اصلاً کوئی بھی انسان گناہوں سے پاک نہیں۔ جب اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کئے بغیر کوئی راهِ نجات نہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ توبہ کیا ہے؟ پچھلے صفحات میں تفصیل سے اس امر پر روشنی ڈالی جاچکی ہے کہ توبہ دراصل اپنے کسی برے فعل پر شرمندگی اور ندامت محسوس کرتے ہوئے، دلِ شکستہ لے کر، اللہ تعالیٰ کے حضور رجوع کرنے کا نام ہے۔ اگرچہ ندامت کا اصل مقام دل ہے لیکن اِس کے اَثر سے انسانی اعضاء و جوارح متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ جیسے ہی بندہ اپنے کئے گئے کسی فعل پر نادم ہوتا ہے تو اُس کے اعضائے بدن نرم پڑ جاتے ہیں اور یہی ندامت اپنے ظاہری اظہار میں آنسوؤں اور آہوں کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ ہر آنسو یا آہ ضروری نہیں کہ ندامت کے سبب ہی سے ظاہر ہو۔ اس کی کئی دوسری وجوہ بھی ہوسکتی ہیں لیکن ندامت کا اظہار بہرحال آہ و زاری اور آنسوؤںہی کی صورت میں ہوتا ہے۔
خشیتِ الٰہی میں آہ و بکا اور گریہ و زاری کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود بنی نوع انسان کی تاریخ۔ خشیت سب سے پہلے تب وجود میں آئی جب بھول میں خطا ہو جانے کے باعث حضرت آدم اور حضرت حوا d جنت سے زمین پر اتار دیے گئے۔ تب آپ اللہ تعالیٰ کے حضور مسلسل گریہ کناں رہے اور بالآخر پکار اٹھے:
رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo
الأعراف، 7: 23
اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی۔ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
یہی اظہارِ ندامت و بندگی حضرت آدم علیہ السلام کی سنت اولین ٹھہری۔ بعد میں آنے والے ہر پاکیزہ نفس نے آپ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اسی عمل کو حرزِ جان بنائے رکھا۔ جملہ انبیاء کرام، اولیائے عظام اور صلحاء کی زندگیاں خشیتِ الٰہی میں آہ و بکا اور گریہ و زاری کرتے اور محبوبِ حقیقی کے فراق میں غم و الم کے نغمات آلاپتے نظر آتی ہیں۔
خشیتِ الٰہی کے حوالے سے یہاں انبیاء کرام، اولیائے عظام اور صالحینِ امت کے ارشادات و معمولات کا ایک اجمالی جائزہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ وادیٔ درد و سوز کے ان مکینوں کے احوال پڑھ کر ہم اپنی حالت پر بھی غور کر سکیں، نیز ہمیں معلوم ہوسکے کہ اللہ کے حضور ہم کس مقام پر کھڑے ہیں۔
خوف اور خشیت مترادف الفاظ ہیں جن میں ڈرنے کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ رسالہ قشیریہ کے مصنف امام ابو القاسم القشیری استاد ابو علی دقاق کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ خشیت خوف کا اگلا مقام ہے۔
قشیری، الرسالۃ: 125
جیسا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
اِنَّمَا یَخْشَی اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰٓؤُا ط اِنَّ اللهَ عَزِیْزٌ غَفُوْرٌo
فاطر، 35: 28
بس الله کے بندوں میں سے اُس سے وہی ڈرتے ہیں جو (ان حقائق کا بصیرت کے ساتھ) علم رکھنے والے ہیں یقینا الله غالب ہے بڑا بخشنے والا ہے۔
یعنی علم والے ہی اہلِ خشیت ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خشیتِ الٰہی دل کا سوز ہے جس کے ذریعے خیر اور شر بندے کے سامنے واضح ہو جاتا ہے اور وہ ظاہری و باطنی گناہوں سے بچ جاتا ہے۔ دل سے خشیت کا نکل جانا روحانی طور پر برباد ہونے کے مترادف ہے۔ ہمارے معاشرہ کی جملہ برائیوں کی سب سے بڑی وجہ اللہ تعالیٰ کی خشیت کا دلوں سے نکل جانا ہے۔ اگرچہ خشیت دل کی ایک خاص کیفیت کا نام ہے لیکن جیسے ہر چیز اپنی علامت سے پہچانی جاتی ہے اسی طرح خشیتِ الٰہی کی ظاہری علامت آنسوؤں کا آنکھوں سے رواں ہوجانا اور چھلک جانا ہے، کیونکہ جب تک انسان کو معرفت حق کا کچھ نہ کچھ حصہ نصیب نہ ہو خواہ اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی بخشش و عطا اور جود و کرم سے ہو یا احوالِ قیامت اور اس کے نتیجے میں جزاء و سزا کے مراحل سے، ذات و صفاتِ الوہیت سے ہو یا اپنے نفس کی تباہ کاریوں سے، آنسو آنکھوں سے جاری نہیں ہوتے۔ احکامِ الٰہی کو پس پشت ڈال کر برے اعمال پر اصرار اور دلیری کی سب سے بڑی وجہ اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت کا دل میں نہ ہونا ہے۔ چنانچہ خوف و خشیت الٰہی کی ترغیب وقت کی اہم ضرورت ہے۔
اگرچہ گزشتہ صفحات میں قرآن حکیم ہی سے استنباط کرتے ہوئے ہم نے خوف و خشیتِ الٰہی کی اہمیت کو واضح کیا ہے تاہم زیرنظر سطور میں قرآن حکیم کی مختلف آیات کے حوالے سے اس امر پر مزید روشنی ڈالتے ہیں کہ کس طرح نصوص قرآنی سے نہ صرف خوف و خشیت کی اہمیت و فضیلت واضح ہوتی ہے۔ گریۂ و زاری اور آہ و بکا کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ خود رب العزت نے قرآن حکیم میں اپنے ان بندوں کا ذکر کیا ہے جن کی آنکھیں آیات قرآنی کی سماعت سے اشک ریز ہو جاتی ہیں اور قلوب نرم ہو کر لرز لرز جاتے ہیں۔
1۔ لوگوں کے دلوں کی نرمی اور سختی کو واضح کرنے کے لیے اللہ رب العزت نے پتھروں سے ان کی مثال بیان کی ہے، جیسا کہ ارشاد فرمایا:
ثُمَّ قَسَتْ قُلُوْبُکُمْ مِّنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ فَهِیَ کَالْحِجَارَةِ اَوْ اَشَدُّ قَسْوَةً ط وَاِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْهُ الْاَنْهٰرُ ط وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ ط وَاِنَّ مِنْهَا لَمَا یَهْبِطُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ ط وَمَا اللهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَo
البقرۃ، 2: 74
پھر اس کے بعد (بھی) تمہارے دل سخت ہو گئے چنانچہ وہ (سختی میں) پتھروں جیسے (ہو گئے) ہیں یا ان سے بھی زیادہ سخت (ہو چکے ہیں، اس لیے کہ) بے شک پتھروں میں (تو) بعض ایسے بھی ہیں جن سے نہریں پھوٹ نکلتی ہیں، اور یقینا ان میں سے بعض وہ (پتھر) بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں تو ان سے پانی ابل پڑتا ہے، اور بے شک ان میں سے بعض ایسے بھی ہیں جو اللہ کے خوف سے گر پڑتے ہیں، (افسوس! تمہارے دلوں میں اس قدر نرمی، خستگی اور شکستگی بھی نہیں رہی) اور اللہ تمہارے کاموں سے بے خبر نہیں۔
2۔ اللہ تعالیٰ نے خوف کو مومن کے لئے واجب قرار دیا ہے۔ خوف شرط ایمان ہے۔ یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ کوئی مومن بھی ہو اور بے خوف بھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَخَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَo
آل عمران، 3: 175
اور مجھ ہی سے ڈرا کرو اگر تم مومن ہو۔
3۔ اللہ تعالیٰ نے ایک مقام پر اپنے ان وفا شعار بندوں کا ذکر بھی کیا گیا ہے جن کی آنکھیں خشیت الٰہی کے باعث اشک ریز رہتی ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِذَا سَمِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَی الرَّسُوْلِ تَرَیٰ اَعْیُنَهُمْ تَفِیْضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوْا مِنَ الْحَقِّ ج یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اٰمَنَّا فَاکْتُبْنَا مَعَ الشّٰهِدِیْنَo
المائدۃ، 5: 83
اور (یہی وجہ ہے کہ ان میں سے بعض سچے عیسائی) جب اس (قرآن) کو سنتے ہیں جو رسول ( ﷺ ) کی طرف اتارا گیا ہے تو آپ ان کی آنکھوں کو اشک ریز دیکھتے ہیں۔ (یہ آنسوؤں کا چھلکنا) اس حق کے باعث (ہے) جس کی انہیں معرفت (نصیب) ہو گئی ہے۔ (ساتھ یہ) عرض کرتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم (تیرے بھیجے ہوئے حق پر) ایمان لے آئے ہیں سو تو ہمیں (بھی حق کی) گواہی دینے والوں کے ساتھ لکھ لے۔
آنسوؤں کا چھلکنا ہر کسی کے حال اور قلبی کیفیت کے مطابق ہوتا ہے۔ یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ باری تعالیٰ نے خود ان اہلِ خشیت کا ذکر قرآن حکیم کا موضوع بنایا ہے۔ مذکورہ بالا آیتِ قرآنی نے خشیت کی اہمیت و افادیت کو اس قدر واضح کردیا ہے کہ کوئی خدا کو نہ ماننے والا ہی اِس کا انکار کرسکتا ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری آنکھیں خشیتِ الٰہی کے آنسوؤں سے، الا ماشاء اللہ، خشک ہوچکی ہیں۔ کاش ہماری آنکھوں کی یہ خشکی تری میں بدل جائے اور ہماری آنکھیں خوف و خشیت الٰہی میں پھر سے برسنا سیکھ جائیں۔
4۔ مومنوں کی علامت ہی یہی بیان کی گئی ہے کہ جب ان کے سامنے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل خشیتِ الٰہی سے کانپ اٹھتے ہیں۔ ارشاد ربانی ہے:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْهِمْ اٰیٰـتُهٗ زَادَتْهُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّهِمْ یَتَوَکَّلُوْنَo
الأنفال، 8: 2
ایمان والے (تو) صرف وہی لوگ ہیں کہ جب (ان کے سامنے) اللہ کا ذکر کیا جاتا ہے (تو) ان کے دل (اس کی عظمت و جلال کے تصور سے) خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ (کلامِ محبوب کی لذت انگیز اور حلاوت آفریں باتیں) ان کے ایمان میں زیادتی کر دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر توکل (قائم) رکھتے ہیں (اور کسی غیر کی طرف نہیں تکتے)۔
5۔ سورہ توبہ میں کثرت سے رونے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا:
فَلْیَضْحَکُوْا قَلِیْـلًا وَّ لْیَبْکُوْا کَثِیْرًا ج جَزَآءً م بِمَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَo
التوبۃ، 9: 82
پس انہیں چاہیے کہ تھوڑا ہنسیں اور زیادہ روئیں (کیوں کہ آخرت میں انہیں زیادہ رونا ہے) یہ اس کا بدلہ ہے جو وہ کماتے تھے۔
6۔ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا:
اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا یُتْلٰی عَلَیْهِمْ یَخِرُّوْنَ لِـلْاَذْقَانِ سُجَّدًاO وَّیَقُوْلُوْنَ سُبْحٰنَ رَبِّنَآ اِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلًا وَیَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ یَبْکُوْنَ وَیَزِیْدُهُمْ خُشُوْعًاo
بنی اسرائیل، 17: 107-109
بے شک جن لوگوں کو اس سے قبل علمِ (کتاب) عطا کیا گیا تھا جب یہ (قرآن) انہیں پڑھ کر سنایا جاتا ہے وہ ٹھوڑیوں کے بل سجدہ میں گر پڑتے ہیں۔ اور کہتے ہیں: ہمارا رب پاک ہے، بے شک ہمارے رب کا وعدہ پورا ہو کر ہی رہنا تھا۔ اور ٹھوڑیوں کے بل گریہ و زاری کرتے ہوئے گر جاتے ہیں، اور یہ (قرآن) ان کے خشوع و خضوع میں مزید اضافہ کرتا چلا جاتا ہے۔
7۔ اِذَا تُتْلٰی عَلَیْھِمْ اٰیٰتُ الرَّحْمٰنِ خَرُّوْا سُجَّدًا وَّ بُکِیًّاo
مریم، 19: 58
جب ان پر (خدائے) رحمن کی آیتوںکی تلاوت کی جاتی ہے وہ سجدہ کرتے ہوئے اور (زار و قطار) روتے ہوئے گر پڑتے ہیں۔
8۔ کامیابی سے ہم کنار ہونے والے بندوں کی پہلی نشانی ان کے اپنے مولیٰ کی خشیت میں لرزاں ہونا ہے، چنانچہ ارشاد ہوا:
اِنَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مِّنْ خَشْیَةِ رَبِّھِمْ مُّشْفِقُوْنَ o وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ یُؤْمِنُوْنَo وَالَّذِیْنَ هُمْ بِرَبِّهِمْ لَا یُشْرِکُوْنَo وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوْا وَّقُلُوْبُهُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّهُمْ اِلٰی رَبِّهِمْ رٰجِعُوْنَo اُولٰٓـئِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَهُمْ لَهَا سٰبِقُوْنَo
المؤمنون، 23: 57-61
بے شک جو لوگ اپنے رب کی خشیّت سے مضطرب اور لرزاں رہتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور جو لوگ اپنے رب کے ساتھ (کسی کو) شریک نہیں ٹھہراتے۔ اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں اتنا کچھ) دیتے ہیں جتنا وہ دے سکتے ہیں اور (اس کے باوجود) ان کے دل خائف رہتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں (کہیں یہ نا مقبول نہ ہو جائے)۔ یہی لوگ بھلائیوں (کے سمیٹنے میں) جلدی کر رہے ہیں اور وہی اس میں آگے نکل جانے والے ہیں۔
9۔ پھر سورۃ الزمر میں ارشاد فرمایا:
اللهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتَابًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِیَق تَقْشَعِرُّ مِنْهُ جُلُوْدُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّهُمْ ج ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُوْدُهُمْ وَقُلُوْبُهُمْ اِلٰی ذِکْرِ اللهِ ط ذٰلِکَ هُدَی اللهِ یَهْدِیْ بِهٖ مَنْ یَّشَآءُ ط وَمَنْ یُّضْلِلِ اللهُ فَمَا لَهٗ مِنْ هَادٍo
الزمر، 39: 23
اللہ ہی نے بہترین کلام نازل فرمایا ہے، جو ایک کتاب ہے جس کی باتیں (نظم اور معانی میں) ایک دوسرے سے ملتی جلتی ہیں (جس کی آیتیں) باربار دہرائی گئی ہیں، جس سے اُن لوگوں کے جسموں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں، پھر اُن کی جلدیں اور دل نرم ہوجاتے ہیں (اور رِقّت کے ساتھ) اللہ کے ذکر کی طرف (محو ہو جاتے ہیں)۔ یہ اللہ کی ہدایت ہے وہ جسے چاہتا ہے اس کے ذریعے رہنمائی فرماتا ہے۔ اور اللہ جسے گمراہ کردیتا (یعنی گمراہ چھوڑ دیتا) ہے تو اُس کے لیے کوئی ھادی نہیں ہوتا۔
10۔ درج ذیل آیاتِ کریمہ خشیتِ الٰہی کے باب میں بڑی واضح ہیں:
مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآءَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبِo نِادْخُلُوْھَا بِسَلٰمٍ ط ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُلُوْدِo لَھُمْ مَّا یَشَآئُوْنَ فِیْھَا وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌo
ق، 50: 33-35
جو (خدائے) رحمان سے بِن دیکھے ڈرتا رہا اور (الله کی بارگاہ میں) رجوع واِنابت والا دِل لے کر حاضر ہوا۔ اس میں سلامتی کے ساتھ داخل ہو جاؤ، یہ ہمیشگی کا دن ہے۔ اس (جنت) میں ان کے لیے وہ تمام نعمتیں (موجود) ہوں گی جن کی وہ خواہش کریں گے اور ہمارے حضور میں ایک نعمت مزید بھی ہے (یا اور بھی بہت کچھ ہے، سو عاشق مست ہوجائیں گے)۔
11۔ اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَo وَتَضْحَکُوْنَ وَ لَاتَبْکُوْنَo
النجم، 53: 59-60
پس کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہو۔ اور تم ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو۔
12۔ خشیتِ الٰہی کا انعام جنت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّـتٰنِo
الرحمٰن، 55: 46
اور جو شخص اپنے رب کے حضور (پیشی کے لیے) کھڑا ہونے سے ڈرتا ہے اُس کے لیے دو جنتیں ہیں۔
13۔ وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّۃَ هِیَ الْمَاْوٰیo
النزعٰت، 79: 40-41
اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا۔ تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہوگا۔
14۔ دوسرے مقام پر خوف کو احکامِ الٰہی کے بجالانے کی شرطِ اوّل قرار دیتے ہوئے اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
سَیَذَّکَّرُ مَنْ یَّخْشٰیo
الأعلی، 87: 10
البتہ وہی نصیحت قبول کرے گاجو الله سے ڈرتا ہوگا۔
جس شخص کو اللہ رب العزت نے ذوقِ سلیم سے نوازا ہے وہ مذکورہ بالا آیات قرآنی میں بیان کیے گئے اٌلوہی پیغام کے بے مثال آہنگ، ربط و نظم سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ مخصوص آیات کا تکرار اپنے اسلوبِ بیان کے حسن کے باعث انسان کو نصیحت پر عمل پیرا ہونے کے لئے آمادہ کرتا ہے۔ جن نفوس کو معرفتِ حق کا کچھ حصہ نصیب ہوتا ہے وہ خوف و خشیتِ الٰہی کے باعث حضورِ حق میں سجدہ ریز ہو جاتے ہیں، آہ و بکا کرتے ہیں اور ان کے قلوب اور اجساد دونوں نرم پڑ جاتے ہیں یعنی ان کے ظاہر و باطن اللہ کے ذکر میں لگ جاتے ہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کی خشیت میں رونے والوں کے لئے خصوصی نور ہدایت ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے اس کے ـذریعے رہنمائی فرماتا ہے، اور جو اعمالِ بد کے باعث اس کی رحمت سے محروم کر دیے جاتے ہیں انہیں ان کے اپنے کرتوتوں کے باعث بھٹکنے کے لئے چھوڑ دیتا ہے۔ پھر ان کے لئے نہ کوئی ہدایت ہے اور نہ ہدایت دینے والا۔
اللہ تعالیٰ ان بندوں کو جو اس فانی دنیا کو ہی حقیقت سمجھ کر آخرت کی زندگی اور اس میں درپیش حساب و کتاب کو بھلا بیٹھے ہیں، یاد دلاتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ تمہاری یہ بغاوت تمہیں دائمی حسرت میںمبتلا کر دے گی۔ تمہیں تو چاہیے کہ اپنی ان نافرمانیوں اور بد اعمالیوں سے جو تمہیں جہنم کے گڑھے میں گرانے کا باعث بن رہی ہیں باز آکر اللہ کے حضور آہ و بکا کرتے ہوئے معافی کے خواست گار ہوتے۔ تم پر حیف ہے کہ رونے کی بجائے الٹا ہنستے ہو۔
قابل غور امر یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حق اور ہدایت کو گریہ و زاری اور آہ و بکا کے ساتھ جوڑ کر بیان کیا ہے گویا یہ ممکن ہی نہیں کہ دل خوف و خشیت الٰہی سے شکستہ ہو اور انسانی اعضاء و جوارح اس سے متاثر نہ ہوں، آنکھیں اشک بار نہ ہوں اور انسان کو معرفت حق بھی نصیب ہو۔
بدقسمتی سے جہاں ردعمل نے زندگی کے دیگر شعبوں میں ہمیں غیر متوازن کر رکھا ہے وہیں بعض جدید اذہان ریاکار اور نام نہاد حاملین تصوف کے ردعمل میں آہ و بکا کو سرے سے ہی غیر ضروری تصور کرنے لگے ہیں حالانکہ مذکورہ بالا آیات قرآنی کے علاوہ بھی متعدد آیاتِ بینات اس کے حق ہونے پر شاہد و عادل ہیں۔
خوف کی بنیاد وہ علم ہے جس کے نتیجے میں ورع اور تقویٰ جنم لیتا ہے۔ فسادِ قلب کی سب سے بڑی وجہ خوف سے محروم ہونا ہے۔ جب تک خوفِ الٰہی نہ ہو نصیحت کبھی نفع نہیں دے سکتی۔ حقیقت یہ ہے کہ خوفِ الٰہی حصولِ معرفت کی بنیادی شرط ہے۔ یہ دل کا چراغ ہے جس کی روشنی میںہی خیر و شر واضح نظر آسکتا ہے۔ قلوب کی تاریکی اور جہالت کی وجہ خوف کا نہ ہونا ہے۔ قرآن حکیم میں خشیتِ الٰہی کے بیان کے بعد اب ہم اس کی مزید وضاحت احادیث نبوی کے حوالے سے کرتے ہیں۔ متعدد احادیث مبارکہ میں خشیتِ الٰہی کے باعث آنکھوں سے برسنے والے آنسوؤں کی اہمیت اور قدر و قیمت کا ذکر ایسی مختلف جہتوں سے کیا گیا ہے جو اُمتیوں کے لئے بخشش و مغفرت کی عظیم نوید کا درجہ رکھتی ہیں۔
1۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
فَوَاللهِ، إِنِّي، لَأَعْلَمُهُمْ بِاللهِ وَأَشَدُّهُمْ لَهٗ خَشْیَةً.
خدا کی قسم، مجھے اللہ تعالیٰ کا لوگوں کی نسبت زیادہ علم ہے اور میں خدا سے ان کی نسبت زیادہ ڈرتا ہوں۔
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ وہ شخص اللہ رب العزت کو جتنا زیادہ جانتا ہے وہ اس سے اسی قدر زیادہ ڈرتا ہے۔ حضور نبی اکرم ﷺ اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ جانتے ہیں بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ ساری کائنات اللہ تعالیٰ کو حضور نبی اکرم ﷺ کے بتانے پر ہی مانتی ہے، اس لیے آپ ﷺ اللہ تعالیٰ سے سب سے زیادہ ڈرتے ہیں۔
2۔ ایک روایت میں حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
خَسَفَتِ الشَّمْسُ فَقَامَ النَّبِيُّ ﷺ فَزِعًا یَخْشٰی أَنْ تَکُوْنَ السَّاعَۃُ، فَأَتَی الْمَسْجِدَ یُصَلِّي بِأَطْوَلِ قِیَامٍ وَرُکُوْعٍ وَسُجُوْدٍ مَا رَأَیْتُهٗ قَطُّ یَفْعَلُهٗ، وَقَالَ: هٰذِهِ الْآیَاتُ الَّتِيْ یُرْسِلُ اللهُ لَا تَکُوْنُ لِمَوْتِ أَحَدٍ وَلِحَیَاتِهٖ، وَلٰـکِنَّ اللهَ یُرْسِلُھَا یُخَوِّفُ بِهَا عِبَادَهٗ، فَإِذَا رَأَیْتُمْ شَیْئًا مِنْ ذٰلِکَ فَافْزَعُوْا إِلٰی ذِکْرِهٖ وَدُعَائِهٖ وَاسْتِغْفَارِهٖ.
حضور نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں سورج کو گرہن لگا، آپ حالتِ اضطراب میں خشیتِ الٰہی سے اس طرح کھڑے ہوئے کہ جیسے قیامت آ گئی ہو۔ آپ ﷺ مسجد میں آئے اور طویل قیام، طویل رکوع اور طویل سجدہ کے ساتھ نماز ادا کی۔ میں نے اس سے پہلے کبھی آپ کو اس طرح نماز پڑھتے نہیں دیکھا، پھر آپ ﷺ نے فرمایا: یہ (سورج و چاند گرہن) اللہ تعالیٰ کی نشانیاں ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ بھیجتا ہے۔ یہ کسی کی موت اور حیات کی وجہ سے نہیں ہوتیں بلکہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانے کے لیییہ نشانیاں بھیجتا ہے۔ جب تم اس قسم کی کوئی شے دیکھو تو اللہ تعالیٰ کے ذکر، اس سے دعا اور اس سے استغفار کی پناہ میں آؤ۔
بلاشبہ حضور نبی اکرم ﷺ مطلع الغیب ہیں اور مخلوق میں آپ ﷺ سے بڑھ کر کون صاحب علم ہوسکتا ہے۔ لیکن سورج گرہن سے آپ ﷺ کا اس قدر خوف زدہ ہو جانا دراصل اللہ تعالیٰ کے حضور اس امر کا اظہار ہے کہ بندہ کبھی بھی خود کو اللہ تعالیٰ کی مشّیت سے بے نیاز نہیں رکھ سکتا۔ پھر حقیقی عالم الغیب صرف اسی کی ذات ہے۔ حق تعالیٰ نے کسی امر کے بارے میں کیا فیصلہ کیا ہے یہ علم بھی بس اسی کو زیبا ہے۔ بندہ جس قدر صاحبِ علم ہے اسی قدر خوف و خشیت کا پیکر ہے۔
3۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کَانَ رَجَلٌ یُسْرِفُ عَلٰی نَفْسِهٖ، فَلَمَّا حَضَرَهُ الْمَوْتُ قَالَ لِبَنِیْهِ: إِذَا أَنَا مُتُّ فَأَحْرِقُوْنِي، ثُمَّ اطْحَنُوْنِي، ثُمَّ ذَرُوْنِي فِي الرِّیْحِ، فَوَاللهِ، لَئِنْ قَدَرَ عَلَيَّ رَبِّي لَیُعَذِّبَنِي عَذَابًا مَا عَذَّبَهٗ أَحَدًا، فَلَمَّا مَاتَ فُعِلَ بِهٖ ذٰلِکَ، فَأَمَرَ اللهُ الْأَرْضَ فَقَالَ: اجْمَعِيْ مَا فِیْکِ مِنْهُ، فَفَعَلَتْ، فَإِذَا ھُوَ قَائِمٌ، فَقَالَ: مَا حَمَلَکَ عَلٰی مَا صَنَعْتَ؟ قَالَ: یَا رَبِّ، خَشْیَتُکَ، أَوْ قَالَ: مَخَافَتُکَ یَا رَبِّ، فَغَفَرَ لَهٗ.
ایک آدمی اپنے اوپر (کثرتِ گناہ کی صورت میں) ظلم و زیادتی کرتا رہا، جب اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں سے کہا: جب میں فوت ہو جاؤں تو مجھے اچھی طرح جلا دینا، پھر (میرے جلے ہوئے جسم کو) پیس دینا، میری راکھ ہوا میں اُڑا دینا، اللہ کی قسم! اگر میرے ربّ نے مجھے پکڑ لیا تو وہ مجھے ایسا عذاب دے گا کہ اس جیسا عذاب کبھی کسی کو نہ دیا ہوگا۔ جب وہ فوت ہوگیا تو اس کے ساتھ اُسی طرح کیا گیا (جس طرح اُس نے وصیت کی تھی)۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو حکم دیا کہ اپنے اندر موجود اس کے (بکھرے ہوئے) ذرّات جمع کر دے۔ اس نے ذرّات جمع کر دیے تو وہ (پورے جسم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے سامنے) کھڑا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: تمہیں ایسا کرنے پر کس چیز نے آمادہ کیا تھا؟ اس نے عرض کیا: اے میرے رب! تیری خشیت نے۔ یا کہا: اے میرے رب! تیرے خوف نے۔ اِس پر اللہ تعالیٰ نے اسے (اس قلبی خوف و خشیت کی وجہ سے) بخش دیا۔
اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے اور جو بندہ اللہ تعالیٰ کا خوف دل میں رکھتا ہے وہ یقینا اس بات کو بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ قادر مطلق ہے۔ اس کے باوجود اس جوان نے اپنی میت کو راکھ بنا کر اڑا دینے کی وصیت کی۔ اس کے دل میں موجود خشیت الٰہی نے اس کی بخشش کا سامان کر دیا۔
4۔ حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ تَـلَا قَوْلَ اللهِ تعالیٰ فِي إِبْرَاهِیْمَ: {رَبِّ إِنَّهُنَّ أَضْلَلْنَ کَثِیْرًا مِّنَ النَّاسِ فَمَنْ تَبِعَنِي فَإِنَّهُ مِنِّيْ (إبراهیم، 14: 36)}، وَقَالَ عِیْسَی: {إِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُکَ وَإِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّکَ أَنْتَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُo (المائدۃ، 5: 118)}، فَرَفَعَ یَدَیْهِ وَقَالَ: اَللَّهُمَّ، أُمَّتِي أُمَّتِي وَبَکَی، فَقَالَ اللهُ تعالیٰ: یَا جِبْرِیْلُ، اذْهَبْ إِلَی مُحَمَّدٍ، وَرَبُّکَ أَعْلَمُ، فَسَلْهُ مَا یُبْکِیْکَ؟ فَأَتَاهُ جِبْرِیْلُ علیہ السلام فَسَأَلَهُ، فَأَخْبَرَهُ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ بِمَا قَالَ، وَهُوَ أَعْلَمُ، فَقَالَ اللهُ: یَا جِبْرِیْلُ، اذْهَبْ إِلَی مُحَمَّدٍ، فَقُلْ: إِنَّا سَنُرْضِیْکَ فِي أُمَّتِکَ وَلَا نَسُوْئُکَ.
حضور نبی اکرم ﷺ نے قرآن کریم میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اس قول کی تلاوت فرمائی: ’اے میرے رب! ان بتوں نے بہت لوگوں کو گمراہ کر دیا ہے جو شخص میرا پیروکار ہو گا وہ میرے راستہ پر ہے‘۔ اور وہ آیت پڑھی جس میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا یہ قول ہے: ’اے اللہ! اگر تو اُن کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر تو ان کو بخش دے تو تُو غالب اور حکمت والا ہے‘۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے اپنے دست مبارک بلند کیے اور فرمایا: اے ﷲ! میری امت، میری امت، پھر آپ ﷺ پر گریہ طاری ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے جبرائیل! محمد ( ﷺ ) کے پاس جاؤ اور ان سے معلوم کرو حالانکہ اللہ تعالیٰ کو خوب علم ہے، کہ ان پر اس قدر گریہ کیوں طاری ہے؟ حضرت جبرائیل علیہ السلام رسول اللہ علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ ﷺ سے معلوم کر کے اللہ تعالیٰ کو خبر دی، حالانکہ اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جبرائیل علیہ السلام سے فرمایا: اے جبرائیل! محمد( ﷺ ) کے پاس جاؤ اور ان سے کہو کہ آپ کی امت کی بخشش کے معاملہ میں ہم آپ کو راضی کر دیں گے اور آپ کو رنجیدہ نہیں کریں گے۔
اس حدیث مبارکہ سے بخوبی یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو اپنی امت کی بخشش کا غم کس قدر ہے۔ جد الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبان سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنی امتوں کے بارے میں طلبِ عفو سے ذاتِ رسالتمآب ﷺ اس درجہ بے قرار ہوگئی کہ آپ پر گریہ و زاری کی کیفیت طاری ہوگئی یہاں تک کہ خود ذاتِ حق تعالیٰ نے آپ ﷺ کے دل گیر ہونے پر حضرت جبریل علیہ السلام کو عرش سے فرش پر بھیجا کہ جا کر محبوب ﷺ کو اس کی امت کی بخشش کی عظیم بشارت دے دو اور یہ پیغام بھی پہنچا دو کہ امت کی بخشش کے معاملہ میں ہم آپ کو راضی کر دیں گے۔
کاش اس امت کو بھی اپنے کریم نبی ﷺ کے اس رنج و الم کا احساس ہوتا تو اسے دنیا میں ذلت و رسوائی کا یہ دن نہ دیکھنا پڑتا۔ بقول الطاف حسین حالی:
اے خاصۂ خاصان رسل وقت دعا ہے
امت پہ تیری آکے عجب وقت پڑا ہے
5۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
عُرِضَتْ عَلَيَّ الْجَنَّۃُ وَالنَّارُ، فَلَمْ أَرَ کَالْیَوْمِ فِي الْخَیْرِ وَالشَّرِّ، وَلَو تَعْلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیْـلًا وَلَبَکَیْتُمْ کَثِیْرًا.
میرے اوپر جنت اور دوزخ پیش کی گئی۔ میں نے آج کی طرح خیر اور شر کو پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ اگر تم ان چیزوں کو جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم کم ہنسا کرو اور زیادہ رویا کرو۔
اس حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ نے جنت اور دوزخ کے اس مشاہدے کی خبر دی ہے جس میں آپ ﷺ نے لوگوں کے اعمال کے حوالے سے انجام کو خیر اور شر پر منتج ہوتے ہوئے اس قدر تفصیل کے ساتھ ملاحظہ فرمایا جو پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ آپ ﷺ نے خوش بخت لوگوں کو جنت کی نعمتوں سے لطف اندوز ہوتے بھی دیکھا اور بدبخت نافرمانوں کو دوزخ کی دہکتی ہوئی آگ میں غوطہ زن بھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: مخلوق کے خیر اور شر کے سارے انجام مجھے دکھائے گئے۔ اس موقعہ پر آپ ﷺ نے فرمایا: اے آخرت سے بے خبر لوگو! قیامت کے دن جو جو ہولناکیاں وقوع پذیر ہونے والی ہیںاور جو جگرپاش واقعات و حادثات میں نے ملاحظہ کئے ہیں اگر یہ سب کچھ تم بھی دیکھ لو تو یہ دنیا اپنی تمام تر رنگینوں کے باوجود تمہاری نگاہوں سے غائب ہوجائے۔ مسکراہٹ تمہارے چہروں سے روٹھ جائے اور تم ختم نہ ہونے والے رنج و الم کا شکار ہوکر روتے نظر آؤ۔
6۔ قیامت کے دن کی مزید تفصیل اس حدیث مبارکہ سے ملتی ہے جسے حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا تَزُوْلُ قَدْمُ ابنِ آدَم یَوْمَ القِیَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتّٰی یُسَأَلَ عَنْ خَمْسٍ؛ عَنْ عُمْرِهٖ فِیْمَ أَضْنَاهٗ؟ وَعَنْ شَبَابِهٖ فِیْمَا أَبْلَاهُ؟ وَمَالِهٖ مِنْ أَیْنَ إِکْتَسَبَهٗ؟ وَفِیْمَ أَنْفَقَهٗ؟ وَمَاذَا عَمِلَ فِیْمَا عَلِمَ؟
انسان قیامت کے دن اُس وقت تک اپنے رب کے پاس کھڑا رہے گا جب تک اس سے پانچ باتوں کے بارے میں سوال نہ کیا جائے (اور وہ جواب نہ دے دے): (1) اپنی زندگی کس کام میں گزاری؟ (2) اپنی جوانی کو کہاں گنوایا؟ (3) مال کہاں سے کمایا؟ (4) اور کہاں خرچ کیا؟ (5) اپنے علم کے مطابق کیا عمل کیا؟
دیکھا جائے تو یہ پانچوں سوالات دراصل انسانی زندگی کے ہر لمحے کو محیط ہیں۔ زندگی اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے اور مالک نے ہمیں اپنی بندگی بجالانے کے لئے عنایت فرمائی ہے۔ کون ہے جو حقِ بندگی بجا لانے کی بات کرسکے؟ اگر پوچھ لیا جائے کہ اے بندے! اتنے سالوں پر محیط زندگی تجھے عطا کی، کیا کرکے میرے پاس آیا ہے؟ قابلِ رشک جوانی عطا کی، ہمت دی، شہرت اور ناموری دی، اس کے باوجود کس مغالطے نے تجھے اپنے مالک سے بے خبر رکھا؟ تیری قسمت اور مقدر میں اتنا مال میں نے لکھ دیا تھا، پھر تو نے ناجائز ذرائع اور ظلم و ناانصافی کے ذریعے اسے حاصل کرنا کیوں ضروری سمجھا؟ میں نے تیرے مال میں تیرے ذمہ رشتہ داروں، غرباء و مساکین اور ضرورت مندوں کی کفالت رکھی تھی، تو نے کبھی بھولے سے بھی ان کو یاد نہیں رکھا بلکہ الٹا ان کے حقوق پر کیوں ڈاکہ زنی کرتا رہا؟ جو علم میں نے تجھے عطا کیا اس پر خود عمل پیرا کیوں نہیں ہوا؟
یہ سوالات زندگی کے ہر لمحے کا حساب ہیں۔ اگر بندہ قیامت کے روز اس مرحلے کی سنگینی پر صمیمِ قلب سے غور کرے کہ حساب دیے بغیر وہاں سے ہل بھی نہیں سکے گا تو حقیقتِ حال اس پر منکشف ہونا شروع ہو جائے گی، اور اگر اللہ تعالیٰ اس کو مشاہدہ سے گزار دے تو پھر جنگلوں میں بھاگ کر آہ و بکا کے سوا سب کچھ بھول جائے۔
7۔ اسی امر کی طرف سرکار دوعالم ﷺ نے مشاہدہ کے مقام پر فرمایا:
وَلَخَرَجْتُمْ إِلَی الصُّعُدَاتِ تَجْأَرُوْنَ إِلَی اللهِ.
اور تم یقینا گھاٹیوں کی طرف نکل جاتے، تم اپنے رب کے سامنے گڑگڑاتے۔
8۔ حضور نبی اکرم ﷺ کا اپنا عمل مبارک ہمارے لئے عظیم مشعل راہ ہے۔ مطرف اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں بارگاہ نبوی ﷺ میں حاضر ہوا:
رَأَیْتُ رَسُولَ اللهِ ﷺ یُصَلِّي وَفِي صَدْرِهٖ أَزِیزٌ کَأَزِیزِ الرَّحٰی مِنَ الْبُکَاءِ ﷺ.
میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو نماز میں دیکھا کہ آپ کے سینہ مبارک سے رونے کی آواز اس طرح نکل رہی تھی جیسے چکی کی آواز۔
حدیث مبارکہ کا مضمون بڑا واضح ہے اللہ تعالیٰ کے خوف اور میں سرکار دو عالم ﷺ کا یہ عالم تھا کہ دوران نماز آپ ﷺ کے سینۂ اقدس سے آہ و بکا کے زیر اثر یوں آواز آ رہی تھی جیسے چکی کے چلنے کی آواز ہو۔
9۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَا یَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَکَی مِنْ خَشْیَةِ اللهِ حَتَّی یَعُوْدَ اللَّبَنُ فِي الضَّرْعِ. وَلَا یَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِي سَبِیْلِ اللهِ وَدُخَانُ جَهَنَّمَ.
اللہ تعالیٰ کے خوف سے رونے والا انسان دوزخ میں داخل نہیں ہو گا جب تک کہ دودھ، تھن میں واپس نہ چلا جائے۔ اور اللہ کی راہ میں پہنچنے والی گرد و غبار اور جہنم کا دھواں یکجا نہیں ہوسکتے۔
خود کو اقامتِ دین میں وقف کرنا اور خوفِ الٰہی میں آنسوؤں کا بہنا، دو ایسے عمل ہیں جو اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت مقبول ہیں۔ طلب علم اور فروغ دین متین کے سلسلے میں بندہ جو سفر اختیار کرتا ہے اس دوران اس پر پڑنے والا گرد و غبار بھی اس شان کا حامل ہے کہ روز قیامت جہنم کی آگ کا دھواں اس کے قریب نہیں جاسکے گا اور جس شخص کی آنکھ سے اللہ کے خوف میں آنسو چھلک پڑے اور اس کے ظاہر و باطن کی کیفیت میں نرمی آگئی تو وہ دوزخ سے محفوظ کردیا گیا۔
10۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہم روایت کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
عَیْنَانِ لَا تَمَسُّهُمَا النَّارُ: عَیْنٌ بَکَتْ مِنْ خَشْیَۃٍ، وَعَیْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِي سَبِیْلِ اللهِ.
دو آنکھیں ایسی ہیں جنہیں دوزخ کی آگ مس نہیں کرتی۔ ایک وہ آنکھ جو اللہ کی میں اشک ریز ہوئی اور دوسری وہ آنکھ جس نے اللہ کی راہ میں رات پہرہ دیتے جاگتے گزار دی۔
عرفاء نے بیان کیا ہے کہ رات کو اللہ کی راہ میں پہرہ دینے کا ایک تو معروف معنیٰ ہے یعنی دشمن کے حملے کے پیش نظر ملک و قوم کی حفاظت کی خاطر مجاہدین و غازیان اسلام کی رات بھر جاگنے والی آنکھیں۔ دوسرا اس سے مراد وہ مردِ صالح ہے جو رات اپنے پہلو بستر سے الگ کر کے یاد الٰہی اور خشیت الٰہی میں آہ و بکا کرتے ہوئے اپنے نفس کا پہرہ دینے میں جاگ کر گزار دیتا ہے۔
11۔ امام ترمذی نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مبارک روایت کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
لَیْسَ شَيئٌ أَحَبَّ إِلَی اللهِ مِنْ قَطْرَتَیْنِ وَأَثَرَیْنِ: قَطْرَۃُ دُمُوْعٍ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ، وَقَطْرَۃُ دَمٍ تُھْرَقُ فِي سَبِیْلِ اللهِ. وَأَمَّا الْأَثَرَانِ: فَأَثَرٌ فِي سَبِیْلِ اللهِ، وَأَثَرُ فَرِیْضَۃٍ مِنْ فَرَائِضِ اللهِ.
اللہ تعالیٰ کو دو قطروں اور دو نشانوں سے زیادہ کوئی چیز پسند نہیں: اللہ تعالیٰ کے خوف سے (بہنے والے) آنسوؤں کا قطرہ اور اللہ تعالیٰ کی راہ میں بہائے جانے والے خون کا قطرہ۔ رہے دو نشان تو ایک (ہے: ) اللہ تعالیٰ کی راہ (میں چلنے) کا نشان اور (دوسرا ہے: ) اللہ تعالیٰ کے فرائض میں سے کسی فریضہ (کی ادائیگی میں پڑ جانے والا) نشان۔
12۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
یَقُوْلُ اللهُ تعالیٰ: أَخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ ذَکَرَنِي یَوْمًا أَوْ خَافَنِي فِي مَقَامٍ۔
اللہ تعالیٰ فرمائے گا: دوزخ میں سے ہر ایسے شخص کو نکال دو جس نے ایک دن بھی مجھے یاد کیا یا میرے خوف سے کہیں بھی مجھ سے ڈرا۔
مذکورہ بالا احادیث مبارکہ خوفِ الٰہی سے ڈرنے اور اس کے نتیجے میں آنکھوں سے گرنے والے آنسوؤں کی قدر و قیمت بیان کر رہی ہیں۔ لازم ہے کہ امتِ مسلمہ اس پاکیزہ عمل سے اپنی بخشش کو یقینی بنا لے۔ غور کیا جائے تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ ہماری ساری بدبختیوں کا واحد سبب خوفِ خدا کا دلوں سے نکل جانا ہے۔ یہ خوفِ خدا ہی ہے جو بندے کو برے اعمال سے نجات دلا کر سیدھی راہ پر گامزن رکھتا ہے۔ حضرت ابو حفص نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کا خوف ایسا کوڑا ہے جس سے اللہ تعالیٰ اپنے در سے بِدکے ہووں کو سیدھا کرتا ہے۔
13۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ حضو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ یَخْرَجُ مِنْ عَیْنَیْهِ دُمُوْعٌ، وَ إِنْ کَانَ مِثْلَ رَأْسِ الذُّبَابِ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ، ثُمَّ تُصِیْبُ شَیْئًا مِنْ حُرِّ وَجْهِهِ إِلَّا حَرَّمَهُ اللهُ عَلَی النَّارِ.
اگر مکھی کے سر کے برابر کسی مومن شخص کی آنکھوں سے اللہ کے خوف میں آنسو نکل پڑے اور اس کے چہرے کے کسی حصے پر آ ٹپکے تو اللہ اس پر دوزخ کی آگ کو حرام کر دیتا ہے۔
14۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اللہ تعالیٰ سے روایت کیا کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَعِزَّتِي لَا أَجْمَعُ عَلٰی عَبْدِي خَوْفَیْنِ وَأَمْنَیْنِ إِذَا خَافَنِي فِي الدُّنْیَا أَمَّنْتُهٗ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَإِذَا أَمِنَنِي فِي الدُّنْیَا أَخَفْتُهٗ یَوْمَ الْقِیَامَةِ.
مجھے میری عزت کی قسم! میں اپنے بندے میں دو خوف اور دو امن اکٹھے نہیں کروں گا۔ اگر اس نے دنیا میں مجھ سے خوف رکھا تو میں اسے قیامت کے دن امن دوں گا اور اگر وہ دنیا میں مجھ سے بے خوف رہا تو میں اسے قیامت کے دن خوف سے دوچار کر دوں گا۔
بلاشبہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے جو یہاں بوئے گا اسی کا اجر آخرت میں پائے گا۔ چنانچہ جس نے ساری دنیوی زندگی اللہ کی میں بسر کی اور ہمیشہ مولیٰ کی ناراضگی اور اس کی گرفت کے خوف کو پیش نظر رکھا قیامت کے دن مزید کوئی خوف اسے پریشان نہیں کرے گا اور اس کے برعکس جس نے ساری زندگی اللہ کی ناراضگی، فسق و فجور، لہو و لعب، دنیا طلبی اور عیش و عشرت میں بسر کی اور مولیٰ کے خوف کو نظر انداز کرتا رہا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اسے اپنے خوف میں مبتلا کرے گا یعنی یہ کبھی نہیں ہوگا کہ جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کے خوف میں زندگی بسر کرے آخرت میں بھی اس پر خوف مسلط ہو اور جو دنیا میں اللہ تعالیٰ کو بھول کر نافرمانی اختیار کرتے ہوئے عیش و عشرت کی زندگی گزارے آخرت میں بھی راحت و سکون اس کا مقدر ہو۔
15۔ حضرت عباس بن عبد المطلب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِذَا اقْشَعَرَّ جِلْدُ الْعَبْدِ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ تَحَاتَّتْ عَنْهُ ذُنُوْبُهٗ کَمَا یَتَحَاتُّ عَنِ الشَّجَرَةِ الْیَابِسَةِ وَرَقُھَا.
جب اللہ تعالیٰ کے خوف سے کسی بندے کے رونگٹے کھڑے ہوجائیں تو اُس کے گناہ ایسے جھڑ جاتے ہیں جیسے سوکھے درخت کے پتے۔
16۔ دوسری روایت میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
کُنَّا جُلُوْسًا مَعَ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ تَحْتَ شَجَرَۃٍ فَھَاجَتْ رِیْحٌ فَوَقَعَ مَا کَانَ فِیْھَا مِنْ وَرَقٍ نَخِرٍ، وَبَقِيَ فِیْھَا مَا کَانَ مِنْ وَرَقٍ أَخْضَرَ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: مَا مَثَلُ ھٰذِهِ الشَّجَرَةِ؟ فَقَالَ الْقَوْمُ: اللهُ وَرَسُوْلُهٗ أَعْلَمُ۔ فَقَالَ: مَثَلُھَا مَثَلُ الْمُؤْمِنِ إِذَا اقْشَعَرَّ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ تعالیٰ وَقَعَتْ عَنْهُ ذُنُوْبُهٗ وَبَقِیَتْ لَهٗ حَسَنَاتُهٗ.
ہم رسول الله ﷺ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے بیٹھے تھے کہ اچانک تیز ہوا کا جھونکا آیا جس سے اس درخت کے خشک پتے گر گئے اور سبز پتے باقی رہ گئے۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا: اس درخت کی مثال کس کی طرح ہے؟ صحابہ کرام l نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ﷺ سب سے بہتر جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اس کی مثال اُس مومن کی مانند ہے جس کے خشیتِ الٰہی کے باعث رونگٹے کھڑے ہو گئے تو اس کے گناہ اس سے جھڑ گئے اور اُس کی نیکیاں باقی رہ گئیں۔
اللہ تعالیٰ کی خشیت میں بندے کا مبتلائے خوف ہو جانا کس طرح اس کا اپنے گناہوں سے پاک ہو جانے کا باعث بنتا ہے یہ حدیث مبارکہ اس ضمن میں عظیم بشارت ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کس طرح بندے کے گناہ معاف کرنے کے بہانے ڈھونڈتی ہے کاش یہ امر اس کے بندوں کی سمجھ میں آجائے۔
17۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ ربّ العزت نے اپنے نبی مکرم ﷺ پر یہ آیت - {یٰٓـاَیَّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَهْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ (التحریم، 66: 6)} ’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘ - نازل فرمائی تو حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک دن صحابہ میں اس کی تلاوت فرمائی۔
فَخَرَّ فَتًی مَغْشِیًّا عَلَیْهِ، فَوَضَعَ النَّبيُّ ﷺ یَدَهٗ عَلٰی فُؤَادِهٖ فَإِذَا ھُوَ یَتَحَرَّکُ. فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: یَا فَتٰی، قُلْ: لَا إِلٰـهُ إِلَّا اللهُ، فَقَالَھَا فَبَشَّرَهٗ بِالْجَنَّةِ. فَقَالَ أَصْحَابُهٗ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، أَمِنْ بَیْنِنَا؟ قَالَ: أَوْ مَا سَمِعْتُمْ قَوْلَهٗ تَعَالٰی: {ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَخَافَ وَعِیْدِo (إبراهیم، 14: 14)}.
ایک نوجوان یہ آیت سن کر تڑپا اور بے ہوش ہو کر گر پڑا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنا دست مبارک اس کے دل پر رکھا تو وہ دھڑک رہا تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اے نوجوان! کہو: لا إله إلا الله اس نے یہ کلمہ پڑھا تو آپ ﷺ نے اسے جنت کی بشارت دی۔ صحابہ کرام l نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا وہ ہمارے درمیان یہ مقام پاگیا (یعنی کیا اُسے جنت مل گئی)؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا: {ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَخَافَ وَعِیْدِo} ’یہ (وعدہ) ہر اُس شخص کے لیے ہے جو میرے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اور میرے وعدئہ (عذاب) سے خائف ہوا۔‘
حضرت محمد بن ہاشم کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ جب نوجوان مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کی سماعت پر خوف آخرت سے بے ہوش ہوگیا تو حضورنبی اکرم ﷺ نے شفقت و رحمت کے ساتھ (اس کا سر) اپنی گود میں لے لیا اتنا عرصہ جتنا الله رب العزت نے چاہا پھر اس نے آنکھیں کھولیں تو اپنے سر کو سرکارِ دو عالم ﷺ کی گود مبارک میں پایا۔ اس پر اس نے عرض کیا:
بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي، مِثْلَ أَيِّ شَيْئٍ الْحَجَرُ؟ قَالَ: أَمَا یَکْفِیْکَ مَا أَصَابَکَ، عَلٰی أَنَّ الْحَجَرَ الْوَاحِدَ مِنْهَا لَوْ وُضِعَ عَنْ جِبَالِ الدُّنْیَا کُلِّهَا لَذَابَتْ مِنْهُ، وَإِنَّ مَعَ کُلِّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ حَجَرًا وَشَیْطَانًا.
(یارسول الله!) میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! وہ پتھر جو جہنم کا ایندھن بنیں گے وہ کس چیز کی مثل ہوں گے؟ آپ ﷺ نے (اس کے سوال کے جواب میں) فرمایا: جو کچھ تمہیں پہنچا ہے وہ کافی نہیں؟ (پھر فرمایا: ) ان پتھروں میں سے کوئی پتھر اگر دنیا کے پہاڑوں پر رکھ دیا جائے تو وہ اس کے وزن کے باعث ریزہ ریزہ ہو جائیں اور بے شک ہر انسان کے ساتھ پتھر بھی ہیں اور شیطان بھی۔
مذکورہ بالا آیت قرآنی میں پنہاں خشیتِ الٰہی کا حال جب خوش بخت جوان صحابی رضی اللہ عنہ کے قلب پر وارد ہوا توخوفِ الٰہی کے غلبہ نے اسے بے خود کردیا۔ سرکارِ دو عالم ﷺ نے اس کے قلب کی باطنی حالت کو ملاحظہ فرماتے ہوئے جلال الٰہی سے ہیبت زدہ دل کو قرار و سکون پہنچانے کی خاطر اس کے سر کو اپنی گود مبارک میں پناہ عطا فرمائی۔ جس نے نوجوان صحابی کو سرمدی نیند سے معمور کردیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے جمال کی برکت سے اس کے قلب کو طاقت بخشی۔ جوان صحابی کی اس خوش بختی پر ہزاروں جنتیں نثار! جب اس کی آنکھ کھلی اور اپنے سر کو سرورِ دو جہاں ﷺ کی گود مبارک میں پایا تو شوق کی فروانی سے دوبارہ وجد میں آگیا۔ اور وارفتگی کے عالم میں انسانوں کے ساتھ ساتھ جہنم کا ایندھن بننے والے پتھروں کے بارے میں پوچھنے لگا۔ جذبات و کیفیات کی باردگر فراوانی پر نبی رحمت ﷺ نے روحانی علاج فرماتے ہوئے اسے حالت سنبھالنے کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ حال سے مغلوب طالب و سالک پر توجہ فرما کر مرشدِ کامل کی اس کے ہوش کو بحال کرنے کی اصل نبی اکرم ﷺ کا یہی اسوۂ مبارکہ ہے۔ روحانی کیفیات کے نتیجے میں قلب کا لرز جانا اور بے خود و بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑنا حقیقت میں نزول انوار الٰہی کے باعث ہے وگرنہ حضور نبی اکرم ﷺ خود فرما دیتے کہ یہ کیا نیا کام ہے جسے تم دین میں شامل کر رہے ہو۔
حقیقتِ حال آپ ﷺ کے سامنے عیاں تھی۔ تبھی آپ ﷺ نے اس کے قلب کو اپنے دستِ مبارک کی برکت سے سکون بہم پہنچایا۔ اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت میں لذت پاکر رونا روحانی مدارج کی ترقی کا باعث بنتا ہے اور یہ اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کے ثمر کا اعلان جنت کی بشارت کی شکل میں حضور ﷺ نے دنیا میں ہی فرما دیا اور اس پر قول باری تعالیٰ سے تصدیق بھی کر دی، جس میں حق تعالیٰ نے فرمایا:
ذٰلِکَ لِمَنْ خَافَ مَقَامِیْ وَخَافَ وَعِیْدِo
ابراهیم، 14: 14
یہ (وعدہ) ہر اس شخص کے لیے ہے جو میرے حضور کھڑا ہونے سے ڈرا اور میرے وعدهِٔ (عذاب) سے خائف ہوا۔
18۔ حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
أَنَّ فَتًی مِنَ الْأَنْصَارِ دَخَلَتْهُ خَشْیَۃٌ مِنَ النَّارِ، فَکَانَ یَبْکِي عِنْدَ ذِکْرِ النَّارِ حَتّٰی حَبَسَهٗ ذٰلِکَ فِي الْبَیْتِ، وَذُکِرَ ذٰلِکَ لِلنَّبِيِّ ﷺ فَجَائَهٗ فِي الْبَیْتِ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَیْهِ اعْتَنَقَهُ الْفَتٰی وَخَرَّ مَیِّتًا، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: جَهِزُوْا صَاحِبَکُمْ، فَإِنَّ الْفَرَقَ فَلَذَ کَبِدَهٗ.
انصار کے ایک نوجوان پر دوزخ کا خوف طاری ہوگیا۔ وہ دوزخ کے ذکر پر زار و قطار رویا کرتا تھا، حتیٰ کہ اس نے اپنے آپ کو گھر میں محصور کر لیا۔ حضور نبی اکرم ﷺ سے اس کا ذکر کیا گیا تو آپ ﷺ اس کے گھر تشریف لائے۔ جب آپ ﷺ اندر داخل ہوئے تو اس نوجوان نے آپ ﷺ کو گلے لگا لیا اور (اسی حالت میں) فوت ہوکر گر پڑا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اپنے ساتھی کی تجہیز و تکفین کرو کیونکہ دوزخ کے خوف نے اس کے جگر کو ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالا ہے۔
حافظ ابن رجب حنبلی اور ابن قدامہ نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ذکر کیا ہے کہ حضور نبی اکرم آپ ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِي نَفْسِي بِیَدِهٖ لَقَدْ أَعَاذَهُ اللهُ مِنْهَا، فَمَنْ رَجَا شَیْئًا طَلَبَهٗ وَمَنْ خَافَ شَیْئًا هَرَبَ مِنْهُ.
اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! یقینا اللہ تعالیٰ نے اسے دوزخ سے پناہ دے دی ہے، پس جو جس چیز کا طالب ہوتا ہے وہ اُسے ہی طلب کرتا ہے اور جو جس چیز سے خوف زدہ ہوتا ہے وہ اُس سے نجات چاہتا ہے۔
19۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ ذَکَرَ اللهَ، فَفَاضَتْ عَیْنَاهُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ، حَتّٰی یُصِیْبَ الْأَرْضَ مِنْ دُمُوْعِهٖ، لَمْ یُعَذِّبْهُ اللهُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ.
جس شخص نے اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا اور پھر خشیتِ اِلٰہی کی بناء پر اُس کی آنکھوں سے اس قدر اشک رواں ہوئے کہ وہ زمین پر جا گرے تو اللہ تعالیٰ اسے روزِ قیامت عذاب نہیں دے گا۔
اس حدیث مبارکہ کے مضمون نے خشیت الٰہی میں اشک بار آنکھوں کی قدر و قیمت بیان کرتے ہوئے مزید وضاحت فرما دی کہ بعض مقربانِ بارگاہ الٰہی ایسے بھی ہوں گے جن کی آنکھوں کے آنسو دامن کو تر کرنے کے بعد زمین کو بھی سیراب کریں گے۔
20۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
رَأْسُ الْحِکْمَةِ مَخَافَۃُ اللهِ.
حکمت کی اصل اللہ تعالیٰ کا خوف ہے۔
21۔ حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
مَنْ خَافَ اللهَ خَوَّفَ اللهُ مِنْهُ کُلَّ شَيْئٍ، وَمَنْ لَمْ یَخَفِ اللهَ خَوَّفَهُ اللهُ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ.
جو الله تعالیٰ سے خوف رکھتا ہے، الله تعالیٰ ہر چیز کے دل میں اس کا خوف (رعب) ڈال دیتا ہے؛ اور جو الله تعالیٰ سے خوف نہیں رکھتا الله تعالیٰ اُسے ہر شے کے خوف میں مبتلا کردیتا ہے۔
22۔ اسی طرح حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں:
سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ یَخْطُبُ وَهُوَ یَقُوْلُ: لَا تَنْسُوْا الْعَظِیْمَتَیْنِ. قُلْنَا: وَمَا الْعَظِیْمَتَانِ؟ قَالَ: الْجَنَّۃُ وَالنَّارُ، فَذَکَرَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ مَا ذَکَرَ، حَتَّی بَکَی إِلَی أَنْ جَرَی الدَّمْعُ أَوْ بَلَّ الدَّمْعُ جَانِبَيْ لِحْیَتَهٗ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِيْ نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِهٖ، لَوْ تَعْلَمُوْنَ مِنَ الْأَمرِ مَا أَعْلَمُ، لَمَشَیْتُمْ إِلَی الصَّعِیْدِ، فَحَثَیْتُمْ عَلَی رُؤُوْسِکُمْ التُّرَابَ.
میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو خطاب میں فرماتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: دو عظیم چیزوں کو نہ بھولو، ہم نے عرض کیا: وہ دو عظیم چیزیں کون سی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جنت اور دوزخ۔ پھر حضور نبی اکرم ﷺ نے ذکر فرمایا جو بھی فرمایا۔ پھر آپ ﷺ آبدیدہ ہو گئے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے آنسو داڑھی مبارک کی دونوں جانب گرنے لگے، پھر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں محمد ﷺ کی جان ہے، اگر تم آخرت کے علم میں سے وہ کچھ جان لو جو میں جانتا ہوں تو تم یقینا (ویران) زمین کی طرف چل پڑو اور یقینا تم اپنے سروں پر خاک ڈالو۔
یہ گریہ وبکا اس رسول معظم ﷺ کا عمل ہے جو معصوم بھی ہیں اور مامون بھی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں خوف اور گریہ و زاری کو کبھی ترک نہیں فرماتے۔
23۔ حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے کہ ایک صحابی رسول اکرم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور عرض کیا:
بِمَ أَتَّقِيِ النَّارَ؟ قَالَ: بِدَمُوْعِ عَیْنَیْکَ، فَإِنَّ عَیْنًا بَکَتْ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ لاَ تَمَسُّهَا النَّارُ أَبَدًا.
(یا رسول الله!) میں خود کو دوزخ کی آگ سے کیسے بچاؤں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کے ذریعے بچا۔ یہ اس لئے کہ جو آنکھ اللہ تعالیٰ کے خوف میں آنسو برساتی ہے اللہ تعالیٰ ہرگز اسے دوزخ کی آگ میں نہیں بھیجے گا۔
24۔ حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میرے خلیل حضور نبی اکرم ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی:
أَنْ أَخْشَی اللهَ کَأَنِّي أَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ أَکُنْ أَرَاهُ فَإِنَّهٗ یَرَانِي.
میں الله تبارک و تعالیٰ سے ایسے ڈروں گویا میں اُسے دیکھ رہا ہوں، پس اگر میں اُسے نہیں دیکھ سکتا تو(کم از کم یہ تصور تو پختہ ہونا چاہیے کہ) وہ یقینا مجھے دیکھ رہا ہے۔
اس حدیث مبارکہ میں خود سرکار دو عالم ﷺ نے خشیت الٰہی کو درجہ احسان پر فائز ہونے کا وسیلہ قرار دیا ہے۔ اگرچہ حدیث احسان میں بھی یہی مضمون وارد ہوا ہے لیکن یہاں اپنے صحابی حضرت ابو ذر غفاری کے وسیلہ سے تمام اہل ایمان کو حق تعالیٰ کے دربار میں حاضری کے آداب بجا لانے کا سلیقہ بتایا گیا ہے۔
25۔ حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَوْ خِفْتُمُ اللهَ حَقَّ خِیْفَتِهٖ لَعَلِمْتُمُ الْعِلْمَ الَّذِي لَا جَھْلَ مَعَهٗ، وَلَوْ عَرَفْتُمُ اللهَ حَقَّ مَعْرِفَتِهٖ لَزَالَتْ بِدُعَائِکُمُ الْجِبَالُ.
اگر تم الله تعالیٰ سے اس طرح ڈرو جس طرح اس سے ڈرنے کا حق ہے، تو تم ایسا علم جان لو گے جس کے ساتھ جہالت نام کی کوئی شے نہیں ہے، اور اگر تم الله تعالیٰ کو کماحقہ پہچان لو تو تمہاری دعاؤں سے پہاڑ ہل جائیں گے۔
اس حدیث مبارکہ میں اہلِ ایمان پر یہ حقیقت منکشف کی گئی ہے کہ خوف و خشیتِ الٰہی ہی معرفتِ حق کا سب سے بڑا وسیلہ ہے۔ جو شخص اس نعمت عظمیٰ سے سرفراز کر دیا گیا ہے اس کی دعا سے پہاڑ اپنی جگہ سے ہل جاتے ہیں۔ یہ امر درحقیقت اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بندہ رب العزت کی بارگاہ میں مقبول ہوگیا ہے۔
26۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
لَمَّا نَزَلَتْ: {اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَo وَتَضْحَکُوْنَ وَلَا تَبْکُوْنَo (النجم، 53: 59-60)} بَکٰی أَصْحَابُ الصُّفَّةِ حَتّٰی جَرَتْ دُمُوْعُھُمْ عَلٰی خُدُوْدِھِمْ، فَلَمَّا سَمِعَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ حَنِیْنَھُمْ بَکٰی مَعَھُمْ، فَبَکَیْنَا بِبُکَائِهٖ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: لَا یَلِجُ النَّارَ مَنْ بَکٰی مِنْ خَشْیَةِ اللهِ، وَلَا یَدْخُلُ الْجَنَّۃَ مُصِرٌّ عَلٰی مَعْصِیَۃٍ وَلَوْ لَمْ تُذْنِبُوْا لَجَاءَ اللهُ بِقَوْمٍ یُذْنِبُوْنَ فَیَغْفِرُ لَھُمْ.
جب یہ آیت نازل ہوئی: {اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَo وَتَضْحَکُوْنَ وَلَا تَبْکُوْنَo} ’پس کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہو۔ اور تم ہنستے ہو اور روتے نہیں ہو۔ ‘ تو اہلِ صُفہ اس قدر روئے کہ اُن کے آنسو اُن کے رخساروں پر بہہ نکلے۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ نے اُن کے رونے کی آواز سنی تو آپ ﷺ بھی ان کے ساتھ رونے لگے اور آپ ﷺ کے رونے کی وجہ سے ہم بھی رونے لگے۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ تعالیٰ کے خوف سے رویا وہ دوزخ میں داخل نہیں ہو گا اور نہ گناہ پر اصرار کرنے والا جنت میں داخل ہو گا۔ اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگ لے آئے گا جو گناہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ انہیں بخشے گا۔
حضور نبی اکرم ﷺ کے فیضانِ صحبت سے اہلِ صفہ بہت رقیق القلب ہو گئے تھے چنانچہ فرمودۂ حق سن کر اصحابِ صفہ رونے لگے۔ ان کی خوفِ الٰہی میںاس کیفیت کو دیکھ کر خود سرکار دو عالم ﷺ بھی ان کے ساتھ شاملِ گریہ ہوگئے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے انبیائے کرام علیہم السلام تو وقوع پذیر ہونے والے واقعات کا سب سے زیادہ مشاہدہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ اس موقع پر حضور نبی اکرم ﷺ نے بشارت دی کہ خوف خدا میں رونے والے شخص کو کبھی دوزخ کی آگ مس نہیں کرے گی اور ساتھ ہی انتباہ کرتے ہوئے فرمایا کہ گناہ پر اصرار کرنے والا کبھی جنت میں نہیں جائے گا۔ آپ ﷺ نے گناہ گاروں پر اللہ تعالیٰ کی رحمت و بخشش کی نوید سناتے ہوئے فرمایا کہ حق تعالیٰ کو معافی مانگنے والے گناہگار، کبھی گناہ نہ کرنے والے نیکوکاروں سے زیادہ عزیز ہیں۔
27۔ حضرت ہیثم بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے لوگوں سے خطاب فرمایا تو خطاب کے دوران آپ ﷺ کے سامنے بیٹھا ہوا ایک شخص رو پڑا۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَوْ شَھِدَکُمُ الْیَوْمَ کُلُّ مُؤْمِنٍ عَلَیْهِ مِنَ الذُّنُوْبِ کَأَمْثَالِ الْجِبَالِ الرَّوَاسِي لَغُفِرَ لَھُمْ بِبُکَاءِ هٰذَا الرَّجُلِ وَذَلِکَ أَنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَبْکِي وَتَدْعُوْ لَهٗ وَتَقُوْلُ: اَللّٰھُمَّ شَفِّعِ البکاءیْنَ فِیْمَنْ لَمْ یَبْکِ.
اگر آج تمہارے درمیان وہ تمام مومن موجود ہوتے جن کے گناہ پہاڑوں کے برابر ہیں تو انہیں اس ایک شخص کے رونے کی وجہ سے بخش دیا جاتا اور یہ اس وجہ سے ہے کہ فرشتے بھی اس کے ساتھ رو رہے تھے اور دعا کر رہے تھے: اے اللہ! نہ رونے والوں کے حق میں رونے والوں کی شفاعت قبول فرما۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا یہ فرمان مبارک اس لحاظ سے عجیب شان کا حامل ہے کہ بندے کا اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت میں رونا اسے اس قدر عزیز اور پسند ہے کہ ایک اہل بکا کے گریہ کے صدقے میں اس کے ساتھ مجلس کرنے والے گناہ گار بندے بھی بخش دیے جاتے ہیں۔ اس حدیث مبارکہ سے نیک اور صالح بندوں کی صحبت اختیار کرنے کی اہمیت بھی واضح ہوتی ہے۔
28۔ حضرت ثابت بن سرح رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی دعوات مبارکہ میں سے ایک دعائے مبارک یہ بھی تھی:
اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِي عَیْنَیْنِ ھَطَّالَتَیْنِ تَبْکِیَانِ بِذُرُوْفِ الدُّمُوْعِ وَتُشْفِقَانِ مِنْ خَشْیَتِکَ قَبْلَ أَنْ یَّکُوْنَ الدُّمُوْعُ دَمًا وَالْأَضْرَاسُ جَمْرًا.
اے الله! مجھے ایسی دو آنکھیں عطا فرما جو زور سے برسنے والی ہوں اور برستے آنسوؤں کے ساتھ روئیں اور تیرے عذاب و عتاب سے خوفزدہ ہوں، اس سے قبل کہ آنسو خون بن جائیں اور داڑھیں انگارے (یعنی عذابِ نار میں مبتلا ہونے سے قبل اس عذاب کا ڈر اور خوف دل میں پیدا ہو جائے تاکہ آنکھیں آنسوؤں کے ذریعے اس آگ کو بجھا لیں اور اس کو ملاحظہ کرنے سے پہلے ہی اس کے بچاؤ کی تدبیر کر لیں)۔
حضور نبی اکرم ﷺ سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گریہ و بکا پیش کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟ آپ ﷺ کی دعا حق تعالیٰ کے حضور اظہار بندگی کے علاوہ امت کو عذابِ الٰہی سے بچنے کی راہ اور تدبیر بھی عطا فرما رہی ہے کہ اے بندے! تو اللہ تعالیٰ سے اس کے خوف میں رونے والی آنکھ طلب کر تاکہ کل عذاب جہنم میں مبتلاہونے سے قبل ہی اس سے محفوظ ہوسکے۔
29۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
کُلُّ عَیْنٍ بَاکِیَۃٌ یَوْمَ الْقِیَامَةِ إِلَّا عَیْنٌ غَضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللهِ، وَعَیْنٌ سَهِرَتْ فِي سَبِیْلِ اللهِ، وَعَیْنٌ خَرَجَ مِنْهَا مِثْلُ رَأْسِ الذُّبَابِ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ.
اس آنکھ کے علاوہ ہر آنکھ قیامت کے دن رو رہی ہو گی جو الله تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں (کو دیکھنے) سے جھکی رہی اور وہ آنکھ جو الله کی راہ میں بیدار رہی اور (تیسری) وہ آنکھ جس سے الله تعالیٰ کے خوف کی وجہ سے مکھی کے سر کے برابر آنسو بہہ نکلے۔
اس حدیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم ﷺ نے ان خوش نصیبوں کو قیامت کے دن سلامتی اور مامون ہونے کی بشارت دی ہے:
محدثین کرام کا کثرت سے ایک ہی موضوع پر احادیث مبارکہ کا بیان کرنا دراصل اس حقیقت کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اس کی اور اس کی یاد میں آنسوؤں اور آہ و بکا کی کس قدر فضیلت و اہمیت ہے۔ جب ہر چیز کھول کر رسالت مآب ﷺ کی زبانِ حق ترجمان سے امت کو بیان کردی گئی ہے تو مغفرت و بخشش کے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ خوف و الٰہی کے دامن کو مضبوطی سے تھام لیا جائے جو بخشش کا واحد ذریعہ نظر آتا ہے۔
صحابیت نسل انسانی میں نبوت کے بعد سب سے بڑا شرف ہے۔ صحابہ کرام l وہ خوش نصیب ہستیاں تھیں جنہوں نے اپنی ظاہری حیات میں ایمان کی حالت میں حضور نبی اکرم ﷺ کی زیارت کی۔ اس لحاظ سے ان سے منسوب آثار، احادیثِ مبارکہ کے بعد امت کی ہدایت کا سب بڑا ذریعہ ہے۔
صحابہ کرام l کے بعد زہد و ورع اور تقویٰ و طہارت کی حامل بعض قدسی صفت ہستیاں ہو گزری ہیں جن کے اقوال و احوال دین کا معیار قرار پائے۔ یہی وہ مبارک ہستیاں ہیں جن کے دم قدم سے دین متین کی آبیاری ہوتی رہی۔ جملہ کمزوریوں اور کوتاہیوں کے باجود لوگوں کے دلوں میں ان پاکباز شخصیات سے محبت کرنے کا جذبہ ہمیشہ موجود رہا ہے۔ یہی جذبۂ محبت ان کے بے مثال آثار و اقوال پر عمل پیرا ہونے کا سب سے بڑا محرک ہے۔ اب ہم انہی برگزیدہ ہستیوں کے آثار و اقوال کے حوالے سے خوف و خشیت الٰہی پر روشنی ڈالتے ہیں۔
امام ابن قدامہ نے حضرت حذیفہ سے مروی ایک اور واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ کے زمانہ اقدس میں ایک نوجوان صحابی پر جہنم کی آگ کے ذکر کے باعث (اکثر) گریہ طاری رہتا۔ اس کا یہ رونا اس قدر شدت اختیار کر گیا کہ اس نے خود کو گھر کے اندر بند کر لیا۔ حضورنبی اکرم ﷺ کو جب اس کی یہ حالت بتائی گئی تو آپ ﷺ اس کے پاس تشریف لے گئے۔ اس جوان صحابی نے جب آپ ﷺ کو دیکھا تو مردہ حالت میں زمین پر آگرا۔ حضورنبی اکرم ﷺ نے (اپنے اصحاب کو) ارشاد فرمایا کہ اپنے دوست کی تجہیز و تکفین کرو۔ کیونکہ (جہنم کی) آگ کے خوف سے اس کا جگر پھٹ گیا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے کہ الله تعالیٰ نے اس کو اس آگ سے پناہ دے دی ہے۔ جو کسی چیز کی امید رکھتا ہے تو اس کی طلب کرتا ہے اور جو کسی چیز کی اُمید نہیں رکھتا ’اس سے بھاگ جاتا ہے‘۔
ابن قدامہ، الرقۃ والبکاء: 138-139
خوف و خشیتِ الٰہی کا جب قلب پر نزول ہوتا ہے تو بعض قلوب عظمتِ الٰہی اور جلال کبریائی کی تاب نہ لا کر نہ صرف از خود رفتہ ہو جاتے ہیں بلکہ جان سے بھی گزر جاتے ہیں۔
یہ جوان صحابی بھی کشتۂ خوفِ الٰہی تھا۔ جہنم کی آگ کا خوف درحقیقت جلالِ الٰہی کی ہیبت تھی جس سے اس کا جگر پھٹ گیا تھا۔ اس کی روح حضور نبی اکرم ﷺ کے سینۂ اقدس سے ملنے کو بے تاب تھی جیسے ہی یہ تمنا پوری ہوئی اس کی روح سکون پا کر حق تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو گئی۔ یہ جوان ان عاشقانِ صادق میں سے تھا جو تسلیم و رضا کی راہ میں نذرانہ جان پیش کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
کشتگانِ خنجرِ تسلیم را
ہر زماں از غیب جانِ دیگر است
(تسلیم و رضا کے خنجر سے قتل کئے جانے والوں کو غیب سے ہر وقت ایک کے بعد ایک جان عطا کی جاتی ہے تاکہ رضا کے خنجر سے بار بار ذبح ہوتے رہیں۔)
بعض پاک باز ہستیاں ایسی ہیں جن کی روحیں دیدارِ محبوب میں نذرانۂ جاں پیش کرنے کی ہر لمحہ منتظر رہتی ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں مولیٰ کریم نے صرف اور صرف اپنی محبت کے لئے پیدا کیا ہوتا ہے۔ یہ شعر ان پر کس قدر صادق آتا ہے۔
ہمہ آہوانِ صحرا سرِخود نہادہ برکف
بہ امید آنکہ روزے بہ شکار خواہی آمد
(صحرا کے تمام ہرن اپنے سر ہاتھوں میں لئے اس امید کے ساتھ منتظر کھڑے ہیں کہ کب محبوب شکار کے لئے نکلے اور وہ خود کو شکار ہونے کے لئے پیش کر دیں)
حضرت صالح المری رضی اللہ عنہ کے طریق سے روایت کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے جلیل القدر پیغمبر سیدنا داؤد علیہ السلام نے عرض کیا: اے اللہ! جو شخص تیری خشیت اور خوف میں رو پڑا اور اس کے آنسو اس کے گالوں پر سے رواں ہوگئے، اس کے اس رونے پر تیری بارگاہ میں کیا جزا ہے؟ اللہ رب العزت نے فرمایا: اس کی جزا یہ ہے کہ میں اِس کے چہرے کو دوزخ پر حرام کردیتا ہوں۔
ابن أبی الدنیا، الرقۃ والبکاء، 3: 171، رقم: 7
حضرت ایوب زیاد العنبری حدیثِ قدسی روایت کرتے ہیں:
إِنَّ اللهَ تَعَالٰی قَالَ: وَعِزَّتِي، لَا یَبْکِي عَبْدٌ مِنْ خَشْیَتِي إِلَّا أَجَرْتُهٗ مِنْ نِقْمَتِي وَعِزَّتِی، لَایَبْکِي عَبْدٌ مِنْ خَشْیَتِي إِلَّا أَبْدَلْتُهٗ ضِحْکًا فِي نُوْرٍ قُدْسِيٍّ.
ابن أبی الدنیا، الرقۃ والبکاء، 3: 171، رقم: 8
اللہ رب العزت نے فرمایا: مجھے اپنی عزت کی قسم! کوئی بندہ ایسا نہیں جو میرے خوف اور خشیت میں روئے اور میں اسے اپنی رحمت اور بخشش کا حصہ نہ عطا کروں۔ اور مجھے اپنی عزت کی قسم! کوئی شخص ایسا نہیں جو میرے خوف اور خشیت میں روئے تو میں اس کی مسکراہٹ میں نور قدسی نہ رکھ دوں۔
رب العزت کے خوف اور خشیت میں آنسو بہانا اس قدر اعلیٰ و ارفع اور مبارک فعل ہے کہ جس کے باعث اللہ تعالیٰ کی رحمت کا فیض تنہا اس رونے والے کو ہی نہیں ملتا بلکہ جس مجلس میں وہ روتا ہے ساری مجلس اللہ کی بخشش کے فیض سے مالا مال کردی جاتی ہے۔ حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ دو آنکھیں جو اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت میں روتی ہیں اور ان کے رونے پر دل گواہی دیتا ہے، یعنی جب دل کی رِقّت اور آنکھوں کا رونا مل جاتے ہیں، تو اُس شخص کے اردگرد بیٹھے جملہ حاضرین بھی رحمت الٰہی میں سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں، خواہ ان کی تعداد بیس ہزار تک کیوں نہ پہنچ جائے۔ یہ اخلاص اور حضورِ قلب سے خوف و خشیت الٰہی میں رونے کا مقام ہے۔
ابن أبی الدنیا، الرقۃ والبکاء، 3: 171، رقم: 9
حضرت عتبہ بن عبد اللہ الاصم روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت فرقد سبقی سے سنا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ حدیث پہنچی:
إِنَّ الْأَعْمَالَ کُلَّهَا تُوْزَنُ إِلَّا الدَّمْعَۃَ تَخْرُجُ مِنْ عَیْنِ الْعَبْدِ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ، فَإِنَّهٗ لَیْسَ لَهَا وَزْنٌ وَلَا قَدْرٌ، وَإِنَّهٗ لَیُطْفِیُٔ بِالدَّمْعَةِ الْبُحُوْرُ مِنَ النَّارِ.
ابن ابی الدنیا، الرقۃ والبکاء، 3: 172، رقم: 11
(قیامت کے روز) تمام اعمال کا وزن کیا جائے گا سوائے ان آنسوؤں کے جو اللہ کے خوف کی وجہ سے آنکھوں سے گر گئے۔ ان کا وزن ہی نہیں اور انہیں تولا ہی نہیں جاسکتا۔ اگر سمندروں کے برابر بھی آگ ہو تو آنسو اسے بجھانے کے لئے کافی ہیں۔
ہارون بن ابی زیاد فرماتے ہیں کہ مجھ تک یہ حدیث پہنچی ہے:
إِنَّ البُکَاءَ مَثَاقِیْلُ، لَوْ وُزِنَ بِالْمِثْقَالِ الْوَاحِدِ مِثْلَ الْجِبَالِ لَرَجَحَ بِهِ الْبُکَاءُ.
خوف و خشیت الٰہی میں اگر رونے کے ایک ذرہ کو اس ساری زمین اور اس کے پہاڑوں کے مقابل تولا جائے تو اس کا وزن روئے زمین کے پہاڑوں سے بڑھ جائے گا۔
حضرت خالد بن معدان روایت کرتے ہیں:
مَا بَکَی عَبْدٌ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ تَعَالٰی إِلَّا خَشَعَتْ لِذَالِکَ جَوَارِحُهٗ، وَکَانَ مَکْتُوْبًا فِی الْمَلَأِ الْأَعْلَی بِاسْمِهٖ فُـلَانِ بْنِ فُـلَانٍ، مُنَوَّرًا قَلْبُهٗ بِذِکْرِ اللهِ تَعَالٰی.
حکیم ترمذی، نوادر الأصول فی أحادیث الرسول، 2: 220
جو شخص اللہ رب العزت کے خوف اور خشیت میں روئے اور اس کے رونے سے پورے اعضائے بدن بھی نرم ہو جائیں تو اس لمحے ملا الاعلیٰ میں حکم ہوتا ہے کہ اس کا نام اس کے باپ کے نام کے ساتھ ملا کر لکھ لو اور اس کے دل کو میری یاد کے ساتھ منور کر دو۔
حضرت ابن ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مجھ تک حدیث مبارکہ کے یہ الفاظ پہنچے:
إِنَّ الْبَاکِيَ مِنْ خَشْیَتِهٖ یُبَدِّلُ اللهُ مَکَانَ کُلِّ قَطْرَۃٍ أَوْ دَمْعَۃٍ تَخْرُجُ مِنْ عَیْنَیْهِ أَمْثَالَ الْجِبَالِ مِنَ النُّوْرِ فِي قَلْبِهٖ، وَیُزَادُ مِنْ قُوَّتِهٖ لِلْعَمَلِ، وَیُطْفَأُ بِتِلْکَ الْمَدَامِعِ بُحُوْرٌ مِنَ النَّارِ.
ابن ابی الدنیا، الرقۃ والبکاء، 3: 176، رقم: 36
جب کوئی بندہ اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت میں روتا ہے تو اس کی آنکھوں سے بہنے والے ہر قطرے یا ہر آنسو کے عوض اللہ تعالیٰ پہاڑوں کی مقدار نور اس کے دل میں رکھ دیتا ہے، اور اللہ تعالیٰ اعمال صالحہ کی توفیق اور قوت اس میں بڑھاتا چلا جاتا ہے اور سمندروں کے حساب سے بھی اگر دوزخ کی آگ اس کی منتظر ہو تو اس کو بجھاتا چلا جاتا ہے۔
حضرت ابی سعید السراج روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک روز حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کی مجلس میں خطاب سن رہے تھے۔ دوران خطاب ایک شخص پر گریہ و بکا طاری ہوگیا اور چیخ نکل گئی۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے اس کے رونے کی آواز سن لی۔ اسے آواز دے کر فرمایا: اے رونے والے! اچھی طرح رو لے۔ فرمایا: ہم تک یہ بات پہنچی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ عَیْنًا بَکَتْ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ لَا تَمَسُّھَا النَّارُ أَبَدًا.
جو آنکھ الله تعالیٰ کے خوف سے رو پڑی اسے کبھی دوزخ کی آگ نہیں چھوئے گی۔
اس سے مراد یہ ہے کہ اگر رونا آگیا ہے تو جی بھر کر رو تاکہ اللہ کی رحمت کا خزانہ کثرت کے ساتھ تجھے عطا کیا جائے۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کے خوف میں روتا ہے قیامت کے دن اللہ کی رحمت اس کے سر پر سایہ فگن ہو گی۔ اسی طرح حضرت جعفر بن سلیمان روایت کرتے ہیں کہ حضرت مالک بن دنیار رضی اللہ عنہ ایک روز خطاب فرما رہے تھے۔ دورانِ خطاب حضرت حوشب بن مسلم السقفی رضی اللہ عنہ رو پڑے۔ اتنا روئے کہ ان کے گریہ و بکا کی چیخ بلند ہو گئی۔ حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ فرمانے لگے: اے جوشب! جی بھر کے رو اس لئے کہ رسول اللہ ﷺ کی یہ حدیث مبارک ہم تک پہنچی ہے:
أَنَّ الْعَبْدَ لَا یَزَالُ یَبْکِي حَتّٰی یَرْحَمَهٗ سَیِّدُهٗ، فَیُعْتِقُهٗ مِنَ النَّارِ.
ابن أبی الدنیا، الرقۃ والبکاء، 3: 173، رقم: 17
اللہ کا بندہ جب روتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اس پر رحم آجاتا ہے اس کے رونے کے سبب اسے جہنم سے آزادی کا پروانہ عطا کر دیتا ہے۔
حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مَنْ بَکٰی خَوْفًا مِنْ ذَنْبٍ، غُفِرَ لَهٗ.
ابن أبی الدنیا، الرقۃ والبکاء، 3: 173، رقم: 20
جو شخص اپنے گناہ کے خوف سے رویا تو اس کا وہ گناہ معاف کر دیا گیا۔
حضرت عطیہ العوفی رضی اللہ عنہ مرسلاً ایک حدیث روایت کرتے ہیں:
أَنَّ مَنْ بَکٰی عَلٰی خَطِیْئَۃٍ، مُحِیَتْ عَنْهُ وَکُتِبَتْ لَهٗ حَسَنَةً.
ابن رجب حنبلی، جامع العلوم والحکم، 1: 180
جو شخص اپنی خطا پر روتا ہے تو اس کی خطا کو مٹا دیا جاتا ہے اور اس کے لئے ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے۔
حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ نے اس کی وضاحت بڑے ہی عجیب انداز میں کی ہے جسے خالد بن یزید القرنی نے روایت کیا ہے۔ حضرت مالک بن دینار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
الْبُکَاءُ عَلَی الْخَطِیْئَةِ یَحُطُّ الذُّنُوْبَ کَمَا تَحُطُّ الرِّیْحُ الْوَرَقَ الْیَابِسَ.
ابن ابی الدنیا، الرقۃ والبکاء، 3: 174، رقم: 25
اپنی خطا پر رونا گناہوں کو اس طرح جھاڑ دیتا ہے جیسے تیز ہوا سوکھے پتوں کو جھاڑ کر گرا دیتی ہے۔
آہ و بکا اور خشیتِ الٰہی بندے کے گناہوں کو ایسے ختم کردیتی ہے جیسے کبھی گناہ کئے ہی نہ تھے۔
رونا ایسا عمل ہے کہ جس خیال اور نیت سے رویا جائے اللہ تعالیٰ اسی نیت کا ثمر اس کو عطا کر دیتا ہے۔ اگر گناہ کی مغفرت و بخشش کے لئے رویا تو اللہ رب العزت اس کے گناہ بخش دیتا ہے۔ اگر دوزخ کے خوف سے رویا تو اسے دوزخ سے امان مل جاتی ہے۔ اگر جنت کے شوق میں رویا تو اسے جنت کا ٹھکانہ مل جاتا ہے اور اگر مولیٰ کی محبت اور اس کے شوقِ لقا میں رویا تو اسے مولیٰ کی توجہ اور دیدار نصیب ہوجاتا ہے۔
حضرت کعب الاحبار رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مَنْ بَکَی اشْتِیَاقًا إِلَی اللهِ، أَبَاحَهُ النَّظْرَ إِلَیْهِ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی، یَرَاهُ مَتٰی شَاءَ.
ابن أبی الدنیا، الرقۃ والبکاء، 3: 173، رقم: 20
جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے اشتیاق میں رویا اللہ تعالیٰ اس بندے کی طرف تکنے کو اپنے اوپر مقرر فرما لیتا ہے۔
حضرت ابو عمر زادان سے منقول ہے:
مَنْ بَکَی خَوْفًا مِنَ النَّارِ أَعَاذَهُ اللهُ مِنْهَا، وَمَنْ بَکَی شَوْقًا إِلَی الْجَنَّةِ أَسْکَنَهُ اللهُ إِیَّاهَا.
ابن ابی الدنیا، الرقۃ والبکاء، 3: 173، رقم: 21
جو شخص دوزخ کی آگ کے ڈر سے رویا اسے دوزخ سے نجات کا پروانہ مل گیا اور جو شخص جنت کے شوق میں رویا، اللہ تعالیٰ نے جنت کو اس کا ٹھکانہ بنا دیا۔
حضرت جریر بن عبد اللہ بجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میں تمہارے سامنے سورہ اَلْهٰـکُمُ التَّکَاثُرُ تلاوت کرتا ہوں، تم میں سے جو شخص (یہ سورت سن کر) رو پڑا اس کے لئے جنت کا وعدہ کرتا ہوں۔ آپ ﷺ نے تلاوت فرمائی تو بعض صحابہ رو پڑے اور بعض کو رونا نہ آیا۔ جو لوگ نہ رو سکے انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم نے بڑی کوشش کی کہ روئیں، لیکن ہمیں قدرت نہ تھی اور ہم رو نہ سکے۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
إِنِّي قَارِئُهَا عَلَیْکُمْ الثَّانِي. فَمَنْ بَکٰی فَلَهُ الْجَنَّۃُ، وَمَنْ لَمْ یَقْدِرْ أَنْ یَبْکِيَ فَلْیَتَبَاکِ.
بیہقی، شعب الإیمان، 2: 364، رقم: 2054
میں (سورۃ التَّکَاثُر) دوبارہ قرأت کرتا ہوں جو شخص رو پڑے اس کے لئے جنت کا وعدہ ہے اور جو رونے کی قدرت نہ پا سکے تو اپنی شکل (ہی) رونے والی بنا لے۔
اس روایت کے مطابق حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے اصحاب کو گریہ و زاری اور آہ و بکا کی خصوصی طور پر ترغیب اور تلقین فرمائی۔ صحابہ کرام l سچے اور کھرے انسان تھے۔ ان میں سے بعض جب باوجود کوشش کے رو نہ پائے تو عرض کیا: یارسول اللہ! ہمارا کیا بنے گا؟ ہم آپ ﷺ کے ارشاد کے مطابق رو نہیں سکے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں دوبارہ قرأت کرتا ہوں، تم رونے کی کوشش کرو اور اگر پھر بھی رونا نہ آئے تو رونے والے شخص کی طرح اپنی شکل بنا لو۔ قابل غور بات ہے کہ عموماً بناوٹ کو پسند نہیں کیا گیا لیکن آہ و بکا ایسی عظیم نعمت ہے کہ اس موقع کو مستثنیٰ قرار دیا گیا کہ مایوسی کی کوئی بات نہیں، اگر رو نہیں سکتے تو رونے والی شکل ہی بنا لو، اللہ تعالیٰ رونے والی شکل پر بھی رحمت فرماتا ہے۔
اگر کوئی چاہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہو تو اس کی کنجی یہ ہے کہ خشیتِ الٰہی میں گریہ و زاری اور رونا اختیار کرے۔
حضرت ابو حازم رضی اللہ عنہ جو جلیل القدر تابعی ہیں وہ روایت کرتے ہیں:
أَنَّ الْبُکَاءَ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ مِفْتَاحُ لِرَحْمَتِهٖ.
ابن ابی الدنیا، الرقۃ والبکاء، 3: 175، رقم: 34
اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت میں رونا اللہ کی رحمت کی چابی ہے۔
حضرت عمر بن ذر رضی اللہ عنہ الحمدانی الکوفی جلیل القدر اَئمہ حدیث میں سے ہیں۔ وہ اپنے بارے میں تحدیث نعمت کے طور پر بیان فرماتے ہیں کہ
مَا رَأَیْتُ بَاکِیًا قَطُّ إِلَّا خُیِّلَ إِلَیَّ أَنَّ الرَّحْمَۃَ قَدْ تَنَزَّلَتْ عَلَیْهِ.
ابن ابی الدنیا، الرقۃ والبکاء، 3: 174، رقم: 29
جب کسی کو گریہ و بکا میں مصروف پاتا ہوں تو میرے دل میں خیال ڈال دیا جاتا ہے کہ اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا نزول ہو رہا ہے۔
حضرت رشدین بن سعد نے پہلے انبیاء علیہم السلام پر نازل کی گئی کتب اور صحائف کا بھی مطالعہ کیا تھا۔ آپ فرماتے ہیں کہ ان میں رب العالمین نے اپنے انبیاء کرام سے فرمایا ہے:
قُلْ لِلْمُؤَیِّدِیْنَ مِنْ عِبَادِي، فَلْیُجَالِسُوا البکاءیْنَ مِنْ خَشْیَتِيْ، لَعَلِّي أُصِیْبُهُمْ بِرَحْمَتِي إِذَا أَنَا رَحِمْتُ البکاءیْنَ.
ابن ابی الدنیا، الرقۃ والبکاء، 3: 173، رقم: 27
میرے بندوں سے کہہ دیں کہ وہ ان لوگوں کی مجالس میں بیٹھیں جو میری خشیت میں کثرت سے رونے والے ہیں۔ اس لئے کہ ان رونے والوں پر میں نے اپنی رحمت کو نازل کرنا اپنے اوپر لازم کرلیا ہے اور جو ان کی صحبت اختیار کریں گے اپنی رحمت بیکراں کا حصہ انہیں بھی عطا کرتا ہوں۔
حضرت ہارون بن رئاب رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا بَکٰی عَبْدُ اللهِ مُخْلِصاً فِي مَلَأٍ مِنَ الْمَلَأِ إِلَّا غُفِرَ لَهُمْ جَمِیْعًا بِبَرَکَةِ بُکَائِهٖ.
اللہ کا جو بندہ اخلاص کے ساتھ اس کی خشیت میں کسی مجلس میں روتا ہے تو سارے کے سارے اہلِ مجلس اس ایک کے گریہ کی برکت سے بخش دیے جاتے ہیں ۔
حضرت عبید بن عمیر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: یا اُم المومنین! آپ ہمیں کوئی عجیب واقعہ سنائیں جو آپ نے رسول اللہ ﷺ کی حیات طیبہ میں خود دیکھا ہو۔ آپ رضی اللہ عنہ کچھ دیر خاموش رہیں، پھر فرمایا: ایک رات حضور نبی اکرم ﷺ کی میرے ہاں قیام کی باری تھی۔ آپ ﷺ تشریف لائے اور فرمایا: آج حق تو تیرا ہے لیکن کیا تو اجازت دیتی ہے کہ آج کی رات میں اپنے رب کی عبادت کر لوں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول الله! جس عمل سے آپ خوش ہوں مجھے اس سے محبت ہے، میری طرف سے اجازت ہے۔ سرورِ دو عالم ﷺ نے وضو فرمایا اور اللہ رب العزت کے حضور قیام فرما ہو گئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں: رب العزت کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! میں نے دیکھا کہ آپ ﷺ نماز ادا فرما رہے ہیں اور دورانِ نماز رو رہے ہیں۔ آنسو آپ ﷺ کی چشمانِ مقدس سے جاری ہیں۔ تشہد کی حالت میں آپ ﷺ اتنا روئے کہ آنسو آپ ﷺ کی ریش مبارک سے گزر کر زمین پر گرنے لگے۔ ساری رات حضور نبی اکرم ﷺ کی آہ و بکا اسی طرح جاری رہی۔ یہاں تک کہ صبح ہو گئی اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے جب حضور نبی اکرم ﷺ کو گڑ گڑا کر گریہ و زاری کرتے دیکھا تو حیرت و استعجاب میں پوچھنے لگے: یا رسول اللہ! آپ ﷺ طاہر اور مطہر ہیں۔ آپ ﷺ کے صدقے تو ہم عاصیوں نے شفاعت کی خیرات حاصل کرنی ہے لیکن آپ تو خود اتنا گریہ فرما رہے ہیں۔ ابن حبان حدیث کے یہ الفاظ نقل کرتے ہیں:
فَلَمَّا رَآهُ یَبْکِي، قَالَ: یَا رَسُوْلَ اللهِ! لِمَ تَبْکِيْ؟ وَقَدْ غَفَرَ اللهُ لَکَ مَا تَقَدَّمَ وَمَا تَأَخَّرَ.
جب آپ ﷺ کو دیکھا تو عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ اتنا کیوں روتے ہیں کہ آپ کے طفیل آپ کے اگلے اور پچھلوں کے تمام گناہ معاف کردیے گئے ہیں۔
اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
أَفَـلَا أَکُوْنَ عَبْدًا شُکُوْرًا.
کیا میں اس کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔
اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں کہ اس قدر آہ و بکا اور گریہ و زاری میری زندگی کا عجیب ترین واقعہ ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ خود بھی خشیت الٰہی میں اکثر فرماتیں: کاش میں انسان نہ ہوتی جس سے حساب لیا جائے گا بلکہ میں درخت کے پتوں میں سے ایک پتہ ہوتی جو گر کر بکھر گیا ہوتا۔ اڑ گیا ہوتا۔ حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ایک درخت کے پاس سے گزریں اور فرمایا:
وَدِدْتُّ أَنِّي وَرَقَۃُ مِنْ ھٰذِهِ الشَّجَرَةِ.
کاش میں اس درخت کا پتہ ہوتی۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
وَدِدْتُ أَنِّيْ کُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا.
أحمد بن حنبل، الزھد: 241
کاش میں نسیاً منسیاً (بھولی بسری) ہوتی۔
حضرت یزید رقاشی روایت کرتے ہیں کہ حضرت نوح علیہ السلام کثرت سے گریہ و بکا کرتے۔ آپ کا نام نوح بھی اسی وجہ سے ہے کہ آپ اللہ رب العزت کے حضور کثرت سے نوحہ کرتے تھے یعنی روتے تھے۔ نوحہ سے ہی نواحاً یعنی نواح مشتق ہے۔ امام ابن ابی دنیا اس روایت کے الفاظ یوں درج کرتے ہیں:
إِنَّمَا سُمِّيَ نُوْحً ﷺ لِأَنَّهٗ کَانَ نَوَاحًا.
ابن ابی الدنیا، الرقۃ والبکاء، 1: 349، رقم: 330
ان کا نام نوح پڑ گیا کیونکہ آپ علیہ السلام بکثرت رونے والے تھے۔
’احیاء علوم الدین‘ میں حضرت امام غزالی روایت لائے ہیں کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی خطاؤں کو یاد کرتے تو آپ پر غشی طاری ہو جاتی۔ حضرت جبرائیل علیہ السلام حاضر ہو کر عرض کرتے کہ آپ کو آپ کا رب سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے: کیا آپ نے کبھی دیکھا کہ ایک خلیل اپنے خلیل سے ڈرتا ہو؟ تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: اے جبرائیل! جب میں اپنی خطا کو یاد کرتا ہوں تو اپنا خلیل بھول جاتا ہوں۔
غزالی، احیاء علوم الدین، 4: 183
حضرت یحییٰ علیہ السلام سراپا سوز و گداز تھے۔ ہر وقت خشیتِ الٰہی میں روتے رہتے۔ حضرت امام غزالی ’احیاء علوم الدین‘ میں لکھتے ہیں کہ انہیں روتا دیکھ کر والدہ نے اپنے بازؤوں میں لے لیا تو عرض کرنے لگے: یا الله! یہ میرے آنسو ہیں اور یہ میری والدہ۔ حضرت زکری علیہ السلام نے فرمایا: اے بیٹے! میں نے الله کے حضور عرض کی تھی کہ وہ تجھے میری آنکھوں کی ٹھنڈک بنائے۔ اس پر حضرت یحییٰ علیہ السلام نے عرض کیا: ابا جان! مجھے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے بتایا ہے کہ جنت اور دوزخ کے درمیان ایک جنگل ہے اسے وہی طے کر سکتا ہے جو بہت رونے والا ہو۔ تو حضرت زکری علیہ السلام نے فرمایا: ’اے بیٹے! پھر رؤو‘۔
غزالی، احیاء علوم الدین، 4: 183
خشیت دراصل ہیبتِ خداوندی کے غلبہ کے باعث ظہور پذیر ہوتی ہے جس سے دل کامل عجز و انکساری اور پورے ارادے کے ساتھ حق تعالیٰ کے حضور جھک جاتا ہے صاحبِ ’قوت القلوب‘ امام ابو طالب مکی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خوف کے بیان میں قرآن حکیم کی یہ آیت لائے ہیں:
اِنْ کُنْتُ قُلْتُهٗ فَقَدْ عَلِمْتَهٗ ط تَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِیْ وَلَآ اَعْلَمُ مَا فِیْ نَفْسِکَ ط اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِo
المائدۃ، 5: 116
اگر میں نے یہ بات کہی ہوتی تو یقینا تو اسے جانتا، تو ہر اس (بات) کو جانتا ہے جو میرے دل میں ہے اور میں ان(باتوں)کو نہیں جانتا جو تیرے علم میںہیں۔ بے شک تو ہی غیب کی سب باتوں کو خوب جاننے والا ہے۔
آپ نے یہ اس وقت عرض کیا جب حق تعالیٰ نے فرمایا:
أَ اَنْتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُوْنِیْ وَاُمِّیَ اِلٰـھَیْنِ مِنْ دُوْنِ اللهِ.
المائدۃ، 5: 116
کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ تم مجھ کو اور میری ماں کو الله کے سوا دو معبود بنا لو؟
چنانچہ قیامت کے دن بھی کہیں گے:
اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُکَ.
المائدۃ، 5: 118
اگر تو انہیں عذاب دے تو وہ تیرے (ہی) بندے ہیں۔
ابو طالب مکی، قوت القلوب، 1: 366-367
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے:
ابْکُوْا فَإِنْ لَمْ تَبْکُوْا فَتَبَاکُوْا.
لوگو! اللہ کی بارگاہ میں خوب رویا کرو۔ اگر رونا نہ آئے تو کم از کم رونے والا حال خود پر طاری کر لیا کرو۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتی ہیں کہ جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ قرآن حکیم کی تلاوت کرتے تو ان کے درد و سوز اور گریہ و بکا کا یہ عالم ہوتا کہ جو مشرک عورتیں گھر کے پاس سے بچوں کے ہمراہ گزرتیں وہ وہاں کھڑی ہوجاتیں اور آپ کی درد اور سوز بھری آواز اور آہ و بکا پر تعجب کرتیں۔ آپ رضی اللہ عنہ مزید فرماتی ہیں کہ میرے والد گرامی رقیق القلب اور گریہ و زاری کرنے والے شخص تھے۔ جب تلاوت شروع کرتے تو پھر آنکھیں آنسوؤں کو قابو نہ رکھ سکتیں۔ اتنا زیادہ روتے کہ درد و سوز بڑے بڑے مشرک قریش کے سرداروں کو مضطرب کر دیتا اور یہ حال حضرت ام المومنین رضی اللہ عنہ اپنے بچپن سے ملاحظہ فرماتی رہی ہیں۔ روایت کے الفاظ یہ ہیں:
وَیَقْرَأُ الْقُرْآنَ، فَیَقِفُ عَلَیْهِ نِسَاءُ الْمُشْرِکِینَ وَأَبْنَاؤُهُمْ، یَعْجَبُونَ مِنْهُ، وَیَنْظُرُونَ إِلَیْهِ، وَکَانَ أَبُو بَکْرٍ رَجُلًا بَکَّاءً، لَا یَمْلِکُ عَیْنَیْهِ، إِذَا قَرَأَ الْقُرْآنَ فَأَفْزَعَ ذَلِکَ أَشْرَافَ قُرَیْشٍ مِنْ الْمُشْرِکِینَ.
بخاری، الصحیح، کتاب الصلاۃ، باب المسجد یکون في الطریق من غیر ضرر بالناس، 1: 181، رقم: 464
آپ رضی اللہ عنہ تلاوت قرآن کرتے تو مشرکوں کی عورتیں اور بیٹے کھڑے ہو جاتے اور اس پر تعجب کرتے اور ان کی طرف دیکھتے رہتے اور حضرت ابوبکر صدیق بہت رونے والے آدمی تھے جنہیں اپنی آنکھوں پر قابو نہ تھا۔ جب قرآن شریف پڑھتے تو یہ چیز قریش کے مشرک سرداروں کو مضطرب کر دیتی۔
حضرت اُم سعد بنت سعد بن الربیع بیان کرتی ہیں کہ وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر ہوئیں تو آپ رضی اللہ عنہ نے ان کے لیے اپنا کپڑا بچھا دیا اور وہ اس پر بیٹھ گئیں۔ اسی اثناء میں حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی آپ رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے اور پوچھا: اے خلیفۂ رسول! یہ کون ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: یہ اس شخص کی بیٹی ہیں جو مجھ سے اور آپ سے بہتر ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: مجھ سے اور آپ سے سوائے رسول اللہ ﷺ کے اور کون بہتر ہے؟ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
رَجُلٌ قُبِضَ عَلٰی عَهْدِ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ تَبَوَّأَ مَقْعَدَهٗ مِنَ الْجَنَّةِ، وَبَقِیْتُ أَنَا وَأَنْتَ.
جو شخص رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں فوت ہوگیا اس نے اپنا ٹھکانہ جنت میں بنا لیا، لیکن میں اور آپ پیچھے رہ گئے ہیں۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ایک پرندے کو دیکھ کر فرمایا:
لَیْتَنِي مِثْلُکَ یَا طَائِرُ! وَلَمْ أُخْلَقْ بَشَرًا.
غزالی، احیاء علوم الدین، 4: 183
اے پرندے، کاش! میں تیری طرح ہوتا، انسان نہ ہوتا(تاکہ مجھ سے حساب و کتاب نہ لیا جاتا)۔
حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ایک دن ایک پرندے کو درخت پر بیٹھا دیکھ کر فرمایا:
طُوْبٰی لَکَ یَا طَائِرُ! تَأْکُلُ الثَّمَرَ، وَتَقَعُ عَلَی الشَّجَرِ، لَوَدَدْتُّ أَنِّی ثَمَرَۃٌ یَنْقُرُهَا الطَّیْرُ.
اے پرندے! تجھے مبارک ہو۔ تو پھل کھاتا ہے اور درختوں پر ادھر ادھر بیٹھتا ہے۔ کاش میں پھل ہوتا جسے پرندے کھاتے۔
امام احمد بن حنبل ’کتاب الزہد‘ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا قول ذکر کرتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
وَاللهِ، لَوَدِدْتُ أَنِّيْ کُنْتُ هٰذِهِ الشَّجَرَۃَ تُؤْکَلُ وَتُعْضَدُ.
أحمد بن حنبل، الزہد: 167
اللہ کی قسم! میں یہ پسند کرتا ہوں کہ کاش میں یہ درخت ہوتا جسے کھایا جاتا اور کاٹا جاتا۔
حضرت عبد اللہ بن شداد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نمازِ فجر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے پیچھے ادا کر رہا تھا اور آخری صف میں کھڑا تھا۔ آپ سورۂ یوسف تلاوت فرما رہے تھے۔ سورہ مبارکہ تلاوت کرتے کرتے جب اس مقام پر پہنچے {اِنَّمَآ اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْٓ اِلَی اللهِ (یوسف، 12: 86)} ’میں تو اپنی پریشانی اور غم کی فریاد صرف اللہ کے حضور کرتا ہوں۔‘ تو آیت پڑھتے ہی آپ رضی اللہ عنہ کی چیخ نکلی گئی۔ روایت کے الفاظ یوں ہیں:
سَمِعْتُ نَشِیْجَ عُمَرَ وَإِنِّي لَفِي الصَّفِّ خَلْفَهٗ فِي صَلَاۃٍ.
میں نے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی چیخ اور ہچکی بندھنے کی آواز سنی حالانکہ میں آپ کے پیچھے آخری صف میں کھڑا تھا۔
آہ و بکا اور گریہ و زاری آپ کی ہر شب کا معمول تھا۔ ایسی ہی دوسری روایت حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے:
کَانَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ یَمُرُّ بِالْآیَةِ فِي وَرْدِهٖ، فَتَخْنُقُهٗ الْعِبْرَۃُ، فَیَبْکِي، حَتّٰی یَسْقُطَ، ثُمَّ یَلْزَمُ بَیْتَهٗ، حَتّٰی یُعَادَ، یَحْسَبُوْنَهٗ مَرِیْضًا.
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کسی آیت کی تلاوت فرماتے تو آپ کی ہچکی بندھ جاتی اور کئی دن آپ گھر میں پڑے رہتے آپ کی عیادت کی جاتی لوگ آپ کو مریض گمان کرنے لگ جاتے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہم بیان کرتے ہیں: حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب مرض الموت میں تھے تو ان کا سر میری گود میں تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ضَعْ خَدِّيْ عَلَی الْأَرْضِ، فَقُلْتُ: وَمَا عَلَیْکَ کَانَ فِي حِجْرِيْ أَمْ عَلَی الْأَرْضِ؟ فَقَالَ: ضَعْهُ لَا أُمَّ لَکَ۔ فَوَضَعْتُهٗ، وَقَالَ: وَیْلِي، وَوَیْلٌ لِأُمِّي! إِنْ لَمْ یَرْحَمْنِي رَبِّي۔
میرا رخسار (چہرہ) زمین پر رکھ دو۔ میں نے عرض کیا: کیا فرق پڑتا ہے کہ یہ میری گود میں ہو یا زمین پر۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تیری ماں نہ رہے (یعنی ناراضی کا اظہار فرمایا اور کہا: ) اسے نیچے رکھ دو۔ میں نے آپ کا رخسار زمین پر رکھ دیا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر میرے رب نے مجھ پر رحم نہ فرمایا تو میرے اور میری والدہ کے لیے ہلاکت ہے۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو زخمی کیا گیا تو میں آپ کے پاس آیا۔ آپ کا سر مبارک مٹی میں تھا۔ میں اسے اٹھانے کے لیے آگے بڑھا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
دَعْنِي، وَیْلِي وَوَیْلُ أُمِّي إِنْ لَمْ یَغْفِرْ لِيْ، وَیْلِي وَوَیْلُ أُمِّي إِنْ لَمْ یَغْفِرْ لِيْ.
مجھے چھوڑ دو، اگر میری مغفرت نہ ہوئی تو میرے اور میری والدہ کے لیے ہلاکت ہے، اگر میری مغفرت نہ ہوئی تو میرے اور میری والدہ کے لیے ہلاکت ہے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ایک آدمی کو نماز میں گردن کو ضرورت سے زیادہ جھکائے ہوئے دیکھا تو فرمایا:
یَا صَاحِبَ الرَّقَبَةِ، ارْفَعْ رَقَبَتَکَ، لَیْسَ الْخُشُوْعُ فِي الرِّقَابِ، إِنَّمَا الْخُشُوْعُ فِي الْقُلُوْبِ.
اے گردن والے! اپنی گردن اٹھاؤ، خشوع گردنوں میں نہیں بلکہ دلوں میں ہوتا ہے۔
حضرت عبد الله بن عامر بیان کرتے ہیں: میں نے ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے خشیتِ الٰہی کی کیفیت میں زمین سے ایک تنکا اُٹھا کر کہا:
لَیْتَنِيْ هٰذِهِ التِّبْنَۃُ، لَیْتَنِيْ لَمْ أَکُ شَیْئًا، لَیْتَ أُمِّي لَمْ تَلِدْنِي، لَیْتَنِي کُنْتُ نَسْیاً مَنْسِیًّا.
ابن أبي شیبۃ، المصنف، 7: 98، رقم: 34480
کاش! میں یہ تنکا ہوتا۔ کاش! میں کچھ نہ ہوتا، کاش! میری ماں مجھے جنم ہی نہ دیتی۔ کاش! میں بھلا دیا گیا ہوتا۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ صاحبانِ خشیت میں سے تھے۔ راتیں اللہ کے حضور آہ و زاری اور گریہ و بکا میں بسر کرتے۔ خوفِ الٰہی میں لرزہ براندام ہو جاتے۔ آپ رضی اللہ عنہ کی خشیت کا یہ عالم تھا کہ جب بھی کسی قبر کے پاس سے گزرتے تو حساب و کتاب کے خوف سے دھاڑیں مار مار کر روتے۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے غلام ہانی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
کَانَ عُثْمَانُ رضی اللہ عنہ إِذَا وَقَفَ عَلٰی قَبْرٍ بَکٰی، حَتّٰی یَبُلَّ لِحْیَتَہ.
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو رو پڑتے، یہاں تک آپ رضی اللہ عنہ کی داڑھی مبارک تر ہوجاتی۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ اکثر فرماتے:
وَدِدْتُّ أَنِّي إِذَا مُتُّ لَمْ أُبْعَثْ.
غزالی، إحیاء علوم الدین، 4: 183
کاش! میں مرنے کے بعد نہ اٹھایا جاؤں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ خود اہل خشیت میں سے تھے۔ جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے اللہ تعالیٰ کا خوف انہیں لرزہ براندام کر دیتا۔ شہادت سے قبل آپ نے مسکرانا تک ترک کر دیا تھا۔
کَانَ عَلِيُّ بْنُ أَبِيْ طَالِبٍ رضی اللہ عنہ یُصَلِّيْ لَیْلَهٗ، وَلَا یَهْجَعُ إِلَّا یَسِیْراً، وَیَقْبِضُ عَلَی لِحْیَتِهِ، وَیَتَمَلْمَلُ تَمَلْمُلَ السَّلِیْمِ، وَیَبْکِي بُکَائَ الْحَزِینِ حَتَّی یُصْبِحَ.
شعراني، الطبقات الکبری: 34
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ رات بھر نماز ادا فرماتے۔ بہت تھوڑا سا سستاتے، اپنی ریش مبارک کو پکڑ لیتے اور بیمار شخص کی طرح لوٹ پوٹ ہوتے اور انتہائی غمگین آدمی کی طرح روتے حتیٰ کہ صبح ہو جاتی۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ آپ اپنی قمیض کو پیوند کیوں لگاتے ہیں؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
یُخْشِعُ الْقَلْبَ وَیَقْتَدِيْ بِهِ الْمُؤْمِنُ.
أحمد بن حنبل، الزھد: 193
یہ دل میں خشوع (عاجزی) پیدا کرتا ہے اور اس کی وجہ سے مومن کو حقیقی پیروی نصیب ہوتی ہے۔
حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَخَافُ عَلَیْکُمُ اتِّبَاعُ الْھَوٰی، وَطُوْلُ الْأَمَلِ فَأَمَّا اتِّبَاعُ الْھَوٰی فَیُضِلُّ عَنِ الْحَقِّ، وَأَمَّا طُوْلُ الْأَمَلِ فَیُنْسِي الْآخِرَۃَ.
شعراني، الطبقات الکبری: 33
مجھے تم پر جس چیز کا سب سے زیادہ ڈر ہے وہ خواہشِ (نفسانی) کی پیروی اور لمبی امیدیں باندھنا ہے۔ پس خواہش نفس کی پیروی حق سے (پھیر کر) گمراہ کر دیتی ہے اور لمبی امیدیں باندھنا آخرت کو بھلا دیتا ہے۔
حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
لَوْ تَعْلَمُوْنَ مَا رَائُوْنَ بَعْدَ الْمَوْتِ مَا أَکَلْتُمْ طَعَامًا بِشَهْوَۃٍ، وَلَا شَرِبْتُمْ شَرَابًا عَلَی شَهْوَۃٍ، وَلَا دَخَلْتُمْ بَیْتًا تَسْتَظِلُّوْنَ فِیْهِ، وَلَحَرِصْتُمْ عَلَی الصَّعِیْدِ، تَضْرَبُوْنَ صُدُوْرَکُمْ، وَتَبْکُوْنَ عَلَی أَنْفُسِکُمْ، وَلَوَدِدْتُّ أَنِّي شَجَرَةً تُعْضَدُ ثُمَّ تُؤْکَلُ.
حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تم دیکھ لو جو کچھ تم موت کے بعد دیکھو گے تو تم کبھی بھی شہوت کے ساتھ نہ کھاؤ اور نہ ہی شہوت کے ساتھ پیو اور نہ ہی کسی ایسے گھر میں داخل ہو جس میں تم دھوپ سے بچ سکو۔ اور تم یقینا مٹی کے لئے حریص ہو جاتے، اپنے سینوں کو مارتے اور اپنے آپ پر روتے۔ کاش میں ایک درخت ہوتا جسے کاٹ دیا جاتا اور پھر کھا لیا جاتا۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
عَلَیْکُمْ بِالسَّبِیْلِ وَالسُّنَّةِ، فَإِنَّهٗ لَیْسَ مِنْ عَبْدٍ عَلَی سَبِیْلٍ وَسُنَّۃٍ ذَکَرَ الرَّحْمٰنَ، فَفَاضَتْ عَیْنَاهُ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ، فَمَسَّتْهُ النَّارُ أَبَداً.
تم پر شریعت اور سنت لازم ہے پس اس دنیا میں جو بھی شخص شریعت اور سنت پر رہتے ہوئے الله تعالیٰ کو یاد کرے اور الله تعالیٰ کے خوف سے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں تو الله تعالیٰ اسے کبھی بھی عذاب نہیں دے گا۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
یَا أَیُّهَا النَّاسُ ابْکُوْا، فَإِنْ لَمْ تَبْکُوْا فَتَبَاکَوْا، فَإِنَّ أَهْلَ النَّارِ یَبْکُوْنَ فِي النَّارِ حَتّٰی تَسِیْلَ دَمُوْعُهُمْ فِي وُجُوْهِهِمْ، کَأَنَّهَا جَدَاوِلُ حَتّٰی تَنْقَطِعَ الدَّمُوْعُ، فَتَسِیْلُ یَعْنِي الدِّمَاءُ، فَتَقْرَحُ الْعُیُوْنُ، فَلَوْ أَنَّ سُفُنًا أُرْخِیَتْ فِیْهَا لَجَرَتْ.
اے لوگو! رویا کرو۔ پس اگر تمہیں رونا نہ آئے تو کم از کم رونے جیسی صورت ہی بنا لو، کیونکہ اہلِ دوزخ دوزخ میں روئیں گے حتی کہ ان کے آنسو ان کے چہروں پر بہنا شروع ہو جائیں گے جیسے ندیاں بہہ رہی ہوں۔ یہاں تک کہ ان کے آنسو ختم ہو جائیں گے، پھر خون کے آنسو روئیں گے۔ پس وہ آنکھیں زخمی ہو جائیں گی یہاں تک اگر ان کے آنسوؤں میں کشتیاں چھوڑ دی جائیں تو وہ چل پڑیں۔
حضرت عبد الواحد بن زید رضی اللہ عنہ جن کا شمار جلیل القدر تابعین میں ہوتا ہے۔ انہوں نے ایک روز اَہلِ مجلس کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا:
یَا إِخْوَتَاهُ، أَلَا تَبْکُوْنَ شَوْقًا إِلَی اللهِ۔ أَلَا إِنَّهٗ مَنْ بَکٰی شَوْقًا إِلَی سَیِّدِهٖ لَمْ یُحَرِّمْهُ النَّظرَ إِلَیْهِ.
اے میرے بھائیو! تم اللہ تعالیٰ کی ملاقات کے شوق میں روتے کیوں نہیں؟ سنو! جو کوئی مولیٰ کے شوق میں آنسو بہائے گا اللہ تعالیٰ اُسے اپنی نظر رحمت سے محروم نہیں کرے گا۔
پھر فرمایا:
یَا إِخْوَتَاهُ، أَلَا تَبْکُوْنَ خَوْفًا مِنَ النَّارِ؟ أَلَا إِنَّهٗ مَنْ بَکٰی خَوْفًا مِنَ النَّارِ أَعَاذَهُ اللهُ مِنْهَا.
اے میرے بھائیو! تم دوزخ کی آگ سے ڈر کر کیوں نہیں روتے؟ جو کوئی دوزخ کی آگ سے ڈر کر روئے گا اللہ رب العزت اس کو اس عذاب سے محفوظ رکھے گا۔
پھر فرمایا:
یَا إِخْوَتَاهُ، أَلَا تَبْکُوْنَ خَوْفًا مِنَ الْعَطْشِ یَوْمَ الْقِیَامَۃ؟ أَلَا إِنَّهٗ مَنْ بَکٰی خَوْفًا مِنْ ذٰلِکَ، سَقٰی عَلٰی رُئُ وْسِ الْخَلَائِقِ یَوْمَ الْقِیَامَةِ.
اے میرے بھائیو! قیامت کے دن کی پیاس کا خوف تمہیں کیوں نہیں رلاتا؟ سنو! جو قیامت کے دن کی سختی اور پیاس کا تصور کرکے خوف و خشیتِ الٰہی میں رویا، قیامت کے دن مولیٰ کریم ساری مخلوق کے سامنے اسے بھر بھر کے جام پلائے گا (جبکہ ساری مخلوق پیاسی اور تمازتِ آفتاب سے جھلستی اپنے ہی پسینے میں ڈوبی ہوئی ہو گی)۔
اس طرح وہ اس عظیم دن میں وقوع پذیر ہونے والی ایک ایک چیز کا نام لے کر اہل مجلس سے کہتے رہے کہ تم روتے کیوں نہیں؟ کس چیز نے تمہیں بے خبر کر دیا ہے؟ آپ خطاب کے دوران خود اتنا روتے کہ خشیتِ الٰہی میں خود بے ہوش ہو کر زمین پر گر پڑتے۔
اہل تقویٰ اور اہل ورع کے امام حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ جنہوں نے شیر خواری کے زمانے میں ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہ سے شفقت پائی۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے بچے ہوئے پانی پینے کی سعادت حاصل کی اور سرکار دو عالم ﷺ سے دعا جیسی عظیم نعمت ان کا مقدر ہوا۔ وہ کیونکر خوف و خشیت الٰہی کے حامل نہ ہوتے۔ آپ رضی اللہ عنہ گریہ و زاری اور آہ و بکا کا مجسم پیکر تھے۔ حضرت حمزہ الاعمیٰ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ مجھے حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں بغرض تعلیم و تربیت لے کر گئیں اور عرض کیا کہ میں چاہتی ہوں آپ کی سنگت و محبت سے اس کو نفع ملے۔ فرماتے ہیں کہ میں جس وقت بھی تعلیم و تربیت کی غرض سے ان کے حجرے میں جاتا ان کو روتا ہوا ہی پاتا۔ ایک روز میں نے عرض کیا: مجھے کوئی نصیحت فرمائیں تاکہ میری تربیت ہو تو حضرت امام حسن بصری نے فرمایا: بیٹا! حسنِ آخرت یعنی اچھا انجام پانے کے لیے غم زدہ رہا کرو۔ جب بھی خلوت میسر آئے اور تنہائی کی ساعتیں ملیں تو رویا کر۔ شاید تیرے اس طرح رونے سے مولیٰ تیری طرف متوجہ ہو جائے کیونکہ جتنی شفقت بھری توجہ وہ اپنے رونے والے بندے پر فرماتا ہے اتنی کسی اور پر نہیں کرتا۔ اور جب تجھ پر یہ نظرِ کرم ہوگئی تو تیرا شمار ان میں سے ہوجائے گا جسے وہ کامیاب اور فائزین کہتا ہے۔
راوی بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد جب بھی ان کی خدمت میں حاضر ہوئے خواہ وہ درس دے رہے ہوتے، طلبہ کے ساتھ مجلس میں ہوتے یا نماز پڑھ رہے ہوتے، حضرت امام حسن بصری کو روتے اور گریہ و بکا کرتے ہی پایا۔ ان کے اس مستقل حال کو دیکھ کر ایک روز اس نے عرض کیا: اے امام! خلوت ہو یا جلوت میں نے ہر مقام پر آپ کو روتا ہوا ہی پایا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ نے جو جواب دیا وہ دل کی تختیوں پر ثبت کرنے کے قابل ہے، فرمایا:
یَا بُنَيَّ، فَمَا یَصْنَعُ المُؤْمِنُ إِذَا لَمْ یَبْکِ؟ یَا بُنَيَّ، إِنَّ البکاء دَاعٍ إِلَی الرَّحْمَةِ.
اے میرے بیٹے! مومن اگر نہ روئے تو اور کیا کرے؟ اے میرے بیٹے! بے شک مومن کے لئے رحمت کو آواز دینے والی شے گریہ و بکا ہی ہے۔
پھر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:
فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ لَّا تَکُوْنَ عُمْرکَ إِلَّا بَاکِیًا فَافْعَلْ.
اگر ہو سکے کہ ساری زندگی رو سکو تو روتے رہنا۔ رونے سے بڑھ کر کوئی عمل اللہ کی بارگاہ میں محبوب نہیں ہوتا۔
یہ اس لئے کہ جو اس زندگی میں خوب رو لیتے ہیں انہیں قیامت کے دن ہنسایا جائے گا اور جو آنکھیں اس دنیوی حیات میں رونے سے نا آشنا رہیں قیامت کے دن رونا ان کا مقدر ہوگا۔
حضرت امام حسن بصری رضی اللہ عنہ ان تابعین میں سے تھے جن کے ذریعے دین کے ظاہر و باطن ہر دو طریق کی تعلیمات نسلوں تک پہنچیں۔ آپ اہل بکا میں سے تھے خوفِ خدا اور شوقِ لقاء میں ساری ساری رات روتے، آہ و بکا کرتے۔
فرقد السبخی کہتے ہیں کہ انہوں نے بعض کتب سابقہ میں پڑھا ہے کہ:
أَنَّ الْعَبْدَ إِذَا بَکَی مِنْ خَشْیَةِ اللهِ تَحَاتَتْ عَنْهُ ذُنُوْبُهٗ کَیَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهٗ.
جو بندہ اللہ کی خشیت میں روتا ہے اس کے سارے گناہ اس طرح مٹا دیے جاتے ہیں جیسے وہ آج ہی اپنی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
اور فرمایا:
وَلَوْ أَنَّ عَبْدًا جَائَ بِجِبَالِ الْأَرْضِ ذُنُوْبًا وَآثَامًا، لَوَسَعَتْهُ الرَّحْمَۃُ إِذَا بَکَی۔
اگر بندہ اللہ کے حضور پہاڑوں جتنے گناہ لے کر بھی حاضر ہو جائے، جب وہ رونے لگ جائے تو اللہ کی رحمت پہاڑوں جیسے گناہوں پر حاوی ہوجاتی ہے۔
مزید فرمایا:
إِنَّ الْبَاکِيَ عَلَی الْجَنَّةِ لَتَشْفَعُ الْجَنَّۃُ إِلَی رَبِّهَا فَتَقُوْلُ: یَا رَبِّ، أَدْخِلْهُ الْجَنَّۃَ کَمَا بَکَی عَليَّ.
جو شخص اللہ کے حضور جنت کی طلب میں روتا ہے (تو روز قیامت) جنت اس کی شفاعت کرتی ہوئی کہے گی: یا رب! یہ میرے لئے روتا تھا اس کو جنت میں داخل فرما۔
پھر فرمایا:
وَإِنَّ النَّارَ لَتَسْتَجِیْرُ لَهٗ مِنْ رَبِّهَا، فَتَقُوْلُ: یَا رَبِّ، أَجِرْهُ مِنَ النَّارِ کَمَا اسْتَجَارَکَ مِنِّي وَبَکَی خَوْفًا مِنْ دَخُوْلِي.
جو شخص دوزخ کی آگ کے خوف سے اپنے رب کے حضور ڈرتا رہا اور روتا رہا قیامت کے دن دوزخ اس کی سفارش کرے گی اور کہے گی: یا رب العزت! اس کو مجھ سے اس طرح پناہ دے جس طرح زندگی بھر مجھ میں داخل ہونے کے خوف کی وجہ سے مجھ سے تیری پناہ مانگتا رہا اور مجھ میں داخل ہونے کے ڈر سے روتا رہا ہے۔
امام ابراہیم بن عیسیٰ الیشکری بیان کرتے ہیں:
دَخَلْتُ عَلٰی رَجُلٍ بِالْبَحْرَیْنِ، قَدِ اعْتَزَلَ النَّاسَ وَتَفَرَّغَ لِنَفْسِهٖ، فَذَاکَرْتُهٗ شَیْئًا مِنْ أَمْرِ الْآخِرَةِ وَذِکْرِ الْمَوْتِ، قَالَ، فَجَعَلَ وَاللهِ، یَشْهَقُ حَتّٰی خَرَجَتْ نَفَسُهٗ وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَیْهِ، قَالَ، فَدَخَلَ النَّاسُ عَلَیْهِ فَقَالُوْا: یَا عُبَیْدَ اللهِ، مَا أَرَدْتَ إِلٰی هٰذَا لَعَلَّکَ أَنْ تَکُوْنَ ذَاکَرْتَهٗ بِشَيْئٍ مِنْ أَمْرِ الْمَوْتِ. قَالَ، قُلْتُ: أَجَلْ وَاللهِ، لَقَدْ کَانَ ذٰلِکَ؛ قَالَ: فَبَکٰی رَجُلٌ مِنْ جِیْرَانِهٖ، وَقَالَ: رَحِمَکَ اللهُ، لَقَدْ خِفْتَ أَنْ یَقْتُلَکَ ذِکْرُ الْمَوْتِ حَتّٰی وَاللهِ، لَقَدْ قَتَلَکَ. قَالَ، ثُمَّ جَهَزْنَاهُ وَدَفَنَّاهُ.
میں بحرین میں کسی (عبادت گزار) شخص کے پاس گیا جس نے لوگوں سے خلوت و عزلت نشینی اختیار کر رکھی تھی اور اپنے آپ کو (دنیوی مشاغل سے) الگ تھلگ کر لیا تھا۔ میں نے اس کے ساتھ آخرت کے احوال اور موت سے متعلق کچھ گفتگو کی۔ فرماتے ہیں: اللہ کی قسم! وہ دھاڑیں مار کر رونے لگا یہاں تک کہ میری آنکھوں کے سامنے اس کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ ابراہیم بن عیسیٰ یشکری کہتے ہیں: لوگ میرے پاس آگئے اور انہوں نے کہا: اللہ کے بندے! تو نے اسے کیا کر دیا ہے؟ شاید تو نے اس سے موت کے متعلق کسی شے کا ذکر کیا ہے؟ کہتے ہیں: میں نے کہا: (ہاں،) اللہ کی قسم! اسی طرح کا معاملہ ہے۔ کہتے ہیں: اس کا ایک پڑوسی رو پڑا اور اس نے (اُس عبادت گزار کی میت کو مخاطب کرکے) کہا: اللہ تجھ پر رحم کرے! مجھے اندیشہ تھا کہ موت کا ذکر تجھے مار ڈالے گا (اور ایسا ہی ہوا ہے) حتیٰ کہ بخدا! اس نے تجھے مار دیا۔ کہتے ہیں: پھر ہم نے اس کی تجہیز و تکفین کی اور اسے سپردِ خاک کر دیا۔
امام عبد الرحمن بن مصعب بیان کرتے ہیں کہ کوفہ میں ہمارے پاس اسد بن صلہب نامی شخص ہوا کرتا تھا۔ ایک دن وہ دریائے فرات کے کنارے کھڑا تھا کہ اس نے کسی تلاوت کرنے والے سے یہ آیت سنی: {اِنَّ الْمُجْرِمِیْنَ فِیْ عَذَابِ جَهَنَّمَ خٰلِدُوْنَo} ’بے شک مُجرِم لوگ دوزخ کے عذاب میں ہمیشہ رہنے والے ہیں۔‘ تو اس پر لرزہ طاری ہوگیا۔ جب قاری نے یہ آیت - {لَا یُفَتَّرُ عَنْهُمْ وَهُمْ فِیْهِ مُبْلِسُوْنَo} ’جو اُن سے ہلکا نہیں کیا جائے گا اور وہ اس میں ناامید ہو کر پڑے رہیں گے۔‘ پڑھی تو وہ (خوفِ اِلٰہی سے غش کھا کر) پانی میں گر گیا اور فوت ہوگیا۔
ابن قدامۃ، الرقۃ والبکاء: 201، رقم: 231
امام محمد بن معاذ العنبری فرماتے ہیں: میں منٰی کی مسجد میں تھا کہ اچانک (ایک شخص کے گرد) لوگوں کا ہجوم ہوگیا۔ میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: (یہ) ابن سماک ہے۔ میں ان کے قریب ہوا تو وہ مخفی حالت کے حامل ایک بزرگ تھے (یعنی اَہلِ دنیا ان کا مقام و مرتبہ نہ جانتے تھے)۔ میں نے انہیں یہ کہتے ہوئے سنا:
کُنَّا عَایَنَّا أَخْبَارَ السَّمَائِ بِأَبْصَارِنَا، وَسَمِعْنَا أَصْوَاتَ الْمَلَائِکَةِ بِآذَانِنَا فَقِیْلَ لِلْمُصَفِّیْنَ أَعْمَالَهُمْ: أَبْشِرُوْا بِالْمُقَامِ الْعَجِیْبِ، مِنَ الْحَبِیْبِ الْقَرِیْبِ. وَقَطَعَ قُلُوْبَ الْعَارِفِیْنَ بِاللهِ ذِکْرُ الْخٰلِدِیْنَ الْجَنَّۃَ وَالنَّارَ.
ابن قدامۃ، الرقۃ والبکاء: 224، رقم: 265
ہم نے اپنی آنکھوں سے آسمانی خبروں کا مشاہدہ کیا اور اپنے کانوں سے فرشتوں کی آوازیں سنی ہیں۔ پاکیزہ اعمال والوں سے کہا گیا ہے: تمہیں حبیب قریب کی بارگاہ میں مقامِ عجیب کی خوش خبری ہو! جب کہ اللہ کی معرفت رکھنے والوں کے دلوں کو جنت اور دوزخ میں ہمیشہ رہنے والوں کے تذکرہ نے پارہ پارہ کر دیا ہے۔
ابن معاذ عنبری نے بیان کیاکہ ابن سماک کی زبان سے یہ کلمات سنتے ہی محفل میں موجود ایک شخص نے زور دار چیخ ماری اور گر کر فوت ہوگیا۔
امام سفیان ثوری بیمار پڑے تو ان کا قارورہ طبیب کو دکھایا گیا۔ طبیب نے کہا:
هٰذَا رَجُلٌ قَطَّعَ الْخَوْفُ کَبِدَهٗ، ثُمَّ جَاءَ وَجَسَّ عِرْقَهٗ، ثُمَّ قَالَ: مَا عَلِمْتُ أَنَّ فِي الْحَنِیْفِیَّةِ مِثْلَهٗ.
قشیري، الرسالۃ: 131
خوف نے اس شخص کے جگر کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ اس کے بعد اس نے آ کر آپ کی نبض دیکھی تو کہا: میں نہیں جانتا کہ مسلمانوں میں اس جیسا کوئی اور شخص موجود ہوگا۔
اہلِ تقویٰ اور اہل ورع کے امام حضرت فضیل بن عیاض اہلِ خشیت میں سے تھے۔ اُن کی راتیں اللہ تعالیٰ کے خوف میں بسر ہوتیں۔ اللہ تعالیٰ کے خوف و خشیت نے انہیں دنیا اور دنیاداروں سے بے خوف کر دیا تھا۔ توبہ سے پہلے کی زندگی کو یاد کر کے خوفِ الٰہی میں دل گیر رہتے۔
ایک بار توبہ سے پہلے کی زندگی کے حوالے سے خود کو امیر وقت کے سامنے پیش کر دیا تاکہ شرعی حدود ان پر نافذ کرے۔ امیر نے انتہائی ادب اور تعظیم سے واپس کر دیا تو گھر آ کر اہلیہ سے فرمایا: آج میرے قلب پر گہرا زخم لگا ہے، کسی پَل چین نہیں آ رہا۔
فرید الدین عطار، تذکرۃ الاولیاء: 50
امام غزالی لکھتے ہیں:
وَرُؤِي الْفُضَیْلُ یَوْمًا وَهُوَ یَمْشِيْ فَقِیْلَ لَهٗ: إِلٰی أَیْنَ؟ قَالَ: لَا أَدْرِيْ، وَکَانَ یَمْشِيْ وَالِهًا مِنَ الْخَوْفِ.
غزالی، إحیاء علوم الدین، 4: 187
ایک روز حضرت فضیل کو دیکھا گیا کہ بے اختیار چل رہے ہیں، پوچھا گیا: کہاں جا رہے ہیں؟ انہوں نے فرمایا: مجھے معلوم نہیں۔ وہ دراصل خوف کی حالت میں چل رہے تھے۔
آپ کا صاحبزادہ بھی اہلِ بکا میں سے تھا۔ اس کا نام علی بن الفضیل تھا۔ کثرت سے گریہ کرتا، قرآن مجید کی تلاوت سن کر اس کی حالت اتنی نازک اور غیر ہو جاتی کہ شاید روح قفس عنصری سے پرواز کر جائے۔ خود تلاوت شروع کرتے تو ہچکی بندھ جاتی، بے ہوش ہو کر گر پڑتے اور تلاوت مکمل نہ کر سکتے۔ ابو سلیمان دردانی بیان کرتے ہیں کہ علی بن فضیل سورہ القارعہ کی تلاوت نہیں کر سکتے تھے اور نہ ہی ان کے سامنے اس سورت کی تلاوت کی جاتی تھی۔ کیونکہ جب آیات وعید سنتے تو ان پر غشی طاری ہو جاتی تھی۔
حضرت فضیل بن عیاض رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
طُوْبٰی لِمَنِ اسْتَوْحَشَ مِنَ النَّاسِ، وَأَنَسَ بِرَبِّهٖ، وَبَکٰی عَلٰی خَطِیْئَتِهٖ.
مبارک باد ہو اس شخص کو جسے لوگوں سے وحشت اور اپنے مولیٰ سے انس ہو اور جو اپنے گناہوں پر آنسو بہانے والا ہو۔
خَمْسٌ مِنْ عَلَامَاتِ الشِّقَاءِ: الْقَسْوَۃُ فِي الْقَلْبِ، وَجُمُوْدُ الْعَیْنِ، وَقِلَّۃُ الْحَیَاءِ، وَالرَّغْبَۃُ فِي الدُّنْیَا، وَطُوْلُ الأَمَلِ.
پانچ چیزیں بدبختی کی علامتوں میں سے ہیں: دل کی سختی، آنکھ کا آنسو نہ بہانا، قلّتِ حیائ، دنیا کی چاہت اور لمبی امید۔
کَانَ یُکْرَهُ أَنْ یُرَی عَلَی الرَّجُلِ مِنَ الْخُشُوْعِ أَکْثَرَ مِمَّا فِي قَلْبِهٖ.
یہ چیز مکروہ سمجھی جاتی تھی کہ انسان اس سے زیادہ خشوع ظاہر کرے جتنا اس کے دل میںہے۔
آپ جلیل القدر تابعی تھے۔ زہد، تقویٰ، خوف خدا، پرہیزگاری اور جواب دہی کے تصور میں لرزاں رہنے کے باعث پانچویں خلیفۃ الراشد کے لقب سے نوازے گئے۔ آپ بہت بڑی اسلامی سلطنت کے حکمران ہوکر بھی اپنے وقت میں سب سے بڑھ کر اللہ کی خشیت میں آہ و بکا کرنے والے تھے۔ امام ابن ابی الدنیا کامل سند کے ساتھ بطریق امام ابراہیم بن مہدی روایت کرتے ہیں کہ ایک رات حضرت عمر بن عبدالعزیز کے خادم خاص نے دیکھا کہ آپ زار و قطار رو رہے تھے۔ اگرچہ ہر رات کا رونا آپ کا معمول تھا لیکن اس شدت کے ساتھ آہ و بکا اس سے قبل نہیں فرمائی تھی۔ مجھ سے نہ رہا گیا۔ میرے عرض کرنے پر کچھ کہنا چاہا لیکن ’اے بیٹے!‘ کہہ کر آگے نہ بول سکے اور مزید درد و سوز سے ہچکی بندھ گئی بالآخر بڑی مشکل سے فرمایا:
إِنِّی وَاللهِ، ذُکِرْتُ الْمَوْقِفَ بَیْنَ یَدَيِ اللهِ.
ابن أبی الدنیا، الرقۃ والبکاء، 3: 179، رقم: 54
خدا کی قسم! مجھے قیامت کے دن اللہ کے حضور کھڑا ہونا یاد آگیا۔
یہ فرما کر پھر بے ہوش ہوکر گر پڑے۔
آپ اپنے پورے زمانۂ خلافت میں خواہ تخت خلافت پر ہوتے یا گھر میں، ہر وقت غم زدہ رہتے تھے۔ آپ کے گھر گریہ و بکا کرنے والوں کا اجتماع ہوتا اور لوگ نمازِ عشاء سے لے کر نمازِ فجر تک اس قدر زار و قطار روتے کہ لگتا جیسے اس گھر سے کوئی جنازہ اٹھا ہے۔ ایک روز خوفِ خدا کے غلبہ نے اس قدر اثر کیا کہ آپ کی بے کلی اور آہ و زاری دیکھ کر آپ کی ہمشیرہ فاطمہ بھی بے اختیار ہو کر رونے لگیں۔ پھر سارے اہل خانہ حتیٰ کہ بچہ بچہ رونے لگ گیا۔ حضرت علقمہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی کو علم نہ تھا کہ کس چیز نے ان کو رلایا۔ جب یہ حال کچھ تھما تو آپ کی ہمشیرہ صاحبہ نے پوچھا: اے امیر المومنین! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، کس چیز نے آپ کو اتنا رلایا؟ فرمانے لگے: میری بہن! مجھے وہ لمحہ یاد آگیا جب سب لوگ اللہ تعالیٰ کے حضور حساب و کتاب کے لئے پیش ہوں گے۔ میری چشمِ تصور نے دیکھا حساب و کتاب کے نتیجے میں کچھ لوگ جنت میں بھیج دیے گئے اور باقی دوزخ میں دھکیل دیے گئے۔ میں خوف زدہ ہوں کہ میرا شمار کس قطار میں ہوگا بس یہ کہا اور پھر تڑپ تڑپ کر بے ہوش ہو گئے۔
ابن ابی الدنیا، الرقۃ والبکاء، 3: 180، رقم: 55
امام مغیرہ بن حکیم بیان کرتے ہیں کہ مجھے فاطمہ بنت عبد الملک نے کہا:
یَا مُغِیْرَۃُ، قَدْ یَکُوْنُ مِنَ الرِّجَالِ مَنْ ھُوَ أَکْثَرُ صَلَاةً وَصَوْمًا مِنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ، وَلٰـکِنْ لَمْ أَرَ رَجُلًا مِنَ النَّاسِ قَطُّ کَانَ أَشَدَّ فَرَقًا مِنْ رَّبِّهٖ مِنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِیْزِ، کَانَ إِذَا دَخَلَ بَیْتَهٗ أَلْقٰی نَفْسَهٗ فِيْ مَسْجِدِهٖ، فَـلَا یَزَالُ یَبْکِيْ، وَیَدْعُوْ حَتّٰی تَغْلِبَهٗ عَیْنَاهُ، ثُمَّ یَسْتَیْقِظُ، فَیَفْعَلُ مِثْلَ ذٰلِکَ لَیْلَتَهٗ أَجْمَعَ.
اے مغیرہ! یقینا بعض لوگ نماز، روزہ میں عمر بن عبد العزیز سے بڑھ کے ہوں گے، لیکن میں نے لوگوں میں سے کوئی بھی شخص حضرت عمر بن عبد العزیز سے بڑھ کر الله تعالیٰ سے ڈرنے والا نہیں دیکھا۔ جب آپ گھر میں داخل ہوتے تو اپنی جائے نماز پر بیٹھ جاتے اور مسلسل روتے اور مناجات کرتے رہتے یہاں تک کہ نیند آپ پر غالب آجاتی، پھر بیدار ہوتے تو دوبارہ گریہ و زاری شروع کر دیتے اور پوری رات اسی حالتِ اِضطراب میں گزار دیتے۔
الغرض آپ جس صحابی اور تابعی کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کریں ان کے جملہ نیک مشاغل میں آہ و بکا اور گریہ و زاری سرفہرست نظر آئے گی۔ ان میں بعض گریہ و زاری کے باعث بے ہوش ہو جاتے، بعض کی آہ و بکا کے باعث ان کی سجدہ گاہیں تر ہو جاتیں، بعض کے گالوں پر مسلسل آنسوؤں کے بہنے سے نشان پڑ جاتے، بعض خشیتِ الٰہی میں رو رو کر آنکھیں ضائع کر بیٹھتے، بعض کثرتِ گریہ کے باعث خون میں حدت بڑھ جانے سے مسلسل بیمار رہتے لیکن خشیت الٰہی ان کے تن من میں یوں رچ بس گئی کہ مولیٰ کی خشیت میں ہی زندہ رہے اور اسی کے خوف میں اپنی جانیں جانِ آفرین کے سپرد کردیں اور بعد از وصال اللہ تعالیٰ کے ایسے قرب کی جنتوں کے سزاوار ہوئے جن کا تصور بھی وہم و گمان سے بالاتر ہے۔
امام عبد الله بن احمد بن قدامہ اپنی تصنیف کتاب الرِّقَّۃُ وَالْبُکَاء میں حضرت عبد الله بن مبارک کے حوالے سے نقل کرتے ہیں کہ ایک بار مکہ معظمہ میں بارش نہ ہونے کے باعث لوگ شدید قحط سالی کا شکار تھے۔ تمام لوگ مسجدِ حرام میں نمازِ استسقاء کے لئے حاضر ہو کر رب العزت کے حضور التجائیں کرتے تھے۔ ایک روز انہی لوگوں کے ہمراہ حضرت عبد الله بن مبارک باب بنی شیبہ کے قریب موجود تھے۔ آپ نے دیکھا کہ اچانک ایک سیاہ فام حبشی غلام وہاں آیا جس کا لباس محض بورے کے دو ٹکڑے تھے، جن میں سے ایک کا اس نے تہہ بند بنا رکھا تھا جبکہ دوسرا اپنے کندھے پر ڈالا ہوا تھا۔ وہ میرے قریب ہی ایک مخفی جگہ پر بیٹھ گیا او رالله کے حضور عرض کرنے لگا:
إِلٰھِي، أَخْلَقَتِ الْوُجُوْهَ کَثْرَۃُ الذُّنُوْبِ، وَمَسَاوِیُٔ الْأَعْمَالِ، وَقَدْ مَنَعْتَنَا غَیْثَ السَّمَائِ لِتُؤَدِّبَ الْخَلِیْقَۃَ بِذٰلِکَ، فَأَسْأَلُکَ یَا حَلِیْمًا ذَا أَنَاۃٍ، یَا مَنْ لَا یَعْرِفُ عِبَادُهٗ مِنْهُ إِلَّا الْجَمِیْلَ، اسْقِهِمْ السَّاعَۃَ السَّاعَۃَ.
ابن قدامہ، الرقۃ والبکاء: 221
میرے الله! کثرت گناہ اور برے اعمال نے ہمارے چہروں کو بوسیدہ کر دیا ہے اور تو نے ہم سے آسمان کے پانی (بارش) کو روک دیا ہے تاکہ اس کے ذریعے تو اپنی مخلوق کو ادب سکھائے پس اے حلیم و عزت والے رب! اے وہ جس کے بندے جس سے سوائے احسان کے کچھ نہیں جانتے! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کہ تو انہیں ابھی اسی وقت بارش عطا فرما۔
ابن مبارک کہتے ہیں کہ وہ بندہ ابھی اسی وقت بارش کے نزول کی دعا کر رہا تھا کہ آسمان پر بادل بن گئے اور ہر طرف موسلا دھار بارش برسنے لگی۔ وہ الله کا بندہ وہیں بیٹھا تسبیح کرتا رہا۔
الله تعالیٰ سے اس بندے کے تعلق کو ملاحظہ فرما کر حضرت عبد الله بن مبارک پر گریہ طاری ہو گیا۔ اتنے میں وہ غلام گھر جانے کے لئے اٹھا تو حضرت عبد الله بن مبارک نے اس کا تعاقب کیا تاکہ اس کی جائے رہائش معلوم کریں۔ پھر یہ فضیل بن عیاض کے پاس آئے تو انہوں نے عبد الله بن مبارک سے فرمایا: کیا بات ہے آج میں آپ کو رنجیدہ اور غمگین دیکھ رہا ہوں؟ ابن مبارک نے کہا: الله تعالیٰ کی جانب رجوع کرنے میں ہم سے کوئی اور بازی لے گیا۔ ان کے استفسار پر جب انہوں نے سارا وقعہ بیان کیا تو حضرت فضیل بن عیاض کی چیخ نکل گئی اور وہ بے خود ہو کر زمین پر گڑ پڑے اور کہنے لگے: اے ابن مبارک! تیرا بھلا ہو مجھے اس کے پاس لے چل۔ حضرت ابن مبارک نے کہا کہ اب وقت بہت کم ہے عنقریب اس کو پا کر آپ کو خبر دوں گا۔
اگلے دن وہ نمازِ فجر کے بعد اس جگہ کے لئے نکل پڑے جہاں وہ غلام رہائش پذیر تھا۔ انہوں نے دیکھا کہ دروازے کے باہر چادر بچھائے ایک بوڑھا بیٹھا ہے۔ جب اس نے حضرت عبد الله بن مبارک کو دیکھا تو پہچان لیا اور کہا اے ابو عبدالرحمن! خوش آمدید، اور پوچھنے لگا کہ کیسے آنا ہوا؟ آپ نے بتایا کہ ایک سیاہ فام غلام کی حاجت ہے اس پر اس نے کہا: ’میرے پاس بہت سے غلام ہیں جس کو چاہیں خرید لیں‘۔ پھر اس نے بلند آواز سے کہا: اے فلاں باہر آ۔ وہ ایک مضبوط جسم کا صحت مند غلام تھا۔ اس نے کہا کہ یہ بہت اچھا غلام ہے، اسے میں تمہارے لئے پسند کرتا ہوں۔ حضرت عبد الله بن مبارک کہنے لگے: مجھے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ پس وہ میرے لئے ایک ایک کر کے غلام بلاتا رہا یہاں تک کہ وہ غلام آگیا جس کی مجھے تلاش تھی۔ میری پسند کو دیکھ کر کہنے لگا کہ میں اس کو نہیں بیچ سکتا۔ میں نے کہا: اس کی کیا وجہ ہے؟ مالک نے جواب دیا کہ میں اس کی سکونت کو اپنے گھر کے لئے باعث برکت سمجھتا ہوں۔ پھر مجھے اس سے کوئی تکلیف بھی نہیں پہنچتی۔ حضرت ابن مبارک نے پوچھا: اس کے کھانے کا کیا بندوبست ہے؟ اس نے کہا کہ یہ رسی بٹ کے درہم کے چھٹے حصے کا آدھا یا اس سے کچھ کم یا زیادہ کما لیتا ہے اور اسی میں اس کی خوراک کا بندوبست ہو جاتا ہے۔ اگر رسی اسی دن بک جائے تو بہتر وگرنہ یہ ایسے ہی کچھ کھائے پیئے بغیر دن گزار دیتا ہے۔ مجھے دوسرے غلاموں نے بتایا کہ کسی اور کے ساتھ اس کا کوئی میل جول نہیں۔ اپنے کام سے غرض رکھتا ہے۔ اپنے علاوہ کسی سے کوئی سروکار نہیں رکھتا۔ اس کی ان جملہ خوبیوں کے باعث اس سے دلی محبت کرتا ہوں۔
ابن مبارک کہنے لگے تو کیا میں سفیان ثوری اور فضیل بن عیاض کی طرف خالی ہاتھ لوٹ جاؤں؟ تب اس نے کہا کہ آپ کا یہاں چل کر آنا میرے لئے بڑی سعادت کی بات ہے۔ آپ جتنے میں چاہیں اسے خرید لیں۔
آپ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اسے خرید لیا اور اسے لے کر حضرت فضیل بن عیاض کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔ ابھی تھوڑا ہی چلا تھا کہ اس نے کہا: اے میرے آقا! میں نے کہا: میں حاضر ہوں۔ غلام نے کہا: یوں نہ کہو۔ ایسے الفاظ تو غلام اپنے آقا کو کہتے ہیں۔ میں نے کہا: میں حاضر ہوں، اے دوست کیا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں ایک نحیف اور کمزور بدن غلام ہوں۔ خدمت کی بھی طاقت نہیں رکھتا جبکہ میرے علاوہ باقی غلام مجھ سے زیادہ صحت مند اور مضبوط ہیں۔ اس پر میں نے کہا: الله تعالیٰ مجھے آپ سے خدمت لینے کی کبھی توفیق نہ دے بلکہ میں تمہارے لئے گھر خریدوں گا۔ تمہاری شادی کراؤں گا اور میں خود تمہاری خدمت کیا کروں گا۔
آپ فرماتے ہیں کہ میری اس گفتگو کو سن کر وہ رو پڑا۔ میں نے اسے پوچھا: تجھے کس چیز نے رلایا ہے؟ اُس نے جواب دیا: آپ ایسے نہیں کر رہے مگر یہ کہ آپ نے میرے کسی تعلق بالله کو دیکھ لیا ہے وگرنہ آپ کبھی مجھے ان غلاموں میں سے پسند نہ کرتے۔ اس نے مجھے کہا کہ میں تجھ سے الله تعالیٰ کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں کہ مجھے بتاؤ تم نے مجھے کیوں چنا؟
میں نے کہا: تمہاری دعا کی قبولیت کے باعث تجھے پسند کیا۔ یہ سن کر اس نے مجھ سے کہا: اگر الله تعالیٰ نے چاہا تو میں آپ کو صالح مرد گمان کرتا ہوں۔ بے شک الله تعالیٰ کی مخلوق میں سے اس کے بعض برگزیدہ بندے ایسے ہوتے ہیں جن کا معاملہ وہ صرف اپنے محبوب بندوں کے لئے منکشف کرتا ہے۔ اور اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے ان پر ظاہر کرتا ہے۔ اس نے مجھے کہا: کیا آپ تھوڑی دیر کے لئے میرے لئے رکیں گے تاکہ میں اپنی گزشتہ شب کی باقی ماندہ رکعت پڑھ لوں؟ میں نے کہا کہ فضیل بن عیاض کے گھر جا کر ادا کر لینا۔ اس نے کہا نہیں مجھے یہاں اس قریبی مسجد میں پڑھنا زیادہ محبوب ہے کیونکہ الله تعالیٰ کے ساتھ معاملے کو مؤخر نہیں کرنا چاہیے۔
پس وہ مسجد میں داخل ہوا اور مسلسل نماز ادا کرتا رہا یہاں تک کہ وہ اس مقصد پر پہنچ گیا جس کا اس نے ارادہ کیا تھا۔ وہ میری طرف متوجہ ہوا اور کہا: اے ابو عبدالرحمن! آپ کو مجھ سے کوئی کام ہے؟ میں نے کہا: کیا بات ہے؟
اس نے کہا: میں جانا چاہتا ہوں۔
میں نے کہا: کہاں جانا چاہتے ہو؟
اس نے جواب دیا: جہاں سے آیا تھا۔
میں نے کہا: ایسا نہ کرو، مجھے اپنے آپ سے تو خوش ہو لینے دو۔ اس نے کہا: جب معاملہ میرے اور الله تعالیٰ کے درمیان تھا تو زندگی نہایت خوشگوار تھی لیکن آج جب آپ میرے حال سے مطلع ہو گئے تو کل کوئی اور بھی ہو سکتا ہے اور مجھے مولیٰ کے تعلق میں غیر کی موجودگی پسند نہیں۔
پھر وہ چہرے کے بل گر گیا اور کہنے لگا: اے الله! مجھے ابھی اٹھا لے، ابھی اٹھا لے۔ میں دوڑ کے اس کے قریب ہوا تو وہ واصلِ حق ہو چکا تھا۔
ابن قدامۃ، الرقۃ والبکا: 221-223
یہ آتشِ عشق میں سوختہ، تائب نوجوان کا واقعہ ہے جس کی زبان سے نکلے ہوئے اعترافِ گناہ کے چند الفاظ بارانِ رحمت کا باعث بن گئے اور مخلوقِ خدا کی قحط سالی خوش حالی میں بدل گئی۔ الله تعالیٰ سے اس کی نیاز مندی اور اہل دنیا سے بے نیازی کا یہ عالم کہ راز کھلنے پر مزید زندہ رہنا گوارا نہ ہوا اور رب العزت کا اپنے خاص بندوں سے چاہت کا یہ عالم کہ اپنے تعلق خاص میں کسی دوسرے کی شرکت گوارا نہ فرماتے ہوئے اپنے پاس بلا لیا۔ یہی وہ قدسی نفوس ہیں جن کے طفیل اہلِ زمین رزق پاتے ہیں۔ بارشیں برسائی جاتی ہیں گویا زیست اور سامانِ زیست کا باعث یہی مبارک ہستیاں ہیں جنہوں نے توبہ کی راہ میں پہلا قدم ہی یوں اٹھایا کہ مقربانِ بارگاهِ الٰہی قرار پائے۔
حضرت امام ابن قدامہ ابو نعیم بن بشارسے مروی ایک واقعہ نقل فرماتے ہیں کہ ہم ابراہیم بن ادھم کے ہمراہ ایک سمندری سفر پر روانہ ہوئے۔ موسم انتہائی خوشگوار تھا اور نہایت پاکیزہ و خنک ہوا ماحول کو معطر کر رہی تھی۔ کئی کشتیاں سمندر میں محو سفر تھیں کہ اچانک ایک تیز آندھی اور طوفان نے کشتیوں کو آلیا اور وہ طوفان کی شدت کے باعث ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگیں۔ لوگوں نے موت کے خوف سے چیخ و پکار کرنا شروع کر دی۔ ان حالات میں لوگوں نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم بن ادھم اپنی عبا میں اطمینان و سکون سے لیٹے ہوئے ہیں۔ کشتی والے آپ کے پاس آئے اور کہا: اے ابراہیم بن ادھم! آپ نہیں دیکھ رہے کہ ہم کس قدر خوف کی حالت میں مبتلا ہیں اور آپ بلا خوف و خطر لیٹے ہوئے ہیں۔ اس مصیبت سے نجات کے لئے الله تعالیٰ کے حضور ہمارے حق میں دعا فرمائیں۔ ان کے کہنے پر آپ اٹھ کھڑے ہوئے اور فرمانے لگے: اے لوگو! وہ شخص (آخرت میں) کامیاب نہ ہوا جس نے آج کے پُر خطر دن کی طرح کوئی تیاری نہ کی۔ اس کے بعد زیر لب کچھ کہا۔ اس پر اچانک سمندر کی طوفانی موجوں سے آواز آئی۔ اے مخلوق خدا! تم کیوں خوف زدہ ہو جبکہ ابراہیم بن ادھم تمہارے درمیان موجود ہیں۔ اے ہوا اور اس میں موجزن سمندر! تھم جاؤ۔ پس وہ دونوں الله تعالیٰ کے اذن سے تھم گئے۔
ابن قدامۃ، الرقۃ والبکاء: 212-213
اس واقعہ سے جہاں حضرت ابراہیم بن ادھم کے صاحبِ کشف و کرامت ہونے کا اظہار ہوتا ہے وہاں اس سے بڑھ کر مخلوقِ خدا کے دلوں میں الله کی خشیت پیدا کرنے اور انہیں سیدھی راہ پر چلنے کے سلسلے میں ان کی جدوجہد کا پتہ بھی چلتا ہے۔
طوفان باد و باراں میں جب کشتی کی تباہی کے خدشے کے پیش نظر ہر کوئی چیخ و پکار کر رہا تھا تو آپ نے اُس وقت انہیں تبلیغ کے انداز میں فرمایا: اے لوگو! جیسے تمہیں اس وقت دنیاوی سلامتی کا خطرہ درپیش ہے اور سچے دل سے رو رو کر الله سے دعا کر رہے ہو، اِس سے کہیں زیادہ مشکل اورکٹھن گھڑی آخرت کی کامیابی ہے۔ چنانچہ توبہ کے باب میں اُخروی کامیابی کا انحصار صمیمِ قلب سے کی گئی الله کے حضور آہ و زاری سے ہی ممکن ہے۔
مولانا جلال الدین رومی نے اپنی شہرۂ آفاق تصنیف مثنوی میں شیخ احمد خضرویہ سے متعلق ایک واقعہ بیان کر کے مثال کے ذریعے سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ سچے دل سے آہ و بکا کیسے اللہ تعالیٰ کی رحمت کا باعث بنتی ہے اور اس سے آہ و بکا کے پیچھے مستور حقیقت بھی بخوبی سمجھ آ جاتی ہے۔
ابو حامد احمد بن خضرویہ بلخی خراسان کے قابلِ قدر مشائخ میں سے تھے۔ آپ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لئے بے حد شفیق اور مہربان تھے۔ کوئی سائل ان کے در سے خالی نہیں جاتا تھا خواہ اس کے لئے انہیں کہیں سے قرضہ ہی کیوں نہ لینا پڑتا۔ پھر جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی بندوبست ہو جاتا تو قرض کی ادائیگی کر دیتے۔ حاجت مندوں، مسافروں کے لئے انہوں نے ایک خانقاہ بھی تعمیر کی ہوئی تھی تاکہ ان کے قیام و طعام کا مناسب بندوبست ہو سکے۔ اتفاقاً ایک بار دیر تک قرض کی ادائیگی کا بندوبست نہ ہو سکا۔ آپ مرض الموت میں مبتلا ہو کر صاحبِ فراش ہو گئے۔ بوڑھے ہو گئے تھے اور نوے (90) سال کے لگ بھگ عمر ہو چکی تھی۔ قرض دینے والوں نے سوچا کہ شیخ کے مزید زندہ رہنے کی امید نہیں ہے۔ کہیں ہماری رقوم ہی ضائع نہ ہو جائیں تو اپنا قرض وصول کرنے کے لئے ان کے گرد جمع ہوگئے اور اپنی اپنی رقوم کی فوری واپسی کا مطالبہ کرنے لگے۔ اس وقت قرضے کی مجموعی رقم چار سو دینار بنتی تھی۔ شیخ نے فرمایا: بدگمانوں کو دیکھو، بھلا حق تعالیٰ چار سو دینار بھی نہیں دے گا! صبح کا وقت تھا۔ قرض خواہ کُھسر پُھسر کر رہے تھے کہ اتنے میں حلوہ بیچنے والے لڑکے نے خانقاہ کے باہر حلوے کی آواز لگائی۔ شیخ نے خادم کو حکم دیا کہ لڑکے سے سارا حلوہ خرید لاؤ اور ان سب قرض خواہوں کے ناشتے کا بندوبست کرو۔ اُس نے آدھے درہم میں سارا حلوہ لے کر سارے حاضرین میں تقسیم کر دیا۔ وہ لوگ سارا حلوہ چٹ کر گئے۔ حلوہ فروش لڑکے نے کہا کہ مجھے میرا آدھا درہم دیں تو خادم نے کہا انتظار کرو۔ یہ سارے بھی اپنے اپنے قرض کی رقم واپس لینے بیٹھے ہیں۔ رقم ہوتی تو انہیں نہ ادا کر دیتے۔ یہ سن کر لڑکے نے حلوے کا تھال زمین پر دے مارا اور زار و قطار رونا شروع کر دیا۔ اس کی چیخ و پکار سن کر لوگ جمع ہو گئے۔ جو سنتا وہ شیخ کو کوستا کہ کیسا صوفی ہے؟ لوگوں کے پیسوں سے سخی بنا ہوا ہے۔ ایک تو لوگوں کا پہلے ہی مقروض تھا مزید ظلم یہ کیا کہ بے چارے غریب لڑکے کو دھوکہ دے کر اس کا سارا حلوہ ہی ہتھیا لیا۔
طعن و تشنیع کے تیر چاروں جانب سے برس رہے تھے اور حضرت شیخ چپ تھے اور آنکھیں بند کر کے لیٹے ہوئے تھے۔ اسی دوران نماز عصر کا وقت ہوگیا۔ حلوائی کا لڑکا رو رو کر ہلکان ہو رہا تھا۔ لوگ نمازِ عصر ادا کر کے جب دوبارہ شیخ کی خانقاہ میں اکٹھے ہوئے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک خادم سر پر ایک طبق اٹھائے چلا آ رہا ہے۔ یہ کسی عقیدت مند نے ہدیہ بھیجا تھا۔ شیخ نے کہا کہ اس طبق کو حاضرین کے درمیان رکھ دو۔ جب اوپر سے کپڑا اٹھایا گیا تو کیا دیکھتے ہیں کہ طبق کے ایک طرف 400 دینار پڑے ہیں اور ایک طرف نصف دینار۔ یہ ملاحظہ کرکے سب کی چیخیں نکل گئیں۔ کہنے لگے کہ اے اہلِ باطن کے سردار! خدا کے لئے ہماری گستاخی اور بدتمیزی کو معاف فرمائیں۔ ہمیں افسوس ہے کہ ہم نے آپ کے مرتبہ کو نہ پہچانا۔ ہمیں بتائیے یہ کیا بھید ہے؟ شیخ نے فرمایا: جاؤ اپنا قرض لو میں نے سب کو معاف کیا۔ اور نصف دینار حلوائی کے لڑکے کو دیا۔ فرمانے لگے: میں جو خاموش تھا اور تمہیں اتنی دیر جو روکے رکھا تو اس میں یہ راز پنہاں تھا کہ جب میں نے اللہ تعالیٰ کی خدمت میں بڑھاپے میں مقروض ہو کر اپنے مر جانے کا خدشہ ظاہر کیا تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ سے حکم ہوا کہ جب تک حلوہ فروش لڑکا بے قرار ہو کر زار و قطار آہ و بکا نہیں کرے گا رحمتِ الٰہی جوش میں نہیں آئے گی۔ یہ جو کچھ تم نے دیکھا یہ سب کچھ امر الٰہی سے وقوع پذیر ہوا۔ اس کے بعد آپ کا وصال ہوگیا۔ آخر میں نصیحت کرتے ہوئے مولانا روم فرماتے ہیں:
اے برادر طفل طفلِ چشم تُست
کام خود موقوف زاری داں نخست
کامِ خود موقوفِ زاریِ دل ست
بے تضرُّع کامیابی مشکل ست
(اے عزیز! وہ لڑکا دراصل خود تیری چشم گریاں ہے۔ حقیقی کامیابی سچے دل سے رونے پر موقوف ہے۔ جب تک اللہ رب العزت کے حضور سچے دل سے اپنے کئے ہوئے گناہوں پر شرمندگی اور ندامت کے آنسو نہیں بہائے گا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔)
جلال الدین رومی، مثنوی، (حصہ دوم): 39-40
علم تصوف کے امام ابو عبد اللہ حارث بن اسد محاسبی اپنی تصنیف ’رسالۃ المسترشدین‘ میں فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اپنے مراتب کو دیکھ کر خود فریبی میں مبتلا نہ ہونا۔ اُن کے اس قول پر شیخ عبد الفتاح ابو غدہ تحقیق و تخریج اور فوائد نافعہ کے ذیل میں حضرت امام مالک کے ایک صالح اور متقی شاگرد بہلول قیروانی کا ایک واقعہ بیان کرتے ہیں۔ جسے سعدون بن ابان نے وحیون بن راشد سے روایت کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں مدینہ طیبہ میں تھا کہ ایک شخص پوچھ رہا تھا کہ کیا یہاں کوئی افریقہ کا باشندہ ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ ہاں میں افریقہ سے تعلق رکھتا ہوں۔ تو اس نے کہا: کیا تم بہلول بن راشد کو پہچانتے ہو؟ میں نے اثبات میں جواب دیا۔ اس نے مجھے ایک خط دیا کہ یہ ایک امانت ہے ان تک پہنچا دو۔ چنانچہ میں وہ خط لے کر ان کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے اسے کھولا، تو اس میں تحریر تھا: ’اہل ثمرقند خراسان سے ایک عورت آپ کو یہ خط لکھ رہی ہوں۔ میں نہایت سخت گناہگار خاتون تھی کہ مجھ جیسا روئے زمین پر کوئی بڑا گناہگار نہ ہوگا، پھر اللہ تعالیٰ نے کرم فرمایا اور مجھے توفیق توبہ عنایت کی۔ سابقہ گناہوں کی شرمندگی نے مجھے سخت بے چین کر دیا ہے تو میں نے اپنی توبہ پر استقامت کے لئے اللہ تعالیٰ کے خاص مقبول بندوں سے دعا کروانے کا ارادہ کیا ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ وہ اس وقت چار ہیں جن میں سے ایک آپ ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کو حاضر جان کر سوال کرتی ہوں کہ اے بہلول! آپ اللہ تعالیٰ سے میری اس توبہ پر استمرار و دوام کے بارے میں دعا فرمائیں‘۔
راوی کہتے ہیں کہ یہ خط بہلول کے ہاتھ سے زمین پر گر گیا اور وہ خود بھی ہیبت کے باعث زمین پر منہ کے بل گر پڑے اور رونے لگے۔ وہ مسلسل بے قرار ہو کر آہ و بکا کرتے رہے یہاں تک کہ آپ کے آنسوؤں سے تر ہونے والی مٹی سے وہ خط لتھڑ گیا۔ پھر آپ اپنے آپ کو مخاطب کرکے کہنے لگے:
یَا بُهْلُوْلُ، ذُکِرْتَ بِسَمَرْقَنْد خُرَاسَان؟ الْوَیْلُ لَکَ یَا بُهْلُوْلُ إِنْ لَمْ یُسْتَرْ عَلَیْکَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ.
ابن ناجی، معالم الإیمان: 267
اے بہلول! (تعجب ہے) تمہیں خراسان کے شہر سمر قند سے لوگ یاد کر رہے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ نے قیامت کے دن تیرے عیوب کو نہ چھپایا تو تیرے لئے ہلاکت اور بربادی ہے۔
حضرت بہلول اپنے مرتبہ کو دیکھ کر مزید خوف و خشیت الٰہی میں مبتلا ہوگئے۔ یہ آپ کے عارف ہونے کی نشانی ہے۔
ابھی تک ہم نے خشیت الٰہی کے مختلف واقعات کا مطالعہ کیا ہے۔ اب ہم مختلف اولیاء اور صالحین کے اقوال اور آثار کو بیان کریں گے۔
1۔ امام یحییٰ بن معاذ الرازی فرماتے ہیں:
مِسْکِیْنٌ ابْنُ آدَمَ لَوْ خَافَ النَّارَ کَمَا یَخَافُ الْفَقْرَ دَخَلَ الْجَنَّۃَ.
غزالي، إحیاء علوم الدین، 4: 162
بے چارہ انسان اگر آتشِ دوزخ سے اتنا ڈرتا جتنا افلاس سے ڈرتا ہے تو جنت میں داخل ہو جاتا۔
2۔ امام ابو القاسم الحکیم کہتے ہیں:
مَنْ خَافَ شَیْئًا هَرَبَ مِنْهُ وَمَنْ خَافَ اللهَ هَرَبَ إِلَیْهِ.
غزالي، إحیاء علوم الدین، 4: 156
جو شخص کسی چیز سے ڈرتا ہے وہ اس سے دور بھاگتا ہے جبکہ جو خدا سے ڈرتا ہے وہ اسی کی طرف بھاگتا ہے۔
3۔ امام فضیل بن عیاض فرماتے ہیں:
إِذَا قِیْلَ لَکَ هَلْ تَخَافُ اللهَ فَاسْکُتْ فَإِنَّکَ إِنْ قُلْتَ: ’لَا‘ کَفَرْتَ وَإِنْ قُلْتَ ’نَعَمْ‘ کَذَبْتَ.
غزالي، إحیاء علوم الدین، 4: 157
جب تم سے کوئی سوال کرے کہ خدا تعالیٰ سے ڈرتے ہو؟ تو اس کے جواب میں چپ رہو کیونکہ اگر کہو گے’ نہیں‘ تو کفر کے مرتکب ہو جاؤ گے اور اگر کہو گے ’ہاں‘ تو جھوٹے ہو گے (کیوں کہ کوئی بھی خشیتِ الٰہی کا حق ادا نہیں کر سکتا)۔
4۔ امام فضیل بن عیاض فرماتے ہیں:
مَنْ خَافَ اللهَ دَلَّهُ الْخَوْفُ عَلٰی کُلِّ خَیْرٍ.
غزالي، إحیاء علوم الدین، 4: 161
جو شخص الله تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اسے یہ خشیت ہر طرح کی خیر کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
5۔ امام ابو بکر شبلی سے خوف کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:
أَنْ تَخَافَ أَنْ یُّسْلِمَکَ إِلَیْکَ.
أبو نعیم، حلیۃ الأولیاء، 10: 358
تو اِس سے ڈر کہ الله تعالیٰ تجھے تیرے حال پر چھوڑ دے (یعنی تمہیں تمہارے نفس کے حوالے کر دے)۔
6۔ امام شبلی فرماتے ہیں:
مَا خِفْتُ اللهَ یَوْمًا إِلَّا رَأَیْتُ لَهٗ بَابًا مِنَ الْحِکْمَةِ وَالْعِبْرَةِ مَا رَأَیْتُهٗ قَطُّ.
غزالي، إحیاء علوم الدین، 4: 161
جب میں الله تعالیٰ سے ڈرتا ہوں تو میرے سامنے حکمت و عبرت کا ایک ایسا دروازہ کھل جاتا ہے جسے میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھا ہوتا۔
7۔ امام سہل التستری فرماتے ہیں:
لَا تَجِدُ الْخَوْفَ حَتّٰی تَأْکُلَ الْحَلَالَ.
غزالي، إحیاء علوم الدین، 4: 162
جب تک تو رزقِ حلال نہ کھائے تجھے خوفِ اِلٰہی نصیب نہیں ہوگا۔
8۔ امام ابو سلیمان الدارانی فرماتے ہیں:
مَا فَارَقَ الْخَوْفُ قَلْبًا إِلَّا خَرِبَ.
غزالي، إحیاء علوم الدین، 4: 162
جس دل سے خوفِ اِلٰہی نکل جائے وہ دل خراب اور پراگندہ ہوجاتا ہے۔
9۔ امام ابن دینار جعفی نے فرمایا:
اِتَّقِ اللهَ فِيْ خَلَوَاتِکَ، وَحَافِظْ عَلٰی أَوْقَاتِ صَلَوَاتِکَ، وَغُضَّ طَرَفَکَ عَنْ لَحَظَاتِکَ، تَکُنْ عِنْدَ اللهِ مُقَرَّبًا فِيْ حَالَاتِکَ.
أبو نعیم، حلیۃ الأولیاء، 10: 162
اپنی خلوتوں میں الله کا خوف رکھو، اپنی نمازوں کے اوقات کی حفاظت کرو اور نظریں نیچی رکھو (اس کے نتیجہ میں) تم اپنے احوال میں الله تعالیٰ کے مقرب بن جاؤ گے۔
10۔ امام حاتم الاصم نے فرمایا:
لِکُلِّ شَيْئٍ زِیْنَۃٌ، وَزِیْنَۃُ الْعِبَادَةِ الْخَوْفُ، وَعَلَامَۃُ الْخَوْفِ قَصْرُ الْأَمَلِ.
قشیري، الرسالۃ: 127
ہر چیز کی ایک زینت ہوتی ہے اور عبادت کی زینت خوفِ اِلٰہی ہے اور خوف کی علامت خواہشاتِ دنیا کو کم کرنا ہے۔
11۔ امام ابو عثمان المغربی نے فرمایا:
مَنْ حَمَلَ نَفْسَهٗ عَلَی الرَّجَائِ تَعَطَّلَ، وَمَنْ حَمَلَ نَفْسَهٗ عَلَی الْخَوْفِ قَنَطَ وَلٰـکِنْ مِنْ هٰذِهٖ مَرَّةً، وَمِنْ هٰذِهٖ مَرَّةً.
قشیري، الرسالۃ: 133
جس نے اپنے آپ کو (صرف) اُمید پر رکھا، اُس نے عمل چھوڑ دیا اور جس نے خود کو (صرف) خوف پر رکھا وہ مایوس ہوگیا، لیکن انسان کو کبھی رِجاء اور کبھی خوف کے ساتھ ہونا چاہیے۔
12۔ امام سری سقطی نے فرمایا:
مَنْ خَافَ اللهَ خَافَهٗ کُلُّ شَيْئٍ.
السُّلمي، طبقات الصّوفیۃ: 53
جو شخص الله تعالیٰ سے ڈرتا ہے اس سے ہر چیز ڈرتی ہے۔
13۔ امام ابو حفص نے فرمایا:
اَلْخَوْفُ سَوْطُ اللهِ یُقَوِّمُ بِهِ الشَّارِدِیْنَ عَنْ بَابِهٖ.
قشیري، الرسالۃ: 125
اللہ تعالیٰ کا خوف ایسا کوڑا ہے جس سے الله تعالیٰ اپنے در سے بھاگنے والوں کو سیدھا کرتا ہے۔
14۔ امام بشر الحافی نے فرمایا:
اَلْخَوْفُ مَلَکٌ لَا یَسْکُنُ إِلَّا فِيْ قَلْبِ مُتَّقِيٍّ.
قشیري، الرسالۃ: 127
خوف ایک فرشتہ ہے جو صرف متقی کے دل میں رہتا ہے۔
15۔ امام ابراہیم بن شیبان نے فرمایا:
إِذَا سَکَنَ الْخَوْفُ فِي الْقَلْبِ أَحْرَقَ مَوَاضِعَ الشَّھَوَاتِ مِنْهُ، وَطَرَدَ رَغْبَۃَ الدُّنْیَا عَنْهُ.
قشیري، الرسالۃ: 128
جب خوفِ اِلٰہی دل میں جاگزیں ہو جاتا ہے تو اس دل سے خواہشات کے ٹھکانوں کو جلا دیتا ہے اور اس سے دنیا کی رغبت کو نکال دیتا ہے۔
16۔ امام قشیری فرماتے ہیں:
لَیْسَ الْخَائِفُ الَّذِيْ یَبْکِيْ وَیَمْسَحُ عَیْنَیْهِ، إِنَّمَا الْخَائِفُ مَنْ یَتْرُکُ مَا یَخَافُ أَنْ یُعَذَّبَ عَلَیْهِ.
قشیري، الرسالۃ: 126
خوفِ خدا کا حامل وہ نہیں جو روتا ہو اور اپنی آنکھیں پونچھتا اور صاف کرتا ہو بلکہ خوفِ خدا رکھنے والا وہ شخص ہے جو ہر اُس فعل کو ترک کر دے جس پر اسے عذاب کا ڈر ہے۔
17۔ امام عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں:
اَلدَّائِرَۃُ عَلَی الْخَوْفِ مِنَ اللهِ تعالیٰ وَالْخَشْیَةِ لَهٗ، إِذَا لَمْ یَکُنْ لَکَ خَوْفٌ مِّنْهُ فَـلَا أَمْنَ لَکَ فِي الدُّنْیَا وَالْآخِرَةِ.
عبد القادر جیلاني، الفتح الرباني: 128
الله تعالیٰ سے خوف و خشیت کے دائرہ میں رہو (کہ اسی پر راحت و امن کا دارومدار ہے)۔ جب تجھے الله تعالیٰ سے خوف نہ ہو گا تو دنیا و آخرت میں تمہیں بالکل امن نصیب نہیں ہو گا۔
18۔ امام غزالی فرماتے ہیں:
فَأَخْوَفُ النَّاسِ لِرَبِّهٖ أَعْرَفُهُمْ بِنَفْسِهٖ وَبِرَبِّهٖ۔
غزالي، إحیاء علوم الدین، 4: 156
لوگوں میں سب سے زیادہ اپنے رب سے وہی شخص ڈرتا ہے جو اپنے نفس اور اپنے رب کو سب سے زیادہ پہچانتا ہے۔
ذہن میں سوال اٹھ سکتا ہے کہ یہ گریہ و بکا اور بکثرت آہ و زاری نصیب کیسے ہوتی ہے؟
اللہ جل شانهٗ جب اپنے بندوں کے دلوں کی طرف نظر ڈالتا ہے تو ان کے اعمال اور پس پردہ نیتوں کو ملاحظہ فرماتا ہے۔ پھر ان میں سے جس بندے سے اسے محبت ہو جاتی ہے اُس کی زندگی میں غم اور بڑھا دیتا ہے یعنی اسے غمزدہ بنا کر رونے والا بنا دیتا ہے۔ اپنے بندے کے نالوں کو سن کر مولیٰ خوش ہوتا ہے اس طرح بندہ آہ و بکا کے باعث نوازشاتِ الٰہیہ کا مستحق ٹھہرا دیا جاتا ہے۔
اس کے برعکس جس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو جائے اس پر دنیا کی ریل پیل کو کھول دیتا ہے۔ پھر بندہ مرغوباتِ دنیا میں گم ہو کر رہ جاتا ہے۔ دنیوی آسائشوں کی سرشاریاں اس قدر اس کو دنیا میں مشغول کردیتی ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کو بھول جاتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے کرتوتوں کے باعث اسے بھلا دیا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کے برے اعمال کے باعث چاہتا ہے کہ میں اسے بھول جاؤں تو اس بندے کے دل سے خود کو بھلا دیتا ہے۔ یہ بدبختی کی انتہا ہے ہم اللہ تعالیٰ سے ایسی بدبختی سے پناہ کے خواستگار ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved