شیخ الحدیث مولانا محمد معراج الاسلام
توکل، مردِ راہ داں اور سالک راہ طریقت کے قلب و روح میں پیدا شدہ اس نورانی حالت کو کہتے ہیں جو الطافِ خداوندی اور قدرت کاملہ کی فوری نصرت اور بھرپور امداد پر کامل یقین و اعتماد کے نتیجے میں پیدا ہوتی ہے۔ بندے کو یقین ہوتا ہے کہ دنیا تو زیر و زبر ہو سکتی ہے مگر اللہ کی رحمت نے جو وعدہ کیا ہے اس میں تخلف نہیں ہو سکتا، جونہی کوئی ضرورت پیش آئی اور حالت متقاضی ہوئی تو اس کی امداد امڈ کر آئے گی اور محبوب بندے کو اپنی آغوش عاطفت میں لے لے گی اور اسے رسوا و نادم نہیں ہونے دے گی۔
حضرت ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللّٰہ کی حیات مبارکہ پر ایک بھرپور نظر ڈالیں تویہ ماننا پڑتا ہے کہ وہ مرددرویش صرف طبیبِ جسمانی ہی نہ تھے بلکہ طبیب روحانی بھی تھے۔ اور راہِ سلوک میں باطنی طور پر باقاعدہ ان کی تربیت کی گئی تھی اور انہیں ایک متوکل طبیب روحانی بھی بنا دیا گیا تھا۔ چونکہ صاحب نسبت اور راہ رو منزل خاص تھے۔ اس لئے اِس راہ کے پیچ و خم سے آگاہ کرنے اور اس سے کامیابی کے ساتھ گزارنے کے لئے قدم قدم پر ان کی دستگیری کی جاتی تھی۔ اور روحانی فیوض و برکات سے مالا مال کر کے اگلے مراحل کے قابل بنایا جاتا تھا۔ یہ شہباز پوری قوت کے ساتھ قدسی فضاؤں میں پرواز کے قابل ہوجائے، اور تربیت کے مراحل میں کوئی ایسی خامی نہ رہ جائے جو بعد میں پریشانی کا باعث ہو۔
چنانچہ دیگر حقائق کے ساتھ توکل کے بارے میں خصوصی طور پر آپ کی تربیت اور رہنمائی کی گئی تھی۔ اور اس سلسلے میں حضور غوث پاک ص کا باطنی فیض بطور خاص دستگیر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ طبی پریکٹس کے ابتدائی دنوں میں فکر معاش سے آزاد کرنے کے لئے ایک مجذوب نے دست غیب کا ایک وظیفہ بتایا، جس سے روزانہ پانچ روپے ملتے تھے تواس حالت کو شان توکل کے خلاف سمجھتے ہوئے حضور غوث پاک ص نے اس سے منع فرمادیا۔ اور اس وظیفہ پر خط تنسیخ کھینچ دیا۔ گویا اشارہ کر دیا کہ پانچ روپے پر فائز رہنا تمہاری عظمت اور ہمت کے منافی ہے بلکہ نظراس مالک اور اس کے کرم پر ہونا ضروری ہے، جو شان کن فیکون رکھتا ہے۔
اس میں یہ اشارہ بھی تھا کہ درخشاں اور پر نور مستقبل کروڑہا روپے کے عظیم الشان اور فقید المثال منصوبوں کے ساتھ اپنے کشادہ بازو پھیلائے کھڑا ہے، اگر آج اِن پانچ روپوں پر تکیہ کئے بیٹھے رہے تو ان کا کیا بنے گا؟ اس لئے اس کریم کے کرم پر بھروسہ کرنا سیکھو جس کے خزانے لازوال اور نوازنے کے انداز بے مثال ہیں۔اور مرید باصفا کی نیازمندی یہ ہے کہ اس نے بے چون و چرا یہ حکم تسلیم کر لیا اور وہ وظیفہ پڑھنا چھوڑ دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ کاروباری زندگی میں ہر جگہ کامیابیوں نے قدم چومنا شروع کر دئیے۔ جونہی کوئی ضرورت پیش آتی، غیب سے اس کی تکمیل کا سامان ہو جاتا، اس صورت حال نے طبیعت میں توکل کی شان پیدا کر دی۔ اور پھر ملکہ راسخہ بن گئی، جس کا اثر یہ ہوا کہ انتہائی نامساعد حالات میں بھی کسی بات پر نہ گھبراتے، دیکھنے والے پریشانی بے کلی، اضطراب اور افسردگی کا شکار ہوتے۔ مگر آپ تسلی دیتے کہ گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں سب کچھ توقع کے مطابق ٹھیک ہو جائے گا۔ اور پھر سب احباب دنگ رہ جاتے۔ جب دیکھتے کہ تمام مشکلات دور ہوگئی ہیں اور آپ کے فرمان کے مطابق جانکاہ غموں کی جگہ سچی خوشیوں نے لے لی ہے۔طبع ہمایوں میں راسخ اس شان توکل نے آپ کو طبیب جسمانی کے ساتھ طبیب روحانی بھی بنا دیا تھا۔ چند جھلکیاں پیش کی جاتی ہیں۔
ابتدائی دنوں کی بات ہے کہ جبکہ سارا کاروبار ہی توکل پر چل رہا تھا۔ 1962ء میں اہل و عیال سمیت سفر حج کا ارادہ فرمایا، ان کے چھوٹے بھائی بھی ساتھ ہی تھے، ان سے پانچ سو روپیہ بطور قرض لیا اور وعدہ فرمایا کہ انشاء اللہ جلد ہی ادا کردوں گا۔
فرمایا کرتے تھے، ہم غلام تو اپنے آقا کے مہمان ہیں، سخی میزبان کی نگاہ کرم سے اس کے مہمان نہیں ہوتے۔ وہ خود ہماری رکھوالی اور ضیافت و دستگیری فرمائیں گے۔
مکہ مکرمہ میں قیام کے دوران معاشی حالات کچھ دگرگوں ہوئے تو ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ محترمہ نے کمال ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے زیوارات اُتار کر رکھ دئیے اور تجویز پیش کی کہ انہیں فروخت کر کے کچھ دانے پانی کا انتظام کر لیا جائے۔
آپ نے پیشکش کو سراہا مگر یہ کہہ کر تجویز مسترد کر دی کہ جن کے ہاں مہمان ہیں کیا وہ ہمیں زیوارات بیچنے دیں گے؟ یہ ان کی شان توکل کی معراج تھی، اس حالت میں ایسی بات اس شخص کے منہ سے نکل سکتی تھی جس کا یقین غیر متزلزل اور توکل ناقابل تسخیر ہو۔
چنانچہ زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا اور اسی لمحہ حالات سازگار ہونے کے انتظامات ہوگئے۔ دروازے پر دستک ہوئی اور کسی نے حضرت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کا پتہ پوچھا، آپ باہر تشریف لے گئے نووارد نے کہا، ایک مریض کی حالت نازک ہے آپ چل کر اسے دیکھ لیں، ہم آپ کے بے حد احسان مند ہوں گے کیونکہ کوئی دوا کارگر نہیں ہو رہی۔ آپ تشریف لے گئے اور پھر بڑی دیر بعد واپس آئے گھر والے یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ ضرورت کی تمام چیزیں آپ کے ساتھ تھیں۔ مسکرا کر بتایا وہاں کچھ اور مریض بھی آگئے تھے اس طرح اللہ پاک نے غیب سے روزی کا سامان کر دیا ہے اب چند روز گزر جائیں گے۔
اسی جگہ قیام کے دوران چند دنوں بعد پھر ویسے ہی حالات پیدا ہوگئے حضرت شیخ الاسلام ان دنوں بالکل بچے تھے۔ والدہ ماجدہ نے انہیں بھیجا کہ ابا جان کے پاس جا کر کچھ رقم لے آؤ ضرورت ہے۔صبح آپ نے والد ماجد سے مطالبہ کیا تو وہ حسب معمول مسکرائے، جیسے کہہ رہے ہوں بیٹے فکر کیوں کرتے ہو ابھی سامان ہو جاتا ہے اور پھر وہی ہوا۔
اسی لمحے ایک شخص آیا اور پیغام دیا کہ آپ کو حضرت خواجہ غلام محی الدین بابوجی قدس سرہٗ سجادہ نشین آستانہ عالیہ گولڑہ شریف یاد فرما رہے ہیں۔ آپ اسی وقت تشریف لے گئے۔ حضرت بابوجی رحمہ اللّٰہ نے فرمایا مجھے تکلیف تھی اس لئے نہ آسکا اُمید ہے آپ محسوس نہ فرمائیں گے، بات یہ ہے کہ حضور قبلہ عالم پیر سید مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللّٰہ کے بے شمار عقیدت مند یہاں قیام پذیر ہیں۔ نسبت کے حوالے سے ہمیں ان کی خبرگیری کرنا پڑتی ہے۔ ایک شخص بہت ہی بیمار ہے۔ آپ تشرے لے جا کر اسے دیکھ لیں اور دوا تجویز فرمادیں، بڑی مہربانی ہوگی۔
جب حضرت ڈاکٹر صاحب یہ فریضہ انجام دے چکے تو پھر حضرت بابوجی رحمہ اللّٰہ کے پاس تشریف لائے۔ انہوں نے کچھ رقم پیش کی تو آپ نے لینے سے انکار کر دیا۔ اور عرض کی ہر جگہ تو فیس نہیں لی جاتی۔ مگر حضرت بابوجی رحمہ اللّٰہ نے بہت اصرار فرمایا اور کچھ رقم دے دی۔ یہ تقریباً چارصد ریال تھے۔ جس سے چند روز گزارنے کی پھر ایک متوکلانہ صورت پیدا ہوگئی۔ جب فریضہ حج ادا ہو چکا اور واپسی کا وقت آیا تو صرف دس روپے پاس تھے۔ مگر چنداں فکر لاحق نہ ہوئی۔ کیونکہ حج کے دوران جہاز کی انتظامیہ کھانا دیتی تھی۔ اس لئے سوچا دس روپے محفوظ رہیں گے۔ جب سامان اتارنے کا وقت آیا تو بار بردار مزدوروں کو دینے کے کام آجائیں گے۔مگر ابھی عشق کے امتحان باقی تھے، جہاز کی انتظامیہ نے اعلان کر دیا کہ جہاز ایک دن تاخیر سے روانہ ہوگا۔
اب ایک دن کا زائد خرچہ آپڑا، پھر وہی حالات تھے کہ اچانک دور سے ایک کار دکھائی دی اسی طرف آرہی تھی باہر نکل کر ایک شخص نے آپ سے تعارف کرایا اور پھر کار میں بٹھا کر لے گیا، جب آپ واپس آئے تو نہ صرف کھانے کی اشیاء بلکہ خاصی رقم بھی ساتھ تھی، آتے ہی اپنے بھائی صاحب کا اُدھار چکایا یعنی آتے وقت جو پانچ سو روپے لئے تھے، ادا کئے اور پھر وہی رقم خرچ کرتے رہے یہاں تک کہ سب پاکستان آگئے۔
ایک اُمتی کی سعادت مندی کی معراج یہ ہے کہ اسے اپنے برحق نبی ﷺ کے جمالِ جہاں آراء کی زیارت نصیب ہو جائے۔ اس لئے ہر اُمتی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ یہ معراج کرے اور دولت دیدار سے مشرف ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی کے دل میں یہ کواہش زندگی کا مقصد بن جاتی ہے۔ اور وہ ہمہ وقت اس تصور و خیال میں رہنے لگ جاتا ہے۔
ضلع سرگودھا کی ایک بستی ’’لالیاں‘‘ میں مہر غلام محمد لالی ایک ایسا ہی خوش نصیب انسان تھا جس کی زندگی کا یہی مقصد رہ گیا تھا۔ وہ اُٹھتے بیٹھتے، چلے پھرتے اسی تصور میں منہمک رہتا تھا کہ کسی طرح قسمت کا ستارہ چمکے اور وہ خواب میں اس آفتاب جمال ﷺ کو طلوع ہوتا دیکھ لے جس کے حسن کے آگے تمام حسینوں کے رنگ ڈھنک پھیکے پڑ جاتے ہیں۔ اور وہ سب کچھ بھول کر اسی کی نگاہ پرور تنویروں میں کھو جاتے ہیں۔ اس کی یہ خواہش پوری نہیں ہو رہی تھی۔ حضرت ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللّٰہ بھی ان دنوں لالیاں ہی میں قیام پذیر تھے اور ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنے فرائض انجام دے رہے تھے۔
چونکہ اپنے بڑے بیٹے محمد طاہر کے ساتھ انہیں غیر معمولی لگاؤ تھا، اس لئے فیصل آباد میں ایک پلاٹ ان کے لئے خریدا ہوا تھا۔ جس کی قسط کی ادائیگی باقی تھی، جو ساڑھے تین ہزار روپے بنتی تھی۔ گھر والوں نے توجہ دلائی کہ قسط کی ادائیگی کی تاریخ سر پر آگئی ہے۔ اس کا بندوبست کریں مگر آپ نے حسب معمول مسکرا کر بات ٹال دی۔ رات تہجد کے وقت اُٹھے اور مصروف نیاز ہوگئے۔ یہی ان کی ادائے بندگی تھی۔صبح دم کسی نے بڑے احترام سے دروازے پر دستک دی۔ جب جواب نہ ملا تو پھر دستک دی۔ حضرت ڈاکٹر صاحب اُٹھے، باہر جا کر دیکھا تو مہر غلام محمد لالی مجسمہ عقیدت و محبتô بنا کھڑا زار و قطار رو رہا تھا، دیکھتے ہی لپٹ گیا اور پھٹ پڑا کہ میں آپ کا بے حد احسان مند ہوں، آپ نے جو کرم مجھ پر فرمایا ہے اسے زندگی بھر نہیں بھولوں گا، اور پھر ساڑھے تین ہزار روپے کی رقم آپ کے آگے ڈھیر کردی۔ ڈاکٹر صاحب حیران تھے معاملہ ان کی سمجھ میں نہیں آرہاتھا۔
غلام محمد لالی نے حیرت دور کرنے کے لئے وضاحت کی۔ ڈاکٹر صاحب آپ جانتے ہیں میری بڑی خواہش تھی کہ حضور سرکار دو عالم ﷺ کی زیارت ہو۔ مگر یہ خواہش ہنوز تشنہ تکمیل تھی۔ میں جو کوشش کر سکتا تھا وہ کی مگر کامیابی نہ ہوئی دل کی کلی نہ کھلی۔
آج وہ دیرینہ مراد برآئی میں سویا ہوا تھا کہ وہ کالی کملی والے مہربان آقا ﷺ خواب میں جلوہ آرا ہوئے۔ اور مجھے حکم فرمایا کہ فرید الدین رحمہ اللّٰہ کو ساڑھے تین ہزار روپے کی ضرورت ہے اسے فوراً جا کر ادا کرو۔ میں وہی رقم لے کے آیا ہوں اور آپ کا شکر گزار ہوں، اگر آپ وسیلہ نہ بنتے تو مجھے یہ دولت کیسے نصیب ہوتی خدا آپ کا بھلا کرے۔
تیری خیر، تیری طلعت زیبا و دلکش تنویروں کی خیر
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved