یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ جب کسی بھی منزل کا حصول مقصود ہو یا کسی مقام و منزل تک پہنچنا مطلوب ہو تو اس سلسلے میں مسافر کو کچھ بنیادی شرائط پورا کرنا ہوتی ہیں جن پر عمل پیرا ہوئے بغیر کسی کامیابی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ جس قدر کوئی کام اہم ہوگا اُسی قدر اس کی شرائط بھی اہمیت کی حامل ہوں گی۔ توبہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ایک عظیم الشان مبارک فعل ہے کہ بندہ اپنے جملہ گناہوں، برائیوں اور نافرمانیوں سے شرمندہ اور تائب ہو کر اس کی بندگی اختیار کرنا چاہتا ہے۔ چنانچہ عرفاء نے اپنے اپنے طریق پر توبہ کی مختلف شرائط بیان کی ہیں، یہ شرائط ایسی ہیں کہ جن پر پورا اترنے کے بعد توبہ انسان کے لئے دنیا اور آخرت میں سود مند ہو سکتی ہے۔ حقیقت میں توبہ وہی ہے جو زبان سے ادا ہو تو قلب و روح کی گہرائیوں میں اتر جائے اور بندے کے باقی ماندہ زندگی کے ماہ و سال کی کایا پلٹ کر رکھ دے۔ جھوٹے لوگوں کی توبہ ان کی زبان کی نوک پر ہوتی ہے۔ وہ محض استغفر اللہ کہنے کو توبہ سمجھتے ہیں یعنی زبان سے توبہ کا لفظ ادا کرتے رہتے ہیں لیکن ان کے دل پر ان الفاظ کی ادائیگی کا کچھ اثر نہیں ہوتا۔
حقیقی توبہ کے باعث تائب کی تمام لغزشیں، کوتاہیاں اور تمام گناہ خواہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ یوں مٹ جاتے ہیں جیسے وہ ابھی ماں کے بطن سے نومولود بچے کی طرح معصوم پیدا ہوا ہو۔ توبہ سے قبل وہ گناہوں کے باعث جہنم کا مستحق تھا لیکن توبہ کے باعث اس کے وہی گناہ نیکیوں میں تبدیل ہو کر اس کے لئے جزا کا باعث بن گئے اور توبہ نے بندے کو فرش سے اٹھا کر عرش نشین کر دیا۔ بلاشبہ توفیق توبہ سب سے بڑی نعمت ہے۔ اس سے محرومی، بخشش و معرفت کی محرومی سے کہیں بڑھ کر خطرناک ہے۔ کیونکہ بخشش و معرفت تو توبہ کے لوازمات اور اس کے پیچھے آنے والی ہے جبکہ توبہ سے محرومی ایمان کے برباد ہو جانے کے مترادف ہے جیسے کہ فرمانِ الٰہی ہے:
اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَo
الحجرات، 49: 2
کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہو جائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہو جانے کا) شعور تک بھی نہ ہو۔
شرائطِ توبہ کے جمع ہونے پر توبہ کی قبولیت بفضل تعالیٰ یقینی ہو جاتی ہے۔ عمومی طور پر توبہ کی شرائط درج ذیل ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر انسان سچی توبہ کی برکات سے دائمی طور پر مستفیض ہو سکتا ہے۔
یہ توبہ کی پہلی اور بنیادی شرط ہے کہ انسان اپنے برے طور طریقوں اور اعمال پر شدید پشیمانی اور شرمندگی محسوس کرے جو دراصل برے کاموں سے، روگردانی کے مترادف ہے۔ ندامت کے صحیح ہونے کی علامات میں دل کا نرم ہو جانا اور کثرت سے آنسوؤں کا جاری ہونا ہے کیونکہ جب دل کو اللہ اور اللہ کے محبوب رسول ﷺ کی ناراضگی کا احساس دبوچ لے اور اس پر عذاب کا خوف طاری ہو جائے تو یہ روتا رہنے والا، غم زدہ بن جاتا ہے۔ اسی لئے حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے:
النَّدَمُ تَوْبَةٌ.
ندامت ہی توبہ ہے۔
انسان اخلاص کے ساتھ حقیقی ندامت کے طفیل ایک ہی قدم میں مغفرت کی منزل پا لیتا ہے۔ جمہور محققین کے نزدیک خالص ندامت ہی توبہ کی اصل ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔ جب بندہ مولیٰ کی توفیق سے قلب میں اپنے اعمال پر غور کرتا ہے تو اسے اپنے کئے ہوئے برے افعال پر افسوس ہوتا ہے جس سے ندامت جنم لیتی ہے۔ جب کسی سے محبت کا قلبی تعلق قائم ہو جائے تو اس کی نافرمانی کرنے سے شرم آتی ہے۔ یہی شرم و حیا بندے کو توبہ کے دروازے پر لے جاتی ہے۔ حقیقی ندامت کی نشانی یہ ہے کہ دل میں رِقّت آجائے اور آنکھوں سے آنسوں جاری ہو جائیں ۔ سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اِجْلِسُوْا إِلٰی التَّوَّابِیْنَ فَإِنَّهُمْ أَرَقُّ أَفْئِدَۃً.
غزالی، احیاء علوم الدین، 4: 15
توبہ کرنے والوں کے پاس بیٹھا کرو اس لئے کہ ان کے دل سب سے زیادہ رقیق ہوتے ہیں۔ (تاکہ اُن کی صحبت سے تمہیں بھی رقت نصیب ہو جائے)۔
امتِ مسلمہ مجموعی طور پر ذلت و رسوائی کے عذاب میں مبتلا ہے۔ مسلمان باوجود عددی اکثریت کے عالمِ کفر کے ہاتھوں ذلیل و خوار ہیں۔ غیرت و حمیت نام کی کوئی شے اب مسلم امہ کے دامن میں نہیں رہی۔ کفرو طاغوت ترنوالہ سمجھ کر ہماری آزادی سلب کرنے کے درپے ہے۔ مصائب و آلام نے ہمارا جینا دوبھر کردیا ہے۔ یہ حالات نہیں بدل سکتے جب تک مسلمان اصلاح کا عزمِ نو لے کر اللہ کی راہ کی طرف دوبارہ لوٹ نہیں آتے۔ اب بھی اگر امت مسلمہ ندامت محسوس کر کے مولیٰ کی راہ پر جسے وہ بھول چکی ہے، پلٹ آئے تو تمام حالات و معاملات درست ہو سکتے ہیں۔
توبہ کے عمل میں داخل ہونے کا یہ پہلا قدم ہے کہ انسان ندامت محسوس کرتے ہوئے ہر قسم کے گناہ سے کنارہ کش ہو جائے۔ برے فعل پر شرمندگی اور پشیمانی کے احساس سے بندے کے دل میں گناہ کے ترک کرنے کا داعیہ جنم لیتا ہے اور بندہ شرم محسوس کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ایک کمزور اور حقیر ترین مخلوق ہو کر اس کے ساتھ اپنے تعلقِ بندگی کی حیاء نہ کی اور اس کے احکام کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوا۔ یہ احساس ترکِ گناہ پر منتج ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْمُؤْمِنَ، إِذَا أَذْنَبَ، کَانَتْ نُکْتَةٌ سَوْدَائُ فِي قَلْبِهِ. فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهُ. فَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتَّی تَغْلَفَ قَلْبُهُ.
مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے اور (گناہ سے) ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے۔ (لیکن) اگر وہ ڈٹا رہے اور زیادہ (گناہ) کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے (پورے) دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔
حضرت ذو النون مصری نے فرمایا:
اَلْاِسْتِغْفَارُ مِنْ غَیْرِ إِقْـلَاعٍ هُوَ تَوْبَۃُ الْکَاذِبِیْنَ.
قشیري، الرسالۃ: 95
گناہ سے باز آئے بغیر توبہ کرنا جھوٹے لوگوں کی توبہ ہے۔
توبہ کے بعد ترک گناہ لازم ہے۔ حضرت یحییٰ بن معاذ نے فرمایا:
زَلَّةٌ وَّاحِدَةٌ بَعْدَ التَّوْبَةِ أَقْبَحُ مِنْ سَبْعِیْنَ قَبْلَهَا.
قشیري، الرسالۃ: 97
توبہ کے بعد کی ایک لغزش توبہ سے پہلے کی ستر لغزشوں سے بدتر ہے۔
محمد زُقاق بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو علی روذباری سے توبہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: (گناہوں کا) اعتراف، (غلطیوں پر) ندامت اور (گناہوںکا) ترک کرنا(توبہ ہے)۔
زندگی ایک میدانِ عمل ہے جس میں حقیقی کامیابی عملِ صالح کے بغیر ممکن نہیں اور ترکِ گناہ کے بغیر عملِ صالح کا کوئی تصور نہیں۔ بدقسمتی سے مذہبی اور دنیوی امور کو علیحدہ علیحدہ پلڑوں میں رکھنے کے باطل طریقۂ کار نے ہمارے معاشرے میں نیکی کے تصور کو دھندلا دیا ہے۔ بیک وقت لُوٹ کھسُوٹ، ظلم و ناانصافی، حلق تلفی اور مفاد پرستی بھی جاری ہے اور عبادات کے نظام پر بھرپور توجہ بھی۔ بقول شاعر:
اے چمن والو! چمن میں یوں گزارا چاہیے
باغباں بھی خوش رہے، راضی رہے صیاد بھی
حقیقت یہ ہے کہ اس منافقانہ طرزِ عمل کی موجودگی میں ترکِ گناہ کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ حقیقی توبہ اسی وقت ہی ہو گی جب توبہ کے بعد گناہ کو بھی مکمل طور پر ترک کر دیا جائے۔
انسان اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور پختہ عہد کرے کہ جن نافرمانیوں، خطاؤں اور گناہوں کا ارتکاب کر چکا ہے آئندہ یہ اس کی زندگی میں کبھی داخل نہیں ہوں گے کیونکہ توبہ کی ابدی سلامتی کا انحصار اس پر ہے کہ وہ کس قدر اپنے عہد پر پختہ رہتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے:
اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللهِ وَاَخْلَصُوْا دِیْنَهُمْ لِلّٰهِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ ط وَسَوْفَ یُؤْتِ اللهُ الْمُؤْمِنِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًاo مَا یَفْعَلُ اللهُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ ط وَکَانَ اللهُ شَاکِرًا عَلِیْمًاo
النساء، 4: 146-147
مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی وہ سنور گئے اورانہوں نے اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور انہوں نے اپنا دین اللہ کے لیے خالص کر لیا تو یہ مومنوں کی سنگت میں ہوں گے اور عنقریب اللہ مومنوں کو عظیم اجر عطا فرمائے گا۔ اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور ایمان لے آؤ، اور اللہ (ہر حق کا) قدرشناس ہے (ہر عمل کا) خوب جاننے والا ہے۔
اس آیت مبارکہ میں {الَّذِیْنَ تَابُوْا} کے الفاظ بندے کی توجہ اس طرف مبذول کر رہے ہیں کہ اس کی سابقہ زندگی میں جس قدر بھی غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئیں وہ سچے دل کے ساتھ توبہ کا طلب گار بن کر اپنے گناہوں پر ندامت محسوس کرتے ہوئے گڑگڑا کر اللہ رب العزت کی بارگاہ سے عفو و درگزر کی دراخواست کرے۔ درحقیقت بندے کا اپنے سابقہ کئے گئے اعمال پر ندامت محسوس کرنا اپنے جملہ گناہوں سے رو گردانی کے مترادف ہے۔ بندہ جب تک نادم رہے گا اللہ تعالیٰ کی رحمت اس پر سایہ فگن رہے گی۔
اِس ضمن میں حضرت امام غزالی توبہ کے باب میں ایک حکایت لائے ہیں کہ حضرت آدم علیہ السلام نے فرمایا: اے جبرائیل! اگر میری توبہ کی قبولیت کے بعد بھی مجھ سے اس بارے میں سوال ہوا تو میرا ٹھکانہ کیا ہو گا؟ تو اللہ تعالیٰ نے وحی بھیجی: اے آدم! آپ نے اپنی اولاد کے لئے بطور وراثت رنج و تکلیف بھی چھوڑی اور توبہ بھی۔ ان میں سے جو مجھے پکارے گا تو میں اس کی دعا قبول کروں گا جس طرح آپ کی دعا قبول کی ہے۔ جو مجھ سے بخشش مانگے میں اس سے بخل نہیں کروں گا کیونکہ میں قریب ہوں اور دعا قبول کرنے والا بھی۔ اے آدم! میں توبہ کرنے والوں کو قبروں سے اس طرح باہر لاؤں گا کہ وہ خوش ہوں گے اور ہنس رہے ہوں گے اور ان کی دعا قبول ہو گی۔
غزالی، إحیاء علوم الدین، 4: 5
محض زبان سے توبہ کرنا منافقین کا عمل ہے۔ گناہ کو چھوڑنے کا پختہ ارادہ نہ کرنا اور حقیقی توبہ کے بعد بشری تقاضے کے باعث گناہ کا سر زد ہو جانا دو جدا باتیں ہیں۔ اس حوالے سے امام ابو القاسم قشیری، صاحبِ رسالہ قشیریہ، توبہ کے باب میں شیخ ابو علی دقاق سے منسوب ایک واقعہ نقل کرتے ہیں کہ ایک مرید نے توبہ کی۔ مگر اُس سے سُستی ہو گئی اور توبہ پر قائم نہ رہ سکا۔ ایک دن وہ سوچ رہا تھا کہ اگر دوبارہ توبہ کرے گا تو اس کے لئے کیا حکم ہوگا؟ اس پر غیب سے ندا آئی؟ تم نے ہماری اطاعت کی تو ہم نے قبول کر لیا، تو نے ہمیں چھوڑ دیا تو ہم نے تمہیں مہلت دی۔ پھر لَوٹ آؤ گے تو ہم تجھے قبول کر لیں گے۔ چنانچہ مرید لَوٹ آیا اور اِس بات پر ثابت قدم رہا۔
قشیری، الرسالۃ، 93
اللہ تبارک و تعالیٰ عالم الغیب ہے۔ اُس کے علم میں ہے کہ کون اپنی توبہ میں سچا اور کون جھوٹا ہے۔ حقیقی توبہ کے بعد کسی بشری کمزوری کے باعث گناہ کا سر زد ہونا ممکن ہے۔ ستر بار بھی معافی مانگے تو توبہ قبول ہو گی لیکن اگر کوئی لوگوں کے سامنے خود کو نیک و پارسا ظاہر کر کے دھوکہ دینے کی غرض سے توبہ کرے گا اور پھر گناہوں میں مبتلا ہو گا تو اس کا معاملہ جدا ہے۔ اس نے تو علیم و خبیر رب تعالیٰ کو (نعوذ باللہ) اپنے طور پر دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے، اگرچہ بظاہر دیکھنے میں دونوں کا عمل ایک جیسا نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
توبہ کی یہ شرط تائب سے اگلے مرحلے کا تقاضا کرتی ہے۔ وہ مرحلہ سنور جانے یعنی اصلاح احوال کا ہے۔ مذکورہ بالا آیت کریمہ میں ارشاد ربانی ہے:
وَاَصْلَحُوْا.
النساء، 4: 146
اور وہ سنور گئے۔
حقیقی ندامت انسان کے اندر ایک ہمہ گیر تبدیلی کو جنم دیتی ہے۔ ندامت صرف توبہ کے الفاظ ادا کرنے اور خالی آنسو بہانے کا نام نہیں۔ ندامت اور اس کے نتیجہ میںتوبہ کا اختیار کر لینا احوالِ حیات کا مکمل طور پر تبدیل ہو جانا ہے۔ جب تک توبہ کرنے والا اصلاح کی فکر نہیں کرتا وہ تائب ہی نہیں ہوتا۔ گناہوں سے شرمندگی کے باعث آنکھوں کا اشک ریز ہونا بھی قیمت پاسکتا ہے اگر اس کے نتیجے میں انسان کی زندگی سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی، فسق و فجور، ظلم و ناانصافی، شہوت رانی اور ہوس پرستی جیسے جملہ رذائل اخلاق کلیتاً خارج ہو جائیں اور انسان گناہوں سے یکسر پاک ہو کر اطاعت و بندگی کا پیکر بن جائے۔ یہ اس لئے کہ توبہ کرنا کوئی معمولی فعل نہیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بننے کا مقام ہے جیسے کہ خود باری تعالی نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ.
البقرة، 2: 222
بے شک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
حضرت ابو محمد سہل رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا: توبہ کرنے والا اللہ تعالیٰ کا محبوب کب بنتا ہے؟ فرماتے ہیں: جب وہ ہر اس کام سے دور ہو جائے جسے حق تعالیٰ پسند نہیں فرماتا۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: {اَلتَّـآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ (التوبۃ، 9: 112)} توبہ کرنے والے (ہی) عبادت کرنے والے ہیں‘۔
ابو طالب مکی، قوت القلوب، 1: 384
یعنی توبہ بندگی سے مشروط ہے۔ عرفاء نے تائب کے لئے بعض امور کا بجالانا ضروی قرار دیا ہے۔ جن میں چند اہم ترین یہ ہیں:
1۔ نافرمانوں کی صحبت سے اجتناب کیا جائے۔
2۔ توبہ کرنے والے کو ہر وقت اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہنا چاہیے۔
3۔ کسی گناہ کو بھی معمولی خیال نہ کرے اور فضول کاموں سے الگ رہے۔
4۔ جس گناہ سے توبہ کی اس کو کچھ اس طرح یاد رکھے کہ اس گناہ کا احساس اسے پریشان رکھے تاکہ آداب بندگی بجا لاتا رہے اور کبھی بھی اس کی حلاوت محسوس نہ کرے بلکہ اس کی کڑواہٹ محسوس کرے اور اس سے سخت نفرت کرے۔
5۔ حقوق العباد میں سے اگر کسی سے ناانصافی یا ظلم کر بیٹھے تو اولاً اس کے حقوق ادا کرے اور اگر یہ توفیق نہیں پاتا تو پھر اس سے معافی کا خواستگار ہو اور اللہ تعالیٰ سے عفو و درگزر کے لئے دست بہ دعا رہے۔
صحیح توبہ وہی ہے جو انسان کے شب و روز، افعال و اعمال اور حالات و کیفیات کو یکسر بدل کر رکھ دے۔ بندہ عبادت و ریاضت کا پیکر بن جائے اور رضائے الٰہی کا حصول اس کی خواہشات کا مرکزو محور بن جائے۔توبہ اپنے محبوب کے ساتھ پھر سے جُڑ جانے کا نام ہے۔ گناہ نے محبت کی حرمت کو مجروح کیا تو گناہگار احساسِ گناہ سے بوجھل ہو گیا۔ محبوب سے شرم آنے لگی، عفو و بخشش کی دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے تو ہاتھ کانپ گئے، پھر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔ ایسی ہی توبہ مقبول ہے۔
توبہ کی ایک شرط یہ ہے کہ اللہ کا دامن تھام کر ہر غیر سے منہ پھیر لے۔ اللہ تعالیٰ کا دامن مضبوطی سے تھامنے کا حکم بھی سورہ نساء کی مذکورہ آیت میں ہی دیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاعْتَصَمُوْا بِاللهِ.
النساء، 4: 146
اور اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا۔
اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق کو مضبوط کرنے اور توبہ پر قائم رکھنے میں خشیتِ الٰہی بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَنَهَی النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰیo فَاِنَّ الْجَنَّۃَ هِیَ الْمَاْوٰیo
النازعات، 79: 40-41
اور جو شخص اپنے رب کے حضور کھڑا ہونے سے ڈرتا رہا اور اُس نے (اپنے) نفس کو (بری) خواہشات و شہوات سے باز رکھا۔ تو بے شک جنت ہی (اُس کا) ٹھکانا ہو گا۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے روایت کی کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ أَخْوَفَ مَا أَتَخَوَّفُ عَلٰی أُمَّتِي: الْھَویٰ وَطُوْلَ الْأَمَلِ.
مجھے اپنی اُمت پر سب سے زیادہ خوف خواہشات کی پیروی اور لمبی لمبی آرزوؤں سے ہے۔
حقیقی توبہ کے نتیجے میں بندہ تائب ہو کر اللہ جل شانہ سے ایسا مضبوط تعلق قائم کرلیتا ہے کہ دنیا اپنی تمام تر رنگینیوںکے باوجود انسان کو اپنی طرف مائل نہیں کر سکتی۔ بس مولیٰ کی خوشنودی اور رضا ہی مومن کے پیش نظر ہوتی ہے۔ اس سے بندے کا دل نور سے بھر دیا جاتا ہے اور وہ ہر قسم کے شک و شبہ سے پاک ہو جاتا ہے۔
توبہ میں اخلاص احساسِ ندامت سے جنم لیتا ہے۔ گناہ پر شرمندگی اور پشیمانی جتنی زیادہ ہوگی توبہ اتنی ہی خالص ہوگی۔ گویا توبہ میں اخلاص کا دار و مدار بندے کے اپنے من کی سچائی پر ہے۔ اخلاص اس اَمر کا تقاضا کرتا ہے کہ دل سے احساسِ ندامت کبھی زائل نہ ہو اور گناہ سے بندے کو طبعی نفرت ہو جائے۔ محض زبان سے استغفار کا ورد کرتے رہنا اور دل کا اس سے غافل رہنا یا دل میں معصیت کی حسرت کا پوشیدہ ہونا کوئی توبہ نہیں۔ ہماری توبہ کا تو یہ حال ہے:
سبحہ در کف، توبہ بر لب، دل پُر از ذوقِ گناہ
معصیت را خندہ می آید ز استغفارِ ما
تسبیح ہاتھ میں، توبہ کا ذکر زبان پر اور دل میں گناہ سے لطف اندوزی کا داعیہ، ایسی توبہ پر تو معصیت بھی ہنستی ہے کہ یہ کیسی توبہ ہے۔
توبہ کی ایک شرط یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی اللہ کے لئے وقف کردے۔ اس کا جینا، مرنا مخلوق خدا کے ساتھ ملنا، برتنا، اٹھنا بیٹھنا، چلنا پھرنا، کمانا، خرچ کرنا اور کھانا پینا سب کا سب اللہ کے لئے ہو جائے۔ سورۂ نساء کی آیہ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
وَاَخْلَصُو دِیْنَھُمْ لِلّٰهِ.
النساء، 4: 146
اور انہوں نے اپنا دین اللہ کے لئے خالص کرلیا۔
ایک دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
اَ لَا لِلّٰهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ.
الزمر، 39: 3
(لوگوں سے کہہ دیں) سن لو طاعت و بندگی خالصۃً اللہ ہی کے لئے ہے۔
جب کفار نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں جھگڑا کیا تو اللہ تعالیٰ نے اخلاص کے مقام پر فائز مومنین کو یہ فرما کر ان کے اخلاص پر مہر تصدیق ثبت کر دی کہ وہ کفار سے کہہ دیں کہ وہ تو خالص اللہ تعالیٰ کے ہو چکے ہیں۔ سورئہ بقرہ کی درج ذیل آیت کریمہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے لئے عظیم خوشخبری اور بشارت کا درجہ رکھتی ہے:
قُلْ اَتُحَآجُّوْنَنَا فِی اللهِ وَھُوَ رَبُّنَا وَرَبُّکُمْ ج وَلَنَآ اَعْمَالُنَا وَلَکُمْ اَعْمَالُکُمْ ج وَنَحْنُ لَهٗ مُخْلِصُوْنَo
البقرة، 2: 139
فرما دیں: کیا تم اللہ کے بارے میں ہم سے جھگڑا کرتے ہو حالاں کہ وہ ہمارا (بھی) رب ہے، اور تمہارا (بھی) رب ہے اور ہمارے لیے ہمارے اعمال اور تمہارے لیے تمہارے اعمال ہیں، اور ہم تو خالصتاً اسی کے ہو چکے ہیں۔
قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر شیطان کے انسان کو گمراہ کرنے کے دعوؤں کا ذکر کیا گیا ہے تاکہ شیطان کی کھلی دشمنی سے کبھی دھوکہ نہ کھائے۔ قیامت تک زندہ رہنے کی مہلت پا کر اس نے اللہ تعالیٰ سے کہا:
قَالَ فَبِعِزَّتِکَ لَاُغْوِیَنَّهُمْ اَجْمَعِیْنَo
ص، 38: 82
اس نے کہا: سو تیری عزت کی قسم، میں ان سب لوگوں کو ضرور گمراہ کرتا رہوں گا۔
لیکن اخلاص کے حامل بندوں کے بارے میں اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
اِلَّا عِبَادَکَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِیْنَo
ص، 38: 83
سوائے تیرے اُن بندوں کے جو چُنیدہ و برگزیدہ ہیں۔
یعنی اخلاص وہ قوت ہے جس کے سامنے شیطان بھی بے بس ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِیْ نَفْسَهُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللهِ ط وَاللهُ رَئُوْفٌم بِالْعِبَادِo
البقرة، 2: 207
اور (اس کے برعکس) لوگوں میں کوئی شخص ایسا بھی ہوتا ہے جو اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے اپنی جان بھی بیچ ڈالتا ہے، اور اللہ بندوں پر بڑی مہربانی فرمانے والا ہے۔
احادیث مبارکہ سے اخلاص کی مزید وضاحت ہمیں میسر آتی ہے۔ درج ذیل حدیث مبارکہ میں ان تین امور کی نشاندہی کی گئی ہے جن کے بارے میں مومن کے دل میں کوئی کھوٹ نہیں ہونی چاہئے۔
متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
ثَلَاثُ خِصَالٍ لَا یَغِلُّ عَلَیْهِنَّ قَلْبُ مُسْلِمٍ أَبَدًا إِخْلَاصُ الْعَمَلِ لِلَّهِ وَمُنَاصَحَۃُ وُلَاةِ الْأَمْرِ وَلُزُومُ الْجَمَاعَةِ.
تین کام ایسے ہیں جن پر مومن کا دل کبھی بھی خیانت نہیں کرتا۔ خالص اللہ تعالیٰ کے لئے عمل کرنا، حکمرانوں کی خیر خواہی اور جماعت سے وابستگی۔
اخلاص کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ اخلاص کا تھوڑا عمل بھی قبول ہے۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَخْلِصِ دِیْنَکَ یَکْفِکَ الْعَمَلُ الْقَلِیْلُ.
حاکم، المستدرک، کتاب الرقاق، 4: 341، رقم: 4844
اپنے دین کو خالص کرو تھوڑا بھی کافی ہو گا۔
صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کے لئے عبادت و بندگی کا بجا لانا اخلاص ہے۔ ایک دوسری حدیث مبارکہ میں فرمایا گیا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا:
اخلاص میرے رازوں میں سے ایک راز ہے۔ اِسے میں اُس بندے کے دل میں رکھتا ہوں جس سے میں محبت کرتا ہوں۔
دیلمی، الفردوس بمأثور الخطاب، 3: 187، رقم: 4513
لفظ عبادت اپنے اندر وسیع مفہوم رکھتا ہے۔ معاملات عبادات و عقائد سب اس میں شامل ہیں۔ مختلف معاملات زندگی جو بظاہر دنیاداری سے متعلق نظر آتے ہیں لیکن درحقیقت اگر یہ سب معاملات اللہ کے حکم پر عمل پیرا ہوتے ہوئے بجا لائیں اور اس سلسلے میں کوئی ذاتی غرض پیش نظر نہ ہو مثلاً نہ مخلوق سے کسی تعریف و شہرت اور ناموری کی چاہت ہو نہ نیک نامی اور نام نہاد بزرگی کی خواہش، تویہ سب امور دین کا حصہ قررا پائیں گے۔ چنانچہ اخلاص کی تعریف ہی یہ ہے کہ مخلوق کی نگاہوں سے اپنے فعل کو پاک رکھنا اہلِ اخلاص کے نزدیک لوگوں کی اُن کے بارے میں تعریف کرنا یا مذمت کرنا برابر ہوتا ہے۔ اپنے اعمال نہ تو ان کی نظر میں ہوتے ہیں اور نہ ہی وہ ان سے کسی اجر و ثواب کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
الغرض اخلاص صرف اللہ تعالیٰ کے لئے فعل کو انجام دینا ہے۔ چنانچہ ہر وہ فعل اور کام جو کسی معاوضہ کی نیت سے کیا جائے گا وہ خالِص نہیں ہو گا اور اخلاص سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوگا۔ اخلاص بندے اور رب کے درمیان راز ہے۔ چنانچہ بندہ اپنے عمل پر اللہ کے سوا کسی اور کو گواہ نہ بنائے۔ اگر کسی نے مخلوق کی خاطر کوئی عمل ترک کیا تو یہ ریا ہے اور اگر مخلوق کی خاطر کیا تو شرک۔ کسی سائل نے حضرت سہل رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا:
أَيُّ شَیْئٍ أَشَدُّ عَلَی النَّفْسِ؟ فَقَالَ: الْإِخْلَاصُ، لِأَنَّهٗ لَیْسَ لَھَا فِیْهِ نَصِیْبٌ.
قشیری، الرسالۃ: 209
نفس پر کون سی چیز سب سے زیادہ گراں ہے؟ تو فرمایا: اخلاص(اپنے ہر فعل کو اللہ کے لئے خالص کر لینا )کیونکہ اس میں نفس کا کوئی حصہ نہیں۔
جو شخص صاحبِ اَخلاص ہو جاتا ہے وہ صرف خالق کا نیازمند ہوتا ہے۔ وہ یہ پسند نہیں کرتا کہ لوگ اس کی ذرہ برابر نیکی سے بھی آگاہ ہو کر اس کی تعریف کریں اور نہ ہی اس کا اس بات سے کوئی تعلق ہوتا ہے کہ لوگ اس کے بارے میں کیا کہیں گے۔ وہ اپنا ہر عمل صرف اللہ کی رضا کے لئے سرانجام دیتا ہے۔ جب تک بندہ اپنے جملہ معاملات میں اس قدر خالص نہیں ہو جاتا توبہ کی چوتھی شرط پوری نہیں ہو سکتی۔
حضرت ذو النون مصری فرماتے ہیں: اخلاص کی تین نشانیاں ہیں:
1۔ عوام کی مدح یا مذمت بندے کے لئے یکساں ہو۔
2۔ بندہ اپنے اعمال کو دیکھنا بھول جائے۔
3۔ آخرت میں اپنے اعمال کے ثواب کی چاہت کو بھی بھول جائے۔
قشیری، الرسالۃ: 208
کامِل اَخلاص یہ ہے کہ جسم اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے خالص ہو جائے، دل مولیٰ کے قرب کے لئے اور جان اللہ کی محبت کے لئے خالص ہو جائے۔ یعنی جسم اللہ کے سوا کسی غیر کے آگے نہ جھکے۔ دل اللہ تبارک و تعالیٰ کے سوا کسی اور کا قرب نہ چاہے اور جان اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی محبت میں گرفتار نہ ہو۔
ایک ایسے ہی عاشقِ صادق کی حکایت الاسلام امام محمد غزالی نے مکاشفۃ القلوب کے باب عشق و محبت میں ’عاشق کی پہچان‘ کے عنوان کے تحت نقل کی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک باغ سے گزر ہوا۔ ایک جوان مالی باغ میں پانی دے رہا تھا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو دیکھ کر وہ کھڑا ہو گیا اور عرض کرنے لگا: اے اللہ کے رسول! اللہکی بارگاہ میں دعا کیجئے کہ وہ مجھے اپنے عشق کا ایک ذرہ عطا کردے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا: ذرہ بہت بڑی چیز ہے تو برداشت نہیں کر پائے گا۔ اس نے عرض کیا: حضور! اللہ کی بارگاہ سے آدھا ذرۂ عشق ہی عطاہو جائے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ہاتھ اٹھا دیئے۔ دعا قبول ہو گئی۔ جوان کو عشق الٰہی کا آدھا ذرہ عطا ہو گیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام چلے آئے۔ کچھ عرصے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اُسی باغ سے گزرے تو لوگوں سے پوچھا کہ وہ جوان کدھر ہے؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ تو دیوانہ ہو گیا ہے اور کہیں پہاڑوں میں ہی دکھائی دے گا۔ جب آپ وہاں پہنچے تو اسے آسمان کی جانب منہ اٹھائے مست و اَلَست کھڑا دیکھا۔ آپ نے سلام کیا لیکن اُسے کچھ خبر نہ ہوئی۔ آپ نے اپنا تعارف کرایا لیکن وہ پھر بھی بے خبر رہا۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اے عیسیٰ! تو نے ہی تو اس کے لئے دعا کی تھی، ہم نے اسے اپنے عشق کا آدھا ذرہ عطا کر دیا تھا۔ اب تُو اِسے اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتا ہے۔ عشق کے آدھے ذرے نے اسے اس حال میں پہنچا دیا ہے کہ اگر آرے سے اسے سر سے پاؤں تک چیر دیا جائے تو بھی اُسے پتہ نہ چلے۔ چنانچہ جب بندے کو اللہ کی محبت میں اخلاص نصیب ہو جاتا ہے تو وہ دنیا کے مصائب و آلام اور غم و اندوہ سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
غزالی، مکاشفۃ القلوب: 28
حقیقت یہ ہے کہ إلا ما شاء اللہ ہماری اکثر کی توبہ ایسی ہی ہوتی ہے۔ جہاں تک توبہ میں اسقامت کا تعلق ہے یہ محاسبۂ نفس کے بغیر ممکن نہیں۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ بندہ تائب ہونے کے بعد نفس کی حالت پر ہمیشہ نظر رکھے۔ صبح و شام اس کا حساب کرے۔ نفس کے فریب اور جھکاؤ سے کبھی غافل نہ ہو اور نہ ہی اسے معمولی سمجھے کیونکہ نفس کی آفتیں اَن گنت بھی ہیں اور باریک بھی۔ گناہوں کی یادوں اور حسرتوں کی بھُوبَل کے نیچے لذت کی چنگاری غیر محسوس طریقے سے کسی نہ کسی حوالے سے جِلا پا کر من میں چھپی آتش گیر خواہشوں کا بھانبڑ مچاتی ہے اور تائب کی پاکیزہ نفسی کو خاکستر کر دیتی ہے۔ در اصل نفس کو اپنے قابو میں رکھنا ہی سب سے بڑی نعمت ہے۔ حقیقی تائب وہی ہے جس نے مخالفتِ نفس کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا اور جو من کے اندر کے لذت آفریں اندھیرے غاروں میں گھسیٹے جانے والے لمحے کو پہچاننے کے لئے چوکس رہا اور اللہ تعالیٰ سے توفیقِ اصلاح طلب کرتا رہا۔
توبہ کی یہ شرط تقاضا کرتی ہے کہ بندہ ہر دم اللہ تعالیٰ کے حضور استقامت کا طلب گار رہے اور اپنی طرف سے مقدور بھر اعمالِ صالحہ بجالانے میں کوشاں رہے۔ یہ اس لئے کہ یہی حکم خداوندی ہے:
اِنَّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ.
الرعد، 13: 11
بے شک اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں۔
اللہ تعالیٰ سے مضبوط تعلق تقاضا کرتا ہے کہ بندہ اوامر پر کاربند ہو اور نواہی سے اجتناب کرے۔ وہ صاحب استقامت ہو۔ استقامت کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ کبھی بھی ایسا کام نہ کرے جو شرمندگی و ندامت کا باعث بنے۔ ایسے ہی صاحبِ استقامت کے بارے میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوْا رَبُّنَا اللهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْا.
الاحقاف، 46: 13
بے شک جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے پھر انہوں نے استقامت اختیار کی۔
ابن عطاء اس آیت کی شرح میں فرماتے ہیں:
{اسْتَقَامُوْا} سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے دل کو صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ لگایا اور اس پر قائم رہے۔
قشیری، الرسالۃ: 206
ابو علی شبوی فرماتے ہیں کہ میں نے سرکارِ دوعالم ﷺ کو خواب میں دیکھا تو عرض کیا:
رُوِيَ عَنْکَ أَنَّکَ قُلْتَ: شَیَّبَتْنِيْ ھُوْدُ، فَمَا الَّذِي شَیَّبَکَ مِنْهَا؟ أَقَصَصُ الْأَنْبِیَاءِ، أَمْ هَلَاکُ الْأُمَمِ؟ فَقَالَ: لَا، وَلٰکِنْ قَوْلُهٗ تَعَالیٰ: {فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ(ھود، 11: 112)}.
قشیری، الرسالۃ: 206
(یا رسول اللہ!) آپ سے روایت کی جاتی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: سورہ ھود نے مجھے بوڑھا کر دیا۔ یا رسول اللہ! کس بات نے آپ ﷺ کو بوڑھا کردیا؟ آیا انبیاء علیہ السلام کے واقعات نے یا امتوں کی ہلاکت نے ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں، اللہ تعالیٰ کے اس فرمان نے: ’پس آپ ثابت قدم رہئے! جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے‘۔
چنانچہ استقامت کوئی معمولی مقام نہیں۔ یہ صدقِ دل سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں کھڑے ہونے کا نام ہے اور بہت کم اس کے اہل ہو سکے۔ استقامت کا نصیب ہونا اللہ تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا انعام ہے۔ حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اسْتَقِیْمُو وَلَنْ تَحْصُوْا، وَاعْلَمُوْا أَنَّ خَیْرَ أَعْمَالِکُمْ الصِّلَاۃَ وَلَا یُحَافِظُ عَلَی الْوُضُوْءِ إِلَّا مُؤْمِنٌ.
اپنے ایمان پر استقامت اختیار کرو، تم نہ کر سکو گے مگر اللہ کی مدد سے، یاد رکھو کہ نماز تمہارے دین کی بہترین چیز ہے اور وضو کی حفاظت مومن ہی کرتا ہے۔
توبہ کر لینا تو اتنا مشکل نہیں ہے، اصل مسئلہ تو اس پر استقامت کا ہے۔ بندہ توبہ کر کے اس پر استقامت اختیار کر لے تو اس کی یہ توبہ اس کے گناہوں کی معافی کا سبب بنتی ہے۔
توبہ پرہیز گاری پر موقوف ہے۔ تقویٰ اور پرہیز گاری کے ذریعے ہی دنیوی اور اُخروی کامیابی کا حصول ممکن ہے۔ ایک رائی برابر بھی برے عمل سے ڈرنا اور ان تمام چیزوں سے اجتناب کرنا جو بندے کو اللہ تعالیٰ سے دور رکھیں، پرہیز گاری ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
یٰٓـاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰـکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰـکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَـآئِلَ لِتَعَارَفُوْا ط اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللهِ اَتْقٰـکُمْ ط اِنَّ اللهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌo
الحجرات، 49: 13
اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد اور عورت سے پیدا فرمایا اور ہم نے تمہیں (بڑی بڑی) قوموں اور قبیلوں میں (تقسیم) کیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ بے شک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو، بے شک اللہ خوب جاننے والا خوب خبر رکھنے والاہے۔
پرہیز گاری اتنا اعلیٰ و ارفع عمل ہے کہ اِس کے سبب انسان کو عزت و احترام حاصل ہوتا ہے۔ تقویٰ بھی پرہیز گاری کا مترادف لفظ ہے۔ پرہیز گار ہونا درحقیقت ہر حرام اور مشتبہ چیز کو ہمیشہ کے لئے اپنے شب و روز سے نکال دینا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگوں نے دریافت کیا:
یَا رَسُوْلَ اللهِ! مَنْ أَکْرَمُ النَّاسِ؟ قَالَ: أَتْقَاهُمْ.
بخاری، الصحیح، کتاب الأنبیاء، باب قول اللہ تعالی {وَاتَّخَذَ اللہ إِبْرَاهِیْمَ خَلِیْلاً}، 3: 1224، رقم: 3175
یا رسول اللہ! لوگوں میں سب سے زیادہ معزز کون ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: جو سب سے زیادہ متقی (پرہیزگار) ہے۔
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَا عَقْلَ کَالتَّدْبِیرِ، وَلَا وَرَعَ کَالْکَفِّ، وَلَا حَسَبَ کَحُسْنِ الْخُلُقِ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب الزہد، باب الورع والتقوی، 2: 1410، رقم: 4218
تدبیر سے بڑھ کر عقل مندی نہیں، معافی اور (گناہوں) سے اجتناب کرنے سے بڑھ کر تقویٰ (پرہیزگاری) نہیں اورحُسنِ اَخلاق سے بڑھ کر کوئی حسب و نسب نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ پرہیز گاری سے بڑھ کر انسان کو توبہ پر ثابت قدم رکھنے والا کوئی اور عمل نہیں ہے۔
توبہ کی شرائط میں سے ہے کہ توبہ کرنے والا نافرمانوں اور خطاکاروں سے قطع تعلق کر لے کیونکہ ان کی صحبت اسے توبہ پر پختہ نہیں رہنے دے گی۔ توبہ کی ابتداء ہی برے دوستوں کی مجلس سے الگ رہنے سے ہوتی ہے کیونکہ وہی اسے اس ارادہ کو ترک کر نے پر اُکساتے ہیں اور ذہن میں شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔ بُری صحبت کی ظاہری صورتوں کے علاوہ اِس کی کئی مخفی شکلیں بھی ہیں مثلاً کیبلز، انٹرنیٹ، سَیل فون اور اس میں استعمال ہونے والے میموری کارڈز، ٹی وی چینلز جو زیادہ خطرناک طریقے سے بری صحبت کا ذریعہ ہیں۔ سائنسی ایجادات کے باعث دنیا سکڑ کر گلوبل وِلیج کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ان جدید ذرائع نے بلاشبہ علم و تحقیق کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور کوئی ملک ان سے صَرفِ نظر کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن نظریاتی تربیت کے فقدان اور علمی کم مائیگی کے باعث ہمارے اخلاق بری طرح تباہ ہو رہے ہیں۔ مزید یہ کہ ان ذرائع ابلاغ پر کنٹرول عالمی طاقتوں کے ہاتھ میں ہے جو باقاعدہ منصوبہ بندی سے اخلاقی بے راہ روی، عریانی اور فحاشی کے فروغ میں دن رات ایک کئے ہوئے ہیں۔ چنانچہ جب تک اِسی شد و مد سے صالح صحبتیں مہیا نہیں کی جاتیں، نئی نسل جس پر امت مسلمہ کے احیاء کا انحصار ہے، کے بگاڑ پر قابو پانا ممکن نہیں۔ حکومتی اور غیر حکومتی ذرائع کے ذریعے باقاعدہ نظم کے ساتھ اور اخلاص پر مبنی خانقاہی تربیت گاہوں کے قیام سے ہی اُمت کے احوال کی اصلاح ممکن ہے۔
گناہ کو معمولی تصور کرنا ارتکابِ گناہ سے بھی بدتر ہے کیونکہ یہ گناہ پر اصرار کے مترادف ہے اور دراصل اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظیم صفت ستار العیوب کی بنا پر گویا دلیر ہونا ہے۔ شیخ ابو طالب مکی نے ’قُوت القلوب‘ میں اور امام غزالی نے ’احیاء علوم الدین‘ میں توبہ کے ضمن میں بعض معتبر حضرات سے ایک حکایت بیان کی ہے:
اللہ کے ایک صالح ولی کیچڑ کے راستے پر لباس پنڈلیوں سے اوپر کر کے راہ کے کناروں پر ہو کر چل رہے تھے۔ چلتے چلتے اچانک ان کا پاؤں پھسل گیا اور کیچڑ میں چلا گیا۔ اس پر انہوں نے دونوں پاؤں کیچڑ میں داخل کر دیے اور درمیان میں چلنے لگے۔ پھر وہ زار و قطار رو پڑے۔ عقیدت مندوں نے عرض کیا: آپ نے یہ کیا عمل کیا اور روئے کیوں؟ فرمانے لگے: یہ بندے کی مثال ہے۔ وہ گناہوں سے بچتا رہتا ہے اور اطراف سے ہو کر چلتا ہے۔ کبھی ایک یا دو گناہوں میں گرتا ہے اور اسے معمولی سمجھتا ہے لیکن پھر اس کے بعد گناہوں میں ڈوب کر ہی رہ جاتا ہے۔
وہ عارف دراصل ناکردہ گناہوں کے خیال ہی سے رو رو کر اظہار بندگی بجا لا رہے تھے۔ دراصل عارف گناہ کے چھوٹے پن کو نہیں دیکھتے بلکہ اُن کا دھیان ہمیشہ اس طرف جاتا ہے کہ یہ نافرمانی کس کی ہے؟ درحقیقت گناہ کو چھوٹا بڑا سمجھنے کا انحصار نُورِ ایمان پر ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے قلوب میں نُورِ ایمان کی اس قدر عظمت تھی کہ وہ صغیرہ گناہوں کو بھی بہت خوفناک سمجھتے تھے۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جوں جوں قلوب میں ظلمت بڑھتی گئی، ایمان کمزور ہوتا گیا۔ اب صورت حال یہ ہے کہ چھوٹے گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔ حقیقت یہ ہے کہ گناہ کو معمولی تصور کرنا ایک منافقانہ طرز عمل ہے کیونکہ منافقت خود کو دھوکا دینا ہے اور گناہ کو چھوٹا تصور کرتے ہوئے اسے کر گزرنے سے زیادہ واضح اور کھلا دھوکا اور کیا ہو گا۔
دراصل بندے کے دل میں محرمات کی جس قدر عظمت ہوگی اسی قدر انہیں توڑنے اور پامال کرنے میںوہ خوف اور وحشت محسوس کرے گا۔ اب اگر کسی معاشرہ میں گناہوں کو معمولی سمجھنے اور ان کا ارتکاب کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ معاشرہ اخلاقی گراوٹ کا شکار ہو کر کور دیدہ اور نُورِ ایمان و بصیرت سے محروم ہو رہا ہے۔ یہ غفلت کی کیفیت ہے جسے قرآن حکیم میں یوں بیان فرمایا گیا ہے:
اِقْتَرَبَ لِلنَّاسِ حِسَابُھُمْ وَھُمْ فِیْ غَفْلَۃٍ مُّعْرِضُوْنَo
الأنبیاء، 21: 1
لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت قریب آ پہنچا مگر وہ غفلت میں (پڑے طاعت سے) منہ پھیرے ہوئے ہیں۔
اس طرح چھوٹے گناہ کو کوهِ گراں سمجھنا بھی توبہ کی شرائط میں سے ہے کیونکہ چھوٹے گناہ لذتِ گناہ کی پرورش کرتے ہیں جس سے انسان بڑے گناہوں میں پھسل جاتا ہے۔ صغیرہ گناہوں پر اصرار کبیرہ گناہوں کے ارتکاب کا سبب بنتا ہے۔ صغیرہ گناہ کبیرہ گناہ کی مبادیات ہوتے ہیں۔ لہٰذا انسان کی نظر کبھی بھی کسی گناہ کے چھوٹے ہونے پر نہ جائے، بلکہ وہ یہ دیکھے کہ وہ نافرمانی کس خالق و مالک کی کر رہا ہے؟
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْمُؤْمِنَ یَرَی ذُنُوبَهُ کَأَنَّهٗ قَاعِدٌ تَحْتَ جَبَلٍ یَخَافُ أَنْ یَقَعَ عَلَیْهِ، وَإِنَّ الْفَاجِرَ یَرَی ذُنُوبَهُ کَذُبَابٍ مَرَّ عَلَی أَنْفِهٖ.
بخاری، الصحیح، کتاب الدعوات، باب التوبہ، 5: 2324، رقم: 5949
مومن اپنے گناہوں کو ایسے سمجھتا ہے جیسے کہ وہ پہاڑ کے نیچے بیٹھا ہے اور ڈرتا ہو کہ وہ پہاڑ اس کے اوپر گر پڑے گا اور منافق اپنے گناہوں کو ایک مکھی کی طرح (معمولی) سمجھتا ہے کہ وہ اس کے ناک پر سے (بیٹھ کر) اڑ گئی ہو۔
اس حدیث مبارکہ میں مومن کے لیے ایمان کا ایک معیار مقرر کر دیا گیا ہے۔ جو جس قدر پختہ ایمان کا حامل ہے وہ اسی قدر گناہوں سے لرزہ براندام ہے۔ چھوٹے سے چھوٹا گناہ بھی اس کے لئے پہاڑ کی مانند ہے۔
ایک دوسری حدیثِ مرسل میں یہ مضمون مزید وضاحت سے بیان کیا گیا ہے کہ
لِیَتَّقِ أَحَدُکُمْ أَنْ یُؤْخَذَ عِنْدَ أَدْنٰی ذُنُوْبِهٖ فِي نَفْسِهٖ.
تم میں سے ہر کسی کو اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ اس کا مواخذہ اس گناہ پر ہو جائے جس کو وہ اپنے تئیں معمولی سمجھ رہا ہے۔
ہمارا تو یہ حال ہے کہ اپنی برائیوں اور گمراہیوں کو گناہ کا درجہ دینے کے لئے بھی تیار نہیں ہوتے جبکہ اہل اللہ کی جماعت کا قول ہے کہ توبہ تو یہ ہے کہ تائب اپنے کئے ہوئے گناہ کو کبھی نہ بھولے اور اس سے ہمیشہ پشیمان رہے کیونکہ بُرے کام پر افسوس کرنا اعمالِ صالح پر مقدم ہے۔ گناہ نہ بھولنے والا کبھی نیکیوں پر غرّہ نہیں کرتا۔
انسان کسی برے کام سے توبہ تو کر لیتا ہے لیکن کبھی بشری تقاضے کے باعث اس سابقہ گناہ کی لذت کو اپنے دل میں محسوس کرتا ہے جو ترکِ توبہ کی راہ دکھلانے کے مترادف ہے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ قلبی شہوات پر نظر رکھنے اور اپنے نفسوں کا محاسبہ کرنے کے بارے میں فرماتے ہیں:
حَاسِبُوْا أَنْفُسَکُمْ قَبْلَ أَنْ تُحَاسَبُوْا، وَتَزَیَّنُوْا لِلْعَرْضِ الْأَکْبَرِ، وَإِنَّمَا یَخِفُّ الْحِسَابُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ عَلٰی مَنْ حَاسَبَ نَفْسَهٗ فِي الدُّنْیَا.
اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اس سے قبل کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور بڑی پیشی کے لئے تیار ہو جاؤ قیامت کے دن اس آدمی کا حساب آسان ہو گا جس نے دنیا میں ہی اپنا حساب کر لیا۔
صاحبِ قُوت القلوب حضرت ابو طالب مکی نے توبہ کے باب میں سچی علاماتِ توبہ کے ذیل میں اسرائیلی روایات کے حوالے سے ایک حکایت بیان کی کہ ایک نبی علیہ السلام نے ایک شخص کی توبہ قبول کرنے کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور درخواست کی جس نے ساٹھ سال عبادت و ریاضت میں خوب محنت کی لیکن توبہ کی قبولیت کا کوئی نشان نہ دیکھا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
وَعِزَّتِيْ وَجَلَالِيْ لَوْ شَفَعَ فِیْهِ أَهْلُ السَّمٰوَاتِ وَالْأَرْضِ مَا قَبِلْتُ تَوْبَتَهٗ وَحَلَاوَۃً ذٰلِکَ الذَّنْبِ الَّذِيْ تَابَ مِنْهُ فِيْ قَلْبِهٖ.
مجھے میرے عزت و جلال کی قسم! اگر تمام آسمانوں اور زمین والے بھی اس کی سفارش کریں تو بھی میں اس کی توبہ قبول نہیں کروں گا جبکہ اس گناہ کی شیرینی (لذت) اس کے دل میں ابھی تک ہے جس سے اس نے توبہ کی۔
اس حکایت سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ حقیقی توبہ اس چیز کی متقاضی ہے کہ انسان کبھی بھی قلبی شہوات سے بے خبر نہ ہو کیونکہ گناہ کی یاد لذت بن کر اسے دوبارہ گناہ کی طرف آمادہ کرتی ہے۔ تائب کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس گناہ سے شدید نفرت کرے تاکہ اس کی یاد دل میں جگہ نہ پاسکے اور جب کبھی نفس و شیطان اسے گناہ کی یاد دلائیں تو رب العزت کے حضور صمیمِ قلب سے استقامت کی دعا کرتے ہوئے اسے فوراً اپنے دل سے نکال دے۔
اسی حوالے سے بعض اہلِ تصوف نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جس گناہ سے انسان توبہ کرتا ہے اسے بھول جائے یا یاد رکھے۔ بھولنے سے مراد یہ ہے کہ اس کی یاد تک دل سے محو ہوجائے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری، اور یاد رکھنے سے مراد ہے یہ کہ اپنے کئے پر ہمیشہ نادم اورغم زدہ رہے تاکہ دوبارہ ایسا گناہ سرزد نہ ہو۔ حضرت امام غزالی احیاء علوم الدین میں توبہ کے باب میں لکھتے ہیں کہ گناہ کے خیال پر رونا دھونا تائید کے حق میں کمال ہے کیونکہ اگر اسے بھلا دیا جائے تو دل گرفتگی، گناہ کی کڑواہٹ، غم و حزن زائل ہوجائے گا۔ یہ بات بندے کے لئے نقصان دہ ہے تاہم اس کے برعکس اگر گناہ کو یاد کرتے ہوئے نفس کی خواہش کا شکار ہوکر دل میں اس کے لئے ہلکی سی لذت بھی محسوس کی تو اس سے تائب کی توبہ بے ثمر ہوجائے گی۔
غزالی، احیاء علوم الدین، 4: 42
قلبی شہوات پر نظر رکھتے ہوئے انسان ہمیشہ یہ بات یاد رکھے کہ خواہشِ گناہ، گناہ کے بالمقابل زیادہ ہلاکت انگیز ہے کیونکہ گناہ کا ایک وقت ہے جبکہ اس کی خواہش ہمیشہ رہتی ہے جو کئی گناہوں کا باعث بنتی ہے۔
یہ دائمی توبہ کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اُخروی زندگی میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات دو امور سے خالی نہیں۔ نیک اعمال کے بدلے لازوال اُخروی نعمتیں میسر ہوں گی اور برے اعمال کے باعث جہنم اور اس کے دردناک نہ ختم ہونے والے عذاب سے سابقہ پڑے گا۔ اخروی منازل کی پہلی سیڑھی موت ہے اور یہ ہر نفس پر لازمی آئے گی۔
1۔ ارشاد ربانی ہے:
کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتِ ط وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ط فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَ اُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ ط وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَآ اِلاَّ مَتَاعُ الْغُرُوْرِo
آل عمران، 3: 185
ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے، اور تمہارے اجر پورے کے پورے تو قیامت کے دن ہی دئیے جائیں گے، پس جو کوئی دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کیا گیا وہ واقعتا کامیاب ہو گیا، اور دنیا کی زندگی دھوکے کے مال کے سوا کچھ بھی نہیں۔
2۔ کوئی بھی شخص اپنے جائے وفات سے واقف نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ مَّاذَا تَکْسِبُ غَدًا ط وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌم بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ط اِنَّ اللهَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌo
لقمان، 31: 34
اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا (عمل) کمائے گا اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کِس سرزمین پر مرے گا بے شک اللہ خوب جاننے والا ہے (یعنی علیم بالذات ہے اور خبیر للغیر ہے، از خود ہر شے کا علم رکھتا ہے اور جسے پسند فرمائے اسے باخبر بھی کردیتا ہے)۔
3۔ موت کا وقت مقرر ہے اور یہ اپنے مقررہ وقت سے ایک لمحہ آگے پیچھے نہیں ہو گی:
فَاِذَا جَآءَ اَجَلُهُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَۃً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَo
النحل، 16: 61
پھر جب ان کا مقرر وقت آ پہنچتا ہے تو وہ نہ ایک گھڑی پیچھے ہو سکتے ہیں اور نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔
4۔ موت اچانک آجائے گی اور موت کا ذائقہ چکھنے کے بعد بزرخی زندگی کا آغاز ہوگا:
حَتّٰی اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْنِo لَعَلِّیْٓ اَعْمَلُ صَالِحًا فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّا ط اِنَّهَا کَلِمَةٌ هُوَ قَآئِلُهَا ط وَمِنْ وَّرَآئِهِمْ بَرْزَخٌ اِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَo
المؤمنون، 23: 99-100
یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی (تو) وہ کہے گا: اے میرے رب! مجھے (دنیا میں) واپس بھیج دے۔ تاکہ میں اس (دنیا) میں کچھ نیک عمل کر لوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں۔ ہر گز نہیں، یہ وہ بات ہے جسے وہ (بطورِ حسرت) کہہ رہا ہو گا، اور ان کے آگے اس دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے۔
احادیث مبارکہ میں بھی اللہ تعالیٰ سے ملاقات اور دیدار الٰہی کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ موت کو ہر وقت یاد رکھنے کی تلقین کثرت سے ملتی ہے۔
1۔ حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
عَنْ أَبِي مُوْسٰی رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللهِ أَحَبَّ اللهُ لِقَائَهٗ، وَمَنْ کَرِهَ لِقَاءَ اللهِ کَرِهَ اللهُ لِقَائَهٗ.
جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات پسند فرماتا ہے اور جو اللہ تعالیٰ سے ملنا نا پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملنا ناپسند فرماتا ہے۔
2۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے ایک حدیث قدسی روایت کرتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
إِذَا أَحَبَّ عَبْدِي لِقَائِي أَحْبَبْتُ لِقَائَهٗ، وَإِذَا کَرِهَ لِقَائِي کَرِھْتُ لِقَائَهٗ.
جب بندہ میری ملاقات کو پسند کرتا ہے تو میں بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہوں اور جب وہ میری ملاقات کو ناپسند کرتاہے تو میں بھی اُس سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہوں۔
3۔ موت آخرت کی منزل کی پہلی سیڑھی ہے اور ہر عقل مند اس منزل کی تیاری کرتا ہے۔ حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
اَلْکَیِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهٗ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهٗ هَوَاهَا وَتَمَنّٰی عَلَی اللهِ تعالیٰ ۔
عقل مند اور زیرک ہے وہ شخص جو اپنے نفس کو حقیر جانے اور آخرت کے لیے عمل کرے، اور بے بصیرت ہے وہ شخص جو خواہشِ نفس کی پیروی کرے اور (قلتِ اَعمال کے باوجود) اللہ ل پر (بخشش کی) امید لگائے۔
4۔ ابن ماجہ نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری شخص نے حضور نبی اکرم ﷺ سے سب سے زیادہ عقل مند مومن کے بارے میں پوچھا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
أَکْثَرُهُمْ لِلْمَوْتِ ذِکْرًا وَأَحْسَنُهُمْ لِمَا بَعْدَهُ اسْتِعْدَادًا، أُوْلٰئِکَ الْأَکْیَاسُ.
جو ان میں سے موت کو زیادہ یاد کرنے والا ہے اور اس (موت) کے بعد کے لیے اچھی تیاری کرنے والا ہے، وہی لوگ زیادہ زیرک اور عقل مند ہیں۔
5۔ تذکیر آخرت کے لیے زیارت قبور کی اجازت دی گئی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
کُنْتُ نَھَیْتُکُمْ عَنْ زِیَارَةِ الْقُبُورِ، فَزُوْرُوْھَا، فَإِنَّھَا تُزَھِّدُ فِي الدُّنْیَا، وَتُذَکِّرُ الْآخِرَۃَ.
میں تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا کرتا تھا، اب زیارت کیا کرو کیوں کہ یہ (زیارتِ قبور) دنیا میں زاہد بناتی ہے (یعنی دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتی ہے) اور آخرت کی یاد دلاتی ہے۔
نیک لوگوں اور کثرت سے استغفار کرنے والوں پر انعامات کا آغاز برزخی زندگی سے ہی شروع ہو جائے گا۔ اُخروی نعمتوں میں سب سے عظیم نعمت دیدارِ خداوندی ہے جس کی مثل کوئی دوسری نعمت نہیں، اگرچہ اہل جنت دیگر اَن گنت نعمتوں سے بھی مستفیض ہوں گے۔ یہ سوچ اور فکر انسان کے دل و دماغ میں رغبت کو حرکت دیتی ہے جس سے انسان مزید نیکیاں حاصل کرنے کے لئے تگ و دو کرتا ہے، جو دائمی توبہ کا سبب ہے۔ جب انسان جہنم اور اس میں پیش آنے والے دردناک مصائب و آلام کا مطالعہ کرتا ہے جن کی تفصیلات قرآن و حدیث میں مذکور ہیں تو اِس سے خوفِ خدا پیدا ہوتا ہے جو گناہوں سے بچنے کے لئے ایک کوڑا ہے۔ دائمی توبہ کے لئے ضروری ہے کہ انسان عاقبت کو ہمیشہ پیش نظر رکھے اور کبھی بھی ان کے مطالعہ سے غافل نہ ہو اور حسب حال ان سے برکات حاصل کرے۔
جب بندہ توبہ کی شرائط پوری کرلیتا ہے تو اس کا شمار اُن مومنین میں ہو جاتا ہے جن کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے اجر عظیم کا مژدۂ جانفزا سنایا جاتا ہے۔ سورہ نساء کی آیت مبارکہ کے الفاظ مَا یَفْعَلُ اللهُ بِعَذَابِکُمْ بندوں پر اللہ تعالیٰ کی کمالِ محبت کا مظہر ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے گناہ گار بندو! اللہ نے تمہیں عذاب دے کر کیا کرنا ہے وہ تو چاہتا ہے کہ تم ایمان لا کر شکر گزار بندے بن جاؤ۔
اللہ تعالیٰ تو منتظر رہتا ہے کہ اس کا بندہ ظلم و ناانصافی سے توبہ کرے۔ غفلت و نافرمانی اور فسق و فجور سے تائب ہو کر اصلاحِ حیات کا مصمم عزم کرلے۔ ملتِ اسلامیہ کے موجودہ آلام و مصائب کی اصل وجہ بھی یہی ہے کہ وہ توبہ اور اصلاحِ احوال سے غافل ہو چکی ہے۔ توبہ کا عمل انفرادی اور اجتماعی سطح پر اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ سچی توبہ سے گناہ نیکیوں میںتبدیل ہو جاتے ہیں۔ سچی توبہ کے لیے اس کی جملہ شرائط کو بھی پورا کرنا لازمی ہے۔
کسی شے کی فضیلت اس کی خوبیوں اور صفات پر منحصر ہے۔ جس قدر خوبیاں اور خصوصیات اعلیٰ و ارفع ہوں گی اُسی قدر وہ چیز زیادہ فضیلت کی حامل ہوگی۔ دنیا و آخرت میں حقیقی کامیابی توفیقِ توبہ پر موقوف ہے۔ زیر نظر سطور میں مختلف حوالوں سے توبہ کی فضیلت پر روشنی ڈالی گئی ہے تاکہ قلب و روح اُن سے سرشار ہوکر انسان کو حصول توبہ کی طرف مائل کریں۔
اللہ رب العزت نے توبہ کی فضیلت بیان فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِرِیْنَo
البقرۃ، 2: 222
بے شک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
بظاہر تو طہارت کا ذکر پہلے اور توبہ کا بعد میں آنا چاہیے تھا لیکن رب العزت نے حفظِ مراتب کا اظہار فرمایا کہ توبہ چونکہ اللہ تعالیٰ سے ملنے کی راہ ہے اس لئے اسے راهِ عبادت یعنی طہارت سے مقدم رکھا۔ چنانچہ توبہ کا درجہ طہارت سے بلند ہونے کے باعث توابین کا ذکر طہارت حاصل کرنے والوں سے پہلے رکھا۔ یہ آیت کریمہ توبہ کی فضیلت پر یوں دلالت کرتی ہے کہ توبہ سے قبل بندہ اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کے باعث اللہ تعالیٰ کے حضور ناراضگی کے مقام پر تھا۔ ندامت نے اسے توبہ کے مقام تک پہنچا دیا۔ عملِ توبہ نے اُسے ناراضگی کے مقام سے اُٹھا کر اُن بندوں میں شامل کر دیا جن سے اللہ رب العزت محبت فرماتا ہے۔
بعض عرفاء کے نزدیک یہاں اس طہارت سے مراد باطنی طہارت ہے کیونکہ صدقِ دل سے توبہ کئے بغیر باطنی طہارت کا حصول نا ممکن ہے۔ اس لئے توبہ کو طہارت سے مقدم رکھا گیا ہے۔ یہ تقدم بھی فضیلت کا باعث ہے۔
بشری تقاضوں کے باعث کوئی انسان غلطیوں اور خطاؤں سے پاک نہیں سوائے انبیاء کرام f کے، جنہیں اللہ تبارک و تعالیٰ نے خلقِ خدا کی ہدایت کے لئے معصوم مبعوث فرمایا ہے۔ جب سب انسانوں سے غلطی کا ارتکاب ممکن ہے تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ خطاکاروں میں سے اچھا اور بہترین کون ہے؟ زیرِ نظر سطور میں اسی نکتے کو واضح کیا گیا ہے جس سے توبہ کی فضیلت روزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ.
تمام انسان غلطی کرتے ہیں لیکن بہترین خطاکار وہ ہیں جو توبہ کرتے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم ﷺ نے فرمایا:
خِیَارُکُمْ کُلُّ مُفْتَنٍ تَوَّابٌ.
تم میں سے بہترین آدمی وہ ہے جو گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں توبہ کرے۔
ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَا مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ إِلَّا وَلَهٗ ذَنْبٌ یَعْتَادُهُ: الْفَیْنَۃَ بَعْدَ الْفَیْنَةِ، أَوْ ذَنْبٌ هُوَ مُقِیمٌ عَلَیْهِ لَا یُفَارِقُهٗ حَتّٰی یُفَارِقَ، إِنَّ الْمُؤْمِنَ خُلِقَ مُفْتَنًا تَوَّابًا نَسِیًّا إِذَا ذُکِّرَ ذَکَرَ.
کوئی مومن شخص ایسا نہیں جس کا کوئی گناہ نہ ہو جس کا وہ وقتاً فوقتاً ارتکاب نہ کرتا ہو یا جس کا کوئی گناہ نہ ہو جس پر وہ قائم ہو، اس کو اس وقت تک نہ چھوڑتا ہو جب تک وہ اسے نہ چھوڑ دے۔ بے شک مومن آزمائش میں مبتلا، توبہ کرنے والا اور بھول جانے والا پیدا کیا گیا ہے، اور جب اسے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ نصیحت حاصل کرتا ہے۔
مومن سے اگر کبھی کبھار گناہ سرزد ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سرعت اور اخلاص کے ساتھ رجوع کرتا ہے۔ یہاں ارتکابِ گناہ کا تحّرک مراد نہیں بلکہ یہ بتانا مقصود ہے کہ طبعاً تو کوئی بھی گناہ سے پاک نہیں لیکن اللہ تعالیٰ کو اس کے حضور رجوع کرنے والے بندے بہت پسند ہیں۔ گناہ گار سوز و گداز کے ساتھ رجوع الی اللہ کرتا ہے۔ بستر کی طرف جائے تو اس سے سویا نہیں جاتا؛ بے قراری میں اللہ کے حضور قیام کا ارادہ کرتا ہے تو سر جھکائے گریۂ ندامت میں تر بہ تر آہ و فغاں میں رات گزار دیتا ہے؛ اپنی نافرمانی یاد آتی ہے تو لرزنے لگتا ہے؛ زبان پہ کلماتِ توبہ جاری رہتے ہیں؛ حتیٰ کہ سوتے میں بھی پہلو بدلتے استغفار ہی کی ندائیں ہونٹوں سے چھلکتی رہتی ہیں۔ ادھر یہ حال ہوتا ہے اور اُدھر کرم کی گھٹائیں امڈنے لگتی ہیں، عفو کی خیرات کا مینہ برسنے لگتا ہے اور گناہگار کے نامۂ اعمال کی شکل بدلنے لگتی ہے۔ گناہ نیکیوں میں ڈھلنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ فرمانِ الٰہی ہے:
اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓـئِکَ یُبَدِّلُ اللهُ سَیِّاٰ تِهِمْ حَسَنٰتٍ.
الفرقان، 25: 70
مگر جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جن کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا۔
قرآن حکیم میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے پھرارشاد فرمایا ہے:
اُولٰٓئِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَهُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَیَدْرَئُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَۃَ.
القصص، 28: 54
یہ وہ لوگ ہیں جنہیں ان کا اجر دو بار دیا جائے گا اس وجہ سے کہ انہوں نے صبر کیا اور وہ برائی کو بھلائی کے ذریعے دفع کرتے ہیں۔
قرآن مجید کی یہ آیتِ مقدسہ اور اس سے قبل جو احادیث بیان کی گئی ہیں ان سے ایک خاص امر سامنے آتا ہے کہ گناہ نہ ہونے پر تعریف نہیں کی گئی بلکہ گناہ ہو جانے کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنے اور توبہ و بخشش مانگنے پر اور برائی کو نیکی کے ذریعہ دور کرنے پر اپنے بندوں کی تعریف فرمائی ہے۔ اس سے توبہ کی اہمیت و فضیلت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ توبہ اتنا بڑا عمل ہے کہ صدق دل سے کی گئی توبہ انسان کو ایسی طہارت اور پاکیزگی عطا کر دیتی ہے کہ اس کا دل انوارِ الٰہی کا مہبط بن جاتا ہے۔ ایک شخص جو گناہ کے باعث جہنم کا سزا وار تھا توبہ کے عمل سے اب جنت کا حق دار ٹھہرا دیا گیا۔
جب انسان گناہوں میں مبتلا ہوتا ہے تو برے اعمال کے باعث اس کے من میں نیک اعمال و عبادات سے عدم دلچسپی جنم لیتی ہے۔ پھر اگر بندہ اپنی اصلاح نہیں کرتا تو عبادات سے یہ محرومی بڑھتے بڑھتے توبہ کی توفیق سلب کئے جانے پر منتج ہوتی ہے۔ اس مقام پر اس کا قلب گناہوں پر اصرار کے باعث حلاوتِ ایمان سے محروم ہو کر تاریک و سیاہ ہو جاتا ہے جو دائمی بدبختی کی علامت ہے۔
اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق سے بے پناہ محبت ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے اس سے دور ہو جائیں اور نتیجتاً نارِ جہنم کا ایندھن بنیں۔ چنانچہ ذاتِ حق تعالیٰ نے انہیں اس انجامِ بد سے بچانے کے لئے اپنی مغفرت و بخشش کو عام کرتے ہوئے درِ توبہ کھولنے کا اعلان کیا۔ اس اعلان کے مطابق جو کوئی توبہ کی راہ اختیار کرے گا اللہ اسے ایسے معاف کرے گا گویا اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں، بلکہ گناہوں کو نیکیوں میں بدل دے گا۔ جیسا کہ سورہ فرقان میں اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ہے:
اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓـئِکَ یُبَدِّلُ اللهُ سَیِّاٰ تِهِمْ حَسَنٰتٍ ط وَکَانَ اللهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo
الفرقان، 25: 70
مگر جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جن کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا، اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
اللہ تعالیٰ کو توبہ کرنے اور اس پر ثابت قدم رہنے والوں پر اتنا پیار آتا ہے کہ وہ ان توّابین کو درجۂ محبوبیت پر فائز کر دیتا ہے۔
چنانچہ سورہ بقرہ میں ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِرِیْنَo
البقرة، 2: 222
بے شک اللہ بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
سبحان اللہ! اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں سے محبت کا یہ منفرد انداز دنیوی دستور سے بالکل مختلف ہے۔ دنیا کا قانون اور قاعدہ تو یہ ہے کہ انسان جرم کی سزا کاٹ بھی لے تو بھی وہ معاشرے کی نظروں میں سزا یافتہ ہی کہلاتا ہے۔ مگر رب العزت کی بارگاہ میں حضور قلب کے ساتھ گناہوں سے معافی مانگنے والا درجہ محبوبیت پر فائز کر دیا جاتا ہے۔
ویسے تو توبہ ہر شخص پر ہر حال میں ہر وقت واجب ہے لیکن فضیلت کے اعتبار سے جوانی کی توبہ افضل ترین ہے۔ بڑھاپے میں آرزؤں، تمناؤں اور چاہتوں کا زمانہ بیت چکا ہوتا ہے۔ اعضائے انسانی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مضمحل ہو جاتے ہیں۔ نفسانی و شہوانی خواہشات دم توڑ چکی ہوتی ہیں۔ عمر کے اس حصے میں وہ استعدادِ کار بھی باقی نہیں رہتی جس کے بل بوتے پر اپنی ہر جائز و ناجائز خواہش کی تکمیل میں دن رات ایک کئے رکھے۔ الغرض بڑھاپے میں حرصِ دنیا کے لئے تگ و دو کرنا عملاً ممکن نہیں رہتا۔ ان حالات میں اس کے لئے توبہ و استغفار کی طرف راغب ہونا آسان ہو جاتا ہے۔ اِس کے برعکس جوانی کی عمر میں جب یہ تمام خواہشات اپنے جوبن پر ہوتی ہیں، اس کا نفس اسے حرص و ہوس، تمرّد و تکبّر، شہوت و بے حیائی کی ترغیب دیتا ہے اور اس راہ پر چلنے کی اس میں طبعی استعداد بھی بھرپور ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر کوئی جوان اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر کے اپنی بھرپور جوانی کو ان سب جسمانی و ذہنی داعیات سے بے نیاز کر دے تو اس کا دل ایسا ملکوتی اور نورانی ہو جاتا ہے کہ ملائکہ بھی اس پر رشک کرتے ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے۔
حضور سرکارِ دو عالم ﷺ نے جوانی اور شباب کے انہی ایام میں توبہ کی اہمیت سے متعلق ارشاد فرمایا:
مَا مِنْ شَيْئٍ أَحَبُّ إِلَی اللهِ مِنْ شَابٍّ تَائِبٍ.
ابن عدی، الکامل في ضعفاء الرجال، 5: 118
اللہ تعالیٰ کو جوان توبہ کرنے والے سے زیادہ کچھ محبوب نہیں۔
جوانی میں رجوع الی اللہ بہت بڑی سعادت ہے۔ یہی انبیاء کرام کے اسوۂ حسنہ کی صحیح پیروی ہے۔ انسان کی آنے والی زندگی کی کامیابی یا ناکامی کا انحصار جوانی کے ایام پر منحصر ہے۔ جن نوجوانوں نے لہو و لعب سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اپنی جوانی پاکیزگی میں گزار لی اس سے بڑھ کر اس کی اور کیا خوش قسمتی ہو سکتی ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنا محبوب بنا لیتا ہے۔ مذکورہ بالا حدیث مبارکہ میں اسی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہاہے:
در جوانی توبہ کردن شیوۂ پیغمبری است
وقتِ پیری گرگِ ظالم می شوَد پرہیزگار
اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور عنایات کی بارش معافی مانگنے والے گنہگاروں پر کس قدر برستی ہے، اس کا اندازہ ذیل کی حدیثِ قدسی سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ توبہ و استغفار کی فضیلت کے باب میں یہ حدیث مبارکہ عجیب شان کی حامل ہے۔ بندۂ خاکی کو اگر اس کا صحیح ادراک ہو جائے تو مارے شرم کے کبھی سر نہ اٹھائے اور ہمہ وقت مولا کی تسبیح وتحلیل اور شکر گزاری میں مصروف رہے۔
حضرت ابو ایوب رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
لَوْ لَا أَنَّکُمْ تُذْنِبُونَ لَخَلَقَ اللهُ خَلْقًا یُذْنِبُونَ یَغْفِرُ لَهُمْ.
اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ ایک اور مخلوق پیدا کرتا۔ وہ گناہ کرتے اور اللہ تعالیٰ انہیں بخش دیتا۔
حقیقت یہ ہے کہ جو مزہ اللہ کی رحمت کو گنہگار کے معافی مانگنے کے وقت آتا ہے وہ نیکوکاروں کی عبادت و ریاضت میں نہیں آتا۔ یہ معافی طلب کرنے والے گنہگار بندوں پر اللہ رب العزت کی وسیع رحمت کا بیان ہے۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی کچھ مختلف الفاظ کے ساتھ اسی حدیث مبارکہ کے مضمون کو یوں روایت کیا ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِهٖ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللهُ بِکُمْ وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ یُذْنِبُونَ فَیَسْتَغْفِرُونَ اللهَ فَیَغْفِرُ لَهُمْ.
اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر تم لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ تم کو لے جاتا اور تمہارے بدلے میں ایک ایسی قوم لاتا جو گناہ کرتی اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتی اور اللہ تعالیٰ مغفرت فرماتا۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کو عملِ عفو و درگزر سے بڑی محبت ہے۔ عفو و درگزر متقاضی ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں پر معافی کا طلب گار ہو۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی درج ذیل حدیثِ مقدسہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ کی اس صفتِ عفو کا اظہار ہوتا ہے۔
عَنْ عَائِشَۃَ قَالَتْ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللهِ أَرَأَیْتَ إِنْ عَلِمْتُ أَيُّ لَیْلَۃٍ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ مَا أَقُولُ فِیهَا؟ قَالَ: قُولِي: اللّٰھُمَّ إِنَّکَ عُفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي.
ترمذی، السنن، کتاب الدعوات، 5: 534، رقم: 3513
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! بتائیے اگر مجھے شب قدر معلوم ہوجائے تو میں اس میں کیا دعا مانگوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کہو: اللَّھُمَّ إِنَّکَ عُفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي۔ ’یا اللہ! تو بہت معاف کرنے والا ہے، عفو و درگزر کو پسند کرتا ہے پس مجھے معاف فرما دے‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن حکیم میں اپنے بندوں کو اُن وجوہ سے متعارف کرایا ہے جن کے باعث وہ ان پر گناہوں کے باوجود عذاب نازل کرنے سے حیاء فرماتا ہے۔ اب اگر بندے مولیٰ کی عطا کو بھی اپنا حق سمجھیں اور اِسے خاطر میں نہ لاتے ہوئے فسق و فجوراورمعاصی میں مصروف رہیں تو اس سے بڑھ کر بے حیائی اور دیدہ دلیری کیا ہو سکتی ہے۔
قرآنِ حکیم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِیْهِمْ ط وَمَا کَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَo
الأنفال، 8: 33
اور (در حقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیب مکرم ﷺ ) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں۔ اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں اُن پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ اس دنیا میں دو چیزیں ایسی ہیں جو میرے عذاب کو روک لیتی ہیں اور میرے جلال کو جمال میں بدل دیتی ہیں: ایک میرے پیارے حبیب ﷺ کی ذاتِ مقدسہ اور دوسری میرے بندے کی توبہ و استغفار ۔ یہ اُمتِ مصطفوی پر اللہ رب العزت کی عظیم نعمتوں کا بیان ہے۔
اُمتِ محمدی ﷺ سے قبل جس اُمت نے بھی اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں اور اپنے گناہوں پر اصرار کیا، اپنے نبی علیہ السلام کی موجودگی میں ہی عذاب کی شکل میں اللہ u کے غضب کا مستحق ٹھہری۔ قرآنِ حکیم میں جا بجا ان کی تفصیلات ملتی ہیں۔ لیکن آپ ﷺ کی اُمت پر اپنے فضل و احسان کا ذکر فرماتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ حیاء فرماتا ہے کہ آپ کے ہوتے ہوئے آپ ﷺ کی اُمت پر عذاب نازل کرے۔ یہ اللہ رب العزت کی اپنے محبوبِ مکّرم ﷺ پر شفقت و عنایات کی انتہا ہے۔
عذاب نہ آنے کی دوسری وجہ بندوں کا توبہ و استغفار کرنا ہے۔ یہ توبہ کی اہمیت و فضیلت کے باب میں عظیم ترین خوش خبری ہے۔ اُسے اپنے بندوں کے توبہ و استغفار اور احساسِ گناہ پر ندامت کے آنسو اس قدر پسند ہیں کہ گناہوں اور نافرمانیوں کے باوجود وہ عذاب نازل کرنے سے حیاء فرماتا ہے۔
قرآن حکیم میں توبہ و استغفار کرنے والوں پر عذابِ الٰہی کے واقع نہ ہونے کی مثال سورہ یونس میں بیان کی گئی ہے۔ جب نزولِ عذابِ الٰہی کی نشانیاں دیکھ کر وہ قوم توبہ کرتے ہوئے ایمان لے آئی تو رسوائی کا عذاب اُن پر سے دور کردیا گیا۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَلَوْلَا کَانَتْ قَرْیَةٌ اٰمَنَتْ فَنَفَعَهَآ اِیْمَانُهَآ اِلاَّ قَوْمَ یُوْنُسَ ط لَمَّآ اٰمَنُوْا کَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْیِ فِی الْحَیٰـوةِ الدُّنْیَا وَمَتَّعْنٰهُمْ اِلٰی حِیْنٍo
یونس، 10: 98
پھر قومِ یونس (کی بستی) کے سوا کوئی اور ایسی بستی کیوں نہ ہوئی جو ایمان لائی ہو اور اسے اس کے ایمان لانے نے فائدہ دیا ہو۔ جب (قومِ یونس کے لوگ نزولِ عذاب سے قبل صرف اس کی نشانی دیکھ کر) ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے دنیوی زندگی میں (ہی) رسوائی کا عذاب دور کردیا اور ہم نے انہیں ایک مدت تک منافع سے بہرہ مند رکھا۔
مختلف احادیثِ مبارکہ اِس امر پر شاہد ہیں کہ خوفِ الٰہی سے توبہ و استغفار کرتے وقت گنہگاروں کی آنکھوں سے برسنے والے آنسو جہاں اس دنیا میں اللہ کے عذاب کو واقع ہونے سے روک لیتے ہیں وہاں حشر میں یہی آنسو دوزخ کی بھڑکتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کر دیں گے۔
حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ یَخْرُجُ مِنْ عَیْنَیْهِ دُمُوْعٌ وَإِنْ کَانَ مِثْلَ رَأْسِ الذُّبَابِ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ ثُمَّ تُصِیْبُ شَیْئًا مِنْ حُرِّ وَجْهِهِ إِلَّا حَرَّمَهُ اللهُ عَلَی النَّارِ.
جس مسلمان کی آنکھ سے مکھی کے سر کے برابر خوفِ خداوندی کی وجہ سے آنسو بہہ کر اس کے چہرے پر آ گریں گے، اللہ تعالیٰ اس پر دوزخ کو حرام فرما دے گا۔
حضرت ہیثم بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے لوگوں سے خطاب فرمایا تو خطاب کے دوران آپ ﷺ کے سامنے بیٹھا ہوا ایک شخص رو پڑا۔ اس پر حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
لَوْ شَھِدَکُمُ الْیَوْمَ کُلُّ مُؤْمِنٍ عَلَیْهِ مِنَ الذُّنُوْبِ کَأَمْثَالِ الْجِبَالِ الرَّوَاسِي لَغُفِرَ لَھُمْ بِبُکَائِ هَذَا الرَّجُلِ وَذَلِکَ أَنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَبْکِي وَتَدْعُوْ لَهُ وَتَقُوْلُ: اَللَّھُمَّ شَفِّعِ الْبَکَّائِیْنَ فِیْمَنْ لَمْ یَبْکِ.
اگر آج تمہارے درمیان وہ تمام مومن موجود ہوتے جن کے گناہ پہاڑوں کے برابر ہیں تو انہیں اس ایک شخص کے رونے کی وجہ سے بخش دیا جاتا اور یہ اس وجہ سے ہے کہ فرشتے بھی اس کے ساتھ رو رہے تھے اور دعا کر رہے تھے: اے اللہ! نہ رونے والوں کے حق میں رونے والوں کی شفاعت قبول فرما۔
حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ
قَالَ رَجُلٌ: یَا رَسُوْلَ اللهِ، بِمَ أَتَّقِي النَّارَ؟ قَالَ: بِدُمُوْعِ عَیْنَیْکَ فَإِنَّ عَیْنًا بَکَتْ مِنْ خَشْیَةِ اللهِ لَا تَمَسُّهَا النَّارُ أَبَدًا.
ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں دوزخ سے کیسے بچ سکتا ہوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اپنی آنکھوں کے آنسوؤں کے ذریعے۔ جو آنکھ اللہ تعالیٰ کے خوف سے رو پڑی اسے کبھی (دوزخ کی) آگ نہیں چھوئے گی۔
اللہ تبارک و تعالیٰ کی بخشش ہر شے پر وسیع ہے یعنی ہر توبہ کرنے والے کی توبہ قبول کرنا اس نے اپنے ذمۂِ کرم پر لے رکھا ہے۔ در حقیقت قبولِ توبہ کے لئے یہ بخشش کا اعلانِ عام ہے۔ چنانچہ سورہ نجم میں فرمایا:
اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ.
النجم، 53: 32
بے شک آپ کا رب بخشش کی بڑی گنجائش رکھنے والا ہے۔
اسی طرح سورہ اعراف میں اپنی رحمت کی وسعت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:
وَرَحْمَتِیْ وَسِعَتْ کُلَّ شَیْئٍ.
الأعراف، 7: 156
اور میری رحمت ہر چیز پر وسعت رکھتی ہے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اتنی شفقت و رحمت کا ذکر اس لئے فرمایا ہے تاکہ اس کے گناہگار بندے اس کی رحمت کے ذکر سے حوصلہ پا کر بخشش و مغفرت کی طلب لے کر اس کی بارگاہ میں حاضر ہوں۔ درج ذیل آیت مبارکہ میں طلبِ معافی کے عمل کو مزید کھول کر بیان کیا گیاہے۔
ارشاد رب العزت ہے:
وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللهَ یَجِدِ اللهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo
النساء، 4: 110
اور جو کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش طلب کرے وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا نہایت مہربان پائے گا۔
یہ آیت اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے گنہگار بندوں کے لئے عظیم بشارت ہے جو زبان حال سے پکار رہی ہے کہ اے بندے! اگرچہ تو گناہوں میں لت پت ہی کیوں نہ ہو جس وقت بھی ندامت اور شرمندگی کے آنسو بہائے گا، تجھے گناہوں سے پاک کر دیا جائے گا۔ معافی مانگنے والا گنہگار بندہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو ہمیشہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا پائے گا۔ حضور سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا أَصَرَّ مَنِ اسْتَغْفَرَ، وَلَوْ فَعَلَهٗ فِي الْیَوْمِ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً.
ترمذی، السنن، کتاب الدعوات، باب في الدعاء النبی، 5: 558، رقم: 3559
جو شخص استغفار کرتا ہے وہ گناہ پر اصرار کرنے والا نہیں ہوتا اگرچہ دن میں ستر بار گناہ کرے۔
یہاں اس سے مراد دل سے بخشش طلب کرنا ہے۔ جو توبہ طلب کرتا ہے وہ بھی جانتا ہے کہ وہ اپنی طلب میں کتنا مخلص ہے اور رب تعالیٰ تو جانتا ہی ہے۔ وہ تو عالم الغیب ہے۔ اتنی رخصت کے باوجود بھی اگر بندہ معافی کا طلب گار نہ ہو تو اسے سوائے بدبختی کے کیا کہا جائے گا۔
توبہ و استغفار کے فوائد کو حشر تک ہی محدود نہیں رکھا گیا یعنی توبہ کا عمل صرف طلب بخشش پر ہی موقوف نہیں، بلکہ یہ اس دنیوی زندگی میں بھی رنج و آلام سے نجات اور عافیت کے نزول کا باعث ہے۔
حضور نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
مَنْ لَزِمَ الْاِسْتِغْفَارَ، جَعَلَ اللهُ لَهُ مِنْ کُلِّ ضِیْقٍ مَخْرَجًا، وَمِنْ کُلِّ هَمٍّ فَرَجًا، وَرَزَقَهٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ.
ابوداود، السنن، کتاب الصلاۃ، باب في الاستغفار، 2: 85، رقم: 1518
جو شخص استغفار کو لازم کر لے اللہ تعالیٰ اُسے ہر تنگی سے فراخی عطا فرمائے گا، ہر قسم کے رنج سے خلاصی عطا فرمائے گا اور ایسے ذریعہ سے رزق عطا فرمائے گا جہاں سے اُس کو گمان بھی نہ ہو۔
اس حدیثِ مقدسہ کے ذریعے حضور نبی اکرم ﷺ نے اپنے امتیوں کو عظیم خوش خبری سنائی ہے کہ جو شخص اللہ کے حضور توبہ و استغفار کو لازم کرلے اس کی زندگی میں ایسی کوئی تنگی نہیں آئے گی جس سے اللہ تعالیٰ اسے نکال نہ دے۔ تنگی فراخی میں بدل جائے گی اور کوئی ایسا رنج و الم نہیں رہے گا جس سے اللہ تعالیٰ سے نکال نہ دے۔ توبہ و استغفار رزق میں فراخی کا باعث بھی ہے۔ وہ پردۂ غیب سے اس کی ایسی مدد فرمائے گا جس کا اسے گمان بھی نہیں ہو گا۔
صاحبِ قُوت القلوب حضرت شیخ ابو طالب المکی نے اہل یقین کے مقاماتِ یقین بیان کرتے ہوئے توبہ کو سرفہرست رکھا ہے کیونکہ طریقت کی راہ کا یہ پہلا قدم ہے۔ بعض عارفوں نے اسے باب الابواب کا درجہ دیا ہے کیونکہ تمام دروازے اس دروازہ کے کھلنے کے بعد کھلتے ہیں۔ توبہ کے بغیر طریقت جو اللہ تعالیٰ سے ملنے کی راہ ہے، کا تصور کرنا بھی ممکن نہیں۔ چنانچہ اگر کہا جائے کہ توبہ ہر روحانی مقام کی کنجی ہے تو بے جا نہ ہو گا۔ تاہم جیسے جیسے راہ طریقت میں سالک کے مراتب بلند ہوتے جاتے ہیں توبہ کی نوعیت بھی اسی اعتبار سے بدلتی جاتی ہے۔ کوئی عارف کتنے ہی بلند مقام کا حامل کیوں نہ ہو جائے توبہ کے عمل سے کبھی بے نیاز نہیں ہوسکتا۔
عالمِ خلق میں بلند ترین مقام جنابِ رسالت مآب ﷺ کا ہے۔ خود محبوبِ رب العالمین ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا أَصْبَحْتُ غَدَاۃً قَطُّ إِلَّا اسْتَغْفَرْتُ اللهَ فِیْھَا مِائَۃَ مَرَّۃٍ.
کوئی صبح طلوع نہیں ہوتی مگر میں اس میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔
جب سرکار دو عالم ﷺ نے خود کو توبہ مانگنے کے عمل سے مستثنیٰ نہیں رکھا تو کوئی امتی خواہ تقویٰ اور پرہیزگاری کے کتنے ہی بلند مقام کا حامل کیوں نہ ہو، کیسے توبہ کے عمل سے بے نیاز رہ سکتا ہے۔
توبہ و استغفار کی اہمیت درج ذیل حدیث مبارکہ سے واضح ہوتی ہے جسے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے اس میں حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهٗ.
گناہ سے(سچی) توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔
تاریخِ اسلام کے اوراق اللہ تعالیٰ کے ایسے محبوب بندوں سے معمور ہیں جن کی سابقہ زندگیاں گناہوں اور فسق و فجور کے باعث کسی ذکر کے قابل نہ تھیں لیکن سچی توبہ نے انہیں ایسے مقام پر فائز کر دیا کہ وہ نہ صرف مذکورہ بالا حدیث کے مصداق ہو گئے بلکہ محبوبیت کے ایسے مقام پر فائز کر دیئے گئے کہ مخلوقِ خدا ان کے قدموں کا بوسہ اپنے لئے سعادت کا باعث خیال کرتی ہے۔ حضرت فضیل بن عیاض، حضرت مالک بن دینار، حضرت بشر حافی اور حضرت حبیب عجمی وغیرہ وہ پاک ہستیاں ہیں جو تائب ہو کر اللہ کی محبوب قرار پائیں اور توبہ سے قبل ان سے منسوب گناہ کے لفظ تک کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا گیا۔
اللہ تعالیٰ کی اپنے گنہگار بندوں پر نوازشات کے احوال سے اگر ذہن میں کوئی سوال آئے تو یاد رہے کہ سرکار دو عالم پہلے ہی اس حقیقت سے پردہ اٹھا چکے ہیں جب آپ ﷺ نے فرمایا:
کُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ.
ہر انسان خطاکار ہے اور بہترین خطا کار، توبہ کرنے والے ہیں۔
اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ اصلاً کوئی شخص بھی گناہوں سے پاک نہیں ہے اوریہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُسے نیک اعمال کے باعث دوزخ سے مامون کر دیا گیا ہے۔ چنانچہ جب تمام بنی آدم اپنی جبِلّی اور بشری کمزوریوں کے باعث خطا کار ٹھہرے تو اب جو جس قدر اللہ تبارک و تعالیٰ کی بارگاہ میں صمیمِ قلب سے تائب ہوا وہ اُسی قدر اللہ رب العزت کی نوازشات و عنایات کا مستحق ٹھہرا۔
اس قدر رحیم و کریم رب سے بندہ اگر اپنے گناہوں کی بخشش طلب نہ کرے تو یہ یقینا اس کی بدبختی اور شقاوت ہو گی۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کے اس رویے کو ظلم سے تعبیر فرمایا ہے۔ ارشاد رب العزت ہے:
وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓـئِکَ هُمُ الظّٰلِمُوْنَo
الحجرات، 49: 11
اور جس نے توبہ نہیں کی سو وہی لوگ ظالم ہیں۔
توبہ کی اہمیت و فضیلت کے باب میں اس آیت مبارکہ کا مضمون عجیب شان کا حامل ہے۔ بظاہر تو گناہ کا ارتکاب کرنے والا ہی گنہگار کہلاتا ہے کیونکہ وہی اپنی جان پر ظلم کرنے والا ہوتا ہے لیکن رب ذو الجلال گناہ کرنے والے بندے کو یہ موقعہ بہم پہنچاتا ہے کہ وہ اپنے کئے ہوئے گناہ سے توبہ کر لے۔ گویا مالک فرد جرم عائد کرنے سے پہلے منتظر رہتا ہے کہ کب بندہ اس کے حضور توبہ کے لئے رجوع کرتا ہے۔ جب باوجود اِس مہلت کے اس بندے نے اللہ رب العزت کے حضور رجوع نہیں کیا تب وہ اسے گنہگار قرار دیتا ہے۔ چنانچہ گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعد توبہ نہ کرنا ہی اصل اور قابلِ گرفت گناہ ہے۔
ایک دوسرے پہلو سے غور کیا جائے تو ارتکابِ گناہ پر توبہ نہ کرنا دراصل گناہ پر اصرار کا معنیٰ دیتا ہے۔ توبہ کا معنیٰ اپنے گناہ پر ندامت محسوس کرکے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرنا ہے۔ جب بندہ گناہ سرزد ہو جانے کے بعد بھی اپنے دل میں کوئی احساس ندامت یا شرمندگی کا بوجھ محسوس نہیں کرتا تو وہ اپنے فعلِ بد کو ناقابلِ گرفت سمجھتے ہوئے اس پر اصرار کا مرتکب ہوتا ہے۔ چنانچہ اس کا توبہ نہ کرنا ہی دراصل اس کے گنہگار قرار دئیے جانے کا سبب ہے۔
حضرت شیخ ابو طالب مکی قُوت القلوب میں توبہ کے باب میں کسی بزرگ کا قول نقل کرتے ہیں:
أَنَا مِنْ أَنْ أُحْرَمَ التَّوْبَۃَ أَخْوَفُ مِنِّي مِنْ أَنْ أُحْرَمَ الْمَغْفِرَۃَ.
ابو طالب مکی، قوت القلوب، 1: 369
میں توبہ سے محروم ہونے کو مغفرت سے محروم ہونے کے مقابلہ میں زیادہ خطرناک سمجھتا ہوں۔
بلاشبہ توبہ سے محرومی بدبختی کی علامت ہے کہ انسان سے اس کے برے اعمال کے باعث احساسِ ندامت و شرمندگی ہی کو سلب کر لیا جائے جو توبہ کا بنیادی سبب ہے۔ جب احساسِ ندامت ختم ہو جاتا ہے تو پھر توبہ کی توفیق بھی نہیں رہتی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَo
الحجرات، 49: 2
(ایسا نہ ہو) کہ تمہارے سارے اعمال ہی (ایمان سمیت) غارت ہوجائیں اور تمہیں (ایمان اور اعمال کے برباد ہوجانے کا) شعور تک بھی نہ ہو۔
قرآن مجید کی مذکورہ آیات اور احادیث مبارکہ سے توبہ کی اہمیت و فضیلت واضح ہوتی ہے، توبہ کا وجوب ثابت ہوتا ہے اور ہر حال میں اللہ رب العزت کے سامنے اپنے گناہوں پر نادم ہونے اور معافی کے خواستگار بنے رہنے کی تلقین کرتی ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved