توبہ کیا ہے؟ یہ دراصل گناہوں بھری زندگی پر ندامت کا مخلصانہ اظہار ہے۔ توبہ گناہوں سے طبعاً نفرت ہو جانے کا نام ہے۔ توبہ بخششِ عام کا وہ دروازہ ہے جو ہمیشہ کھلا رہتا ہے۔ توبہ گناہوں سے لت پت بندے کا رب العزت کے حضور اخلاص کے ساتھ رجوع کرتے ہوئے دستِ سوال دراز کرنے کا نام ہے جس کا منتظر خود رب ذوالجلال والاکرام ہے۔ توبہ بے نیاز مالک کے حضور ایک گنہگار بندے کا اپنے سابقہ گناہوں پر شرم سار ہو کر نیاز مند ہو جانے کا نام ہے۔
توبہ و استغفار کے زیر عنوان یہ کتاب حضرت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے اُن چالیس خطابات کی ایک کتابی شکل ہے، جو آپ نے مختلف روحانی اور تربیتی اجتماعات میں اصلاحِ احوالِ امت کے حوالے سے ارشاد فرمائے۔ اس کے مطالعہ سے قارئین بخوبی اندازہ لگا سکیں گے کہ درد دل بانٹنے کے عمل میں بخل سے کام نہیں لیا گیا۔ اس ضرورت کو شدت سے محسوس کیا جا رہا تھا کہ دیرپا اثرات کے لئے تحریر، تقریر کی نسبت زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے چنانچہ انہیں خطابات کو کتابی شکل دینے کی یہ ایک کاوش ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ انسانی قلوب پر اثر انداز ہونے والی ظلمتوں کے باعث ہماری روحانی قدریں لمحہ بہ لمحہ زوال پذیر ہیں، جس کے باعث دینی ذوق وعمل میں واضح کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔ مغرب کی مادی تہذیب کی ظاہری چکا چوند سے مرعوب مسلم امت اپنی قابل فخر اخلاقی و روحانی اور تہذیبی روایات کو فراموش کر کے اپنا تعلق اسلامی علمی مراکز اور روحانی چشموں سے منقطع کر چکی ہے۔ ہم مغربی اور یورپی اقوام کے معاشرتی، سماجی اور سیکولر طور طریقوں سے اس قدرمرعوب ہو چکے ہیں کہ محض دنیوی زندگی ہی ہمارا مرکز ومحور بن کر رہ گئی ہے۔ صورت حال اس قدر افسوسناک ہو چکی ہے کہ جو طبقہ بظاہر دین پر عمل پیرا نظر آرہا ہے وہ بھی الا ما شاء اللہ دین کو حصول دنیا کے لئے ہی استعمال کر رہا ہے۔ قول وفعل کا یہ تضاد اس قدر عام ہو چکا ہے کہ اب اسے باعث شرم بھی تصور نہیں کیا جاتا۔ ان حالات میں کوئی نئی نسل سے کیا توقعات وابستہ کر سکتا ہے؟ کسی واضح نصب العین کے بغیر بے مقصد زندگی بسر کرنے کے اس عمل نے انسان اور حیوان میں عملاً تمیز ختم کر دی ہے۔ نتیجتاً روحانی بالیدگی، انسانی ہمدردی، ایثار کوشی، وفا شعاری، ایفائے عہد، اصول پسندی، صبر وشکر اور عفوو درگزر جیسی اعلیٰ اقدار جو انسانیت کے لیے باعث شرف و اعزاز ہیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ انسان مالک حقیقی کو بھول کر اپنی نفسانی خواہشات کا پجاری بن چکا ہے۔ ایسے ماحول میں صحیح کام امت کو اس کی اصل کی طرف رجوع کرنا یعنی امت کا پھر سے اللہ تبارک تعالیٰ سے ٹوٹا ہوا تعلق بحال کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی توفیق سے حضرت شیخ الاسلام نے اس سلسلے میں سوچ وبچار کے بعد باقاعدہ نظم کے ساتھ اپنی جدوجہد کا آغاز توبہ واستغفار کے عنوان سے شروع کیا کیونکہ یہی وہ پہلا قدم ہے جس پر اگر انسان صدقِ دل سے عمل پیرا ہو جائے اور جملہ شہوات سے توبہ کر کے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹ آئے تو پھر بقیہ تمام دینی اقدار از خود اس کی زندگی میں بحال ہو سکتی ہیں۔
توبہ واستغفار ہی حقیقی سعادت وکامرانی اور اُخروی نجات کی راہ ہے۔ اس سے قبل کسی جانب سے کم از کم عوامی سطح پر ایسی کوئی بھر پور اور شعوری کوشش نہیں کی گئی، الحمد للہ نوجوان نسل کی ایک بھاری تعداد اس مخلصانہ کوشش کے نتیجے میں رجوع الی اللہ کی جانب مائل ہوئی۔ تحریک منہاج القرآن سے لاکھوں نوجوانوں کی والہانہ وابستگی اس حقیقت کا واضح ثبوت ہے۔
دین سے تعلق احیاء وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ یہ تحریری کاوش بھی اس سلسلے کی کڑی ہے جس کے مطالعہ سے رجوع الی اللہ کے راستے کھل سکتے ہیں اور طہارتِ باطنی کا داعیہ من میں جنم لے سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں دعا ہے کہ وہ امت مسلمہ کے احوال پر رحم فرمائے اور اس سعیِ ناتمام کو عوام و خواص میں شرفِ قبولیت سے نوازے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ)
(جلیل اَحمد ہاشمی)
صدر شعبہ ادبیات
فریدِ ملّتؒ رِیسرچ اِنسٹی ٹیوٹ
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved