علامہ محمد اشرف سیالوی
حضرت علامہ ڈاکٹر غلام فرید الدین رحمہ اللّٰہ کی خدمت میں حاضری اور استفادہ کا زیادہ موقع نہ مل سکا، لیکن جو مختصر سا وقت ان کی صحبت میں بیٹھنے اور ان کے ارشاداتِ عالیہ اور خطابِ دلنواز سننے کا ملا۔ اس نے ہمیشہ کے لئے اُن کا گرویدہ بنا دیا اور ان کی عظمت کے انمٹ نقوش دل و دماغ پر ثبت اور منقش ہو کر رہ گئے۔ پہلی دفعہ ان کا بیان و خطاب ’’معراج النبی ﷺ ‘‘ کے موضوع پر دربارِ عالیہ سیال شریف میں سننے کا موقع ملا۔ آپ نے دربارِ عالیہ کے علمی ماحول اور بالخصوص حضرت شیخ الاسلام والمسلمین رحمہ اللّٰہ کے حکم اور آپ کی موجودگی میں انتہائی علمی اور برہانی انداز میں خطاب فرمایا۔ اس وقت آپ نے بطور تمہید ’’طے زمانی‘‘، ’’طے لسانی‘‘ اور ’’طے مکانی‘‘ کا ذکر فرمایا۔ ان تینوں اقسام کی وضاحت پیش فرمائی کہ:
1۔ ’’طے لسانی ‘‘یہ ہے کہ قلیل ترین وقت میں اتنا کچھ پڑھا جائے اور زبان سے ادا کر دیا جائے جو عام لوگ دنوں یا گھنٹوں میں بیان کر سکیں۔ جس طرح حضرت دائود علیہ السلام کو زبور شریف کی تلاوت پر شانِ اعجازی سے قدرت بخشی گئی تھی کہ آپ سواری پر زین رکھنے کا حکم دیتے اور ادھر زبور شریف کی تلاوت شروع فرماتے۔ ابھی زین پوری نہیں کسی جاتی تھی کہ آپ زبور کو ختم بھی فرما لیتے تھے۔ حضرت سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو تلاوتِ کلام پاک پر بطور کرامت یہی قدرت عطا کی گئی تھی، کہ آپ سوار ہوتے وقت ایک پائوں رکاب میں رکھتے تھے اور تلاوت کا آغاز فرماتے اور دوسرا قدم مبارک دوسری رکاب میں حسبِ معمول رکھتے تو قرآن مجید کو ختم فرما چکے ہوتے تھے۔
2۔ طے زمانی کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک شخص کے لئے وقت سکڑ کر انتہائی مختصر ہو جائے اور دوسرے کے لئے وہی وقت دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں بلکہ صدیوں اور ہزاروں سالوں پر محیط ہو، جیسے حضرت عزیر علیہ السلام پر و قت گزرا۔ وہ ایک دن بلکہ اس کا بھی کچھ حصہ تھا اور دوسری طرف بنی اسرائیل پر ایک صدی بیت چکی تھی۔ اور حضرات اصحابِ کہف پر غار میں حالت نیند میں جو وقت گزرا وہ بھی ایک دن بلکہ اس کا بھی کچھ حصہ معلوم ہو رہا تھا جبکہ دوسری طرف تین صدیوں سے بھی زیادہ کی مسافت گردشِ دوراں نے طے کر لی تھی اور قیامت کے دن میدانِ محشر میں سبھی لوگ اکٹھے ہوں گے مگر وہ دن انتہائی سرکش اور نافرمان کفار و مشرکین کے لئے پچاس ہزار سال کا ہوگا۔ اور ان سے کم درجہ کے کفار و مشرکین کے لئے ہزار سال کا ہوگا لیکن اسی میدان میں موجود اہل ایمان و ایقان پر یہ طویل ترین دن چار رکعت نماز کی دیر میں گزر جائے گا۔
3۔ اور طے مکانی یہ ہے کہ ایک شخص کے حق میں مسافت طویل ترہو۔ اور اس کے طے کرنے کے لئے طویل زمانہ درکار ہو دوسرا اسے انتہائی قلیل وقت میں طے کر لے جس طرح حضرت شاہ رکن عالم رحمہ اللّٰہ اور حضرت شاہ نصیر الدین چراغ دہلوی قدس سرہما کے متعلق منقول ہے کہ وہ ہر روز عصر کی نماز ملتان شریف اور دہلی شریف سے چل کر مسجد نبوی علیٰ صاحبہ الصلوٰۃ والسلام میں ادا فرمایا کرتے تھے۔ اور حضرت سیدنا ابراہیم علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کئی مرتبہ شام و فلسطین سے مکہ مکرمہ تک اور پھر مکہ مکرمہ سے واپس گھر تک کا فاصلہ ایک دن میں سواری پر سوار ہو کر طے کیا۔
الغرض ان تین اقسام کا ثبوت و تحقّق یقینی ہے اور حضور نبی اکرم ﷺ کے لئے بھی یہ تینوں شانیں اس سفر معراج میں ظاہر ہوئیں۔ مکہ مکرمہ سے بیت المقدس پھر طبقاتِ سمٰوٰت، بعد ازاں عرشِ اعظم پر ہزارہا حجاباتِ عظمت کو عبور کرنا اور واپس تشریف لانا۔ جبکہ بستر ناز ابھی گرم ہو اور سرِ ناز سے ٹکرا کر محوِ جنبش شاخ ابھی اس طرح محوِ رقص ہو جبکہ دوسرے لوگوں کے لئے یہ کروڑہا در کروڑہا سال کی مسافت ہے۔ مگر محبوبِ کریم ﷺ کے لئے قرآن مجید ’’سُبْحَانَ الَّذِیْٓ اَسْریٰ بِعَبْدِهٖ لَیْلاً ‘‘ فرماتا ہے’’الیل‘‘ بھی نہیں فرمایا، تاکہ ساری رات سفر میں صرف ہونے کا تو ہم نہ ہو۔ پھر ہزاروں بلکہ لاکھوں جملے زبانِ قدس سے محفلِ ’’دَنٰی فَتَدَلّٰی‘‘ میں اور خلوت گہ قَابَ قوسَین میں ادا ہوئے جو شرعی احکام کے تعلّم اور سلوک و وصول سے متعلق تھے اور اُمت کے لئے التجائوں اور دعائوں پر لیکن وقت اس قدر مختصر ہے کہ:
پلک جھپکتی رہی وہ کب کے سب این و آں سے گزر چکے تھے
الحاصل دورانِ خطاب سب پر سناٹا طاری رہا۔ اور ہر فرد آپ کی اس علمی، مدلّل اور مبرہن تقریر میں گویا گم ہو چکا تھا۔ تقریر ختم ہونے پر حضور شیخ الاسلام قدس سرہ العزیز نے بہت ہی داد و تحسین فرمائی اور دعوتِ اخلاص سے نوازا۔
جب حضرت خواجہ محمد قمر الدین سیالوی قدس سرہٗ العزیز آپ کی تقریر پر آفرین اور صد مرحبا فرما رہے تھے تو آپ کی برادری کے ایک بزرگ حاجی محمد بخش صاحب نے آپ کی توجہ ڈاکٹر صاحب مرحوم کی داڑھی کی طرف مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ’’تقریر تو ماشاء اللہ بہت خوب ہے کاش کہ ان کے منہ پر داڑھی بھی ہوتی (آپ ان دنوں داڑھی منڈایا کرتے تھے) تو حضرت شیخ الاسلام نے فرمایا:
’’ہم نے داڑھی منڈوں کو شکار کرنے کے لئے یہ ہرن رکھا ہوا ہے، ہرنوں کے شکاریوں کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ ایک ہرن کو اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اورجب ہرن شکار کرنے ہوں تو جنگل میں اس کو باندھ دیتے ہیں۔ دوسرے ہرن اس کو دیکھ کر اس کے اردگرد جمع ہو جاتے ہیں، اتنے میں شکاری جال پھینک کر ان سب کو شکار کر لیتے ہیں تو ہم بھی ان سے یہی کام لے رہے ہیں کہ انہیں دیکھ کر اس فیشن کے لوگ بھی ان کے گرد جمع ہوں اور پھر دامِ عشقِ رسول ﷺ میں گرفتار ہو جائیں اور ان شاء اللہ وہ وقت دور نہیں کہ باطن کی طرح ظاہر بھی مکمل نمونہ شریعت مطہرہ کا ہوگا اور ’’إنَّ الْمُحِبَّ لِمَن یُحِبُّ مُطِیْع‘‘ کا مصداق ہوگا۔‘‘
دوسرا موقع وہ نصیب ہوا جب بندہ تحصیل علم سے فارغ ہو کر سلانوالی میں ایک مدرسہ ’’ ضیاء العلوم جامعہ شمسیہ‘‘ کی بنیاد رکھے ہوئے تھا۔ اس وقت آپ کو جمعہ کے دن خطاب کی زحمت دی لیکن جس جمعہ کا مَیں نے عرض کیا تھا آپ اتفاقاً اس سے پہلے جمعہ سمجھ کر پہلے تشریف لائے اور پھر گاڑی بھی لیٹ ہوگئی جمعہ آپ کا بھی رہ گیا اور ہم بھی استفادہ سے محروم رہے لیکن اس دوران کمال اخلاص اور منتہائے شفقت کا یہ عجیب اور عظیم منظر دیکھنا نصیب ہوا کہ روٹی اور چائے وغیرہ تک بھی نہ پی۔ اور ذرا بھر طبیعت پر ملال اور گرانی کا اثر دیکھنے میں نہ آیا۔ فرمایا میں لالیاں سے آیا ہوں اور جانا بھی ادھر ہی ہے۔ اور جھنگ سے سرگودھا جانے والی گاڑی کالالیاں والی گاڑی سے کراس ہنڈیوالی جنکشن پر نہیں ہوتا۔ لہٰذا تمہیں صرف اتنی تکلیف دیتا ہوں کہ ایک سائیکل سوار آدمی دے دو جو مجھے پیچھے بٹھا کر سلانوالی سے ہنڈیوالی پہنچا دے۔ بندہ نے کرایہ پیش کرنے کی مقدور بھر کوشش کی لیکن آپ نے فرمایا یہ نہیں ہو سکتا۔ میں نے عرض کیا آئندہ جلسہ کا کرایہ وصول فرما لیں لیکن فرمایا جلسہ پر آئوں گا لیکن کرایہ نہیں لوں گا۔ بالآخر وقت کے اس عظیم علامہ اور بے مثل خطیب کو ایک سائیکل سوار کے پیچھے بٹھا کر کیا روانہ کیا کہ ہمیشہ کے لئے دل میں بٹھا اور بسا لیا۔بعد ازاں آپ دارالعلوم کے جلسہ پر تشریف لائے رات کو خطاب فرمایا جو سلانوالی میں خطابات اہل سنت میں ریکارڈ خطاب تھا۔ اور صبح روانہ کرتے وقت بمشکل سلانوالی سے ہنڈیوالی کا ٹکٹ قبول فرمایا اور ہم جیسے نیازمندوں کے لئے خدماتِ اسلام کے لئے اخلاص اور محنت و لگن کا ایک روشن مینار قائم فرما گئے۔
آپ نے حضورنبی اکرم ﷺ کے خداداد منصبِ رسالت کی حقیقت و حیثیت اور آپ کے اختیارات کے موضوع پر بحث فرمائی۔ سب سے پہلے اس امر کی وضاحت فرمائی کہ رسول محض چٹھی رسان اور ’’ہر کارہ‘‘ نہیں ہے بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کا نائب ہے، اور حق باری تعالیٰ اور حق رسول ﷺ باہم متلازم ہیں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی بیعت کو اپنی بیعت، آپ کے ہاتھ کو اپنا ہاتھ، آپ کے عصیان کو اپنا عصیان، آپ کی اطاعت کو اپنی اطاعت، آپ کی رضا مندی کو اپنی رضامندی، آپ کی محبت کو اپنی محبت اور آپ کی ایذاء اور عداوت کو اپنی ایذا اور عداوت قرار دیا ہے۔ پھر بطور جدل اور تسکین اہل خلاف کے علامہ ابنِ تیمیہ کی معروفِ زمانہ کتاب ’’الصارم المسلول‘‘ کی یہ عبارت زبانی بڑی روانی کے ساتھ پڑھی:
في هذا وغیره بیان لتلازم الحقین وإن جهة حرمة أهل تعالی ورسوله ﷺ جهة واحدة فمن آذی الرسول فقد آذی الله ومن أطاعه فقد أطاع اللّٰه لأن الأمة لایصلون مابینهم وبین ربهم، ألا بواسطة الرسول ﷺ لیس لأحد منهم طریق غیره ولا سبب سواه وقد أقامه اللّٰه مقام نفسه في أمره و نهیه وإخباره وبیانه فلا یجوز أن یفرق بین الله ورسوله ﷺ في شيء من هذه الأمور.
’’یعنی ان ذکر کردہ آیات میں اور ان کے علاوہ دوسری آیات میں حق اللہ تعالیٰ اور حق الرسول ﷺ کے درمیان تلازم کا بیان ہے۔ اور اس امر کی صراحت ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ادب و احترام اور نبی مکرم ﷺ کی تعظیم و توقیر کی جہت ایک ہے لہٰذا جس نے رسول اللہ ﷺ کو ایذا پہنچائی اس نے اللہ تعالیٰ کو ایذا پہنچائی اور جس نے آپ کی اطاعت کی۔ اس نے اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی۔ کیونکہ امت اگر اپنے رب تبارک وتعالیٰ تک رسائی حاصل کرنا چاہے تو اسے توسط اور توسل رسول ﷺ کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔ ان میں سے کسی کے لئے بھی بارگاہِ خداوندی تک نہ کوئی دوسرا راستہ ہے اور نہ سبب ووسیلہ اور کیونکر ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے انہیں کو اپنی ذات کا قائم مقام بنا دیا ہے اپنے امر ونہی میں اور اخبار و بیان میں، پس یہ جائز ہی نہیں کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول ﷺ میں ان امور میں سے کسی میں تفریق کی جائے۔‘‘
اس حیثیت و منصب اور مقام و مرتبہ کو واضح کرنے کے بعد آپ نے اُمور کی تقسیم فرمائی کہ وہ دو قسم کے ہیں۔ شرعیہ اور تکوینیہ، اور سید عالم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے دونوں قسم کے اُمور میں با اختیار بنایا ہے۔ حضرت ابو بردہ بن دینار رضی اللہ عنہ کے لئے چھ ماہ کے بکرے کو بطور قربانی جائز فرمانا، حالانکہ دوسرے کسی کے لئے روا نہیں۔ حضرت ابن عوفؓ وغیرہ کے لئے ریشم اور حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ کے لئے سونے کے کنگن، حضرت اُمّ عطیہ رضي اللہ عنہا کے لئے نوحہ وغیرہ وغیرہ اُمورِ تشریعیہ میں آنحضرت ﷺ کے باذن اللہ مختار ہونے کی دلیلیں ہیں۔ اور کھاری کنویں لعابِ دہن سے میٹھا کرنے۔ چار آدمی کی روٹی اور سالن سینکڑوں پر پورا کرنا، اپنی جگہ سے زخمی ہو کر نکل جانے والے آنکھ ڈھیلے کو لعابِ دہن لگا کر اور اپنی جگہ پر رکھ کو نورانی بنا دینا بلکہ پہلے سے بڑھا دینا وغیرہ وغیرہ اُمورِ تکوینیہ میں با اختیار ہونے کے دلائل ہیں۔ بہر کیف آیات و احادیث سے بے شمار دلائل بیان فرمائے۔لیکن عام خطباء اور مقررین کے اسلوب و انداز سے بالکل منفرد انداز یہ تھا کہ آپ صرف اپنے مفید مدعا دلائل و براہین کے بیان پر اکتفا نہ فرماتے بلکہ اس پر وارد ہونے والے اشکالات و اعتراضات کا بھی خود ہی ذکر فرماتے اور پھر ایسا جواب دیتے جو موجبِ اطمینان اور مورثِ ایقان ہوتا۔
عبداللہ بن ابی جو منافقین کارئیس اور مقتداء تھا اس کی نمازِ جنازہ پڑھنے پر اور بخشش مترتب نہ ہوسکنے پر بحث کرتے ہوئے آپ نے یہ حکمت بیان فرمائی کہ آپ اسے بخشوانے کے لئے نماز نہیں پڑھ رہے تھے بلکہ اس حسنِ سلوک اور اظہارِ مروت (جو ابھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مرخص تھا) کے ذریعے آپ اس کی قوم کے ہزار آدمی کو کفر و نفاق سے بچانے کے لئے سعی فرما رہے تھے۔ چنانچہ آپ کی شانِ رحیمی و کریمی اور عفو و درگزر کو دیکھ کر وہ مخلص مسلمان بن جاتے جو رحمتِ مجسم ﷺ کے لئے بہرحال ناقابلِ برداشت تھا اور اللہ علیم و حکیم نے بھی اس حکمت کے پیش نظر پہلے یہ آیت کریمہ نازل نہ فرمائی۔ وَلاَ تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا…‘‘ (التوبۃ، 9: 84) جب وہ مصلحت پوری ہو چکی تبھی اس آیت کو نازل فرمایا۔
آپ نے ان جوابات کے ضمن میں یہ جواب بھی ذکر فرمایا تھا کہ نماز جنازہ کی دعا ہے اَللّٰھّمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِّتِنَا… جو اپنے ہیں یہ ساری دعا ہی ان کے لئے تھی جو منافق اور کافر تھے و حَیِّنَا وَمَیِّتِنَا وغیرہ میں داخل ہی نہیں تھے۔ لہٰذا نہ ان کے لئے دعا فرمائی گئی اور نہ ہی ان کا جہنم واصل ہونا قبولیتِ دعا اور اختیارِ مصطفیٰ ﷺ پر اعتراض بن سکا اور جس طرح وہ اسلام کا اظہار کرتے تھے شریعت میں بھی محدود وقت تک ان کے ساتھ ظاہری مروّت اور رواداری کو روا رکھا گیا۔ ادھر ان کے نفاق کا پردہ چاک کر دیا گیا اور ادھر اس ظاہری مروّت اور رواداری کے اظہار سے بھی منع کر دیا گیا۔الغرض خطاب میں اس قدر جامعیت اور اثباتِ مدعا کا یہ انداز بالکل منفرد اور جُداگانہ تھا اور دونوں پہلو، ان کے دلائل پھر ان میں تطبیق و توافق نے حاضرین کو بہت زیادہ متاثر کیا اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہمارے علماء کرام اس انداز کو اپنائیں تو عام اہل اسلام کا اس میں بہت ہی بھلا ہوگا اور شورشیں بڑھانے والے طالع آزمائوں کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں رہے گی۔ان مختصر سی ملاقاتوں میں انہیں جتنا دیکھا، جتنا سمجھا اور جس قدر پایا وہ بندہ کے لئے زندگی بھر کا سرمایہ ہے۔ اور سروسامانِ رشد و رہنمائی ہے اور مینارِ نور۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات کو بلند تر کرے اور ہمیں ایسے اکابر کے نقشِ قدم پر چلائے۔ (آمین)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved