جب قوم کا شعور گر جائے اور اس کی صحیح رہنمائی نہ کی جا رہی ہو اور قوم بے شعوری، بے خبری اور بے آگاہی کی وجہ سے اپنی ذاتی مشکلات اور مسائل میں اتنی الجھی ہوئی ہو کہ اس کی قومی سوچ ہی ختم ہو جائے تو ان حالات میں قوم کے اندر تبدیلی کی آرزو کلیتاً معدوم ہو جاتی ہے۔ یہ کسی قوم کی غلامی کی علامتیں ہوتی ہیں۔آپ نے کبھی سوچا کہ قومیں طویل مدت یعنی صدیوں تک غلامی میں کیوں مبتلا رہتی ہیں؟ اس لیے کہ غلام کی پہچان ہی یہ ہوتی ہے کہ اس میں تبدیلی کی آرزو ہی نہیں رہتی۔ وہ مستقبل کو روشن کرنے کی آرزو ہی نہیں رکھتا۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ اُس کا حق ہے نہ اُس کے نصیب میں ہے۔ روشن مستقبل کو وہ اپنا حق ہی نہیں سمجھتا۔ وہ صرف اُس وقت چیختا ہے جب اسے روٹی نہیں ملتی یا جب بجلی نہیں ملتی تو تب باہر نکلتا ہے۔ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ جب بیس بیس گھنٹے تک پہنچ جاتا ہے تو عوم باہر نکلتے ہیں اور سڑکوں پر ٹائر جلاتے ہیں۔ اسی طرح پٹرول، ڈیزل اور گیس کے مہنگے ہونے پر عوام باہر نکلتے ہیں، سینہ کوبی کرتے ہیں، ٹائر جلاتے ہیں اور جب حکمران پٹرول، ڈیزل، گیس کو آٹھ نو روپے مہنگا کرنے کے بعد پھر ایک روپیہ کم کردیتے ہیں تو وہ حکمرانوں سے مطمئن اور خوش ہو کر واپس گھروں کو چلے جاتے ہیں۔ فراعینِ وقت کو علم ہوتا ہے کہ غلام لوگوں کی یہی نفسیات ہوتی ہے کہ ان پر ظلم و ستم جاری رکھا جائے اور جب بہت چیخیں تو تھوڑی سی تخفیف کردو تو خوش ہو جائیں گے کہ چلو کچھ تو مل گیا۔ یہی غلامانہ ذہنیت ہے۔ کیا یہ سلسلہ پاکستان میں جاری نہیں؟
یہاں کتنے قتل ہو رہے ہیں، اِنسانی جانیں تلف ہو رہی ہیں، قوم کبھی سڑکوں پہ اجتماعی طور پر نہیں نکلی تاکہ اس نظام کو چیلنج کریں کہ جان و مال کے محافظ کہاں مرگئے۔ اس ملک میں کتنی قتل و غارت گری ہو رہی ہے، عزتیں لٹ رہی ہیں، تیزاب پھینکے جا رہے ہیں، بیٹیاں اٹھائی جار ہی ہیں، خود کشیاں ہو رہی ہیں۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ قوم کبھی باہر نہیں نکلی۔ اس لیے کہ قوم بے حس ہو چکی ہے۔ محلے میں دائیں بائیں قتل ہو جاتے ہیں لیکن کسی کی آنکھ نہیں بھیگتی، آنسو نہیں گرتا۔ جب اس کی اپنی جان پر بنتی ہے اس کی اپنی گاڑی میں پٹرول نہیں ڈلتا، چولہا نہیں جلتا، گھر میں بجلی نہیں آتی یعنی ذاتی زندگی جب مشکل میں پڑتی ہے، روزگار بند ہو جاتا ہے، فیکٹری بند ہوتی ہے، نوکری سے نکالے جاتے ہیں؛ تب وہ چیختا ہوا باہر نکلتا ہے یا اس کے ساتھ چند باقی لوگ جو خود مضروب و مجروح اور مظلوم ہوئے؛ انفرادی طور پر چیختے ہوئے باہر نکلتے ہیں لیکن قوم مجموعی طور پر ٹس سے مس نہیں ہوتی۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس قوم کا وہ دشمن کون ہے جس نے دائماً اِنہیں پچھلے 65 برس سے تبدیلی اور خوش حالی سے دور رکھا ہوا ہے۔ ہم ملک کے سترہ کروڑ عوام کو اس دشمن کی شناخت کروانا چاہتے ہیں جس نے ان کو باعزت زندہ رہنے کے حق سے محروم کر رکھا ہے حتی کہ اس قوم کو اپنی شناخت سے بھی محروم کر دیا ہے۔ وہ دشمن کون ہے؟ آج ہمیں اسی دشمن کی پہچان کرنا مقصود ہے تاکہ قوم کے بیٹے بیٹیاں، قوم کی آئندہ نسلیں اپنے مستقبل کو سنوارنے اور محفوظ رکھنے کے لیے صحیح سمت پر جد و جہد کر سکیں اور اس کے خلاف ایک پُراَمن جنگ لڑنے کے لیے صف آرا ہو سکیں۔ بعض لوگ یہ کہہ دیتے ہیں کہ پیپلز پارٹی تمہاری دشمن ہے، کوئی کہہ دیتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) تمہاری دشمن ہے، اسی طرح بعض دوسری سیاسی پارٹیوں کا نام لے دیتے ہیں جس سے سیاسی گروہ یا جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دیتی ہیں اور عوام اس جنگ میں شریک ہو جاتے ہیں۔ میں categorically بتا دینا چاہتا ہوں کہ پیپلز پارٹی ہو یا مسلم لیگ (ن)، مسلم لیگ (ق) ہو یا ایم کیو ایم، اے این پی ہو یا کوئی مذہبی جماعت یا بلوچستان اور دیگر صوبوں کی مقامی جماعتیں، یہ سب آپ کی حقیقی دشمن نہیں ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ان میں سے کوئی جماعت یا قیادت بھی عوام کی حقیقی دشمن نہیں تو دشمن کون ہے؟ وہ کون ہے جس نے اِس قوم کو کچل رکھا ہے؟ اِس قوم کو محرومی کی آگ میں جھونک رکھا ہے؟ کس نے اِس قوم کو تباہی اور ہلاکت کی راہ پر گامزن کر رکھا ہے؟ کس نے اِس قوم کو اس کے تمام بنیادی حقوق سے محروم کر رکھا ہے؟ کس نے اِس قوم کو خود کشیوں کی راہ پر ڈالا ہے؟ اُسی دشمن کی شناخت کروانے کے لیے ہم نے بیداریِ شعور کی تحریک شروع کی ہے۔
یاد رکھیں! آپ کا دشمن یہ کرپٹ اور اِجارہ دارانہ نظامِ سیاست و اِنتخابات ہے؛ وہ نظامِ سیاست جو گزشتہ ساڑھے چھ دہائیوں سے مخصوص لوگوں کو اس ملک میں پال رہا ہے، مخصوص اجارہ داریوں کے نیچے جس کی پرورش ہو رہی ہے، جس نے اس قوم کے ننانوے فیصد عوام کو حقیقی جمہوریت سے محروم کر رکھا ہے اور جس نے ایک فی صد سے بھی کم پر مشتمل مخصوص طبقے کو حکومت کا پیدائشی اور موروثی حق دے رکھا ہے۔ مستقبل قریب میں پھر انتخابات کا اِمکان ہے اور اس کی تیاریاں بھی شروع ہوگئی ہیں۔ یہی وہ کرپٹ اِجارہ دارانہ نظامِ انتخابات (monopolistic electoral system) ہے جس کے اردگرد ملک کی پوری سیاست گھومتی ہے اور جس monopolistic electoral system کے نتیجے میں اس ملک میں ایک جعلی جمہوریت جنم لیتی ہے۔ موجودہ پاکستانی سیاست اِس فرسودہ اِجارہ دارانہ نظامِ اِنتخابات کے گرد گھومتی ہے اور اس نام نہاد monopolistic electoral system کے نتیجے میں جو حکومتیں وجود میں آتی ہیں بدقسمتی سے ان حکومتوں کا نام جمہوری حکومت (democratic government) رکھ دیا جاتا ہے۔ یہ سیاست میں بھی دھوکا ہے اور اس نام نہاد جمہوریت میں بھی دھوکہ ہے۔
بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ نظام کا حصّہ بن کر ہی نظام کو تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ ان کا خیال ہے کہ اس نظام میں شریک ہوئے بغیر نظام کیسے بدلا جاسکتا ہے؟ نظام میں ہوں گے تو بدلیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم نے پندرہ سال اس نظام میں رہ کر تمام ممکنہ کاوشیں کرکے دیکھ لیں۔ 1989ء سے لے کر 2004ء تک پندرہ سال تک ہم نے یہ عمل کر لیا ہے جو کچھ لوگ اب کرنے کے لیے نکلے ہیں؛ جب کہ کئی 60 سال سے اسی نظام میں رہ کر نظام کو بدلنے کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔ مگر یاد رکھیں اس نظام کا حصہ بننے والے کبھی نظام کو بدل نہیں سکتے۔ نظام بہت بڑی طاقت ہے، یہ ایک اژدھا ہے۔ جو کوئی اس ملک کے موجودہ نظام کا حصہ بنے گا یہ نظام اُسے پیس کر رکھ دے گا، ایسے جیسے چکی میں گندم کے دانے پس جاتے ہیں یا چنے پس جاتے ہیں۔ اس نظام کا حصہ بن کے کبھی تبدیلی نہیں آسکتی، اگر تبدیلی آسکتی ہے تو اس نظام کے ساتھ ٹکرانے سے آئے گی۔ کسی کو اگر تبدیلی لانے کا شوق ہے تو وہ اس نظام سے ٹکرائے۔ اس نظام میں داخل ہو کر اس کو بدلنے کی آرزو کرنے والے میرے کلمات لکھ لیں کہ بس ایک الیکشن کے بعد ہی ان کو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی نظر آجائے گا اور سمجھ آجائے گی کہ نظام کیسے بدلتا ہے۔ کیونکہ اس نظام میں داخل ہو کر اس کو بدلنے کا کوئی راستہ ہی نہیں بچتا، آپ گورنمنٹ میں جائیں گے یا اپوزیشن میں رہیں گے۔ اپوزیشن بھی اسی نظام کا حصہ ہوتی ہے، اس کا ایک اپنا ایجنڈا ہوتا ہے، وہاں آپ الگ رہ نہیں سکتے۔ چونکہ اکثریتی گروپ کا ایک نمائندہ قائد حزبِ اِختلاف بن جاتا ہے، صرف وہی اپوزیشن کی نمائندگی کرتا ہے۔ اور اگر آپ تنہا اپنا ایک چھوٹا سا گروپ لے کر چلنا چاہیں تو چلتے رہیں؛ سوائے status quo کو اپنانے کے کوئی دوسری راہ نہیں بچتی۔ چنانچہ اس سسٹم کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کی ضرورت ہے۔
مزید وضاحت کے لیے عرض کرتا چلوں کہ اِس نظام کو اِجارہ دارانہ کہنے اور کرپٹ قرار دینے کے واضح ثبوت موجود ہیں۔ ان دلائل میں سے بعض کا تعلق تاریخی شواہد کے ساتھ ہے اور بعض کا عملی کارکردگی کے ساتھ۔ 1934ء کے زمانے کا مطالعہ کریں کہ جب سندھ بمبئی کا حصہ تھا تو جو لوگ اس بمبئی کی حکومت کے وزیر تھے، سندھ کی سیاست اُس دن سے لے کر آج تک کم و بیش اسی ڈگر پر چل رہی ہے۔ پارلیمنٹ کا بہت بڑا حصہ آج تک انہی کے ہاتھ میں ہے۔ یہی حال بہاول پور، بلوچستان اور بیشتر دیگر حلقہ جات کا ہے۔ میں کسی شخص کا نام نہیں لوں گا، یہ میرا منصب نہیں اور نہ میرا مقصود ہے۔ میں تو صرف نظریاتی واضحیت (conceptual clarity) دینا چاہتا ہوں اور قوم تک ایک پیغام پہنچانا چاہتا ہوں۔ لوگ پہلے سے ان اجارہ دار خاندانوں اور سیاست دانوں کو جانتے ہیں، بہاول پور میں جو لوگ 1906ء میں وزیر اعلیٰ تھے اُنہی کے خاندان کے پاس آج تک سیاست و اِنتخابات کی اجارہ داری ہے۔ تاجِ برطانیہ کے دور میں ملتان اور ڈیرہ غازی خان میں جو بڑے بڑے خانوادے آج سے سو ڈیڑھ سو سال پہلے مسندِ اقتدار پر فائز تھے، جن کے پاس 1930ء کے اقتدار کی مسند تھی، آپ کو اُنہی شخصیتوں کی نسلیں اقتدار پر بیٹھی نظر آئیں گی۔ یعنی اِقتدار نسل در نسل اُنہی کو منتقل ہوتا نظر آئے گا۔ اس دوران میں الیکشن ہوتے رہے، حکومتیں بدلتی رہیں، جمہوریت کے نام پر اَدوار بھی بدلتے رہے، کبھی فوجی آمریتیں آئیں اور کبھی سیاسی آمریتیں، مگر اسمبلیاں اور اقتدار ان خانوادوں سے باہر کبھی نہیں گیا اور گیا تو بہت شاذ گیا۔
اس کے بعد جب شہر آباد ہوگئے تو شہروں کی contribution بھی politics میں شروع ہوگئی۔ چنانچہ بڑے بڑے سرمایہ دار اور تاجر سیاست اور اقتدار میں جاگیرداروں کے شیئر ہولڈرز بن گئے۔ وہ لاہور ہو یا فیصل آباد، سرگودھا ہو یا گوجرانوالہ، سیال کوٹ ہو یا راول پنڈی، کوئٹہ ہو یا حیدر آباد یا پشاور اور کراچی جہاں چلے جائیں آپ کو بیس بیس حلقوں تک مخصوص لوگ ہی براجمان نظر آئیں گے، دیہی علاقوں میں جاگیردار ہیں اور شہری علاقوں میں سرمایہ دار۔
اس نظام انتخاب کو قائم رکھنے میں الیکشن کمیشن بھی بڑا اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ وہ تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے ہوئے حقیقتِ حال سے لاتعلق ہو کر بیٹھا ہوا ہے۔ آج قومی اسمبلی کا الیکشن دس سے بیس کروڑ روپے سے کم سرمائے سے نہیں لڑا جا سکتا جبکہ اس ملک کے نام نہاد الیکشن کمیشن نے 15 لاکھ کی حد مقرر کی ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن اس معاملے میں پچھلے چالیس سال سے نابینا چلا آرہا ہے۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، انتخاب میں تین لاکھ روپے تک خرچ کرنے کی حد ہوتی تھی جب کہ تین کروڑ روپے خرچ ہوتے تھے؛ کبھی کوئی شخص نااَہل نہیں ہوا۔ پانچ لاکھ کی حد ہوتی تھی تو پانچ کروڑ خرچ ہوتے تھے۔ آج اگر 15 لاکھ کی حد ہے تو دس سے بیس کروڑ خرچ ہوتے ہیں، سب دنیا جانتی ہے مگر کون disqualify ہوتا ہے؟ یہی لوگ براجمان ہیں اور پندرہ پندرہ، بیس بیس سیٹیں ایک جیسے طبقے کے ہاتھ میں نظر آتی ہیں۔ اس کے بعد جا کر کوئی ایک آدھ ایسا سیاسی کارکن نظر آتا ہے جو بنیادی طور پر اس طبقے میں سے تو نہیں تھا مگر ایک کارکن اور حلقے میں کام کرنے کے ناطے اس نے اپنی political stability کو develop کر لیا اور حکومتی عہدوں کے ذریعے معاشی طور پر مستحکم ہوتا گیا اور رفتہ رفتہ وہ وہاں کا نمائندہ ہوگیا۔ پورے ملک میں کئی درجن سیٹوں کے بعد آپ کو ایک دو لوگ ایسے دکھائی دیں گے جو کارکن سے لیڈر بنے ہیں۔ نتیجتاً شہر سرمایہ داروں اور مال داروں کے ہاتھ میں آگئے اور دیہات جاگیرداروں کے پاس چلے گئے۔
ایک طرف جاگیردار اور وڈیرے ہیں، ایک طرف سرمایہ دار و مال دار ہیں اور ایک طرف اسٹیبلشمنٹ۔ یہ تین طبقات اس ملک میں status quo کے مہرے ہیں اور نظام انہی کے دامِ فریب میں پھنسا ہوا ہے۔ پھر اسٹیبلشمنٹ میں اندرونی اور بیرونی اسٹیبلشمنٹ بھی داخل ہوتی ہے۔ ہماری خارجہ پالیسی ملکی ضرورت کے مطابق نہیں بلکہ بیرونی آقاؤں کے اشاروں پر زیادہ عمل پیرا رہتی ہے۔
میرا پوری قوم سے سوال ہے کہ جو انتخاب پندرہ سے بیس کروڑ روپے کے سرمائے سے ایک سیٹ کے لیے لڑا جائے، وہ اس ملک میں کیسے change لائے گا؟ ایسے اراکینِ اسمبلی کیسی تبدیلی کے علم بردار ہوں گے؟ کیا انہیں ذاتی مفادات سے ہٹ کر قومی اور عوامی مفادات کے متعلق سوچنے اور ان کی حالت میں بہتری لانے کی فکر ہوگی؟ ہرگز نہیں! وہ status quo کی پیداوار ہیں اور ہمیشہ status quo کی حفاظت کریں گے، اگرچہ نعرہ تبدیلی کا لگائیں گے تاکہ عوام انہیں انقلابی سمجھتے ہوئے ان پر بھروسہ رکھیں۔ مروّجہ نظامِ سیاست میں executive اور سیاست دانوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ ملک میں ساری ناانصافیوں، کرپشن، اقربا پروریوں کا ماحول ان کے اس joint venture کے باعث وقوع پذیر ہوتا ہے۔
یہاں وہی سیاستدان کامیاب ترین ہے جو جھوٹ بولنے میں ماہر ہے۔ ساری سیاست جھوٹے نعروں پر کی جاتی ہے۔ ان نعروں میں اسلام، جمہوریت، غریب عوام اور ملک میں تبدیلی جیسے موضوعات اہم ہیں مثلاً بعض مذہبی سیاسی جماعتوں نے اسلام کا نعرہ صرف مسند اقتدار اور ایوانِ اقتدار تک پہنچنے کے لیے ایک آلہ بنا رکھا ہے۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کی طرف سے غریب عوام کے نعرے بھی لگے، مگر غریب عوام کے کندھے صرف مسند اقتدار پر پہنچنے کے لے تھے۔ غریب عوام کی اقتدار کے اندر کوئی participation اور شراکت نہ تھی۔ اِسی طرح جمہوریت کے نعرے بھی لگتے ہیں۔ یہاں جمہوریت بھی ایک سلوگن ہے۔ محض ایک دھوکہ ہے مسندِ اقتدار اور پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے! اور پھر پانچ سال تک وہ جمہوریت عوام میں سے کسی غریب کا حال پوچھنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ یہاں احتساب کا نعرہ بھی لگتا ہے۔ غرضیکہ جس کو جو نعرہ suit کرتا ہے وہ لگاتا ہے۔ جب فوجی آمریت آتی ہے تو وہ احتساب اور good governance کے نعرے لگا کر اس ملک کے اقتدار پر قبضہ کرتی ہے اور جب سیاسی آمریت آتی ہے تو وہ عوام اور جمہوریت کا نعرہ لگا کر ملکی اقتدار پر قبضہ کرتے ہیں، مگر جہاں تک عوام کی حقیقی زندگیوں میں تبدیلی کا تعلق ہے تو دونوں اَدوار میں نتیجہ ایک ہی رہتا ہے۔
فوجی آمریت میں ایوب خان اور یحییٰ کا دور دیکھ لیں، جنرل ضیاء الحق کا دور دیکھ لیں، جنرل پرویز مشرف کا دور دیکھ لیں؛ احتساب کے نام پر بھی آئے، اسلام کے نام پر بھی آئے اور good governance کے نام پر بھی آئے، devolution of powers کے نام پر بھی آئے اور بالآخر democracy کے نام پر بھی آئے لیکن یہ سب یکے بعد دیگرے دھوکے دے کر چلتے بنے۔ فوجی آمریت کے دور میں بھی اس ملک کے کروڑوں عوام میں سے مخصوص لوگوں کے علاوہ کسی ایک شخص کی زندگی میں تبدیلی نہیں آئی۔ کسی کو محرومیوں کے اندھیروں سے نکالنے کا اہتمام نہیں کیا گیا۔
پھر سیاسی دور میں جمہوریت کے نام پر نمائندہ پارلیمنٹ create کی گئی اور اب جب یہ نمائندگانِ قوم پارلیمنٹ میں آگئے تو اب آپ اپنا حال دیکھ لیں! لوگ قتل ہو رہے ہیں، ملک کی سا لمیت اور خود مختاری گروی رکھ دی گئی ہے، پاکستان کو بیرونی طاقتوں کی کالونی بنا دیا گیا ہے، پاکستان نہ اپنے داخلی اُمور کا فیصلہ کرنے میں آزاد ہے اور نہ اپنی خارجہ پالیسی میں آزاد ہے، نہ اپنے دفاعی فیصلے لینے میں آزاد ہے اور نہ ملکی دہشت گردی کے خاتمے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے میں آزاد۔ حتی کہ اسمبلیاں rubber stamp بن چکی ہیں۔
نام نہاد انتخابات کے نام پر لوگ منتخب ہو کر آتے ہیں۔ لہٰذا وہ کہتے ہیں ہمیں عوام نے منتخب کیا ہے اور وہی ہماری طاقت کا سرچشمہ ہیں حالانکہ اس ملک میں جمہوریت کی غرض و غایت اور جمہوریت کا تعلق عوام سے صرف اتنا ہے کہ انہیں ہر پانچ سال کے بعد اقتدار کے ان وارثوں کو منتخب کرنے کا حق دیا جاتا ہے۔ یہ ہے عوام کی طاقت!
پانچ سال کے بعد دوبارہ ایک میلہ لگتا ہے، کروڑوں روپے خرچ کرنے والے پھر وہی خانوادے، کبھی ان کے بیٹے، کبھی بیٹیاں، کبھی بھتیجیاں اور کبھی بھانجے بھانجیاں یعنی تھوڑے سے plus، minus کے فرق کے ساتھ یہی لوگ involve ہوتے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ جو کروڑوں لگا کے اسمبلی میں آئے گا وہ عوام کا پیٹ بھرے گا یا اپنا پیٹ بھرے گا؟ وہ پہلا خرچہ برابر کرنے کے بعد اگلے الیکشن کے لیے کروڑوں کیوں نہیں بنائے گا؟ کیونکہ اس نے اپنی ساکھ رکھنے کے لیے لوگوں کو آٹے کے تھیلے بھی دینے ہیں۔ اس نے سڑکیں بھی بنانی ہیں، کھمبے بھی لگانے ہیں، نالیاں بھی بنوانی ہیں، لوگوں کے گھر اناج بھی بھیجنا ہیں اور سب سے بڑھ کر کرپشن بھی کرنی ہے تاکہ اپنی اولادوں اور نسلوں کا مالی تحفظ بھی ہو جائے۔ کیا خبر کل ملک کی حالت کیا ہو، بیرونِ ملک اکاؤنٹ بھی کھلوانے ہیں اور جائیدادیں بھی بنانی ہیں۔ وہ پورے ملک کو لوٹے گا نہیں تو اور کیا کرے گا؟
کئی سال پرانی بات ہے (اب اُس دور کے مقابلے میں اَخراجات میں سیکڑوں گنا فرق آچکا ہے) کہ اُس وقت کسی شخص نے براہِ راست مجھ سے کہا تھا کہ وہ اُس وقت تک اپنی پارٹی کے الیکشن پر دو ارب روپے سے زائد خرچ کرچکا ہے جو کہ آج کے حساب سے کھرب ہوگا۔ اس کا کہنا تھا کہ میں نے invest کی گئی یہ رقم واپس بھی لینی ہے اور پھر آئندہ انتخابات کا وقت آنے تک کئی گنا اخراجات بڑھ چکے ہوں گے۔ میں نے اُس کے لیے بھی سرمایہ جمع کرنا ہے۔ اب آپ مجھے بتائیے کہ ایک شخص جب کروڑوں روپے لگا کر پارلیمنٹ میں پہنچے گا تو کیا وہ آپ کا نمائندہ ہوگا؟ وہ ملک کے محنت کشوں کا نمائندہ ہوگا؟ وہ طلبا کا نمائندہ ہوگا؟ وہ غریب عوام کا نمائندہ ہوگا؟ وہ کسانوں کا نمائندہ ہوگا؟ وہ تاجروں کا نمائندہ ہوگا؟ حقیقت یہ ہے کہ وہ صرف اپنے مفادات اور اپنی ذاتی ترجیحات کا ہی نمائندہ ہوگا۔
یہ الیکشن جس میں ایک ایک اُمیدوار کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری (investment) کرنے کے بعد اسمبلی میں پہنچتا ہے وہ الیکشن ہی پاکستان کے سترہ کروڑ عوام کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ یہ کبھی عوام کے دکھ اور مصائب حل کرنے میں کسی قسم کا relief دینے میں کام یاب نہیں ہوسکا۔ پہلے پہل تو ظاہر داری کرتے ہوئے جماعتیں اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کردیتی تھیں لیکن اب تو جماعتوں کا منشور بھی ختم ہوچکا ہے۔ پبلک نے دھوکے کھا کھا کر اس روِش کو بھی قبول کر لیا ہے۔ اب نہ کوئی منشور چھاپتا ہے اور نہ کوئی منشور پوچھتا ہے۔ اکثر اوقات یک نکاتی منشور چل پڑتا ہے۔ بس ایک کہہ دے گا کہ کرپشن کا خاتمہ میرا منشور ہے، بس کسی کو اس کے علاوہ کوئی منشور پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ایک شخص کہہ دے گا کہ فلاں ملک دشمن جماعت ہے اور وہ نظریہ پاکستان بحال کرے گا، قائداعظم کی فکر دے گا، اُس کا پاکستان واپس دلائے گا۔ ایک نے کہا کہ جمہوریت دوں گا۔ کچھ نے کہہ دیا ہم اسلام لائیں گے۔ کوئی کہہ دے گا کہ لٹیروں کی لوٹ کھسوٹ کو ختم کریں گے۔ یہ جملے آپ غور سے سنیں، یہ سب یک لفظی منشور ہیں۔ قوم کو کچھ پتہ نہیں کہ یہ کس طرح ہوگا؟ اُس کی خارجہ پالیسی کیا ہوگی؟ اُس کی داخلہ پالیسی کیا ہوگی؟ اِس ملک کو کیسے خسارے سے نکالا جائے گا؟ امپورٹ اور ایکسپورٹ میں کیسے بہتری ہوگی؟ کتنا روزگار مہیا کیا جائے گا؟ ایجوکیشن پہ کتنا خرچ کرے گا؟ ہیلتھ پر کیا خرچ ہوگا؟ Infrastructure پر کیا خرچ ہوگا؟ Regional relations کیا ہوں گے؟ بین الاقوامی پالیسی کیا ہوگی؟ کچھ معلوم نہیں اور نہ ہی کوئی پوچھنے والا ہے۔ کسی حقیقی منشور کی اس نظامِ اِنتخاب میں ضرورت نہیں رہی کیونکہ اب انتخابی جنگ جماعتوں سے ہٹ کر دھڑوں کے درمیان شروع ہوگئی ہے۔
موجودہ سیاسی لیڈر اس نظام انتخابات کے ماہر اور شاطر کھلاڑی ہیں، وہ کبھی نہیں ہارے۔ ہمیشہ الیکشن کا میچ جیتتے ہیں۔ مگر یاد رکھ لیں! اس الیکشن کا یہ میچ صرف اَشرافیہ کے لئے ہے، عوام مکمل طور پر گراونڈ سے باہر ہیں۔ عوام کے پاس نہ بیٹنگ ہے، نہ باؤلنگ اور نہ ہی فیلڈنگ۔ عوام تو گرائونڈ سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ پانچ سال کے بعد جب چھکا لگتا ہے تو بال اٹھا کر واپس اُنہی کی طرف پھینک دیتے ہیں اور وہ صرف پانچ سال لاتعلق ہو کر اس گیم کو enjoy کرتے ہیں۔ عوام کا بس اتنا کام ہے! یہ اس لئے کہ عوام کو جمہوریت کی حقیقت اور اصل مقاصد ہی معلوم نہیں۔ حقیقی جمہوریت کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس ملک میں فوجی حکومتیں بھی ناکام رہیں اور جمہوری حکومتیں بھی، جس کے باعث لوگوں کا اس جمہوری اور سیاسی نظامِ عمل پر اِعتماد ختم ہوچکا ہے۔ ساٹھ فیصد سے زائد لوگ ووٹ نہیں ڈالتے۔ پینتیس سے چالیس فیصد لوگ ووٹ ڈالتے ہیں اور وہ ووٹ بھی کرپشن اور ایک منظم مہم سے ڈلوائے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلہ کے مطابق 3.75 کروڑ سے زائد ووٹ تو تھے ہی جعلی، مزید برآں اگر عوام پر دباؤ نہ ہو، گاڑیاں مہیا نہ کی جائیں، ایک میلہ نہ لگے، خاندان اوربرادریاں ناجائز اثر و رسوخ استعمال نہ کریں، یہ سارے دباؤ نہ ہوں اور سارے غیر جمہوری اِقدامات نہ کئے جائیں تو مینڈیٹ کا شور کرنے والوں کو سمجھ آجائے، شاید دس یا بیس فی صد لوگ بھی ووٹ نہیں ڈالیں گے اور اَسّی فیصد لوگ اِس نظامِ انتخابات کو جمہوری طریقے سے مسترد کردیں گے۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved