علامہ مفتی محمد خان قادری
درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے۔ فرید ملت حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری کی ہمہ صفت شخصیت کی عکاسی کے لئے ان کے فرزند ارجمند قائد انقلاب پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ذات ہی کافی ہے۔ پروفیسر صاحب کے آئینہ مظہریت میں فرید ملت کے علمی مقام کا عکس بتمام و کمال دیکھا جا سکتا ہے۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب کے علو مرتبت علمی مقام کا احاطہ الفاظ میں ممکن نہیں۔ اس سلسلہ میں راقم الحروف کو اپنی کم علمی کا مکمل احساس ہے۔ تاہم حصول برکت کے لئے چند الفاظ پیش خدمت ہیں۔ کسی بھی علمی شخصیت کے مقام کے تعین کے لئے درج ذیل حوالوں سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ مثلاً اساتذہ کرام جن سے اکتسابِ فیض کیا، علوم و فنون، اندازِ تدریس، اسلوبِ تربیت و وُسعت ذوق مطالعہ، قوتِ حافظہ و قوتِ استدلال وغیرہ۔
کسی علمی شخصیت کا مقام اس لحاظ سے بھی متعین ہوتا ہے کہ اس نے کن کن ماہرین علم و فن سے استفادہ کیا ہے۔ استاد فن میں جتنا ماہر ہوگا اس کی جھلک اس کے تلامذہ میں موجود ہوگی۔ اس حوالے سے جب ہم قبلہ ڈاکٹر صاحب کے اساتذہ پر نظر ڈالتے ہیں وہ اپنے وقت کے ممتاز علمائ، اطباء اور شخصیات دکھائی دیتی ہیں۔ ہم ان کے اسماء گرامی اور مختصر تعارف پر اکتفا کرتے ہیں کیونکہ یہ تمام شخصیات محتاج تعارف نہیں۔
یہ جھنگ کے رہنے والے تھے اور درسِ نظامی کے فاضل اساتذہ میں سے تھے۔ حضرت فرید ملت نے درس نظامی کی ابتدائی کتب صرف، نحو اور منطق کی تعلیم انہیں سے حاصل کی۔
یہ سیالکوٹ کی معروف علمی شخصیت تھے۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب نے ان سے درسیات کی ابتدائی کتب پڑھی تھیں۔
آپ کا شمار معتدل علماء میں ہوتا ہے۔ آپ علامہ سید انور شاہ کاشمیری کے مقبول ترین شاگرد تھے۔ فیض الباری شرح بخاری انہیں کی مرتب کردہ ہے۔ حدیث میں اِن کی تصانیف ہیں مثلاً ترجمان السنہ (تین جلدیں )، جواہر الحکم (دو جلدیں) بہت مشہور ہیں۔
مولاناعبدالشکور مدنی علم حدیث میں بڑے ہی ماہر تھے۔ آپ ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں سکونت پذیر تھے۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب نے حدیث کی تعلیم ان سے حاصل کی تھی۔
یہ بزرگ مراکش کے رہنے والے تھے۔ ہجرت کر کے مکہ میں آگئے تھے۔ حرم کعبہ میں بیٹھتے تھے۔ اطراف و اکناف سے آئے ہوئے لوگ ان سے استفادہ کرتے۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب نے آپ سے بھی حدیث کے اسباق پڑھے۔ پروفیسر محمد طاہر القادری صاحب بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اپنے والد گرامی کے ساتھ حرم کعبہ میں ان بزرگوں کی زیارت کے لئے حاضر ہوا تھا۔ وہاں مجھے والد گرامی نے بتایا کہ میں نے ان سے حدیث کی تعلیم حاصل کی ہے۔
یہ شیخ تصوف کے ماہر تھے۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب نے ان سے فصوص الحکم کا درس لیا تھا۔
آپ کی شخصیت سرزمین پاکستان کے لئے قابل فخر تھی۔ ایسے ہی لوگوں کے لئے کہا جا سکتا ہے۔ ’’خاک پنجاب از دم توزندہ گشت۔‘‘
آج پاکستان میں جہاں جہاں عشق و محبت رسول ﷺ اور حدیث رسول ﷺ کے گن گائے جا رہے ہیں۔ اس میں آپ کی خدمات کا نمایاں حصہ ہے۔ آپ سے بھی ڈاکٹر صاحب نے بعض کتب دوبارہ پڑھی ہیں۔ مثلاً ’’شرح عقائد، خیالی، بخاری شریف‘‘ یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ حضرت شیخ الحدیث رحمہ اللّٰہ عصر کے بعد پڑھنے پڑھانے سے منع کرتے تھے مگر قبلہ ڈاکٹر صاحب کے لئے عصر کے بعد وقت مقرر کر دیتے تھے اور اسی میں بعض اسباق پڑھاتے۔
یہ بھی ایک علمی شخصیت تھیں۔ جس کے خاندان نے نصف صدی سے زائد اسلام کی خدمت کی۔ ان کے نام سے ہر ذی شعور واقف ہے۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب نے ان سے مختلف اوقات میں استفادہ کیا۔
اس دور میں خصوصاً پاکستان بننے سے پہلے علماء صرف قدیم علوم سے واقف ہوتے تھے۔ دیگر علوم کو ناپسند کیا جاتا تھا۔ خاص طور پر انگریز کی مخالفت کی وجہ سے انگریزی پڑھنا حرام تھا۔ اس کے بارے میں علماء نے فتویٰ دے رکھا تھا کہ جو شخص انگریزی پڑھے گا وہ اسلام کا وفادار نہیں۔ یہ فتویٰ اس دور کا تقاضا تھا یا نہیں۔ ہم اس مسئلہ پر اس وقت گفتگو نہیں کر رہے۔ لیکن جب یہ تقاضا نہ رہا تب بھی علماء نے جدید علوم کے ساتھ بے اعتنائی ہی برتی۔ ہم خود جب دینی مدارس میں پڑھا کرتے تھے تو اکثر علماء یہی کہتے تھے کہ انگریزی نہ سیکھنا۔ جس کی وجہ سے علماء معاشرے کا ساتھ نہ دے سکے۔ جو حال ہوا وہ ہر ایک کے سامنے ہے۔ قبلہ ڈاکٹر صاحب بھی اگرچہ قدیم روش کے آدمی تھے۔ مگر انہوں نے حالات پر نظر رکھتے ہوئے جدید علوم میں دسترس حاصل کی۔ جہاں آپ نے جدید علوم و فنون سیکھے وہاں آپ نے انگریزی کو بھی سیکھا۔ اور پھر اپنے صاحبزادے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی تربیت بھی اسی نہج پر کی کہ دینی علوم کے ساتھ ساتھ جدید تعلیم بھی دلوائی قبلہ ڈاکٹر صاحب کو جن علوم و فنون میں ماہرانہ دسترس تھی وہ درج ذیل ہیں۔
1۔ صرف 2۔نحو 3۔منطق 4۔فلسفہ 5۔ اصول فقہ 6۔ فقہ 7۔ معانی 8۔علم عروض 9۔عربی ادب 10۔فارسی ادب 11۔طب 12۔حدیث 13۔ اُصول حدیث 14۔اُصول تفسیر 15۔ تفسیر 16۔ تصوف۔
آپ عملی زندگی میں شعبہ طب کے ساتھ متعلق ہوگئے تھے۔ مگر اس کے ساتھ آپ نے درسی کتب کی تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ آپ جہاں بھی ہوتے دو تین گھنٹے ان علوم و فنون کے لئے وقف کرتے تھے۔ ارد گرد سے تشنگان علم اور آپ سے استفادہ کرنے کے لئے آنے والے اکثر منتہی طلبہ ہوتے تھے۔ مشکوٰۃ المصابیح، جلالین، بخاری شریف جیسے اسباق اکثر پڑھاتے تھے۔
آپ سے استفادہ کرنے والے چند تلامذہ کے اسماء گرامی یہ ہیں:
ایک عالم کے لئے کتابیں ہتھیار کا درجہ رکھتی ہیں، ان کے بغیر عالم بے اسلحہ سپاہی ہوتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فارغ ہونے کے بعد اگرچہ باقاعدہ درس و تدریس کا شغل نہیں رکھا مگر ان کے ذوق مطالعہ کی داد دینا پڑتی ہے کہ انہوں نے تمام دنیوی اُمور میں مصروفیات کے باوجود کتب کے ساتھ تعلق قائم رکھا۔ آپ ہر سفر میں اچھی اچھی کتابیں خرید کر لاتے تھے۔ آپ کی لائبریری میں مذکورہ ہر فن پر سینکڑوں کتابیں تھیں۔ جو بعد میں وراثتاً حضرت شیخ الاسلام کو ملیں۔ اور آپ نے ادارہ منہاج القرآن کے لئے وقف کر دیں جو آج اس عظیم لائبریری کی زینت ہیں۔
حضرت سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم کا قول ہے ’’العلم یزداد بالتکرار ‘‘ علم تکرار سے بڑھتا ہے۔ تکرار کی صورتوں میں سے ایک مطالعہ بھی ہے۔ یہ بات مسلمہ ہے کہ مطالعہ کے بغیر وسعت نظر پیدا نہیں ہوتی۔حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ تمام مصروفیات کے باوجود مطالعہ جاری رکھتے۔ ہر روز ان کی چارپائی یا نشست کے ارد گرد چالیس پچاس کتب موجود رہتیں۔ مسلسل پانچ پانچ گھنٹے ورق گردانی کرتے رہتے۔ قلم ہاتھ میں رکھتے جہاں کہیں اہم نکتہ اور دلیل میسر آتی، اسے کتاب کی ابتداء میں نوٹ فرما لیتے۔ اور صفحہ بھی لکھ دیتے۔ گویا ان کے مطالعہ میں نظم بھی قابل دید تھا۔ بعض کتب پر ابتداء میں دئیے ہوئے نوٹ کتاب کی اپنی فہرست سے زیادہ ہیں۔ خصوصاً بخاری شریف اور جواہر البحار۔ ہر شخص آج بھی ان کے مطالعہ میں آنے والی کتب کا مشاہدہ کر سکتا ہے کہ وہ کتنی گہرائی و گیرائی کے ساتھ کتاب کا مطالعہ کرتے تھے۔ کتاب کا ہر گوشہ ہر سطر ہر لفظ ان کے سامنے ہوتا۔ان کے مطالعہ میں اکثر آنے والی کتب وہ ہیں جن کا موضوع فضائل و شمائل رسول ﷺ ہے۔ خصوصاً امام شعرانی، امام نبھانی اور ابن القیم کی کتابوں کا مطالعہ کرتے۔ اس کے بعد تصوف کے ساتھ انہیں خصوصی شغف تھا۔ تصوف کی کتابوں میں سے سب سے زیادہ لگاؤ مثنوی کے ساتھ تھا۔ خصوصاً آخری عمر میں سوتے جاگتے مثنوی ان کے ساتھ ہوتی۔ ویسے تو دوران مطالعہ سامنے آنے والے سینکڑوں مسائل پر ان کے دئیے ہوئے حواشی اور نوٹ ہیں مگر ان عبارات پر جن میں حضور ﷺ کی فضیلت و عظمت کا بیان ہے ان کا نشان ضرور موجود ہے۔
85ء کی بات ہے کہ تفسیر مظہری کا مطالعہ کرتے ہوئے سورۂ نور میں مَیں نے پڑھا کہ سیدہ حلیمہ رضی اللہ عنہا جب حضور علیہ السلام کو لے کر مکہ سے روانہ ہونے لگیں تو انہوں نے پہلے خانہ کعبہ کا طواف کیا۔ جب حضور ﷺ کو ساتھ لے کر خانہ کعبہ پہنچیں تو جی چاہا کہ حجراسود کو بوسہ دیں۔ حجر اسود خود اپنی جگہ سے حرکت کر کے آگے بڑھا اور اس نے حضور ﷺ کے چہرہ اقدس کے بوسے لینے شروع کر دئیے۔ یہ بات میری نظر میں پہلی مرتبہ گزری تھی۔قبلہ شیخ الاسلام میرے ہاں شادمان تشریف لائے تو میں نے عرض کیا کہ تفسیر مظہری میں حضور علیہ السلام کی یہ فضیلت درج ہے۔ آپ بھی خوش ہوئے اور فرمایا میری نظر سے پہلے یہ نہیں گزرا۔ اسی وقت میرے ذہن میں آیا کہ ڈاکٹر صاحب کے زیر مطالعہ آنے والا تفسیر مظہری کا نسخہ دیکھا جائے۔ کیا ان کے مطالعہ میں یہ بات آئی تھی یا نہیں؟ جب میں نے لائبریری میں جا کر تفسیر مظہری کی وہ جلد اور صفحہ نکالا تو حیرت کی انتہا نہ رہی کہ ڈاکٹر صاحب نے اپنے قلم سے وہاں حوالہ لگایا ہوا تھا۔
قبلہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کے علمی مقام کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کا جن جن مقامات و اجتماعات میں جانا ہوتا تھا۔ اکثر ان میں آپ ہی کا خطاب ہوتا، پھر آخری خطاب آپ کا ہوتا۔ ہم یہاں صرف دو واقعات کا تذکرہ کرتے ہیں۔
سیال شریف میں شیخ الاسلام خواجہ محمد قمر الدین رحمہ اللّٰہ کی صدارت میں جو عرس پاک کی تقریب ہوتی تھی۔ اس میں ملک کے گوشے گوشے سے مشائخ اور جید علماء شریک ہوتے۔ خصوصاً آپ کے خلفاء گولڑہ شریف، جلالپور شریف، بھیرہ شریف۔ اس کے علاوہ ہزاروں علماء و سامعین بھی موجود ہوتے۔ جب مجلس اپنے عروج پر پہنچتی تو خواجہ صاحب قدس سرہٗ العزیز قبلہ ڈاکٹر صاحب کو خطاب کے لئے حکم دیتے۔ آپ کا خطاب آخری ہوتا بعض اوقات صرف آپ ہی کا خطاب ہوتا۔ اس کے بعد خواجہ صاحب کلمات تحسین فرماتے۔
ایک موقع پر قبلہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ان کے صاحبزادے محمدطاہر بھی تھے۔ خواجہ صاحب نے ڈاکٹر صاحب سے فرمایا کہ کیا آپ کا بیٹا بھی خطاب کرے گا؟ آپ نے عرض کیا کہ حضرت کا جو حکم ہو؟ آپ نے فرمایا کہ اس دفعہ اپنے بیٹے کا خطاب بھی ہمیں سناؤ۔ آپ کے صاحبزادے نے شہادت کے موضوع پر خطاب کیا اس جلسہ کی روئیداد سیال شریف سے جاری کردہ رپورٹ میں شائع ہوئی جو من و عن قارئین کے ذوق کے لئے نقل کی جاتی ہے:
’’جناب محمد طاہر صاحب قادری نے (جو کہ ڈاکٹر غلام فرید الدین صاحب جھنگوی کے صاحبزادے ہیں) فلسفۂ شہادت پر بڑے پیارے انداز میں تقریر کی۔ سامعین بہت خوش ہوئے اور جناب صدرِ دارالعلوم نے تحسین کی۔ اور ارشاد فرمایا کہ یہ عزیز ایک دن اہل علوم میں نمایاں مقام حاصل کرے گا۔‘‘
(روئیداد دار العلوم ضیاء شمس الاسلام سیال شریف، بابت سال 1967/68ئ)
چونکہ ان دنوں ڈاکٹر صاحب نے داڑھی نہیں رکھی تھی بعض لوگوں نے خواجہ صاحب سے عرض کیا کہ ان کی داڑھی نہیں ہے۔ ہزاروں مشائخ اور علماء کی موجودگی میں آپ خطاب کا حکم دیتے ہیں۔ مناسب معلوم نہیں ہوتا آپ نے جواباً ارشاد فرمایا کہ ٹھیک ہے ان کی داڑھی نہیں ہے۔ لیکن ڈاکٹر صاحب قلندر ہیں اگر کوئی صاحب نظر ہو تو اسے ان کے اندر داڑھی بھی نظر آئے۔
حضرت العلام مولانا عبدالرشید رضوی کے والد گرامی حضرت مولانا قطب الدین رحمہ اللّٰہ نے جھنگ کے قریب ایک دیہات میں تشنگان علوم کے لئے ایک ادارہ قائم کیا ہوا تھا۔ جو آج کل آپ کے صاحبزادے حضرت مولانا عبدالرشید رضوی کے زیر انتظام قائم ہے۔
اس ادارے میں ملک کے اطراف و اکناف سے طلبہ تعلیم حاصل کرتے۔ جب اس جامعہ کا سالانہ جلسہ منعقد ہوتا تو اس کی مختلف نشستیں ہوتیں، مگر آخری نشست کی صدارت حضرت شیخ الاسلام خواجہ محمد قمر الدین سیالوی رحمہ اللّٰہ فرماتے۔ اس آخری نشست میں بھی سینکڑوں علماء موجود ہوتے۔ اور اس میں بھی قبلہ ڈاکٹر صاحب کا خطاب ہوتا۔
علماء و فضلاء کے اجتماع میں ڈاکٹر صاحب موجود ہوتے۔ اگر وہاں کوئی شرعی مسئلہ درپیش ہوتا مثلاً کسی نے سوال کر دیا یا چٹ بھیج دی تو اس وقت تمام علماء آپ کی طرف رجوع کرتے۔ آپ کا انتخاب کرتے اور قبلہ ڈاکٹر صاحب فی الفور متعدد حوالہ جات سے اس کا جواب ارشاد فرماتے۔
حدیث میں آیا ہے کہ انسان اپنے ساتھیوں سے پہچانا جاتا ہے کہ وہ کیسا ہے؟ یہاں ہم ان اکابر مشائخ اور علماء کا تذکرہ کرتے ہیں جن کا آپ کے پاس آنا جانا رہتا اور ان کے ساتھ علمی نشستیں ہوتیں۔
یوں تو وقتاً فوقتاً مختلف بزرگوں کے ساتھ آپ کی روحانی اور علمی نشستیں ہوتی رہتی تھیں ہم یہاں چند ایک کا تذکرہ کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
حضرت علامہ احمد سعید کاظمی رحمہ اللّٰہ مسئلہ تکفیر یزید میں خاموشی کے قائل تھے۔ محترم ڈاکٹر صاحب یزید کی تکفیر کرتے تھے۔
ایک دفعہ ان دونوں بزرگوں کی اس مسئلہ پر بڑی تفصیل کے ساتھ گفتگو ہوئی۔ یہ گفتگو تقریباً تین گھنٹے جاری رہی۔ آپ نے حضرت کاظمی صاحب رحمہ اللّٰہ کی خدمت میں تکفیر یزید پر کتب عقائد، تفاسیر اور شروحات حدیث میں سے حوالہ جات پیش کیے اور حضرت کے علمی اعتراضات کے جوابات بھی دیے۔ اس گفتگو کے اختتام پر حضرت کاظمی رحمہ اللّٰہ نے فرمایا:
’’ڈاکٹر صاحب آپ نے جو حوالہ جات بیان کئے ہیں ان میں سے بعض میری نظر سے پہلے نہیں گزرے میں یہ کتابیں لے جاتا ہوں ان پر غور کروں گا۔‘‘
حضرت علامہ عبدالغفور ہزاروی رحمہ اللّٰہ متصوف ہونے کے ساتھ ایک فلسفی عالم تھے۔ ان کی تقریر و گفتگو میں جہاں تصوف کی چاشنی ہوتی تھی وہاں منطق و فلسفہ کے مسائل بھی زیر بحث آتے۔ جب علامہ محروم ڈاکٹر صاحب کے ہاں آتے تو اکثر و بیشتر مسائل تصوف پر گفتگو ہوتی تھی۔ ایک دفعہ فلکیات کے موضوع پر دونوں بزرگوں کے درمیان گفتگو ہوئی یہ گفتگو تقریباً اڑھائی گھنٹے جاری رہی۔
استاذالعلماء مولانا عبدالرشید رضوی دورانِ مطالعہ و تدریس جب کوئی اُلجھن محسوس کرتے تو قبلہ ڈاکٹر صاحب کے ہاں تشریف لا کر ان کی رائے طلب کرتے بعض اوقات کافی دیر تک بحث و تمحیص بھی ہوتی۔
ہمارے ہاں اب مناظرہ نہیں رہا بلکہ مجادلہ کا پہلو غالب ہو چکا ہے۔ چند سال پہلے تک ہر مسلک کے علماء کے درمیان باہم مختلف فیہ مسائل پر گفتگو ہوتی رہتی تھی۔ یہ ایک دوسرے کے نکتہ ہائے نظر کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے، تاکہ ہر ایک کے دلائل سامنے آئیں اور اس کے بعد ہر ذی فہم ان دلائل کی روشنی میں اپنے ذہن کو قائل کر سکے۔
اس طرح کے اختلاف و مناظرہ سے مختلف مسائل پر تحقیقات ہوتی ہیں۔ جس سے امت کو آسانی کی راہ ملتی ہے۔ صحابہ کرامؓ سے لے کر آج تک امت میں ایسا اختلاف رہا ہے اور یہ اختلاف ’’اختلاف امتی رحمتہ‘‘ کا مصداق تھا۔ اب بھی اگر اسی طرح کا اختلاف کوئی شخص کرتا ہے تو خوش آمدید کہا جاتا ہے۔ لیکن لعن طعن اور جبر کا سلسلہ اختلاف نہیں بلکہ مخالفت ہے جو اسلام میں ہرگز پسند نہیں۔ڈاکٹر صاحب چونکہ صوفی مزاج تھے اس لئے مناظروں سے دور رہتے۔ لیکن جب کہیں آپ اس کا فائدہ محسوس کرتے وہاں ضرور شریک ہوا کرتے۔
مشہور پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام کے والد مولوی محمد حسین ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز جھنگ اور ان کے تایا مولوی غلام حسین ڈسٹرکٹ انسپکٹر آف سکولز دونوں مرزائی تھے۔ ان کا شمار اس وقت کے علماء مرزائیت میں ہوتا تھا۔ ان کی قبلہ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات تھی ان دونوں علماء کا آپ سے ایک مرتبہ مناظرہ ہوا۔ موضوع یہ تھا کہ کیا حضور ﷺ کے بعد بھی کوئی نبی آسکتا ہے یا نہیں؟ قبلہ ڈاکٹر صاحب نے تین گھنٹے کے مباحثے میں ان دونوں کو یہ بات ماننے پر مجبور کر دیا کہ واقعتا کتاب و سنت کی روشنی میں حضور علیہ السلام کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔ ہم اپنے سابقہ عقیدے سے توبہ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر احسان صابری قریشی اس مناظرے کے روئیداد ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔ ’’ایک بار جھنگ شہر میں ڈاکٹر فرید الدین قادری کا مناظرہ ان دونوں بھائیوں سے ’’احمدیت‘‘ کے موضوع پر ہوا۔ میں اس مناظرے میں موجود تھا۔ اور پروفیسر صوفی ضیاء الحق بھی موجود تھے۔ تین دن مناظرہ جاری رہا۔ آخر کار یہ دونوں بھائی اس مسئلہ کو مان گئے کہ رسول اکرم ﷺ کے بعد کوئی نبی ہندوستان میں تو کیا اس دنیا میں بھی نہیں آسکتا۔ اس بات پر مرزائیوں میں کھلبلی مچ گئی۔ اسے ڈاکٹر فرید الدین قادری کی کھلی کرامت کہا گیا۔ بعد میں اگرچہ یہ دونوں بھائی پھر مرزائی ہوگئے تھے۔
قبلہ ڈاکٹر صاحب چونکہ لالیاں میں کچھ عرصہ رہے ہیں وہاں کے لوگ اب بھی اس بات پر متفق ہیں کہ اگر ہمارے ہاں ڈاکٹر صاحب نہ آتے تو ہم تمام ربوہ قریب ہونے کی وجہ سے مرزائی ہو چکے ہوتے لیکن یہ آپ کی آمد کی برکت تھی کہ لوگوں کو مرزائیت سے نفرت ہوگئی۔
جیسا کہ آپ کی تدریس کے ضمن میں بیان ہوا ہے اکثر طلبہ آپ کی خدمت میں حصول علم کے لئے آتے تھے لیکن یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ بعض بڑے بڑے صاحب فن مدرسین بھی آپ کی خدمت میں حصول فیض کے لئے آتے۔
مولانا احمد بخش ضیائی فن نحو میں مسلمہ عالم تھے ان کا طریقہ تھا کہ دوران تدریس و مطالعہ جو نحوی پیچیدگیاں اور اُلجھنیں پیش آتیں بیس پچیس دن کے بعد قبلہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ کی خدمت میں آجاتے۔ ڈاکٹر صاحب سے ایک ایک کر کے بیان کرتے جاتے اور ڈاکٹر صاحب انہیں بڑے ہی احسن انداز میں حل کرتے جاتے یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا۔
ایک عالم کے لئے جہاں دیگر خصوصیات ضروری ہیں وہاں اس کی قوت حافظہ غیر معمولی ہونا بنیادی چیز ہے۔ڈاکٹر صاحب کی قوت حافظہ کا اظہار دوران خطاب و تدریس اکثر مشاہدہ میں آتا۔ کیونکہ کسی بھی موضوع پر جب گفتگو کرتے تو اس موضوع سے متعلقہ کتب ان کے صفحات و سطور کا اور حواشی کا تذکرہ کرتے۔ اور اس کے بعد اس کی طویل عبارات جو آپ کو پانی کی طرح یاد تھیں صحت کے ساتھ بلا توقف پڑھ دیتے۔
ہم یہاں آپ کی قوت حافظہ کے بارے میں قبلہ ڈاکٹر صاحب کا ایک قول نقل کرتے ہیں جو انہوں نے اپنے بیٹے پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری سے بیان کیا:’’طالب علمی اور بعدکے ایام میں میرے حافظہ کا عالم یہ تھا کہ میں اگر پانچ صد صفحات پر مشتمل کتاب کا مطالعہ کر لیتا تو پندرہ سال بیت جانے کے باوجود مجھے اس کی جلد صفحات سطریں اور عبارات یاد رہتی تھیں۔‘‘
بنیادی بات یہ ہے کہ جو شخص جتنا اپنے آپ کو تقویٰ و طہارت، زہد و ورع اور عشق رسول ﷺ سے مزین کر لیتا ہے اسی قدر اسے یہ دولت شرح صدر کی صورت میں نصیب ہوجاتی ہے وہ کتاب کا محتاج نہیں رہتا۔ بلکہ کتابیں اس کی محتاج ہو جاتی ہیں۔
قبلہ ڈاکٹر صاحب چونکہ مجسم عشق رسول ﷺ تھے۔ اس لئے ان کو اللہ تعالیٰ نے شرح صدر کی دولت سے بہر ور کیا تھا۔آپ کی قوت حافظہ و ذہانت کا ایک عملی ثبوت یہ بھی ہے کہ وہ درسی کتب جن کا مطالعہ کئے بغیر بڑے بڑے مدرسین بھی نہیں پڑھا سکتے۔ آپ مطالعہ کئے بغیر پڑھا دیتے اور پڑھنے والا طالب علم کوئی فرق محسوس نہیں کرتا تھا کیونکہ آپ تمام تقاضے پورے کر دیتے تھے۔
پروفیسر صاحب اِس سلسلے میں بیان کرتے ہیں کہ والد گرامی کا معمول یہ تھا کہ آپ رات پچھلے پہر دو اڑھائی بجے اُٹھ کر نماز تہجد ادا کرتے۔ درود شریف، قصیدہ بردہ شریف، قصیدہ غوثیہ پڑھتے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں طویل دعائیں کرتے یہ سلسلہ اشراق تک جاری رہتا۔ اس کے بعد ناشتہ سے فارغ ہو کر ہسپتال میں اپنی ذمہ داری نبھاتے۔ ابتدائی وقت میں چونکہ مریض زیادہ ہوتے تھے لہٰذا آپ ساڑھے گیارہ بجے تک مریضوں کی خدمت کرتے اس کے بعد جو مریض آتے آپ کی راہنمائی میں دیگر عملہ ان کی خدمت کرتا۔ ساڑھے گیارہ بجے کے بعد آپ کی خدمت میں طلبہ آجاتے۔ آپ ان کو ظہر تک پڑھاتے، وہاں سے فارغ ہو کر آپ سفر کر کے گھر آجاتے، عصر کے بعد مجھے پڑھانا شروع فرما دیتے، یہ سلسلہ رات دس بجے تک جاری رہتا۔ اس کے بعد آپ مثنوی پڑھتے ہوئے سو جاتے۔
میں نے آپ کو کبھی درسی کتب کا مطالعہ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ بلکہ میں بچپن میں حیران ہوتا تھا کیونکہ جب پڑھاتے تو دیگر مدرسین سے زیادہ مطالعہ محسوس ہوتا تھا۔ لیکن بعد میں مجھے سمجھ آگئی کہ یہ معاملہ ہی کچھ اور ہے۔ پروفیسر صاحب یہ بھی فرمایا کرتے ہیں کہ میں نے آج تک قبلہ ابا جی صاحب رحمہ اللّٰہ سے اور اُستاذی المکرم حضرت مولانا علامہ عبدالرشید رضوی مدظلہ العالی سے بڑھ کر تدریس کا ماہر نہیں دیکھا۔
قبلہ ڈاکٹر صاحب کی دقتِ نظر، وسعتِ مطالعہ، قوتِ حافظہ کے ساتھ ساتھ قوت استدلال بڑی دیدنی تھی۔ ایک دفعہ آپ جامعہ قطبیہ میں علماء کی مجلس میں تشریف فرماتھے، مختلف موضوعات پر گفتگو ہو رہی تھی۔ اتنے میں کچھ آدمی آئے، انہوں نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کے بارے میں سوال کیا کہ حضور ﷺ نے اسے چادر دی، لعابِ دھن ڈالا، جنازہ پڑھا، اس کے باوجود اسے کوئی نفع نہ ہوا؟
آپ نے ان کے جواب میں ایسی ایمان افروز گفتگو فرمائی کہ تمام علماء نے بیک زباں ہو کر کہاں کہ آج تک ہم نے اس مسئلہ پر اتنی مفصل اور ایمان پرور گفتگو نہ پڑھی نہ سنی۔
حضرت شیخ الاسلام بھی اس نشست میں موجود تھے (اس سال ڈاکٹر صاحب انہیں جامعہ قطبیہ میں استاذ العلماء مولانا عبدالرشید رضوی کے پاس برائے تعلیم داخل کروانے کے لئے ساتھ لے گئے تھے)۔
پروفیسر صاحب کو اس گفتگو کے جو گوشے یاد رہے ان کو یہاں نقل کیا جاتا ہے آپ نے ایک ایک اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا:
سوال: حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا لعابِ دھن منافق کے منہ میں ڈالا اس کے باوجود وہ عذاب میں کیوں مبتلا رہا؟
جواب: یہاں مخالفین سے ایک بنیادی غلطی ہوئی ہے وہ یہ کہ انہوں نے لعابِ دھن عطا کرنے کا فائدہ خود متعین کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس کا فائدہ عذابِ الٰہی کا دور کرنا تھا۔ حالانکہ اس عطیہ کو اسی فائدہ میں محدود کر دینا صریحاً زیادتی ہے۔ واضح بات ہے کہ جب خود آقا علیہ السلام نے اس کے نفع کا تعین نہیں فرمایا کوئی دوسرا کیسے کر سکتا ہے تو جب عطیہ کا انحصار اس مذکورہ فائدہ میں نہ رہا تو سوال ہی لغو ہوگا۔ کیونکہ اس عطیہ کا مقصد ہی کچھ اور تھا۔ اور وہ حاصل بھی ہوا۔ اور وہ یہ تھا کہ وہ منافق حالت نزع میں مسلسل کئی دن سے تڑپ رہا تھا اس کی جان نہیں نکل رہی تھی۔ یہ بہت بڑا عذاب اور مشکل تھی۔ جب آپ نے لعابِ دھن عطا کیا تو اس کی برکت سے نزع کا مرحلہ آسان ہوگیا۔ مخالفین غور کریں کہ یہ کوئی معمولی مشکل حل نہیں ہوئی۔ بلکہ یہ ایک بہت بڑا عذاب تھا جو آپ کے لعاب دھن کی برکت سے ٹل گیا۔
سوال: دوسرا اعتراض یہ کیا کہ اس کی منافقت کا اگر علم تھا تو مقدس قمیض کیوں عطا کیا؟
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ اِس کی منافقت کا علم تھا مگر اس کے باوجود آپ ﷺ نے اس کے احسان کا بدلہ چکانے کے لئے قمیض عطا کی۔ اس کا احسان یہ تھا کہ ایک غزوہ کے موقع پر آپ ﷺ کے چچا شہید ہوئے انہیں کفن دینے کے لئے کپڑا موجود نہ تھا۔ اس موقع پر اس شخص نے اپنی چادر دی تھی۔ آقا علیہ السلام نے اس کا یہ احسان یاد رکھا۔ اس موقع پر آپ ﷺ نے اس کی دی ہوئی چادر کا بدلہ چکا دیا۔ اس لئے آپ ﷺ اعلانیہ فرمایا کرتے تھے کہ میری ذات پر جس نے بھی احسان کیا میں نے اس کا بدلہ دنیا میں ہی چکا دیا۔ یہاں یہ بات بھی ذہن نشیں رہے کہ بعض روایات میں موجود ہے کہ آپ کی مقدس چادر کو اسے عذاب دینے سے پہلے آسمان پر اُٹھا لیا گیا تھا۔
سوال: تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر علم تھا تو جنازہ کیوں پڑھایا؟
جواب: اس کا جواب یہ ہے کہ مخالفین صرف ہٹ دھرمی سے کام لیتے ہیں۔ ورنہ یہ معاملہ تو اسی وقت حل ہو گیا تھا۔ جب آپ ﷺ جنازہ پڑھانے کے لئے تشریف لے چلے، تو آپ ﷺ کے غلام سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ ﷺ کا دامن پکڑ کر عرض کیا کہ آپ ﷺ ایک منافق کا جنازہ پڑھانے نہ جائیں۔ اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ مجھے ابھی تک اللہ تعالیٰ نے منافقین کا جنازہ پڑھانے سے منع نہیں کیا۔ بلکہ مجھے اختیار دیا ہے کہ چاہوں تو پڑھاؤ اور چاہوں تو نہ پڑھاؤں۔ جب آپ ﷺ کی صحبت سے فیض یافتہ شخص کو اس کی منافقت کا علم تھا تو آپ ﷺ کو بطریق اولیٰ علم تھا۔ پھر اس جنازہ پڑھانے میں ہزارہا حکمتیں تھیں ان میں بعض کا تذکرہ بھی ڈاکٹر صاحب نے کیا۔
سوال: چوتھا اعتراض یہ ہے کہ جنازہ میں مغفرت کی دعا اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ (اے اللہ اسے بخش دے) تو اس دعا کا کیا فائدہ ہوا؟ حالانکہ اہل سنت کے ہاں حضور نبی اکرم ﷺ کی کوئی دعا رد نہیں ہوتی؟
جواب: اس کے جواب میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ مخالفین نے کبھی جنازہ کی دعا پر غور ہی نہیں کیا۔ اگر غور کر لیتے تو اعتراض نہ کرتے۔ جنازہ میں دعا کے الفاظ میں اَللّٰھُمَّ اغْفِر لِحَیِّنَا وَ مَیِّتِنَا (اے اللہ وہ لوگ جو ہمارے ہیں خواہ زندہ یا فوت شدہ ان کو بخش دے)۔ اس دعا میں منافق شامل ہیں نہیں۔ جب ڈاکٹر صاحب نے جنازہ کے الفاظ سے استدلال کر کے مخالفین کا رد کیا تو سامعین خصوصاً علماء متحیر ہوگئے۔ اور آپ کی کامل گرفت اور دقتِ نظر پر داد دئیے بغیر نہ رہ سکے۔
سوال: پانچواں اعتراض یہ وارد کیا کہ قبر پر کھڑے ہو گئے مگر عذاب نہ ٹلا؟
جواب: آپ نے فرمایا آپ کی بات درست مگر یہ بتاؤ کہ اگر آپ ﷺ کے کھڑے رہنے سے عذاب نہیں ٹلتا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو قبر پر کھڑے ہونے سے منع کیوں فرمایا، ارشاد ہوتا ہے:
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلاَ تَقُمْ عَلٰی قَبْرِهٖ.
(التوبة، 9: 84)
’’اور آپ کبھی بھی ان (منافقوں) میں سے جو کوئی مر جائے اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھیں اور نہ ہی آپ اس کی قبر پر کھڑے ہوں (کیوں کہ آپ کا کسی جگہ قدم رکھنا بھی رحمت و برکت کا باعث ہوتا ہے اور یہ آپ کی رحمت و برکت کے حقدار نہیں ہیں)۔‘‘
واضح بات ہے کہ یہ منع اس لئے تھی کہ آپ ﷺ کے قدموں کی برکت سے عذاب دور ہوتا ہے بلکہ رُک جاتا ہے۔ پھر اس پر قرآن کی شہادت پیش کی۔
وَمَاکَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّ بَھُمْ وَاَنْتَ فِیْھِمْ.
(الانفال، 8: 33)
’’اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں۔‘‘
جب اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کی موجودگی کو عذاب کے نہ ہونے کی دلیل بتا رہا ہے تو پھر اب مخالفین کس بات پر ہٹ دھرمی کا اظہار کرتے ہیں۔
ہمارے ہاں اکثر علماء عربی اور فارسی کے ماہر ہوتے ہیں لیکن چونکہ ان زبانوں کے بولنے کا ماحول نہیں۔ اس لئے نسبتاً کم علماء عربی اور فارسی میں گفتگو کرسکتے ہیں۔ لیکن قبلہ ڈاکٹر صاحب کی یہ خصوصیت بھی تھی کہ آپ صرف ان زبانوں کے قواعد و ضوابط سے ہی آگاہ نہ تھے بلکہ ان کے تکلم پر بھی کامل قدرت رکھتے تھے۔ آپ ان زبانوں میں اس طرح اظہار مافی الضمیر کرتے جس طرح کوئی صاحب زبان گفتگو کر رہا ہو۔ آپ اپنے لبنان، شام، حجاز کے سفر نامے میں ایک جگہ خود تحریر فرماتے ہیں۔ یہ امر میرے لئے
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved