رانا جاوید القادری
سرزمینِ جھنگ جو اپنی مردم خیزی کی بدولت صاحبانِ نظر کی نگاہ میں برصغیر کا یونان کہلاتی ہے۔ فرید ملت حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کی نادرۂ روزگار شخصیت پر جس قدر فخر اور اُمت مسلمہ اسے جس قدر ہدیۂ تشکر پیش کرے کم ہے، جس کے حسن طلب اور کمالِ تربیت نے عالم اسلام کو قائد انقلاب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی صورت میں ایک ایسی روحانی قیادت اورعطا کر دی ہے، جو غلبۂ دین حق کی بحالی اور اُمتِ مسلمہ کے اتحاد کی علامت بن کر باطل قوتوں کو للکار رہی ہے۔ اور جس کے نعرۂ مستانہ سے وقت کی بڑی بڑی سامراجی اور طاغوتی و استحصالی اور شیطانی قوتوں کے ایوان زمین بوس ہونے لگے ہیں۔
فرید ملت حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ واقعتا ایک یگانۂ روزگار شخصیت تھے۔ آپ کی شخصیت ایک ایسا کثیر الجہت نگینہ ہے جس کی ہر ہر جہت اپنی آب و تاب اور چمک دمک کے اعتبار سے جداگانہ شان کی حامل نظر آتی ہے۔ آپ اپنے ہر ہر وصف اور شخصیت کے ہر ہر پہلو کے اعتبار سے نابغۂ روزگار تھے۔ آپ جہاں علم و عرفاں کے میدان کے عدیم النظیر شہسوار تھے وہیں بحرِ معرفت کے مشاق شناور بھی تھے۔ جہاں ایک طرف توکل علی اللہ اور فقر و استغناء کی تصویر تھے، وہیں زہد و ورع اور تقویٰ و طہارت کے پیکر مجسم بھی۔ جہاں ایک طرف ہمہ وقت عشق رسالتمآب ﷺ میں سرشاری و استغراق آپ کا طرۂ امتیاز تھا، وہیں نسبتِ غوثیت مآب رضی اللہ عنہ میں گرفتاری آپ کی پہچان تھی۔ شعر و سخن کی دنیا ہو یا طب و ڈاکٹری کا میدان، نبض شناسی کا فن ہو یا تعلیم و تدریس کا ہنر، ہر ہر میدان میں یدطولیٰ کی حامل اس ہستی کے شخصی اوصاف اور ذاتی محاسن کا احاطہ ہم جیسے کج فہم اور کور ذوق افراد کے بس کی بات ہی نہیں لیکن حصولِ برکت کے لئے ان کی ہمہ نوع شخصیت کے ایک گوشے قطبِ ربانی محبوبِ صمدانی سیدنا غوث اعظم حضرت سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ اور آپ کے خانوادۂ اطہر کے ساتھ آپ کی نسبت کے حوالے سے چند واقعات ذکر کئے ہیں۔
زمانۂ طالب علمی میں لکھنؤ قیام کے دوران غالباً 1934ء میں ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ قدوۃ الاولیاء حضرت پیر مہر علی شاہ رحمہ اللّٰہ کی خدمت میں گولڑہ شریف حاضر ہوئے۔ یہ حضرت گولڑہ رحمہ اللّٰہ کی عمر مبارک کا آخری زمانہ تھا۔ آپ اکثر سُکر کی حالت میں رہا کرتے تھے۔ سردی کا موسم تھا، حضرت پیر مہر علی شاہ رحمہ اللّٰہ دربار کی چھت پر تشریف فرما تھے۔ آپ کے خاص مقربین و محبین میں سے دس پندرہ افراد آپ کی خدمت میں حاضر تھے کہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ نے حضرت رحمہ اللّٰہ کو بیعت کے لئے عرض کیا۔ آپ رحمہ اللّٰہ نے فرمایا ’’تیڈی بیعت تھئی ہوئی اے‘‘ (تمہاری بیعت تو ہو چکی ہوئی ہے)۔ ڈاکٹر صاحب فرماتے ہیں مَیں نے سمجھا شاید حالت سُکر میں ہیں اور میری درخواست پر مطلع نہیں ہو سکے۔ لہٰذا دوبارہ عرض کی لیکن آپ نے پھر وہی جواب دیا، تیسری مرتبہ عرض کرنے پر آپ نے قدرے بلند آواز میں وہی فقرہ دہرایا جس پر میں سمجھ گیا کہ میرے لئے فیض کا حصہ کہیں اور مقدر ہو چکا ہوا ہے۔ اور حضرت گولڑوی رحمہ اللّٰہ اپنے کشف اور باطنی مشاہدے کی بنا پر مجھے اس سے آگاہ فرما رہے ہیں۔ گویا ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللّٰہ کے زمانۂ طالب علمی اور دورِ شباب میں ہی ان کی روحانی نسبت اور حصۂ فیض جس بارگاہ سے مقدر ہو چکا تھا حضرت پیر مہر علی شاہ رحمہ اللّٰہ اپنے باطنی مشاہدے کی بناء پر اس سے مطلع اور آگاہ تھے۔
آپ نے دینی و دنیوی علوم کی تحصیل اور روحانی فیوض و برکات کے حصول کے بعد کسبِ معاش کے سلسلے میں گھر ہی میں ایک چھوٹا سا کلینک کھول لیا۔ تاہم عبادت و ریاضت اور حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کے سلسلے میں دریائے چناب کے کنارے جانے کا سلسلہ قائم رہا کیونکہ روح کی غذا اور تسکین کا سامان بہم پہنچانا بہر طور ضروری تھا۔ کلینک کا ابتدائی دور تھا کبھی کوئی مریض آجاتا اور کبھی نہ آتا۔ گزر اوقات تو بہر حال ہو رہی تھی۔ ایک روز ایک مجذوب بزرگ کلینک پر تشریف لائے۔ ان کا اسم گرامی گلاب شاہ رحمہ اللّٰہ تھا، آکر بیٹھ گئے۔ اور پوچھا کیا حال ہے؟ کچھ آمدنی کا مسئلہ حل ہوا یا نہیں؟ شکوہ تو اہلِ محبت کے لئے حرام ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا الحمدللہ! اللہ کا شکر ہے۔ دال روٹی چل رہی ہے۔ فرمانے لگے یہ وظیفہ پڑھا کرو۔ ہر روز پانچ روپے مل جایا کریں گے۔ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ نے وہ وظیفہ شروع کر دیا۔ خدا کی شان کہ کوئی مریض نہ آئے۔ گلے میں سے پانچ روپے بہرحال مل جاتے۔ یہ اس دور کی بات ہے جب بڑے بڑے افسران کو 20/10 روپیہ ماہانہ روزینہ ملتا تھا۔ دھیلہ پائیوں کا زمانہ تھا۔ اور گھریلوں استعمال کی عام اشیاء دھیلوں پائیوں کے عوض آجایا کرتی تھیں۔ سال دو سال یہ سلسلہ چلتا رہا۔ ڈاکٹر صاحب خوش تھے کہ غم روز گار کا کانٹا تو نکل گیا مگر قادرِ مطلق جو علیم و خبیر بھی ہے اور واسع و حکیم بھی۔ اس نے مختصر سے روزینے کا یہ وظیفہ اپنے شایانِ شان نہ سمجھا جس شخص نے اپنی پوری زندگی اس کے دین کی تعلیم کے حصول میں گزار دی ہو اور دُکھی اِنسانیت میں صحت و سکون کی دولت بانٹنے کا عزم رکھتا ہو، اسے بحرِ عطا کی ایک بوند پر شاکر کر دینا شانِ جودوسخا کے خلاف ہے۔ اس لئے اس واسع و علیم ہستی نے اس کا بندوبست کچھ اس طرح فرمایا کہ ایک رات جبکہ قصیدہ بردہ، قصیدہ غوثیہ، نوافل تہجد اور معمول کے دیگر اوراد و وظائف کے بعد ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ محوِ خواب ہیں کہ مقدر کا ستارہ چمکتا ہے۔ غوثِ صمدانی قطبِ ربانی شہبازِ لامکانی حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ تشریف لاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ اپنے کلینک میں بیٹھے ہیں کہ آپؓ جانبِ مغرب سے کلینک میں داخل ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں فرید الدین رحمہ اللّٰہ ! وظیفوں والی کاپی نکالو۔ ڈاکٹر صاحب وہ کاپی نکال کر پیش کرتے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پانچ روپے والا وظیفہ کہاں ہے۔ ڈاکٹر صاحب وہ صفحہ نکال کر پیش کرتے ہیں۔ حضرت سیدنا غوثِ اعظم رضی اللہ عنہ اپنی جیب مبارک سے قلم نکالتے ہیں اور پانچ روپے والے وظیفے پر قلم پھیرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ یہ وظیفہ چھوڑ دو ورنہ ساری زندگی پانچ روپے پر ہی گزارہ کرو گے۔اگر کبھی ہزاروں لاکھوں روپے کی ضرورت پڑ گئی تو کیا کرو گے؟ یہ فرما کر آپؓ تشریف لے جاتے ہیں۔ صبح اُٹھ کر ڈاکٹر صاحب نے کاپی دیکھی تو پانچ روپے والے وظیفہ پر قلم پھر چکا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کو یقین ہوگیا کہ یہ واقعتاً حضرت پیرانِ پیر سیدنا غوث الاعظم رحمہ اللّٰہ ہی کی آمد تھی۔ اس کے بعد وہ وظیفہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے قعرِ نسیاں میں دفن ہوگیا۔ اس واقعہ سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اوائل دور ہی میں حضور غوث الثقلین کے ساتھ ان کی نسبت کس قدر پختہ و مستحکم تھی اور حضور غوث پاک صڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ پر کس طرح نظرِ شفقت اور لطف و کرم فرماتے تھے۔
فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ اپنے مطلوب و مقصود کی تلاش میں مسلسل کوشاں و سرگرداں رہے۔ روح کی بے چینی اور خود کو کسی اللہ والے کے ہاتھ میں دینے کا اضطراب بڑھا، تو 1948ء میں باقاعدہ استخارۂ بیعت کیا۔ خواب میں آپ کو بغداد شریف میں غوث الثقلین حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی بارگاہ کی طرف متوجہ کیا گیا۔ اور خانوادۂ غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے ایک عظیم چشم و چراغ اور فیضانِ غوثیت مآب کے امین و قسیم، قطبِ دوراں حضرت سیدنا الشیخ ابراہیم سیف الدینؓ کی زیارت کرائی گئی۔
آپ حضرت سیدنا الشیخ سلیمان النقیب رحمہ اللّٰہ کے فرزند ارجمند حضرت سیدنا مصطفیٰ گیلانیؓ کے نورِ چشم تھے۔ حضرت سیدنا الشیخ سلیمان النقیب رحمہ اللّٰہ حضرت شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے شیخِ طریقت قدوۃ الاولیاء شیخ المشائخ حضرت سیدنا طاہر علائوالدین الگیلانی البغدادی رحمہ اللّٰہ کے دادا جان حضرت سیدنا شیخ عبدالرحمن ظہیر الدین المحضؒ کے بھائی اور حضرت سیدنا الشیخ علی النقیبؒ کے فرزندِ ارجمند تھے۔
فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ فرماتے ہیں کہ مَیں حضرت سیدنا الشیخ ابراہیم سیف الدینؓ کی شخصیت اور آپ کے اسم گرامی تک سے واقف نہ تھا لیکن میرا حصہ فیض عنداللہ انہی کے ساتھ خاص ہو چکا تھا۔ میں نے استخارے کے نتیجے میں زندگی میں بغداد شریف کا یہ پہلا سفر کیا۔ اور لامحالہ طور پر یہ سمجھ رہا تھا کہ یہی عظیم المرتبت شخصیت ہیں کہ جن کی مجھے زیارت کرائی گئی ہے۔ یقینا سجادہ نشین یا نقیب الاشراف ہوں گے لیکن جب دربارِ غوثیت مآب پر حاضر ہو کر نقیب الاشراف کے بارے میں استفسار کیا تو پتہ چلا کہ قدوۃ الاولیاء حضرت السید الشیخ احمد عاصم (جو شیخ المشائخ حضرت سیدنا طاہر علائو الدین القادری البغدادی رحمہ اللّٰہ کے حقیقی چچا تھے) نقیب الاشراف ہیں۔ مَیں سن کر پریشان ہوا کہ مجھے جس ہستی کی زیارت کرائی گئی ہے وہ تو سیدنا الشیخ ابراہیم سیف الدینؒ ہیں۔ میں نے حضرت سیدنا الشیخ ابراہیم سیف الدینؒ کے بارے میں استفسار کیا تو پتہ چلا کہ وہ رشتے میں نقیب الاشراف حضرت سیدنا الشیخ احمد عاصم رحمہ اللّٰہ کے بھتیجے ہیں۔ اور بڑے صاحبِ روحانیت، صاحبِ تصرف اور صاحبِ جلالت بزرگ ہیں۔(انہیں شیخ المشائخ حضرت سیدنا طاہر علائو الدین القادری الگیلانی رحمہ اللّٰہ کے والد گرامی حضرت سیدنا الشیخ محمود حسام الدینؓ کے زیر پرورش رہنے اور اکستابِ فیض کا خصوصی شرف حاصل رہا ہے)۔ میں نے آپ کی رہائش کے بارے میں پوچھا تو پتہ چلا کہ فلاں اوقات میں دربار غوثیت مآب میں اپنے حجرے میں آکر بیٹھتے ہیں۔ آپ مغرب کے وقت اپنے حجرے میں تشریف لائے۔ میں نے دست بوسی و قدم بوسی کے بعد عرض مدعا کیا حضرت رحمہ اللّٰہ نے کمال شفقت فرماتے ہوئے شرفِ بیعت عطا کیا۔ اس موقع پر کئی دن تک ڈاکٹر صاحب اپنے شیخ طریقت کی خدمت میں زیر تربیت رہے۔ اور صحبت خاص میں رہ کر اکتسابِ فیض کیا۔ شیخ کامل نے مرید ِ خاص کو خصوصی تعلیم و تلقین اور ردائے شفقت کے سائے میں اگلی منزل کی جانب روانہ کیا۔
سیدنا الشیخ ابراہیم سیف الدینؒ ’’بمبئی والے پیر‘‘ کے لقب سے مشہور تھے۔ آپ عراق میں اسلامی انقلاب لانا چاہتے تھے مگر انگریز حکومت نے آپ کو ملک بدر کر دیا۔ آپ 20 سال کے لگ بھگ بمبئی میں قدوۃ الاولیاء حضرت سیدنا طاہر علائو الدین القادریؒ کے بڑے بھائی حضرت سیدنا الشیخ جمال الدین ؒکے ہاں مقیم رہے اور بعد ازاں واپس تشریف لے آئے۔
جب انسان کسی منزل کو پالیتا ہے تو سوچتا ہے کہ مجھے اس مقام پر پہنچانے والا کون ہے؟ یہ سب کس کا فیضان ہے۔ عظمتِ انسانیت کے آسمان پر چمکنے والے نجوم و کواکب کس کے فیضانِ نور سے چمک رہے ہیں۔ اور ہر سو کس مہر تاباں کی جلوہ سامانیاں اور آفتاب درخشندہ کی ضیاء پاشیاں ہیں؟ گلشن دہر کس کی زلفِ عنبریں سے عطر بیز اور دبستانِ وجود کس کے پائے ناز کے بوسوں میں سجدہ ریز ہے؟ تو انسان کی نظر لامحالہ اس مرکز مہر و وفا، سرچشمۂ رشد و ہدیٰ، منبع انوارِ محبوبِ کرد گار سیدی و مولائی ختمی مرتبت حضور سرورِ کائنات ﷺ پر پڑتی ہے جو فخر موجودات اور رونقِ بزم کائنات ہیں۔ پھر آپ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں حاضری کی تمنا دل میں چٹکیاں لینے لگتی ہے۔ دنیا ویران اور محفلیں سنسان لگنے لگتی ہیں اور اس درِ اقدس کی چوکھٹ کا بوسہ لئے بغیر چین نہیں آتا۔
ڈاکٹر صاحب کے دل کی دنیا میں بھی بحرِ محبت نے جوش مارا اور سرزمینِ حجاز کو اپنی آنکھ کا سرمہ بنانے کے لئے بے چین ہوگئے۔ یہ سچ ہے کہ متاعِ دنیوی کے بغیر عشق و مستی کی منزلیں بھی طے نہیں ہوتیں لیکن دل کی تمنائوں اور آرزوئوں پر بھی تو کوئی پہرہ نہیں لگایا جا سکتا۔ شوقِ فراواں کے سامنے بھی تو کوئی بند نہیں باندھا جا سکتا۔ چنانچہ بیتابیٔ دل نے مجبور کیا تو شیخ کامل سے اپنی مشکل کے بارے میں مشکل کشائی کی درخواست کی۔ انہوں نے فرمایا فرید الدین رحمہ اللّٰہ ! تمہارا انتظام کر دیا گیا ہے۔ ’’روزنامہ آفتاب قائد انقلاب کے انٹرویو کے حوالے سے اپنی 26 مئی 1989ء کی اشاعت خاص میں لکھتا ہے کہ جب ڈاکٹر صاحب نے اپنے پیرومرشد سیدنا الشیخ ابراہیم سیف الدینؒ سے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تو شیخ کامل نے مراقبہ فرمایا اور تھوڑی دیر کے بعد سر اُٹھا کر ارشاد فرمایا فریدالدینؒ! آپ کا معاملہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سپرد کر دیا ہے۔ آپ نجفِ اشرف چلے جائیں۔ وہاں حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کے مزار مبارک پر مراقب ہوجانا۔ قبلہ والد صاحب فرماتے ہیں۔ مَیں پیر و مرشد کا حکم سن کر فوراً نجفِ اشرف کی طرف روانہ ہوگیا۔ چند روز کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کے مزار مبارک کے سامنے حاضر تھا۔ حضرت سیدنا الشیخ ابراہیم سیف الدین رحمہ اللّٰہ کے حکم کے مطابق حضرت علیکرم اللہ وجہہ الکریم کے مزار مبارک پر مراقبے میں بیٹھا رہا۔ فرماتے ہیں اچانک حضرت سیدنا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریمکی روح مبارک ایک نور بن کر چمکی۔ مولائے کائنات شیر خدا حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے بیداری کے عالم میں مراقبے کے دوران ہاتھ پکڑ کر مدینہ پاک پہنچا دیا۔ گویا مراقبے میں اس طرح کا مشاہدہ کروا دیا۔ جیسے خواب کا ایک مشاہدہ ہوتا ہے۔ والد صاحب قبلہ بغداد شریف واپس تشریف لائے تو شیخ طریقت نے از راہِ شفقت پوچھا، فرید الدین رحمہ اللّٰہ ! وہاں کیا دیکھا؟ عرض کیا حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے اس طرح کرم فرما دیا۔ ارشاد ہوا توپھر آپ کی آرزو کی تکمیل کا انتظام ہوگیا نا!
ڈاکٹر صاحب کا یہ معمول تھا کہ جب بھی کوئی ظاہری اُلجھن، باطنی مسئلہ یا کوئی اشکال درپیش ہوتا، تو اسے اس کی نوعیت کے پیش نظر آقائے دو جہاں سرورِ کائنات ﷺ کی بارگاہ میں اور حضرت سیدنا غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے حضور پیش کرتے۔ اگر معاملہ آقائے دو جہاں ﷺ کی بارگاہ میں پیش کرنا ہوتا تو نمازِ تہجد کے بعد مدینہ طیبہ کی جانب متوجہ ہو کر قصیدہ بردہ شریف کے اشعار رو رو کر پڑھتے اور اگر معاملہ حضور غوث پاکؓ کی خدمت میں پیش کرنا ہوتا تو بغداد شریف کی جانب متوجہ ہو کر گیارہ مرتبہ قصیدۂ غوثیہ کا ورد کرتے اور بعد ازاں اپنا مسئلہ یا اُلجھن پیش کرتے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ پر سرکارِ دو عالم علیہ السلام اور حضور غوث اعظم رضی اللہ عنہ کے لطف و کرم اور نوازشاتِ کریمانہ کا یہ عالم تھا کہ انہیں بلا تاخیر پہلی ہی رات ان عظیم بارگاہوں سے راہنمائی عطا ہو جاتی۔ شہنشاہِ بغداد سیدنا غوث الاعظم جیلانی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کے روحانی قرب اور پختگی نسبت کا یہ عالم تھا کہ کئی بار آپ کو نیم بیداری کی حالت میں حضور غوث پاکؓ کی زیارت ہوئی اور انہوں نے آپ کو رہنمائی عطا کی۔
پروفیسر صاحب راوی ہیں کہ بچپن میں بسااوقات کسی مسئلے میں حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ سے رہنمائی درکار ہوتی تو اباجان مجھے آپؓ کی بارگاہ میں وہ مسئلہ پیش کرنے کے لئے فرماتے۔ میں عرض کرتا کہ آپ خود مسئلہ پیش کیوں نہیں فرماتے؟ تو ارشاد فرماتے کہ بیٹا! شہنشاہِ بغداد حضرت غوث الاعظم رضی اللہ عنہ تم پر خصوصی لطف و کرم فرماتے ہیں۔ اور اپنے اسی خصوصی لطف و کرم اور شفقت کی وجہ سے تمہیں جلد جواب عطا فرمائیں گے۔ میں ابھی بچہ ہی تھا اور مجھ پر حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کا یہ کرم قبلہ والد صاحب رحمہ اللّٰہ پر آپص کے خصوصی لطف و کرم اور عنایت و بخشش ہی کی وجہ سے تھا۔
سرزمین جھنگ کے ایک صاحبِ روحانیت فقیر منش اور مرتاض درویش حضرت میاں صالح محمدؒ جن کی پوری زندگی تقویٰ و طہارت، ریاضت و عبادت اور مجاہدے میں گزری۔ اور جنہیں ایک مرتبہ عالم بیداری میںمسجد کے احاطے میں سرکارِ دو عالم ﷺ کی زیارت بھی نصیب ہوئی، کا معمول تھا کہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ جب بھی گھر سے نکلتے وہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کو دیکھ کر دست بستہ دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہو جاتے۔ اور اس وقت تک حرکت نہ کرتے جب تک کہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ گلی کا موڑ مڑ نہ جاتے۔ حضرت شیخ الاسلام نے میاں صالح محمد رحمہ اللّٰہ کے اس معمول کا بچشم خود مشاہدہ کیا ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے میاں صالح محمد رحمہ اللّٰہ سے پوچھا کہ آپ ابا جان کا غیر معمولی ادب کیوں فرماتے ہیں اور اس طرح دست بستہ کھڑے ہو جانے کا اہتمام کیوں کرتے ہیں؟ حضرت میاں صالح محمد رحمہ اللّٰہ نے فرمایا آپ کے والدِ محترم کا روحانی مقام بہت بلند ہے۔ آقائے نامدار سرورِ کائنات ﷺ اور حضور غوثِ پاک رضی اللہ عنہ کا ان پر بے حد کرم ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اور حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی بارگاہ سے انہیں اتنے فیوضات ملتے ہیں کہ کم ہی کسی کو نصیب ہوتے ہوں گے۔ دونوں بارگاہوں اور ان عظیم نسبتوں سے ان کو اس قدر فیض ملتا ہے کہ کسی کو اندازہ تک نہیں۔ اور ان کے یہ مقامات عام لوگوں سے مخفی ہیں۔ میں نے کئی مرتبہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کے ان مقامات کا اُن بارگاہوں میں مشاہدہ کیا ہے۔
اپنی وفات سے ڈیڑھ دو سال قبل حضرت میاں صالح محمد رحمہ اللّٰہ کا یہ معمول قبلہ ڈاکٹر صاحب کے فرزند ارجمند حضرت شیخ الاسلام کے ساتھ بھی رہا۔ آپ جب بھی حضرت میاں صالح محمد رحمہ اللّٰہ کے سامنے آتے وہ دست بستہ دیوار کی جانب پشت کر کے اس سے پیوست ہو کر کھڑے ہو جاتے۔
یہاں قبلہ پروفیسر صاحب پر حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کے خصوصی لطف و کرم اور عنایت و شفقت کے حوالے سے ایک واقعہ کا بیان خالی از دلچسپی نہ ہوگا۔ ہوا یوں کہ ایک مرتبہ آپ نے میاں صالح محمد رحمہ اللّٰہ سے درخواست کی کہ جب حضور غوثیت مآب رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں روحانی حاضری ہو تو میرا سلام عرض کر دیجئے گا۔ آپ حضرت میاںصالح محمد رحمہ اللّٰہ سے اس نوعیت کی درخواست اکثر کرتے رہتے تھے۔ لیکن وہ ہر مرتبہ یہ کہہ کر ٹال دیتے تھے کہ آپ خود مقبول بارگہِ غوث الوریٰ ہیں۔ اور آپ پر ان کی بے پایاں شفقتیں ہیں، میں کس قابل ہوں؟ القصہ آپ نے باصرار حضرت میاں صالح محمد رحمہ اللّٰہ کو اس پر راضی کر لیا۔ اگلی صبح جب حضرت میاں صاحب رحمہ اللّٰہ کی آپ سے ملاقات ہوئی تو وہ یہ کہتے ہوئے آپ سے لپٹ گئے کہ بابا آپ بڑے مرتبے والے ہیں۔ آپ کی براہِ راست حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کی کچہری تک رسائی ہے۔ ہم فقیروں کو درمیان میں کیوں لاتے ہو۔ یہ کہہ کر انہوں نے اپنی گذشتہ رات کا مشاہدہ بیان فرمایا۔ فرماتے ہیں کہ میں حضور غوثِ پاکؓ کی کچہری میں اس نیت سے داخل ہوا کہ آج ضرور طاہر صاحب کا سلام عرض کروں گا۔ لیکن جب آپ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں پہنچا تو یہ دیکھ کر میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ آپ ایک ننھے منے بچے کی مثل حضور غوث الاعظمؓ کی گود میں بیٹھے کھیل رہے ہیں اور حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ آپ پر بے پناہ شفقت فرما رہے ہیں۔
قبلہ ڈاکٹر صاحب کے ایک دوست تھے جن کا نام شیخ گل محمد تھا۔ شیخ گل محمد انتہائی سادہ، درویش طبع اور شریف النفس انسان تھے۔ ایک دفعہ انہوں نے بی۔ ڈی ممبر کا الیکشن لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کا معمول تھا کہ زندگی میں جب بھی کوئی اہم معاملہ پیش آتا، حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ سے مشورہ ضرور کرتے۔ لیکن اس مسئلے میں انہوں نے حضرت ڈاکٹر صاحب سے مشورہ نہ کیا اور اس توقع پر کہ ڈاکٹر صاحب مہربان دوست ہیں ضرور حمایت کریں گے، الیکشن لڑنے کا پروگرام بنا لیا۔ شیخ گل محمد صاحب کی پوزیشن بظاہر نہایت کمزور تھی۔ ان کامد مقابل انتہائی مضبوط اور وسیع سیاسی و سماجی تجربے کا حامل اُمیدوار تھا۔ دونوں کی سطح اور سیاسی تجربے و مہارت میں نمایاں فرق تھا۔ مد مقابل اُمیدوار کی پشت پر جھنگ کی معروف سیاسی شخصیات نواب افتخار احمد انصاری اور سید عابد حسین کی سیاسی بصیرت اور تجربہ بھی تھا جبکہ شیخ گل محمد صاحب انتہائی مسکین الطبع درویش صفت تھے۔ سیاسی سوجھ بوجھ، عملی تجربہ اور انتخابی حکمت و بصیرت ہر اعتبار سے فریق ثانی کا پلڑا بھاری تھا۔قصہ مختصر شیخ گل محمد صاحب نے ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ سے کھل کر حمایت کی درخواست کی۔ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ نے فرمایا کہ سوچ کر بتائوں گا۔ اگلی صبح ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ نے ببانگِ دھل شیخ گل محمد صاحب کی حمات کا اعلان کر دیا۔ شیخ گل محمد صاحب ظاہری حالات کی وجہ سے مایوس اور شکستہ دل تھے۔ الیکشن سے ایک دن قبل شام کے وقت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنی پریشانی بیان کی۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے فرمایا صبح بتائوں گا۔ شیخ صاحب نے کہا صبح تو الیکشن ہے۔ آپ رحمہ اللّٰہ نے فرمایا صبح صبح بتادوں گا۔ پولنگ کے آغاز سے قبل شیخ صاحب پھر حاضر ہوئے۔ آپ نے فرمایا کہ شیخ صاحب جائو اور ببانگِ دھل عوام میں جا کر اس بات کا اعلان کردو کہ میں گیارہ ووٹوں سے جیت جائوں گا۔ شیخ صاحب نے کہا اس کا کیا مطلب؟ آپ نے فرمایا یہ غوث پاک رضی اللہ عنہ کا کرم ہے۔ اپنی نسبت ان سے قائم کرلو کبھی مات نہیں کھائو گے۔ میں نے تمہارا معاملہ حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں عرض کیا تھا انہوں نے شفقت فرما دی ہے۔ اگر گیارہ ووٹوں سے الیکشن جیت جائو تو سمجھ لینا کہ یہ انہی کا کرم ہے۔معرکہ الیکشن بپا ہوا۔ حالات بظاہر بڑے مخدوش تھے۔ اور شیخ صاحب کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں تھا۔ ووٹوں کی گنتی ہوئی بار بار ووٹ گنے گئے بالآخر شیخ گل محمد صاحب گیارہ ووٹوں سے الیکشن جیت گئے۔ اس امر کی تصدیق آج بھی الیکشن کے سرکاری ریکارڈ اور شیخ گل محمد صاحب کے صاحبزادے شیخ محمد فاروق ایڈووکیٹ سے جو جھنگ میں انکم ٹیکس کی پریکٹس کرتے ہیں، کی جا سکتی ہے۔
کامیابی کے بعد شیخ گل محمد گھوڑا اور ہارلے کر اپنے بیٹے اور سینکڑوں سپورٹرز کے ساتھ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کے گھر پر آئے، ڈاکٹر صاحب کو ہار پہنائے اور گھوڑے پر سوار ہونے کو کہا، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ کامیابی درحقیقت ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ ہی کی کامیابی اور انہی کی حمایت مرہونِ منت ہے۔ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے ہار شیخ صاحب کو پہنا دئیے اور فرمایا کہ شیخ صاحب مقصد فریقِ ثانی سے محاذ آرائی نہیں تھا، کوئی وجہ تھی جس وجہ سے تمہاری کھل کر تائید اور حمایت کی، کامیابی آپ کو مبارک ہو۔ شیخ صاحب کو دعا دی اور روانہ کر دیا۔ اس طرح شیخ صاحب کی کامیابی پر جشن کا جلو س ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کی رہائش گاہ سے روانہ ہوا۔
پروفیسر صاحب کی خوشدامن اور چچی جان کی نانی اماں ایک انتہائی نیک، متقی اور صالح خاتون تھیں۔ وہ حضور غوث الاعظم رحمہ اللّٰہ کی بڑی عقیدتمند تھیں اور باقاعدگی سے ’’گیارھویں شریف‘‘ کیا کرتی تھیں۔ موصوفہ جھنگ شہر میں مقیم تھیں، جبکہ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ ان دنوں ’’حسو بلیل‘‘ میں تعینات تھے۔ ایک رات حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ ڈاکٹر صاحب کے خواب میں تشریف لے آئے اور فرمایا: ’’فرید الدین رحمہ اللّٰہ ! ہماری مریدنی (نام لے کر فرمایا) اور عقیدتمند آج رات فوت ہوگئی ہے تو جنازے کے لئے فی الفور پہنچ جا!‘‘ڈاکٹر صاحب 30/40 میل کا فاصلہ طے کر کے علی الصبح جھنگ شہر پہنچ گئے۔ مرحومہ کے بیٹے ابھی شہر میں دیگر رشتہ داروں اور خود ڈاکٹر صاحب کو اطلاع کرنے کے بارے میں سوچ ہی رہے تھے کہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کو دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اور پوچھا کہ آپ کو اطلاع کیسے ہوئی؟ حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے خواب والا ماجرا بیان فرما دیا۔ جنازے کے بعد یا غالباً رسمِ قل کے موقع پر حاضرین سے خطاب کرتے ہوئے حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ نے فرمایا کہ اگر انسان کی اس عظیم خاندان کے ساتھ سچی نسبت قائم ہو جائے تو وہ اس طرح احوال پر نظر رکھتے۔ اور دستگیری فرماتے ہیں۔ مرحومہ کے تین صاحبزادے ملک صدیق، ملک محمد افضل اور ملک محمد سعید آج بھی بقید حیات ہیں۔ اس واقعے کی لفظ بہ لفظ تصدیق ان سے کی جا سکتی ہے۔ تینوں صاحبزادے اپنی والدہ کی وفات کے وقت کٹر عقائد اور مسلک کے حامل تھے۔ اور اپنی والدہ کے حضور غوثِ پاک رضی اللہ عنہ سے نسبت و تعلق اور ان کے روحانی معمولات کو ہدفِ تنقید بنایا کرتے تھے۔
قائد انقلاب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری راوی ہیں کہ ’’یہ جون 1972ء کی بات ہے میں ان دنوں پنجاب یونیورسٹی میں ایم۔ اے میں پڑھتا تھا۔ میں لاہور سے جھنگ اپنے گھر آیا ہوا تھا ابا جان بھی گھر آئے ہوئے تھے۔ ان کی طبیعت بوجھل تھی۔ اور ہلکا ہلکا ٹمپریچر بھی تھا۔ جب گھر کے سارے افراد سو گئے تو میں نے عرض کی ابا جان رحمہ اللّٰہ ! اگر اجازت ہو تو آپ کا بدن دبادوں؟ ابا جان رحمہ اللّٰہ کا معمول تھا کہ مجھے اپنا بدن دبانے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ اور میرے اصرار کے باوجود ٹانگیں سمیٹ لیتے تھے۔ یہ شرف میرے چھوٹے بھائی جاوید مرحوم کے لئے مختص تھا۔ لیکن آج کی رات انہوں نے شفقت فرماتے ہوئے مجھے اجازت مرحمت فرما دی۔ میں آپ کا بدن دبانے لگا۔ تھوڑی دیر بعد قبلہ ابا جان رحمہ اللّٰہ فرمانے لگے بیٹا! ایک بات بتائو۔ میں نے کل رات یہ خواب دیکھا ہے کہ ایک لاری اڈا ہے جس کے مسافر خانے میں ایک کمرہ ہے۔ کوئی مجھے بتلاتا ہے کہ کمرے میں حضور سیدنا غوث الاعظم غوث الثقلین رضی اللہ عنہ تشریف لائے ہوئے ہیں۔ میں کمرے میں حاضر ہوتا ہوں۔ آپ تخت پوش پر کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں اور حالتِ قیام میں ہیں۔ میں قریب ہی بیٹھ جاتا ہوں۔ آپ نماز سے فارغ ہوتے ہیں نہ رکوع نہ سجود۔ بس کھڑے کھڑے سلام پھیر دیتے ہیں۔ میں قدم بوسی کے بعد استفسار کرتا ہوں کہ حضرت یہ کون سی نماز ہے؟ نہ رکوع نہ سجود۔ آپ رضی اللہ عنہ تخت پوش سے اُتر کر مجھے گلے لگا لیتے ہیں اور از راہِ شفقت تھپکی دیتے ہوئے فرماتے ہیں : فرید الدین رحمہ اللّٰہ ! میں نے یہ نمازِ جنازہ پڑھی ہے تم صبر کرنا۔ میں عرض کرتا ہوں۔ حضور ! کس کا جنازہ؟ آپ فرماتے ہیں تم صبر کرنا۔ اللہ تعالیٰ تجھے صبر عطا کرے۔ میں اسی تلقین کے لئے آیا ہوں۔ اتنے میں میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ سلسلہ کلام جاری رکھتے ہوئے ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ اپنے فرزندِ جلیل سے فرماتے ہیں۔ سوچ رہا ہوں ماجرا کیا ہے؟ ہمارے گھر کوئی بیمار بھی تو نہیں لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ گھر میں کوئی مرگ ہونے والی ہے اور وہ بھی اتنی قریبی اور اہم فرد کی کہ آپؓ خود تشریف لائے ہیں۔ فوت ہونے والے کے لئے دعا بصورت نماز جنازہ اور مجھے صبر کی تلقین فرما رہے ہیں۔ تم ہی بتائو تمہارا کیا خیال ہے؟ گھر میں کوئی بیمار بھی تو نہیں۔حضرت شیخ الاسلام فرماتے ہیں اگلے روز یعنی 10 جون کی صبح ہم ابھی لیٹے ہی ہوئے تھے کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔ میں باہر گیا کوئی دروازے پر کھڑا تھا جس نے بتایا کہ سرکاری طور پر ڈسکہ سے اطلاع آئی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے بھائی مہر غلام محمد کا ہارٹ اٹیک سے انتقال ہوگیا ہے۔ اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْن۔
یاد رہے کہ پروفیسر صاحب کے چچا جان مہر غلام محمد مرحوم بھی حضور سیدنا غوث الاعظم جیلانی رضی اللہ عنہ کے انتہائی کمال درجہ عقیدت مند اور حضورقدوۃ الاولیاء حضرت سیدنا طاہر علائو الدین الگیلانی رحمہ اللّٰہ کے بڑے منظورِ نظر مرید تھے۔ حضور غوث پاکؓ نے اپنے ایک مرید خاص کی وفات کی پیشگی اطلاع فرید ملت رحمہ اللّٰہ کو فرما دی اور اس سانحہ جانکاہ پر انہیں صبر کی تلقین بھی کر دی۔ اس واقعہ سے حضور غوث الثقلینؓ کی قبلہ ڈاکٹر صاحب خصوصی شفقتوں اور بے پایاں لطف و کرم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔
آخر میں’’میں اپنا ایک ذاتی مشاہدہ بیان کرتا ہوں جس سے اس اَمر کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ غوث الوریٰ حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کا فریدِ ملت اور اُن کے خاندان پر کس قدر لطف و کرم ہے۔ اور اُن کی توجہات اور فیوضات و برکات کی بارشیں کس قدر فراوانی کے ساتھ قائد انقلاب پر ہوتی رہتی ہیں۔ یہ دسمبر 1983ء کی بات ہے جب قائد انقلاب کو دوسری مرتبہ شدید قسم کا ہارٹ اٹیک ہوا۔ پروفیسر صاحب کے محبین و مخلصین اور دوست و احباب انتہائی متفکر اور پریشان تھے۔ میں ان دنوں نیا نیا جھنگ سے لاہور منتقل ہوا تھا۔ شب و روز پروفیسر صاحب کے لئے صحت و سلامتی اور درازیٔ عمر کی دعائوں میں بسر ہوتے تھے۔ ان دنوں آئینہ قلب بڑا صاف تھا اور رات کی تاریکیوں میں دیگر ہزارہا محبین و مخلصین کی مانند رو رو کر اللہ کی بارگاہ میں یہ دعا مانگتا تھا کہ الٰہی میری عمر بھی پروفیسر صاحب کو لگا دے اور اس سرمایۂ دین و ملت کو صحت و تندرستی عطا فرما۔ ایک رات اسی عالم میں آنکھ لگ گئی اور خواب میں حضور سیدنا غوث ثقلین رضی اللہ عنہ کے لطف و کرم کا وہ دلنواز اور روح پرور منظر دیکھا کہ آج بھی چشم تصور میں جب وہ لمحات لاتا ہوں تو روح جھوم جھوم جاتی ہے۔ کیا دیکھتا ہوں کہ پروفیسر صاحب کا کمرہ ہے میں بیڈ پر پروفیسر صاحب کو اپنی گود میں لئے بیٹھا ہوں۔ رو رو کر بڑے والہانہ انداز میں پروفیسر صاحب کے چہرے اور جسم کو چوم رہا ہوں۔ اور اللہ رب العزت کی بارگاہ میں یہ دعا کر رہا ہوں کہ الٰہ العالمین! پروفیسر صاحب کو صحت کاملہ عطا فرما اور میری عمر بھی انہیں لگا دے۔ اسی عالم میں جب دوسری جانب نگاہ اُٹھا کر دیکھتا ہوں تو ایک انتہائی ذیشان اور عزت مآب ہستی مصروفِ نماز ہے۔ سبزرنگ کا جبہ اور غالباً سرخ رنگ کا عمامہ پہنے اللہ کے حضور حالتِ تشہد میں ہے وہ عظیم الشان ہستی اس قدر لحیم شحیم ہے کہ اس کا سرِ اقدس چھت کو چھو رہا ہے۔ میرے دل میں دورانِ خواب ہی یہ امر القاء کیا جاتا ہے کہ یہ غوث الثقلین حضرت سیدنا عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان کو دیکھتے ہی میرے دل کو قرار آجاتا ہے۔ طبیعت مطمئن ہو جاتی ہے کہ اب سائیں (مالک) پہنچ گئے ہیں پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ نماز سے فراغت کے بعد بیڈ پر تشریف لے آتے ہیں اور پروفیسر صاحب کو میری گود سے لے کر اپنی گود میں لٹا لیتے ہیں۔ پروفیسر صاحب حضور غوث پاک رضی اللہ عنہ کی گود میں جاتے ہی مچلنا شروع کر دیتے ہیں۔ حضور غوث الوریٰ رضی اللہ عنہ ایک ہاتھ میں دوائی کی پڑیا لیتے ہیں آپؓ کے دوسرے ہاتھ میں شیشے کا ایک گلاس ہے جس میں پانی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ پروفیسر صاحب کو دوائی پلانا چاہتے ہیں لیکن پروفیسر صاحب بالکل بچے کی مانند اس انداز سے مچلنے لگتے ہیں جس طرح بچہ دوائی پلاتے وقت ماں کی گود میں مچلتا ہے اور دوا پینے سے کتراتا ہے۔ بالآخر حضور سیدنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہ زبردستی دوائی پروفیسر صاحب کے منہ میں ڈال کر پانی کا گلاس ان کے منہ کے ساتھ لگا دیتے ہیں۔ گلاس منہ سے ہٹتے ہی پروفیسر صاحب پرُسکون ہو جاتے ہیں اوران کے چہرے پر صحت و تندرستی کی چمک آجاتی ہے۔ یہ خواب یہیں ختم ہو جاتا ہے۔ میری آنکھ کھلتی ہے۔ شکرانے کے نفل ادا کرتا ہوں، اُڑ کر پروفیسر صاحب کی خدمت میں پہنچنا اور انہیں یہ مژدۂ جانفزا سنانا چاہتا ہوں لیکن وقت کی گھڑیاں بوجھل ہوئی جا رہی ہیں۔ مؤذن نمازِ فجر کے لئے اذان دیتا ہے۔ نماز باجماعت ادا کرنے کے بعد پروفیسر صاحب کی رہائش گاہ کی طرف روانہ ہو جاتا ہوں۔ صبح ہی صبح ان کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ خوشخبری سناتا ہوں جس پر پروفیسر صاحب فرماتے ہیں کہ رانا صاحب! آج کی رات صرف آپ پر ہی نہیں ادھر ہم پر بھی توجہاتِ غوث الوریٰ کی بارش ہوئی ہے۔ اور بارگہِ غوث الوریٰ رضی اللہ عنہ سے صحت و تندرستی کا پیغام مل گیا ہے۔ اس پر پروفیسر صاحب نے گذشتہ رات کا اپنا مشاہدہ بیان فرمایا جس سے مجھے اطمینان کامل ہوگیا کہ اب خطرے اور پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ جن کے فیضانِ لطف و کرم نے پروفیسر صاحب کو پروان چڑھایا ہے وہی ان کی حفاظت بھی فرمائیں گے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved