انسان اپنے روزانہ کے معمولات میں مختلف قسم کے امور سر انجام دیتا ہے۔ مثلاً کھاتا پیتا ہے، لوگوں کے ساتھ میل ملاقات اور معاملات طے کرتا ہے۔ زندگی بسر کرنے کے لئے کاروبار یا ملازمت اختیار کرتا ہے۔ غرضیکہ کاروبارِ حیات چلانے کے دوران اس کے قلب و باطن میں مختلف گمان، خیال اور جذبے جنم لیتے ہیں جو اچھے بھی ہوتے ہیں اور بُرے بھی؛ انہی سے انسان کا باطن نشوونما پاتا ہے یا برباد ہوتا ہے۔ ہمارا باطن کس طرح غیر محسوس طریقے سے متاثر ہوتا ہے اس کو سمجھنے کے لئے روز مرہ کی ایک سادہ مثال کافی ہے۔
ہم نہا دھو کر صاف ستھرے لباس میں گھر سے باہر کام کاج کی غرض سے نکلتے ہیں۔ ہماری پوری کوشش ہوتی ہے کہ ہمارا لباس پاک اور صاف رہے لیکن شام کو جب گھر لوٹتے ہیں تو ہمارا وہی صاف لباس دوبارہ پہننے کے قابل نہیں رہتا۔ اس کے ناقابل استعمال ہونے کی واحد وجہ وہ آلودگی ہے جو فضا میں موجود ہے لیکن نظر نہیں آتی۔ یہ آلودگی اِس وقت ساری دنیا کے لئے سنگین مسئلہ بن چکی ہے جس سے انسانی زندگی سخت متاثر ہو رہی ہے۔
ظاہر کی طرح باطن اس سے کہیں بڑھ کر بے شمار آلودگیوں کی زد میں رہتا ہے جو ہمارے قلب و روح کو پراگندہ کرتی ہیں۔ حسد، کینہ، غیبت، بغض، خود غرضی، مفاد پرستی، فسق و فجور، منافقت الغرض اَن گنت رذائل کی آلودگیاں ہیں جن سے انسان کا باطن متاثر ہوتا رہتا ہے۔ یہ تمام رذائل اس کے لئے خوش نما اور دل گیرہو جاتے ہیں۔ اگر ان کا بروقت تدارک نہ کیا جائے تو پھر یہی آلودگیاں انسان کے باطن کا لاعلاج مرض بن کر اسے روحانی موت سے ہم کنار کر دیتی ہیں۔
انسان کے باطن پر آلودگی کے حملے کی دو جہتیں ہیں: ایک تو خود اس کے متضاد طبعی بشری عناصر ہیں جن سے اس کے وجود کی تشکیل ہوئی۔ یہی وہ عناصر تھے جن کو دیکھ کر ملائکہ نے اللہ رب العزت کے حضور اس خدشے کا اظہار کیا کہ ’اے اللہ! تو ایسے بشر کو اپنی نیابت ارضی عطا فرمائے گا جو زمین میں فساد انگیزی اور خون ریزی کرے گا۔‘ بشر کی تشکیل اور ملائکہ کے خدشات کا ذکر قرآن حکیم میں یوں بیان کیا گیا ہے:
1۔ وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ صَلْصَالٍ مِّنْ حَمَاٍ مَّسْنُوْنٍo
الحجر، 15: 26
اور بے شک ہم نے انسان کی (کیمیائی) تخلیق ایسے خشک بجنے والے گارے سے کی جو (پہلے) سِن رسیدہ (اور دھوپ اور دیگر طبیعیاتی اور کیمیائی اثرات کے باعث تغیر پذیر ہو کر) سیاہ بو دار ہو چکا تھا۔
2۔ قَالُوٓا اَتَجْعَلُ فِیْھَا مَنْ یُّفْسِدُ فِیْھَا وَ یَسْفِکُ الدِّمَـآءَ.
البقرۃ، 2: 30
انہوں نے عرض کیا: کیا تُو زمین میں کسی ایسے شخص کو (نائب) بنائے گا جو اس میں فساد انگیزی کرے گا اور خونریزی کرے گا؟
انسان کی تشکیل میں کار فرما عناصر کی خصوصیات نے ہی انسان کی فطرت کا حصہ بننا تھا۔ چنانچہ مٹی، سیاہ بدبو دار گارا، پھر اس کے بجنے کا ذکر زبانِ حال سے اس کی جبلّت، فطرت، طبیعت اور خصلت کو ظاہر کرتے ہیں۔ یہ بشری تقاضے انسان کی شخصیت کا حصہ ہیں۔ ان کو اگر کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھر یہ واقعتا فساد اور خون ریزی کا باعث بنتے ہیں۔ یوں انسان ظلم و تکبر اور رعونت اختیار کر کے خلقِ خدا کو ایذا رسانی کا باعث بن جاتا ہے۔
دوسری جہت سے مراد وہ مرغوباتِ بشری ہیں جو انسانی نفس کے لئے پسندیدہ اور خوش نما بنا دی گئیں اور دنیا میں انسان کو قدم قدم پر اپنی طرف کھینچتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
3۔ زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّھَوٰتِ مِنَ النِّسَآءِ وَالْبَنِیْنَ وَ الْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّھَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالَانْعَامِ وَ الْحَرْثِ ط ذٰلِکَ مَتَاعُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا ج وَاللہ عِنْدَهٗ حُسْنُ الْمَاٰبِo
آل عمران، 3: 14
لوگوں کے لیے ان خواہشات کی محبت (خوب) آراستہ کر دی گئی ہے (جن میں) عورتیں اور اولاد اور سونے اور چاندی کے جمع کیے ہوئے خزانے اور نشان کیے ہوئے خوبصورت گھوڑے اور مویشی اور کھیتی (شامل ہیں)، یہ (سب) دنیوی زندگی کا سامان ہے، اور اللہ کے پاس بہتر ٹھکانا ہے۔
ان مرغوبات کے ہاتھوں انسان اکثر یرغمال بن کر توازن کھو بیٹھتا ہے اور ان کے حصول کے لئے جائز و ناجائز طریقوں کو اختیار کرتا چلا جاتا ہے اورپھر اَوامر و نواہی کو پس پشت ڈال کر اموالِ دنیا کی حرص میں سیدھے راستے سے بھٹک جاتا ہے۔
ہمارے خیالات اور احوال و اعمال ہمارے باطن پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں۔ اگر یہ صالح ہوں تو دل میں نور پیدا ہوتا ہے اور اگر یہ غیر صالح اور بُرے ہوں تو دل میں سیاہی اور ظلمت کو جہنم دیتے ہیں۔ اس سے بھی لطیف تر بات یوں کی جاسکتی ہے کہ ایک انسان اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہوئے اپنے دوسرے بھائی کی نسبت بدگمانی سے کام لیتا ہے۔ حالانکہ یہ محض ایک تصور ہے لیکن اس خیال کی آمد کے ساتھ ہی اس کے دل کی سیاہی میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ جھوٹ غیبت، چغلی، تہمت، کذب و افتراء کی گرد ہمارے باطن پر پڑتی رہتی ہے جس سے دل کی سیاہی بڑھتی چلی جاتی ہے لیکن یہ نظر نہیں آتی۔ اس کے لئے تو دلِ بینا کی ضرورت ہے۔
دلِ بینا بھی کر خدا سے طلب
کہ آنکھ کا نور دل کا نور نہیں
اگر انسان یہ محسوس کرے کہ طبیعت دین کی طرف مائل نہیں ہوتی، عبادت میں ذوق و شوق کی کمی ہے اور قلب و روح پر ایک بوجھ سا ہے تو جان لینا چاہئے کہ باطن میں ظلمت کے سائے گہرے ہوتے جا رہے ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ باطن کو تاریک کر دینے والی یہ ظلمت و سیاہی کہاں سے آتی ہے؟ ایک ہوٹل میں دو آدمی آمنے سامنے بیٹھے کھانا کھا رہے ہیں۔ دونوں کے سامنے ایک جیسی غذا ہے، دونوں کے معدے ایک جیسا عمل کرتے ہیں۔ دونوں کے جسم ایک جیسا خون کشید کرتے ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک آدمی نے اپنی حلال کی کمائی خرچ کی اور دوسرے نے رشوت، دھوکا دہی یا دیگر ناجائز ذرائع سے حاصل کی ہوئی رقم خرچ کی۔ اس طرح ایک جیسا کھانا ایک کے لئے رزقِ حلال قرار پایا جس کی برکت سے اس کے باطن میں نور بھر گیا، جبکہ دوسرے کا کھانا رزقِ حرام قرار پایا جس سے اس کی روح تاریک ہو گئی۔ غذا ایک جیسی، کھانے کا انداز ایک جیسا، معدوں کا فعل ایک جیسا، کشید ہونے کے بعد خون کا رنگ ایک جیسا، لیکن ایک کا دل نور سے لبریز ہوگیا اور دوسرے کا ظلمت و سیاہی سے بھر گیا۔
اسی طرح الفاظ بھی بظاہر ایک ہونے کے باوجود نیت کے اعتبار سے انسانی قلب و روح کے لئے روشنی یا سیاہی کا باعث بنتے ہیں۔ مثلاً ایک لفظ ہے: ’کمینہ‘ یا ’ذلیل‘۔ اگر کسی نے حق تعالیٰ کے حضور اظہارِ عجز میں اسے اپنے لئے استعمال کیا تو یہ اس کا مثبت استعمال ہے۔ یہ دل میں روشنی کا موجب بنا۔ اور اگر یہ لفظ کسی مسلمان بھائی کے لئے استعمال کیا تو اس سے متکلم کا غرور و تکبر ظاہر ہوا اور مخاطب کے لئے ذہنی اذیت کا باعث بنا۔ یہ اس لفظ کا منفی استعمال ہے جس نے اس کے دل کو سیاہ کر دیا۔
ان مثالوں سے یہاں یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ ایک انسان کے اعمال کی ظاہری نوعیت کچھ بھی ہو، اُس کی نیت کے اعتبار سے اُس کے دل میں نور کے دیے جگمگا اٹھتے ہیں یا پھر تاریکی و سیاہی مسلط ہو جاتی ہے۔ مومن کی زندگی میں نیت کی برکات سب سے بڑھ کر ہیں۔ عمل کی قدر و قیمت کا انحصار نیت کی خالصیت پر ہے۔ درج ذیل حدیث مبارکہ اسی حقیقت کو ظاہر کرتی ہے۔
حضرت عمر فاروق سے مروی کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلْأَعْمَالُ بِالنِّیَّةِ، وَلِکُلِّ امْرِیئٍ مَا نَوٰی، فَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُهٗ إِلَی اللہ وَرَسُوْلِهٖ فَھِجْرَتُهٗ إِلَی اللہ وَرَسُوْلِهٖ، وَمَنْ کَانَتْ ھِجْرَتُهٗ لِدُنْیَا یُصِیْبُھَا، أَوِ امْرَأَۃٍ یَتَزَوَّجُھَا، فَھِجْرَتُهٗ إِلٰی مَا ھَاجَرَ إِلَیْهِ.
اعمال کا دار و مدار نیت پر ہے اورہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔ لهٰذا جس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف ہے، اس کی ہجرت اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول ﷺ کے لیے ہی شمار ہوگی اور جس کی ہجرت دنیا حاصل کرنے یا کسی عورت سے شادی کرنے کے لیے ہوئی تو اس کی ہجرت اسی کے لیے ہے جس کی طرف اس نے ہجرت کی۔
جب حضرت آدم علیہ السلام کے پیکر میں اللہ تعالیٰ نے اپنی روح پھونکی تو جملہ اسماء و صفاتِ الٰہی خلقتِ انسانی میں ظاہر ہوگئے جنہوں نے وجودِ انسانی کے جمیع مراتبِ علوی و سفلی کو گھیر لیا۔ قرآن حکیم اس مقام پر انسان کی بہترین ساخت کا ذکر یوں کرتا ہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْٓ اَحْسَنِ تَقْوِیْمo
التین، 95: 4
بے شک ہم نے انسان کو بہترین (اعتدال اور توازن والی) ساخت میں پیدا فرمایا ہے۔
خلیفۃ الارض ہونے کے باعث انسان فرشتوں کے برعکس مکلف ٹھہرایا گیا۔ خیر و شر اور نیکی و بدی کے دونوں راستے اس کے لئے کھلے چھوڑ دیے گئے کہ جس راستے کا بھی چاہے انتخاب کر لے، دنیا اس کے لئے ایک امتحان گاہ ہے۔ ہاں اپنے مکلف ٹھہرائے جانے کے باعث اُسے روزِ حشر اپنے اعمال کا جواب دہ ہونا پڑے گا۔ اب اگر چاہے تو تزکیہ و ریاضت کے ساتھ اطاعت و بندگی بجا لائے، تمام مادی، ناسوتی اور ظلماتی خصلتوں کو کمزور کر کے اپنی روحانی توانائیوں کو ان پر غالب کر دے اور اللہ تعالیٰ کے حضور سرخرو ٹھہرے۔ چاہے تو اس کے برعکس بشری میلانات، جو نفس کی مرغوب غذا ہے، کا اسیر ہو کر رذائلِ اخلاق کے باعث اللہ تعالیٰ کے غضب کا سزا وار قرار پائے۔
انسان جو آسمان پر مسجودِ ملائک ہوا، زمین پر اتر کر آزمائش کے مرحلے میں اس سیدھے راستے پر ثابت قدم نہ رہ سکا۔ الوہی ہدایت کا انتظام اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیاء و رُسُلِ عظام f کے ذریعے بنی نوع انسانی کے لئے جاری فرمایا تاآنکہ اللہ کے آخری رسولِ معظم ﷺ دنیا میں تشریف لے آئے۔ اب ہدایت کا الوہی نظام قرآن حکیم اور سنتِ رسول ﷺ کی شکل میں قیامت تک موجود رہے گا۔ انسان بدقسمتی سے مجموعی طور پر چند روزہ فانی زندگی کی لذّات کا طلب گار رہا ہے اور مولیٰ کی ان نعمتوں کے لئے کوشش نہیں کرتا جو لافانی، ابدی اور انسانی فہم و ادراک سے ماوراء ہیں لیکن بطور آزمائش پردۂ غیب میں مستور ہیں۔ اس نے ہدایت ربانی کو پسِ پشت ڈال کر ہمیشہ رب العزت کے قہر و غضب کو ہی دعوت دی ہے۔ اور پھر خالقِ کائنات نے انہیں بعد میں آنے والوں کے لئے عبرت کا نشان بنا کر رکھ دیا۔ قرآن حکیم میں جابجا اُن مغضوب قوموں کا ذکر ملتا ہے جو اپنی نافرمانیوں کے سبب غضبِ الٰہی کی مستحق ٹھہرائی گئیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس غضب، ناراضگی اور غفلت شعاری سے نجات عطا فرمائے۔
راهِ ہدایت کے دو بڑے دشمن ہیں: نفس اور شیطان۔ یہ دونوں انسان کے سب سے بڑے دشمن ہیں جو بہرصورت انسان کو رضائے الٰہی کی منزل سے دور کرنے والے ہیں۔ جس نے ان کی دشمنی سے صَرفِ نظر کیا وہ بہت بڑی گمراہی میں مبتلا ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بار بار خبردار کیا ہے کہ اے انسان! شیطان تیرا کھلا دشمن ہے۔ اس کے دھوکے میں نہ آنا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
1۔ اِنَّ الشَّیْطٰنَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌo
یوسف، 12: 5
بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔
شیطان کے اپنے دعوے کو قرآن مجید نے یوں بیان کیا ہے:
2۔ قَالَ رَبِّ بِمَآ اَغْوَیْتَنِیْ لَاُزَیِّنَنَّ لَهُمْ فِی الْاَرْضِ وَلَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَo
الحجر، 15: 39
ابلیس نے کہا: اے پروردگار! اس سبب سے جو تو نے مجھے گمراہ کیا میں (بھی) یقینا ان کے لیے زمین میں (گناہوں اور نافرمانیوں کو) خوب آراستہ و خوشنما بنا دوں گا اور ان سب کو ضرور گمراہ کر کے رہوں گا۔
اللہ رب العزت کے واضح ارشادات اور شیطان کے اپنے دعویٰ کے باوجود کہ وہ ضرور بالضرور انسان کو گمراہ کرے گا، سوائے صالحین کے؛ انسان نے سبق حاصل کرنے کی بجائے شیطان کی پیروی کو ہی ضروری سمجھا۔
شیطان کا دوسرا ساتھی نفس ہے جو خود انسان کے وجود کا حصہ ہے۔ یہ اندر کا دشمن ہے۔ اِس کی آفتیں لا تعداد ہیں۔ یہ ہر لمحہ انسان کو برائی کی طرف آمادہ کرنے والا ہے۔ حق تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کی زبانی قرآن مجید میں اس کا ذکر یوں فرمایا ہے:
3۔ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ م بِالسُّوْٓئِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْ ط اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
یوسف، 12: 53
بے شک نفس تو برائی کا بہت ہی حکم دینے والا ہے سوائے اس کے جس پر میرا رب رحم فرما دے۔ بے شک میرا رب بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
یہ دونوں مل کر انسان کے باطن میں اُس کی روح کو کمزور کرنے کے لئے حملہ آور رہتے ہیں۔ ان دونوں کا ایک ہی ہدف رہا ہے کہ بندے کو مولیٰ کا نافرمان بنا کر مستحقِ عذاب ٹھہرایا جائے، اگرچہ ان دونوں کا طریقۂ کار مختلف ہوتا ہے۔ اِس ساری تمہید کا مقصد اِس حقیقت کو واضح کرنا ہے کہ انسان بدقسمتی سے ہر گزرتے وقت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں دلیر ہوتا جا رہا ہے، جو اس کے غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ہمیں شیطان اور نفس کے ان تمام ایمان سوز حملوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے جو اِس وقت مسلم امہ کے خرمنِ ایمان کو جلا کر راکھ کر دینے کے در پے ہیں اور ہم چاہتے نہ چاہتے ہوئے دنیوی مصلحتوں کی خاطر ان سے صَرفِ نظر کئے ہوئے ہیں۔
4۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کَلَّا بَلْ تُحِبُّوْنَ الْعَاجِلَۃَ o وَتَذَرُوْنَ الْاٰخِرَۃَo
القیامۃ، 75: 20-21
حقیقت یہ ہے (اے کفّار!) تم جلد ملنے والی (دنیا) کو محبوب رکھتے ہو۔ اور تم آخرت کو چھوڑے ہوئے ہو۔
5۔ اور ارشاد فرمایا:
بَلْ تُؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَاo
الأعلی، 87: 16
بلکہ تم (اللہ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے) دنیاوی زندگی (کی لذتوں) کو اختیار کرتے ہو۔
حالانکہ جنت ایسا مقام نہیں کہ انسان چند روزہ آزمائشوں کے عوض اس کی دائمی نعمتوں اور خوش بختیوں سے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا، صرف نظر کرے۔ نہ ہی جہنم کوئی ایسی گھڑی دو گھڑی کی تکلیف برداشت کرنے کی جگہ ہے کہ فنا ہونے کو پسند کرے اور اس عارضی چند روزہ زندگی کے کھیل تماشے کی خاطر ابدی حسرتوں اور المناک مصائب و آلام کا انتخاب کرے۔ درج ذیل احادیث مبارکہ میں کس قدر وضاحت سے اس حقیقت کی کو بیان کیا گیا ہے۔
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
1. حُفَّتِ الْجَنَّۃُ بِالْمَکَارِهِ وَحُفَّتِ النَّارُ بِالشَّهَوَاتِ.
جنت ناپسندیدہ باتوں سے اور جہنم خواہشات سے گھیری گئی ہے۔
اس حدیث مبارکہ کی مزید تشریح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے ہوتی جس میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
2. لَمَّا خَلَقَ اللہ الْجَنَّۃَ وَالنَّارَ أَرْسَلَ جِبْرِیلَ، قَالَ: انْظُرْ إِلَیْهَا وَإِلَی مَا أَعْدَدْتُ لِأَهْلِهَا فِیْهَا، فَجَائَ فَنَظَرَ إِلَیْهَا وَإِلَی مَا أَعَدَّ اللہ لِأَهْلِهَا فِیْهَا، فَرَجَعَ إِلَیْهِ، قَالَ: وَعِزَّتِکَ، لَا یَسْمَعُ بِهَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَهَا، فَأَمَرَ بِهَا، فَحُجِبَتْ بِالْمَکَارِهِ، قَالَ: ارْجِعْ إِلَیْهَا، فَانْظُرْ إِلَیْهَا وَإِلٰی مَا أَعْدَدْتُ لِأَهْلِهَا فِْیهَا، قَالَ: فَرَجَعَ إِلَیْهَا، وَإِذَا هِیَ قَدْ حُجِبَتْ بِالْمَکَارِهِ، فَرَجَعَ إِلَیْهِ، قَالَ: وَعِزَّتِکَ، قَدْ خَشِیْتُ أَنْ لَا یَدْخُلَهَا أَحَدٌ، قَالَ: اذْهَبْ إِلَی النَّارِ، فَانْظُرْ إِلَیْهَا وَإِلٰی مَا أَعْدَدْتُ لِأَهْلِهَا فِیْهَا، فَإِذَا هِیَ یَرْکَبُ بَعْضُهَا بَعْضًا، فَرَجَعَ، قَالَ: وَعِزَّتِکَ، لَقَدْ خَشِیْتُ أَنْ لَا یَسْمَعَ بِهَا أَحَدٌ فَیَدْخُلَهَا، فَأَمَرَ بِهَا، فَحُفَّتْ بِالشَّهَوَاتِ، فَقَالَ: وَعِزَّتِکَ، لَقَدْ خَشِیتُ أَنْ لَا یَنْجُوَ مِنْهَا أَحَدٌ إِلَّا دَخَلَهَا.
اللہ تعالیٰ نے جہنم میں آگ کو پیدا فرمایا تو جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ جا کر اُسے دیکھو۔ انہوں نے دیکھا تو عرض کیا: یا اللہ، تیری عزت کی قسم! جو اس کے بارے میں سنے گا وہ اس میں نہیں جائے گا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اسے خواہشات کے ساتھ ڈھانپ دیا۔ پھر فرمایا: اب جا کر دیکھو۔ انہوں نے دیکھنے کے بعد عرض کیا: یا اللہ، تیری عزت کی قسم! ڈر ہے کہ اس میں داخل ہونے کے لئے کوئی بھی پیچھے نہیں رہے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے جنت کو پیدا فرمایا تو حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا: جا کر اسے دیکھو۔ انہوں نے دیکھا تو عرض کیا: یا اللہ، تیری عزت کی قسم! جو بھی اس کے بارے میں سنے گا اس میں داخل ہو گا، تو اللہ تعالیٰ نے اسے ناپسندیدہ امور سے چھپا دیا، پھر فرمایا: جا کر اسے دیکھو۔ انہوں نے دیکھنے کے بعد عرض کیا: یا اللہ مجھے ڈر ہے کہ اس میں کوئی داخل نہیں ہو گا۔
اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ دنیا سخت آزمائش کی جگہ ہے۔ جہنم سے چھٹکارہ اور جنت میں داخلہ صرف اللہ رب العزت کی توفیق اور فضل کے باعث ہی ممکن ہے۔ کوئی بھی اپنے برے اعمال کے باعث اللہ رب العزت کی ناراضگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ اللہ رب العزت کی حکم عدولی گویا اس کے غضب کو دعوت دینا ہے جس پر سابقہ امتیں ذلت آمیز عذابوں کے ذریعے ہلاک کر دی گئیں۔ اگر رب العزت نے حضور نبی اکرم ﷺ کی رحمت کے تصدق سے ہمیں غضب سے اپنی پناہ میں رکھا ہوا ہے تو رسول اکرم ﷺ کے امتی ہونے کے ناتے ہم پر یہ واجب ہے کہ دنیا اور آخرت کی رسوائی اور جہنم کے عذاب سے بچنے کا سامان جمع کریں۔ اِس کی ایک ہی صورت ہے کہ جو ہو چکا اس کے لئے قلبِ سلیم کے ساتھ مولیٰ کی طرف متوجہ ہوں اور آئندہ کے لئے شیطانی اور طاغوتی حملوں کے طریقۂ کار کو سمجھیں اور مصمم ارادہ کے ساتھ اپنی زندگی کے احوال کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول معظم ﷺ کے احکام کے تابع کر دیں۔
اُمتِ مسلمہ طاغوتی حملوں کی مختلف جہتوں سے شعوری اور لاشعوری طور پر شکار ہو رہی ہے جبکہ بہت سے لوگوں کو اس کا احساس نہیں۔ یہ جدیدیت کی نئی فتنہ گری ہے جسے نئی نسل بڑے شوق سے اپنائے ہوئے ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام جدید نظریات کو من و عن اپنا کر ان کی روشنی میں اپنے سماجی اور معاشرتی رویوں کو استوار نہ کریں بلکہ ہمارے عمل کا معیار صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی آخری کتابِ ہدایت قرآنِ حکیم اور سنتِ رسول ﷺ ہونا چاہئے، کیونکہ جب انسان ایک گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو پھر نافرمانیوں اور گناہوں کا ختم نہ ہونے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اِس سے انسان کا باطن ظلمتوں کا شکار ہو جاتا ہے اور اللہ رب العزت کے ساتھ انسان کا تعلق کمزور سے کمزور تر ہوتا چلا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ دورِ جدید کی سائنس اور ٹیکنالوجی نے بنی نوع انسان کو حیرت انگیز حد تک آسانیوں، سہولتوں اور کامیابیوں سے ہمکنار کیا ہے۔ ایک طرف کرۂ ارض گلوبل ویلج کی حیثیت اختیار کر چکا ہے تو دوسری طرف مادی ترقی کی اَن گنت منازل طے کر کے انسان خلاؤں اور سیاروں کو تصرف میں لانے کے منصوبے بنا رہا ہے۔ گویا تسخیر کائنات اس کی زد میں ہے۔ علم اور تحقیق کے فروغ میں جدید ذرائع ابلاغ اس قدر اہمیت اختیار کر چکے ہیں کہ کوئی قوم یا ملک ان سے صَرفِ نظر نہیں کر سکتا۔ اقوامِ عالم کی صف میں خود کو زندہ رکھنے کے لئے ان سے استفادہ کئے بغیر چارہ نہیں۔ یہ ایجادات اصلاً خطرناک نہیں مگر نظریاتی تربیت کے کمی اور ہماری علمی فقدان نے اِنہیں خطرناک بنا دیا ہے۔ علاوہ ازیں اِن ذرائع ابلاغ پر عالمی طاغوتی طاقتوں کے کنٹرول کے باعث عریانی، فحاشی اور اخلاقی بے راہ روی کی ترویج ہو رہی ہے اور اس امر میں ذرہ برابر بھی شک نہیں کہ اس غیر معمولی مادی ترقی نے بنی نوع انسان کو روحانی طور پر مردہ کر دیا ہے۔ اخلاقی طور پر اس ترقی یافتہ انسان سے بہت کچھ چھن چکا ہے۔ خود غرضی، ہوس پرستی، مفاد پرستی، فریب کاری، دھوکا دہی اور ظلم و بربریت جیسے رذائل نے ہمیں اپنے خالق سے دور کر دیا ہے۔
مادیت پسند تہذیب سے ہر کس و ناکس مرعوب ہے۔ اِس روشِ عام سے انسان کے جسم کی پرورش تو ہوتی ہے لیکن مجموعی طور پر روح کی موت واقع ہو گئی ہے۔ مسلم اُمہ جو عالمی سیاسی منظرنامے سے تو پہلے ہی غائب ہو چکی تھی، اب جدید مادی نظریات کے سامنے سربسجود ہو کر اپنی روحانی قدروں سے یکسر دست بردارہوتی نظر آ رہی ہے۔ آرام طلبی، عیش و عشرت، ستائش و آرائش، لذتِ کام و دہن آج کے مسلمان کے لئے مرغوب اور جاذبِ نظر مشاغل ہیں۔ مسلم اور غیر مسلم کی تفریق مٹتی جا رہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کا کردار اصلاح سے زیادہ بگاڑ کی طرف مائل ہے۔ جدید کتب و رسائل اور ذرائع ابلاغ علم کی روشنی پھیلانے سے زیادہ عریانی و فحاشی اور سیاہ کاری و بدکرداری کے اندھیروں کا سامان مہیا کرنے میں مصروف ہیں۔ جدید علمی مراکز اور تعلیمی ادارے کردار سازی کی جگہ بدکرداری اور مادر پدر آزادی کی ترغیبات بہم پہنچا رہے ہیں، جس کے باعث خاندانی و معاشرتی تقریبات میں ہمدردی اور راست بازی جیسی اعلیٰ روایات کے فروغ کی بجائے مرد و زن کے باہمی اختلاط کے سبب بے راہ روی کا چلن عام ہو رہا ہے۔ نوجوان نسل کا موضوع اب دین و دنیا کی فلاح نہیں رہا بلکہ فلم، ڈرامے اور فیشن شو بن گئے ہیں۔ غرضیکہ اس دورِ فتن میں ہر طرف ایک فساد بپا ہے۔ جب ایمان و عقائد بچانے کا شعور نہیں ہے تو روح کی بالیدگی کی طرف دھیان کون دے گا؟ جدید ذرائع ابلاغ کی مدد سے وسعت پذیر فحاشی و بے حیائی کی موجودگی میں ماں باپ، بہن بھائیوں اور بیوی بچوں کے ایمان کی حفاظت انتہائی مشکل ہوچکی ہے۔ سیٹلائٹ چینلز دن رات طاغوتی منصوبے کے تحت مادیت پر مبنی مادر پدر آزاد تہذیب کے فروغ میں مصروف ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ شرم و حیا اور غیرت و حمیت سے تہی دامن ہو کر ایمان کے باقی رہنے کی توقع بھی کی جائے۔ عریانی اور بے حیائی کی ترغیب دینے والا ماحول بھی ہو اور اہل خانہ کا ایمان بھی سلامت رہے، یہ ممکن ہی نہیں۔ ایسا گمان نادانی اور اخلاقی خود کشی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم مادی اقدار کے حوالے سے خود کو جدید کہلوانے میں بھی کوشاں ہیں اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ ہم اور ہماری نسل دینی اقدار کی پاسداری بھی کریں اور ادب و احترام اور شرم و حیا کا لحاظ بھی رکھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ یورپ سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے کفر و الحاد اور بے حیائی کی سمت رواں دواں ہے۔ مغربی معاشرے میں کم از کم ظاہر و باطن کے حوالے سے ایک ہی رنگ ہے جبکہ ہمارے ہاں دو رنگی اور منافقت نمایاں ہے۔ آج ظاہر و باطن کا تضاد مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ بحیثیت مسلمان ہم عقیدۂ آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور اپنے مسلمان ہونے کو مختلف مذہبی رسوم پر منحصر کر رکھا ہے جنہیں باقاعدگی سے سرانجام دے کر ہم خود کو مطمئن کر لیتے ہیں حالانکہ یہ حقائق سے چشم پوشی ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ گھٹیا چیزوں کی طلب اور ہر جائز و ناجائز ذریعے سے خواہشات کی تکمیل اب کوئی باعث شرم بات نہیں رہی۔
انسان بھی عجیب مخلوق ہے۔ یہ اِس عارضی اور فانی زندگی کے لئے سامان اکٹھا کرنے میں ایک لمحے کی کوتاہی نہیں کرتا لیکن دائمی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے اس کے پاس کوئی وقت نہیں حالانکہ دنیوی حیات کا دورانیہ نہایت ہی مختصر ہے۔ مزید اس کی ناپائیداری کا یہ عالم ہے کہ کسی کے پاس اگلے لمحے کی بھی کوئی ضمانت نہیں۔ وہ یہ سب کچھ جانتا ہے کیونکہ وہ تقریباً ہر دوسرے یا تیسرے روز کسی نہ کسی کو لحد میں اترتے دیکھتا ہے۔ موت جیسی اٹل حقیقت دن رات اس کے سامنے ہوتی ہے لیکن مدہوشی کا یہ عالم ہے کہ کسی کی زندگی کاروبار میں بسر ہو رہی ہے تو کسی کی ملازمت میں، کوئی مارکیٹ میں مصروف عمل ہے تو کوئی فیکٹری میں، الغرض دنیا کے یہ گورکھ دھندے ہیں جن سے فراغت پانے کا ایک لمحہ بھی میسر نہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ اولاد، جاہ و منصب، آسائشوں اور تعیشات کی کشش انسان کو اپنی جانب کھینچتی چلی جاتی ہے اور وہ اس حقیقت سے بے نیاز رہتا ہے کہ ان شبانہ روز سرگرمیوں اور مصروفیات کے دوران جب مالکِ حقیقی کا پیغامِ اجل آ گیا تو اُس کا کیا بنے گا؟ دنیوی زندگی کی مشکلات پر قابو پانے کے لئے اور پھر اس کی ہر ضرورت، ہر احتیاج اور آرام و آسائش کا خیال رکھنے والوں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ کیا قبر و حشر کی تکالیف و مصائب سے بچنے کے لئے بھی کوئی تیاری کی ہے؟
دنیوی جدوجہد سے عبارت اس انسانی رویے کو ایک دوسرے زاویۂ نگاہ سے دیکھنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ یہ امر جہاں غور طلب ہے وہاں حیرت انگیز بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو دو اور دو چار کی طرح کھول کر حقائق سامنے رکھ دیے ہیں کہ بندہ اس کی روشنی میں اپنے انجام سے باخبر ہو جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالُ نِ اقْتَرَفْتُمُوْهَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَهَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَهَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اللہ وَرَسُوْلِهٖ وَجِهَادٍ فِیْ سَبِیْلِهٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللہ بِاَمْرِهٖ ط وَاللہ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَo
التوبۃ، 9: 24
(اے نبی مکرم!) آپ فرما دیں: اگر تمہارے باپ (دادا) اور تمہارے بیٹے (بیٹیاں) اور تمہارے بھائی (بہنیں) اور تمہاری بیویاں اور تمہارے (دیگر) رشتہ دار اور تمہارے اموال جو تم نے (محنت سے) کمائے اور تجارت و کاروبار جس کے نقصان سے تم ڈرتے رہتے ہو اور وہ مکانات جنہیں تم پسند کرتے ہو، تمہارے نزدیک اللہ اور اس کے رسول (ﷺ) اور اس کی راہ میں جہاد سے زیادہ محبوب ہیں تو پھر انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکمِ (عذاب) لے آئے، اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں فرماتا۔
یہ آیت کریمہ ہمیں جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہے۔ یہ ایسا پیمانہ اور کسوٹی ہے جس کی روشنی میں ہر ذی شعور اپنے مقام کا تعین کر سکتا ہے کہ وہ کس جگہ کھڑا ہے۔ وہ ہدایت کے راستے پر گامزن ہے یا پھر عذابِ الٰہی کی گھڑی کا منتظر ہے۔
ایک طرف ہم اپنی جسمانی صحت کے لئے ہر لمحہ فکر مند رہتے ہیں۔ خدانخواستہ اگر بیمار ہو جائیں تو اپنی استطاعت سے بڑھ کر اچھے سے اچھے طبیب تک رسائی کی بھرپور اور سر توڑ کوشش کرتے ہیں لیکن اِس کے برعکس زنگ آلود دلوں اور کمزور و بیمار روحوں کی صحت کے بارے میں سوچنے کی بھی ہمیں فرصت نہیں۔ ہم جسمانی صحت کی بحالی اور بہتری کے لئے عمدہ سے عمدہ غذا اور آرام و سکون کا خیال رکھتے ہیں لیکن قلب و باطن کی روحانی غذا اور سکون و قرار سے متعلق کبھی فکر مندی نہیں ہوتی۔ ہمارے اس غیر ذمہ دارانہ رویے کی کئی وجوہ ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ غفلت ہے۔ جب تک غفلت کی پٹی آنکھوں سے نہ اترے انسان ہدایت کی راہ کو دیکھنے کے قابل ہی نہیں ہوتا۔
غفلت کے لغوی معانی بے خبری، بے توجہی اور لاپرواہی کے ہیں۔ اسی غفلت کے باعث بعض لوگ بسا اوقات حق بات ہی سے ناآشنا ہوتے ہیں۔ کبھی علم رکھتے ہوئے احکام الٰہی کی بجا آوری میں بے توجہی کے مرتکب ہوتے ہیں جبکہ بعض اوامر و نواہی پر عمل پیرا ہونے کو ضروری خیال نہ کرتے ہوئے لاپرواہی برتتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں غافل لوگ سراسر خسارے میں ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ طَبَعَ اللہ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ وَسَمْعِهِمْ وَاَبْصَارِهِمْ ج وَاُولٰٓئِکَ هُمُ الْغٰفِلُوْنَo لَا جَرَمَ اَنَّهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ هُمُ الْخٰسِرُوْنَo
النحل، 16: 108-109
یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ نے ان کے دلوں پر اور ان کے کانوں پر اور ان کی آنکھوں پر مُہر لگا دی ہے اور یہی لوگ ہی (آخرت کے انجام سے) غافل ہیںo یہ حقیقت ہے کہ بے شک یہی لوگ آخرت میں خسارہ اٹھانے والے ہیں۔
ہماری روزمرہ کی زندگی میں غفلت کا عنصر اور عمل دخل بہت بڑھ چکا ہے۔ اس رویے کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ در اصل معاملات سے لے کر عبادات تک یہ غفلت ہی ہے جو انسان کی اللہ تعالیٰ سے دوری کا باعث بنتی ہے۔ حقیقت میں غفلت دل کی سیاہی ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
إِنَّ الْمُؤْمِنَ إِذَا أَذْنَبَ کَانَتْ نُکْتَۃٌ سَوْدَائُ فِی قَلْبِهِ، فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ صُقِلَ قَلْبُهُ، وَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتّٰی یَعْلُوَ قَلْبَهٗ ذَاکَ الرَّیْنُ الَّذِی ذَکَرَ اللہ عَزَّ وَجَلَّ فِی الْقُرْآنِ [کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَo (المطففین، 83: 14)].
مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نشان بن جاتا ہے۔ پھر اگر وہ توبہ کر لے گناہ سے ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے اگر وہ زیادہ گناہ کرتا جائے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کیا: ’ایسا ہرگز نہیں (بلکہ حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تھے (اس لئے آیتیں ان کے دلوں پر اثر نہیں کرتیں)o۔
یہ سیاہی دراصل دل کی غفلت ہے جو اسے پتھر سے بھی زیادہ سخت کر دیتی ہے جس کے باعث دل خشیت، رقت و سوز، نرمی و گداز اور نور سے محروم ہو جاتا ہے۔ غفلت نیند کا دوسرا نام ہے اور نیند نام ہی شعور کی معطلی کا ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کی قربت سے محروم ہو جاتا ہے۔ چنانچہ جو شخص غافل ہوا اس کے لئے احساس، ادراک اور شعور کا دروازہ بند ہو گیا۔ امام سری السقطی نیک لوگوں کے خصائص میں ترک غفلت کو بھی شامل کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں:
ثَـلَاثٌ مِنْ أَخْلَاقِ الْأَبْرَارِ: اَلْقِیَامُ بِالْفَرَائِضِ، وَاجْتِنَابُ الْمَحَارِمِ، وَتَرْکُ الْغَفْلَةِ.
أبو نعیم، حلیۃ الأولیاء، 10: 123
نیک لوگوں کے تین خصائص ہیں: فرائض قائم کرنا، حرام کاموں سے اجتناب کرنا اور غفلت کو ترک کرنا۔
امام سہل بن عبد اللہ فرماتے ہیں:
وَإِیَّاکَ وَالْغَفْلَۃَ فَإِنَّ فِیهَا سَوَادَ الْقَلْبِ.
أبو نعیم، حلیۃ الأولیاء، 10: 200
غفلت سے بچو کیونکہ اس میں دل کی سیاہی ہے۔
امام حارث المحاسبی فرماتے ہیں:
وَاعْلَمْ یَا أَخِي أَنَّ الذُّنُوْبَ تُوْرِثُ الْغَفْلَةِ وَالْغَفْلَۃُ تُوْرِثُ الْقَسْوَۃَ وَالْقَسْوَۃُ تُوْرِثُ الْبَعْدَ مِنَ اللہ وَالْبَعْدُ مِنَ اللہ یُوْرِثُ النَّارَ وَإِنَّمَا یَتَفَکَّرُ فِي هٰذِهِ الْأَحْیَاءُ وَأَمَّا الْأَمْوَاتُ فَقَدْ أَمَاتُوْا أَنْفُسَهُمْ بِحُبِّ الدُّنْیَا.
أبو الحارث المحاسبي، رسالۃ المسترشدین: 154-155
اے بھائی! تو جان لے کہ گناہ غفلت پیدا کرتے ہیں اور یہ غفلت بندے (کے دل میں) سختی پیدا کرتی ہے، اور یہ سختی بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور کر دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ سے دوری اسے آگ تک پہنچا دیتی ہے اور بے شک ان چیزوں میں زندہ لوگ ہی غور و فکر کرتے ہیں اور رہے مردہ (دل) لوگ تو انہوں نے اپنے دلوں کو حبِ دنیا میں مار دیا ہوا ہے۔
گناہ اور نیکی کا تصور بڑا واضح ہے لیکن معاملاتِ زندگی میں بعض اوقات ایسے لمحات بھی آ جاتے ہیں کہ انسان متردد ہو جاتا ہے کہ میرا یہ کام نیکی ہے یا بدی۔ اس مقام پر بھی حدیث رسول ﷺ نے ہمیں تنہا نہیں چھوڑا۔ حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے نیکی اور گناہ کے متعلق سوال کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اَلْبِرُّ حُسْنُ الْخُلُقِ وَالْإِثْمُ مَا حَاکَ فِي صَدْرِکَ وَکَرِهْتَ أَنْ یَطَّلِعَ عَلَیْهِ النَّاسُ.
اچھا خُلق نیکی ہے اور گناہ وہ چیز ہے جو تمہارے دل میں کھٹکتی رہے اور تم یہ ناپسند کرو کہ لوگ اس پر مطلع ہوں۔
یہ ایک خود کار کسوٹی ہے جس کے ذریعے ہر شخص اپنے فعل کے بارے میں معلوم کر سکتا ہے۔ تاہم جب غلط بیانی، غلط نگاہی، بد دیانتی، خیانت، دھوکا دہی، رزقِ حرام اور حق تلفی وغیرہ جیسے رذائلِ اخلاق کے باعث دل پر سیاہی کی مہر لگ جائے اور دل کسی غلط اور برے کام پر بے سکون، رنجیدہ اور مغموم نہ ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ وہ زندوں میں نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غفلت کوئی معمولی فعل نہیں کہ اس سے صَرفِ نظر کیا جائے۔ اس کے نقصانات بے شمار ہیں۔ انسان کو کسی لمحے بھی اس حقیقت سے بے خبر نہیں ہونا چاہئے کہ دنیا میں انسان کو اللہ تعالیٰ نے اپنی بندگی کے لیے پیدا کیا ہے۔ لهٰذا غفلت اختیار کرتے ہوئے جزا اور سزا کے تصور سے بے نیاز ہو کر احکام خداوندی اور سنتِ مصطفی ﷺ کی بجاآوری کے بغیر بے مقصد زندگی بسر کرنا ایک غیر اسلامی رویہ ہے۔
حقیقت میں وہ زندگی بھی کوئی زندگی نہیں جو بغیر مقصد کے بسر کی جائے۔ بے مقصدیت اس دور کا ایک ایسا فتنہ ہے جس نے انسان کو اپنے خالق سے دور کر دیا ہے۔ آج کا مسلمان دنیوی زندگی کو اچھے اور اعلیٰ طریق سے بسر کرنے کو ہی اپنا مقصدِ حیات سمجھ بیٹھا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے احکام پر عمل پیرا ہونا اس کے لئے ضروری نہیں رہا اور اگر کوئی عمل پیرا ہو تو اسے ذاتی معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں عملاً وہ کسی جواب دہی کا قائل نہیں۔ اس کی یہ سوچ دراصل اُس ملحدانہ نظریۂ تخلیق کائنات کے زیر اثر ہے جس کے مطابق یہ کائنات اور اس میں زندگی اتفاقاً وجود میں آ گئی اور جو کچھ وقوع پذیر ہو رہا ہے سب اتفاق ہے۔ اس نقطۂ نظر کے تحت نہ کوئی خالق ہے، نہ نیکی و بدی، نہ حساب و کتاب، نہ ذمہ داری، نہ جواب دہی اور نہ ہی کوئی اخلاقیات بلکہ جیسے بن پڑا کھایا، پیا، برتا اور مر گئے:
خس کم جہاں پاک
بدقسمتی سے عملاً ہماری زندگی اسی ڈگر پر گزر رہی ہے۔ بچہ پیدا ہوتا ہے، کھاتا پیتا ہے، پرورش پا کر جوان ہوتا ہے، شادی کرتا ہے، افزائش نسل اور پھر اس کی پرورش کرتا ہے، آخری دم تک معاشی کفالت کے لئے تگ و دو کرتا ہے اورپھر قبر میں اُتر جاتا ہے۔ کم و بیش یہی وہ کام ہیں جن کو کوئی جس قدر عمدہ اور اعلیٰ طریقے سے سرانجام دے ہم اُسے کامیاب تصور کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ جو وہ زندگی میں کرتا ہے بذات خود کوئی مقصد حیات نہیں۔ یہ تو ضروریات زندگی ہیں جن کی تکمیل میں اس نے زندگی صرف کی۔ ضروریات زندگی کی تکمیل ازخود کوئی مقصد نہیں۔ یہ تو مقصد کی خدمت گار ہوتی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی شانِ خالقیت کا اظہار کرتے ہوئے اِس کائناتِ ارض و سما کو پیدا فرمایا جس میں کوئی چیز بھی بے مقصد اور بغیر نظم کے پیدا نہیں فرمائی۔ اس میں جو کچھ ہے اُسے انسان کی تخلیق سے پہلے وجود بخشا گیا اور انسان کا وجود کائنات کے ارتقاء کا نقطۂ کمال تھا جسے خود خالقِ کائنات نے حضرت آدم علیہ السلام کی شکل میں بنایا اور اس میں اپنی روح پھونکی جس کا ذکر قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا:
وَلَقَدْ خَلَقْنٰـکُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰـکُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓئِکَةِ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوْٓا اِلَّآ اِبْلِیْسَ ط لَمْ یَکُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَo
الأعراف، 7: 11
اور بے شک ہم نے تمہیں (یعنی تمہاری اصل کو) پیدا کیا پھر تمہاری صورتگری کی (یعنی تمہاری زندگی کی کیمیائی اور حیاتیاتی ابتداء و ارتقاء کے مراحل کو آدم علیہ السلام کے وجود کی تشکیل تک مکمل کیا) پھر ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا۔
اس نقطۂ نظر سے دیکھیں تو انسان مخلوقات میں سب سے اعلیٰ مقام رکھتا ہے۔ باقی ساری کائنات اس کی خدمت پر مامور نظر آتی ہے۔ جب خالق کائنات کا کوئی کام بھی عبث نہیں تو حضرتِ انسان کیسے بے مقصد پیدا ہو سکتا ہے؟ انسان کو یقینا اللہ تعالیٰ نے ایک مقصد کے لئے پیدا فرمایا جس کا ذکر خود قرآنِ مجید میں اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِo
الذاریات، 51: 53
اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔
دوسرے مقام پر فرمایا:
وَمَا خَلَقْنَا السَّمَآءَ وَالْاَرْضَ وَمَا بَیْنَهُمَا بَاطِلاً ط ذٰلِکَ ظَنُّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ج فَوَیْلٌ لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنَ النَّارِo
ص، 38: 27
اور ہم نے آسمانوں کو اور زمین کو اور جو کائنات دونوں کے درمیان ہے اسے بے مقصد و بے مصلحت نہیں بنایا۔ یہ (بے مقصد یعنی اتفاقیہ تخلیق) کافر لوگوں کا خیال و نظریہ ہے۔ سو کافر لوگوں کے لیے آتشِ دوزخ کی ہلاکت ہے۔
لفظ ’بندگی‘ مذکورہ بالا آیت میں وسیع تر معنیٰ رکھتا ہے۔ اِس سے مراد ہر وہ عمل ہے جس کے کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور جس کے بجا لانے پر اللہ تعالیٰ راضی اور خوش ہوتا ہے۔ بندگی میں وہ سارے معاملاتِ زندگی اور مذہبی عبادات شامل ہیں جو اللہ رب العزت کی خوشنودی کے لئے سرانجام دیے جائیں، جن کی لازوال عملی مثالیں حضور نبی اکرم ﷺ کی احادیث اور سنتِ مبارکہ کی شکل میں ہمارے سامنے ہیں۔ گویا زندگی کو اللہ تعالیٰ کی بندگی کے سپرد کرنا ہی انسان کی زندگی کا اعلیٰ ترین مقصد ہے۔ زندگی کو بندگی کے تحت بسر کرنے کے لئے ضروری ہے کہ بندہ اپنی سابقہ بے عمل زندگی سے تائب ہوتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اسی کو توبہ کہتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved