قادری قلندر تھے ڈاکٹر فرید الدین
علم کا سمندر تھے ڈاکٹر فرید الدین
فہم جن پہ نازاں تھی عقل جن پر حیراں تھی
وہ خطیبِ منبر تھے ڈاکٹر فرید الدین
اِتباعِ جیلانی، تھا حصارِ ایمانی
عاشق پیمبرؐ تھے ڈاکٹر فرید الدین
جب شبیں جواں ہوتیں سجدہ ریزیاں ہوتیں
کتنے روح پرور تھے ڈاکٹر فرید الدین
شیشہ سا وجود اُن کا رقبہ بے حدود ان کا
فرد تھے کہ لشکر تھے ڈاکٹر فرید الدین
کوچۂ توکل میں جز و گم رہا کُل میں
کس قدر تونگر تھے ڈاکٹر فرید الدین
نبضِ وقت پر ان کا، ہاتھ ہر گھڑی رہتا
حکمتوں کا جوہر تھے ڈاکٹر فرید الدین
رنگ و رُوپ نورانی اور ادائیں عثمانی
اک حیا کا پیکر تھے ڈاکٹر فرید الدین
جب قیام کرتے تھے شب تمام کرتے تھے
بندگی کے خُوگر تھے ڈاکٹر فرید الدین
واقعاتِ فردا کا پہلے علم ہو جاتا
گھر میں رہ کے باہر تھے ڈاکٹر فرید الدین
خضر سے بھی ملنے کا شوق ہوگیا پورا
بخت کا سکندر تھے ڈاکٹر فریدالدین
بیٹا ہی نہیں مانگا، حق سے اوجِ دیں مانگا
دردِ دل کا مصدر تھے ڈاکٹر فرید الدین
مل گیا انہیں بیٹا اور وہ بھی طاہرؔ سا
اطہر و مطہر تھے ڈاکٹر فرید الدین
بن گیا وہ برخوردار، تربیت کا اک شہکار
آگہی کا مظہر تھے ڈاکٹر فرید الدین
کالکوں کی دنیا میں بانٹتے پھرے کرنیں
خاکداں کا خاور تھے ڈاکٹر فریدالدین
عشرۂ عشیر اُس کا میں بیاں نہ کرپایا
جو بھی کچھ مظفرؔ تھے ڈاکٹر فرید الدینؒ
(مظفرؔ وارثی)
----------
غم گسارِ اُمتِ شاہِ ہدیٰؐ حضرت فریدؒ
عاشقِ زارِ محمد مصطفیؐ حضرت فرید
حضرتِ دکتور علامہ، فرید روزگار
سالکِ راہِ طریقت بے ریا حضرت فریدؒ
عالم بالغ نظر اور اک خطیبِ بے بدل
نکتہ داں شاعر، حکیمِ خوش ادا حضرت فرید
منکشف اسرارِ دینِ حق ہوئے اُن پر تمام
حق نگر، حق آشنا و حق نما حضرت فریدؒ
پیکرِ زہد و ورع، خلق و مروّت ان کی ذات
خوشہ چین اولیاء و اَتقیاء حضرت فریدؒ
قادری نسبت سے حاصل تھا انہیں ارفع مقام
غوث الاعظمؓ کے بامریدِ باصفا حضرت فریدؒ
پیشِ مولا محوِ گریہ، نالہ و ناز و نیاز
بہرِ ملت تھے سراپا التجاء حضرت فریدؒ
بارگاہِ حق میں تھیں اُن کی دعائیں مستجاب
یعنی تھے محبوبِ ربِّ کبریا حضرت فریدؒ
قائدِ تحریک کی صورت میں نیرؔ دے گئے
ملتِ اِسلامیہ کو رہنما حضرت فریدؒ
(ضیاء نیرؔ)
----------
آج پھر روحِ فریدالدینؒ جلوہ گر ہوئی
آپ کی جلوہ نمائی برلبِ کوثر ہوئی
اے طبیبِ ملتِ بیضا تیری تدبیر سے
حالت اس بیمار ملت کی بہت بہتر ہوئی
اس طرح سرکارؐ کی نظرِ کرم تم پر ہوئی
بات تیرے خون کی تاثیر کی گھر گھر ہوئی
خوں پسینے سے چمن شاداب کر کے چل دیے
سوچ کر یہ دل کی حالت صورت اخگر ہوئی
کس قدر واں دل لگا بیٹھا ہے ساقی آبھی جا
راستہ تکتے ہوئے اب آنکھ بھی پتھر ہوئی
دیکھ لو آکر کہ چرچے ہیں تمہارے ہر طرف
آج بھی محفل تمہارے نام کی شب بھر ہوئی
جو بھی آیا گلشن منہاج میں وہ بِک گیا
خاک جو اُڑ کر گری گِر کر یہاں گوہر ہوئی
نورؔ بیٹھا مے کدے تیرے پہ دھرنا مار کر
خاک بھی اس کی تری اولاد کی نوکر ہوئی!
(نور اَحمد نورؔ، فاضل، منہاج یونیورسٹی لاہور)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved