پاکستان کے عوام ایک بنیادی تبدیلی کے آرزو مند ہیں، لیکن ہر چار پانچ سال کے بعد تبدیلی کے نام پر انہیں دھوکہ دیا جاتا ہے۔ اس کرپٹ سسٹم، نااَہل قیادتوں اور غیر شفاف نظام اور غیر مؤثر حکومتوں کے نتیجے میں اس قوم پر ہر طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں۔ لوگ بنیادی ضرورتوں سے محروم ہو کر خودکشیوں پر مجبور ہیں۔ جان و مال کی ہلاکت اور دہشت گردی، قتل وغارت اور لوٹ مار اِن کا مقدر بن چکا ہے۔ لوگ بجلی، سوئی گیس اور پانی کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں؛ بے روزگاری نئی نسل کو چور ڈاکو بننے کی ترغیب دے رہی ہے۔ نسلی، علاقائی، لسانی تعصبات نے ملک کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔ یہاں المیہ یہ ہے کہ لوگ پانچ سال تک اِس نظام کے خلاف اپنی نفرتوں اور غیظ و غضب کو پالتے رہتے ہیں اور اپنے دشمن کو پہچاننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں تاکہ آئندہ ان سے نجات حاصل کریں مگر بدقسمتی سے جوں ہی چار یا پانچ سال پورے ہوتے ہیں، اُن کا وہی دشمن نئے انداز سے دوستی، وفاداری، ہم دردی اور محبت کا لباس اوڑھ لیتا ہے اور یہی رہزن ان کی عزت و آبرو اور جان و مال کے محافظ کا روپ دھار کر سامنے آجاتے ہیں۔ اپنے دشمن کی پہچان نہ رکھنے والی بے سمت، تباہ حال اور بدنصیب قوم پھر اُنہی رہزنوں کو دوست اور مسیحا سمجھ کر اگلے پانچ سال کے لیے منتخب کرلیتی ہے۔ اِس طرح وہ تمام نفرت اور غیظ و غصب جو گزشتہ پانچ سالوں میں کرپٹ عناصر کی لوٹ مار کے باعث لوگوں کے دلوں میں پیدا ہوا تھا اور جس کے نتیجے میں ان کی آنکھوں سے پردے اٹھ رہے تھے اور وہ حقائق سے آگاہ ہو رہے تھے ۔ سب بے کار چلا جاتا ہے اور شعور کا چراغ پھر بجھ جاتا ہے۔
آنے والے انتخابات کا نقشہ کیا ہوگا؟ اس کا متوقع منظر نامہ بالکل واضح ہے۔ پیپلز پارٹی کے ووٹ کا تناسب (ratio) کم و بیش وہی رہے گا، دو فیصد سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ چنانچہ پیپلز پارٹی کی اسی حیثیت کے ساتھ چند سیٹیں کم ہوجائیں گی، وہ پارلیمنٹ میں دوبارہ آئے گی۔ سندھ میں اس کی جو اپنی پوزیشن ہے وہی رہے گی البتہ پنجاب میں تھوڑا فرق پڑے گا، سرحد اور بلوچستان میں تھوڑے فرق کے ساتھ مینڈیٹ ملے گا۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کو مینڈیٹ ملے گا اگرچہ نئی قوتوں کے میدان میں آنے سے یقینا کچھ plus، minus بھی ہوگا۔ پنجاب میں کچھ سیٹیں مسلم لیگ (ن) لے گی، کچھ (ق) لیگ والے اور کچھ نئے امید وار بھی لیں گے؛ لہٰذا یہاں مینڈیٹ پہلے سے بھی زیادہ split ہو جائے گا۔ کراچی، حیدر آباد اور سکھر کی شہری آبادیوں میں MQM کا جو مینڈیٹ ہے وہی رہے گا۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اور سندھ کی چند سیٹیں جو باقی سندھی لے جاتے ہیں، دوبارہ وہی لے جائیں گے۔ بلوچستان کی مختلف مقامی جماعتوں کا مینڈیٹ بھی اُسی طرح برقرار رہے گا یعنی جو پارٹی رہنماؤں کی اپنی سیٹیں ہیں اور جہاں جماعتوں کی involvement ہے وہ اسی طرح same رہے گی۔ صوبہ خیبر پختونخواہ میں ANP، مذہبی جماعتیں اور پیپلز پارٹی ہے؛ وہاں بھی مینڈیٹ split ہوگا۔ اس طرح پہلے سے زیادہ split مینڈیٹ کے ساتھ نئی پارلیمنٹ وجود میں آئے گی جو فیصلوں میں مزید کمزور اور بے اختیار ہوگی۔ اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال ہے کہ کوئی سیاسی جماعت ان انتخابات میں سویپ کر جائے گی تو اس خواب سے باہر آجائے۔ یہ پاکستان کے کل موجودہ انتخابات کا متوقع انجام ہے۔
عزیزانِ وطن! جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ تبدیلی مسلح طاقت سے نہیں آسکتی، یہ دہشت گردی کا راستہ ہے۔ نہ فوج کے ذریعے آسکتی ہے کیونکہ یہ آمریت کا راستہ ہے اور نہ موجودہ نظام انتخاب کے ذریعے کیونکہ یہ کرپشن کھولنے کا راستہ ہے۔ اب آخری بات سن لیجیے! اگر قوم عزت کے ساتھ جینا چاہتی ہے، اس قوم کے نوجوان پڑھے لکھے لوگ وقار کے ساتھ زندگی گزارنا چاہتے ہیں اور بزرگوں کا حاصل کیا ہوا یہ وطنِ عزیز غیروں کے ہتھے چڑھنے سے بچانا چاہتے ہیں تو اس کا صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اِس نظامِ انتخاب کے خلاف بغاوت کے لیے کھڑے ہو جایئے، یہی تبدیلی کا راستہ ہے۔ اس نظامِ انتخاب کو یکسر مسترد کر دیا جائے۔ آپ پوچھیں گے کہ یہ کس طرح ممکن ہوگا۔ میں کہتا ہوں اس کی مثالیں خلیج اور عرب ممالک کی حالیہ لہر میں موجود ہیں جس کے تحت مصر، لیبیا اور تیونس کے لوگوں نے تبدیلی کو ممکن بنایا۔ جس طرح ایران کے عوام نے شہنشاہیت کو رخصت کیا۔ یہ نظامِ انتخاب آپ کا رضا شاہ پہلوی ہے جس کے خلاف ایرانی قوم اٹھی تھی، یہ نظام انتخاب آپ کے ملک کا قذافی ہے جس کے خلاف لیبیا کی عوام اُٹھی، اِس نظام کے خلاف اُس طرح اُٹھیے جس طرح تیونس اور مصر کے لوگ اُٹھے اور عشروں سے قائم آمریت کا تختہ الٹ دیا۔
اِس موقع پر ایک حدیث مبارکہ کا حوالہ دے رہا ہوں جو بڑی relevant ہے اور ہمارے آج کل کے حالات پر اس کا کامل اطلاق ہوتا ہے۔ اسے حکیم ترمذی نے ’نوادر الاصول‘ میں بیان فرمایا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا:
هَلْ تَدْرِي ايَّ النَّاسِ اعْلَمُ؟
کیا تمہیں معلوم ہے کہ سب سے بہتر جاننے والا (اور سمجھنے والا) آدمی کون ہے؟
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:
اَﷲُ وَرَسُوْلُه اعْلَمُ.
اللہ اور اس کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی بہتر جانتے ہیں۔
تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فَإِنَّ اعْلَمَ النَّاسِ ابْصَرُهُمْ بِالْحَقِّ، إِذَا اخْتَلَفَ النَّاسُ.(1)
سب سے بہتر جاننے والا وہ شخص ہے جو لوگوںمیں اِختلافِ (رائے) کے وقت حق کی سب سے زیادہ بصیرت رکھنے والا ہو۔
یعنی جب لوگوں میں رائے بٹ جائے اور اِختلاف پیدا ہو اور کسی کو یہ پتا نہ چلے کہ حق کیا ہے، تو اُس وقت حق کو کامل بصارت اور بصیرت کے ساتھ دیکھنے، جاننے اور سمجھنے والا شخص ہی بڑا عالم ہوگا۔ یہ بات فرما کر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
وَاخْتَلَفَ مَنْ کَانَ قَبْلَنَا عَلٰی ثِنْتَيْنِ وَسَبْعِيْنَ فِرْقَةً، نَجَا مِنْهُمْ ثَلَاثٌ وَهَلَکَ سَائِرُهَا فِرْقَةً.(2)
اور ہم سے پچھلے لوگ (نصاریٰ) بہتر فرقوں میں بٹ گئے تھے۔ ان میں سے تین فرقوں کو نجات ملی اور باقی سب ہلاک ہوگئے۔
72 فرقوں میں سے تین کو اللہ رب العزت نے بچا لیا۔ اس حدیث نبوی میں پاکستانی قوم کے لیے بہت اہم پیغام ہے۔ وہ تین فرقے کون سے تھے؟ آقا e نے فرمایا کہ اللہ کے ہاں سرخرو ہونے اور نجات پانے والا پہلا طبقہ وہ تھا جو ان حکمرانوں اور لیڈروں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا جو قوم میں تباہی کرنے والے، دین کی قدروں کو مسمار کرنے والے، قوم کے حقوق پہ ڈاکہ زنی کرنے والے، قوم کو گمراہ کرنے والے، قوم کے اَخلاق و اَعمال کو برباد کرنے والے، قوم پر ظلم کرنے والے؛ غرضیکہ ہر لحاظ سے پوری society کو برباد کرنے والے تھے۔
اس حدیث مبارکہ کی روشنی میں ہم اپنے احوال کا جائزہ لیں تو ہماری معاشرتی، سماجی، معاشی، سیاسی، اخلاقی تباہی و ابتری کی ذمہ دار بھی یہی political leadership ہے۔ سو ایک طبقہ جس کو نجات ملی وہ وہی تھا جو دین عیسی کو بچانے کے لیے ان حکمرانوں اور لیڈروں کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا یعنی اس طبقہ نے اپنے دین کی قدروں اور تعلیمات کو بچانے کے لیے جہاد کیا۔ یاد رہے کہ حضرت عیسی e کی تعلیمات زیادہ تر رحمت، اخلاقیات اور انسانی قدروں پر مبنی تھیں اور ان کے لیے شریعت کے احکام وہی تھے جو سیدنا موسی e پر نازل ہونے والی آسمانی کتاب تورات سے چلے آرہے تھے۔ وہ طبقہ جو دین عیسی کو بچانے کے لیے اٹھ کھڑا ہوا حکمرانوں نے ان لوگوں کو قتل کر دیا کیونکہ ظالم اور جابر فراعین کبھی نہیں چاہتے کہ کوئی ان کے سامنے سر اٹھائے اور ان کے باطل کو باطل، ان کے جھوٹ کو جھوٹ کہے، ان کے ظلم کو ظلم کہے اور ان کے مکارانہ افعال پر انگلی اٹھائے۔ چنانچہ دینی قدروں کو بچانے پر وہ شہید کر دیے گئے۔ یہ وہ طبقہ تھا جسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے نجات دے دی یعنی آخرت میں دوزخ میں جانے سے بچا لیا۔
پھر آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ دوسرا طبقہ وہ تھا کہ جن کے اندر اتنی طاقت نہیں تھی کہ وہ حکمرانوں سے ٹکرا سکیں ان سے جنگ لڑ سکیں اور حکمرانوں کے خلاف عملاً برسر پیکار ہوسکیں۔ وہ اپنی قوم پر ہونے والی نا انصافیوں اور مظالم کے خلاف ان کے مردہ قلوب و اَذہان میں شعور کو بیدار کرنے کے لیے بیداری شعور کا علم لے کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ وہ دوسرا طبقہ ہے جس میں آپ کو شامل کرنے کی دعوت دی جا رہی ہے۔ اس دوسرے طبقے نے قوم کو اللہ کے دین کی طرف بلایا، انہیں حق پر ثابت قدم رہنے اور انسانی واخلاقی قدروں کے احیاء کی جدوجہد میں شامل ہونے کی دعوت دی امانت و دیانت اور سچائی پر اپنی زندگیوں کو استوار کرنے پر اُبھارا۔ اس دوسرے طبقے کے لوگ حکمرانوں سے تو نہیں لڑسکے مگر عوام کے اندر ان کا شعور بیدار کرنے کے لیے دعوت اِلی الحق لے کر اُٹھ کھڑے ہوئے، انہوں نے اپنی طرف سے پوری کاوش کی مگر ان کی اس جد و جہد کو بھی ان ظالم و جابر فرعون حکمرانوں نے برداشت نہ کیا اور اس دوسرے طبقے کو بھی شہید کر دیا۔ اس دوسرے طبقے کو بھی اللہ تعالیٰ نے نجات بخشی اور اُسے ہلاک ہونے یعنی آخرت میں ناکام ہونے سے بچا لیا۔
ہمارے لیے اس میں بہت بڑا پیغام ہے۔ ہمارے حکمران ابھی اس قدر جبر و استبداد کرنے کے قابل نہیں ہوئے کہ قتل و غارت گری سے بیداریِ شعور کی مہم کو ناکام کرسکیں۔ عوام کا شعور بیدار کرنے کے لیے اٹھیں، عوام کو حق سے آگاہ کرنے کے لیے اور اس نظام کے دجل و فریب اور عیاری و مکاری کا پردہ چاک کرنے کے لیے پراُمن طریقے کی جد و جہد کریں۔ اگر ہم یونین کونسل لیول پر، تحصیلوں اور اَضلاع میں حسبِ قانون پُراَمن اجتماعات کے ذریعے اِحتجاج کرتے ہیں، کوئی توڑ پھوڑ نہیں کرتے، کسی شخص کو گزند نہیں پہنچاتے، کسی بلڈنگ کو نقصان نہیں ہونے دیتے، کوئی تشدد کی کارروائی نہیں کرتے، سراپا اَمن بن کر پُراَمن احتجاج کرتے ہیں اور لوگوں کو حقائق سے آگاہ کرتے ہوئے ان کے شعور کو بیدار کرنے کی جد و جہد کرتے ہیں، اس مقصد کے لیے گول میز کانفرنس کرتے ہیں، سیمینار کرتے ہیں یا پمفلٹ شائع کرتے ہیں تو ابھی اس کا موقع ہے۔ یہ سارے وہ طریقے ہیں جنہیں non۔ violent means کہتے ہیں۔ یہ بیداری شعور کے لیے non۔ violent resistance ہے۔ ابھی صورت حال اس مقام پر نہیں پہنچی کہ پُراَمن جد و جہد کے سارے راستے مسدود کر دیے جائیں اور ایسا کرنے والوں کو قتل کر دیا جائے۔ مگر حدیث مبارکہ میں جس دوسرے طبقے کا ذکر کیا گیا جنہیں پُراَمن ہونے کے باوجود قتل کر دیا گیا تو اس کی وجہ یہ بنی کہ وہ اپنی جد و جہد میں بہت late ہوگئے تھے۔ شعور بیدار کرنے کی جد و جہد شروع کرنے میں انہوں نے بڑی تاخیر کر دی تھی کیونکہ جب جابر و قاہر، فرعون و نمرود صفت حکمرانوں کا پنجہ استبداد مضبوط ہو جاتا ہے تو پھر ایسی اٹھنے والی آواز کو بھی ختم کر دیا جاتا ہے۔ ابھی وقت ہے کہ تحریک بیداریِ شعور کے لیے اٹھ کھڑے ہوں، ابھی مہلت ہے۔ پھر یہ بھی نہیں رہے گی اور ظلم و بربریت کا نظام آجائے گا۔ ہم بتدریج اسی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اِحتجاج کرنے والوں کو جمہوریت کے نام پر کچل دیا جائے گا اور کسی میں آواز اٹھانے کی بھی ہمت نہیں ہوگی۔ آپ کہیں گے: کیسے؟ یہ اس لیے کہ ہمارا ملک کالونی بن چکا ہے۔ بس اس ایک جملے میں سارا کچھ پنہاں ہے یعنی اب ہم آزاد نہیں رہے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ اپنی آزادی کی جنگ لڑیں۔ ابھی سودے ہوتے پھرتے ہیں، کچھ ہوگئے کچھ ہو رہے ہیں اور اگر ایسے ہی لوگوں کے پاس قیادت رہی تو مزید سودے مکمل ہو جائیں گے۔
پھر آقا e نے فرمایا کہ اس کے بعد ایک تیسرا طبقہ وہ تھا جن کے اندر یہ طاقت نہیں تھی کہ حکمرانوں کے سامنے اٹھ کر ڈٹ سکے یا عوام کے اندر کھڑے ہو کر حق بیان کرتے ہوئے ان کے شعور کو بیدار کرنے کی کوئی جد و جہد کرسکے۔ اسی طرح وہ دینِ حق اور اس کی اَقدار کو زندہ کرنے کے لیے دعوت و تبلیغ کی جد و جہد بھی نہیں کرسکے۔ جب یہ دونوں کام نہیں کرسکے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فَسَاحُوا فِي الْجِبَالِ وَتَزَهَّدُوْا فِيْهَا.(1)
تو پھر وہ شہروں کو چھوڑ کر پہاڑوں (اور جنگلوں و غاروں) میں چلے گئے اور وہاں جا کے رہبانیت اختیار کر لی۔
یعنی وہ دنیا سے کٹ کر تنہا غاروں، جنگلوں اور پہاڑوں میں اللہ کی عبادت میں مشغول ہوگئے، آبادیوں سے کٹ گئے، یہی ان کا آخری انجام ہوا۔ اب اگر اپنا دین کسی کو بچانا ہو تو یا تو پہلی یا دوسری option اختیار کرئے یا پھر تیسری option کے طور پر وہ جنگلوں، پہاڑوں اور غاروں میں چلا جائے۔ آقا e نے فرمایا کہ یہ زمانہ میری امت پر بھی آئے گا۔ چنانچہ اس سے پہلے جو کر سکتے ہو کر لو۔
قرآن حکیم میں رہبانیت اختیار کرنے والوں کا ذکر سورۃ الحدید میں ملتا ہے:
وَرَهْبَانِيَّةَ نِابْتَدَعُوْهَا مَا کَتَبْنٰـهَا عَلَيْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اﷲِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَتِهَاج فَاٰ تَيْنَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ وَکَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰـسِقُوْنَ
اور رہبانیت (یعنی عبادتِ الٰہی کے لیے ترکِ دنیا اور لذّتوں سے کنارہ کشی) کی بدعت انہوں نے خود ایجاد کر لی تھی، اسے ہم نے اُن پر فرض نہیں کیا تھا، مگر (انہوں نے رہبانیت کی یہ بدعت) محض اللہ کی رضا حاصل کرنے کے لیے (شروع کی تھی) پھر اس کی عملی نگہداشت کا جو حق تھا وہ اس کی ویسی نگہداشت نہ کرسکے (یعنی اسے اسی جذبہ اور پابندی سے جاری نہ رکھ سکے)، سو ہم نے اُن لوگوں کو جو ان میں سے ایمان لائے (اور بدعتِ رہبانیت کو رضائے الٰہی کے لیے جاری رکھے ہوئے) تھے، اُن کا اجر و ثواب عطا کر دیا اور ان میں سے اکثر لوگ (جو اس کے تارک ہوگئے اور بدل گئے) بہت نافرمان ہیںo
ان کے لیے قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیت میں واضح کردیا گیا کہ اللہ نے ان پر رہبانیت فرض نہیں کی تھی، انہوں نے خود یہ راستہ اپنالیا۔ اس تیسرے طبقے کا قرآن و حدیث نے پورا پس منظر بتا دیا کہ یہ راستہ انہوں نے اپنے طور پر اللہ کی رضا کے لیے اپنایا کہ چلو ہم اگر لوگوں کا شعور بیدار نہیں کرسکتے اور سوسائٹی میں دینی و انسانی اور اَخلاقی قدروں کو زندہ رکھنے کی عملی جد و جہد نہیں کرسکتے یعنی حکمرانوں سے ٹکر نہیں لے سکتے تو پھر اپنا دین بچانے کے لیے غاروں اور جنگلوں میں چلے جائیں۔ چنانچہ وہ راہب بن گئے۔ یہاں سے رہبانیت شروع ہوئی۔ تو جنہوں نے رہبانیت کے حقوق کما حقه ادا کیے تو اللہ نے فرمایا: ہم نے ان کو بھی اجر عطا کردیا، بیشک یہ ہمارا حکم نہیں تھا مگر چونکہ میری رضا کے لیے انہوں نے یہ راستہ اپنایا، تو ان کو بھی اجر دے دیا۔ لیکن جب اگلی نسلیں آئیں تو وہ اس کے حقوق ادا نہیں کرسکیں؛ یعنی رسم رہ گئی اور حقیقت ختم ہوگئی اور وہ فسق و فجور کی طرف چل پڑے۔
یہ ایک راستہ ہے جو بیداریِ شعور کے سلسلے میں ہمیں اس حدیث مبارکہ سے ملتا ہے۔ آگاہ ہوجائیں کہ ہم اس دور میں داخل ہوچکے ہیں کہ اگر ہم قوم کے شعور کو بیدار کرنے کی جد و جہد جاری نہیں رکھیں گے اور دعوت اِلی الحق کا فریضہ ادا نہیں کریں گے تو دنیا میں جو ہونا ہے وہ تو ہو ہی رہا ہے، مجھے ڈر ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت میں ناکام ہونے والوں میں شامل نہ فرما دے۔ (العیاذ باﷲ!)
یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ سوسائٹی میں فساد کہاں سے آتا ہے؟ یاد رکھیں کہ فساد نااَہل حکمرانوں کی طرف سے آتا ہے۔ یہ سیاسی اور حکومتی لیڈروں کی بد اَعمالیوں کے باعث رُونما ہوتا ہے۔ یہ بھی حدیث مبارکہ میں ہے جسے قاسم بن مخیرہ نے روایت کیا ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
إِذَا صَلَحَ سُلْطَانُکُمْ، صَلَحَ زَمَانُکُمْ؛ فَإِذَا فَسَدَ سُلْطَانُکُمْ، فَسَدَ زَمَانُکُمْ.(1)
اگر تمہاری حکومت سنور جائے تو تمہارا زمانہ سنور جائے گا؛ اگر تمہارے اَہلِ حکومت فساد میں مبتلا ہو جائیں تو تمہارا زمانہ بگڑ جائے گا۔
گویا مسلم اُمہ کی بھلائی اس کے حکمران، لیڈروں اور رہنماؤں کے سنور جانے پر منحصر ہے۔ اَہلِ سلطنت اور اَہلِ حکومت بگڑ جائیں، فاسد ہو جائیں اور corrupt ہو جائیں تو زمانہ corrupt ہو جائے گا، یعنی سارا معاشرہ اور سوسائٹی corrupt ہو جائے گی۔
آقا e نے اِس حدیث مقدسہ کے ذریعہ معاشی، معاشرتی، سماجی اور اَخلاقی اَبتری کی پوری philosophy بیان کر دی ہے۔ یہاں یہ خیال پیدا ہوسکتا ہے اگرچہ اَہلِ حکومت و سلطنت کے بگڑ جانے نے معاشرے کو بگاڑ دیا ہے، تاہم دوسروں سے لا تعلق ہوکر ہمیں اپنا حال سنوارنے اور دوسروں سے کنارہ کش ہو کر اپنے آپ کو بچانے سے تو کوئی نہیں روک رہا۔ ہمیں دوسروں کی کیا پڑی، ہم اپنا گھر درست رکھیں؟ یاد رکھیں! ایسا کریں گے تو ہم پر بھی ہلاکت اور تباہی آجائے گی۔ ان حالات میں بیداریِ شعور کی مہم ایک اہم فریضہ ہے۔ اِسی کو قرآن و سنت کی زبان میں اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر کہتے ہیں۔ اسے صرف سیاسی حالات کی بہتری پر مختص نہ کریں۔ یہ ایک ہمہ جہت اِصطلاح ہے یعنی اس میں سیاسی طور پہ لوگوں کو بیدار کرنا، دینی و مذہبی طور پر بیدار کرنا، عقیدے اور اعتقادی طور پر بیدار کرنا، اَعمال اور اَخلاق میں بیدار کرنا اور فکر اور نظریات میں بیدار کرنا سب شامل ہیں۔ گویا بیداریِ شعور کی یہ مہم ایک ہمہ جہت اور مسلسل تگ و دو ہے۔
اگر اَہلِ حق صرف اپنی فکر کرنے لگ جائیں اور اِجتماعی اِصلاح کی جد و جہد کو ترک کر دیں تو کیا نتائج نکلتے ہیں۔
.1 اِس مضمون کو سمجھنے کے لیے حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اللہ عنہ کی روایت کو سنیے، جس کے مطابق آقا e نے فرمایا:
إِذَا نَقَضُوا الْعهْدَ سَلَّطَ اﷲُ عَلَيْهِمْ عَدُوَّهُمْ، وَإِذَا لَمْ يَامُرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَيَنْهَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ سَلَّطَ اﷲُ عَلَيْهِمْ اشْرَارَهُمْ، ثُمَّ يَدْعُو خِيَارُهُمْ فَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ.(1)
جب لوگ اپنے وعدے توڑنے لگ جائیں گے تو اللہ تعالیٰ ان کا دشمن ان پر مسلط فرما دے گا؛ اور جب وہ نیکی کا حکم نہیں دیں گے اور برائی سے نہیں روکیں گے تو اللہ ان کے بدترین لوگوں کو ان پر مسلط فرما دے گا؛ پھر ان میں سے نیکو کار دعائیں بھی کریں گے تو ان کی دعائیں قبول نہیں ہوں گی۔
.2 اِس مضمون کی ایک اور حدیث امام طبرانی اور ابن ابی شیبہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
لَتَامُرُنَّ بِالْمَعْرُوْفَ وَلَتَنْهَوُنَّ عَنِ الْمُنْکَرِ، اوْ لَيُسَلِّطَنَّ اﷲُ عَلَيْکُمْ شِرَارَکُمَ. ثُمَّ يَدْعُوْ خِيَارُکُمْ فَلاَ يُسْتَجَابُ لَکُمْ.(2)
تم ضرور بالضرور نیکی کا حکم دو گے اور برائی سے منع کرتے رہو گے ورنہ اﷲ تعالیٰ تم میں سے برے لوگوں کو تم پر مسلط کردے گا۔ پھر تمہارے اچھے لوگ اﷲ تعالیٰ سے (مدد کی) دعا کریں گے لیکن ان کی دعا تمہارے حق میں قبول نہیں ہوگی۔
اَحادیث مبارکہ کی روشنی میں داخلی طور پر ہمیں یہی صورت حال درپیش ہے کہ عوام کے نمائندے دشمن بن کر عوام پر مسلط ہیں؛ جب کہ خارجی طور پر مسلمانوں کے دشمن مسلمانوں پر مسلط ہیں یعنی ہمارا اقتدار در حقیقت کسی اور ہاتھ میں ہے۔ اگر ہم لوگوں کے شعور کو بیدار کرنے کی جد و جہد نہیں کریں گے اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا جھنڈا نہیں اٹھائیں گے یعنی جد و جہد کا یہ فریضہ انجام دینا چھوڑ دیں گے تو حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق بدترین دشمن ہمارے اوپر مسلط کر دیا جائے گا۔ یعنی جو سوسائٹی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے حکم سے پہلو تہی اِختیار کرے گی اس صورت میں اس سوسائٹی کے سب سے زیادہ گھٹیا اور کمینے لوگ ان کے لیڈر اور حکمران بن جائیں گے۔ یاد رکھیں! علماء، اَئمہ، خطباء ۔ جو اپنے مناصب کے حوالے سے سب سے زیادہ ذمہ دار ہیں ۔ اگر شرم و حجاب اور خوف کے باعث چپ رہیں گے اور باطل کے خلاف جرات سے کام نہیں لیں گے تو پھر اَشرار لوگ ان کے اوپر مسلط ہو جائیں گے؛ اور اسی طرح اگر سیاسی و قومی طور پہ عوام چپ رہیں گے تو اَشرار سیاسی اور قومی سطح پر مسلط ہو جائیں گے۔ دیکھا جائے تو بے عملی کے حوالے سے حکمرانوں اور عوام کا تعلق reciprocal ہے، حکمران برے اور بدکردار ہوں گے تو عوام میں فساد آجاتا ہے اور اگر عوام بُرے ہوں تو بدکردار حکمران ان پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ یعنی ان حالات میں ان کے اَخیار، اولیاء و صالحین، نیک اور شب زندہ دار پرہیزگار لوگ قوم کے لیے دعائیں بھی کریں تو ان کی دعاؤں کو قوم کے حق میں اﷲ قبول نہیں کرے گا۔ کیوں؟ اس لیے کہ داعیین اور قوم دونوں نے اپنا فریضہ ادا نہیں کیا۔ خود پر ظلم کیا اور اَشرار یعنی گھٹیا، کمینے، خائن اور بددیانت لوگوں کو اپنے اوپر مسلط کرنے کا خود سبب بنے ہیں۔
ہماری سیاسی تاریخ اِس اَمر کی شاہد ہے کہ لوگ بار بار اپنا ووٹ دے کے اَشرار کو اَخیار کے اوپر لائے۔ اِس طرح انہوں نے خائن اور کرپٹ لوگوں پسند کیا ہے اور اپنے ہاتھوں سے اپنے دشمنوں کو خود پر مسلط کیا ہے۔ یہ جرم چونکہ عوام نے کیا ہے تو آقا e نے فرمایا کہ ان کے حق کے پھر اﷲ تبارک و تعالیٰ اپنے اولیاء اور صالحین کی دعائیں بھی قبول نہیں کرے گا ۔ جیسے کہا گیا کہ
خدا نے آج تک اُس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
جب کوئی سوسائٹی یا قوم اللہ تعالیٰ کے حکمِ اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر کو چھوڑ دے اور لاتعلق ہو جائے تو گناہ عام ہونے لگتے ہیں۔
.1 امام ابو داود حضرت ھُشَیم رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قدرت رکھنے کے باوجود بر ے کاموں سے منع نہ کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا:
مَا مِنْ قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِي، ثُمَّ يَقْدِرُوْنَ عَلَی انْ يُّغَيِّرُوْا، ثُمَّ لاَ يُغَيّرُوا إِلاَّ يُوْشِکُ انْ يَعُمَّهُمُ اﷲُ مِنْهُ بِعِقَابٍ.(1)
جس قوم میں بھی برے کاموں کا اِرتکاب کیا جائے، پھر لوگ اِن برے کاموں کو روکنے پر قدرت رکھنے کے باوجود بھی نہ روکیں تو قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان سب کو اپنے عذاب میں مبتلا کر دے۔
.2 حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے خطبہ میں اَمر بالمعروف و نہی عن المنکر کو نظر انداز کرنے والوں کو تنبیہ کرتے ہوئے اِرشاد فرمایا:
يَا ايُّهَا النَّاسُ إِنَّکُمْ تَقْرَء ُوْنَ هَذِهِ الْآيَةَ: {يـاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا عَلَيْکُمْ اَنْفُسَکُمْ ج لَا يَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَيْتُمْ}(1) وَإِنَّا سَمِعْنَا رَسُولَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم يَقُولُ: إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَاوا الْمُنْکَرَ فَلَمْ يُنْکِرُوهُ اوْشَکَ انْ يَعُمَّهُمُ اﷲُ بِعِقَابِهِ.(2)
اے لوگو! تم یہ آیت مبارکہ تو پڑھتے ہی ہو: {اے ایمان والو! تم اپنی جانوں کی فکر کرو، تمہیں کوئی گمراہ نقصان نہیں پہنچا سکتا اگر تم ہدایت یافتہ ہو چکے ہو}۔ اور بے شک ہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: لوگ جب برائی کو پنپتے ہوئے دیکھیں اور اس کو نہ روکیں تو قریب ہے کہ اﷲ تعالیٰ انہیں اپنے عذاب میں مبتلا کردے۔
.3 حضرت جریر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے برائی کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکنے والوں کو عذابِ اِلٰہی سے ڈراتے ہوئے ارشاد فرمایا:
مَا مِنْ رَجُلٍ يَکُوْنُ فِي قَوْمٍ يُعْمَلُ فِيْهِمْ بِالْمَعَاصِي يَقْدِرُوْنَ عَلَی انْ يُّغَيِّرُوْا عَلَيْهِ فَلاَ يَُغَيِّرُوْا إِلاَّ اصَابَهُمُ اﷲُ بِعَذَابٍ مِنْ قَبْلِ انْ يَّمُوْتُوا.(3)
جو شخص بھی ایسی قوم میں رہتا ہو جس میں برے کام کیے جاتے ہوں اور لوگ ان کو روکنے کی قدرت رکھنے کے باوجود نہ روکتے ہوں تو اﷲ تعالیٰ انہیں ان کی موت سے قبل عذاب میں مبتلا کر دے گا۔
یعنی جس سوسائٹی میں ظلم اور گناہ عام ہونے لگیں، نا انصافی عام ہو جائے، جبر و بربریت اور خیانت اور کرپشن کا دور دورہ ہو، سرِ عام جھوٹ بولا جائے، لوگوں کے حق تلف کیے جائیں اور لوگ ظالموں کو ظلم سے روکنے کے لیے اور بددیانت کرپٹ لوگوں کو کرپشن سے روکنے کے لیے حرکت میں نہ آئیں؛ وہ اپنے حقوق کی خاطر ان کے گریبانوں پر ہاتھ نہ ڈالیں اور حالات کو بدلنے کے لیے اپنا فریضہ ادا نہ کریں بلکہ ہر بار پلٹ کر پھر انہی کو ووٹ دے کے اپنے کندھوں پر سوار کرتے رہیں ۔ یعنی انہیں اپنا حکمران بناتے رہیں ۔ تو پھر اﷲتعالیٰ ایسی قوم کو اپنے عذاب کی لپیٹ میں لے لے گا اور اس میں نیک و بد کا فرق نہیں رہے گا۔
.4 حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں خرابی اس لیے پختہ ہو گئی تھی کہ انہوں نے اِحقاقِ حق اور اِبطالِ باطل کا فریضہ ترک کر دیا تھا۔ ’جامع الترمذی‘ میں مروی فرمانِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملاحظہ کریں:
إِنَّ بَنِي إِسْرَائِيْلَ لَمَّا وَقَعَ فِيْهِمُ النَّقْصُ کَانَ الرَّجُلُ يَرَی اخَاهُ عَلَی الذَّنْبِ فَيَنْهَاهُ عَنْهُ. فَإِذَا کَانَ الْغَدُ لَمْ يَمْنَعْهُ مَا رَای مِنْهُ انْ يَکُوْنَ اکِيْلَهُ وَشَرِيْبَهُ وَخَلِيْطَهُ. فَضَرَبَ اﷲُ قُلُوْبَ بَعْضِهِمْ بِبَعْضٍ وَنَزَلَ فِيْهِمُ الْقُرْآنُه فَقَالَ: {لُعِنَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا مِنْ بَنِي إِسْرَائِيْلَ عَلَی لِسَانِ دَاوُدَ وَعِيْسَی ابْنِ مَرْيَمَ ذَلِکَ بِمَا عَصَوْا وَّکاَنُوْا يَعْتَدُوْنَ}.(1) فَقَرَا حَتَّی بَلَغَ: {وَلَوْ کَانُوْا يُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ وَالنَّبِيِّ وَمَآ انْزِلَ إِلَيْهِ مَا اتَّخَذُوْهُمْ اوْلِيَاءَ وَلٰـکِنَّ کَثِيْرًا مِنْهُمْ فَاسِقُوْنَ}.(1) قَالَ: وَکَانَ نَبِيُّ اﷲِ مُتَّکِئًا فَجَلَسَ، فَقَالَ: لَا، حَتَّی تَاخُذُوْا عَلَی يَدِ الظَّالِمِ فَتَاطَُرُوْهُ عَلَی الْحَقِّ اطْرًا.(2)
جب بنی اسرائیل میں خرابی واقع ہوتی تو اس وقت ان میں سے بعض لوگ اپنے دوسرے بھائی کو گناہ کرتے دیکھ کر منع کرتے۔ لیکن جب دوسرا دن ہوتا تو اس خیال سے نہ روکتے کہ اس کے ساتھ کھانا پینا اور ہم مجلس ہونا ہے۔ اس پر اﷲ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو باہم مخلوط کردیا۔ ان کے بارے میں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ہے: {بنی اسرائیل میں سے جو کافر ہوئے ان پر داؤد (e) اور عیسی بن مریم (d) کی زبان سے لعنت کی گئی۔ یہ اس لیے کہ وہ نافرمان تھے اور حد سے گزر گئے تھے}۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیت یہاں تک پڑھی: {اور اگر وہ اللہ تعالیٰ اور نبی پر اور اس چیز پر جو ان کی طرف نازل کی گئی ہے ایمان لاتے تو کافروں کو دوست نہ بناتے۔ لیکن ان میں سے اکثر نافرمان ہیں}۔ حضرت عبیدہ ص بیان کرتے ہیں حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تکیہ لگائے ہوئے تھے۔ پس آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُٹھ بیٹھے اور فرمایا: تم بھی عذابِ الٰہی سے اس وقت تک نجات نہیں پا سکتے جب تک کہ تم ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اُسے راہِ راست پر نہ لے آؤ۔
.5 حضرت قیس بن ابی حازم بیان کرتے ہیں کہ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے منبر پر کھڑے ہوکر بیان کیا کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے:
إِنَّ النَّاسَ إِذَا رَاوُا الظَّالِمَ، ثُمَّ لَمْ يَاخُذُوْا عَلٰی يَدَيْهِ اوْشَکُوا انْ يَّعُمَّهُمُ اﷲُ بِعِقَابٍ.(1)
بے شک لوگ جب کسی ظالم شخص کو دیکھتے ہیں اور پھر اس کے ہاتھوں کو (ظلم کرنے سے) نہیں روکتے تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو عذاب میں مبتلا کر دے۔
یعنی اگر لوگ خود پر ظلم و ناانصافی ہوتا دیکھ کر بھی خوابِ غفلت سے بیدار نہ ہوں تو پھر اﷲ تعالیٰ اپنی گرفت اور عذاب میں ساری قوم کو شریک کرے گا۔ آپ خود سوچیے کیا ایک ایک حدیث کا اِطلاق ہمارے حالات پر نہیں ہو رہا ہے؟ اس کا ایک ہی علاج ہے کہ تحریک منہاج القرآن کا ہر فرد آقا e کے اِس پیغام کو لے کر اس قوم کے ایک ایک شخص کے شعور کو بیدار کرنے کے لیے اُٹھ کھڑا ہو۔ تحریک منہاج القرآن کو بیداریِ شعور کی تحریک بنا دیں اور یہ تحریک سیاسی، دینی، مذہبی، اِعتقادی، اَخلاقی، سماجی، معاشرتی ہر پہلو کو محیط ہونی چاہیے۔ پہلے اپنا شعور بیدار کریں، اپنے اَحوال کی اصلاح کریں۔
.6 اس حوالے سے آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کا ایک اور ارشاد بڑا واضح ہے۔ حضرت عدی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عوام و خواص کے عذاب میں مبتلا ہونے کا سبب بیان کرتے ہوئے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ اﷲَ لَا يُعَذِّبُ الْعَامَّةَ بِعَمَلِ الْخَاصَّةِ حَتَّی يَرَوا الْمُنْکَرَ بَيْنَ ظَهْرَانَيْهِمْ، وَهُمْ قَادِرُوْنَ عَلَی انْ يُّنْکِرُوْهُ فَـلَا يُنْکِرُوْهُ. فَإِذَا فَعَلُوْا ذَالِکَ عَذَّبَ اﷲُ الْخَاصَّةَ وَالْعَامَّةَ(1)
بے شک اﷲ تعالیٰ عوام کو خاص لوگوں کے برے اعمال کے سبب سے عذاب نہیں دیتا یہاں تک کہ وہ (عوام) اپنے درمیان برائی کو کھلے عام پائیں اور وہ اس کو روکنے پر قادر ہونے کے باوجود نہ روکیں۔ پس جب وہ ایسا کرنے لگیں تو اﷲ تعالیٰ ہر خاص و عام کو (بلا امتیاز) عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے۔
اگر برائی، کرپشن، ظلم اور ناانصافی کو ہوتا ہوا دیکھتے رہیں اور ان کو روکنے اور نظام کو بدلنے کی بجائے پھر اُسی ظالمانہ نظام کو ووٹ دیتے رہیں تو اس سے بڑھ کر بدبختی کیا ہوسکتی ہے؟ یاد رکھیں! جب ہم کسی شخص کو ووٹ دیتے ہیں تو فی الحقیقت ووٹ اس شخص کو نہیں بلکہ منتخب ہونے والے فرد کی کرپشن کو قانونی جواز دے رہے اس نظامِ اِنتخابات کو جارہا ہے جو نظام ہمارا قومی دشمن ہے۔ اس کے خلاف نفرت کو بلند کریں اور پُراَمن طریقے سے مسلسل اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved