توبہ، تَابَ سے مشتق ہے۔ اس کے لغوی معنیٰ ’اِعترافِ گناہ، ندامت، رجوع، لوٹ آنا، باز آجانا، گناہ سے روگردانی کرتے ہوئے الله تعالیٰ کی طرف متوجہ ہونا‘ ہے۔ توبہ کرنے والا تائب کہلاتا ہے۔ اسی سے توّاب ہے جو اللہ تعالیٰ کی عظیم صفت ہے جس کے معانی ہیں: بہت توبہ قبول کرنے والا، توبہ کی توفیق دینے والا، کسی کے گناہ معاف کرکے اسے اپنے فضل و کرم سے نوازنے والا۔
امام قشیری اپنی تصنیف الرسالۃ میں توبہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَحَقِیْقَۃُ التَّوْبَۃِ فِي لُغَۃِ الْعَرْبِ: الرُّجُوْعُ، یُقَالُ: تَابَ أَيْ رَجَعَ، فَالتَّوْبَۃُ: الرُّجُوْعُ عَمَّا کَانَ مَذْمُوْمًا فِي الشَّرْعِ إِلٰی مَا ھُوَ مَحْمُوْدٌ فِیْهِ.
قشیری، الرسالۃ: 91
عربی لغت میں توبہ کے معنیٰ رجوع کرنے کے ہیں۔ جب کوئی شخص کسی بات کی طرف رجوع کرتا ہے توکہتے ہیں: تَابَ، لهٰذا توبہ کے معانی یہ ہوئے کہ شریعت میں جو کچھ مذموم ہے بندہ اُس سے لوٹ کر قابلِ تعریف شے کی طرف آجائے۔
حضرت سید علی بن عثمان الہجویری لکھتے ہیں:
توبہ اندر لغت بہ معنی رجوع باشد۔ چناں کہ گوید: تاب، أي: رجع۔ پس باز گشتن از نھی خداوند تعالیٰ بد آں چہ خوب است از امر خداوند تعالیٰ حقیقت توبہ بود۔
علی هجویری، کشف المحجوب: 428
لغت میں توبہ کا معنی رجوع ہے۔ جیسے کہتے ہیں: تَابَ أيْ رَجَعَ (اس نے توبہ کی یعنی رجوع کیا) لهٰذا امر الٰہی کے خوف کی وجہ سے اس کی منع کی ہوئی چیزوں سے باز رہنا ہی اصل توبہ ہے۔
حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی توبہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَحَقِیْقَۃُ التَّوْبَۃِ فِي اللُّغَۃِ: الرُّجُوْعُ، یُقَالُ: تَابَ فُلَانٌ مِنْ کَذَا: أَيْ رَجَعَ عَنْهُ، فَالتَّوْبَۃُ هِيَ الرُّجُوْعُ عَمَّا کَانَ مَذْمُوْمًا فِي الشَّرْعِ إِلٰی مَا ھُوَ مَحْمُوْدٌ فِي الشَّرْعِ.
عبد القادر جیلانی، الغنیۃ، 1: 228
لغتِ عرب میں توبہ رجوع کرنے کو کہتے ہیں۔ کہا جاتا ہے: فلاں شخص نے اس بات سے توبہ کی یعنی اس نے اس سے رجوع کیا۔ لهٰذا ایسی چیز سے جو شرعاً مذموم ہے ایسی چیز کی طرف جو شریعت میں محمود ہے، رجوع کرنے کو توبہ کہتے ہیں۔
توبہ کی تعریف کے بارے میں جملہ اکابرین اُمت کی آراء کو دیکھا جائے تو سب نے حضور نبی اکرم ﷺ کے قول کو ہی توبہ کی جامع ترین تعریف قرار دیا ہے جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
النَّدَمُ تَوْبَۃٌ.
ابن ماجہ، السنن، کتاب الزھد، باب ذکر التوبۃ، 2: 1420، رقم: 4252
ندامت ہی توبہ ہے۔
چنانچہ جب بندہ اپنے کئے پر نادم ہو کر قلب میں گناہوں سے باز رہنے کے مصمم عزم و ارادہ کے ساتھ الله تعالیٰ کے حضور متوجہ ہو تو اسے توبہ کہتے ہیں۔ یہ طریقت کی راہ میں پہلا قدم ہے۔ جس طرح عبادت گزاروں کے لئے پہلا قدم طہارت ہے اور کوئی انسان طہارت کے بغیر داخل عبادت نہیں ہو سکتا اسی طرح راهِ حق کے مسافروں کے لئے سب سے پہلا قدم توبہ ہے۔ اس کے بغیر سفرِ طریقت کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ توبہ کو باب الابواب بھی کہتے ہیں کیونکہ طریقت کے جملہ دروازے اسی دروازہ سے کھلتے ہیں۔
انسانی خمیر میں نیکی کے ساتھ بدی نہایت مضبوطی سے پیوست ہے۔ انسانی جوہر سے برائی کے عنصر کو الگ کئے بغیر اس سفر کا آغاز نہیں کیا جا سکتا۔ توبہ کا عمل اس برائی کو نیکی سے علیحدہ کر دینے بلکہ برائی سے پاک کر دینے سے عبارت ہے۔ اس حوالے سے دیکھا جائے تو حق تعالیٰ کی معرفت و قربت کی سمت یہ پہلی گھاٹی ہے تاکہ آغاز سفر ہی میں برائی سے یکسر پاک قلب میسر آئے۔ توبہ کی بنیادی شرط ایسی ندامت اور پشیمانی ہے جو حق تعالیٰ کی عظمت و جبروت سے پیدا ہو، جس کے تحت بندہ تمام شہوات سے منہ موڑ کر حق تعالیٰ کی طرف لوٹ آئے اور اُخروی سعادت و دائمی کامرانی حاصل کر سکے۔
انسانی زندگی میں توبہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود الله تبارک وتعالیٰ نے قرآن حکیم میں بہت سے مقامات پر بندوں کو توبہ کی تلقین فرمائی ہے۔ گنہگاروں کو مایوسی سے بچانے کے لئے خود اعلان فرمایا ہے کہ میری رحمت ہر شے پر غالب ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ الله رب العزت نے عصات (خطاکاروں)سے اپنی پہچان ہی ’’توّاب‘‘ کے طور پر کروائی ہے بشرطیکہ وہ صدقِ دل سے اپنے گناہوں سے کنارہ کشی کرتے ہوئے دستِ سوال دراز کریں۔
1۔ حضرت آدم علیہ السلام کو جب جنت سے نکالا گیا تو انہوں نے اپنے رب کے سکھائے ہوئے الفاظ میں توبہ کی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی توبہ قبول فرمائی۔ جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:
فَتَلَقّٰیٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِط اِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُo
البقرۃ، 2: 37
پھر آدم ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے (عاجزی اور معافی کے) چند کلمات سیکھ لیے پس اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی، بے شک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر توبہ کرنے کا حکم دیا ہے اور اپنی پہچان خوب توبہ قبول کرنے والے کے طور پر کرائی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
2۔ اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْهُدٰی مِنْم بَعْدِ مَا بَیَّـنّٰهُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ لا اُولٰٓـئِکَ یَلْعَنُهُمُ اللهُ وَیَلْعَنُهُمُ اللّٰعِنُوْنَo اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَبَیَّنُوْا فَاُولٰٓـئِکَ اَتُوْبُ عَلَیْهِمْ ج وَاَنَا التَّوَّابُ الرَّحِیْمُo
البقرة، 2: 159-160
بے شک جو لوگ ہماری نازل کردہ کھلی نشانیوں اور ہدایت کو چھپاتے ہیں اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے (اپنی) کتاب میں واضح کردیا ہے تو انہی لوگوں پر الله لعنت بھیجتا ہے (یعنی انہیں اپنی رحمت سے دور کرتا ہے) اور لعنت بھیجنے والے بھی ان پر لعنت بھیجتے ہیں۔ مگر جو لوگ توبہ کر لیں اور (اپنی) اصلاح کر لیں اور (حق کو) ظاہر کر دیں تو میں (بھی) انہیں معاف فرما دوں گا، اور میں بڑا ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہوں۔
3۔ اِنَّ اللهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِرِیْنَo
البقرۃ، 2: 222
بے شک الله بہت توبہ کرنیوالوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہےo
4۔ قُلْ اَؤُنَبِّئُکُمْ بِخَیْرٍ مِّنْ ذٰلِکُمْ لِلَّذِیْنَ اتَّقَوْا عِنْدَ رَبِّهِمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰـرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا وَاَزْوَاجٌ مُّطَهَرَۃٌ وَّرِضْوَانٌ مِّنَ اللهِ ط وَاللهُ بَصِیْرٌم بِالْعِبَادِo اَلَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اِنَّنَآ اٰمَنَّا فَاغْفِرْلَنَا ذُنُوْبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِo اَلصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰدِقِیْنَ وَ الْقٰنِتِیْنَ وَ الْمُنْفِقِیْنَ وَ الْمُسْتَغْفِرِیْنَ بِالْاَسْحَارِo
آل عمران، 3: 15-17
(اے حبیب!) آپ فرما دیں: کیا میں تمہیں ان سب سے بہترین چیز کی خبر دوں؟ (ہاں) پرہیزگاروں کے لیے ان کے رب کے پاس (ایسی) جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے (ان کے لیے) پاکیزہ بیویاں ہوں گی اور (سب سے بڑی بات یہ کہ) الله کی طرف سے خوشنودی نصیب ہوگی، اور الله بندوں کو خوب دیکھنے والا ہےo (یہ وہ لوگ ہیں) جو کہتے ہیں: اے ہمارے رب! ہم یقینا ایمان لے آئے ہیں سو ہمارے گناہ معاف فرما دے اور ہمیں دوزخ کے عذاب سے بچا لے۔ (یہ لوگ) صبر کرنے والے ہیں اور قول و عمل میں سچائی والے ہیں اور ادب و اطاعت میں جھکنے والے ہیں اور الله کی راہ میں خرچ کرنے والے ہیں اور رات کے پچھلے پہر (اٹھ کر) الله سے معافی مانگنے والے ہیں۔
5۔ وَالَّذِیْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَۃً اَوْ ظَلَمُوْٓا اَنْفُسَهُمْ ذَکَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ قف وَمَنْ یَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللهُ قف وَلَمْ یُصِرُّوْا عَلٰی مَا فَعَلُوْا وَهُمْ یَعْلَمُوْنَo
آل عمران، 3: 135
اور (یہ) ایسے لوگ ہیں کہ جب کوئی برائی کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو اللہ کا ذکر کرتے ہیں پھر اپنے گناہوں کی معافی مانگتے ہیں، اور اللہ کے سوا گناہوں کی بخشش کون کرتا ہے، اور پھر جو گناہ وہ کر بیٹھے تھے ان پر جان بوجھ کر اصرار بھی نہیں کرتے۔
6۔ اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللهِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَهَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ فَاُولٰٓـئِکَ یَتُوْبُ اللهُ عَلَیْهِمْ ط وَکَانَ اللهُ عَلِیْمًا حَکِیْمًاo وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ ج حَتّٰی اِذَا حَضَرَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ وَلَاالَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَهُمْ کُفَّارٌ ط اُولٰئِٓکَ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَاباً اَلِیْماًo
النساء، 4: 17-18
اللہ نے صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے جو نادانی کے باعث برائی کر بیٹھیں پھر جلد ہی توبہ کر لیں پس اللہ ایسے لوگوں پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرمائے گا، اور اللہ بڑے علم بڑی حکمت والا ہے۔ اور ایسے لوگوں کے لیے توبہ (کی قبولیت) نہیں ہے جو گناہ کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ ان میں سے کسی کے سامنے موت آ پہنچے تو (اس وقت) کہے کہ میں اب توبہ کرتا ہوں اور نہ ہی ایسے لوگوں کے لیے ہے جو کفر کی حالت پر مریں، ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
7۔ وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللهِ ط وَلَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآئُوْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللهَ وَاسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًاo
النساء، 4: 64
اور ہم نے کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے اور (اے حبیب!) اگر وہ لوگ جب اپنی جانوں پر ظلم کر بیٹھے تھے آپ کی خدمت میں حاضر ہو جاتے اوراللہ سے معافی مانگتے اور رسول (ﷺ) بھی ان کے لیے مغفرت طلب کرتے تو وہ (اس وسیلہ اور شفاعت کی بنا پر) ضرور اللہ کو توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان پاتے۔
8۔ وَمَنْ یَّعْمَلْ سُوْٓئًا اَوْ یَظْلِمْ نَفْسَهٗ ثُمَّ یَسْتَغْفِرِ اللهَ یَجِدِ اللهَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo
النساء، 4: 110
اور جو کوئی برا کام کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے پھر اللہ سے بخشش طلب کرے وہ اللہ کو بڑا بخشنے والا نہایت مہربان پائے گا۔
9۔ اِنَّ الْمُنٰـفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ ج وَلَنْ تَجِدَ لَهُمْ نَصِیْرًاo اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا وَاَصْلَحُوْا وَاعْتَصَمُوْا بِاللهِ وَاَخْلَصُوْا دِیْنَهُمْ ِللهِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الْمُؤْمِنِیْنَ ط وَسَوْفَ یُؤْتِ اللهُ الْمُؤْمِنِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًاo مَا یَفْعَلُ اللهُ بِعَذَابِکُمْ اِنْ شَکَرْتُمْ وَاٰمَنْتُمْ ط وَکَانَ اللهُ شَاکِرًا عَلِیْمًاo
النساء، 4: 145-147
بے شک منافق لوگ دوزخ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے اور آپ ان کے لیے ہرگز کوئی مددگار نہ پائیں گے۔ مگر وہ لوگ جنہوں نے توبہ کر لی وہ سنور گئے اورانہوں نے اللہ سے مضبوط تعلق جوڑ لیا اور انہوں نے اپنا دین اللہ کے لیے خالص کر لیا تو یہ مومنوں کی سنگت میں ہوں گے اور عنقریب اللہ مومنوں کو عظیم اجر عطا فرمائے گا۔ اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا اگر تم شکر گزار بن جاؤ اور ایمان لے آؤ، اور اللہ (ہر حق کا) قدرشناس ہے (ہر عمل کا) خوب جاننے والا ہے۔
10۔ اِنَّمَا جَزٰٓؤُا الَّذِیْنَ یُحَارِبُوْنَ اللهَ وَرَسُوْلَهٗ وَیَسْعَوْنَ فِی الْاَرْضِ فَسَادًا اَنْ یُّقَتَّلُوْٓا اَوْ یُصَلَّبُوْٓا اَوْ تُقَطَّعَ اَیْدِیْھِمْ وَاَرْجُلُھُمْ مِّنْ خِلَافٍ اَوْ یُنْفَوْا مِنَ الاَرْضِ ط ذٰلِکَ لَھُمْ خِزْیٌ فِی الدُّنْیَا وَلَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌo اِلَّا الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ قَبْلِ اَنْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھِمْ ج فَاعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
المائدۃ، 5: 33-34
بے شک جو لوگ الله اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد انگیزی کرتے پھرتے ہیں (یعنی مسلمانوں میں خوں ریزی، رہزنی، ڈاکہ زنی، دہشت گردی اور قتلِ عام کے مرتکب ہوتے ہیں) ان کی سزا یہی ہے کہ وہ قتل کیے جائیں یا پھانسی دیے جائیں یا ان کے ہاتھ اور ان کے پاؤں مخالف سمتوں سے کاٹے جائیں یا (وطن کی) زمین (میں چلنے پھرنے) سے دور (یعنی ملک بدر یاقید) کر دیے جائیں۔ یہ (تو) ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور ان کے لیے آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے۔ مگر جن لوگوں نے، قبل اس کے کہ تم ان پر قابو پا جاؤ، توبہ کرلی سو جان لو کہ الله بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
11۔ فَمَنْ تَابَ مِنْم بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ ط اِنَّ اللهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
المائدۃ، 5: 39
پھر جو شخص اپنے (اس) ظلم کے بعد توبہ اور اصلاح کرلے تو بے شک الله اس پر رحمت کے ساتھ رجوع فرمانے والا ہے۔ یقینا الله بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
12۔ لَقَدْ کَفَرَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللهَ ثَالِثُ ثَلٰـثَۃٍ وَمَا مِنْ اِلٰہٍ اِلَّآ اِلٰـہٌ وَّاحِدٌ ط وَاِنْ لَّمْ یَنْتَهُوْا عَمَّا یَقُوْلُوْنَ لَیَمَسَّنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌo اَفَـلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَی اللهِ وَیَسْتَغْفِرُوْنَهٗ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
المائدۃ، 5: 73-74
بے شک ایسے لوگ (بھی) کافر ہو گئے ہیں جنہوں نے کہا کہ اللہ تین (معبودوں) میں سے تیسرا ہے، حالاں کہ معبودِ یکتا کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور اگروہ ان (بیہودہ باتوں) سے جو وہ کہہ رہے ہیں بازنہ آئے تو ان میں سے کافروں کو درد ناک عذاب ضرورپہنچے گا۔ کیا یہ لوگ اللہ کی بارگاہ میں رجوع نہیں کرتے اور اس سے مغفرت طلب (نہیں) کرتے، حالاں کہ الله بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
13۔ وَاِذَا جَآئَکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِهِ الرَّحْمَۃَ لا اَنَّهٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْٓئًام بِجَهَالِۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْم بَعْدِهٖ وَاَصْلَحَ فَاَنَّهٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
الأنعام، 6: 54
اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پرایمان رکھتے ہیں تو آپ (ان سے شفقتاً) فرمائیں کہ تم پر سلام ہو تمہارے رب نے اپنی ذات (کے ذمّہ کرم) پر رحمت لازم کرلی ہے۔ سو تم میں سے جو شخص نادانی سے کوئی برائی کر بیٹھے پھر اس کے بعد توبہ کرلے اور (اپنی) اصلاح کرلے تو بے شک وہ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
14۔ وَالَّذِیْنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوْا مِنْم بَعْدِهَا وَاٰمَنُوْٓا اِنَّ رَبَّکَ مِنْم بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
الأعراف، 7: 153
اور جن لوگوں نے برے کام کیے پھر اس کے بعد توبہ کرلی اور ایمان لے آئے (تو) بے شک آپ کا رب اس کے بعد بڑا ہی بخشنے والا مہربان ہے۔
15۔ وَمَا کَانَ اللهُ لِیُعَذِّبَهُمْ وَاَنْتَ فِیْهِمْ ط وَمَا کَانَ اللهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ یَسْتَغْفِرُوْنَo
الأنفال، 8: 33
اور (درحقیقت بات یہ ہے کہ) اللہ کی یہ شان نہیں کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیبِ مکرّم!) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں، اور نہ ہی اللہ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ (اس سے) مغفرت طلب کر رہے ہوں۔
16۔ اَلَمْ یَعْلَمُوْٓا اَنَّ اللهَ هُوَ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِهٖ وَیَاْخُذُ الصَّدَقٰتِ وَاَنَّ اللهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُo
التوبۃ، 9: 104
کیا وہ نہیں جانتے کہ بے شک الله ہی تو اپنے بندوں سے (ان کی) توبہ قبول فرماتا ہے اور صدقات (یعنی زکوٰۃ و خیرات اپنے دستِ قدرت سے) وصول فرماتا ہے اور یہ کہ الله ہی بڑا توبہ قبول فرمانے والا نہایت مہربان ہے؟۔
17۔ اَلتَّـآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللهِ ط وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَo
التوبۃ، 9: 112
(یہ مومنین جنہوں نے اللہ سے اُخروی سودا کر لیا ہے) توبہ کرنے والے، عبادت گذار، (اللہ کی) حمد و ثنا کرنے والے، دنیوی لذتوںسے کنارہ کش روزہ دار، (خشوع و خضوع سے) رکوع کرنے والے، (قرب الٰہی کی خاطر) سجود کرنے والے، نیکی کاحکم کرنے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی (مقرر کردہ) حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور ان اہلِ ایمان کو خوشخبری سنا دیجیے۔
18۔ وَاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْهِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ ط وَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍo
ھود، 11: 3
اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر تم اس کے حضور (صدق دل سے) توبہ کرو وہ تمہیں وقت معین تک اچھی متاع سے لطف اندوز رکھے گا اور ہر فضیلت والے کو اس کی فضیلت کی جزا دے گا (یعنی اس کے اعمال و ریاضت کی کثرت کے مطابق اجر و درجات عطا فرمائے گا)، اور اگر تم نے روگردانی کی، تو میں تم پر بڑے دن کے عذاب کا خوف رکھتا ہوں۔
19۔ وَ یٰــقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْهِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَo
ھود، 11: 52
اور اے لوگو! تم اپنے رب سے (گناہوں کی) بخشش مانگو پھر اس کی جناب میں (صدقِ دل سے) رجوع کرو، وہ تم پر آسمان سے موسلادھار بارش بھیجے گا اور تمہاری قوت پر قوت بڑھائے گا اور تم مجرم بنتے ہوئے اس سے روگردانی نہ کرنا!۔
20۔ ثُمَّ اِنَّ رَبَّکَ لِلَّذِیْنَ عَمِلُوا السُّوْٓءَ بِجَهَالَۃٍ ثُمَّ تَابُوْا مِنْم بَعْدِ ذٰلِکَ وَاَصْلَحُوْٓا لا اِنَّ رَبَّکَ مِنْم بَعْدِهَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
النحل، 16: 119
پھر بے شک آپ کا رب ان لوگوں کے لیے جنہوں نے نادانی سے غلطیاں کیں پھر اس کے بعد تائب ہوگئے اور (اپنی) حالت درست کر لی تو بے شک آپ کا رب اس کے بعد بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
21۔ رَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَا فِیْ نُفُوْسِکُمْ ط اِنْ تَکُوْنُوْا صٰلِحِیْنَ فَاِنَّهٗ کَانَ لِـلْاَوَّابِیْنَ غَفُوْرًاo
بني إسرائیل، 17: 25
تمہارا رب ان (باتوں) سے خوب آگاہ ہے جو تمہارے دلوں میں ہیں، اگر تم نیک سیرت ہو جاؤ تو بے شک وہ (الله اپنی طرف) رجوع کرنے والوں کو بہت بخشنے والا ہے۔
22۔ وَاِنِّیْ لَغَفَّارٌ لِّمَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ثُمَّ اهْتَدٰیo
طٰہ، 20: 82
اور بے شک میں بہت زیادہ بخشنے والا ہوں اس شخص کو جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا پھر ہدایت پر (قائم) رہا۔
23۔ وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَo
النور، 24: 31
اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جائو۔
24۔ وَ عِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًاo وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًاo وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ اِنَّ عَذَابَهَا کَانَ غَرَامًاo اِنَّهَا سَآئَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًاo وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًاo وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللهِ اِلٰـھًا اٰخَرَ وَلَا یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللهُ اِلاَّ بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُوْنَ ج وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًاo یُّضٰعَفْ لَهُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْهٖ مُهَانًاo اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓـئِکَ یُبَدِّلُ اللهُ سَیِّاٰ تِهِمْ حَسَنٰتٍ ط وَکَانَ اللهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّهٗ یَتُوْبُ اِلَی اللهِ مَتَابًاo
الفرقان، 25: 63-71
اور (خدائے) رحمان کے (مقبول) بندے وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب ان سے جاہل (اکھڑ) لوگ (ناپسندیدہ) بات کرتے ہیں تو وہ سلام کہتے (ہوئے الگ ہو جاتے) ہیں۔ اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اپنے رب کے لیے سجدہ ریزی اور قیامِ (نِیاز) میں راتیں بسر کرتے ہیں۔ اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو (ہمہ وقت حضورِ باری تعالیٰ میں) عرض گزار رہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! توہم سے دوزخ کا عذاب ہٹا لے بے شک اس کا عذاب بڑا مہلک (اور دائمی) ہے۔ بے شک وہ (عارضی ٹھہرنے والوں کے لیے) بُری قرار گاہ اور (دائمی رہنے والوں کے لیے) بُری قیام گاہ ہے۔ اور (یہ) وہ لوگ ہیں کہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کرتے ہیں اور ان کا خرچ کرنا (زیادتی اور کمی کی) ان دو حدوں کے درمیان اعتدال پر (مبنی) ہوتا ہے۔ اور (یہ) وہ لوگ ہیں جو اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی پوجا نہیں کرتے اور نہ (ہی) کسی ایسی جان کو قتل کرتے ہیں جسے بغیرِ حق مارنا اللہ نے حرام فرمایا ہے اور نہ (ہی) بدکاری کرتے ہیں اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ سزائے گناہ پائے گا۔ اس کے لیے قیامت کے دن عذاب دو گنا کر دیا جائے گا اور وہ اس میں ذلت و خواری کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔ مگر جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جن کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا، اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔ اور جس نے توبہ کر لی اور نیک عمل کیا تو اس نے اللہ کی طرف (وہ) رجوع کیا جو رجوع کا حق تھا۔
25۔ وَ یَوْمَ یُنَادِیْهِمْ فَیَقُوْلُ مَاذَآ اَجَبْتُمُ الْمُرْسَلِیْنَo فَعَمِیَتْ عَلَیْهِمُ الْاَنْبَاءُ یَوْمَئِذٍ فَهُمْ لَا یَتَسَآئَلُوْنَo فَاَمَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَعَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ مِنَ الْمُفْلِحِیْنَo
القصص، 28: 65-67
اور جس دن (اللہ) انہیں پکارے گا تو وہ فرمائے گا: تم نے پیغمبروں کو کیاجواب دیا تھا؟۔ تو ان پر اس دن خبریں پوشیدہ ہو جائیں گی سو وہ ایک دوسرے سے پوچھ (بھی) نہ سکیں گے۔ لیکن جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یقینا وہ فلاح پانے والوں میں سے ہوگا۔
26۔ قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللهِ ط اِنَّ اللهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا ط اِنَّهٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُo وَاَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَهٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَo
الزمر، 39: 53-54
آپ فرما دیجیے: اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر لی ہے، تم اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا، بے شک اللہ سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے، وہ یقینا بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے۔ اور تم اپنے رب کی طرف توبہ و انابت اختیار کرو اور اس کے اطاعت گزار بن جاؤ قبل اِس کے کہ تم پر عذاب آ جائے پھر تمہاری کوئی مدد نہیں کی جائے گی۔
27۔ وَهُوَ الَّذِیْ یَقْبَلُ التَّوْبَۃَ عَنْ عِبَادِهٖ وَیَعْفُوْا عَنِ السَّیِّاٰتِ وَیَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَo
الشوریٰ، 42: 25
اور وہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے اور لغزشوں سے درگزر فرماتا ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو (اسے) جانتا ہے۔
28۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللهِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا ط عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّکَفِّرَ عَنْکُمْ سَیِّاٰ تِکُمْ وَیُدْخِلَکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ یَوْمَ لَا یُخْزِی اللهُ النَّبِیَّ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ ج نُوْرُھُمْ یَسْعٰی بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَبِاَیْمَانِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا ج اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌo
التحریم، 66: 8
اے ایمان والو! تم اللہ کے حضور رجوعِ کامل سے خالص توبہ کرلو، یقین ہے کہ تمہارا رب تم سے تمہاری خطائیں دفع فرما دے گا اور تمہیں بہشتوں میں داخل فرمائے گا جن کے نیچے سے نہریں رواں ہیں جس دن اللہ (اپنے) نبی (ﷺ) کو اور اُن اہلِ ایمان کو جو اُن کی (ظاہری یا باطنی) معیّت میں ہیں رسوا نہیں کرے گا، اُن کا نور اُن کے آگے اور اُن کے دائیں طرف (روشنی دیتا ہوا) تیزی سے چل رہا ہوگا وہ عرض کرتے ہوں گے: اے ہمارے رب! ہمارا نور ہمارے لیے مکمل فرما دے اور ہماری مغفرت فرمادے، بے شک تو ہر چیز پر بڑا قادر ہے۔
29۔ اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَھُمْ عَذَابُ جَھَنَّمَ وَلَھُمْ عَذَابُ الْحَرِیْقِo
البروج، 85: 10
بے شک جن لوگوں نے مومن مردوں اور مومن عورتوں کو اذیت دی پھر توبہ (بھی) نہ کی تو ان کے لیے عذابِ جہنم ہے اور ان کے لیے (بالخصوص) آگ میں جلنے کا عذاب ہے۔
30۔ اِذَآ جَآءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُo وَ رَاَیْتَ النَّاسَ یَدْخُلُوْنَ فِیْ دِیْنِ اللهِ اَفْوَاجًاo فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْهُ ط اِنَّهٗ کَانَ تَوَّابًاo
النصر، 110: 1-3
جب الله کی مدد اور فتح آپہنچے۔ اور آپ لوگوں کو دیکھ لیں (کہ) وہ الله کے دین میں جوق در جوق داخل ہو رہے ہیں۔ تو آپ (تشکراً) اپنے رب کی حمد کے ساتھ تسبیح فرمائیں اور (تواضعاً) اس سے استغفار کریں، بے شک وہ بڑا ہی توبہ قبول فرمانے والا (اور مزید رحمت کے ساتھ رجوع فرمانے والا) ہے۔
جب شیطان نے جنت میں دائمی اور ملکوتی زندگی کے حصول کا فریب دے کر حضرت آدم اور حضرت حوا علیہما السلام کو ممنوعہ درخت کے پھل کھانے پر آمادہ کر لیا تو یوں نسل انسانی میںبھُول چُوک سے سرزد ہونے والی یہ پہلی خطا وجود میں آئی۔ اس پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے نہ صرف انہیں معافی مانگنے کے کلمات سکھائے بلکہ ان کی توبہ بھی قبول فرمائی۔ معافی مانگنے کے کلمات کا ذکر سورۃ الاعراف میں اس طرح درج ہے:
31۔ قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَـآ اَنْفُسَنَا وَاِنْ لَّمْ تَغْفِرْلَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَo
الأعراف، 7: 23
دونوں نے عرض کیا: اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر زیادتی کی۔ اور اگر تو نے ہم کو نہ بخشا اور ہم پر رحم (نہ) فرمایا تو ہم یقینا نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔
قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر انسانوں کو خلوص نیت سے توبہ کرنے اور آئندہ کے لئے اس پر ثابت قدم رہنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ ان میں سے چند منتخب آیات کا ذکر کیا گیا۔ ان آیاتِ مبارکہ کے مضامین اس قدر واضح ہیں کہ مزید تفصیل کے محتاج نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ انسان صمیمِ قلب سے اپنے کئے پر نادم ہو کر مولیٰ کریم کی طرف رجوع کرے۔ یہ ندامت دو پہلو رکھتی ہے کہ ایک طرف انسان اپنے گناہوں کے باعث شدید شرمسار اور شرمندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور تائب ہوتا ہے جبکہ دوسری جانب زندگی بھر اس گناہ سے باز رہنے کا عہد کرتا ہے اور گناہ پر اصرار نہیں کرتا۔ لیکن خالق حقیقی بندے کی اس بشری کمزوری سے آگاہ ہے کہ اس سے پھر گناہ کا صدور ممکن ہے اس لئے اس نے اپنی رحمت کا دامن بھی وسیع ترین کر رکھا ہے کہ بندہ اگر پہاڑوں جیسے گناہ بھی کرلے، صدقِ دل سے معافی مانگے اور اپنی اصلاح کر لے تو اللہ تعالیٰ اسے معاف فرما دے۔ یعنی بندوں کے معافی مانگنے پر ان کو معاف کر دینا اللہ رب العزت نے اپنے ذمۂ کرم پر لے رکھا ہے۔
اگر انسان قرآن حکیم کا مطالعہ کمال انہماک، توجہ، خلوص اور اس کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی نیت سے کرے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت کے ابواب اس پر کھلتے چلے جائیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر رب العزت کی رحمت ہر شے پر محیط نہ ہوتی تو یہ دنیا کب کی غضب الٰہی کا شکار ہو کر ہلاک ہو چکی ہوتی۔ ذاتِ حق تعالیٰ تو بخشنے کا بہانہ ڈھونڈتی ہے۔ یہ بخشنے کا بہانہ ہی تو ہے کہ جہاں لوگ معافی مانگتے ہوں وہاں اللہ کا عذاب نازل نہیں ہوتا۔ اور عظیم نعمت یہ ہے کہ قبولِ توبہ کے بعد اس کے گناہ، نیکیوں میں تبدیل کر دیئے جاتے ہیں۔ جیساکہ ارشاد فرمایا:
اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُولٰٓـئِکَ یُبَدِّلُ اللهُ سَیِّاٰ تِهِمْ حَسَنٰتٍ ط وَکَانَ اللهُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًاo
الفرقان، 25: 70
مگر جس نے توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیا تو یہ وہ لوگ ہیں کہ اللہ جن کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا، اور اللہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
توبہ کے درجہ میں بندہ جہاں اخروی نعمتوں سے سرفراز کیا جائے گا وہاں اللہ اسے دنیا میں بھی بہتر اسباب و ذرائع، طاقت اور غلبہ سے بہرہ مند فرمائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْهِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّیُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَهٗ.
ہود، 11: 3
اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر تم اس کے حضور (صدق دل سے) توبہ کرو وہ تمہیں وقت معین تک اچھی متاع سے لطف اندوز رکھے گا اور ہر فضیلت والے کو اس کی فضیلت کی جزا دے گا (یعنی اس کے اعمال و ریاضت کی کثرت کے مطابق اجر و درجات عطا فرمائے گا)۔
قرآن حکیم میں تمام ضروری علوم کو اجمالی طور پر بیان کیا گیا ہے۔ یہ حدیث اور سنت رسول ﷺ ہی ہے جس نے قرآنی احکام کی نہ صرف تفصیل بیان کی ہے بلکہ جہاں ضروری ہوا اس کا عملی اور مثالی نمونہ بھی امت کو عطا فرمایا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر احادیث رسول ﷺ کو دین کی تعلیمات سے خارج کر دیا جاتا تو اسلام بطورِ ایک نظریہ کے تو باقی رہتا لیکن اُمتِ مسلمہ ان احکامات کے عملی اطلاق سے کبھی بھی مستفیض نہ ہو سکتی۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے نہ صرف توبہ کے مختلف پہلوؤں کو بلیغ انداز میں مثالوں سے واضح فرمایا بلکہ خود نبی اکرم ﷺ نے معصوم عن الخطا ہو کر بھی روزانہ سو سو بار الله تعالیٰ کے حضور توبہ و استغفار فرمائی۔ یہاں یہ بات پیش نظر رہے کہ آپ ﷺ کی توبہ ایک طرح سے عبدیت کا مظاہرہ تھا۔ آپ ﷺ کا قلبِ انور ہمہ وقت ملائُ الاعلی سے وابستہ رہتا۔ جب آپ ﷺ اللہ تعالیٰ کی عظمت و جلال اور مقام رفیع کے مقابل اپنی بندگی، عبادت و ریاضت کا جائزہ لیتے تو اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی میں اپنی بندگی کو کوتاہی کے مترادف سمجھتے اور اسے گناہ سے تعبیر کرتے ہوئے استغفار فرماتے۔ عرفاء نے حضور نبی اکرم ﷺ کے استغفار کی ایک اور تعبیر بھی بیان کی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی ہر آنے والی گھڑی پہلی سے بڑھ کر اعلیٰ و ارفع مقام کی حامل ہوتی جیسا کہ سورۃ الضحیٰ میں فرمایا:
وَ لَـلْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ لَّکَ مِنَ الْاُوْلٰیo
والضحی، 93: 4
اور بے شک (ہر) بعد کی گھڑی آپ کے لیے پہلی سے بہتر (یعنی باعثِ عظمت و رفعت) ہے۔
چنانچہ جب آپ ﷺ ہر آنے والی گھڑی کے مقابل اپنے پہلے مقام کا ملاحظہ فرماتے تو اللہ تعالیٰ کے حضور استغفار کرتے۔ توبہ و استغفار کا عمل اللہ رب العزت کو بہت محبوب ہے۔
1۔ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کَیْفَ تَقُوْلُوْنَ بِفَرَحِ رَجُلٍ انْفَلَتَتْ مِنْهُ رَاحِلَتُهٗ تَجُرُّ زِمَامَهَا بِأَرْضٍ قَفْرٍ، لَیْسَ بِهَا طَعَامٌ وَلَا شَرَابٌ، وَعَلَیْهَا لَهٗ طَعَامٌ وَشَرَابٌ، فَطَلَبَهَا حَتّٰی شَقَّ عَلَیْهِ، ثُمَّ مَرَّتْ بِجِذْلِ شَجَرَۃٍ، فَتَعَلَّقَ زِمَامُهَا، فَوَجَدَهَا مُتَعَلِّقَۃً بِهٖ. قُلْنَا: شَدِیْدًا، یَا رَسُوْلَ اللهِ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللهِ ﷺ: أَمَا وَاللهِ، اللهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِهٖ مِنَ الرَّجُلِ بِرَاحِلَتِهٖ.
تم اس شخص کی خوشی کے متعلق کیا کہتے ہو جس کی اونٹنی کسی سنسان جنگل میں اپنی نکیل کی رسی کھینچتی ہوئی نکل جائے۔ جس سر زمین میں کھانے پینے کی کوئی چیز نہ ہو اور اس اونٹنی پر اس شخص کے کھانے پینے کی چیزیں لدی ہوں، وہ شخص اس اونٹنی کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک جائے، پھر وہ اونٹنی ایک درخت کے تنے کے پاس سے گزرے اور اس کی مہار اس تنے میں اٹک جائے اور اس شخص کو وہ اونٹنی اس تنے میں اٹکی ہوئی مل جائے۔ ہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! وہ بہت زیادہ خوش ہوگا۔ رسول الله ﷺ نے فرمایا: سنو! بخدا، اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی توبہ پر اس شخص کی سواری کے (ملنے کی) بہ نسبت زیادہ خوش ہوتا ہے۔
2۔ اسی مفہوم کی ایک اور متفق علیہ حدیث حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔ صحیح مسلم میں مروی حدیث کے الفاظ ہیں کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
اللهُ أَشَدُّ فَرَحًا بِتَوْبَۃِ عَبْدِهٖ حِیْنَ یَتُوبُ إِلَیْهِ، مِنْ أَحَدِکُمْ کَانَ عَلٰی رَاحِلَتِهٖ بِأَرْضِ فَـلَاۃٍ، فَانْفَلَتَتْ مِنْهُ، وَعَلَیْهَا طَعَامُهٗ وَشَرَابُهٗ، فَأَیِسَ مِنْهَا، فَأَتٰی شَجَرَۃً، فَاضْطَجَعَ فِي ظِلِّهَا، قَدْ أَیِسَ مِنْ رَاحِلَتِهٖ، فَبَیْنَا هُوَ کَذٰلِکَ إِذَا هُوَ بِهَا، قَائِمَۃً عِنْدَهٗ، فَأَخَذَ بِخِطَامِهَا، ثُمَّ قَالَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ: اَللّٰھُمَّ، أَنْتَ عَبْدِي وَأَنَا رَبُّکَ۔ أَخْطَأَ مِنْ شِدَّۃِ الْفَرَحِ.
جب اللہ تعالیٰ کا کوئی بندہ اُس کی بارگاہ میں توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو اِس (شخص کے توبہ کرنے) پر اُس (شخص) سے (بھی) زیادہ خوشی ہوتی ہے جو جنگل میں اپنی سواری پر جائے اور (وہاں) سواری اُس سے گم ہو جائے اور اُسی سواری پر اس کے کھانے پینے کی چیزیں ہوں۔ وہ اس (سواری کے نہ ملنے) سے مایوس ہوکر ایک درخت کے پاس آئے اور اس کے سائے میں لیٹ جائے۔ جس وقت وہ سواری سے مایوس ہو کر لیٹا ہوا ہو تو اچانک (کہیں سے) وہ سواری اس کے پاس آ کھڑی ہو۔ وہ اس کی مہار پکڑ لے، پھر خوشی کی شدت سے یہ کہہ بیٹھے: ’اے اللہ! تو میرا بندہ ہے اور میں تیرا ربّ ہوں‘۔ یعنی وہ شدتِ مسرت کی وجہ سے غلطی کر جائے۔
3۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک متفق علیہ حدیث ہے کہ حضور نبی اکرم s نے ارشاد فرمایا:
کَانَ فِي بَنِي إِسْرَائِیْلَ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَۃً وَتِسْعِیْنَ إِنْسَانًا، ثُمَّ خَرَجَ یَسْأَلُ فَأَتٰی رَاھِبًا فَسَأَلَهٗ، فَقَالَ لَهٗ: ھَلْ مِنْ تَوْبَۃٍ؟ قَالَ: لَا، فَقَتَلَهٗ فَجَعَلَ یَسْأَلُ فَقَالَ لَهٗ رَجُلٌ: ائْتِ قَرْیَۃَ کَذَا وَکَذَا، فَأَدْرَکَهُ الْمَوْتُ فَنَائَ بِصَدْرِهٖ نَحْوَھَا. فَاخْتَصَمَتْ فِیْهِ مَـلَائِکَۃُ الرَّحْمَۃِ وَمَلَائِکَۃُ الْعَذَابِ، فَأَوْحَی اللهُ إِلٰی ھٰذِهٖ: أَنْ تَقَرَّبِي، وَأَوْحَی اللهُ إِلٰی ھٰذِهٖ: أَنْ تَبَاعَدِي. وَقَالَ: قِیْسُوْا مَا بَیْنَھُمَا. فَوُجِدَ إِلٰی ھٰذِهٖ أَقْرَبَ بِشِبْرٍ فَغُفِرَ لَهٗ.
بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے قتل کیے تھے اور پھر مسئلہ پوچھنے نکلا تھا (کہ اس کی توبہ قبول ہوسکتی یا نہیں)۔ وہ ایک راہب کے پاس آیا اور اس سے پوچھا: کیا (اس کے لیے) توبہ کی کوئی گنجائش ہے؟ راہب نے جواب دیا: نہیں۔ اس نے اس راہب کو بھی قتل کر دیا۔ وہ پھر (قبولیتِ توبہ کے بارے میں) پوچھنے لگا، تو ایک شخص نے اسے کہا: فلاں فلاں بستی میں جاؤ (جہاں نیک لوگ رہتے ہیں)۔ اس نے اس بستی والوں کی طرف سفر کا آغاز ہی کیا تھا کہ اسے موت آگئی۔ رحمت اور عذاب کے فرشتے اس کے بارے جھگڑنے لگے (کہ کون اس کی روح لے جائے)۔ پس اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو (جہاں وہ توبہ کرنے کے لیے جا رہا تھا) حکم دیا کہ اس کی میت کے قریب ہو جائے اور دوسری بستی کو (جہاں سے نکلا تھا) حکم دیا کہ اس کی میت سے دور ہو جائے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے فرمایا: دونوں بستیوں کے درمیان فاصلے کی پیمائش کرو (جس طرف کا فاصلہ کم ہو اس شخص کو اس بستی کے رہنے والوں کے حساب میں ڈال دو)۔ اور جب فاصلہ ناپا گیا تو اس بستی کو (جہاں وہ توبہ کرنے جا رہا تھا) ایک بالشت میت سے زیادہ قریب پایا گیا تو اس کی مغفرت کر دی گئی۔
4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ تَابَ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ مَغْرِبِھَا، تَابَ اللهُ عَلَیْهِ.
جو شخص مغرب سے سورج طلوع ہونے (یعنی آثارِ قیامت نمودار ہونے) سے پہلے پہلے توبہ کرلے گا، اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرمائے گا۔
5۔ گناہ کا اعتراف کر کے توبہ کرنے والے کی توبہ قبول ہوتی ہے۔ زوجۂ رسول حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
وَإِنْ کُنْتِ أَلْمَمْتِ بِذَنْبٍ فَاسْتَغْفِرِي اللهَ وَتُوبِي إِلَیْهِ فَإِنَّ الْعَبْدَ إِذَا اعْتَرَفَ ثُمَّ تَابَ تَابَ اللهُ عَلَیْهِ.
اگر تم گناہ میں ملوث ہوگئی ہو تو اللہ تعالیٰ سے استغفار کرو اور توبہ کر لو، کیونکہ جب بندہ اپنے گناہ کا اقرار کر کے توبہ کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔ (بعد ازاں خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی عفت اور پاکدامنی کا اعلان فرمایا ہے)۔
6۔ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ یَقْبَلُ تَوْبَۃَ الْعَبْدِ مَا لَمْ یُغَرْغِرْ.
یقینا اللہ تعالیٰ اس وقت تک بندے کی توبہ قبول فرماتا ہے جب تک کہ اس کے حلق سے غر غر کی آوازیں نہیں آتیں (یعنی اس پر موت کے وقت تک توبہ کا دروازہ کھلا ہوا ہے)۔
7۔ حضرت عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ لَزِمَ الْاِسْتِغْفَارَ، جَعَلَ اللهُ لَهٗ مِنْ ضِیْقٍ مَخْرَجًا، وَمِنْ کُلِّ ھَمٍّ فَرَجاً، وَرَزَقَهٗ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ.
جو شخص پابندی کے ساتھ استغفار کرتا ہے، الله تعالیٰ اس کے لیے ہر غم سے نجات اور ہر مشکل سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے اور اسے وہاں سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا۔
8۔ استغفار کرنے سے دلوں کا زنگ دور ہوتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الْمُؤْمِنَ، إِذَا أَذْنَبَ، کَانَتْ نُکْتَۃٌ سَوْدَاءُ فِي قَلْبِهِ. فَإِنْ تَابَ وَنَزَعَ وَاسْتَغْفَرَ، صُقِلَ قَلْبُهُ. فَإِنْ زَادَ زَادَتْ حَتَّی تَغْلَفَ قَلْبُهُ. فَذَلِکَ الرَّانُ الَّذِي ذَکَرَهُ اللهُ فِي کِتَابِهِ {کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ. (المطففین، 83: 14)}.
مومن جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پرایک سیاہ نشان بن جاتا ہے، پھر اگر وہ توبہ کرلے اور (گناہ سے) ہٹ جائے اور استغفار کرے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے۔ (لیکن) اگر وہ ڈٹا رہے اور زیادہ (گناہ) کرے تو یہ نشان بڑھتا جاتا ہے، یہاں تک کہ اس کے (پورے) دل کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، اور یہی وہ ’رَانَ‘‘ (زنگ) ہے جس کا ذکر الله تعالیٰ نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں فرمایا ہے: {کَلَّا بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوْبِھِمْ مَاکَانُوْا یَکْسِبُوْنَo} ’(ایسا) ہرگز نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تھے (اس لیے آیتیں ان کے دل پر اثر نہیں کرتیں)۔‘۔
9۔ حضور نبی اکرم ﷺ کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے۔ آپ ﷺ کا اپنا معمول یہ تھا کہ ایک دن میں ستر بار اور ایک روایت میں ہے کہ سو بار استغفار کیا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
وَاللهِ، إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَیْهِ فِي الْیَوْمِ أَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً.
خدا کی قسم، میں روزانہ ستر مرتبہ سے زیادہ بارگاہ خداوندی میں استغفار اور توبہ کرتا ہوں۔
10۔ حضرت اغر مزنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا:
إِنَّهُ لَیُغَانُّ عَلٰی قَلْبِي وَإِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللهَ فِي الیَوْمِ مِائَۃَ مَرَّۃٍ.
میرے دل پر کبھی پردہ آ جاتا ہے اور میں اللہ تعالیٰ سے ایک دن میں سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔
11۔ حضرت سعید بن ابی بردہ اپنی سند کے ساتھ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں رسول اکرم ﷺ تشریف لائے درانحالیکہ ہم سبھی بیٹھے ہوئے تھے تو آپ ﷺ نے فرمایا:
مَا أَصْبَحْتُ غَدَاۃً قَطُّ إِلَّا اسْتَغْفَرْتُ اللهَ فِیْھَا مِائَۃَ مَرَّۃٍ.
میں ہر صبح لازماً سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔
12۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم گِنا کرتے تھے کہ حضورنبی اکرم ﷺ ایک مجلس کے اندر سو سو مرتبہ فرماتے:
رَبِّ اغْفِرْ لِي، وَتُبْ عَلَيَّ، إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ.
اے ربّ! مجھے بخش دے اور میری توبہ قبول فرما، بے شک تُو توبہ قبول فرمانے والا، رحم فرمانے والا ہے۔
13۔ امام احمد بن حنبل اپنی مسند میں حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ کَانَ مِمَّا یُکْثِرُ أَنْ یَقُوْلَ:
سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ؛ اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي. قَالَ: فَلَمَّا نَزَلَتْ
{اِذَآ جَآءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ (النصر، 110: 1
)}. قَالَ: سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ؛ اللّٰهُمَّ، اغْفِرْ لِي، إِنَّکَ أَنْتَ
التَّوَّابُ الرَّحِیمُ.
حضور نبی اکرم ﷺ اکثر اوقات ان کلمات کا وِرد کیا کرتے تھے: {سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ؛ اللّٰهُمَّ، اغْفِرْ لِي} ’اے ہمارے رب! تو پاک ہے اور ہر تعریف تیرے لائق ہے۔ اے الله! ہمیں بخش دے‘۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ جب آیت {اِذَآ جَآءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُo} ’جب الله کی مدد اور فتح آپہنچے۔‘ نازل ہوئی تو آپ ﷺ نے عرض کیا: {سُبْحَانَکَ رَبَّنَا وَبِحَمْدِکَ؛ اللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِي، إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ} ’اے ہمارے رب! تو پاک ہے اور ہر تعریف تیرے لائق ہے۔ اے الله! ہمیں بخش دے، بے شک تو بہت توبہ قبول فرمانے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘۔
14۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے نمازِ چاشت ادا فرمائی، پھر سو مرتبہ فرمایا:
اَللّٰھُمَّ، اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ، إِنَّکَ أَنْتَ التَّوَّابُ الْغَفُوْرُ.
اے الله! میری مغفرت فرما، مجھ پر نظرِ رحمت فرما، بے شک تو بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا اور بہت مغفرت فرمانے والا ہے۔
15۔ ایک روایت میں حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں اپنے اہل خانہ سے محتاط گفتگو نہیں کیا کرتا تھا، سو میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کی خدمت میں عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے ڈر ہے کہ میری زبان مجھے دوزخ میں نہ لے جائے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
فَأَیْنَ أَنْتَ مِنَ الْاِسْتِغْفَارِ؟ إِنِّي لَأَسْتَغْفِرُ اللهَ فِي الْیَوْمِ مِائَۃً.
تم اللہ تعالیٰ سے استغفار کیوں نہیں کرتے؟ بے شک میں تو روزانہ سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔
16۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَا أَصَرَّ مَنِ اسْتَغْفَرَ وَإِنْ عَادَ فِي الْیَوْمِ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً.
حضرت ابوبکر صدیق s سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے استغفار کیا (گویا) اس نے گناہ پر اصرار نہیں کیا اگرچہ ایک دن میں ستر بار (اس کام کا) اعادہ کرے۔
17۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ لِلْقُلُوْبِ صَدَأً کَصَدَإِ الْحَدِیْدِ وَجَـلَاؤُھَا الْاِسْتِغْفَارُ.
لوہے کی طرح دلوں کا بھی ایک زنگ ہے اور اس کا صیقل (یعنی صفائی اور چمک) استغفار ہے۔
18۔ حضرت عبد الله ابن مسعود رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا:
لِلْجَنَّۃِ ثَمَانِیَۃُ أَبْوَابٍ، سَبْعَۃٌ مُغْلَقَۃٌ وَبَابٌ مَفْتُوْحٌ لِلتَّوْبَۃِ حَتّٰی تَطْلُعَ الشَّمْسُ مِنْ نَحْوِهٖ.
جنت کے آٹھ دروازے ہیں، سات دروازے بند ہیں اور ایک دروازہ توبہ کے لیے اس وقت تک کھلا ہے جب تک سورج اس (مغرب کی) طرف سے طلوع نہیں ہوتا (یعنی آثارِ قیامت نمودار ہونے سے قبل تک توبہ قبول کی جائے گی)۔
19۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ فرمایا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ، اجْعَلْنِي مِنَ الَّذِیْنَ إِذَا أَحْسَنُوا اسْتَبْشَرُوْا، وَإِذَا أَسَائُوْا اسْتَغْفَرُوْا.
اے اللہ! مجھے ان لوگوں میں سے بنا دے جو نیکی کریں تو خوش ہوں اور خطا کر بیٹھیں تو استغفار کریں۔
20۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
النَّدَمُ تَوْبَۃٌ.
(گناہ پر) نادم ہونا ہی توبہ ہے۔
21۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
کُلُّ ابْنِ آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَیْرُ الْخَطَّائِیْنَ التَّوَّابُوْنَ.
ہر انسان خطاکار ہے اور بہترین خطا کار وہ ہیں جو (خطا کے بعد) توبہ کرنے والے ہیں۔
22۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلتَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ، کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَهٗ.
گناہ سے (سچی) توبہ کرنے والا اس شخص کی مانند ہے جس نے کوئی گناہ کیا ہی نہ ہو۔
23۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
یَقُوْلُ اللهُ تَعَالٰی: یَا عِبَادِي، کُلُّکُمْ مُذْنِبٌ إِلَّا مَنْ عَافَیْتُ، فَاسْتَغْفِرْنِي أَغْفِرْ لَکُمْ، وَمَنْ عَلِمَ مِنْکُمْ أَنِّي ذُو قُدْرَۃٍ عَلَی الْمَغْفِرَۃِ بِقُدْرَتِي، غَفَرْتُ لَهٗ، وَلَا أُبَالِي.
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے میرے بندو! تم سب گنہگار ہو، مگر جس کو میں محفوظ رکھوں۔ سو مجھ سے مغفرت طلب کرو میں تمہیں بخش دوں گا اور تم میں سے جسے معلوم ہے کہ میں بخشنے پر قادر ہوں، تو وہ مجھ سے بخشش مانگے میں اُسے اپنی قدرت سے بخش دوں گا؛ اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں (یعنی مجھے اس کے کثرتِ گناہ کی کوئی پروا نہیں، میں تو یہ دیکھتا ہوں کہ وہ مجھے غفار سمجھ کر میری بارگاہ میں حاضر ہوا ہے)۔
24۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ لَیَرْفَعُ الدَّرَجَۃَ لِلْعَبْدِ الصَّالِحِ فِي الْجَنَّۃِ فَیَقُولُ: یَا رَبِّ، أَنّٰی لِي هٰذِهٖ؟ فَیَقُوْلُ: بِاسْتِغْفَارِ وَلَدِکَ لَکَ.
بے شک الله ل جنت میں نیک بندے کے درجات بلند فرماتا ہے۔ وہ عرض کرتا ہے: مجھ پر یہ اِنعامات کیسے؟ الله تعالیٰ فرماتا ہے: یہ (تمہارے درجات کی بلندی) تمہاری اولاد کی تمہارے لیے طلبِ مغفرت کے باعث ہے۔
25۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ الشَّیْطَانَ قَالَ: وَعِزَّتِکَ یَا رَبِّ، لَا أَبْرَحُ أُغْوِي عِبَادَکَ مَا دَامَتْ أَرْوَاحُھُمْ فِي أَجْسَادِھِمْ. قَالَ الرَّبُّ: وَعِزَّتِي وَجَـلَالِي، لَا أَزَالُ أَغْفِرُ لَھُمْ مَا اسْتَغْفَرُوْنِي.
شیطان نے (بارگاهِ الٰہی میں) کہا: (اے الله!) مجھے تیری عزت کی قسم! میں تیرے بندوں کو جب تک ان کی روحیں ان کے جسموں میں باقی رہیں گی، گمراہ کرتا رہوں گا۔ الله تعالیٰ نے فرمایا: مجھے اپنی عزت اور جلال کی قسم! جب تک وہ مجھ سے بخشش مانگتے رہیں گے میں انہیں بخشتا رہوں گا۔
توبہ کے حوالے سے مذکورہ بالا احادیث مبارکہ خود اس قدر واضح ہیں کہ انہیں سمجھنے کے لئے کسی مزید تشریح کی ضرورت نہیں۔ تاہم یاد دہانی کے طور پر جملہ احادیث مبارکہ کا اگر ایک اجمالی خاکہ یوں ہے کہ مسلسل گناہوں کے سرزد ہونے سے انسان کا دل مکمل طور پر سیاہ ہو جاتا ہے۔ اگر وہ توبہ نہ کرے توبندے کی بد اعمالیاں زنگ کی شکل میں اس کے دل پر اس قدر چڑھ جاتی ہیں کہ اس بندے کا دل قبولِ حق کی سعادت سے محروم ہو جاتاہے۔
لیکن اللہ تبارک و تعالیٰ انسان پر آثارِ موت ظاہر ہونے سے قبل تک اس کے لئے توبہ کا دروازہ کھلا رکھتا ہے اور منتظر رہتا ہے کہ کب اس کا بندہ اپنے گناہوں سے معافی مانگنے کی خاطر اس کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اسے اپنے بندے کا عملِ توبہ کس قدر پسند ہے، اس کے سمجھانے کے لئے حضور نبی اکرم ﷺ نے ایک مثال بیان فرمائی کہ ایک سنسان جنگل میں سامانِ خورد و نوش سے لدی ہوئی اونٹنی گم ہو جائے اور اس کا مالک ناامید ہو کر موت کا منتظر ہو اور ایسے میں اچانک اسے اونٹنی مل جائے تو جتنی خوشی اس وقت اس شخص کو ہوتی ہے اس سے کہیں زیادہ خوشی اللہ تبارک و تعالیٰ کو اپنے بندے کے عملِ توبہ سے ہوتی ہے۔
ہر شخص اپنی طبعی و بشری کمزوریوں کے باعث خطا کار ہے اس لئے اسے پابندی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور معافی کا خواستگار رہنا چاہیے۔ اُس کے اس عمل سے جہاں اُخروی کامیابی کی ضمانت ملتی ہے وہاں اسے غم و آلام سے نجات ملتی ہے اور دنیاوی رزق بھی کشادہ ہو جاتا ہے۔
آقا علیہ السلام اپنے غلاموں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ میں خود ہر روز توبہ کرتا ہوں تم کیوں توبہ سے گریزاں ہو۔ توبہ دراصل دل پر گناہوں کے زنگ اتارنے کی ریگ مال ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں توبہ کی توفیق عطا فرمائے۔
صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، صلحائے عظام اور اولیائے کرام ہی وہ نفوس قدسیہ ہیں جنہوں نے شجرِ دین کی حقیقی معنوں میں آبیاری کی اور قیامت تک دینِ اسلام کے قابلِ عمل ہونے کی زندہ مثالیں دنیا کے سامنے پیش کیں۔
1۔ الله تعالیٰ نے سیدنا داؤد علیہ السلام کی طرف وحی کی:
لَوْ یَعْلَمُ الْمُدْبِرُوْنَ عَنِّيْ کَیْفَ انْتِظَارِي لَهُمْ، وَرِفْقِي بِهِمْ، وَشَوْقِي إِلٰی تَرْکِ مَعَاصِیْهِمْ لَمَاتُوْا شَوْقاً إِلَيَّ، وانْقَطَعَتْ أَوْصَالُهُمْ مِنْ مَحَبَّتِيْ، َیا دَاوٗدَ، هٰذِهٖ إِرَادَتِيْ فِي الْمُدْبِرِیْنَ عَنِّيْ، فَکَیْفَ إِرَادَتِيْ فِي مُقْبِلِیْنَ إِلَيَّ؟
قشیري، الرسالۃ: 332
اگر وہ لوگ جو مجھ سے منہ موڑ لیتے ہیں، یہ جان لیں کہ میں ان کا کیسے انتظار کر رہا ہوں اور ان پر کیسے مہربانی کرنے والا ہوں اور ان کا معصیت کاریوں کو ترک کرنا کتنا پسند کرتا ہوں تو وہ میرے شوق میں مر جائیں اور ان کے جوڑ میری محبت کی وجہ سے منقطع ہو جائیں۔ اے داؤد! یہ میرا ارادہ ان لوگوں کے متعلق ہے جو مجھ سے منہ موڑتے ہیں پس جو لوگ میری طرف آتے ہیں ان کے ساتھ میرا ارادہ کیا ہو گا؟
2۔ حضرت داؤد علیہ السلام کثرت سے گریہ و زاری کیا کرتے تھے۔ ابن قدامہ روایت کرتے ہیں:
وَعَلِمَ دَاوُدُ (ذَنْبَهُ) فَخَرَّ سَاجِدًا أَرْبَعِیْنَ یَوْمًا لَا یَرْفَعُ رَأْسَهُ إِلَّا لِحَاجَۃٍ لَابُدَّ مِنْهَا ثُمَّ یَعُوْدُ فَیَسْجُدُ لَا یَأْکُلُ وَلَا یَشْرَبُ وَهُوَ یَبْکی حَتّٰی نَبَتَ الْعَشَبُ حَوْلَ رَأْسِهِ وَهُوَ یُنَادِی رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَیَسْأَلُهُ التَّوْبَۃَ.
حضرت داؤد علیہ السلام کو اپنے کسی خطا کا احساس ہوا تو آپ چالیس روز تک سجدہ ریز رہے۔ صرف ضروری حاجت کے لیے ہی سر اٹھاتے اور پھر دوبارہ سجدہ ریز ہو جاتے، آپ نہ کچھ کھاتے نہ پیتے صرف روتے رہتے حتی کہ آپ کے سر کے گرد گھاس اُگ آئی، اور آپ (ہر وقت) اپنے رب کو پکارتے رہتے اور اس کے توبہ کا سوال کرتے رہتے۔
3۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا:
جَالِسُوا التَّوَّابِیْنَ فَإِنَّھُمْ أَرَقُّ شَيئٍ أَفْئِدَۃً.
کثرت سے توبہ کرنے والوں کے پاس بیٹھا کرو کیوں کہ ان کے دل نہایت ہی نرم ہوتے ہیں۔
4۔ حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
اَلْعَجَبُ مِمَّنْ یَهْلِکُ وَمَعَهُ النَّجَاۃُ۔ قِیْلَ: وَمَا هِيَ؟ قَالَ: اَلْاِسْتِغْفَارُ۔ وَکَانَ یَقُوْلُ: مَا أَلْهَمَ اللهُ سُبْحَانَهٗ عَبْدًا الْاِسْتِغْفَارَ وَهُوَ یُرِیْدُ أَنْ یُعَذِّبَهٗ.
غزالی، إحیاء علوم الدین، 1: 313
تعجب ہے اس شخص پر جو ہلاک ہوجاتا ہے حالانکہ نجات (کا راستہ ) اس کے پاس موجود ہے۔ عرض کیا گیا: وہ (نجات کا راستہ) کیا ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: استغفار۔ آپ فرمایا کرتے تھے: اللہ تعالیٰ اس بندے کو استغفار (توبہ) کی توفیق نہیں دیتا جسے وہ عذاب دینا چاہتا ہے۔
5۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
مَا رَأَیْتُ أَحَدًا أَکْثَرَ أَنْ یَقُولَ: أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوبُ إِلَیْهِ مِنْ رَسُولِ اللهِ ﷺ.
میں حضور نبی اکرم ﷺ سے بڑھ کر استغفار کرنے والے کسی شخص کے پاس نہیں بیٹھا۔
6۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
مَا جَلَسْتُ إِلٰی أَحَدٍ أَکْثَرَ اسْتِغْفَارًا مِنْ رَسُوْلِ اللهِ ﷺ.
أحمد بن حنبل، الزھد: 67
میں آج تک کسی ایسے شخص کے پاس نہیں بیٹھا جو رسول الله ﷺ سے بڑھ کر استغفار کرنے والا ہو۔
7۔ حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
ھَلْ تَرَی النَّاسَ مَا أَکْثَرُھُمْ مَا فِیْھِمْ خَیْرٌ إِلَّا تَقِيٌّ أَوْ تَائِبٌ۔
کیا آپ لوگوں کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ ان میں سے اکثر خیر پر نہیں سوائے متقی اور توبہ کرنے والوں کے۔
8۔ حضرت قتادہ نے فرمایا:
اَلْقُرْآنُ یَدُلُّکُمْ عَنْ دَائِکُمْ وَدَوَائِکُمْ؛ أَمَّا دَاؤُکُمْ فَالذُّنُوبُ، وَأَمَّا دَوَاؤُکُمْ فَالْاِسْتِغْفَارُ۔
غزالي، إحیاء علوم الدین، 1: 313
قرآنِ مجید تمہیں تمہاری بیماری سے بھی آگاہ کرتا ہے اور تمہارے لیے دواء بھی تجویز کرتا ہے۔ تمہاری بیماری تمہارے گناہ ہیں اور تمہاری دواء کثرتِ اِستغفار ہے۔
9۔ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا:
مَنِ اسْتَبْطَأَ رِزْقُهٗ، فَلْیُکْثِرْ مِنَ الْاِسْتِغْفَارِ۔
شعراني، الطبقات الکبری: 51
جس کو رزق تنگی اور تاخیر سے ملے، اسے کثرت سے استغفار کرنا چاہیے۔
10۔ حضرت ذو النون مصری نے فرمایا:
حَقِیْقَۃُ التَّوْبَۃِ أَنْ تَضِیْقَ عَلَیْکَ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ حَتّٰی لَا یَکُوْنَ لَکَ قَرَارٌ، ثُمَّ تَضِیْقُ عَلَیْکَ نَفْسُکَ۔
قشیري، الرسالۃ: 96
توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ زمین اپنی فراخی کے باوجود تمہارے لیے اس قدر تنگ ہو جائے کہ تمہیں (کہیں) قرار حاصل نہ ہو، پھر (یہ حال ہوجائے کہ) تمہارا نفس بھی تم پر تنگ ہو جائے۔
11۔ حضرت ذو النون مصری نے فرمایا:
اَلْاِسْتِغْفَارُ مِنْ غَیْرِ إِقْـلَاعٍ هُوَ تَوْبَۃُ الْکَاذِبِیْنَ.
قشیري، الرسالۃ: 95
گناہ سے باز آئے بغیر توبہ کرنا جھوٹے لوگوں کی توبہ ہے۔
12۔ حضرت ذو النون مصری سے توبہ کی نسبت پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا:
تَوْبَۃُ الْعَوَامِّ مِنَ الذُّنُوْبِ، وَتَوْبَۃُ الْخَوَاصِّ مِنَ الْغَفْلَۃِ.
قشیري، الرسالۃ: 95
عوام کی توبہ گناہوں سے ہوتی ہے اور خواص کی توبہ غفلت سے۔
13۔ حضرت یحییٰ بن معاذ نے فرمایا:
زَلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ بَعْدَ التَّوْبَۃِ أَقْبَحُ مِنْ سَبْعِیْنَ قَبْلَهَا.
قشیري، الرسالۃ: 97
توبہ کے بعد کی ایک لغزش توبہ سے پہلے کی ستر لغزشوں سے بدتر ہے۔
14۔ محمد زُقاق نے فرمایا:
سَأَلْتُ أَبَا عَلِيٍّ الرَّوْذَبَارِيَّ عَنِ التَّوْبَۃِ، فَقَالَ: الْاِعْتِرَافُ، وَالنَّدَمُ، وَالإِقْـلَاعُ.
میں نے ابو علی روذباری سے توبہ کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا: (گناہوں کا) اعتراف، (غلطیوں پر) ندامت اور (گناہوںکا) ترک کرنا (توبہ ہے)۔
15۔ حضرت ابو عبد اللہ الوراق کا قول ہے: اگر تمہارے اوپر بارش کے قطروں اور سمندر کی جھاگ کے برابر بھی گناہ ہوں تو انہیں ان شاء اللہ تجھ سے مٹا دیا جائے گا بشرطیکہ جب تو خلوصِ دل کے ساتھ اپنے رب سے یہ دعا مانگے گا:
اَللّٰهُمَّ إِنِّي أَسْتَغْفِرُکَ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ تُبْتُ إِلَیْکَ مِنْهُ ثُمَّ عُدْتُ فِیْهِ، وَأَسْتَغْفِرُکَ مِنْ کُلِّ مَا وَعَدْتُکَ بِهٖ مِنْ نَفْسِي وَلَمْ أُوْفِ لَکَ بِهٖ، وَأَسْتَغْفِرُکَ مِنْ کُلِّ عَمَلٍ أُرِیْدُ بِهٖ وَجْهَکَ فَخَالَطَهٗ غَیْرُکَ، وَأَسْتَغْفِرُکَ مِنْ کُلِّ نِعْمَۃٍ أَنْعَمْتَ بِهَا عَلَيَّ، فَاسْتَعَنْتُ بِهَا عَلٰی مَعْصِیَتِکَ، وَأَسْتَغْفِرُکَ یَا عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّهَادَۃِ مِنْ کُلِّ ذَنْبٍ أَتَیْتُهٗ فِي ضِیَائِ النَّهَارِ وَسَوَادِ اللَّیْلِ فِي مَلَأٍ أَوْ خَلَائٍ وَسِرٍّ وَعَلَانِیَۃٍ یَا حَلِیْمُ.
غزالي، إحیاء علوم الدین، 1: 313
اے اللہ! بے شک میں تجھ سے ہر اس گناہ کی مغفرت طلب کرتا ہوںجس سے میں نے توبہ کی پھر اس گناہ میں دوبارہ ملوث ہوگیا، اور میں تجھ سے تیری مغفرت طلب کرتا ہوں ہر اس چیز سے جس کا میں نے تیرے ساتھ وعدہ کیا اور وہ وعدہ پورا نہ کرسکا، اور میں ہر اس عمل سے تیری مغفرت طلب کرتا ہوں جس سے میں نے تیری رضا کا ارادہ کیا اور اس میں تیرے علاوہ کوئی اور بھی شریک ہوگیا، اور میں تیری مغفرت طلب کرتا ہوں ہر اس نعمت سے جو تو نے مجھے عطا کی پھر میں نے اس سے تیری نافرمانی میں مدد لی، اور اے غیب اور حاضر کو جاننے والے! میں تیری مغفرت طلب کرتا ہوں ہر اس گناہ سے جو میں نے دن کی روشنی یا رات کی تاریکی میں کیا، جلوت میں کیا یا خلوت میں کیا، چھپ کر کیا یا اعلانیہ کیا۔ اے حلیم (حلمِ عظیم کے مالک) مجھے بخش دے۔
16۔ حضرت مطرف بن عبد اللہ الله تعالیٰ کے حضور دعا کرتے ہوئے عرض کرتے:
اَللّٰھُمَّ، ارْضَ عَنَّا، فَإِنْ لَّمْ تَرْضَ فَاعْفُ، فَإِنَّ الْمَوْلٰی قَدْ یَعْفُوْ عَنْ عَبْدِهٖ، وَهُوَ غَیْرُ رَاضٍ عَنْهُ.
اے الله! ہم سے راضی ہو جا۔ اگر تو راضی نہ ہو تو معاف فرما دے کیونکہ کبھی مالک راضی نہ ہونے کے باوجود بھی اپنے غلام کو معاف کر دیتا ہے۔
17۔ حضرت رابعہ بصری فرماتی ہیں:
اسْتِغْفَارُنَا یَحْتَاجُ إِلَی اسْتِغْفَارٍ کَثِیْرٍ.
غزالی، إحیاء علوم الدین، 1: 313
ہمارا استغفار بھی کثرتِ استغفار کا محتاج ہوتا ہے (کیونکہ ہمارا استغفار صدق دل سے نہیں ہوتا بلکہ اس میں کوتاہی اور بے دلی ہوتی ہے جو استغفار کے آداب کے خلاف ہے۔ لهٰذا ادبِ استغفار کی اس خلاف ورزی پر بھی ہمیں کثرتِ استغفار کی ضرورت ہے)۔
18۔ امام قشیری بیان کرتے ہیں:
قَالَ رَجُلٌ لِرَابِعَۃَ الْعَدْوِیَّۃِ: إِنِّيْ قَدْ أَکْثَرْتُ مِنَ الذُّنُوْبِ وَالْمَعَاصِي، فَلَوْ تُبْتُ هَلْ یَتُوْبُ اللهُ عَلَيَّ؟ فَقَالَتْ: لَا، بَلْ لَوْ تَابَ عَلَیْکَ لَتُبْتَ.
قشیري، الرسالۃ: 96
ایک شخص نے حضرت رابعہ عدویہ بصریہ سے کہا: میں نے بہت سے گناہ اور معاصی کیے ہیں۔ اب اگر میں توبہ کروں تو کیا الله تعالیٰ مجھے معاف فرما دے گا؟ انہوں نے فرمایا: اصل معاملہ یوں نہیں، بلکہ اصل بات یہ ہے کہ اگر اللہ تبارک و تعالیٰ نے تجھ پر نظر رحمت فرما دی تو تُو (مقبول) توبہ کر لے گا (یعنی تجھے توبہ کرنے کی توفیق نصیب ہو جائے گی)۔
19۔ شیخ ابو الحسن شاذلی نے فرمایا:
عَلَیْکَ بِالْاِسْتِغْفَارِ وَإِنْ لَمْ یَکُنْ هُنَاکَ ذَنْبٌ، وَاعْتَبِرْ بِاسْتِغْفَارِ النَّبِيِّ ﷺ بَعْدَ الْبِشَارَۃِ وَالْیَقِیْنِ بِمَغْفِرَۃِ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهٖ، وَمَا تَأَخَّرَ. هٰذَا فِي مَعْصُوْمٍ لَمْ یَقْتَرِفْ ذَنْباً قَطُّ، وَتَقَدَّسَ عَنْ ذٰلِکَ فَمَا ظَنُّکَ بِمَنْ لَّا یَخْلُوْ عَنِ الْعَیْبِ، وَالذَّنْبِ فِي وَقْتٍ مِنَ الْأَوْقَاتِ؟
شعراني، الطبقات الکبری: 301
تم پر استغفار لازم ہے اگرچہ کوئی گناہ نہ بھی کیا ہو۔ حضور نبی اکرم ﷺ کے استغفار سے نصیحت حاصل کرو حالانکہ آپ ﷺ کو آپ کے اگلوں پچھلوں کے گناہوں کی بخشش کی بشارت اور یقین حاصل تھا اور یہ (استغفار کا معمول) اس عظیم معصوم ہستی ﷺ کا معاملہ ہے جس نے کبھی بھی کسی گناہ کا ارتکاب نہیں کیا اور اس سے ہمیشہ پاک رہے۔ اس شخص کے متعلق تیرا کیا خیال ہے جو کسی وقت بھی عیب اور گناہ کے (امکان) سے خالی نہیں (یعنی اُسے کس قدر اِستغفار کی ضرورت ہے)؟
20۔ شیخ بوشنجی سے کسی نے توبہ کی نسبت سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:
إِذَا ذَکَرْتَ الذَّنْبَ، ثُمَّ لَمْ تَجِدْ حَلَاوَتَهٗ عِنْدَ ذِکْرِهٖ، فَهُوَ التَّوْبَۃُ.
قشیري، الرسالۃ: 96
اگر تو گناہ کو یاد کرے، پھر اس گناہ کی یاد کے وقت تو اس (گناہ) کی لذت و حلاوت محسوس نہ کرے، تو یہ (سچی) توبہ ہے۔
21۔ امام قشیری بیان کرتے ہیں کہ کسی صوفی کا قول ہے:
تَوْبَۃُ الْکَذَّابِیْنَ عَلٰی أَطْرَافِ أَلْسِنَتِهِمْ، یَعْنِيْ أَنَّهُمْ یَقْتَصِرُوْنَ عَلٰی قَوْلِهِمْ: أَسْتَغْفِرُ اللهَ.
قشیري، الرسالۃ: 96
جھوٹے لوگوں کی توبہ ان کی زبان کی نوک پر ہوتی ہے، یعنی وہ صرف (زبان سے) استغفر الله کہنے پر ہی اکتفاء کرتے ہیں (درحقیقت ان کے دل توبہ و استغفار سے خالی ہوتے ہیں)۔
22۔ شیخ نوری نے فرمایا:
اَلتَّوْبَۃُ أَنْ تَتُوْبَ مِنْ کُلِّ شَيْئٍ سِوَی اللهِ تعالیٰ.
قشیري، الرسالۃ: 95
توبہ یہ ہے کہ تو اللہ کے سوا ہر چیز سے تائب ہوجائے (یعنی ہر شے سے منہ موڑ کر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرلے)۔
23۔ شیخ عبد الله بن علی تمیمی نے فرمایا:
شَتَّانَ مَا بَیْنَ تَائِبٍ یَتُوْبُ مِنَ الزَّلَّاتِ، وَتَائِبٍ یَتُوْبُ مِنَ الْغَفَـلَاتِ، وَتَائِبٍ یَتُوْبُ مِنْ رُؤْیَۃِ الْحَسَنَاتِ.
قشیري، الرسالۃ: 95
ان تین شخصوں کی توبہ میں کس قدر فرق ہے! ایک وہ جو اپنی لغزشوں سے توبہ کرتا ہے، دوسرا وہ جو اپنی غفلتوں سے توبہ کرتا ہے اور تیسرا وہ جو اپنی نیکیاں دیکھنے سے بھی توبہ کرلیتا ہے۔
24۔ سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی نے فرمایا:
حَقِیْقَۃُ التَّوْبَۃِ تَعْظِیْمُ أَمْرِ الْحَقِّ تعالیٰ فِي جَمِیْعِ الْأَحْوَالِ، وَلِهٰذَا قَالَ بَعْضُھُمْ: الْخَیْرُ کُلُّهٗ فِي کَلِمَتَیْنِ: التَّعْظِیْمُ لِأَمْرِ اللهِ وَالشَّفَقَۃُ عَلٰی خَلْقِهٖ.
عبد القادر جیلانی، الفتح الربانی: 252
توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ ہر حالت میں الله تعالیٰ کے اَمر کی تعظیم کی جائے۔ اسی بنا پر کسی بزرگ نے فرمایا ہے: ساری بھلائی اِن دو کلمات میں ہے: ایک تعظیمِ اَمرِ اِلٰہی، اور دوسرا اس کی مخلوق پر شفقت کرنا۔
25۔ شیخ عبد القادر جیلانی نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
تُوْبُوْا اِبْکُوْ بَیْنَ یَدَیْهِ ذَلُّوْا لَهٗ بِدُمُوْعِ اَعْیُنِکُمْ وَقُلُوْبِکُمْ الْبُکَائُ عِبَادَۃٌ.
عبدالقادر الجیلاني، الفتح الربانی: 217
توبہ کرو، اس کے روبرو روؤو آنکھوں اور دل کے آنسوؤں سے اس کے سامنے عاجزی کرو۔ رونا عبادت ہے۔
26۔ غوث اعظم سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی دوسرے مقام پر فرماتے ہیں:
إِذَا صَحَّتِ التَّوْبَۃُ صَحَّ الإِیْمَانُ وَازْدَادَ.
عبدالقادر جیلانی، الفتح الربانی: 317
جب توبہ صحیح ہوتی ہے تو ایمان صحیح ہوتا ہے اور ترقی کرتا ہے۔
27۔ آپ مزید فرماتے ہیں:
أَنْتَ ھَالِکٌ إِنْ لَّمْ تَتُبْ.
عبدالقادر جیلانی، الفتح الربانی: 367
اگر تو نے توبہ نہ کی تو ہلاک ہو جائے گا۔
28۔ دوسرے مقام پر سیدنا شیخعبد القادر جیلانی فرماتے ہیں:
یَا جُھَّالُ! تُوْبُوْا إِلَی اللهِ تعالیٰ ، وَارْجِعُوْا إِلٰی جَادَّۃِ الصِّدِّیْقِیْنَ، وَاتَّبِعُوْھُمْ فِي أَقْوَالِھِمْ وَأَفْعَالِھِمْ.
عبد القادر جیلاني، الفتح الربانی: 453
اے جاہلو! تم اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرو اور صدیقین (و سلف صالحین) کے طریقہ کی طرف پلٹ آؤ۔ اور اُن کے اقوال و افعال میں اُن کی پیروی کرو۔
29۔ حضرت عبد القادر جیلانی فرماتے ہیں:
یَا غُلَامُ، لَا تَیْأَسْ مِنْ رَّحْمَۃِ اللهِ تعالیٰ بِمَعْصِیَۃٍ ارْتَکَبْتَھَا بَلِ اغْسِلْ نَجَاسَۃَ ثَوْبِ دِیْنِکَ بِمَاءِ التَّوْبَۃِ، وَالثَّبَاتِ عَلَیْھَا، وَالْإِخْلَاصِ فِیْھَا، وَطَیِّبْهُ وَبَخِّرْهُ بِطِیْبِ الْمَعْرِفَۃِ.
عبدالقادر جیلانی، الفتح الربانی: 174
اے بیٹے! اپنے کیے ہوئے کسی گناہ کی وجہ سے الله تعالیٰ کی رحمت سے ناامید نہ ہو بلکہ اپنے دین کے (پاکیزہ) لباس پر لگی ہوئی (گناہوں کی) نجاست کو توبہ کے پانی سے دھولے اور اس (توبہ) پر ثابت قدمی اور اخلاص اختیار کر اور اس (لباس) کو معرفت کی خوشبو سے پاک و معطر کر لے۔
30۔ آپ نے دوسرے مقام پر فرمایا:
یَا قَوْمُ، تُوْبُوْا مِنْ تَرْکِکُمُ التَّقْوٰی، اَلتَّقْوٰی دَوَآئٌ وَتَرْکُھَا دَآئٌ، تُوْبُوْا فَإِنَّ التَّوْبَۃَ دَوَآءٌ وَّالذُّنُوْبَ دَآءٌ.
عبدالقادر جیلانی، الفتح الربانی: 279
اے قوم! تم تقویٰ کو چھوڑ دینے سے توبہ کر لو۔ کیونکہ تقوی دوا ہے اور اس کا چھوڑ دینا بیماری۔ تم توبہ کر لو؛ بے شک توبہ دوا ہے اور گناہ بیماری۔
31۔ امام وہیب بن ورد بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک عورت طواف میں کہہ رہی تھی:
یَا رَبِّ، ذَهَبَتِ اللَّذَّاتُ، وَبَقِیَتِ التَّبِعَاتُ، یَا رَبِّ، سُبْحَانَکَ وَعِزِّکَ، إِنَّکَ لَأَرْحَمُ الرَّاحِمِینَ، یَا رَبِّ، مَا لَکَ عُقُوبَۃٌ إِلَّا النَّارُ۔ فَقَالَتْ صَاحِبَۃٌ لَهَا، کَانَتْ مَعَهَا: یَا أُخَیَّۃُ، دَخَلْتِ بَیْتَ رَبِّکِ الْیَوْمَ. قَالَتْ: وَاللهِ، مَا أَرٰی هَاتَیْنِ الْقَدَمَیْنِ، وَأَشَارَتْ إِلٰی قَدَمَیْهَا، أَهْلًا لِلطَّوَافِ حَوْلَ بَیْتِ رَبِّي. فَکَیْفَ أُرَاهُمَا أَهْلًا أَطَأُ بِهِمَا بَیْتَ رَبِّي، وَقَدْ عَلِمْتُ حَیْثُ مَشَتَا وَإِلٰی أَیْنَ مَشَتَا؟
اے میرے پروردگار! لذتیں چلی گئیں اور ما بعد اثرات باقی ہیں۔ یا رب! تیری ذات پاک ہے۔ تیری عزت کی قسم! بے شک تو سب سے بڑھ کر رحم فرمانے والا ہے، اے میرے رب! تیرے ہاں سزا صرف آگ ہے۔ اس عورت کے ہمراہ اس کی ایک ساتھی نے اسے کہا: اے میری پیاری بہن! آج تو اپنے رب کے گھر میں داخل ہے۔ اس عورت نے اپنے پاؤں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اللہ کی قسم! میں ان دونوں قدموں کو اپنے رب کے گھر کے گرد طواف کا اہل نہیں سمجھتی۔ میں ان قدموں کو اللہ کے گھر میں چلنے کا اہل کیسے سمجھ سکتی ہوں جب کہ یہ (اللہ کی نافرمانی میں) جہاں جہاں چلے اور جدھر جدھر گئے، میں سب جانتی ہوں۔
تاریخ انسانی میں ندامت کی راہ انسانوں کے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام کی سنت سے ملتی ہے جب آپ علیہ السلام نے اپنی نادانستہ خطا پر ندامت اور پشیمانی کا اظہار کرتے ہوئے توبہ کے لئے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور رجوع کیا۔ قرآنِ حکیم میں اس کا ذکر سورۂ بقرہ میں کیا گیا ہے۔ ارشاد ہوا:
فَتَلَقّٰیٓ اٰدَمُ مِنْ رَّبِّهٖ کَلِمٰتٍ فَتَابَ عَلَیْهِ ط اِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُo
البقرۃ، 2: 37
پھر آدم ( علیہ السلام ) نے اپنے رب سے (عاجزی اور معافی کے) چند کلمات سیکھ لیے۔ پس اللہ نے ان کی توبہ قبول فرما لی۔ بے شک وہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
ہر لمحہ فقط نیکی پر کار بند رہنا اور احکامِ الٰہی کی بجا آوری اختیار کرنا ملائکہ کا طریقہ ہے اور ہر وقت فقط برائی کے در پے رہنا شیطان اور اس کی جماعت کی خصلت ہے جبکہ انسان کے خمیر میں نیکی اور برائی دونوں چیزیں موجود ہیں۔ اس لئے یہ ممکن نہیں کہ یہ ہر وقت صرف نیک اعمال ہی بجا لاتا رہے اور برائی اس سے کبھی سرزد ہی نہ ہو۔ تاہم ندامت اور شرمندگی ہی وہ نعمت ہے جو انسان کو برائی سے نیکی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔
توبہ کی حقیقت یہی ہے کہ انسان اپنے کئے گئے گناہ پر اس قدر نادم اور شرمندہ ہو کہ دوبارہ کبھی ادھر کا رخ نہ کرے۔ اس پشیمانی سے مجاہدہ جنم لیتا ہے جو استقامت کی راہ ہے۔ استقامت یہ ہے کہ انسان آئندہ کبھی ایسا کام نہ کرے جس کے باعث اسے ندامت اٹھانا پڑے۔ استقامت جہد مسلسل کا نام ہے۔ سورۃ الرعد میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
لَهٗ مُعَقِّبٰتٌ مِّنْم بَیْنِ یَدَیْهِ وَمِنْ خَلْفِهٖ یَحْفَظُوْنَهٗ مِنْ اَمْرِ اللهِ ط اِنَّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوْا مَا بِاَنْفُسِهِمْ ط وَاِذَآ اَرَادَ اللهُ بِقَوْمٍ سُوْٓئًا فَـلَا مَرَدَّ لَهٗ ج وَمَا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِهٖ مِنْ وَّالٍo
الرعد: 13: 11
(ہر) انسان کے لیے یکے بعد دیگرے آنے والے (فرشتے) ہیں جو اس کے آگے اور اس کے پیچھے الله کے حکم سے اس کی نگہبانی کرتے ہیں۔ بے شک الله کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا یہاں تک کہ وہ لوگ اپنے آپ میں خود تبدیلی پیدا کر ڈالیں، اور جب الله کسی قوم کے ساتھ (اس کی اپنی بداعمالیوں کی وجہ سے) عذاب کا ارادہ فرما لیتا ہے تو اسے کوئی ٹال نہیں سکتا، اور نہ ہی ان کے لیے الله کے مقابلہ میں کوئی مددگار ہوتا ہے۔
شاعر نے اپنے ایک شعر میں اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
حقیقی توبہ اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ کئے ماضی میں گئے برے اعمال سے بچتے ہوئے کماحقهٗ ان کے تدارک میں مستعد اور کوشاں رہے، بے شک نیک اعمال بجا لانے سے برائیاں خود بحود مٹ جاتی ہیں جیسا کہ سورہ ھود میں فرمایا:
اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّاٰتِ ط ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَo
ھود، 11: 114
بے شک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لیے نصیحت ہے۔
چنانچہ آخرت کی کامیابی صرف انہی کا مقدر ہے جو نیک کاموں کے ذریعے برائی کو خود سے دور رکھتے ہیں جیسے کہ سورہ رعد میں فرمایا گیا:
وَیَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ اُولٰٓئِکَ لَهُمْ عُقْبَی الدَّارِo
الرعد، 13: 22
اور نیکی کے ذریعہ برائی کو دور کرتے رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت کا (حسین) گھر ہے۔
حضرت ذو النون مصری فرماتے ہیں:
حَقِیْقَۃُ التَّوْبَۃِ أَنْ تُضَیَّقَ عَلَیْکَ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبتْ حَتّٰی لَا یَکُوْنَ لَکَ قَرَارٌ، ثُمَّ تُضَیَّقُ عَلَیْکَ نَفْسُکَ.
قشیري، الرسالۃ: 96
توبہ کی حقیقت یہ ہے کہ زمین اپنی فراخی کے باوجود تمہارے لیے اس قدر تنگ ہو جائے کہ تمہیں (کہیں) قرار حاصل نہ ہو، پھر (یہ حال ہوجائے کہ) تمہارا نفس بھی تم پر تنگ ہو جائے۔
بندہ اپنے گناہوں اور خطاؤں پر اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور گرفت کے باعث یوں بے قرار ہو جائے کہ سوائے ذاتِ الوہیت کی بارگاہ کے کوئی پناہ اُس کے پیش نظر نہ رہے۔ جب رب العزت کی بارگاہ کے علاوہ سب کچھ اس کی نظر میں معدوم ہو جائے تو گویا اُس نے حقیقتِ توبہ کو پا لیا۔
قرآن حکیم میں گناہ گار بندوں کو حقیقتِ توبہ کی طرف متوجہ کرنے کے لئے انتہائی بلیغ انداز اختیار کرتے ہوئے فرمایا گیا:
وَضَاقَتْ عَلَیْھِمْ اَنْفُسُھُمْ وَظَنُّوْٓا اَنْ لَّا مَلْجَاَ مِنَ اللهِ اِلَّآ اِلَیْهِ ط ثُمَّ تَابَ عَلَیْهِمْ لِیَتُوْبُوْا.
التوبۃ، 9: 118
اور (خود) ان کی جانیں (بھی) ان پر دوبھر ہوگئیں اور انہیں یقین ہوگیا کہ الله (کے عذاب) سے پناہ کا کوئی ٹھکانا نہیں بجزاس کی طرف (رجوع کے)، تب الله ان پر لطف وکرم سے مائل ہوا تاکہ وہ (بھی) توبہ و رجوع پر قائم رہیں۔
یہاں آیتِ کریمہ اس اَمر کی طرف متوجہ کر رہی ہے کہ حق تعالیٰ کے لطف و کرم کے حصول کے لئے ضروری ہے کہ بندہ ما سوا الله سے ہر امید کو منقطع کر کے حضورِ حق میں سراپا التجا بن جائے۔
امام غزالی اپنی تصنیف ’احیاء علوم الدین‘ میں حقیقتِ توبہ کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ توبہ ترتیب وار تین امور کا نام ہے:
علم: گناہوں کے ضرر کی معرفت کا نام ہے۔ یعنی جب تک علم نہیں ہوگا کہ فلاں فلاں فعل اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور اس کے غضب کا باعث ہے توبہ کی طرف بندہ مائل نہیں ہو سکتا۔ گناہ بندے اور اللہ تبارک و تعالیٰ کے درمیان حجاب ہے۔ یہ علم ہے جو اس کے حجاب کو اٹھا کر اس کو حقیقت آشنا کرتا ہے۔ علم ہی پہلی سیڑھی ہے جو گناہ کے بالمقابل نیکیوں سے مطلع کر کے بندے کو ایمان کے نور سے آشنا کرتا ہے۔ نور ایمان کی اس چمک سے ظلمتیں کافور ہونے لگتی ہیں اور بندہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور رضا کے فرق کو کھلی آنکھوں سے دیکھنے لگتا ہے۔ علم کی حیثیت ایک مقدمے کی ہے۔
حال: باعث گناہ امور کا علم حاصل ہونے کے بعد بندہ جب گناہوں کے ہولناک نتائج پر غور کرتا ہے تو اِس سے اُس کے دل میں رنج و الم پیدا ہوتا ہے وہ پشیمانی اور ندامت محسوس کرتا ہے۔ یہ زمین باوجود اپنی فراخی کے اُسے تنگ معلوم ہوتی ہے اور انسان کو قرار حاصل نہیں ہوتا۔ ماضی میں کی گئی معصیت کاریاں اس کے دل کا روگ بن جاتی ہیں۔ اس طرح یہ شرمندگی اس کا حال بن جاتا ہے جس سے ارادہ جنم لیتا ہے جو اُسے ترک گناہ پر آمادہ کرتا ہے۔
فعل: ارادہ مضبوط ہو تو ندامت اسے ترک گناہ پر آمادہ کر دیتی ہے۔ وہ اللہ رب العزت کے حضور اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے صمیم قلب سے آئندہ باز رہنے کا عہد کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ توبہ کا یہ عہد توفیقِ ایزدی کے بغیر ممکن نہیں۔ ایک شخص نے حضرت رابعہ بصری سے پوچھا کہ میں نے بہت سے گناہ کئے ہیں۔ اب اگر توبہ کروں تو کیا اللہ مجھے معاف فرما دے گا۔ آپ نے فرمایا: اصل بات یہ ہے کہ جب خدا تجھے معاف کرنے کا ارادہ فرمائے گا تب ہی تُو توبہ کرے گا۔ تاہم تائب کے لئے ضروری ہے کہ ہر وقت اللہ کے سامنے انکساری کرے اور اپنے گناہ سے بے زاری کا اظہار اور استغفار کرتا رہے۔
غزالی، احیاء علوم الدین، 4: 3
حضرت سہل بن عبد اللہ تستری فرماتے ہیں:
التَّوْبَۃُ أَنْ لَا تَنْسَی ذَنْبَکَ.
علی بن عثمان ہجویری، کشف المحجوب: 430
توبہ یہ ہے کہ تائب اپنے کئے ہوئے گناہ کو نہ بھولے۔
اس گناہ سے ہمیشہ پریشان رہے حتیٰ کہ اگر اس کے اعمالِ صالحہ زیادہ ہوں تو بھی اُن پر غرور نہ کرے۔ اس لئے کہ ناپسندیدہ اور برے کاموں پر افسوس کرنا صالح اعمال پر مقدم ہے کیونکہ جو شخص اپنے گناہ کو نہیں بھولتا وہ کبھی نیکیوں پر نہیں اتراتا۔ یہی بندگی ہے اور یہ عمل بندے کو اس امر کی طرف متوجہ رکھتا ہے کہ وہ حق تعالیٰ کے حضور ہمیشہ شرمسار رہے اور کبھی بھی اپنے اعمال پر بھروسہ نہ کرے۔
توبہ کوئی ایسا فعل نہیں جس کو غیر ضروری خیال کیا جائے۔ یہ ہر شخص پر ہر حال میں واجب ہے۔ اُخروی کامیابی کا انحصار انسان کے تائب ہونے سے مشروط ہے۔ واجب وہی چیز ہوتی ہے جو ابدی سعادت تک پہنچاتی ہے اور ہلاکت سے محفوظ رکھتی ہے۔ اگر کسی کام کے کرنے اور نہ کرنے کے ساتھ سعادت اور بدبختی کا کوئی تعلق نہ ہو تو پھر اس کا واجب ہونا بے معنی بات ہوگی۔ جب کوئی انسان بھی طبعاً خطا سے کلیتاً محفوظ اور پاک نہیں، دنیا، نفس اور شیطان ہر وقت اسے گمراہ کرنے کی گھات میں رہتے ہیں تو توبہ ہی وہ واحد سہارا ہے جو اسے گمراہیوں اور ظلمتوں کے اندھیروں سے نکال کر ہدایت کے نُور میں لے جاتا ہے۔ قرآن حکیم کی بیسیوں آیات، بے شمار احادیث و آثار توبہ کے واجب ہونے پر شاہد ہیں۔ اللہ رب العزت نے متعدد مقامات پر توبہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
1۔ وَاَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْهِ۔
ھود، 11: 3
اور یہ کہ تم اپنے رب سے مغفرت طلب کرو پھر تم اس کے حضور (صدق دل سے) توبہ کرو۔
2۔ وَ یٰــقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْهِ یُرْسِلِ السَّمَآءَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِیْنَo
ھود، 11: 52
اور اے لوگو! تم اپنے رب سے (گناہوں کی) بخشش مانگو پھر اس کی جناب میں (صدقِ دل سے) رجوع کرو، وہ تم پر آسمان سے موسلادھار بارش بھیجے گا اور تمہاری قوت پر قوت بڑھائے گا اور تم مجرم بنتے ہوئے اس سے روگردانی نہ کرنا!۔
3۔ یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَی اللهِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا.
التحریم، 66: 8
اے ایمان والو! تم اللہ کے حضور رجوع کامل سے خالص توبہ کر لو۔
4۔ قرآن حکیم میں نہ صرف توبہ کی تلقین کی گئی بلکہ توبہ کرنے والے شخص پراللہ تعالیٰ نے اپنی نوازشات کا ذکر بھی کیا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے:
یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَالْمُنْکَرِ ط وَلَوْ لَا فَضْلُ اللهِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُهٗ مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدً لا وَّلٰـکِنَّ اللهَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآءُ ط وَاللهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌo
النور، 24: 21
اے ایمان والو! شیطان کے راستوں پر نہ چلو، اور جو شخص شیطان کے راستوں پر چلتا ہے تو وہ یقینا بے حیائی اور برے کاموں (کے فروغ) کا حکم دیتا ہے، اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی شخص بھی کبھی (اس گناهِ تہمت کے داغ سے) پاک نہ ہو سکتا لیکن اللہ جسے چاہتا ہے پاک فرما دیتا ہے، اور اللہ خوب سننے والا جاننے والا ہے۔
5۔ سورۂ بقرہ کی آیت کریمہ میں توبہ کرنے والوں سے محبت کا اعلان فرما کر گنہ گار بندوں کو توبہ کرنے کی طرف متوجہ کیا گیا ہے کہ توبہ کے عمل سے نہ صرف ان کے گناہ معاف ہو جائیں گے بلکہ اللہ رب العزت انہیں اپنا محبوب بھی بنا لے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
اِنَّ اللهَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَیُحِبُّ الْمُتَطَهِرِیْنَo
البقرة، 2: 222
بے شک الله بہت توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے اور خوب پاکیزگی اختیار کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے۔
بلاشبہ یہ آیات مبارکہ توبہ کے واجب ہونے پر دلالت کرتی ہیں۔ کسی انسان کا توبہ سے بے نیاز ہونے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ توبہ ہر بندے کے لئے واجب ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ انسان سے کبھی بھی کوئی گناہ سرزد نہ ہو۔ جب حضرت انسان کے جد امجد حضرت آدم علیہ السلام اس سے بے نیاز نہیں ہوئے یعنی جس چیز کی گنجائش ان کی خلقت میں نہیں رکھی گئی ان کی اولاد کی خلقت میں اس کی گنجائش کہاں ہو سکتی ہے؟ چنانچہ گناہوں سے توبہ کرنے کے واجب ہونے پر امت کا اجماع ہے۔
امام غزالی فرماتے ہیں:
أَمَّا وُجُوْبُهَا عَلَی الْفَوْرِ فَـلَا یُسْتَرَابُ فِیْهِ، إِذْ مَعْرِفَۃُ کَوْنِ الْمَعَاصِي مُهْلِکَاتٍ مِنْ نَفْسِ الْإِیْمَانِ وَهُوَ وَاجِبٌ عَلَی الْفَوْرِ۔
غزالی، احیاء علوم الدین، 4: 7
توبہ کے فوری واجب ہونے میں کسی کو شک نہیں کیونکہ اس بات کی پہچان حاصل کرنا کہ گناہ ہلاکت میں ڈالتے ہیں، نفسِ ایمان میں سے ہے اور وہ فوری طور پر واجب ہے۔
حضرت شیخ عبد القادر جیلانی ’ غنیۃ الطالبین‘ میں توبہ کے باب میں لکھتے ہیں:
التَّوْبَۃُ فَرْضٌ عَیْنٌ فِي حَقِّ کُلِّ شَخْصٍ، لَا یُتَصَوَّرُ أَنْ یَسْتَغْنِيَ عَنْھَا أَحَدٌ مِنَ الْبَشَرِ، لِأَنَّهٗ لَا یَخْلُوْ أَحَدٌ عَنِ مَعْصِیَۃِ الْجَوَارِحِ… وَالْکُلُّ مُفْتَقِرٌ إِلَی التَّوْبَۃِ وَإِنَّمَا یَتَفَاوَتُوْنَ فِي الْمَقَادِیْرِ، فَتَوْبَۃُ الْعَوَامِ مِنَ الذُّنُوْبِ، وَتَوْبَۃُ الْخَوَاصِ مِنَ الْغَفْلَۃِ، وَتَوْبَۃُ خَاصِ الْخَوَاصِ مِنْ رُکُوْنِ الْقَلْبِ.
عبدالقادر جیلانی، الغنیۃ، 1: 231
توبہ ہر آدمی پر فرض ہے کہ کسی شخص کا اس سے بے نیاز ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا کیونکہ کسی شخص کے اعضاء گناہ سے خالی نہیں ہوتے۔ چنانچہ ہر آدمی توبہ کا محتاج ہے۔ البتہ اس کے مراتب مختلف ہیں۔ یعنی عوام کی توبہ گناہ سے ہے، خواص کی غفلت سے جبکہ خاص الخواص کی توبہ اللہ کے سوا کسی دوسری طرف میلان سے ہے۔
بندہ جب اپنے برے حال اور برے افعال پر غور و فکر کرے اور اُن سے نجات چاہے تو اللہ تعالیٰ اُس پر اسبابِ توبہ آسان کر دیتا ہے۔ توبہ کرنا انسان پر واجب ہے۔ جبکہ توبہ میں تاخیر نفس اور شیطان کی طرف سے ہے کیونکہ تاخیر کے باعث توبہ کی کبھی نوبت ہی نہیں آتی جبکہ اس کے برعکس گناہ کی عادت اس کی طبیعت میں راسخ ہو کر اس کی طبیعتِ ثانیہ بن جاتی ہے جس سے قلب و روح پر تاریکی کی تہہ چڑھ جاتی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَo
المطففین، 83: 14
(ایسا) ہر گز نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تھے (اس لیے آیتیں ان کے دل پر اثر نہیں کرتیں)۔
جب کسی چیز پر زنگ چڑھ جائے اور اسے اتارنے کی کوشش نہ کی جائے تو وہ پکا ہو جاتا ہے۔ اس سے دل پر مہر لگ جاتی ہے۔ چنانچہ توبہ میں صرف مستقبل میں گناہ چھوڑنا ہی کافی نہیں بلکہ دل پر جو زنگ جم چکا ہے اس کا دور کرنا بھی ضروری ہے۔ اس لئے اپنے گناہوں پر صدقِ دل سے ندامت اور آئندہ ترکِ گناہ کے عزم کے ساتھ ساتھ قابل تلافی امور کا انتظام (یعنی جن لوگوں کے ساتھ ظلم یا زیادتی اور لوٹ مار کی، ان کی داد رسی اور مال و متاع کی واپسی کا کماحقہ اہتمام کیا جائے۔) بھی توبہ کی ذیل میں آتا ہے۔ جس طرح گناہوں کے باعث تاریکی قلب کو گھیر لیتی ہے اسی طرح اس کے برعکس عبادات و اطاعات کا نور قلب کی تاریکی کے دور کرنے کا باعث بنتا ہے۔ سرکارِ دو عالم ﷺ نے اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
أَتْبِعِ السَّیِّئَۃَ الْحَسَنَۃَ تَمْحُهَا.
گناہ سرزد ہو جانے کے بعد فوراً نیک عمل کرو وہ (نیک عمل) اس گناہ کے اثرات مٹا دے گا۔
گویا توبہ احساسِ عبودیت کا جوہر ہے۔ عملِ توبہ سے تائب کا سینہ نورِ بصیرت کے لئے کھول دیا جاتا ہے اور وہ جہالت کے اندھیروں سے نکل کر بحفاظت ایمان کی راہ پر گامزن ہو جاتا ہے۔
گزشتہ صفحات میں بندوں پر توبہ واجب ہونے کے حوالے سے یہ امر واضح کیا گیا کہ یہ کوئی ایسا عمل نہیں جس سے کوئی صرفِ نظر کرے۔ عوام کے ذہن میں یہ مغالطہ پایا جاتا ہے کہ عملِ توبہ، عبادات میں سے ایک زائد عمل ہے کہ کوئی اسے بجا لائے یا نہ بجا لائے حالانکہ انسان طبعاً کمزور پیدا کیا گیا ہے اور یہ برائی کی جانب زیادہ مائل ہونے والا ہے۔ شیطان اور نفس کے بہکاوے میں آکر سیدھی راہ سے بھٹک جاتا ہے اور رب العزت کی ناشکری پر اتر آتا ہے۔ قرآن حکیم کی درج ذیل آیات مقدسہ میں ان بشری خصوصیات کو بلیغ انداز میں بیان کیا گیا ہے:
1۔ وَخُلِقَ الْاِنْسَانُ ضَعِیْفًاo
النساء، 4: 28
اور اِنسان کمزور پیدا کیا گیا ہے۔
2۔ بَلْ یُرِیْدُ الْاِنْسَانُ لِیَفْجُرَ اَمَامَهٗo
القیامۃ، 75: 5
بلکہ انسان یہ چاہتاہے کہ اپنے آگے (کی زندگی میں) بھی گناہ کرتا رہے۔
3۔ وَکَانَ الْاِنْسَانُ کَفُوْرًاo
بنی اسرائیل، 17: 67
اور انسان بڑا ناشکرا واقع ہوا ہے۔
4۔ وَکَانَ الْاِنْسَانُ اَکْثَرَ شَیْئٍ جَدَلًاo
الکهف، 18: 54
اور انسان جھگڑنے میں ہر چیز سے بڑھ کر ہے۔
انسان اپنی انہیں طبعی کمزوریوں کے باعث گناہوں میں آلودہ ہوتا چلا جاتا ہے، جھوٹی امیدوں کے سہارے عملِ توبہ سے پہلو تہی کرتا ہے۔ ہر روز انسانوں کو تہہ خاک دفن ہوتے دیکھ کر بھی اس کی آنکھیں اپنے گناہوں پر بند رہتی ہیں۔ طلبِ جاہ، مفاد پرستی، لالچ، خود غرضی وغیرہ جیسے رذائل اخلاق کے ہاتھوں اپنے شوق سے یرغمال بن کر اوامر و نواہی سے بے نیاز شب و روز بسر کرتا ہے۔ اس کے برعکس انسان کی اس واضح بغاوت کے باوجود قادرِ مطلق منتظر رہتا ہے کہ اس کا بندہ کب ندامت و شرمندگی محسوس کرتے ہوئے اس سے معافی کا طلب گار ہوتا ہے۔ مالک حقیقی نے ہر گناہ گار کے لئے توبہ کا دروازہ ہر وقت کھلا رکھا ہے۔ خواہ گناہ کتنے ہی بڑھ جائیں اس کا درِ توبہ بند نہیں ہوتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کی اپنے گناہ گار بندوں پر محبت و شفقت کی انتہا ہے۔ جب مالک اتنا مہربان، شفیق اور قدر داں ہو تو انسان کو چاہیے کہ کبھی تو اپنے شب و روز کا جائزہ لے، کبھی زمانے کا ایسا دستور دیکھا کہ مالک اپنے ایسے ماتحت پر اس کی نافرمانیوں کے باوجود ہر وقت اس سے محبت رکھے اور اس کے معافی مانگنے کا منتظر رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ قادر مطلق ہو کر بھی اپنے گناہ گار بندوں کی بخشش کے بہانے تلاش فرماتا ہے۔ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی اپنے بندوں پر بے حد و حساب رحمت کے باعث ہے، جو اس نے خود اپنے ذمۂ کرم پر اٹھا رکھی ہے۔ چنانچہ سورۂ انعام میں ارشاد فرمایا:
کَتَبَ عَلٰی نَفْسِهِ الرَّحْمَۃَ.
الأنعام، 6: 12
اُس نے اپنی ذات (کے ذِمّہ کرم) پر رحمت لازم فرما لی ہے۔
اگر بندہ اپنی بے عملی کے بالمقابل مولیٰ کی عنایات پر غور کرے تو یقینا شرمندگی اور ندامت سے اس کا سر جھک جائے۔ علامہ اقبال نے اپنی نظم ’جوابِ شکوہ‘ میں کیا خوب کہا ہے:
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے، رَہروِ منزل ہی نہیں
اللہ رب العزت اپنی مخلوق سے بہت محبت کرتا ہے۔ گنہگاروں کے توبہ کے عمل پر اپنی رحمت کی بارش کس قدر نازل فرماتا ہے اس کا اندازہ درج ذیل احادیث مبارکہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:
1۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مروی ایک حدیث مبارکہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
إِنَّ اللهَ خَلَقَ الرَّحْمَۃَ یَوْمَ خَلَقَهَا مِائَۃَ رَحْمَۃٍ، فَأَمْسَکَ عِنْدَهٗ تِسْعًا وَتِسْعِیْنَ رَحْمَۃً وَأَرْسَلَ فِي خَلْقِهٖ کُلِّهِمْ رَحْمَۃً وَاحِدَۃً، فَلَوْ یَعْلَمُ الْکَافِرُ بِکُلِّ الَّذِي عِنْدَ اللهِ مِنَ الرَّحْمَۃِ لَمْ یَیْئَسْ مِنَ الْجَنَّۃِ، وَلَوْ یَعْلَمُ الْمُؤْمِنُ بِکُلِّ الَّذِي عِنْدَ اللهِ مِنَ الْعَذَابِ لَمْ یَأْمَنْ مِنَ النَّارِ.
جس روز اللہ تعالیٰ نے رحمت کو پیدا فرمایا تو اس کے سو حصے کیے اور ننانوے حصے اپنے پاس رکھ کر ایک حصہ اپنی ساری مخلوق کے لیے بھیج دیا۔ پس اگر کافر بھی یہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کتنی رحمت ہے تو وہ بھی جنت سے مایوس نہ ہو؛ اور اگر مومن یہ جان جائے کہ الله تبارک و تعالیٰ کے ہاں کتنا عذاب ہے تو وہ (کبھی) جہنم سے بے خوف نہ ہو۔
2۔ صحیح مسلم میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مبارکہ یوں مروی ہے:
أَنَّ نَبِيَّ اللهِ ﷺ قَالَ: کَانَ فِیْمَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ رَجُلٌ قَتَلَ تِسْعَۃً وَتِسْعِیْنَ نَفْسًا، فَسَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَی رَاهِبٍ، فَأَتَاهُ فَقَالَ: إِنَّهُ قَتَلَ تِسْعَۃً وَتِسْعِینَ نَفْسًا، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَۃٍ؟ فَقَالَ: لَا، فَقَتَلَهُ، فَکَمَّلَ بِهِ مِائَۃً، ثُمَّ سَأَلَ عَنْ أَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ فَدُلَّ عَلَی رَجُلٍ عَالِمٍ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَتَلَ مِائَۃَ نَفْسٍ، فَهَلْ لَهُ مِنْ تَوْبَۃٍ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَمَنْ یَحُولُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ التَّوْبَۃِ، انْطَلِقْ إِلَی أَرْضِ کَذَا وَکَذَا، فَإِنَّ بِهَا أُنَاسًا یَعْبُدُوْنَ اللهَ فَاعْبُدِ اللهَ مَعَهُمْ، وَلَا تَرْجِعْ إِلَی أَرْضِکَ، فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْئٍ، فَانْطَلَقَ حَتَّی إِذَا نَصَفَ الطَّرِیقَ أَتَاهُ الْمَوْتُ، فَاخْتَصَمَتْ فِیْهِ مَلَائِکَۃُ الرَّحْمَۃِ وَمَلَائِکَۃُ الْعَذَابِ، فَقَالَتْ مَلَائِکَۃُ الرَّحْمَۃِ: جَائَ تَائِبًا مُقْبِلًا بِقَلْبِهٖ إِلَی اللهِ، وَقَالَتْ مَلَائِکَۃُ الْعَذَابِ: إِنَّهُ لَمْ یَعْمَلْ خَیْرًا قَطُّ، فَأَتَاهُمْ مَلَکٌ فِي صُوْرَۃِ آدَمِیٍّ فَجَعَلُوهُ بَیْنَهُمْ، فَقَالَ: قِیْسُوا مَا بَیْنَ الْأَرْضَیْنِ، فَإِلَی أَیَّتِهِمَا کَانَ أَدْنَی فَهُوَ لَهُ، فَقَاسُوهُ فَوَجَدُوهُ أَدْنَی إِلَی الْأَرْضِ الَّتِي أَرَادَ، فَقَبَضَتْهُ مَلَائِکَۃُ الرَّحْمَۃِ.
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگوں میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے قتل کئے تھے۔ اس نے زمین والوں میں سب سے بڑے عالم کے بارے میں پوچھا تو ایک راہب کی طرف اس کی رہنمائی کی گئی۔ وہ اس کے پاس آیا اور کہا کہ میں نے ننانوے قتل کئے ہیں، کیا میری توبہ قبول ہوگی؟ اس نے کہا: نہیں۔ چنانچہ اس شخص نے اس راہب کو بھی قتل کر دیا۔ پھر کسی اور عالم کے بارے میں پوچھا تو ایک عالم کی طرف راہنمائی کی گئی۔ اس نے کہا کہ میں نے سو قتل کیے ہیں کیا میری توبہ قبول ہو جائے گی؟ اس نے کہا: ہاں، بھلا تمہارے اور تمہاری توبہ کے درمیان کون حائل ہو سکتا ہے؟ فلاں علاقے کی طرف جاؤ، وہاں کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کے عبادت گزار ہیں۔ ان کے ساتھ مل کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرو اور اپنے علاقے کی طرف واپس نہ آنا کیوں کہ وہ برا علاقہ ہے۔ چنانچہ وہ اہل الله کی طرف چل پڑا۔ جب راستے کے درمیان میں پہنچا تو اسے موت آ گئی۔ (اب رحمت کے فرشتے اور عذاب کے فرشتے دونوں آگئے اور) اس (کو لے جانے) کے معاملے میں رحمت کے فرشتوں اور عذاب کے فرشتوں میں جھگڑا ہونے لگا۔ رحمت کے فرشتے کہنے لگے: یہ شخص صدقِ دل سے توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف جا رہا تھا، جبکہ عذاب کے فرشتوں نے کہا: اس نے کبھی بھی اچھا عمل نہیں کیا۔ ایک فرشتہ انسانی صورت میں آیا اور پہلے فرشتوں نے اسے اپنا فیصل بنا لیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ دونوں زمینوں کے درمیان فاصلے کی پیمائش کرو، وہ جس علاقے کے قریب ہو گا اسے اسی علاقے کا قرار دیا جائے گا۔ زمین کی پیمائش کی گئی تو دیکھا کہ وہ اس زمین کے زیادہ قریب تھا جس بستی میں اس نے جانے کا قصد کیا تھا۔ چنانچہ رحمت کے فرشتوں نے اس پر اپنا قبضہ کر لیا۔
3۔ امام بخاری سے مروی روایت میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے پہلی زمین کو حکم دیا گیا کہ تو پھیل جا اور نیک بستی والی زمین سے فرمایا کہ تو سکڑ جا۔ پیمائش میں بستی والی زمین کو ایک بالشت قریب پایا گیا تو اسے بخش دیا گیا۔
بخاری، الصحیح، کتاب الانبیاء، باب حدیث الغار، 3: 1280، رقم: 3283
اس حدیثِ مبارکہ سے جہاں خلوص سے کی گئی توبہ کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے وہاں اہل الله کی قربت و معیت اختیار کرنے اور ان کی صحبت و مجلس میں حاضر ہونے کی افادیت کا ذکر بھی ملتا ہے۔
4۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے روایت کیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے یہ سنا کہ اللہ تعالیٰ کو اپنے بندہ مومن کی توبہ پر اس سے زیادہ خوشی ہوتی ہے کہ ایک شخص کسی ہلاکت خیز سنسان جنگل میں اپنی سواری پر جائے جس پر اس کے کھانے پینے کی چیزیں لدی ہوں، وہ سو جائے۔ جب وہ بیدار ہو تو سواری کہیں جا چکی ہو۔ وہ سواری کی تلاش کرتا رہے حتیٰ کہ اس کو سخت پیاس لگ جائے۔ پھر وہ کہے کہ میں واپس جاتا ہوں جہاں پر میں پہلے تھا میں وہاں سو جاؤں حتیٰ کہ مر جاؤں۔ وہ کلائی پر سر رکھ کر لیٹ جاتا ہے تاکہ مر جائے، پھر وہ بیدار ہوتا ہے تو اس کے پاس سواری (کھڑی) ہوتی ہے اور اس پر اس کی خوراک اور کھانے کی چیزیں رکھی ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ کو بندۂ مومن کی توبہ پر اس شخص کے سواری اور زادِ راہ پا لینے سے زیادہ خوشی ہوتی ہے۔
5۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِیَدِهٖ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللهُ بِکُمْ وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ یُذْنِبُونَ فَیَسْتَغْفِرُونَ اللهَ فَیَغْفِرُ لَهُمْ.
مسلم، الصحیح، کتاب التوبۃ، باب سقوط الذنوب بالاستغفار توبۃ، 4: 2106، رقم: 2749
اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، اگر تم لوگ گناہ نہ کرتے تو اللہ تعالیٰ تم کو لے جاتا اور تمہارے بدلے میں ایک ایسی قوم لاتا جو گناہ کرتی اور اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرتی اور اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرماتا۔
اس حدیث کا منشا یہ نہیں ہے کہ لوگ گناہ کریں پھر مغفرت چاہیں بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ جب گناہوں سے کلیتاً کوئی بھی پاک نہیں تو اللہ تبارک و تعالیٰ کو ایسے لوگ پسند ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں پر استغفار کرتے رہیں کیونکہ انسان کتنے ہی نیک اعمال بجالائے، عبادات کرے وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی لا متناہی نعمتوں میں سے کسی ایک نعمت کا بھی کماحقہ حق ادا نہیں کر سکتا۔ جب بندگی کی دوڑدھوپ میں گناہوں کا صدور ہوتا رہتا ہے تو توبہ سے غفلت کسی طرح بھی نہیں ہونی چاہیے۔ یہ حدیث مقدسہ معافی مانگنے والے گنہ گاروں پر اللہ تعالیٰ کی کمال رحمت کی آئینہ دار ہے۔
بے نیاز ہونا اللہ تعالیٰ کی صفتِ عظیم ہے۔ اس کی بے نیازی بھی کتنی عجیب تر ہے کہ خود اپنے بندے کی ایک ایک حاجت کا ذکر کرتا ہے، پھر اسے مانگنے کی ہمت دلاتا ہے اور پھر عنایات کی ختم نہ ہونے والی بارش کا ذکر کرتا ہے۔ انسان چونکہ کمزور اور نا سمجھ ہے، خیال کر سکتا ہے کہ ہر کسی کے لئے اس قدر نعمتیں کیسے ممکن ہیں۔ تو اس ناکارہ سوچ کا اللہ تعالیٰ نے یہ کہہ کر رد فرما دیا کہ ساری مخلوق کی تمام حاجات کو پورا کر دوں تو میرے خزانہ رحمت میں اتنی کمی بھی ممکن نہیں جتنی سوئی کو سمندر میں ڈال کر اس سے چمٹے ہوئے پانی سے ہو سکتی ہے۔
6۔ اللہ تعالیٰ کی اس شان رحمت کا ذکر ایک حدیثِ قدسی میں بیان کیا گیا ہے جسے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
یَا عِبَادِي إِنِّي حَرَّمْتُ الظُّلْمَ عَلَی نَفْسِي، وَجَعَلْتُهُ بَیْنَکُمْ مُحَرَّمًا، فَـلَا تَظَالَمُوا، یَا عِبَادِي کُلُّکُمْ ضَالٌّ إِلَّا مَنْ هَدَیْتُهٗ، فَاسْتَهْدُونِي أَهْدِکُمْ، یَا عِبَادِي کُلُّکُمْ جَائِعٌ إِلَّا مَنْ أَطْعَمْتُهُ، فَاسْتَطْعِمُونِي أُطْعِمْکُمْ، یَا عِبَادِي کُلُّکُمْ عَارٍ إِلَّا مَنْ کَسَوْتُهٗ، فَاسْتَکْسُوْنِي أَکْسُکُمْ، یَا عِبَادِي إِنَّکُمْ تُخْطِئُونَ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَارِ وَأَنَا أَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا، فَاسْتَغْفِرُوْنِي أَغْفِرْ لَکُمْ، یَا عِبَادِي إِنَّکُمْ لَنْ تَبْلُغُوا ضَرِّي فَتَضُرُّوْنِي وَلَنْ تَبْلُغُوا نَفْعِي، فَتَنْفَعُوْنِي، یَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَتْقَی قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ مِنْکُمْ، مَا زَادَ ذَلِکَ فِي مُلْکِي شَیْئًا، یَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ کَانُوا عَلَی أَفْجَرِ قَلْبِ رَجُلٍ وَاحِدٍ، مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِنْ مُلْکِي شَیْئًا، یَا عِبَادِي لَوْ أَنَّ أَوَّلَکُمْ وَآخِرَکُمْ وَإِنْسَکُمْ وَجِنَّکُمْ قَامُوا فِي صَعِیْدٍ وَاحِدٍ فَسَأَلُونِي فَأَعْطَیْتُ کُلَّ إِنْسَانٍ مَسْأَلَتَهُ، مَا نَقَصَ ذَلِکَ مِمَّا عِنْدِي إِلَّا کَمَا یَنْقُصُ الْمِخْیَطُ إِذَا أُدْخِلَ الْبَحْرَ، یَا عِبَادِي إِنَّمَا هِيَ أَعْمَالُکُمْ أُحْصِیْهَا لَکُمْ ثُمَّ أُوَفِّیْکُمْ إِیَّاهَا، فَمَنْ وَجَدَ خَیْرًا فَلْیَحْمَدِ اللهَ، وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَلِکَ فَـلَا یَلُومَنَّ إِلَّا نَفْسَهُ، قَالَ سَعِیْدٌ: کَانَ أَبُو إِدْرِیْسَ الْخَوْلَانِيُّ إِذَا حَدَّثَ بِهٰذَا الْحَدِیْثِ جَثَا عَلَی رُکْبَتَیْهٖ.
اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام کیا ہے اور میں نے تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام کر دیا، لهٰذا تم ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو، اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو، سوا اس کے جسے میں ہدایت دوں۔ سو تم مجھ سے ہدایت طلب کرو، میں تمہیں ہدایت دوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو، سوا اس کے جسے میں کھانا کھلائوں۔ پس تم مجھ سے کھانا طلب کرو، میں تمہیں کھانا کھلائوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب بے لباس ہو، سوا اس کے جسے میں لباس پہنائوں۔ لهٰذا تم مجھ سے لباس مانگو میں تمہیں لباس پہنائوں گا۔ اے میرے بندو! تم سب دن رات گناہ کرتے ہو اور میں تمام گناہوں کو بخشتا ہوں، تم مجھ سے بخشش طلب کرو، میںتمہیں بخش دوں گا۔ اے میرے بندو! تم کسی نقصان کے مالک نہیں ہو کہ مجھے نقصان پہنچا سکو اور تم کسی نفع کے مالک نہیں کہ مجھے نفع پہنچا سکو۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر اور تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ متقی شخص کی طرح ہو جائیں تو میرے ملک میں کچھ اضافہ نہیں کر سکتے اور اے میرے بندو! اگر تمہارے اول و آخر اور تمہارے انسان اور جن تم میں سے سب سے زیادہ بدکار شخص کی طرح ہو جائیں تو میرے ملک سے کوئی چیز کم نہیں کر سکتے اور اے میرے بندو! اگر تمہارے اول اور آخر اور تمہارے انسان اور جن کسی ایک جگہ کھڑے ہو کر مجھ سے سوال کریں اور میں ہر انسان کا سوال پورا کر دوں تو جو کچھ میرے پاس ہے اس سے صرف اتنا بھی کم نہ ہو گا جس طرح سوئی کو سمندر میں ڈال کر (نکالنے سے) اس میں کمی ہوتی ہے۔ اے میرے بندو! یہ تمہارے اعمال ہیںجنہیں میں تمہارے لیے جمع کر رہا ہوں، پھر میںتمہیں ان کی پوری پوری جزا دوں گا۔ پس جو شخص خیر کو پائے وہ اللہ کی حمد کرے اور جس کو خیر کے سوا کوئی چیز (مثلاً آفت یا مصیبت) پہنچے وہ اپنے نفس کے سوا اور کسی کو ملامت نہ کرے۔ سعید بیان کرتے ہیں کہ ابو ادریس خولانی جس وقت یہ حدیث بیان کرتے تھے تو گھٹنوں کے بل جھک جاتے تھے۔
اس حدیث قدسی میں صمیمِ قلب سے توبہ طلب کرنے والوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی وسعت رحمت کا بیان ہے۔
یہاں ذہن میں یہ سوال آسکتا ہے کہ جب مالک حقیقی کی بے نیازی کا یہ عالم ہے تو پھر بندوں کو بار بار توبہ کی طرف متوجہ کرنے کا کیا سبب ہے؟ جیسا کہ قرآن حکیم کی متعدد آیات مبارکہ اور اسی طرح متعدد احادیثِ رسول ﷺ اس کی شاہد ہیں۔ دستورِ زمانہ تو یہ ہے کہ کوئی تعلق رکھنے والا شخص اگر دشمن سے جا ملے اور عمر کا بیشتر حصہ اسی کے ساتھ گزار دے، پھر کسی سخت اور شدید مجبوری کے باعث اسے آپ سے کوئی ضرورت آن پڑے اور وہ آپ کے در پر آجائے تو اسے دھتکار دیا جاتا ہے کہ جس دشمن کے ساتھ ہماری مخالفت میں عمر بسر کی ہے اسی کی طرف لوٹ جاؤ، یہاں کس منہ سے آئے ہو!
لیکن رب العزت کے ہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ اس بارگاہ کے متعلق ابو سعید ابو الخیر نے اپنی ایک رباعی میں کیا خوب نقشہ کھینچا ہے:
باز آ باز آ ہر آں چہ ہستی باز
گر کافر و گبر و بت پرستی باز
ایں درگہہ ما درگہہ نومیدی نیست
صد بار اگر توبہ شکستی باز
اے گنہگار! تو جو کوئی بھی ہے میری بارگاہ کی طرف پلٹ آ خواہ تو کافر ہے یا آتش پرست ہے یا بت پرست لوٹ آ۔ میری بارگاہ نا امیدی کی بارگاہ نہیں۔ اگر تو نے سو بار بھی توبہ شکنی کی ہے تو پھر بھی لوٹ آ۔
بے شک اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت اس کے حضور حاضر ہونے والے تائب کے لئے ہمہ وقت منتظر رہتی ہے۔ اللہ تعالیٰ معاف کرنے کا تو بس بہانہ بناتا ہے۔ بندے کے ڈھیروں عمل سے بے نیاز ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اپنی مخلوق سے محبت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا۔ وہ ذات نہیں چاہتی کہ اس کے بندے دوزخ کا ایندھن بنیں۔
یہ عام مشاہدہ ہے کہ معاملات زندگی میں کسی کمی و بیشی پر اپنی سابقہ خطا کے حوالے سے مرتے دم تک انسان کو طعن و تشنیع کے تیروں کو برداشت کرنا پڑتا ہے جبکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے نزدیک سچی توبہ کرنے والا ایسے ہے جیسے اس نے کوئی گناہ کیا ہی نہیں۔ ایسے اولیائے کرام ہو گزرے ہیں جن کی قبولِ توبہ سے قبل کی زندگی لہو و لعب میں بسر ہوئی لیکن توبہ کے بعد تو رُشد و ہدایت کے ایسے امام بنا دیئے گئے کہ ان کی سابقہ زندگی کی یاد تک دلوں سے محو ہو گئی۔
جب یہ امر واضح ہو گیا کہ توبہ کئے بغیر بخشش کا حصول ممکن نہیں اور اللہ رب العزت معافی طلب کرنے والے گناہ گاروں سے محبت بھی کرتا ہے تو پھر کیا امر مانع ہے کہ بندہ اپنی بخشش کا سامان جمع نہیں کرتا۔
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر کرم کرنے اور اس کی توبہ قبول کرنے کے لیے ہر وقت تیار اور گنہگار کی توبہ کا منظر رکھتا ہے۔ یہ چیز اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ انسان توبہ کے عمل میں ایک لمحہ بھی تاخیر نہ کرے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔
یہ ایک عام انسانی رویہ ہے کہ بھلائی اور خیر کے کام سرانجام دینے میں انسان طبعی سستی کے باعث ٹال مٹول سے کام لیتا ہے۔ نفس اور شیطان اس کے دل میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ اتنی جلدی کیا ہے؟ ساری عمر نیک کاموں کے لئے پڑی ہے۔ اسی غلط سوچ کے متعلق حضرت لقمان کا ایک قول نقل ہے جو انہوں نے اپنے بیٹے کو نصیحت کے وقت فرمایا:
یَا بُنَيَّ لَا تُؤَخِّرِ التَّوْبَۃَ، فَإِنَّ الْمَوْتَ یَأْتِيْ بَغْتَۃً.
اے میرے بیٹے! توبہ میں تاخیر نہ کرنا کیونکہ موت اچانک آجاتی ہے۔
الله تبارک و تعالیٰ اپنے بندوں کو غفلت کی نیند سے بیدار کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
اَفَـلَا یَتُوْبُوْنَ اِلَی اللهِ وَیَسْتَغْفِرُوْنَهٗ ط وَاللهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌo
المائدۃ، 5: 74
کیا یہ لوگ اللہ کی بارگاہ میں رجوع نہیں کرتے اور اس سے مغفرت طلب (نہیں) کرتے، حالانکہ الله بڑا بخشنے والا، بہت رحم فرمانے والا ہے۔
چنانچہ انسان کو جو لمحہ میسر ہے اسے قیمتی سمجھتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کرے۔ صحابہ کرام l اور تابعین سے بکثرت روایت ہے کہ موت کا فرشتہ بندے کو بتاتا ہے کہ یہ تیری عمر کی آخری گھڑی باقی ہے اور اب لمحہ بھر بھی موت میں تاخیر نہیں ہو گی، تو اس پر افسوس اور حسرت کی ایک کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ اگر اِس وقت اُس کے پاس آغاز سے انجام تک کی ساری دنیا ہو تو وہ دے کر ایک گھڑی ہی مزید حاصل کر لے تاکہ تائب ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہو سکے۔ علمائے راسخین فرماتے ہیں کہ بندے پر جو گھڑی بھی گزرتی ہے وہ اُسی ایک گھڑی کی مانند ہے جس کی وہ وقتِ مرگ فرشتے سے تمنا کرتا ہے۔ پس جو گھڑی میسر ہے، اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں سے توبہ طلب کرنے میں دیر نہ کرے۔ الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
وَلَیْسَتِ التَّوْبَۃُ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ ج حَتّٰی اِذَا حَضَرَ اَحَدَهُمُ الْمَوْتُ قَالَ اِنِّیْ تُبْتُ الْئٰنَ وَلَاالَّذِیْنَ یَمُوْتُوْنَ وَهُمْ کُفَّارٌ ط اُولٰئِٓکَ اَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَاباً اَلِیْماًo
النساء، 4: 18
اور ایسے لوگوں کے لیے توبہ (کی قبولیت) نہیں ہے جو گناہ کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ ان میں سے کسی کے سامنے موت آ پہنچے تو (اس وقت) کہے کہ میں اب توبہ کرتا ہوں اور نہ ہی ایسے لوگوں کے لیے ہے جو کفر کی حالت پر مریں، ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔
اس حالت کو سوء خاتمہ کہتے ہیں (ہم اللہ تعالیٰ سے اس کی پناہ کے خواستگار ہیں) درج ذیل آیت کریمہ انسان کی بر وقت صحیح رہنمائی کرتی ہے:
اِنَّمَا التَّوْبَۃُ عَلَی اللهِ لِلَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السُّوْٓءَ بِجَهَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوْبُوْنَ مِنْ قَرِیْبٍ۔
النساء، 4: 17
اللہ نے صرف انہی لوگوں کی توبہ قبول کرنے کا وعدہ فرمایا ہے جو نادانی کے باعث برائی کر بیٹھیں پھر جلد ہی توبہ کر لیں۔
یہ دنیوی زندگی ایک امانت ہے۔ بشری تقاضوں کے باعث بھُول چُوک سے کوئی انسان پاک نہیں۔ یہ امانت تبھی برقرار رہ سکتی ہے اگر انسان صدقِ دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے گناہوں پر معافی کا خواستگار رہے۔
ٹال مٹول کرتے ہوئے توبہ میں تاخیر کرنا دو خطرات سے خالی نہیں ہے: ایک یہ کہ اس کے باعث دل پر گناہوں کی تاریکی مسلسل جمع ہو کر زنگ اور مُہر کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس کا دور کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
قرآن مجید سورۃ المطففین میں اس کا ذکر یوں فرمایا گیا ہے:
کَلَّا بَلْ سکتہ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِهِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَo
المطففین، 83: 14
(ایسا) ہر گز نہیں بلکہ (حقیقت یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان اعمالِ (بد) کا زنگ چڑھ گیا ہے جو وہ کمایا کرتے تھے (اس لیے آیتیں ان کے دل پر اثر نہیں کرتیں)۔
دوسرا خطرہ یہ ہے کہ کوئی مہلک بیماری یا موت اچانک آجائے اور اسے گناہ کے ازالے کی مہلت ہی نہ ملے۔ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا ہے:
وَقَالُوْٓا اٰمَنَّا بِهٖ ط وَاَنّٰی لَهُمُ التَّنَاوُشُ مِنْ مَّکَانٍم بَعِیْدٍo
سبا، 34: 52
اور کہیں گے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، مگر اب وہ (ایمان کو اتنی) دُور کی جگہ سے کہاں پا سکتے ہیں۔
ایک دوسرے مقام پر سورۃ المنافقون میں ارشاد ہوا:
وَ اَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰـکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْ لَآاَخَّرْتَنِیْٓ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَo وَ لَنْ یُّؤَخِّرَ اللهُ نَفْسًا اِذَا جَآئَ اَجَلُهَا ط وَاللهُ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَo
المنافقون، 63: 10، 11
اور تم اس (مال) میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرو قبل اِس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے پھر وہ کہنے لگے: اے میرے رب! تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کی مہلت اور کیوں نہ دے دی کہ میں صدقہ و خیرات کرلیتا اور نیکوکاروں میں سے ہو جاتا۔ اور اللہ ہرگز کسی شخص کو مہلت نہیں دیتا جب اس کی موت کا وقت آجاتا ہے، اور اللہ اُن کاموں سے خوب آگاہ ہے جو تم کرتے ہو۔
صاحبِ ’قُوت القلوب‘ ابو طالب مکی توبہ کے باب میں کسی عارف کا قول نقل کرتے ہیں:
إِنَّ ِﷲِ تَعَالٰی إِلٰی عَبْدِهٖ سِرَّیْنِ یُسِرُّهُمَا إِلَیْهِ یُوْجَدُهٗ ذٰلِکَ بِإِلْهَامٍ یُلْهِمُهٗ، أَحَدُهُمَا: إِذَا وَلَدَ وَخَرَجَ مِنْ بَطَنِ أُمِّهٖ، یَقُوْلُ لَهٗ: عَبْدِيْ قَدْ أَخْرَجْتُکَ إِلَی الدُّنْیَا طَاهِراً نَظِیْفاً، واسْتَوْدَعْتُکَ عُمْرَکَ ائْتَمَنْتُکَ عَلَیْهِ، فَانْظُرْ کَیْفَ تَحْفَظُ الْأَمَانَۃَ؟ وَأَنْظُرُ کَیْفَ تَلْقَانِيْ کَمَا أَخْرَجْتُکَ، وَسِرَّ عِنْدَ خُرُوْجِ رُوْحِهٖ، یَقُوْلُ: عَبْدِيْ مَاذَا صَنَعْتَ فِيْ أَمَانَتِيْ عِنْدَکَ؟ هَلْ حَفِظْتَهَا حَتّٰی تَلْقَانِيْ عَلَی الْعَهْدِ وَالرِّعَایَۃَ، فَأَلْقَاکَ بِالْوَفَاءِ وَالْجَزَائِ أَوْ أَضَعْتُهَا فَأَلْقَاکَ بِالْمَطَالَبَۃِ وَالْعِقَابِ؟
أبو طالب مکی، قوت القلوب، 1: 368
اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کے ساتھ دو سرگوشیاں ہیں، جو وہ اپنے بندے کے ساتھ کرتا ہے، ان میں سے سرگوشی کو اللہ تعالیٰ ایک الہام کے ساتھ ایجاد کرتا وہ الہام جو وہ اپنے بندے کی طرف کرتا ہے۔ ایک اُس وقت جب اس کی ولادت ہوتی ہے اور وہ اپنی ماں کے پیٹ سے نکلتا ہے تو اسے کہا جاتا ہے: اے میرے بندے! میںنے تجھے دنیا کی طرف پاک اور صاف نکالا ہے اور تجھے عمر بطور امانت دی ہے۔ تو اس پر امین بنایا گیا ہے اس لئے دیکھتے رہنا کہ تو اس کی کس طرح حفاظت کرتا ہے۔ دوسرا الہام اس کی روح قبض کرتے وقت ہوتا ہے۔ فرمایا جاتا ہے، اے بندے! میری امانت تیرے پاس تھی۔ اس کے ساتھ تو نے کیا کیا؟ کیا تو نے اس کی حفاظت کی؟ میری اس ملاقات تک وعدے پر قائم رہا! اگر قائم رہا تو میں بھی اپنا قول پورا کروں گا اور اگر تم نے امانت کو ضائع کردیا تو میں عذاب کے ذریعے تجھ سے ملاقات کروں گا۔
قرآن مجید کی درج ذیل آیت میں اسی طرف اشارہ ہے:
وَاَوْفُوْا بِعَهْدِیْٓ اُوْفِ بِعَهْدِکُمْ.
البقرۃ، 2: 40
اور تم میرے (ساتھ کیا ہوا) وعدہ پورا کرو، میں تمہارے (ساتھ کیا ہوا) وعدہ پورا کروں گا۔
بندے کی عمر اُس کے پاس ایک امانت ہے۔ اگر اس نے حفاظت کی تو امانت ادا کر دی اور اگر اسے برباد کر دیا تو اللہ تعالیٰ کی امانت میں خیانت کا مرتکب ہوا۔ تو کیا یہ بہتر نہیں کہ اِس وقت جو ساعت میسر ہے اِس سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے قلب سلیم کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کے لئے حاضر ہوا جائے۔
زندگی درحقیقت لمحۂ موجود سے ہی عبارت ہے۔ کیا خبر اگلی سانس آتی بھی ہے یا نہیں۔ چنانچہ توبہ اور اصلاح میں تاخیر الله تعالیٰ کی طرف سے دی جانے والی مہلت سے محروم ہونے کا سبب بن سکتی ہے۔ موت انسان کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔ جب اچانک اس پر موت کا وقت آجاتا ہے تو وہ حیرت زدہ ہو کر فرشتے سے مہلت کا طلبگار ہوتا ہے کہ اسے مہلت دے تاکہ رب العزت کے حضور کوئی عذر پیش کر سکے۔ توبہ کے لئے موت سے قبل تک مہلت ہے لیکن افسوس کہ ساری عمر گزر جاتی ہے بندہ عموماً تائب ہونے کے عمل کو ٹالتا رہتا ہے یہاں تک کہ آثارِ موت نمودار ہو جاتے ہیں اور یہ وہ وقت ہوتا ہے کہ توبہ کی مہلت ختم ہو چکی ہوتی ہے۔ ہر گزرنے والا دن بندے کو موت سے قریب تر کرتا جا رہا ہے۔ مزید وقت ضائع کئے بغیر انسان کو توبہ کی جملہ شرائط بجالاتے ہوئے صمیمِ قلب سے الله تعالیٰ کے حضور توبہ کر لینی چاہیے کیونکہ جو کام کل پر ٹالا جائے اور خصوصاً جب وہ کل اپنے ہاتھ میں بھی نہ ہو تووہ ناتمام رہ جاتا ہے۔ سچی توبہ سے گناہ نیکیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved