محمد عمر حیات الحسینیؔ
’’سند حدیث‘‘ امت محمدیہ ﷺ کی خصوصیت ہے۔ ہمارے اساتذہ سے لے کر حضور نبی اکرم ﷺ تک جتنے ائمہ محدثین گزرے اورجن کے ذریعہ یہ علمِ حدیث ہم تک پہنچا ہے۔ ان کا سلسلہ سند ایسی چیزہے جو صرف امت محمدیہ کو حاصل ہے، یہ علمی و تحقیقی اسلوب روئے زمین پر کسی دوسرے مذہب کو حاصل نہیں۔ کوئی بھی مذہب اور ملت والا یہ دعویٰ نہیں کرسکتا کہ اس کے مقتدا یا اس کے نبی اور پیغمبر کی باتیں ان تک اس طرح پہنچی ہیں کہ ان کے بارے میں خم ٹھونک کر اعتماد کے ساتھ یہ کہا جاسکے کہ یہ باتیں یقینا ہمارے پیغمبر نے کہی ہیں۔ یہ اعتماد نہ کسی یہودی کو حاصل ہے کہ وہ اپنی تورات کے بارے میں کہہ دے، نہ کسی نصرانی کو حاصل ہے کہ وہ اپنی انجیل سے متعلق یہ بات کہہ دے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ تورات اور انجیل قابل اعتماد نہیں۔ ان کتابوں کے حاملین کے پاس اپنے پیغمبروں کی طرف اس کی نسبت کا کوئی ثبوت، کوئی سند، کوئی دلیل موجود نہیں۔ آج اگر یہودی مذہب کے کسی بڑے سے بڑے عالم سے یہ پوچھ لیا جائے کہ یہ تورات جس کو تم اللہ تعالیٰ کی آسمانی کتاب کہتے ہو، اس کا تمہارے پاس کیا ثبوت ہے؟ تمہارے پاس اس بات کی کیا دلیل ہے کہ یہ تورات وہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کلیم اللہ ں پر نازل فرمائی تھی۔ اس کے پاس اس سوال کا جواب بغلیں جھانکنے کے علاوہ کوئی اور نہیں ہوگا۔ یہی حال انجیلوںکا ہے۔ اور آج کل دنیا میں جو اناجیل موجود ہیں یہ وہ نہیں ہیں جو حضرت عیسیٰ ں پر نازل ہوئی تھیں۔ موجودہ لوگوں کے پاس ان کے منزل من اللہ ہونے کا کوئی ثبوت، کوئی سند اور کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ جب تورات و انجیل کے متعلق وہ کوئی سند اور ثبوت پیش نہیں کر سکتے تو دیگر واقعات و روایات کی سند کہاں سے لا سکتے ہیں۔
لیکن امت محمدیہ علیہا التحیۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز عطا فرمایا کہ آج جب ہم کسی حدیث کے بارے میں یہ کہتے ہیں کہ حضور سرکار ختمی مرتبت ﷺ نے یہ بات ارشاد فرمائی تو اطمینان قلب کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ ﷺ کی طرف اس کی نسبت درست ہے۔ اور آج اگر کوئی یہ سوال کرے کہ یہ کیسے پتہ چلا کہ یہ بات حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمائی تھی تو اس کے جواب میں وہ پوری سند پیش کردی جاتی ہے جو حدیث کے شروع میں ہوتی ہے۔اور پھر صرف اتنی بات نہیں کہ ہم سے لے کر حضور نبی اکرم ﷺ تک صرف نام محفوظ ہیں بلکہ راویانِ حدیث کے حالات بھی محفوظ ہیں کہ یہ آدمی کون تھا؟ کس زمانہ میں پیدا ہوا تھا؟ کن اساتذہ سے اس نے تعلیم حاصل کی تھی؟ کیسا حافظہ تھا؟ ذہانت کی کیفیت کیا تھی؟ دیانت و امانت کی کیفیت کیا تھی؟ اس کا سارا حال اور ایک ایک راوی کا سارا ریکارڈ کتابوں کے اندر محفوظ ہے۔راویانِ حدیث کی ولادت سے لے کر وفات تک کے متعلقہ حالات سب مدون اور محفوظ ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ راویوں کے حالات کو کیوں محفوظ کیا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس لئے کہ انہوں نے حضور سرکار ختمی مرتبت ﷺ کی احادیث روایت کی تھیں، لہٰذا ان کے بارے میں یہ معلوم کرنا ضروری تھا کہ ان کی روایتِ حدیث پر اعتماد کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ پھر راویانِ حدیث کے یہ حالات زندگی بھی صرف سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر نہیں لکھے گئے، بلکہ ایک ایک راوی کے حالات کی جانچ پڑتال کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایسے عظیم علماء جرح و تعدیل پیدا کیئے کہ جو ایک ایک راوی کی خوبیوں اور کمزوریوں سے واقف تھے۔ علماء جرح و تعدیل میں حافظ شمس الدین ذہبی رحمہ اللّٰہ کے بارے میں مشہور ہے کہ حدیث کے رجال کی پہچان کے سلسلے میں اتنا ملکہ راسخہ حاصل تھا کہ اگر تمام راویانِ حدیث کو ایک میدان میں کھڑا کردیا جائے اور پھر حافظ شمس الدین ذہبی رحمہ اللّٰہ کو ایک ٹیلے پر کھڑا کردیا جائے تو وہ ایک ایک راوی کی طرف انگلی اٹھا کر یہ بتاسکتے تھے کہ یہ کون ہے؟ اور حدیث میں اس کا کیا مقام ہے؟
علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللّٰہ اپنی مشہور اصول حدیث کی کتاب ’’الکفایۃ‘‘ میں بیان کرتے ہیں۔ کہ ائمہ جرح و تعدیل کسی راوی حدیث کے حالات کی تحقیق کے لئے اس کے گاؤں اور اس کے محلے میں جایا کرتے تھے۔ اُس وقت اونٹوں اور گھوڑوں پر اور پیدل سفر ہوتا تھا۔ اس کے حالات کی چھان بین کرتے، اس کے پڑوسیوں سے، اس کے ملنے جلنے والے دوستوں سے، اور اس کے اعزہ و اقارب سے پوچھا جاتا کہ یہ کیسا آدمی ہے؟ یہ آدمی معاملات میں کیسا ہے؟ اخلاق میں کیسا ہے؟ دین کی اتباع میں کیسا ہے؟ بسا اوقات بہت زیادہ کھود کرید کرنے پر لوگ ائمہ جرح و تعدیل سے پوچھا کرتے کہ کیا تم اپنی لڑکی کا رشتہ یہاں کرنا چاہتے ہو؟ اس وجہ سے تم ان کے حالات کی اتنی چھان بین کر رہے ہو؟ جواب میں ائمہ جرح و تعدیل کہا کرتے کہ کوئی رشتہ تو نہیں کرنا چاہتے، لیکن انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی ایک حدیث روایت کی ہے، لہٰذا ہمیں تحقیق کرنا ہے کہ آیا ان کی روایت کردہ حدیث درست ہے یا نہیں؟
ائمہ جرح و تعدیل نے فن اسماء الرجال پر تیس تیس جلدوں میں کتابوں کو مرتب کیا ہے۔حروف تہجی کی ترتیب سے راویانِ حدیث کے حالات درج کئے گئے ہیں۔ اس فن ’’اسماء الرجال‘‘ کی تدوین صرف امت محمدیہ کا اعزاز ہے۔
جب ’’صحاح ستہ‘‘ وغیرہ وجود میں نہیں آئی تھیں۔ اس وقت تک اصول یہ تھا کہ جب کوئی آدمی کوئی حدیث سناتا تو اس پر یہ لازم اور ضروری تھا کہ وہ صرف حدیث نہ سنائے، بلکہ اس حدیث کی پوری سند بھی بیان کرے۔ کہ یہ حدیث مجھے فلاں نے سنائی اور فلاں کو فلاں نے سنائی اور فلاں کو فلاں نے سنائی۔ پہلے پوری سند بیان کی جاتی، پھر حدیث سنائی جاتی، تب اس کی بیان کردہ حدیث قابلِ قبول ہوتی تھی۔ اور سند کے بغیر کوئی آدمی حدیث سناتا تو کوئی اس کی بات سننے کو بھی تیار نہیں ہوتا تھا۔ لہٰذا اب کتب حدیث کی اشاعت اور ان کے تواتر کے درجے تک پہنچ جانے کے بعد سند کی اتنی زیادہ تحقیق کی ضرورت نہیں رہی۔ اب حدیث کے بعد روهُ البخاری اور مسلم وغیرہ کہہ دینا کافی ہے۔لیکن روایت اور اجازت کے لئے پوری سند کو محفوظ رکھنا ائمہ محدثین کے نزدیک نہایت مقبول ترین اور محبوب ترین مشغلہ ہے۔
راویانِ حدیث نور کے مینار ہیں، ان میں سے ایک ایک فرد ہمارے لئے سر کا تاج ہے۔ سلسلہ سند میں آنے والے راویوں کے نام محض نام نہیں ہیں، بلکہ یہ انوار و برکات کے چشمے ہیں جن کا سلسلہ حضور نبی اکرم ﷺ سے جڑ جاتا ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ تک جو پورا سلسلہ سند ہے، اس میں جو راویانِ حدیث ہیں وہ دراصل ’’پاؤر ہاؤس‘‘ سے جوڑنے والے کھمبے ہیں۔ جس وقت یہ کہا جاتا ہے کہ ’’حدثنا فلاں‘‘ یا ’’اخبر نا فلاں‘‘ گویا اس باطنی علم کے بلب کا سوئچ آن ہوجاتا ہے۔ اور اس کے نتیجے میں اس ’’سلسلۃ الذھب‘‘ یعنی سونے کے زنجیر کے ذریعہ ہمارا سلسلہ براہِ راست مرکزِ فیض پاور ہاؤس یعنی حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس سے جڑ جاتا ہے لہٰذا جو شخص اس سلسلۃ الذھب میں شامل ہوگیا اس کا علم معتبر ہو گیا۔
اسلام ایک زندہ مذہب ہے اس لئے تاریخ کے ہر عہد میں یہ زندہ اور متحرک رہا۔ اسلام کے تمام دور آپس میں زنجیر کی کڑیوں کی طرح مربوط و منظم ہیں۔ اسلام کو تاریخ کے مختلف ادوار میں خواہ کیسے ہی ناسازگار اور ناگفتہ بہ حالات میں سے کیوں نہ گزرنا پڑا، شاہرہ حیات پر اس نے اپنا سفر کامیابی سے جاری رکھا اس پر کوئی دور ایسا نہیںآیا کہ اس کی اساسی حیثیت کلیتاً مٹ گئی ہو اور آئندہ پھر نئے سرے سے آغاز اسلام ہوا ہو۔
اسلام کی مسلسل تاریخ اور تعلیمات کا مقصود و منتہٰی ذاتِ واجب الوجود کی معرفت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیائے کرام علیہم السلام کی دعوت کا اجتماعی نقطہ بھی دعوت الی اللہ ہے۔ حضرت آدم ں سے لے کر حضور ختمی مرتبت ﷺ تک تمام انبیاء و رسل توحید کے داعی ہیں۔ یہ بھی ایک بنیادی نقطہ ہے کہ ان کے واسطہ نبوت و رسالت کے بغیر اسلامی توحید کی صحیح معرفت ممکن نہیں ہے۔ عقیدہ توحید کو ایمان بالرسالت سے اور ایمان بالرسالت کو توحید سے جدا نہیں کیا جاسکتا۔
انبیاء و رسل عظام علیہم السلام کے بعد ان پر ایمان لانے والے اسی شاہراہ مسلسل کے داعی رہے۔ اور ان کی پیروی اس مسلسل شاہراہ سے ملانے والی صراطِ مستقیم تھی۔ انبیاء کرام ؑکی طرح ان پر ایمان لانے والوں کی منزل اور دعوت کا مرکزی نقطہ بھی عقیدہ توحید و رسالت ہی تھا اس لئے ان کی پیروی آئندہ لوگوں کے لئے نشان ہدایت بن گئی۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے بعد اسلام کی شاہراہ مسلسل کے داعی صحابہ کرامؓ و اہل بیت اطہارؓ کے نفوس قدسیہ تھے۔ اور وہ ا پنے اپنے دائرہ رسوخ میں بندگان خدا کو اس شاہراہ کی دعوت دیتے رہے۔ اور آئندہ آنے والی نسلیں ان ہی کے نقوش سیرت اور نورِ احوال سے اس منزل کا سراغ پاتی رہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و اہل بیت اطہار آسمان رشد و ہدایت کے چمکتے آفتاب تھے۔ اور حضور نبی اکرم ﷺ کی طرف سے عالمی رحمت کی ایک صورت تھے۔ ان کا اختلاف بھی رحمت تھا، جس سے زندگی کے ہر خاکے میں طرح طرح کے رنگ نکھرتے گئے۔
جس طرح رجوع الی اللہ کی دعوت تمام انبیاء و رسل عظام علیہم السلام کا مشترکہ فریضہ تھا، اسی طرح سب امت کو حضور نبی اکرم ﷺ کی ذاتِ اقدس تک لا نا تمام اوّلین و آخرین کا اجتماعی نقطہ رہا اور رجوع الی الرسول کی دعوت ہی ان کی اصل منزل کے لئے بنیاد اور وسیلہ لازم قرار پائی۔ اور قیامت کے دن بھی یہی مرکزی نقطہ ہو گا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین و اہل بیت اطہار کی ہمیشہ یہ تمنا رہی کہ آئندہ آنے والے لوگ حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت اور غلامی میں جڑ جائیں اور اسلام کی شاہراہ مسلسل پر گامزن ہوجائیں۔ان کی دعا رہی کہ اسلام کا ہر قافلہ اپنے بعد آنے والوں کی پیروی سے اپنے پہلوں کے ساتھ مسلسل رہے۔ قرآن حکیم میں یہ دعا یوں مذکور ہے:
وَاجْعَلْنَا لِلمُتَّقِیْنَ اَمَامًا.
(الفرقان، 25: 74)
’’اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا دے۔‘‘
امام بخاری اپنی ’’الصحیح (کتاب الإعتصام بالکتاب والسنۃ، في ترجمۃ الباب: بَاب الِاقْتِدَاءِ بِسُنَنِ رَسُولِ اللہ ﷺ، 6: 2654)‘‘ میں اس دعا کا معنی یوں بیان فرماتے ہیں:
أَئِمَّةً نَقْتَدِي بِمَنْ قَبْلَنَا وَیَقْتَدِي بِنَا مَنْ بَعْدَنَا.
’’اے رب! ہمیں ایسے پیشوا بنا کہ ہم تو اپنے پہلے ائمہ و اکابر کی پیروی کریں اور ہمارے بعد آنے والے ہماری پیروی کریں یعنی ہمارے ساتھ متصل ہوں۔‘‘
قرآن و سنت کی تعلیمات کا نچوڑ یہ ہے کہ ہر عہد میں امت کا بعد میں آنے والا حصہ گزرے حصے سے مسلسل جڑا رہے۔ تاکہ اللہ تعالیٰ کے دین کی رسی کا ہر جزو اپنے ماقبل اور مابعد سے متصل ہو۔ یہ دین اسلام کی علمی میراث اور اس کا تہذیبی ورثہ ہے جو حضور نبی اکرم ﷺ سے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے تابعین، تبع تابعین اور ائمہ و اکابرین امت کو پہنچا۔ اس کی شاہراہ مسلسل ’’خَیْرُ الْقُرُونِ قَرْنِيْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یّلُوْنَهُمْ ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَهُمْ‘‘ کی بشارت نبوی ﷺ میں صحابہ و تابعین سے مسلسل چلی آ رہی ہے۔ اور ان سے اپنا فکر و عمل متصل اور وابستہ رکھنے ہی میں فلاح کا راز مضمر ہے۔
پس وہی اہل دین صحیح لائق تقلید ہوں گے جن کے علم و فہم کی سند ماضی سے منقطع ہو نہ مقطوع ہو۔ اور ہم صرف انہی لوگوں کی علمی ثقاہت پر اعتماد کر سکتے ہیں کہ جن کے علم کے طرق اور اسانید متصل اور مضبوط ہوں اور مسلسل بھی۔ وہی لوگ علم و ارشاد میں مقتداء کہلانے کے مستحق ہیں جو حضور نبی اکرم ﷺ تک زنجیر کی کڑیوں کی طرح مربوط ہیں۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ امت مسلمہ کی کوئی صدی ائمہ، مجددین، مصلحین اور صالحین سے خالی نہیں رہی۔ ائمہ علم و فن، ائمہ رشد و ہدایت اور ائمہ سلوک و معرفت کی کسی زمانے میں کمی نہیں رہی۔ ان وارثان نبوت میں کوئی طبقہ نسبتِ اسلام کا محافظ رہا، کوئی نسبتِ ایمان کا محافظ رہا اور کوئی نسبتِ احسان کا، کوئی الفاظ و علوم قرآن کا اور کوئی نسبتِ صاحب فرقان ﷺ کا۔ ان تمام طبقوں کا تا قیامت باقی رہنا ہی اسلام کا تسلسل اور اس کا عظیم معجزہ ہے۔
قرآن و سنت میں یہ بتلایا گیا ہے کہ اسلام کے تسلسل پر قائم رہنے والا طبقہ قیامت تک باقی رہے گا۔ اور کوئی باطل قوت اس کو جڑ سے نہ اکھاڑ سکے گی۔ حق و باطل کی معرکہ آرائی برابر جاری رہے گی۔ جس طرح قرآن و سنت کی ہدایت مسلسل رہے گی اسی طرح گمراہی بھی برابر چلے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ان کے درمیان امتیاز کیسے ہو؟ اس کا جواب ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ خط مستقیم صرف ایک ہوتا ہے جبکہ ٹیڑھے خطوط کئی ہوتے ہیں۔ اس طرح ہدایت کی راہ بھی ایک ہے اور گمراہی کی راہیں بے شمار ہیں۔ گمراہی و ضلالت کی ہر راہ ایک دوسرے سے مختلف ہو سکتی ہے جیسے ٹیڑھے خط آپس میں سب مختلف ہوتے ہیں مگر غلط اور گمراہ ہونے میں سب برابر ہیں، اس لئے کہ ضلالت و گمراہی پھیلانے والے لوگ اپنے طریقہ کو کبھی ایک دوسرے کی طرف اسناد نہیں کرتے۔ نمرود، فرعون، شداد، ہامان اور یزید سب اپنے اپنے عہد میں ائمۃ الکفرتھے مگر ایک دوسرے سے انتساب کے ہرگز دعویدار نہ تھے۔ ان کے برعکس انبیاء و رسل عظام علیہم السلام جو ائمہ رشد و ہدایت تھے اور سرچشمہ فلاح تھے، وہ تمام ایک دوسرے کے مصدق اور مؤید تھے۔
منکرین ختم نبوت ہوں یا منکرین حدیث و سنت، مقام نبوت کی اہانت و تنقیص کرنے والے ہوں یا منکرین حیات النبی ﷺ یہ تمام ضلالت و گمراہی کے امام ہیں۔ مگر آپس میں کوئی انتساب نہیں رکھتے۔ اور ان میں سے کسی نے اپنے طریقہ کفر و انحراف کو اپنے ماقبل سے اسناد نہیں کیا۔ یہ تمام اپنے اپنے طریقہ انحراف کے موجد ہوتے ہیں۔ اس کے بالمقابل وہ تمام اہل حق جو ائمہ رشد و ہدایت بنے وہ آپس میں اسناد و اعتماد رکھتے ہیں کیونکہ حق کی راہ مسلسل ہدایت کی راہ ہے اس لئے اسے ’’صراط مستقیم‘‘ کا نام دیا گیا ہے اور صراط مستقیم کی پہچان علم، فکر یا عقیدہ کے نام سے نہیں بلکہ رجال، اشخاص اور اسناد کے نام سے کرائی گئی ہے۔ارشاد ہوتا ہے:
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْo
(الفاتحہ، 1: 5)
’’ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا۔‘‘
گویا ہمیں رجال اور ان کے نقوش قدم کی طرف متوجہ کر دیا گیا ہے، اس لئے اس راستے کے پیروکار آپس میں اسناد و اعتماد رکھتے ہیں اور گمراہی کی راہیں اگرچہ ہر عہد میں موجود رہیں لیکن وہ آپس میں مسلسل اور مربوط نہیں ہیں۔
صراط مستقیم کی پیروی کرنے والے اہل حق جو حضور نبی اکرم ﷺ کی اتباع میں بڑھتے چلے گئے وہ گو فرداً فرداً غلطی سے مبرا نہ ہوں، مگر ان کا مجموعی مؤقف ضرور محفوظ عن الخطاء رہا ہے۔ یہ تو درست ہے کہ انفرادی طور پر ان میں اختلافات ہوئے مگر ان کے اختلافات فروعی تھے۔ اصولی نہ تھے اس لئے ان کی توجیہہ کی جاتی ہے، تردید و تغلیط نہیں۔ اور فقہی اختلافات میں بھی انہیں راجح اور مرجوح سے آگے نہیں جانے دیا جاتا۔ اس لئے کہ ان سب کے باوجود یہ ایک راہ ہے اور یہ راستہ حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت اور آپ ﷺ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت کا راستہ ہے۔یہ تمام اہل حق اپنے ہر عقیدے اور عمل کی سند اپنے ما قبل سے لیتے رہے اور اسی طریق سے یہ متوارث دین ہم تک پہنچا ہے۔
یہ سلسلہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے چلا اور ارض ہند و پاکستان میں بارھویں صدی کے بعد یہ اسناد حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللّٰہ کی ذات میں جمع ہو گئے۔ پاک و ہند بلکہ بیشتر بلادِ عربیہ کی اسناد کا بھی آپ سرچشمہ ٹھہرے۔ اور آپ کی ذات روشنی کا مینار قرار پائی۔ بعد میں آنے والے سب اہل علم انہی سے سند لیتے رہے اور ان کی ذات اہل حق کے سلسلہ اسناد میں مرجع بن گئی۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ اورشیخ الاسلام پروفیسرڈاکٹر محمد طاہرالقادری کا شجرہ علمی اور اسنادی پہلو امام الھند حضرت شاہ ولی اللہ کی طرح ہمہ جہت اور متنوع طرق کا آئینہ دار ہے۔ کیونکہ وہ تمام بلادِ اسلامیہ کے شیوخ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی وجہ سے ان کے مسلکی مزاج میں حد درجہ توازن و اعتدال پایا جاتا ہے۔ آپ دین کے سمجھنے سمجھانے میں اسلام کی مسلسل شاہراہ پر گامزن ہیں۔ ائمہ سلف سے رہنمائی پاکر اسلام کی رشد و ہدایت کو آئندہ نسلوں کے لئے جدید پیرائے میں متوازن انداز میں منتقل کرتے جا رہے ہیں۔باپ اور بیٹے دونوں کا اسنادی پہلو نہایت جامع ہے۔ فقہ میں چاروں ائمہ مجتہدین سے انتساب علمی رکھتے ہیں۔ گو مقلداً حنفی ہیں لیکن دیگر ائمہ کے استخراجات کے شعور کی بھی پوری طرح لذت محسوس کرتے ہیں۔
حضرت فریدِ ملت رحمہ اللّٰہ اورشیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اسنادی پہلو پر بنظر انصاف غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں نہ ظاہریت کی تفریط ہے اور نہ باطنیت کی افراط بلکہ قرون اولی کے سلف صالحین کا توازن و اعتدال اِن کا مسلک مختار ہے۔
حضرت فرید ملتؒ اور شیخ الاسلام مدظلہ العالی کا اسنادی پہلو اِن کی ہمہ جہت شخصیت کا ترجمان ہے۔ اس لئے ان میں اکابر سند کے اوصاف صاف چھلکتے ہیں:
میں آپ کی اسانید کے متعدد طرق کو جب دیکھتا ہوں تو مجھے قرون اولیٰ کی ایک جماعت کی خوشبو حضرت فریدِ ملتؒ اورشیخ الاسلام مدظلہ العالی کے وجود میں محسوس ہوتی ہے۔
جن کے طیب نفس سے عالم اسلام معطر ہو رہا ہے، جن کی زبان قدسیہ سے صراط مستقیم کی شمعیں روشن ہو رہی ہیں، جن کے صالح اعمال کو دیکھ کر لوگ راہ ہدایت حاصل کر رہے ہیں۔ آپ کی خدمات آسمان علم و عمل پر ستاروں کی مانند چمک رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ کے بیان و کلام میں بلا کی روحانی اسپرٹ اور حد درجے کی مٹھاس پائی جاتی ہے۔ جس موضوع پر بولتے ہیں اس کا حق ادا کرتے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی بھر اسی موضوع کا مطالعہ اور تیاری کی ہوئی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آپ کی اجازاتِ علمیہ اور اسانید بیک وقت کئی خوشبوؤں اور مختلف رنگوں کا مجموعہ ہے۔ آئیے اِن اسانید کا مطالعہ کرتے ہیں۔
حضرت فریدِ ملت رحمہ اللّٰہ علیہ کے سلاسل اسناد کے متعدد طرق اور واسطے ہیں۔ اور ہر واسطہ اسناد حدیث میں ایک دوسرے سے عالی اور جید ہے۔ اگر آپ کے سلاسل اسناد کے علمی و فنی محاسن کا تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ یہ اسناد کے طرقِ متنوع کی ہمہ گیری، وسعت، آفاقیت آپ کے وسیع المشربی پر اور علوم کی وسعت پر دال ہے۔
آپ کے سلسلہ سند کا ہر واسطہ کتنا پاکیزہ، کتنا مطہر، کتنا معطر و معنبر، کیسا حسین اور کیسا عمدہ ہے، کتنا مستند اور جامع سلسلہ اسناد ہے، کتنے دریاؤں کا پانی ایک نہر سے جاری ہو رہا ہے، جس نہر سے علماء و طلباء قرآن و حدیث کے حامل بن رہے ہیں۔ اس کا اندازہ لگانا ہو تو آپ کی اسانید کا مطالعہ کیا جائے، تشنگان علم قدر دان ہو رہے ہیں۔ عوام الناس سیراب ہو رہے ہیں، خواص آبیار ہو رہے ہیں۔
حضرت فریدِ ملت رحمہ اللّٰہ کو قرآن و سنت کے علوم و معارف کی سند عالم اسلام کے لائق احترام شیوخ و اساتذہ سے ملی ہے، جس کاحضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اپنی اسانید میں تفصیلاً تذکرہ کیا ہے:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے حرمین شریفین کے مذکورہ بالا ائمہ و محدثین کی اسانید حدیث اور اجازات علوم شرعیہ درج ذیل شیوخ کے واسطہ سے حاصل کی ہیں۔ اور انہی سے براہ راست اخذ علم حدیث اور سماع و روایت حدیث کا شرف پایا ہے:
ان شیوخ بغداد سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے مندرجہ ذیل شیوخ و اساتذہ کی وساطت سے اجازتِ حدیث حاصل کی ہے:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ملک شام کے درج ذیل شیوخ و اساتذہ سے سند و اجازتِ حدیث حاصل ہوئی ہے:
ان شیوخ حدیث سے درج ذیل شیوخ و اساتذہ کے واسطہ سے اجازتِ حدیث ملی:
والد گرامی حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین القادری رحمہ اللّٰہ کے واسطہ سے محمد المکی الکتانی رحمہ اللّٰہ جیسے مسلمہ محدث سے بھی اجازت و سند حدیث حاصل ہوئی۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو لبنان اور طرابلس کے درج ذیل شیوخ و اساتذہ سے سند و اجازت حدیث ملی ہے:
ان شیوخ سے مندرجہ ذیل اساتذہ کے واسطہ سے اجازت و سند حدیث ملی ہے:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو عالم مغرب کے درج ذیل شیوخ حدیث سے اجازت و سند حدیث ملی ہے:
ان شیوخ سے درج ذیل اساتذہ و شیوخ کے واسطہ سے اجازت و سند حدیث حاصل ہوئی ہے:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو یمن کے مندرجہ ذیل شیوخ حدیث سے سند و اجازت حدیث ملی ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو مذکورہ بالا شیوخ سے درج ذیل شیوخ کے واسطہ سے اجازت و سند حدیث ملی ہے:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو ہندوستان اور پاکستان کے درج ذیل شیوخ و اساتذہ سے سند و اجازتِ حدیث ملی ہے:
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو مذکورہ بالا مشاہیر سے درج ذیل واسطہ سے سند و اجازتِ حدیث حاصل ہوئی ہے:
الشیخ السید عبدالمعبود الجیلانی المدنی (انہوں نے 165 سال کی طویل عمر پائی اور وہ براہِ راست حضرت امداد اللہ مہاجر مکی کے شاگرد تھے)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved