قیامِ پاکستان کے بعد ساڑھے چھ دہائیاں گزرنے کے بعد بھی ہمارا معاشرہ نہ جمہوری بن سکا نہ اسلامی؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم انسانی معاشرے سے بھی دور جاچکے ہیں۔ اسی خراب نظام کے باعث ہم زوال پذیر ہیں۔ جس معاشرے میں سیلاب زدگان کے لیے دنیا بھرسے آنے والا امدادی سامان کھا لیا جائے اور کمبل، کپڑے، مارکیٹ میں بک رہے ہوں اور یہ اٹھارہ کروڑ عوام سب کچھ دیکھ سن کر بھی خاموش تماشائی بن کے بیٹھے رہیں توکیا اس معاشرے کو اسلامی و جمہوری یا انسانی معاشرہ کہیں گے؟ جس معاشرے میں زلزلے میں شہید ہونے والی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کے ہاتھوں سے زیورات اتار لیے جائیں اور قوم گھروں سے احتجاج کے لئے باہر نہ آئے اس سوسائٹی کو اسلامی و جمہوری اور انسانی کہیں گے؟ اس معاشرے کو کیا کہیں گے جس میں باپ اپنے بیوی بچوں کو قتل کردے اور اپنی بیٹیوں سے بدکاری کا مرتکب ہو؟ خودکشیاں اور خود سوزیاں بکثرت ہوں۔ جس کے دائیں بائیں پڑوس میں قتل ہوجائیں اور کسی کی آنکھ میں آنسو تک نہ آئے، حالانکہ ہم 1947ء میں ایسے نہ تھے۔ انہی نام نہاد جمہوری رہنماؤں اورفوجی لیڈروں نے رفتہ رفتہ اس معاشرہ کو نام نہاد جمہوریت کی آڑ میں تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے جس میں نہ اسلامی قدریں بچیں، نہ جمہوریت بچی اور نہ انسانیت بچی۔
پوری قوم کی گاڑی میں تیل نہیں ہے، پوری قوم کا چولہا بند ہے، پوری قوم کی عزت لٹ رہی ہے، جان و مال محفوظ نہیں، قومی سالمیت بک چکی ہے۔ پاکستان اس وقت کالونی بن چکا ہے۔ اس کے پاس اب کوئی آزادی اور خود مختاری باقی نہیں رہی۔ حکمرانوں کی طرف سے یہ آزادی، خود مختاری کی باتیں سیاسی بیانات ہیں جو صرف جھوٹ، دجل فریب اور ایک مکاری ہے۔ یہ اس بد قسمت ملک کے سیاست دانوں کی عیاری ہے کہ قوم کو ہمیشہ دھوکے میں رکھیں اور لوگوں کو سبز باغ دکھا کر بہلاتے رہیں۔
انہوں نے یہاں دین کو بیچ دیا۔ اس کا نظریہ، اس کی نسلیں حتی کہ اس کے اپنے مستقبل کو بیچ دیا ہے۔ اب آپ کے پاس صرف یہ زمین ہے اور اس پر دیکھنے کو چند عمارتیں ہیں یا وہ رقوم ہیں جو غیر ملکی قرضوں اور امداد کی شکل میں آتی ہیں جسے کھانے والے کھا پی جاتے ہیں۔ اب ایک راستہ تویہ ہے کہ اسی status quo پر گزارا کیا جائے اور اس طرح گزارا کرنے کا انجام پھر اور بدتر ہوتا ہے، اور دوسرا راستہ یہ ہے کہ لوگوں کو کم سے کم اس خوفناک وقوع پذیر ہونے والی حقیقت سے آگاہ کیا جائے جو مکمل قومی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔
اِس وقت پاکستانی قوم جن بڑی اور مہلک بیماریوں میں مبتلا ہو چکی ہے ان کا خلاصہ درج ذیل ہے:
ہم ایک منتشر اور پارہ پارہ قوم بن چکے ہیں۔ ہمیں اِتحاد و یگانگت کی سخت ضرورت ہے۔ میری خواہش ہے کہ ہماری scattered اور disintegrated قوم کو unity مل جائے اور یہ دوبارہ وحدت کے رشتے میں پروئی جائے۔ مگر یہ کیسے ممکن ہے؟ اس کے لیے تبدیلی (change) چاہیے۔
قوم مایوس ہوچکی ہے۔ میں اس قوم کو مایوسی سے نکال کر امید کی نعمت اور یقین کے نور سے بہرہ مند دیکھنا چاہتا ہوں مگر یہ قوم مایوسی سے کیسے نکلے اور امید اور یقین کا نور ان کے چہروں پر کیسے پلٹ کے آسکتا ہے؟ اس کے لیے بھی ایک بنیادی تبدیلی (change) کی ضرور ت ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ بدقسمتی سے یہ قوم بے مقصدیت کا شکار ہوگئی ہے۔ اس قوم کے سامنے کوئی نصب العین نہیں رہا، جو ٹکڑے ٹکڑے ہو کر منتشر ہو جانے والے جتھوں کو جوڑ کر ایک اکائی میں دوبارہ بحال کر سکے، جو قوم کے کروڑوں لوگوں کو باعزت جینے اور مرنے کا سلیقہ سکھا سکے۔ ہم اس قوم کو دوبارہ مقصد کا شعور اور آگہی دینا چاہتے ہیں۔ ہم گزشتہ 32 سالوں سے تحریک منہاج القرآن کے ذریعے بیداریِ شعور کا فریضہ نبھا رہے ہیں۔ اس بے مقصد قوم کو اب مقصد اور آگہی کا شعور کیسے ملے گا؟ ہماری غور و فکر کا نتیجہ یہی ہے کہ اس کے لیے بھی بنیادی تبدیلی (change) کی ضرورت ہے۔
اسی طرح یہ قوم بے سمت ہوگئی ہے۔ کراچی سے خیبر پختونخواہ تک اور کشمیر سے چمن کی سرحدوں تک من حیث القوم اس کی کوئی سمت نہیں رہی۔ اس کی سوچیں، وفاداریاں، بولیاں، مفادات، ترجیحات اور ایجنڈے سب متضاد ہیں۔ یہ ایک directionless قوم بن چکی ہے۔ سترہ کروڑ بے ہنگم عوام کا ہجوم ایک قوم بن کر، ایک وحدت اور اکائی بن کر، ایک مقصد کے ساتھ ایک سمت کی طرف چل پڑے، لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا؟ اس کے لیے ایک ہمہ گیر تبدیلی (change) کی ضرورت ہے اور وہ تبدیلی نظام میں انقلابی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں ہوگی۔
انتخابات کے نتیجے میں جو جمہوری حکومتیں بنیں انہوں نے اپنے اپنے اَدوار میں بے تحاشہ بدعنوانیاں کیں۔ فرقہ وارانہ قتل و غارت گری بھی رہی اور دہشت گردی بھی فروغ پاتی رہی۔ یہ سیاسی دور ہی تھے جن میں سپریم کورٹ پر حملے ہوئے، پھر دو سپریم کورٹس بنیں۔ اور یہ بھی سیاسی دور ہی ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد روک دیا گیا ہے۔ آج سپریم کورٹ فیصلہ کرنے میں آزاد ہے مگر عمل درآمد کرانے میں مقید ہے۔ سپریم کورٹ قیدی بن کے رہ گئی ہے، اس کے کسی فیصلے کا عملی اِحترام نہیں اور پارلیمنٹ اور سپریم کورٹ کے درمیان ایک تضاد اور تصادم کی فضا بھی آج کے اِسی جمہوری دور میں جاری ہے۔ سپریم کورٹ کے پاس یہ مینڈیٹ یا اتھارٹی ہی نہیں ہے کہ وہ حکومت کو عمل کرنے پر مجبور کرے۔
یہ بھی ایک المیہ ہے کہ مختلف سلگتے مسائل پر سپریم کورٹ صرف تجاویز اور سفارشات دے دیتی ہے؛ یہ تو وعظ کرنا ہوا، عدل و انصاف دینا تو نہ ہوا۔ جب تک ان پر عمل در آمد نہ ہو انہیں عدالتی احکام کیسے کہا جائے؟ جب کہ عمل درآمد انہی بااثر حکومتی طبقوں کے ہاتھوں میں ہے جس کے بارے میں کراچی کے واقعات کی تحقیقات کے دوران سپریم کورٹ نے خود لکھا کہ ان میں سے ہر ایک جماعت کے پاس دہشت گردی کی مسلح تنظیمیں ہیں جو خود اس دہشت گردی اور قتل و غارت گری، تباہی اور ہلاکت کی ذمہ دار ہیں۔ عمل درآمد کون کرے گا؟ جس سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہو، اس سپریم کورٹ کی آزادی کیا آزادی ہے؟ اب اگر کہیں کہ سپریم کورٹ آزاد ہے تو اس سے بڑا اور کیا مذاق ہو سکتا ہے؟ وہ فیصلہ کرنے میں کیسے آزاد ہے جب کہ وہ اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کرانے میں dependent ہے۔ وہ ایک جمہوری معاشرے کے قیام میں کیسے متحرک اور فیصلہ کن کردار ادا کر سکے گی؟
امریکہ میں سپریم کورٹ کو judicial review کا حق ہے۔ اگر امریکی کانگرس کوئی قانون پاس کردے تو امریکہ کی سپریم کورٹ کو پارلیمنٹ کی قانون سازی پر قانونی رائے دینے کا حق حاصل ہے یعنی اسے پارلیمنٹ پر برتری حاصل ہے۔ حالانکہ امریکی آئین میں کوئی آرٹیکل یہ اختیار سپریم کورٹ کو نہیں دیتا مگر دو سو سال کی تاریخ اور آئینی روایات اور عدالتوں کے فیصلے اس بات کے شاہد ہیں کہ سپریم کورٹ اس اختیار کو استعمال کر رہی ہے، جن میں کئی مرتبہ امریکی صدر اور کانگرس کے ایکٹ کو امریکی سپریم کورٹ نے غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کردیا اور امریکی کانگرس نے سپریم کورٹ یا سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا۔ سب سے پہلا فیصلہ جہاں سے سپریم کورٹ آف امریکہ نے یہ اختیار لیا تھا 1803ء میں ہوا۔ یعنی آج سے تقریباً دو سو آٹھ سال قبل۔ اس کے بعد پھر بہت سارے فیصلے ہوئے جیسے1974ء میں صدر نکسن کے اختیارات کو سپریم کورٹ نے محدود کیا۔ صدر امریکہ کا خیال تھا کہ کسی کیس میں صدر کو طلب نہیں کیا جاسکتا لیکن سپریم کورٹ آف امریکہ نے نکسن کا یہ اِستدلال ردّ کردیا۔ جب ہم باقی باتیں سیکھتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ امریکہ سے جمہوریت بھی سیکھ لیں، عدلیہ اور اداروں کا احترام بھی سیکھ لیں۔ سپریم کورٹ نے حکومت کے کئی فیصلے ردّ کیے، صدر اور کانگرس کے فیصلے مسترد ہوئے۔ سپریم کورٹ کو 200 سال سے عملاً یہ برتری حاصل ہے اور کانگرس نے آج تک اسے چیلنج نہیں کیا۔ جب اس طرح ادارے مضبوط ہوتے ہیں تو پھر ملک میں نظام چلتا ہے۔
یہی پوزیشن جرمنی کی ہے۔ جرمنی میں judicial courts کو بھی یہی اختیارات حاصل ہیں جو پارلیمنٹ کے اوپر امریکہ کی سپریم کورٹ کو حاصل ہیں بلکہ امریکہ کی سپریم کورٹ سے بھی زیادہ اختیارات حاصل ہیں۔ وہ یہ طے کرتی ہے کہ پارلیمنٹ کا کوئی فیصلہ آئین کی اصل روح کے خلاف تو نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ جرمنی میں عدلیہ کی اس طاقت نے جدید جمہوریت کے تحفظ میں شاندار کردار ادا کیا ہے۔ عدلیہ جمہوریت کی حفاظت کی ضامن ہے تاکہ سیاسی جماعتیں اپنی خواہش کے مطابق آئین اور ملک کو کسی اور راستے پر نہ چلا دیں۔
اسی طرح ناروے کی سپریم کورٹ کو یہ اختیارات حاصل ہیں کہ ناروے کی قومی اسمبلی کی پاس کئے ہوئے کسی ایکٹ کو بھی ردّ کرسکتی ہے۔
ڈنمارک کی سپریم کورٹ کو بھی یہی اختیارات حاصل ہیں۔ اگرچہ ان کا آئین کورٹ کے اس حق کو بیان نہیں کرتا مگر عملی طور پر سپریم کورٹ نے یہ اِختیارات observe کیے ہیں۔ حکومت اور پارلیمنٹ اسے تسلیم کرچکی ہے کیونکہ انہوں نے اس کا فائدہ دیکھا۔ اس طرح جمہوریت کی گاڑی غلط راستے پر نہیں جاتی اور پوری قوم کا جمہوریت پر اعتماد بڑھتا ہے۔
فرانس میں سپریم کورٹ کی بجائے ایک اور کورٹ ہے جس کا نام Constitutional Council ہے، وہ پارلیمنٹ کے ریگولیشن بھی مسترد کرسکتی ہے۔ یہ قانون 2010ء میں لاگو کیا گیا۔
میں بتانا یہ چاہتا ہوں ہم جن جمہوری ملکوں کی بات کرتے ہیں ان میں ادارے اتنے طاقت ور ہیں کہ حکومتیں اور پارلیمان سب سپریم کورٹ کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں، کسی ملک میں لڑائی کبھی نہیں دیکھی گئی جبکہ پاکستان میں ادارے لڑتے ہیں اور جماعتیں لڑاتی ہیں۔ ایک دنگا فساد، تماشا اور ڈرامہ ہے۔ پاکستان میں ہم کس جمہوریت کی بات کرتے ہیں۔ ہمیں جمہوریت کے صحیح راستے پر عوام کو یہ باور کرانا ہو گا اور اداروں کو مضبوط کرنا ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت آج تک صحیح طریقے سے یہاں نہیں پنپ سکی، جس کے نتیجے میں پورا ملک معاشی طور پر انتہائی بربادی کا شکار ہوگیا۔
یہاں با اختیار لوگ پریس اور میڈیا کی آزادی کی باتیں کرتے نہیں تھکتے کہ ملک میں میڈیا مکمل آزاد اور طاقت ور ہے۔ یہ کیسا جمہوری نظام ہے کہ میڈیا والے رات دن بول بول کر ہلکان ہوجائیں، کسی کے کان پر جوں نہیں رینگے گی؟ درجنوں ٹی وی چینلز صبح و شام بولتے ہیں، جو چاہیں بولتے رہیں مگر میڈیا کی کوئی نہیں سنتا۔ ایک وقت تھا کہ کسی صاحبِ اختیار کے خلاف اخبار میں ایک اداریہ لکھا جاتا توحکومت کے وزیر مستعفی ہوجاتے تھے۔ اب کروڑ اداریے لکھ ڈالیں ان کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ میڈیا کی آزادی کا یہ مطلب ہے کہ جو چاہیں بولیں ہماری صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا؟ مغربی جمہوری ملکوں میں ایک اسٹوری اگر کسی ایم این اے یا ایم پی اے کے خلاف چھپ جائے یا کسی ایک ٹی وی چینل پر ایسی خبر آجائے تو اُسی وقت انکوائری ہوتی ہے اور اگر الزام ثابت ہوجائے تو وہ فارغ ہوجاتا ہے۔ حقیقت میں اِس کو میڈیا کی آزادی کہتے ہیں جس کا اثر بھی ہو اور اگر اثر نہیں ہوتا تو ایسی آزادی سے کیا حاصل؟
پاکستان میں چونکہ جمہوریت صحیح روح کے ساتھ نہیں آئی۔ جب حقیقی روح نہ ہو تو کرپشن اور بربادی جنم لیتی ہے۔ آج پاکستان اقتصادی اعتبار سے بین الاقوامی برادری میں کرپشن میں 117 نمبر پر چلاگیا ہے۔ زیرو یا ایک نمبر ہو تو مطلب ہے یہاں کوئی کرپشن نہیں۔ نمبر جتنا جتنا بڑھتا جائے مطلب ہے کرپشن کا درجہ بڑھتا چلا گیا۔ ذرا غور فرمائیے کہ بھوٹان ۔ جو کہ سارک ممالک کا چھوٹا غیر ترقی یافتہ ملک ہے ۔ کرپشن میں درجہ (rank) 29 پر ہے۔ انڈیا کرپشن میں درجہ 70 پر ہے، سری لنکا کرپشن میں درجہ 74 پر ہے۔ کرپشن کی رینکنگ میں منگولیا جیسے ملک کا نمبر92ہے۔ بنگلہ دیش، زمبابوے اور نائیجیریا کا کرپشن میں 108 نمبر ہے۔ یہ افریقہ کے چھوٹے چھوٹے ملک ہیں، بڑے ملک نہیں گنوائے۔ یہ سارے ملک پاکستان سے پیچھے رہ گئے۔ بات واضح کرنے کی غرض سے چند ملکوں کے ذکر پر اکتفا کیا ہے کہ ان میں پاکستان کا نمبر 117 پر جا پہنچا۔ اس میں فوجی آمروں کا دور بھی شامل ہے اور نام نہاد سیاسی جمہوری حکومتوں کا بھی۔ مسلسل کرپشن بڑھتی رہی کیونکہ جمہوریت اپنی روح کے ساتھ نہیں رہی۔ اس میں شفافیت نہیں، احتساب نہیں اور عوام کی شراکت اور مؤاخذہ نہیں ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق موجودہ جمہوری حکومت کے طویل ترین دور میں 8 ہزار 500 ارب روپے بدعنوانی، ٹیکس چوری اور خراب طرزِ حکمرانی کی نظر ہوئے، جب کہ رپورٹ کے مطابق اَصل کرپشن اس سے کہیں زیادہ ہے۔ PIA، PSO، پاکستان اسٹیل، پاکستان ریلوے اور سوئی گیس جیسے منافع بخش ادارے سالانہ 150 سے 300 ارب روپے خسارہ میں ہیں۔ اِسی رپورٹ کے مطابق مالی سال 2011ء میں ٹیکس GDP کا تناسب 11 فیصد سے کم ہو کر 9.1 فیصد رہ گیا جب کہ NAB اور FBR نے کرپشن روکنے کی بجائے الٹا کرپٹ لوگوں کا ساتھ دیا اور انہیں تحفظ فراہم کیا۔
اِفراطِ زر تسلسل کے ساتھ پاکستان میں بڑھتا رہا ہے چاہے جمہوری دور ہو یا فوجی دور۔ مثلاً یہ 2004ء میں 4.6 اور 2005ء میں 9.8 تک تھا جو 2011ء میں بڑھ کر 16.1 فیصد سے زیادہ ہوچکا ہے۔ 2004ء کے مقابلے میں چار گنا زیادہ اِفراطِ زر ہوچکا ہے۔ عوام کو کیا پتہ کہ حقائق کیا ہیں! خود ساختہ اَعداد و شمار کے ماہر لوگ جس طرح چاہیں بیان کردیں۔ جب کہ مالی سال 2011ء میں WPI یعنی wholesale price index پر مہنگائی کی شرح 26 فیصد تک رہی جو کہ صنعتوں کو زندہ درگور کر دینے کے مترادف ہے۔
GDP کی شرحِ نمو کسی ملک کی معیشت کی صورتِ حال کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ ایک barometer ہے جس سے ملک کی معاشی ترقی یا تنزلی کا علم ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ملک کی معاشی ابتری کے باعث ہماری GDP کی شرحِ نمو دیگر ممالک کے مقابلے میں کبھی بھی قابل ذکر نہیں رہی۔ 1995ء، 1996ء، 1997ء میں GDP میں FDI یعنی غیر ملکی سرمایہ کاری کا جو گراف پاکستان میں تھا، آج سولہ سترہ سال گزرنے کے بعد بھی کم و بیش وہی ہے۔ جبکہ دنیا کے دیگر ممالک کی GDP کی شرحِ نمو مسلسل بڑھی ہے۔ 2010ء۔ 2011ء میں GDP میں direct investment کا گراف 1.6 پر کھڑا ہے۔
اِدارہ شماریات کے مطابق مالی سال 2010ء۔ 2011ء میں GDP کی شرحِ نمو صرف 2.4 فیصد رہی جبکہ ٹارگٹ 4.5 فیصد تک کا تھا۔ جبکہ اِسی سال ترقی پذیر ممالک کے GDP کی شرحِ نمو اَوسطاً 6.5 فیصد رہی۔ حیرت انگیز اَمر یہ ہے کہ جنوبی ایشیائی ممالک میں یہ شرح 8.7 فیصد تک بھی رہی؛ لیکن پاکستان میں مستقل سرمایہ کاری کی شرح GDP کے تناسب سے 22.5 فیصد تک گر گئی اور 2011ء میں اس کی تنزلی کا تناسب 13.4 فیصد تھا جو گزشتہ چار دہائیوں کی کم ترین شرح ہے۔ حالیہ سرکاری رپورٹ کے مطابق اِس وقت شرحِ نمو ملکی تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔
قرضہ جات کا حجم 1999ء میں 3200 ارب تھا۔ جب جنرل مشرف کا دور ختم ہوا تو قرضوں کا حجم بڑھ کر 6691 ارب روپے ہوگیا اور آج اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے کل قرضہ جات 14561 ارب روپے سے تجاوز کرگئے ہیں جو 2008ء سے اب تک تقریباً ایک سو فیصد سے بھی زائد کا اِضافہ ہے۔ اِن اَعداد و شمار کے مطابق پاکستان کا ہر شخص 80,894 روپے کا مقروض ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ بیرونِ ملک سے سرمایہ کاری نہیں ہوتی، قرضے کرپشن میں جاتے ہیں، مؤاخذہ اور احتساب نہیں ہے، پالیسیاں شفاف نہیں ہے، اختیارات مفاد پرست لوگوں کے ہاتھ میں ہیں۔ قانون پر عمل داری نہیں ہے، فوری انصاف نہیں ملتا اور ماحول سرمایہ کار کو سہولت نہیں دیتا۔ یہاں امن نہیں ہے۔ ملک کی تقدیر دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے ہاتھ میں ہے جس کو چاہیں جب چاہیں اڑا دیں۔ ان حالات میں ملک میں کون سرمایہ لائے گا، اور کہاں لگائے گا؟
بیروزگاری میں بھی پاکستان کا گراف بہت نیچے جا رہا ہے۔ غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اِس وقت ہمارے ملک میں بیروزگاری 15.4 فیصد ہے۔ اس حوالے سے چند دوسرے قریبی ممالک کے ساتھ تقابلی جائزہ لیں تو پاکستان کی معاشی ابتری کھل کر سامنے آ جاتی ہے۔ مثلاً بنگلہ دیش میں بیروزگاری 5.1 فیصد ہے۔ ہماری بیروزگاری کا گراف بنگلہ دیش سے بھی تین فیصد بڑھ چکا ہے۔ سارک کے چھوٹے سے رکن ملک بھوٹان میں بیروزگاری 4 فیصد ہے۔ سری لنکا میں بیروزگاری 4 فیصد، نیپال میں 4.6 فیصد، منگولیا میں 5.6 فیصد، ملائیشیا میں 4.1 فیصد اور قازقستان میں 5 فیصد ہے۔ افریقی ملک گھانا میں 11 فیصد، تنزانیہ میں 6.8 فیصد اور نائیجیریا میں 21 فیصد بیروزگاری ہے۔ اِس تقابلی جائزے سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان بیروزگاری میں چھوٹے ترقی پذیر ممالک سے بھی آگے ہے۔ وجہ کیا ہے؟ اس ملک میں بے تحاشا عیاشی ہے، یہاں عیاشیوں پر خرچ ہوتا ہے اور کوئی مؤاخذہ و محاسبہ کرنے والا نہیں۔
آج 2011ء۔ 2012ء میں تعلیم پر ہمارا کل خرچ GDP کا صرف 2.7 فیصد ہے، جب کہ بہت سے ترقی پذیر ممالک میں یہ شرح 3 سے 4 فیصد تک ہے۔ سرکاری اَعداد و شمار کے جادوگر شرحِ خواندگی کو 54 فیصد تک بتاتے ہیں مگر پاکستان کے طول و عرض میں سفر کرنے والے اَفراد زمینی حقائق سے بخوبی واقف ہیں۔ سنگاپور میں شرحِ خواندگی 93 فیصد، جاپان میں 100 فیصد اور سری لنکا میں 91 فیصد تک ہے۔ عوام کو تعلیم اور شعور سے دور رکھنے کا مقصد صرف یہی ہے کہ کہیں یہ اِس نظام کے خلاف علمِ بغاوت بلند نہ کر دیں جو صرف اور صرف کرپٹ لوگوں، وڈیروں، جاہلوں اور بد معاشوں کو سپورٹ کرتا اور تحفظ فراہم کرتا ہے۔
اس کے برعکس ہمارے پڑوس میں نیپال اور بھوٹان کا تعلیمی بجٹ ہم سے 2 گنا زیادہ ہے، مالدیپ کا تقریباً 5 گنا زیادہ ہے، منگولیا کا دو اڑھائی گنا زیادہ ہے۔ کینیا کا 3 گنا زیادہ ہے۔ گھانا کا تین چار گنا زیادہ ہے۔ ایتھوپیا اور حبشہ کا دو گنا زیادہ ہے۔ افریقہ کے تیسری دنیا کے ممالک اپنی تعلیم پر پاکستان سے تین گنا زیادہ خرچ کر رہے ہیں۔ ہم نے اس تقابلی جائزے میں ایران اور کئی دیگر ممالک شامل نہیں کئے جن کا تعلیمی بجٹ بہت زیادہ ہے بلکہ اس سلسلے میں سارک اور افریقہ کے چند غریب ممالک کو لیا ہے۔ جب ہم اپنی تعلیم پر نہیں خرچ کرنا چاہتے تو جمہوریت کہاں سے آئے گی؟ کیسی عجیب منطق ہے کہ عوام کو جاہل رکھ کرہم جمہوریت کے خواب دیکھتے ہیں!
صحت پر ہمارا خرچ GNP کا صرف 0.84 فیصد اور GDP کا 2.6 فیصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوگ صحت سے محروم ہیں اور مر رہے ہیں۔ پندرہ سال سے یہی بجٹ چلا آرہا ہے؛ جبکہ بنگلہ دیش کا health budget ہم سے زیادہ یعنی 4.3 فیصد ہے، نیپال کا 6 فیصد، بھوٹان کا 5.5 فیصد، سری لنکا کا 4 فیصد، مالدیپ کا 5.6 فیصد، منگولیا کا 9 فیصد، قازقستان کا 4 فیصد، کیوبا 12 فیصد، کینیا کا 12 فیصد، گھانا کا 10.6 فیصد، اتھوپیا اور حبشہ کا 3.6 فیصد ہے۔ آپ اندازہ کر لیں کہ افریقہ کے ہر پسماندہ ملک کا تعلیم اور صحت پر خرچ ہم سے زیادہ ہے۔ ملک کو ترقی دینے پر ہر خرچ زیادہ ہے۔ ہمارے خرچے کہاں جاتے ہیں؟ ہمارے خرچ عیاشیوں، کرپشن اور اثاثہ جات بڑھانے پر جاتے ہیں۔
ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق ایک سال کے بچوں کی شرح اَموات 82 فی ہزار ہے جبکہ یہ شرح سری لنکا میں 16 فی ہزار، چین میں 30 فی ہزار اور ملائشیا میں صرف 8 فی ہزار ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 5 لاکھ افراد ہیروئن کا نشہ کرتے ہیں اور ملک کا مستقبل اور ہماری امیدوں کے چراغ، ہمارے 38 فیصد بچے کم وزن (under weight) ہوتے ہیں جن کے ہاتھوں میں ہم نے اُمت مسلمہ کے قلعہ پاکستان کی باگ دوڑ تھمانی ہے۔ جبکہ سری لنکا میں 21 فیصد، بھوٹان میں 12 فیصد، چین میں 9 فیصد، کینیا میں 17 فیصد اور زمبابوے میں 14 فیصد بچے کم وزن (under weight) ہوتے ہیں۔
ورلڈ بینک کے مطابق جن افراد کی آمدنی سوا ڈالر یومیہ یعنی کم و بیش 125 روپے یومیہ سے کم ہو وہ غربت کی عالمی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ حالیہ سرکاری اَعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں غربت کا تناسب 58 فیصد ہے جبکہ سری لنکا میں یہ تناسب 9 فیصد، قازقستان میں 8 فیصد اور ملائیشیا میں صرف 4 فیصد ہے۔
سینٹ میں پیش کردہ ’قومی غذائی سروے‘ کے مطابق پاکستان کا شمار اِنتہائی بھوک کے شکار ممالک میں ہوتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ پانچ سالوں میں ’فوڈ باسکٹ‘ کی قیمت 1,000 روپے سے بڑھ کر 1,790 روپے ہوگئی ہے جو 79 فیصد اِضافہ ہے، جب کہ 29.6 فیصد اَفراد ایک وقت کے کھانے پر زندہ ہیں۔ ایک اور سرکاری رپورٹ کے مطابق 11 کروڑ لوگوں کو خوراک کے حوالے سے عدمِ تحفظ کا سامنا ہے۔ 2009ء کے حکومتی اَعداد و شمار کے مطابق GDP کا 7.4 فیصد غربت کے خاتمے پر خرچ کیا جارہا تھا جو 2012ء میں کم ہوکر صرف 6.9 فیصد رہ گیا ہے۔
اب آج کی موجودہ پارلیمنٹ سے پوچھیں کہ جس کے پانچ سال پورے ہونے کو ہیں، جس میںوفاقی اور صوبائی دونوں حکومتیں شامل ہیں، انہوں نے اس قوم کو کیا دیا ہے؟ سترہ کروڑ عوام کو بجلی نہیں مل رہی، پانی نہیں مل رہا، آٹا نہیں مل رہا، کھانا نہیں مل رہا، روزگار نہیں مل رہا، لوگوں کی عزت و ناموس اور جان و مال محفوظ نہیں، ہر وقت خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ عوام کو اس کی قانون سازی (legislation) نے کیا دیا؟ اسمبلیوں میں ammendments اور قانونی موشگافیاں اپنے سیاسی مفاد کے تحفظ کے لیے، اپنی کرپشن کو محفوظ رکھنے کے لیے ہوتی ہیں۔ اسی لیے حکومتی پالیسیوں میں تسلسل نہیں ہے۔ ایک حکومت جاتی ہے تو اس سے منسوب تمام منصوبے اور ادارے اٹھا کر سمندر میں غرق کر دیے جاتے ہیں۔ پوری دنیا میں ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ سیاسی جماعت اور حکومت بدلنے سے ملک کی main ڈائریکشن ہی تبدیل ہو جائے۔ جمہوری ممالک میں سیاسی حکومت بدلتی ہے لیکن قومی سمت وہی رہتی ہے۔ اہم کلیدی عہدوں پر سیاسی مداخلت نہیں ہوتی، نہ تقرری میں اور نہ برطرفی میں۔ قومی سلامتی کے اہم منصوبے بدستور جاری رہتے ہیں مگر پاکستان میں قومی سطح کے کسی ادارے کی ایک بھی سیٹ ایسی نہیں ہے کہ حکومت بدلتے ہی جس کے سربراہ بدل نہ جاتے ہوں۔ حکومت بدلے گی تو PIA کی ساری اعلیٰ قیادت بدل جائے گی۔ یہی حال اسٹیل ملز، واپڈا، اسٹیٹ بینک اور ریلوے کا ہے، حتیٰ کہ فوجی اداروں کی اعلیٰ قیادت میں بھی اپنی مرضی سے ردّ و بدل کیا جائے گا۔ نئی حکومت آئے گی تو پھر سارے heads بدل جائیں گے اور اہم سیٹوں پر نئی تقرریاں ہوں گی، ماتحت بدل جائیں گے، سارے جاری منصوبے تعطل کا شکار ہو کر رہ جائیں گے۔ ہر پانچ سال کے بعد نیا پلان جاری ہوگا، جو کام تین چار سال کے دوران مکمل ہو رہا ہوتا ہے دوبارہ نئے سے شروع ہو جاتا ہے۔ یوں ہر تین چار سال کے بعد ملک zero پہ کھڑا ہوتا ہے۔ کولہو کے بیل کی طرح قوم وہیں کی وہیں کھڑی رہتی ہے۔ کیا اس قوم نے کبھی محاسبہ کیا کہ سیاسی حکومتوں کو کیا حق ہے کہ وہ اپنی مرضی سے قومی اداروں اور قومی منصوبوں کو تاخت و تاراج اور برباد کریں؟
مثلاً یہ پیپلزپارٹی کی حکومت ہے؛ ہر جگہ ان کے leader آجائیں گے، مسلم لیگ کے لگائے ہوئے سارے افراد برطرف ہو جائیں گے۔ نیچے تک نئی بھرتیاں ہو جائیں گی، پچھلے لوگ بر طرف اور نوکریاں بھی ختم۔ پولیس میں اور تھانوں میں تقرریاں اپنی مرضی سے ہوتی ہیں، اوپر آئی جی، سیکرٹری، ڈی سی او حتی کہ عدلیہ تک میں تقرریاں کرنے میں مداخلت کرتے ہیں۔ اس طرح ان تمام اداروں کی آزادانہ اور غیر جانب درانہ حیثیت ختم ہو چکی ہے۔ غرضیکہ عدلیہ ہو یا انتظامیہ ہر جگہ ہر سطح پر اپنے لوگوں کولائیں گے۔ پھر مسلم لیگ آجائے گی یا دوسری کوئی اور جماعت آجائے گی تو نئے سرے سے تمام قومی اداروں کے سارے سربراہ تبدیل ہو جائیں گے۔ ایسا تماشا مشرق سے مغرب تک ترقی اور جمہوریت کا نام لینے والے ملکوں میں کبھی نہیں ہوتا۔ وہاں قومی پالیسیاں برقرار رہتی ہیں۔ ان کے تاب ناک روشن مستقبل کے لیے سالانہ منصوبہ بندی ہوتی ہے۔ یہاں وہ بھی نہیں ہے۔ ہر سیاسی جماعت کے ہاں ایک پانچ سالہ منصوبہ بندی ہوتی ہے تاکہ الیکشن کے ذریعے جب وہ پانچ سال کے لیے اقتدار میں آئے تو پانچ سال میں یہ deliver کریں گے۔ لیکن یہاں نہ کوئی deliver کرنے والا ہے، نہ اس پر مؤاخذہ کرنے والا ہے اور نہ کوئی پوچھنے والا ہے۔ جب کبھی قوم کے اندر پوچھنے کا شعور بیدار ہوتا ہے تو اُن کی توجہ دوسری طرف مبذول کرنے کے لیے بم بلاسٹ کرا دیے جاتے ہیں۔ قتل و غارت گری کے دس پندرہ واقعات کرا دیے جاتے ہیں تاکہ میڈیا اور قوم کی ساری توجہ اس طرف لگ جائے۔ حقیقتاً ہمارا پورا نام نہاد جمہوری نظام ایک black mailing کا نظام ہے۔ یہ ایک گھناؤنا کھیل ہے جو سیاسی قیادت تسلسل کے ساتھ پاکستان کے سترہ کروڑ عوام کے ساتھ کھیلتی رہی ہے تاکہ اصل issues پر توجہ نہ رہے۔ اسی طرح جب وہ رو پیٹ کر گھروں سے باہر احتجاج کے لیے نکلتے ہیں تو تھوڑی دیر کے لیے اُن کو بجلی میں سہولت دے دی جاتی ہے تاکہ اُن کا غیض و غضب ٹھنڈا ہو اور وہ گھر چلے جائیں۔ چار پانچ دن کے بعد پھر وہی حالات اور وہی معاملات۔
Copyrights © 2024 Minhaj-ul-Quran International. All rights reserved