ملی سطح پر ہماری روحیں مردہ اور دل و دماغ شعور سے عاری ہو چکے ہیں۔ حق و باطل کی تمیز مٹ چکی ہے، ہم کلیتاً دنیا کے بندے بن چکے ہیں اور آخرت کو بھول کر غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں۔ اس غفلت نے اصل زندگی، جو ہمیشہ رہنے والی ہے، ہماری نظروں سے اوجھل کر دی ہے۔ جب موت وارد ہو گی تب شعور کی آنکھ کھلے گی۔ اصل نفع و نقصان جس کی اب ہمیں سمجھ نہیں آ رہی اور ہم انجام سے بے خبر حصولِ دنیا کی دوڑ میں سرگرم ہیں۔ موت، غفلت اور خود فریبی کے ان سارے پردوں کو چاک کر دے گی اور جو آج نظر نہیں آ رہا وہ سب نظر آنے لگے گا، لیکن موت کے بعدیہ بیداری بے سود ہو گی۔ نفع بخش بیداری وہی ہے جو مرنے سے پہلے نصیب ہو جائے۔ لہٰذا آج کا بیدار ہونا ہی حقیقی نفع ہے۔
بیداریِ شعور کی علامت کیا ہے، جس سے معلوم ہو کہ کون بیدار ہے اور کون خوابِ غفلت میں پڑا ہے؟ اس کا ایک سادہ اصول اور معیار یہ ہے کہ اپنی زندگی میں دنیا اور آخرت دونوں کا تقابلی جائزہ لیں۔ ہماری ترجیحات ہمارے شعور کی بیداری کو واضح کر دیں گی۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے آخرت کو بھلا بیٹھے ہیں۔ شیطان، نفس، خواہشِ دنیا، بُری صحبتیں، لذّتیں، شہوتیں، خودپرستی اور خودپسندی ہمارے حکمران ہیں۔ ہماری پوری زندگی کی لگام انہی کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارے احوالِ روز و شب میں فکرِ آخرت کی کہیں کوئی جھلک نظر نہیں آتی، نہ ہی ہمارے دل کی دھڑکنوں میں یومِ حساب کی سختیوں کا کوئی ہیجان ملتا ہے۔ اس کا ذکر بھی ہو تو بے اثر ہے، دل کی آنکھیں اور کان بند ہیں، نہ بصارت ہے اور نہ ہی سماعت، بس بے حسی چھائی ہے۔ آخرت کی کوئی فکر لاحق ہو تو شعور جاگے۔
ہماری حیاتِ مستعار کے دن معین ہیں، تمام آزمائشوں اور امتحانات کا دورانیہ بھی یہی دنیا ہے۔ دنیا کو ترک کرنا مقصود نہیں کیونکہ یہ دارالعمل ہے، بس اسے آخرت کے تابع کرنا مقصود ہے۔ اسی اصول کا کارفرما ہونا بیداری کی علامت، معیار اور پیمانہ ہے۔ دنیا کے معاملات میں جو فیصلہ بھی کرنے لگیں تو دیکھیں کہ اس عمل سے آخرت بہتر ہو گی یا نقصان ہو گا۔ اگر آخرت بہتر ہو گی تو وہ عمل کر گزریں اور اگر اس کے نتیجے میں آخرت کا نقصان ہو گا تو اس سے باز رہیں۔ یہی صراطِ مستقیم ہے۔ اوامر و نواہی بھی ہمیںاسی سیدھی راہ پر قائم و دائم رکھنے کی تراکیب ہیں۔ اسی شعور سے حلال و حرام کی تمیز کے دیے روشن ہوتے ہیں، استقلال وجود میں آتا ہے اور اُخروی نجات کی منزل نگاہوں میں جھلملانے لگتی ہے۔
غفلت کے لاتعداد مضمرات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ غفلت انسانی شخصیت کا وہ تاریک ترین پہلو ہے جس کی وجہ سے اسے آخرت میں ناکامی و نامرادی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ غفلت ایمانی تقاضوں کے ایفاء کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ نیک اعمال سے پہلو تہی اور گناہوں پر اصرار اسی غفلت کے باعث ہے جس کا نتیجہ قیامت کے دن بہت بڑی بدبختی کی شکل میں ظاہر ہونے والا ہے، جب الله تعالیٰ ارشاد فرمائے گا کہ اسے جہنم میں پھینک دو، دنیا میں اس نے مجھے بھلا دیا اور آج، یومِ حساب، میں نے اسے بھلا دیا۔ قرآن حکیم میں اس کا ذکر یوں کیا گیا ہے:
فَذُوْقُوْا بِمَا نَسِیْتُمْ لِقَآءَ یَوْمِکُمْ هٰذَا ج اِنَّا نَسِیْنٰـکُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْخُلْدِ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُونَo
السجدۃ، 32: 14
پس (اب) تم مزہ چکھو کہ تم نے اپنے اس دن کی پیشی کو بھلا رکھا تھا، بے شک ہم نے تم کو بھلا دیا ہے اور اپنے اُن اعمال کے بدلے جو تم کرتے رہے تھے دائمی عذاب چکھتے رہوo
صوفیائے کرام نے اِس انسانی کمزوری کے اسباب اور اِس سے نجات کا لائحہ عمل اور شرائط بھی سمجھائی ہیں۔ اس باب میں ہم غفلت کے اسباب و وجوہ اور بیداری کی شرائط اور تقاضوں پر روشنی ڈالیں گے۔ یہ باب اس لحاظ سے بھی خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ یہ ایک ایسے قابلِ عمل نصاب پر عمل پیرا ہونے کی دعوت دیتا ہے جس پر چل کر جہالت اور گمراہی کے پردے ایک ایک کر کے اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ انسان کی آنکھیں غفلت کی نیند سے بیدار ہو کر حقیقت کا مشاہدہ کرنے کے قابل ہو جاتی ہیں۔ یوں غفلت سے بیداری کا یہ سفر بندے کے لئے توبہ کی عظیم نعمت کے حصول کا باعث بن سکتا ہے۔
دل کا ملامت کرنا الله تعالیٰ کی نعمت ہے۔ یہ وہ درجہ ہے جس میں انسان پر الہام کیا جاتا ہے کہ نیکی اور بدی کیا ہے؟ گناہ سے پہلے یا ارتکابِ گناہ کے بعد دل جب از حد رنجیدہ اور پشیمان ہو تو اس میں یہ خیال پیدا کرنے والا ’’نفس لوّامہ‘‘ ہے۔ یہ نفس کا وہ درجہ ہے جس کی قرآن حکیم میں قسم کھائی گئی ہے۔
1۔ ارشاد رب العزت ہے:
وَلَآ اُقْسِمُ بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَۃِo
القیامۃ، 75: 2
اور میں قسم کھاتا ہوں (برائیوں پر) ملامت کرنے والے نفس کی۔
یہ نفس گناہ سرزد ہو جانے پر پشیمان ہو کر انسان کو برائی سے روکتا اور ٹوکتا ہے، یعنی محتسب بن کر گناہوں سے باز رکھتا ہے۔ نفس کی اس حالت میں الله تعالیٰ کی طرف سے تائیدِ غیبی اور توفیقِ باطنی انسان کے شاملِ حال رہتی ہے۔ نفسِ لوامہ ترقی پا کر نفسِ ملہمہ کا درجہ اختیار کر لیتا ہے۔ ملامت کرنے والا دل انسان کے اندر چوکیدار اور نگہبان کا کردار ادا کرتا ہے کیونکہ یہ دل ہی ہے جو انسان کو اچھے یا برے راستے کے انتخاب کی طرف مائل کرتا ہے۔ غافل دل الله تعالیٰ کی ناراضگی کا موجب ہوتا ہے جبکہ زندہ و بیدار دل انسان کے لیے خالق و مالک کی سب سے بڑی نعمت ہے۔ اہل الله کے ہاں اچھی، صاف سُتھری اور باکمال زندگی دل کے زندہ ہونے سے مشروط ہوتی ہے جبکہ مردہ دلی موت کا دوسرا نام ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
دلِ مردہ دل نہیں ہے اِسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے اُمتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
اقبال، کلیات (اردو)، ضرب کلیم: 549
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دل کو زندہ کیسے رکھا جائے اور اگر دل مردہ ہو جائے تو اِسے دوبارہ زندہ کرنے کا طریقہ اور علاج کیا ہے؟ دل کو زندہ رکھنا اور مردہ ہو جانے کے بعد اس کو دوبارہ زندہ کرنا مسلسل عملِ توبہ پر موقوف ہے۔
یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ کوئی شے بھی از خود ظہور میں نہیں آتی بلکہ اس کے وجود میں آنے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ اور سبب ہوتا ہے۔ یہی قانونِ فطرت ہے جو امر الٰہی کے تحت نظامِ عالم میں کارفرما ہے۔ بس تنہا الله تعالیٰ کی ذات اِس سے پاک ہے جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
2۔ وَ اللهُ غَالِبٌ عَلٰٓی اَمْرِهٖ.
یوسف، 12: 21
اور الله اپنے امر پر غالب ہے۔
توبہ کے عمل کے وقوع پذیر ہونے میں بھی بعض اسباب کار فرما ہوتے ہیں۔ اِن اسباب و علل کے بغیر کی گئی توبہ کا آغاز درست اور صحیح نہیں ہو سکتا۔ اس حوالے سے عرفاء نے اپنے اپنے حال کے مطابق اس موضوع پر بات کی ہے۔
صاحبِ ’عوارف المعارف‘ شیخ شہاب الدین سہروردی نے اس ضمن میں نہایت عمدہ اور پُر مغز گفتگو کی ہے۔ آپ فرماتے ہیں: ’توبہ سے قبل ملامت کرنے والے دل اور ایسے جذبے اور وجدان کی ضرورت ہے جو اس کے حال پر ملامت کرے۔‘ آپ مزید فرماتے ہیں کہ ’ملامت کرنے والا دل الله تعالیٰ کی عظیم بخشش اور انعام ہے۔ زجر و ملامت کی حالت اصل میں توبہ کی کلید اور اس کے حال کا آغاز ہے‘۔
عوارف المعارف، باب 58، شرح حال و مقام (زجر کی حقیقت): 677
یہ ملامتِ قلب درحقیقت ایک انتباہ ہے جو گنہگار بندے کے قلب پر وارد ہوتا ہے۔ یہ نیکی کی طرف جانے کا آغاز ہے۔ جب تک بندہ گناہوں اور نافرمانیوں کا مرتکب ہوتا رہا وہ دراصل غفلت کی نیند سوتا رہا۔ پھر انتباہ نے اسے جھنجھوڑتے ہوئے غفلت کی نیند سے بیدار کیا۔ یہ بیداری (یقظۃ) اسے بے چین کر کے توبہ کی راہ کا متلاشی بنا دیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں تنبیہ کے نور نے اس کی آنکھیں کھول دیں یعنی اسے بیدار کر دیا۔ وہ سب نافرمانیاں اور گناہ جو پہلے اس کی نظروں سے پوشیدہ تھے، اب اسے نہ صرف نظر آنے لگتے ہیں بلکہ اس کے لئے شدید ندامت اور شرمندگی کا باعث بن جاتے ہیں۔ یہی ندامت اسے توبہ کے دروازے کی طرف رجوع کرنے کا باعث بنتی ہے۔ بعض عارفوں کا قول ہے کہ غفلت اور بیداری الله تعالیٰ کی طرف سے ایک نشانی ہے جو بندوں کو طلبِ توبہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔ جب بیداری سے حال مضطرب ہو جاتا ہے تب بندہ صحیح معنوں میں مقامِ توبہ کی طرف منتقل ہوتا ہے۔ وہ ان تمام افعال سے باز آ جاتا ہے جو اسے الله تعالیٰ سے غافل اور نافرمان کرنے والے ہیں۔ توبہ کے مقام پر استقامت و استمرار سے نفس کی بدخوئی اور سرکشی خوش خُلقی اور اطاعت میں بدل جاتی ہے۔
اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ انسان کا اپنا نفس ہے جسے تصوف کی زبان میں نفس امارہ کہتے ہیں۔ اس کی آفات بے شمار ہیں۔ چنانچہ اس کے حملوں سے ہر لمحہ خبردار رہنا اور الله تعالیٰ کی توفیق سے اس کی مخالفت کے در پے رہنا بے حد ضروری ہے۔
1۔ ارشادِ رب العزت ہے:
اَفَمَنْ هُوَ قَآئِمٌ عَلٰی کُلِّ نَفْسٍم بِمَا کَسَبَتْ.
الرعد، 13: 33
کیا وہ (الله) جو ہر جان پر اس کے اعمال کی نگہبانی فرما رہا ہے۔
2۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا:
وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّۃَ هِیَ الْمَاْوٰیo
النازعت، 79: 40-41
اور جس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا، تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہو گا۔
ان دونوں آیات مبارکہ میں پہلے اللہ تعالیٰ نے انسانی نفس اور اس کی تمام خواہشات کی نگہبانی کرنے کا ذکر کیا ہے اور پھر دوسرے مقام پر نفس اور خواہشاتِ نفس کو قابو میں رکھنے کی ہدایت کی گئی ہے۔ توبہ میں استقامت مسلسل محاسبۂِ نفس سے ہی ممکن ہے۔ محاسبۂِ نفس کیا ہے؟ یہ اپنے احوال و اعمال پر نظر رکھنے کا نام ہے۔ بندے کو چاہئے کہ اپنے ہر فعل اور خواہش کو قرآن و سنت کی کسوٹی پر پرکھے تاکہ اس کا کوئی عمل بھی الله تعالیٰ اور رسول اکرم ﷺ کے احکام و فرامین سے متجاوز ہوتا دکھائی نہ دے اور نہ اُن کا دامنِ رضا ہاتھ سے نکلتا نظر آئے۔ نفسِ امارہ کی بے شمار صورتیں ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس کے دامِ فریب سے بچنے کے لئے اس کی فتنہ گری کو اپنی نگاہوں سے اوجھل نہ ہونے دے۔ یہی خود نگری اور خود نگہبانی اسے نفسِ امارہ کے شر سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔
اس موضوع پر عرفاء نے بڑی شرح و بسط سے گفتگو کی ہے۔ تاہم اجمالاً اس کی چند اہم خصوصیات درج ذیل ہیں:
1۔ نفس شہوت پرستی میں حیوانوں سے بدتر ہے۔
2۔ غیض و غضب میں یہ بہائم کی مانند ہے۔
3۔ خودپسندی میں یہ فرعون کا مقابل ہے۔
4۔ اطاعت گزاری سے گریز میں یہ شیطان لعین جیسا حیلہ ساز ہے۔
5۔ حرص و ہوسِ دنیا اور تکمیلِ خواہشات میں یہ قارون ثابت ہوتا ہے۔
6۔ ضد اور ہٹ دھرمی میں جہلائے قریش کا بھی سردار ہے۔
7۔ بھوک میں چنگھاڑتا ہے اور اگر شکم سیر ہو جائے تو سرکشی پر اتر آتا ہے۔
8۔ اونٹ کی طرح خود پرور، خود شعار اور خود سر ہے۔
حضرت شیخ شہاب الدین سہروردی ’عوارف المعارف‘ میں ’شرح حال و مقام‘ کے باب کے تحت لکھتے ہیں: ’جب توفیق ایزدی بندے کے شامل حال ہوتی ہے تو اس وقت اس کے محاسبہ کا حال تمام نفسانی صفات پر غالب آ جاتا ہے۔ پھر نفس مغلوب ہو کر اس کا تابع ہو جاتا ہے اور اس وقت جذبۂ محاسبہ اس کا وطن، مستقر اور مقام بن جاتا ہے یعنی وہ محاسبہ کے مقام میں داخل ہو جاتا ہے۔ مقامِ محاسبہ پر پہنچنے کے بعد اس پر حالِ مراقبہ طاری ہو جاتا ہے‘۔
عوارف المعارف، باب 58، شرح حال و مقام: 673
اس کے لغوی معانی حساب کتاب، پوچھ گچھ اور جانچ پڑتال کے ہیں۔ اپنے شب و روز میں کئے گئے اعمال کا حساب کرنا، ان کے حسن و قبح، حق و باطل کی جانچ پڑتال کرنا محاسبہ کہلاتا ہے۔
الله تعالیٰ نے سورۃ الذاریات میں کامل یقین کے حامل بندوں کو زمین میں اس کی قدرت کی نشانیوں پر غور و خوض کی دعوت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اس کی قدرت کی بے شمار نشانیاں خود تمہارے اپنے نفوس کے اندر ہیں۔
1۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَفِیْٓ اَنْفُسِکُمْ ط اَفَـلَا تُبْصِرُوْنَo
الذاریات، 51: 21
اور خود تمہارے نفوس میں (بھی نشانیاں ہیں)، سو کیا تم دیکھتے نہیں ہو۔
اپنے نفوس میں یہی حق کی تلاش اور باطل کا ابطال محاسبہ کی حقیقت ہے۔ علامہ اقبال نے ضربِ کلیم میں اسی حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے۔
اگر ہو خود نگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
اقبال، کلیات (اردو)، ضرب کلیم: 543
محاسبہ یہ ہے کہ بندہ اپنے نفس کی حرکات و سکنات اور خطرات اور اس کی لطف اندوزی کے گرد گھیرا ہمیشہ تنگ رکھے کیونکہ زندگی کا ہر سانس ایک ایسی نعمت اور ایسا جوہر ہے جو انمول ہے۔ اس سے ایسے خزانے خریدے جا سکتے ہیں جن کی نعمتیں کبھی ختم نہ ہوں۔ تو اِن سانسوں کو ایسے کاموں میں ضائع کرنا جو ہلاکت کا باعث ہیں، بہت بڑا نقصان ہے۔ لہٰذا نفس کو جانچتے، پرکھتے اور وعظ و تادیب کرتے رہنے سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہیے۔
2۔ ارشاد خداوندی ہے:
وَذَکِّرْ فَاِنَّ الذِّکْرٰی تَنْفَعُ الْمُؤْمِنِیْنَo
الذاریات، 51: 55
اور آپ نصیحت کرتے رہیں کہ بے شک نصیحت مومنوں کو فائدہ دیتی ہے۔
3۔ ایک دوسرے مقام پر فرمایا:
وَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ یَعْلَمُ مَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ فَاحْذَرُوْهُ.
البقرة، 2: 235
اور جان لو کہ الله تمہارے دلوں کی بات کو بھی جانتا ہے تو اس سے ڈرتے رہا کرو۔
4۔ پھر بطور تنبیہہ انسان کو نفس کی حیلہ سازیوں سے آگاہ کرتے ہوئے فرمایا:
وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهٖ نَفْسُهٗ.
ق، 50: 16
اور بے شک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور ہم اُن وسوسوں کو (بھی) جانتے ہیں جو اس کا نفس (اس کے دل و دماغ میں) ڈالتا ہے۔
جس طرح کاروباری لوگ ایک مقررہ وقت پر اپنا حساب کتاب آڈٹ کرواتے ہیں تاکہ اپنی آمدن اور خرچ کا صحیح جائزہ لے کر حقیقی نفع یا نقصان سے باخبر ہو سکیں، اسی طرح بندے کے لئے ضروری ہے کہ وہ بھی باقاعدہ اپنے اعمال کا احتساب کرتا رہے۔ جب دیکھے کہ اس کے نفس سے گناہ کا ارتکاب ہوا چاہتا ہے تو اس کی سختی سے باز پرس کرتے ہوئے اپنے احوال کو سنوارے اور نفس کو کبھی گناہوں کی مہلت نہ دے۔ دل میں اُٹھنے والے وساوس اور برے خیالات پر ہمیشہ نظر رکھے اور اسے چاہیے کہ نفس کے معمولی سے نقصان اور مکرو فریب سے بھی بچے۔ یہی محاسبہ کی حقیقت ہے۔
مراقبہ کے لغوی معنیٰ غور، تصور، سوچ و بچار اور دھیان کے ہیں جبکہ اصطلاحی معنیٰ میں اس سے مراد یہ ہے کہ سب چیزوں کو چھوڑ کر الله تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا اور اسی کی طرف دھیان کرنا۔ صوفیائے عظام نے حدیث جبرئیل علیہ السلام سے مراقبہ کا استنباط کیا ہے۔
صحیح بخاری میں حضرت جبرئیل علیہ السلام کے حضور ﷺ سے مختلف سوالات پوچھنے کی ایک طویل حدیث حضرت عمر فاروق علیہ السلام سے مروی ہے۔ ان سوالات میں ایک سوال یہ کیا گیا کہ یا رسول الله! مجھے احسان کے بارے میں بتائیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
1۔ أَنْ تَعْبُدَ اللهَ کَأَنَّکَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تکُنْ تَرَاهُ فإنَّهٗ یَرَاکَ.
احسان یہ ہے کہ تو الله تعالیٰ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہ دیکھ سکے تو (جان لے کہ) یقینا وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔
2۔ اسی مضمون کی ایک حدیث مبارکہ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کُنْ کَأَنَّکَ تَرَی اللهَ، فَإِنْ لَمْ تَکُنْ تَرَاهُ فَإِنَّهٗ یَرَاکَ.
(اے بندئہ خدا!) اس طرح ہو جا گویا تو اللہ تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے، اگر تو اُسے نہیں دیکھ رہا تو (یقین رکھ) وہ تو تجھے دیکھ ہی رہا ہے۔
یہ احادیث مبارکہ مراقبہ کی اصل ہیں۔ انسان اپنے شب و روز یوں بسر کرے جیسے وہ الله تعالیٰ کو دیکھ رہا ہے اور اگر دیکھ نہ سکے تواسے یہ یقین کامل طور پر حاصل ہو کہ اس کی زندگی کا ہر لمحہ الله تعالیٰ کی نظر میں ہے اور وہ ہر لمحہ اسے دیکھ رہا ہے۔ اس کے دل میں یہ احساس ہر وقت روشن رہے کہ اسے دیکھا جا رہا ہے اور اس کے دل میں گزرنے والا ہر خیال بھی اللہ تعالیٰ کی نظر میں ہے۔ مراقبہ کی یہ کیفیت دراصل قربِ خداوندی کی غمّاز ہے۔ جب بندہ اس بات کا یقین حاصل کر لے کہ وہ جہاں بھی ہو الله تعالیٰ اسے دیکھتا ہے تو پھر وہ ہر لمحہ شکرگزار بن کر خشوع و خضوع اختیار کر لیتا ہے، حضوری کی یہ کیفیت اس پر طاری رہتی ہے اوروہ مولیٰ کی بندگی بجا لانے سے کبھی بے نیاز نہیں ہوتا۔ وہ مالک کو اپنے اندر محسوس کرتا ہے اور دل میں ہر لمحہ اس کا ذکر جاری اور اُس کی یاد کا چراغ روشن رہتا ہے۔ مراقبہ کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ نگرانی کرنے والے (رقیب) حق تعالیٰ کو کبھی نہ بھولے، ہر دم اُسی کا خیال رہے۔ مراقبہ سے دل کو معرفت حاصل ہوتی ہے جس کے باعث وہ ہمیشہ الله تعالیٰ کی طرف متوجہ اور مشغول رہتا ہے۔ قرآن حکیم میں متعدد آیات میں الله تعالیٰ کا اپنے بندوں کو دیکھنے اور ان کے نگہبان ہونے کا ذکر ملتا ہے۔
1۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَبَثَّ مِنْهُمَا رِجَالاً کَثِیْرًا وَّنِسَآءً ج وَاتَّقُوا اللهَ الَّذِیْ تَسَآئَلُوْنَ بِهٖ وَالْاَرْحَامَ ط اِنَّ اللهَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًاo
النساء، 4: 1
اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہاری پیدائش (کی ابتدائ) ایک جان سے کی پھر اسی سے اس کا جوڑ پیدا فرمایا پھر ان دونوں میں سے بکثرت مردوں اور عورتوں (کی تخلیق) کو پھیلا دیا، اور ڈرو اس اللہ سے جس کے واسطے سے تم ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتوں (میں بھی تقویٰ اختیار کرو)، بے شک اللہ تم پر نگہبان ہے۔
2۔ ایک اور جگہ ارشاد ہوا:
اَفَمَنْ هُوَ قَآئِمٌ عَلٰی کُلِّ نَفْسٍ م بِمَا کَسَبَتْ ج وَجَعَلُوْا لِلّٰهِ شُرَکَآءَ ط قُلْ سَمُّوْهُمْ ط اَمْ تُنَبِّئُوْنَهٗ بِمَا لَا یَعْلَمُ فِی الْاَرْضِ اَمْ بِظَاهِرٍ مِّنَ الْقَوْلِ ط بَلْ زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مَکْرُهُمْ وَصُدُّوْا عَنِ السَّبِیْلِ ط وَمَنْ یُّضْلِلِ اللهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍo
الرعد، 13: 33
کیا وہ (الله) جو ہر جان پر اس کے اعمال کی نگہبانی فرما رہا ہے اور (وہ بت جو کافر) لوگوں نے الله کے شریک بنا لیے (ایک جیسے ہو سکتے ہیں؟ ہرگز نہیں)۔ آپ فرما دیجیے کہ ان کے نام (تو) بتاؤ۔ (نادانو!) کیا تم اس (الله) کو اس چیز کی خبر دیتے ہو جس (کے وجود) کو وہ ساری زمین میں نہیں جانتا یا (یہ صرف) ظاہری باتیں ہی ہیں (جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں) بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) کافروں کے لیے ان کا فریب خوشنما بنا دیا گیا ہے اور وہ (سیدھی) راہ سے روک دیے گئے ہیں، اور جسے الله گمراہ ٹھہرا دے تو اس کے لیے کوئی ہادی نہیں ہو سکتا۔
3۔ ایک دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:
مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌo
ق، 50: 18
وہ مُنہ سے کوئی بات نہیںکہنے پاتا مگر اس کے پاس ایک نگہبان (لکھنے کے لیے) تیار رہتا ہے۔
4۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَلَمْ یَعْلَمْ بِاَنَّ اللهَ یَرٰیo
العلق، 96: 14
کیا وہ نہیں جانتا کہ الله (اس کے سارے کردار کو) دیکھ رہا ہے؟
الله تعالیٰ کے انسانی اعمال کو دیکھنے اور نگہبان ہونے کی آیات کے مطالعہ سے انسان کو مشاہدئہ حق کے یقین کی بدولت مراقبہ کی نعمت نصیب ہو جاتی ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو سب سے بہترین عبادت (فرائض کے بعد) مراقبہ کو اختیار کرنا ہے۔ عارفوں نے یہ نکتہ سمجھانے کے لئے ایک مثال بیان کی ہے کہ ایک بزرگ کا ایک صالح نوجوان شاگرد تھا جس سے وہ بڑی محبت کرتے۔ دوسرے مریدوں نے اس سے کی جانے والی غیر معمولی محبت کی وجہ دریافت کی تو انہوں نے ایک پرندہ ہر مرید کو دیا کہ اس کو وہاں ذبحہ کر کے لاؤ جہاں کوئی دوسرا نہ دیکھ سکے۔ سب مریدین پرندے ذبح کر کے لے آئے جبکہ وہ خاص شاگرد بغیر ذبح کئے ہوئے پرندہ واپس لے آیا۔ اس سے پوچھا گیا کہ اس نے ذبح کیوں نہیں کیا؟ تو وہ عرض کرنے لگا کہ مجھے کوئی ایسی جگہ نہیں ملی جہاں کوئی دیکھتا نہ ہو کیونکہ الله تعالیٰ تو مجھے ہر جگہ دیکھ رہا ہے۔ سب نے اُس کے مراقبہ کو پسند کیا کہ واقعی یہ مرید تکریم و تعظیم کے لائق ہے۔
مراقبہ ان لوگوں کا عمل ہے جن کو یقین ہو کہ الله تعالیٰ ضمیر کی ہر بات سے مطلع ہے اور سینے کے ہر راز کو جانتا ہے۔ لہٰذا وہ اُن مذموم خیالات سے کبھی بے پرواہ اور غافل نہیں ہوں گے جو انہیں حق سے غافل کر دیں۔ اہل مراقبہ کی نظر ہر وقت اس بات پر ہوتی ہے کہ آیا اُن کا ارادہ اور عمل الله تعالیٰ کے لئے ہے یا خواہشِ نفس کے تابع ہے۔ جب مالکِ حقیقی کا ہر لمحہ خیال رکھا جائے اور اپنی پوری توجہ اور یکسوئی مولیٰ کی جانب ہی مبذول رہے تو یہ حالتِ حضوری بندے کو توبہ پر قائم رکھتی ہے اور اس کے دل کو غافل ہونے سے بچائے رکھتی ہے۔ محاسبہ اور مراقبہ مسلسل جاری رہے تو انتباہ سے شروع ہونے والا یہ عمل اسے زُہد و تقویٰ کے اعلیٰ مقام تک پہنچا دیتا ہے۔ جس شخص نے اپنے اعمال کے محاسن پر ہی نظر رکھی وہ کبھی بھی حقیقی توبہ کے ثمرات سے بہرہ مند نہیں ہو سکتا یعنی اس کی توبہ کبھی درجۂ کمال تک نہیں پہنچ سکتی۔
ایک قاری یا سامع جب محاسبہ اور مراقبہ کا ذکر پڑھتا اور سنتا ہے تو وہ اپنے طور پر سمجھتا ہے کہ یہ تو راهِ سلوک کا بڑا اعلیٰ اور ارفع عمل ہے، ایک عام مُبتدی اس کا کہاں متحمل ہو سکتا ہے! اور یوں وہ ان کی برکات سے محروم رہ جاتا ہے۔
محاسبہ اور مراقبہ کے بارے میں اس عام غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے حضرت شیخ الاسلام ابو اسماعیل عبد الله انصاری نے اپنی تصنیف مَنَازِلُ السَّائِرِیْن کے پہلے باب یَقْظَۃ (بیداری) میں اس حوالے سے نہایت ہی آسان مگر فکر انگیز اور متاثر کُن انداز میں بحث کی ہے اور محاسبے اور مراقبے کے حوالے سے غور و فکر کی راہیں کھول دی ہیں۔ سلوک و طریقت کی راہ و رسم اور آداب سے کوئی خواہ کتنا ہی ناآشنا ہو، اس کے مطالعے سے غیر محسوس انداز میں محاسبے اور مراقبے کے فوائد و ثمرات سے مستفیض ہو سکتا ہے، شرط صرف ایک ہی ہے کہ طلبِ مولیٰ خالص ہو۔
اِخلاصِ عمل مانگ نیاگانِ کہن سے
شاہاں چہ عجب! گر بہ نوازند گدا را
اسلاف سے عمل میں اخلاص کی نعمت طلب کر، شہنشاہ اگر کسی فقیر پر اپنی نوازشات کی بارش کر دے تو یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہو گی۔
محاسبہ و مراقبہ کے نتیجے میں انسان الله تعالیٰ کی اطاعت و بندگی بجا لا کر اپنی غفلت کے بارے میں آگہی حاصل کر سکتا ہے۔ غفلت سے بیدار ہو کر توبہ کی منزل تک پہنچنے کی کچھ شرائط ہیں جنہیں عرفاء نے اپنے اپنے حال کے مطابق بیان کیا ہے۔ یہاں ان شرائط کو بیان کیا جا رہا ہے جنہیں پورا کر کے بندہ توبہ کے حقیقی ثمرات سے مستفیض ہو سکتا ہے۔
بیداری ترکِ غفلت کا نام ہے۔ انسان جب اپنی غفلت سے آگاہ ہو جاتا ہے اور اس کے مضمرات اس کے علم میں آتے ہیں تو اسے یہ پریشانی لاحق ہو جاتی ہے کہ اس کی زندگی تو اب تک الله تعالیٰ کی نافرمانی میں بسر ہو رہی ہے اور ربِ کریم کا دامنِ رضا تو ہاتھ سے نکل گیا۔ یہ انتباہ اس کے دل میں اس صورتحال سے باہر نکلنے کی خواہش پیدا کرتی ہے۔ اب وہ مولیٰ کی رضا ڈھونڈنے نکلتا ہے۔ گناہوں، نافرمانیوں اور فسق و فجور سے آلودہ زندگی سے نکلنے کی یہ خواہش دراصل نورِ قلب ہے جس کے ذریعے اسے اپنی جملہ برائیاں نہ صرف نظر آنے لگتی ہیں بلکہ ان سے چھٹکارا پانے کی شدید خواہش اس کے دل میں اضطراب پیدا کر دیتی ہے۔ یہ نورِ قلب اس کے سینے کی گھٹن کو دور کر کے اسے الله تعالیٰ کی بندگی کے لئے کشادہ کر دیتا ہے، پھر شرح صدر ہو جاتا ہے اور ہدایت الٰہی کا نزول ہونے لگتا ہے۔ یہاں سے سالِک اور طالِب کا سفرِ ہدایت شروع ہو جاتا ہے۔ لیکن غفلت میں پڑا انسان بیدار کیسے ہو؟ اس کی تین شرائط ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر بندہ الله رب العزت کے حضور سچے دل سے توبہ کا حامل ہو جاتا ہے۔
بندے کی نظر ہر وقت الله تعالیٰ کی نعمتوں کی طرف اس طرح رہنی چاہئے کہ دل میں ان کا احساس زندہ رہے اور انہیں شمار کرے اور انہیں یاد کر کے شکر کی کیفیت میں ڈوبا رہے۔ انسان دو حالتوں سے کبھی باہر نہیں ہوتا: وہ یا تو صحت مند ہوتا ہے یا کبھی بیمار، کبھی سکھی اور کبھی دکھی۔ راحت کے ساتھ رنج پیوست ہے اور تنگی کے ساتھ فراخی۔ الغرض ہر انسان کی زندگی میں یہ نشیب و فراز وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ نعمتوں پر نظر رکھنے سے دل میں شکر بجا لانے کا داعیہ پیدا ہو گا اور وہ الله تعالیٰ سے شکوہ کرنے سے محفوظ ہو جائے گا۔ اگر رزق میں تنگی آئے تو اس کو نہ دیکھے بلکہ عطا کردہ فراخی پر نظر رکھے، جب بیماری آ جائے تو اس کو نہ دیکھے بلکہ صحت کی حالت کو یاد رکھے، رنج و الم آئیں تو ان کو نہ دیکھے بلکہ راحت و آرام میں بسر کی ہوئی زندگی کو نظر میں لائے۔ زحمت کی حالت میں بھی اپنا دھیان اس کی رحمت پر رکھے۔ پہلی شرط یہی ہے کہ ہر حال میں بندے کا دھیان الله تعالیٰ کی اَن گنت نعمتوں کے مطالعہ میں رہے۔ وہ الله تعالیٰ کی ان نعمتوں کا شمار شروع کر دے جو اس کی پیدائش سے لے کر اب تک بِن مانگے اور بغیر کسی استحقاق کے اس کو عطا ہوتی رہیں۔ بندہ خیال کرے کہ مجھے الله تعالیٰ نے انسان بنایا اور مسلمان پیدا کیا۔ بچپن سے لڑکپن، جوانی اور اب لمحۂ موجود تک لمحہ بہ لمحہ میری ہر احتیاج کو پورا کیا، سلامت جسم دیا، صحت و تندرستی دی، لباس و خوراک مہیا کی، جملہ سہولتوں کے ساتھ رہنے کو گھر دیا، عقل و شعوراور عزت و آبرو عطا فرمائی، عیبوں پر پردہ ڈالا اور خوبیوں کو ظاہر کیا۔ ظاہری و باطنی رزق کا بندوبست فرمایا حتیٰ کہ اب تک زندگی دی، وگرنہ کتنے ہیں جو مر کر مٹی ہو چکے۔ الغرض بندہ اگر ایک ایک کر کے الله تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا شمار کرنا شروع کرے تو بالآخر پکار اٹھے گا: اے رب العزت! تیری نعمتوں کو کوئی بھی شمار نہیں کر سکتا!
1۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:
وَاِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللهِ لَا تُحْصُوْھَا.
ابراہیم، 14: 34
اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو (تو) پورا شمار نہ کر سکو گے۔
2۔ ایک دوسرے مقام پر الله تعالیٰ بندے کو جھنجھوڑتے ہوئے دریافت فرماتا ہے:
فَبِاَیِّ اٰلَآئِ رَبِّکُمَا تُکَذِّبٰنِo
الرحمٰن، 55: 16
پس تم دونوں اپنے رب کی کِن کِن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے؟
الله کی نعمتوں کے مطالعہ سے بندہ اس حقیقت سے آشنا ہو جاتا ہے کہ یہ سب الله تعالیٰ کی یک طرفہ عطا ہے جبکہ ان نعمتوں پر جو شکر واجب تھا وہ بندہ ادا نہیں کر سکا اور نہ ہی کسی میںکما حقہ شکر کا حق ادا کرنے کی سکت ہے۔
جب یہ امر قلب و ذہن میں راسخ ہو جائے کہ الله تعالیٰ کی نعمتیں لاتعداد ہیں اور شمار نہیں ہو سکتیں تو اگلے مرحلے میں اپنی کوتاہیوں اور اپنے گناہوں کو شمار کرنا ضروری ہے۔ اس احتساب کے تین مراحل ہیں:
پہلا مرحلہ یہ ہے کہ بندہ کامل یکسوئی اور دھیان سے اپنے دل و نگاہ کو ماضی میں کی گئی کوتاہیوں، نافرمانیوں اور گناہوں کے مطالعہ پر مرکوز کرے۔ وہ تمام فرائض و سنن اور اعمالِ صالحہ جو ایک مومن کے لئے الله تعالیٰ کی اَن گنت نعمتوں پر شکر ادا کرنے کے سلسلے میں ضروری تھے اور وہ بجا نہ لا سکا، اُن سب کو ایک ایک کر کے اپنے دل و دماغ میں لائے۔ بندہ اطاعت بھی کرتا ہے اور اس سے گناہ بھی سرزد ہوتے ہیں۔ یعنی اعمالِ حسنہ اور اعمالِ سیئہ دونوں ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ بیداری کی دوسری شرط یہ ہے کہ بندے کی نظر صرف اپنے اعمالِ سیئہ پر مرکوز رہے۔ جو نیک اعمال اور عبادات الله کی دی ہوئی توفیق سے ادا ہوئے اُنہیں ہرگز شمار نہ کرے۔ ایسا کرنے سے وہ خود کو نیک تصور کرنے لگے گا اور اس کی لغزشیں اسے نظر نہیں آئیں گی جس کا نتیجہ غفلت کی شکل میں نکلے گا۔ اس کے برعکس بندے کی نظر اگرہمیشہ اپنی نافرمانی، ظلم، زیادتی، گناہ اور خطا پر رہے یعنی ترکِ اطاعت ہمیشہ پیش نظر رکھے تو اُس کی نظر اُن اسباب و وجوہ پر رہے گی جو ترکِ اطاعت کا باعث بنے۔ اس سے شرمندگی، ندامت اور ملامت کی کیفیات جنم لیں گی جو توبہ پر منتج ہوتی ہیں اور بندہ عجز و انکساری میں ڈوبا اپنے مولیٰ کی طرف پلٹ جاتا ہے، اس کی رضا کی تلاش میں نکلتا ہے، اس کا دامن صبر، شکر اور ذکر کی نعمتوں سے بھر جاتا ہے اور انجام کار اُسے زہد و تقویٰ کی منزل مل جاتی ہے۔
آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے گناہوں کو دیکھنے کی بجائے اپنا سارا زور دوسروں کے عیوب دیکھنے پر لگا دیتے ہیں۔ اِس گناہ میں ہم انفرادی، قومی اور بین الاقوامی سطح پر بری طرح ملوث ہیں۔ اس کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ ہم اپنے گناہوں پر نظر رکھیںاور عیب جوئی کو ایک بڑا گناہ جانتے ہوئے اس سے اپنا دامن بچائیں۔ خود احتسابی کرتے ہوئے بندہ جب اپنے گناہوں کو دیکھے گا تو اسے شرمندگی اور پشیمانی کے سوا کچھ سجھائی نہ دے گا۔ یوں دوسروں کے عیوب اس کی نظر سے اوجھل ہو جائیں گے۔ بہادر شاہ ظفر نے اس بارے میں کیا خوب کہا ہے:
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنے خبر
رہے دیکھتے اوروں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر
تو نگاہ میں کوئی برا نہ رہا
یہ دراصل زاویہ نگاہ بدلنے کی بات ہے۔ صرف یہی وہ انقلابی سوچ ہے جس سے احوالِ زیست درست ہو سکتے ہیں۔
محاسبۂ نفس کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ جب پہلے مرحلے کے نتیجے میں اپنے گناہوں کے گہرے مطالعہ کے بعدبندے کو یہ آگہی ملے گی کہ اس کی نافرمانیاں یقینا قابل گرفت اور قابل مواخذہ ہیں اور وہ مارے خوف کے لرزہ بر اندام رہنے لگے گا اورہلاکت کی معرفت اس کے قلب و باطن میں مُرتسِم ہو جائے گی تودردناک انجام کے خوف کا حال ہلاکت کی معرفت کے مقام کا درجہ اختیار کر لے گا۔ یہ مقامِ معرفت محاسبۂ نفس کا دوسرا مرحلہ ہو گا۔
اگرچہ اس سے قبل بھی کسی وقتی تأثر کے باعث کئی بار انسان کو گناہوں کا احساس کیفیت کی شکل میں آبدیدہ کر کے گزر چکا ہو گا لیکن حقیقی بیداری جو اسے توبہ کی طرف لے جائے، اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک بندہ یہ احساس اپنے دل میں راسخ نہ کرلے کہ الله تعالیٰ بڑا انتقام لینے والا ہے، جیسا کہ ارشاد گرامی ہے:
1۔ وَاللهُ عَزِیْزٌ ذُوْانْتِقَامٍo
آل عمران، 3: 4
اور الله بڑا غالب انتقام لینے والا ہے۔
کسی شخص کو بھی اللہ رب العزت کے فرمان کے بارے میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے جیسا کہ ایک دوسرے مقام پر فرمایا گیا:
2۔ فَلاَ تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَo
البقرۃ، 2: 147
سو تو ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا۔
اپنے دل و دماغ میں یہ امر پختہ کرنا ہو گا کہ الله تعالیٰ کے حضور یومِ حشر ہر شخص کو عملِ مواخذہ سے گزرنا پڑے گا، جہاں زندگی بھر کے ایک ایک عمل کا حساب دینا ہو گا جبکہ اُس کے اپنے اعضاء اُس کے خلاف گواہی دے رہے ہوں گے۔ الله تعالیٰ قرآن حکیم میں فرماتا ہے:
3۔ فَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ خَیْرًا یَّرَهٗo وَمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّا یَّرَهٗo
الزلزال، 99: 7-8
تو جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہوگی وہ اسے دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہوگی وہ اسے (بھی) دیکھ لے گا۔
محاسبۂ نفس کا تیسرا مرحلہ یہ ہونا چاہیے کہ جب بندے کے قلب و باطن میں الله تعالیٰ کے حضور مواخذہ کا حال مقام میں بدل جائے تو تیسرے مرحلے پر اب بندہ اپنی پوری توجہ، دھیان اور فکر اس امر پر مرکوز کرے کہ اس صورت حال کا تدارک کیسے ہو؟ آنے والے متوقع مواخذے سے بچنے کی کیا سبیل اختیار کرے؟ یہ طریقۂ تدارک اور راهِ نجات صرف اسی صورت ممکن ہے کہ بندہ خود کو مفلس و لاچار پا کر الله تعالیٰ کی رحمت و مغفرت کے دامن سے لپٹ جائے اور یہ بات اس کے من میں حقیقت بن کر دائماً اتر جائے کہ میری نجات اور بخشش کا دار و مدار صرف اور صرف الله تعالیٰ کے فضل پر منحصر ہے کیونکہ قیامت کے دن اس کے بے وزن اعمال اپنی قدر و قیمت کھو کر ہوا میں منتشر ہو چکے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل حق اپنی عبادات و اعمال کو الله تعالیٰ کے حضور گناہ کا درجہ دیتے ہیں۔ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ اُن کی زبان اس قابل نہ تھی کہ مالک کی حمد و ثناء کماحقہ بیان کر سکے، اُن کی پیشانی اس قابل نہ تھی کہ حقیقی معنوں میں سجدہ ریزی کا حق ادا کر سکے، اسی طرح جسم کے دیگر اعضاء و جوارح اس قابل نہ تھے کہ حق بندگی ادا کر سکیں۔ بندہ پوری سوچ وچار کے بعد اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ اس کے پاس اس کے دامنِ رحمت سے لپٹ جانے کے سوا کوئی دوسرا راستہ ہے ہی نہیں۔ جب ہر وقت رجوع الی الله رہے گا تو استغفار کا یہ تصور اسے گناہوں سے محفوظ رکھنے کا باعث بن جائے گا۔
4۔ قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:
وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِکْرِنَا.
الکهف، 18: 28
تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے۔
غافل شخص کی صحبت غفلت کا باعث ہے جو الله تعالیٰ سے دوری کا سبب بنتی ہے چنانچہ الله تعالیٰ کی قربت اور حضوری میں رہنے کے لئے ایسے لوگوں کی صحبت سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ ہمہ وقت الله تعالیٰ کے حضور اپنی حاضری کا تصور اور ہدایت کی طلب پیش نظر رہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں بندہ احساسِ ندامت میں ملفوف رہنے لگتا ہے۔
پہلے مرحلے میں جب اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر غور کیا تو معلوم ہوا کہ وہ اس قدر وسیع ہیں کہ شمار میں نہیں آسکتیں۔ اس سے بندے کے دل میں شکر گزاری کی کیفیت پیدا ہوئی۔ دوسرے مرحلے میں اس نے اپنی زندگی میں کی گئی کوتاہیوں، غلطیوں اور گناہوں کا جائزہ لیا جن کا وہ مسلسل اور متواتر ارتکاب کرتا رہا۔ اس سے اس کے قلب میں شرمندگی کے گہرے احساس نے جنم لیا۔ اس لیے اب تیسرے مرحلے میں وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں اور اپنی کوتاہیوں کا تقابلی جائزہ لیتا ہے تاکہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہو کہ بیتے ہوئے ایام میں اس نے کیا کھویا اور کیا پایا، یعنی اعمال کے نتیجے میں کیا فوائد حاصل ہوئے اور کون کون سے نقصانات اس کے حصے میں آئے؟ انسان تکویناً اورطبعاً خطا کا پتلا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں خود ارشاد فرمایا:
وَالْعَصْرِo اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍo
العصر، 103: 1-2
زمانہ کی قسم (جس کی گردش انسانی حالات پر گواہ ہے)۔ بے شک انسان خسارے میں ہے (کہ عمر عزیز گنوا رہا ہے)۔
چونکہ مجموعی طور پر اپنے اعمال و احوال کے حوالے سے انسان خسارے میں جا رہا ہوتا ہے اس لیے اس سورہ مبارکہ میں پہلے انسان کی عمومی حالت کا ذکر کیا گیا ہے۔ پھر اس کے بعد سورہ مبارکہ میں ان خاص بندوں کا ذکر کیا گیا جو ایمان لائے اور صالح اعمال بجا لائے، وہ حق کے لئے کوشاں ہوئے اور اس جدوجہد میں جن مصائب و آلام سے گزرنا پڑا اسے صبر و ہمت سے برداشت کیا۔ بندہ اس مقام پر اپنی توجہ اس بات پر مرکوز کرے کہ گزرے دنوں میں اعمال کے حوالے سے آخرت کے لئے کیا فائدہ اٹھایا اور کس قدر نقصان اور خسارے سے دو چار ہوا؟ یہ غور کرنا کوئی مشکل کام نہیں۔ دو اور دو چار کی طرح بہت جلد یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح اُس پر عیاں ہو جائے گی کہ وہ نفع و نقصان کے حوالے سے کس مقام پر کھڑا ہے؟
یہ بات ہمیشہ یاد رہے کہ عبادات و معاملات اگر اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیب رسول اکرم ﷺ کے احکام کی پیروی میں ادا کئے جائیں تو ہر عمل صالح سے ایک نور پیدا ہوتا ہے اور اگر بندہ اللہ کی توفیق سے نیک اعمال پر استقامت اختیار کر لے تو اس کا قلب نورٌ علٰی نور ہو جاتا ہے۔ اس کے برعکس برے اعمال پر اصرار کرنے سے قلب مکمل طور پر سیاہ ہو جاتا ہے۔ اس پر بدبختی کی مہر لگ جاتی ہے اوروہ حق قبول کرنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے۔ یہ اس کے اعمال کی سزا ہوتی ہے جس کا وہ خود ذمہ دار ہوتا ہے۔
محاسبۂ اعمال کے اس مرحلے میں بندہ غور کرے کہ:
1۔ فرائض ادا کرنے میں کون کون سی کوتاہیاں سرزد ہوئیں
2۔ سنن کی ادائیگی میں کیا کیا نافرمانیاں کیں
3۔ نوافل اور دیگر خیرات کے کون کون سے امور تھے جن پر عمل نہیں کرسکا۔
فرائض سے مراد وہ تمام کام ہیں جن کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ ان میں عبادات اور دیگر معاملاتِ زندگی شامل ہیں جو فرائض منصبی پر مشتمل ہیں اور جن کی ادائیگی حسنِ سیرت کے لئے لازم کی گئی ہے۔ مذہبی عبادات کے علاوہ مخلوقِ خدا کے واجب الادا حقوق، امانت و دیانت، عہد و پیمان، خرید و فروخت، لین دین، پڑوسیوں اور قرابت داروں سے برتاؤ تجارت، ملازمت الغرض پیدا ہونے سے لے کر مرنے تک بے شمار حقوق ہیں جو اگر صحیح طور پر ادا کئے جائیں تو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے ورنہ بندہ حکم عدولی کرتے ہوئے نقصان اٹھا بیٹھتا ہے۔
دوسرے مقام پر سنن کا درجہ آتا ہے۔ بندہ تمام امور جو سنت کی ذیل میں آتے ہیں ان کو ملاحظہ کرے کہ اگر وہ صحیح معنوں میں انجام دیتا تو اُخروی نفع کا مستحق قرار پاتا لیکن انہیں ادا نہ کرسکنے کے باعث آخرت میں خسارے سے دوچار ہو گا۔
تیسرے مقام پر نوافل اور دیگر تمام امورِ خیر آتے ہیں جو اگر ادا کر لئے جاتے تو اللہ تعالیٰ کی رضا کی دولت میسر آتی اور نور بصیرت ملتا، لیکن نہ کر سکنے کے باعث خسارے کا پلڑا بھاری ہو جائے گا۔
جملہ امور پر غور و فکر کرنے سے یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ اس کی زندگی کے گزرے ہوئے ایام اس کے لئے خسارے کے سوا کچھ نہ تھے۔ جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے کہ اپنی غفلت کے بارے میں یہ آگہی ایک نعمت کا درجہ رکھتی ہے۔ زندگی کے گزرے ہوئے لمحات اسے مالکِ حقیقی کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ اس نعمت کی معرفت کے لئے ضروری ہے کہ بندہ دنیوی لحاظ سے اپنے سے کم تر بندوں کی طرف نظر کرے کیونکہ جنہیں دنیاوی نعمتیں زیادہ میسر ہیں ان کی طرف دیکھنے سے ندامت کی بجائے احساسِ محرومی پیدا ہوتا ہے جو حسد اور شکوے کا باعث بنتا ہے، جبکہ اپنے سے کم مایہ بندوں کو ملنے اور دیکھنے سے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانے کے خیالات جنم لیتے ہیں۔ اہل صفا کہتے ہیں کہ اے بندے! تو اہلِ بلا کی طرف نظر کر، اس سے تجھے خود پر اللہ تعالیٰ کی عطا بہت وسیع نظر آئے گی اورتجھے یہ احساس ملے گا کہ تجھ پر الله تعالیٰ کی نعمتیں اَن گِنت اور بے حساب ہیں۔
اس ضمن میں تین امور کا ذکر بڑی اہمیت کا حامل ہے:
اللہ تعالیٰ کی عظمت و کبریائی کا دھیان دل میں بسانے سے قلب و نظر میں اس کی قوت و قدرت اور حقیقی عظمت و تعظیم کا تصور راسخ ہوتا ہے۔ جب انسان غور کرے کہ اللہ کتنا بڑا ہے اور اس کی بارگاہ کتنی عظیم ہے تو اسے اپنی چھوٹی سے چھوٹی نافرمانی و کوتاہی بھی بڑی نظر آنے لگے گی اور اپنے گناہوں کے مقابل اپنی نیکیاں بے نام نظر آئیں گی۔ نتیجتاً اس سے خوف و خشیتِ خداوندی پیدا ہو گی۔ اہل الله اپنی ابتدائی اور انتہائی دونوں حالتوں میں الله تعالیٰ سے بے حد ڈرتے رہتے ہیں۔ ابتدائی حالت میں گناہوں اور عذاب کی وجہ سے ڈرتے ہیں اور انتہائی حالت میں عظمت و جلالِ خداوندی کی وجہ سے، کیونکہ جب ان کو عظمت و جلالِ خداوندی کا مشاہدہ ہوتا ہے تو اس کے مقابلے میں اپنی اطاعات ہیچ نظر آتی ہیں اور خود کو سراپا لغزش و گناہ سمجھتے ہیں۔
نفس کی معرفت یہ ہے کہ بندہ اپنی اصل پر غور کرے کہ ایک حقیر سے نطفہ سے اس کا آغاز ہوا اور انجام کار اس کے جسم نے مٹی میں دفن ہو کر ختم ہو جانا ہے۔ دنیا کی ناپائیداری اور اللہ تعالیٰ کی عظمت کے سامنے اپنی حقارت کا تصور اسے گناہوں سے بچنے میں معاون ثابت ہوگا اور انسان کی نظر اپنے اعمال کے عمدہ ہونے پر کبھی مرکوز نہیں ہو گی بلکہ اس کا رویہ اپنے اعمال کی تحقیر پر رہے گا۔ یاد رہے کہ نفس کی جبلت حرکت پر موقوف ہے۔ اس جبلّی تقاضے کے تحت نفس ہر عملِ صالح کی مخالفت میں سرگرم رہتا ہے اور ایسی ایسی خواہشات کی تکمیل میںمجنوں ہونے لگتا ہے جنہیں اعمالِ بد تصور کیا جاتا ہے۔ لہٰذا بندے پر لازم ہے کہ نفس کو اچھے اور محمود آداب پر قائم رکھنے کے لئے اس کی لگام کو مضبوطی سے پکڑ کر اُسے قابو میں لائے اور اسے اعمالِ صالحہ کا عادی کر کے اپنے ارادے کے زیر کرے، نفس کو ایک شتر تصور کرتے ہوئے اس کا شتربان بن جائے تاکہ اعمالِ خیر سرعت سے سرانجام دینے کے عمل میں نفس کی خود سری سے محفوظ رہے اور اس کے ہر کام میں نفس حالتِ سکون میں رہے۔ نفس کے بے سکون ہونے کا ذکر قرآن حکیم میں یوں کیا گیا ہے:
وَکَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًاo
الإسراء، 17: 11
اور انسان برا ہی جلد باز واقع ہوا ہے۔
صالحین کے احوال میں سے ہے کہ جب وہ قیامت کے ہولناک واقعات یاد کرتے یا الله تعالیٰ کی صفاتِ جباریت و قہاریت کا ذکر سنتے تو ان پر خوفِ الٰہی کے باعث غشی اور بے ہوشی طاری ہو جاتی۔ حضرت امام عبد الوہاب شعرانی نے اپنی تصنیف تَنْبِیْهُ الْمُغْتَرِیْن میں بیان کیا ہے کہ ایک روز حضور نبی اکرم ﷺ نے سورہ مزمل کی یہ آیت پڑھی:
{ اِنَّ لَدَیْنَآ اَنْکَالًا وَّجَحِیْمًاo وَّطَعَامًا ذَا غُصَّۃٍ وَّعَذَابًا اَلِیْمًاo (المزمل، 74: 12-13) ’بے شک ہمارے پاس بھاری بیڑیاں اور (دوزخ کی) بھڑکتی ہوئی آگ ہے۔ اور حلق میں اٹک جانے والا کھانا اور نہایت دردناک عذاب ہے۔‘} اس وقت آپ ﷺ کے پاس حمران بن اعین تھے۔ یہ سن کر ان کی روح پرواز کر گئی۔
شعرانی، تنبیہ المغترین: 22
انسان غور کرے اور سوچے کہ پروردگار کا کلام سن کر اخلاص کے مقام پر کبھی اسے خوف کے باعث غش آیا ہے یا بے ہوش ہوا ہے؟ ایسی باتوں سے دل نرم ہوتا ہے اور رجوع الی الله کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
اُخروی نجات کی تین مزید تدابیر ایسی ہیں جن پر عمل کرتے ہوئے بندہ غفلت سے بیدار ہو کر توبہ اختیار کرنے میں سہولت اور رغبت محسوس کرتا ہے۔
انسان کو چاہیے کہ اہل حق علماء کی صحبت اختیار کرنے کو اپنے لازمی امور میں شامل کرے۔ اس سے اسے دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل کرنے کا علم نصیب ہو گا کیونکہ عمل کرنے کی اولین شرط علم حاصل کرنا ہے۔ صحبت کے آداب میں سے ایک یہ ہے کہ حصولِ علم کے لئے ہمیشہ ہمہ تن گوش رہے۔
1۔ قرآن حکیم نے علم کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ.
الزمر، 39: 9
فرما دیجئے: کیا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو لوگ علم نہیں رکھتے (سب) برابر ہوسکتے ہیں؟
2۔ ایک دوسرے مقام پر حصولِ علم کے سلسلے میں اہل ذکر سے استفادہ کرنے کو یوں بیان کیا گیا:
فَسْئَلُوْٓا اَھْلَ الذِّکْرِ اِنْ کُنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَo
الأنبیاء، 21: 7
(لوگو!) تم اہلِ ذکر سے پوچھ لیا کرو اگر تم (خود) نہ جانتے ہو۔
اہلِ علم اور اہلِ ذکر سے اکتسابِ فیض اسی صورت ممکن ہے اگر ان کی صحبت اختیار کی جائے۔ ان سے زندگی کے اسرار و رموز سمجھنے کے لئے ان کی صحبت اختیار کرنا ہو گی۔ پاس بیٹھیں گے تو نئے نئے نکات سامنے آتے جائیں گے اور فہم و ادراک کے افق روشن ہوتے چلے جائیں گے۔ شعورِ ذات اور بیداریٔ قلب کے لئے تو ان سے رابطے بدرجۂ اتم ضروری ہیں، کیونکہ صرف وہی سمجھا سکتے ہیں کہ خود آگہی کے مراحل کیسے طے ہوتے ہیں اور نورِ بصیرت کیسے ملتا ہے۔ جب یہ روشنی ملنے لگے تو اخروی زندگی کی کامیابی پر سے پردے اٹھنے شروع ہو جاتے ہیں۔
حصولِ علم کی اس اہمیت کے پیشِ نظر مختلف احادیث مبارکہ میں بھی علم کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
1۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ الْعُلَمَاءَ هُمْ وَرَثَۃُ الْأَنْبِیَاءِ.
بے شک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں۔
یہ امر ہمیشہ ملحوظ خاطر رہے کہ عمل کے بغیر علم وبال ہے۔ اس لیے صرف علم کے حصول پر ہی اکتفا نہ کرے بلکہ علماء سے جو کچھ ملے اس پر عمل بھی ضروری ہے تاکہ ان سے حاصل ہونے والی ہدایت پر یقین کامل ہو جائے۔ علم کے مطابق عمل کرنے میں کوشاں رہنے سے وسعت نظری پیدا ہوتی ہے، ابہام کم ہوتا ہے اور واضحیت پروان چڑھتی ہے جس میں کامیابی پوشیدہ ہے۔
2۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:
مَنِ ازْدَادَ عِلْمًا وَلَمْ یَزْدَدْ فِي الدُّنْیَا زُهْدًا لَمْ یَزْدَدْ مِنَ اللهِ إِلَّا بُعْدًا.
جس شخص نے زیادہ علم حاصل کیا لیکن دنیا سے بے رغبتی اختیار نہیں کی (یعنی عمل کی توفیق نہ ہوئی) تو وہ حق تعالیٰ سے دور ہی ہوتا جائے گا۔
3۔ امام حسن بصری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
وَمَنِ ازْدَادَ عِلْمًا ثُمَّ ازْدَادَ عَلَی الدُّنْیَا حِرْصًا لَمْ یَزْدَدْ مِنَ اللهِ إِلَّا بُعْدًا، وَلَمْ یَزْدَدْ مِنَ اللهِ إِلَّا بُغْضًا.
جس شخص نے زیادہ علم حاصل کیا پھر دنیا کی حرص و ہوس میں مبتلاہو گیا (یعنی عمل کی توفیق نہ ہوئی) تو وہ حق تعالیٰ سے دور ہی ہوتا جائے گا۔ اور اللہ تعالیٰ کے غیض وغضب کا شکار ہوتا جائے گا۔
وہ احکام جن کے بجا لانے کا حکم دیا گیا ہے انسان ان پر صدقِ دل سے عمل پیرا ہو اور اس کے دماغ میں بھی کبھی ان کی حکم عدولی کا خیال نہ آئے۔ شعائر اللہ اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی دل سے تعظیم کرنا اور ان پر عمل پیرا ہونا دلوں کا تقویٰ ہے کیونکہ جس چیز اور امر کا ادب دل میں بیٹھ جائے اس کی کبھی بھی مخالفت نہیں کی جاتی۔
قرآن حکیم میں مختلف مقامات پر الله تعالیٰ کی نشانیوں کی تعظیم کرنے والوں کے لئے تقویٰ جیسی عظیم نعمت کی بشارت دی گئی ہے۔
1۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰـٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللهِ.
المائدۃ، 5: 2
اے ایمان والو! الله کی نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو۔
2۔ دوسرے مقام پر فرمایا گیا:
ذٰلِکَ وَمَنْ یُّـعَـظِّـمْ شَعَآئِرَ اللهِ فَاِنَّھَا مِنْ تَقْوَی الْقُلُوْبِo
الحج، 22: 32
یہی (حکم) ہے اور جو شخص الله کی نشانیوں کی تعظیم کرتا ہے (یعنی ان جانداروں، یادگاروں، مقامات،احکام اور مناسک وغیرہ کی تعظیم جو الله یا الله والوں کے ساتھ کسی اچھی نسبت یا تعلق کی وجہ سے جانے پہچانے جاتے ہیں) تو یہ (تعظیم) دلوں کے تقویٰ میں سے ہے (یہ تعظیم وہی لوگ بجا لاتے ہیں جن کے دلوں کو تقویٰ نصیب ہوگیا ہو)o
3۔ سورۃ الحجرات میں فرمایا:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللهِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰیط لَهُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌo
الحجرات، 49: 3
بے شک جو لوگ رسول الله (ﷺ) کی بارگاہ میں (ادب و نیاز کے باعث) اپنی آوازوں کو پست رکھتے ہیں، یہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو الله نے تقویٰ کے لیے چُن کر خالص کر لیا ہے۔ ان ہی کے لیے بخشش ہے اور اجرِ عظیم ہے۔
الله تعالیٰ نے قرآن حکیم میں جہاں اپنی نشانیوں کی تعظیم و تکریم کو تقویٰ کا معیار قرار دیا ہے وہاں اپنی مقرر کردہ حدود کا احترام نہ کرنے والوں پر اپنی ناپسندیدگی اور غضب کا اظہار بھی فرمایا ہے۔
4۔ ارشاد ربانی ہے:
وَاَهْلَکْنَا الْمُسْرِفِیْنَo
الانبیاء، 21: 9
اور ہم نے حد سے بڑھ جانے والوں کو ہلاک کر ڈالا۔
5۔ حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کو الله تعالیٰ کی اطاعت کا سبق دیتے ہوئے فرمایا:
وَلَا تُطِیْعُوْٓا اَمْرَ الْمُسْرِفِیْنَo
الشعراء، 26: 151
اور حد سے تجاوز کرنے والوں کاکہنا نہ مانو۔
6۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم کے شرک کرنے اوراس پر الله تعالیٰ کے غضب کا اظہار یوں فرمایا:
لَا جَرَمَ اَنَّمَا تَدْعُوْنَنِیْٓ اِلَیْهِ لَیْسَ لَهٗ دَعْوَۃٌ فِی الدُّنْیَا وَلَا فِی الْاٰخِرَۃِ وَاَنَّ مَرَدَّنَـآ اِلَی اللهِ وَاَنَّ الْمُسْرِفِیْنَ هُمْ اَصْحٰبُ النَّارِo
المؤمن، 40: 43
سچ تو یہ ہے کہ تم مجھے جس چیز کی طرف بلا رہے ہو وہ نہ تو دنیا میں پکارے جانے کے قابل ہے اور نہ (ہی) آخرت میں اور بے شک ہمارا واپس لوٹنا اللہ ہی کی طرف ہے اور یقینا حد سے گزرنے والے ہی دوزخی ہیں۔
7۔ قوم لوط پر عذاب کا ذکر الله تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا:
مُّسَوَّمَۃً عِنْدَ رَبِّکَ لِلْمُسْرِفِیْنَo
الذاریات، 51: 34
(وہ پتھر جن پر) حد سے گزر جانے والوں کے لیے آپ کے رب کی طرف سے نشان لگا دیا گیا ہے۔
اولیاء اللہ وہ نفوسِ قدسیہ ہیں جن کی صجت سے مردہ دل زندہ ہو جاتے ہیں، دلوں کی غفلت دور ہو جاتی ہے اور وہ بیدار ہو کر اللہ تعالیٰ کی یاد میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں دیکھ کر اللہ تعالیٰ یاد آ جاتا ہے۔
1۔ حضورنبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں:
أَلَا أُنَبِّئُکُمْ بِخِیَارِکُمْ؟ قَالُوا: بَلٰی، یَا رَسُولَ اللهِ! قَالَ: خِیَارُکُمْ الَّذِینَ إِذَا رُئُوْا ذُکِرَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ.
میں تمہیں اچھے انسان نہ بتاؤں؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیوں نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: تم میںسب سے اچھا شخص وہ ہے جسے جب لوگ دیکھیں تو انہیں اللہ یاد آجائے۔
2۔ ایک دوسرے مقام پر حضور نبی اکرم ﷺ اللہ کے دوستوں کا تذکرہ فرماتے ہیں:
لَا یُحِقُّ الْعَبْدُ حَقِیقَۃَ الإِیْمَانِ حَتّٰی یَغْضَبَ لِلّٰهِ وَیَرْضٰی لِلّٰهِ، فَإِذَا فَعَلَ ذَلِکَ اسْتَحَقَّ حَقِیْقَۃَ الإِیْمَانِ، وَإِنَّ أَحِبَّائِي وَأَوْلِیَائِي الَّذِیْنَ یُذکَرُوْنَ بِذِکْرِي وَأُذْکَرُ بِذِکْرِهِمْ.
بندہ اس وقت تک ایمان کی حقیقت کو نہیں پا سکتا جب تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے لئے ہی (کسی سے) ناراض اور اللہ تعالیٰ کے لئے ہی (کسی سے) راضی نہ ہو (یعنی اس کی رضا کا مرکز و محور فقط خوشنودیٔ ذاتِ الٰہی ہو جائے) اور جب اس نے یہ کام کر لیا تو اس نے یقینا ایمان کی حقیقت کو پالیا۔ بے شک میرے احباب اور اولیاء وہ لوگ ہیں کہ میرا ذکر کرنے سے ان کی یادیں تازہ ہوتی ہیں اور ان کا ذکر کرنے سے میں یاد آ جاتا ہوں۔ (میرے ذکر سے ان کی یاد آ جاتی ہے اور ان کے ذکر سے میری یاد آ جاتی ہے۔ یعنی میرا ذکر ان کا ذکر ہے اور ان کا ذکر میرا ذکر ہے)۔
چنانچہ اولیاء اللہ کی صحبت اور سنگت اختیار کرنے سے بدبختی خوش بختی میں بدل جاتی ہے۔ حضرت مولانا روم نے کیا خوب فرمایا ہے:
یک زمانہ صحبت با اَولیاء
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا
اولیاء کرام کے ساتھ گزری ہوئی ایک ساعت سو سال کی بے ریا عبادت سے بہتر ہے (کیونکہ ان کی سنگت در حقیقت اللہ تعالیٰ کی سنگت ہے)۔
اپنے علم کے مطابق عمل کرنے میں صوفیائے کرام کا کردار بلاشبہ قابلِ تقلید ہے۔ امام عبد الوہاب شعرانی اس حوالے سے امام یافعی کا ذاتی واقعہ نقل کرتے ہیں۔ انہوں نے فرمایا: میں دس برس تک اس خیال میں گم رہا کہ فقہاء کی صحبت اختیار کروں یا علماء کے طریقہ کو اختیار کروں۔ اسی دوران اولیائے حق میں سے ایک ملا اور کہنے لگا: درویش کی ابتداء علم کے حصول کی انتہاء ہے۔ تمہیں چاہئے کہ کسی درویش کی صحبت میں درجاتِ قربِ الٰہی حاصل کرو۔ پھر فرمایا: میں چاہتا ہوں تجھے موازنہ کر کے دکھا دوں تاکہ کامل یکسوئی سے اولیاء کی ارادت حاصل کر سکے۔ پھر انہوں نے اس وقت کے اکابر علماء میں سے ایک شخص کو بلا بھیجا اور ادھر اپنی جماعت کو حکم دیا کہ اس کی تعظیم کے لئے کھڑے نہ ہوں اور نہ ہی جگہ کے لئے وسعت دیں۔ جب وہ عالم آئے تو سوائے جوتوں کی جگہ کے، بیٹھنے کے لئے کوئی مقام نہ پایا اور نہ ہی تعظیم کے لئے لوگ کھڑے ہوئے۔ وہ شخص منہ موڑ کر شیخ اور ان کی جماعت کو برا بھلا کہتا ہوا چلا گیا۔ شیخ نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ جس علم کو تم طلب کرنا چاہتے ہو، اس کا یہ ثمر ہے۔
اس کے بعد ایک درویش کو بلا بھیجا اور اپنے خدام کو اس کے ساتھ بھی وہی سلوک روا رکھنے کو کہا۔ وہ درویش آئے تو حسبِ سابق کسی نے ان کی طرف التفات نہ کیا، تو وہ مسکرائے اور درویشوں کے جوتوں کو سیدھا کرتے ہوئے عرض کرنے لگے کہ حضورِ والا! میں آپ کے سامنے حق تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں اور اپنا سر (سے عمامہ) کھول کر کہنے لگے: حضرت! یہ سر حاضر ہے۔ اس پر انہوں نے مجھے فرمایا: درویشوں کے طریقہ کا ثمرہ بھی دیکھ لو۔
حضرت یافعی فرماتے ہیں کہ اس کے بعد میں نے درویشوں اور اولیاء الله کا ہی طریقہ اختیار کیا۔
شعرانی، الأنوار القدسیۃ فی بیان آداب العبودیۃ: 10
صالحین کی سنگت بلاشبہ بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ تو وہ قدسی روحیں ہیں کہ جہاں اُن کا ذکر کیا جائے اس جگہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کے نور کا نزول ہوتا ہے۔ ان کی صحبت کے فیض سے تو نجس کتا بھی محروم نہیں رہتا جس کا واقعہ سورہ الکہف میں مذکور ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اولیائے کاملین کی صحبت و سنگت نصیب فرمائے تاکہ ان کے فیض کے طفیل غفلت سے بیدار ہو کر صحیح معنوں میں تائب بن سکیں۔
غفلت سے بیداری کے کچھ تقاضے ہیں جن پر اگر عمل پیرا نہ ہوا جائے تو انسان گناہوں اور فسق و فجور کی طرف چلا جاتا ہے۔ حضرت امام غزالی نے مجموعہ رسائل ’أَیُّھَا الْوَلَدُ‘ میں حضرت حاتم اصم کے حوالے سے آٹھ تقاضوں کو ضروری قرار دیا ہے جو حسبِ ذیل ہیں:
دوست ایسا ہونا چاہئے جو دنیا اور آخرت کسی جگہ بھی ساتھ نہ چھوڑے۔ ایسے دوست صرف اعمالِ صالحہ، الله تعالیٰ کی یاد میں بہنے والے آنسو، رات کے اندھیروں کے سجدے، مخلوقِ خدا پر کئے گئے احسانات اور عبادات و صدقات ہیں جو قبر اور حشر میں بھی ساتھ رہیں گے۔ یہ اعمال دیگر دنیوی دوستوں، عزیز رشتہ داروں کی طرح واپس نہیں جائیں گے بلکہ قبر کی تنہائی اور وحشت میں بھی مونس اور ہمدم بنیں گے۔
بالعموم ساری مخلوق ہوائے نفس کی پیروی میں خواہشات و شہوات کا شکار ہو کر دوزخ کا ایندھن بن رہی ہے۔ لوگ نفس کی ختم نہ ہونے والی خواہشات کی تکمیل میں نہ صرف خدا کو بھول چکے ہیں بلکہ انہیں اپنا معبود و مسجود بنا رکھاہے۔
1۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَرَاَیْتَ مَنِ اتَّخَذَ اِلٰـھَهٗ ھَوٰهُ ط اَفَاَنْتَ تَکُوْنُ عَلَیْهِ وَکِیْلاًo
الفرقان، 25: 43
کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشِ نفس کو اپنا معبود بنا لیا ہے؟ تو کیا آپ اس پر نگہبان بنیں گے؟
2۔ ایک اور مقام پر الله تعالیٰ نے فرمایا:
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّۃَ هِیَ الْمَاْوٰیo
النازعات، 79: 40-41
اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا۔ تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگا۔
پس انسان کو خواہشاتِ نفس کی مخالفت کرتے ہوئے الله تعالیٰ کی اطاعت و پیروی اختیار کرنی چاہئے اور اس کے حصول کے لئے مجاہدہ و ریاضت کو اپنا معمول بنا لینا چاہئے۔
انسان مال و دولت کے حصول میں ہر جائز و ناجائز ذریعہ اختیار کرتا ہے اور ہر وقت اس فکر میں رہتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دنیا کا مال و متاع جمع کرے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے:
مَا عِنْدَکُمْ یَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللهِ بَاقٍ ط وَلَنَجْزِیَنَّ الَّذِیْنَ صَبَرُوْٓا اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَo
النحل، 16: 96
جو (مال و زر) تمہارے پاس ہے فنا ہو جائے گا اور جو اللہ کے پاس ہے باقی رہنے والا ہے، اور ہم ان لوگوں کو جنہوںنے صبر کیا ضرور ان کا اجر عطا فرمائیں گے ان کے اچھے اعمال کے عوض جو وہ انجام دیتے رہے تھے۔
پس انسان کو چاہئے کہ اس چیز کو جمع کرے جو ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ یہ انفاق فی سبیل الله ہے۔ یعنی الله کی راہ میں غریبوں، مسکینوں، یتیموں، محتاجوں اور ضرورت مندوں پر خرچ کرنا۔ جس قدر دنیا میں ان امور پر خرچ کیا جائے گا اسی قدر آخرت میں بینکوں کا بیلنس اچھا بن جائے گا جو ختم نہ ہونے والی زندگی میں کام آئے گا۔
انسان اس دنیا میں مال و دولت، جاہ و منصب اور آل اولاد کو وجهِ عزت و افتخار خیال کرتا ہے اور ان کے حصول کے لئے مارا مارا پھرتا ہے لیکن الله تعالیٰ کے ہاں قدر و منزلت کا معیار تقویٰ ہے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا:
یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقٰـکُمْ ط اِنَّ اللهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌo
الحجرات، 49: 13
اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک الله کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو، بے شک الله خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والاہے۔
متقی انسان زہد و ورع کا حامل، حرام چیزوں سے پرہیز کرنے والا اور اپنے ہر عمل میں الله تعالیٰ کو راضی کرنے والا ہوتا ہے۔ الله تعالیٰ کے ہاں تقویٰ اختیار کرنے والا ہی سب سے بڑا عزت و افتخار کا حامل ہے۔
الله تعالیٰ کی عطا پر بعض لوگ حسد کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کے بنیادی طور پر تین اسباب ہیں:
1۔ مال کی کثرت پر حسد
2۔ جاہ و منصب اور عزت و شہرت کی مسابقت میں حسد
3۔ علم کی مسابقت میں حسد
مال و دولت، جاہ و منصب، عزت و شہرت اور علم و فضل کے باعث لوگ ایک دوسرے سے حسد کرتے ہیں۔ یاد رہے بندوںکو نعمتیں الله تعالیٰ عطا فرماتا ہے۔ اس طرح حاسد درحقیقت الله تعالیٰ کے فیصلے کے خلاف بغاوت کر رہا ہے کہ ان تمام نعمتوں کا سب سے زیادہ مستحق تو وہ خود ہے۔ انسان کو چاہئے کہ حسد سے توبہ کرتے ہوئے الله تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے اور کبھی بھی شکوہ دل میں نہ لائے۔
لوگ اپنی ذاتی منفعتوں کے حصول کے باعث ایک دوسرے کے دشمن بنے رہتے ہیں اور اپنی ساری زندگی ان باہمی عداوتوں کی نذر کر دیتے ہیں۔ پڑوسیوں اور رشتہ داروں کی آپس میں عداوت، ساس بہو کی عداوت، افسر اور ماتحت کی عداوت، الغرض چھوٹی بڑی، ظاہری باطنی، کم یا زیادہ عداوت کسی نہ کسی شکل میں ہمارے درمیان موجود رہتی ہے جس کے باعث انسان راهِ حق، راهِ اعتدال، تقویٰ، خدا خوفی اور نیکی کی راہ سے بھٹک جاتاہے۔ اگر ہم قرآن حکیم سے اس حوالے سے رہنمائی لیں تو ارشاد ہوتا ہے:
اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَـکُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّا ط اِنَّمَا یَدْعُوْ حِزْبَهٗ لِیَکُوْنُوْا مِنْ اَصْحٰبِ السَّعِیْرِo
فاطر، 35: 6
بے شک شیطان تمہارا دشمن ہے سو تم بھی (اس کی مخالفت کی شکل میں) اسے دشمن ہی بنائے رکھو، وہ تو اپنے گروہ کو صرف اِس لیے بلاتا ہے کہ وہ دوزخیوں میں شامل ہو جائیں۔
وہ لوگ جنہوں نے دشمنی کا ٹارگٹ شیطان کو بنا لیا۔ انہوں نے سارے لوگوں کی دشمنی اور عداوتوں سے نجات پا لی کیونکہ لوگوں کی باہمی عداوتوں کا واحد سبب شیطان کی انسان دشمنی ہے اور ہر عداوت کے پس پردہ اس کی شیطانی کار فرما ہوتی ہے۔
یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے کہ ہر شخص کسی نہ کسی حد تک کوئی نہ کوئی حرص، طمع اور لالچ ضرور رکھتا ہے۔ اگر بروقت اس کا تدارک نہ کیا جائے تو شُتر بے مہار کی مانند حرص و طمع کی خواہشات بے قابو ہو جاتی ہیں اور انسان کو حلال و حرام کی تمیز سے بے نیاز کر دیتی ہیں۔ قرآن حکیم میں الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَمَا مِنْ دَآبَّۃٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللهِ رِزْقُھَا.
ھود، 11: 6
اور زمین میں کوئی چلنے پھرنے والا (جاندار) نہیں ہے مگر (یہ کہ) اس کا رزق الله (کے ذمۂ کرم) پر ہے۔
جب مخلوق کے رزق کی ذمہ داری الله تعالیٰ پر ہے تو انسان کو طمع، حرص اور لالچ سے منہ موڑ کر الله تعالیٰ پر کامل اعتماد اور یقین کرتے ہوئے قرآن و حدیث کے فرمودات کی روشنی میں رزقِ حلال کے لئے کوشش کرنی چاہئے اور زندگی زہد و تقویٰ اور صبر و شکر اور قناعت و استقامت سے گزارنی چاہئے۔
دنیا میں ہر شخص کسی نہ کسی شے پر بھروسہ کرتا ہے۔ کسی کو جسمانی طاقت کا گھمنڈ تو کوئی اپنے علم و فن پر نازاں ہے، کسی کو عہدہ و منصب پر فخرہے تو کوئی اپنے مال و دولت کی وجہ سے کسی کو خاطر میں نہیں لاتا۔ الغرض ہر شخص کو دنیا کی کسی نہ کسی شے پر بھروسہ ہے جبکہ الله تعالیٰ نے فرمایا ہے:
وَاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْهِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ ط وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍo
ھود، 11: 3
اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر تم اس کے حضور (صدق دل سے) توبہ کرو وہ تمہیں وقت معین تک اچھی متاع سے لطف اندوز رکھے گا اور ہر فضیلت والے کو اس کی فضیلت کی جزا دے گا (یعنی اس کے اعمال و ریاضت کی کثرت کے مطابق اجر و درجات عطا فرمائے گا)، اور اگر تم نے روگردانی کی، تو میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا خوف رکھتا ہوں۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیا کی کوئی چیز بھی بھروسہ کے قابل نہیں۔ یہ ناپائیدار اور ناقابل اعتبار چیزیں ہیں۔ بھروسہ کے قابل صرف الله رب العزت کی ذات ہے۔ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ اے انسان! آ اور مجھ پر بھروسہ کر۔ جو مجھ پر بھروسہ کرتا ہے میں اس کے لئے کافی ہوتا ہوں۔
غزالی، مجموعہ رسائل ’أَیُّهَا الْوَلَدُ‘: 261-262
لغزش سرزد ہونے پر نفس کی ملامت، محاسبہ، مراقبہ اور شعورِ ذات کے دیگر معاملات بندے کو اس مقام پر لا کھڑا کرتے ہیں جہاں وہ توبہ کے مراحل میں داخل ہو جاتا ہے۔ اصلاحِ احوال کے لئے اسے اپنے اندر ایک استعداد جاگتی ہوئی محسوس ہوتی ہے جسے توفیق کہتے ہیں۔ روز مرہ کے معاملات بجا لاتے ہوئے کمی و بیشی کا وقوع پذیر ہونا انسان کی بشری فطری تقاضوں کے باعث ہے۔ لیکن خوش بخت شخص وہ ہے جو اپنے اعمال کی حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے رجوع الی الله کرے تاکہ اسے نورِ ہدایت میسر آئے، جس کی لو میں وہ راهِ راست پر چلتا چلا جائے۔ اللہ تعالیٰ اس کے اندر توبہ کی صلاحیت پیدا کر دیتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ توبہ کی نعمت الله تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ توفیقِ توبہ کے کچھ مراحل ہیں جنہیں کامیابی سے طے کرنے پر انسان الله تعالیٰ کی مغفرت و بخشش کا مستحق قرار پاتا ہے۔ یہ مراحل تین ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں:
جب بندے سے کوئی گناہ سرزد ہو جائے تو اس کا دل شرمندگی اور پشیمانی محسوس کرے کہ مجھ سے مولیٰ کی نافرمانی کا یہ فعل کیوں کر سرزد ہوا۔ اس پر وہ جتنا غور کرے گا اتنا ہی اس کا دل رنجیدہ اور دکھی ہو گا۔ شرمندگی کا یہ احساس توفیق کا پہلا مرحلہ ہے۔ جس قدر پشیمانی کا احساس شدید ہو گا گناہگار کے لئے اسی قدر اگلے مرحلہ میں جانا آسان ہو گا۔
پشیمانی اور شرمندگی کے شدید احساس سے احساسِ ذلت جنم لیتا ہے۔ بندہ ارتکابِ گناہ کے باعث خود کو الله تعالیٰ کی بارگاہ میں انتہائی ناقص بلکہ ذلیل و رسوا خیال کرنے لگتا ہے۔ پہلے مرحلہ میں ندامت کے باعث جو احساسِ گناہ اس کے دل میں پیدا ہوا وہ اب بڑھ کر اعترافِ گناہ کی شکل اختیار کر جاتا ہے۔ اعتراف کرنا گویا خود کو مستحقِ سزا سمجھنا ہے۔ یہ احساسِ ذلت کا انتہائی درجہ ہوتا ہے۔ گناہ کے بعد گناہ گار کا ذلت و رسوائی سے واسطہ عملاً بھی پڑتا ہے جب وہ کسی کو شرم کے مارے منہ دکھانے کے قابل نہیں رہتا۔ یوں وہ اندر اور باہر سے خِفّت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اور جب یہ حالت لے کر سچے مالک کے حضور پیش ہوتا ہے تو سوائے کانپنے، لرزنے اور آہ و زاری کرنے کے اور کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ندامت کی ایسی کیفیت میں گرفتار ہونے کے بعد اسے پھر سے ارتکابِ گناہ کا سوچنے کا یارا بھی نہیں رہتا۔
اعترافِ گناہ کے مقام پر جب بندہ اپنے مالکِ حقیقی کی بارگاہ میں اس گناہ کو چھوڑنے کا پختہ عزم کرتا ہے کہ اے باری تعالیٰ! ایک بار مجھے معاف فرما دے، آئندہ زندگی بھر کبھی اس گناہ کے قریب نہیں جاؤں گا تو یہ توفیق کا تیسرا مرحلہ طے ہوا۔
جب بندہ یہ تینوں مراحل طے کر لیتا ہے تو سمجھ لیں اسے توبہ کی توفیق میسر آ گئی۔ اِدھر گناہگار کا دستِ طلب دراز ہوا اُدھر اللہ رب العزت نے اس کے نامۂ اعمال کی تختی سے گناہوں کا نوشتہ ایسے مٹا دیا جیسے اُس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی درج ذیل حدیث مبارکہ اس طرح اشارہ کرتی ہے:
اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهٗ.
گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس کے ذمہ کوئی گناہ نہیں۔
الله تعالیٰ کے حضور شرمندگی، ذلت اور اعترافِ گناہ کا شدید احساس بعض اوقات بندے کو ایک ہی لمحے میں سب مرحلے طے کروا دیتا ہے۔ علامہ اقبال ’زبورِ عجم‘ میں فرماتے ہیں:
وادیِ عشق بسے دور و دراز است و لے
طے شود جادۂ صد سالہ بہ آہے گاہے
یعنی عشق کی منزل اگرچہ طویل مسافت پر ہے لیکن کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ صدیوں کا سفر ایک آہ میں طے ہو جایا کرتا ہے۔
توبہ میں صدق و اخلاص ہو تو قبولیت کے کرم بار ہونے میں دیر نہیں لگتی۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved