موقع کی مناسبت سے واقعات کی اہمیت و افادیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ خود خالق کائنات نے سمجھانے کے لئے قرآن حکیم میں جہاں ضروری تھا، مثالیں اور واقعات بیان فرمائے ہیں۔ قرآنی بیان میں تفصیل و اجمال دونوں اسلوب کی اثرپذیری محتاجِ بیان نہیں۔ قرآن حکیم میں امثال و واقعات بیان کر کے اللہ تعالیٰ نے ہمیں غور و فکر کی دعوت دی ہے تاکہ احوالِ حیات سنور سکیں۔ اسی سنتِ الٰہیہ پر سرکارِ دوعالم ﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، اولیائے عظام اور علمائے حق آج تک عمل پیرا رہے ہیں۔
زیرنظر باب میں چند تائبین کے دل گداز اور روح پرور واقعات بیان کئے جا رہے ہیں تاکہ مطالعہ کرنے والے اپنے اپنے حال کے مطابق گناہوں سے تائب ہونے کا شوق و ولولہ پائیں۔
قرآن حکیم کی سورۃ التوبہ میں تین صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی قبولِ توبہ کا ذکر اس طرح آیا ہے:
وَعَلَی الثَّلٰـثَةِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْا ط حَتّٰی اِذَاضَاقَتْ عَلَیْھِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْھِمْ اَنْفُسُھُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللهِ اِلَّا اِلَیْهِ ط ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْ بُوْا ط اِنَّ اللهَ ھُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُo
التوبۃ، 9: 118
اور ان تینوں شخصوں پر (بھی نظرِ رحمت فرمادی) جن (کے فیصلہ) کو مؤخر کیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین باوجود کشادگی کے ان پر تنگ ہوگئی اور (خود) ان کی جانیں (بھی) ان پر دوبھر ہوگئیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ اللہ (کے عذاب) سے پناہ کا کوئی ٹھکانا نہیں بجزاس کی طرف (رجوع کے)، تب اللہ ان پر لطف وکرم سے مائل ہوا تاکہ وہ (بھی) توبہ و رجوع پر قائم رہیں، بے شک اللہ ہی بڑا توبہ قبول فرمانے والا، نہایت مہربان ہے۔
اس توبہ کا تعلق تین صحابہ سے ہے جن کے نام یہ ہیں:
1۔ کعب بن مالک
2۔ مرارہ بن ربیع
3۔ ہلال بن امیہ
یہ واقعہ غزوۂ تبوک کے موقع پر پیش آیا۔ اُس وقت مسلمان طرح طرح کی مشکلات میں گھرے ہوئے تھے۔ سخت گرمی کا موسم تھا۔ سفر بڑا طویل اور جاں گسل تھا۔ ایسا وقت بھی آیا کہ ایک اونٹ پر باری باری سوار ہوتے۔ صرف ایک کھجور پر ہی رات بسر کرنا پڑتی۔ پانی اتنا کم یاب تھا کہ اونٹ ذبح کرکے ان کے پیٹ میں جو پانی ہوتا اس سے پیاس کو بجھاتے۔ حالات کی سنگینی کی وجہ سے بعض مخلص مسلمان بھی لڑکھڑا گئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کی خصوصی توفیق سے سفر جہاد پر روانہ ہوئے۔
صحیح بخاری اور مسلم میں جو روایت درج ہے، اس کے راوی خود ان تینوں میں سے ایک صحابی حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں۔ متفق علیہ روایت کا خلاصہ ملاحظہ فرمائیں۔
جن دنوں غزوہ تبوک کے لئے تیاری ہو رہی تھی میری صحت اور مالی حالت بہت اچھی تھی۔ میرے پاس سواری کے لئے دو اونٹنیاں تھیں۔ اس سے قبل کبھی میرے پاس سواری کے لئے دو جانور جمع نہیں ہوئے تھے۔ جمعرات کے دن حضور نبی اکرم ﷺ اپنے تیس ہزار جاں نثاروں کے ہمراہ تبوک کی طرف روانہ ہوئے۔ میں نے دل میں سوچا کہ چند ضروری کاموں سے جلدی جلدی فارغ ہو کر لشکر کے ساتھ جا ملوں گا۔ پہلا دن بھی گزر گیا لیکن مجھے ان کاموں سے فراغت نہ ہوئی۔ دوسرا دن، پھر تیسرا دن بھی اسی طرح گزر گیا لیکن میں فارغ نہ ہوا۔ جب کئی دن گزر گئے تو میں نے خیال کیا کہ اب تو لشکر بہت دور چلا گیا ہوگا اور اب میرا جانا بے سود ہے۔ چنانچہ میں نے لشکر کے پیچھے جانے کا ارادہ ترک کر دیا۔ جب میں بازار جاتا تو مجھے ان لوگوں کے سوا جو نفاق کی تہمت سے مہتم تھے یا جو معذور تھے اور جنگ میں شرکت کے قابل نہ تھے، اور کوئی مسلمان دکھائی نہ دیتا۔ مجھے اپنی اس حرماں نصیبی پر بڑا دکھ ہوتا۔ ایک بار خیال آیا بھی کہ اگرچہ تاخیر ہوگئی ہے پھر بھی چلا جاتا ہوں۔ کاش میں ایسا کرتا! لیکن ایسا نہ کر سکا۔ وقت گزرتا گیا۔ یہاں تک کے حضور نبی اکرم ﷺ کے بخیر و عافیت واپس آنے کی اطلاعات آنے لگیں۔ مجھے رنج و غم نے آ لیا۔ میں سوچنے لگا کہ بارگاهِ رسالت میں اپنی اس غیر حاضری کے لئے کیا عذر پیش کروں۔ خود بھی غور و خوض کیا اور دیگر سے بھی مشورہ کیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ جب مدینہ طیبہ تشریف لے آئے تو یکایک تذبذب کی کیفیت جاتی رہی اور دل میں ٹھان لیا کہ سچ سچ عرض کر دوں گا اور اس بارگاہ میں اگر پناہ مل سکتی ہے تو سچ سے ہی مل سکتی ہے، جھوٹ بول کر تو مزید اپنے آپ کو رسوا ہی کرنا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی سنت مبارکہ تھی کہ جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے مسجد میں جا کر دو نفل ادا کرتے۔ اس کے بعد حضرت خاتون جنت رضی اللہ عنہا کے ہاں قدم رنجہ فرماتے اور اس کے بعد ازواج مطہرات کے حجروں کو زینت بخشتے۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ مسجد تشریف لے آئے اور نفلوں سے فارغ ہو کر بیٹھے تو منافقین گروہ در گروہ حاضر ہو کر جھوٹے بہانے پیش کرنے لگے اور حضور نبی اکرم ﷺ ان کے باطن کو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں تفویض کرکے ان کی ظاہری عذر داریوں کو قبول فرما لیتے۔ مجھے بھی بعض لوگوں نے ایسا ہی کرنے کا مشورہ دیا۔ لیکن میں نے خدمت اقدس میں حاضر ہو کر اپنی حرماں نصیبی کی سچی سچی داستان عرض کر دی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے میری عرض گزاشت کو سن کر فرمایا:
اَمَّا هٰذَا فَقَدْ صَدَقَ فَقُمْ حَتّٰی یَقْضِيَ اللهُ فِیْک.
اس نے جو کچھ کہا ہے سچ ہے۔ جاؤ! اٹھو تمہارا فیصلہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا۔
کئی لوگوں نے مجھے بڑی سرزنش کی کہ تم نے صاف گوئی سے کام لے کر اپنے آپ کو مصیبت میں گرفتار کروا دیا۔ میں نے خیال کیا کہ واپس جا کر کوئی عذر پیش کروں لیکن پھر معاً یہ خیال آیا کہ ایک گناہ تو یہ کیا کہ جہاد میں شریک نہیں ہوا اور دوسرا گناہ یہ کروں کہ بارگاہ نبوت میں جھوٹ بولوں، میں یہ جرأت ہرگز نہیں کروں گا۔ میں نے پوچھا کہ کسی اور کو بھی اسی قسم کا حکم ملا ہے تو بتایا گیا کہ ہلال بن امیہ اور مرارہ بن ربیع کو بھی یہی فرمایا گیا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے لوگوں کو ہمارے ساتھ بات چیت کرنے سے بھی منع فرما دیا۔ اب ہمارے ساتھ نہ کوئی ہم کلام ہوتا تھا اور نہ ہی ہمارے سلام کا کوئی جواب دیتا۔ ہمیں یوں محسوس ہونے لگا کہ یہ وہ لوگ ہی نہیں جو پہلے تھے اور جن کو ہم جانتے تھے۔ یہ وہ دیس ہی نہیں ہے جس میں ہم نے عمر گزاری بلکہ یہ کوئی نیا دیس ہے۔ جس کے کوچہ و بازار اور در و دیوار ہمارے لئے بالکل غیر مانوس ہیں۔ مجھے یہ اندیشہ کھائے جا رہا تھا کہ اگر اسی حالت میں موت آگئی اور حضور نبی اکرم ﷺ نے نماز جنازہ نہ پڑھائی تو کیا بنے گا؟ میرے دیگر دونوں ساتھی تو رات دن گریہ و زاری میں گزار دیتے۔ انہیں دنیا و مافیہا کی خبر نہ تھی۔ انہوں نے تو باہر نکلنا ہی بند کر دیا تھا جبکہ میں کبھی کبھی بازار جاتا لیکن نہ کوئی مجھے سلام کہتا اور نہ کوئی میرے سلام کا جواب دیتا۔ ایک روز میں لوگوں کی سرد مہری سے تنگ آکر اور مایوس ہو کر اپنے چچا زاد بھائی ابو قتادہ کے پاس چلا گیا جو اس وقت باغ میں تھا۔ مجھے اس سے بڑی محبت تھی۔ میں نے سلام کیا تو اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ میں نے کہا: اے بھائی! کیا تمہیں علم نہیں کہ میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے محبت کرتا ہوں۔ وہ چپ رہا، میں نے تین مرتبہ یہ جملہ دہرایا وہ بولا تک نہیں۔ آخر چوتھی بار جب میں نے اسے یہی بات کہی تو اس نے صرف اتنا کہا۔ اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں۔ اُس وقت بے اختیار میرے آنسو بہہ نکلے اور میں وہاں سے شکستہ دل واپس چلا آیا۔ میں بازار سے گزر رہا تھا کہ شاهِ غسان کا ایک ایلچی مجھے تلاش کر رہا تھا۔ لوگوں نے اشارہ سے اسے میری طرف متوجہ کیا کہ یہ کعب ہے جسے تم تلاش کر رہے ہو۔ وہ میرے قریب آیا اور مجھے اپنے بادشاہ کا خط دیا۔ اس نے خط میں مجھے لکھا کہ ہم نے سنا ہے کہ تیرے صاحب نے تجھ پر بہت جفا کی ہے اور تیرے ساتھ ناروا سلوک کیا جا رہا ہے۔ تو ایسا نہیں کہ تیری توہین کی جائے۔ تو میرے پاس آجا، دیکھ میں کس طرح تیری قدردانی کرتا ہوں۔ یہ پڑھ کر میں آگ بگولا ہوگیا اور میں نے اس خط کو نذر آتش کر دیا اور اسے کہا کہ اپنے بادشاہ کو کہنا کہ اس خط کا میرے پاس یہی جواب تھا۔ میں نے اپنے دل میں کہا: میری بد بختی ملاحظہ ہو کہ اب ایک کافر کو یہ جرأت ہو رہی ہے کہ میرے ایمان پر ڈاکہ ڈالے۔ اس رنج و الم میں چالیس دن گزر گئے۔ چالیسویں دن حکم ہوا کہ ہم اپنی بیویوں سے بھی الگ رہیں چنانچہ میں نے اپنی بیوی کو اس کے میکے بھیج دیا۔ میں نماز پڑھنے کے لئے مسجد نبوی جایا کرتا تھا اور حضور نبی اکرم ﷺ کو سلام عرض کیا کرتا اور پھر یہ دیکھتا کہ کیا لب مبارک کو جنش ہوئی ہے۔ جب میں نماز میں مشغول ہوتا تو سرورِ دوعالم ﷺ اپنی نگاهِ لطف کو میری طرف مبذول فرماتے اور جب میں فارغ ہوتا تو اعراض فرما لیتے۔ یہ لمحے میرے لئے بڑے صبر آزما تھے۔ پچاسویں رات کو ہماری توبہ کی قبولیت کی آیت نازل ہوئی۔ صبح کی نماز کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ نے اعلان فرمایا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین دوڑے ہوئے مبارک دینے آئے۔ سب سے پہلے جس نے مجھے یہ مژدہ جاں فزا سنایا وہ حمزہ الاسلمی تھے۔ میں نے فرطِ مسرت میں اپنے دونوں کپڑے اتار کر ان کی نذر کر دیے۔ پھر میں بارگاهِ مصطفی ﷺ میں حاضر ہوا۔ سب احباب جوق در جوق مجھے مبارک باد دینے آ رہے تھے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا چہرۂ انور خوشی سے چمک رہا تھا۔ مجھے دیکھا تو فرمایا: جب سے تیری ماں نے تجھے جنا ہے یہ تیری زندگی کا بہترین دن ہے، مبارک ہو۔
یہ ان تین پاک بازوں کا ذکر ہے جنہوں نے منافقوں کی طرح اللہ کے رسول ﷺ کی جناب میں جھوٹ بولنے کی گستاخی نہیں کی اور آخر کار اللہ تعالیٰ کی نگاهِ لطف و عطا ان کی طرف مائل ہوئی اور ایسا ابر رحمت بخشا کہ قیامت تک ان کی توبہ کا ذکر متن قرآن بن گیا۔
غزوۂ خندق کے دوران بنو قریظہ کے یہود نے معاہدے کے مطابق مسلمانوں کا ساتھ دینے کے بجائے کفار کے ہاتھ مضبوط کئے اور اس طرح انتہائی نامساعد حالات میں غداری کا ارتکاب کیا۔ غزوۂ خندق ختم ہوا تو جبریل امین علیہ السلام نازل ہوئے اور رب ذولجلال کی طرف سے بنی قریظہ کے یہودیوں کے خلاف اقدام کا پیغام سنایا۔
بیهقی، دلائل النبوۃ، 4: 8
احکامِ الٰہی کی بجاآوری کرتے ہوئے، فرمانِ نبوی کے مطابق حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے بنو قریظہ کے یہود کے خلاف تیاری کا حکم سنایا، اور عصر کی نماز کے وقت مسلمانوں نے بنو قریظہ کے قلعہ کا محاصرہ کر لیا۔ وہ باہر نکل کر مقابلہ کرنے کے بجائے قلعہ کے حصار میں مقید ہو گئے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں غیر مشروط اطاعت تسلیم کرنے کا پیغام دیا۔ لیکن ضد، ہٹ دھرمی اور انا پرستی بنو قریظہ کی سوچ کا مرکز و محور بنی رہی۔ بعض قابلِ عمل تجاویز کو پائے حقارت سے ٹھکرا دیا گیا۔ وہ آپس میں باہم مشورے کرتے رہے کہ اب کیا کیا جائے؟ ان کی نگاہیں بار بار قریش کی طرف اٹھ رہی تھیں کہ وہ ان کی مدد کو پہنچیں گے، لیکن یہ خیال خیال خام ثابت ہوا، وہ حملہ آور جو ایک ماہ تک مدینہ کا محاصرہ کرنے کے بعد ابھی ابھی اپنے گھروں کو لوٹے تھے، تھکان اور شرمساری ان کے اعصاب پر سوار تھی۔ وہ اس پوزیشن میں نہ تھے کہ بنو قریظہ کی مدد کے لئے اپنے گھروں کو ایک بار پھر خیر باد کہتے۔ اس لئے ان کی طرف سے کسی فوری کمک کی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں بسنے کے مترادف تھا۔
بنو نضیر کا معاملہ بھی جدا تھا، وہ مدینہ سے ذلیل ہو کر جلا وطن ہوئے تھے۔ وہ مسلمانوں کے خلاف درپردہ سازشوں میں تو مصروف رہتے تھے لیکن براہ راست مسلمانوں سے ٹکر لینے کی ہمت ان میں نہیں تھی۔ اس لئے خیبر کی جانب سے بھی بنو قریظہ کسی فوری مدد کی توقع نہ رکھتے تھے۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا تھا کہ یا تو وہ مسلمانوں سے فیصلہ کن معرکہ آرائی کے لئے اپنے قلعوں سے باہر نکل آئیں یا پھر غیر مشروط اطاعت اختیار کر لیں۔ غیر مشروط اطاعت اختیار کرنے کی راہ میں ان کی جھوٹی اَنا آڑے آ رہی تھی اور مسلمانوں سے جنگ کا حوصلہ وہ خود نہ کر پاتے تھے۔ یہودیوں نے آخری کوشش یہ کی کہ بارگاہ رسالت مآب ﷺ میں درخواست گزار ہوئے کہ ہمارے حلیف حضرت ابو لبابہ کو ہماری طرف بھیجا جائے۔
ہادی برحق ﷺ نے ان کی اس درخواست کو شرف قبولیت سے نوازا۔ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ جب ان کے پاس پہنچے تو انہوں نے اپنی عورتوں کو وہاں جمع کر رکھا تھا۔ حضرت ابو لبابہ کو دیکھ کر ان کی عورتوں نے واویلا شروع کر دیا، گریہ و زاری کرنے لگیں اور اپنے مصائب کا ذکر کرنے لگیں۔ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ ان کی آہ و فغاں سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ یہود کے سردار کعب بن اسد نے ان سے مشورہ کیا کہ کیا غیر مشروط اطاعت مان لیں؟ انہوں نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کیا، جس کا مطلب تھا کہ تم قتل کر دیے جائو گے۔ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کو احساس ہوا کہ انہیں یہ بات نہیں کہنی چاہئے تھی۔ ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیا اور ندامت کے باعث ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو گئے۔ آپ رضی اللہ عنہ خاموشی سے واپس آ گئے۔
حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کے ضمیر پر اتنا بوجھ تھا کہ وہ اپنے آقا ﷺ کا سامنا نہ کر سکے اور مسجد نبوی میں آ کر اپنے آپ کو ایک ستون سے باندھ لیا کہ جب تک اللہ تعالیٰ توبہ قبول نہ کرے گا وہ اسی طرح بندھے رہیں گے۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ واپس تشریف لائے تو فرمایا:
لَوْ جَاءَ نِيْ لَا سْتَغْفَرْتُ لَهٗ.
اگر ابو لبابہ میرے پاس آ جاتے تو ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی کی درخواست کرتا۔
اب جو ہونا تھا وہ ہو چکا۔ روایات میں ہے کہ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ چھ روز تک ستون کے ساتھ بندھے رہے۔ ایک روایت میں بیس دن کا ذکر ہے۔ نماز اور رفع حاجت کے وقت ان کی بیوی یا بیٹی آکر انہیں کھول دیتیں اور پھر انہیں اسی طرح باندھ دیا جاتا، تاآنکہ ایک روز حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے حضور نبی اکرم ﷺ کو سحر کے وقت مسکراتے ہوئے دیکھا۔ عرض کیا: یارسول اللہ! اللہ آپ کو اسی طرح مسکراتا رکھے، آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ابو لبابہ کی توبہ قبول کر لی ہے۔ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں انہیں اس کی اطلاع کر دوں؟ فرمایا: ہاں انہیں بتا دو۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے دروازے میں کھڑے ہو کر فرمایا: ’ابو لبابہ! تمہیں مبارک ہو، اللہ تعالیٰ نے تمہاری توبہ قبول کر لی ہے‘۔ لوگ انہیں کھولنے کے لئے دوڑے، انہوں نے کہا: خدا کی قسم! مجھے حضور نبی اکرم ﷺ اپنے ہاتھ سے کھولیں گے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نماز کے لئے تشریف لائے تو انہیں اپنے دست مبارک سے کھولا۔ حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ نے بارگاهِ خداوندی میں اپنی توبہ کی قبولیت پر اپنا سارا مال صدقہ کر دینا چاہا تو رحمت عالم ﷺ نے فرمایا:
یُجْزِئُکَ الثُّلُثُ یَا أَبَا لُبَابَۃَ.
تمہارے لئے اپنے مال کا صرف تیسرا حصہ صدقہ کر دینا کافی ہے۔
امام زہری سے قرآن مجید کی آیت مبارکہ - [یَا أَیُّهَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللهَ وَالرَّسُولَ وَتَخُوْنُوْا اَمَانَاتِکُمْ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَo ’اے ایمان والو! تم اللہ اور رسول (ﷺ) سے (ان کے حقوق کی ادائیگی میں) خیانت نہ کیا کرو اور نہ آپس کی امانتوں میں خیانت کیا کرو حالاں کہ تم (سب حقیقت) جانتے ہو۔ (الأنفال، 8: 27)] - کے بارے میں مروی ہے کہ یہ آیت حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے انہیں بنو قریظہ کی طرف بھیجا تھا تو انہوں نے اپنے حلق کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اُن (بنو قریظہ) کو قتل کیے جانے (کے فیصلہ) کی خبر دے دی تھی۔ (اس خیانت پر جب شدید ندامت ہوئی تو) ابو لبابہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
لَا، وَاللهِ، لَا أَذُوْقُ طَعَامًا وَلَا شَرَابًا حَتّٰی أَتُوْبَ وَیَتُوْبُ اللهُ عَلَيَّ، فَمَکَثَ سَبْعَۃَ أَیَّامٍ، لَا یَذُوْقُ فِیْهَا طَعَامًا وَلَا شَرَابًا حَتّٰی یَخِرَّ مَغْشِیًّا عَلَیْهِ، ثُمَّ تَابَ اللهُ عَلَیْهِ. فَقِیْلَ لَهٗ: یَا أَبَا لُبَابَۃَ، قَدْ تِیْبَ عَلَیْکَ. قَالَ: لَا، وَاللهِ، لَا أَحُلُّ نَفْسِي حَتّٰی یَکُوْنَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ هُوَ یَحُلُّنِي. فَجَاءَ فَحَلَّهٗ بِیَدِهٖ. ثُمَّ قَالَ لَهٗ أَبُوْ لُبَابَۃَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! إِنَّ مِنْ تَوْبَتِي أَنْ أَهْجُرَ دَارَ قَوْمِي الَّتِي أُصِبْتُ فِیْهَا الذَّنْبَ وَأَنْ أَنْخَلِعَ مِنْ مَالِي کُلِّهٖ صَدَقَۃً إِلَی اللهِ.
بخدا! میں نہ کچھ کھاؤں گا نہ پیوں گا حتیٰ کہ میں توبہ کر لوں اور اللہ تعالیٰ میری توبہ قبول بھی فرما لے۔ سات دن انہوں نے نہ کچھ کھایا نہ پیا آخر کار بے ہوش ہو کر گر پڑے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ (حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ نے خود کو مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھ رکھا تھا)۔ انہیں کہا گیا: اے ابو لبابہ! تیری توبہ قبول ہو گئی۔ انہوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم! میں خود کو نہیں کھولوں گا جب تک کہ رسول اللہ ﷺ مجھے خود نہ کھولیں۔ چنانچہ حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے انہیں کھول دیا۔ پھر ابو لبابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ بھی میری توبہ کا حصہ ہے کہ میں اپنا خاندانی گھر چھوڑتا ہوں جس میں رہتے ہوئے مجھ سے یہ گناہ سرزد ہوا، اور میں اپنا سارا مال اللہ کی راہ میں صدقہ کرتا ہوں۔
حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کرنے کے لئے خود احتسابی کی ایک ایسی مثال قائم کی جو آج بھی ہمارے لئے مینارہ نور ہے۔ مسجد نبوی کے جس ستون کے ساتھ آپ نے خود کو باندھ لیا تھا وہ آج بھی ریاض الجنۃ میں ستون ابی لبابہ کے نام سے موجود ہے۔
تین اشخاص ایک سفر کے دوران طوفان باد و باراں میں گھِر گئے۔ اس سے بچنے کی خاطر انہوں نے ایک پہاڑ کی غار میں پناہ لی۔ اچانک غار کا دہانہ پہاڑی تودہ گرنے سے بالکل بند ہو گیا اور وہ تینوں اس میں بند ہو کر رہ گئے۔ جب موت کے سوا دوسرا کوئی راستہ دکھائی نہ دیا تو تینوں افراد اپنے اپنے اخلاص کے مقام پر کئے گئے عمل کا وسیلہ اختیار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور معافی کے خواستگار ہوئے۔ وہ کون سے نیک اعمال تھے اور کیسے ان کی رہائی ممکن ہوئی درج ذیل حدیث مبارکہ میں اسی عظیم الشان واقعہ کی نقاب کشائی کی گئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر k بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
بَیْنَمَا ثَـلَاثَۃُ نَفَرٍ یَتَمَشَّوْنَ أَخَذَهُمْ الْمَطَرُ، فَأَوَوْا إِلَی غَارٍ فِي جَبَلٍ، فَانْحَطَّتْ عَلَی فَمِ غَارِهِمْ صَخْرَۃٌ مِنَ الْجَبَلِ، فَانْطَبَقَتْ عَلَیْهِمْ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: انْظُرُوا أَعْمَالًا عَمِلْتُمُوهَا صَالِحَۃً ِﷲ، فَادْعُوا اللهَ تَعَالَی بِهَا، لَعَلَّ اللهَ یَفْرُجُهَا عَنْکُمْ، فَقَالَ أَحَدُهُمْ: اَللَّھُمّ!َ إِنَّهُ کَانَ لِي وَالِدَانِ شَیْخَانِ کَبِیرَانِ، وَامْرَأَتِي، وَلِي صِبْیَۃٌ صِغَارٌ، أَرْعَی عَلَیْهِمْ، فَإِذَا أَرَحْتُ عَلَیْهِمْ حَلَبْتُ، فَبَدَأْتُ بِوَالِدَيَّ، فَسَقَیْتُهُمَا قَبْلَ بَنِيَّ، وَأَنَّهُ نَأَی بِي ذَاتَ یَوْمٍ الشَّجَرُ، فَلَمْ آتِ حَتَّی أَمْسَیْتُ، فَوَجَدْتُهُمَا قَدْ نَامَا، فَحَلَبْتُ کَمَا کُنْتُ أَحْلُبُ، فَجِئْتُ بِالْحِلَابِ، فَقُمْتُ عِنْدَ رُئُ وسِهِمَا، أَکْرَهُ أَنْ أُوقِظَهُمَا مِنْ نَوْمِهِمَا، وَأَکْرَهُ أَنْ أَسْقِيَ الصِّبْیَۃَ قَبْلَهُمَا، وَالصِّبْیَۃُ یَتَضَاغَوْنَ عِنْدَ قَدَمَيَّ، فَلَمْ یَزَلْ ذَلِکَ دَأْبِي وَدَأْبَهُمْ حَتَّی طَلَعَ الْفَجْرُ، فَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِکَ ابْتِغَائَ وَجْهِکَ فَافْرُجْ لَنَا مِنْهَا فُرْجَۃً، نَرَی مِنْهَا السَّمَائَ فَفَرَجَ اللهُ مِنْهَا فُرْجَۃً، فَرَأَوْا مِنْهَا السَّمَائَ، وَقَالَ الْآخَرُ: اَللَّھُمَّ! إِنَّهُ کَانَتْ لِيَ ابْنَۃُ عَمٍّ، أَحْبَبْتُهَا کَأَشَدِّ مَا یُحِبُّ الرِّجَالُ النِّسَائَ، وَطَلَبْتُ إِلَیْهَا نَفْسَهَا، فَأَبَتْ حَتَّی آتِیَهَا بِمِائَۃِ دِینَارٍ، فَتَعِبْتُ حَتَّی جَمَعْتُ مِائَۃَ دِینَارٍ فَجِئْتُهَا بِهَا، فَلَمَّا وَقَعْتُ بَیْنَ رِجْلَیْهَا، قَالَتْ: یَا عَبْدَ اللهِ! اتَّقِ اللهَ، وَلَا تَفْتَحِ الْخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ، فَقُمْتُ عَنْهَا، فَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذَلِکَ ابْتِغَائَ وَجْهِکَ فَافْرُجْ لَنَا مِنْهَا فُرْجَۃً، فَفَرَجَ لَهُمْ، وَقَالَ الْآخَرُ: اَللَّھُمَّ! إِنِّي کُنْتُ اسْتَأْجَرْتُ أَجِیرًا بِفَرَقِ أَرُزٍّ، فَلَمَّا قَضَی عَمَلَهُ قَالَ: أَعْطِنِي حَقِّي، فَعَرَضْتُ عَلَیْهِ فَرَقَهُ، فَرَغِبَ عَنْهُ، فَلَمْ أَزَلْ أَزْرَعُهُ حَتَّی جَمَعْتُ مِنْهُ بَقَرًا، وَرِعَائَ هَا، فَجَائَ نِي، فَقَالَ: اتَّقِ اللهَ، وَلَا تَظْلِمْنِي حَقِّي، قُلْتُ: اذْهَبْ إِلَی تِلْکَ الْبَقَرِ وَرِعَائِهَا، فَخُذْهَا، فَقَالَ: اتَّقِ اللهَ، وَلَا تَسْتَهْزِئْ بِي، فَقُلْتُ: إِنِّي لَا أَسْتَهْزِئُ بِکَ، خُذْ ذَلِکَ الْبَقَرَ وَرِعَائَهَا، فَأَخَذَهُ، فَذَهَبَ بِهِ، فَإِنْ کُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُ ذٰلِکَ ابْتِغَائَ وَجْهِکَ، فَافْرُجْ لَنَا مَا بَقِيَ، فَفَرَجَ اللهُ مَا بَقِیَ.
مسلم، الصحیح، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب قصۃ أصحاب الغار الثلاثۃ والتوسل بصالح الأعمال، 4: 2099، رقم: 2743
تین آدمی جا رہے تھے کہ ان کو بارش نے آ لیا تو انہوں نے پہاڑ کے ایک غار میں پناہ لی، اتنے میں غار کے منہ پر پہاڑ کی ایک چٹان آ گری اور یہ لوگ بند ہو گئے، پھر انہوں نے ایک دوسرے سے کہا: جو اللہ تعالیٰ کے لیے نیک اعمال کیے ہیں ان پر غور کرو اور ان اعمال کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے دعا کرو، شاید اللہ تعالیٰ تم سے یہ مصیبت دور کر دے۔ سو ان میں سے ایک نے دعا کی: اے اللہ! میرے بوڑھے ماں باپ تھے، میری بیوی تھی اور میرے چھوٹے چھوٹے بچے تھے، میں بکریاں چراتا تھا، جب میں واپس آتا تو دودھ دوہتا اور اپنے بچوں سے پہلے اپنے ماں باپ کو پلاتا، ایک دن درختوں نے مجھے دور پہنچا دیا، اور میں رات سے پہلے نہ لوٹ سکا۔ جب میں آیا تو ماں باپ سو چکے تھے۔ میں نے حسبِ معمول دودھ دوہیا اور ایک برتن میں دودھ ڈال کر ماں باپ کے سرہانے کھڑا ہو گیا۔ میں ان کو نیند سے بیدار کرنا ناپسند کرتا تھا اور ان سے پہلے بچوں کو دودھ پلانا بھی پسند نہیں تھا حالانکہ بچے میرے قدموں میں چیخ رہے تھے۔ فجر طلوع ہونے تک میرا اور میرے والدین کا یونہی معاملہ رہا۔ اے اللہ! یقینا تجھے علم ہے کہ میں نے یہ عمل تیری رضا کے لیے کیا تھا، تو ہمارے لیے کچھ کشادگی کر دے اور ہم اس غار سے آسمان کو دیکھ لیں۔ سو اللہ تعالیٰ نے کچھ کشادگی کر دی اور انہوں نے اس غار سے آسمان کو دیکھ لیا۔ پھر دوسرے آدمی نے دعا کی: اے اللہ! میری ایک عم زاد تھی جس سے میں بہت محبت کرتا تھا۔ جیسا کہ مردوں کو عورتوں سے لگائو ہوتا ہے، میں نے اس سے مقاربت کی درخواست کی، اس نے انکار کیا اور کہا: پہلے سو دینار لائو۔ میں نے بہت مشقت کر کے سو دینار جمع کیے۔ میں اس کے پاس وہ دینار لے کر گیا۔ جب میں اس کے ساتھ جنسی عمل کرنے کے لیے بیٹھا تو اس نے کہا: اے اللہ کے بندے! اللہ سے ڈر اور ناجائز طریقہ سے مہر نہ توڑ۔ سو میں اسی وقت اس سے الگ ہو گیا، اے اللہ! تجھے یقینا علم ہے کہ میں نے یہ فعل تیری رضا کے لیے کیا تھا۔ پس تو ہمارے لیے اس غار کو کچھ کھول دے تو اللہ تعالیٰ نے غار کو (مزید) کھول دیا۔ اور تیسرے شخص نے کہا: اے اللہ! میں نے ایک شخص کو ایک فرق (ایک پیمانہ آٹھ کلو گرام) چاولوں کی اجرت پر رکھا تھا، جب اس نے اپنا کام پورا کر لیا تو اس نے کہا مجھے میری اجرت دو۔ میں نے اس کو مقررہ اجرت دے دی۔ اس نے اس سے اعراض کیا۔ میں ان چاولوں کی کاشت کرتا رہا حتیٰ کہ میں نے اس (کی آمدنی) سے بیل اور چرواہے جمع کر لیے۔ پھر ایک دن وہ شخص میرے پاس آیا اور کہنے لگا، اللہ سے ڈرو اور میرا حق نہ مارو۔ میں نے کہا یہ بیل اور چرواہے لے جائو اور اپنا حق لے لو۔ اس نے کہا اللہ سے ڈرو اور میرے ساتھ مذاق نہ کرو۔ میں نے کہا میں تمہارے ساتھ مذاق نہیں کرتا۔ یہ بیل اور چرواہے لے لو۔ وہ ان کو لے کر چلا گیا۔ تجھ کو یقینا علم ہے کہ میں نے یہ کام تیری رضا جوئی کے لیے کیا تھا تو اب تو غار کا باقی ماندہ منہ بھی کھول دے۔ سو اللہ نے غار کا باقی ماندہ منہ بھی کھول دیا۔
کوئی بھی انسان گناہوں سے یکسر پاک نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو وہ بندہ بہت پسند ہے جو صدقِ دل سے اپنے گناہ پر ملامت و ندامت محسوس کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور معافی کا طلب گار رہے۔ تائبین کے ہزاروں واقعات ہمیں دعوت فکر و عمل دیتے ہیں۔ سچی توبہ مانگنے میں اگرچہ بظاہر چند زبانی الفاظ کا سہارا لیا جاتا ہے لیکن اس کے پیچھے انسان ندامت و شرمندگی کے پہاڑ اٹھائے ہوتا ہے۔ ندامت اور پشیمانی کا یہ وزن ہی اس کے کمال اخلاص کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ تاریخ انسانی میں ایسے توبہ کرنے والے ہو گزرے ہیں جو قبولِ توبہ کی خاطر اپنی زندگی اذیت اور کربناک لمحات کے سپرد کر کے جان سے گزر گئے۔ احادیث مبارکہ میں بیان کردہ متعدد واقعات میں سے ایک مرد صحابی اور ایک خاتون صحابیہ کے واقعات بیان کئے جاتے ہیں جنہوں نے کسی کے کہے بغیر خود اقبال جرم کیا اور خود کو پاک کرنے کے لئے اپنی جانیں جاں آفریں کے سپرد کر دیں اور تاریخ انسانی میں ایسی توبہ رقم کر دی جس پر حوصلہ اور بہادری خود انگشت بدنداں ہیں۔ حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أَنَّ امْرَأَۃً مِنْ جُهَیْنَۃَ أَتَتْ نَبِيَّ اللهِ ﷺ، وَهِيَ حُبْلَی مِنَ الزِّنَی، فَقَالَتْ: یَا نَبِيَّ اللهِ! أَصَبْتُ حَدًّا، فَأَقِمْهُ عَلَيَّ، فَدَعَا نَبِيُّ اللهِ ﷺ وَلِیَّهَا، فَقَالَ: أَحْسِنْ إِلَیْهَا، فَإِذَا وَضَعَتْ فَأْتِنِي بِهَا، فَفَعَلَ، فَأَمَرَ بِهَا نَبِيُّ اللهِ ﷺ، فَشُکَّتْ عَلَیْهَا ثِیَابُهَا، ثُمَّ أَمَرَ بِهَا، فَرُجِمَتْ، ثُمَّ صَلَّی عَلَیْهَا، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: تُصَلِّي عَلَیْهَا یَا نَبِيَّ اللهِ! وَقَدْ زَنَتْ، فَقَالَ: لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَۃً، لَوْ قُسِمَتْ بَیْنَ سَبْعِینَ مِنْ أَهْلِ الْمَدِینَۃِ لَوَسِعَتْهُمْ، وَهَلْ وَجَدْتَ تَوْبَۃً أَفْضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بِنَفْسِهَا ِللّٰهِ تَعَالٰی.
مسلم، الصحیح، کتاب الحدود، باب من اعترف علی نفسہ بالزني، 3: 1324، رقم: 1696
قبیلہ جہینہ کی ایک عورت رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئی درآں حالیکہ وہ زنا سے حاملہ تھی، اس نے عرض کیا: یا نبی اللہ! میں نے لائق حد جرم کیا ہے، آپ مجھ پر حد قائم کیجئے۔ نبی ﷺ نے اس کے سرپرست کو بلایا اور فرمایا: اس کی اچھی طرح نگہداشت کرنا اور جب اس کا حمل وضع ہوجائے تو اسے میرے پاس لے کر آنا۔ اس نے ایسا ہی کیا۔ پھر نبی ﷺ نے اس کے کپڑے کس کر باندھنے کا حکم دیا (تاکہ اس کی بے پردگی نہ ہو) پھر آپ کے حکم سے اس کو رجم کردیا گیا، پھر آپ نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی، حضرت عمر نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا رہے ہیں حالانکہ یہ زانیہ ہے! آپ نے فرمایا اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اس کو مدینہ کے ستر آدمیوں پر تقسیم کیا جائے تو انہیں کافی ہوگی۔ اور کیا تم نے اس سے افضل کوئی توبہ دیکھی ہے کہ اس (توبہ کرنے والے) نے اللہ کے لیے اپنی جان دے دی ہو!
حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ کی توبہ عظیم توبہ تھی۔ ان کی توبہ کے بارے میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر ان کی توبہ کو تمام امت پر تقسیم کر دیا جائے تو یہ سب کے لیے کافی ہو گی۔ حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے، آپ ﷺ نے فرمایا:
وَیْحَکَ، ارْجِعْ، فَاسْتَغْفِرِ اللهَ، وَتُبْ إِلَیْهِ، قَالَ: فَرَجَعَ غَیْرَ بَعِیْدٍ، ثُمَّ جَائَ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، طَهِرْنِي، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: وَیْحَکَ، ارْجِعْ، فَاسْتَغْفِرِ اللهَ، وَتُبْ إِلَیْهِ، قَالَ: فَرَجَعَ غَیْرَ بَعِیْدٍ، ثُمَّ جَائَ فَقَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، طَهِرْنِي، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: مِثْلَ ذَالِکَ، حَتّٰی إِذَا کَانَتِ الرَّابِعَۃُ قَالَ لَهٗ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: فِیْمَ أُطَهِرُکَ؟ فَقَالَ: مِنَ الزِّنٰی، فَسَأَلَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَبِهٖ جُنُوْنٌ؟ فَأُخْبِرَ أَنَّهٗ لَیْسَ بِمَجْنُوْنٍ، فَقَالَ: أَشَرِبَ خَمْرًا؟ فَقَامَ رَجُلٌ: فَاسْتَنْکَهَهٗ، فَلَمْ یَجِدْ مِنْهُ رِیْحَ خَمْرٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَزَنَیْتَ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَأَمَرَ بِهٖ، فَرُجِمَ، فَکَانَ النَّاسُ فِیْهِ فِرْقَتَیْنِ، قَائِلٌ یَقُوْلُ: لَقَدْ هَلَکَ لَقَدْ أَحَاطَتْ بِهٖ خَطِیْئَتُهٗ، وَقَائِلٌ یَقُوْلُ: مَا تَوْبَۃٌ أَفْضَلَ مِنْ تَوْبَۃِ مَاعِزٍ، أَنَّهٗ جَائَ إِلَی النَّبِيِّ ﷺ فَوَضَعَ یَدَهٗ فِي یَدِهٖ ثُمَّ قَالَ: اقْتُلْنِي بِالْحِجَارَۃِ، قَالَ: فَلَبِثُوْا بِذَالِکَ یَوْمَیْنِ أَوْ ثَـلَاثَۃً، ثُمَّ جَاءَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ، وَهُمْ جُلُوْسٌ، فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوْا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: فَقَالُوْا: غَفَرَ اللهُ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِکٍ، قَالَ: فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَقَدْ تَابَ تَوْبَۃً لَوْ قُسِمَتْ بَیْنَ أُمَّۃٍ لَوَسِعَتْهُمْ۔
تیرا ناس ہو، جاؤ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو، اور توبہ کرو۔ اُنہوں نے پھر تھوڑی دیر بعد آکر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے، آپ ﷺ نے پھر اُسی طرح فرمایا، اُنہوں نے پھر تھوڑی دیر بعد آکر عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے پاک کر دیجئے، آپ ﷺ نے پھر اُسی طرح فرمایا، حتیٰ کہ چوتھی بار اُن سے آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: میں تمہیں کس چیز سے پاک کروں؟ اُنہوں نے عرض کیا: زنا سے۔ آپ ﷺ نے(لوگوں سے) اُن کے متعلق پوچھا: اِس کا ذہنی توازن تو خراب نہیں؟ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کیا: نہیں، وہ کوئی پاگل نہیں ہے، آپ ﷺ نے پوچھا: کیا اِس نے شراب پی ہے؟ ایک شخص نے کھڑے ہو کر اُن کا منہ سونگھا تو شراب کی بدبو محسوس نہیں کی، حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے زنا کیا ہے؟ اُنہوں نے عرض کیا: ہاں، پھر آپ ﷺ نے اُنہیں رجم کرنے کا حکم دیا، اِس کے بعد حضرت ماعز رضی اللہ عنہ کے متعلق لوگوں کے دو گروہ بن گئے، بعض کہتے: ماعز ہلاک ہو گئے اور اِس گناہ نے اُنہیں گھیر لیا اور بعض لوگ کہتے: ماعز کی توبہ سے کسی کی توبہ افضل نہیں ہے کہ وہ حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے کر عرض کیا: مجھے پتھروں سے مار ڈالیے، حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ دو، تین دن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں یہی اختلاف رہا، پھر ایک دن حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے درآں حالیکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے، آپ ﷺ سلام کرنے کے بعد تشریف فرما ہوئے اور فرمایا: ماعز بن مالک کے لیے استغفار کرو، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ ماعز بن مالک کی مغفرت فرمائے، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: ماعز نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر اسے تمام اُمت پر تقسیم کر دیا جائے تو (بخشش کے لیے) سب کو کافی ہو گی۔
موسیٰ بن محمد بن سلیمان ہاشمی ایک نہایت ہی عیاش، تماش بین اور آخرت سے بے فکر اموی شہزادہ تھا۔ سالانہ اربوں کی آمدنی کو غلاموں، لونڈیوں، کھیل تماشوں اور بدکرداریوں کی نذر کر دیتا۔ ایک روز شراب کے نشے میں دُھت حسبِ معمول کنیزوں اور لونڈیوں کے ہمراہ گانے بجانے میں مصروف تھا۔ اسی لہو و لعب کے دوران کہیں دور سے ایک دردناک اور دل گداز آواز نے اسے بے چین کر دیا۔ طبیعت میں تغیر آ گیا۔ کہنے لگا: سب گانے بند کرو اور سنو یہ آواز کہاں سے آرہی ہے۔ اس کے پڑھنے والے کو میرے پاس لے آؤ۔ وہاں قریب ایک مسجد تھی جہاں خشیتِ الٰہی میں سوختہ ایک لاغر و ناتواں نوجوان مولیٰ کی یاد میں تڑپ تڑپ کر عجیب کیف و سرور میں اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور اپنی مناجات پیش کر رہا تھا۔ غلاموں نے اسے شہزادے کے سامنے پیش کر دیا۔ شہزادے نے کہا: مجھے بھی وہ لاہوتی نغمات سناؤ جو تم ابھی پڑھ رہے تھے اور جنہوں نے میرے من میں آگ سی لگا دی ہے۔ جوان نے کلام الٰہی پڑھنا شروع کیا:
إِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍo عَلَی الْاَرَآئِکِ یَنْظُرُوْنَo تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْھِهِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْمِo یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍo خِتٰمُهٗ مِسْکٌ ط وَفِیْ ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَo وَمِزَاجُهٗ مِنْ تَسْنِیْمٍo عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا الْمُقَرَّبُوْنَo
المطففین، 83: 22-28
بے شک نیکوکار (راحت و مسرت سے) نعمتوں والی جنت میں ہوں گے۔ تختوں پر بیٹھے نظارے کر رہے ہوں گے۔ آپ ان کے چہروں سے ہی نعمت و راحت کی رونق اور شگفتگی معلوم کر لیں گے۔ انہیں سر بہ مہر بڑی لذیذ شرابِ طہور پلائی جائے گی۔ اس کی مُہر کستوری کی ہو گی، اور (یہی وہ شراب ہے) جس کے حصول میں شائقین کو جلد کوشش کر کے سبقت لینی چاہیے (کوئی شرابِ نعمت کا طالب و شائق ہے، کوئی شرابِ قربت کا اور کوئی شرابِ دیدار کا، ہر کسی کو اس کے شوق کے مطابق پلائی جائے گی)۔ اور اس (شراب) میں آبِ تسنیم کی آمیزش ہو گی۔ (یہ تسنیم) ایک چشمہ ہے جہاں سے صرف اہلِ قربت پیتے ہیں۔
ان آیاتِ مقدسہ نے شہزادے کو بے تاب کر دیا اور اس جوان سے لپٹ گیا۔ صحن میں بوریا بچھا کر جوان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ وہ اس جوان سے اللہ کے وعدے، آخرت کی نعمتیں، حسن مطلق کے دیدار کی باتیں بزبان آیاتِ قرآنی سنتا جاتا اور تڑپ تڑپ اٹھتا تھا۔ پھر وہ یوں تائب ہوا کہ سب کچھ راہ خدا میں لٹا دیا۔ غلاموں، کنیزوں، لونڈیوں کو آزاد کر دیا اور خود نوجوان کے ہمراہ ٹاٹ کا لباس پہن کر ننگے پاؤں مکہ معظمہ کی جانب روانہ ہو گیا۔ حج کیا اور وہیں مقیم ہوگیا، پھر قربِ حق کی منزلوں کا ایسا مسافر ہوا کہ اس کی طلب میں دورانِ طواف جان حق تعالیٰ کے حضور پیش کر دی۔
اس کے آخری الفاظ یہ تھے:
اے میرے مالک! تیری خبر نہ تھی۔ بے خبری میں ہر نافرمانی کا مرتکب ہوتا رہا۔ اے بلندی والے رب! میرا حال برا ہے۔ میں تیرا غلام ہوں۔ مجھے بتا تجھے چھوڑ کر کدھر جاؤں! غلام برا یا اچھا پلٹ کر آخر اپنے مالک ہی کے پاس آتا ہے۔ میری مغفرت فرما دے۔ اس کے سوا میری کوئی خواہش نہیں۔ چیختا تڑپتا اسی عرض گزاشت کے ساتھ رب العزت کے حضور پیش ہوگیا۔
ابن قدامہ، التوابین: 186
حضرت یحییٰ ابھی چار برس کے تھے کہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گریہ و زاری اور طلب مغفرت ان کے معمولات میں شامل ہو گیا تھا۔ ان کے والد گرامی اللہ کے نبی حضرت زکریا علیہ السلام جب بھی مجلس میں عذاب اور حساب کتاب کی بات کرتے تو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی آنکھوں میں آنسوؤں کی برسات لگ جاتی اور کئی کئی دن کھانا پینا چھوڑ دیتے۔ چنانچہ حضرت زکریا علیہ السلام نے ان کی کثرتِ آہ و بکا اور گریہ و زاری کے پیش نظر ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کے خوف اور خشیت کی باتیں کرنا ترک کر دیں۔ مجلس میں جب حضرت یحییٰ علیہ السلام بیٹھے ہوتے تو رحمت، بخشش اور جنت کی باتیں کرتے جب کہ ان کا دل تو آہ و بکا اور گریہ زاری چاہتا تھا۔ چنانچہ ایک دن وہ ایک ستون کی اوٹ میں چھپ کر خطاب سننے لگے۔ حضرت زکریا علیہ السلام انہیں مجلس میں نہ دیکھ سکے توانہوں نے خشیت اور خوفِ الٰہی کے بارے میں بیان شروع کیا۔ جیسے ہی بیان شروع کیا تو حضرت یحییٰ علیہ السلام کی چیخ نکل گئی۔ زار و قطار رونے لگے حتیٰ کہ بے ہوش ہوکر زمین پر گرپڑے۔
حضرت زکریا علیہ السلام انہیں اٹھا کر گھر لے آئے۔ حضرت یحییٰ علیہ السلام کا کھانا پینا چھوٹ گیا اور روتے روتے اسی حالت میں گھر سے باہر نکل گئے اور پہاڑوں میں جا پہنچے۔ تین دن اور تین راتیں سجدوں اور آہ و بکا میں گزر گئیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور گریہ و زاری اور معافی طلب کرتے رہے۔ والدین تلاش کرتے کرتے بالآخر انہی پہاڑوں کی طرف آ پہنچے۔ وہاں ایک چرواہے کو بکریاں چراتے پایا۔ اس سے پوچھا کہ اس عمر کا معصوم سا خوبصورت بچہ تم نے کہیں دیکھا ہے؟ اس نے کہا: میں نے بچہ تو کوئی نہیں دیکھا البتہ اتنی بات ضرور ہے کہ آج تیسرا دن ہے۔ اس غار سے کسی بچے کے دھاڑیں مار مار کر رونے کی آوازیں آ رہی ہیں۔ اس کے گریہ و بکا میں کچھ ایسا سوز ہے کہ تب سے میری بکریوں نے بھی کھانا پینا چھوڑ رکھا ہے اور وہ مسلسل اس غار کے دہانے پر کھڑی ہیں اور ان کی آنکھوں سے بھی آنسو جاری ہیں۔
حضرت زکریا علیہ السلام نے سنا تو فرمانے لگے: یہ تو میرا لخت جگر یحییٰ ہی ہو سکتا ہے۔ غار کے اندر پہنچے تو قدموں کی آہٹ حضرت یحییٰ علیہ السلام کے کانوں میں پڑی۔ آپ آنکھ بند کئے ہوئے سجدہ میں تھے۔ وہ سمجھے کہ ملک الموت روح قبص کرنے آن پہنچا ہے۔ سجدہ سے سر اٹھایا اور بولے: اے ملک الموت! تھوڑی مہلت دے دو تاکہ میں گھر جا کر اپنے والدین سے معافی مانگ لوں۔
آپ کے والد فرمانے لگے: اے میرے بیٹے! ہم تیرے والدین تجھے لینے آئے ہیں۔ حضرت یحییٰ رو رو کر نڈھال ہوچکے تھے۔ والدہ ماجدہ نے فرمایا: بیٹے! اتنا نہ رویا کر، تو تو معصوم ہے، تجھے رونے کی کیا ضرورت ہے۔ آپ علیہ السلام نے عرض کیا: امی جان! کیا آپ اس بات کی ضمانت دیتی ہیں کہ قیامت کے دن میرا رب مجھ سے پوچھ گچھ نہیں کرے گا۔ والدہ صاحبہ فرمانے لگیں: بیٹے! یہ ضمانت تو میں نہیں دے سکتی۔ عرض کیا: امی جان پھر آپ رونے سے منع نہ فرمائیں۔
والدین پیار کر کے گھر لے آئے۔ کھانا وغیرہ کھلایا، نہلایا تو حضرت یحییٰ علیہ السلام کو نیند آگئی۔ ابھی آنکھ لگی ہی تھی کہ آواز آئی: یحییٰ اب ہمیں بھول گیا! آخرت بھی یاد نہ رہی! اب آرام کی نیند سوگیا! یہ سن کر آنکھ کھل گئی۔ بستر سے اتر آئے اور اللہ کے ہجر کی یاد میں جنگلوں کی طرف چلے گئے۔
فرید الدین مسعود گنج شکر، اسرار الاولیاء: 167
حضرت ابراہیم بن ادہم کے خادم ابراہیم بن بشار بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت ابراہیم بن ادھم کی خدمت میں عرض کیا:
یَا أَبَا إِسْحَاقَ، کَیْفَ کَانَ أَوَائِلُ أَمْرِکَ حَتّٰی صِرْتَ إِلٰی مَا صِرْتَ إِلَیْهِ، قَالَ: غَیْرُ ذَا أَوْلٰی بِکَ، فَقُلْتُ لَهٗ: هُوَ کَمَا تَقُوْلُ، رَحِمَکَ اللهُ، وَلٰـکِنْ أَخْبِرْنِي، لَعَلَّ اللهَ أَنْ یَنْفَعَنَا بِهٖ یَوْمًا، فَسَأَلْتُهُ الثَّانِیَۃَ فَقَالَ: وَیْحَکَ! اشْتَغِلْ بِاللهِ، فَسَأَلْتُهُ الثَّالِثَۃَ فَقُلْتُ: یَا أَبَا إِسْحَاقَ، إِنْ رَأَیْتَ.
قَالَ: کَانَ أَبِي مِنْ أَهْلِ بَلْخٍ، وَکَانَ مِنْ مُلُوْکِ خُرَاسَانَ، وَکَانَ مِنَ الْمَیَاسِرِ، وَحُبِّبَ إِلَیْنَا الصَّیْدُ، فَخَرَجْتُ رَاکِبًا فَرَسِي، وَکَلْبِي مَعِي، فَبَیْنَمَا أَنَا کَذٰلِکَ فَثَارَ أَرْنَبٌ أَوْ ثَعْلَبٌ، فَحَرَّکْتُ فَرَسِي، فَسَمِعْتُ نِدَائً مِنْ وَرَائِي: لَیْسَ لِذَا خُلِقْتَ، وَلَا بِذَا أُمِرْتَ، فَوَقَفْتُ أَنْظُرُ یَمْنَۃً وَیَسْرَۃً فَلَمْ أَرَ أَحَدًا، فَقُلْتُ: لَعَنَ اللهُ إِبْلِیْسَ، ثُمَّ حَرَّکْتُ فَرَسِي، فَأَسْمَعُ نِدَائً أَجْهَرَ مِنْ ذٰلِکَ: یَا إِبْرَاهِیمُ، لَیْسَ لِذَا خُلِقْتَ، وَلَا بِذَا أُمِرْتَ۔ فَوَقَفْتُ أَنْظُرُ یَمْنَۃً وَیَسْرَۃً فَـلَا أَرٰی أَحَدًا، فَقُلْتُ: لَعَنَ اللهُ إِبْلِیْسَ، ثُمَّ حَرَّکْتُ فَرَسِي، فَأَسْمَعُ نِدَائً مِنْ قُرْبُوْسِ سَرْجِي: یَا إِبْرَاهِیمُ، مَا لِذَا خُلِقْتَ، وَلَا بِذَا أُمِرْتَ۔ فَوَقَفْتُ فَقُلْتُ: أَنَبْتُ، أَنَبْتُ، جَائَ نِي نَذِیْرٌ مِنْ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ وَاللهِ، لَا عَصَیْتُ اللهَ بَعْدَ یَوْمِي ذَا مَا عَصَمَنِي رَبِّي، فَرَجَعْتُ إِلٰی أَهْلِي فَخَلَّیْتُ عَنْ فَرَسِي، ثُمَّ جِئْتُ إِلٰی رُعَاۃٍ لِأَبِي فَأَخَذْتُ مِنْهُمْ جُبَّۃً، وَکِسَائً، وَأَلْقَیْتُ ثِیَابِي إِلَیْهِ ثُمَّ أَقْبَلْتُ إِلَی الْعِرَاقِ.
اے ابو اسحاق! آپ کے اِبتدائی اَحوال کیسے تھے کہ اب آپ (سلوک و معرفت کی دنیا میں) ایسے (اَعلیٰ مقام پر فائز) ہو گئے؟ آپ نے فرمایا: بہتر ہے کہ اس کے علاوہ کوئی اور بات کر لو، میں نے کہا: بات تو آپ ٹھیک فرما رہے ہیں اللہ آپ پر رحمت فرمائے، لیکن آپ مجھے بتائیں، شاید اللہ تعالیٰ ہمیں کسی دن اس بات سے نفع بخشے، میں نے دوبارہ ان سے یہی سوال کیا تو انہوں نے کہا: افسوس ہے تجھ پر! اللہ (کی ذات) میں مشغول ہو جا، پھر میں نے تیسری بار ان سے پوچھا، اور میں نے کہا: اے ابو اسحاق! اگر آپ مناسب سمجھیں تو (بیان کر دیں)۔
انہوں نے فرمایا: میرے والد اہل بلخ میں سے تھے اور وہ خراسان کے بادشاہوں اور خوش حال (حکمرانوں) میں سے تھے۔ ہمیں شکار بہت پسند تھا۔ ایک دِن میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر (شکار کے لیے) نکلا، میرا کتا بھی میرے ساتھ تھا۔ اسی دوران میں ایک خرگوش یا لومڑ (جھاڑی سے) نکل کر بھاگا، میں نے (اس شکار کو پکڑنے کے لیے) گھوڑے کو ایڑ لگائی تو اپنے پیچھے سے ایک آواز سنی: تجھے اس کام کے لیے پیدا کیا گیا ہے نہ تجھے اس کا حکم دیا گیا ہے۔ میں نے رک کر دائیں بائیں دیکھا لیکن کسی کو نہ پایا۔ میں نے کہا: اللہ تعالیٰ ابلیس پر لعنت بھیجے (یعنی یہ آواز شاید اس کی طرف سے تھی)۔ میں نے دوبارہ گھوڑے کو ایڑ لگائی، لیکن پہلے سے بھی زیادہ بلند آواز سنی: اے ابراہیم! تجھے اس کام کے لیے نہیں پیدا کیا گیا، اور نہ ہی اس کام کا حکم دیا گیا ہے۔ میں پھر رک کر دائیں بائیں دیکھنے لگا لیکن مجھے کوئی نظر نہ آیا۔ میں نے پھر کہا: اللہ تعالیٰ ابلیس پر لعنت کرے، پھر میں نے گھوڑے کو ایڑ لگائی، تو میں نے اپنے گھوڑے کی زین کے ابھرے ہوئے حصے سے آواز سنی: اے ابراہیم! تجھے اس کام کے لیے نہیں پیدا کیا گیا، اور نہ ہی اس کام کا حکم دیا گیا ہے۔ اب میں رک گیا اور میں نے کہا: (اے اللہ!) میں تیری طرف پلٹ آیا، میں تیری طرف پلٹ آیا، میرے پاس رب العالمین کی طرف سے ڈرانے والا آ گیا؛ اللہ کی قسم! میں آج کے بعد اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کروں گا۔ پس میں اپنے گھر واپس آیا، اور اپنے گھوڑے سے الگ ہوگیا (یعنی تعیشات اور شکار چھوڑ دیا)۔ پھر میں اپنے والد کے چرواہوں کے پاس آگیا۔ ان سے ایک جبہ اور ایک چادر لے لی اور اپنا لباسِ فاخرہ اتار کر اسے دے دیا۔ اس کے بعد میں نے (صلحاء و عرفاء اور صوفیہ کی صحبت سے مستفید ہونے اور فیوضات سمیٹنے کے لیے) عراق کا رُخ کر لیا۔
’اسرار الاولیاء‘ میں حضرت فرید الدین مسعود گنج شکر سے منقول ہے کہ ایک نوجوان شراب میں مست و مدہوش گلی سے گزر رہا تھا۔ اچانک اس نے دیکھا کہ سامنے سے حضرت ابراہیم بن ادھم تشریف لا رہے ہیں۔ وہ بڑا پشیمان ہو گیا۔ جب واپسی کی کوئی سبیل نظر نہ آئی تو جلدی سے جیب سے ٹوپی نکال کر سر پر رکھی اور سلام کے لئے آگے بڑھا۔ دست بوسی کی اور قدموں میں گرپڑا۔ حضرت ابراہیم بن ادھم نے اسے شرمندہ نہیں ہونے دیا بلکہ اخلاقِ حسنہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے شفقت فرمائی۔ نوجوان نے خیال کیا کہ خدا کا شکر ہے کہ انہیں اس کی شراب نوشی کا علم نہیں ہوا۔
اسی رات خواب میں نوجوان نے دیکھا کہ بہشت جاوداں کی روشوں پر سیر کر رہا ہے۔ بڑا حیران ہے کہ میں تو بڑا گناہ گار خطاکار لائق جہنم ہوں۔ یہ کیا راز ہے! تو ہاتف غیبی سے آواز آئی کہ کل حضرت ابراہیم بن ادھم سے ملنے سے قبل تو ایسا ہی تھا جیسے تو سوچ رہا ہے لیکن کل تم نے ہمارے دوست کے ہاتھ کو چومنے کی سعادت حاصل کر لی تھی۔ ان کی عزت بجالانے اور دست بوسی کے طفیل تجھے بخش دیا۔ بظاہر تو اس کا یہ عمل دراصل خود کو چھپانے کی غرض سے تھا لیکن شرمندگی اور ادب میں اخلاص کے آجانے کے باعث معافی کا سزاوار ٹھہرا۔
فرید الدین مسعود گنج شکر، اسرار الاولیاء: 209
حضرت علی بن خشرم بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت فضیل بن عیاض کے پڑوسیوں میں سے کسی شخص نے بتایا:
کَانَ الْفُضَیْلُ یَقْطَعُ الطَّرِیْقَ وَحْدَهٗ فَخَرَجَ ذَاتَ لَیْلَۃٍ لِیَقْطَعَ الطَّرِیْقَ فَإِذَا هُوَ بِقَافِلَۃٍ قَدِ انْتَهَتْ إِلَیْهِ لَیْلًا فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: اعْدِلُوْا بِنَا إِلٰی هٰذِهِ الْقَرْیَۃِ فَإِنَّ أَمَامَنَا رَجُلًا یَقْطَعُ الطَّرِیْقَ یُقَالُ لَهُ الْفُضَیْلُ قَالَ: فَسَمِعَ الْفُضَیْلُ فَأَرْعَدَ فَقَالَ: یَا قَوْمُ، أَنَا الْفُضَیْلُ جَوِّزُوْا، وَاللهِ، لَأَجْتَهِدَنَّ أَنْ لَا أَعْصِيَ اللهَ أَبَدًا فَرَجَعَ عَمَّا کَانَ عَلَیْهِ.
وَرُوِيَ مِنْ طَرِیْقٍ أُخْرٰی أَنَّهٗ أَضَافَهُمْ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ وَقَالَ: أَنْتُمْ آمِنُوْنَ مِنَ الْفُضَیْلِ وَخَرَجَ یَرْتَادُ لَهُمْ عَلَفًا ثُمَّ رَجَعَ فَسَمِعَ قَارِئًا یَقْرَأُ {اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِکْرِ اللهِ (الحدید، 57: 16)}، قَالَ: بَلٰی، وَاللهِ، قَدْ آنَ فَکَانَ هٰذَا مُبْتَدَأَ تَوْبَتِهٖ.
فضیل بن عیاض تنہا ڈاکہ زنی کرتے تھے۔ ایک رات وہ ڈاکہ ڈالنے کی غرض سے نکلے، اچانک خود کو ایک قافلے کے پاس پایا جو رات کے وقت ہی آپ تک پہنچا تھا۔ ان میں سے کسی نے دوسرے سے کہا: (راستے سے) ہٹ کر اس گاؤں کی طرف چلیں، کیونکہ اس راستے میں فُضیل نامی معروف ڈاکو رہتا ہے۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ فضیل یہ بات سن کر کانپ اٹھے، اور کہا: اے لوگو! میں ہی فضیل ہوں، تم گزر جاؤ، اور بخدا میں آج کے بعد کوشش کروں گا کہ کبھی بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہ کروں۔ انہوں نے اپنے اس کام (ڈاکہ زنی) سے توبہ کرلی۔
ایک اور طریق سے مروی ہے کہ آپ نے اس رات ان کی مہمان نوازی کی اور کہا: تمہیں فضیل سے کوئی خطرہ نہیں، پھر آپ ان کے لیے کھانے پینے کا انتظام کرنے کے لیے باہر نکلے تو وہاں قاری کو یہ تلاوت کرتے ہوئے سنا {اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِکْرِ اللهِ} ’کیا ایمان والوں کے لیے (ابھی) وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کی یاد کے لیے رِقّت کے ساتھ جھک جائیں‘۔ آپ نے کہا: کیوں نہیں، خدا کی قسم! وہ وقت آچکا ہے۔ پس یہ (واقعہ) آپ کی توبہ کی ابتداء تھی۔
حضرت شیخ فرید الدین عطار ’تذکرۃ الاولیائ‘ میں لکھتے ہیں کہ حضرت عثمان الخیری اپنے دور کے مرد کامل ہو گزرے ہیں۔ ایک بار ایک شرابی نشے میں دھت ساز بجاتا برہنہ پا جا رہا تھا۔ جب اس نے آپ کو سامنے آتے دیکھا تو اپنا ساز بغل میں چھپا لیا ٹوپی سر پر لی اور چادر جلدی سے جسم پر اوڑھ لی۔ آپ اسے اپنے ہمراہ لے آئے، غسل کروایا، اپنا خرقہ پہناتے ہوئے دعا کی کہ اے اللہ! اپنا اختیاری کام تو میں سر انجام دے چکا ہوں اب کام کا انجام تیرے اختیار میں ہے۔ اس دعا کے ساتھ ہی اس میں عشق الٰہی کا ایسا کمال پیدا ہو گیا کہ آپ خود متحیر رہ گئے۔ اچانک اس وقت وہاں حضرت ابو عثمان مغربی تشریف لائے۔ دیکھا تو فرمایا کہ اس تائب کو دیکھ کر میں رشک کی آگ میں سلگ رہا ہوں کہ جس کمال کے حصول میں میری عمر ختم ہو گئی وہ کمال بلا طلب ایک ایسے شخص کو عطا کردیا گیا جس کے منہ سے ابھی شراب کی بو بھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی۔
فرید الدین عطار، تذکرہ الاولیاء: 261
اس سے اندازہ ہوا کہ فضل خداوندی کا انحصار محض عمل پر نہیں بلکہ قلبی کیفیات سے متعلق ہے اور اس کا در ہر خاص و عام اور نیکوکار، گنہ گار کے لئے کھلا ہے۔
اولیائے کرام کے حالات پر لکھی جانے والی کتاب ’سیر العارفین‘ میں حضرت سید جلال الدین بخاری المعروف مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے احوال میں منقول ہے کہ سلطان فیروز شاہ کا وزیر خان جہاں تلنگی صوفیہ سے بڑا حسد رکھتا تھا۔ وہ ان کا سخت مخالف تھا اور بہت برا بھلا کہتا تھا۔ ایک مرتبہ وہ اپنے غریب محرر کے لڑکے سے کسی بات پر ناراض ہوگیا تو اسے جیل میں قید کر دیا اور اس پر ظلم کرتا رہا۔ غریب محرر کا ایک ہی بیٹا تھا۔ اسے اس کی زندگی جانے کا خوف لاحق ہو گیا۔ اپنی ساری خدمت کا واسطہ دے کر رہائی دلانے کی درخواست دی لیکن اس کا جور و ستم دن بدن بڑھتا گیا۔ اس نے جس قدر بس چل سکتا تھا دوڑ دھوپ کی لیکن کوئی نتیجہ برآمدنہ ہوا۔ جب آزادی کی کوئی صورت نظر نہ آئی اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ظالم حاکم حضرت مخدوم کا سخت ترین مخالف ہے، وہ محرر حضرت جہانیاں جہاں گشت کی خدمت اقدس میں مدد کے لیے حاضر ہوا۔ آپ نے کمال شفقت فرماتے ہوئے ذرا بھی تامل نہیں کیا۔ اس کو ساتھ لے کر خان جہاں تلنگیکے دروازہ پر پہنچ گئے۔ جب یہ خبر خان تلنگی کو ملی تو اس نے ملازم سے کہلا بھیجا کہ ’میں تمہاری سفارش ہرگز قبول نہیں کروں گا اور نہ تمہارا منہ دیکھنا پسند کروں گا۔ دوبارہ میرے دروازے پر نہ آنا‘۔ آپ واپس آگئے۔ اگلی صبح بوڑھا باپ پھر حضرت مخدوم کے پاس پہنچ گیا۔ آپ کوئی شرمندگی یا ذلت کا احساس کئے بغیر اس کی خاطر پھر خان جہاں تلنگی کے پاس گئے۔ ادھر سے پھر وہی جواب ملا۔ اگرچہ بوڑھے محرر کے سامنے یہ سب کچھ ہو رہا تھا لیکن غرض مند دیوانہ ہوتا ہے۔ وہ ہر صبح آپ کے گھر پہنچ جاتا اور آپ بھی کمال شفقت اور نفع رسانی کے خیال سے اس کو لے کر خان جہاں کے پاس جاتے رہے اور ایک ہی جواب وہاں سے روزانہ ملتا رہا۔ غرضیکہ آپ انیس مرتبہ اس کے پاس گئے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ جب بیسویں بار گئے تو اندر سے خان جہاں نے کہلا بھیجا کہ سید! تم کو غیرت نہیں کہ ہر انکار کے بعد سفارش کرنے آ جاتے ہو۔ میں تم سے ملنا یا تمہیں دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا اور تم مجھ سے سفارش کرنے کے لئے چلے آتے ہو۔ اس پر حضرت جہاں گشت نے جواب بھجوایا: اے عزیز! میں جتنی مرتبہ یہاں آیا ہوں میرے لئے تو اس کا اجر متحقق ہو جاتا ہے لیکن مظلوم کا مقصد پورا نہیں ہوتا۔ چاہتا ہوں کہ اس مظلوم کو تمہارے ہاتھ سے رہائی دلواؤں تاکہ تمہیں اس کا اجر پہنچاؤں۔ اجر کے مواقع بار بار نہیں ملتے۔ پھر انساں سوائے افسوس کے کچھ نہیں کر پاتا۔ نہ جانے آپ کے پیغام میں کیا تاثیر تھی کہ جوں ہی خان جہاں نے یہ بات سنی تو اس نے اپنا سر ننگا کیا۔ گلے میں ایک رسی باندھی اور باہر آکر حضرت کے قدموں میں گر پڑا اور مرید ہو گیا، مظلوم کو رہا کیا اور ساتھ انعام و کرام اور گھوڑا بھی دیا۔
نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ارادت ہو تو دیکھ ان کو
یدِ بیضا لئے پھرتے ہیں اپنی آستینوں میں
حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی نے ’فوائد السالکین‘ میں اور حضرت فرید الدین مسعود گنج شکر نے ’اسرار الاولیائ‘ میں نقل کیا ہے کہ ایک عبادت گزار جوان کی اللہ کے حضور عاجزی کا یہ عالم تھا کہ گلیوں میں چلتے پھرتے، کام کاج کرتے روتا رہتا۔ دن کو روزہ رکھتا اور عبادت کرتا۔ جب رات ہو جاتی تو اپنے کمرے کی چھت کے ساتھ لٹکے ہوئے رسے کو اپنے گلے میں ڈال لیتا اور عرض کرتا:
مولیٰ اب تیرا مجرم تیری بارگاہ میں حاضر ہے جو سلوک کرنا ہے، یہیں کر لے۔ آخرت میں جواب طلبی نہ کرنا۔
اسی طرح وہ جوان ساری رات اللہ کے حضور سجدہ ریز رہتا اور روتا رہتا۔ خواجہ قطب الدین بختیار کاکی فرماتے ہیں کہ یہ جوان پوری زندگی اسی معمول پر کاربند رہا۔ ہجر و فراق نے اسے کمزور کردیا تھا اور جوانی میں ہی اس پر بڑھاپا نمودار ہوگیا۔ جب موت کا وقت قریب آگیا تو اس نے اپنی والدہ صاحبہ کو بلایا اور کہنے لگا:
امی جان! میں آپ سے تین درخواستیں کرتا ہوں، وعدہ کیجئے آپ انہیں پورا کریں گی۔ والدہ نے حامی بھرلی تو بیٹے نے عرض کیا کہ امی جان! میں بڑا گناہگار اور اللہ کا مجرم ہوں کیوں کہ میں زندگی کو احکاماتِ الٰہی کے مطابق بسر نہیں کرسکا اور اس کی بندگی کا حق ادا نہیں کرسکا۔ اس لئے:
1۔ جب میری روح پرواز کرجائے تو میرے گلے میں رسی ڈال کر گھر کے چاروں کونوں میں میری لاش کو گھسیٹنا اور ساتھ کہتے جانا: جو اللہ کا نافرمان ہو اس کا یہی حال ہوتا ہے۔
2۔ میرا جنازہ رات کے اندھیرے میں اٹھانا تاکہ میری میت کو دیکھ کر کہیں کوئی یہ نہ کہہ دے کہ دیکھو خدا کا نافرمان جا رہا ہے۔
3۔ جب لوگ مجھے دفن کر کے پلٹ جائیں تو آپ میری قبر کے پاس رک جانا کیوں کہ جب فرشتے عذاب دینے کے لئے آئیں تو شاید ماں کے قدموں کی برکت سے وہ عذاب نہ دیں۔
اتنی بات ہوئی تھی کہ اس جوان کی روح پرواز کرگئی۔ ماں نے بیٹے سے کیے گئے عہد کے مطابق بہ امر مجبوری اس کے گلے میں رسی ڈالی کہ اسے گھسیٹنے لگی تو ہاتف غیبی سے آواز آئی: اے خاتون! اس جوان کو چھوڑ دے۔ تمہیں کیا معلوم، یہ تو خدا کا محبوب بندہ ہے۔ ایک دوست اپنے دوست کے پاس پہنچ چکا ہے۔ کیا دوستوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے!
فرید الدین مسعود گنج شکر، اسرار الاولیاء: 169
توبہ کی توفیق اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر ممکن نہیں لیکن اس توفیق کے حصول کے لئے بندے کا عزم مصمم بنیادی شرط ہے۔ تاہم اللہ کے ولی کی دعا سے بندے کا ارادے پر پختہ ہونا بڑا آسان ہو جاتا ہے۔ اس لئے صالحین کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مقبول بندوں کی زیارت کو مسلسل جاتے اور ان کی دعاؤں سے مستفیض ہوتے۔ حضرت امام ابو القاسم قشیری فرماتے ہیں کہ ایک امیر شخص شراب کا بڑا رسیا تھا۔ ایک دن ہم مشرب جمع تھے۔ اس نے اپنے غلام لڑکے کو چار درہم دے کر بازار سے پھل خرید کر لانے کو کہا۔ غلام لڑکا جا رہا تھا کہ راستے میں حضرت منصور بن عمار کی محفل برپا تھی۔ آپ ایک محتاج کے لئے چار درہم کا سوال کر رہے تھے کہ جو کوئی یہ ایثار کرے گا میں اس کے لئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں چار دعائیں کروں گا۔ حضرت منصور بن عمار اپنے وقت کے کامل ولی تھے۔ اس غلام لڑکے کے دل میں اچانک یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ چار درہم جو پھل خریدنے کے لئے مالک نے دیے ہیں انہیں حضرت کی خدمت میں پیش کر دوں، چنانچہ اس نے چار درہم پیش کردیے۔ حضرت منصور بن عمار نے فرمایا: کون سی چار دعائیں چاہتے ہو۔ غلام نے کہا:
1۔ مجھے میرے آقا سے نجات مل جائے۔
2۔ اللہ تعالیٰ ان درہموں کے عوض مجھے اور درہم عطا فرمائے۔
3۔ اللہ تعالیٰ میرے مالک کی توبہ قبول فرمائے۔
4۔ اللہ تعالیٰ مجھے، میرے آقا، آپ کو اور یہاں جو لوگ محفل میں موجود ہیں سب کو معاف فرمائے۔
آپ نے چار دعائیں کر دیں:
جب لڑکا خالی ہاتھ آیا تو مالک بڑا حیران ہوا کہ اس نے پہلے کبھی ایسی حکم عدولی نہیں کی۔ مالک نے پوچھا: کیا بات ہوئی؟ لڑکے نے سارا واقعہ کہہ سنایا۔ مالک نے سنا اور کہا:
1۔ جا تجھے آزاد کیا۔
2۔ زندگی بسر کرنے کے لئے چار ہزار درہم دے دیے۔
3۔ خود اللہ کے حضور اسی وقت تائب ہوگیا۔
4۔ چوتھی دعا کے بارے میں کہا یہ میرے بس کی بات نہیں۔
رات خواب میں اس مالک نے دیکھا کہ کوئی کہہ رہا ہے کہ جو کچھ تمہارے اختیار میں تھا تو نے کر دیا۔ تیرا کیا خیال ہے کہ جو کچھ میرے اختیار میں ہے، نہیں کروں گا، جاؤ میں نے تجھے، ترے غلام، منصور بن عمار اور وہاں پر موجود سب کو معاف کر دیا۔
حضرت معروف کرخی اپنے احباب کے ہمراہ ایک سفر میں تھے۔ دورانِ سفر کشتی میں جوانوں کا گروہ رقص و سرور اور مے نوشی میں مصروف ہوگیا اور اس سلسلے میں انہوں نے کوئی شرم و حیا بھی محسوس نہیں کی۔ سب مسافر ان کی اس غل غپاڑ سے سخت پریشان ہو رہے تھے۔ آپ کے احباب نے درخواست کی کہ آپ ان کے لئے بددعا کریں۔ آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی: اے اللہ! جس طرح تو نے انہیں یہاں خوش و خرم کر رکھا ہے اگلے جہان میں اس سے بہتر عیش عطا فرما۔ احباب یہ سن کر حیرت زدہ رہ گئے جب کہ وہ تمام لوگ جو معروف مے نوش تھے انہوں نے شراب و رباب پھینک کر آپ کے دستِ اقدس پر آئندہ برے اعمال و افعال سے توبہ کی اور اپنے وقت کے صلحاء میں ان کا شمار ہوا۔
آپ نے فرمایا: جو شیرینی سے مرسکتا ہو اس کو زہر دینے سے کیا حاصل اور جب آپ نے ان کی آئندہ زندگی میں اس سے بہتر عیش و آرام کی دعا کی تو یہ دراصل ان کے حق میں اللہ کے حضور تائب ہو جانے کی دعا تھی کیونکہ اگلے جہان میں عیش اس دنیا میں توبہ اور نیک اعمال سے مشروط ہے۔
فرید الدین عطار، تذکرۃ الاولیاء: 173
حضرت ابراہیم الاطروش حضرت معروف کرخی کے بد دعا سے اجتناب کے اسی واقعہ کو یوں بیان کرتے ہیں:
کُنَّا قُعُوْدًا بِبَغْدَادَ، مَعَ مَعْرُوْفِ الْکَرْخِيِّ عَلٰی نَهْرِ الدَّجْلَۃِ، إِذْ مَرَّ بِنَا قَوْمٌ أَحْدَاثٌ فِيْ زَوْرَقٍ، یَضْرِبُوْنَ بِالدَّفِّ وَیَشْرَبُوْنَ، وَیَلْعَبُوْنَ، فَقُلْنَا لِمَعْرُوْفٍ: أَلَا تَرَاهُمْ کَیْفَ یَعْصُوْنَ اللهَ تَعَالٰی مُجَاهِرِیْنَ؟ اُدْعُ اللهَ عَلَیْهِمْ. فَرَفَعَ یَدَهٗ وَقَالَ: إِلٰهِي، کَمَا فَرَّحْتَهُمْ فِي الدُّنْیَا فَفَرِّحْهُمْ فِي الْآخِرَۃِ۔ فَقُلْنَا: إِنَّمَا سَأَلْنَاکَ أَنْ تَدْعُوَ عَلَیْهِمْ، فَقَالَ: إِذَا فَرَّحَهُمْ فِي الْآخِرَۃِ تَابَ عَلَیْهِمْ.
ہم بغداد میں حضرت معروف کرخی کے ساتھ دریائے دجلہ کے کنارے بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک چھوٹی کشتی میں نو عمر لڑکوں کی ایک ٹولی دف بجاتے، شراب پیتے اور کھیلتے ہوئے گزری۔ ہم نے امام معروف کرخی سے عرض کیا کہ آپ انہیں دیکھ نہیں رہے، یہ لوگ کس طرح علی الاعلان خدا کی نافرمانی کر رہے ہیں؟ ان کے لیے اللہ تبارک و تعالیٰ سے بددعا کیجئے۔ (یہ سن کر) امام معروف کرخی نے ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: خدایا! جس طرح تو نے انہیں دنیا میں خوش کر رکھا ہے آخرت میں بھی خوش رکھنا۔ لوگوں نے کہا: ہم نے آپ کو بددعا کرنے کو کہا تھا (اور آپ نے ان کے حق میں دعا فرما دی)؟ آپ نے فرمایا: جب اللہ ان کو آخرت میں خوش رکھے گا تو (دنیا میں) انہیں مقبول توبہ کی توفیق بھی بخش دے گا۔
’نفحات الانس‘ میں حضرت مولانا عبدالرحمن جامی اپنے شیخ حضرت ابو اسماعیل عبد اللہ بن ابی منصور کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ اپنے وقت کے مرد کامل حضرت شیخ ابواللیث یاقوشنچنی اوائل عمر میں ایسے مرد درویش نہ تھے۔ عام لوگوں کی سی زندگی بسر کرتے تھے تاہم اولیائے کرام سے محبت ضرور رکھتے تھے۔
ایک بار کسی ضروری کام کی غرض سے آبادی سے باہر جانے کا اتفاق ہوا۔ لمبی مسافت سے بچتے ہوئے ایک ایسا راستہ اختیار کیا جو ایک قبرستان میں سے ہو کر جاتا تھا، جسے عموماً استعمال نہیں کیا جاتا تھا۔ جب وہ قبرستان کے درمیان پہنچے تو دیکھا کہ ایک تازہ قبر کے قریب ایک خاتون بیٹھی اہل قبر کو پکار رہی ہے کہ اے ماں کی جان! اے ماں کے اکلوتے! اے میرے لال! وہ بیوہ خاتون اپنے جواں سال بیٹے کی ناگہانی موت پر اپنے غم کا اظہار کچھ ایسے درد بھرے لہجے میں کر رہی تھی جس میں دکھ اور کرب کا ایک سمندر پنہاں تھا۔ اُن سے اس ماں کا یہ دکھ برداشت نہ ہو سکا اور ایسا گریہ طاری ہوا کہ ان پر ایک حال وارد ہو گیا۔ بڑی دیر تک ایک بیوہ ماں کے درد بھرے کلمات نے انہیں بے قرار اور دل گیر کئے رکھا۔ رات جب سوئے تو خواب میں ہاتف غیبی نے آواز دی کہ جو اللہ کی مخلوق کا درد اپنے دل میں رکھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دل میں اپنا درد ڈال دیتا ہے۔ چنانچہ یہ واقعہ اللہ کے حضور ان کی توبہ کا باعث بنا۔
حضرت شیخ الاسلام ابو اسماعیل اس پر فرماتے ہیں کہ اخلاص کے مقام پر رونے میں لذت پانا دراصل رونے کی قیمت اور نفع ہے، حضور نبی اکرم رؤف و رحیم ﷺ کی امت کے درد کو دل میں محسوس کرنا، آپ ﷺ کی امت کے رنج و الم پر دل گیر ہونا اور ان کی مشکلات کے حل میں کوشاں ہونا اتنی بڑی نعمت ہے کہ محتاجِ بیان نہیں۔
عبد الرحمان جامی، نفحات الانس: 224
ہارون الرشید خاندان بنو عباس کا ایک نامور حکمران ہوگزرا ہے۔ اس کا سترہ سالہ بیٹا درویشوں سے بہت محبت کرتا تھا۔ اللہ کے عاشقوں اور دیوانوں کی صحبت کے زیر اثر تائب ہو کر شاہانہ بود و باش سے کنارہ کش ہوگیا۔ دنیا کی حقیقت اس پر بے نقاب ہوگئی تھی۔ وہ اہلِ قبور سے خطاب کرتا کہ اے اہلِ قبور! اس دنیا کے دھوکے نے تمہارے ساتھ کیا کیا عیاری کی؟ اب یہی عیاری دنیا ہمارے ساتھ کر رہی ہے! اور یوں وہ خطاب کرتا کرتا بے ہوش ہوجاتا۔ اسی کیفیت میں ایک دن وہ اپنے والد کے دربار میں چلا گیا۔ بادشاہ نے کہا: بیٹے تم نے یہ کیا حالت بنا رکھی ہے؟ کیوں دیوانوں کی طرح پھرتا ہے اور مجھے ذلیل کرتا ہے! اس پر بیٹے نے باپ کے شاہی محل کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہا اور خود بصرہ کے جنگلوں میں چلاگیا۔ وہیں پہاڑوں اور جنگلوں میں روتا پھرتا اور اللہ تعالیٰ کے حضور مجسم مناجات بنا رہتا۔ گزر اوقات کے لئے جہاں مزدور بیٹھتے وہاں کبھی کبھی چلا جاتا تاکہ محنت کر کے کھانا کھا سکے۔ اپنے وقت کا خوب صورت جوان تھا۔ چنانچہ اس کی ظاہری وضع قطع دیکھ کر ہر کوئی اسے مزدوری کے لئے پسند کرتا۔ ایک بار حضرت شیخ ابو طاہر کو مکان کی دیوار کی تعمیر کے سلسلے میں مزدور کی ضرورت تھی۔ شیخ نے اس کی ظاہری وضع قطع دیکھ کر اسے مزدوری کے لئے پسند کر لیا۔ شام کو جب انہوں نے دیکھا کہ اکیلے اس ایک مزدور کا کام دس مزدوروں کے برابر ہے تو باقی تعمیر بھی اسی سے کروانے کا ارادہ کر لیا اور خوش ہو کر مزدوری ایک درہم کی بجائے دو درہم دینے چاہے تو اس نے صرف ایک درہم ہی لیا کیونکہ یہی اس کے ساتھ طے ہوا تھا۔ اس ایمان داری پر وہ اس سے بہت متاثر ہوئے۔
اگلے روز دوبارہ اسے لینے کو پہنچے تو اسے غیر حاضر پایا مزدوروں نے بتایا کہ اب وہ ہفتہ کے بعد ہی مل سکتا ہے۔ چنانچہ شیخ ابو طاہر اسی کے منتظر رہے۔ ایک ہفتہ بعد جب وہ جوان مزدوری کے لئے آیا تو یہ اسے اپنے گھر لے گئے اور چھپ کر دیکھنے لگے کہ اس قدر تیزی سے یہ کیسے کام کرتا ہے؟ وہ یہ دیکھ کر حیران و ششدر رہ گئے کہ نوجوان نے ابھی ایک اینٹ ہاتھ میں پکڑی ہی تھی کہ ساری دیوار خود بخود بننے لگی۔ ساری بات سمجھ گئے۔ اس سے کہنے لگے: اے مرد حق! تم ہم سب پر بازی لے گئے اور اس کی خدمت میں تین درہم پیش کئے لیکن اس نے ایک درہم ہی لیا اور چلا گیا۔ ہفتہ بعد جب دوبارہ اس کی تلاش میں نکلے تو اس کو کہیں نہ پایا تو شیخ ابوطاہر سمجھ گئے کہ کسی ویرانے میں ہو گا۔ بالآخر اس کو بڑی تلاش کے بعد پا لیا۔ آپ نے پوچھا: آج مزدوری پر کیوں نہیں آئے تو نوجوان نے کہا: اب راز کھل گیا ہے، مزدوری کے قابل نہیں رہا۔ نوجوان کیخشیتِ الٰہی میں آہ و بکا کرتے سانس اُکھڑ چکی تھی۔ چہرے پر نور کا ہالہ موجزن تھا۔ یہ سمجھ گئے کہ عاشق صادق اب اپنی جان جانِ آفرین کے سپرد کرنے والا ہے۔ اس کا سر اپنی گود میں رکھ لیا۔ نوجوان نے کہا: میری دو باتیں سن لیں۔ ایک یہ قرآن ہے اور ایک انگوٹھی۔ یہ دونوں میں گھر سے اللہ کی راہ میں چلتے ہوئے لے آیا تھا۔ یہ دونوں خلیفہ ہارون الرشید کو دے دینا اور کہنا کہ ایک مرتے ہوئے مسکین نے انہیں آپ کے لئے بھیجا ہے اور شیخ ابوطاہر سے کہا کہ اے دوست! اس چار روزہ عیش و آرام کی زندگی کے دھوکے میں نہ آنا۔ لوگ اصل زندگی کو بھول گئے ہیں۔ ہم سب نے رب العزت کی بارگاہ میں حاضر ہونا ہے جب بھی کسی جنازہ کو لے کر قبرستان جاؤ تو سمجھ لو کہ اس سے اگلا جنازہ بس تمہارا ہی اٹھنے والا ہے۔ تیرا یہ ساتھی اب اس دنیا سے جا رہا ہے۔ یہ کہا اور روح پرواز کرگئی۔ اسے اس کی نصیحت کے مطابق انہی کپڑوں میں دفن کیا اور بادشاہ کے دربار میں پہنچ گئے تاکہ دونوں چیزیں حسب نصیحت اس کے سپرد کردی جائیں۔
خلیفہ ہارون الرشید نے جونہی دونوں چیزیں اس سے وصول کیں تو رونے لگا۔ شیخ ابوطاہر کو تنہائی میں لے جا کر کہنے لگا کہ مجھے سارا واقعہ بیان کر۔ انہوں نے مزدوری سے لے کر وصال تک کا سارا حال بیان کیا۔ ہارون الرشید نے پوچھا: کیا تم نے اپنے ہاتھوں سے دفن کیا؟ شیخ نے کہا: ہاں، تو بادشاہ نے جھک کر اس کے دونوں ہاتھوں کو چوما اور زار و قطار رونے لگا اور کہنے لگا: یہ میرا بیٹا تھا جس نے حق کی خاطر تاج و تخت کی ولی عہدی کو چھوڑ دیا تھا۔ پھر بادشاہ شیخ کے ہمراہ بصرہ میں اس کی قبر پر پہنچا اور زار و قطار روتا ہوا گر پڑا۔ رات کو خواب میں بیٹے کو دیکھا کہ نور کے قبہ پر بیٹھا ہے۔ پوچھا: بیٹا تجھ پر کیا بیتی؟ کہاں رہتے ہو؟ کہنے لگا: اباجان! اچھا وقت گزر رہا ہے۔ باری تعالیٰ نے اپنے قرب میں ٹھہرا رکھا ہے۔ ہر روز مجھے فرماتا ہے: جوان میں تجھ سے راضی ہوں۔ میری قربت میں آجا۔
مولانا عبدالرحمن جامی اپنی تصنیف ’نفحات الانس‘ میں حضرت احمد حماد سرخسی کی توبہ ان کے اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں:
کاروبارِ تجارت میں اپنے اونٹوں کے ہمراہ ایک بار جنگل میں رات بسر کرنے کا موقع تھا کہ ایک شیر آیا اور میرے اونٹوں میں سے ایک اونٹ کو مار ڈالا اور اسے قریبی ٹیلے پر لے گیا اور زور سے دھاڑا۔ اس کے دھاڑنے سے اردگرد جنگل سے مختلف درندے، گیدڑ لومڑی وغیرہ سب دوڑے آئے تو شیر ٹیلے سے پرے چلا گیا۔ سب جانوروں نے بقدر ضرورت کھایا اور چلے گئے۔ جب وہ دوبارہ ٹیلے پر آنا چاہتا تھا اور چند قدم چلا تو اس شیر نے دیکھا کہ ایک بیمار سی لومڑی چلی آرہی ہے۔ اسے آتا دیکھ کر شیر پھر ٹیلے کی اوٹ میں چلاگیا۔ جب وہ لومڑی بھی کھا کر چلی گئی تو شیر خود آیا۔ بچے ہوئے اونٹ کے گوشت میں سے کچھ خود کھایا اور چلتے وقت فصیح زبان میں میری طرف منہ کر کے کہنے لگا ’’احمد! لقمے کا ایثار کرنا تو کتوں کا کام ہے۔ اللہ کے دین کے لئے مردوں کا کام جان قربان کرنا ہے۔ اس کی اس بات نے میری زندگی کی کایا پلٹ دی۔ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کی اور اس کی توفیق سے اس کے راستے کا سفر اختیار کرلیا۔
عبد الرحمٰن جامی، نفحات الانس: 203
’نفحات الانس‘ میں حضرت مولانا عبد الرحمن جامی، ابو نصر بن ابی جعفر کی توبہ کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ابو نصر خود فرماتے ہیں کہ میری توبہ کا واقعہ عجیب تر ہے۔ جس نے میری زندگی کا رُخ بدل دیا اور میں ظاہری علوم چھوڑ کر اللہ تعالیٰ کی محبت کی راہ کا مسافر بن گیا۔ فرماتے ہیں: ایک دن میں حسبِ معمول لوگوں کے روز مرہ کے مسائل پر اپنی رائے دے رہا تھا کہ ایک شیخ میرے پاس آکر کھڑا ہو گیا۔ میں نے کہا کہ فرمائیے آپ کا کیا مسئلہ ہے؟ اس شخص نے کہا کہ ایک شخص نے جوانی میں بار برداری کا فریضہ سر انجام دیتے ہوئے اپنے ایک گدھے کو غصہ میں آکر چند لکڑیاں ماریں۔ اس پر اس گدھے نے پیچھے مڑ کر اسے دیکھا اور کہا: ’اے خواجہ! یہ سخت غصہ مجھ مظلوم پر نکال لے، مگر کل تو اس غصہ کے نکالنے کی ذمہ داری سے کیسے باہر آئے گا اور اس کی سزا سے کیسے بچے گا؟‘
اس شخص نے کہا کہ اب بیس سال ہوگئے ہیں۔ وہ شخص اپنے اس گناہ اور اس کی سزا کے خوف سے رو رہا ہے اور آنسوؤں کی جگہ خون ٹپک رہا ہے۔ اس کی طہارت اور نماز کے بارے میں کیا حکم ہے؟
حضرت ابو نصر بیان کرتے ہیں کہ اس شخص کی اس بات کی ہیبت سے میں بے ہوش ہو گیا۔ خوف کا ایک پہاڑ میرے دل پر نازل ہوگیا۔ بڑی دیر بعد ہوش آیا اور جب طبیعت میں کچھ آفاقہ ہوا تو اس شخص کی تلاش میں نکل پڑا کہ زیارت کروں، جب بڑی تلاش کے بعد اس کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ وہ ابھی وفات پاگئے ہیں۔ جب زیارت کے لئے چہرہ سے پردہ اٹھایا تو یہ وہی سائل تھا۔ مسکراتے نورانی چہرے والا درویش جس نے وہ مسئلہ پوچھا تھا۔ اس کا جنازہ پڑھنے کے بعد ایک نئی دنیا سے روشناس ہوا۔ یعنی ظاہر سے توبہ کر کے باطن کی طرف متوجہ ہونے کی توفیق پائی۔
عبد الرحمن جامی، نفحات الانس: 226
حضرت محمد بن اسماعیل خیر النساج اپنے وقت کے ولی کامل ہو گزرے ہیں، بڑے بڑے صاحبانِ ولایت نے ان کی صحبت سے فیض پایا۔ یہ مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان واقعہ ایک جگہ کے رہنے والے تھے جس کا نام سامرہ ہے۔ جعفر خلدی نے ان سے پوچھا: آپ کا اصل نام تو محمدبن اسماعیل ہے لیکن خود کو خیر النساج (یعنی خیر جولاہا) کیوں کہلواتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں نے ایک بار عالمِ محبت میں اللہ تعالیٰ سے عہد کیا کہ مولیٰ! مجھے تازہ کھجوریں بے حد پسند اور مرغوب ہیں، آج سے میں تیری محبت میں ساری زندگی انہیں نہیں کھاؤں گا۔ ایک عرصہ گزر گیا۔ ایک دن تازہ کھجوریں فروخت کرتے کسی کو دیکھا تو نفس نے مجھے قائل کرلیا کہ ایک کھجور کھانے سے کیا فرق پڑے گا؟ اللہ تعالیٰ بے نیاز ہے۔ یہ تو نے خود ہی بے جا پابندی لگائی ہے۔ اس نے بندوں پر اپنی نعمت اتاری ہے۔ اس کو چھوڑنا کون سی نیکی ہے، بلکہ ہو سکتا ہے الٹی پوچھ گچھ ہو جائے کہ یہ تو نے اپنی طرف سے پابندیاں لگانا کیوں شروع کر دیا تھا۔ غرض کہ اس نے ایسے ایسے دلائل میرے سامنے رکھے کہ میں نے لاجواب اور بے اختیار ہو کر تازہ کھجوریں کھانے کا پختہ فیصلہ کرلیا۔ حج پر روانہ ہو رہا تھا۔ جونہی میں نے کھجور کھائی، ایک آدمی نے مجھے باب الکوفہ کے مقام پر دیکھا اور کہا: او خیر بھگوڑے! اس آدمی کا ایک غلام تھا جس کا نام خیر تھا، وہ اس سے کپڑا بننے کا کام لیتا تھا۔ وہ غلام اس کے ظلم سے تنگ آکر بھاگ گیا تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی شباہت مجھ پر واقعہ کر دی تھی یعنی میں اس کا ہم شکل ہو چکا تھا، لوگ جمع ہو گئے اور کہنے لگے: اس کو خوب سزا دو یہی تمہارا غلام ہے۔ میں حیران رہ گیا اور سمجھ گیا کہ مجھے یہ کس جرم کی سزا ملی ہے۔ جب تک اللہ رب العزت سے معافی نہ مل جائے، چیخ و پکار کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اس مالک نے مجھ پر خوب غصہ نکالا۔ جہاں دوسرے غلام کپڑا بننے کا کام کرتے تھے مجھے بھی وہاں لے گیا اور مجھے کہنے لگا! بدمعاش! تو اپنے مالک سے بھاگتا ہے؟ اب وہی کام کر جو پہلے کرتا تھا۔ مجھے کھڈی پر بٹھا دیا گیا۔ ظاہر ہے میرے لئے یہ بالکل نیا کام تھا، اس لئے سب کے طعنے بھی سننا پڑے کہ چار دنوں کی آزادی نے اسے کپڑا بننا بھی بھلا دیا ہے۔ خیر! میں نے بڑی محنت سے ایسے کپڑا بننا شروع کر دیا جیسے برسوں سے یہی میرا کام ہو۔ اِسی دن رات کی محنت میں چار ماہ گزر گئے۔ مجھ میں شرمندگی اور ندامت کے باعث مالک کے حضور ہاتھ اٹھانے کی بھی ہمت نہ تھی۔ ہر روز نفس کو لعنت ملامت کرتا کہ ظالم یہ سب تیری وجہ سے ہوا۔ اب میں اپنا اصل نام بھول چکا تھا۔ اس کے بھاگے ہوئے غلام کا نام خیر ہی میرا نام تھا اور چونکہ وہ کپڑا بننے کا کام کرتا تو بطور پیشہ خیر النساج یعنی ’کپڑا بننے والا خیر‘ پڑ گیا تھا۔ آخر ایک رات اللہ تعالیٰ ہی نے مجھے توفیق اور حوصلہ دیا۔ وضو کیا، آدھی رات کو مولیٰ کے حضور اقرارِ گناہ کے ساتھ سجدہ ریز ہو گیا اور وعدہ کیا کہ آئندہ ساری زندگی نفس کے پیچھے چل کر کبھی ایسا کام نہیں کروں گا۔ صبح ہوئی تو غلام سے میری مشابہت اٹھا لی گئی اور میں نے غلامی سے نجات پائی۔ یہ نام مجھے اس لئے پسند ہے کہ یہ مجھے ہر لمحہ اپنے مالک حقیقی کی کرم نوازی کی یاد دلاتا رہتا ہے۔
حضرت ابراہیم بن داؤد فرماتے ہیں کہ میں ابھی بچہ تھا تو میں نے حضرت ذوالنون مصری کی بڑی شہرت سن رکھی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب خلق قرآن کا فتنہ زوروں پر تھا اور حضرت امام احمد بن حنبل کو حق پر قائم رہنے کے باعث جیل میں بند کر دیا گیا تھا۔ چونکہ حضرت ذوالنون مصری نے بھی حضرت امام حنبل کا ساتھ دیا تھا اس لئے ان کی گرفتاری کا بھی شاہی حکم نامہ جاری ہو چکا تھا۔ ساری خلقت ان کی زیارت کو جاتی تھی۔ میں اگرچہ بچہ تھا لیکن میں حضرت ذوالنون مصری کی زیارت کو چل پڑا۔ حضرت ذوالنون مصری کو دیکھا تو وہ میری نظر میں حقیر معلوم ہوئے۔ میں نے اپنے ذہن کے مطابق ان کو جبہ و قبہ اور جاہ و جلال کا حامل سمجھ رکھا تھا جسے دیکھتے ہی آدمی ان کے سامنے سرنگوں ہو جائے۔ میں نے دل میں کہا کہ اتنی بڑی شہرت اور نام! کیا ذوالنون یہ ہے؟ اس وقت حضرت ذوالنون نے ساری خلقت سے صرف میری طرف رخ کیا اور فرمایا: اے بیٹے! جب اللہ تعالیٰ کسی بندہ سے رو گردانی فرماتا ہے یعنی ناراض ہوتا ہے تو اولیاء اللہ کی گستاخی میں اس کی زبان دراز ہو جاتی ہے۔ ابراہیم کہتے ہیں کہ یہ بات سن کر میں بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ لوگ میرے منہ میں پانی ڈالتے تھے بس اس واقعہ نے مجھے صوفی بنا دیا۔
عبد الرحمن جامی، نفحات الانس: 106
حضرت شیخ فرید الدین عطار اپنی تصنیف ’تذکرہ الاولیائ‘ میں حضرت خواجہ حسن بصریؓ کے حالات و مناقب بیان کرتے ہوئے آپ کے دستِ اقدس پر شمعون آتش پرست کے مسلمان ہونے کا ذکر یوں کرتے ہیں کہ یہ آپ کا پڑوسی تھا۔ جب مرض الموت میں مبتلا ہوا اور جسم سیاہ پڑ گیا تو آپ نے تلقین کی کہ اللہ کے حضور تائب ہو کر اسلام قبول کرلے۔ اس نے کہا کہ تین چیزوں کی وجہ سے اسلام سے برگشتہ ہوں:
1۔ جب دنیا بری شے ہے تو پھر مسلمان اس کی جستجو کیوں کرتے ہیں؟
2۔ موت کو یقینی تصور کرتے ہوئے بھی اس کا سامان نہیں کرتے!
3۔ جلوہ خداوندی کو سب سے اعلیٰ نعمت جانتے ہوئے بھی رضائے الٰہی کے خلاف کیوں کام کرتے ہیں؟
آپ نے فرمایا: یہ تو مسلمانوں کے افعال و کردار ہیں۔ مومن خواہ کچھ بھی ہو کم از کم وحدانیت کو تو ضرور تسلیم کرتا ہے۔ مگر تو نے ستر سال آگ کو پوجا ہے۔ اگر ہم دونوں آگ میں کود پڑیں تو وہ ہم دونوں کو برابر جلائے گی یا تیری پرستش کے باعث تجھے محفوظ رکھے گی اور اگر اللہ چاہے تو وہ مجھے ذرہ برابر بھی نقصان نہیں پہنچا سکتی۔ یہ کہا اور ہاتھ میں آگ اٹھا لی۔ دست مبارک آگ کے نقصان سے بالکل محفوظ رہا۔ اس سے شمعون آتش پرست بڑا متاثر ہوا اور کہنے لگا کہ کیا میرے مسلمان ہو جانے کے بعد اللہ مجھے تمام گناہوں سے نجات دے کر مغفرت فرما دے گا۔ آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ یقینا تجھے معاف کر دے گا۔ اس نے کہا: پھر مجھے آپ اپنی طرف سے عہد نامہ لکھ کر دے دیں۔ چنانچہ آپ نے اسی مضمون کا ایک عہدنامہ اللہ تعالیٰ کے بھروسہ پر اس کو تحریر کر کے دے دیا۔ اس نے اصرار کیا کہ چونکہ کل قیامت میں میرے لئے یہی ایک دستاویز ہو گی، اس لیے ضروری ہے کہ بصرہ کے صاحب عدل لوگوں کی شہادت بھی ساتھ ہو۔ اس کی اس عجیب خواہش پر شہادتیں بھی درج کروا دی گئیں۔ عہد نامہ لے کر شمعون نے صدق دل سے اسلام قبول کر لیا اور خواہش کی کہ جب میں مر جاؤں تو مجھے قبر میں دفن کرتے وقت کفن میں یہ عہدنامہ بھی رکھ دیا جائے تاکہ روزِ محشر میرے مومن ہونے کا ثبوت میرے پاس ہو۔ یہ وصیت کرتا ہوا اور کلمہ شہادت پڑھتا ہوا وہ شخص فوت ہو گیا۔ حضرت خواجہ حسن بصری نے اس کی وصیت پر پورا پورا عمل کیا اور وہ عہد نامہ بھی قبر میں اس کے ساتھ دفن کردیا گیا۔
اُسی شب حضرت خواجہ نے خواب میں دیکھا کہ شمعون بہت قیمتی لباس اور زریں تاج پہنے جنت کی سیر میں مصروف ہے۔ آپ نے پوچھا کہ تم پر کیا گزری ؟ تو کہنے لگا: اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے میری مغفرت فرما دی اور جو انعامات مجھ پر کئے وہ ناقابلِ بیان ہیں۔ لهٰذا آپ یہ عہد نامہ واپس لے لیں۔ یہ کہہ کر عہدنامہ واپس کر دیا۔ جب آپ خواب سے بیدار ہوئے تو وہ عہدنامہ آپ کے ہاتھ میں تھا۔ آپ نے اللہ تعالیٰ کا شکر کرتے ہوئے فرمایا: اے اللہ! تیرا فضل کسی سبب کا محتاج نہیں جب ایک ستر سالہ آتش پرست کو صرف ایک کلمہ پڑھنے پر بخش دیا تو جس نے ستر سال تیری عبادت میں بسر کئے ہوں وہ کیسے تیرے فضل سے محروم رہ سکتا ہے!
فرید الدین عطار، تذکرہ الاولیاء: 23
امام حمانی بیان کرتے ہیں کہ حضرت داؤد الطائی کی توبہ کی ابتداء کچھ یوں تھی کہ وہ ایک قبرستان میں داخل ہوئے اور وہاں ایک قبر کے پاس کسی عورت کو درج ذیل اشعار پڑھتے سنا تو وہیں تائب ہو گئے:
مُقِیْمٌ إِلٰی أَنْ یَبْعَثَ اللهُ خَلْقَهٗ
لِقَاؤُکَ لَا یُرْجٰی وَأَنْتَ قَرِیْبُ
تَزِیْدُ بَلًی فِي کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَۃٍ
وَتُسْلٰی کَمَا تُبْلٰی وَأَنْتَ حَبِیْبُ
تو اس وقت تک اس قبر میں مقیم رہے گا جب تک اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کو دوبارہ زندہ نہیں کرتا، تمہاری ملاقات کی کوئی امید نہیں، حالانکہ تم قریب ہو۔
تم ہر دن اور رات بوسیدہ ہو رہے ہو۔ جیسے جیسے تم بوسیدہ ہو رہے ہو ویسے ویسے تمہیں بھلایا جا رہا ہے حالانکہ تم (ہمارے) پیارے دوست ہو!
حضرت ابو حارث اپنی توبہ کی ابتداء کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
کُنْتُ شَابًّا صَبِیْحًا وَضِیْئًا، فَبَیْنَا أَنَا فِي غَفْلَتِي رَأَیْتُ عَلِیْلًا مَطْرُوْحًا عَلٰی قَارِعَۃِ الطَّرِیْقِ، فَدَنَوْتُ مِنْهُ فَقُلْتُ: هَلْ تَشْتَهِي شَیْئًا؟ قَالَ: نَعَمْ رُمَّانٌ۔ فَجِئْتُهٗ بِرُمَّانٍ، فَلَمَّا وَضَعْتُهٗ بَیْنَ یَدَیْهِ رَفَعَ بَصَرَهٗ إِلَيَّ وَقَالَ: تَابَ اللهُ عَلَیْکَ، فَمَا أَمْسَیْتُ حَتّٰی تَغَیَّرَ قَلْبِي عَنْ کُلِّ مَا کُنْتُ فِیْهِ مِنَ ٰاللَّهْوِ وَلَزِمَنِي خَوْفُ الْمَوْتِ، فَخَرَجْتُ عَنْ جَمِیْعِ مَا أَمْلِکُ وَخَرَجْتُ أُرِیْدُ الْحَجَّ، فَکُنْتُ أَسِیْرُ بِاللَّیْلِ وَأَخْتَفِي بِالنَّهَارِ مَخَافَۃَ الْفِتْنَۃِ، فَبَیْنَا أَنَا أَسِیْرُ بِاللَّیْلِ إِذَا بِقَوْمٍ عَلَی الطَّرِیْقِ یَشْرَبُوْنَ، فَلَمَّا رَأَوْنِي ذَهَلُوْا وَأَجْلَسُوْنِي وَعَرَضُوْا عَلَيَّ الطَّعَامَ وَالشَّرَابَ، فَقُلْتُ: أَحْتَاجُ إِلَی الْبَوْلِ، فَأَرْسِلُوْا مَعِي غُلَامًا لِیَدُلَّنِي عَلَی الْخَلَائِ، فَلَمَّا تَبَاعَدْتُ عَنْهُمْ قُلْتُ لِلْغُـلَامِ: انْصَرِفْ فَإِنِّي أَسْتَحِي مِنْکَ، فَانْصَرَفَ وَوَقَعْتُ فِي غَابَۃٍ فَإِذَا أَنَا بِسَبُعٍ فَقُلْتُ: اَللّٰهُمَّ، إِنَّکَ تَعْلَمُ مَا تَرَکْتُ وَمِنْ مَاذَا خَرَجْتُ، فَاصْرِفْ عَنِّي شَرَّ هٰذَا السَّبُعِ، فَوَلَّی السَّبُعُ وَرَجَعْتُ إِلَی الطَّرِیْقِ، فَوَصَلْتُ إِلٰی مَکَّۃَ، وَلَقِیْتُ بِهَا مَنِ انْتَفَعْتُ بِهِمْ مِنْهُمْ إِبْرَاهِیْمُ بْنُ سَعْدٍ الْعَلَوِيُّ.
میں ایک خوبرو نوجوان تھا، جن دنوں میں اپنی غفلت کی زندگی گزار رہا تھا، ان دنوں میں نے ایک بیمار کو راستہ کے درمیان پڑا ہوا دیکھا، میں اس کے قریب ہوا اور کہا: تجھے کسی چیز کی خواہش ہے؟ اس نے کہا: ہاں، انار کی۔ چنانچہ میں اس کے پاس انار لے کر حاضر ہوا اور اس کے سامنے رکھ دیا، اس نے نگاہ میری طرف اٹھائی اور کہا: اللہ تعالیٰ تجھیبانصیب کرے۔ ابھی شام نہ ہوئی تھی کہ میرا دل ہر لہو و لعب سے پھر گیا اور مجھے خوفِ مرگ نے آلیا، پھر میں نے ہر اس چیز سے اپنی جان چھڑا لی جو میرے پاس تھی، اور حج کے ارادے سے نکل پڑا، پس میں رات کو چلتا تھا اور دن کو فتنہ کے ڈر سے چھپ جاتا تھا۔ ایک رات میں چل رہا تھا کہ راستے میں کچھ لوگ ملے جو شراب پی رہے تھے، جب انہوں نے مجھے دیکھا تو وہ حواس باختہ ہوگئے اور مجھے بٹھا لیا اور انہوں نے مجھے کھانا اور شراب پیش کی۔ میں نے کہا: مجھے رفعِ حاجت کے لیے جانا ہے۔ انہوں نے میرے ساتھ ایک لڑکا بھیجا تاکہ وہ مجھے بیت الخلاء کا راستہ بتائے، جب میں ان سے دور ہوگیا تو میں نے لڑکے سے کہا: لوٹ جاؤ! کیونکہ مجھے تم سے شرم آ رہی ہے۔ وہ واپس چلا گیا تو میں جنگل میں جانکلا اور اچانک ایک درندہ کے پاس پہنچ گیا، میں نے دعا مانگی: اے میرے اللہ! میں نے جو کچھ چھوڑا ہے تو اسے جانتا ہے، اور یہ بھی جانتا ہے کہ میںنے کیوں چھوڑا ہے۔ پس تو اس درندے کے شر کو مجھ سے دور کر دے۔ وہ درندہ وہاں سے ہٹ گیا، چنانچہ میں مکہ پہنچ گیا اور وہاں ان لوگوں سے ملاقات ہوئی جن سے میں نے استفادہ کیا، ان لوگوں میں حضرت ابراہیم بن سعد علوی بھی تھے۔
اپنے ابتدائی دور میں اہل بصرہ کو سود پر قرض دیتے تھے اور اگر کسی مجبوری سے مقروض قرض ادا نہ کرسکتا تو نہ صرف خود قرضہ وصول کرنے اس کے گھر جاتے بلکہ سود کے ہمراہ جرمانہ بھی وصول کرتے اور اپنے گھر کا گزر اوقات صرف سود سے حاصل ہونے والی آمدنی سے کرتے۔ ایک بار ایک مقروض کے گھر سے بھیڑ کا سر بطور سود وصول کرکے لائے اور بیوی کو پکانے کے لئے کہا۔ جب سالن تیار ہو گیا اور کھانے کے لئے نکالنا چاہا تو وہ سارا خون کی شکل اختیار کر چکا تھا۔
بیوی نے خدا خوفی دلاتے ہوئے کہا: یہ سب تمہاری سود خوری اور کنجوسی کے باعث ہوا ہے۔ آپ کو اس سے بڑی عبرت ہوئی اور وعدہ کیا کہ آئندہ کے لئے میں ایسے برے کاموں سے تائب ہوتا ہوں۔ چنانچہ آپ حضرت خواجہ حسن بصری کے دست اقدس پر تائب ہونے کے لئے گھر سے نکلے تو کھیل میں مصروف بچوں نے شور مچایا کہ ہٹ جاؤ حبیب سود خور آ رہا ہے۔ کہیں اس کے قدموں کی خاک ہم پر نہ پڑ جائے اور ہم اس جیسے بدبخت نہ بن جائیں۔ جب حسن بصری کی خدمت میں حاضر ہوئے تو ان کی نگاهِ فیض سے بارِ دگر اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کی۔ جب واپس ہوئے تو ان کی توبہ میں اخلاص کا یہ عالم تھا کہ انہیں لڑکوں نے جو ابھی کھیل میں مصروف تھے کہنا شروع کر دیا کہ راستہ دے دو اب حبیب تائب ہو کر آ رہا ہے۔ کہیں ہمارے قدموں کی گرد ان پر نہ پڑ جائے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہمارا نام گناہگاروں میں درج نہ ہو جائے۔ پھر آپ نے اعلان کر دیا کہ جو شخص ان کا مقروض ہے وہ اپنی تحریر اور سود کی رقم واپس لے جائے۔
یوں اپنی تمام دولت راهِ خدا میں لٹا دی۔ آپ حضرت خواجہ حسن بصری کی خدمت میں پہنچ جاتے اور مشغول عبادت رہتے۔ چونکہ قرآن حکیم کی قرأت میں تلفظ اپنے صحیح مخرج کے ساتھ ادا نہیں کر سکتے تھے اس لئے آپ کو عجمی کا خطاب دیا گیا۔
ایک وقت تھا کہ سود پر گزارا کرتے تھے اور اب توکل کے مقام پر یوں فائز ہوئے کہ بیوی بچوں کے اصرار پر مزدوری کے لئے گھر سے باہر نکلے۔ سارا دن اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف رہے۔ جب شام کو گھر پہنچے تو اہلیہ نے مزدوری کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگے: جس مالک کے ہاں مزدوری کی ہے وہ بہت کرم والا ہے، اس کی کرم نوازی سے مجھے بڑی شرم محسوس ہوئی کہ اجرت طلب کروں۔
وہ ضرور جلد ہی ہماری طلب کو پورا کر دے گا۔ جب دس دن اسی طرح گزر گئے اور شام کو اس فکر میں پریشان آ رہے تھے کہ آج جا کر بھوک میں پریشان اہلِ خانہ کو کیا جواب دوں گا؟ گھر پہنچے تو اہلِ خانہ کو بڑا خوش و خرم دیکھا۔ اندر سے کھانے کی خوشبو آ رہی تھی۔ اہلیہ نے بتایا کہ تمہارا مالک تو بہت خیال رکھنے والا ہے۔ اس نے ایک بوری آٹا، ایک ذبح شدہ بکری، گھی، شہد اور تین سو درہم بجھوائے ہیں اور ساتھ یہ بھی پیغام بجھوایا ہے کہ حبیب سے کہنا کہ ہم اس کی مزدوری سے خوش ہیں۔ اگر وہ اور زیادہ اپنے کام کو ترقی دیں گے تو ہم اس کے صلہ میں زیادہ بڑھ کر مزدوری دیں گے۔
حضرت حبیب عجمی پر اللہ رب العزت کی ان عنایات کے سبب عجیب گریہ و بکا طاری ہو گیا۔ پھر بندگی بجا لاتے ہوئے رضائے الٰہی کے بڑے اعلیٰ مقام پر پہنچے۔ ایک مرتبہ نماز مغرب کے وقت حضرت خواجہ حسن بصری آپ کے ہاں پہنچے۔ آپ اس وقت نماز کے لئے کھڑے ہو چکے تھے۔ جب آپ نے دیکھا کہ آپ الحمد ﷲ کی قرأت درست نہیں کر رہے تو آپ کی اقتداء میں نماز ادا کرنے کی بجائے علیحدہ نماز ادا کی۔
اس رات حضرت خواجہ حسن بصری کو خواب میں حق تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوا (جیسا اس کی شان کے لائق تھا) تو آپ نے عرض کیا: اے اللہ! میں تیری رضا کیسے حاصل کروں؟ ارشاد ہوا کہ رضا تو تمہارے بہت قریب تھی۔ اگر تو حبیب کی اقتداء میں نماز ادا کر لیتا تو تجھے میری رضا مل جاتی، جو تیری ساری عمر کی نمازوں سے بہتر تھا۔ تو نے حبیب کی عبادت کے ظاہر کو دیکھا لیکن اس کی نیت کو ملاحظہ نہیں کیا جو اس کی روح میں کارفرما تھی۔ بلاشبہ اعمال کا دارو مدار نیت پر ہے۔ نیت کی خالصیت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
کہاں وقت کے معروف حبیب سود خور اور کہاں حضرت حبیب عجمی۔ اخلاص کی ایک توبہ نے اُن کی کایا پلٹ کر رکھ دی۔ آپ کے سامنے جب قرآن حکیم کی تلاوت ہوتی تو مضطرب اور بے قرار ہو کر آہ و فغاں کرنے لگتے۔ عرض کرتے: کیا ہوا حبیب کی زبان عجمی ہے لیکن قلب تو عربی ہے۔ آپ کا شمار صدق و صفا پر عمل پیرا ہونے والے صاحبِ یقین اور گوشہ نشین بزرگوں میں ہوتا ہے۔
فرید الدین عطار، تذکرۃ الاولیاء: 34
’فوائد الفواد‘ میں حضرت نظام الدین اولیاء سے منقول ہے کہ شیخ عبد اللہ بن مبارک اللہ تعالیٰ کے حضور تائب ہونے سے قبل جوانی میں ایک خاتون کی محبت میں گرفتار تھے۔ ایک رات اس کی دیوار کے نیچے آئے ہوئے تھے کہ اس سے گفتگو کریں۔ اس خاتون نے بھی کھڑکی سے سر باہر نکال کر کے باتیں کرنا شروع کر دیں۔ دونوں آپس میں راز و نیاز کی باتوں میں یوں مشغول ہوئے کہ ساری رات گزر گئی، یہاں تک کہ صبح کی اذان کی آواز آئی۔ شیخ عبد اللہ سمجھے کہ نمازِ عشاء کی اذان ہے۔ جب غور سے دیکھا تو صبح ہو چکی تھی۔ اس دوران غیب سے ایک آواز آئی: اے عبد اللہ! ایک عورت کے عشق میں ساری رات کھڑے کھڑے گزار دی، کسی رات حق تعالیٰ کے لئے بھی اسی طرح بیدار رہے ہو؟ عبد اللہ نے جب یہ بات سنی تو اپنے اس فعل سے توبہ کی اور دل و جان سے مشغول بحق ہو گئے۔
پھر وہ مقام پایا کہ حضرت سفیان ثوری اُن کی حالت کو دیکھ کر رشک کرتے۔ آپ عارف باللہ بھی تھے اور امام فی الحدیث بھی۔ حضرت امام شعرانی بیان فرماتے ہیں کہ ایک بار اپنے اہل خانہ کے ساتھ خلیفہ ہارون الرشید ایک نجی دورے پر آیا تو دیکھا کہ گلیاں بازار لوگوں سے اَٹے پڑے ہیں۔ لوگوں کے جوتے ٹوٹ گئے ہیں۔ راستہ نہیں مل رہا تو خلیفہ کی والدہ نے پوچھا: کیا بات ہے، راستہ کیوں لوگوں سے بند ہے؟ تو خلیفہ نے کہا کہ آج حدیث کے امام حضرت عبد اللہ بن مبارک یہاں تشریف لائے ہوئے ہیں اور لوگ ان کے استقبال کے لئے جمع ہیں تو والدہ نے کہا: تو پھر اصل بادشاہ تو یہ ہیں نہ کہ ہارون الرشید جس کے لئے ڈنڈوں اور کوڑوں سے لوگ جمع کئے جاتے ہیں۔
شعرانی، الطبقات الکبری: 90-91
حضرت ابو حفص حداد جو اپنے دور کے کامل اور عظیم المرتبت بزرگ ہو گزرے ہیں۔ عہدِ شباب میں آپ کو کسی خوبصورت کنیز سے عشق ہو گیا لیکن وہ کسی طور شادی کے لئے رضا مند نہ ہوئی۔ بعض تذکرہ نگاروں نے اسے یہودی دوشیزہ لکھا ہے۔ تب یہ نیشاپور کے ایک مشہور جادوگر سے ملے اور اس سے اپنا مقصد بیان کیا۔ جادوگر کافر تھا۔ اس نے کہا کہ چالیس دن کا چلہ ہے۔ ان چالیس دنوں میں ہر قسم کی عبادت تو چھوڑنی ہی ہے بلکہ کوئی نیک عمل بھی تم سے سرزد نہ ہو پھر کوئی وجہ نہیں کہ اس کا جادو مکمل نہ ہو۔ چالیس روز بھی گزر گئے لیکن مراد نہ بر آئی۔
یہ دوبارہ جادوگر کے پاس گئے۔ وہ بڑا حیران ہوا کہ میرا جادو تو کبھی ناکام نہیں ہوا۔ تم غور کرو کوئی عبادت یا نیک کام تو تم سے سرزد نہیں ہو گیا۔ بڑی سوچ بچار کے بعد انہوں نے بتایا کہ صرف ایک کام ہو گیا ہے جسے شاید تم نیکی شمار کر سکو۔ اس نے پوچھا: کیا کام کیا؟ انہوں نے کہا: ایک دن راستے میں پڑا ہوا پتھر میں نے اس ارادہ سے اٹھا کر دور کردیا تھا کہ کوئی اس سے ٹھوکر نہ کھائے۔ یہ سن کر جادو گر نے کہا کہ کس قدر افسوس ناک بات ہے کہ آپ اپنے ایسے خدا کی عبادت سے گریزاں ہیں اور اس کی مخالفت میں دلیر ہیں جس نے باوجود تمہاری برائی میں ملوث ہونے کے، ایک معمولی سی نیکی کو بھی رائیگاں نہیں جانے دیا، اسے قبولیت عطا کی اور میرا سارا جادو ناکام ہو کر رہ گیا۔ آپ نے اسی وقت اللہ تعالیٰ کے حضور سچے دل سے توبہ کی، پھر تقویٰ میں ایسا مقام حاصل کیا کہ راهِ طریقت میں آپ کا شمار ان ممتاز مشائخ میں سے ہوا جو اہل کشف و کرامات ہوئے۔
فرید الدین عطار، تذکرہ الاولیاء: 210
آپ کی اوائل کی زندگی کوئی قابل قدر نہ تھی۔ فسق و فجور میں مبتلا رہتے تھے۔ ان کی اکثر راتیں مے خانہ میں گزرتی تھیں۔ ایک روز دیوانگی کے عالم میں کہیں جارہے تھے کہ اچانک راستے میں ایک کاغذ کا ٹکڑا پڑا دیکھا جس پر ’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ لکھا ہوا تھا آپ نے بڑے پیار سے اس کو اٹھایا، چوما اور پھر عطر سے معطر کر کے کسی بلند مقام پر رکھ دیا۔ اسی شب خواب میں من جانب اللہ یہ خوش خبری ملی کہ اے بشر! جس طرح تم نے ہمارے نام کو معطر کیا ہے ہم تیرے نام اور دل یعنی ظاہر و باطن کو پاکیزہ مراتب عطا کریں گے۔
حضرت محمد بن صلت سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت بشر بن حارث (یعنی حضرت بشر الحافی) سے ان کی توبہ کے معاملہ اور سلوک و تصوف کی ابتداء کے بارے میں پوچھا گیا کہ بے شک آپ کا نام لوگوں میں ایسے ہی محترم ہے جیسے کسی نبی کا نام ہو، اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا:
هٰذَا مِنْ فَضْلِ اللهِ وَمَا أَقُوْلُ لَکُمْ کُنْتُ رَجُلًا عَیَّارًا صَاحِبَ عَصَبَۃٍ، فَجُزْتُ یَوْمًا فَإِذَا أَنَا بِقِرْطَاسٍ فِي الطَّرِیْقِ فَرَفَعْتُهٗ فَإِذَا فِیْهِ {بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ}. فَمَسَحْتُهٗ وَجَعَلْتُهٗ فِي جَیْبِي، وَکَانَ عِنْدِي دِرْهَمَانِ مَا کُنْتُ أَمْلِکُ غَیْرَهُمَا۔ فَذَهَبْتُ إِلَی الْعَطَّارِیْنَ، فَاشْتَرَیْتُ بِهِمَا غَالِیَۃً، وَمَسَحْتُهٗ فِي الْقِرْطَاسِ، فَنِمْتُ تِلْکَ اللَّیْلَۃَ، فَرَأَیْتُ فِي الْمَنَامِ کَأَنَّ قَائِلًا یَقُوْلُ لِي: یَا بِشْرَ بْنَ الْحَارِثِ، رَفَعْتَ اسْمَنَا عَنِ الطَّرِیقِ، وَطَیَّبْتَهٗ، لَأُطَیِّبَنَّ اسْمَکَ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَۃِ، ثُمَّ کَانَ مَا کَانَ.
یہ سراسر فضلِ اِلٰہی ہے، اور اس فضل کے بارے میں، میں آپ کو بتاتا ہوں۔ میں ایک بڑا آوارہ اور جتّھہ (یعنی کثیر دوستیاں) رکھنے والا شخص تھا، ایک دن میں گزر رہا تھا کہ اچانک مجھے راستہ میں کاغذ کا ایک ٹکڑا نظر آیا، اسے میں نے اٹھا لیا۔ میں نے دیکھا کہ اس پر {بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} لکھی ہوئی ہے۔ میں نے اسے پونچھا اور اسے (چوم کر) اپنی جیب میں رکھ لیا۔ میرے پاس اُس دِن دو درہم تھے، ان کے علاوہ میرے پاس کچھ نہ تھا۔ میں عطر فروشوں کے پاس گیا، ان دو درہموں سے میں نے قیمتی عطر خریدا اور اسے کاغذ کے ٹکڑے پر مل دیا۔ اس رات میں سویا تو خواب دیکھا۔ گویا کوئی کہنے والا مجھے کہہ رہا تھا: اے بشر بن حارث! تو نے راستے سے ہمارا نام اٹھایا ہے، اور اسے خوشبو لگائی ہے، تو میں ضرور بالضرور تمہارے نام کو دنیا و آخرت میں پاکیزہ کردوں گا۔ پھر ایسا ہی ہوا۔
حضرت بشر حافی کی توبہ کے بارے میں ایک اور روایت بیان کی جاتی ہے:
أَنَّ الإِمَامَ بِشْرًا کَانَ فِي زَمَنِ لَهْوِهٖ فِي دَارِهٖ، وَعِنْدَهٗ رُفَقَاؤُهٗ یَشْرَبُوْنَ وَیَطِیْبُوْنَ، فَاجْتَازَ بِهِمْ رَجُلٌ مِنَ الصَّالِحِیْنَ فَدَقَّ الْبَابَ، فَخَرَجَتْ إِلَیْهِ جَارِیَۃٌ، فَقَالَ: صَاحِبُ هٰذِهِ الدَّارِ حُرٌّ أَوْ عَبْدٌ؟ فَقَالَتْ: بَلْ حُرٌّ، فَقَالَ: صَدَقْتِ، لَوْ کَانَ عَبْدًا لَاسْتَعْمَلَ أَدَبَ الْعُبُوْدِیَۃِ وَتَرَکَ اللَّهْوَ وَالطَّرَبَ، فَسَمِعَ بِشْرٌ مُحَاوَرَتَهُمَا، فَسَارَعَ إِلَی الْبَابِ حَافِیًا حَاسِرًا، وَقَدْ وَلَّی الرَّجُلُ، فَقَالَ لِلْجَارِیَۃِ: وَیْحَکِ، مَنْ کَلَّمَکِ عَلَی الْبَابِ؟ فَأَخْبَرَتْهُ بِمَا جَرٰی، فَقَالَ: أَيَّ نَاحِیَۃٍ أَخَذَ الرَّجُلُ؟ فَقَالَتْ: کَذَا، فَتَبِعَهٗ بِشْرٌ حَتّٰی لَحِقَهٗ، فَقَالَ لَهٗ: یَا سَیِّدِي، أَنْتَ الَّذِي وَقَفْتَ بِالْبَابِ وَخَاطَبْتَ الْجَارِیَۃَ؟ قَالَ: نَعَمْ۔ قَالَ: أَعِدْ عَلَيَّ الْکَلَامَ، فَأَعَادَهٗ عَلَیْهِ، فَمَرَّغَ بِشْرٌ خَدَّیْهِ عَلَی الأَرْضِ وَقَالَ: بَلْ عَبْدٌ عَبْدٌ، ثُمَّ هَامَ عَلٰی وَجْهِهٖ حَافِیًا حَاسِرًا، حَتّٰی عُرِفَ بِالْحَفَائِ۔
ابن قدامۃ، التوابین: 211
امام بشر الحافی اپنے لہو و لعب کے زمانے میں اپنے گھر میں تھے اور آپ کے پاس آپ کے چند ساتھی بھی تھے جو شراب پینے اور خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ ان کے پاس سے کوئی مردِ صالح گزرا، اس نے دروازے پر دستک دی، تو ایک باندی نکل کر باہر آئی۔ اس نیک شخص نے (لونڈی سے) پوچھا: یہ گھر والا کوئی آزاد شخص ہے یا غلام؟ باندی نے کہا: آزاد شخص ہے۔ اس نے کہا: تو نے سچ کہا، اگر یہ غلام ہوتا تو عبودیت (یعنی بندگی) کے آداب سے کام لیتا اور لہو و طرب کو چھوڑ دیتا۔ بشر حافی نے ان دونوں کی باتین سن لیں اور ننگے پاؤں و برہنہ سر جلدی سے دروازے کی طرف لپکے، اتنے میں وہ شخص جا چکا تھا۔ آپ نے باندی سے کہا: افسوس ہے تجھ پر! دروازے پر تیرے ساتھ کون باتیں کر رہا تھا؟ اس نے جو کچھ ہوا، انہیں بتا دیا۔ آپ نے پوچھا: وہ شخص کس طرف گیا ہے؟ باندی نے کہا: اس طرف۔ چنانچہ بشر اس شخص کے پیچھے چل پڑے یہاں تک کہ اسے جا ملے اور کہا: اے میرے آقا! آپ وہی ہیں جو دروازے پر رکے اور باندی سے مخاطب ہوئے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ نے کہا: مجھے وہی بات دہرا دیجئے۔ اس شخص نے وہی بات دہرا دی۔ (یہ سن کر) حضرت بشر حافی نے اپنے دونوں رخسار زمین پر خاک آلود کیے (یعنی ندامت اور افسوس کا اظہار کیا) اور کہا: بلکہ میں غلام ہوں، میں غلام ہوں۔ پھر وہ ننگے پاؤں اور برہنہ سر جدھر منہ ہوا، اُسی طرف چل دیے یہاں تک کہ برہنہ پائی سے مشہور ہوگئے۔
حضرت امام احمد بن حنبل عظیم محدث اور فقیہ ہونے کے باوجود آپ کی مجلس میں اکتسابِ فیض کے لئے آتے۔ کسی نے پوچھا: اے امام! آپ جیسے صاحبِ علم و فضل کا ان کی خدمت میں آنا سمجھ میں نہیں آیا۔ تو آپ نے فرمایا کہ بلاشبہ اللہ کی توفیق سے مجھے اپنے علوم پر مکمل عبور حاصل ہے لیکن وہ دیوانہ درویش بشرحافی اللہ تعالیٰ کو مجھ سے زیادہ جانتا ہے۔ جب آپ نے توبہ کی تو اس وقت مے خانہ سے ننگے پاؤں باہر آئے تھے۔ پھر اس لمحہ کی یاد میں کہ جب اللہ تعالیٰ نے توبہ کی توفیق عطا فرمائی ساری عمر ننگے پاؤں ہی رہے اور بشر حافی یعنی بشر ننگے پاؤں والا کہلانا پسند کیا۔ اللہ تعالیٰ کے حضور آپ کی اطاعت کا یہ عالم تھا کہ جب تک زندہ رہے بغداد کے جانوروں نے بغداد کی گلیوں میں گوبر وغیرہ کرنا بند کر دیا تھا۔
فرید الدین عطار، تذکرۃ الاولیاء: 69
حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ اپنی تصنیف ’غنیۃ الطالبین‘ کے باب توبہ میں سچی توبہ کے عنوان کے تحت ایک واقعہ نقل فرماتے ہیں: ’ایک روز صحابی رسول امام المحدثین حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کوفہ کے مضافات میں واقع ایک گاؤں کے قریب سے گزر رہے تھے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے دیکھا کہ چند فاسق و فاجر ایک مکان میں جمع ہو کر شراب نوشی میں مشغول ہیں اور ایک مشہور گویّا بھی ان میں شامل ہے اور اپنا بربط بجا کر گانے میں مصروف ہے۔ اس کی سریلی مسحور کن آواز سن کر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اسے کیسی اچھی آواز دی ہے۔ اگر یہ اسے اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتاب قرآنِ حکیم کی تلاوت میں استعمال کرتا تو کیا ہی اچھا ہوتا! آپ یہ کہہ کرآگے چل پڑے۔ گانے بجانے والے کا نام زادان تھا۔ وہ آپ کے کلمات کو تو نہ سمجھ سکا لیکن اتنا اسے پتہ چل گیا کہ اس کے گانے بجانے کے بارے میں کچھ کہا گیا ہے۔ اس نے وہاں پر موجود لوگوں سے دریافت کیا کہ یہ کون صاحب ہیں اور میرے بارے میں کیا کہا ہے؟
لوگوں نے بتایا کہ یہ مشہور صحابی رسول حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں اور یہ فرما گئے ہیں کہ گانے کی آواز کس قدر مسحور کن ہے، کاش! یہ آواز تلاوت قرآنِ حکیم میں استعمال ہوتی۔ جونہی اُس نے یہ سنا تو اس پر ایک ہیبت طاری ہوگئی۔ اس نے اپنا بربط زمین پر دے مارا اور ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ اسی حالت میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پیچھے بھاگا۔ جب آپ کے قریب پہنچا تو اس نے اپنا رومال رسی کے طور پر اپنے گلے میں ڈالا اور خود کو ایک مجرم کی شکل میں آپ کی خدمت میں پیش کر دیا اور رونے لگا۔ آپ اس کی حالتِ رجوع الی اللہ دیکھ کر بے قرار ہو گئے اور اظہارِ محبت کرتے ہوئے اپنی دونوں باہیں زادان کے گلے میں ڈال دیں، گلے لگ گئے اور دونوں باہم مل کر رونے لگے۔
لوگوں نے بعد ازاں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ حضرت یہ کیا ماجرا ہوا کہ آپ نے ایک گویّے کو گلے لگا کر اس پر نہ صرف اظہار شفقت و محبت فرمایا بلکہ دونوں باہم مل کر روئے بھی۔ تب آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں اس شخص سے کیسے محبت نہ کروں جس سے خود حق تعالیٰ محبت فرماتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول اس کی سچی توبہ کا باعث بن گیا۔ زادان نے باقاعدہ آپ کی صحبت اختیار کر لی اور قرآن حکیم سے بہت زیادہ علم کا حصہ پایا اور علم میں امامت کے درجے پر فائز ہوا۔
عبد القادر جیلانی، الغنیۃ، 1: 263-264
امام قشیری محمد بن عبدالوہاب ثقفی سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے ایک دن عجب جنازہ دیکھا جسے آگے سے دو مردوں اور پیچھے ایک عورت نے کندھا دے رکھا تھا۔ یہ آگے بڑھے اور خاتون کی جگہ لی۔ فرماتے ہیں کہ ہم قبرستان پہنچے جنازہ پڑھا اور میت کو قبر میں دفن کر دیا۔ یہ بڑے حیران تھے کہ اس قدر مختصر جنازہ ساری زندگی کبھی نہیں دیکھا۔ اس کی کیا وجہ ہو سکتی ہے؟ چنانچہ قبر میں دفن کرنے کے بعد خاتون سے مخاطب ہو کر دریافت کیا کہ اے خاتون! تیرا اس میت سے کیا تعلق ہے؟ اس نے جواب دیا: میرا بیٹا تھا۔ یہ سوچنے لگے کہ شاید یہ کسی ویرانے میں رہتے ہیں۔ چنانچہ پوچھا: کیا آپ کے کوئی پڑوسی نہیں ہیں؟ کہنے لگی: ہاں، پڑوسی تو ہیں۔ اس پر انہیں یہ خیال گزرا شاید آپس کے کسی جھگڑے کے باعث ان سے قطع تعلقی ہو گی، لیکن یہ بات بھی نہیں تھی۔
اُن کی حیرت کو دور کرتے ہوئے خاتون نے خود ہی بتایا کہ اہل محلہ نے ہمیں حقیر سمجھا اور میرے بیٹے کی موت کو معمولی خیال کیا۔ یہ بڑے حیرت زدہ ہو گئے۔ کہنے لگے: یہ کیا تھا؟ عورت نے جواب دیا: یہ بے چارہ مخنث تھا اور خاموش ہو گئی۔ گویا اس کی خاموشی زبانِ حال سے شکوہ کر رہی تھی کہ ’اس کے مخنث ہونے اور میرا اس کے مخنث جننے میں کیا قصور تھا‘۔
ایک مخنث سے نفرت کا یہ عالم کہ اہل محلہ نے نہ صرف اس کے کفن دفن اور جنازہ پڑھنے کو غیر ضروری خیال کیا بلکہ ایک دکھی ماں کے حزن و ملال کو بھی درخورِ اعتنا نہیں سمجھا۔ شاید اسی انتہا درجے کی نفرت نے اسے جوانی میں موت کے منہ میں دھکیل دیا تھا۔ اس نفرت کے نظارے آج بھی ہمیں دکھائی دیتے ہیں لیکن کبھی ایک لمحے کے لئے بھی غور نہیں کرتے کہ اگر ان کی جگہ ہم خود یہ ہوتے تو ہمارے دل کی کیفیت کا کیا عالم ہوتا؟ لیکن یہ ناانصافی اللہ تعالیٰ کے ہاں نہیں ہے۔
عبدالوہاب فرماتے ہیں: مجھے اس پر بہت رحم آیا۔ میں اس غمزدہ دکھی ماں کو اپنے گھر لے گیا۔ گندم، کپڑوں اور رقم سے اس کی مدد کی۔ جب رات کو سویا تو خواب میں ایک شخص میرے پاس آیا جس کا چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح تھا۔ اس نے سفید کپڑے پہن رکھے تھے۔ اس نے میرا شکریہ ادا کیا۔ یہ کہتے ہیں: میں نے پوچھا تو کون ہے؟ میں نے تجھے نہیں پہچانا۔ وہ کہنے لگا: میں وہی مخنث ہوں جسے آپ نے دفن کیا (یعنی اگر آپ نہ ہوتے تو یہ مجھے بغیر جنازہ پڑھے دفن کر دیتے)۔ پھر کہنے لگا: اللہ تعالیٰ نے مجھے اس لئے بخش دیا کہ لوگ مجھے حقیر جانتے تھے، یعنی بظاہر اعمال ایسے نہیں تھے لیکن نفرت اور حقارت و ذلت جو معاشرے نے اس کے ساتھ روا رکھی اس کے بدلے میں اللہ تعالیٰ نے بغیر حساب و کتاب بخش دیا۔ لوگوں کی نفرت اس کی بخشش کا سامان بن گئی۔
قشیری، الرسالۃ: 136-137
تائبین کے ذکر کا اختتام سید الساجدین و امام المتقین و خاشئین حضرت سیدنا زین العابدین رضی اللہ عنہ کے ذکر مبارک پر کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے حضور آپ ساری زندگی سراپا التجا بنے رہے۔ آپ کی مناجاتیں سالکانِ راهِ مولیٰ کے لئے توبہ و استغفار اور طلبِ مغفرت کے باب میں عظیم اثاثہ ہیں۔ ان مناجات میں پنہاں سوز و گداز، ہدایت کے متلاشیوں کے لئے نشانِ منزل کی حیثیت رکھتا ہے۔
مقربین میں سے جب کوئی اللہ تعالیٰ کے حضور حقِ بندگی بجا لاتے ہوئے اپنی کوتاہیوں، غلطیوں، حکم عدولیوں، نافرمانیوں اور گناہوں کا اعتراف کرتا ہے تو بظاہر اس کا یہ اظہارِ بندگی ایک طرح سے انکساری کی ایک شکل ہوتاہے لیکن امام این العابدین رضی اللہ عنہ کی مناجات کے پسِ پردہ اخلاص کی خالصیت کا یہ عالم ہے کہ جو عرض کر رہے ہوتے ہیں مجسم سچائی بن کر پڑھنے اور سماعت کرنے والوں کے قلوب و ارواح میں اترتا چلا جاتا ہے۔ حالانکہ آپ اہلِ بیت اطہار کی وہ برگزدیدہ ہستی ہیں کہ عبادت خود جن پر فخر کرتی ہے۔
آپ رضی اللہ عنہ کی حیاتِ مبارکہ کے شب و روز کا مطالعہ کریں تو آپ کا وجودِ مسعود مجسم مناجات نظر آتا ہے۔ آپ تسلیم و رضا کے مقام پر فائز تھے۔ جب آپ وضو فرماتے تو چہرے کا رنگ زرد ہو جاتا۔ عبادت کے لئے کھڑے ہوتے تو لرزہ براندام ہو جاتے۔ شب و روز قیام کے باعث پیروں پر ورم رہتا۔ نعمت ملے یا آزمائش کا مرحلہ ہو ہر حالت میں حق سبحانہ و تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہوتے اور اس وقت تک سجدے سے سر نہ اٹھاتے جب تک پسینہ میں شرابور نہ ہو جاتے۔ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو آپ کی تضرع و انکساری کمال تک پہنچ جاتی۔ سوائے تسبیح و استغفار کے کوئی اور بات زبان سے نہ نکالتے اورخشیت ِالٰہی میں اکثر غشی طاری ہو جاتی۔
آپ کے حج کے احوال میں ابن عینیہ کہتے ہیں کہ جب آپ رضی اللہ عنہ کی سواری اس مقام پر پہنچی جہاں احرام باندھنا لازم ہو جاتا ہے تو عرض کیا گیا: حضور! احرام باندھ لیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور حاضری کے خوف سے آپ کے جسم مبارک پر کپکپی طاری ہو گئی۔ چہرے پر زردی چھا گئی۔ یوں لگا کہ جسم میں جان نہیں ہے، احرام باندھنا مشکل ہو گیا۔ پھر عرض کیا گیا: حضرت کوشش فرمائیں اور تلبیہ کہیں لیکن زبان تلبیہ کے الفاظ ادا کرنے سے قاصر تھی۔ عرض کیا گیا کہ آپ تلبیہ کیوں نہیں ادا کرتے؟ فرمایا: میں ڈرتا ہوں کہ میں ’لبیک‘ کہوں تو ادھر سے ’لا لبیک‘ کی آواز نہ آجائے جب سنبھل کر تلبیہ کیا تو غش کھا کر گر پڑے اور حج کے اختتام تک مسلسل یہی معاملہ درپیش رہا۔ کبھی سنبھلتے اور کبھی بے ہوش ہو کر گر پڑتے۔
غزالی، احیاء علوم الدین، 1: 268
آپ نے اپنی مناجات میں بندوں کو اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہونے کا سلیقہ سکھایا ہے۔ امام زین العابدین رضی اللہ عنہ گناہوں سے توبہ کرتے ہوئے اللہ رب العزت سے یوں مخاطب ہوتے ہیں:
إِلٰهِي إِنْ کَانَ النَّدَمُ عَلَی الذَّنْبِ تَوْبَۃً، فَإِنِّي وَعِزَّتِکَ مِنَ النَّادِمِیْنَ، وَإِنْ کَانَ الْاِسْتِغْفَارُ مِنَ الْخَطِیْئَۃِ حِطَّۃً فَإِنِّي لَکَ مِنَ الْمُسسْتَغْفِرِیْنَ، لَکَ الْعُتْبٰی حَتّٰی تَرْضٰی.
إِلٰهِي بِقُدْرَتِکَ عَلَيَّ تُبْ عَلَيَّ، وَبِحِلْمِکَ عَنِّي اعْفُ عَنِّي، وَبِعِلْمِکَ بِيَ ارْفَقْ بِي.
اے میرے معبود! اگر گناہ پر پشیمانی کا مطلب توبہ ہی ہے تو مجھے تیری عزت کی قسم کہ میں پشیمان ہونے والوں میں ہوں، اور اگر خطا کی معافی مانگنے سے خطا معاف ہو جاتی ہے تو بیشک میں تجھ سے معافی مانگنے والا پہلا ہوں، تیری چوکھٹ پر ہوں حتی کہ تو راضی ہو جائے۔
اے معبود! اپنی قدرت سے میری توبہ قبول فرما اور میرے متعلق اپنے علم سے مجھ پر مہربانی کر۔
دوسرے مقام پر امام صاحب رضی اللہ عنہ بارگاہ الٰہی میں یوں التجا کرتے ہیں:
اَللّٰهُمَّ تُبْ عَلَيَّ حَتّٰی لَا أَعْصِیَکَ، وَأَلْهِمْنِي الْخَیْرَ وَالْعَمَلَ بِهٖ، وَخَشْیَتَکَ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ، أَبَدًا مَا أَبْقَیْتَنِي یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ.
اے معبود! مجھے ایسی توبہ کی توفیق دے کہ پھر تیری نافرمانی نہ کروں، میرے دل میں نیکی و عمل کا جذبہ ابھار دے اور جب تک مجھے زندہ رکھے، دن رات اپنا خوف میرے قلب میں ڈالے رکھ، اے جہانوں کے پالنے والے۔
پھر امام رضی اللہ عنہ جہنم اور اس کے عفریتوں کاذکر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی پناہ کے یوں طلب گار ہوتے ہیں:
(اللّٰهُمَّ) أَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَقَارِبِھا الْفَاغِرَۃِ أَفْوَاهَهَا، وَحَیَّاتِهَا الصَّالِقَۃِ بِأَنْیَابِهَا، وَشَرَابِهَا الَّذِي یُقَطِّعُ أَمْعَآئَ وَأَفْئِدَۃَ سُکَّانِهَا، وَیَنْزِعُ قُلُوْبَهُمْ، وأَسْتَهْدِیْکَ لِمَا بَاعَدَ مَنْهَا، وَأَخِّرْ عَنْهَا.
اے اللہ میں تجھ سے پناہ مانگتا ہوں جہنم کے ان بچھوؤں سے جن کے منہ کھلے ہوں گے، اور ان سانپوں سے جو دانتوں کو پیس پیس کر پھنکار رہے ہوں گے، اور اس کے کھولتے ہوئے پانی سے جو انتڑیوں اور دلوں کے ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا اور سینوں کو چیر کر دلوں کو نکال دے گا۔
اپنے قلب سیاہ اور جامد آنکھوں کی بارگاہ الٰہی میں شکایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
إِلٰهِي إِلَیْکَ أَشْکُوْ قَلْبًا قَاسِیًا، مَعَ الْوَسْوَاسِ مُتَقَلِّبًا، وَبِالرَّیْنِ وَالطَّبْعِ مُتَلَبِّسًا وَعَیْنًا عَنِ الْبُکَائِ مَنْ خَوْفِکَ جَامِدَۃً، وَإِلٰی مَا یَسُرُّهَا طَامِحَۃً.
اے میرے معبود! میں تجھ سے سیاہ قلب کی شکایت کرتا ہوں اور بدلنے والے وسوسوں کی شکایت کرتا ہوں جو رنگ و تیرگی سے آلودہ ہیں، اس آنکھ کی شکایت کرتا ہوں جو تیرے خوف میں گریہ نہیں کرتی اور جو چیز اچھی لگے اس سے خوشی ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی شان ربوبیت کی طرف اشادہ کر کے عفو و درگزر طلب کرتے ہیں:
إِلٰهِي رَبَّیْتَنِي فِي نِعَمِکَ وَإِحْسَانِکَ صَغِیْرًا، وَنَوَّهْتَ بِاسْمِي کَبِیْرًا، فَیَا مَنْ رَبَّانِيْ فِي الدُّنْیَا بِإِحْسَانِهٖ وَتَفَضُّلِهٖ وَنِعَمِهٖ، وَأَشَارَ لِي فِي الْآخِرَۃِ إِلٰی عَفْوِهٖ وَکَرَمِهٖ.
اے اللہ! جب میں بچہ تھا تو نے مجھے اپنی نعمت اور احسان کے ساتھ پالا اور جب میں بڑا ہوا تو مجھے شہرت عطا کی پس اے وہ ذات جس نے دنیا میں مجھے اپنے احسان نعمت اور عطا سے پرورش کیا اور آخرت میں مجھے اپنے عفو و کرم کا اشارہ دیا ہے۔
پھر اللہ رب العزت سے ہم کلام ہوتے ہوئے فرماتے ہیں:
اَللّٰهُمَّ أَنْتَ رَبِّي، وَأَنَا عَبْدُکَ، وَأَحَقُّ مَنْ سَأَلَ الْعَبْدُ رَبَّهٗ، وَلَمْ یَسْأَلِ الْعِبَادُ مِثْلَکَ کَرَمًا وَجُوْدًا.
اے معبود! تو میرا پروردگار اور میں تیرا بندہ ہوں اور بندے کو زیادہ حق ہے کہ اپنے پروردگار سے سوال کرے اور بندوں سے تیرے جیسے کرم و بخشش کا سوال نہیں کیا جا سکتا۔
حقیقت یہ ہے کہ آپؓ کی مناجات، دعائیں، التجائیں بندوں کو مولیٰ سے ہم کلام ہونے کا ایسا سلیقہ اور قرینہ عطا کرتی ہیں کہ توبہ کی راہ کا ہر مسافر حسبِ حال ان سے مستفیض ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved