گزرتی تو پھر پہلو میں چٹکی لیتی اور زخمی دل کو جو ہرا تھا پھر ذرا سا چھیڑ دیتی، پھر جب تک ملتزم کعبہ پر مانگی ہوئی نعمت اور مستجاب دعا کو سامنے بٹھا کر دل کھول کر دعائیں نہ دے لیتے اس وقت تک حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کے بے چین دل کو تسکین نہ ہوتی۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کو اپنی دعا پر اعتماد اور رحمتِ الٰہی پر ناز بھی تھا، جگر پارہ کی محنت و ریاضت کو دیکھ کر آنکھیں روشن ہو جاتیں۔ اور روز افزوں علمی و روحانی ترقی کو دیکھ کر دعا و مناجات باری میں مصروف ہو جایا کرتے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی مستجاب دعاؤں کا زندہ ثبوت آج شیخ الاسلام علامہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جب باپ یوں مخلص ہو کر دست بدعا ہوتا ہے تو کرم کی انتہا نہیں رہتی کیونکہ:
تیرا شیوہ کرم ہے اور میری عادت گدائی کی
نہ ٹوٹے آس اے مولا! تیرے در کے فقیروں کی
دُعا و مناجات میں حضرت شیخ الاسلام کی گریہ اور چیخ و پکار یہ سب حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے فیضِ تربیت کا عکس جمیل ہے۔
حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی عملی زندگی کا بیشتر حصہ دین کی دعوت و تبلیغ سے متعلق تھا۔ تبلیغ و دعوت کے اصولوں کے بارے میں ان کا ایک سوچا سمجھا نظریہ تھا۔ حضرت شیخ الاسلام مدظلہ العالی نے اِس پر تفصیلاً روشنی ڈالی ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے۔ دعوت و تذکیر کی خاصیت یہ ہے کہ اس سے مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچتا ہے۔ دعوت وتبلیغ کے بے اثر یا غیر مفید نظر آنے کی وجہ یہ ہے کہ ہم نے دعوت کے پیغمبرانہ اسلوب کو چھوڑ دیاہے۔ پیغمبرانہ دعوت و تبلیغ کے چند اصول مندرجہ ذیل ہیں۔
داعی دین کی سب سے پہلی خصوصیت یہ ہو نی چاہیے کہ اس کو امت کی فکر ہونی چاہیے۔ کیوں کہ انبیاء کرام ؑ کو اپنی امت کی اصلاح کی فکر اس قدر شدت کے ساتھ لگ جاتی ہے کہ وہ طبعی تقاضوں سے بھی آگے بڑھ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ جب اللہ تعالیٰ کے رسول اور نبی اس فکر میں گھلنے لگتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تسلی کاسامان کیا جاتا۔
فَلَعَلَّکَ بَاخِعٌ نَّفْسَکَ عَلٰی اٰثَارِهِمْ.
(الکهف، 18: 6)
ــ’’(اے حبیبِ مکرّم!) تو کیا آپ ان کے پیچھے شدتِ غم میں اپنی جانِ (عزیز بھی) گھلا دیں گے۔ ‘‘
داعی دین کو اس پیغمبرانہ فکر کا کوئی حصہ نصیب ہوناچاہیے۔ چنانچہ سلف صالحین میں سے جن جن کو اس فکر کا جتنا حصہ ملا۔ اللہ رب العزت نے ان کی دعوت میں اتنی ہی برکت عطا فرمائی۔ اوراتنے ہی بہتر ثمرات پیدا فرمائے۔ جیسے حضرت سیدنا غوث اعظم رضی اللہ عنہ کی مجلس میں سینکڑوں انسان بیک وقت تائب ہوتے تھے۔
انبیاء کرام کی دعوت کا دوسرا اہم امتیاز یہ ہے کہ وہ نتائج سے بے پرواہ ہو کر دعوت میں لگاتا ر مشغول رہتے ہیں۔ اورحوصلہ شکن اورکٹھن حالات میں بھی حق بات متواتر کہے چلے جاتے ہیں۔ اورجس موقع پرکسی شخص کو اچھی بات پہنچانے کا کوئی موقع مل جائے۔ وہ اسے غنیمت سمجھ کرحق بات پہنچا ہی دیتے ہیں۔ دعوت کی لگن کا حاصل یہ ہے کہ داعی حق بات پہنچانے کے مواقع کی تلاش میں رہے، جب جتنا موقع مل جائے اس سے فائدہ اٹھائے۔ اور دعوت سے کسی مرحلے پر تھکنے یا اکتانے کا نام نہ لے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ لوگوں کا داروغہ بن کر ان کے پیچھے بھی نہ پڑے، بلکہ اپنی بات مؤثر اور مدلل انداز میں کہہ کر فارغ ہو جائے، پھر جب دیکھے کہ اس پر عمل نہیں ہوا توموقع دیکھ کر پھر کہہ دے لیکن نہ مسلط ہونے کا طریقہ اختیار کرے اور نہ مایوس ہوکر بیٹھے۔
پیغمبرانہ دعوت کا تیسرا اہم منہاج’’مخاطب پر شفقت ہے۔ انبیاء ورسل ؑکی دعوت کاداعیہ شفقت وملاطفت کے سواء کچھ نہیں ہوتا۔ اپنی برتری جتلانے یا دو سرے کی تحقیر وتذلیل کاان کے یہاں شائبہ تک نہیں ہوتا۔ داعی حق جن کو نصیحت کرتا ہے، اُن سے نفرت یا اُن کی حقارت اُس کے دل میں نہیں ہو تی ‘ بلکہ اُس کا محرک شفقت ہی شفقت ہو تا ہے۔ جس طرح ایک طبیب کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی بیمار سے نفرت کرے اور جو حکیم و طبیب نفرت کا مرتکب ہو وہ کبھی کا میاب نہیں ہو سکتا۔ اِ سی طرح داعی حق کو بھی بدتر سے بدتر کا فریافاسق وفاجر اور گنہ گار سے نفرت نہیں ہونی چاہیے، بلکہ اس کے افعال و کردار سے نفرت کر کے اس پررحم کھانا چاہیے اور اس کی دعوت میں اس رحم و ملاحمت و ملاطفت اور شفقت کی پوری جھلک محسوس ہونی چاہیے۔
پیغمبرانہ دعوت کے منہاج کی چوتھی اہم خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنی بات بڑی حکمت اور پوری بصیرت کے ساتھ کرتے ہیں۔ موقع و محل اور انداز دونوں کا بہر صورت لحاظ کرتے ہیں۔ تاکہ ان کی بات زیادہ سے زیادہ مؤثر ہو سکے۔ جب داعی حق کے دل میں جذبہ، لگن اور خلوص و للہیت ہوتی ہے توپھر اللہ تعالیٰ اس کے قلب پر حکمت و بصیرت کا القاء کرتا ہے۔ اور اسے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ کون سی بات کہنے کے لئے کون ساموقع اورانداز مناسب ہو گا۔
پیغمبرانہ دعوت کے منہاج کا پانچواں اہم عنصریہ ہے کہ وہ دعوت کے لئے اسلوب اندازِ بیاں ایسا اختیار کرتے ہیں جو نرمی، ہم دردی اور دل سوزی کا بھرپور آئینہ دار ہو۔
دین کی خدمت مخلصانہ ہو۔ پیشہ وارانہ نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے وعظ و تبلیغ کو کبھی پیشے کے طور پر نہیں اپنایا۔ حضرت شیخ الحدیث علامہ محمد اشرف سیالوی صاحب اپنا مشاہدہ بیان کرتے ہیں کہ:
مذکورہ بالادعوت کے اصولوں کواگر حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی ذات گرامی میں دیکھا جائے توصاف معلوم ہوتا ہے کہ ان کااندازِ دعوت و تبلیغ حتی الوسع انہی اصولوں کے مطابق ہوتا تھا۔ اور اپنے پروردہ نگاہ کی ساری تربیت بھی انہی اصولوں کے مطابق کی۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ساری کامیابیوں کی بنیادی نہج میں حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کاخونِ جگر شامل ہے۔
حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے اپنے زمانے کے تقریباً تمام باطل فرقوں کی تردید کی اورمتعدد معر کے، مناظرے بھی کئے، لیکن اس بارے میں ان کا مزاج یہ تھا کہ یہ تردید و تنقید اورتغلیط قرآنِ حکیم کی اصطلاح میں ’’وَجَادِلھُمْ بالتّی ھِیَ اَحْسَن‘‘ کی حدود سے متجاوز نہ ہو۔ باطل فرقوں کی تردید بھی درحقیقت دعوت و تبلیغ ہی کی ایک قسم ہے۔ لہٰذااس میں بھی حکمت، موعظہ حسنہ اور ’’مجادلہ بالتی ھی حسن‘‘ کے اصولوں پر عمل ضروری ہے۔ آج کل دوسروں کی تردید میں طعن وتشنیع، طنزو تعریض اورفقرے کسنے کا جو عام انداز ہو گیاہے حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ اس کے سخت مخالف تھے۔ کیوں کہ اس سے اپنے ہم خیال لوگوں سے داد تووصول ہوجاتی ہے لیکن اس سے مخالفین کے دل میں عناد پیدا ہو جاتا ہے اور کسی کا ذہن بدلنے میں مدد نہیں ملتی۔
یہ حقیقت ہے کہ جولوگ حق پر ہوتے ہیں وہ دلائل پراکتفا کرتے ہیں، طعن وتشنیع سے کام نہیں لیتے، طعن و تشنیع کاانداز مفید کم اور مضر زیادہ ہے، یہی وجہ ہے کہ انبیاء کرامؑ ہمیشہ گالیوں اورطعنوں کے جواب میں پھول برساتے رہے۔ انہوں نے کبھی کسی کی سخت کلامی کا جواب بھی نہیں دیا۔ دعوت میں طنز کے تیرو نشتر چلانے یا فقرے کس کر چٹخارے لینے کا کوئی موقع محل نہیں۔ اس کام میں نفسانیت کو کچلنا پڑتا ہے۔ اور اس کے لئے دوسروں کی گالیاں کھا کر بھی دعائیں دینے کا حوصلہ چاہیے۔
حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ خود بھی ساری زندگی اسی پیغمبر انہ منہاج پر کاربندر ہے اور اپنے زیر تربیت جگرگوشہ کی بھی اسی نہج پر تربیت کی۔ خلاصہ یہ کہ مثبت دعوت و تبلیغ ہو یا کسی باطل نظرئیے کی تردید، حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کا مزاج دونوں میں یہ تھا کہ اپنے مؤقف پر مضبوطی سے قائم رہنے کے باوجودطعن و تشنیع اور دل آزار اسلوب بیان سے مکمل پرہیز کیا جائے۔ اوراس کے بجائے ہم دردی، دل سوزی اور نرمی و شفقت و ملاطفت سے کام لے کر ذہنوں کو بدلنے کی کوشش کی جائے۔ لیکن اس نرمی کا یہ مطلب نہیں کہ حق کو حق یا باطل کو باطل کہنے میں مداہنت سے کام لیا جائے، کیوں کہ کفر کو کفر تو کہنا ہی پڑتا ہے۔ لیکن مطلب یہ ہے کہ حقیقت کے ضروری اظہار کے بعد محض اپنی نفسانیت کی تسکین کے لئے فقرہ بازیاں اور ا لزام تراشیاں نہ کی جائیں۔ داعی الی اللہ کی مثال ریشم جیسی ہونی چاہیے۔ کہ اس کو چھو کر دیکھو تو اتنا نرم و ملائم کہ ہاتھوں کو حظ نصیب ہو لیکن اگر کوئی اسے توڑ ناچاہے تو اتنا سخت کہ تیز دھار بھی اس پر پھسل کر رہ جائے۔
چنانچہ مباحثہ تحریری ہو یا زبانی حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ حق کے معاملے میں ادنی لچک کے روادار نہیں تھے۔ لیکن بات کہنے کا طریقہ ہمیشہ ایسا ہوتا، جس سے عناد کے بجائے دل سوزی، حق پرستی اور للّٰھیت و خلوص مترشح ہوتا تھا۔ پروردہ نگاہ فرید رحمہ اللّٰہ کے زمانہ طالب علمی کے مباحث اور مناظروں پر غور کیا جائے تو یہ حقیقت نکھر کر سامنے آ جاتی ہے مثلا تقبیل ابہا مین اور نوروبشر کے مسئلہ پر جس انداز میں تحریریں لکھی گئیں اور اپنے مؤقف کی وضاحت کی گئی۔ اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کس نہج پر اپنے زیر تربیت جگر گوشہ کی تربیت فرما رہے تھے۔ دوسرے نظریات کی تردید میں حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کا ایک اصول یہ تھا کہ جس شخص یا گروہ پرتنقید کی جا رہی ہے۔ پہلے اس کے نظریات و افکار اور اس کے منشاء ومراد کی اچھی طرح تحقیق کرلی جائے اور اس کی طرف کوئی ایسی بات منسوب نہ کی جائے جو اس نے نہیں کہی یا جو اس کی عبارات کے منشاء و مراد کے خلاف ہو۔ کاچھو پور لاہور میں سوال و جواب کا انداز دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے اپنے جگر گوشہ کی کس حکیمانہ انداز میں تربیت کی۔
دوسرا اصول یہ تھا کہ اپنامؤقف بھی بغیر کسی افراط و تفریط کے بتا دیا جائے۔ اور کھل کر اظہار کر دیاجائے کہ صورت مسئلہ یہ ہے۔ عوامی خطیبوں کی طرح نہیں بلکہ محققانہ انداز میں متوازن و معقول مسلک پہلے بتا دیاجائے۔ تیسرا اصول یہ تھا کہ بحث و مناظر ہ زبانی نہیں بلکہ پہلے اپنا اپنا مؤقف تحریری لکھوا لیا جائے۔ چوتھا اصول یہ تھا کہ مدعی کو اپنے مؤقف میں دلائل دینے چاہئیں اور پھرزیر بحث موضوع پر دلائل کامطالبہ ہوناچاہیے نہ کہ دور ازکار دیگرمباحث میں اُلجھنا چاہیے۔
آج کل بحث و مباحثہ اور مناظروں کی گرم بازاری میں احتیاط کے اس پہلو کی رعایت بہت کم کی جاتی ہے۔ اور دوسرے کی تردید کے جوش میں اس کی غلطی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور اس طرح بعض باتیں مخالف کی طرف منسوب کر دی جاتی ہیں جو اس نے نہیں کہی ہوتیں۔ یہ طرزِ عمل اول تو انصاف کے خلاف ہے، دوسرے اس سے تردید کافائدہ بھی حاصل نہیں ہوتا اور بسا اوقات اس کے نتیجے میں بحث و مباحثہ کا ایک غیر متناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو افتراق و انتشار و خلفشار پر منتج ہوتاہے۔ اس سلسلے میں حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے اپنے پروردہ نگاہ کو اس زریں اصول کی تلقین فرمائی تھی۔ کہ یوں تو انسان کو اپنے ہر قول وفعل میں محتاط ہونا چاہیے، لیکن خاص طور پر جب دوسروں پر تنقید کاموقع ہوتو ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر لکھا جائے۔ کیوں کہ اسے ثابت کرنا پڑتا ہے اورکوئی ایسا دعویٰ جزم کے ساتھ نہ کرو جسے شرعی اصولوں کے مطابق ثابت کرنے کے لئے کافی مواد موجود نہ ہو۔ پروردہ نگاہ کی تحریروں اور تقریروں میں احتیاط کا یہ پہلو جس قدر نمایاں ہے اور اس کے پیش نظر منہاج القرآن کے لٹریچر میں جو قیودو شرائط ملتی ہیں اس کی مثالیں دینا چاہوں تو ایک پوری کتاب بن جائے گی۔ پروردہ نگاہِ فرید کی تنقیدی یا تردیدی تحریروں میں جوہم دردی اور دل سوزی نظر آتی ہے۔ اس کا اصل سبب وہ للہیت، بے نفسی اورخدا ترسی ہے جو آپ کی گھٹی میں پڑی ہوئی ہے۔ اور اس کا لازمی ثمرہ یہ ہوتا ہے کہ حق پسند طبیعتیں بات کو قبول کرتی ہیں اور اگر کوئی قبول بھی نہ کرے تو اس سے مسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار کا دروازہ نہیںکھلتا۔ اگر آج مسلمانوں کے تمام گروہ اور جماعتیں اس طریق کار کو اپنا لیں تو امت کو افتراق و انتشار کے اس عذاب سے نجات مل جائے جو اس کی اجتماعی فلاح کے راستہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔
حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے اخلاق و عادات اورمعاملات و معاشرت کو کماحقہ، بیان کرنا خاصہ مشکل مرحلہ ہے، یہاں معاملات سے مراد صرف بیع و شراء وغیرہ کے مالی امور نہیں، بلکہ ہر وہ کا م ہے جس میں انسان کو کسی دوسرے سے واسطہ پڑتا ہو حقوق العباد کی ادائیگی، دوست دشمن کے ساتھ تعلقات کی نوعیت، مخالفت و حمایت کی حدود، مسلمانوں کے اجتماعی معاملات میں طرز عمل، نرمی و سختی کے مواقع، مختلف حقوق و فرائض میں توازن اور ان کی حدود کی رعائت یہ تمام باتیں معاملات میں داخل ہیں۔ اس وسیع مفہوم کے تحت خوش اخلاقی، معاملات کی سلامتی اور ’’معاشرت کی‘‘ خوبی کہنے کو تو بہت مختصر اور آسان الفاظ ہیں، لیکن جب انسان، فکر وبصیرت اورحکمت کے ساتھ ان الفاظ کے تقاضوں کوپورا کرنے کے لئے عام تعلقات میں داخل ہوتاہے اور اس کے جزوی واقعات سامنے آکر متعارض تقاضے ابھرتے ہیں تو جگر خون اور پتہ پانی ہوتا ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ زندگی کے اس پہلو کی مشکلات کا اندازہ بھی اسی کو ہو سکتاہے جس نے اس نقطہ ٔ نظر سے اپنی زندگی کو متوازن بنانے کی کوشش کی ہو، معاملات اور معاشرت کی درستی کے لئے نہ تنہا کوئی کتاب انسان کی مدد کر سکتی ہے، نہ کوئی نظری فلسفہ معاون ہوسکتاہے اس کا تو ظاہری اسباب میں ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انسان عرصہ دراز تک کسی صاحب بصیرت کی صحبت میں رہ کر ان معاملات کی تربیت لے، صرف ایسے شیخ و مرشد کی صحبت میں جا بیٹھنا، اس کے ملفوظات ومواعظ سن لینا اور اس کے بتائے ہوئے اور ادو اشغال پرعمل کرلینا بھی اس کے لئے کافی نہیں، بلکہ اس کے لئے ضروری ہے کہ انسان طرزِ معاشرت اور درستی معاملات کاانداز سیکھنے کی نیت سے اپنے مرشدو مربی کے طرزِ عمل کا بغور مشاہدہ کرے۔ اور خود اپنی زندگی کے معاملات اس کے سامنے پیش کرکے اس سے ہدایات حاصل کرے، تب جا کر اس معاملے میں ایسا مزاج و مذاق پیدا ہوتاہے جو زندگی کے ہر موڑ پر انسان کی صحیح رہنمائی کر سکے۔ اس حقیقت سے کسی بھی شخص کو انکار نہیں ہو سکتا کہ معاملات اور معاشرت دین کا اہم جز ہیں، چنانچہ حضور نبی اکرم ﷺ نے صحابہ واہل بیت ث کی جو تربیت فرمائی اس میں عقائد، عبادات اوراخلاق وغیرہ کے علاوہ معاملات و معاشرت کی مفصل تربیت بھی شامل ہے۔ تاریخ اسلام کے ابتدائی دور میں اور اس کے بعد بھی خانقاہی نظام میں صرف اور ادواشغال کی تعلیم نہیں دی جاتی تھی، بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں زیر تربیت افراد کی اس سلیقہ شعاری کا اہتمام ہوتا تھا۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ اس پہلو پر زور کم ہوتاگیا۔ یہاں تک کہ لوگ دین کو صرف عبادات اور تصوف کو صرف اور ادو اشغال میںمنحصر سمجھنے لگے۔ اور اب تو یہ حالت ہو گئی ہے کہ مرید کو ذکر و شغل کے چند مراحل طے کر انے اور مصنوعی ذرائع سے قلب ونظر میں کچھ کیفیات پیدا کرانے کے بعد خلافت دے دی جاتی ہے۔ خواہ اس کے معاملات کتنے فاسد، اخلاق کتنے خراب اور معاشرت کتنی مردم آزار ہو۔
حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ یادگار اسلاف تھے۔ اور انہوں نے اکابر شیوخ سے تربیت پائی تھی۔ پھر اپنے پروردہ نگاہ کی ایسے خطوط پر تربیت کی کہ تصوف و طریقت کوعملی قالب میں ڈھال دیا۔ آج تحریک منہاج القرآن کی صورت میں جو تجدید اور احیاء کا کام ہو رہاہے اس کی بنیادی نہج میں حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ کا خون جگر شامل ہے۔ جو ہر شناس مربی و استاد اور باپ نے اپنے اس گوہر قابل کوہر لحاظ سے جلا بخشنے کے لئے اس سے ہر طرح کے کام لئے۔ اور اپنی گوناں گوں مصروفیات میں سے ہر ایک میں انہیں باخبر رکھا، مسلمانوں کے اجتماعی مسائل ہو ں یا مخالفین کے ساتھ برتائو، خدمت خلق سے متعلق معاملات ہوں یا علمی مسائل کی تحقیق۔ یا گھریلو معاملات ہوں یا رشتہ داروں اور دوستوں کے ساتھ تعلق کے مسائل، حضرتِ فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے ان سب چیزوں میں آپ کو اپنے مشوروں میں شریک رکھا۔ جس کا اصل مقصد ان تمام معاملات کی تربیت تھی۔ حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ العالی نے معاشرتی معاملات، دوست دشمن کے ساتھ برتائو، نرمی و سختی کے مواقع اور ان جیسے دوسرے امور میں اپنے والد گرامی کے طرزِ فکر و عمل کا بغور مشاہدہ کر کے اس سے اپنی زندگی کے خدوخال کو متعین کیاہے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت فرید ملت کو ہر معاملے میں اعتدال، توازن اور رعایت حدود کی وہ دولت عطا فرمائی تھی۔ جو ان کی ایک ایک نقل و حرکت میں خوشبو کی طرح بسی ہوئی تھی جو آج پروردہ نگاہ کی صورت میں دیکھی جاسکتی ہے، اس کاہم جیسے لوگوں کو ادراک ہی مشکل ہے۔ چہ جائیکہ ہم اسے الفاظ کے سانچے میں ڈھال سکیں۔
امر بالمعروف کی طرح نہی عن المنکر بھی اہم شرعی فریضہ ہے، لیکن اس فریضے کی ادائیگی بڑی حکمت و بصیرت اورخلوص و للہیت چاہتی ہے۔ اور جب تک اللہ تعالیٰ کی توفیق شامل حال نہ ہو، اس نازک فریضے کی ادائیگی میں توازن و اعتدال کی حدود پرقائم رہنا بہت مشکل ہوجاتا ہے۔ اس سلسلے میں حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کاجو طرزِ عمل سننے میں آیا ہے وہ نہایت ہی حکیمانہ اسلوب کا حامل ہے۔ حضرت فریدملت رحمہ اللّٰہ کے نزدیک نکیر یعنی ملامت ہمیشہ منکر یعنی بری یانا جائز بات پر ہونی چاہیے۔ اور غیرمنکر پر نکیر کرنا خود نکیر ہے۔ لہٰذا بعض لوگ جو مباحات پر یا محض آداب و مستحبات کے ترک پر نکیر کرنا شروع کر دیتے ہیں ان کا طرز عمل درست نہیں ہے، آداب و مستحبات کی تعلیم و تبلیغ تو کرنی چاہیے ان کی ترغیب بھی دینی چاہیے اگر کوئی شخص کسی مستحب کو چھوڑ دے تو اسے تنہائی میں نرمی سے متوجہ کرنے میں بھی مضائقہ نہیں، لیکن اس پر نکیر و ملامت کرنا کسی طرح بھی جائز نہیں۔
حضرت فرید رحمہ اللّٰہ ملت کے نزدیک جولوگ محض کسی مستحب کے ترک پر مجمع عام میں روک ٹوک یاناراضی کا اظہار شروع کردیتے ہیں۔ ان کے طرزِ عمل میں عموماً دو غلطیاں ہوتی ہیں۔ ایک تو غیر منکر پر نکیر کرنا، دوسرے جس آدمی پر روک ٹوک کی جا رہی ہے اسے مجمع عام میں رسواء کرنے کا انداز اختیار کرنا۔ اور اللہ تعالیٰ محفوظ فرمائے بسا اوقات اس تمام نکیر و ملامت کے پس پشت عجب و پندار اور نفسانیت بھی کارفرما ہوتی ہے جو ایک مستقل گناہ ہے۔
جولوگ اس طرز عمل پر کار بند ہوتے ہیں عام طور سے یہ دیکھا گیا ہے کہ دین کے اہم معاملات سے ان کی نگاہیں اوجھل رہتی ہیں۔ آداب و مستحبات بڑے محبوب اعمال ہیں ان پر جتنا عمل کرنا چاہیے اوردوسروں کو پیارو محبت سے ان کی ترغیب بھی دینی چاہیے، لیکن ان کے ترک پر نکیر و ملامت کا انداز اختیار کرنا درست نہیں ہے۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ اپنی اولاد، شاگردوں اور عام لوگوں میں سے کسی کو سختی کے ساتھ تنقید کی ضرورت فرماتے تو عام طور پر ایسی حالت میں انہیں نہیں ڈانٹتے تھے۔ جب خود طبعی طور پر غصہ آ رہا ہو، اس کے بجائے ایسے وقت کا انتظار کرتے تھے جب اپنے جذبات معتدل ہو جائیں، چنانچہ جب طبعی غصہ ٹھنڈا ہوتا اور طبیعت پر نشاط ہوتا تو اس وقت اسے بلوا کر تنبیہ کیا کرتے۔ اور ضرورت ہوتی تو غصے کا اظہار بھی فرماتے، لیکن یہ سب کچھ تادیب کے لئے ہوتاتھا۔ وجہ یہ ہے کہ طبعی غصہ کی حالت میں تنبیہ کرتے ہوئے اعتدال پر قائم رہنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ اور اس میں اس بات کا فوری خطرہ ہوتا ہے کہ تادیب کے بجائے طبعی جذبات گفت گو میں شامل ہو جائیں۔ اور جتنی سختی کی فی الواقعہ ضرورت ہے اس سے زیادہ سختی ہو جائے جو انصاف کے بھی خلاف ہو اور مقصد کے لئے بھی مضر ہے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کا معمول یہ تھا کہ جب کبھی اپنے کسی چھوٹے یا ماتحت پر غصہ کااظہار فرماتے تو ضرورۃً اس پرسختی فرماتے تو کسی دوسرے وقت اس کی اس طرح دل داری بھی ضرور فرما دیتے تھے۔ جس سے دل شکنی کاا ثر تو زائل ہوجائے، لیکن تادیب کا اثر زائل نہ ہو، کبھی اس کی کوئی مالی مدد فرما دیتے، کبھی اس کے کسی اچھے کام پر انعام دے دیا، کبھی مجمع عام میں اس کی کسی خوبی کی تعریف فرما دی، غرض کسی مناسب طریقے سے اس کی ہمت افزائی کا سامان بھی فرما دیتے تھے۔ اس تربیت کا عملی شاہکار خود پروردہ نگاہ فرید کا وجود ہے جن کی ایک ایک ادا اپنے عظیم والد گرامی رحمہ اللّٰہ کا چلتا پھرتا نمونہ ہے۔ برائے اصلاح تنقید اور دلجوئی کے واقعات ’’مجالس شیخ الاسلام‘‘ میں ملاحظہ کیجئے۔
کسی آدمی یا گروہ کی حمایت و مخالفت میں جب نفسانیت شامل ہو جاتی ہے تو نہ حمایت اپنی حدود پر قائم رہتی ہے نہ مخالفت، بلکہ ہوتا یہ ہے کہ جس کی حمایت کرنی ہو اسے سراپا بے داغ اور جس کی مخالفت کرنی ہو اسے سراپا سیاہ ثابت کرنے سے کم پر بات نہیں ہوتی۔ آج کل حمایت و مخالفت میں اس قسم کے مظاہرے عام ہو چکے ہیں۔ بلکہ بسا اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک شخص جس زمانے میں منظور نظر ہواتو اس کی ساری غلطیوں اور فروگذاشتوں پر پردہ ڈال کر اسے تعریف و توصیف کے بانس پر چڑھادیا اور جب وہی شخص کسی وجہ سے زیر عتاب آگیا تواس کی ساری خوبیاں ملیا میٹ ہوگئیں۔ اور اس میں ناقابل اصلاح کیڑے پڑ گئے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ اس طرز فکر کے سخت مخالف تھے۔ ان کے نزدیک یہ طریقہ حق و انصاف کے خلاف ہے۔ اس کے علاوہ اس حد سے گزری ہو ئی حمایت و مخالفت کے نتیجے میں بسا اوقات انسان کو دنیا ہی میں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے۔ دوسروں کی حمایت و مخالفت کے با رے میں حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ متوازن رائے کے حامل تھے۔ ان کی نگاہ دشمنوں اورمخالفین میں بھی اچھائیوں کو تلاش کرلیتی تھی اور ان کی خوبیوں کے برملا اظہار میں بھی انہیں کبھی باک نہیں ہوتا تھا۔ بعض اوقات جب عام فضا کسی مخصوص شخص یا مسلک و گروہ کے خلاف ہو جاتی ہے تو اس کے بارے میں الزام تراشی ا ور افواہ طرازی کو عموماً عیب نہیں سمجھا جاتا، بلکہ ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کے عیوب کی خبریں لانے میں لطف محسوس کیا جاتا ہے اور اس میں تحقیق کی بھی ضرورت نہیں سمجھی جاتی، حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ اس طرزِ عمل کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ ان کے نزدیک اگر کوئی شخص کسی جہت سے برا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اس کی تمام جہات کو لازماً بُرا بنا دیا جائے۔ پروردۂ نگاہِ فرید رحمہ اللّٰہ کا مسلکی مزاج اور دینی رُخ اِسی اَمر کا عملی آئینہ دار ہے۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کو وقت کی قدروقیمت کا بڑا احساس تھا۔ اوروہ ہر وقت اپنے آپ کو کسی نہ کسی کام میں مشغول رکھتے تھے۔ اور حتی الامکان کوئی لمحہ فضول نہیں جانے دیتے تھے۔ ان کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ آپ کے وقت کا کوئی حصہ ضائع چلا جائے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ سنت کے مطابق گھر والوں کے ساتھ ضروری اور بسا اوقات تفریحی گفت گو کے لئے بھی وقت نکالتے تھے، لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے آپ کے قلب میں کوئی الارم لگا ہواہے جو ایک مخصوص حد تک پہنچنے کے بعد آپ کو کسی اور کام کی طرف متوجہ کر دیتا ہے۔ چنانچہ گھروالوں کے حقوق ادا کرنے کے بعد آپ اپنے کام میں مشغول ہو جاتے تھے۔ سفر ہویا حضر آپ مطالعہ اور ذکر و فکر میں ہمہ تن مصروف رہاکرتے تھے۔ حضرت فریدملت رحمہ اللّٰہ وقت کی وسعت کے لحاظ سے مختلف کاموں کی ایک ترتیب ہمیشہ ذہن میں رکھتے تھے۔ اورجتنا وقت ملتا اس کے لحاظ سے وہ کام کرلیتے تھے۔ وقت کی قدر شناسی کا مزاج دیکھنا ہو تو پروردہ نگاہ فرید رحمہ اللّٰہ کو دیکھا جاسکتا ہے۔ جو ہر شناس باپ نے آغاز ہی سے ایسا ڈھالا کہ اب سالوں کا کام مہینوں میں اور مہینوں کا کام ہفتوں میں اور ہفتوں کا کام دن میں برق رفتاری کے ساتھ ہو رہاہے۔ یہ سب حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے فیضِ تربیت کا نتیجہ ہے کہ ہر لمحہ سے تجدید و احیائے کا کام لیا جا رہا ہے۔
حضرت فریدِ ملت رحمہ اللّٰہ کا مزاجِ طبعی طور پر سیاسی نہیں تھا۔ اور نہ انہوں نے کبھی سیاست کو اپنا محور عملی بنایا۔ لیکن سیاست بھی دین کا ایک اہم شعبہ ہے۔ اور اس شعبے میں مسلمانوں کی اجتماعی بہبود کی فکر اور رکھوالی ایک عالم دین اور داعی دین کے فرائض میں شامل ہے۔ اس لئے جب کبھی مسلمانوں کی کوئی شدید اجتماعی ضرورت داعی ہوئی تو آپ رحمہ اللّٰہ نے اعلیٰ مقاصد کے تحت اس شعبے میں بھی خدمات انجام دیں۔ تحریکِ پاکستان میں بڑھ چڑھ کر کردار ادا کیا۔ علامہ اقبال رحمہ اللّٰہ اور قائداعظم کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے عوام میں شعور پیدا کیا۔ حضرت شیخ الاسلام حضرت پیر قمر الدین سیالوی رحمہ اللّٰہ کی قیادت اور رفاقت میں دورہ جات کئے اور نظریہ پاکستان پر روشنی ڈالی۔ جب قیام پاکستان کے لئے ملک گیر تحریک شروع ہوئی تو اس وقت آپ رحمہ اللّٰہ کا عہدِ شباب تھا۔ اس لئے آپ رحمہ اللّٰہ نے بھرپور اور سرگرم حصہ لیا۔ حضرت فریدملت رحمہ اللّٰہ کے روابط و تعلقات کی دنیا گوناں گوں متنوع اور وسیع تھی۔ معالجہ جسمانی کے حصول کے لئے بڑے بڑے نامی گرامی سیاستدان آپ کے زیر علاج رہتے تھے اور وہ آپ کے مفید مشوروں سے مستفید ہوتے رہتے تھے۔ علماء کے لئے سیاست میں حصہ لینے کو اس غرض سے حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ بہتر سمجھتے تھے کہ ملک میں نظام مصطفی ﷺ کانفاذ ہو۔ اس سلسلہ میں دوباتوں پر خصوصی توجہ دیتے تھے۔
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کو سیاست سے بالکل الگ رکھا جائے، اداروں کے اساتذہ و طلباء کو ملک کے سیاسی حالات سے نظری طور پر واقف رہنا چاہیے لیکن عملی سیاست میں حصہ نہیں لینا چاہیے۔ اس کی وجوہات بہت سی ہیں۔ مثلاً سب سے پہلی اور بنیادی بات تو یہ ہے کہ جب کوئی تعلیمی اداراہ خود یا اس کے اساتذہ و طلبہ عملی سیاست میں مشغول ہوجاتے ہیں تو وہ علمی انہماک مفقود ہوجاتا ہے جو تحصیل علم کے لئے ناگزیر ہے اور اس کی وجہ سے تعلیم و تعلم کا معیار گرجاتا ہے اور استعداد یں اور صلاحیتیں کمزور ہوجاتی ہیں۔ علم یکسوئی چاہتا ہے اور سیاسی مشاغل کو یکسوئی سے بیر ہے۔
چنانچہ جو لوگ زمانہ طالب علمی کے دوران عملی سیاست میں لگ جاتے ہیں عموماً ان کی استعداد ناقص رہ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ یہ عوامی مطالبہ محض ایک نعرے کی شکل میں نہیں بلکہ ایک ٹھوس اور مثبت پروگرام کی شکل میں اتنی قوت اختیار کرجائے کہ کسی بھی حکومت کو اس سے انحراف اور سرتابی کی جرات نہ ہو۔ اور دوسری طرف وہ دین دار سلیم الفکر اور مخلص اور باکردار افراد کی ایسی ٹیم تیار کریں جو الیکشن میں حصہ لے کر حکومت کے ایوانوں تک پہنچے اور اس عوامی مطالبے کو زیر ہدایت عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرے۔ چنانچہ جس زمانے میں ’’جمعیت علمائے پاکستان‘‘ کی ذمہ داری شیخ الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی رحمہ اللّٰہ اور غزالی زماں علامہ احمد سعید کاظمی رحمہ اللّٰہ امروہی کے پاس تھی اور نظامِ مصطفی ﷺ کی تحریک عروج پر تھی۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ انہی کے دست و بازو تھے۔ اور اپنے معاصرین علامہ عبدالغفور ہزاروی رحمہ اللّٰہ، صاحبزادہ پیر سید فیض الحسن شاہ آلومہاروی رحمہ اللّٰہ اور دیگر اربابِ علم کو آپ کا انہیں پورا تعاون حاصل تھا۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ اپنے معاصرین کو کھل کر اپنے نقطہ نظر سے آگاہ کرتے تھے اور برملا فرمایا کرتے تھے کہ علماء کو نہ تو حکمرانوں سے اتنا قرب اختیار کرنا چاہیے، جس سے ان کے علمی وقار، استغناء اور خود داری پر آنچ آئے یا حق گوئی میں رکاوٹ پیدا ہو۔ اور نہ ایسا بُعد رکھنا چاہیے کہ وہ ذاتی یا سیاسی خصوصیت کی شکل اختیار کرجائے۔ بلکہ علماء کامنصب ایک ایسے آزاد، مستغنی مگر خیر خوا ہ ادارے کاہونا چاہیے جو حکومت کے اچھے کاموں میں اس کے ساتھ تعاون بھی کرے اور اس کے غلط کاموں پر ہمدردی و خیر خواہی اور حکمت و دل سوزی کے ساتھ تنقید و احتساب کا فریضہ بھی انجام دے۔
برصغیر پاک و ہند کے دو سوسالہ عہدِ حکومت کے دوران چونکہ مخلص اور باضمیر مسلمان ہمیشہ انگریز حکومت سے بیزار اور آزادی ہند کے لئے کوشاں رہے۔ اس لئے مسلمانوں کے سیاسی مزاج میں دو سوسال تک حکومت کی مخالفت کا رُحجان غالب رہا۔ اور ہر اس فرد اور تحریک کو قبولیتِ عام حاصل ہوئی جو حکومت کی مخاصمت اور مخالفت میں برپا ہوئی ہو۔ یہاں تک کہ دوسری جنگ عظیم کے موقع پر حریت پسند مسلمانوں کو ہمدردیاں ہٹلر تک سے وابستہ ہوگئیں۔ اس لئے کہ اس کی طاقت و قوت اور فتوحات کے بڑھتے ہوئے سیلاب سے یہ توقع کی جاسکتی تھی کہ وہ انگریز کی شوکت توڑنے اور اس کے جمے ہوئے اقتدار وتخت کو ڈھانے اور گرانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ شاید یہ اسی دوسوسالہ اُکھاڑ پچھاڑ اور سیاسی مزاج کے باقی ماندہ اثرات ہیں کہ قیام پاکستان کے بعد یہاں بھی منفی انداز سیاست پروان چڑھی اور آزادی سے پہلے کی طرح اب بھی حکومت کی ہر مخالفت نہ صرف قابل تعریف بلکہ بذاتِ خود مقصد بن کر رہ گئی ہے۔ اور جو تحریک اور شخص حکومت کے مقابلے میں جتنے زور اور جتنے تشدد و جارحیت سے سامنے آتا ہے، عوام میں اُسے اتنی ہی مقبولیت حاصل ہوتی ہے۔ اس رُحجان اور طرز عمل کو حکمرانوں کے رویہ سے بھی تقویت ملی جو واقعتا قابل مخالفت تھا۔ لیکن بہر صورت! واقعہ یہی ہوا کہ ہماری سیاست میں منفی اندازِ فکر ترقی کرتا چلا گیا۔ حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد ہماری سیاسی حکمتِ عملی بھی تبدیلی کی محتاج تھی۔ اب عہدِ غلامی کی طرح حکومت کی مخالفت بذاتِ خود مقصد نہیں بننی چاہیے تھی۔
بلکہ ہر موڑ اور ہر مرحلے پر ٹھنڈے دل و دماغ سے یہ سوچنے کی ضرورت تھی کہ ملک و قوم کے استحکام اور نظامِ مصطفی ﷺ کے فروغ کے لئے کون سا طرزِ عمل مفید ہوگا؟ اس طرزِ فکر کے نتیجے میں جہاں بعض مواقع پر حکومت کے مقابلے میں ڈٹ جانا مفید ہوتا ہے وہاں بعض مواقع پر اس کی حوصلہ افزائی اور اس کے قریب پہنچنا بھی زیادہ سود مند ثابت ہوتا ہے۔ چنانچہ ملکی سیاست میں کئی مراحل ایسے بھی آئے کہ جن میں حکومت سے سیاسی مخالفت و مخاصمت کی فضا پیدا کرنے کے بجائے اس کے ساتھ باوقار تعاون اور اسے دور دور سے برا کہنے کے بجائے قریب جا کر اصلاح کی فکر شاید ملک و ملت کے لئے زیادہ مفید ثابت ہوتی۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ اسی مخلصانہ فکر کے حامل اور روا دار تھے۔ ان کی زندگی میں مقامی حکومت جھنگ کے ساتھ تعاون اور اس کی مخالفت دونوں کی متوازن مثالیں موجود ہیں۔
ملک پاکستان کے معروف سیاسی خاندانوں کے ساتھ حضرت فرید ملت کے روابط و تعلقات خالصتاً سیاسی نہ تھے ایک ہمدرد معالج اور طبیب کی حیثیت سے تھے۔ اور بعض کے ساتھ دوستانہ مراسم بھی تھے۔ سرگانے، وٹو، گیلانی، قریشی اور جبکہ کئی سرکردہ لوگوں کے ساتھ قربت تھی لیکن اس قربت دوستانہ کی بنیاد پر خلق خدا کے نفع و خیر خواہی کا سلسلہ چلتا رہتا تھا۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے حکومت کے قُرب کو ایک توسہل نگاری یا عافیت کوشی کی بناء پر نہیں بلکہ دینی ضرورت کے تحت اختیار کیا ہوا تھا۔ چنانچہ جہاں ضرورت داعی ہو وہاں حق گوئی سے ادنیٰ باک نہ ہو۔ اور دوسری طرف اس قرب کو خالصتاً بوجہ اللہ اختیار کیاجائے۔ اور اس میں ذاتی مفادات کا شائبہ بھی پیدا نہ ہو، کیونکہ وہ دین پر دو اعتبار سے تباہی اور ایسے قرب سے بُعد ہزار درجہ بہتر ہے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے حکمرانوں کے ساتھ جو طرز عمل رہا وہ ان تمام حدود و شرائط کی رعایت سے عبارت تھا۔ حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ نے کبھی کسی وڈیرے، سیاست دان اور حکمران کے سامنے مداہنت سے کام نہیں لیا۔ اور ضرورت کے مواقع پر سخت سے سخت بات کہنے سے بھی دریغ نہیں کیا۔ لیکن اس کے ساتھ انہوں نے مخالفت برائے مخالفت کے بجائے ضرورت کے وقت حکومت سے تعاون اور اچھے کاموں میں اس کی حوصلہ افزائی میں بھی بخل کا مظاہرہ نہیں فرمایا۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کامتعدد سرکردہ لوگوں سے قربت کایہ عالم تھا کہ وہ علاج معالجہ کے ساتھ ساتھ آپ رحمہ اللّٰہ سے سیاسی رہنمائی بھی حاصل کرتے تھے۔ اور آپ ان کی مخلصانہ رہنمائی فرماتے رہے۔ ایک طرف آپ کے وقار و استغناء اور دوسری طرف للّٰھیت اور ہمدردی و دلسوزی کی وجہ سے ان سیاسی لوگوں پر یہ بات واضح رہی کہ آپ کو نہ خریدا جاسکتا ہے، نہ ضمیر کے خلاف کسی قول و فعل پر آمادہ کیا جاسکتا ہے۔ اور نہ کسی معاملے میں آپ رحمہ اللّٰہ کی حمایت کو تملُّق یا مخالفت کو عناد وعداوت پر محمول کیا جاسکتا ہے۔
حکمرانوں سے ملاقات یا اِن سے میل جول بڑھانے کی باقاعدہ کوشش کرنا آپ رحمہ اللّٰہ کو بالطبع ناپسند تھا۔ بڑے بڑے لوگ آپ سے علاج معالجہ کی غرض سے آتے اور صحت یاب ہو کر واپس لوٹتے اور پھر ان کا یہ تعلق خاندانی قربت و جاہت میں بدل جاتا تھا۔ جہاں کہیں کوئی دینی اور ملی فائدہ مقصود ہوتا وہاں آپ رحمہ اللّٰہ خود بھی بقدرِ ضرورت اپنی خدمت پیش کرتے اور ان سے ملاقات کرتے، لیکن جہاں ان ملاقاتوں سے کوئی دینی فائدہ متصور نہ ہوتا وہاں حتی المقدور تعلقات کو آگے بڑھانے سے پرہیز فرماتے۔ حکمرانوں سے اس استغناء کے اس انداز کے باوجود ہر حکومت کے ساتھ آپ رحمہ اللّٰہ کا طرزِ عمل یہ رہا کہ آپ نے اس کی غلطیوں پر تنقید و احتساب کے ساتھ ساتھ اس کے صحیح اور اچھے کاموں پر حوصلہ افزائی میں کبھی اپنی اناء کو آڑ نہ بننے دیا۔ ان کے اچھے کاموں کی کھلے دل سے تعریف کی اور جن بااثر شخصیات سے خیر کی توقع تھی ان سے ملاقاتیں کرکے ان سے ایسے کام کرائے جو ملک و ملت کے لئے مفید تھے۔
البتہ ان تعلقات میں اس بات کا پورا پورا لحاظ رکھا کہ وہ کسی ذاتی مفاد کے حصول کے ذریعہ نہ بنیں۔ چنانچہ متعدد مواقع پر آپ رحمہ اللّٰہ کو اعلیٰ سرکاری شخصیات کی طرف سے ذاتی مفاد کی پیش کش ہوئی لیکن آپ نے اسے خوبصورتی کے ساتھ رد فرمادیا۔ حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمہ اللّٰہ کی اسی للھیت، اخلاص، سلامتی فکر کا ثمر تھا کہ سرکاری لوگ اس بات کاتصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ آپ رحمہ اللّٰہ سے کوئی ناجائز مطلب برآری کی جاسکتی ہے۔ صدر ایوب کے عہد میں تجدد کی جو تحریکیں سرکاری سرپرستی میں پروان چڑھیں۔ اور ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کی طرف سے اسلام کے خلاف جو مشق ستم ہوئی اس سے حضرت فریدالدین قادری رحمہ اللّٰہسخت نالاں تھے اور وقتاً فوقتاً اجتماعات کے مواقع پر ان کی مؤثر تردید فرماتے تھے۔ حضرت فریدالدین قادری رحمہ اللّٰہ کے نزدیک اسلام کے نفاذ کے لئے جمہوریت کو زینہ بنانے کاتصور درست نہیں تھا۔ کیونکہ اول تو مغربی طرز کی جمہوریت بذاتِ خود اسلام کے خلاف ہے۔ دوسرے پہلے جمہوریت پھر اسلام کے سلوگن سے سب سے زیادہ نقصان اسلام کو پہنچتا ہے۔
حضرت فریدالدین قادری رحمہ اللّٰہ تبدیلی اقتدار اور بحالی جمہوریت وغیرہ کی تحریکوں کے بجائے اس بات کے خواہاں رہے کہ کوئی مؤثر تحریک صرف اسلام کے نام پر چلائی جائے۔ اور اس میں اسلام کے نظامِ مصطفی ﷺ کے نام کو محض تبدیلی اقتدار کے حیلے اور بہانے کے طور پر استعمال نہ کیا جائے بلکہ اس کے اول و آخر مقصد نفاذِ اسلام اور نظامِ مصطفی کی بالادستی ہو۔ اور وہ حکمرانوں اور سیاست دانوں کو اس عظیم مقصد کے لئے عملی اقدامات پر مجبور کردے۔ چنانچہ جب صدر ایوب کے آخری دورِ حکومت میں ان کے خلاف تحریک چلی تو حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کو اس بات کا سخت قلق تھا کہ اس کا براہ راست مقصد سوائے تبدیلی اقتدار کے کچھ نہیں ہے۔ اور آپ رحمہ اللّٰہ کی سوچی سمجھی رائے تھی کہ اس کے نتیجے میں شاید تبدیلی اقتدار تو عمل میںآجائے لیکن بحالی جمہوریت کی جس منزل کا ملکی سیاست پر غلغلہ اور چرچا ہے، نہ وہ حاصل ہوسکے گا اور نہ نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ کی کوشش کا مرحلہ آسکے گا۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ آمرانہ اقتدار کابت تو توڑا گیا لیکن تبدیلی نظام نہ ہوسکی۔ کیونکہ اُس وقت ملک کی سیاسی فضا ایسی بن چکی تھی کہ تبدیلی اقتدار بذاتِ خود ایک مقدس مقصد بن گیا تھا اورتحریک کا رخ کسی مثبت مقصد کی طرف موڑنے میں علماء کامیاب نہ ہوسکے۔ چنانچہ وہی ہوا جس کا حضرت فرید ملت اپنے ہم عصرعلمائے کرام سے اظہار خیال کیا کرتے تھے۔ وہ خطرہ یہ تھا کہ اقتدار تو تبدیل ہوگیا مگر نہ بحالی جمہوریت کی مزعومہ منزل حاصل ہو سکی اور نہ اسلامی نقطہ نظر سے کوئی بہتری پیدا ہوئی بلکہ ملک اپنی سا لمیت اور استحکام کے لحاظ سے نہ صرف برسوں پیچھے چلا گیا بلکہ دو نیم اور دو ٹکڑے ہو کر رہا۔
حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کا طرزِ معیشت ہمیشہ صاف ستھرا اور سادہ رہا۔ طرزِ بود و باش میں ہمیشہ تواضع، سادگی اور اس میں صاف اور اجلا پن صاف جھلکتا تھا۔ آمدنی کے لحاظ سے آپ ایک خوشحال معالج و طبیب تھے۔ پریکٹس خوب چلتی تھی، ابتدائی زمانہ عسرت میں بھی بسر ہوا لیکن کبھی بخل سے کام نہیں لیا۔ آمد و خرچ دونوں میں اللہ تعالیٰ نے کشادگی سے نوازا تھا۔ حضرت فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ تھوڑی آمدنی میں بھی کام چلانے کا گر جانتے تھے۔ بخل کی بجائے انتظام اور قناعت سے کام لیتے، یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر انسان اپنی آمدنی کو انتظام کے ساتھ خرچ کرے تو تھوڑی رقم میں کام بن جاتا ہے۔ اور بدنظمی سے کرے تو قارون کا خزانہ بھی تھوڑا ہو جائے۔ جس زمانے میں معاشی طور پر حضرت والا کا ہاتھ تنگ رہا اس دور میں بھی یہ بات اولاد پر ظاہر نہ ہونے دیتے تھے۔ اولاد کی طرف ضروریات ہی نہیں، جائز شوق بھی پورے فرماتے تھے۔ لیکن ساتھ ہی فضول خرچی سے اجتناب کی بھی عادت ڈالی۔ اور اس بات پر ہمیشہ نگاہ رکھتے تھے کہ دنیا طلبی ہی زندگی کا مقصد ہو کر نہ رہ جائے۔ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ میں ہمیشہ یہ دعا کرتا رہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ معاشی پریشانی و بدحالی سے محفوظ رکھے لیکن بہت زیادہ مالدار بھی نہ بنائے کہ جس سے یاد الٰہی سے غافل ہو جاؤں۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کو اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرنے کا بڑا ذوق تھا اور آپ رحمہ اللّٰہ معارف خیر میں حصہ لینے کی تلاش میں رہتے تھے۔ ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتے تھے جو کسی کے سامنے دستِ سوال دراز نہیں کرتے لیکن ضرورت مند ہیں اور اس قسم کے افراد کی ایک فہرست ہمیشہ نظر میں رکھتے تھے۔ یہ اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے کہ آپ رحمہ اللّٰہ کے ذریعے کتنے انسانوں کی حاجت روائی ہوئی، اور کتنے مصارفِ خیر جاری ہوئے، نہ جانے کتنوں کو ماہانہ وظیفہ دیتے تھے، کتنے افراد کو کوئی چھوٹا موٹا کاروبار کرا کر معاشی ترقی کے راستے پر لگا دیا، کتنے افراد ایسے تھے کہ جن کا مفت علاج فرمایا کرتے تھے۔ اور کتنے افراد کی کسی دوسری طرح ضروریات پوری کرنے میں مدد دی۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کا معمول تھا کہ وہ اپنے متعلقین اور رشتہ داروں میں خود جا کر ان کی ضروریات معلوم فرماتے اور پھر ان کی دادرسی فرماتے۔ اس معاملے میں قریب اور دور کی رشتہ داری کے درمیان کوئی امتیاز نہ تھا۔ دور دراز گاؤں میں کوئی دور پرے کا رشتہ دار، عزیز، دوست اور متعلق آباد ہے تو اس کے حالات سے بھی باخبر رہتے تھے۔
بازار میں جو بھکاری عام طور پر مانگتے پھرتے ہیں، ان کے ساتھ بھی حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کا عجیب طرزِ عمل تھا۔ عام طور پر جو کوئی سائل آتا آپ رحمہ اللّٰہ اسے کچھ نہ کچھ دے دیتے تھے۔ ایک مرتبہ دورانِ سفر گاڑی میں ایک سائل آ دھمکا، آپ رحمہ اللّٰہ نے اپنی جیب میں سے کچھ نکال کر اسے دے دیا ہمراہ ساتھیوں نے پوچھا: ڈاکٹر صاحب! اس قسم کا سائل عام طور پر مستحق تو نہیں ہوتا، ان کو دینا چاہئے یا نہیں؟ اس کا آپ رحمہ اللّٰہ نے نہایت عجیب و غریب جواب دیا، فرمایا: یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن یہ سوچو کہ اگر ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمارے استحقاق ہی کی بنیاد پر ملنے لگے تو ہمارا کیا حال ہو گا؟
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے اس جواب کو نقل کرتے ہوئے ہمارے رونگٹے کھڑے ہو گئے ہیں اور اندازہ کیجئے کہ اولیاء الرحمن کی نظریں کہاں پہنچتی ہیں۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے نزدیک محض بدگمانی اور بے یقینی کی بنا پر کسی سائل کو رد کر دینا اور جھڑک دینا ٹھیک نہیں۔ غرباء کی امداد کے علاوہ دوست احباب اور ہم عصر علماء و مشائخ کی خدمت کرنے کا آپ کو خاص ذوق تھا۔ جب کسی مسجد کی تعمیر کی خبر سنتے تو اس میں کچھ نہ کچھ حصہ لینے کی کوشش فرماتے، اپنے والدین کے لئے صدقات دیتے رہتے تھے۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نام تو ایک فرد واحد کا ہے مگر حقیقت میں وہ فرد واحد نہ تھے بلکہ پوری انجمن تھے، جو اپنے جلو میں علم و فضل، ارشاد و تبلیغ، کردار و گفتار، عزم محکم اور جہد مسلسل کی ایک دنیا آباد کئے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ پیدا تو ’’جھنگ‘‘ میں ہوئے مگر ان کے فیض کا بادل پوری دنیا پر برس رہا ہے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ درسگاہ علم و فن کے فیض بخش مدرس تھے، خطابت کے رمز آشنا، تکلّموا الناس علی قدر عقو لھم کے مصداق، بے بدل خطیب تھے، میدان بحث و مناظرہ کے برق رفتار شاہسوار تھے، قوم و ملت کے بے ریا مصلح اور نقیب تھے، روحانیت کے روشن ضمیر مربی و مرشد اور انقلاب آفریں مفکر بھی تھے، محفل شعر و ادب کے مسند نشین بھی تھے تو یاران نکتہ داں کے میر مجلس بھی، حق کے لئے شبنم کے قطروں کی مانند حساس و نرم بھی تھے تو باطل کے لئے آتش فشاں پہاڑ بھی، ایثار و قربانی کے پیکر جمیل بھی تھے تو ناقابل تسخیر جرأت و ہمت کے حامل بھی تھے۔ غرض حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی ایک زندگی میں کئی زندگیاں جمع ہو گئی تھیں۔ گویا کہ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے اپنے پروردۂ نگاہ کو متقدمین کا تصوف جو جلائے باطن اور صفائے باطن سے عبارت ہے، گھول کر پلا دیا۔ یہی وجہ ہے کہ پروردہ نگاہ کی ذوق چشیدگی کے جہان میں آفاقیت، وسعت، ہمہ گیریت اور ہمہ جہت تصوف و سلوک کا نور دکھائی دیتا ہے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی بے قرار روح نے اپنے پروردئہ کی تربیت کا منہاج تجدید و احیائی شان کے ساتھ اٹھایا۔ پروردئہ نگاہ کی زبان پر جو استدلال بولتا ہے یہ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی قادر الکلامی، جاذبیت اور علمی دسترس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی تربیت کا اثر تھا کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے زمانہ طالب علمی کے باوجود حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی رحمہ اللّٰہ، غزالی زماں علامہ احمد سعید کاظمی رحمہ اللّٰہ، علامہ عبدالغفور ہزاروی رحمہ اللّٰہ، علامہ محمد عمر اچھروی رحمہ اللّٰہ جیسے صاحبان علم و فضل اور رموز آشنا بزرگوں کی زبان پر کلمات تحسین ہوتے۔ وہ آپ کے علم و بصیرت و فضیلت کے حد درجہ قدردان تھے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے اپنے پروردئہ کو مذہبی اسٹیج کی دنیا میں آفتاب و ماہتاب بنا کر پیش کیا۔ انہوں نے اپنی خطابت کا اسلوب پروردئہ کی صورت میں فراہم کیا ہے۔ قدرت نے انہیں فہم کا ملکہ راسخہ ودیعت فرمایا تھا کہ باریک سے باریک مفہوم کو سامعین کے قلوب میں اتار دیتے تھے۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی خطابت میں موجوں کا تلاطم، آبشار کی روانی، شیر کی گھن گرج، بلبل کی چہچہاہٹ، علم و فن کی روانی، فکر و بصیرت کا ٹھہراؤ، معنی آفرینی کا کمال اور الفاظ کا حسن انتخاب دیکھنا ہو تو مجدد عصر پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدظلہ کے اسلوب خطابت میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لفظ و معنی کا حسین ربط قائم رکھنا اور برپا کرنا حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے خطابتی اسلوب کا ایسا نقطہ امتیاز ہے کہ جو پروردئہ نگاہ میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے اور ہر لفظ عجائبات کی دنیا لئے ہوئے ہے۔
تعلیم و تعلّم ہو یا معرفت و سلوک دونوں صورتوں میں کسی مرشد یا استاد سے اخذ و اکتساب اور استفادہ کے درج ذیل دوطریقے ہیں:
1۔ ایک طریقہ تو یہی ہے جو عام طور پر رائج اور متداول ہے کہ مربی و مرشد کے بتلائے ہوئے مجاہدات اور اورادو اشغال پرعمل کرتا رہے، یا استاد سے کتابیں پڑھے ا س کی تقریروں کو ذہن نشین اور یاد کرلے، اس طریق میں مرشد یا استاد کی معیت کا زمانہ جس قدر دراز ہو گا اسی قدر اخذ و استفادہ زیادہ ہوگا، ائمہ محدثین کی اصطلاح میں اس طول معیت کو طول ملازمت و مصاحبت کہتے ہیں۔ اورصحت حدیث میں ضبط و اتقان کے بعد اس کا دوسرا مرتبہ ہے۔ واضح بات ہے کہ اخذو استفادہ کے اس طریق میں مدار صرف جسمانی افعال و اعمال یعنی پڑھنے پڑھانے، یادکرنے کرانے یا اعمال و اشغال جاری رکھنے پر ہوتا ہے اس لئے جس قدر اس کازمانہ دراز ہوگا اسی قدر معلومات و معمولات کا ذخیرہ زیادہ ہوگا۔
2۔ اخذو استفادہ کا دوسرا طریق مرشد یا استاد سے قلبی عقیدت اورروحانی محبت اور اسی والہانہ عقیدت ومحبت کی بنیاد پر مبنی روحانی اتحاد ہوتا ہے۔ اگریہ محبت طرفین سے ہو یعنی جیسی محبت مرشد سے مرید کو ہو یا استاد سے شاگر کو ہو ویسی ہی محبت مرشد کو اپنے مرید سے یا استاد کو اپنے شاگرد سے ہو تو یہ محبت و پیار جس قدر قوی ہو گا اسی قدر روحانی اتحاد قوی ہوگا۔ اس محبت کے اسباب میں سے اہم ترین سبب خدمت مرشد واستاد ہے۔ مگر وہی عاشقانہ اوروالہانہ خدمت جس میں سراسر لذت و سرور ہو، تعب اور گرانی کانام تک نہ ہو۔ یہ خدمت وہ قوی تر موثر ہے جو مرشد و استاد و مربی کو محبت کرنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ یہی والہانہ محبت اور عاشقانہ خدمت روحانی اتحاد کے لئے یا روحانی انصباغ کے مرتبہ پر پہنچ کر زیرتربیت تلمیذ و مرید میں ایک ایسی قوت پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے سوچنے سمجھنے، مشکلات کو حل کرنے کا انداز اور عقدہ کشائی کے طریقے مرشد و استاد کے ہم رنگ ہو جاتے ہیں۔ پھر اس کی ضرورت نہیں رہتی کہ مرشد و مربی اور استاد سے کتب پڑھی ہوں یا ان کی زبان سے تقریریں سنی ہوں، چنانچہ تلمیذ بغیر استاد کی ظاہری وساطت کے وہی کچھ سوچتا، سمجھتا اورکہتا ہے جو مربی اور استاد نے دوسروں کو فرمایا یا بتلایا ہوتاہے، اگرچہ اس تلمیذ نے براہِ راست استاد سے وہ نہ پڑھا ہو نہ سنا ہو، اخذ و استفادہ کایہ طریق انتہائی قوی اور سریع الحصول ہوتا ہے۔ نہ کسی خاص کتاب کو استاد و مربی سے پڑھنے کی یا کسی تحقیق کو استاد و مربی کی زبان سے سننے کی ضرورت باقی رہتی ہے، نہ کسی مخصوص مدت اوروقت کی، برسوں کا کام مہینوں میں اور مہینوں کا کام ہفتوں میں اور ہفتوں کا کام دنوں میں ہوجاتا ہے، گویا تلمیذ استادکی زبان یا ترجمان بن جاتا ہے۔
اخذ و استفادہ کے اس طریق میں طالب کی فطری ذہانت و ذکاوت، اخّاذ طبیعت دقیقہ شناسی، نکتہ رسی، سرعت فہم اور حافظہ کی قوت بے حد معین اور اتحاد روحانی یا انصباغ روحانی کے لئے بے حد مدد گار ہوتے ہیں۔ یہ فطری خوبیاں اور صلاحیتیں سونے پر سہاگہ کا کام کرتی ہیں اورروحانی اتحاد منتہائے کمال پر پہنچ جاتا ہے۔ ؎
من توشدم تو من شدی من تن شدم توجاں شدی
تاکس نہ گوید بعد ازاں من دیگرم تو دیگری
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ بحیثیت باپ، استاد، مربی اور حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بحیثیت ایک بیٹے، شاگرد کے ربط وتعلق پر غور وفکر کیاجائے تو مذکورہ بالا دونوں طریق اخذ و استفادہ کی فہم عقل میں آجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ پروردہ فرید ملت کو روشن مستقبل کے لئے خود ہی تیار کر رہا تھا، اس نے اپنے خاص فضل و کرم سے فطری ذہانت وذکاوت اور خرقِ عادت کے مرتبہ میں اخّاذ طبیعت، علوم وفنون اور دقائق و حقائق کے سمجھنے اورپرکھنے کی استعداد واہلیت، گہرائیوں میں اتر جانے والی دقیق نظر، غضب کے حافظہ سے سرفراز فرمایا ہے۔ بالفاظ دیگر حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تیاری کے لئے قدرت نے حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کو دقیق و عمیق علوم و معارف سے نوازا تھا۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے علوم و معارف جو ارضِ ہند اور عرب ممالک کے شیوخ سے کسب کئے تھے وہ مستقبل کی قیادت کے لئے ہی حاصل کئے تھے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے کوئی کتاب کسی استاد کے پاس جا کر پڑھی اور کوئی کتاب کسی کے پاس، غرض مختلف مقامات سے جو علمی و روحانی فیض حاصل کیا وہ بلا شرکت غیر ے اپنے جگر گوشہ کو منتقل کر دیا، پروردہ نگاہ فرید کی علوم و معارف اور حقائق و دقائق کی تشنہ اور بے قرار روح نے اپنے باپ اور استاد کے تمام تر علوم و معارف حقائق و دقائق اور اسرار و رموز کو اس طرح اپنے اندر جذب کرلیا جیسے ریگ زار زمین موسلا دھار بارش کے ایک ایک قطرہ کو پی جاتی ہے۔ قوتِ حافظہ اور یادداشت کا یہ عالم ہے کہ جو بات بھی جس زمانہ میں، جس مقام اور جس وقت فرمائی، برس ہا برس گزر جانے کے بعد زمانہ، مقام اور وقت کی تعیین کے ساتھ لوحِ ذہن پر نقش کا لحجر ہے۔ غایت محبت کی وجہ سے نہ صرف وہ بات بلکہ اپنے محبوب استاد اور ابا جان کا اندازِ تکلم لب و لہجہ اور درس و خطابت کا اُسلوب بعینہٖ اسی طرح یاد ہے۔ حضرت فریدملت رحمہ اللّٰہ کو سننے والے اور جاننے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ پروردہ نگاہ فرید اپنے عظیم اباجان کا پر تو کامل ہیں۔ جگر گوشہ نے اپنے استاد سے اخذو استفادہ دونوں طریق پر کیا ہے۔ اور دوسرے طریق میں بھی کمال حاصل ہے۔ لہٰذا روحانی اتحاد اورروحانی انصباغ کے منتہائے کمال پر پہنچ کر آخذ و ماخوذ منہ کے ادراکی قوی اورسوچنے سمجھنے کے طریقے بالکل ایک ہو جاتے ہیں۔ اس لئے حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے تمام تلامذہ و مستفید ین میں ان کے علوم و معارف کے حامل صرف حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ شام اور حرمین شریفین کے اکابر شیوخ کے کلام کا ایجاذ، ایما بلکہ اغلاق بھی آپ کے لئے مانع نہیں ہوا۔ بلکہ آپ نے ان کے مؤجز مختصر قسم کے کلام کو اپنی عبقریت کے ذریعہ پوری وضاحت و تفصیل کے ساتھ اخذ کر کے اس کو مزید قابل فہم بنا کر پیش کیاہے۔
احقر خاکسار یہ کہنے پر مجبور ہے کہ حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو قدرت نے حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے علوم و معارف اور طرز کلام کومحفوظ رکھنے کے لئے بلکہ ان کے موجز و معجز تحقیقات کو شرح و بسط کے ساتھ بیان کر کے علماء و طلباء کے لئے آسان اور قابل استفادہ بنانے کے لئے پیدا فرمایا ہے۔ اور یہی بڑی رمزیت و خصوصیت اور سعادت اور حسن عمل ہے کہ بیٹا اپنے باپ کے علوم و معارف کاصحیح جانشین ہو۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کی ایک خاص رمزیت اور کمال تلخیص تھا۔ چوٹی کے مصنفین و محققین کے کئی صفحات پر پھیلے ہوئے مباحث کو کا خلاصہ چند جملوں میں اس خوبی کے ساتھ اپنے پروردہ نگاہ کوذہن نشین کروادیا جیسے ’’ماہر دواساز‘‘عرق کشید کرتے ہیں۔ یا ’’عطرساز‘‘ ’روح‘‘ کشید کرتے ہیں یا آج کل ماہرین ہر چیز کا جوہر نکالتے ہیں، حجم نہایت مختصر تاثیر اور کارکردگی بے حد قوی، حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ عملاً طبابت و حکمت سے وابستہ تھے اور یہ گر انہوں نے اپنے اسی فن سے سیکھا تھا لہٰذا اسے انہوں نے خوب برتا اور اپنے علم و فضل کا جوہر ’’طاہر‘‘ کی صورت میں قوم کو تحفہ دیا۔ ہر باب اورشعبے میں آپ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کامثنی ہیں۔ اس لئے کہ عظیم والد کے علوم و معارف آپ میں منعکس ہو گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کو اپنے معاصرین پر تفوق حاصل ہے۔ یہ سب آپ کے والد گرامی رحمہ اللّٰہ کی صحبت اور فیضان نظر کاکرشمہ ہے۔
عارفین کاکہنا ہے کہ ہر عارف کو اس کے علوم و معارف کی ترجمانی کے لئے ایک لسان عطا کی جاتی ہے۔ جیسا کہ حضرت شمس تبریز رحمہ اللّٰہ کی لسان مولانا رومی رحمہ اللّٰہ تھے۔ بلا شبہ موجودہ دور میں اپنے مرشدحضرت سیدنا طاہر علائو الدین القادری رحمہ اللّٰہ اور استاد کی لسان حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری ہیں۔ جو علوم و معارف شیخ و استاد کے قلب پر وارد ہوئے تھے انہیں آپ کھول کھول کر بیان فرما رہے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved