مسز رفعت جبیں قادری
ایک ایسی عظیم ہستی جن کی روحانی پاکیزگی، علمی وجاہت، فنی عظمت اور دینی خدمات سرزمین جھنگ کے لئے باعث فخر ہیں جو عالم باعمل، صاحب صفا اور عظیم عاشق رسول تھے۔ جن کی حق گوئی دشمنان دین پر بجلی بن کر گرتی جو عبادت و ریاضت میں یکتائے روزگار اور تاجدارِ ختم نبو ت ﷺ سے والہانہ عشق کے عظیم پیکر تھے۔ ان اوصاف حمیدہ سے تشکیل پانے والی شخصیت کا نام حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ ہے۔ میں ان کی بھتیجی ہوں اور میری یہ خوش نصیبی ہے کہ مجھے ان کی بڑی بہو ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ آپ میرے والد صاحب کے بڑے بھائی تھے۔ اس لئے ہم سب بہن بھائی آپ کو تایا جی کہہ کر پکارتے تھے۔ حضرت قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ کو بچپن ہی سے میرے ساتھ بہت محبت تھی۔ اور میرے ساتھ ہمیشہ خصوصی شفقت فرماتے تھے۔ آپ کی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ آخری دور میں نے بچشم خود دیکھا ہے۔ جبکہ پہلا دور میں نے نہیں دیکھا۔ پہلا دور ان کی جوانی کا دور تھا۔ اس میں عربی اُردو اور فارسی ادب ان پر غالب رہا۔ آپ صاحب دیوان شاعر تھے۔ اور اس زمانے کے اکثر شعراء آپ سے اصلاح لیتے تھے۔ آپ کے دیوان کا نام دیوان فرید تھا (مگر وہ طبع ہوئے بغیر ضائع ہوگیا) آپ کا دوسرا دور خالصتاً علم و فضل دعوت و تبلیغ، درس اور تدریس کا دور تھا اس دور میں آپ نے کثرت سے مطالعہ کیا۔ بڑے بڑے اکابر علماء ان کے ہمنشین تھے۔ تیسرا دور جو ان کا تادم وصال رہا وہ صوفیانہ اور روحانی دور تھا یہ عشق و مستی، درد و سوز اور گریہ زاری کا دور تھا۔ سب کتابیں چھوٹ گئیں صرف ایک کتاب ساتھ رہی جو مثنوی مولانا روم رحمہ اللّٰہ تھی۔ مثنوی شریف رات گئے تک پڑھتے اور بار بار ہچکیاں لے کر روتے۔ زندگی کی آخری گھڑیوں میں جب آپ پر تین بار ہارٹ اٹیک ہوا اس وقت بھی آپ مصلیٰ پر تھے۔ آپ جوانی میں بڑے ذی وجاہت اور خوبصورت تھے لیکن اس کے باوجود آپ نے تصنع بناوٹ نمود و نمائش اور تکلفات سے پاک زندگی بسر کی۔ آپ فقر و استغناء اور توکل و قناعت کے پیکر تھے۔ آپ نے ہمیشہ اسلامی تعلیمات اور حضور ﷺ کی سنت کے مطابق زندگی بسر کی۔ حضرت قبلہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ علیہ کو بحیثیت سربراہ خاندان، جو کچھ میں نے قریب سے دیکھا سنا اور محسوس کیا ان کی زندگی کے چند گوشے اختصار کے ساتھ بیان کرتی ہوں۔
آپ ایک بہت بڑے خاندان کے سربراہ تھے۔ آپ نے اپنی روحانی، علمی، ادبی اور دینی مصروفیات کے باوجودخاندان کے متعلق تمام ذمہ داریوں کو ہمیشہ بہترین طریقہ سے انجام دیا۔ اپنے گھر والوں کا پورا پورا خیال رکھتے اور سنت نبوی ﷺ کے عین مطابق جس حسن و خوبی سے اپنے فرائض انجام دیتے وہ ہم سب کے لئے مینارہ نور کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ نے دو شادیاں کی تھیں۔ دونوں ازواج آمنے سامنے علیحدہ علیحدہ گھروں میں رہتی تھیں۔ آپ نے سنت نبوی ﷺ پر عمل کرتے ہوئے دونوںبیویوں سے ہمیشہ عدل و انصاف اور حسن سلوک کا معاملہ رکھا۔ ان کی معمولی سے معمولی ضروریات کا خیال اس طرح رکھا کہ دونوں بیویوں کو کبھی شکایت کا موقع نہ دیا۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالاہے آپ کو اہل خاندان کے لئے ہمیشہ حلیم الطبع اور شفقت کا پیکر پایا۔ آپ دور و نزدیک کے تمام رشتہ داروں پر شفقت فرماتے اور اپنی تمام تر مصروفیات کے باوجود ان کی خوشی غمی میں شریک ہوتے۔
آپ کی شخصیت کا یہ وصف عظیم تھا کہ شب و روز کی مصروفیات کے باوجود اہل خاندان کے چھوٹے بڑے تمام معاملات پر گہری نظر رکھتے تھے۔ اتنی مدبرانہ سوجھ بوجھ شاذو نادر ہی کسی میں پائی جاتی ہے کہ موقع محل کے مطابق معاملات کو نبھایا جائے۔ یہ 1973ء کا واقعہ ہے جب پروفیسر صاحب کے ساتھ میری نسبت طے ہوئی۔ چونکہ میرے والد محترم کا انتقال ہو چکا تھا۔ قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ نے دعائے خیر کے لئے جھنگ صدر سے جھنگ سٹی مہمانوں کو ہمارے گھر لانا تھا۔ چنانچہ آپ نے گاڑیوں کا انتظام کیا اور مہمانوں کو لے کر ہمارے گھر روانہ ہوئے۔ جب گاڑیاں جھنگ سٹی کے بس سٹاپ پر پہنچیں تو آپ گاڑی سے اتر کر مہمانوں سے پہلے ہی ہمارے گھر تشریف لے آئے۔ اور گھر کے دروازے پر مہمانوں کے استقبال کے لئے کھڑے ہوگئے۔ جب سب مہمان پہنچے تو یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ پہلے ہی وہاں ان کے استقبال کے لئے موجود ہیں۔ انہوں نے پوچھا ڈاکٹر صاحب ہم سب آپ کو بس سٹاپ پر دیکھتے رہے اور آپ ادھر پہنچ گئے ہیں۔ یہ سن کر آپ کچھ افسردہ ہوئے اور فرمانے لگے۔ بھائی غلام محمد تو حیات نہیں ہے اور بچے ابھی بہت چھوٹے ہیں۔ اس لئے ادھر مہمانوں کا استقبال کون کرتا، اُدھر بھی آپ لوگ میرے مہمان تھے۔ اور اِدھر بھی آپ میرے ہی مہمان ہیں۔ تمام وقت میزبان کی حیثیت سے مہمانوں کی خاطر مدارت خود فرماتے رہے۔ یہ آپ کی شخصیت کی عظمت اور کمال ہے کہ ایک طرف وہ علم و تفقہ، فہم و فراست، عبادت و ریاضت، تبلیغ و خطابت، تدریس و تربیت، صوفیانہ اور روحانی مشاغل اور عالمانہ و محققانہ زندگی کی ان اعلیٰ بلندیوں کے حامل تھے تو دوسری طرف ازدواجی عائلی اور خاندانی زندگی کے معمولی سے معمولی معاملات پر بھی اتنی گہری نظر اور بھرپور توجہ رکھتے اور ان حقوق کی ادائیگی کا شاندار عملی نمونہ پیش فرماتے۔ ان کی زندگی علمی و عملی اور سماجی و عائلی اُمور کی بیک وقت اور بطریق احسن ادائیگی کا مرقع بن گئی تھی۔ ایسی جامعیت اور بھرپور زندگی بڑے لوگوں میں کم ہی نظر آتی ہے۔
آپ کو اپنی اولاد سے بہت زیادہ محبت تھی۔ میں نے آپ کو اپنی اولاد کے لئے ہمیشہ مشفق و مہربان دیکھا۔ یہ 1968ء کا واقعہ ہے قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ کی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہوگیا۔ ایک خوش خصال، نیک سیرت، خدمت گذار، مونس و غمگسار رفیقہ حیات کا دنیا سے رخصت ہو جانا آپ کے لئے ناقابل برداشت صدمہ تھا۔ لیکن آپ نے صبر و تحمل کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ بچوں کو سینے سے لگایا اور بیک وقت ماں کی محبت اور باپ کی شفقت دی۔ جن دنوں آپ کی اہلیہ محترمہ کا انتقال ہوا آپ کی عمر کم و بیش 48 سال تھی۔ آپ تندرست وتوانا تھے۔ بڑے بڑے خاندانی لوگوں نے آپ کو شادی کی پیشکش کی اور اصرار کیا کہ بچے بہت چھوٹے ہیں گھر کے جملہ معاملات کے لئے شادی کرنا بہت ضروری ہے۔ لیکن آپ نے انکار کر دیا۔ فرمانے لگے میرے معصوم بچے ماں کی مامتا سے محروم ہو گئے ہیں۔ میں ان کو مزید کوئی دکھ نہیں دینا چاہتا۔ آپ جب تک حیات رہے بچوں کو والدہ کی کمی کا احساس تک نہ ہونے دیا۔ قادری صاحب سے چھوٹی ان کی ہمشیرہ والدہ کے انتقال کے وقت آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھیں۔ حضرت قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ نے چھوٹے بہن بھائیوں کی دیکھ بھال اور گھر کے دیگر معاملات نبھانے کے لئے اس کی تعلیم کا سلسلہ منقطع کروا دیا۔ وہ ابھی بچی تھی۔ امور خانہ داری سے ناواقف تھی۔ آپ اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر گھریلو معاملات میں اس کی خود تربیت فرماتے۔ بچوں کی تمام ضروریات پر نظر رکھتے۔ اور جب کبھی کسی بچے کا چہرہ اداس نظر آتا خود بھی اداس ہو جاتے اور فرماتے میں نے تو آپ کو والدہ کی کمی کبھی محسوس نہیں ہونے دی۔ پھر آپ کا چہرہ مرجھایا ہوا کیوں ہے۔ اور پھر جب 2 نومبر 1974ء بروز ہفتہ بمطابق 14 شوال آپ کا وصال ہوا، اس دن بچوں کو ماں کی مامتا اور شفقت پدری دونوں سے محرومی کا احساس ہوا۔ آپ کی شخصیت پدرانہ شفقت کا ایک اعلیٰ نمونہ تھی۔ قبلہ تایا جی کے وصال کے بعد پروفیسر صاحب نے اپنی ڈائری میں چند اشعار تحریر فرمائے تھے جو میں یہاں نقل کر رہی ہوں:
سُلا گئی تھیں جنہیں تیری ملتفت نظریں
وہ درد جاگ اُٹھے پھر سے لے کے انگڑائی
عجیب عالم افسردگی ہے رُوبہ فروغ
نہ اب نظر کو تقاضا نہ دل تمنائی
ان آرزوئوں پہ چھائی ہے گردِ مایوسی
جنہوں نے تیرے تبسم میں پرورش پائی
وہ تارے جن میں محبت کا نور تاباں تھا
وہ تارے ڈوب گئے لے کے رنگ و رعنائی
فریبِ شوق کے رنگیں طلسم ٹوٹ گئے
حقیقتوں نے حوادث سے پھر جلا پائی
شفقت پدری کے ضمن میں آپ کی سب سے چھوٹی بیٹی نصرت جبیںبیان کرتی ہیں۔ میں تقریباً تین سال کی تھی جب میری والدہ صاحبہ کا انتقال ہوا۔ مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ ابھی میت گھر میں ہی تھی اور میں اپنی عمر کے لحاظ سے جس طرح دوسری خواتین کو روتا دیکھتی ویسے رونے لگ جاتی۔ میرے والد صاحب رحمہ اللّٰہ مجھے بار بار باہر لے جاتے اور کچھ کھلا پلا کر واپس لے آتے۔ میں نے ماں کی شفقت و محبت بھی والد محترم رحمۃ اللّٰہ میں دیکھی۔ آپ مجھے پیار کرتے تھے۔ جب میں سکول جانے لگی تو مجھے سکول کے لئے کھانا اور پھل دے کر بھیجتے۔ میری سہیلیاں مجھے کہتیں تم اپنے ابا جی رحمہ اللّٰہ کی بہت لاڈلی لگتی ہو۔ میں تیسری جماعت میں پڑھتی تھی کہ سخت علیل ہوگئی۔ مجھے تشنج ہوگیا قبلہ ابا جی رحمہ اللّٰہ گھر پر نہیں تھے۔ اسی وقت میرے چچا جان محترم گھر تشریف لے آئے اور فوراً ڈاکٹر کو بلا لائے۔ میں بے ہوشی کی حالت میں بار بار اباجی کو پکار رہی تھی۔ ان کو اطلاع کی گئی فوراً تشریف لے آئے اور خصوصی توجہ اور شفقت و محبت سے میرا علاج معالجہ کیا۔ ہمارے ابا جان بحیثیت انسان بڑے نیک، عظیم اور رحم دل تھے۔ قبلہ اباجی رحمہ اللّٰہ نے ہم بہنوں کو کبھی نہیں ڈانٹا تھا، میں جب کبھی اپنی بہنوں سے لڑتی، قصور بھی میرا ہوتا پھر بھی رونا شروع کر دیتی، ابا جی سے بہنوں کی شکایت کرتی۔ وہ میری بڑی بہنوں کو ظاہراً ڈانٹتے اور مجھے پیار کرتے اور فرماتے یہ میرا چھوٹا بیٹا ہے اسے کچھ نہ کہا کرو۔
قبلہ ابا جی رحمہ اللّٰہ گھر کے علاوہ محلے والوں سے بھی خصوصی شفقت فرماتے، ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے، یہی وجہ ہے کہ اہل محلہ آج بھی ابا جان رحمہ اللّٰہ کو یاد کرکے روتے ہیں۔ ستائیس رمضان المبارک کو جب اباجان کو ہارٹ اٹیک ہوا اور پھر طبیعت کافی خراب ہوگئی عید والے دن میں بہت رو رہی تھی کہ میں نئے کپڑے نہیں پہنوں گی، میرے ابا جان ٹھیک ہوں گے یا نہیں۔ جب قبلہ ابا جان نے دیکھا تو انہیں بہت دُکھ ہوا فرمانے لگے، میں نے پوری زندگی اسی کوشش میں گزار دی ہے کہ آپ لوگوں کو ہنستا ہوا دیکھوں، بٹیا میں بالکل ٹھیک ہوں آپ لوگ عید منائیں مجھے بہت خوشی ہوگی۔ اس طرح اباجی قبلہرحمہ اللّٰہ کی تکلیف بڑھتی گئی اور پھر انہیں ہسپتال داخل کروا دیا گیا۔ جب ہسپتال روانہ ہو رہے تھے تو میں بار بار پوچھتی ابا جان آپ کب واپس آئیں گے۔ وہ خاموش ہو جاتے، میں ہسپتال جاتی تو مجھے سینے پر لٹا کر پیار کرتے۔ اور پھر ایک صبح ہمیں اپنی شفقتوں سے محروم کر کے خالق حقیقی سے جا ملے۔ اللہ تعالیٰ قبلہ ابا جی رحمہ اللّٰہ کے درجات بلند فرمائے۔ اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ارشاد ہے، تم میں سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے بیوی بچوں کے ساتھ حسن سلوک میں بہتر ہو۔ اور میں اپنے واہل و عیال کے ساتھ حسن سلوک میں سب سے بہتر ہوں۔ جب میں حضرت قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ کی شخصیت کا اس ارشاد نبوی ﷺ کی روشنی میں جائزہ لیتی ہوں تو وہ سنت نبوی ﷺ کی اتباع کے پیکرِ عظیم نظر آتے ہیں۔ میں نے آپ کی اپنی اہلیہ محترمہ (پروفیسر صاحب کی والدہ ماجدہ) کے ساتھ بطور شوہر حسن سلوک کا مشاہدہ سال ہا سال کیا ہے۔ قبلہ قادری صاحب کی چھوٹ ہمشیرہ مسرت جبیں کی پیدائش کے بعد چچی جان سخت علیل ہوگئیں۔ بعد ازاں اس تکلیف سے افاقہ ہوا تو دوسری تکلیف میں مبتلا ہوگئیں۔ اس سے صحت یاب ہوئیں تو مزید علالت میں پے درپے مبتلا رہیں۔ ان کی طویل علالت کا ان کی وفات سے دو سال پہلے تک سلسلہ جاری رہا۔ مجموعی طور پر چودہ سال کا عرصہ مختلف طرح کی علالتوں میں گذرا۔ حضرت قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ نے کمال درجہ صبر و تحمل ذمہ داری و یکسوئی اور ثابت قدمی کے ساتھ علاج معالجہ جاری رکھا۔ بلکہ پورے عرصے میں ایک لمحے کے لئے بھی ان کی زوجہ محترمہ کی طویل علالت ان کے لئے گراں ثابت نہ ہوئی۔ بڑی بڑی نازک صورت حال اور پریشانیوں میں ان کی پیشانی پر بل تک نظر نہ آیا اور ان کا حسن سلوک ایک اعلیٰ معیار پر اوّل سے آخر تک ہمہ وقت قائم رہا۔ ان کے متعلقین ہمیشہ ان کی دائمی اور یکساں حسن سلوک پر متحیر رہتے۔ اولاد کے ساتھ حسن سلوک کا یہ عالم تھا کہ 1952ء میں جبکہ پروفیسر صاحب کی عمر تقریباً ایک سال تھی اور ان دنوں قبلہ تایاجان حسو بلیل میں جو کہ جھنگ سے بتیس میل کے فاصلے پر ایک قصبہ ہے، تعینات تھے۔ یہ غالباً دسمبر جنوری کا مہینہ تھا رات کے وقت اچانک قبلہ قادری صاحب کی طبیعت بہت سخت خراب ہوگئی آپ کو نمونیہ ہوگیا۔ شدید انفیکشن کی وجہ سے حالت بڑی تشویش ناک ہوگئی۔ جو ادویات اس وقت ان کے پاس ہسپتال میں موجود تھیں ان کے استعمال کے باوجود افاقہ نہ ہوا۔ کچھ خصوصی انجیکشن دینے کی ضرورت محسوس ہوئی جو وہاں میسر نہ تھے۔ یہ آج سے تقریباً سینتیس برس پہلے کی بات ہے تب دسمبر جنوری کی راتوں میں سردی کی شدت کا آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ اس وقت کوئی کنوینس یا گاڑی بھی میسر نہ تھی رات کے وقت اس روٹ پر کوئی ٹرانسپورٹ بھی نہیں چلتی تھی۔ حضرت قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ رات یخ بستہ سردی میں تیس میل کا سفر سائیکل پر طے کر کے جھنگ صدر پہنچے، رات ہی کو کوئی بڑامیڈیکل سٹور کھلوا کر متعلقہ دوائیاں اور انجیکشن خریدے اور اسی حالت میں پھر بتیس میل کا سفر طے کر کے واپس حسو بلیل پہنچے۔ سردیوں کی طویل یخ بستہ رات میں مسلسل چونسٹھ میل کا سفر کر کے جب حسو بلیل پہنچے تو فجر کی اذان ہو رہی تھی آتے ہی انہوں نے اپنے لخت جگر کو انجیکشن لگائے اور ادویات دیں۔ تھوڑی دیر بعد طبیعت سنبھل گئی۔ اس واقعہ سے نہ صرف ان کی اولاد پربے پناہ شفقت اور محبت کا اندازہ ہوتا ہے بلکہ ساتھ ہی ان کی شخصیت میں داعیہ محنت و ریاضت، تحمل و جانفشانی سخت کوشی اور نہایت درجہ عزیمت و استقلال کا بھی پتہ چلتا ہے۔
حضرت قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ کی شخصیت اولاد کی پرورش اور تربیت کے معاملے میں ایک قابل رشک انداز کی حامل تھی۔
اپنی اولاد کی جملہ ضروریات کی تکمیل کا بروقت خیال رکھتے۔ ان کی جائزخواہشات کو پورا کرنے میں کبھی بھی متامل نہ ہوتے۔ آپ کی بڑی صاحبزادی مسرت جبیں بیان کرتی ہیں۔ ’’میں ابھی آٹھویں جماعت میں پڑھتی تھی کہ والدہ صاحبہ کا انتقال ہوگیا۔ بہنوں میں چونکہ میں بڑی تھی اس لئے بہن بھائیوں کی تمام ذمہ داریاں مجھے سنبھالنی تھیں۔ میں ابھی چھوٹی تھی، اُمور خانہ داری سے ناواقف تھی اس لئے والد صاحب گھریلو معاملات میں میری تربیت فرماتے۔ میں اپنے بہن بھائیوں کی ضروریات کے بارے میں قبلہ ابا جی کو بتاتی اور وہ ضرورت کی ہر چیز ہمیں مہیا کرتے اور چیزوں کے خریدنے میں ہماری پسند و ناپسند کا خیال رکھتے۔ بھائی جان اکثر کہتے ابا جان آپ ان کو چیزیں پسند کروانے میں اتنی غیر معمولی تکلیف کیوں اُٹھاتے ہیں۔ اپنی پسند کی خرید دیا کریں تو والد صاحب فرماتے بیٹیاں گھر بیٹھی ہوتی ہیں اس لئے انہیں گھر میں ہی ان کی پسند کے مطابق چیز لے کر دینی چاہیے۔ میرا بہت خیال رکھتے فرماتے میری بیٹی بہت چھوٹی تھی کہ اس پر گھر کی ذمہ داریوں کا بوجھ آگیا ہے۔ میں ابھی کم سن تھی کہ ایک دن ابا جان نے مجھے فرمایا بیٹا اب آپ باقاعدگی سے نماز پڑھا کرو آپ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ نے بہت جلد صوم و صلوٰۃ کا پابند بنا دیا۔ اور چھوٹی عمر سے ہی کبھی نماز قضا نہ کی حتیٰ کہ میری والدہ صاحبہ کی میت گھر پر موجود تھی تمام خواتین رو رہی تھیں۔ نماز فجر کا وقت ہوگیا میں نے اُٹھ کر نماز ادا کی اور پھر والدہ صاحبہ کی میت کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ اللہ تعالیٰ کو یہی منظور تھا کہ ہم جلدہی اپنے مشفق و مہربان والد ہ سے محروم ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔‘‘
حضرت قبلہ تایاجی رحمہ اللّٰہ کی منجھلی بیٹی ثروت جبیں بیان کرتی ہیں۔ ہمارے ابا جان بہت عظیم انسان تھے ہمیں بہت پیار کرتے تھے۔ میں 10 سال کی تھی جب میری والدہ محترمہ کا انتقال ہوا انہوں نے ہمیں کبھی بھی والدہ محترمہ کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ ہماری ہر خواہش کا خیال کرتے ہم نے جب جوتے اور کپڑے خریدنے ہوتے قبلہ اباجی رحمہ اللّٰہ جوتے اور کپڑے گھر پر منگوا لیتے اور ہمیں پسند کرواتے۔ ہر اچھی سے اچھی چیز ہمیں منگوا کر دیتے۔ ہماری چھوٹی سے چھوٹی ضروریات کا ذاتی طور پر خیال رکھتے اور ہماری ہر طرح سے دلجوئی فرماتے۔
قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ کی والدہ ماجدہ ہماری دادی جان انتہائی نیک سیرت متقی، پرہیز گار اور بڑی سادہ مزاج خاتون تھیں۔ سب بیٹیاں بیٹے ابھی بہت چھوٹے تھے کہ ان کا انتقال ہوگیا۔ اسی طرح ہمارے دادا جان بھی پرانی وضع کے درویش منش، بڑے نیک، صالح اور سادہ مزاج انسان تھے۔ حضرت قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ چونکہ تمام بہن بھائیوں میں سب سے بڑے تھے۔ اس لئے آپ نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش، تعلیم و تربیت، شادی بیاہ اور ملازمت وغیرہ تمام دیگر معاملات کو بڑی خوش اسلوبی سے نبھایا۔ میرے والد محترم رحمہ اللّٰہ ہمیشہ فرماتے تھے کہ آج میں آپ کے سامنے جو کچھ ہوں اور جس مقام پر ہوں یہ سب میرے بڑے بھائی یعنی قبلہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کی محنتوں اور کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ قبلہ تایاجی رحمہ اللّٰہ کی ایک ہی بہن تھیں یعنی ہماری پھوپھی جان کچھ گھریلو اختلافات کی وجہ سے شادی کے بعد وہ سسرال میں چند سال ایڈجسٹ نہ ہو سکیں۔ ایک طویل عرصہ میکے میں رہیں ان کے دو بچے بھی تھے آپ ان کی کفالت فرماتے اوران کی جملہ ضروریات کا ہمیشہ اپنی سگی اولاد کی طرح خیال رکھتے بچوں کو کبھی اپنے والد سے دوری کا احساس تک نہ ہونے دیا۔
ہمارے چچا جان حاجی محمد اسماعیل بیان کرتے ہیں میرے برادر بزرگ حضرت ڈاکٹر فرید الدین صاحبرحمہ اللّٰہ نہایت شفیق، ہمدرد اور محسن انسان تھے۔ انہوں نے چھوٹے بہن بھائیوں کی کفالت کا مثالی نمونہ پیش کیا۔ میرے والد محترم میاں خدا بخش صاحب رحمہ اللّٰہ طبیعت کی سادگی اور محدود آمدنی کے باعث ہم چاروں بھائیوں کی تعلیم کو پایۂ تکمیل تک نہ پہنچا سکے۔ جس کے باعث ہمیں مختلف فنی اور طبی کاموں کی سکھلائی کے لئے بٹھا دیا گیا۔ چونکہ حضرت فرید الدین صاحب رحمہ اللّٰہ کو تعلیم کا ازحد شو ق تھا۔ لہٰذا اس سلسلے میں وہ والدین کی اجازت سے لکھنؤ تشریف لے گئے۔ وہاں جا کر اپنا ہمہ جہتی تعلیمی سلسلہ جاری رکھا اور ساتھ ہی ساتھ طب و حکمت کی تعلیم بھی حاصل کرتے رہے۔ جب لکھنؤ سے واپس تشریف لائے تو تمام خاندان کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد انہیں شدت سے احساس ہوا کہ والد صاحب اپنی کم آمدنی کے باعث بھائیوں کی تعلیم کو جاری نہ رکھ سکے اور اس وجہ سے انہیں مختلف کاموں پر لگا دیا ہے۔ انہوں نے اپنے تینوں بھائیوں محمد فرید، غلام محمد اور محمد اسماعیل کو مختلف کلاسوں میں سکول میں داخل کروا دیا اور تعلیمی اخراجات کی ذمہ داری خود اُٹھا لی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ گھر پر ٹیوشن کا بھی اہتمام کیا۔ تاکہ گذشتہ کمی جلد پوری ہو سکے۔ اس دوران ان کی تعیناتی رورل ہیلتھ سینٹر شاہ جیونہ میں ہوگئی۔ ان کے احساس ذمہ داری کایہ عالم تھا کہ ہر روز ہسپتال کے اوقات کے بعد گھر جھنگ تشریف لے آتے گھر کی ضروریات زندگی کا فکر کرتے اور بروقت مہیا کر کے چین لیتے۔ عرصہ دراز تک ان کا یہی معمول رہا۔ سردی گرمی، موسم کی شدت کا بھی لحاظ نہ کرتے ہوئے گھر روازانہ آٹا اور گھریلو معاملات کی دیکھ بھال ان کا معمول تھا۔ سب سے پہلے بھائی محمد فرید نے میٹرک تک تعلیم مکمل کی تو انہیں محکمہ ریونیو میں ملازم کروا دیا۔ شومی قسمت کہ وہ اچانک بیمار ہوگئے۔ جوں جوں علاج کیا مرض بڑھتا گیا آپ کے علاوہ ڈاکٹر دیوراج اور دونی چند جھنگ کے بڑے معروف ڈاکٹر تھے۔ ان سے بھی علاج کروایا۔ اس کے بعد ان کو میو ہسپتال لایا گیا۔ میو ہسپتال والوں نے شملہ (کشمیر)جا کر ریسٹ کے لئے مشورہ دیا محدود وسائل کے باوجود تمام بندوبست کر کے بھائی کو شملہ لے گئے وہاں جا کر علاج جاری رکھا۔ تقریباً دو ماہ وہاں گذارنے کے بعد ان کو واپس لے آئے مگر وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ بھائی محمد فرید کی وفات کے منظر کو قبلہ ڈاکٹر صاحب نے ایک نظم ’’ایک روح‘‘ میں بیان کیا۔ کیونکہ وہ ایک زبردست شاعر اور ادیب بھی تھے اس کے بعد ہم دونوں بھائیوں کی تعلیم مکمل کروا کر میرے بڑے بھائی غلام محمد کو نائب تحصیلدار کروایا اور مجھے ریلوے میں ملازمت دلوائی اسی دوران ان کا تبادلہ لالیاں ہوگیا۔ میں ان دنوں لائل پور (فیصل آباد) میں تھا۔ ان کی اپنی تعلیمی جدوجہد کا یہ عالم تھا کہ علوم و فنون میں تکمیل کے باوجود تحصیل علم کا شوق فروتر تھا۔ روزانہ لالیاں سے فیصل آباد تشریف لاتے۔ حضرت مولانا سردار احمد صاحب محدث اعظم رحمہ اللّٰہ کی خدمت میں حاضر ہو کر دوبارہ حدیث اور بعض فنون کی کتابوں کا درس لیا یہ ان کا ہر روز کا معمول تھا۔ شام کو میرے پاس تشریف لے آتے قیام فرماتے اور تفصیلاً گھر کے حالات دریافت فرماتے تب جا کر انہیں سکون قلب نصیب ہوتا۔ آپ نے والد کی حیثیت سے ہماری شادیاں کیں۔ جب میرے بھائی غلام محمد نائب تحصیلداری کی ٹریننگ سے فارغ ہوئے تو ان کا امتحان پپلاں ضلع میانوالی میں منعقد ہوا۔ وہ ان دنوں سخت بیمار ہوگئے۔ آپ ان کے ساتھ پپلاں گئے کمرہ امتحان میں بھی حسب ضرورت ان کا علاج جاری رکھا۔ ڈاکٹر صاحب خود سادہ زندگی بسر کرتے لیکن ہمیں موسم کے لحاظ سے اچھے سے اچھا کپڑا مہیا کرتے۔ وہ ہمیشہ باوضو رہتے اور درود شریف کا ورد جاری رکھتے وہ اپنی ذمہ داریوں کی وجہ سے کئی کئی دن تک اگر گھر تشریف نہ لاسکتے تو ہسپتال کے کسی ملازم کے ہاتھ خیریت معلوم کروا لیتے اور گھریلو اخراجات کے لئے پیسے بھجوا دیتے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی میں ہمیں کسی مشکل کا سامنا نہیں کرنے دیا۔ ہر قسم کی تکلیف خود برداشت کر کے ہمارے لئے آسودگی کا اہتمام فرماتے۔ قبلہ والد صاحب رحمہ اللّٰہ کو گھر پر آرام فرمانے کے لئے اکثر کہا کرتے۔ ان کی خدمت کو حرز جاں بنائے رکھتے اور ہر ضرورت کا کما حقہ خیال فرماتے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔
میرے والد محترم مہر غلام محمد مرحوم حضرت قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ کے چھوٹے بھائی تھے۔ بڑے نیک سیرت، با کردار اور صالح انسان تھے۔ حضرت قبلہ تایا جی رحمۃ اللّٰہ کو اباجی قبلہ سے بہت محبت تھی۔ اباجی قبلہ بھی آپ کا بہت احترام کرتے تھے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے بچپن میں جب ہم سب بہن بھائی اپنے والدین کے ہمراہ عیدین کے موقع پر یا ویسے حضرت قبلہ تایاجی رحمہ اللّٰہ اور ان کی فیملی سے ملنے جھنگ صدر جاتے وہ ہم سب کو مل کر بہت خوش ہوتے۔ اور تواضع کے لئے انواع و اقسام کے لوازمات دیکھتے ہی دیکھتے مہیا کر دیتے۔ ہمارے اباجی قبلہ کے ساتھ دوستوں کی طرح گھریلو خاندانی اور دیگر معاملات پر کھل کر بے تکلفی سے بات چیت کرتے، سب کے ساتھ ان کی طبیعتوں کی فرحت کے پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے بڑے لطیف پیرائے میں مزاح بھی فرماتے۔ جس سے محفل باغ و بہار بن جاتی اس وقت بھی ہمارے معصوم ذہن محسوس کرتے تھے کہ والدین کے علاوہ بھی ایک مشفق و مہرباں ہستی ہمارے سروں پر موجود ہے۔ جب کبھی اباجی قبلہ حج پر جاتے آپ پوری فیملی کی خصوصی دعوت کا اہتمام فرماتے اور جس دن انہوں نے روانہ ہونا ہوتا بڑی شفقت و محبت سے روانہ کرتے۔
حضرت قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ کی بھاوج میری والدہ ماجدہ فرماتی ہیں یہ 1953ء کی بات ہے جب حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ مجھے بیٹیوں کی طرح بیاہ کر اپنے گھر لائے۔ میں نے آتے ہی یہ محسوس کیا کہ ڈاکٹر صاحب قبلہرحمہ اللّٰہ والدماجد کی سرپرستی کے باوجود اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا اپنی اولاد کی طرح خیال رکھتے۔ ہم سب ایک ہی گھر میں اکٹھے رہتے تھے لیکن ملازمت کے سلسلے میں ہمیں دوسرے شہروں میں جانا پڑتاتھا۔ جب کبھی ہم واپس آتے تو ڈاکٹر صاحب قبلہرحمہ اللّٰہ کی شفقتیں ہماری منتظر ہوتیں۔ ہمارا ہر طرح سے خیال رکھنا اپنا فرض سمجھتے تھے۔ میرے شوہر کے ساتھ اچھے دوستوں کی طرح سلوک رکھتے۔ میری شادی کے بعد قبلہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ نے سب سے پہلے مجھ سے قرآن پاک سنا پھر مجھے اس کے معنی بتائے بہت سی مفید نصیحتیں کیں اس طرح اس جہاندیدہ ہستی نے اپنی زندگی کے بیش بہا تجربات کا لب لباب پیش کیا بچپن جوانی اور بڑھاپے میں کام آنے والی مفید نصیحتیں کیں ان کی نصیحتیں آج بھی بچوں کے لئے شفیق استاد، جوانوں کے لئے ناصح و مشفق اور بوڑھوں کے لئے یارومددگار ہیں۔ انہوں نے مجھے زندگی گذارنے کے لئے اسلامی طور طریقوں سے بھی آگاہ کیا۔ ہمارے گھرانے میں شروع سے ہی پردے کی بہت پابندی تھی۔ انہوں نے اس سلسلے میں بھی بہت سی نصیحتیں فرمائیں۔ ان کی نصیحتیں زندگی کے ہرموڑ پر ہمارا سرمایہ سفر ہیں۔ جو آج بھی ہمارے ذہنوں میں اسی طرح نقش ہیں۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ ہر سال حج یا عمرہ کے لئے تشریف لے جاتے واپسی پر میرے اور بچوں کے لئے تحائف وغیرہ لاتے تھے۔ یہ 1963ء کی بات ہے جب مجھے اور میرے شوہر مرحوم کو حضرت قبلہ ڈاکٹر صاحب اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ فریضہ حج ادا کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ انہوں نے ہمیں بہت سی زیارتیں کروائیں۔ جو آج تک ہمارے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔ اس طرح زندگی کی گاڑی چلتی رہی وقت گذرتا رہا۔ یہ 10 جون 1972ء کی بات ہے۔ جب میری ہنستی بستی زندگی میں ایک بہت بڑا سانحہ پیش آیا۔ میرے عظیم شوہر کا شکر گڑھ کے سیلاب زدگان کو اپنی نگرانی میں ڈسکہ میں فنڈز تقسیم کرواتے ہوئے ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوگیا۔ ان کی عمر اس وقت بیالیس سال تھی۔ ان دنوں ہم ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں رہائش پذیر تھے۔ میرے بچے بہت چھوٹے تھے۔ میت کو ہم ڈسکہ سے جھنگ شہر لائے وہاں میری والدہ ماجدہ رہتی تھیں۔ میرے شوہر کے انتقال کا حضرت قبلہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کو بہت صدمہ ہوا۔ اکثر فرماتے تھے مہر صاحب مرحوم میرا بہت پیارا بھائی تھا ان کی کمی میں بہت شدت سے محسوس کرتا ہوں۔ میرے شوہر کی وفات کے ڈیڑھ ماہ بعد میرے ہاں بیٹے کی ولادت ہوئی۔ حضرت قبلہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ نے اس کا نام عظمت اللہ رکھا۔ اور اس کے ساتھ خصوصی محبت و شفقت کرتے۔ اس کی خیریت معلوم کرنے ہر دوسرے تیسرے دن جھنگ صدر سے تشریف لے آتے۔ بچے کو گود میں اُٹھاتے، پیار کرتے اور پھر بڑے شوق اور محبت کے ساتھ اپنے بڑے بیٹے طاہرالقادری کی نسبت میری بڑی بیٹی سے طے کی۔ اس موقع پر بڑی خوشی کا اظہار فرمایا۔ اور جھنگ صدر سے جھنگ سٹی ہمارے گھر بہت سے مہمانوں کو لائے اور دعائے خیر فرمائی۔ آپ جلد ازجلد اپنی بھتیجی کو بہو کے روپ میں اپنے گھر دیکھنا چاہتے تھے۔ شادی کی تاریخ مقرر ہوگئی آپ نے بڑی چاہت اور محبت سے شادی کی تیاریاں شروع کردیں۔اور پھر ستائیس رمضان المبارک کو آپ کو ہارٹ اٹیک ہوا تقریباً تین ہفتے سخت علیل رہے۔ اور اپنے بیٹے کی شادی سے چند دن پہلے وصال فرما گئے اس طرح ہم ایک مشفق و مہربان ہستی سے محروم ہوگئے۔ میں اور میرے بچے اتنی بڑی عظیم ہستی کی محبتوں اور شفقتوں کو کبھی فراموش نہیں کر سکتے۔ مَیں آج بھی صمیم قلب سے آپ کے لئے بلندی درجات کی دعا مانگتی ہوں۔
مَیں یہاں سیلاب والا ایک واقعہ عرض کرونگی۔ یہ 1973ء کا واقعہ ہے۔ ضلع جھنگ میں بہت بڑا سیلاب آیا۔ جس نے پورے ضلع کو تباہ کر کے رکھ دیا۔ صرف چند علاقے محفوظ رہ سکے۔ جھنگ شہر کو سیلاب کی وجہ سے بہت نقصان پہنچا۔ جب قبلہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کو معلوم ہوا کہ سیلاب سے جھنگ شہر میں بہت نقصان ہوا ہے تو آپ کو سخت پریشانی لاحق ہوئی کہ میری بھاوج اور بچے کس حال میں ہونگے۔ ہماری خیریت معلوم کرنے کے لئے صبح پانچ بجے گھر سے چلے، پانی آپ کے کندھوں تک تھا آپ تمام راستہ پانی کے اندر بہت سی مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے سہ پہر تین بجے جھنگ شہر ہمارے گھر تشریف لائے۔ سیلاب کی وجہ سے بچے بہت پریشان تھے، آپ کو دیکھتے ہی بچوں کے چہروں پر رونق آگئی۔ حضرت قبلہ ڈاکٹر صاحب کی طبیعت سارا دن پانی میں سفر کرتے ہوئے بہت خراب ہوگئی تھی۔ آپ کو ٹمپریچر ہوگیا، لیکن اس کے باوجود آپ نے ہمیں تکلیف اور تھکن کا احساس نہ ہونے دیا۔ اور پھر اگلے دن ہماری خیریت معلوم کرنے کے بعد اسی طرح پیدل پانی کو عبور کرتے ہوئے واپس تشریف لے گئے۔
محترم ماموں مقصود احمد قادری بیان کرتے ہیں:
حضرت قبلہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کے چھوٹے بھائی محترم مہر صاحب مرحوم نے بچپن ہی سے میری پرورش، تعلیم و تربیت ایک بیٹے اور بھائی کی طرح کی۔ اس لئے مجھے حضرت قبلہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کا بحیثیت سربراہ خاندان بہت قریب سے مشاہدہ کرنے کا موقع میسر آیا۔ میں نے زندگی میں بہت سے سربراہ خاندان دیکھے ہیں جو صرف اپنے اہل و عیال کی تعلیم و تربیت اپنے زیر سایہ کی۔ انہیں اچھی سے اچھی ملازمتیں دلوائیں پھر ان کی شادیاں کر کے اپنے اپنے گھروں میں آباد کیا۔ اور پھر جب تک حیات رہے ان کی طرف سے غافل نہیں رہے۔ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ جب آپ کے دونوں بھائی ملازمتوں کے سلسلے میں دوسروں شہروں میں مقیم تھے تو آپ ہر ماہ بھائیوں کی خیریت معلوم کرنے تشریف لے جاتے۔ ان کو خوشحال دیکھتے تو بہت مسرور ہوتے۔ جب کبھی ان کو کوئی مسئلہ درپیش آتا، دن رات سفر طے کر کے ان کے مسائل حل فرماتے۔ جس طرح اپنے بھتیجے بھتیجیوں کے ساتھ محبت شفقت فرماتے میرے ساتھ بھی بیٹوں کی طرح محبت شفقت فرماتے۔ شاید ایسی شفقت و محبت مجھے اپنے قریبی رشتہ داروں کی طرف سے بھی میسر نہ تھی۔ ان کی شخصیت اور اخلاق کی بلندیوں کا عظیم پہلو یہ بھی تھا کہ اپنے سے چھوٹوں کو بھی صاحب کہہ کر بلاتے۔ مجھے بھی اکثر مقصود صاحب کہہ کر بلاتے۔ یہ ان کی شخصیت کا کمال ہے۔ اپنے بھائی کے انتقال کے بعد اپنے بھتیجے بھتیجیوں کے ساتھ خصوصی شفقت روا رکھی۔ اپنی بھاوج اور بچوں کی ہمیشہ دلجوئی کرتے اور فرماتے کہ میری طرف سے کوئی ایسی معمولی سی بات بھی نہ ہو جس کا میری بھاوج اور بچوں کو دکھ پہنچے۔ مجھے فرماتے، بیٹا مقصود جس طرح بھائی غلام محمد نے ہمیشہ آپ کے ساتھ بیٹے اور بھائی جیسا سلوک روا رکھا ہے اب ویسے ہی تم میرے لئے بھی ہو۔ مجھے بھی ہمیشہ ویسی شفقت و محبت دی، جیسے اپنے بھائی کی اولاد کو دی۔ ایک دفعہ آپ حج بیت اللہ ادا کرنے تشریف لے گئے مجھے فرمانے لگے تمہارے لئے کیا لائوں میں نے ایک گھڑی کی فرمائش کی واپسی پر میرے لئے ایک خوبصورت نایاب گھڑی لائے۔ جھنگ میں اس سے پہلے ایسی گھڑی میں نے کسی کے پاس نہیں دیکھی تھی۔ گھڑی پر ریڈیم سے پیلے اور سبز رنگ میں سعودیہ کا نقشہ بنا ہوا تھا۔ دیکھنے والا دیکھتا ہی رہ جاتا تھا اور پھر جس طرح ایک والد کو اپنی اولاد کے ذریعہ معاش اور شادی وغیرہ کی فکر ہوتی ہے اسی طرح میری اماں حضور سے فرماتے ’’بے بے جی‘‘ مقصود کی ملازمت کا بندوبست میں کروں گا، آپ بالکل فکر نہ کریں۔ اور پھر ملازمت کے لئے کئی محکموں میں کوشش بھی کی۔ رشتہ داری اور قرابت داری کا ہمیشہ خیال فرماتے تھے۔ یہ 1956ء کا واقعہ ہے میرے حقیقی ماموں کی شادی تھی وہ لوگ کسی وجہ سے حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کو بروقت اطلاع نہ کر سکے۔ آپ اپنے بھائی باوج اور بچوں کی خیریت معلوم کرنے کے لئے مندرہ ضلع راولپنڈی پہنچے۔ ڈاکٹر صاحب قبلہرحمہ اللّٰہ کو اپنی بھاوج سے معلوم ہوا کہ مہر صاحب گوجرانوالہ شادی پر گئے ہوئے ہیں۔ اپنی بھاوج سے فرمانے لگے آپ کے ماموں کی شادی ہے اس طرح میرے عزیز بھی ہوئے اور دوست بھی اور میں نہ پہنچوں، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے انہوں نے دعوت نامہ بھیجا ہو لیکن مجھے ملا نہ ہو اسی وقت وہاں سے گوجرانوالہ میرے ماموں کی شادی پر روانہ ہوگئے کوئی اور ظاہری نام و نمود اور جھوٹی عزت و وقار کا پجاری شخص ہوتا تو ایسا کبھی نہ کرتا۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو دائمی عزت و شہرت سے نوازا ہے۔
چونکہ گھر کا ماحول بڑا مذہبی اور اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی پابندی کے عین مطابق تھا۔ گھر میں مکمل پردہ داری تھی۔ قریبی رشتہ داروں سے بھی پردہ ہوتا تھا۔ بغیر اطلاع کئے کوئی عزیز بھی اندر گھر میں نہیں آ سکتا تھا۔ یہ عید الفطر کا دن تھا آپ کے وصال سے چند دن قبل میں آپ کی مزاج پرسی کے لئے آپ کے گھر حاضر ہوا، آپ کی بڑی بیٹی کچھ چائے پانی میرے لئے لائی لیکن پردہ اور حجاب میں، فرمانے لگے بیٹا یہ آپ کی چچی جان کا بھائی ہے۔ اور دلہن رانی کا ماموں ہے اس سے پردہ نہ کیا کرو اور باجی جان نام لے کر فرمایا کہ جب یہ دلہن بن کر تمارے گھر آجائے گی تو یہ ملنے آئیں گے، آپ پردہ کریں گی تو کہیں میری بھاوج اور دلہن بیٹی کو دکھ نہ پہنچے۔ قبلہ تایا جان کو مجھے بہو کے روپ میں اپنے گھر دیکھنے کی اتنی تمنا تھی کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی کسی دنیاوی معاملے میں آپ کو اتنی خواہش کا اظہار کرتے نہیں دیکھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ آپ شادی سے چند دن قبل وصال فرما گئے۔ میں حضرت قبلہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کے آخری دیدار کی کرامت کا ذکر کرنا چاہتی ہوں جو آپ کی پوری زندگی کا نچوڑ ہے۔ جسے فلک نے دیکھا، فرشتوں نے ہزاروں، سوگوار آنکھوں کو دکھلایا، یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ان برگزیدہ بندوں کو نصیب ہوتا ہے۔ جن کی زندگی حقوق اللہ اور حقوق العباد اور قرابت داروں اور رشتہ داروں کے حقوق کی بجا آوری میں صرف ہوتی ہے۔ جب اس ولی اللہ کا جنازہ ان کی وصیت کے مطابق قبلہ قادری صاحب کی امامت میں پڑھنے کے بعد جنازہ گاہ کے صحن میں دیدار عام کے لئے رکھا گیا اور کفن کے بند کھولے گئے۔ رب ذوالجلال کی عزت کی قسم حضرت قبلہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کا چہرہ حقیقتاً پوری آب و تاب کے ساتھ مانند ماہتاب چمک رہا تھا اور آپ حقیقتاً مسکرا رہے تھے، بے ساختہ لوگوں کے منہ سے سبحان اللہ نکلا۔ قبلہ قادری صاحب کے قریبی ساتھیوں نے بے اختیار آپ کو بہ آواز بلند مبارک دی کہ دیکھو اللہ کا ولی لوگوں کو یہ سبق دے رہا ہے کہ میں نے اپنی ساری زندگی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکامات کی پیروی میں گذار دی ہے۔ اب اللہ تعالیٰ نے اپنی رضا و عطا کا نظارہ کس طرح کرایا ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔
حضرت قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ کے بارے میں کم سنی میں جو مشاہدہ کیا ہے اس کے مطابق ان کی شخصیت بہت بڑی روحانی شخصیت تھی اور وہ کامل متوکل انسان تھے۔ ہمارے والد محترم کی وفات کے بعد انہوں نے ہمارے سروں پر اسی طرح دست شفقت رکھا کہ ہمیں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ حضرت قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ کی اہلیہ کا انتقال ہو چکا تھا ان کے اپنے چھوٹے چھوٹے بچے تھے، اس کے باوجود وہ ہماری سرپرستی سے کبھی غافل نہیں ہوئے۔ ملازمت کے سلسلے میں گھر سے باہر تشریف لے جاتے اور روزانہ شام اپنے گھر واپس آتے۔ ہفتہ میں ایک رات ہمارے گھر بسر کرتے۔ میں چونکہ گھر میں بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ مجھے اللہ اور اس کے رسول ﷺ اور اولیاء کرام کے ارشادات اور معجزات کی روشنی میں نصیحتیں فرماتے۔ طرز تکلم میں اس قدر شائستگی کہ آپ اپنے سے چھوٹے بھائیوں کا نام بھی بڑے پیار و محبت سے لیتے۔ نام کے ساتھ صاحب ضروری لگاتے، اکثر ہمارے والد صاحب کو مہر صاحب اور چچا جان کو اسماعیل صاحب کہہ کر پکارتے، جب ہمارے گھر تشریف لاتے اندر داخل ہونے سے پہلے آواز دیتے۔ صبغت اللہ اور پھر اندر تشریف لاتے۔ آپ ہر چھوٹے بڑے پر کمال شفقت فرماتے جہاں بھی تشریف لے جاتے بے پناہ ادب و احترم کی نگاہ سے دیکھے جاتے۔
محترم شفقت اللہ قادری بیان کرتے ہیں:
حضرت قبلہ تایاجی کی ہمہ گیر، ہمہ جہت اور سدا بہار شخصیت کا احاطہ کرنا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ تاہم انکی شفقت و محبت کے بحر بیکراں میں غوطہ زنی کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ عقیدت کے چند گوہر دامن قرطاس پر بکھیر سکوں جو نہ صرف میرے بلکہ ہر پڑھنے والے کے لئے مشعل راہ ثابت ہوں۔میں ذاتی مشاہدات میں سے صرف وہ واقعات تحریر کر رہا ہوں جس سے آپ کی بھرپور سرپرستی اور ذمہ داری آشکار ہوتی ہے۔ یہ واقعہ 10 جون 1972ء کا ہے۔ جب قبلہ والد صاحب حرکت قلب بند ہونے کے باعث انتقال فرما گئے۔ اچانک خبر ملتے ہی گھر میں کہرام برپا ہوگیا۔ میں کم سن اور ناتجربہ کار تھا بڑے بھائی میٹرک کا امتحان دینے کے بعد اپنے آبائی وطن جھنگ آئے ہوئے تھے۔ باقی سب بہن بھائی مجھ سے چھوٹے تھے۔ پہلے تو خبر سنتے ہی مجھ پر پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ تاہم خداوند قدوس نے حوصلہ دیا اور ایک سرکاری اہلکار کی معرفت ایکسچینج پہنچا اور جھنگ حضرت قبلہ تایاجی رحمہ اللّٰہ کو الد صاحب کی وفات کی خبر دی۔ ٹیلی فون پر رابطہ سب سے پہلے آپ نے فرمایا ’’بیٹا والدہ اور دوسرے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا میں فوری طور پر ڈسکہ پہنچ رہا ہوں۔ گھبرانا نہیں آپ سب کو جھنگ میں خود لے آئوں گا۔‘‘ یہ الفاظ سنتے ہی پردیس میں میری ڈھارس بندھی۔ آنسو خشک ہوگئے، حوصلہ بلند ہوا فوری عرض کیا تایا جان آپ فکر نہ کریں۔ میں خود میت جھنگ لا رہا ہوں، انتظامیہ خصوصی تعاون کر رہی ہے۔ قبلہ تایاجی رحمہ اللّٰہ خود آنے پر اصرار فرماتے رہے کہ بیٹا یہ میری ذمہ داری ہی نہیں قرض ہے۔ میرے ہوتے ہوئے تمہیں کسی قسم کی فکر کی کیا ضرورت ہے۔ میری بات مان لی۔ جب تک ہم ڈسکہ سے جھنگ کے لئے روانہ ہوئے قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ کے بیسیوں فون آئے۔ بڑے متفکر اور منتظر رہے۔ کہیں کوئی رکاوٹ یا پریشانی نہ ہو بچہ ہے گھبرا نہ جائے۔ لیکن ہم چھ بجے شام ڈسکہ سے روانہ ہوئے اور بوقت فجر جھنگ میں داخل ہوئے آپ نے راستے میں ہی ٹرک روکا اور ہم سب بہن بھائیوں کے سروں پر دست شفقت رکھا۔ آنسو پونچھے، سینے سے لگایا گھر لے گئے تجہیز و تکفین سے فارغ ہوتے ہی والدہ محترمہ سے مخاطب ہوئے، فرمایا جس طرح آج سے 19 سال پہلے بھاوج ہی نہیں بلکہ بہو اور بیٹی بنا کر لایا تھا بچوں کا سر ننگا نہ سمجھنا، آج سے میری باقی زندگی دو حصوں میں بٹ گئی ہے۔ ایک حصہ اپنی اولاد اور دوسرا حصہ بھائی کی اولاد کے لئے وقف ہے۔ کیونکہ ہم اپنے ننہال میں رہنے لگے تھے۔ حضرت قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ ملازمت کے سلسلے میں شہر سے باہر رہتے۔ ہفتہ میں دو چھٹیاں کرتے ایک دن رات اپنی اولاد کی سرپرستی اور تربیت میں صرف فرماتے اور دوسرا دن اور رات ہماری سرپرستی اور تربیت میں صرف فرماتے۔ قبلہ والد محترم کا سایہ تو ہمارے سروں سے اُٹھ گیا۔ لیکن شفقت پدری اور سرپرستی کی کمی ہرگز محسوس نہ ہوئی۔ آپ کا سایہ ہمارے سروں پر تقریباً دو سال تک رہا 1974ء آپ خالق حقیقی سے جا ملے۔ اور اس دن ہمیں احساس ہوا کہ ہم یتیم ہوگئے ہیں اور پھر ہماری پہاڑ کی طرح بلند حوصلہ والدہ محترمہ نے ہمیں والد اور والدہ کی دوہری محبت میں پروان چڑھایا۔
ان کی عظیم شخصیت اہل خاندان کے معمولی سے معمولی معاملات میں بھی دلچسپی لینے میں کبھی مانع نہ ہوئی۔ حضرت قبلہ ڈاکٹر صاحب خاندان کے جملہ رشتہ داروں کے ساتھ بہت اچھا سلوک روا رکھتے۔ خاندان کا کوئی فرد عمر بھر یہ گمان نہ کرسکا کہ انہوں نے کسی کے حقوق کی ادائیگی میں معمولی سی کوتاہی کی ہو۔ وہ اہل خاندان کے معمولی سے معمولی معاملات پر بھی گہری نظر رکھتے۔ محترم شفقت اللہ قادری بیان کرتے ہیں: حضرت قبلہ تایاجی رحمہ اللّٰہ کی سربراہی ذمہ داری اور احساس کا ایک واقعہ یہ بھی ہے۔ جب ایک دفعہ معمول کے مطابق ہماری خیریت معلوم کرنے ہمارے گھر تشریف لائے اس وقت میں اپنی والدہ محترمہ سے بھینس کا چارہ لانے پرنہ صرف انکاری تھا۔ بلکہ جھگڑ رہا تھا کہ میں کیوں لائوں بڑے بھائی خود لائیں اور والدہ صاحبہ خاصی پریشان اور ناراض تھیں جیسے ہی قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ گھر کے اندر داخل ہوئے آپ کو دیکھتے ہی والدہ صاحبہ نے میری فوری شکایت کر دی کہ یہ بہت تنگ کرتا ہے ضدی ہے کہنا نہیں مانتا شفقت پدری جوش میںا ٓگئی مجھے پکڑ کر اوپر لے گئے علیحدگی میں خاموشی سے پٹائی کی اور سختی سے فرمایا اگر آئندہ والدہ کے لئے پریشانی کا باعث بنے اور گستاخی کی تو سخت سزا دوں گا۔ بظاہر تو یہ تنبیہ اور پٹائی گراں گذاری لیکن بعد ازاں مجھے سربراہی اور سرپرستی کا عظیم درس دے گئی۔ یہ ماں سے گستاخی پر سزا بھی تھی۔ ایسے حالات میں والدہ سے تعاون کا درس بھی دیا اور دوسرے بہن بھائیوں سے مجھے چھپا کر سزا دی، تاکہ عزت نفس مجروح نہ ہو۔ آج تک ان کی عظیم شخصیت پر بلندی درجات کے لئے دعا گو ہوں میں نے آپ کو ہمیشہ دیکھا کہ خاندان کے غریب رشتہ داروں کا بہت خیال رکھتے۔ قبلہ تایاجی کے ننھیال کسی گائوں میں رہتے ہیں۔ ایک ماموں تھے ان سے اور ان کی اولاد کا ہمیشہ خیال رکھتے۔ ان کی خوشی غمی کے موقع پر بڑے اہتمام کے ساتھ اپنی فیملی کو ساتھ لے کر جاتے اوران کی حوصلہ افزائی فرماتے ان کے معمولی سے معمولی کام کو بڑی دلچسپی سے کرتے ان میں جب کبھی کوئی بیمار ہوتا ان کو گائوں سے جھنگ صدر اپنے گھر ٹھہراتے اور خصوصی توجہ سے ان کا علاج معالجہ کرتے۔ ان کے علاوہ بھی خاندان کے دور و نزدیک کے رشتہ داروں میں کسی کو مدد کی ضرورت ہوتی تو مدد فرماتے ان کے ہر دکھ سکھ میں شریک ہوتے۔
حضرت قبلہ تایاجی رحمہ اللّٰہ مجھ سے خصوصی شفقت اور محبت فرماتے تھے۔ میں پندرہ شعبان (شب برات) کو پیدا ہوئی۔ آپ نے سنا تو بہت خوش ہوئے۔ مٹھائی بانٹی اور فرمایا یہ بیٹی بہت قسمت والی ہے۔ اس کو حج کی سعادت نصیب ہوگی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے آپ مجھے اکثر فرماتے تھے کہ تم میری بہت پیاری بیٹی ہو، جب بھی آپ ہمارے گھر تشریف لاتے آپ کی بزرگی رعب اور دبدبہ کی وجہ سے میں جھجک محسوس کرتی اور آپ کے پاس نہ بیٹھتی۔ آپ مجھے اپنے پاس بلاتے مجھ سے چائے بنوا کر نوش فرماتے اور بہت اچھی اچھی نصیحتیں فرماتے۔ پھر جب قادری صاحب کے ساتھ میری نسبت طے کی تو آپ بہت خوش تھے اکثر قریبی رشتہ داروں کو فرماتے میری پیاری بھتیجی بہو بن کر ہمارے گھر آئے گی تو مجھے دلی مسرت ہوگی، میرے لئے خصوصی زیورات اور ملبوسات تیار کروائے اور شادی کی تمام تیاریاں مکمل کیں۔ ستائیس رمضان المبارک کو آپ کو ہارٹ اٹیک ہوا عید کے دن تک تکلیف بہت بڑھ چکی تھی۔ ڈاکٹر نے بیڈ سے اُٹھنا منع کر دیا تھا۔ آپ ہمیشہ عید والے دن نماز عید سے فارغ ہوتے ہی ہمارے گھر تشریف لاتے تھے، لیکن اس عید کے موقع پر آپ علالت کی وجہ سے تشریف نہ لا سکے۔ میری والدہ صاحبہ کو پیغام بھیجا کہ بیٹی کو ملوانے کے لئے لے آئیں۔ میں اپنی والدہ صاحبہ کے ساتھ گئی۔ جب میں کمرے میں داخل ہوئی مجھے دیکھتے ہی بیڈ سے اُٹھنے لگے اور آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور مجھے فرمانے لگے بٹیا میری یہ دلی خواہش تھی کہ میں تمہیں خود بیاہ کر اپنے گھر لے آئوں لیکن شاید اب یہ خواہش پوری نہ ہو سکے (شاید یہ آپ کا کشف تھا۔ کیوں کہ ایسے ہی ہوا) اور پھر کافی دیر مجھے اپنے پاس بٹھائے رکھا۔ آپ کی تکلیف دن بدن بڑھتی گئی اور پھر ڈاکٹروں کے مشورہ سے ہسپتال ایڈمٹ ہوگئے۔ شادی کو چند دن باقی تھے مجھے ہسپتال بلا بھیجا۔ مجھے دیکھتے ہی آنکھیں بھر آئیں اور پھر کافی دیر تک میرے چہرے کی طرف دیکھتے رہے۔ شادی کی تاریخ موخر کردی گئی۔ 16 شوال کو وصال فرما گئے۔ اور آپ کے وصال کے چھ ماہ بعد ہماری شادی ہوئی۔ نئے گھر میں بے پناہ محبت کرنے والی ایک شفیق و مہربان ہستی کو نہ پاکر میں بہت اداس رہنے لگی اور شادی کے کچھ دن بعد میں سخت علیل ہوگئی۔ قبلہ قادری صاحب نے میرا بہت علاج معالجہ کروایا لیکن تکلیف بڑھتی گئی سب گھر والے بہت پریشان تھے ایک دن تکلیف کے دوران ہی میری آنکھ لگی تو خواب میں حضرت قبلہ تایاجی رحمہ اللّٰہ تشریف لے آئے اور مجھے فرمانے لگے بٹیا تمہاری تکلیف کی وجہ سے میں بہت پریشان ہوں آپ لوگوں نے بہت علاج کروایا ہے لیکن آرام نہیں آرہا۔ فلاں جگہ پرمیری طب کے موضوع پر قلمی کتابیں پڑی ہیں، فلاں صفحہ نوٹ کر لو اس پر نسخہ درج ہے اور قبلہ قادری صاحب کا نام لیا ان سے کہیں آج ہی یہ نسخہ تیار کروالیں۔ جب میری آنکھ کھلی تو میں نے خواب کا ذکر قبلہ قادری صاحب سے کیا اور نسخہ کا نمبر نوٹ کروایا۔ آپ نے فوراً متعلقہ کتاب اُٹھائی اور صفحہ دیکھا تو وہ میری تکلیف کے عین مطابق تھا۔ نسخہ بہت زیادہ قیمتی تھا۔ آپ نے نسخہ فوراً تیار کروایا پہلی خوراک دی تو تکلیف میں کچھ کمی ہوئی اور پھر ایک ماہ میں مکمل آرام آگیا۔ یہ ان کی عظیم کرامت تھی۔ حضرت قبلہ تایا جی رحمہ اللّٰہ کو وصال سے پہلے بھی مجھ سے بہت محبت تھی اور پھر وصال کے بعد ہمیشہ خواب کی صورت میں خصوصی شفقت فرماتے ہیں۔ جب گھر میں کوئی تکلیف پریشانی ہو تو تشریف لاتے ہیں۔ دعا فرماتے ہیں مجھے تسلی دیتے ہیں اور خصوصی ہدایات فرماتے ہیںاور مجھے دلی تسکین ہوتی ہے۔ میں نے ہمیشہ ایک نہایت مشفق و مہربان، مدبر، غمگسار، صاحب حکمت و بصیرت ہر ایک کے دکھ درد بانٹنے والے اور ہر ایک کی ضرورتوں کی کفالت کرنے والے سربراہ خاندان کو دیکھا۔ ان کے اہل و عیال تو کیا ان کے دور و نزدیک کے رشتہ داروں میں بھی کوئی شخص عمر بھر یہ گمان نہ کر سکا کہ انہوں نے کسی کے حقوق کی ادائیگی میں معمولی سی کوتاہی کی ہو۔ ان کی شخصیت کا کمال تو یہی تھا ایک طرف وہ علم و تفقہ فہم و فراست، عبادت و ریاضت، تبلیغ و خطابت، تدریس و تربیت، صوفیانہ اور روحانی مشاغل اور عالمانہ و محققانہ زندگی کی ان اعلیٰ منزلوں پر فائز تھے جہاں ہر زمانے میں کم ہی لوگ ان منزلوں کو طے کرتے ہیں۔ دوسری طرف ازدواجی عائلی اور خاندانی زندگی کے معمولی سے معمولی معاملات پر بھی اتنی گہری نظر اور بھرپور توجہ فرماتے اور حقوق کی ادائیگی کا وہ شاندار عملی نمونہ پیش فرماتے کہ ان کی زندگی اعلیٰ اور ادنیٰ اُمور کی بیک وقت حسین ادائیگی کا عظیم مرقع بن گئی تھی۔ ایسی جامعیت اور بھرپور زندگی بہت کم نظر آتی ہے جو جوں وہ زندگی کے کسی ایک گوشے اور علم و عمل اور فن کے کسی ایک پہلو میں آگے بڑھتے ہیں تو ں توں ان کی زندگی کے دوسرے گوشے اور ان کی ذمہ داریوں کے کئی دیگر پہلو نظر انداز ہو جاتے ہیں۔ زندگی کے فرائض کی انجام دہی میں مذہبی، علمی، روحانی دنیاوی ازدواجی اور خاندانی جملہ اُمور کو بیک وقت اعتدال اور کمال توازن کے ساتھ انجام دینا تاریخ میں کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ ہمارے آقا حضور خاتم النبین ﷺ کی سیرت طیبہ کا طرۂ امتیاز بھی یہی ہے کہ ان جیسا حسن اعتدال اور حسن توازن عالم انسانیت میں کسی کو نصیب نہیں ہوا اور بڑے عظیم ہیں وہ لوگ جنہیں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سیرت طیبہ کے اس پہلو کا فیض نصیب ہوا ہے۔ حضرت قبلہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ ایسے چند افراد میں سے ایک ہیں جن کو سیرت نبوی ﷺ کے اس پہلو کا خصوصی فیضان نصیب ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرمائے۔ آپ کے فیوضات و برکات سے ہم سب کو فیض یاب ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved