محمد فاروق رانا
حضرت فریدِ ملّت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ 1918ء میں جھنگ میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم جھنگ کے اسلامیہ ہائی اسکول سے حاصل کی اور ساتھ ہی ایک بزرگ مولانا غلام فرید سے صرف و نحو، منطق اور درسِ نظامی کی ابتدائی کتب پڑھیں۔ ہر کلاس میں اول آتے تھے اور ہمیشہ وظیفہ حاصل کرتے۔ زیر نظر مضمون میں ہم ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کی زندگی کے چیدہ پہلو اس تناظر میں بیان کریں گے کہ ان کی تعلیم و تربیت اور معمولات میں اُلوہی منشاء کار فرما تھی جس کا مقصد واحد موجودہ صدی کی عظیم اِحیائی تحریک کے لیے قیادت کی تیاری و فراہمی تھی۔
سلف صالحین کی زندگیوں کے مطالعہ سے عیاں ہوتاہے کہ ان میں سے اکثر حضرات بچپن ہی سے تلاشِ حق میں سرگرداں رہتے۔ حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ کے مجاہدات و ریاضتیں ایام طفولیت میں ہی اپنے عروج پر تھیں۔ آپ کے طبعی میلان اور روحانی پرواز کا یہ عالم تھا کہ نو دس سال کی عمر میں ہی شہر سے باہر دریائے چناب کے کنارے گھنٹوں مراقبہ میں رہتے، وہاں مختلف وظائف اور سورتوں کا وِرد کرتے، خصوصا حضرت خضر ں سے ملاقات کے لیے بزرگوں کے بتائے ہوئے طریق پر وظائف کیا کرتے تھے۔ آپ رحمہ اللّٰہ کی زندگی اُم الکرامات یعنی اِستقامت سے عبارت تھی۔ تصوف کی کتب کا اگر مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت منکشف ہوتی ہے کہ استقامت حاصل کرنا بڑے اونچے درجے کی بات ہے۔ حضور داتا صاحب رحمہ اللّٰہ اپنی مشہور تصنیف ’’کشف المحجوب (ص: 19)‘‘ میں فرماتے ہیں کہ الإستقامۃ فوق الکرامۃ (اِستقامت کرامت سے بالا تر ہے)۔
آپ رحمہ اللّٰہ چونکہ صاحب استقامت تھے اس لئے آپ کے اندر جو رِقت بچپن میں تھی وہ تادمِ وِصال برقرار رہی اور یہ اِستقامت فقط انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جن کا تعلق بارگاہِ رسالت ﷺ سے مضبوط اور پختہ ہوجاتا ہے۔ عشقِ رسالت مآب اور آپ ﷺ کی بارگاہ میں حضوری کا غلبہ آپ کے قلب و ذہن میں ایک سمندر کی طرح موجزن تھا۔ رات کے پچھلے پہر عبادت میں مصروف ہوجانا اور رو رو کر اللہ تعالیٰ کو منانا آپ رحمہ اللّٰہ کی پوری زندگی کا معمول تھا۔ ڈاکٹر صاحب قبلہ پوری زندگی درود پاک کا وِرد باقاعدگی سے کرتے رہے، عمر بھر بلا ناغہ آقا ﷺ کی بارگاہ میں درود پاک کا نذرانہ بھیجتے بلکہ آخری عمر میں تو کئی ہزار مرتبہ درود پاک پڑھتے۔ قصیدہ بردہ شریف کے 160 اَشعار ہر رات تہجد کے بعد مدینہ شریف کی طرف منہ کرکے پڑھنے کا جوانی سے ہی معمول تھا۔ جب مصرع:
أمن تذکر جیرانم بذی سلمٖ
مزجت دمعاً جری من مقلة بدمٖ
پر پہنچتے تو آنکھیں چھم چھم برسنا شروع کردیتیں۔ آنسوئوں کی برسات میں جھولتے اور صحراؤں کا ذکر کرتے ہوئے آقا ﷺ کی خدمت میں یہ اشعار پڑھتے تو آپ کی کیفیت دیدنی ہوتی:
یا أکرم الخلق ما لی من ألوذ به
سواک عند حلول الحادث العممٖ
اس مصرع کو بار بار پڑھتے اور بعض اوقات سوبار تک پڑھ جاتے۔ ایسے کئی اشعار ہیں جن کے پڑھنے سے آپ رحمہ اللّٰہ ماہی بے آب کی طرح تڑپتے، یہ کیفیت ایک لمحے یا رات کی نہیں بلکہ ساری زندگی اس کیفیت کے دوام و استقامت میں گزرگئی۔ قصیدہ بردہ شریف کے وِرد کے بعد حضور غوث پاک کی طرف متوجہ ہوتے اور قصیدہ غوثیہ کا وِرد کرتے اور ہمیشہ ہر روز اشراق سے پہلے تک حزب البحر کا پورا ورد کرتے، جوکہ امام ابو الحسن شاذلی اور دیگر اولیاء کرام کے معمولات میں سے رہا ہے۔
قائد انقلاب اپنے بچپن کے واقعات بیان کرتے ہیں کہ حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ رات کو گریہ و زاری میں مشغول ہوتے تو بعض اوقات ایسی کیفیت ہوجاتی کہ بے ساختہ چیخ نکل جاتی اور میں ڈر کے جاگ جاتا، پھر امی جان سے پوچھتا کہ اباجی کو کیا ہوگیا ہے، وہ کیوں رورہے ہیں۔ امی مجھے تسلی دے کر سلا دیتیں اور کہتی کہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی محبت میں رو رہے ہیں۔
حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ کو پاکستان میں تین اولیائے کرام کے ساتھ خاص نسبت رہی: سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمہ اللّٰہ، حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمہ اللّٰہ، اور حضور داتا گنج بخش رحمہ اللّٰہ۔ سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمہ اللّٰہ کے لطف و کرم کا تو یہ عالم تھا کہ ایک مرتبہ حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ رات کے ڈیڑھ دو بجے تک دربار سلطان العارفین رحمہ اللّٰہ کے سجادہ نشین کے پاس بیٹھے رہے، پھر تکان دور کرنے کے لیے ذرا لیٹ گئے کہ اٹھ کر نمازِ تہجد ادا کروں گا۔ مگر آنکھ جو لگی تو نمازِ فجر کا وقت قریب ہوگیا اور ممکن تھا کہ نمازِ تہجد قضا ہوجاتی۔ سلطان العارفین حضرت سلطان باہو رحمہ اللّٰہ عالم حیات میں تشریف لائے اور آکر ڈاکٹر فرید الدین کو جگا دیا کہ اٹھو تہجد کا وقت جارہا ہے۔ ڈاکٹر فرید الدین نے جو اپنی آنکھوں کے سامنے سلطان العارفین کو دیکھا تو ان سے مصافحہ کرنے کے لیے دوڑے مگر وہ غائب ہوگئے۔ اس طرح آپ پر بزرگوں کی توجہات اور فیوض و برکات تھیں۔
آپ نے شیخ محمد کتانی رئیس رابطہ علمائے شام سے حضرت شیخ اکبر ابن عربی رحمہ اللّٰہ کی ’’الفتوحات المکیۃ‘‘ اور ’’فصوص الحکم‘‘ کا درس سبقاً لیا۔ آپ کبھی مزاراتِ اولیاء کی زیارت کے لیے سرہند شریف جایا کرتے، کبھی اجمیر شریف اور کبھی دلی کے اکابر اولیاے و صوفیاء عظام کے مزارات پر حاضری دے کر روحانی سکون حاصل کرتے۔ آپ کو اگر پتہ چلتا کہ فلاں جگہ کوئی مجذوب سکونت پذیر ہے تو دور دراز کا سفر طے کرکے بھی ان کی خدمت میں ضرور حاضری دیتے۔ انہوں نے سیدنا بلال ص، سیدنا اُویس قرنی ص اور مولانا جلال الدین رومی رحمہ اللّٰہ سے بے پناہ فیض حاصل کیا۔ سرکار غوث اعظم کے مزار اقدس پر تو آپ باقاعدگی سے حاضری دیا کرتے اور کئی کئی ماہ وہاں قیام کرتے۔ خود آقائے نامدار ﷺ کی ان پر نوازشات کا عالم ہی کچھ اور تھا۔
جن لوگوں کی لو اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کے ساتھ لگ جاتی ہے وہ دنیا کی آسائشوں اور عہدوں کو اپنے پاؤں کی ٹھوکر پر بھی نہیں رکھتے۔ اسی لیے جب لاہور طبیہ کالج کے پرنسپل حکیم آفتاب احمد قریشی نے آپ کو وائس پرنسپل کی سیٹ کی پیش کش کی کہ آپ وائس پرنسپل کے طور پر چارج لے لیں اور میری ریٹائرمنٹ کے بعد آپ پرنسپل بن جائیں گے۔ انہوں نے بڑی کوشش کی لیکن آپ نہ مانے، کافی دیر اس مسئلے پر بحث چلتی رہی اور آپ ہنس کر فرماتے کہ لاہور جاکر کیا لینا، ہم اپنی زندگی گزاچکے ہیں، جو باقی ہے اس کو تنہائی، گوشہ نشینی اور گمنامی میں گزارنا چاہتا ہوں کیونکہ اس میں بڑا مزہ آتا ہے۔ آپ نے اپنی عمر کے آخری پانچ سالوں میں ساری کتب اور کام چھوڑ دیے تھے صرف مثنوی شریف اور مصلیٰ آپ کے پاس ہوتا تھا۔ آپ رات کا کچھ حصہ آنسوئوں کی برسات اور ہلکی ہلکی لے میں مثنوی شریف پڑھنے میں گزارتے تھے، گریہ و زاری اور خلوت کا آپ پر غلبہ تھا، حتیٰ کہ جب رات کے ڈیڑھ بجے عارضہ قلب لاحق ہوا تب بھی آپ مصلے پر تھے اور یہ رمضان المبارک کی ستائیسویں شب تھی۔
قائدِ اِنقلاب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بیان کرتے ہیں کہ میں نے اپنے والد گرامی حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کی وفات کے دس دن بعد خواب میں زیارت کی تو اُن سے تین سوال پوچھے: پہلا یہ کہ نمازِ جنازہ کی ادائیگی کے بعد آپ کا چہرہ کی زیارت کی گئی تو آپ بے ساختہ مسکرا رہے تھے، تو یکا یک یہ تبسم کیسے آگیا جو نمازِ جنازہ کی ادائیگی سے پہلے نہیں تھا۔ قائدِ اِنقلاب بیان کرتے ہیں کہ ہمیں یہ خیال آنے لگا کہ شاید ابا جی قبلہ کا وصال نہیں ہوا اور ڈاکٹروں کو مغالطہ ہوگیا ہے اور ہم لوگ انہیں زندہ حالت میں غسل دے کر لے آئے ہیں۔ دوسرا سوال یہ کیا گیا کہ دس روز تک آپ مجھ سے ملے نہیں۔تیسرا سوال یہ تھا کہ آپ نے نکیرین کے سوالوں کا کیا جواب دیا اور ان کے ساتھ معاملہ کیسا رہا۔ ان سوالوں کے جواب میں حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ نے فرمایا کہ جب آپ لوگ نماز پڑھ کے فارغ ہوئے، میرے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور مجھے مسکراتا ہوا پایا تواس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت پردے ہٹا دیے گئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے عالم عقبیٰ کے مقامات، باغاتِ جنت اور علیین کی اعلی سیر گاہیں دکھانا شروع کردی تھیں۔ میں اس کے خصوصی انعامات کو دیکھ کر خوش ہو رہا تھا۔ اور آپ کے ساتھ دس روز بعد ملاقات کرنے کا سبب بھی یہی عالم بالا کی سیر تھی۔ رہ گیا قبر میں منکر نکیرین کے ساتھ معاملہ تو وہ یوں ہوا کہ جب وہ آئے میں نمازِ عصر ادا کر رہا تھا، انہوں نے مجھے نماز میں دیکھا تو لوٹ گئے۔ آج دس دن ہوگئے میں انتظار میں ہوں کہ وہ آئیں اور سوال کریں۔
حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ نے سِیْرُوْا فِی الْاَرْضِ کے حکم الٰہی کے تحت خطہ اَرضی کے بیشتر حصوں کی سیر کی تاکہ قدیم و جدید علوم و رجحانات سے آگہی ہونے کے ساتھ ساتھ قومی و بین الاقوامی ویژن میسر آئے کیونکہ یہی خصوصیات آپ نے سائنس و ٹیکنالوجی کی موجودہ صدی کی عالم گیر تجدیدی و اِحیائی تحریک کی قیادت میں منتقل کرنا تھیں۔ آپ کے ان اَسفار کا مقصد کبھی شیخ طریقت کی تلاش ہوتا تو کبھی روحانی اسرار و معارف سے شناسائی، کبھی دینی علوم کا حصول ہوتا تو کبھی دنیاوی علوم تک رسائی۔ آپ نے ایران کے مختلف شہروں کی سیر کی جن میں زاہدان، مشہد مقدس، نیشاپور، شہرود، بسطام، خرقان، سمنان، تہران، قم، اصفہان، شیراز قابل ذکر ہیں۔ وہاں آپ نے حافظ شیرازی، شیخ سعدی، شیخ ابو عبد اللہ خفیف اور قرآن حکیم کی بے مثل روحانی و عرفانی تفسیر ’’عرائس البیان فی تفسیر القرآن‘‘ کے مصنف شیخ روز بہان بقلی شیرازی کے مزار پر بھی حاضری دی۔ آپ بصرہ (عراق) میں سیدنا زبیر بن العوام، سیدنا انس بن مالک، سیدنا حضرت طلحہ اور امام حسن بصری ث کے مزارات پر بھی حاضر ہوئے۔ بغداد شریف میں سیدنا غوث الاعظم ص کی بارگاہ میں کئی بار حاضر ہوئے۔
اس کے علاوہ انہوں نے اور بھی بے شمار ملکی و غیر ملکی سفر کیے جن کی تفصیل ہمیں ان کے حالاتِ زندگی میں ملتی ہے۔
حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ کے دل میں غلبہ دین حق اور اِحیائے اِسلام کی تڑپ بدرجہ اتم موجود تھی۔ آپ کو ہر وقت اُمت مسلمہ کی فکر دامن گیر رہتی اور اس کے لیے ہر سطح پر کوشش کرتے۔
اُمت مسلمہ اپنے دورِ زوال کے آغاز میں تعلیمی اِنحطاط کا شکار ہوئی۔ حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ کو اس کا شدت سے احساس تھا، اس لیے آپ نے تعلیم پر خــــصوصی توجہ دی۔ آپ علم میں تحقیق و تصنیف کے فن میں ماہر تھے۔ علم و مطالعہ میں پختگی اور علوم دینیہ میں مسائل پر مناظروں میں گہرائی اور گرفت اور مسائل کے استنباط و استخراج پر آپ ملکہ راسخہ رکھتے تھے۔ درس و تدریس میں آپ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ آپ رحمہ اللّٰہ کے حافظہ کا یہ عالم تھا کہ چالیس برس پہلے کی پڑھی ہوئی کتاب کا حوالہ بھی من و عن دیتے اور دیکھنے پر ذرا برابر فرق نہ ہوتا۔ حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ کی دینی تعلیم بچپن میں اسکول کی تعلیم کے ساتھ ہی شروع ہوگئی تھی۔ دینی تعلیم کے سلسلے میں انہیں جن بزرگوں سے تلمذ کا شرف حاصل ہوا ان میں پاکستان میں تین بزرگ ہیں: شیخ الحدیث مولانا محمد سردار احمد قادری رحمہ اللّٰہ، حضرت ابوالبرکات سید احمد قادری رحمہ اللّٰہ اور مولانا محمد یوسف رحمہ اللّٰہ سیالکوٹی۔ علاوہ ازیں مولانا عبد الحی فرنگی محلی سے فرنگی محل لکھنو میں پانچ چھ سال پڑھا اور وہاں دورہ حدیث کیا اور بڑے بڑے اکابر علماء و فضلاء کے ساتھ دینی علوم کی تکمیل کی۔ آپ کے دیگر اساتذہ میں مولانا بدر عالم میرٹھی، مولانا عبد الشکور مہاجر مدنی، شیخ علوی المالکی اور شیخ محمد الکتانی شامل ہیں۔
آپ نے اپنے معاصر علماء کے برعکس نئے دور کے تقاضوں کے مطابق جدید علوم کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان میں بھی کمال حاصل کیا۔ آپ نے طب یونانی میں شفاء الملک حکیم عبد الحلیم لکھنوی سے تلمذ حاصل کیا، انہوں نے آپ کو اپنا بیٹا (متبنیٰ) بنا لیا اور پانچ سال اپنے پاس رکھ کر خصوصی تربیت دی۔ آپ نے حیدر آباد دکن میں حکیم عبد الوہاب نابینا انصاری سے نبض میں تخصص حاصل کیا۔قائد انقلاب اپنے حالیہ دورۂ ہند میں اس مطب بھی گئے تھے جہاں فرید ملت حکیم عبد الوہاب نابینا انصاری کی زیر تربیت رہے۔اگرچہ آپ عملی زندگی میں شعبہ طب سے وابستہ ہوگئے تھے مگر اس کے ساتھ ساتھ آپ نے درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا اور تشنگانِ علم کی پیاس بجھانے کے لیے روزانہ گھنٹوں وقف کرتے۔ آپ کے تلامذہ میں شیخ الالسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری، مولانا حکیم محمد نور، مولانا محمد اسماعیل، مولانا سید سردار احمد شاہ، مولانا قادر بخش اور مولانا سلطان محمود شامل ہیں۔
حضرت فریدِ ملّتؒ کا ذوقِ مطالعہ بھی اپنے عروج پر تھا۔ ہر روز آپ کی نشست کے ارد گرد چالیس پچاس کتب موجود رہتیں، گھنٹوں مطالعہ میں مستغرق رہتے اور جہاں کوئی علمی و فنی نکتہ یا دلیل میسر آجاتی ابتداء میں نوٹ فرمادیتے تاکہ آنے والی نسلوں کے لیے آسانی پیدا ہو۔ آپ ہر سفر میں منتخب کتب خرید کر لاتے، آپ کی لائبریری میں سینکڑوں کتب موجود تھیں جو بعد میں حضرت شیخ الاسلام نے فریدِ ملّت رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ کو عطیہ کر دیں جہاں ان کتب کا ’’مکتبہ فریدیہ قادریہ‘‘ کے نام سے الگ سیکشن موجود ہے اور ان پر حضرت فریدِ ملّتؒ کے لگائے ہوئے حواشی و حوالہ جات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔
حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ نے چونکہ لکھنو اور حیدر آباد دکن میں کافی عرصہ قیام کیا تھا، اس لیے ان کا شعری ذوق کافی پروان چڑھااور وہاں انہوں نے شکیل مینائی سے شاعری میں تلمذ حاصل کیا تھا۔ آپ ایک صاحب طرز ادیب اور قادر الکلام شاعر بھی تھے۔ اپنی اوائل عمر 1940۔1950ء میں جھنگ میں شعرو ادب کی مختلف محافل میں اپنا کلام بھی سنایا کرتے۔ شیر افضل جعفری اور مجید امجد جیسے شعراء کرام آپ کے معاصرین میں سے تھے اور آپ سے اشعار کی اِصلاح لیتے تھے۔ لکھنو کا کوئی مشاعرہ ایسا نہ ہوتا جس میں چوٹی کے شعراء شریک ہوں اور حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ شامل نہ ہوں۔ ایک دفعہ لکھنؤ میں اہلِ سنت اور اہلِ تشیع نے فیصلہ کیا کہ یومِ علی ص اور یومِ عمر ص اکٹھے منائیں گے، اس پر مشاعرہ ہوگا۔ یومِ عمر ص آنے پر اہلِ سنت اور اہلِ تشیع نے پورے ہندوستان سے بڑے بڑے شعراء کرام کو بلایا۔ اور حضرت ڈاکٹر فریدالدین رحمہ اللّٰہ کو بھی بلایا، آپ کا تخلص ’’فریدؔ‘‘ تھا۔ اور فرید الدین فریدؔ لکھتے تھے۔ حضرت عمر ص کی دریائے نیل کی کرامات کا واقعہ منظوم شکل میں پڑھنے کی ذمہ داری آپ رحمہ اللّٰہ پر آئی تو آپ رحمہ اللّٰہ نے فی البدیہ ساٹھ اشعار پڑھ کر مشاعرہ لوٹ لیا۔ آپ کے کلام کا مجموعہ ’’دیوان قادری‘‘ کے نام سے بھی جمع کیا گیا تھا جو کچھ عرصہ حضرت شیخ الاسلام کے پاس رہنے کے بعد کہیں کھو گیا۔ اس میں شامل ’’سلام بحضور خیر الانام ﷺ ‘‘ کے دو شعر بطور نمونہ درج ذیل ہیں، جن سے آپ کا شعری ذوق اور عشقِ رسول ﷺ نمایاں ہوتا ہے:
السلام اے مطلعِ صبحِ اَزل
السلام اے جانِ ہر نثر و غزل
السلام اے قلزمِ جود و سخا
السلام اے مصدرِ حمد و ثنا
چاہتا ہوں آشنائے راہ کر
مجھ کو راہِ زیست سے آگاہ کر
میرے سینے میں تیری ہی یاد ہو
مری دنیا میں تو ہی آباد ہو
نفس اَمّارہ کہے اِنِّیْ سَقِیْم
منہ کہ بل گر جائے شیطٰن الرجیم
حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ عملی جد و جہد پر یقین رکھتے تھے، آپ کی اِحیائے اِسلام کے لیے کاوِشیں صرف علمی و تحقیقی میدان تک ہی محدود نہ تھیں بلکہ آپ نے عملی میدان میں نمایاں خدمات سر انجام دیں۔ آپ سیاسی و مذہبی ہر دو پلیٹ فارمز پر سرگرمی سے شریک ہوئے۔ آپ دورانِ تعلیم میں دو مرتبہ لکھنو سے حکیم الامت علامہ اِقبال رحمہ اللّٰہ سے ملاقات کے لیے لاہور آئے۔ زمانہ طالب علمی میں تحریک پاکستان میں کام کرتے رہے۔ کثیر علماء و مشائخ سے ساتھ رابطہ رہتا، دو مرتبہ حضرت پیر مہر علی شاہ رحمہ اللّٰہ کی خدمت میں حاضری دی۔ اور معاصر علمائے کرام کے ساتھ اکثر علمی مباحث ہوتی رہتیں۔ بڑے بڑے اہم مسائل پر حوالہ جات کے لیے اور اعتراضات کے ردّ کے لیے علمائے کرام آپ کی طرف رجوع کرتے تھے۔ جس مسئلہ پر خطاب کرتے تھے اس مسئلے پر آپ کا خطاب فیصلہ کن تسلیم کیا جاتا تھا۔ ذیل میں آپ کی عملی خدمات کے باب میں سے چند واقعات ذکر کیے جاتے ہیں:
آپ کے ایک دیرینہ دوست ڈاکٹر اِحسان صابری قریشی بیان کرتے ہیں:
’’آل انڈیا مسلم لیگ کا 23 مارچ 1940ء کا مشہور تاریخی اجلاس لاہور میں شروع ہونے والا تھا۔ ان ایام میں دفعتہً ڈاکٹر فرید الدین قادری جھنگ تشریف لائے اور اپنے والد صاحب کے گھر ٹھہرنے کی بجائے میرے ہاں ٹھرے۔ مجھے انہوں نے مشورہ دیا کہ آؤ لاہور چلیں اور آل انڈیا مسلم لیگ کے تین روزہ اجلاس میں شرکت کریں، جب کہ میں نے اپنی سرکاری ملازمت کے سبب لیت و لعل سے کام لیا۔ اس پر فرید صاحب نے کہا کہ اس اجلاس میں مسلمانوں کے لیے ایک علیحدہ خطے کا قرارداد پاس ہوگا۔ اور قائد اعظم محمد علی جناح بنفس نفیس اس کی صدارت کریں گے، اس لحاظ سے یہ ایک تاریخی اجلاس ہوگا اور اِن شاء اللہ مسلمان انگریز سے ایک علیحدہ خطہ لے کر رہیں گے۔ چنانچہ میں نے فرید صاحب رحمہ اللّٰہ کا مشورہ مان لیا اور دو دن کی رخصت لے کر ڈاکٹر فرید صاحب کے ساتھ لاہور پہنچا۔ میں چونکہ زمانہ طالب علمی میں مسلم لیگ کا رضاکار بھی رہا تھا۔ اس لیے 23 مارچ کے اجلاس میں ہم دونوں نے پہلی قطار میں جگہ حاصل کرلی۔ قائد اعظم کی تقریر کے دوران میں نعرے لگاتا تھا اور فرید صاحب مع حاضرینِ اِجلاس میرے نعروں کا جواب دیتے تھے۔ ہم ’’مسلم لیگ زندہ باد‘‘، ’’قائد اعظم زندہ باد‘‘ کے نعرے پوری قوت سے لگا رہے تھے۔ قائد اعظم ہم دونوں سے بہت خوش نظر آتے تھے۔ اور آنکھوں ہی آنکھوں میں ہمیں دادِ تحسین دیتے تھے۔ مولوی ابو القاسم، فضل الحق،خلیق الزماں اور نواب زادہ لیاقت علی خان بھی ہمیں شاباش دے رہے تھے۔ یہ اِجلاس تین روز تک جاری رہا اور ہم دونوں نے تینوں روز فلک شگاف نعرے لگائے۔‘‘
حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ صاحبِ طرز خطیب اور میدانِ خطابت میں منفرد اُسلوب کے حامل تھے، آپ فقہی، اُصولی، منطقی اور معانی کی معلومات و مباحث کے بند قبا اس طرح کھول کر بیان کرتے کہ انسان دنگ رہ جاتا۔ یہ بھی آپ کے علمی مقام کا اِمتیاز تھا کہ جن جن مقامات و اجتماعات میں آپ کا جانا ہوتا ان میں آپ کا خطاب ہوتا اور اکثر آخری خطاب ہوتا۔ آپ اُردو اور پنجابی میں انتہائی روانی کے ساتھ خطاب کرتے لیکن جب مثنوی شریف پڑھتے تو سُر اور طرز کے ساتھ لے میں پڑھتے تھے۔ آپ دین اِسلام کی اصل روح کی ترویج اور شانِ رسالت مآب ﷺ کی بابت پائی جانے والی بدعقیدگی ختم کرنے کے لیے اکثر دینی و علمی مجالس میں شرکت کرتے۔ اور لوگوں کے ذہنوں پر پڑی تشکیک کی گرد دور کرتے۔جن اَحباب کو ان کا خطاب سننے، ان کی مجلس میں بیٹھنے، ان کے دلائل سننے اور استدلال جاننے کا موقع ملا ہے وہ گواہ ہیں کہ وہ جس مسئلہ پر خطاب کرتے ایسا لگتا کہ اب اس مسئلہ پر گفتگو کی ضرورت ہی نہیں، وہ فیصلہ کن اور حتمی خطاب ہوتا۔ شیخ الحدیث مولانا محمد اشرف سیالوی بیان کرتے ہیں: ’’حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کی خدمت میں حاضری اور استفادہ کا زیادہ موقع نہ مل سکا، لیکن جو مختصر سا وقت ان کی صحبت میں بیٹھنے اور ان کے ارشاداتِ عالیہ اور خطابِ دل نواز سننے کا ملا اس نے ہمیشہ کے لیے ان کا گرویدہ بنا دیا اور ان کی عظمت کے اَن مٹ نقوش دل و دماغ پر ثبت اور منقش ہو کر رہ گئے۔ آپ کا انداز عام خطباء اور مقررین کے اسلوب و انداز سے بالکل منفرد تھا کہ آپ صرف اپنے مفید مدعا دلائل و براہین کے بیان پر اکتفاء نہ فرماتے بلکہ اس پر وارِد ہونے والے اشکالات و اِعتراضات کا بھی خود ہی ذکر فرماتے اور پھر ایسا جواب دیتے جو موجبِ اطمینان اور مورثِ ایقان ہوتا۔‘‘ ذیل میں آپ کی خطابت کے چند واقعات کا تذکرہ کیا جاتا ہے:
مذکورہ حقائق واضح کرتے ہیں کہ حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ خدمتِ اِسلام کے لیے ہر وقت مستعد اور کوشاں رہتے۔ آپ نے خود کو دین کی تبلیغ و اِشاعت کے لیے وقف کیے رکھا اور اس سلسلے میں کبھی اپنی انا اور عزتِ نفس کو رکاوٹ نہیں بننے دیا۔
حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ جب 1948ء میں حجازِ مقدس گئے تو بادشاہِ وقت کے بھائی کو ایسا مرض لاحق ہوا تھا کہ جس کا علاج کسی ڈاکٹر سے نہیں ہو پا رہا تھا۔ جب آپ وہاں پہنچے تو آپ نے اس کا علاج کیا اور بفضلہ تعالیٰ وہ ٹھیک ہوگیا۔ آپ کے قیام کے دوران میں انہیں پتہ چلا کہ آپ عظیم طبیب ہونے کے ساتھ ساتھ اہلِ سنت کے عظیم عالم بھی ہیں تو آپ کے ساتھ علماء کی مختلف نشستیں کروائی گئیں، جن میں خود بادشاہِ وقت موجود ہوتا تھا۔ مسئلہ شفاعت، مسئلہ توسل، مسئلہ استغاثہ اور دیگر بہت سارے علمی مسائل پر تبادلہ خیال ہوتا مگر آپ علمی دلائل کی روشنی میں تمام علماء پر اس طرح غالب آجاتے کہ ہر نشست کے آخر میں امیر کو آپ کے حق میںفیصلہ دینا پڑتا اور وہ علمائے سعود سے کہتا: آپ ہار گئے اور دکتور جیت گئے۔
نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبد السلام کے والد ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف اسکولز مولوی محمد حسین اور ان کے تایا مولوی غلام حسین کا شمار اس وقت کے علماء مرزائیت میں ہوتا تھا۔ ایک مرتبہ ان دونوں حضرات کا حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ سے مناظرہ ہوا جس کا موضوع تھا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد بھی کوئی نبی آسکتا ہے یا نہیں؟ آپ نے تین گھنٹے کے مباحثے میں ان دونوں کو یہ بات ماننے پر مجبور کردیا کہ واقعتا قرآن و سنت کی روشنی میں آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا، یوں ان دونوں نے اپنے سابقہ عقیدے سے توبہ کرلی۔ ڈاکٹر اِحسان صابری قریشی اس مناظرے کی روئداد بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’ایک بار جھنگ شہر میں ڈاکٹر فرید الدین کا مناظرہ ان دونوں بھائیوں سے ’’احمدیت‘‘ کے موضوع پر ہوا، میں اس مناظرے میں موجود تھا اور پروفیسر صوفی ضیاء الحق بھی موجود تھے۔ تین دن مناظرہ جاری رہا، آخر کار یہ دونوں بھائی اس مسئلہ کو مان گئے کہ رسول اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی ہندوستان میں تو کیا اس دنیا میں بھی نہیں آسکتا۔ اس بات پر مرزائیوں میں کھلبلی مچ گئی اور اسے ڈاکٹر فرید الدین کی کھلی کرامت کہا گیا۔ بعد میں اگرچہ یہ دونوں بھائی پھر مرزائی ہوگئے تھے۔‘‘
حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ کچھ عرصہ لالیاں میں رہے ہیں، وہاں کے لوگ اب بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ہمارے ہاں ڈاکٹر صاحب نہ آتے تو ہم تمام ربوہ قریب ہونے کی وجہ سے مرزائی ہوچکے ہوتے لیکن یہ آپ کی آمد کی برکت تھی کہ لوگوں کو مرزائیت سے نفرت ہوگئی۔
غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی شاہ رحمہ اللّٰہ صاحب کا حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ کے ساتھ علمی مباحثہ ہوا۔ حضرت کاظمی شاہ صاحب رحمہ اللّٰہ یزید کو لعنتی تو سمجھتے تھے مگر فتوتاً خاموش تھے جب کہ حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ یزید کے کفر اور اس پر لعنت بھیجنے کے جواز کے قائل تھے۔ اس پر دونوں حضرات کی تفصیلی گفتگو ہوئی جس میں جھنگ کے کچھ علماء بھی شریک تھے۔ آپ نے کاظمی شاہ صاحب رحمہ اللّٰہ کی خدمت میں تکفیر یزید پر کتب تفاسیر و عقائد اور شروحاتِ حدیث میں سے حوالہ جات پیش کیے اور ان کے علمی اعتراضات کے جواب دیے۔ گفتگو کے اختتام پر حضرت کاظمی شاہ صاحب رحمہ اللّٰہ نے کہا: ’’ڈاکٹر صاحب! آپ نے جو حوالہ جات دیے ہیں ان میں سے بعض میری نظر سے پہلے نہیں گزرے، میںیہ کتب لے جاتا ہوں ان پر غور کروں گا۔‘‘
حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ یقینا یگانہ روزگار شخصیت تھے۔ عام انسان سے لے کر علماء کرام تک سب آپ کی طرف رجوع فرماتے تھے۔ سب آپ کی علمی و استدلالی قوت سے فیض یاب ہوتے اور خرد کی گتھیاں سلجھانے کے لیے آپ سے رہنمائی لیتے تھے۔
اُمت مسلمہ کا زوال اور پستی کا عالم دیکھ کر حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ کا دل خون کے آنسو روتا تھا۔ آپ ہر وقت اس غم میں کڑھتے رہتے اور متفکر رہتے کہ کس طرح اسلام اور عقائد پر ہونے والے تابڑ توڑ حملوں کا مؤثر جواب دیا جائے۔ اس کے لیے آپ کی مقدور بھر قابل تقلید کاوشیں ہم گزشتہ صفحات میں بیان کر چکے ہیں، مگر حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ کچھ مزید کرنے کے خواہاں تھے۔ مثل مشہور ہے کہ اِنسان جو کام خود نہیں کر سکتا ان کی تکمیل اپنی اولاد کے ذریعے چاہتا ہے۔ اسی لیے جب آپ کو پہلی بار 1948ء میں حرمِ کعبہ کی زیارت کا شرف حاصل ہوا تو وہاں رات کے پچھلے پہر طوافِ کعبہ کے بعد مقامِ ملتزم پر غلافِ کعبہ کو تھامتے ہوئے آنسؤں کی برسات میں دل کی تمنا زبان سے دعا بن کر نکلنے لگی: باری تعالیٰ! ایسا بچہ عطا کر جو تیری اور تیرے دین کی معرفت کا حامل ہو، جو دنیا اور آخرت میں تیری بے پناہ عطا و رضا کا حق دار ٹھہرے اور فیضانِ رسالت مآب ﷺ سے بہرہ ور ہوکر دنیائے اِسلام میں ایسے علمی و فکری اور اخلاقی و روحانی انقلاب کا داعی ہو جس سے ایک عالم متمتع ہو سکے۔ آپ کی دعا بارگاہِ اِلٰہی میں مستجاب ہوئی اور 19 فروری 1951ء بروز پیر آپ کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جو آج نابغۂ عصرشیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں قومی اور بین الاقوامی سطح پر پسی ہوئی ملت اِسلامیہ کے درد کی آواز بن کر باطل، اِستحصالی اور اِسلام دشمن قوتوں کی سرکوبی کے لیے اپنی شبانہ روز جدو جہد میں مصروفِ عمل ہے۔
حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ جس خزینہ معرفت سے اللہ تعالیٰ کے خصوصی لطف و کرم کے ذریعے فیض یاب ہو کر روحانیت کے اعلی مقامات پر فائز ہو چکے تھے۔ آپ کی دلی خواہش تھی کہ یہ دولت عظمیٰ ان کے فرزند ارجمند کو بھی نصیب ہو، اس لیے انہوں نے شیخ الاسلام کو بچپن سے ہی اپنی نگرانی میں باقاعدہ اور مسلسل تربیتی مراحل سے گزارا۔ اپنی صحبت و تربیت کے زیر اثر اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے عشق و محبت، دین اسلام کی چاہت و رغبت، روحانی اعمال کے ساتھ قلبی لگاؤ،یہ تمام چیزیں بچپن ہی سے ان کے اندر راسخ کردی تھیں۔ سن شعور سے قبل ہی آپ کو اپنے ساتھ نماز ادا کرنے کی عادت ڈالی، اوائل عمری ہی میں قرآن مجید کی ناظرہ تعلیم کی تکمیل کا اہتمام کیا۔ اور بعد ازاں اپنی تربیت و صحبت سے رات کو اٹھنے کی عادت بھی قابل رشک طریقے سے پیدا فرمائی۔ انہوں نے اپنی زبان مبارک سے شیخ الاسلام کو کبھی نہ فرمایا کہ تہجد کے لیے اٹھو، بلکہ معمول یہ تھا کہ جب خود اٹھتے تو سردیوں کی راتوں میں سوہن حلوہ یا بسکٹ یا ایسی ہی کوئی اور چیز تیار کرکے اس کے ساتھ دودھ گرم کرکے ان کے بستر کے قریب لا کر رکھ دیتے۔ اور وضو کے لیے پانی خود اپنے ہاتھ سے گرم کرکے ان کے پاس رکھ دیتے۔ آپ رحمہ اللّٰہ کے قدموں کی آہٹ سے خود بخود شیخ الاسلام کی آنکھ کھل جاتی تو آپ رحمہ اللّٰہ کمال محبت و شفقت سے فرماتے: بیٹے! میں نے تمہارے وضو کے لیے پانی گرم کر کے رکھ دیا ہے، اور کچھ دودھ اور سوہن حلوہ ہے، وضو کرکے کھا لینا۔ اس طرح ایک احسن ترغیب سے بالواسطہ ایک مستقل عادتِ شب بیداری آپ کے اندر پیدا کرنے کا اہتمام فرمایا۔
حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ نے جس طرح شیخ الاسلام کی روحانی تربیت کا آغاز اپنی نگرانی میں خود کیا، اسی طرح ان کی تعلیم کے سلسلے میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ چھوڑی۔ جھنگ کے بہترین اسکول میں آپ کو داخل کروایا۔ دینی تعلیم کا آغاز خود گھر کروایا اور درسِ نظامی کی ابتدائی کتب خود ہی پڑھا ڈالیں۔ حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ کا معمول تھا کہ ظہر سے لے کر عصر یا مغرب تک کا وقت فارغ رکھتے اور اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے فارغ ہوکر اس وقت میں طالبانِ علم کو پڑھاتے، مگر جب قائد انقلاب کی تعلیم شروع ہوئی تو ظہر تک ہسپتال سے فارغ ہوکر گھر آجاتے۔ بعد ازاں عصر سے لے کر رات گیارہ بجے تک سارا وقت شیخ الاسلام کو پڑھانے میں صرف کرتے۔ انہوں نے 1962ء سے لے کر 1970ء تک مختلف وقتوں میں شیخ الاسلام کی تدریس کا سلسلہ جاری رہا۔ خود پڑھانے کے علاوہ قائد انقلاب کی خصوصی تربیت کے پیش نظر انہیں استاذ العلماء مولانا عبد الرشید رضوی کے پاس درسیات پڑھنے کے لیے مسلسل بھیجا تاکہ ان کی تعلیم و تربیت میں کسی قسم کی کوئی کمی نہ رہ جائے۔
الغرض حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ نے پندرھویں صدی کے مجدد کی تیاری میں کوئی کسر رَوا نہ رکھتے ہوئے انہیں ہر طرح کی قدیم و جدید تعلیم اور اعلیٰ ترین تربیت سے آراستہ کیا، تاکہ وہ ہر سطح پر معاصر چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں اور اسلام پر ہونے والے حملوں کا عقلی و نقلی اور عملی ہر سہ سطح پر کامل جواب فراہم کر سکیں۔
حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ کی شخصیت ہمارے لئے آج بھی ایک مینارۂ نور ہے۔ آپ کا کردار اور تعلیمات ہمارے جذبہ عمل کے لئے مہمیز کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ کو خراج تحسین پیش کرنے کا صحیح طریقہ یہی ہے کہ ہم اپنے آپ کو اس منزل کے حصول کے لئے کلیتاً وقف کر دیں جس کا خواب حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ نے دیکھا تھا اور جس کے لئے ان کے ان کے شب و روز اور سوز و گداز وقف تھے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنی زندگی کے احوال پر نظر کریں اور اُن ہستیوں کی طرف دیکھیں جو مر کر بھی زندہ ہو گئیں اور جنہیں بارگاہِ اِلٰہی میں کامرانی نصیب ہوئی۔ ہمیں یہ عہد کر لینا چاہیے کہ ہم بھی اپنی زندگی میں اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کو راضی کرنے کی کوشش کریں۔ یہ رضا اُس وقت تک میسر نہیں آسکتی جب تک ہم اپنے آپ کو گناہوں اور رذائل سے پاک کرتے ہوئے تقویٰ، صدق، اخلاص، محبت و طاعت اِلٰہی اور عشق و اِتباعِ رسول ﷺ کے نور سے منور نہیں کر لیتے۔ جب ایسا تعلق قائم ہوجاتا ہے تو ہر قدم پر آقائے دو جہاں ﷺ خود رہنمائی فرماتے ہیں۔ لہٰذا ہمیں اپنی اصل سے رابطہ قائم کرتے ہوئے حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ کی اصل آرزوئے اِنقلاب کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ معاشرے میں ایثار و قربانی کے جذبہ کا انقلاب دیکھنا چاہتے تھے۔ انہوں نے زندگی بھر اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دی۔ شیخ الاسلام کی تعلیم و تربیت بھی ان کے اسی جذبہ کی عکاسی کرتی ہے کہ انہوں نے دنیاوی ترقی کے کئی مواقع سے صرف اس لیے فائدہ نہیں اٹھایا کہ اس طرح وہ دنیاوی اُمور میں مصروف ہو کر شیخ الاسلا م کی تعلیم و تربیت پر کما حقہٗ توجہ نہیں دے سکیں گے۔ ایثار و قربانی کے اسی جذبہ کے پیش نظر حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ نے دمِ وِصال شیخ الاسلام کو جو وصیت کی وہ صرف یہ تھی کہ بیٹا! تمہارے پاس کچھ ہو یا نہ ہو صدقہ و خیرات کثرت سے کرتے رہنا۔ پس کسی کے پاس زیادہ ہو یا تھوڑا، فاقے کی حالت ہو یا غناء کی جتنی توفیق اللہ تعالیٰ عطا کرے اس کی مخلوق پر خرچ کرتے رہنا چاہیے کیونکہ اس میں بڑی برکتیں ہیں۔
حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ کی خدمات کے اعتراف میں جھنگ میں آپ کی رہائش گاہ کو فریدیہ ٹرسٹ بنایا جاچکا ہے۔ انہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کے لیے تحریک منہاج القرآن کے مرکزی سیکرٹریٹ پر ’’فریدِ ملّتؒ رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ‘‘ قائم کیا گیا ہے جہاں محققین ہمہ وقت اِسلام کے مختلف گوشوں پر تحقیق میں مصروف رہتے ہیں۔ قائد انقلاب کی تمام کتب اِسی اِنسٹی ٹیوٹ کے زیر اہتمام شائع ہوتی ہیں۔ اِنسٹی ٹیوٹ میں ایک بے مثال لائبریری موجود ہے جہاں حضرت فریدِ ملّت رحمہ اللّٰہ کے زیر مطالعہ رہنے والی کتب کا الگ سیکشن بنایا گیا ہے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved