ڈاکٹر فرید الدین قادری مرحوم و مغفور سے میرے دیرینہ دوستانہ روابط تھے۔ اِن کی شخصیت میں عجب شان محبوبیت تھی۔ جب کبھی میرا جھنگ کا دورہ ہوتا وہ خصوصی اہتمام کے ساتھ ملاقات کے لئے تشریف لاتے۔ اور بعض اوقات کسی وجہ سے وہ ملنے کے لئے تشریف نہ لا سکتے تو میں خود آپ کی رہائش پر ملاقات کے لئے پہنچ جاتا۔ کئی بار جامع مسجد پرانی عید گاہ میں مختلف کانفرنسوں میں شریک ہوا جن میں وہ بھی تشریف لاتے رہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم و مغفور ایک عالم باعمل اور خدا رسیدہ بزرگ تھے۔ ہر تیسرے سال سعادت حج مبرور سے فیض یاب ہوتے تھے۔ انہوں نے ایران، عراق، شام اور دمشق کے سفر بھی کئے۔ وہ ہر ملک میں بزرگان دین کے مزارات پر حاضری دیتے اور فیض پاتے تھے۔ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی شیاً للہ کے وہ مرید خاص اور عاشق زار تھے۔ انہوں نے کئی ایسے واقعات بیان کئے ہیں جن میں ان کا اولیاء کاملین کے ساتھ روحانی رابطے کا پتہ چلتا ہے۔ حضرت شیخ فرید الدین عطار رحمہ اللہ کے مزار پر اپنی حاضر کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ جب میں مزار اقدس پر گیا تو دروازے بند تھے۔ میری خواہش تھی کہ اندر جا کر شیخ عطار رحمہ اللہ سے روحانی فیض حاصل کروں۔ لیکن دروازہ بند ہونے پر پریشانی ہو رہی تھی اور سوچ رہا تھا کہ کیا کروں کہ اچانک مزار کا خادم میرے پاس آیا۔ اس کی بیوی درد زہ میں مبتلا تھی اس نے مجھ سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا۔ حسن اتفاق سے میرے سوٹ کیس میں ایک ٹیکہ موجود تھا۔ میں نے خادم اور مجاور خاص کو تسلی دی۔ اور اسے بتایا کہ میں ڈاکٹر ہوں۔ چنانچہ میں نے اس کی بیوی کو انجکشن لگایا اور اللہ تعالیٰ کے فض و کرم سے بڑی آسانی کے ساتھ بچے کی پیدائش ہوگئی۔ اس پر مجاور بہت خوش ہوا۔ اس نے میرے لئے مزار کے دروازے کھول دئیے اور مجھے اپنے ہاں مہمان ٹھہرایا۔
اسی طرح انہوں نے جامع مسجد امویہ دمشق میں ابدال سے ملاقات کا ذکر کیا کہ ایک رات مقام خضر علیہ السلام پر آخر شب دعا کی کہ اے اللہ ابدالوں کی جماعت کے کسی فرد کی زیارت کا شرف عطا فرما۔ اور اس طرح کہ مجھ سے وہ ہم کلام بھی ہو۔ اور میں اسے پہچان بھی سکوں۔ دعا کے بعد نماز فجر ادا کی۔ اور پھر حضرت یحییٰ علیہ السلام کے مزار اقدس پر سلام و فاتحہ کے لئے حاضر ہوا کہ اچانک ایک خوبروسیاہ ریش عربی نوجوان مجھ سے مخاطب ہوا کہ ڈاکٹر فرید الدین صاحب کیا آپ نے مجھے پہچانا۔ میں نے جواب دیا کہ میں آپ کو نہیں پہچانتا۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں آپ کی دعا ہوں۔ میں نے ان سے مصافحہ کیا اور ان کا نام پوچھا فرمانے لگے۔ میرا نام عبدالعزیز ہے۔ میں یمن کا رہنے والا ہوں اور عرصہ تین سال سے شام میں متعین ہوں۔ میں اب آپ سے مسجد نبوی میں دوبارہ ملوں گا۔ اب آپ میرا تعاقب نہ کریں اور السلام علیکم کہہ کر تشریف لے گئے۔ کافی عرصہ بعد جب میں عمرہ کی سعادت حاصل کرنے سرزمین عرب پہنچا تو مسجد نبوی میں میری ان سے دوبارہ ملاقات ہوئی۔ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللہ نے مجھے بتایا کہ انہیں لیلۃ القدر کی سعادت بھی اللہ تعالیٰ نے بخشی ہے۔ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللہ نے حکمت اور ڈاکٹری کے ساتھ ساتھ درس نظامیہ کی تحصیل بھی کی ہوئی تھی۔ اور اکابر اساتذہ سے اکتساب علم کیا تھا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت ہے۔ جب بھی حج پر جاتے وہاں سے اپنے بیٹے ’’طاہرالقادری‘‘ کے لئے کتابیں ہمراہ لاتے تھے۔ کئی بار انہوں نے جلسوں میں اپنے بیٹے کی تقریر پر خوشی اور مسرت کا اظہار کیا۔ اور مجھے بتایا کہ مجھے اس بچے میں سعادت کے آثار نظر آتے ہیں۔ انشاء اللہ یہ علمی اور دینی حلقوں میں امتیازی مقام حاصل کرے گا۔ ڈاکٹر طاہرالقادری نے کچھ دنوں کالجز میں بطور لیکچرار کام کیا۔ اور وکالت کی پریکٹس بھی کی۔ لیکن ان کے والد ماجد کی خواہش یہ تھی کہ وہ مرکز علم و ادب اور دین و دانش مدینۃ الاولیاء لاہور منتقل ہو جائیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے ایسے اسباب پیدا کئے کہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب لاہور آگئے۔ یہاں پر ان کو ایسے مواقع ملے جن سے وہ اپنے علمی فضل و کمال کے اوج پر پہنچے اور اہل اسلام کو بھی فیض یاب کیا۔
ڈاکٹر فرید الدین صاحب کی وفات کے بعد میں ان کی تعزیت کے لئے حاضر ہوا۔ اور پھر ان کی رسم قل میں بھی شرکت کی۔ ڈاکٹر صاحب کے روحانی تصرفات کا ذکر ان کے صاحبزادے نے کئی بار ہمارے سامنے کیا۔ ایک واقعہ انہوں نے ہمیں بتایا کہ وہ اپنی بیگم کی علالت کے سلسلہ میں بے حد پریشان تھے۔ اور ڈاکٹر حکیموں نے مایوس کر دیا تھا۔ ان حالات میں والد ماجد نے خواب میں انہیں بتایا کہ میری بیاض میں فلاں صفحہ پر جو نسخہ لکھا ہوا ہے وہ استعمال کرو۔ شیخ الاسلام نے مجھے بتایا کہ وہی نسخہ میں نے استعمال کروایا اور اللہ تعالیٰ نے میری بیگم کو شفائے عاجلہ و کاملہ نصیب فرمائی۔ ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ کا اخلاص محبت اور خاکسار کے ساتھ والہانہ تعلق ایسی حسین یادداشت ہے جو میرے لئے قلبی سکون کا باعث ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے صاحبزادے طاہرالقادری صاحب سے بھی مسلسل محبت اور خلوص کا تعلق قائم ہے۔ ان کے بچے ان کی بیگم اور ان کے اہل خاندان سب کو میں اپنے خاندان کے افراد سمجھتا ہوں۔ مجھے خوشی ہے کہ آپ نے اپنے رسالے میں ڈاکٹر صاحب مرحوم و مغفور کے احوال زندگانی مرتب کرنے کا اہتمام کیا ہے۔ میری دلی خواہش ہے کہ ان کے فرزند دلبند اپنے عظیم والد مہربان کے ملفوظات، مکاشفات او رکرامات کو جمع کر کے اس نعمت غیر مترقبہ میں سب لوگوں کو مستفید ہونے کا موقع فراہم کریں۔ میں اپنے احباب کی فہرست میں ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللہ کے خلا کو بڑی شدت سے محسوس کرتا ہوں۔ بہرحال اپنا روحانی تعلق قائم ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مومن کامل کو حیات طیبہ عطا کی جاتی ہے۔ ؎
نور قدیمی را بر افروز
دست کلیمی در آستینی
از مرگ ترسے زندہ جاوید
مرگ است صیدے تو در کمینی
جانے کہ بخشند دیگر نہ گیرند
آدم بہ میرد از بے یقینی
ہرگز نہ میرد آنکہ دلش زندہ شد بہ عشق
ثبت است برجریدہ عالم دوام ما
ڈاکٹر صاحب مرحوم و مغفور کو اللہ تعالیٰ نے حیات ابدی عطا کی ہے۔ اور وہ اس وقت بھی فضا قدس میں پرواز کرتے ہوئے ہمارے احوال سے باخبر ہیں۔ اور ان کا ہمارے ساتھ تعلق ہر وقت قائم و دائم ہے۔
دل کے آئینے میں ہے تصویر یار
جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کے فرزند دلبند کو بھی اپنے والد ماجد کے نقش قدم پر قائم و دائم رکھے انہیں بھی روحانیت کا وہی مقام عطا کرے جو ان کے والد ماجد کو حاصل تھا۔
قومی ڈائجسٹ، شمارہ اپریل 1989ء میں شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے حوالے سے حضرت فرید ملت قادری علیہ الرحمہ کے علمی و روحانی مقام اور دینی خدمات کے بارے میں شائع شدہ بعض حقائق کے بیان پر مولانا صلاح الدین یوسف، ایڈیٹر’الاعتصام‘ نے اپنے شمارہ جولائی 1989ء میں بعض گمراہ کن سوالات اُٹھائے تھے۔ جن کا جواب حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللہ کے ایک دیرینہ دوست محترم ڈاکٹر احسان صابری قریشی (ایم۔ اے (پنجاب)، پی سی ٹی (لندن)، ایم۔ ڈی۔ ایچ (کلکتہ)) نے دیا ہے۔
مولانا صلاح الدین یوسف ایڈیٹر’’الاعتصام‘‘ نے قومی ڈائجسٹ بابت ماہ جولائی 1989ء میں علامہ ڈاکٹر طاہر القادری کے والد محترم مولانا ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ کے متعلق قومی ڈائجسٹ شمارہ اپریل 1989ء کے حوالے سے کچھ خامہ فرسائی کی ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ اہل حدیث تصوف و سلوک کے سلسلوں کو نہیں مانتے۔ وہ تو شریعتِ اسلامیہ کی چار مشہور فقہوں کے بھی قائل نہیں (حنفی۔ شافعی۔ مالکی۔ حنبلی) حالانکہ علمائے بریلی اور علمائے دیوبند ان کے قائل ہیں۔ نیزوہ طریقت کے چار سلسلہ ہائے کے بھی قائل نہیں (چشتی۔ قادری۔ نقشبندی۔ سہروردی)۔ حالانکہ علمائے بریلی اور علمائے دیوبند ان چہار سلسلہ ہائے تصوف و سلوک کے قائل ہیں۔ مولانا شاہ اشرف علی تھانوی، علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی اور مفتی محمد حسن تو اپنے نام کے آگے چشتی صابری کے الفاظ لکھا کرتے تھے۔
میری پہلی ملاقات
میں اور ڈاکٹر فرید الدین تقریباًہم عمر ہیں۔ میرا اِن سے رابطہ تب ہوا تھا جب وہ سیالکوٹ میں مولانا محمد یوسف کشمیری رحمہ اللہ سے دینی تعلیم حاصل کرنے آئے تھے۔ اور میرے تایا ڈاکٹر محبوب عالم قریشی کے ہاں قیام کیا تھا۔ میں ان ایام میں امرتسر میں قیام پذیر تھا۔ میں اپنے تایا ڈاکٹر محبوب عالم قریشی (ہومیو پیتھ) سے ملنے اکثر سیالکوٹ آیا کرتا تھا۔ اپنے تایا کے مکان پر میری اور ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ کی پہلی ملاقات ہوئی۔ میں نے انہیں پہلی ملاقات میں ہی ایک درویش صفت طالب علم پایا۔
1939ء میں میری تقرری (ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ کی کوششوں سے ہی) گورنمنٹ انٹرمیڈی ایٹ کالج جھنگ میں بطور لیکچرار کامرس (پوسٹ میٹرک کمرشل کلاس) ہوگئی۔ وہ جب بھی سیالکوٹ سے جھنگ آتے تو میرے پاس قیام کرتے۔ اپنے وطن میں اپنے والد صاحب کے ہاں اس لئے نہیں ٹھہرتے تھے کہ وہ انہیں سیالکوٹ یا لکھنؤ تعلیم حاصل کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ اس طرح میری اور ان کی دوستی میرے تایا جان کے توسط سے چل نکلی۔ جب بھی مجھے گورنمنٹ انٹر کالج جھنگ سے فراغت ملتی (یعنی تعطیلات موسم گرما، تعطیلات موسم سرما، تعطیلات موسم بہار وغیرہ) میں سیدھا امرتسر جاتا، جہاں میرے والد اسسٹنٹ انسپکٹر آف سکولز تھے۔ پھر میں سیالکوٹ چلا جاتا جہاں میرے تایا ہومیوپیتھک ڈاکٹر تھے اور ساتھ ہی ساتھ انہوں نے ایک سکول بھی چلا رکھا تھا۔ وہاں ڈاکٹر فرید الدین صاحب رحمہ اللہ سے بھی ملاقات ہو جاتی تھی۔
23 مارچ 1940ء کا مشہور تاریخی اجلاس (آل انڈیا مسلم لیگ) لاہور میں شروع ہونے والا تھا۔ یہ اجلاس تین روز جاری رہنا تھا۔ یعنی جمعہ 23 مارچ ہفتہ 24مارچ اور اتوار 25مارچ 1940ئ۔ ان ایام میں دفعتہ ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ جھنگ تشریف لائے اور اپنے والد صاحب کے گھر ٹھہرنے کی بجائے میرے ہاں ٹھہرے۔ مجھے انہوں نے مشورہ دیا کہ آؤ لاہور چلیں اور آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں متواتر تین روز شرکت کریں۔ میں نے عرض کی کہ میں اس وقت سرکاری ملازم ہوں اور میری ملازمت کا یہ پہلا سال ہے۔ کوئی دشمن رپورٹ کر دے گا کہ اس نے کیوں ایک سیاسی جلسے میں شرکت کی۔ فرید صاحب نے کہا کہ اس اجلاس میں مسلمانوں کے لئے ایک علیحدہ خطے کا ریزولیوشن پاس ہوگا اور قائد اعظم محمد علی جناح بنفس نفیس اس کی صدارت کریں گے اس لحاظ سے یہ ایک تاریخی اجلاس ہوگا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ انشاء اللہ مسلمان ایک علیحدہ خطہ انگریز سے لے کر رہیں گے۔ چنانچہ میں نے فرید صاحب رحمہ اللہ کا مشورہ مان لیا اور دو دن کی رُخصت کی درخواست کالج میں دے دی۔ یعنی 23 اور 24 مارچ کی اتفاقیہ رخصت (25 مارچ کو اتوار کی وجہ سے ویسے ہی تعطیل تھی) لے لی۔ درخواست میں لکھا کہ ایک اشد ضروری کام سے وطن جا رہا ہوں۔ 22 مارچ کو میں اور ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ دونوں لاہور پہنچے۔ میں چونکہ طالب علمی کے زمانے میں مسلم لیگ کا والنٹیئربھی رہا تھا اس لئے 23 مارچ کے اجلاس میں ہم دونوں نے پہلی قطار میں جگہ حاصل کر لی۔ قائد اعظم کی تقریر کے دوران میں نعرے لگاتا تھا اور میرے پیچھے فرید صاحب جوابی نعرہ (بمعہ حاضرین اجلاس) مل کر لگاتے تھے۔ ہم دونوں کی آواز بہت بلند تھی، اتنی بلند کہ نعروں کے لئے لاؤڈ اسپیکر کی ضرورت سے بھی ہم بے نیاز تھے۔ لاؤڈ اسپیکر مقررین کے لئے مختص تھا۔ مسلم لیگ زندہ باد، قائد اعظم زندہ باد کے فلک شگاف نعرے ہم دونوں پوری قوت کے ساتھ لگا رہے تھے۔ قائد اعظم رحمہ اللہ ہم دونوں سے بہت خوش نظر آتے تھے اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ہم دونوں کو داد دے رہے تھے۔ مولوی ابو القاسم فضل الحق نائب خلیق الزماں اور نوابزادہ لیاقت علی خاں بھی ہم کو شاباش دے رہے تھے۔
اجلاس تین روز جاری رہا، اور ہم دونوں نے تینوں روز فلک شگاف نعرے لگائے۔ اجلاس کے اختتام کے بعد فرید صاحب رحمہ اللہ تو سیالکوٹ چلے گئے اور میں اپنی ملازمت پر واپس جھنگ آگیا۔ لالہ رگھو ناتھ رائے وائس پرنسپل گورنمنٹ انٹر کالج جھنگ نے میرے خلاف رپورٹ کر دی کہ احسان قریشی صابری نے سرکاری ملازم (لیکچرار) ہونے کے باوجود آل انڈیا مسلم کے اجلاس منعقدہ لاہور میں متواتر تین روز شرکت کی ہے۔ جمعہ، ہفتہ، اتوار: 23، 24، 25 مارچ 1940ئ) اس مقصد کے لئے اس نے دو روز کی رخصت اتفاقیہ لی۔ تیسرے روز ویسے ہی تعطیل بوجہ اتوار تھی۔ یہ رپورٹ مسٹر ولیم ہربرٹ فلیچر آرمسٹرانگ ڈی۔ پی۔ آئی پنجاب کو ارسال کی گئی۔ کالج کے پرنسپل چارروز کی چھٹی پر تھے۔ لالہ رگھو ناتھ رائے وائس پرنسپل قائم مقام پرنسپل کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ مسٹر آرم سٹرانگ ڈی۔ پی۔ آئی نے رائے بہادر مسٹر من موہن ڈپٹی ڈائریکٹر پنجاب کو میرے معاملہ میں انکوائری آفیسر مقرر کیا۔ مسٹر من موہن نے میرے خلاف تین صفحے بھر کر لکھے کہ اسے سرکاری ملازمت سے برطرف کر دیا جائے۔ گورنمنٹ سرونٹ ہوتے ہوئے اس کاکوئی حق نہ تھاکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں شرکت کرتا۔ میرے والد صاحب جو کہ امرتسر میں اسسٹنٹ انسپکٹر آف سکولز تھے انگریزی ڈی۔ پی۔ آئی سے ملے اور عرض کی کہ میرے لڑکے کی ملازمت کا یہ پہلا سال تھا۔ اسے گورنمنٹ سرونٹس کنڈکٹ رولز کا کوئی علم نہ تھا۔ اس کے خلاف اتنا بڑا ایکشن نہ لیا جائے۔ یہ کیس ڈیڑھ سال تک چلتا رہا۔ آخر فیصلہ یہ ہوا کہ (راقم الحروف) احسان قریشی صابری کا پے سکیل تو وہی (لیکچرار) کا رہنے دیا جائے مگر اسے جھنگ کالج سے ملتان کے گورنمنٹ ہائی سکول میں بطور کمرشل ٹیچر ٹرانسفر کر دیا جائے۔ چنانچہ اکتوبر1941ء میں مجھے ملتان کے گورنمنٹ ہائی سکول میں ٹرانسفر کر دیا گیا تھا۔
1940ء میں ڈاکٹر عبدالسلام (نوبل پرائز والے) گورنمنٹ انٹر کالج جھنگ کی دسویں جماعت کے طالب علم تھے۔ کالج میں نویں، دسویں، فسٹ ایئر، سیکنڈ ایئر اور پوسٹ میٹرک کمرشل کلاس کی پانچ جماعتیں تھیں۔ سال ڈاکٹر عبدالسلام میٹرک کے امتحان میں پنجاب بھر میں فسٹ آئے۔ گورنمنٹ انٹر کالج جھنگ کا نام صوبہ بھر میں بہت بلند ہوا۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے والد مولوی محمد حسین دفتر ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز جھنگ میں ہیڈ کلرک تھے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے تایا مولوی غلام حسین لائل پور کے ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز تھے اور اسی سال ریٹائر ہو کر جھنگ میں ہی اپنے آبائی مکان میں آبسے تھے۔ یہ دونوں بھائی (مولوی حسین اور مولوی غلام حسین) میرے ہمسائے تھے۔ ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ سے بھی ان کی علیک سلیک تھی۔ ایک بار جھنگ شہر ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ کا مناظرہ ان دونوں بھائیوں سے ’’احمدیت‘‘ کے موضوع پر ہوا۔ میں اس مناظرہ میں موجود تھا اور پروفیسر صوفی ضیاء الحق بھی موجود تھے۔ تین دن مناظرہ جاری رہا۔ آخر کار یہ دونوں بھائی اس مسئلہ کو مان گئے کہ رسول اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی ہندوستان میں تو کجا اس دنیا میں بھی نہیں آسکتا۔ اس بات پر مرزائیوں میں یعنی احمدیوں میں کھلبلی مچ گئی۔ اسے ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ کی کھلی کرامت سمجھا گیا۔ قادیان میں اس سلسلہ میں فیصلہ کیا گیا کہ مولوی محمد حسین کو جھنگ سے کہیں اور ٹرانسفر کر وایا جائے، جہاں اس کی ملاقات ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ سے نہ ہو سکے۔ ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ جھنگ میں اکثر آتا جاتا رہتا ہے۔ چنانچہ مولوی محمد حسین کو جھنگ سے ملتان ٹرانسفر کروادیا گیا۔
چوہدری سر محمد ظفر اللہ خاں نے اس سلسلہ میں اہم کردار ادا کیا۔ اتفاق کی بات دیکھئے کہ راقم الحروف اور مولوی محمد حسین 1941ء میں اکٹھے ہی دونوں جھنگ سے ملتان تبدیلی کر دئیے گئے۔ مولوی محمد حسین کو رائے بہادر کاہن چند کھنہ (K.L. Khanna) ڈویژنل انسپکٹر آف سکولز ملتان کا ہیڈ کلرک مقرر کیا گیا، اور مجھے گورنمنٹ ہائی سکول ملتان کی کمرشل کلاس کا انچارج مقرر کیا گیا۔ مولوی غلام حسین ریٹائرڈ DIS بھی اپنے بھائی کے ساتھ ملتان آگئے۔ یہاں مرزا بشیرالدین محمود احمد نے مولوی غلام رسول راجیکے کو ملتان چھ ماہ کے لئے بھیج دیا کہ مولوی محمد حسین اور مولوی غلام حسین دونوں کو پھر سے احمدی بنایا جائے۔ مولوی غلام رسول راجیکے اس میں کامیاب ہوگئے۔ دریں اثنا میں نے بڑی کوشش کی کہ ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ لکھنؤ سے ملتان صرف ایک ہفتہ کے لئے آجائیں تاکہ ان دونوں بھائیوں کو پھر سے تائب کرادیں مگر فرید صاحب کسی وجہ سے ملتان نہ آسکے۔
مولانا صلاح الدین یوسف مدیر ’’الاعتصام‘‘نے قومی ڈائجسٹ کے صفحہ 120 پر لکھا ہے کہ ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ نے عالم بیداری میں حضرت علی ص کی زیارت کیوںا ور کیسے کر لی؟ سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ بھی بنفس نفیس ان کے پاس کیسے آگئے؟ ساٹھ ستر سال قبل یو۔ پی میں ایک بزرگ تھے شاہ حسن رسول نما۔ وہ اپنے چیدہ چیدہ مریدوں کو عالم بیداری میں ہی تین منٹ کے لئے سرورِ کائنات نبی اکرم ﷺ کی زیارت کروا دیا کرتے تھے۔ مولانا اشرف علی تھانوی نے اپنی کتاب میں شان حسن رسول ﷺ نما کی بڑی تعریف کی ہے اور تصدیق کی ہے کہ وہ عالم بیداری میں ہی سرور کائناتؐ کی زیارت کرا دیا کرتے تھے۔
1930ء میں پھر پیر مہر علی شاہ گولڑوی رحمہ اللہ نے سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کو عالم بیداری میں غوث الاعظم سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ کی زیارت گولڑہ شریف میں ہی کروادی تھی۔ اس بات کا اقرار سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ نے اپنی بیشترتقاریر میں کیا تھا۔ راقم الحروف نے خود یہ واقعہ سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ کی زبانی سنا تھا۔
مدیر ’’الاعتصام‘‘ نے اپنے مضمون کے آخر میں ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ ایک عالم دین نہ تھے۔ وہ کیسے سعودی عرب میں عرب کے چوٹی کے علماء کے ساتھ مناظرہ کرسکتے تھے! ڈاکٹر طاہر القادری اس سلسلے میں کوئی ثبوت پیش کریں۔ اگر ڈاکٹر صاحب کوئی ثبوت پیش کرنے سے قاصر رہے تو سمجھ لیجئے کہ یہ بھی دیگر کہانیوں کی طرح اسی ٹکسال کی گھڑی ہوئی کہانی ہے جس ٹکسال سے آج کل بہت سی کہانیاں گھڑ گھڑ کر باہر آرہی ہیں۔ جناب مدیر الاعتصام صاحب! ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے جو کچھ لکھا ہے سوفی صد سچ لکھا ہے۔ اس مناظرہ کے گواہ ہم دو باپ بیٹا ہیں:
(1) پیر محمد عبدالغنی قریشی، سابق اسسٹنٹ ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز۔ امرتسر
(2) راقم الحروف ڈاکٹر احسان قریشی صابری، سابق پرنسپل گورنمنٹ کالج آف کامرس سیالکوٹ
والد محترم تو فوت ہوگئے ہیں مگر راقم الحروف خدا کے فضل سے زندہ ہے۔ ہم دونوں باپ بیٹا جب عمرہ کے لئے سعودی عرب گئے ہوئے تھے تو یہ مناظرہ ہمارے سامنے ہوا تھا۔ ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ کو جب علم ہوا کہ ہم دونوں وہاں ہیں تو وہ ہمیں اپنے ہاں لے گئے۔
یہ واضح کر دوں کہ عرصہ 5 سال سے میری ملاقات ڈاکٹر علامہ طاہر القادری سے نہیں ہوئی۔ گذشتہ ماہ انہوں نے چار روز ضلع سیالکوٹ میں گذارے۔ جس رات انہوں نے تالاب مولا بخش میں تقریر کی مَیں وہاں موجود تھا۔ مَیں نے ان کی تمام تقریر سنی اور تقریر سن کر عش عش کر اُٹھا کہ بیٹے میں باپ کی نوری جبلت کس درجہ اتم قدرت نے بھر رکھی ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری میرے دوست ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ کے صاحبزادے ہیں۔ قدرتی محبت کی وجہ سے میں نے ان سے ملنے کی بہت کوشش کی۔ مگر نوجوان نے مجھ بوڑھے کو ان سے ملنے سے روک دیا اور باوجود صد کوشش کے 70 سال کا یہ بوڑھا اپنے دوست کے بیٹے سے نہ مل سکا۔ دوسرے روز میں نے چٹی شیخاں کے گاؤں جانے کی بڑی کوشش کی تاکہ اپنے محبوب دوست ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ کے بیٹے سے وہاں کے جلسہ میں پانچ دست منٹ مل تو لوں۔ مگر قدرت کو یہ بھی منظور نہ تھا۔ اس روز میری بیٹی مجھ سے ملنے کے لئے لاہور سے سیالکوٹ آگئی اور میں چٹی شیخاں کے گاؤں بھی نہ جا سکا۔ میرے نواسے نے اپنے نانا کو اس گاؤں جانے نہیں دیا۔
میرا مقصد ان سطور کے لکھنے سے یہ ہے کہ کہیں یہ سمجھ نہ لیا جائے کہ مجھے یہ مضمون ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے خدانخواستہ لکھوایا ہے۔ میری تو ان سے گذشتہ 5 سال سے ملاقات بھی نہیں ہوئی۔ میں نے یہ مضمون اس واسطے لکھا ہے کہ میرے دوست ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ ایک عالم بے بدل اور فاضلِ اجل تھے۔ قائد اعظم رحمہ اللہ کے والہ و شیدا تھے اور میرے ساتھ اجلاس میں نعرے لگایا کرتے تھے۔ صاحبِ کشف و کرامات تھے۔ صائم الدھر اور قائم اللّیل تھے۔ عربی، فارسی، اردو، انگریزی تمام زبانوں پر ان کو پورا پورا عبور تھا۔ حق تعالیٰ ان کے مرقدپرنور کی بارش کرے۔ (آمین)
نظر نہیں تو میرے حلقۂ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثالِ تیغ اصیل
مہر غلام عباس لالی جن کا تعلق کانویں والا کے ایک بڑے زمیندار خاندان سے ہے۔ پابند صوم و صلوٰۃ، صوفی منش انسان ہیں۔ وہ انتہائی ملنسار، بامروت اور اولیاء کرام سے محبت کرنے والے ہیں۔ جب ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ کانویں والا میں اقامت پذیر تھے تو موصوف کا زیادہ وقت قبلہ ڈاکٹر صاحب کی صحبت میں گزرتا تھا۔ جب مہر صاحب سے ڈاکٹر صاحب کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اپنے تاثرات قلمبند کراتے ہوئے فرمایا۔ بعد ازاں علاقہ کے ایک زمیندار اور انتہائی معزز شخصیت مہر نور محمد لالی نے بھی ان واقعات کی تصدیق کی۔
ان کی طبی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے چند ایک واقعات بیان کئے جو کہ درج ذیل ہیں:
ڈاکٹر فرید الدین صاحب کا طبی مقام بہت بلند تھا۔ ایک دفعہ میرے چچا مہر مراد بخش سخت بیمار پڑ گئے۔ کافی حکماء ڈاکٹر صاحبان سے علاج معالجہ کرایا، لیکن افاقہ نہ ہوا تو انہیں علاج کے لئے دہلی میں حکیم اجمل خان کے پاس لے جایا گیا۔ حکیم اجمل خاں نے دو ماہ تک علاج کیا تو کچھ افاقہ محسوس ہوا۔ حکیم صاحب نے کہا کہ اگر مریض یہاں رہا تو میں اس کا علاج جاری رکھوںگا وگرنہ موسم بدلنے کے ساتھ یہ مرض عود کر آئے گا۔ اس پر میرے والد مہر محمد محسن لالی نے کہا کہ ہم مریض کو لے جا رہے ہیں۔ آپ نسخہ تجویز کر دیں۔ ہم وہاں علاج کا بندوبست کر لیں گے۔ حکیم اجمل خان نے کہا ایسا ممکن نہیں۔ اس لئے کہ اس قسم کے مرض میں مریض کی حالت اور موسم کا بڑا دخل ہوتا ہے جس کے پیش نظر ادویات میں بعض اجزاء میں کمی بیشی کرنا پڑتی ہے۔ وہ لوگ مریض کو لے کر واپس آگئے تو حکیم اجمل خان کے کہنے کے مطابق موسم کی تبدیلی کی وجہ سے مرض اور زیادہ بڑھ گیا۔ مریض کی حالت دیکھ کر ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس کا علاج میں کروں گا۔ چنانچہ آپ نے علاج کیا تو ان کا مرض ہمیشہ کے لئے ختم ہوگیا اس پر والد صاحب نے خوش ہو کر ڈاکٹر صاحب کو ایک ددھیل بھینس بمع بچہ تحفتہً پیش کی۔
ایک دفعہ میرے والد مہر محمد محسن لالی سخت بیمار ہو گئے تو حکماء نے بتایا کہ ان کا جگر خراب ہے۔ مگر ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ کی تشخیص یہ تھی کہ مریض کینسر کی ایک قسم میں مبتلا ہے۔ اس بات کو کافی برس گزر گئے تو مہر صاحب کو دوبارہ تکلیف شروع ہوئی اور انہیں لاہور کے نامور اور ممتاز ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کے پاس علاج کے لئے لے جایا گیا۔ انہوں نے علاج شروع کیا لیکن بیماری میں کوئی افاقہ نہ ہوا۔ آخر ڈاکٹر الٰہی بخش نے بتایا کہ مریض کینسر کی آخری لاعلاج سٹیج میں ہے۔ اس طرح ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ نے جو بات کئی برس پہلے بتا دی تھی وہ حرف بحرف سچ ثابت ہوئی۔
مہر غلام عباس لالی اس ضمن میں ایک واقعہ کا ذکر کرتے ہیں جس سے ڈاکٹر فرید الدین کے مقام زہد و تقویٰ پر روشنی پڑتی ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اور ڈاکٹر صاحب اکٹھے کار پر سرگودھا گئے۔ گرمی کا موسم اپنے شباب پر تھا۔ پیاس سے ہمارا بُرا حال تھا سوچا کہ کہیں چل کر ٹھنڈے مشروب سے پیاس بجھاتے ہیں۔ سو ہم ایک مشہور دوکان ’’پرویز سوڈا واٹر‘‘ پر چلے آئے۔ جب میں نے اور ڈاکٹر صاحب نے مشروب پی لیا تو انہوں نے پوچھا کہ یہ کس چیز کا مشروب تھا میں نے ازراہ تفنن طبع کہا کہ یہ جو کی شراب ’’بیئر‘‘ تھی۔ ڈاکٹر صاحب کا اتنا سننا تھا کہ انہوں نے حلق میں انگلی ڈال کر اسی وقت قے کر دی۔ وہ مجھ سے اتنا ناراض ہوئے کہ مجھے اکیلا چھوڑ کر واپس بس کے ذریعے کانویں والا آگئے۔
اس واقعہ کے بعد وہ کافی عرصہ مجھ سے ناراض رہے۔ ان کی ناراضی مجھے کافی شاق گزری۔ میں نے کچھ دوستوں کو صلح و صفائی کے لئے کہا۔ میں نے انہیں بڑی مشکل سے یقین دلایا کہ وہ بیئر (شراب) نہیں بلکہ جو کا سادہ مشروب تھا۔ تب انہوں نے مجھے معاف کردیا۔ اس واقع سے ان کے تقویٰ و طہارت کے عالم کا پتہ چلتا ہے۔
مہر غلام عباس صاحب بتاتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب میں شرم و حیا کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ کبھی کسی سے بدخلقی اور سوء ادب سے پیش نہ آئے۔ وہ رفع حاجات کے لئے گاؤں سے کافی دور جایا کرتے تھے۔ اونچی آواز سے قہقہہ لگانے سے پرہیز فرماتے تھے۔ وہ کہا کرتے کہ بلند آواز سے قہقہہ لگانا اللہ تعالیٰ کو ناپسند ہے اور دلوں کو مردہ کر دیتا ہے۔
مہر غلام عباس صاحب ڈاکٹر صاحب کی حد درجہ رحم دلی اور غمگساری کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں۔ جب میرا جوان بیٹا جاوید جو اس وقت فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔ قضائے الٰہی سے فوت ہوگیا تو ڈاکٹر صاحب تعزیت کے لئے کانویں والا میں تشریف لائے، جو ان مرگ بیٹے کی جدائی ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ اس موقعہ پر آپ نے ایک واقعہ سنایا۔ کہنے لگے کہ آپ ہی کی طرح والدین کا ایک اکلوتا بیٹا فوت ہوگیا۔ والدہ نے رو رو کر خود کو بے حال کر لیا۔ ایک رات بیٹا والدہ کو خواب میں ملا۔ کیا دیکھتی ہے کہ نوجوان لڑکوں کی ایک قطار لگی ہوئی ہے، ہر لڑکے کے ہاتھ میں ایک موم بتی روشن ہے۔ آخر میں اس کا بیٹا کھڑا ہے جس نے ہاتھ میں موم بتی تھامی ہوئی ہے اور اس کی روشنی بہت مدھم ہے۔ ماں پوچھتی ہے کہ بیٹا تمہاری موم بتی کی روشنی کو کیا ہوگیا، وہ اس قدر کم کیوں ہے تو بیٹا جواب دیتا ہے کہ ماں آپ کے آنسوؤں نے میری موم بتی کی روشنی کو مدھم کر دیا ہے۔
مہر غلام عباس لالی کا بیان ہے کہ ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ سے پہلے ہم لوگ صرف نام کے مسلمان تھے۔ کبھی نماز پڑھ لی اور کبھی نہ پڑھی۔ گاؤں کی مسجد میں جمعہ کی نماز کا اہتمام تھا مگر لوگوں کو زیادہ رغبت نہ تھی۔ مشکل سے ایک دو صفیں بھرتی تھیں۔ لیکن جب ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ نے جمعہ کا خطبہ دینا شروع کیا تو مسجد میں تل دھرنے کو جگہ باقی نہ رہی۔ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کا خطبہ سننے کے لئے دور دراز دیہات سے زمیندار اور دووسرے لوگ آتے۔ آپ خطبہ فی سبیل اللہ دیا کرتے تھے۔ آپ کی تقریر کی اثر انگیزی کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ جہاد کے موضوع پر خطاب کر رہے تھے تو ہر شخص پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ وہ اللہ کی راہ میں جہاد کے لئے تیار ہوگیا۔
آپ کی شیخ الحدیث مولانا سردار احمد رحمہ اللہ (فیصل آباد) سے حد درجہ عقیدت تھی۔ اس کا عملی مظاہرہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب آپ نے انہیں جامع مسجد کانویں والا میں خطاب فرمانے کی دعوت دی۔
آپ جن دنوں کانویں والا میں مقیم تھے۔ ایک قریبی گاؤں صدیق آباد مرزائیوں کی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا، جو کانویں والا سے فاصلے پر واقع تھا۔ مرزائیوں نے منصوبہ بنایا کہ کانویں والا کے زمینداروں کو کسی نہ کسی طرح اپنے ساتھ ملا لیں۔ اور ان کی سیاسی قوت کو اپنے تبلیغی مقاصد کے لئے استعمال کریں۔ چنانچہ انہوں نے وہاں ٹھیکے لینے شروع کر دئیے۔ اور ان کی آڑ میں تبلیغ کا کام کرنے لگے۔ جب ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ کو مرزائیوں کے ان عزائم کا پتہ چلا تو انہوں نے مرزائیوں سے مناظرے کئے اور اپنے دلائل سے انہیں شکست فاش دے دی۔ اس طرح پورے علاقے کو مرزائیت کے فتنے سے بچا لیا۔ اور اگر ڈاکٹر صاحب یہاں تشریف نہ لاتے تو پورا علاقہ ربوہ کے ساتھ ہونے کی وجہ سے مرزائیت کی زدمیں آجاتا۔
حضرت ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ محبت رسول اور محبت اہلبیت سے سرشار تھے۔ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم اور اولیاء کرام کا کثرت سے ذکر کرتے بڑی مدلل تقریر کرتے جس میں اکثر دلائل قرآن و حدیث سے دیتے۔ تاریخ کا انتہائی گہرا ادراک رکھتے تھے۔
حضور ﷺ کی ذات گرامی سے آپ کو خصوصی قلبی تعلق تھا۔ آپ کو یہ شعر بہت پسند تھے:
جسے دیکھا وہ نظر آیا مستانہ محمدؐ کا
مرے مولا رہے آباد مے خانہ محمدؐ کا
اگر مانگا خدا بھی تو وہ مل گیا فوراً
بڑا دربار ہے دربار شاہانہ محمدؐ کا
آپ کو مولانا جامی رحمہ اللہ ، مولانا رومی رحمہ اللہ اور اقبال رحمہ اللہ سے خصوصی نسبت تھی۔ اکثر تقریروں میں ان حضرات کے کلام کا حوالہ دیتے تھے۔ کمالات معراج النبیؐ بیان کرتے ہوئے یہ شعر بڑے والہانہ انداز سے پڑھتے۔ ؎
اگر برتر از یک بموئے پرم
فروغِ تجلی بسوزد پرم
آپ کو حضرت جامیؒ کی یہ نعت سب سے زیادہ پسند تھی جس کا مطلع ہے:
نسیما جانب بطحا گزر کُن
زا حوالم محمدؐ را خبر کن
آپ یہ نعت پڑھ کر بے حد جھومتے اور روتے جاتے تھے۔ جب وارفتگی حد سے بڑھ جاتی تو میں انہیں تھام لیتا اور کہتا ’’یار فرید اب بس‘‘ اس پر آپ فرماتے ’’عباس تمہیں کسی سے عشق ہو جائے تو پھر پتہ چلے۔ ‘‘
محرم کے دنوں میں امام عالی مقام ص اور واقعہ کربلا کا ذکر خاص اہتمام سے کرتے اور رقت و گریہ کی عجیب کیفیت طاری ہوتی۔ حضرت علی ؑ کی شان بیان کرتے ہوئے فرماتے کہ ’’جناب علی کرم اللہ وجہہ کی شان کو کسی نے پہچانا ہی نہیں۔ ‘‘
خطابات جمعہ کے موقعوں پر خلفاء راشدین رضی اللہ عنہم اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کا کثرت سے ذکر کرتے تھے۔ حضرت ابوبکرصدیق ص کا عشق رسول ﷺ بیان فرماتے۔ صحابہ کرام کی محبت کو جزو ایمان سمجھتے تھے۔
اولیاء کرام سے محبت آپ کے ریشے ریشے میں رچی بسی ہوئی تھی۔ یوں تو آپ کو تمام اولیاء کرام سے بے پناہ عقیدت تھی۔ لیکن حضرت خواجہ اویس قرنی رحمہ اللہ سے خصوصی نسبت اور لگاؤ تھا۔ حضرت اویس قرنی رحمہ اللہ کا ذکر کرتے اور روتے جاتے۔ پھر سلطان الاولیاء غوث صمدانی محبوب سبحانی حضرت سیدنا شیخ عبدالقادری جیلانی رحمہ اللہ کے عشق میں تو آپ فنا تھے۔ آپ ’’یا شیخ عبدالقادری المدد شیئاً للہ‘‘ کا ورد کثرت سے کرتے تھے۔ اسی محبت اور وظیفے کا اثر اور روحانی فیوض و برکات کا تسلسل تھا کہ جب کبھی دورانِ خطبہ کوئی چیز بھول جاتے تو چند سیکنڈ آنکھیں بند کر کے حضور غوث الاعظم ص کو یاد فرماتے جس سے بھولی ہوئی چیز یاد آجاتی۔
آپ عرس کے مواقع پر غیر شرعی حرکات کا خاص نوٹس لیتے۔ اور فرماتے کہ اس سے ثواب کی بجائے اُلٹا گناہ ملتا ہے۔ حضور غوث الاعظم ص کا ماہانہ ختم شریف ضرور دلواتے تھے۔ کم تنخواہ کے باوجود صدقات و خیرات کرتے رہتے تھے۔ غریبوں میں بیٹھ کر زیادہ خوش ہوتے تھے۔
حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری راسخ العقیدہ سنی اور عاشق رسول ﷺ تھے۔ اور اس امر پر شاہد آپ رحمہ اللہ کا حضرت محدث اعظم پاکستان علیہ الرحمتہ کے ساتھ خصوصی تعلق کافی ہے۔ کیونکہ کسی کمزور عقیدہ کے مالک شخص سے حضرت محدث اعظم علیہ الرحمتہ کا تعلق تو درکنار آپ کا اس سے ملاقات فرمانا بھی ناممکن تھا۔ حضرت محدث اعظم علیہ الرحمتہ جناب ڈاکٹر صاحب علیہ الرحمتہ پر خصوصی شفقت فرمایا کرتے تھے۔ اور نماز عصر کے بعد آپ علیہ الرحمتہ کی ڈاکٹر صاحب سے الگ نشست ہوتی۔ اور اس وقت ڈاکٹر صاحب آپ علیہ الرحمتہ سے بعض کتب پڑھا کرتے۔ جبکہ ڈاکٹر صاحب کے علاوہ آپ علیہ الرحمتہ کا کسی اور کو الگ پڑھانے کا معمول قطعاً نہ تھا۔ بلکہ آپ علیہ الرحمتہ نماز عصر سے مغرب تک پڑھنے سے منع فرمایا کرتے۔ کیونکہ اس وقت پڑھنے سے نظر کمزور ہونے کا امکان ہوتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب کو اس وقت پڑھانے کی وجہ شاید یہ تھی کہ ڈاکٹر صاحب کو فراغت ہی اسی وقت میسر آتی تھی، کیونکہ آپ لالیاں سے تشریف لاتے تھے اور پھر واپس بھی جانا ہوتا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے غالباً آپ علیہ الرحمتہ سے خیالی اور توضیح، تلویح یہ کتب پڑھی تھیں۔ مجھے اس وقت صغر سنی کی وجہ سے آپ کے متعلق مزید معلومات نہیں ہیں۔
17، اپریل 1990ء بروز پیر افطاری کے بعد الحاج محمد رشید قادری صاحب حاضر ہوئے اور انہوں نے ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللہ کے بارے میں حضرت شاہ صاحب سے تاثرات قلمبند کئے جو مندرجہ ذیل ہیں۔
’’میں عرصہ دراز سے صاحب فراش ہوں۔ یاداشتیں بھی کمزور پڑ چکی ہیں۔ مگر پھر بھی ڈاکٹر علامہ فرید الدین القادری رحمہ اللہ کے ساتھ زندگی کی اہم یادیں وابستہ ہیں۔ وہ علم و حکمت کے پیکر، نہایت ہی متقی اور پرہیزگار اور عاشق رسول ﷺ تھے۔ مختلف مکاتب فکر میں تقابلی بحث میں یدطولیٰ رکھتے تھے، بہترین مناظر تھے۔ علماء و مشائخ کرام کی عزت و تکریم بہت زیادہ کرتے تھے۔ میں جب بھی جھنگ جاتا تو انہیں کے دولت خانہ کا مہمان بنتا۔ آپ بہترین مہمان نواز تھے۔ آپ کا دستر خوان بہت وسیع تھا۔ ہم رات کو تہجد کے لئے اکٹھے اُٹھتے تھے۔ میرے ساتھ اکثر مولانا محمد سلیم جھال خانوانہ ہوتے۔ اس وقت طاہر القادری صاحب کی عمر 6 سال ہوگی۔ ہر دفعہ ان کی ایک ہی فرمائش ہوتی کہ میرے بچے طاہر بیٹے کے لئے دعا فرمائیں کہ اللہ رب العزت کچھ بنا دے۔ اور یہ حق ہے کہ علامہ طاہر القادری صاحب آج انہیں کی دعاؤں کی بدولت بہت کچھ ہیں۔
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
ایک واقعہ دھوپ سڑی جھنگ کا یاد آیا ہے۔ ہوا یوں کہ ’’ایک اجتماع میں عورتوں کے حصہ میں کسی شرپسند نے سانپ چھوڑ دیا۔ فوراً ایک عورت نے سانپ کو سری سے پکڑ کرباہر دور پھینک دیا۔ مجمع منتشر نہ ہوا۔ وہاں بہت سے علماء کی موجودگی میں علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللہ نے نہایت پُر جوش آواز میں فرمایا کہ جس قوم کی بیٹیوں میں اتنی جوان ہمت موجود ہے تو اس قوم کے جوانوں کا کیا حال ہوگا۔ ‘‘
حضرت صاحبزادہ صاحب فرماتے ہیںکہ مجھے حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللہ کے ہمراہ کئی مشاعرے پڑھنے کا موقع ملا۔ وہ حضرت سلطان باہو رحمہ اللہ سے گہری عقیدت رکھتے تھے۔ انہوں نے ایک طویل منقبت حضرت سلطان العارفین رحمہ اللہ کی انہی کے سرہانے بیٹھ کر لکھی۔ اس کا ایک مصرع ہے :
جھولی لاکھوں کی تونے بھر دی ہے
یہ منقبت انہوں نے خود مجھے سنائی۔ وہ میرے بڑے مربی اور دوست تھے۔ اکثر ان سے میرے گھر اور ان کے گھر پر صحبتیں رہیں۔ میں نے ان سے کئی مرتبہ علاج بھی کروایا۔ وہ مجید امجد، غلام محمد رنگین، شیر افضل جعفری کے ہمعصر تھے۔ وہ روایت پسند شاعر تھے۔ لکھنؤ کے فارغ التحصیل طبیب تھے۔ میں ان دنوں فرسٹ ایئر اور سیکنڈ ایئر کا طالب علم تھا۔ اس وقت میں نے اپنی شاعری کی ابتدا ہی کی تھی۔ اس ابتدائی دور میں مَیں نے ایک شعر کہا:
رخ نازک کا رنگ جانفزا دونا نکھر جائے
اگر وہ گھول کر مہندی لگائیں خون بسمل میں
حکیم صاحب چونکہ لکھنؤ سے فارغ التحصیل ہو کر آئے تھے، تو انہوں نے حضرت سلطان باہو رحمہ اللہ کی نسبت کی وجہ سے مختصراً کہا کہ اردو میں گھول کر مہندی لگانا روا نہیں بلکہ ’’اگر وہ پیس کر مہندی لگائیں‘‘ کہیں تو یہ اہل زبان کی بات ہوگی۔ یہ بات مجھے آج تک یاد ہے۔
ڈاکٹر صاحب ایک پرہیز گار اور زاہد و عابد انسان تھے۔ جب جھنگ ہسپتال میں ان پر فالج کا حملہ ہوا تو میں اکثر وہاں ان کی خدمت میں حاضر رہتا۔ علامہ محمد طاہر القادری صاحب ان دنوں اپنے والد محترم کی خوب خدمت کرتے تھے۔ اور مجھے یاد ہے کہ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اپنے بیٹے کو خود وصیت کی کہ ان کا جنازہ وہ خود پڑھائیں۔ وہ خوش دل، خوش مزاج لیکن درویش صفت انسان تھے۔ اس لئے اپنی شخصیت کی تشہیر کے لئے انہوں نے کبھی توجہ نہ دی۔ ان دنوں غلام محمد رنگین کا ہفت روزہ ’’عروج‘‘ جھنگ سے شائع ہوتا تھا۔ اس میں ان کی نگارشات اکثر شائع ہوا کرتی تھیں۔ وہ اُردو، فارسی، عربی پر قدرت کامل رکھتے تھے۔
علامہ طاہر القادری صاحب کم عمر تھے اور اکثر ان کی بیاض پلٹتے پڑھتے تھے۔ وہ ایک اچھے شاعر تھے۔ اور شاعری میں رکھ رکھاؤ ان کی طبیعت کا خاصہ تھا۔ وسیع حلقہ احباب رکھنے والے انسان تھے۔ وہ جسمانی طو پر دبلے پتلے بدن کے مالک تھے۔ شیر افضل جعفری مرحوم کے ساتھ ان کی اکثر نوک جھونک رہتی۔ وہ وسیع مطالعہ رکھتے تھے اور بڑے عالم فاضل انسان تھے۔ اپنے نامور بیٹے کی تربیت ہی ان کے بلند پایہ علمی ذوق کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔
59-1958ء کا ذکر ہے میں ان دنوں گورنمنٹ کالج جھنگ میں ایف۔ ایس۔ سی کا طالب علم تھا۔ مجھے معلوم ہوا کہ پرانی عید گاہ میں ایک جلسہ ہو رہا ہے۔ میں وہاں اپنے والد گرامی کے ہمراہ پہنچا تو ڈاکٹر علامہ فرید الدین قادری رحمہ اللہ خطاب فرما رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ ایک سادہ سے انسان ہیں، مگر جب انہوں نے اپنی تقریر میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ کی کتاب ’’مدارج النبوت سے (جو اس وقت ان کے ہاتھ میں تھی) حوالے دئیے اور تصوف کے دقیق نکات بیان فرمائے تو سامعین عش عش کر اُٹھے۔ یہ میرا ان سے پہلا تعارف تھا۔ میں نے اپنے والد محترم سے ان کے بارے میں حیرت سے دریافت کیا۔ والد محترم قبلہ نے میرا ان سے تعارف کرایا اور بتایا کہ محترم ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللہ کو تصوف کے مسائل پر بڑا عبور حاصل ہے۔ وہاں سے میرا ان سے رابطہ کا آغاز ہوا۔ یہ رابطہ الحمد للہ ان کے انتقال تک قائم رہا۔
ایک مرتبہ شیخ محقق حضرت عبدالحق محدث دہلوی کی تصنیف ’’زبدۃ الآثار‘‘ نایاب ہوگئی۔ میں ان دنوں زرعی یونیورسٹی کا طالبعلم تھا۔ انہیں کسی نے بتایا کہ کتاب میرے پاس موجود ہے۔ میری ان سے صائم چشتی صاحب کے کتب خانہ واقع شاہی مسجد شیخ الحدیث روڈ فیصل آباد پر ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے کتاب کے بارے میں دریافت کیا تو میں نے عرض کیا کہ میرے پاس قلمی نسخہ موجود ہے، جو میں نے ایک قدیم کتاب سے نقل کیا ہے۔ انہوں نے اصل قدیم کتاب طلب کی۔ میں نے ان سے دعا کے لئے کہا اور وعدہ کیا کہ میں اس کتاب کے انشاء اللہ 000,1 نسخے شائع کروا کر مفت تقسیم کروں گا۔ یہ کتاب بعد ازاں پیرزادہ علامہ اقبال احمد فاروقی کے ترجمہ کے ساتھ نبویہ کتب خانہ داتا گنج بخش روڈ لاہور سے شائع ہوئی اور مفت تقسیم کی گئی۔ میں نے انہیں بے لوث اور ہمہ وقت خدمتِ دین کے لئے کمر بستہ پایا۔ علمائے کرام سے ان کی محبت قابل رشک تھی۔ وہ تصوف کا علم رکھنے والوں کے قدر دان تھے۔ مولانا عبدالرشید رضوی صاحب کی بہت عزت کرتے تھے۔ اور انہیں استادوں کی صف میں اتھارٹی سمجھتے تھے۔ میں نے عمر بھر ان پر تصوف کا غلبہ پایا۔ اور ہمیشہ ہماری گفتگو اسی موضوع پر ہوئی۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اس دنیا میں عمر بھر کی محنت اور کارگزاری کا انعام علامہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی صورت میں عطا فرمایا۔ میری نظر میں اس سے بڑا انعام کوئی اور نہیں ہو سکتا کہ کسی کا بیٹا ایک بلند پایہ عالم دین بھی ہو اور اسلامی ریاست پر گہری نظر بھی رکھتا ہو۔
محترم ڈاکٹر فرید الدین قادری صاحب رحمہ اللہ نے بچپن میں میرے ہمراہ قرآن پاک کی تعلیم حافظ اللہ دتہ صاحب سے پائی۔ ڈاکٹر صاحب موصوف کو سورۂ مزمل یاد کرنے کا بہت شوق تھا۔ بعد ازاں وہ بیرون ملک تشریف لے گئے۔ دوبارہ ان سے ملاقات ایوب حکومت میں ایک طبی سلیکشن بورڈ میں ہوئی، جس کے وہ رُکن تھے اور جس میں انہوں نے یونانی اطباء کی سلیکشن کی۔ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کو تصوف کے مسائل پر بڑا عبور تھا۔ عرصہ دراز سے شیخ اکرام الحق اے۔ ڈی۔ ایم و چیئرمین بلدیہ جھنگ کی اہلیہ کسی پیچیدہ مرض میں مبتلا تھی۔ ڈاکٹر صاحب موصوف مجھے ہمراہ لے کر مریض کے معائنے کیلئے گئے۔ مریضہ کا دماغی توازن درست نہ تھا۔ میں مریضہ کو دیکھ کر پریشان ہوا اور نا اُمید سا ہوگیا، مگر ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللہ نے فرمایا کہ انشاء اللہ پرسوں آپ کا مریض بالکل شفا یاب ہو جائے گا اور پھر ایسا ہی ہوا۔ عین دو دن بعد ان کے ہمراہ پھر مریضہ کے معائنے کے لئے گیا تو ان کے علاج سے وہ بالکل صحت یاب ہوگئی تھی۔
وہ ایک بلند پایہ طبیب تھے اور اکثر ایسا ہوتا تھا کہ ہم ان کی طبی گفتگو کو سمجھنے سے قاصر رہتے۔ وہ ایک بہت بڑے عالم تھے وہ اکثر حضرت بابا فرید شکر گنج، رحمہ اللہ حضرت خواجہ سلیمان تونسوی رحمہ اللہ کے تذکرے، کلام اور حکایات کا ذکر جھوم جھوم کر فرماتے تھے۔ وہ بہت منجھے ہوئے مقرر تھے۔ میں فقیروں کا قائل نہیں تھا مگر ان کی صحبت کا اثر یہ ہوا کہ میرا نقطہ نظر تبدیل ہوگیا۔ اور میں اولیائے کرام کا قائل ہوگیا۔ وہ فاضلانہ گفتگو میں مہارت رکھتے تھے۔ تخریبی انداز فکر سے سخت نفرت کرتے تھے۔ اور طبی معاملات میں کبھی نسخہ بتانے میں بخل سے کام نہیں لیتے تھے۔
1955ء، 1956ء کی بات ہے کہ بندہ جامعہ رضویہ فیصل آباد میں زیر تعلیم تھا۔ فن کی آخری کتابیں۔ اور دورۂ حدیث شریف مکمل کیا۔ اس وقت بندہ کے ہم سبق ساتھی بہت سے اور بھی تھے۔ خصوصاً مولانا محمد معراج الاسلام صاحب موجودہ شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ منہاج القرآن بندہ کے ہم سبق تھے۔ عصر کے بعد حضرت قبلہ شیخ الحدیث رحمہ اللہ مغرب تک عام ملاقات فرماتے تھے۔ بندہ پر یہ حضرت کا کرم تھا کہ رات کو سوتے وقت آپ خدمت کا موقع عطا فرماتے۔
ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللہ اکثر تشریف لاتے۔ حضرت قبلہ شیخ الحدیث رحمہ اللہ ڈاکٹر صاحب سے بہت محبت سے ملتے تھے۔ اور اپنے احباب و طلباء سے ڈاکٹر صاحب کا خوب تعارف کراتے ہوئے فرماتے یہ اہل سنت کے شیر ہیں۔ ان کے سامنے بدمذہب بھڑبکریوں کی طرح بھاگتے ہیں۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب کو حضرت قبلہ شیخ الحدیث رحمہ اللہ ڈاکٹر غلام فرید کہہ کر پکارتے تھے۔ بہر حال ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کے ساتھ دو سال خوب ملاقات رہی۔ 58/1957ئ، میں جب بندہ جھنگ شہر مسجد میاں اللہ داد مرحوم میں خطیب تھا۔ اکثر آپ رحمہ اللہ تشریف لاتے اور جمعہ کے موقع پر خطاب فرماتے۔ ان سالوں میں بہت سے جلسے ہوئے۔ مولانا محمد عمر اچھروی رحمہ اللہ اور دیگر علماء کرام تشریف لاتے تو ڈاکٹر صاحب کا خصوصی خطاب شامل پروگرام ہوتا۔ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ ایک عظیم خطیب، عظیم مبلغ اور بے مثال مناظر تھے۔ جھنگ صدر اور جھنگ شہر کے تمام مخالف علماء آپ کے علم کے قائل ہی نہ تھے بلکہ آپ سے بہت ڈرتے تھے۔ اور آپ سے گفتگو کرنے سے کتراتے تھے۔ آپ کی تقریر میں علمی تبحر اور دلائل کی بھر مار ہوتی۔ جب مخالفین آپ کا بیان سنتے تو جواب کی طاقت نہ ہوتی۔ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ کا علمی تدبر مسلم تھا۔ ڈاکٹر صاحب کی ذات تمام حلقوں میں جانی پہنچانی تھی۔ اور آپ نے ایک عرصہ تک جھنگ اور سرگودھا کے علاقہ کو اپنی علمی خدمات سے فیض دیا۔ اور ڈاکٹر پروفیسر طاہر القادری کو بھی ’’الوالدسرلابیہ‘‘ کے مطابق اپنے والد گرامی سے فیض ملا ہے۔ وہی تقریر میں تسلی اور علمی تبحر۔ اور دلائل کی بھرمار، آپ کو والد گرامی سے ورثہ میں ملی ہے۔ اللہ تعالیٰ ڈاکٹر صاحب کی قبر انور پر لاکھوں رحمتیں برسائے اور ان کے فرزند ارجمند کو ان کے نقش قدم پر ثابت قدم رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
جناب ڈاکٹر فرید الدین قادری مرحوم سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب میں سند حدیث حاصل کرنے کے بعد حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے حکم پر جامعہ رضویہ فیصل آباد میں کتب درسیات کا سماع کرتا تھا۔ غالباً 1956ء کی بات ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت لالیاں کے قریب موضع بصرہ اور کانواں والا میں بحیثیت ڈاکٹر تعینات تھے۔
ہفتہ کی شام اور سوموار کی صبح کو جھنگ آتے اور جاتے۔ جامع رضویہ میں تقریباً دو گھنٹہ ٹھہرتے۔ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللہ کے حکم پر مشکوٰۃ شریف کے کسی ایک باب کا ہم مل کر مطالعہ کرتے۔ مذاکرہ ہوتا رہتا۔ جب ہم سمجھنے سمجھانے پر مطمئن ہو جاتے۔ تب ڈاکٹر صاحب اپنی منزل کی طرف روانہ ہوتے۔ ڈاکٹر صاحب کو متقدمین اور متاخرین کی دستیاب اور نایاب دونوں قسم کی کتابوں کا شوق تھا۔ ملک اور بیرون ملک جس قدر کتابیں تلاش کر سکے وہ ضرور حاصل کیں۔ ان کے اپنے بیان کے مطابق تفاسیر اور احادیث کی سینکڑوں کتابوں سے اپنی لائبریری کو سجایا ہوا تھا۔ صرف یہی نہیں کہ کتابوں کو جمع کیا۔ بلکہ پوری محنت سے کتابوں کا بھرپور مطالعہ بھی کیا۔ لغت پر اتنے حاوی تھے کہ قاموس اور منتہی العرب کا خاصا حصہ انہیں از بر تھا۔ دوران گفتگو کسی مسئلے پر حوالہ دیتے وقت لحظہ توقف کئے بغیر کتاب کا صفحہ سطر بتا دیتے۔
متصوفین کی اکثر تصانیف کا مطالعہ کرتے۔ ایک بار میں فیصل آباد سے سرگودھا آرہا تھا تو شام پڑے مجھے لالیاں پہنچتے ہوئے خیال آیا کہ آج رات ڈاکٹر صاحب کے پاس کانواں والا بصرہ ٹھہروں۔ ان کی رہائش گاہ پر جب پہنچا تو بتی روشن کئے حضور امام المتصوفین حضرت شاہ کلیم اللہ جہاں آبادی رحمہ اللہ کا رسالہ عشرہ کاملہ کا مطالعہ کر رہے تھے۔ اتنی ادق کتاب جو زواہد ثلاثہ پر مکمل عبور کے بغیر سمجھ نہ آسکے۔ اس کے مطالعہ میں منہمک دیکھ کر میں نے پوچھا کہ اس کتاب کے مطالعہ میں آپ نے کیا کچھ پایا۔ فرمانے لگے کہ صاحب قال، صاحب حال کی کتاب کو کیا سمجھے گا۔ مگر اس یقین پر کتاب کھول کر آنکھوں کے سامنے رکھی کہ صاحب کتاب اپنے کرم کی خیرات ضرور مرحمت فرمائیں گے۔ قادری نسبت میں انتہائی پختہ ہونے کے ساتھ ساتھ مسلک اہل سنت میں نہایت راسخ تھے۔ یہی وجہ ہے کانویں اور بصرے کے لوگ نہ صرف خوش ذوق بلکہ عقائد حقہ پر جان دینے والے تھے۔ غربا اور خوشحال دونوں طبقے مذہب کے معاملے میں ان کی آواز سے متاثر تھے۔
حضورسرور عالم علیہ السلام سے قلبی نیاز اور وابستگی صحابہ کرامؓ کا احترام اور اولیائے عظام اور سلفائے اُمت سے عقیدت ان کا جزو ایمان تھا۔ ایسے وظائف کی اکثر تلاش میں رہتے جو بارگاہِ رسالت مآب ﷺ میں مقبولیت کا سامان مہیا کر سکے۔
ایک مرتبہ حضرت شیخ الاسلام و المسلمین خواجہ قمر الدین سیالوی رحمہ اللہ کے متعلق روتے روتے انہوں نے دو چیزوں کا ذکر کیا۔ ایک یہ کہ حق کا احقاق اور باطل کا ابطال اور برے مذہب سے نفرت جس شدت سے آپ کرتے ہیں اس کی مثال کسی اور جگہ پر نہیں مل سکتی۔ دوسری یہ کہ حضرت علی ہجویری کی کشف المحجوب پوری تفصیل سے آپ کی شخصیت میں نمایاں ہیں۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم اپنے اخلاق میںحسین کردار میںاور دکھی انسانیت کی مدد میں یقینا یگانہ روزگار تھے۔ خداوند عالم مرحوم کو اپنی پناہ رحمت میں کروٹ کروٹ راحت بخشے۔ آمین
حسو بلیل کا قصبہ جو جھنگ مظفر گڑھ روڈ پر پینتالیس (45) کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے۔ یہاں ڈاکٹر غلام فرید الدین قادری رحمہ اللہ قیام پاکستان کے بعد ایک عرصہ تک ڈسٹرکٹ کونسل کی ڈسپنسری میں اپنے فرائض منصبی سرانجام دیتے رہے۔ اس قصبہ کی مرکزی جامع مسجد غوثیہ حنفیہ میں ڈاکٹر صاحب خطابت بھی کیا کرتے تھے۔ ا ب اسی جامعہ مسجد غوثیہ میںمسجد مکتب مدرسہ موجود ہے۔ جس میں جناب محمد افضل صاحب نقشبندی امام اور مدرس ہیں۔ جن کی بیعت شیخ المشائخ ولی کامل حضرت پیر غلام حسن سواگ نور اللہ مرقدہ سے ہے۔ اس وقت ان کی عمر ستر سال سے زائد ہے۔ انہوں نے اپنی زبانی واقعہ ہمیں سنایا۔
محمد افضل صاحب بیان کرتے ہیں: ’’غالباً تیس سال پہلے کا واقعہ ہے کہ میں اپنے پیر و مرشد خواجہ غلام حسین سواگ رحمہ اللہ کے عر س مقدس کی محفل میں شرکت کے لئے تیار ہوا۔ غریبی کا دور تھا۔ مجھے کرایہ میسر نہ ہو سکا۔ میرے دوسرے پیر بھائی تیار ہوگئے۔ لیکن میں نے ان سے کہا کہ میں مجبور ہوں۔ آپ جائیں اگر میرے خواجہ کو میری حاضری منظور ہوئی تو میں بھی آجاؤں گا۔ دل میں شوق حاضری مؤجزن تھا۔ ڈاکٹر فرید الدین صاحب رحمہ اللہ ڈیوٹی دے کر جھنگ چلے گئے تھے۔ رات کو جھنگ میں قیام کیا۔ صبح ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ بغیر ناشتہ کئے حسو بلیل پہنچے۔ اڈہ حسو بلیل پر عرس مبارک میں شرکت کے لئے پھر بھائی جانے کے لئے تیار بیٹھے تھے۔ انہوں نے حاجی نور دین صاحب جو ان لوگوں میں شامل تھے پوچھا ’’ مولوی محمد افضل صاحب کہاں ہیں‘‘ انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس کرایہ نہیں تھا اس لئے وہ نہیںآئے۔ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ اپنی ڈسپنسری میں آئے۔ اپنے ملازم محمد یوسف کو بھیجا کہ جلدی جاؤ اور مولوی محمد افضل کو بلا کر لاؤ۔
مولوی محمد افضل صاحب راوی ہیں کہ جب میں ان کے پاس پہنچا تو ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ نے پوچھا مولوی صاحب تمہیں عرس مبارک پر جانے کے لئے کتنا کرایہ درکار ہے۔ میں نے کہا کہ جناب دس روپے درکار ہیں۔ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ نے فوری طور پر جیب سے دس روپے نکالے اور مجھے دے دئیے۔ ان سے وجہ دریافت کی تو فرمانے لگے۔ ’’میں رات جھنگ اپنے مکان میں سویا ہوا تھا کہ خواب میں خواجہ پیر غلام حسن سواگ رحمہ اللہ نے مجھے زیارت کا شرف بخشا اور فرمایا ’’فرید الدین جلدی جاؤ حسو بلیل میں میرا خاص مرید محمد افضل میرے عر س کی محفل میں شامل ہونے سے محروم ہو رہا ہے۔ کیونکہ اس کے پاس کرایہ نہیں ہے اسے جا کر کرایہ دے دو تاکہ وہ بھی دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر میرے پاس حاضری دے سکے۔ ‘‘
ڈاکٹر صاحبؒ نے کہا ’’میں پہلی بس پر سوار ہو کر یہاں پہنچا ہوں تاکہ تم اپنے ہمراہیوں کے ساتھ مل کر جا سکو۔ ‘‘
مولوی محمد افضل صاحب کہتے ہیں کہ میں نے دس روپے جیب میں ڈالے اور بس سٹاپ کی طرف روانہ ہوا۔ بس سٹاپ پر پہنچا تو حیران رہ گیا کہ میرے وہ پیر بھائی جو کئی گھنٹے پہلے گھر سے روانہ ہوئے تھے ابھی تک وہیں بیٹھے ہیں۔ اور جونہی میں وہاں پہنچا ادھر سے بس بھی آگئی۔ جس طرح میرے خواجہ صاحب رحمہ اللہ نے ڈاکٹر فرید الدین صاحب رحمہ اللہ کو فرمایا تھا کہ وہ دوسرے ساتھیوں کے ساتھ مل کر یہاں آئے اسی طرح ہوا کہ ہم سب ساتھی مل کر آستانہ عالیہ پر جو کہ تحصیل کروڑ ضلع لیہ میں ہے پہنچے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ڈاکٹر صاحبؒ پر بزرگان دین کی خاص کرم نوازی تھی۔
جناب ڈاکٹر فرید الدین صاحب رحمہ اللہ کو ہمیشہ بزرگانِ دین مشائخ عظام کی محفل میں حاضر ہونے کا بے حد ذوق تھا۔ اکثر اولیائے کرام کی مزارات پر حاضری دیا کرتے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ ہر جمعرات کو دربار حضرت سلطان العارفین سلطان باہو رحمہ اللہ کے مزار اقدس پر حاضری دیتے۔ ایک دفعہ آپ حسب معمول حضرت سلطان باہو رحمہ اللہ کے آستانہ عالیہ پر حاضر ہوئے۔ رات کو جب کہ ذکر میں مشغول تھے نیند کا غلبہ محسوس ہوا۔ پھر خواب میں دیکھتے ہیں کہ نماز باجماعت ادا ہو رہی ہے میں بھی (ڈاکٹر صاحب رحمہ اللہ ) جماعت میںشامل ہوگیا ہوں۔ نماز میں سب ہی نورانی چہروں والے لوگ شامل ہیں۔ نماز ختم ہوئی تو فوراً بعدایک نورانی چہرے والے سفید ریش بزرگ آگے بڑھے اور مجھ سے مصافحہ کیا۔ میں نے ان سے پوچھا جناب آپ کون ہیں؟ انہوں نے جواب دیا۔ ’’فرید تم مجھے نہیں جانتے حالانکہ میں حسو بلیل میں رہتا ہوں اور میرا نام ’’سیدن شہید‘‘ ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم اتنی آواز سنتے ہی بیدار ہوگئے اورنہایت حیران ہوئے کہ وہ کون شخصیت ہیں کہ میرا حسو بلیل رہتے ہوئے بھی ان سے تعارف نہیں ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم جمعہ کی صبح واپس ہوئے کیونکہ وہ جمعہ حسو بلیل کی جامعہ مسجد غوثیہ میں پڑھایا کرتے تھے۔ حسو بلیل اڈہ پر چائے کی ایک چھوٹی سی دکان تھی جس کا مالک حاجی محمود تھہیم تھا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم نے اس سے پوچھا کہ سیدن شہید کہاں رہتے ہیں۔ حاجی محمود تھہیم دکاندار نے بتایا کہ حسو بلیل کے شمال مشرق کی جانب ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر ایک مزار ہے جو سیدن شہید کے نام سے مشہور ہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم یہ سنتے ہی سیدھے اس مزار پر پہنچے اور حاضری دی۔ بعد ازاں آپ نے یہ معمول بنا لیا اور اس مزار پر اکثر حاضری دیا کرتے تھے اور بہت فیض حاصل کیا۔
جناب حاجی مکھن علی صاحب جو کہ حسو بلیل میں ہی رہتے ہیں بیان کرتے ہیں کہ جب ڈاکٹر صاحب مرحوم نے پہلی مرتبہ حج مبارک کی سعادت حاصل کی تو اس وقت واپسی پر انہوں نے اپنی زبانی ہمیں درج ذیل واقعہ سنایا۔
’’میں مناسک حج ادا کرنے کے بعد مدینہ طیبہ میں آقائے دو جہاں ﷺ کے در اقدس پر حاضر ہوا۔ اس وقت تک میرے ہاں کوئی اولاد نرینہ نہ تھی۔ رات کو میں نے بعد از فرائض و نوافل بارگاہ رب ذو الجلال میں اس کے محبوب پاک کے تصدق سے دعا مانگی کہ میرے اللہ! مجھے نیک اور صالح فرزند عطا فرما۔ حرم نبویؐ میں خواب میں مجھے محبوب پاک ﷺ نے اپنی زیارت کا شرف بخشا اور فرمایا کہ فرید تمہاری دعا قبول ہوگئی ہے خدائے ذوالجلال تمہیں لڑکا عطا کرے گا۔ جس کا نام طاہر رکھنا۔ اور اسے میرے دین کے لیے وقف کر دینا (آقائے دوجہاں ﷺ کے الفاظ مبارک مفہوماً نقل کئے گئے ہیں)۔
ڈاکٹر صاحب مرحوم کو جب اللہ تعالیٰ نے بیٹا عطا کیا تو اس کا نام آقا ﷺ کے فرمان کے مطابق محمد طاہر رکھا گیا۔ پھر ڈاکٹر فرید الدین صاحب رحمہ اللہ نے وہی لو ان کے دل میں لگا دی جس طرح آقا کا فرمان تھا۔ اور آج دنیا انہیں مفکر اسلام اور قائد انقلاب کے نام سے پکارتی ہے۔ یہی وہ قصبہ حسو بلیل ہے جہاں ڈاکٹر فرید الدین مرحوم نے زندگی کی کئی بہاریں گذاریں۔ اور بشارت سرور کونین ﷺ (جناب محمد طاہر القادری) نے بھی بچپن میں چند بہاریں اسی چھوٹے سے شہر میں دیکھیں۔ اسی حسو بلیل کی جامعہ مسجد غوثیہ ہے جہاں شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب نے زندگی کی پہلی اذان منبر پر کھڑے ہو کر دی۔ اور اسی مسجد کا سٹیج ہے جہاں ڈاکٹر فرید الدین مرحوم نے اپنے ننھے منھے طاہر کو کھڑا کر کے تقریر کرنا سکھایا کرتے تھے۔ ادارہ منہاج القرآن کی بشارت حضرت شیخ الاسلام کو اسی جامعہ مسجد غوثیہ حنفیہ حسو بلیل میں ہوئی جو آج عالم اسلام میں مقبول ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved