مولانا عبدالحق ظفر چشتی
نابغۂ عصر، مفسر قرآن ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بانیِ مرکزی ادارہ منہاج القرآن راوی ہیں کہ ’’ایک روز میں اپنے سات سالہ بیٹے حسن محی الدین سے مصروفِ گفتگو تھا اور موضوعِ بحث آپس میں تقابل تھا۔ مجھے اپنی شکست کا قدم قدم احساس ہوا کہ حسن اپنے نام کے اعتبار سے حسن ہی ٹھہرا۔ صغر سنی کی وجہ سے اُس کا دامن عصیاں آلود نہ تھا اور وہ مکلف فرائضِ منصبی بھی نہ تھا کہ جواب دہی کے جانکاہ مراحل سے گزرنے کا خوف ہو۔ جب کہ اِدھر یہ خوف اپنی تمام تر جلوہ سامانیوں کے ساتھ موجود تھا۔ اس کے چہرے کی معصومیت اس کے پاکیزہ دل کی غماز تھی۔ وہ محبت و اُلفت اور نفرتوں کے جذبوں میں تصنع، بناوٹ یا سود و زیاں کی آلائشوں سے پاک تھا جبکہ اس طرف معاملہ یکسر مختلف تھا۔ مجھے اُس کی عظمت پر رشک اور اسے میری شکست پر حیرت ہو رہی تھی۔ یہ حیرت اُس کی اس وقت اور بھی بڑھنے لگی جب میں نے اس سے کہا کہ بچے! تیری عظمتیں مسلّم لیکن ایک اعتبار سے تم مجھ سے عظمت میں کبھی بازی نہ لے جا سکو گے۔ تیری سر توڑ کوششیں بھی اس حدِ عظمت کو چھو نہ سکیں گی۔ میرا سر فخر سے تن گیا۔ اُس نے مجسمۂ حیرت بن کر تفصیل چاہی تو میںنے کہا کہ میں تم سے اس اعتبار سے عظیم تر ہوں کہ میرے باپ جیسا تمہارا باپ کبھی نہیں ہو سکتا، کبھی نہیں! میرے باپ کی زندگی کا ہر شعبہ قابلِ رشک اور قابلِ تقلید تھا۔ ان کی سیرت، ان کی صورت، اِن کے علم، ان کے تقویٰ اور ان کی فطانت و فقاہت کے تقابل کی مسند کے برابر تیرے باپ کی مسند کبھی نہیں بچھائی جا سکتی اور اُن تقدس مآب رفعتوں، بلندیوں اور عظمتوں کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جو اُنہیں حاصل تھیں۔‘‘
خطۂ پاکستان میں ضلع جھنگ کئی اعتبار سے معروف ہے۔ دنیائے عشق و محبت کے ایک شہنشاہ سلطان باہو رحمہ اللّٰہ کا تذکرہ کئے بغیر ضلع جھنگ کے ذکر کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ ھُو ھُو کی مست کر دینے والی آوازیں کس کے مشامِ جان کو معطر نہیں کرتیں۔ دو نام اور بھی اُفقِ عالم پر اُبھرے۔ ’’سوہنی‘‘ اور ’’مہینوال‘‘۔ دریائے چناب کی لہروں کے زیرو بم میں آج بھی ان کے ’’کچے گھڑے‘‘ کی داستان قلب و ذہن پر دستک دیتی ہے۔ سرزمین جھنگ کے باسی غیور، بہادر اور صاحب ایمان لوگ ہیں۔ چار دانگِ عالم سے ’’حق باہو‘‘، ’’سچ باہو‘‘ کے دلنواز نعروں کی گونج میں آنے والوں کے لئے فرض راہ بن جاتے ہیں۔ اس علاقے کی مٹی کے ایک ایک ذرہ سے محبت مصطفی ﷺ کی بو باس پائی جاتی ہے۔
تحصیل جھنگ میں چنیوٹ روڈ پر تیرہ چودہ میل کے فاصلے پر ایک گاؤں ’’کھیوہ‘‘ کے نام سے معروف ہے۔ کبھی اس گاؤں اور اس کے قرب و جوار کی زرعی زمین پر ایک خاندان آباد تھا جو سیال فیملی کے ایک خاندان ’’ماہنی سیال‘‘سے تعلق رکھتا تھا۔ اور پوری اسٹیٹ کا مالک تھا۔ اس خاندان کی زندگی کو تاریخ جہاں سے ایک نیا رُخ دیتی ہے اس موڑ پر تین بھائیوں کے نام ملتے ہیں جن میں سے دو طبعاً درویش تھے اور ایک روایتی زمیندار۔
اس زمانے میں سرحدی علاقوں کے لوگ اکثر اس طرف رُخ کرتے اور لوٹ مار کر کے جو کچھ ان کے ہاتھ آتا چھین کر بھاگ جاتے۔ ڈاکہ زنی اور قتل و غارت کا بازار اکثر گرم رہتا۔ خاندانی جھگڑوں کی وباء بھی ان دنوں کچھ کم نہ تھی۔ ایک بھائی ان تمام حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرتے اور نہ صرف اپنی اسٹیٹ کی حفاظت کرتے بلکہ سرحدی قبائل کے حملوں کا بھی منہ توڑ جواب دیتے۔ اور خاندانی جھگڑوں کو بھی بزور بازو نبٹانے کی صلاحیتوں سے پورا پورا فائدہ اُٹھاتے۔ دوسرے دو بھائی جو فطرتاً اَمن پسند تھے، بھائی چارے اور اُخوت و محبت کے داعی تھے۔ اور طبعاً درویش بھی وہ ان حالات سے اکثر کبیدہ خاطر رہتے۔ ان میں ایک جمہ خاں صاحب اس زرعی زمین کے شر و فساد کے ماحول سے منہ موڑ کر صوبہ سرحد کی طرف ڈیرہ اسماعیل خاں کی طرف ہجرت کر گئے، جبکہ دوسرے بھائی احمد یار رحمہ اللّٰہ جھنگ مگھیانہ میں آکر آباد ہوگئے۔ یہی جھنگ آج کل جھنگ کے نام سے موسوم ہے۔ یہ دونوں بھائی خاندانی وراثت سے ہر چیز چھوڑ کر اپنے تیسرے بھائی کے سپرد کر کے نقل مکانی کر گئے۔ ڈیرہ اسماعیل خاں میں جا کر آباد ہونے والے جمعہ خاں صاحب اور ان کی اولاد کے مراسم کچھ عرصہ ان کے ساتھ رہے بالآخر مسافت بعیدہ نے ایسی دُوریاں ڈال دیں کہ اب ان میں سے کوئی کسی کو پہچانتا بھی نہیں۔
جھنگ شہر میں آکر آباد ہونے والے حضرت میاں احمد یار رحمہ اللّٰہ ترکِ وطن، ترکِ مال، ترکِ املاک اور ترکِ دنیا کر کے ایک اللہ سے لَو لگانے کے لئے گوشہ نشین ہوگئے، لیکن اس گوشہ نشینی میں بھی عزت نفس کی دولت کی حفاظت کے لئے وہ راہ اختیار کی جو ہمیشہ اللہ والوں کی شان رہی۔ خاندانی وراثت اور جائیداد کو ترک کرنے کا مقصد رہبانیت نہ تھا ورنہ جنگلوں کا رُخ کرتے۔ یہ تو محبت دنیا سے ناطہ توڑ کر صرف اور صرف ایک ذات سے لَو لگانے کی دھن تھی جس نے کائناتِ مال و زر کو پاؤں سے ٹھوکر مارنے پر آمادہ کر دیا تھا۔ جھنگ شہرمیں اپنی اور اپنے بچوں کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے محنت و مزدوری کی راہ اختیار کی۔ دن بھر محنت و مزدوری سے جو کچھ میسر آتا اس سے دال روٹی چل جاتی۔
حضرت میاں احمد یار صاحبؒ کے ہاں ایک بہت ہی خوبصورت بچہ پیدا ہوا۔ اس نومولود مسعود کا نام بہاؤالدین رکھا گیا، جو بعد میں میاں بہاؤالدین کے نام سے معروف ہوئے۔ صحت مند، توانا، دراز قامت اور جسیم و لحیم نوجوان میاں بہاؤالدین میراثِ اسلاف یعنی زہد و ورع، عبادت و ریاضت، سوز و گداز اور فقر و درویشی کے صحیح وارث ثابت ہوئے۔ اور گزر اوقات کے لئے اپنے والد بزرگوار کی راہ یعنی نانِ جویں کے حصول کے لئے محنت و مزدوری کی راہ اختیار کی۔
حضرت میاں بہاؤالدین رحمہ اللّٰہ کے ایک ہم عصر بزرگ حضرت میاں صالح محمد رحمہ اللّٰہ تھے۔ اسم بامسمّٰی یعنی اپنے نام کی طرح صالح سیرت و کردار کے مالک تھے۔ 110 سال کی عمر میں وصال فرمایا۔ حضرت میاں صالح محمد رحمہ اللّٰہ ایک مسجد میں امامت فرماتے تھے۔ اور مسجد کی خدمت میں شب و روز صرف کر دیتے۔ مسجد میں جھاڑو دینا اُن کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ اللہ تعالیٰ کے گھر کی صفائی قلب و ذہن کی صفائی کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ شاید یہی وجہ تھی کہ ان کے تقویٰ و پرہیز گاری کا زمانہ معترف ہے۔ حتیٰ کہ محبوب ربّ کائنات ﷺ کی زیارت کی سعادت جاگتے میں حاصل کی۔ ’’ولی را ولی می شناسد‘‘۔ یہی حضرت میاں صالح محمد رحمہ اللّٰہ راوی ہیں کہ حضرت میاں بہاؤالدین رحمہ اللّٰہ بڑے ولی کامل تھے۔ ولایت کے مرتبے پر فائز ہونے والے ظاہری زیب و زینت کو کب خاطر میں لاتے ہیں، اس لئے انتہائی سادہ طبیعت کے مالک تھے۔
دیکھ کر جبہ و دستارِ شیخ
تیرا پیوندِ قبا یاد آیا
آپ سیف اللسان تھے۔ جو منہ سے کہہ دیتے وہی ہو جاتا تھا اس لئے آپ کی محفل میں بیٹھنے والے لوگ بہت محتاط رہتے تھے۔
حضرت میاں صالح محمد رحمہ اللّٰہ ہی اس بات کے راوی ہیں کہ میری عمر پندرہ بیس سال کی ہوگی اور حضرت میاں بہاؤالدین رحمہ اللّٰہ اُس وقت پچاس ساٹھ سال کے پیٹے میں ہوں گے۔ قیامِ پاکستان سے چالیس پچاس سال پہلے اُن کی محفل میں بیٹھے تھے کہ زمین پر لکیریں کھینچنے لگے۔ اور ان لکیروں کی روشنی میں فرمانے لگے کہ ہندوستان تقسیم ہو جائے گا۔ ہندو اُدھر چلے جائیں گے اور فلاں فلاں علاقے کے لوگ اِدھر آجائیں گے۔ بڑا قتلِ عام ہوگا۔ اور ایک نیا ملک معرضِ وجود میں آئے گا۔ 1947ء میں پاکستان بنا تو یاد آیا کہ وہ کیا کہتے تھے اور کیا دیکھتے تھے۔ فرماتے ہیں بڑے صاحبِ کشف تھے اور کئی باتیں بالکل سادگی میں کہہ جاتے۔ جب پوری ہو جاتیں تو احساس ہوتا کہ حضرت میاں صاحب رحمہ اللّٰہ نے یہ بات کتنی صاف صاف بتا دی تھی۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صاحب نے حضرت صالح محمد صاحب رحمہ اللّٰہ کی زیارت کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں اکثر ان کی محفل میں بیٹھا کرتا تھا۔ محلے کی مسجد میں دو چار اور بزرگ بھی تھے اور وہ سب اللہ والے تھے۔ ان میں سے کوئی حضرت پیر مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللّٰہ سرکار گولڑہ شریف کے مرید تھے اور کوئی حضرت نور محمد قادری رحمہ اللّٰہ کے مرید تھے جو حضرت سلطان العارفین سلطان باہو رحمہ اللّٰہ کی اولاد میں سے تھے۔ مجھے ان کی محفل میں بیٹھنا بہت مرغوب تھا۔ میں اکثر نمازِ عصر سے مغرب تک ان کے پاس بیٹھا رہتا۔ اور مغرب کی نماز کے بعد اوّابین کے نوافل پڑھ کر گھر واپس لوٹتا۔ ان کے پاس بیٹھ کر ان کے ذاتی تجربات، مکاشفات و مشاہدات اور اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی محافل کے تذکرے سنتا۔ جن جن بزرگوں سے ان کی ملاقاتیں ہوئیں ان کے حالات و واقعات سننے کے لئے بے چین رہتا۔ ان کے فیوضات و برکات سے متعلق سوالات کرتا۔ ان کے زمانہ کے فقراء کے احوال و مشاغل سے متعلق معلومات حاصل کرتا۔ یہی جلوس فی المسجد ایک نماز کے بعد دوسری نماز کے انتظار میں بیٹھنا اور صلحاء کی خدمت میں گزرا ہوا وقت آج بھی میرے لئے مشعل راہ ہے۔میں جو کچھ بھی ہوں وہ سب انہی بزرگوں کی دعاؤں کا صلہ ہے۔
حضرت میاں بہاؤالدینؒ کے تین صاحبزادے تھے۔ میاں اللہ بخشؒ، میاں خدا بخشؒ اور میاں پیر بخشؒ۔ میاں پیر بخش کے بیٹے محمد رمضان کی اولاد میں محمد اسلم، حکیم محمد حسین اور محمد یوسف شامل ہیں۔ حضرت میاں بہاؤالدینؒ کے صاحبزادگان ہیں۔ میاں اللہ بخشؒ اور میاں خدابخشؒ کا قدرے تفصیلی ذکر کیا جاتا ہے۔
حضرت میاں اللہ بخش رحمہ اللّٰہ نے ساری زندگی تجرد میں گزار دی اور پوری زندگی ’’جو دم غافل سو دم کافر‘‘ کاہی غلبہ رہا۔ اولیاء و صلحاء کے مزارات و مقابر پر چلہ کشی کی اور طویل ریاضتوں اور مشقتوں پر مبنی زندگی گزار کر حیاتِ مستعار کو ایک نیا روپ بخشا۔ اوائل عمری میں تو پہلوانی بھی کرتے رہے۔ جھنگ میں اس دور میں ان کے پلے کا شاید ہی کوئی پہلوان ہوگا۔ لیکن جسمانی ریاضتوں کا رُخ جب روحانی ریاضتوں کی طرف مڑا تو بھی کوئی ہمسری کا دعویٰ نہ کر سکا۔ حضرت خواجہ خواجگان پیر طریقت پیر عبدالغفور رحمہ اللّٰہ کے دست اقدس پر بیعت کی۔ روحانی تربیت کے لئے ہاتھ اس ہاتھ میں دیا جو سلوک کی راہ کے دھنی، اور بڑے صاحب کشف و کرامات تھے۔ انہی کی صحبت میں زندگی کا بیشتر حصہ گزار دیا۔ مڈ (شریف) انہی کی عظمتوں کی بناء پر شرافت کا لبادہ اُوڑھ کر مڈ شریف بنا۔
حضرت پیر عبدالغفور صاحب رحمہ اللّٰہ حضرت خواجہ خواجگان پیر سلیمان تونسوی رحمہ اللّٰہ کے خلفاء میں سے تھے۔حضرت پیر عبدالغفور رحمہ اللّٰہ کی عظمت کردار کے اظہار کے لئے ایک واقعہ کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہ ہوگا۔ ایک بار آپ اپنے آستانہ سے چند روز کے لئے باہر تشریف لے گئے، اور پندرہ بیس روز تک وہیں قیام رہا۔ ان کی عدم موجودگی میں ان کا ایک مرید ذکر و فکر کی دنیا بسائے بیٹھا رہا۔ اور اپنے پیر کامل کے فراق کی گھڑیاں بڑی ہی بے چینی اور بے قراری سے شمار کرتا رہا۔ اس کے جذبۂ محبت میں اتنی تڑپ تھی کہ جس جگہ پیر صاحب محرابِ مسجد میں نماز پڑھاتے تھے وہیں اللہ اللہ کرتا رہا۔ جب پیر صاحب کی آمد کی خبر اس کے کان پڑی تو وہ شوقِ ملاقات میں وہیں سے اُچھلا۔ اس کا اُچھلنا تھا کہ خدا کی شان دیوار و محرابِ مسجد اس کے اور اس کے پیر کامل کے درمیان حائل نہ رہ سکی۔ دیوار پھٹ گئی اور مرید سیدھا پیر کامل کے گھوڑے کے نعل کو بوسہ دینے لگا۔ وارفتگی کا یہ عالم واقعتہً دیدنی تھا۔
مشہور ہے کہ حضرت پیر عبدالغفور رحمہ اللّٰہ کے صاحبزادے پیر عبدالرزاق صاحب بھی للّٰہیت میں اتنے گم ہو چکے تھے کہ دنیا اور دنیوی کثافتوں کا ان کے ظاہر تک پر کوئی اثر نہ تھا۔ بعد از وصال تین روز تک آپ کو دفن نہ کیا جا سکا۔ لیکن تین دن گزر جانے کے باوجود نہ تو آپ کا رنگ و رُوپ بدلا اور نہ کوئی تغیر رونما ہوا۔ روح جسم عنصری سے پرواز کر گئی۔ اس کے باوجود جسم تروتازہ رہا۔ تین دن تک پژمردگی کے اثرات شاید اس لئے مرتب نہ ہوئے کہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں فنا ہونے والے مردہ تو ہوتے ہی نہیں وہ تو صرف ایک آن کے لئے قانونِ ازلی کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتْ کی تعمیل میں اپنے آپ کو پیش کرتے ہیں۔ یا وہ اَلدُّنیَا سِجْنُ المُؤمِنْ کے مطابق قید خانے سے آزاد ہو کر اپنے گھر جنت الفردوس میں پہنچ جاتے ہیں اور جنت میں مردنی یا پژمردگی کہاں؟
حضرت میاں اللہ بخش رحمہ اللّٰہ نے راہِ سلوک میں مزید گہرائی و گیرائی کے حصول کے لئے مختلف اولیاء کبار کے مزاراتِ عالیہ پر بھی چلہ کشی کی۔ حضرت داتا گنج بخش علی ہجویری رحمہ اللّٰہ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی سنجری اجمیری رحمہ اللّٰہ، حضرت سلطان العارفین سلطان باہو رحمہ اللّٰہ کے مزارات پر طویل ریاضتیں اور چلے کئے۔ حتیٰ کہ ہندوستان میں ’’یوگ‘‘ کے نامور ماہر جوگیوں کی معیت میں پہاڑوں او رجنگلوں کے اندر روحانی ریاضتیں اور مجاہدے بھی کئے۔اور پوری زندگی پیلے رنگ کا لباس پہنا۔ غرض ان کی پوری زندگی جنگلوں، صحراؤں، پہاڑوں اور خانقاہوں پر گزری۔
آپ کی اوائل عمری کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک دفعہ حضرت داتا علی ہجویری رحمہ اللّٰہ کے آستانہ پاک پر چلہ کش تھے۔ جب چالیسویں رات آئی تو حضرت داتا گنج بخش رحمہ اللّٰہ کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ حضرت داتا صاحب نے گنج بخشی فرماتے ہوئے میاں صاحب کو ایک شیشی عطا فرمائی اور فرمایا: اللہ بخش! یہ شیشی گنج دنیا سے بھرپور ہے۔ اسے محفوظ کر لو دنیا میں کبھی کمی نہیں آئے گی۔ اس پر آپ رحمہ اللّٰہ نے عرض کیا کہ دولتِ دنیا چھوڑ کر تو آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں۔ آپ کے درِ دولت سے تو فقر و استغناء کی دولت کا تمنائی ہوں۔ شفقت فرماتے ہوئے وہ عطا کر دیجئے۔
حضرت میاں اللہ بخش رحمہ اللّٰہ اپنے پیر و مرشد حضرت خواجہ پیر عبدالغفور رحمہ اللّٰہ کے وصال کے بعد بیعتِ ثانی کے لئے حضرت موسیٰ پاک شہید رحمہ اللّٰہ کی اولاد میں سے ایک بزرگ حضرت سید مخدوم صدر الدین گیلانی رحمہ اللّٰہکی خدمت میں حاضرہوئے۔ اور ان سے بیعت کی۔یہ بیعت سلسلۂ قادریہ میں تھی۔ اس کے علاوہ فیوض و برکاتِ قادریہ میں حضرت سلطان باہو رحمہ اللّٰہ کے فیضان کا حصہ بھی شامل ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری فرماتے ہیں: ’’میں نے حضرت میاں اللہ بخش رحمہ اللّٰہ کی دوبار خواب میں زیارت کی ہے۔ ایک دفعہ اس طرح کہ خواب میں حضرت سلطان باہو رحمہ اللّٰہ کے مزار پُرانوار پر حاضر ہوں۔ مزار مبارک کھلتا ہے اور مخلوق منتظر ہے کہ حضرت سلطان باہو رحمہ اللّٰہ دیدار کرایا چاہتے ہیں۔ لیکن تھوڑی دیر کے بعد مزار شریف سے حضرت میاں اللہ بخش تشریف لے آتے ہیں۔ دوسری بار جو زیارت کا اعزاز حاصل ہوا تو وہ اس طرح کہ ایک کھلا میدان ہے۔ کسی نے بتایا کہ حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکر رحمہ اللّٰہ تشریف لائے ہوئے ہیں۔ ایک بہت بڑا خیمہ ایستادہ ہے جس میں حضرت بابا صاحب رحمہ اللّٰہ حب تشریف فرما ہیں۔ لوگوں کو آپ کے باہر تشریف لانے کا انتظار ہے۔ لیکن خیمہ سے جب حضرت بابا صاحب رحمہ اللّٰہ باہر تشریف لاتے ہیں تو شکل ہو بہو میاں اللہ بخش رحمہ اللّٰہ کی ہے، جس سے اشارہ اس اَمر کی طرف تھا کہ زہد و استغناء میں ان برگزیدہ نفوس کی متابعت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں بھی ان کے حلقے میں شامل کر لیا ہے۔ نیز ان دونوں بزرگوں سے خاص روحانی نسبت اور ان سے فیضیاب ہونے کا اشارہ بھی ملتا ہے۔
حضرت میاں خدا بخش رحمہ اللّٰہ کو خدائے بزرگ و برتر نے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی عطا فرمائی۔ ان کے سب سے بڑے بیٹے حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ ہیں جو فرید روزگار اور یگانۂ روزگار ثابت ہوئے۔ حضرت میاں خدا بخش رحمہ اللّٰہ کی اولاد کی تفصیل حسب ذیل ہے:
محمد فرید اور محمد صدیق نوجوانی کی عمر ہی میں داعی اَجل کو لبیک کہہ گئے تھے۔ محترم محمد اسماعیل صاحب بھی وفات پا چکے ہیں۔ حضرت فرید ملت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کے تین صاحبزادے ہیں:
ان میں سے محمد جاوید صاحب وصالِ الٰہی کا مرتبہ پا چکے ہیں۔ محمد طارق صاحب اس وقت منگلا ڈیم میں انجینئر کی حیثیت سے تعینات ہیں۔ اور حضرت شیخ الاسلام کی ذات محتاج تعارف نہیں۔
مہر غلام محمد بحیثیت تحصیلدار ڈسکہ میں دل کا دورہ پڑنے سے واصل بحق ہوئے۔ ان کی اولاد میں صبغت اللہ قادری، شفقت اللہ قادری، قدرت اللہ قادری، عظمت اللہ قادری اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔ سب سے بڑی صاحبزادی حضرت شیخ الاسلام کی اہلیہ محترمہ ہیں۔
خدائے بزرگ و برتر کے لطف و کرم سے اس خاندان میں صاحبانِ صدق و صفا پیدا ہوتے رہے۔ جن کے تذکرے ہمیں مل سکے ہیں۔ ان میں سے کوئی پشت ایسی نہیں جس میں اس کی ذات سے لَو لگانے والا کوئی نہ کوئی مردِ حق موجود نہ ہو۔ حضرت میاں خدا بخش رحمہ اللّٰہ کی اولاد میں سے اللہ رب العزت نے اس منصبِ عظیمہ کے لئے ان کے بڑے بیٹے حضرت ڈاکٹر محمد فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کا انتخاب کیا۔
حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ 1918ء میں جھنگ میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ ہائی سکول جھنگ میں ابتدائی تعلیم مڈل تک حاصل کی۔ اور ہر کلاس میں امتیازی حیثیت سے پاس ہوئے۔ حضرت مولانا غلام فرید رحمہ اللّٰہ جو بذاتِ خود درسِ نظامی کے فاضل اساتذہ میں تھے، سے تعلیم حاصل کی۔ اور درس نظامی کی ابتدائی کتب صرف، نحو اور منطق کا درس لیا۔ آپ بچپن ہی سے بڑے ذہین فطین اور طباع تھے۔ متحدہ ہندوستان میں ہندو سکھ اور مسلمان سب ایک ہی سکول میں پڑھتے تھے۔ اور اکثر مقابلہ رکھتا تھا۔ ان تعلیمی مقابلوں میں ڈاکٹر صاحب ہمیشہ ہر جماعت میں اوّل پوزیشن حاصل کرتے رہے اور ہمیشہ وظیفہ حاصل کیا لیکن چونکہ والد صاحب تعلیمی مذاق نہیں رکھتے تھے انہیں سکول سے اُٹھوا لیا۔
سلف صالحین کے حالات کے مطالعہ سے یہ پہلو عیاں ہوتا ہے کہ اُن میں سے اکثر حضرات لڑکپن ہی سے تلاشِ حق میں سرگرداں رہے۔ تجسس و طلبِ محبوب میں جہانِ خلوت میں گھنٹوں بیٹھے رہتے یا پھر نشاناتِ قدرت کے حسن و جمال میں گم رہتے۔ حضرت ڈاکٹر فرید الدین القادری رحمہ اللّٰہ بھی اسی طرح بچپن میں گھر سے نکل جاتے اور تین چار میل کے فاصلے پر دریائے چناب کے کنارے گھنٹوں مصروفِ اوراد و وظائف رہتے۔ پانی کی لہروں کی جولانی میں طالب صادق نے نہ جانے کیا پایا۔ کشتیوں کی آمد و رفت بذاتِ خود ’’صاحبانِ اولیٰ الالباب‘‘ میں شمولیت کا اعزاز بھی ہے۔
حضرت ڈاکٹر فریدالدین قادری رحمہ اللّٰہ کی ایک بزرگ عزیزہ محترمہ بخت بھری صا حبہ راوی ہیں کہ ڈاکٹر صاحب رحمہ اللّٰہ نو، دس سال کی عمر ہی میں دریا کے کنارے چلے جایا کرتے۔ اور وہاں بیٹھ کر سورۂ مزمل کا وظیفہ فرمایا کرتے اور کہا کرتے کہ میں حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے علاوہ ایک اور شہادت بھی قابل قدر ہے۔ محترم ڈاکٹر احسان قریشی صابری ریٹائرڈ پرنسپل گورنمنٹ کالج ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ سیالکوٹ جو حضرت ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللّٰہ کے قریبی دوستوں میں سے تھے، اپنے ایک تفصیلی خط جو انہوں نے ’’الاعتصام‘‘ میں اٹھائے گئے اعتراضات کے جواب میں لکھا۔ اپنی چشم دید گواہی کے ساتھ حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کے عنوان سے تحریر فرمایا۔
’’حضرت ڈاکٹر فرید الدین رحمہ اللّٰہ کو ایک ایسا عمل یاد تھا جس سے ان کو حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت ہو جاتی تھی اور اُن سے گفتگو بھی فرمایا کرتے تھے۔ ایک روز مَیں اور فریدصاحب جھنگ کے نواح میں دریائے چناب کے کنارے پھر رہے تھے۔ دفعتہ بولے حضرت خضر ؑدریا سے نکل کر آنے والے ہیں۔ ان سے مَیں نے صرف تین منٹ ملاقات کرنی ہے تم دور چلے جاؤ۔ دس پندرہ منٹ بعد واپس آجانا۔ میں نے بہتیرے ہاتھ جوڑے، ترلے منت کی، پاؤں بھی پڑا کہ مجھے زیارت کروا دو، مگر فرید صاحب نہ مانے۔ فرمانے لگے کہ تم ان کی زیارت کے لئے فٹ نہیں ہو، unfit ہو۔ بہر صورت میں کھیتوں کی جانب چل پڑا۔ میری رفتار آہستہ تھی۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک لکڑی کا قد آدم سے بھی دگنا تختہ کنارِ دریا پر لگا ہوا تھا۔ دریا سے ایک بزرگ صورت سفید نورانی داڑھی والے (حضرت خضر علیہ السلام) نکلے۔ سفید لباس پر پانی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ وہ چوبی تختے کی اوٹ میں حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ سے ملے۔ تین چار منٹ ملاقات رہی پھر واپس دریا میں چلے گئے، چوبی تختہ ہوا میں تحلیل ہوگیا۔چوبی تختے دراصل دو تھے، ایک اُس طرف ایک ہماری جانب۔ مگر مجھے دوسو گز دور سے صرف ایک ہی نظر آرہا تھا جو پردہ کے لئے فوراً آگیا تھا۔ یہ معجزہ تو حضرت خضر علیہ السلام کا تھا لیکن کرامت حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کی تھی۔ بہر صورت میں نے دور سے صرف ایک جھلک حضرت خضر علیہ السلام کی ضرور دیکھی جب وہ دریا سے نکلے تھے۔ حضرت سلطان باہو رحمہ اللّٰہ کے فیض سے یہ کرامت حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کو ملی کہ بیداری میں ہی دریائے چناب کے کنارے حضرت خضر علیہ السلام کی زیارت کر لیا کرتے تھے۔‘‘(مراسلہ مرقومہ: 27 اگست، 1989ء)
یہ دو شہادتیں ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ بچپن ہی سے جس لگن میں مصروف وہ دریائے چناب کے کنارے جا کر سورۂ مزمل شریف یا دیگر وظائف پڑھا کرتے تھے ان کا گوہر مقصود حضرت خضر علیہ السلام سے ملاقات تھی اور ان کے فیوض و برکات کی نعمت سے فیضیاب بھی ہو چکے تھے۔
حضرت فرید ملت رحمہ اللّٰہ کے والد ماجد حضرت میاں خدا بخش رحمہ اللّٰہ سیدھے سادے لیکن نیک اور صالح شخص تھے۔ ان کی خواہش تھی کہ بچہ کوئی ہنر سیکھ لے کم از کم نانِ جویں کی فکر سے آزاد ہو جائے۔ اس کے لئے انہوں نے جوراہ پسند کی وہ یہ کہ آٹھویں جماعت کی تکمیل سے پہلے ہی اسکول سے اُٹھا کر ایک حکیم صاحب کے پاس بٹھا دیا۔حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ نے حکیم صاحب کی محفل میں چند دنوں میں ہی محسوس کر لیا کہ ان کے پاس بیٹھنا وقت کا ضیاع ہے۔ دوسری طرف ’’جوہر قابل‘‘ کے مربی اساتذہ کرام بھی سکول سے آ آکر ان کے والد صاحب سے مسلسل رابطہ قائم رکھے ہوئے تھے کہ بچے کو اسکول سے کیوں اُٹھوا لیا گیا ہے۔ جبکہ یہ بچہ اسکول میں انگریزوں، ہندوؤں اور سکھوں کے مقابلے میں اپنی ذہانت، فطانت اور ذکاوت کی وجہ سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے۔ اگر آپ اخراجاتِ مدرسہ و تعلیم برداشت نہیں کر پاتے تو ہم مسلمان اساتذہ اس کی ذمہ داری قبول کرتے ہیں۔ لیکن اساتذہ کرام کے وفود کے بار بار ملنے پر بھی آپ کے والد گرامی سلسلۂ تعلیم جاری رکھنے پر رضامند نہ ہوئے اور جب بچے کی صدائیں بھی ’’صدا بصحرا‘‘ ثابت ہوئیں تو بچے نے مامتا کی محبت کے دروازے پر دستک دی۔ ماں نے اس دستک کی دھڑکن سنی تو اپنی متاعِ خانہ طلائی و نقرئی زیورات بچے کی جھولی میں ڈال کر کہا بیٹے جاؤ! علم کے حصول کے لئے تمہیں جھنگ کی سرزمین کو چھوڑنا بھی پڑے تو دریغ نہ کرنا۔ یہ میری زندگی کا حقیر اثاثہ ہے۔ اگر تمہارے کسی کام آجائے تو زہے نصیب! مستقبل میں قادری نسبت سے جھولیاں بھرنے والے گھرانے نے سنتِ قادری ادا کی۔ محبوبِ سبحانی، قطبِ ربانی، شہبازِ لامکانی، حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمہ اللّٰہ اور ان کی والدہ ماجدہ سیدہ فاطمہؓ کی سنت کے حصولِ علم کے لئے بچہ گھر کی سکون پرور راحتوں کو قربان کرتا ہے اور ماں چالیس دینار زادِ راہ کر دیتی ہے۔ یہ سنت صدیوں بعد جھنگ کے ایک گھرانے میں ادا کی جا رہی تھی۔ حضرت مائی صاباں رحمہ اللّٰہا اپنے بیٹے فرید الدین کو اپنی دعاؤں کی رداء میں الوداع کہتی ہے۔
حضرت مائی صاباں رحمہا اللّٰہ نے سنت قادری ادا کرتے ہوئے یہ انداز اختیار کیا، خدائے بزرگ و برتر نے انہیں اپنی رحمت سے ان کی خداشناسی، تقویٰ شعاری اور سنتِ صلحائِ اُمت پر عمل کے اس انداز کو پسند فرما لیا اور انہیں زندگی دوام کی دولت سے مالا مال کر دیا۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی دادی جان کے سلسلہ میں گفتگو کرتے ہوئے ایک انٹرویو میں فرماتے ہیں کہ:
’’دادی جان کا اسم گرامی تھا ’’مائی صاباں‘‘ ایک دیہات ہے ٹوبہ کی طرف چک 478 اس گاؤں کی رہنے والی تھیں۔ ہماری دادی جان بڑی صالحہ خاتون تھیں، بڑی درویش منش اور زاہدہ، عابدہ خاتون تھیں۔ مزاج کے اعتبار سے بڑی سادہ تھیں۔ ان کے انتقال کو کم و بیش ساٹھ برس ہو گئے ہیں۔ پچھلے دنوں میں جھنگ میں قبلہ والد صاحب کے مزار کی تعمیر نو کروا رہا تھا۔ مزار کے حجرے کے لئے جس پر گنبد بننا تھا۔ بنیادیں کھودی جا رہی تھیں، مستری مزدور لگے ہوئے تھے۔ والد صاحب قبلہ کی قبر کے بالکل متصل ہماری دادی جان کی قبر تھی۔ جب مزار کے حجرے کے لئے درمیان میں بنیادیں کھودی گئیں تو مزدوروں کے پھاوڑوں سے دادی جان کی قبر اندر سے کھل گئی، یعنی نیچے لحد سے کھل گئی۔ دادی جان کی قبر کی لحد کا کھلنا تھا کہ اندر سے خوشبو کا ایک جھونکا آیا جس نے پلک جھپکنے میں اِردگرد کی فضا کو معطر کر کے رکھ دیا۔ یہ واقعہ مجھے وہاں کام کرنے والے مزدوروں اور مستریوں نے بتایا۔ وہ سب حیران ہوئے کہ یہ ماجرا کیا ہے۔ انہیں قطعاً اس بات کا علم نہیں تھا کہ یہ قبر کس کی ہے؟ انہوں نے نیچے جھک کر دیکھا تو قبر کے اندر دادی جان کا کفن بالکل محفوظ، سلامت حالت میں تھا۔ تدفین کے ساٹھ سال بعد بھی ان کے کفن کو کوئی گزند نہیں پہنچا تھا۔ کہیں سے ذرا سا بھی گلا سڑا نہیں تھا۔ کفن کے اندر جسم بھی محفوظ پڑا تھا۔ مزدوروں نے فی الفور لحد کو بند کیا اور دوڑتے ہوئے ہمارے رشتہ داروں کے پاس جو جھنگ میں ہیں، گئے اور انہیں جائے وقوعہ پر لائے ا ور پوچھا یہ قبر کن کی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ قادری صاحب کی دادی جان کی قبر ہے۔ پھر مزدوروں نے انہیں سارا واقعہ سنایا۔ تھوڑے عرصہ بعد جب مَیں خود جھنگ گیا تو ان تمام مزدوروں نے یہ چشم دید واقعہ مجھے سنایا۔ اس سے آپ اندازہ لگا لیجئے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر کتنا کرم تھا۔ یہ سب ان کے تقویٰ اور صالحیت کی وجہ سے تھا۔‘‘
علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ جھنگ سے سیالکوٹ کی مردم خیز سرزمین پر قدم رکھتے ہیں وہاں انہیں مفتی اعظم حضرت علامہ محمد یوسف رحمہ اللّٰہ سیالکوٹی کا دامن شفقت میسر آتا ہے۔ دو سال کے مختصر عرصہ میں ان سے درس نظامی کی کتب پڑھیں اور ساتھ ہی ایک اسکول میں باقاعدہ داخل ہو کر میٹرک کر لیا۔ زیورات سے ماحصل دولت صرف بیس روپے کب تک ساتھ دیتے۔ ٹیوشن کا سلسلہ شروع کیا۔ پڑھاتے بھی رہے اور پڑھتے بھی رہے۔ اور گاہے گاہے گمنام خطوط کی صورت میں اپنے اہل خانہ کو مطلع کرتے رہے۔ والد صاحب نے اپنے اس بیٹے کی جدائی شدت سے محسوس کی لیکن جب خبر ملتی کہ بچہ بخیر و عافیت ہے تو دعائِ خیر دے کر خاموش ہو جاتے۔ سیالکوٹ میں محترم ڈاکٹر محبوب عالم قریشی رحمہ اللّٰہ (ہومیو پیتھ) کے ہاں مقیم رہے۔
سیالکوٹ میں میٹرک اور درسِ نظامی کی اعلیٰ کتب کی تعلیم کے بعد لکھنؤ کے لئے عازمِ سفر ہوئے۔ لکھنؤ میں فرنگی محل ایشیا کا معروف ترین مرکز علم وفن تھا۔ وہاں برصغیر کے اکابر علماء و فضلاء اور جلیل القدر فقہاء میں ایک نام سرِ فہرست نظر آتا ہے جسے تاریخ مولانا عبدالحی رحمہ اللّٰہ فرنگی محلی کے نام سے جانتی ہے۔ علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کو ذہانت و فطانت کی وجہ سے وہاں داخلہ مل گیا۔ درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے جوائنٹ طبیہ کالج میں داخل لے لیا۔ اس کالج کے پرنسپل جناب شفاء الملک حکیم عبدالحلیم لکھنوی رحمہ اللّٰہ تھے۔ موصوف حکیم اجمل خاں اور حکیم نابینا انصاری جیسے عظیم المرتبت حکماء و اطباء میں شمار ہوتے تھے۔
لکھنؤ میں جوائنٹ طبیہ کالج کا محل وقوع کچھ ایسا تھا کہ اس کے بالکل سامنے کنگ جارج میڈیکل کالج پُرشکوہ عمارت دعوتِ نظارہ دیتی تھی۔ دونوں اداروں میں باقاعدہ طے شدہ نظم کے تحت کبھی طبیہ کالج کے طلباء کنگ جارج میڈیکل کالج چلے جاتے اور کبھی وہاں کے طلباء ادھر آجاتے اور کبھی دونوں کسی ایک کالج میں ہم سبق ہو جاتے۔ اسی حسین امتزاج کی وجہ سے طلباء قدیم و جدید طب سے یکساں بہرہ ور ہوتے۔ ایک طرف وہ حکیم حاذق کہلاتے تو دوسری طرف ڈاکٹر اور ایل۔ ایس۔ ایم۔ ایف اور ایم۔ بی۔ بی۔ ایس وغیرہ کی ڈگریوں کے اعزازات بھی حاصل کر لیتے۔ حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ کو بھی یہ حسین مواقع میسر آئے۔
گوہر علم کا یہ متلاشی طلب علم میں یوں مخلص تھا، جیسے طالب مال کا دل اور آنکھیں کبھی سیر نہیں ہوتیں اسی طرح ان کی آنکھیں اور جی طلب علم میں انہیں کبھی سیر نہیں ہونے دیتا تھا۔ اگرچہ راہِ وفا کے مسافر کے لئے اس راہ میں دھوپ ہی دھوپ ہے۔ اور سایہ کہیں کہیں میسر آتا ہے، لیکن ’’تقدیر کے قاضی کا ازل سے یہ فتویٰ ہے کہ ’’دشتِ طلب کے راہی ہی بامراد رہتے ہیں اور انہیں کبھی مایوسی نہیں ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ موصوف ہر دو کالجوں میں فہرستِ اوّل کے طلباء میں شمار ہوتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے انہیں ذہانت و فطانت، فہم و ذکاوت، نکتہ سنجی اور استخراج و استنباط کی صلاحیتوں سے خوب نوازا تھا۔ حافظہ کمال کا رکھتے تھے، لیکن کامیابی اور کامرانی کے بامِ عروج تک پہنچتے پہنچتے کبھی کبھی مسافر اپنی آبلہ پائی دیکھ کر کرب بھی محسوس کرتا ہے۔ اور لذتیں و فرحتیں بھی پاتا ہے۔ عروسِ علم کے ہر نقاب کو اُلٹنے کا عزم رکھنے والے علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری کو گھر سے نکلنے کے وقت سے میڈیکل کالجوں میں داخلے تک فقر و فاقہ کی لذتوں سے کبھی محروم نہیں ہوئے۔ ایک بار تو یوں ہوا کہ فاقے کی شدت سے کالج نہ جا سکے۔ عزم و ہمت کے پاؤں میں بھوک کے عفریت نے اپنی بیڑیاں سخت کر دیں۔ کالج سے غیر حاضری کا صفحہ تو ان کی کتابِ زندگی میں تھا ہی نہیں۔ اساتذہ، دوست اور حلقہ یاراں متفکر ہوا۔ شام کو طبیہ کالج کے پرنسپل جناب حکیم عبدالحلیم نے یاد فرمایا۔ بڑی مشکل سے افتاں و خیزاں ان کے ہاں پہنچے تو حکیم صاحب نے دریافت فرمایا، بیٹے آج خیریت تھی کالج نہیں آئے؟ اہلِ محبت کے ہاں شکوہ حرام ہوتا ہے۔ بھوک کا شکوہ نہ کر سکے۔ اگرچہ لبوں کا غنچہ وا نہ ہوا تھا لیکن ’’تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں‘‘ جسم نازنین میں نقاہت اور شرم و حجاب سے نیچی نگاہیں اپنا راز اُگل چکی تھیں، پھر بھی شفیق اُستاد نے تسلی خاطر کو پوچھ ہی لیا۔ بیٹے صبح کیا کھایا تھا؟ ’’جوابِ صاحباں باشد خاموشی‘‘۔ بیٹے دوپہر کو کیا کھایا؟ جواب اب بھی نہ ملا تو اس صاحب علم ورافت نے اس یگانۂ روزگار کو اپنے سایۂ عاطفت میں لے لیا۔ حکیم صاحب کی اہلیہ محترمہ ایک معصوم بچے متین بابو کو مامتا سے محروم کر کے راہیٔ اجل ہو چکی تھیں۔ آج سے شفاء الملک کے ہاں متین بابو کے ساتھ ایک اور بیٹے متبنیٰ نے اپنا بستر بچھا لیا۔حضرت ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ اس گھر میں کیا آئے متین بابو کا دل بہل گیا۔ حکیم عبدالحلیم پرنسپل جوائنٹ طبیہ کالج کے سایہ عاطفت میں پناہ لینے والاعلامہ فرید الدین قادری ’’فرید روزگار‘‘ نکلا اور کامیابی و کامرانی اس کے قدم چومنے لگی۔
غربت کے عفریت سے نجات ملی تو فرید روزگار نے بیس بیس گھنٹے پڑھنے کی خو ڈالی۔ کبھی کبھی چند لمحات کے لئے جو آنکھ لگی بھی تو طلب صادق نے آکے جگا دیا۔ کاروان شوق کے مسافر نے پھر انگڑائی لی اور چل دیا۔ چلتے چلتے چار پانچ سال کے مختصر عرصہ میں دائیں بائیں بلکہ ہر طرف سے علم کے موتی سمیٹتا ہوا اپنی جھولیاں بھرتا چلا گیا۔ جوائنٹ طبیہ کالج سے طب کی سند حاصل کی۔ کنگ جارج میڈیکل کالج سے سر ٹیفکیٹ حاصل کیا۔ دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ درسِ نظامی مکمل ہوا۔ یعنی پانچ سال کے قلیل عرصہ میں بیک وقت دینی، دنیوی، طبی، یونانی اور ایلوپیتھی کے کورس مکمل کئے۔ اور فرید الدین سے ’’ڈاکٹر فرید الدین قادری ‘‘ہوئے۔ اس طرح آپ علم و عمل کے مقام علیا پر فائز ہو کر اُفق عالم پر چمکے۔
لکھنؤ علم و ادب کا گہوارہ، شعراء کا شہر، ادیبوں کا دیس، نزاکت و بانکپن کا شہر، جو شکیل مینائی کا شہر تھا، میر مینائی کا شہر تھا۔ شعر و ادب کی چاشنی سے اس کے در و دیوار بھی آشنا تھے۔ ایسے ماحول میں علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری رحمہ اللّٰہ شعر و ادب کی لطافتوں سے کس طرح نا آشنا رہ سکتے تھے۔ چنانچہ آپ نے شکیل مینائی کہ شہرہ آفاق شخصیت سے محبت کا خراج وصول کیا، شاعری میں اُن سے تلمذ کیا، اصلاح لی، لکھنؤ کے مشاعرے لوٹے اور پھر لکھنؤ کا کوئی مشاعرہ ایسا نہ ہوتا جس میں چوٹی کے شعراء شریک ہوں اور ان میں علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادری شامل نہ ہوں۔ شاعری کی ہر صنف میں طبع آزمائی کی اور خوب کی۔ بڑے بڑے نامور شعراء میں ناموری پائی۔
دینی و طبی تعلیم کی تکمیل کے بعد آپ وطن واپس تشریف لے آئے۔ اور تھوڑے ہی عرصہ بعد اپنے گھر کی بیٹھک میں ایک چھوٹا سا کلینک کھول کر اپنی عملی زندگی کا آغاز کر دیا۔ خود رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے اور دیگر بہن بھائیوں کی شادیوں کا اہتمام کیا۔ تحصیل علم اور رُوح کی بالیدگی کا ذوق بتدریج پروان چڑھتا گیا۔ ڈسٹرکٹ ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ میں باقاعدہ ملازمت اختیار کرلی۔ اس دوران ضلع جھنگ کے مختلف علاقوں میں تعینا ت رہے۔ ہر مقام پر لوگوں کے علاج معالجہ کے ساتھ ساتھ تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ جہاں بھی آپ کی ٹرانسفر ہوتی وہیں مسند رشد و علم بچھا لیتے۔ سرکاری اوقات کار سے فراغت کے بعد عصر سے مغرب تک کا وقت دینی علوم کی تعلیم و تدریس کے لیے وقف کر دیا۔ تحصیل علم اور تفویض علم کا سلسلہ زندگی بھر جاری رکھا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved