اللہ تعالیٰ کی بارگاہ بلاتخصیص ہر خاص و عام کے لئے ہر وقت کھلی ہے۔ جو چاہے اس کے حضور حاضر ہو اور اپنی التجا پیش کرکے مراد حاصل کر لے۔ دنیا کے بادشاہوں اور حکمرانوں کا معاملہ یکسر مختلف ہے۔ اولاً ہر کسی کو ملاقات کی اجازت نہیں ہوتی۔ ثانیاً مخصوص لوگوں کو اگر شرف باریابی ملے بھی تو اس کا دورانیہ نہایت مختصر اور مخصوص ہوتا ہے۔ ثالثاً یہ ضروری نہیں کہ ملاقات سے مقصد بھی حاصل ہو جائے بلکہ عین ممکن ہے سائل عتاب کا سزاوار ٹھہرے۔ پھر مخصوص آدابِ ملاقات بجا لانا بھی ضروری ہیں جن کے بغیر ملاقات کا تصور بھی محال ہے اور آج کل تو سکیورٹی معاملات نے ملاقات کا تصور ہی ختم کر دیا ہے۔ الغرض دنیوی حکمرانوں تک رسائی کے لئے حدود و قیود اس قدر زیادہ ہوتی ہیں کہ عام انسان ان سے ملاقات کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔
ان عارضی اور فانی حکمرانوں کے برعکس کون و مکاں کے مالکِ لاشریک کی بارگاہ کے جود و سخا کا عالم ملاحظہ کریں کہ روزمرہ کی ایک ادنیٰ سی مشکل کے حل سے لے کر زندگی کی مہلت طلب کرنے تک نہ وقت کی قید ہے نہ مقام و مرتبہ کی، نہ امیر و غریب میں کوئی فرق ہے نہ مالک و ماتحت میں، جوانی ہو یا بڑھاپا، شرقی ہو یا غربی، گورا ہو یا کالا سب برابر ہیں۔ پھر حاضری کے آداب بھی کوئی خاص نہیں۔ اپنے اعمال میں جیسے بھی کوئی لت پت ہو، دو جہانوں کے بادشاہ کا در کھلا ہے۔ بلا جھجک آجائے۔ یہ مالک ایسا ہے کہ کوئی مانگے تو خوش ہوتا ہے، نہ مانگے تو ناراض۔ دلوں کے بھیدوں سے آگاہ ہو کر بھی مانگنے والے کا پردہ رکھتا ہے۔ بار بار وعدہ خلافی کے باوجود بھی درگزر کرنے پر آمادہ رہتا ہے۔ بس ایک ہی شرط ہے کہ اپنی التجاؤں میں سچے ہو کر آؤ۔ کیسا مالک ہے! شرط بھی لگائی تو وہ بھی بندوں کی اپنی بھلائی کے لئے۔ اے بندے! اپنی طلب میں مخلص ہو کر آ تاکہ اس کی بارگاہ سے تو سو فیصد اپنا مقصد حاصل کر سکے۔
یوں تو اللہ تعالیٰ کا درِ مغفرت ہر کسی کے لئے ہر وقت کھلا ہے لیکن بعض ایام اور اوقات ایسے بھی ہیں جب مولیٰ کی رحمت کی رم جھم اپنے کمال پر ہوتی ہے۔ یہی وہ لمحات ہیں جن سے گنہگار اللہ رب العزت کی بے حد و حساب لطف و عطا سے بڑھ چڑھ کر مستفیض ہو سکتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ اللہ تعالیٰ کی بخشش و عنایات کی لُوٹ سیل کے روحانی موسم ہیں۔ یہ عام معمول ہے کہ لوگ لُوٹ سیل کے دنوں کا انتظار کرتے ہیں، پھر جونہی بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورز لُوٹ سیل کا اعلان کرتے ہیں تو لوگ سال بھر کی خریداری ان مخصوص ایام میں رعایتی نرخوں پر کر لیتے ہیں۔ اسی طرح بلامثال اللہ تعالیٰ کی رحمت کی تقسیم کے خاص ایام بھی ہیں جنہیں روحانی موسم بھی کہا جا سکتا ہے۔ جب ان ایام میں مولیٰ کی رحمت گنہگاروں پر برسنے کے لئے اپنے جوبن پر ہوتی ہے، تو پھر گناہوں کی بخشش کے سلسلے میں اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا جائے۔
مالکِ کائنات نے اپنی عطا کو یہاں تک ہی محدود نہیں رکھا بلکہ اس عام بخشش و مغفرت کے ساتھ ساتھ ہر ایک کی توجہ ان روحانی موسموں کی طرف بھی مبذول کرائی ہے۔ جب اس کا ابرِ رحمت موسلا دھار بارش کی طرح برسنے کے لئے مستی میں جھوم رہا ہوتا ہے کہ کب سائل اپنی طلب کے جام اس کی طرف بڑھاتے ہیں۔
یہ روز مرہ کا مشاہدہ ہے۔ کوئی بھی موسم سدا ایک سا نہیں رہتا۔ کبھی گرمی ہے تو کبھی سردی۔ کبھی خزاں ہے تو کبھی بہار۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
اللہ تعالیٰ نے حرکت میں زندگی رکھی ہے، یہ ٹھہر جائے تو موت۔ ہر موسم کی اپنی خوبیاں ہیں۔ خزاں بظاہر ویرانی کا منظر پیش کرتی ہے لیکن حقیقت یہ نہیں۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ یہ جلی ہوئی خشک ٹہنیوں اور مردہ پتوں کو اتار پھینکتی ہے تاکہ بہار کے موسم میں ان کی جگہ نئی کونپلیں، نئے پتے، ٹہنیاں اور پھول اُگیں اور یوں ہر سو ہریالی کا راج ہو جائے۔
تصور کریں اگر ہر طرف اور ہمہ وقت ایک ہی موسم رہتا تو یہ دنیا کب کی ختم ہوچکی ہوتی۔ موسموں کا یہ تغیر و تبدل دراصل زندگی کی علامت ہے۔ اسی طرح اللہ رب العزت نے روحانی دنیا میں روحانی موسم بنائے ہیں۔ انسانی اعمال کی مثال بھی ایک روحانی شجر کی سی ہے۔ انسان کی مسلسل نافرمانیاں، گمراہیاں، کوتاہیاں اور بد اعمالیاں اس روحانی شجر کو نہ صرف بدنما کر دیتی ہیں بلکہ ان گناہوں کے سبب انسانی اعمال کے درخت کے پتے، پھول اور ٹہنیاں گل سڑ جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ جو مخلوق کا پالنے والا ہے وہ ظاہری حیات کی طرح باطنی حیات پر بھی بدرجہ اولیٰ اپنی توجہ کی نظر فرماتا ہے۔ جیسے موسم خزاں کی خوبی ہے کہ یہ تیز ہواؤں سے گلے سڑے اور جلے ہوئے پتوں اور ٹہنیوں کو گرا دیتا ہے۔ اسی طرح باطنی دنیا میں بھی ایسے موسم آتے ہیں جن میں اللہ رب العزت کی بخشش و مغفرت کی ایسی ہوائیں چلتی ہیں کہ گناہوں کے باعث انسانی اعمال کے گلے سڑے اور جلے پتے جھڑ جاتے ہیں۔ یوں اس کے بندے گناہوں سے پاک ہو کر از سرِ نو مولیٰ کی بندگی میں تازہ دم ہو کر مصروف عمل ہو جاتے ہیں۔
ایک دوسرے رخ سے مشاہدہ کیا جائے کہ زمینیں بظاہر ایک سی نظر آتی ہیں لیکن ان کی تاثیر میں فرق ہے۔ کوئی زمین کسی خاص فصل اور پھول و پھل کے لئے موزوں اور مشہور ہے تو کوئی خطۂ زمین کسی دوسری فصل اور پھول و پھل کے لئے مشہور اور موزوں۔ یہی فرق آب و ہوا میں نظر آتا ہے جس کے باعث زمینی خطوں کی شادابی میں بھی فرق ہے۔ اسی طرح دنیا کے ممالک کی آب و ہوا کا مشاہدہ کیا جائے تو وہاں یہی فرق اور واضح نظر آتا ہے۔ بس زمین کی طرح انسانی قلوب میں بھی یہی امر کار فرما ہے۔ ان چند مثالوں سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ جب خاص ساعتوں، دنوں، راتوں اور مہینوں کی افادیت و اہمیت کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو جدید تعلیم یافتہ طبقہ بلا سوچے سمجھے اعتراض کرتا ہے کہ دن رات مہینے سب ایک سے ہیں۔ ان میں فرق کہاں سے آگیا؟ بعض مقامات خاص کیوں ہوگئے؟ یہ سب ایک خالق کی تخلیق ہے۔ ایسی سوچ در حقیقت لاعلمی کے باعث ہے۔
اب ہم قرآن حکیم کی روشنی میں دیکھتے ہیں کہ ہماری مذکورہ وضاحت محض ایک مفروضہ نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ فضیلت کے باب میں خود اللہ تعالیٰ نے مختلف مقامات، مہ و سال اور اوقات کو خصوصی خیر و برکت کا حامل قرار دیا ہے تاکہ اس کے بندے ان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے احوالِ حیات کو سنوار کر اُخروی نعمتوں سے ہمکنار ہو سکیں۔
1۔ اللہ تعالیٰ سورۃ المائدۃ میں فرماتے ہیں:
یٰـقَوْمِ ادْخُلُوا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللهُ لَکُمْ.
المائدۃ، 5: 21
اے میری قوم! (ملکِ شام یا بیت المقدس کی) اس مقدس سرزمین میں داخل ہو جاؤ جو اللہ نے تمہارے لیے لکھ دی ہے۔
اس آیتِ مقدسہ میں شام یا بیت المقدس کی زمین کو مقدس فرمایا گیا۔
2۔ پھر سورۃ بنی اسرائیل میں شبِ معراج کے ذکر میں فرمایا گیا:
سُبْحٰنَ الَّذِیْٓ اَسْرٰی بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَی الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰـرَکْنَا حَوْلَهٗ.
بنی اسرائیل، 17: 1
وہ ذات (ہر نقص اور کمزوری سے) پاک ہے جو رات کے تھوڑے سے حصہ میں اپنے (محبوب اور مقرّب) بندے کو مسجدِ حرام سے (اس) مسجدِ اقصیٰ تک لے گئی جس کے گرد و نواح کو ہم نے بابرکت بنا دیا ہے۔
یہاں مسجد اقصی کے ارد گرد کے ماحول کو بابرکت کہا گیا ہے۔
3۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے عالم شیرخوارگی میں پنگھوڑے میں لیٹے ارشاد فرمایا:
وَجَعَلَنِیْ مُبٰرَکًا اَیْنَ مَا کُنْتُ.
مریم، 19: 31
اور میں جہاں کہیں بھی رہوں اس نے مجھے سراپا برکت بنایا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں قدموں کے توسل سے جگہ کے مبارک ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا چند آیات سے یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ کچھ مقامات نہ صرف مقدس اور محترم ہوتے ہیں بلکہ ان کا ماحول بھی برکت کا حامل ہوتا ہے۔ چنانچہ مدینہ کو مدینہ طیبہ، مکہ کو مکہ معظمہ کہتے ہیں یا بغداد، اجمیر، پاکپتن کے ساتھ شریف کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو درحقیقت یہ ان مقامات کی عظمت و تقدس کے اظہار کا طریقہ ہے جو عین قرآنی اسلوب کے مطابق ہے۔
4۔ قرآن مجید نے دنوں کی دنوں پر فضیلت کے باب میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کا ذکر کرتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا ہے:
وَسَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَیَوْمَ یَمُوْتُ وَیَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا.
مریم، 19: 15
اور یحییٰ پر سلام ہو ان کے میلاد کے دن اور ان کی وفات کے دن اور جس دن وہ زندہ اٹھائے جائیں گے۔
دن بظاہر ایک جیسے ہیں لیکن یہاں قرآنِ مجید میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کی ولادت کے دن، یوم وصال اور دوبارہ زندہ اٹھائے جانے والے دن کے بابرکت ہونے سے واضح کر دیا گیا کہ مختلف جگہوں دنوں، راتوں اور موسموں کی برکات و تاثیرات جدا جدا ہیں۔ چنانچہ روحانی اعتبار سے ساعتوں، دنوں، راتوں اور مہینوں کی فضیلت اور برکات بھی جدا جدا ہیں۔
اسی طرح مہینوں میں رمضان المبارک کی فضیلت محتاجِ بیان نہیں۔ تقویٰ ایمان کی اعلیٰ ترین حالت ہے۔ اُس کا حصول رمضان المبارک کے روزوں کے ساتھ پیوست کر دیا گیا ہے۔
5۔ ارشاد رب العزت ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَo
البقرۃ، 2: 183
اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔
6۔ ایک دوسرے مقام پر رمضان المبارک کے ماہ کی فضیلت میں ارشاد ہوا:
شَهْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْهِ الْقُرْاٰنُ هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الْهُدٰی وَالْفُرْقَانِ ج فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْیَصُمْهُ ط وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ ط یُرِیْدُ اللهُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلَا یُرِیْدُبِکُمُ الْعُسْرَ وَلِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللهَ عَلٰی مَا هَدٰکُمْ وَلَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَo
البقرۃ، 2: 185
رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اللہ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لیے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔
راتوں میں سے شب قدر کی شان اس قدر بلند ہے کہ صرف اس ایک رات کی عبادت اجر و ثواب میں ہزار مہینوں سے بڑھ کر ہے کیونکہ اس رات قرآن حکیم نازل ہوا تھا۔
7۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اِنَّآ اَنْزَلَنٰهُ فِیْ لَیْلَۃِ الْقَدْرِo وَمَآ اَدْرٰکَ مَا لَیْلَۃُ الْقَدْرِo لَیْلَۃُ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَھْرٍo تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِکَۃُ وَالرُّوْحُ فِیْھَا بِاِذْنِ رَبِّھِمْ ج مِّنْ کُلِّ اَمْرٍo سَلٰمٌ قف ھِیَ حَتّٰی مَطْلَعِ الْفَجْرِo
القدر، 97: 1-5
بے شک ہم نے اس (قرآن) کو شبِ قدر میں اتارا ہے۔ اور آپ کیا سمجھے ہیں (کہ) شبِ قدر کیا ہے؟ شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس (رات) میں فرشتے اور روح الامین (جبرائیل) اپنے رب کے حکم سے (خیر و برکت کے) ہر امر کے ساتھ اترتے ہیں۔ یہ (رات) طلوعِ فجر تک (سراسر) سلامتی ہے۔
8۔ سورۃ الْبَلَد میں اللہ تعالیٰ نے شہر مکہ کی قسم کھا کر اسے بابرکت بنا دیا ہے کہ اس میں حضور نبی اکرم ﷺ تشریف فرما ہوئے، ارشاد ہوا:
لَآ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِo وَ اَنْتَ حِلٌّم بِهٰذَا الْبَلَدِo
البلد، 90: 1-2
میں اس شہر (مکہ) کی قَسم کھاتا ہوں۔ (اے حبیبِ مکرّم!) اس لیے کہ آپ اس شہر میں تشریف فرما ہیں۔
یہ امر قابل غور ہے کہ دیکھنے میں سب انسان برابر نظر آتے ہیں لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے۔ انسانوں میں بھی متقین زیادہ باعزت ہیں۔ اللہ تعالیٰ سورۃ الحجرات میں ارشاد فرماتا ہے:
9۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقٰـکُمْ.
الحجرات، 49: 13
بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگارہو۔
یہ تبدیلی انسان کے باطن میں وقوع پذیر ہوتی ہے جو بظاہر نظر نہیں آتی لیکن بندہ باطن میں زہد و ورع اور پرہیزگاری کے باعث مضبوط سے مضبوط تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ تقویٰ کی منازل طے کرتے کرتے بندہ اس مقام پر پہنچ جاتا ہے کہ اب اگر وہ اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر کسی امر کے بارے میں کہہ دے تو اللہ تعالیٰ اسے پورا کرنا اپنے ذمۂ کرم پر لے لیتا ہے۔
قرآنی آیات کے بعد اب ہم مخصوص مقامات اور ایام کی اہمیت احادیث مبارکہ کے حوالے سے بیان کرتے ہیں۔ یہ امر قارئین کے لئے نہایت خوش کن دلچسپی کا باعث ہو گا کہ احادیث نبوی میں نہ صرف مخصوص دنوں، راتوں اور ساعتوں کا ذکر ملتا ہے بلکہ عملِ رسول مکرم ﷺ سے ان کی اہمیت و افادیت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے۔ ہمارا یہ روزمرہ کا مشاہدہ ہے کہ بظاہر انسانی ساخت میں ایک جیسے دو انسان ہیں۔ اعمالِ بد کے باعث ایک کی درخواست رد کر دی جاتی ہے جبکہ تقویٰ کا حامل بندہ درخواست کرنے کے بجائے اپنے مالک حقیقی کے بھروسے پر کسی کام کے ہو جانے کے لئے قسم کھا لے تب بھی اس کی خواہش کا احترام کیا جاتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ کی حدیث مبارکہ جسے حضرت حارثہ بن وہب خزاعی روایت کرتے ہیں نقل کی جاتی ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کے گمنام ولی و صالح بندے کی فضیلت کا علم ہو سکے۔
1۔ حضرت حارثہ بن وہب خزاعی رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِأَهْلِ الْجَنَّۃِ؟ کُلُّ ضَعِیْفٍ مُتَضَعِّفٍ لَوْ أَقْسَمَ عَلَی اللهِ لَأَبَرَّهُ، أَلَا أُخْبِرُکُمْ بِأَهْلِ النَّارِ؟ کُلُّ عُتُلٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَکْبِرٍ.
کیا میں تمہیں اہلِ جنت کی پہچان نہ بتاؤں؟ ہر کمزور اور حقیر سمجھا جانے والا شخص (مگر ان کا مقام یہ ہوتا ہے کہ) اگر وہ اللہ تعالیٰ کے بھروسے پر قسم کھا بیٹھے تو وہ اسے سچا کر دیتا ہے۔ (پھر فرمایا: ) کیا میں تمہیں دوزخیوں کی پہچان نہ بتا دوں؟ ہر سخت مزاج، جھگڑالو اور مغرور شخص۔
اس ساری وضاحت سے یہ امر واضح کرنا مقصود تھا کہ وہ شخص خوش نصیب ہے جس کی زندگی میں روحانی موسموں کی خوش بخت ساعتیں میسر آئیں جن کی تفصیل ذیل میں بیان کی جا رہی ہے۔ لہٰذا جب اللہ تعالیٰ کے بحر کرم کی لہریں اپنے جوبن پر ہوتی ہیں تو اس وقت بخشش و مغفرت کا دستِ سوال دراز کرنے میں کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کرنا چاہئے۔
2۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَنْ أَحْیَا اللَّیَالِيَ الْخَمْسَ وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّۃُ، لَیْلَۃَ التَّرْوِیَۃِ، وَلَیْلَۃَ عَرَفَۃَ، وَلَیْلَۃَ النَّحْرِ، وَلَیْلَۃَ الْفِطْرِ وَلَیْلَۃَ النِّصْفٍ مِنْ شَعْبَانَ.
منذری، الترغیب والترھیب، 2: 98، رقم: 1656
جس نے پانچ راتوں کو زندہ کیا (بیدار ہو کر عبادت کی) اس کے لئے جنت واجب ہو گئی یہ راتیں ذوالحجہ کی آٹھویں رات، عرفہ کی رات، قربانی کی رات، عید الفطر کی رات اور نصف شعبان کی رات۔
3۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
أَرْبَعُ لَیَالِیْهِنَّ کَأَیَّامِهِنَّ، وَأَیَّامُهُنَّ کَلِیَالِیْهِنَّ، یَبَرَّ اللهُ فِیْهِنَّ الْقَسَمَ، وَیُعْتِقْ فِیْهِنَّ النَّسَمَ، وَیُعْطِي فِیْهِنَّ الْجَزِیْلَ، لَیْلَۃُ الْقَدْرِ وَصَبَاحُهَا، وَلَیْلَۃُ عَرَفَۃَ وَصَبَاحُهَا، وَلَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَصَبَاحُهَا، وَلَیْلَۃُ الْجُمُعَۃِ وَصَبَاحُهَا.
ہندی، کنز العمال، 12: 578، رقم: 35214
چار راتیں اپنے دنوں کی طرح اور دن اپنی راتوں کی طرح ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان میں برأت تقسیم کرتا ہے۔ گنہگاروں کو عذاب سے رہائی عطا فرماتا ہے اور ان میں اللہ تعالیٰ عمل کرنے والوں کو ثواب عطا فرماتا ہے۔ (وہ رات اور دن یہ ہیں: ) لیلۃ القدر اور اس کا دن، عرفہ کی رات اور اس کا دن، پندرہ شعبان کی رات اور اس کا دن، جمعہ کی رات اور اس کا دن۔
4۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے یوم جمعہ کے بارے میں ارشاد فرمایا:
إِنَّ هَذَا یَوْمُ عِیْدٍ جَعَلَهُ اللهُ لِلْمُسْلِمِیْنَ.
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لئے جمعہ کے دن کو عید کا دن بنایا ہے۔
یومِ جمعہ کی جملہ فضیلتوں کے علاوہ اس کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس دن درود و سلام حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اَقدس میں پیش کیا جاتا ہے۔
5۔ حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ مِنْ أَفْضَلِ أَیَّامِکُمْ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ، فِیْهِ خُلِقَ آدَمُ، وَفِیْهِ قُبِضَ، وَفِیْهِ النَّفْخَۃُ، وَفِیْهِ الصَّعْقَۃُ، فَأَکْثِرُوْا عَلَيَّ مِنَ الصَّلَاۃِ فِیْهِ، فَإِنَّ صَلَاتَکُمْ مَعْرُوْضَۃٌ عَلَيَّ، قَالَ: قَالُوْا: یَا رَسُوْلَ اللهِ! کَیْفَ تُعْرَضُ صَـلَاتُنَا عَلَیْکَ وَقَدْ أَرِمْتَ؟ قَالَ: یَقُوْلُوْنَ: بَلِیْتَ. قَالَ: إِنَّ اللهَ تعالیٰ حَرَّمَ عَلَی الْأَرْضِ أَجْسَادَ الْأَنْبِیَاءِ.
بے شک تمہارے ایام میں سے جمعہ کا دن سب سے بہتر ہے۔ اس دن حضرت آدم علیہ السلام پیدا ہوئے اور اسی دن انہوں نے وفات پائی اور اسی دن صور پھونکا جائے گا اور اسی دن سخت آواز ظاہر ہو گی۔ پس اس دن مجھ پر کثرت سے درود بھیجا کرو کیونکہ تمہارا درود مجھے پیش کیا جاتا ہے۔ صحابہ کرام l نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارا درود آپ کے وصال کے بعد آپ کو کیسے پیش کیا جائے گا، جبکہ آپ کا جسدِ مبارک خاک میں مل چکا ہو گا؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیائے کرام کے جسموں کو (کھانا یا کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا) حرام کر دیا ہے۔
یومِ جمعۃ المبارک کی جملہ فضیلتوں میں اس کی ایک فضیلت قبولیت کی اس مخصوص گھڑی کے باعث بھی ہے جس میں اللہ تعالیٰ سے جو مانگا جائے عطا کیا جاتا ہے۔
6۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ فِی الْجُمُعَۃِ لَسَاعَۃً لَا یُوَافِقُهَا مُسْلِمٌ قَائِمٌ یُصَلِّی یَسْأَلُ اللهَ خَیْرًا إِلَّا أَعْطَاهُ إِیَّاهُ. وَقَالَ بِیَدِهٖ یُقَلِّلُهَا یُزَهِدُهَا.
جمعہ کے دن ایک ایسی ساعت ہوتی ہے جس کو جو بندہ مسلم پا لے درآں حالیکہ وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھ رہا ہو، وہ اللہ تعالیٰ سے جس چیز کا بھی سوال کرے گا اللہ تعالیٰ اُسے عطا فرمائے گا۔ راوی ہاتھ سے اس وقت کی کمی کا اشارہ کرتے اور اس کی طرف رغبت دلاتے تھے۔
اسی طرح مہینوں میں رمضان المبارک کی فضیلت محتاجِ بیان نہیں۔ اس میں پھر آخری عشرہ مزید فضیلت کا حامل ہے اور آخری عشرہ میں طاق راتیں فضیلت کے باب میں بڑھ کر افضل ہیں۔ پھر شبِ قدر اس قدر فضیلت و برکت کی حامل ہے کہ یہ ایک رات ہزار مہینوں سے افضل تر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مکمل سورہ مبارکہ بعنوان سورۃ القدر اس رات کی شان میں نازل فرمائی۔
روحانی فضیلت کے اعتبار سے شب قدر سے بڑھ کر اور کوئی رات نہیں ہے۔
7۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنَّ اللهَ تعالیٰ وَهَبَ لِأُمَّتِيْ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ وَلَمْ یُعْطِهَا مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ.
بے شک اللہ تعالیٰ نے میری امت کو لیلۃ القدر عطا فرمائی ہے جو کہ پہلی امتوں کو نہیں ملی۔
8۔ حضرت امام مالکؒ نے ’موطأ‘ میں اور بیہقی نے ’شعب الایمان‘ میں روایت نقل کی ہے:
إِنَّ رَسُولَ اللہ ﷺ أُرِیَ أَعْمَارَ النَّاسِ قَبْلَهٗ أَوْ مَا شَائَ اللهُ مِنْ ذَلِکَ فَکَأَنَّهٗ تَقَاصَرَ أَعْمَارَ أُمَّتِهٖ أَنْ لَا یَبْلُغُوا مِنَ الْعَمَلِ مِثْلَ الَّذِی بَلَغَ غَیْرُهُمْ فِی طُولِ الْعُمْرِ فَأَعْطَاهُ اللهُ لَیْلَۃَ الْقَدْرِ خَیْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ.
رسول اللہ ﷺ نے لوگوں کے اعمال کو ملاحظہ فرمایا تو آپ ﷺ نے دیکھا کہ ان کی عمریں کم ہیں اور ان کے اعمال دیگر امتوں کے اعمال تک نہیں پہنچتے تو اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو لیلۃ القدر عطا فرمائی جو کہ ہزار مہینوں سے افضل ہے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ بعض کو بعض پر فضیلت دینا سنتِ الٰہیہ ہے۔ راتوں میں لیلۃ القدر، دنوں میں جمعۃ المبارک، جگہوں میں کعبۃ اللہ اور مسجد نبوی اور ان سے بڑھ کر گنبد خضریٰ میں مزار مقدس کی جگہ اور کل مخلوق میں سرکار دو عالم ﷺ کی ذات اقدس کو فضیلت حاصل ہے۔
9۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے صحیح روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا کہ اگر میں لیلۃ القدر کو پالوں تو کیا کہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس طرح کہہ:
اَللّٰھُمَّ إِنَّکَ عَفَّوٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي.
اے اللہ! تو معاف فرمانے والا ہے، معافی کو پسند کرتا ہے پس تو مجھے معاف فرما دے۔
10۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا کَانَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ نَزَلَ جِبْرِیْلُ علیہ السلام فِيْ کَبْکَبَۃٍ مِنَ الْمَلَائِکَۃِ، یُصَلُّوْنَ عَلٰی کُلِّ عَبْدٍ قَائِمٍ أَوْ قَاعِدٍ یَذْکُرُ اللهَ تعالیٰ، فَإِذَا کَانَ یَوْمُ عِیْدِهِمْ یَعْنِی یَوْمَ فِطْرِهِمْ بَاهَی بِهِمْ مَلَائِکتَهٗ، فَقَالَ: یَا مَلائِکَتِيْ مَا جَزَائُ أَجِیْرٍ وَفَّی عَمَلَهٗ؟ قَالُوْا: رَبَّنَا، جَزَاؤُهٗ أَنْ یُؤْتٰی أَجْرُهٗ، قال: یَا مَلَائِکَتِي، عَبِیْدِيْ وَإِمَائِي قَضَوْا فَرِیْضَتِيْ عَلَیْهِمْ ثُمَّ خَرَجُوْا یَعُجُّوْنَ إِلَيَّ بِالدُّعَاءِ، وَعِزَّتِيْ وَجَلَالِيْ وَکَرَمِي وَعَلَوِيْ وَارْتِفَاعِ مَکَانِي لَأُجِیْبَنَّهُمْ، فَیَقُوْلُ: ارْجِعُوْا فَقَدْ غَفَرْتُ لَکُمْ، وَبَدَلْتُ سَیِّئَاتِکُمْ حَسَنَاتٍ، قَالَ: فَیَرْجِعُوْنَ مَغْفُوْرًا لَهُمْ.
جب شب قدر ہوتی ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام فرشتوں کی جماعت کے ساتھ نازل ہوتے ہیں اور ہر کھڑے اور بیٹھے ہوئے اللہ تعالیٰ کے ذکر کرنے والے کو سلام کہتے ہیں۔ اور جب ان کی عید کا دن ہوتا ہے تو ان کے پاس فرشتے آتے ہیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے فرشتو! ان کے عمل کا ان کو اجر دو۔ تو وہ عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ان کی جزا یہ ہے کہ ان کو پورا پورا اجر دیا جائے تو اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ میرے بندوں اور بندیوں نے میرے فرائض پورے کئے پھر وہ دعائیں کرتے ہوئے نکلے، مجھے میری عزت و جلال، کرم و بلندی اور میرے بلند مقام کی قسم، میں ان کی دعاؤں کو قبول کرتا ہوں اور ان سے کہتا ہوں لوٹ جاؤ، اس حال میں کہ میں نے تمہیں بخش دیا اور تمہارے گناہوں کو تمہاری نیکیوں میں تبدیل کر دیا۔ پس وہ لوگ بخشے ہوئے واپس لوٹتے ہیں۔
11۔ حضرت امام جعفر بن علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب ماهِ رمضان کا چاند طلوع ہوتا تو حضور نبی اکرم ﷺ اس کی طرف رُخِ انور کر کے فرماتے:
اللّٰھُمَّ أَھِلَّهٗ عَلَیْنَا بِالْأَمْنِ، وَالْإِیْمَان، وَالسَّلَامَۃِ، وَالْإِسْلَامِ، وَالْعَافِیَۃِ الْمُجَلَّلَۃِ، وَدِفَاعِ الْأَسْقَامِ، وَالْعَوْنِ عَلَی الصَّلٰوۃِ وَالصِّیَامِ وَتِلَاوَۃِ الْقُرْآنِ. اللّٰھُمَّ سَلِّمْنَا لِرَمَضَانَ، وَسَلِّمْهُ لَنَا، وَسَلِّمْهُ مِنَّا حَتّٰی یَخْرُجَ رَمَضَانُ وَقَدْ غَفَرْتَ لَنَا، وَرَحِمْتَنَا، وَعَفَوْتَ عَنَّا.
اے اللہ! اس چاند کو ہمارے لئے امن، ایمان، سلامتی اور سر جھکانے والا اور واضح عافیت اور بیماریوں سے نجات اور نماز اور روزے اور تلاوت قرآن پر مددگار بنا دے۔ اے اللہ! ہمیں رمضان کے لئے سلامت رکھ، اسے ہمارے لئے سلامتی عطا فرما، اور ہماری طرف سے سلامتی عطا فرما یہاں تک کہ رمضان رخصت ہو جائے اور تو ہمیں بخش دے۔ ہم پر رحمت کر اور ہم سے درگزر فرما۔
پھر لوگوں کی طرف رخ زیبا کرتے اور فرماتے:
أَیُّهَا النَّاسُ، إِنَّهٗ إِذَا أَهَلَّ هِلَالُ شَهْرِ رَمَضَانَ غُلَّتْ فِیْهِ مَرَدَۃُ شَیَاطِیْنَ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ الْجَحِیْمِ، وَفُتِحَتْ أَبْوَابُ الرَّحْمَۃِ، وَنَادَی مُنَادٍ مِنَ السَّمَائِ کُلَّ لَیْلَۃٍ هَلْ مِنْ سَائِلٍ؟ هَلْ مِنْ تَائِبٍ؟ هَلْ مِنْ مُسْتَغْفِرٍ؟ اللّٰهُمَّ، أَعْطِ کُلَّ مُنْفِقٍ خَلَفًا، وَکُلَّ مُمْسِکٍ تَلَفًا، حَتّٰی کَانَ إِذَا کَانَ یَوْمُ الْفِطْرِ نَادَی مُنَادٍ مِنَ السَّمَائِ: هٰذَا یَوْمُ الْجَائِزَۃِ فَاغْذُوْا فَخُذُوْا جَوَائِزَکُمْ.
اے لوگو! جب رمضان کا چاند طلوع ہوتا ہے تو اس میں خبیث شیاطین کو طوق ڈال دیے جاتے ہیں۔ جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور رحمت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ہر رات آسمان دنیا سے پکارنے والا پکارتا ہے کہ ہے کوئی مانگنے والا؟ ہے کوئی توبہ کرنے والا؟ ہے کوئی بخشش مانگنے والا؟ اے اللہ! ہر خرچ کرنے والے کو عطا فرما اور ہر روکنے والے کو تلف فرما، یہاں تک کہ عید الفطر کا دن آتا ہے تو آسمانِ دنیا سے پکارنے والا پکارتا ہے: یہ انعام کا دن ہے دوڑو اور اپنے انعام حاصل کرو۔
شب قدر کے بعد ایک اور بڑی رحمت اور برکت والی رات شب براء ت ہے۔ یہ رات شعبان المعظم کی پندرھویں شب ہے۔
12۔ امام بیہقی نے حضرت عثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِذَا کَانَ لَیْلَۃُ النِّصف مِنْ شَعْبَانَ فَإِذَا مُنَادٍ هَل مِنْ مُسْتَغْفِرٍ؟ فَأَغْفِرَ لَهٗ، هَلْ مِنْ سَائِلٍ؟ فَأُعْطِیَهٗ، فَلَا یَسْئَلُ أَحَدٌ إِلَّا أُعْطِيَ إِلَّا زَانِیَۃٌ بِفَرْجِهَا أَوْ مُشْرِکٌ.
جب نصف شعبان کی شب آتی ہے تو ندا کرنے والا پکارتا ہے: کوئی ہے جو گناہوں سے مغفرت چاہے؟ میں اسے معاف کردوں۔ کوئی مانگنے والا ہے کہ اسے عطا فرماؤں؟ پس کوئی سائل ایسا نہیں مگر اسے ضرور دیا جاتا ہے، بجز زانیہ عورت یا مشرک کے۔
13۔ امام ابن ماجہ نے حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ جناب سرکارِ دو عالم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا کَانَتْ لَیْلَۃُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَقُومُوا لَیْلَهَا وَصُومُوا نَهَارَهَا، فَإِنَّ اللهَ یَنْزِلُ فِیهَا لِغُرُوبِ الشَّمْسِ إِلَی سَمَاءِ الدُّنْیَا، فَیَقُولُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِی؟ فَأَغْفِرَ لَهُ، أَلَا مُسْتَرْزِقٌ؟ فَأَرْزُقَهُ، أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِیَهُ، أَلَا کَذَا، أَلَا کَذَا حَتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ.
جب شعبان کی پندرھویں رات ہو تو رات کو قیام کرو اور دن میں روزہ رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات سورج غروب ہوتے ہی آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور فرماتا ہے: کون مجھ سے مغفرت طلب کرتا ہے کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کون مجھ سے رزق طلب کرتا ہے کہ میں اسے رزق دوں؟ کون مبتلائے مصیبت ہے کہ میں اسے عافیت دوں؟ اسی طرح صبح تک ارشاد ہوتا رہتا ہے۔
14۔ حضرت ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
فَقَدْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ لَیْلَۃً، فَخَرَجْتُ فَإِذَا هُوَ بِالْبَقِیعِ، فَقَالَ: أَکُنْتِ تَخَافِینَ أَنْ یَحِیفَ اللهُ عَلَیْکِ وَرَسُولُهُ؟ قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ! إِنِّي ظَنَنْتُ أَنَّکَ أَتَیْتَ بَعْضَ نِسَائِکَ، فَقَالَ: إِنَّ اللهَ تعالیٰ یَنْزِلُ لَیْلَۃَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا فَیَغْفِرُ لِأَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ.
ایک رات میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو نہ پایا تو میں آپ کی تلاش میں نکلی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ آپ ﷺ جنت البقیع میں ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تجھے ڈر ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تجھ پر ظلم کرے گا؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے سوچا شاید آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات کو آسمان دنیا پر (جیسا کہ اس کی شایاں شان ہے) اترتا ہے اور بنو کلب قبیلہ کی بکریوں کے بالوں سے زیادہ لوگوں کو بخشتا ہے۔
15۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا:
لَمْ أَرَکَ تَصُومُ شَهْرًا مِنَ الشُّهُورِ مَا تَصُومُ مِنْ شَعْبَانَ؟ قَالَ: ذٰلِکَ شَهْرٌ یَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ بَیْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِیْهِ الْأَعْمَالُ إِلَی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ، فَأُحِبُّ أَنْ یُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ.
نسائی، السنن، کتاب الصیام، باب صوم النبی، 4: 150، رقم: 2357
(یا رسول اللہ!) میں آپ کو سب مہینوں سے زیادہ شعبان المعظم کے مہینے میں روزے رکھتے دیکھتا ہوں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: یہ وہ مقدس مہینہ ہے جس سے لوگ غافل اور سست ہیں۔ رجب اور رمضان المبارک کے درمیان یہ وہ مہینہ ہے جس میں آدمی کے اعمال اللہ تعالیٰ کے پاس پہنچائے جاتے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ جب میرا عمل اٹھایا جائے تو میں حالت روزہ سے ہوں۔
16۔ حضرت امام طاؤس یمانی فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن بن علی ﷺ سے پندرہ شعبان کی رات اور اس میں عمل کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
میں اس رات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں۔ ایک حصہ میں اپنے نانا جان ﷺ پر درود شریف پڑھتا ہوں، یہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل میں کرتا ہوں کہ اس نے حکم دیا: {یٰٓـاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًاo (الأحزاب، 33: 56)} ’اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو۔‘، رات کے دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ سے استغفار کرتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے اس حکم پر عمل کرتے ہوئے کہ اس نے حکم فرمایا: {وَمَا کَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَo (الأنفال، 8: 33)} ’اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں۔‘ اور رات کے تیسرے حصہ میں نماز پڑھتا ہوں، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے: {وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْo (العلق، 96: 19)} ’اور (اے حبیبِ مکرّم!) آپ سر بسجود رہئے اور (ہم سے مزید) قریب ہوتے جائیے۔‘ میں نے عرض کیا: جو شخص یہ عمل کرے اس کے لئے کیا ثواب ہو گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سنا آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے پندرہ شعبان کی رات کو زندہ کیا اس کو مقربین میں لکھ دیا جاتا ہے۔ یعنی ان لوگوں میں کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {فَاَمَّآ اِنْ کَانَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَo (الواقعۃ، 56: 88)} ’پھر اگر وہ (وفات پانے والا) مقرّبین میں سے تھا۔‘
سخاوی، القول البدیع فی الصلاۃ علی الحبیب الشفیع: 208-209
پندرھویں شعبان المعظم کی رات کی فضیلت پر دیگر بہت سی احادیث روایت کی گئی ہیں۔ تاہم مضمون کے تکرار سے اجتناب کرتے ہوئے اسی پر اکتفا کیا گیا ہے۔
بہت سے مفسرین نے سورہ الدخان کی دوسری آیت {اِنَّـآ اَنْزَلْنٰهُ فِیْ لَیْلَۃٍ مُّبٰـرَکَۃٍ} کی تفسیر میں نصف شعبان کی رات کی درج ذیل خصوصیات بیان کی ہیں:
1۔ اس رات میں ہر کام کا فیصلہ ہوتا ہے
2۔ اس رات میں عبادت کرنے کی فضیلت ہے
3۔ اس رات میں رحمت کا نزول ہوتا ہے
4۔ اس رات میں شفاعت کا اہتمام ہوتا ہے۔
5۔ اس رات بندوں کے لئے بخشش کا پروانہ لکھ دیا جاتا ہے۔
هٰذِهِ اللَّیْلَۃُ مُخْتَصَّۃٌ بِخَمْسِ خِصَالٍ: اَلأَوَّلُ: تَفْرِیْقُ کُلِّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ فِیْهَا، قَالَ تَعَالٰی: {فِیْھَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ(الدخان، 44: 3)}. وَالثَّانِیَۃُ: فَضِیْلَۃُ الْعِبَادَۃِ فِیْهَا، قَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَنْ صَلّٰی فِي هٰذِهِ اللَّیْلَۃِ مِائَۃَ رَکْعَۃٍ أَرْسَلَ اللهُ إِلَیْهِ مِائَۃَ مَلَکٍ ثَـلَاثُوْنَ یُبَشِّرُوْنَهٗ بِالْجَنَّۃِ، وَثَـلَاثُوْنَ یُؤَمِّنُوْنَهٗ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَثَـلَاثُوْنَ یَدْفَعُوْنَ عَنْهُ آفَاتِ الدُّنْیَا، وَعَشَرَۃٌ یَدْفَعُوْنَ عَنْهُ مَکَایِدَ الشَّیْطَانِ. اَلْخَصْلَۃُ الثَّالِثَۃُ: نُزُولُ الرَّحْمَۃِ، قَالَ عَلَیْهِ السَّلَامُ: إِنَّ اللهَ یَرْحَمُ أُمَّتِي فِي هٰذِهِ اللَّیْلَۃِ بِعَدَدِ شَعْرِ أَغْنَامِ بَنِي کَلْبٍ. وَالْخَصْلَۃُ الرَّابِعَۃُ: حُصُوْلُ الْمَغْفِرَۃِ، قَالَ ﷺ: إِنَّ اللهَ تَعَالٰی یَغْفِرُ لِجَمِیْعِ الْمُسْلِمِیْنَ فِي تِلْکَ اللَّیْلَۃِ، إِلَّا لِکَاهِنٍ، أَوْ مُشَاحِنٍ، أَوْ مُدْمِنِ خَمْرٍ، أَوْ عَاقٍّ لِلْوَالِدَیْنِ، أَوْ مُصِرٍّ عَلَی الزِّنَا. وَالْخَصْلَۃُ الْخَامِسَۃُ: أَنَّهٗ تَعَالٰی أَعْطٰی رَسُوْلَهٗ ﷺ فِي هٰذِهِ اللَّیْلَۃِ تَمَامَ الشَّفَاعَۃِ، وَذٰلِکَ أَنَّهٗ ﷺ سَأَلَ لَیْلَۃَ الثَّالِثَ عَشَرَ مِنْ شَعْبَانَ فِي أُمَّتِهٖ فَأُعْطِيَ الثُّلُثَ مِنْهَا، ثُمَّ سَأَلَ لَیْلَۃَ الرَّابِعَ عَشَرَ، فَأُعْطِيَ الثُّلُثَیْنِ، ثُمَّ سَأَلَ لَیْلَۃَ الْخَامِسَ عَشَرَ، فَأُعْطِيَ الْجَمِیْعَ إِلَّا مَنْ شَرَدَ عَلَی اللهِ شِرَادَ الْبَعِیرِ.
شبِ برأت کو اللہ تعالیٰ نے پانچ خاص خوبیوں سے مختص فرمایا:
پہلی خاصیت: اس شب میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: {اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتاہے۔}
دوسری خاصیت: اس رات میں عبادت کی فضیلت۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس رات میں جو شخص سو رکعات نماز ادا کرتاہے، اللہ تعالیٰ اس کی طرف سو (100) فرشتے بھیجتا ہے۔ (جن میں سے) تیس فرشتے اسے جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ تیس فرشتے اسے آگ کے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تیس فرشتے آفاتِ دنیاوی سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ اور دس فرشتے اسے شیطانی چالوں سے بچاتے ہیں۔
تیسری خاصیت: رحمتِ الٰہی کا نزول۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: یقینا اللہ تعالیٰ اس رات بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری اُمت پر رحم فرماتا ہے۔
چوتھی خاصیت: گناہوں کی بخشش اور معافی کا حصول۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: بے شک اس رات اللہ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما دیتا ہے، سوائے جادو ٹونہ کرنے والے، بغض و کینہ رکھنے والے، شرابی، والدین کے نافرمان اور بدکاری پر اصرار کرنے والے کے۔
پانچویں خاصیت: اس رات اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولِ کریم ﷺ کو مکمل شفاعت عطا فرمائی۔ اور وہ اس طرح کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے شعبان کی تیرھویں رات اپنی امت کے لیے شفاعت کا سوال کیا تو آپ ﷺ کو تیسرا حصہ عطا فرمایا گیا۔ پھر آپ ﷺ نے شعبان کی چودھویں رات یہی سوال کیا تو آپ ﷺ کو دو تہائی حصہ عطا کیا گیا۔ پھر آپ ﷺ نے شعبان کی پندرہویں رات سوال کیا تو آپ ﷺ کو تمام شفاعت عطا فرما دی گئی سوائے اس شخض کے جو مالک سے بدکے ہوئے اونٹ کی طرح (اپنے مالک حقیقی) اللہ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے (یعنی جو مسلسل نافرمانی پر مصر ہو)۔
اس کے کرم کو بھی توگناہگار چاہئے!
اب تک جو بیان کیا اس سے یہ حقیقت بخوبی سمجھ میں آجاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ تو ہر لمحے اپنے بندے پر اپنی رحمتیں نچھاور کرنے کے لئے تیار رہتا ہے لیکن یہ بندہ ہی ہے جو اسے بھولا ہوا ہے اور یوں اس کی رحمت کو اپنے لئے مشکل بنا رکھا ہے۔ بندے سے جب کوئی گناہ سرزد ہو جاتا ہے تو مولیٰ کریم کی ناراضگی مستقل نہیں ہوتی بلکہ وہ تو منتظر رہتا ہے کہ کب یہ گنہگار بندہ توبہ کے خیال سے اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔
17۔ حدیث مبارکہ میں سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
سَبَقَتْ رَحْمَتِي غَضَبِي.
میری رحمت میرے غضب (وناراضگی) سے سبقت لے گئی۔
18۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
خِیَارُکُم کُلَّ مُفَتَّنٍ تَوَّابٍ.
تم میں سے بہترین آدمی وہ ہے جو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں توبہ کرے۔
یہ امر قابل غور ہے کہ ملاء اعلی عالمِ انوار ہے اور یہاں سب ملائکہ اللہ تعالیٰ کی بندگی میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ اگر مولیٰ کریم کی خوشی صرف اس کی تہلیل و تسبیح، سجدہ ریزیوں، اطاعت بجا لانے اور اللہ اللہ کرنے میں ہوتی تو پھر اس کا قیام (جیسا اس کی شان کے لائق ہے) وہیں ہوتا۔ لیکن رب العزت ہر شب آسمانِ دنیا پر، اپنی شان کے لائق، تشریف فرما ہوتا ہے جہاں اس کی مغفرت و بخشش گناہ گاروں پر برسنے کے لئے بے تاب ہوتی ہے۔
ملأ الاعلی پر ملائکہ اللہ رب العزت کے حضور پکارتے ہیں جبکہ آسمان دنیا پر خود اللہ رب العزت سارے جہانوں کا خالق اور مالک ہو کر اپنے بندوں سے مخاطب ہوتا ہے۔ اس کی بخشش پکارتی ہے کہ ہے کوئی سائل کہ اس کا سوال پورا کیا جائے؟ ہے کوئی مغفرت کا طلب گار کہ اس کو بخش دیا جائے۔ غرضیکہ بندوں کی ایک ایک حاجت کا خود ذکر کرکے مالک حقیقی اپنی عطا کی بات کرتا ہے۔ یہ ربِ ذوالجلال کا عجیب کرم ہے کہ مانگنے والے ضرورت مند غفلت میں سوئے پڑے ہیں اور وہ انہیں جگا جگا کر اپنی طرف متوجہ فرماتا ہے حتی کہ صبح پھوٹ پڑتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اور مغفرت اپنے اظہار کے لئے گناہ گاروں اور حاجت مندوں کی متلاشی رہتی ہے۔
کشادہ دستِ کرم جب وہ بے نیاز کرے
نیاز مند نہ کیوں عاجزی پہ ناز کرے
اقبال، کلیات (بانگ درا): 115
گزشتہ صفحات میں ان مخصوص اوقات اور راتوں کا ذکر کیا گیا جب بارانِ بخشش و رحمت گنہگاروں پر برسنے کے لئے اپنے جوبن پر ہوتی ہے تاکہ گنہگار اس نعمت غیر مترقبہ سے مستفیض ہونے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھیں۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت اور بخشش صرف انہی مخصوص اوقات اور ایام تک محدود نہیں ہے بلکہ وہ تو ہر شب خصوصاً پچھلے پہر منتظر ہوتا ہے کہ اس کے گنہگار بندے اس سے مغفرت و بخشش کے طالب ہوں۔
نفس کے بہکاوے میں انسان خالق کو بھول جاتا ہے۔ یہ انسان کو شر اور برے معاملات میں ملوث کرتا ہے۔ اسے ہلاکتوں کی طرف بلاتا ہے اس کی ضد اور سرکشی شیطان سے کہیں بڑھ کر ہے۔ انسان کا لمبی لمبی خواہشات اور آرزؤں کی تکمیل میں ساری زندگی صرف کر دینا دراصل نفس کی پیروی کرنا ہے۔ اس امر سے متوجہ کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
1۔ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّۃَ هِیَ الْمَاْوٰیo
النازعات، 79: 40-41
اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا۔ تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگا۔
یہ نفس انسان کو برائی کی طرف کیوں آمادہ کرتا ہے؟ اس پر صاحبِ’ عوارف المعارف‘ شیخ شہاب الدین سہروردی فرماتے ہیں: نفس کی جبلت اور سرشت کا تعلق انسان کی پیدائش و تخلیق سے ہے۔ انسان خاک سے پیدا ہوا۔ اس سے نفس میں ضعف اور کمزوری کا داعیہ پیدا ہوا۔ جب کیمیائی مراحل طے کرتے ہوئے گندھی ہوئی مٹی کی شکل اختیار کی تو اس سے اس میں شہوات نے جنم لیا۔ سڑی ہوئی مٹی سے بدبو دار کیچڑ کی شکل اس میں جہل کے وصف کو ظاہر کرتی ہے، پھر ٹھیکرے کی طرح ہو جانے سے اس میں کبر، حسد، مکر و فریب اور لالچ جیسی مذمومہ خصوصیات پیدا ہوئیں۔ یہی وجہ ہے کہ جملہ مذمومہ صفات کا حامل نفس انسان کو ہر لمحہ برائی پر آمادہ کرنے میں کوشاں رہتا ہے لیکن خالق مطلق نے انسان کو بہکنے کے لئے بے آسرا نہیں چھوڑا۔
شہاب الدین سہروردی، عوارف المعارف: 467
اللہ تعالیٰ نے بندوں پر احسان فرماتے ہوئے نفس کو کمزور کرکے اس پر قابو پانے کا علاج تجویز کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
2۔ اِنَّ نَاشِئَۃَ الَّیْلِ هِیَ اَشَدُّ وَطْأً وَّاَقْوَمُ قِیْلًاo
المزمل، 73: 6
بے شک رات کا اُٹھنا (نفس کو) سخت پامال کرتا ہے اور (دِل و دِماغ کی یکسوئی کے ساتھ) زبان سے سیدھی بات نکالتا ہے۔
آهِ سحرگاہی کی مزید اہمیت درج ذیل آیات قرآنی اوراحایث مبارکہ سے واضح ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کا آسمان دنیا پر (اپنی شان کے لائق) تشریف فرما ہو کر بندوں پر کرم نوازیوں کا ذکر ملتا ہے۔
3۔ اللہ رب العزت نے سورئہ آل عمران میں مومنین کی مختلف صفات کا ذکر کے ساتھ ان کے ایک خاص عمل کا ذکر فرمایا:
وَالْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِo
آل عمران، 3: 17
اور رات کے پچھلے پہر (اٹھ کر) اللہ سے معافی مانگنے والے ہیں۔
4۔ پھر دوسرے مقام پر شب خیزی کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
وَمِنَ الَّیْلِ فَتَهَجَّدْ بِهٖ.
بنی اسرائیل، 17: 79
اور رات کے کچھ حصہ میں (بھی قرآن کے ساتھ شب خیزی کرتے ہوئے) نماز تہجد پڑھا کریں۔
5۔ پھر سورۃ الفرقان میں اپنے مقبول بندوں کا تعارف کراتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًاo
الفرقان، 25: 64
اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لیے سجدہ ریزی اور قیامِ (نِیاز) میں راتیں بسر کرتے ہیں۔
6۔ پھر سورۃ الذاریات میں اپنے محبوب بندوں کی عادات مبارکہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
کَانُوْا قَلِیْلًا مِّنَ الَّیْلِ مَا یَھْجَعُوْنَo وَبِالْاَسْحَارِ ھُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَo
الذاریات، 51: 17-18
وہ راتوں کو تھوڑی سی دیر سویا کرتے تھے۔ اور رات کے پچھلے پہروں میں (اٹھ اٹھ کر) مغفرت طلب کرتے تھے۔
7۔ پھر فرمایا کہ اپنی خوابگاہوں ہی سے جدا رہتے ہیں:
تَتَجَافٰی جُنُوْبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَّطَمَعًا.
السجدۃ، 32: 16
ان کے پہلو اُن کی خوابگاہوں سے جدا رہتے ہیں اور اپنے رب کو خوف اور امید (کی مِلی جُلی کیفیت) سے پکارتے ہیں۔
8۔ اللہ رب العزت نے بندوں کو دعوت فکر و عمل دیتے ہوئے فرمایا:
وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَاo
العنکبوت، 29: 69
اور جو لوگ ہمارے حق میں جہاد (اور مجاہدہ) کرتے ہیں تو ہم یقینا انہیںاپنی (طرف سَیر اور وصول کی) راہیں دکھا دیتے ہیں۔
رات کے آخری پہر میں اللہ رب العزت آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور اپنی یاد میں بیدار رہنے والوں بندوں اپنی رحمتوں کی بارش کرتا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
یَنْزِلُ اللهُ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا کُلَّ لَیْلَۃٍ حِینَ یَمْضِي ثُلُثُ اللَّیْلِ الْأَوَّلُ، فَیَقُولُ: أَنَا الْمَلِکُ، أَنَا الْمَلِکُ، مَنْ ذَا الَّذِي یَدْعُونِي فَأَسْتَجِیبَ لَهُ، مَنْ ذَا الَّذِي یَسْأَلُنِي فَأُعْطِیَهُ، مَنْ ذَا الَّذِي یَسْتَغْفِرُنِي فَأَغْفِرَ لَهُ، فَلَا یَزَالُ کَذَلِکَ حَتَّی یُضِيئَ الْفَجْرُ.
ہر رات اللہ تعالیٰ کی (خاص) رحمت، رات کی پہلی تہائی کے آخر تک اترتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں بادشاہ ہوں، کون ہے جو مجھ سے دعا مانگے اور میں اسے قبول کروں؟ کون ہے جو مانگے اسے عطا کروں، کون ہے جو بخشش مانگے میں اسے بخش دوں؟ صبح صادق تک یہی کیفیت رہتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کرنے اور اسے منانے کا بہترین وقت رات اور اس کا پچھلا پہر ہے جب وہ آسمان دنیا پر اپنی شان کے لائق تشریف لا کر خود بندے کی مناجات کا منتظر ہوتا ہے۔ اس وقت اس کی رحمت اپنے کمال پر ہوتی ہے۔ خوش قسمت وہی ہیں جن کے کاسۂ دل اس وقت رب العزت کے حضور وا ہوتے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ صحابہ کرام l اور اولیائے عظامؒ کے مبارک معمولات سے ہمیں رات کے پچھلے پہر کے جَگ رَتے کی یہی خبر ملتی ہے۔
بدقسمتی سے ہمارا المیہ یہ ہے کہ اولًا تو ہدایت کی راہ پر بہت کم گامزن ہوتے ہیں اور جو اللہ تعالیٰ کے راستہ پر چلنے کی خواہش رکھتے ہیں وہ کوشش کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ ان کا یہ خیال غلط ہے کہ مجاہدہ کے بغیر ہی کچھ اسرار ان پر کچھ جائیں۔ حضرت ابو عثمان مغربی ؒ فرماتے ہیں:
مَنْ ظَنَّ أَنَّهٗ یُفْتَحُ لَهٗ شَيْئٌ مِنْ هَذَا الطَّرِیْقِ، أَوْ یُکْشَفُ لَهٗ عَنْ شَيْئٍ مِنْهَا إِلَّا بِلُزُوْمِ الْمُجَاهَدَۃِ فَهُوَ مُخْطِیئٌ.
جس شخص نے خیال کیا کہ مجاہدہ کے بغیر ہی طریقت کے کچھ اسرار اس پر کھل جائیں گے یا کچھ اُمور اس پر واضح ہو جائیں گے تو وہ سراسر غلطی پر ہے۔
مجاہدہ کی بے شمار صورتیں ہیں جن میں سے ایک افضل ترین شب بیداری ہے۔ صلحاء اور اولیائے کرام کی زندگیوں کا مطالعہ کرنے سے یہ بات بلا ترید کہی جا سکتی ہے کہ جس کو جو بھی مقام ملا اس میں ان کی اللہ تعالیٰ کے حضور شب بیداری کو بنیادی حیثیت حاصل رہی۔ علامہ اقبال نے بالکل درست فرمایا ہے:
عطار ہو، رومی ہو، رازی ہو، غزالی ہو
کچھ ہاتھ نہیں آتا بے آهِ سحر گاہی
اقبال، کلیات (بال جبریل): 61
یہاں بنیادی مقصد اس حقیقت کا اظہار کرنا ہے کہ ویسے تو اللہ رب العزت کا درِ رحمت و مغفرت ہر گناہگار کے لئے ہر وقت کھلا ہے لیکن بعض لمحات، راتیں اور دن، جن کی تفصیل گزشتہ صفحات میں ملاحظہ کر چکے ہیں، ایسے بھی ہیں جب اللہ تعالیٰ کی رحمت، مغفرت اور بخشش اپنے بندوں پر برسنے کا بہانہ چاہتی ہے۔ انسان کو کرم نوازیوں کے ایسے مواقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہئے۔ اس چار روزہ حیاتِ مستعار کے فریب نے انسان کو نہ جانے کس سحر میں مبتلا کر رکھا ہے کہ اپنی آخرت بہتر بنانے کے لئے اس کے پاس چند لمحات کی بھی فرصت نہیں۔ جونہی اس عارضی زندگی کی مہلت کا اختتام ہوگا اور دنیا کا یہ جھوٹا طلسم مکڑی کے جالے کی طرح معدوم ہو جائے گا تو ساری حقیقتیں اس پر واضح ہو جائیں گی لیکن اس وقت ابدی پچھتاوے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved